Iqbal Ka Tasawwar E Fuqr o Darweshi by Prof. Saheb Ali

Articles

اقبال کا تصورِ فقر و درویشی

پروفیسر صاحب علی

مولانا صلاح الدین احمد نے تحریر کیا ہے کہ ’’ اقبال کا فکر و فلسفہ تاریخی عوامل کی پیداوار ہے۔‘‘ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ان تاریخی عوامل کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟ مولانا صلاح الدین احمد نے تحریر کیا ہے کہ ’’ اقبال کا فکر و فلسفہ تاریخی عوامل کی پیداوار ہے۔‘‘ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ان تاریخی عوامل کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟ بادی النظر میں اقبال کے فکر پر بیک وقت مشرقی و مغربی مفکرین کے اثرات صاف محسوس کیے جاسکتے ہیں لیکن ذرا باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو اقبال کے فکر و فلسفہ کا بنیادی رویہ قرآن اور سنّتِ رسول ؐ کے اتباع اور بلادِ مشرق کے ممتاز دانشوروں جلال الدین رومی اور مجدد الف ثانی  ؒ وغیرہ کے افکار و خیالات سے استفادہ کا ہے۔ مثلاً اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ بادی النظر میں نطشے کے ’’سپر مین‘‘ کا تتبع محسوس ہوتا ہے لیکن اقبال کے’’ مردِ مومن‘‘ میں جو درمندی اور تنوع ہے وہ نطشے کے ’’سپر مین‘‘ میں نہیں۔ نطشے کا ’’سپر مین‘‘ اخلاقی خوبیوں کو کمزوری پر محمول کرتا ہے اور خیر و شر کو محض اضافی قدر گردانتا ہے جبکہ اقبال کے ’’مردِ مومن ‘‘ کی بنیاد ہی اخلاقیات پر ہے۔ اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ ،’لا‘ کے ساتھ ’الّا‘ کا بھی قائل ہے اور ایمان اور یقین کے اِس اعلیٰ ترین جوہر کو خلق کرنے میں اقبال نے مشرقی خصوصاً اسلامی فکر و فلسفہ سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نطشے کے ’’سپر مین‘‘  کے برخلاف اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ کی قوت کا سرچشمہ محض جسمانی قوت نہیں بلکہ انسان کی روحانی اور اخلاقی قوت ہے۔ اقبال نے ’’مردِ مومن کے لیے اپنی شاعری میں ’’شاہین‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے مثلاً
کیا میں نے اس خاک داں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خدمت خوش آئی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
یہ پورپ ، یہ پچھم ‘ چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
متعدد نظموں میں اقبال نے ’’شاہین‘‘ کو مختلف زاویے سے پیش کیا ہے گویا ’’شاہین‘‘ اقبال کا محبوب پرندہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ’’شاہین ‘‘ اقبال کے فکر و فلسفہ کا کلیدی استعارہ ہے۔ اقبال نے اپنے فکر و فلسفہ کی اکائی کے طور پر ’’شاہین‘‘ کو اس لیے استعارہ بنایا ہے کیونکہ ’’ اس کی غیرت ، خود داری ، تیز نگہی ، خلوت پسندی انھیں بے حد عزیز ہے۔ یہ بلند پرواز کی علامت ہے۔ جس کے پروں کے نیچے ساری دنیا ہے، آشیاں بندی جس کے لیے باعثِ ذلّت ہے۔ شاہین میں بحیثیت مجموعی تین خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں جو اقبال کے فسلفیانہ افکار پر محیط ہیں ۔ ’’عمل‘‘ ، ’’خودی‘‘ اور ’’فقر‘‘۔(اقبال کی شعری و فکری جہات۔ از : عبد الحق ۔ صفحہ ۲۳۳) علامہ اقبال کے کلام میں خودی کی بلندی ، عشق کی روحانی کیفیت اور حرکت و عمل کے ایک پہلو کا نام فقر بھی ہے۔ ظاہری نظر سے فقر افلاس کا نام ہے مگر اقبال کے یہاں فلسفیانہ اصطلاح میں یہ ترکِ نفس ہے، تیاگ ہے۔ دنیا کی احتیاج سے بلند ہونا ہے۔ جس میں فقر ہو اسے اقبال نے اصطلاحاً قلندر یا درویش بھی کہا ہے ۔ اسی قلندری اور درویشی میں ہی سکندری یعنی فاتح ہونے کا راز ہے۔
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم نہیں اسکندری سے
قلندر روحانیت کا مالک ، دنیا سے بے نیاز اور جبر کا فاتح ہے۔ اقبال کی نظر میں انسان کی بلندی کی معراج یہی قلندری ہے۔ جس میں قلندری ہو وہ قوموں کا قائد بن سکتا ہے اور اس کے ہاتھوں دوسروں کو غلامی سے نجات ملتی ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں جن ہستیوں کا ذکر ہے ان میں درویش سوڈانی یعنی مہدی سوڈانی بھی شامل ہے۔ جس نے برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کی اور شہادت پائی۔ ایسے تارک نفس درویشوں سے بڑے بڑے جابر ڈرتے ہیں کیونکہ ان کی بے غرضی قوموں میں آزادی کی روح پھونک دیتی ہے۔ مثنوی’’ اسرارِ خودی‘‘ میں ہے:
از شکوہ بوریا لرزد سریر
یعنی ایسے درویش کے بوریے سے عظمت کے تخت بھی لرزتے ہیں ۔ اسی طرح نظم ’’قلندر کی پہچان‘‘ میں قلندر کی عظمت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق تو بھی ادھر جا
ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ
بچتا ہوا بہ نگاہِ قلندر سے گزر جا
میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تُو تو اتر جا
توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا
ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا
اقبال کے تصورات شاعری میں ’’فقر‘‘ ایک بنیادی تصور ہے ۔ خصوصاً اقبال کے وہ تصورات جو فرد کے ارتقا اور انفرادی سیرت سے متعلق ہیں وہ اسی تصورِ ’’فقر‘‘ سے مملو ہیں ۔ اقبال کا مردِ مومن ہو ، مردِ درویش ہویا اس مردِ مومن کا احساسِ خودی ، یہ سب منصبِ فقر کے احساس کے ہم معنی ہیں۔ تصور ِ فقر کا جلوہ اقبال کے ابتدائی کلام میں بھی کسی نہ کسی طور ظاہر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ’’بانگِ درا‘‘ کی بعض نظموں میں اس تصور کا عکس کسی نہ کسی صورت جھلکتا نظر آتا ہے:
بندۂ مومن کا دل بیم دریا سے پاک ہے
قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
جیسے جیسے اقبال کا شعری سفر اپنی منزلیں طے کرتا جاتا ہے یہ تصور واضح اور روشن ہونے لگتا ہے۔ بلکہ ’’پیامِ مشرق‘‘ اور ’’جاوید نامہ‘‘ تک آتے آتے اقبال کے تصورِ فقر میں ایک نوع کی برّاقی اور تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔ مولانا صلاح الدین احمد تحریر کرتے ہیں ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فقر اس کے ہاتھ میں ایک تلوار کی مانند ہے جس سے وہ کائنات کو تسخیر کیا چاہتا ہے۔‘‘ (تصوراتِ اقبال ۔ صفحہ ۵۹)
علامہ اقبال کے نزدیک فقر کی دو قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جو بہادر کو بزدل بنادیتی ہے اور دوسری قسم شاہانہ تمکنت عطا کرتی ہے اور انسان مردِ کامل بنتا ہے ۔ مثلاً ’’بالِ جبریل‘‘ میں شامل نظم ’’فقر‘‘ ملاحظہ فرمائیں:
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبّیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ سلیمانی ، سرمایۂ شبّیری
اس نظم میں اقبال نے فقر کے دو رویوں کا موازنہ پیش کیا ہے۔ ایک وہ جو پست ہمتی کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا وہ رویہ ہے جس سے قلب انسانی پر اسرارِ جہانگیری منکشف ہوتے ہیں۔’’ یہاں تضاد، حیات کے اثبات اور اس کے انکار کے درمیان ہے۔ ’’اسرارِجہانگیری‘‘ سے مراد ہوس اور خواہشاتِ دنیاوی کے بھنور میں اپنے آپ کو ڈال دینے سے نہیں ہے بلکہ موجودات کے وجدانی ادراک سے ہے اور نخچیری سے مراد ترغیبات کے سامنے سپر اندازی نہیں ہے۔ اسی طرح خاصیتِ اکسیری سے غرض یہ ہے کہ صحیح اور صالح قسم کا فقر ، فرد کی کجروی اور بے بصری سے دور رکھ کر ہمیں اشیا کا عرفان بخشتا ہے ۔اسی طرح ایک لفظ ’’شبّیری ‘‘ میں دنیاوی لذات سے بے رغبتی ، کردار کی صلابت اور اس کے ساتھ نظر کی پختگی رضائے الہیٰ کے سامنے بہ تمام کمال سرنگوں ہونے کا جذبہ اور روحانی اہتزاز کا وہ تجربہ شامل ہے جس سے تصوف اور فقر عبارت ہیں۔(اقبال آئینہ خانے میں ۔ از : ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری۔ صفحہ نمر: ۵۰)
اقبال کا تصورِ ’’فقر و درویشی‘‘ در اصل رہبانیت یا مردم بیزاری نہیں بلکہ یہ دل و نظر کی عفّت و طہارت سے عبارت ہے۔ جس کے ذریعہ انسان جسمانی اور ارضی زندگی کی ترغیبات ترک کرکے انفس و آفاق پر غلبہ اور تفوق حاصل کرنے کی طرف رجوع ہو:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
اقبال نے اپنے تصورِ فقر میں ظاہری شان و شوکت اور جاہ و حشم کی در پردہ نفی کرکے نفسی اور روحانی طمانیت کو سراہا ہے۔ یہی روحانی طمانیت فقر کا حاصل اور اس کا اصل جوہر ہے وگرنہ گدائی اور فقر میں تمیز مشکل ہے:
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اقبال کے شاعرانہ افکار میں فقر کی اہمیت کو اس طرح بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے علم و فقر کو متضادات کے طور پر بھی سامنے لایا ہے:
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفّتِ قلب و نظر
علم فقیہہ و حکیم ، فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر ، علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب ، علم میں مستی گناہ
اقبال کو علم ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں لیکن ان کے نزدیک نفس و روح کی کائنات بھی کچھ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ علم اور فقر کے مابین کیفیاتی فرق کے ماسوا فقر کے مفہوم میں وقت کے ساتھ جو تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اقبال کا ذہن اس سے بھی غافل نہیں ہے۔دولتِ فقر کے کھوجانے کا غم اس کے لیے باعثِ اضطراب ہے۔ مثلاً یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دین و دولت قمار بازی
ناپید ہے بندۂ عمل مست
باقی ہے فقط نفس درازی
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقیری
جس فقر کی اصل ہے حجازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
اقبال کے نزدیک ’’فقر ‘‘ محض فکری آماجگاہ نہیں بلکہ یہ انسان کی عملی زندگی کا حصّہ ہے۔ اقبال نے ’’فقر ‘‘کو جمالِ الہیٰ کا ایک کرشمہ گردانا ہے۔ اس ضمن میں ’’فقر و ملوکیت‘‘ کے یہ اشعار توجہ طلب ہیں:
فقر جنگاہ میں بے ساز دیراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں بے قلبِ سلیم
اُس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصہّ فرعون و کلیم
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھاگئی روحِ فرنگی کو ہوائے زردسیم
نظم میں ’’بے سازدیراق‘‘ کہنے کے باوجود ‘ فقر ، مسکینی و محرومی نہیں بلکہ ایک انقلابی قوت ہے جو اشیائے عالم کی شیرازہ بندی کرنا چاہتی ہے۔ ’’ حق و باطل کی جنگ میں ’’فقر‘‘ حق کی قوت ہے اور اس کے مدِّ مقابل ملوکیت ایک طاغوتی قوت ہے۔ جسے یہ شکست دے کر زیر کرنا چاہتی ہے۔‘‘( اقبال آئینہ خانے میں ۔ از : ڈاکٹر اسلوب احمد انصاری۔ صفحہ نمر: ۵۰)’’ہوائے زرد سیم‘‘ کو جو قوت متوازن کرسکتی ہے وہ فقر کی قوت ہے اُس سے ایسے نفسی انقلاب اور اندرونی تغیر کی بنیادپڑتی ہے جس سے انسان کے اندازِ نظر کو مثبت انداز سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔٭٭٭

Pital Ka Ghantta A Short Story by Qazi Abdussattar

Articles

قاضی عبد الستار کا افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘

مسافروں نے لاری کو دھکا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے لیکن انجن گنگناتا تک نہیں۔ڈرائیور گردن ہلاتا ہوا اتر پڑا۔کنڈکٹر سڑک کے کنارے ایک درخت کی جڑ پر بیٹھ کر بیڑی سلگانے لگا۔مسافروں کی نظریں گالیاں دینے لگیں اور ہونٹ بڑبڑانے لگے میں بھی سڑک کے کنارے سوچتے ہوئے دوسرے پیڑ کی جڑ پر بیٹھ کر سگریٹ بنانے لگا۔ایک بار نگاہ اٹھی تو سامنے دو درختوں کی چوٹیوں پر مسجد کے مینار کھڑے تھے۔میں ابھی سگریٹ سلگا ہی رہا تھا کہ ایک مضبوط کھردرے دیہاتی ہاتھ نے میری چٹکیوں سے آدھی جلی ہوئی تیلی نکال لی۔میں اس کی بے تکلفی پر ناگواری کے ساتھ چونک پڑا۔مگر وہ اطمینان سے اپنی بیڑی جلا رہا تھا وہ میرے پاس ہی بیٹھ کر بیڑی پینے لگا یا بیڑی کھانے لگا۔
’’یہ کون گاؤں ہے؟‘‘میں نے مینار کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’یو _______ یوبھسول ہے۔‘‘
بھسول کا نام سنتے ہی مجھے اپنی شادی یاد آ گئی ۔میں اندر سلام کرنے جا رہا تھا کہ ایک بزرگ نے ٹوک کر روک دیا۔وہ کلاسکی کاٹ کی بانات کی اچکن اور پورے پائچے کا پاجامہ اور فرکی ٹوپی پہنے میرے سامنے کھڑے تھے۔میں نے سر اٹھا کر ان کی سفید پوری مونچھیں اور حکومت سے سینچی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔انہوں نے سامنے کھڑے ہوئے خدمت گاروں کے ہاتھوں سے پھولوں کی بدھیا لے لیں اور مجھے پہنانے لگے۔میں نے بل کھا کر اپنی بنارسی زری پوت کی جھلملاتی ہوئی شیروانی کی طرف اشارہ کر کے تلخی سے کہا۔’’کیا یہ کافی نہیں تھی؟‘‘_____وہ میری بات پی گئے۔بدھیا برابر کیں۔پھرمیرے ننگے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا’’_____اب تشریف لے جایئے۔میں نے ڈیوڑھی پر کسی سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے۔بتایا گیا کہ یہ بھسول کے قاضی انعام حسین ہیں۔
بھسول کے قاضی انعام حسین ،جن کی حکومت اور دولت کے افسانے میں اپنے گھرمیں سن چکا تھا۔میرے بزرگوں سے ان کے جو مراسم تھے مجھے معلوم تھے۔میں اپنی گستاخ نگاہوں پر شرمندہ تھا۔میں نے اندر سے آکر کئی بار موقع ڈھونڈھ کر ان کی چھوٹی موٹی خدمتیں انجام دیں۔جب میں چلنے لگا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دی،مجھے بھسول آنے کی دعوت دیاور کہا کہ اس رشتے سے پہلے بھی تم میرے بہت کچھ تھے لیکن اب تو داماد ہو گئے ہو۔اس قسم کے رسمی جملے سبھی کہتے ہیں لیکن اس وقت ان کے لہجے میں خلوص کی ایسی گرمی تھی کہ کسی نے یہ جملے میرے دل پر لکھ دیے۔
میں تھوڑی دیر کھڑا بگڑی ’’بس‘‘کو دیکھتے رہا ۔پھر اپنا بیگ جھلاتا ہوا جتے ہوئے کھیتوں میں اٹھلاتی ہوئی پگڈنڈی پر چلنے لگا۔سامنے وہ شاندار مسجد کھڑی تھی ،جسے قاضی انعام حسین نے اپنی جوانی میں بنوایا تھا۔مسجد کے سامنے میدان کے دونوں طرف ٹوٹے پھوٹے مکان کا سلسلہ تھا،جن میں شاید کبھی بھسول کے جانور رہتے ہونگے،ڈیوڑھی کے بالکل سامنے دو اونچے آم کے درخت ٹرانک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ان کے تنے جل گئے تھے۔جگہ جگہ مٹی بھری تھی۔ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کے بجائے عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔دن کے تین بجے تھے۔وہاں اس وقت نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد کہ ڈیوڑھی سے قاضی صاحب نکلے۔لمبے قد کے جھکے ہوئے،ڈوریے کی قمیض،میلا پائجامہ اور موٹر ٹائر کے تلوؤں کا پرانا پمپ پہنے ہوئے،ماتھے پر ہتھیلی کا چھجہ بنائے مجھے گھور رہے تھے میں نے سلام کیا ۔جواب دینے کے بجائے وہ میرے قریب آئے اور جیسے ایک دم کھل گئے ۔میرے ہاتھ سے میرا بیگ چھین لیا اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ڈیوڑھی میں گھس گئے۔
ہم اس چکر دار ڈیوڑھی سے گزر رہے تھے جس کی اندھیری چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی تھی ۔دھنیوں کو گھنے ہوئے بد صورت شہتیر رو کے ہوئے تھے ۔
وہ ڈیوڑھی سے چلائے ۔’’ارے سنتی ہو______’’دیکھ تو کون آیا ہے ۔میں نے کہا اگر صندوق وندوق کھولی بیٹھی ہو تو بند کر لوجلدی سے۔‘‘لیکن دادی تو سامنے ہی کھڑی تھیں ،دھلے ہوئے گھڑوں گھڑونچی کے پاس دادا ان کو دیکھ کر سٹپٹا گئے ۔وہ بھی شرمندہ کھڑی تھیں پھر انہوں نے لپک کر الگنی پر پڑی مارکین کی دھلی چادر گھسیٹ لی اور ڈوپٹہ کی طرح اوڑھ لی۔چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کر دیا کہ کرتے کے دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔
اس اہتمام کے بعد وہ میرے پاس آئیں ۔کانپتے ہاتھوں سے بلائیں لیں ۔سکھ اور دکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیں دیں دادی کانون سے میری بات سن رہی تھیں لیکن ہاتھوں سے جن کی جھریاں بھری کھال جھول گئی گئی تھی دالان کے اکلوتے ثابت پلنگ کو صاف کر رہیں تھیں ۔جس پر میلے کپڑے ،کتھے چونے کی کلیاں اور پان کی ڈلیاں ڈھیر تھیں اور آنکھوں سے کچھ اور سوچ رہی تھیں ۔مجھے پلنگ پر بٹھا کر دوسرے جھولا جیسی پلنگ کے نیچے سے وہ پنکھا اٹھا لائیں جس کے چاروں طرف کالے کپڑوں کی گوٹ لگی تھی اور کھڑی ہوئی میرے اس وقت تک جھلتی رہیں جب تک میں نے چھین نہ لیا۔پھر وہ باورچی خانے میں چلی گئیں ۔وہ ایک تین دروں کا دالان تھا ۔بیچ میں مٹی کا چولہا بنا تھا ۔المونیم کی چند میلی پتیلیاں کچھ پیپے اور کچھ ڈبے کچھ شیشے بوتل اور دو چار اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔وہ میری طرف پیٹھ کئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں ۔دادا نے کونے میں کھڑے ہوئے پرانے حقہ سے بے رنگ چلم اتاری اور باورچی خانہ میں گھس گئے ۔میں ان دونوں کی گھن گھن شرگوشیاں سنتا رہا۔ دادا کئی بار جلدی جلدی باہر گئے اور آئے ۔میں نے اپنی شیروانی اتاری ۔ادھر ادھر دیکھ کر چھ دروزوں والے کمروں کے کواڑ پر پر ٹانگ دی۔نقشیں کواڑ کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ ایک جگہ لوہے کی پتی لگی تھی لیکن بیچوں بیچ گول دائرے میں ہاتھی دانت کا کام ،کتھے اور تیل کے دھبوں میں جگمگا رہا تھا۔بیگ کھول کر میں نے چپل نکالے اور اور جب تک میں دوڑوں دادا گھڑونچی سے گھڑا اٹھا کر اس لمبے کمرے میں رکھ آئے جس میں ایک بھی کیواڑ نہ تھا ۔صرف گھیرے لگے کھڑے تھے۔جب میں نہانے گیا تو دادا المونیم کا لوٹا میرے ہاتھوں میں پکڑا کر مجرم کی طرح بولے۔’’تم بیٹے اطمینان سے نہاؤ۔ادھر کوئی نہیں آئے گا۔پردے تو میں ڈال دوں لیکن اندھیرا ہوتے ہی چمگادڑ گھس آئے گی اور تم کو دق کرے گی۔
میں گھڑے کو ایک کونے میں اٹھا لے گیا۔وہاں دیوار سے لگا ،اچھی خاصی سینی کے برابر پیتل کا گھنٹہ کھڑا تھا۔میں نے جھک کر دیکھا ۔گھنٹے میں مونگریوں کی مار سے داغ پڑ گئے تھے۔دو انگل کا حاشیہ چھوڑ کر جو سووراخ تھا اس میں سوت کی کالی رسی بندھی تھی۔اس سوراخ کے برابر ایک بڑا سا چاند تھا اس کے اوپر سات پہل کا ستارہ تھا۔میں نے تولیہ کے کونے سے جھاڑ کر دیکھا تو وہ چاند تارا بھسول اسٹیٹ کا مونو گرام تھا۔عربی رسم الخط میں ’’قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ‘‘کھدا ہوا تھا۔یہی وہ گھنٹہ تھاجو بھسول کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پرتقریباً ایک صدی سے بجتا چلا آ رہا تھا۔میں نے اسے روشنی میں دیکھنے کے لئے اٹھا نا چاہالیکن ایک ہاتھ سے نہ اٹھ سکا۔دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر دیکھتا رہا۔میں دیر تک نہاتا رہا ۔جب باہر نکلا تو آنگن میں قاضی انعام حسین پلنگ بچھا رہے تھے۔قاضی انعام حسین جن کی گدی نشینی ہوئی تھی۔جن کے لئے بندوقوں کا لائسنس لینا ضروری نہیں تھا۔جنہیں ہر عدالت طلب نہیں کر سکتی تھی ۔دونوں ہاتھوں پر خدمت گاروں کی طرح طباق اٹھائے ہوئے آئے۔جس میں الگ الگ رنگوں کی دو پیالیاں ’’لب سوز‘‘چائے سے لبریز رکھی تھیں ایک بڑی سی پلیٹ میں دو ابلے ہوئے انڈے کاٹ کر پھیلا دئے گئے تھے ۔شروع اکتوبر کی خوشگوار ہواکے جھونکوں میں ہم لوگ بیٹھے نمک پڑی ہوئی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ دروازے پر کسی بوڑھی نے ہانک لگائی۔
’’مالک‘‘
’’کون‘‘
’’مہتر ہے آپ کا _______ صاحب جی کا بلابے آئے ہے۔‘‘
دادا نے گھبرا کر احتیاط سے اپنی پیالی طباق میں رکھ دی اور جوتے پہنتے ہوئے باہر چلے گئے ۔اپنے بھلے دنوں میں اس طرح شاید وہ کمشنر کے آنے کی خبر سن کر بھی نہ نکلے ہونگے ۔
میں ایک لمبی ٹہل لگا کر جب واپس آیا تو ڈیوڑھی میں مٹی کے تیل کی ڈبیا جل رہی تھی ۔دادا باورچی خانے میں بیٹھے چولھے کی روشنی میں لالٹین کی چمنی جوڑ رہے تھے میں ڈیوڑھی سے ڈبیااٹھا لایا اور اصرار کرکے ان سے چمنی لے کر جوڑنے لگا ۔
ہاتھ بھر لمبی لالٹین کی تیز گلابی روشنی میں ہم لوگ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔دادا میرے بزرگوں سے اپنے تعلقات بتاتے رہے۔اپنی جوانی کے قصے سناتے رہے۔کوئی آدھی رات کے قریب دادای نے زمین پر چٹائی بچھائی اور دستر خوان لگایا۔بہت سی ان میل بے جوڑ اصلی چینی کی پلیٹوں میں بہت سی قسموں کا کھانا چنا تھا ۔شاید میں نے آج تک اتنا نفیس کھانا نہیں کھا یا۔صبح میں دیر سے اٹھا۔ یہاں سے وہاں تک پلنگ پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ دادی نے رات بھر ناشتہ پکایا ہے۔_____جب میں اپنا جوتا پہننے لگا تو رات کی طرح اس وقت بھی دادای نے مجھے آنسو بھری آواز سے روکا ۔مین معافی مانگتا رہا دادی خاموش کھڑی رہیں ۔جب میں شیروانی پہن چکا دروازے پر یکہ آگیا ،تب دادی نے کانپتے ہاتھوں سے میرے بازو پر امام ضامن باندھا،ان کے چہرے پر چونا پتا ہوا تھا۔آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی تھیں ۔انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا’’یہ اکاون روپے تمہاری مٹھائی کے ہیں اور دس کرائے کے۔‘‘
’’ارے ______ارے دادی ______آپ کیا کر رہی ہیں !‘‘اپنی جیب میں جاتے ہوئے روپیوں کو میں نے پکڑ لیے۔
چپ رہو تم _________تمہاری دادی سے اچھے تو ایسے ویسے لوگ ہیں جو جس کا حق ہوتا ہے وہ دے تو دیتے ہیں _غضب خدا کا تم زندگی میں پہلی بار میرے گھر آؤ میں تم کو جوڑے کے نام پر ایک چٹ بھی نہ دے سکوں _______ میں ________بھیا _______تیری دادی تو بھکارن ہو گئی۔
معلوم نہیں کہاں کہاں کا زخم کھل گیا ۔وہ دھاروں دھاروں رو رہی تھیں ۔دادا میری طرف پشت کئے کھڑے تھے اور جلدی جلدی حقہ پی رہے تھے ۔مجھے رخصت کرنے دادی ڈیوڑھی تک آئیں لیکن منھ سے کچھ نہ بولیں ۔میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اور گردن ہلا کر رخصت کر دیا۔
دادا قاضی انعام حسین تعلقدار بھسول تھوڑی دیر تک یکہ کے ساتھ چلتے رہے لیکن نہ مجھ سے آنکھ ملائی نہ مجھ سے خدا حافظ کہا ایک بار نگاہ اٹھا کر دیکھا اور میرے سلام کے جواب میں گردن ہلا دی۔
سدھولی جہاں سے سیتا پور کے لئے مجھے بس ملتی ابھی دور تھا۔میں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے یکہ کو سڑک پر کھڑی ہوئی سواری نے روک لیا۔جب میں ہوش میںآیا تو میرا یکہ والا ہاتھ جوڑے مجھ سے کہہ رہا تھا _______میاں ______الی شاہ بھسول کے ساہوکار ہیں ان کے یکہ کا بم ٹوٹ گیا ہے،آپ برا نہ مانو تو الی شاہ بیٹھ جائیں ۔
میری اجازت پا کر اس نے شاہ جی کو آواز دی ۔شاہ جی ریشمی کرتا اور مہین دھوتی پہنے آئے اور میرے برابر بیٹھ گئے اور یکہ والے نے میرے اور ان کے سامنے ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر رکھ دیا۔گھنٹے کے پیٹ میں مونگری کی چوٹ کا داغ بنا تھا۔دو انگل کے حاشئے پر سوراخ میں سوت کی رسی پڑی تھی۔اس کے سامنے قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ کا چاند اور ستارے کا مونو گرام بنا ہوا تھا ۔میں اسے دیکھ رہا تھا اور شاہ جی مجھے دیکھ رہے تھے اور یکے والا ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔یکے والے سے رہا نہ گیا ۔اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’کا شاہ جی گھنٹہ بھی خرید لایو؟‘‘
’’ہاں کل شام معلوم نائی کاوقت پڑا ہے میاں پر کہ گھنٹہ دے دین بلائے کے ای ‘‘
ہاں وقت وقت کی بات ہے ________ شاہ جی ناہیں تو ای گھنٹہ_______
’’اے گھوڑے کی دم راستہ دیکھ کے چل ‘‘ ________یہ کہ کر اس نے چابک جھاڑا۔
میں ________میاں کا برا وقت ________چوروں کی طرح بیٹھا ہوا تھا ________
مجھے معلوم ہوا کہ یہ چابک گھوڑے کے نہیں میری پیٹھ پر پڑا ہے۔
=============================================
قاضی عبد الستار کے سوانحی کوائف
اردو فکشن کے اہم ستون پروفیسر قاضی عبدالستار  ۹؍فروی  ۱۹۳۲ کو لکھنؤ سے متصل ضلع سیتاپور کے ایک گائوں مچھر یٹہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قاضی عبدالعلی عرف بڑے بھیا اور والدہ کا نام عالمہ خاتون تھا۔ انھوں نے جب آنکھیں کھولیں تو تعلقداری اور زمینداری کا طمطراق پورے شباب پر تھا۔ ایسے ماحول میں ان کی پرورش ناز و نعم سے ہوئی ان کی تعلیم و تربیت ان کے ماموں قاضی جمیل الدین ایڈوکیٹ اور چچا محمود علی رئیس مچھر یٹہ کے زیر سایہ ہوئی۔ بچپن سے ہی ان کی ذہانت اور فطانت  کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے  ۱۹۴۸ میں ہائی اسکول اور ۱۹۵۰ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات آر۔جی۔ڈی کالج سیتا پور سے پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آبائی وطن کو خیر باد کیا اور لکھنو ٔپہنچے۔ وہاں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور  ۱۹۵۲ میں بی اے (آنرز) اوّل درجہ میں پاس کیے۔انھوں نے اسی یونیورسٹی سے  ۱۹۵۴ میں ایم۔اے (اردو) فرسٹ ڈویثرن اور فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا۔ اس بنا پر وہ شنکر دیال شاد گولڈ میڈل کے مستحق ہوئے۔ اس وقت لکھنؤ یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ پروفیسر احتشام حسین پروفیسر آل سرور اور پروفیسر محمدحسن جیسی اردو ادب کی نامی گرامی ہستیاں تھیں۔ قاضی صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ۱۹۵۷ میں’’ اردو شاعری میں قنوطیت‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالہ کے نگراں اردو کے معتبر ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنے سے پیشتر ہی وہ ۱۹۵۶میں عارضی طور پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو سے بہ حیثیت لیکچرر منسلک ہو گئے اور وہ  ۱۹۶۱میں پرما ننٹ ہوئے۔ اسی شعبہ میں وہ ۱۹۶۷ میں ریڈر اور  ۱۹۸۱ میں پروفیسر ہوئے۔ ۱۹۸۸ میں وہ صدر شعبۂ اردو کے پر وقار عہدے پر فائز ہوئے۔ ۳۷؍سال تک شعبئہ ا ردو کی قابل قدر خدمات انجام دے کر وہ ۱۴؍جولائی  ۱۹۹۳ کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ درس و تدریس کے دوران انھوں نے اپنی معیاری تحریروں اور بصیرت افروز تقریروں سے جو شہرت حاصل کی وہ بہت کم اساتذہ کو نصیب ہوتاہے۔  افسانوی ادب میں قاضی صاحب کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔                                                                                       قاضی عبدالستار  نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز اسی وقت سے کردیا تھا جب کہ وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے  ۔انھوں نے ۱۹۴۶میں اپنا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘ لکھا جو لکھنو ٔسے شائع ہونے والے جریدے ’’جواب‘‘ میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی ۔ یہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ رسالہ ’’مضراب‘‘ میں بھی چھپی۔ اس وقت وہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ صہباؔ  ان کا تخلص تھا۔ وہ بابو گر چرن لال شیداؔ نبی نگری سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کا کلام  ۱۹۵۷ تک ہندو پاک کے رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔  ۱۹۵۴کا زمانہ ان کی زندگی کا اہم موڑ ہے۔ اسی سال انھوں نے ایم۔ اے۔( اردو) امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ان کا پہلا ناول ’’شکست کی آواز‘‘ منظر عام پر آیا اور اسی سال ان کی ایک نظم ’’گومتی کی آواز‘‘ رسالہ شاہراہ میں شائع ہوئی۔ وہ قاضی صاحب کا تشکیلی دور تھا۔ اس وقت وہ اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ آیا وہ شاعری کے میدان میں آگے بڑھیں یا فکشن میں  لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے شاعری کو ترک کیا اور نثر کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اسی راستے پرآگے بڑھتے گئے۔ وہ تنقیدو تحقیق کی طرف بھی راغب ہوئے ۔تحقیقی مقالہ کے علاوہ انھوں نے ’’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘‘ کے موضوع پر معرکتہ الآرا تنقیدی مقالہ لکھا اس کے بعد ان کا تخلیقی سفر برق رفتاری سے آگے بڑھتا گیا ۔ناول نگاری کے میدان کو انھوں نے اپنے لیے مختص کیا اسی میدان میں انھوں نے اپنے قلم کا جوہر دکھایا اور ان کے ایک کے بعدایک ناول تواتر سے منظر عام پر آنے لگے۔ ’’شب گزیدہ، مجو بھیاّ، صلاح الدین ایوبی، بادل، غبار شب، دار شکوہ، غالب، حضرت جان، خالد بن ولید، تاجم سلطان اور تاج پور جیسے ناول لکھ کر انھوں نے تاریخی ناول نویسی میں بھی بلند مقام حاصل کیا۔ اس میدان میں ان کی بڑی قدر افزائی ہوئی۔ ناول کی بہ نسبت انھوں نے افسانے کم لکھے لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے۔ وہ معیاری اور ادبی شاہکار ہیں۔ ان کی مقبولیت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ان کے ادبی کارنامے کا اعتراف ارباب ادب نے کیا ہے اور انھیں قومی اور عالمی سطح پر پدم شری، غالب ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ،عالمی اردو ایوارڈ، یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ، اقبال سمان جیسے اعزازات سے نوازاگیا ہے۔
======================================
افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ : تشریح و تجزیہافسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ : تشریح و تجزیہ
قاضی عبدالستار ایک مشہور اور مقبول افسانہ نگار ہیں وہ اپنے منفرد موضوع اور سحر آفریں اسلوب سے اردو افسانہ نگاری کو توانا اور تونگر بنا رہے ہیں۔ اردو کے ممتاز نا قد شمس الرحمن فاروقی نےان کے فکر و فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:                                                                        ’’قاضی عبدالستار  Paradoxes کے بادشاہ ہیں ان کا فن  ایڈ گرایلن پو کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے قلم میں گذشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیر قوت ہے۔ ان کی سب سے بڑی قوت حاضراتی صلاحیت ہے جو دو جملوں میں کسی مکمل صورت حال کو زندہ کر دیتی ہے۔ ایڈگرایلن پو  کی طرح اس سے انتہائی مختلف سیاق و سباق میں وہ نفسیات کو اجاگر کرنے کے بادشاہ ہیں‘‘۔        قاضی عبدالستارنے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے اس وقت کیا جب وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘لکھا جو معروف رسالے میں شائع ہوا۔ اس سے انھیں بحیثیت افسانہ نگار بڑی شہرت ملی لیکن اس کے بعد انھوں نے کافی عرصے تک کوئی افسانہ نہیں لکھا اس اثنا میں انھوں نے کئی یاد گار ناول لکھے، برسوں بعد انھوں نے۱۹۶۴میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ افسانہ لکھا  جسے ادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی یاد گار افسانے تخلیق کئے اور اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کے علاوہ مالکن رضو باجی، ٹھاکر وارہ، گرم لہو میں غلطاں اور مجریٰ جیسے اہم افسانے شامل ہیں۔ قاضی صاحب کے عزیز شاگرد پروفیسر محمد غیاث الدین نے ۲۸؍ منتخب افسانوں کا مجموعہ ’’آئینہ ایام‘‘  ۱۹۹۵میں شائع کیا ہے۔ جس کی بڑی پذیرائی ہوئی ہے۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کہانی کا تعلق قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ سے ہے۔ آزادی سے پہلے بھسول اسٹیٹ کی جاہ وحشمت اور شان و شوکت قرب و جوار میں مشہور تھی اس اسٹیٹ کے مالکوں کی گدی نشینی ہوتی تھی۔ جن کی عالیشان حویلی تھی، باغات تھے، ہاتھی گھوڑے تھے سپاہی اور نوکر چاکر تھے۔ انھوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ ان کی زمینداری کئی گائوں میں تھی ان کے یہاں کچہری لگتی تھی اور وہ خود مقدمہ کا فیصلہ کرتے تھے۔ ارباب اِقتدار میں ان کی بڑی عزت تھی لیکن آزادی کے بعد خاتمہ زمینداری اور تعلقداری کا اعلان ہوا تو دھیرے دھیرے ان کی خوشحالی بد حالی میں تبدیل ہوتی گئی۔ عالیشان عمارت کھنڈر میں تبدیل ہوگئی۔ جہاں اہل کاروں اور رشتہ داروں کا ہجوم رہتا تھا اب وہاں آدم نہ آدم زاد فقط دو نفر بوڑھے قاضی انعام حسین اور ان کی بوڑھی بیوی کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں ایک زمانہ تھا جب کہ عزیز و اقارب کی خاطر داری بڑے اہتمام سے ہوتی تھی۔ اَن گنت نوکر چاکر، غریب، یتیم، مسکین دولت خانہ سے پرورش پاتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مقرب مہمانوں کی میز بانی گراں گزرتی ہے آمدنی اس قدر قلیل ہے کہ میز بانی کے اہتمام میں گھر کے اثاثے بیچنے پڑتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ برسوں بعد جب ان کا داماد ان کے گھر آتا ہے تو اس کی آئو بھگت میں ان کا پیتل کا وہ گھنٹہ بک جاتا ہے جو ان کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پر تقریباََ ایک صدی سے بجتا چلا آرہا تھا۔ یہ المیہ اس کہانی کا مرکزی خیال ہے یہ رودادمفلسی فقط انعام حسین کی نہیں ہے بلکہ خاتمہ زمینداری کے بعد اس کہانی میںاودھ کے سارے جاگیردار اور تعلقدار نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کو قاضی عبدالستار نے اپنے زور ِقلم سے افسانہ بنا دیا ہے جو منشی پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کی طرح لازوال ہوگیا۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ مشکل سے چھ صفحات پر مشتمل ایک مختصر سی مگر موثر کہانی ہے۔ اس کہانی کا موضوع آزادی کے بعد زمینداروں اور تعلقداروں کی معاشی اور سماجی بحران ہے۔ جسے فنکار نے بڑی ہنر مندی سے ایک کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اس کہانی میں اس قدر پختگی اور گہرائی ہے کہ ہر لفظ علامت اور ہر جملہ ایک کہانی ہے۔ غرض یہ کہ اس کی کہانی مشاعرانہ لوازمات اور وسائل پوری طرح جلوہ گر ہیں۔ اس طرح کی کہانی وہی فنکار لکھ سکتا ہے جس کا مطالعہ اور مشاہدہ عمیق ہو، زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہو اور افسانہ کے فن و تکنیک سے کماحقہ واقف ہو۔         قاضی صاحب اپنے افسانوں کا تانا بانا آس پاس کے ماحول اور اپنی ذاتی زندگی سے بنتے ہیں جس میں حقیقت نگاری کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں تجربات اور مشاہدات کا رنگ بڑی چابکدستی سے بھرتے ہیں اور اپنی دلکش زبان سے اسے پر لطف بنا دیتے ہیں۔ خاتمہء زمینداری کے بعد طرز معاشرت میںبڑی تبدیلی آئی زمیندا راور تعلقدار زبوں حالی کا شکار ہوئے اس کی زد میں قاضی صاحب بھی آئے۔ اس سماجی اور معاشی تبدیلی کو انھوںبڑی دیانت داری کے ساتھ اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ پہلی جنگ آزادی کے پس منظر میں انھوں نے ’’نیا قانون‘‘ کہانی تحریر کی ہے اس میں انھوں نے اودھ کی سیاست میں انگریزوں کی مداخلت سے جو تبدیلی ہوئی ہے اسے ایک مورخ کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس افسانے میںایک محب وطن فنکار کا دل دھڑکتا ہے۔  قاضی صاحب سے پہلے منشی پریم چند نے دیہی زندگی کو اپنے افسانوں کا خاص موضوع بنایا ہے۔ جس میں زمینداروں کو ظالم اور جابر بتایا ہے ۔قاضی صاحب نے بھی گائوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے مگر ان کے یہاں گائوں کی کیفیت پریم چند کے گائوں سے مختلف ہے۔ زمانہ کافی تبدیل ہوچکا ہے آزادی کے بعداب زمیندار قابلِ رحم ہے ۔اس کی عزت دائوپر ہے پھر بھی اپنی رواداری اور وضع داری کو نبھارہا ہے ۔ بھلے ہی وہ اثاثہ اور جائیداد سے محروم ہورہا ہے انھیں کی دولت سے ایک دوسرا طبقہ سرمایہ دار بن رہا ہے اور سیاست میں حصہ لے رہا ہے۔ پنچایت اور گائوں کی پردھانی اس کے ہاتھ میں ہے جو نئی نئی سازشوں کا مرتکب ہے۔ عدالت کا بھی کام اطمینان بخش نہیں ہے کمزور انصاف سے دور اور طاقتور غاصب ہے۔ رگھو چمارکا استغاثہ مہتو کی طاقت کے سامنے خارج ہوجاتا ہے۔ قاضی صاحب کے افسانے موجودہ دیہی سیاست کا آئینہ ہیں۔ ہندی کے مشہور ادیب بابا ناگاا رجن نے سچ کہا ہے:  ’’قاضی عبدالستار اردو کے دوسرے پریم چند ہیں‘‘ جس طرح سے قاضی صاحب کے موضوعات متنوّع ہیں اسی طرح سے ان کی کردار نگاری بھی ہے ۔ وہ مو ضوعات کے اعتبارسے کردار تخلیق کرتے ہیںان کے افسانوں میں ہر طرح کے کردار مل جائیں گے۔ اعلیٰ طبقے سے متعلق بادشاہ شہزادی کنیز، تعلقدار، زمیندار کے ساتھ پس ماندہ طبقے کے کردار بندھوا مزدور میکو اور گھیسو چمار بھی ہیںغرض کہ ان کے افسانے تنگ داماتی کا شکار نہیں ہیں۔ ان کے زیادہ تر کردار اودھ کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس افسانہ میں ایک تعلقدار کی زبوں حالی کو تشبیہاتی اور استعاراتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، مثلاََ عمارتوں کاملبہ، چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی، دھنیوں کے گھنے ہوئے بدصورت شہیتر اسی طرح ملبوسات اور گھر کے اثاثے کی حالت ہے۔ قاضی صاحب کی ڈوری کی قمیض میلا پائجامہ، بیوی کے دامن میں لگے ہوئے پیوند جسے چادر سے چھپانے کی نا کام کوشش اکلوتا پلنگ جس پر میلے کپڑے۔ المونیم کی چند میلی پتیلیاں پرانہ حقہ، بے رنگ چلم الگ الگ رنگوں کی دو چائے کی پیالیاں، لالٹین کی ٹوٹی ہوئی چمنی، یہ سب اشیاء زبانِ حال سے مفلسی کا اعلان کرتی ہیں۔ اتحاد، اختصار ربط و آہنگ اور عصری آگہی ایک اچھے افسانہ کے محاسن ہیں۔ مختصر افسانہ کے ان اوصاف کے آئینہ میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ ایک مکمل اور موثر افسانہ ہے۔ یہ بیانیہ افسانہ واحد متکلم کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ حسب ضرورت مکالمے کے استعمال سے افسانے میں جان پیدا ہوگئی ہے۔ زبان سلیس اور عام فہم ہے اودھی بولی کے برمحل استعمال سے افسانہ دلکش ہوگیا ہے۔اس افسانہ میں الفاظ اور جملے اس قدر مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ ان میں ایک لفظ نہ تو نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ادھر ادھر کیا جا سکتا ہے غرض یہ کہ زبان و بیان اور فن و تکنیک ہر اعتبار سے یہ افسانہ معیاری اور پر وقار ہے۔
=======================================

Bhusawal mein shaeri Nashist

Articles

*بھساول میں 'پرورش لوح و قلم' کے عنوان سے شاندار طرحی نشست کا کامیاب انعقاد

وسیم عقیل شاہ

*روایت سے انحراف کر کے معیاری شاعری کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی : احمد

بھساول 27 اکتوبر : عنیق فاؤنڈیشن بھساول اور خاندیش اردو رائٹرز فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ضلعی سطح پر ایک طرحی نشست کا انعقاد 27 اکتوبر کو بھساول کے عکاشہ فرنیچرز میں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ کیا گیا ـ حافظ مشتاق ساحل نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کیا تو رئیس فیضپوری نے نعت رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محفل کو پر نور کر دیا ـ سلیم خان فیضپوری نے تحریک صدارت پیش کی اور تالیوں کی گونج میں احمد کلیم فیضپوری کی صدارت کی تائید کی گئی ـ خاندیش اردو رائٹرز فاؤنڈیشن کے روح رواں صغیر احمد نے اس تقریب کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ ہذا کی جانب سے یہ چوتھا ادبی جلسہ ہے جو حسب معمول علاقہ خاندیش میں اردو زبان و ادب کی اشاعت و ترویج کے مقاصد لیے ہوئے ہے ـ صغیر احمد کے مطابق ادارہ “خاندیش اردو رائٹرز فاؤنڈیشن” کا دائرہ کار پورے خاندیش پر محیط ہے لہٰذا ادارے کی جانب سے صرف جلگاؤں، بھساول ہی نہیں بلکہ خاندیش کے مختلف علاقوں میں بھی ادبی سرگرمیاں منعقد کی جاتی رہیں گی ـ بعد ازاں اس طرحی مصرع پر کہ *’رگوں میں خون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے ‘* رئیس فیضپوری ،شکیل حسرت، ساحر نصرت، ساعد جیلانی، حفیظ مینا نگری، رحیم رضا، ڈاکٹر قاضی رفیق راہی، شکیل انجم مینا نگری، اخلاق نظامی، وقار صدیقی، حافظ مشتاق ساحل، اقبال اثر، رفیق پٹوے اور اشراق راویری جیسے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ـ بطور مبصر ڈاکٹر غیاث عثمانی، قیوم اثر اور شکیل میواتی نے خاندیش کے موجودہ شعری منظر نامے پر گفتگو کی اور پیش کیے گئے شعراء کے کلام کے معنی و ابعاد کی نئی پرتیں سامعین کے سامنے رکھیں ـ فنی اعتبار سے بھی تینوں ہی مبصرین نے اپنے خیالات کا اظہار نہایت ہی جامع اور پر تاثر انداز میں کیا ـ اپنے خطبہ صدارت میں احمد کلیم فیضپوری نے ادبی نشستوں کے متواتر انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور ایسی محفلوں کو وقت کی اشد ضرورت بتاتے ہوئے اس نشست کو یادگار نشست قرار دیا ـ علاوہ ازیں موصوف نے شاعری میں روایت کی اہمیت پر خاص زور دیا ـ آپ نے مزید کہا کہ بلا شبہ خاندیش نے اردو کو بہت اچھے شاعر دیے ہیں جن کے چند اشعار آج بھی زبان زد ہیں ـ اسی حوالے سے آپ نے خاندیش کے سابقہ نمائندہ شاعر ایمان بیاولی، قمر بھساولی، سیف بھساولی اور مرزا مصطفی آبادی کو خصوصیت سے یاد کیا ـ اس تقریب میں عبدالرشید قاسمی،مشتاق کریمی، حنیف خان اسماعیل عرف ملو سیٹھ، حاجی انصار اور ندیم مرزا کے علاوہ ضلع بھر سے ادب دوست سامعین نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ رسم شکریہ عنیق فاؤنڈیشن کے صدر شکیل حسرت نے جبکہ نظامت کے فرائض مشہور ناظم مشاعرہ ہارون عثمانی نے بحسن و خوبی انجام دیے ـوے)

4 Novels of Krishan Chandar

Articles

کرشن چند کے چار ناول ۔۔شکست، غدار، اس کا بدن میرا چمن ، محبت بھی قیامت بھی

کرشن چندر

Nafrat A Short Story by Mumtaz Mufti

Articles

ممتاز مفتی کا افسانہ ’’ نفرت‘‘

ممتاز مفتی

عجیب واقعات تو دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں مگر ایک معمولی سا واقعہ نازلی کی طبیعت کو یک لخت قطعی طور پر بدل دے، یہ میرے لئے بے حد حیران کن بات ہے۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لئے معمہ ہے۔ چونکہ اس واقعہ سے پہلے مجھے یقین تھا کہ اس کی طبیعت کو بدلنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لئے اب میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ نازلی وہ نازلی ہی نہیں رہی جو بچپن سے اب تک میری سہیلی تھی۔ جیسے اس کی اس تبدیلی میں انسان کی روح کی حقیقت کا بھید چھپا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا یعنی کسی بھدے سے بدنما آدمی سے خدا واسطے کا بغض محسوس کرنا…. کتنی عام سی بات ہے۔  عجیب واقعات تو دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں مگر ایک معمولی سا واقعہ نازلی کی طبیعت کو یک لخت قطعی طور پر بدل دے، یہ میرے لئے بے حد حیران کن بات ہے۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لئے معمہ ہے۔ چونکہ اس واقعہ سے پہلے مجھے یقین تھا کہ اس کی طبیعت کو بدلنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لئے اب میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ نازلی وہ نازلی ہی نہیں رہی جو بچپن سے اب تک میری سہیلی تھی۔ جیسے اس کی اس تبدیلی میں انسان کی روح کی حقیقت کا بھید چھپا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا یعنی کسی بھدے سے بدنما آدمی سے خدا واسطے کا بغض محسوس کرنا…. کتنی عام سی بات ہے۔
سہیلی کے علاوہ وہ میری بھابی تھی۔ کیونکہ اس کی شادی بھائی مظفر سے ہو چکی تھی۔ اس بات کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے۔ مظفر میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور جالندھر میں وکالت کرتے ہیں۔
یہ واقعہ لاہور اسٹیشن پر ہوا۔ اس روز میں اور نازلی دونوں لائل پور سے جالندھر کو آ رہی تھیں۔ ایک چھوٹے سے درمیانے درجے کے ڈبے میں ہم دونوں اکیلی بیٹھی تھیں۔ نازلی پردے کی سخت مخالف تھی۔ برقعے کا بوجھ اٹھانا اس سے دوبھر ہو جاتا تھا۔ اس لئے گاڑی میں داخل ہوتے ہی اس نے برقع اتار کر لپیٹا اور سیٹ پر رکھ دیا۔ اس روز اس نے زرد رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس میں طلائی حاشیہ تھا۔ زرد رنگ اسے بہت پسند تھا اور اس کے گورے گورے جسم میں گلابی جھلک پیدا کر دیتا تھا۔ اس کی یہ بے پردگی اور بے باکی مجھے پسند نہ تھی۔ مگر اس بات پر اسے کچھ کہنا بیکار تھا۔ آتے جاتے لوگ اس کی طرف گھور گھور کر دیکھتے مگر وہ اپنے خیالات میں یوں مگن تھی جیسے جنگل میں تن تنہا بیٹھی ہو۔ دو تین گھنٹے تو یونہی گزر گئے مگر لاہور کے قریب جانے کون سا اسٹیشن تھا، جہاں سے دو نوجوان لڑکے سوار ہوئے۔ مجھے تو کسی کالج کے طالب علم نظر آتے تھے۔ ان لڑکوں نے ہر اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ہمیں تاڑنا شروع کر دیا۔ ہمارے ڈبے کے سامنے آ کھڑے ہوتے اور متبسم نظروں سے ہماری طرف دیکھتے۔ پھر آپس میں باتیں کرتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتے۔ نازلی ویسے ہی بے باکی سے کھڑکی میں بیٹھی رہی بلکہ میرا خیال ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ نوجوان اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ میرے لئے اس کی یہ بے نیازی بے حد پریشان کن تھی۔ میں کچھ شرم اور کچھ غصہ محسوس کر رہی تھی۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا۔ ’’نازلی برقع پہن لو۔ دیکھو لڑکے کب سے تمہیں تاڑ رہے ہیں۔ ‘‘ ’’کہاں ہیں ؟‘‘ اس نے چونک کر کہا، پھر مسکرا دی۔ ’’دیکھنے دو۔ ہمارا کیا لیتے ہیں۔ آپ ہی اکتا جائیں گے…. بے چارے۔ ‘‘ ’’مگر برقع اوڑھ لینے میں کیا حرج ہے؟‘‘ ’’اگر برقع اوڑھنے سے لوگ یوں گھورنا چھوڑ دیں تو شاید عورتیں برقع اوڑھنا ترک کر دیں۔ برقع پہن لوں تو یہی ہو گا کہ سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ادھر ادھر منڈلاتے پھریں گے۔ ‘‘ ’’تم بھی حد کرتی ہو۔ ‘‘ ’’میں کہتی ہوں نجمی ایمان سے کہنا۔ کیا تم اپنے آپ کو چھپانے کے لئے برقع پہنتی ہو؟‘‘ وہ مجھے نجمی کہا کرتی تھی۔ چونکہ اس کے خیال کے مطابق نجم النساء گنگنا نام تھا۔ وہ بے اختیار ہنس دی۔ ’’اچھا مان لیا کہ تم واقعی اپنے آپ کو چھپانے کے لئے برقع پہنتی ہو۔ چلو مان لیا برقع پہن کر تم لوگوں پر یہ ظاہر کرتی ہو کہ اس برقعے میں چھپانے کے قابل چیز ہے۔ یعنی ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ یقین نہ ہو تو خود دیکھ لیجئے اور یہ برقع تو دیکھو۔ ‘‘ اس نے میرے برقع کو ہاتھ میں مسلتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ریشمی بوسکی فیتے۔ جھالر یہ تو برقع بذات خود خوبصورت ہے اور برقع والی کیا ہو گی۔ اندازہ کر لیجئے۔ واہ کیا خوب پردہ ہے۔ ‘‘ ’’تم خوامخواہ بگڑتی ہو۔ ‘‘ میں نے تنک کر کہا۔ ’’بگڑنا تو خیر ہو گا…. مجھے تمہاری طرح بننا نہیں آتا۔ ‘‘ ’’پگلی کبھی عورت بھی پردے میں رہ سکتی ہے۔ دیکھتی نہیں ہو۔ عورتوں نے پردے کو بھی زیبائش بنا دیا ہے۔ آخر جو بات ہے اسے ماننے میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی…. ’’تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔ ‘‘ میں نے بگڑ کر کہا۔ ’’لو اور سنو۔ جو ہم کہیں ، وہ تو ہوا مذاق اور جو آپ کہیں ، وہ حقیقت ہے۔ ‘‘ ’’اچھا بابا معاف کرو۔ بھول ہوئی۔ اب برقعہ تو اٹھا لو کیا ان درختوں سے بھی پردہ کرو گی؟‘‘ ’’تمہارے خیالات بہت عجیب ہیں۔ ‘‘ میں نے برقعہ اتارتے ہوئے کہا۔ اسٹیشن بہت دور رہ گیا تھا اور گاڑی ایک وسیع میدان سے گزر رہی تھی۔ ’’عجیب…. ہاں عجیب ہیں۔ اس لئے کہ وہ میرے اپنے ہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح سنی سنائی باتیں شروع کر دوں تو تم مجھ سے کبھی ناراض نہ ہو۔ ‘‘ ’’سنی سنائی….؟‘‘ ’’ہاں سنی سنائی، اس لئے کہ یہ باتیں ظہیر صاحب کو بہت پسند ہیں اور تم چاہتی ہو کہ وہ تمہیں چاہیں۔ تمہارے میاں جو ہوئے۔ یہ سنہری چوڑیاں ہی دیکھو۔ یاد ہے تم سنہری چوڑیوں کو کیسی نفرت کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں ؟ مگر یہ انہیں پسند ہیں نا۔ اس لئے یہ بوجھ اٹھائے پھرتی ہو۔ ان کی محبت کی محتاج جو ٹھہریں۔ ایمان سے کہنا۔ کیا یہ غلط ہے؟ مجھے تو ایسی محتاجی گوارا نہیں۔ تم ہی نے تو مردوں کا مزاج بگاڑ رکھا ہے۔ ورنہ وہ بے چارے۔ ‘‘ ’’تمہیں بھی تو زرد رنگ پیارا ہے نا؟‘‘ ’’ہاں ہے اور رہے گا۔ میری اپنی پسند ہے۔ میں اپنے میاں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتی کہ جیسا جی چاہیں ، نچا لیں۔ میں نے ان سے بیاہ کیا ہے۔ ان کے پاس اپنی روح گردی نہیں رکھی اور تم…. تمہاری تو مرضی ہے ہی نہیں۔ تم تو ہوا کے رخ میں اڑنا چاہتی ہو۔ ‘‘ دفعتاً گاڑی نے جھٹکا کھایا اور وہ لڑھک کر مجھ پر آ گری۔ ’’یہ جھوٹ بولنے کی سزا ہے۔ ‘‘ میں نے اسے چھیڑنے کو کہا اور ہم دونوں ہنس پڑیں۔ گاڑی اسٹیشن پر رک گئی۔ دونوں جوان گاڑی سے اتر کر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے اور نازلی کو توڑنے لگے۔ اس نے دو ایک مرتبہ ان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر نفرت بھرا تمسخر کھیل رہا تھا۔ ’’بے چارے۔ ‘‘ اس نے دبی آواز میں کہا۔ ’’مجھے تو ان پر ترس آتا ہے۔ ‘‘ اور وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ نہ جانے اس کی بے باکی اور بے پروائی دیکھ کر یا کسی اور وجہ سے اور وہ بھی دلیر ہو گئے۔ پہلے تو آپس میں باتیں کرتے رہے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ دلیر معلوم ہوتا تھا، ہمارے ڈبے کی طرف بڑھا۔ مگر نازلی کے انداز کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ کچھ دیر کے لئے وہ رک گیا۔ ہاتھ سے اپنی نکٹائی سنواری۔ بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ رومال نکالا اور پھر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا اور آخر ہمت کر کے نازلی کے قریب آ کھڑا ہوا اور گھبرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔ ’’کسی چیز کی ضرورت ہو تو….‘‘ میں تو ڈر کے مارے پسینہ پسینہ ہو گئی۔ مگر نازلی ویسے ہی بیٹھی رہی اور نہایت سنجیدگی سے کہنے لگی۔ ’’ہاں صرف اتنی مہربانی فرمائیے کہ یوں سامنے کھڑے ہو کر ہمیں گھورئیے نہیں۔ شکریہ۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس وقت نازلی کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں حیران ہو رہی تھی۔ اس میں کتنی ہمت تھی۔ خیر نوجوان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کھسیانا ہو کر واپس چلا گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہمیں کہیں نظر نہ آئے۔ ان دنوں نازلی کی طبیعت بے حد شوخ تھی مگر شوخی کے باوجود کبھی کبھی ایسی سنجیدگی سے کوئی بات کہہ دیتی کہ سننے والا پریشان ہو جاتا۔ ایسے وقت مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نسوانی جسم کی تہہ میں کوئی مردانہ روح جی رہی ہو۔ مگر اس کے باوجود مردوں سے دلچسپی نہ تھی۔ یقینی وہ مردوں کی طرف آنکھیں چمکا چمکا کر دیکھنے والی عورت نہ تھی۔ اس کے علاوہ اسے جذبہ محبت کے خلاف بغض تھا۔ مظفر بھائی دو سال کے عرصہ میں بھی اسے سمجھ نہ سکے تھے۔ شاید اسی لئے وہ اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ نازلی انہیں اس قدر پیاری تھی۔ حالانکہ وہ ان کے روبرو ایسی باتیں کہہ دینے سے کبھی نہ جھجکتی تھی جو کسی عام خاوند کو سننا گوارا نہیں ہوتیں مگر وہ نازلی کی باتیں سن کر ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ لاہور پہنچنے تک میں نے منت سماجت کر کے اسے برقع پہننے کے لئے منا لیا۔ رات کو آٹھ بجے کے قریب ہم لاہور پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ جالندھر جانے والی گاڑی کا انتظار کرنا تھا۔ ہم اس پلیٹ فارم پر جا بیٹھے جہاں سے ہماری گاڑی کو چلنا تھا۔ پلیٹ فارم خالی پڑا تھا۔ یہاں وہاں کہیں کہیں کوئی مسافر بیٹھا اونگھ رہا تھا یا کبھی کبھار کوئی وردی پوش بابو یا قلی تیزی سے ادھر سے ادھر گزر جاتا۔ مقابل کے پلیٹ فارم پر ایک مسافر گاڑی کھڑی تھی اور لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ ہم دونوں چپ چاپ بیٹھی رہیں۔ ’’لاحول ولا قوة‘‘ میں نے نازلی کو کہتے سنا۔ دیکھا تو اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے انگلی سے ساتھ والے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔ بنچ پر بجلی بتی کے نیچے دو جوان بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ’’توبہ….! جانگلی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘ نازلی نے کہا۔ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کی ہیئت واقعی عجیب تھی جیسے گوشت کا بڑا سا لوتھڑا ہو۔ سوجا ہوا چہرہ، سانولا رنگ، تنگ پیشانی پر دو بھدی اور گھنی بھنویں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کے نیچے دو اندر دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی سانپ کی سی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ چھاتی اور کندھے بے تحاشہ چوڑے اور جن پر سیاہ لمبا کوٹ یوں پھنسا ہوا تھا جیسے پھٹا جا رہا ہو۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے تنگ جسم میں بہت سی جسمانی قوت ٹھونس رکھی ہو۔ چہرے پر بے زاری چھائی ہوئی تھی۔ اس کی حرکات بھدی اور مکروہ تھیں۔ ’’دیکھو تو….‘‘ نازلی بولی۔ ’’اس کے اعضاء کس قدر بھدے ہیں ؟ انگلیاں تو دیکھو۔ ‘‘ اس نے جھرجھری لی اور اپنا منہ پھیر لیا۔ ’’تم کیوں خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ جانگلی ہے تو پڑا ہو۔ ‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر اس کی نگاہیں بھٹک کر اسی شخص پر جا پڑیں جیسے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو۔ ’’اسے کھاتے ہوئے دیکھنا…. توبہ ہے۔ ‘‘ نازلی نے یوں کہا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو۔ ’’صرف ایک گھنٹہ باقی ہے۔ ‘‘ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تاکہ اس کا دھیان کسی اور طرف لگ جائے مگر اس نے میری بات نہ سنی اور ویسے ہی گم صم بیٹھی رہی۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ ہونٹ نفرت سے بھنچے ہوئے تھے۔ میں نے اسے کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ اس کے برعکس کئی بار جب مظفر بھائی کسی دہشت ناک قتل کی تفصیلات سناتے اور ہم سب ڈر اور شوق کے مارے چپ چاپ بیٹھے سن رہے ہوتے اس وقت نازلی بے زاری سے اٹھ بیٹھتی اور جمائی لے کر کمرے سے باہر چلی جاتی۔ مگر اس روز اس کا ایک اجنبی کی انگلیوں اور کھانے کے انداز کو یوں غور سے دیکھنا میرے لئے باعث تعجب تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی شکل دیکھ کر مجھے خود ڈر محسوس ہو رہا تھا۔ ’’دیکھا نا؟‘‘ میں نے بات بدلنے کی غرض سے کہا۔ ’’تم جو بھائی مظفر کی انگلیوں پر ہنسا کرتی ہو۔ یاد ہے تم کہا کرتی تھیں ، یہ انگلیاں تو سوئی کا کام کرنے کے لئے بنی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یاد ہے نا؟‘‘ ’’توبہ ہے۔ ‘‘ نازلی نے نحیف آواز میں کہا۔ ’’اس کا بس چلے تو سب کو کچا ہی کھا جائے۔ کوئی مردم خور معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘ وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھی کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی جیسے اس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد میں نے اس سے کچھ کہنے کا خیال چھوڑ دیا۔ دیر تک میں ادھر ادھر دیکھتی رہی حتیٰ کہ میں نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔ ’’نجمی چلو کہیں دور جا بیٹھیں۔ ضرور یہ کوئی مجرم ہے۔ ‘‘ ’’پگلی۔ ‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر جانگلی کو دیکھتے ہی مسکراہٹ خشک ہو گئی۔ جانگلی اپنے دھیان میں بیٹھا ہاتھ دھو رہا تھا۔ واقعی اس کی انگلیاں سلاخوں کی طرح موٹی اور بے تکی تھیں۔ میرے دل پر نامعلوم خوف چھا رہا تھا۔ پلیٹ فارم میری آنکھوں میں دھندلا دکھائی دینے لگا۔ پھر دونوں نے آپس میں باتیں کرنا شروع کر دی۔ ’’شادی؟‘‘ جانگلی نے کہا اور اس کی آواز یوں گونجی جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔ نازلی نے جھرجھری لی اور سرک کر میرے قریب ہو بیٹھی۔ مگر اس کی نگاہیں اس شخص پر یوں گڑی ہوئی تھیں جیسے جنبش کی طاقت سلب ہو چکی ہو۔ ’’کچھ حالات ہی ایسے ہو گئے کہ شادی کے متعلق سوچنا میرے لئے نہایت ناخوشگوار ہو چکا ہے۔ میری شادی ہوتے ہوتے رک گئی۔ اسی بات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ ‘‘ ’’آخر کیا بات تھی؟‘‘ ہم بھی سنیں۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’کچھ بھی نہیں۔ بس میری اپنی بے ہنگم طبیعت۔ ‘‘ وہ ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی بہت بھونڈی تھی۔ نازلی سرک کر میرے قریب ہو گئی۔ ’’میں اپنی طبیعت سے مجبور ہوں۔ ‘‘ جانگلی نے کہا۔ ’’تمام جھگڑا میری طبیعت کی وجہ سے ہی تھا۔ میری منگیتر میرے دوست ظہیرالدین صاحب کی لڑکی تھی۔ ظہیرالدین ہماری فرم کے منیجر تھے اور ان کا تمام کام میں ہی کیا کرتا تھا۔ چونکہ ان کے مجھ پر بہت سے احسانات تھے، میں نے ان کی بات کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا حالانکہ میرے حالات کچھ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ شادی کا بکھیڑا میرے لئے چنداں مفید نہ تھا۔ خیر میں نے سنا تھا کہ لڑکی بہت خوبصورت ہے اور سچ پوچھو تو خوب صورت لڑکی سے شادی کرنا میں قطعی ناپسند کرتا ہوں۔ ‘‘ ’’عجیب انسان ہو۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’عجیب ہی سہی مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی بدصورت لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ نہیں یہ بات نہیں۔ مگر کسی حسین لڑکی کو بیاہ لانا مجھے پسند نہیں۔ ‘‘ ’’اوہ بڑا گھمنڈ ہے انہیں۔ ‘‘ نازلی نے میرے کان میں کہا۔ ’’خیر۔ ‘‘ جانگلی نے بات جاری رکھی۔ ’’ایک دن کی بات ہے کہ مجھے بے موقع ظہیرالدین کے مکان پر جانا پڑا۔ یاد نہیں کہ کیا بات تھی۔ مجھے صرف اتنا ہی یاد ہے کہ کوئی ضروری کام تھا۔ چونکہ عام طور پر میں ان کے مکان میں جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ بہرحال ایک چھوٹی سی لڑکی باہر آئی اور کہنے لگی، آپ اندر چل کر بیٹھئے۔ وہ ابھی آتے ہیں۔ خیر میں ملاقاتی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتاً دروازہ آپ ہی کھل گیا اور کچھ دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کھلے منہ دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ پہلے تو وہ یوں کھڑی رہی گویا اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جیسے لڑکیاں مردوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا کرتی ہیں۔ پھر میز پر سے ایک کتاب اٹھا کر چلی گئی۔ میں اس کی بے باکی اور بناؤ سنگھار کو دیکھ کر غصے سے کھول رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھی۔ مجھے اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کسی کو….‘‘ اس نے گھونسا لہراتے ہوئے کہا۔ پھر وہ ہنس پڑا۔ نازلی نے اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر چیخ سی ماری۔ مگر ڈر یا نقاہت سے اس کی آواز ان دونوں تک نہ پہنچ سکی۔ ورنہ خدا جانے وہ کیا سمجھتے۔ جانگلی نے بات پھر شروع کی۔ بولا۔ ’’وہ یوں بن سنور کر وہاں کھڑی تھی گویا اپنی قیمت چکانے آئی ہو۔ ایک زرد رنگ کار سے کی طرح بل کھایا ہوا دوپٹہ اس کے شانوں پر لٹک رہا تھا۔ سر ننگا۔ اف….! تمہیں کیا بتاؤں۔ اس کے بعد میں نے ظہیرالدین صاحب سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ یعنی میں نے رشتے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر وہ بہت بگڑے اور مجھے کوئی اور نوکری تلاش کرنی پڑی۔ مہینوں بغیر نوکری کے رہا۔ کہاں کہاں بھٹکتا پھرا۔ راجپوتانے میں نوکری آسانی سے نہیں مل سکتی۔ ‘‘ ’’مگر اس میں انکار کی کیا بات تھی؟‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’آخر منگیتر تھی۔ ‘‘ ’’بس یہی کہ مجھے بے پردگی سے بے حد نفرت ہے اور آج کل کا بناؤ سنگھار مجھے پسند نہیں۔ ہاں ایک بات اور ہے۔ کوئی لڑکی جو زرد دوپٹہ پہن سکتی ہے۔ میں اسے اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔ مجھے زرد رنگ سے چڑ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ گھر کے کام کاج کو عار سمجھتی تھی۔ یہ آج کا فیشن ہے۔ تم جانتے ہو کہ آج کل لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ بن سنور کر مردوں کو لبھانے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں اور برتن مانجھنے سے ہاتھ میلے ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہاتھ دکھلاوے کی چیز ہوں۔ یہیں دیکھ لو، کتنی بے پردگی ہے۔ عورتیں یوں برقعے اٹھائے پھرتی ہیں جیسے جنگل میں شکاری بندوقیں اٹھائے پھرتے ہیں۔ ‘‘ اس کا ساتھی ہنس پڑا اور پھر ہنستے ہنستے کہنے لگا۔ ’’یار! تم تو راجپوتانے میں رہ کر بالکل بدل گئے ہو۔ ‘‘ ’’اونہہ ہوں …. یہ بات نہیں۔ ‘‘ جانگلی نے کہا۔ ’’پردے کا تو میں بچپن سے ہی بہت قائل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گھر میں دو عورتیں مہمان آئیں۔ ایک تو خیر ابھی بچی تھی۔ دوسری یہی کوئی پچیس سال کی ہو گی۔ ان دنوں میں خود آٹھ نو سال کا تھا۔ خیر وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ ‘‘ وہ رک گیا۔ پھر آپ ہی بولا۔ ’’مجھے اس بات پر بے حد غصہ آتا تھا۔ اس لئے میں اکثر باہر مردانے میں ہی بیٹھا رہتا، یعنی میں نے ان کے روبرو جانا بند کر دیا۔ ایک دن ابا نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہ پیغام اندر لے جاؤ۔ خدا جانے کیا پیغام تھا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی زیور دیا تھا کہ انہیں دکھا دوں۔ شاید ان مہمانوں نے وہ زیور دیکھنے کے لئے منگوایا ہو۔ میں نے ڈیوڑھی سے جھانک کر دیکھا تو وہ عورت صحن میں اماں کے پاس بیٹھی تھی۔ اماں کہنے لگی۔ حمید اندر چلے آؤ۔ اے ہے تم اندر کیوں نہیں آتے؟ تم سے کوئی پردہ ہے؟ میں یہ سن کر ابا کے پاس واپس چلا آیا۔ میں نے کہا، ابا جی میں نہیں جاؤں گا۔ وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی۔ یہ بات میں نے اس قدر جوش اور غصے میں کہی کہ ابا بے اختیار ہنس پڑے۔ اس کے بعد دیر تک گھر والے میری اس بات پر مجھے چھیڑتے رہے۔ البتہ زرد رنگ سے مجھے ان دنوں نفرت نہ تھی۔ طبیعت بھی عجیب چیز ہے۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری طبیعت تو ایسی ہے جیسے مداری کا تھیلا۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے ہنستے ہوئے کہا اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ پھر وہ اٹھ بیٹھے۔ اس وقت پہلی مرتبہ جانگلی کی نگاہ نازلی پر پڑی جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئی اور آنکھیں نفرت یا خدا جانے کس جذبے سے سرخ ہو گئیں۔ نازلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نگاہیں جانگلی پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ انہیں وہاں سے ہٹانا چاہتی ہو مگر ہٹا نہ سکتی ہو اور تمام بدن کانپ رہا تھا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا جیسے نازلی میں ہلنے جلنے کی ساکت نہ رہی ہو۔ یک لخت جانگلی مڑا اور وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ اس وقت نازلی عجیب بے بسی کے ساتھ مجھ سے لگی بیٹھی تھی۔ گویا اس میں بالکل جان نہ ہو۔ کچھ دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا۔ عین اس کے قریب سے ایک قلی گزرا۔ وہ ٹھٹک گئی اور اس نے اپنا برقعہ منہ پر ڈال لیا۔ ’’اگر مجھے ایک خون معاف کر دیا جائے تو میں اسے یہیں گولی مار دوں۔ ‘‘ نازلی نے کہا۔ ’’کسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کتنا بنتا ہے۔ ‘‘ ’’اوہ! تمہارا مطلب اس شخص سے ہے مگر تم خواہ مخواہ اس سے چڑ رہی ہو۔ اپنی اپنی طبیعت ہے۔ اپنے اپنے خیالات ہیں۔ تمہیں اپنے خیالات پیارے ہیں ، اسے اپنے۔ ‘‘ ’’بڑی طرف داری کر رہی ہو۔ ‘‘ وہ بولی۔ ’’اس میں طرف داری کی کیا بات ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’تمہیں تو آپ سنی سنائی باتوں سے نفرت ہے۔ اس کے خیالات بھی مانگے کے نہیں۔ باقی رہی شکل، وہ تو اللہ میاں کی دین ہے…. ایمان کی بات پوچھو تو مجھے تو تم دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ‘‘ ’’جی ہاں ! تمہارا بس چلے تو ابھی میری بانہہ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دو۔ ‘‘ ’’لا حول ولا….‘‘ میں نے کہا۔ ’’لا حول ولا کی اس میں کیا بات ہے….؟ میں کہتی ہوں اس کی بیوی اس کے ساتھ کیسے رہ سکے گی؟‘‘ گاڑی پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئی۔ ہم دونوں اندر بیٹھے۔ ہم نے انٹر کا ایک چھوٹا سا زنانہ ڈبہ تلاش کیا اور اس میں جا بیٹھے۔ نازلی نے برقعہ اتار کر لپیٹ کر بنچ پر رکھ دیا اور خود کونے میں بیٹھ گئی۔ حالانکہ ڈبے میں بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ پھر بھی اس نے کھڑکی کا تختہ چڑھا دیا۔ میں دوسرے پلیٹ فارم پر ہجوم دیکھنے میں محو ہو گئی۔ میرا خیال ہے ہم بہت دیر تک یونہی خاموشی سے بیٹھے رہے۔ ’’توبہ ہے۔ ‘‘ نازلی کی آواز سن کر میں چونک پڑی۔ دیکھا تو میرے پاس ہی وہ جانگلی ہاتھ میں سوٹ کیس لئے کھڑا تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اسی لمحے میں نازلی نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ سامنے اسے دیکھ کر نہ جانے کیا ہوا۔ بس مجھے اتنا معلوم ہے کہ اس نے لپٹ کر دوپٹہ میرے سر سے کھینچ لیا اور ایک آن میں خود کو اس میں لپیٹ کر گٹھڑی سی بن کر پڑ گئی۔ ’’لاحول ولا قوة‘‘ جانگلی کی بھدی آواز سنائی دی اور وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ غلطی سے ہمارے ڈبے میں چلا آیا تھا۔ جب اس نے ہمیں دیکھا تو اپنی غلطی کو جان کر واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک نازلی اسی طرح منہ سر لپیٹے پڑی رہی۔ میرے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھنے لگے۔ میرا خیال تھا کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو گا۔ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔ ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ خیر جوں توں ہم خیریت سے جالندھر پہنچ گئے۔ اگلے دن دوپہر کے قریب مظفر بھائی میرے کمرے میں آئے۔ ان کے چہرے پر تشویش اور پریشانی کے آثار تھے۔ کہنے لگے۔ ’’نجمہ! نازلی کو کیا ہو گیا ہے؟ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں ؟‘‘ ’’مجھے تو معلوم نہیں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ ’’خدا جانے کیا بات ہے؟ اس میں وہ پہلی سی بات ہی نہیں۔ آج صبح سے ہر بات کے جواب میں جی ہاں۔ جی ہاں۔ نازلی اور جی ہاں ؟ میں سمجھا، شاید مجھ سے ناراض ہے۔ ‘‘ ’’نہیں ویسے ہی اس کی طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘ ’’طبیعت ناساز ہے؟‘‘ انہوں نے حیرانی سے کہا۔ ’’اگر طبیعت ناساز ہوتی تو کیا وہ بیٹھی باورچی خانے کا کام کرتی۔ وہ تو صبح سے حشمت کے پاس باورچی خانے میں بیٹھی ہے۔ کہتی ہے، میں کھانا پکانا سیکھوں گی۔ منہ ہاتھ تک نہیں دھویا۔ عجیب معاملہ ہے۔ ‘‘ ’’وہم نہ کیجئے۔ آپ ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘ میں نے بات ٹالنے کے لئے کہا۔ ’’وہم کی اس میں کیا بات ہے۔ تم جانتی ہو اس کی طبیعت خراب ہو تو اس گھر میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور باورچی خانے کے کام سے تو اسے چڑ ہے۔ آج تک وہ کبھی باورچی خانے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ خدا جانے کیا بھید ہے۔ ‘‘ ’’وہ دو قدم چل کر لوٹ آئے۔ ’’اور مزے کی بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ جانتی ہو نا کہ اسے زرد رنگ کتنا پیارا ہے۔ اس نے اس مرتبہ ایک نہایت خوبصورت زرد دوپٹہ اس کے لئے خریدا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ زرد دوپٹہ دیکھ کر خوشی سے ناچے گی۔ مگر اس نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہیں کھونٹی سے لٹک رہا ہے۔ جب میں نے اصرار کیا تو کہنے لگی۔ ’’اچھا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘ نازلی کے منہ سے یہ بات نکلے۔ سوچو تو…. عجیب معاملہ ہے کہ نہیں۔ ‘‘ وہ بولے۔ نازلی کی مکمل اور فوری تبدیلی پر ہم سب حیران تھے۔ مگر وہ خود بالکل خاموش تھی۔ اسی طرح ایک دن گزر گیا۔ اسی شام بھائی مظفر تار ہاتھ میں لیے باورچی خانے میں آئے۔ ہم دونوں وہیں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’جانتی ہو یہ کس کا تار ہے۔ خالہ فرید کا بڑا لڑکا حمید تھا نا…. جو پندرہ سال کی عمر میں راجپوتانے بھاگ گیا تھا؟ وہ واپس آ گیا ہے۔ اب وہ بہن کو ملنے دہلی جا رہا ہے۔ یہ تار اس کا ہے۔ کل صبح نو بجے یہاں پہنچے گا۔ چند ایک گھنٹوں کے لئے یہاں ٹھہرے گا۔ ‘‘ ’’کون حمید؟‘‘ ’’تم کو یاد ہو گا۔ میں اور حمید اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ ‘‘ نازلی کے ہونٹ ہلے اور اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا۔ ہاتھ سے پیالی گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اگلے دن نو بجے کے قریب میں اور نازلی باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ وہ چائے کے لئے پانی گرم کر رہی تھی مگر یوں بیٹھی تھی جیسے اسے کسی بات کا دھیان ہی نہ ہو۔ پاس ہی کھونٹی پر اس کا زرد دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ بھائی مظفر نے زبردستی اسے وہ دوپٹہ لینے پر مجبور کر دیا تو اس نے لے لیا لیکن پہننے کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور کپڑے میلے تھے۔ اس وقت وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھی تھی۔ باہر برآمدے میں بھائی صاحب کسی سے کہہ رہے تھے۔ ’’تم یہیں بیٹھو۔ میں اسے بلاتا ہوں۔ نہایت ادب سے بھابھی کو سلام کرنا۔ ‘‘ ’’اچھا تمہاری مرضی۔ ‘‘ کسی نے بھدی آواز میں کہا جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔ ’’وہی۔ ‘‘ میرے دل میں کسی نے کہا اور جانگلی کی شکل میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ میں اسے دیکھنے کے لئے دبے پاؤں اٹھی۔ باورچی خانے کا دروازہ بند تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو اسی وقت بھائی صاحب حمید سے کہہ رہے تھے۔ ’’آؤ تم بھی میرے ساتھ آؤ۔ ‘‘ میں نے دروازہ زور سے بند کر دیا۔ نازلی نے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ وہ دیوانہ وار اٹھی۔ کھونٹی سے لپک کر دوپٹہ اتار لیا۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اسے چولہے کی طرف پھینک دیا جیسے کوئی بچھو ہو اور دوڑ کر حشمت کی چادر کو پکڑ لیا جو دوسرے دروازے کی پٹ پر لٹک رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں لپیٹ لیا۔ زرد دوپٹہ چولہے میں جلنے لگا۔ اسی وقت بھائی صاحب اندر داخل ہوئے مگر وہ اکیلے ہی تھے۔ انہوں نے حیرانی سے ہمیں دیکھا۔ کچھ دیر ہم تینوں خاموش ہی کھڑے رہے۔ آخر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نازلی کہاں ہے؟ میں نے نازلی کی طرف اشارہ کیا جو منہ لپیٹ کر کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ’’نازلی….!‘‘ انہوں نے حیرانی سے دہرایا۔ وہ نازلی کے قریب گئے۔ ’’یہ کیا حماقت ہے؟ چلو…. باہر حمید انتظار کر رہا ہے۔ ‘‘ وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر نحیف آواز میں کہنے لگی۔ ’’نہیں۔ میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘ ’’کیوں ؟‘‘ وہ بولے۔ اتفاقاً بھائی جان کی نظر جلتے ہوئے دوپٹے پر پڑی۔ ’’نازلی….!‘‘ انہوں نے دوپٹے کی طرف دیکھ کر حیرانی سے کہا۔ نازلی نے سر ہلا دیا اور چمٹے سے دوپٹے کو پوری طرح چولہے میں ڈال دیا۔ بھائی نازلی کی اس تبدیلی پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نازلی کی طبیعت بہت سنور گئی ہے۔ بات ہے بھی درست۔ چونکہ اس کی طبیعت میں وہ ضد اور بے باک شوخی نہیں رہی، مگر کبھی کسی وقت انہیں اکٹھے دیکھ کر میں محسوس کرتی ہوں۔ گویا وہ نازلی کو ہمیشہ کے لئے کھو چکے ہیں۔

Tagore, Iqbal Aur Hindustan by Dr. Qamar Siddiqui

Articles

ٹیگور ، اقبال اور ہندوستان

قمر صدیقی

رابندر ناتھ ٹیگور اور ڈاکٹر محمد اقبال بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان سے ابھرنے والی دوایسی آوازیں تھیں جن کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔ یہ ہندوستانی معاشرے کے لیے ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ ایک طرف برطانیہ کا نوآبادیاتی غلبہ مضبوط ہورہا تھا تو دوسری طرف ہندوستانی عوام میں اس نوآبادیاتی غلبے کے خلاف بیداری بھی پیدا ہورہی تھی۔ کشمکش کے اس دور میں ہندوستان کے دو بڑے اذہان ،رابندر ناتھ ٹیگور اور ڈاکٹر محمد اقبال نے ہندوستانی قوم کی رہنمائی کی۔ دونوں نے اس پیغمبری دور میں اپنے قلم کے ذریعے وطنیت سے لبریز نغمے لکھ کر ہندوستانی قوم کی دست گیری کی۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا مشہور زمانہ ترانہ ’’جن گن من ادھینائک جے ہے‘‘ اور ڈاکٹر اقبال کا نغمہ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور اور ڈاکٹر محمد اقبال بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان سے ابھرنے والی دوایسی آوازیں تھیں جن کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔ یہ ہندوستانی معاشرے کے لیے ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ ایک طرف برطانیہ کا نوآبادیاتی غلبہ مضبوط ہورہا تھا تو دوسری طرف ہندوستانی عوام میں اس نوآبادیاتی غلبے کے خلاف بیداری بھی پیدا ہورہی تھی۔ کشمکش کے اس دور میں ہندوستان کے دو بڑے اذہان ،رابندر ناتھ ٹیگور اور ڈاکٹر محمد اقبال نے ہندوستانی قوم کی رہنمائی کی۔ دونوں نے اس پیغمبری دور میں اپنے قلم کے ذریعے وطنیت سے لبریز نغمے لکھ کر ہندوستانی قوم کی دست گیری کی۔  اقبال اور ٹیگور کے افکار و نظریات بعض سطحوں پر مطابقت رکھتے ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا تھا کہ : ’’ تخلیقِ انسانی کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا میں مکمل ہو۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ سعی کا وہ سلسلہ ہے جس کا تعلق کَل انسانیت کی تکمیل سے ہے۔ یہ دنیا صرف مادی ہی نہیں ہے بلکہ اس مادی دنیا میں انسان کا عقلی ،اخلاقی اور اعتدالِ حسن کے لحاظ سے مکمل ہونا، اس عالم کی تخلیق کا مقصد معلوم ہوتا ہے۔ انسان کے اندر کوئی چیز ہمیشہ اس کو یہی کہتی رہتی ہے کہ آگے بڑھو اور ترقی کرو اور انسان ہونے کی حیثیت سے مکمل بنو۔‘‘(انسان کا مذہب ، از : رابندر ناتھ ٹیگور۔ رسا لہ ندیم، گیا۔ اگست ۱۹۳۱ء) اقبال نے اس خیال کو شعر کے قالب میں ڈھال کر یوں پیش کیا ہے:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فَیکون
رابندر ناتھ ٹیگور اور اقبال کے تقابلی مطالعہ میں یہ پہلو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ دونوں ہندوستان کے اولین بڑے شاعر ہیں جنھیں نو آبادیاتی غلبے کا احساس سب سے پہلے ہوا بلکہ سب سے پہلے انھوں نے اس کے خلاف قلم بھی اٹھایا۔ گوکہ نوآبادیاتی غلبے کے خلاف ہندوستانی شاعروں میں پہلی آواز اکبر الہ آبادی تھی لیکن چونکہ ٹیگور اور اقبال نے یورپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اوریہ یورپ کے اجتماعی فکر و فلسفہ سے کماحقہ‘ آگاہی رکھتے تھے اس لیے اکبر کی بہ نسبت ٹیگور اور اقبال کے یہاں یہ موضوع زیادہ ہمہ گیریت کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اقبال اور ٹیگور کا دور وہ دور تھا جب پوری دنیا میں ایک نوع کا خلفشار مچا ہوا تھا۔ یورپ کا صنعتی و حرفتی انقلاب اور پھر پہلی جنگِ عظیم نے ساری دنیا میں ایک بحرانی کیفیت پیدا کردی تھی۔ خصوصاً ہندوستان کو یورپ کے لیے قربان گاہ بنایا جارہا تھا۔ قومیں مٹ رہی تھیں اور نئی قومیں ابھر رہی تھیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہندوستان اور ایشیا کے دوسرے ممالک اپنی سیاسی انفرادیت کے ساتھ اپنی قومی اور اخلاقی انفرادیت بھی کھو رہے تھے۔ ہندوستان جو کبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا ، مغربی تہذیب اس پر غلبہ حاصل کرتی نظر آرہی تھی۔ نوآبادیاتی نظام کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ جس قوم پر غلبہ حاصل کرتی ہے سب سے پہلے اس کی تہذیب پر حملہ آور ہوتی ہے اور مغلوب تہذیب دھیرے دھیرے غالب تہذیب میں ضم ہونے لگتی ہے۔ ٹیگور اور اقبال کی شاعری کا مجموعی رویہ اس تہذیبی غلبے سے مزاحمت کا ہے۔ لیکن انھیں یہ بھی احساس ہے کہ ہندوستانی تہذیب جتنی قدیم ہے اتنی ہی توانا بھی ہے اور نہ جانے کتنی تہذیبیں یہاں آئیں اور ہندوستانی تہذیب کا حصہ بن گئیں۔ یہی رنگارنگی اور کثرت میں وحدت ہندوستانی تہذیب کا طرّہ امتیاز ہے۔اقبال کہتے ہیں:
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لے سُنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
اور غزل کے یہ اشعار ہندوستان میں انگریزی سامراج کے زوال کے حوالے کچھ سوال بھی کھڑے کرتے ہیں:
اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ
تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہلِ نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ
ٹیگور کی نظم ’’بھارت کا سفر‘‘ کا یہ بند بھی شاید اس کی ترجمانی کرتا ہے:
آریا ، دراوڑ، چینی ، شک، ہون ، پٹھان اور مغل
یہاں سب ایک جسم کا حصّہ ہوگئے
آج مغرب نے دروازہ کھولا ہے ، اپنی سوغاتوں کا
وہ دیں گے اور لیں گے ، ملائیں گے اور ملیں گے
لوٹ کر نہیں جائیں گے ، اس عظیم بحرِ ہند کے ساحل سے
(بھارت کا سفر ، گیتانجلی ، انتخاب از: ساہتیہ اکادمی۔ صفحہ نمبر ۲۱۷)
اقبال کی شاعری میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابلِ قدر پیغام عمل کا پیغام ہے۔ ان کی شاعری میں جتنے بھی استعارے اور علامتیں استعمال ہوئی ہیں براہِ راست یا بالراست ان کا تعلق عمل سے ہے۔ چاہے وہ ’شاہین ‘ ہو، یا اقبال کا مردِ مومن ہر جگہ حرکت اور عمل کا پیغام ہے۔ گویا اقبال کی شاعری کا اصل جوہر حرکت یا عمل سے عبارت ہے۔اقبال کی نظم ’’شاہین ‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورپ یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
اسی طرح ایک غزل کے ان اشعار میں حرکت و عمل کا پیغام اس طرح پیش کیا گیا ہے:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر ، پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر ، بادہ و جام سے گزر
کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشادِ شرق و غرب
تیغِ ہلال کی طرح عیشِ نیام سے گزر
اقبال حرکت و عمل کو زندگی اور سکون کو موت قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن ان کی نظم ’’زندگی‘‘ کے یہ اشعاربھی توجہ چاہتے ہیں:
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ، پیہم دواں ، ہردم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹّی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
خام ہے جب تک تو ہے مٹّی کا اک انبار تو
پختہ ہوجائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو
اقبال کی تعلیم وتربیت مغرب کی درسگاہوں میں ہوئی لیکن وہ مغربی تعلیم و تہذیب سے مرعوب نہیں ہوئے ۔ انھوں نے جدید مغربی افکار و نظریات کو مغرب و مشرق کے علوم و نظریات کی روشنی میں دیکھا تو اس کا مصنوعی پن ظاہر ہوگیا۔ انھوں نے دیکھا کہ مغرب کے جدید افکار جن کی پوری دنیا میں تبلیغ کی جارہی ہے وہ مشرقی فکر و فلسفہ کے گنجِ گراں مایہ کے سامنے خش و خاشاک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ چنانچہ انھوں نے ایشیا والوں اور بالخصوص مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ یاد دلائی اور خود اعتمادی کا درس دیا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مادیت، مغرب پرستی اور مغرب زندگی کا وہ ٹھاٹھیں مارتا سیلاب جو تیزی سے ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا اقبال کی شاعری اس کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ۔ اور اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا اور حقیقی کارنامہ یہی ہے۔ اقبال کی شاعری جہاں یورپ کی مادیت پرستی کے سیلاب کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑی ہوگئی تھی وہیں ٹیگور کی شاعری یورپ میں ہندوستانی فکر و فلسفہ کی تبلیغ و ترسیل کا اہم ذریعہ بن کر ابھری۔ جس طرح اقبال کی شاعری ایک انوکھے اور جداگانہ اسلوب کی حامل ہے اسی طرح ٹیگور کی شاعری بھی منفرد اسلوب اور زبان و بیان کے تجربات سے عبارت ہے۔ ٹیگور کی شاعری تخیل کے اعتبار سے بہت بلند ہے۔ وہ فطرت کے رموز سے آگاہ ہیں اور کائنات کے عمیق ترین مسائل سے بحث کرتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں ظاہری نہیں بلکہ باطنی ، جسمانی نہیں بلکہ روحانی مقاصد پیشِ نظر رکھتے ہیں۔مثلاً ان کی ایک نظم ’’تصویر‘‘ کا یہ آخری حصّہ ملاحظہ ہو: کسی بیتے ہوئے وقت میں تمھیں پایا تھا
پھر رات کو کھو دیا
اس کے بعد اندھیرے میں ، اکثر تمھیں پایا کرتا ہوں
تصویر نہیں ہو، تم صرف تصویر نہیں ہو
(نظم ’’تصویر‘‘ انتخاب ،از۔ ساہتیہ اکادمی ، صفحہ نمبر ۲۲۷)
ہمایوں کبیر نے ٹیگور کی مجموعی فکر کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’ ٹیگور نے دنیا کو محض ایک ایسا رنگ منچ نہیں تسلیم کیا ہے جہاں انسان زندگی بتانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ انھوں نے اسے ایک ممتا بھری ماں کے روپ میں بھی دیکھا ہے جو زندگی اور زندگی کے مسائل کے حل تلاش کرتے انسان کی نگرانی کرتی ہے۔‘‘ (رابندر ناتھ کی نظمیں ۔ انتخاب : ہمایوں کبیر ۔ ساہتیہ اکادمی ۔ صفحہ نمبر ۱۳) ٹیگور کی عالم گیر مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انھوں نے دنیا کو محض ایک تماشائی یا سنیاسی کی طرح نہیں دیکھا ہے بلکہ اس کے تمام رنگوں میں شامل رہ کر اسے اپنی شاعری میں برتا ہے۔  سروجنی نائیڈو نے ٹیگور کے انتقال پر جو تقریر کی تھی اس میں انھوں نے ٹیگور کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
’’ رابندر ناتھ ٹیگور کی اہمیت کیا تھی ؟ دنیا تغزل ، موسیقی اور حسن سے لبریز ہے۔ تو پھر ٹیگور میں وہ کونسی خوبی تھی ، جس کی بنا پر وہ دنیا کے ہزاروں انسانوں کا محبوب تھا؟ وہ بنگا ل میں پیدا ہوا ۔ اس کے دماغ اور جسم کے تمام تاثرات بنگال کے ممون ہیں۔ اس کی تمام شاعری بنگال کے دریائوں کے مناظر ، پھولوں ، دیہاتی زندگی اور ساون کے گہرے بادلوں سے بھری پڑی ہے ۔ اس کی شاعری کے تمام عناصر اپنے ملک کے محتاج ہیں اس کے باوجود بھی وہ تمام دنیا کا شاعر تھا۔ اس کی شاعری کی زبان سے بہت کم لوگ واقف تھے مگر یہ رفتہ رفتہ لاکھوں انسانوں کے دلوں کی زبان بن گئی ۔ آخر اس کا راز کیا تھا؟ اس کا پیغام کیا تھا؟ بنی نوع انسان کی محبت اور انسانوں کے جذبہ خدمت سے گہرا عشق ہی اس کی زندگی کا راز تھا۔‘‘ (از: رسالہ ندیم ،گیا۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء ۔ مترجم خواجہ عبد القیوم)
یہی جذبۂ عشق و محبت اور انسانیت ٹیگور کی شاعری کا بنیادی رویہ ہے۔ بنی نوع انسان کے تئیں یہی احترام ٹیگور کی بین الاقوامی مقبولیت کا راز ہے ۔اپنی نظم ’’بھارت کا سفر‘‘ کے آخری بند میں وہ کہتے ہیں:
اے آریا ، غیر آریا آئو ، ہندو مسلمان آئو
آج آئو ، سب انگریز کرسچن آئو
من کو پاک کر آئو ، برہمن سب کے ہاتھ پکڑو
اے بچھڑوں آئو، من کے سب بوجھ اتار دو
ماں کی ممتا کی چھائوں میں جلد آئو
سب کے لمس سے پاک کیے مقدس جل سے
اس عظیم بحرِ ہند کا ساحل
اس کا گھاٹ ابھی بھرا نہیں ہے۔
ٹیگور کا رویہ مغرب ہویا مشرق سب کے لیے یگانگت کا ہے۔ ٹیگور کی جنگ روحانی جنگ ہے اور یہ انسان کے لیے ہے ۔ ان کا مقصد انسانوں کو اُن بندھنوں سے آزاد کرانا ہے جو اس نے اپنے اطراف بُن لیے ہیں۔ ٹیگور کے نزدیک روحانی آزادی ہی اصل آزادی ہے۔
ہر زمانہ اپنی ضرورتوں کے مطابق ایک بڑا شاعر پیدا کرتا ہے ۔ جو لوگوں کو صحیح راستہ پر چلنے کا پیغام دیتا ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز کے ہندوستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے بیک وقت دو ایسے شاعر پیدا کیے ۔ ان میں سے ایک ایشیا کو جد جہد کا پیغام دیتا ہے اور دوسرا یورپ کو صلح و امن و آشتی کا اور یہ دو شاعر اقبال اور ٹیگو رہیں۔
٭٭٭

Sahir Ludhianvi A Shor Collection

Articles

ساحر لدھیانوی کے کلام کا انتخاب

ساحر لدھیانوی

تاج محل

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

مری محبوب پسِ پردہِ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کے مقابر سے بہلنے والی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

کبھی کبھی

کبھی کبھی مرے دل میں‌یہ خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں‌کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں‌ میں‌ محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی!
ترے لبوں‌سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں‌کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں‌کو لگا چکا ہوں‌گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں‌رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں‌مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں‌ خیال آتا ہے

 

فن کار

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج دُکان پہ نیلام اٹھے گا ان کا
تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

آج چاندی کے ترازو میں تُلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں‌کو
مفلسی جنس بنانے پر اتر آئی ہے

بھوک، تیرے رُخِ رنگیں کے فسانوں‌ کے عوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنا ہے

دیکھ اس عرصہ گہِ محنت وہ سرمایہ ہیں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں‌ رہ سکتے

تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

آج ان گیتوں‌کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے​

 

غزلیں
1

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

 

2
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

 

3

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

Pase Diwar E Zindan by Shorish Kashmiri

Articles

پسِ دیوارِ زنداں

شورش کاشمیری

Farhang E Aamira

Articles

فرہنگِ عامرہ

محمد عبد اللہ خاں خویشگی

Kalam E Mohsin Kakorvi Adabi wa Fikri Jehat

Articles

کلامِ محسن کاکوروی ادبی و فکری جہات

صبیح رحمانی