Sanah E Karbala ki Asri Ma’nwiat by Qamar Siddiqui

Articles

سانحۂ کربلا کی عصری معنویت

قمر صدیقی

۱۰ محرم ۶۱ ھجری میں کربلا کی سرزمین پر پیغمرِ اسلام حضرت محمد ؐ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے بنی نوع انسان کو انسانیت کی سربلندی کے لیے برائی کی خلاف جد جہد کا درس دیا۔ان کی اس قربانی کو تاقیامت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔امام حسینؓ نے اُس وقت جبراً تبدیل کی جارہی سیاسی، معاشی اور تہذیبی صورتِ حال کے خلاف عَلم بلند کیا تھا جب اسلامی طرزِ حکومت یعنی ’’خلافت‘‘ کو مٹانے کے اقدامات ہورہے تھے، جب خلافت ’ملوکیت‘ میں تبدیل ہورہی تھی، جب اسلامی تمدن کو غیر اسلامی اور خاندانی عصبیت کے رُخ پر موڑنے کے مذموم سازشیں کی جارہی تھیں، جب مذہبی مجالیس میں سب شتم نے اپنی جگہ بنا لی تھی، جب عہد اور بد عہدی میں تفریق کرنے والوںکو گوشہ نشینی پر مجبور کیا جانے لگا تھا ۔ ایک ایسے وقت میں جب برائی نے مختلف جہتوں سے اپنے پائوں پسارنے شروع کردیئے تھے، امام حسینؓ نے ان برائیوں کے سد باب کے لیے عملی قدم اٹھایا۔ کربلا کی تاریخ سے کیا اہل علم و دانش اور کیا ہم جیسے معمولی علم رکھنے والے سبھی واقف ہیں۔لہٰذا آج کے اس پر فتن دور میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہم غور کریں کہ کربلا کی تاریخ سے ہم نے کیا سیکھا ہے۔
دونوں عالمی جنگوں کی ہولناک تباہی اور ایٹمی دھماکوں کے سبب موت کی ہیبت کا آنکھوں میں بس جانا، خانہ جنگی، دہشت گردی اور ان سب وجوہات کی باعث موجودہ صدی میں انسانی زندگی کی بے وقعتی کی وجہ سے دانشوروں کی فکر، جذ بے اور اعصاب پر خاتمے کا احساس کچھ اس درجہ حاوی ہوگیا ہے کہ ہمارے دور کو ’’عہدِ مرگ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جانے لگا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارا ذہن فنا کےتصور سے بالکل عاری ہے بلکہ ہمارے حافظے میں آتشِ نمرود سے ریگزارِ کربلا تک کی داستانِ شجاعت اب بھی محفوظ ہے ۔ طوفانِ نوح کا علم سب کو ہے اور قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا اس سے بھی ہم آگاہ ہیں۔ لیکن آج جس طرح سماج دشمن اور انسان دشمن لوگوں نے ٹکنالوجی کے مخصوص استعمال کے ذریعے انسانوں کی موت کو اتنا سستا اور آسان بنا دیا ہے کے اس باعث خاتمے کے احساس نے انسان کو اندرسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف اکیسویں صدی کے اِن 18برسوں میںتشدد کے سبب اتنی اموات ہوئی ہیں ،کہ اتنی اموات پچھلے دو سو سال میں نہیں ہوئیں۔ شاید ولیم فاکنر نے صحیح کہا تھا: ’’آج ہر آدمی کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ میں کب کہاں بھَک سے اُڑ جائوں ‘‘۔
ایک ایسے دور میں جب احساسِ مرگ نہ صرف انسان کے ذہن بلکہ اعصاب پر بھی سوار ہوچکا ہے، ’کربلا‘ سے حاصل کیے گئے سبق کا اعادہ کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ کربلا تاریخ کا ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ مسلسل جد و جہد کا استعارہ بھی ہے۔
سال بیلو نے تحریر کیا تھا کہ ’’ انسان ہونے کے کیا معنی ہیں؟ایک شہر میں، ایک صدی میں، ایک ہجوم میں ، ایک تغیر میں جسے سائنس نے ایک منٹ میں بدل دیا ہے۔ ایک منظم قوت جس نے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جو میکانکی عمل سے وجود میں آئی ہے۔ ایک ایسا سماج ہے جس میں برادری نہیں ہے اور فرد کی حیثیت ختم ہورہی ہے۔‘‘ یہاں بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ بشمول سماج و فرد تاریخ ، ادب ، آرٹ اور انسان کی ایک منفی تعبیر و تشریح سامنے آرہی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے نظریات کو فروغ دینے کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ آخر کیوں رائج قدروں کی نفی کرتے ہوئے انسان کو محض طبقاتی کشمکش، جنسی جبلت اور لاشعوری جبریت کا پُتلا گردانا جا رہا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ ساری صورتِ حال سائنسی دریافتوں اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ ٹیکنالوجی شروع سے ہی صاحبِ زر کے ہاتھوں گروی رہی ہے۔ یورپ کے نشاۃالثانیہ کے بعد جب وہاں کےعوام م چرچ اور سرمایہ داروں کی جکڑ بندی سے آزاد ہوئے تو ٹکنالوجی کے اسپانسرس بہت گھبرائے۔ انھوں نے اس صورتِ حال سے بچائو کی یہ تدبیر کی کہ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ نظریات بھی اسپانسر کرنے لگے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب یورپ کے دیہات اُجڑ رہے تھے اور شہر کانکریٹ کے جنگل بن رہے تھے اس وقت ایک طرف مساوات ، بھائی چارے اور انسانی حقوق کی باتیں ہورہی تھیں اور دوسری طرف مزدوروں کے حقوق پامال ہورہے تھے۔ جب یہی مزدور بھوک سے بلبلا کر احتجاج کرتے تو نظریات کی افیون انھیں سلادینے کے لیے کارگر ثابت ہوتی۔ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بودریلا جیسے دانشور نے عراق امریکہ جنگ سے متعلق یہ تحریر کیا:
Gulf war did not happen, and was only as televized simulation of a war
(خلیجی جنگ واقع نہیں ہوئی ، یہ صرف ٹیلی ویژن کے ذریعے پیش کی گئی جنگ کی شبییہ محض تھی۔)
ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے زمانے میں اظہار و دانش کے تقریباً تمام ذرائع فروخت ہوچکے ہیں۔ دانشور، تخلیق کار، صحافی ایک لمبی فہرست ہے بازار میں اپنے دام لگانے والوں کی۔ دراصل کارپوریٹ ایک ایسا سماج تیار کررہا ہے جو مارکیٹ یا بازاری سماج ہو۔ جہاں ٹوتھ پیسٹ سے لے کر انسانی رشتے سبھی بازار کے بکائو مال بن جائیں۔اس کام کی ابتدا دنیا کو ایک عالمی گائوں بنانے کی کوشش سے شروع ہوچکی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس نئے سماج کی تشکیل کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس خزانے تک پہنچنے کا پاس ورڈ موجود ہے۔ وہ اپنی اتھاہ دولت کے بوتے پر پیپسی کلچر رائج کررہے ہیں، ناچنے گانے والوں کو عوامی ہیرو بنا رہے ہیں، ٹی وی چینلس، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے اپنے من چاہے رواج کو عوام میں رائج کررہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ تازہ ہوا ہر ذی نفس کی بنیادی ضرورت ہے مگر تازہ ہوا کے نام پر طرح طرح کی کثافت کو برداشت کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہمیں اس ثقافتی ، سیاسی اور معاشی یلغار کا مقابلہ کبھی نہ کبھی کرنا ہی ہوگا۔ ایک ایسی یلغار جو صرف لامحدود ہی نہیں متنوع جہات کی حامل بھی ہے اور جس کے پاس وقتی فوائد اور سرور و نشاط کی الف لیلیٰ بھی ہے۔
اس برائی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ہمیں ایندھن تاریخ سے ہی حاصل کرنا ہوگا۔ امام حسینؓ سے ہم آج بھی برائی کے خلاف عَلم بلند کرنے کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ کربلا کی سرزمین کو اپنے لہو کی خوشبو سے معطر کرتے وقت امامَ حسینؓ اور ان کے قافلے کا مقصد نہ حصولِ خلافت تھا نہ حصولِ زر بلکہ ان کے نزدیک تو ایک عظیم مقصد تھا، تبدیلی کے اس عمل کے خلاف سینہ سپر ہوجانا جس کا غالب پہلو برائی تھی۔
آج ہمارے سامنے بھی تبدیلی کا ویسا ہی عمل جاری ہے جس میں غالب پہلو برائی کا ہی ہے۔ مگر ہمارے درمیان امامِ حسینؓ نہیں ہیں ، ہوبھی نہیں سکتے:
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گر چہ ہے تابدار ابھی گیسوے دجلہ و فُرات
لیکن اس پر فتن دور میں ہم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ برا کو برا کہیں۔ ہر چند کہ آہ بھی بھرنے میں بدنام ہونے کا خطرہ ہے تاہم یہ بھی تو سچ ہے :
مشکیزے سے پیاس کا رشتہ بہت پرانا ہے

_______________________________________

مضمون نگارمعروف ادبہ سہ ماہی ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی پورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘کے مدیر ہیں۔

agedy of Karbala by Dr. Asrar Ahmad

Articles

سانحۂ کربلا ڈاکٹر اسرار احمد

ڈاکٹر اسرار احمد

Nadi A Short Story by Salam Bin Razzaq

Articles

ندی سلام بن رزاق

سلام بن رزاق

ندی بہت بڑی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا پاٹ کافی چوڑا رہا ہوگا۔ مگر اب تو بے چاری سوکھ ساکھ کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے دونوں کناروں پر تاڑ اور ناریل کے آسمان گیر درخت اگے ہوئے تھے جن کے گھنے سائے ندی کے گہرے، شانت اور شفاف پانی میں یوں ایستادہ نظر آتے جیسے کسی پر جلال بادشاہ کے دربار میں مصاحب سرنیوڑ ھائے کھڑے ہوں۔ مگر اب درختوں کی ساری شادابی لُٹ چکی تھی اور ان کے ٹُنڈ مُنڈ خشک صورت تنے کسی قحط زدہ علاقے کے بھوکے کنگال لوگوں کی طرح بے رونق اور نادار لگ رہے تھے۔
ندی بہت بڑی تھی اور اس کا پاٹ اب بھی گزری ہوئی عظمت اور وسعت کی غمازی کرتا نظر آتا۔ مگر اب اس طرح خشک ہوگئی تھی کہ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے بے ڈھگے ٹاپو ابھر آئے تھے۔ حدِّ نظر تک چھوٹے بڑے بے شمار ٹاپو۔
اب ان ٹاپوئوں پر کہیں کہیں خودرو گھاس اور جنگلی جھاڑیاں بھی اُگ آئی تھیں، جن میں ہزاروں لاکھوں ٹڈے اور جھینگر شب وروز پُھدکتے رہتے۔ گھاس کے نیچے کیچڑ میں لاکھوں کیڑے رینگتے کلبلاتے رہتے اور جب دوپہر کی تپا دینے والی دھوپ میں کم کم گدلا بدبودار پانی تپنے لگتا تو ندی کی مچھلیاں اس طرح ادھر اُدھر منہ چھپاتی پھرتیں جیسے کسی پردہ دار گھرانے کی بہو بیٹیاں بھرے بازار میں بے نقاب کردی گئی ہوں۔ مچھلیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی تھی اور ٹڈے، جھینگر،کیڑے مکوڑوں اور مینڈکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ دوپہر ڈھلے ندی کے نیم گرم، گدلے پانی سے چھوٹے بڑے بے شمار مینڈک نکلتے اور ان ٹاپوئوں پر بیٹھ کر ٹراتے رہتے۔ ہر ٹاپو پر ایک بڑے مینڈک کا قبضہ تھا اور ہر ایک کے چھوٹے چھوٹے سیکڑوں معتقد یا حلقہ بگوش تھے۔ جو ہر دم اس کی ٹراہٹ کی تائید میں خود بھی ٹراتے رہتے۔
’’میں اس ندی کا وارث ہوں۔‘‘ بڑا مینڈک۔
’’ہاں! آپ اس ندی کے وارث ہیں۔‘‘ چھوٹے مینڈک۔
’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر میرا اختیار ہے۔‘‘
’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر آپ کا اختیار ہے۔‘‘
’’میں… میں… چاہوں تو ……‘‘
بڑا مینڈک مناسب دعوے کے لیے آنکھیں مٹکا مٹکا کر ادھر ادھر دیکھتا اور ذرا سے توقف کے بعد کہتا۔
’’میں چاہوں تو ایک جست میں اس چمکتے سورج کو آسمان سے نوچ کر پاتال میں پھینک دوں۔‘‘
’’آپ چاہیں تو…‘‘ چھوٹے مینڈک دھوپ سے اپنی آنکھوں کو مچماتے ہوئے حسبِ عادت بڑے مینڈک کی تائید کرتے کہ بڑے مینڈک کی خوشنودی ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔
پھر پاس ہی کے کسی ٹاپو سے ایک موٹے پیٹ اور پتلی ٹانگوں والا کوئی مینڈک گمبھیر آواز میں اپنے معتقد سے پوچھتا۔
’’کون ہے یہ؟ کون ہے یہ احمق؟‘‘
ایک طراّر مینڈک پُھدک کر کہتا۔
ـ’’وہی ہمارا ذلیل پڑوسی ہے۔ جس کے اجداد حضور کے کفش برداررہ چکے ہیں۔‘‘
’’اوہو، اس نمک حرام سے کہو کہ سورج پر کمند ڈالنے سے پہلے ہمارے قدم چومے کہ خورشید ہمارے نقشِ کف پاکے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اس کی لن ترانی کے جواب میں کسی تیسرے ٹاپو سے آواز آتی۔
’’یہ کون گستاخ ہے۔ اسے آگاہ کردو، اپنی زبان کو قابو میں رکھے کہ ہم زبان دروازوں کی زبانیں یوں کھینچ لیتے ہیں جیسے ملک الموت جسم سے روح۔‘‘
’’خاموش، خاموش، اس ندی کا ایک ایک ٹاپو ہماری زد میں ہے۔‘‘
اس کے بعد ہر ٹاپو سے ایک نئی آواز بلند ہونے لگتی۔ ہر آواز پہلی آواز سے زیادہ تیز ہر دعویٰ پہلے دعوے سے زیادہ بلند ورافع۔ ایسا شور مچتا کہ بے چاری مچھلیاں خوفزدہ ہوکر چہ بچوں کی تہوں میں جا چھپتیں۔ درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرند پھڑ پھڑا کر اڑتے اور جدھر جس کا سینگ سماتا چلا جاتا ٹرّا ٹراّ کر مینڈکوں کے گلے رُندھ جاتے، پھول پھول کر پیٹ پھٹ جاتے اور بیسوں مینڈک اپنے ہی بلند بانگ دعووںکے وزن تلے دب دب کر کچل جاتے۔ اور پھر دھیرے دھیرے تمام ٹاپوئوں پر ایک خوفناک سکوت طاری ہوجاتا نہ کسی مینڈک کی ٹرٹرنہ کسی جھینگرکی جھائیں جھائیں۔ مگر یہ سکوت ایک مختصر سے وقفے کے لیے ہوتا۔ دوسرے دن پھر مینڈک اپنے اپنے ٹاپوئوںپر جمع ہوتے اور پھر وہی لاف گزاف۔ ایک دن اسی طرح بڑے چھوٹے مینڈک اپنے اپنے ٹاپوئوں سے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ذلیل کر رہے تھے، گالیاں بک رہے تھے۔ مچھلیاں چھوٹے چھوٹے چہ بچوں میں اوپری سطح پر تیرتی اس لڑائی کو خوف اور حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے گھاس اور پودوں کی جڑوں میں دبک گئے تھے۔ ندی کے کنارے پھدکتی چڑیاں دم بخود اس بحث کو سن رہی تھیں۔
تبھی ندی کے ایک گوشے میں کچھ ہلچل سی ہوئی۔ پہلے تو سطح آب پر بڑے بڑے بلبلے پیدا ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئی پانی کی سطح پر نمودار ہوا۔ یہ ایک بے حد بوڑھا مگر مچھ تھا۔ اتنا بوڑھا کہ اس کی کیچلیاں جھڑ چکی تھیں۔ دُم کے دانتے کندے پڑگئے تھے اور اس کی پشت پر باریک باریک سبزہ اگ آیا تھا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے دُم کو اس کیچڑ آلود پانی کی سطح پر دے مارا۔ ایک زور کا چھپا کا ہوا اور پانی کے چھینٹے اڑ کر دور دور تک پہنچے۔ مختلف ٹاپوئوں پر شور مچاتے مینڈک یک بیک چپ ہوگئے۔ سب اپنی پچھلی ٹانگوں پر اچک اچک کر اس آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ آخر سبوں نے بوڑھے مگر مچھ کو دیکھ لیا۔ سبھی مینڈک بوڑھے مگرمچھ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ بعض اس سے خوف زدہ بھی رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے آباواجداد کے مطابق بوڑھا مگر مچھ اس ندی کی بدلتی ہوئی تاریخ کا چشم دید گواہ تھا۔
اس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی ہستی صدیوں کے دوش پر قرنوں کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ تمام مینڈکوں نے ٹراّ ٹرا کر بوڑھے مگرمچھ کی جے جے کار کی۔ بوڑھے مگرمچھ نے اپنی بھاری دُم پٹک کر اور اپنا لمبا چوڑا جبڑا کھول کر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر رینگتا ہوا ایک اونچی چٹان پر چڑھ گیا۔ چٹان پر پہنچ کر اس نے ندی کے اطراف نگاہ ڈالی… اب ندی… ندی کہاں تھی؟ وہ تو بس چند ٹاپوئوں اور چہ بچوں کا مجموعہ ہوکر رہ گئی تھی۔ جگہ جگہ ریت کے خشک تو دے ابھر آئے تھے۔ کہیں کہیں گڈھوںمیں پانی کے بجائے صرف کیچڑ تھا۔ ندی کے دونوں کناروں پر خود روگھاس ضرور اگی ہوئی تھی مگر پانی کی کمی کے کارن گھاس کا رنگ بھی زرد پڑتا جارہا تھا۔ ناریل، سپاری اور تاڑ کے درخت بانس کے جنگل کی طرح خشک اور ویران لگ رہے تھے۔ ندی کی اس بدلی ہوئی کیفیت کو دیکھ کر مگرمچھ کا دل بھر آیا۔ قریب تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے جھرنے بہہ نکلتے۔ اس نے کمالِ ضبط سے ان آنسوئوں کو روکا۔ مباداندی کے یہ بے ضمیر باسی انھیں حسبِ روایت مگرمچھ کے آنسو کہہ کر ان کی تضحیک نہ کریں پھر اس نے اپنے دیدے گھما کر ادھر ادھر ٹاپوئوں پر بیٹھے مینڈکوں کو دیکھا۔ سارے مینڈک دم سادھے بیٹھے تھے۔ مگرمچھ نے پھنکار کر گلا صاف کیا، پھر بھرائی آواز میں بولا:
’’اے ندی کے باسیو! کبھی تم نے اس بلند چٹان سے ندی کو دیکھا ہے؟‘‘
تمام مینڈک ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر سبوں نے بیک زبان اعتراف کیا۔
’’نہیں… ہم نے اس بلند چٹان سے کبھی ندی کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’دیکھو! یہاں سے ندی کو دیکھو تو تم پر تمہارے بے بضاعت ٹاپوئوں کی حقیقت آشکار ہوجائے گی۔‘‘
’’مگر ہم وہاں سے ندی کو کیوں دیکھیں کہ ندی تو ہمارے لہو میں جاری و ساری ہے۔‘‘
’’عریاں حقیقتوں کو سیمابی لفظوں کا لباس نہ پہنائو کہ الفاظ جذبے کے اظہار کا بہت ادنیٰ ذریعہ ہیں۔ خود تسلّی، عارضی اطمینان کی سبیل ضرور ہے مگر یہی اطمینان مکمل تباہی کا پہلا بگل بھی ہے۔‘‘
تبھی ایک کونے سے ایک پستہ قد زرد فام مینڈک نے ٹرا کر کہا:
’’میں دیکھ سکتا ہوں۔ بلندی سے میں ندی کا نظارہ کر سکتا ہوں۔‘‘
تمام مینڈک اس زرد فام مینڈک کی طرف مڑے۔ وہ پندرہ بیس مینڈکوں کے کاندھوں پر چڑھا سینہ پھلائے نہایت حقارت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے مگرمچھ سے مخاطب ہوکر کہا:
’’اے دانائے راز! کیا میں ان تمام سفالی ہستیوں سے سر بلند نہیں ہوں کہ یہ ندی کراں تا کراں میری نگاہ کی زد میں ہے۔‘‘
ابھی اس کے الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ مینڈکوںکا اہرام لرزا اور ایک دوسرے کے کاندھوں پر چڑھے ہوئے مینڈک دھپ دھپ نیچے لڑھک گئے۔ دو چار کمزور مینڈکوں کی تو آنتیں نکل آئیں۔ بعض وہیں ڈھیر ہوگئے۔ ارد گرد کے ٹاپوئوں کے مینڈک بے تحاشا قہقہے لگانے لگے۔ ہنسی قہقہے، فقرے بازی اور شور و غوغا سے تھوڑی دیر تک کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔
آخر مگرمچھ کو مداخلت کرنی پڑی۔
’’خاموش، خاموش اے ندی کے باسیو! خاموش، یہ جائے مسرت نہیں مقام عبرت ہے کہ تمہاری چھوٹی چھوٹی نفرتوںنے تمہارے قد گھٹا دیے ہیں اور تم… تم سب اپنی ہی لاشوں پر قہقہے لگانے کے لیے زندہ ہو۔‘‘
’’اے صاحب عقل و دانش! کیا ہمیں اپنے دشمن کی مات پر خوش ہونے کا حق نہیں۔ یہ فتنۂ حرام عرصۂ دراز سے دوسروں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہمیں دھمکاتا رہتا تھا۔‘‘
’’دشمن!‘‘ مگرمچھ نے ایک گہری سانس کھینچی۔
’’تم نہیں جانتے کہ بعض اوقات دشمنی بھی تمہارے ظرف کا پیمانہ بن جاتی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو مرنے والے کی صورت میں تمہیں اپنی صورت دکھائی دے گی۔ کان کھول کر سنو۔ اس کی آواز میں تمہیں اپنی آواز سنائی دے گی۔ دشمن کی شناخت مشکل ہے اس لیے کہ دوست کی شناخت مشکل ہے۔‘‘
’’اے مدّبر وقت! تو ہی ہمیں کوئی تدبیر بتا کہ ہمارے دل نفرتوں کے غبار سے دُھل جائیں اور ہمارے سینے محبتوں کے نور سے معمور ہوجائیں۔ تجھے ہم عقل و فہم کا پتلا اور تجربات کا مرقع جانتے ہیں۔‘‘
’’اگر ماحول ساز گارنہ ہوتو تدّبر تضحیک کا نشانہ اور تجربہ تہمت کا بہانہ بن جاتا ہے یاد رکھو گھورے پر کبھی گلاب نہیں کھلتے۔ تم نے نفرت بوئی تھی نفرت ہی کاٹو گے……‘‘
’’مگر تیرے سوا کون ہماری رہنمائی کر سکتا ہے کہ ہم بالاتفاق رائے تجھے اپنا مرّبی سمجھتے ہیں۔‘‘
ایک چتکبرا مینڈک پھدک کر مگرمچھ کے قریب ہوتا ہوا مکھن چپڑے لہجے میں بولا۔ اور پھر اس انداز سے چاروں طرف دیدے گھمائے جیسے اپنے ہم جلیسوں سے کہہ رہا ہو۔ میرا کاٹا کبھی بھولے سے نہ پانی مانگے۔
بوڑھا مگرمچھ اس چالاک مینڈک کی نیت بھانپ گیا۔ ایک نگاہ غلط انداز اس پر ڈالی اور پھر دوسرے مینڈکوںسے مخاطب ہوا۔
’’مرّبی ایک ایسے بد طینت شخص کو کہتے ہیں جو زیر دستوں کی دست گیری محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ تاحیات اس کی غلامی کا دم بھرتے رہیں۔‘‘
مگرمچھ کے اس کرارے جواب نے مختلف ٹاپوئوں میں ایک غلغلہ ڈال دیا۔ دیر تک مینڈک ٹراتے اور قہقہے لگاتے رہے اور وہ چت کبرا مینڈک غصے اور ندامت سے پیچ و تاب کھانے لگا۔ جب شور ذراکم ہوا تو چت کبرا مینڈک ہوا میں قلابازی کھاتا ہوا چیخا۔
’’اَنا… اے ناصح نامہربان، تیری تلخ نوائی نے میری انا کو لہو لہان کر دیا۔ اپنی انا کی حفاظت میری زندگی کا مقصد اعلیٰ ہے۔ میں تلوار کا گھائوسہہ سکتا ہوں۔ اپنی انا پر ضرب نہیں سہہ سکتا۔‘‘
’’اَنا‘‘…… مگرمچھ نے اس چھوٹے سے مینڈک کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے حقارت سے کہا۔
’’چیونٹی اپنے منہ میں شکر کا دانہ لیے چلتی ہے تو اپنی دانست میں سات پہاڑوں کا بوجھ اس پر لدا ہوتا ہے۔ تم اپنی ڈیڑھ انچ کی انانیت کو آخر اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہو جو پانی کے ایک ریلے سے بہہ جاتی ہے، ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے اڑجاتی ہے۔ جب تک تمہاری انانیت تمہارے وجود کا حصہ نہیں بنتی، وہ چھپکلی کی کٹی دُم کی مانند بے حقیقت اور حقیر ہے۔ تمہاری مشکل یہ ہے کہ تم سب چھوٹے چھوٹے جزیروں میںبٹے ہو اور ہر کوئی اپنے جزیرے کو کرّہ ارض کے برابر سمجھتا ہے۔‘‘
مگرمچھ کا یہ وار بہت صاف اور تیکھا تھا۔ شدید تکلیف سے ان کے لہو میں گرہیں پڑ گئیں۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ غصہ ذلّت اور ندامت نے ان کی عجیب کیفیت کردی تھی۔ انھیں لگ رہا تھا کوئی انھیں رسّی کی طرح بٹتا جارہا ہے۔ مگر وہ کیا کر سکتے تھے کہ ان کے پاس نہ سانپ کا سا پھن تھا، نہ بچھو کا ساڈنک۔ البتہ وہ چیخ سکتے تھے کہ اب ان کی چیخ ہی ان کے وجود کی گواہی بن سکتی تھی۔ لہذا ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ بیک زبان ٹرّانے لگے۔ اپنی ہستی کی انتہائی بنیادوں سے ٹرّانے لگے۔ مگرمچھ ضبط و تحمل سے ان کی ٹراہٹ سنتا رہا۔ اور خاموشی سے ان کے گلوں کی پھولتی پچکتی جھلیوں کو دیکھتا رہا۔ جب ٹراتے ٹراتے ان کی گردنوں کی جھلیاں لٹک گئیں، پیٹ پچک گئے۔ تب مگرمچھ نے آہستہ سے گردن اٹھائی۔ یہاں سے وہاں تک بکھرے ہوئے مینڈکوں پر ایک متاسفانہ نگاہ ڈالی، چھوٹے بڑے، نیلے پیلے، کالے، سفید، دبلے پتلے، موٹے تگڑے۔ سارے کے سارے مینڈک منہ کھولے، گردنیں ڈالے گہری گہری سانسیں لے رہے تھے۔ اب ان کی آخری چیخ بھی ان کے سینے کی لحد میں سوچکی تھی۔ آخر ایک طویل وقفے کے بعد مگرمچھ گویا ہوا۔
’’اے ندی کے باسیو! تم میں سے ہر کوئی خود غرضی کے محور پر پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے۔ تمہاری نظروں میں سارے رنگ یوں گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ اب رنگوں کی تمیز ممکن نہیں۔ لہذا اب میرے پاس تم سب کے لیے ایک سفّاک دعا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں دعا مانگتا ہوں۔ دعا کے اختتام پر بآوازِ بلند ’آمین‘ کہنا۔ یہی تمہاری نجات کا آخری حیلہ ہے۔‘‘
مینڈکوں نے مگرمچھ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ ٹُکر ٹُکر اسے گھورتے رہے۔ اب اجالے کے پر سمٹنے لگے تھے۔ سورج ایک کیکرکے دوشاخے میں پھنسا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کے خون کی لالی قطرہ قطرہ ندی کے چہ بچوں میں سونا گھول رہی تھی۔ فضا میں ایک عجب سی دل کو مسوس دینے والی اداسی بس گئی تھی۔ تبھی مگرمچھ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا۔ آنکھیں بند کرلیں اور دعا مانگنے لگا۔
’’اے بحروبر کے مالک! اے خشکی کو تری اور تری کو خشکی میں بدلنے والے… زمانہ بیت گیا یہ ندی سوکھتی جارہی ہے اور ہم کہ جنھیں ایک ہی ندی کے باسی کہلانا تھا، الگ الگ ٹاپوئوں میں بٹ گئے ہیں۔ اے قطرے سے دریا بہانے والے اور ندیوں کو سمندر سے ملانے والے ہمارے رب! ہماری اس سوکھی ندی میں کسی صورت باڑھ کا سامان پیدا کر، تاکہ ہم جوان چھوٹے چھوٹے ٹاپوئوں میں تقسیم ہوگئے ہیں پھر اسی ندی میں گھل مل جائیں۔ اور اس کے وسیع دامن میں جذب ہوکر اسی کا ایک حصہ بن جائیں!
سیلاب! صرف ایک تندو تیز سیلاب!!‘‘
مگرمچھ دعا ختم کرکے تھوڑی دیر تک آنکھیں موندے مینڈکوں کے ’آمین‘ کہنے کا منتظر رہا۔ مگر جب کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی کہیں سے ’آمین‘ کی صدا نہیں آئی تب اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ارد گرد کے ٹاپو خالی پڑے تھے۔ تمام مینڈک ندی کے کم کم، گدلے اور بدبودار پانی میں ڈبکیاں لگا چکے تھے……
٭٭٭

Nabe E Kareem Batoor Mahir E Nafsiyat

Articles

نبیِ اکرم بطور ماہرِ نفسیات سیّد سعدیہ غزنوی

سیّد سعدیہ غزنوی

Sanah E Karbala Batoor Shaeri Isteara

Articles

سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ پروفیسر گوپی چند نارنگ

پروفیسر گوپی چند نارنگ

Kalki Avatar by Dr. Vedparkash Upadhye

Articles

کلکی اوتار ڈاکٹر وید پرکاش اُہادھیائے

ڈاکٹر وید پرکاش اُہادھیائے

Ganga Jamuni Tahzeeb ki Tashkeel mein Sufia

Articles

گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل میں صوفیائے کرام کاحصہ ازپروفیسر صاحب علی

ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ سے مذہبی اورروحانی عظمت کی حامل رہی ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے رشی منی اورصوفی سنتوں نے تصوف اوربھکتی کی تعلیمات کو عام کرنے میں اہم کرداراداکیاہے ۔ہندودھرم کے رشی منی اورسنت نے عبادت وریاضت کے علاوہ نفس کشی میں سرگرم عمل رہے۔بدھ دھرم اورسکھ مذہب کی اشاعت اور تعلیمات بھی ہندوستان ہی سے شروع ہوئیں ۔ مسلمان صوفی اوربزرگان دین نے بھی اسی دیارِ ہند کو اپنی رشدوہدایت ، اخلاص ومحبت کی تعلیم وترویج کے لیے پسندکیا۔
مذہب ِ اسلام جنوبی ہندوستان میں پہلے پہل ملابار کے ساحلی علاقوں میں پھیلا۔ اِنھیں ابتدائی ایام میں خانہ بدوش زندگی گزارنے والے صوفیائے کرام نے رشدوہدایت کے ساتھ ساتھ صلح وآشتی ،محبت وبھائی چارگی کی تعلیم کی تبلیغ واشاعت شروع کی ۔ ہندوستان میں باہرسے تشریف لانے والے سب سے پہلے صوفی غالباً حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین چشتی اجمیری ہیں جوراجا پرتھو ی راج کے عہد حکومت میں 592ہجری میں اجمیرتشریف لائے اورمحبت واخلاق کا سبق دینا شروع کیا ۔ آپ کی خانقاہ میں امیروغریب اورحکومت کے اراکین سبھی لوگ حاضری دیتے اورفیضیاب ہوتے ۔ آج بھی لاکھوں بندگانِ خدا بلاتفریق مذہب وملت آپ کے آستانے اجمیرشریف پرحاضر ہوتے ہیں اورخیروبرکت حاصل کرتے ہیں۔خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی تعلیمات کے حوالے سے وفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے کہ :
’’ وہ دہلی جس پر اہل دہلی کا تصرف تھا اور کفر والحاد کی ہوا میں پوری فضا بکھری ہوئی تھی ۔حضرت خواجہ کے چند روزہ قیام میںسات سو سے زیادہ ہندو ان کے فیض سے مشرف بہ اسلام ہوئے اور اجمیر میں جو پہلی جماعت ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئی ان میں راجہ کا پجاری اور گُرو بھی تھا‘‘
( پریچنگ آف اسلام اردو ترجمہ ص ۲۸۱)
حضرت خواجہ غریب نوازنے متعدد مریدوںکواجازت وخلافت سے نوازااوراپنا جانشیں حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ کو بنایااوردہلی میں رہنے کی تاکید فرمائی۔
ایک طرف دہلی میں حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ جو بے نیازی اور ضبط نفس کی ایک زندہ مثال تھے، اپنے صوفیانہ خیالات کو عوام میں پھیلارہے تھے تودوسری طرف آپ کے مرید وجانشیں حضرت بابافریدالدین گنج شکرؒ پنجاب میں رشدوہدایت اورتبلیغ اسلام کی اشاعت کررہے تھے ۔ کچھ ہی عرصے میں ہندوستان کے مختلف حصوں اورخطوںمیں حضرت کے مریدین وخلفا لوگوں میں خلوص ومحبت، باہمی اتحاد اوراطاعت خداوندی کی تبلیغ کرنے لگے ۔ حضرت بابا فریدؒ نے اپنا جانشیں اپنے چہیتے مرید وخلیفہ حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاکو نامزد کیا اوردہلی کی ولایت آپ کو تفویض کی ۔ آپ کی خدمت میں اراکینِ سلطنت اوربادشاہ وقت خیروبرکت کے لیے حاضرہوتے تو آپ انھیں عدل وانصاف ، رعایاپروری اورغربانوازی کی تاکید فرماتے۔ آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے مریدین اورخلفا کوتبرکات سے نوازا اوران کو خاص خاص مقامات پر رشدوہدایت کرنے کا حکم صادرفرمایا۔حضرت برہان الدین غریبؒکو دکن کاعلاقہ عطافرمایا ۔ حضرت اخی سراج کو بنگال ، جن کے مرید وخلیفہ علاء الحق پنڈوی ؒ سے یوپی اوربہارکا خطہ فیضیاب ہوا۔ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کو اپنا جانشیں بنایا۔ ان تمام صوفیائے کرام نے تصوف کی تعلیمات عام کرنے میں اہم رول اداکیا ۔ ان کی خانقاہیں آج بھی رشدوہدایت کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں۔صوفیا کی خانقاہوں کے تعلق سے پروفیسر نثاراحمد فاروقی نے لکھا ہے کہ :
’’چشتی صوفیانے اپنے خلفا کو دوردراز علاقوں میں بھیج کررشدوہدایت کافیضان عام کردیاتھا۔ آٹھویں صدی ہجری کے طلوع ہونے تک بنگال کے مشرقی علاقے میں جنوب میں دیوگری اورگلبرگہ ، شمال میں کشمیر اورجنوب مغرب میں گجرات کاٹھیاواڑ تک چشتی خانقاہیں قائم ہوچکی تھیں۔ … چشتی خانقاہوں میں جوگیوںکی آمدورفت تھی اوران سے روحانی تجربوں کے اصول ورسوم پر تبادلۂ خیال بھی ہوتاتھا۔‘‘
(اردواورمشترکہ ہندوستانی تہذیب : مرتبہ ڈاکٹرکامل قریشی،ص:216-17)
تاریخ شاہد ہے کہ محمد تغلق نے جب دیوگری کو اپنی سلطنت کادارالخلافہ بنایاتو جنوبی ہند میں صوفی سلسلے کو کافی تقویت ملی ۔ حضرت برہان الدین غریب ؒ نے دکن اورمہاراشٹرمیں تصوف کی تعلیمات اورپیغام حق کاکام انجام دیا۔ آپ دیوگری اورخلدآباد کے علاقے میں تقریباً 28برس تک رشد وہدایت کا کام انجام دیتے رہے ۔ اکابر صوفیا اور مشائخ میں مولانا زرداری ،امیرحسن سنجری ، سید یوسف والدخواجہ بندہ نواز گیسودراز ، خواجہ حسین اورخواجہ عمرشمال کی جانب سے دارالخلافہ دیوگری میں تشریف لائے ۔ ان صوفیائے کرام نے یہاں کی سماجی ، تہذیبی ادبی ، مذہبی اوراخلاقی زندگی کو متاثرکیا۔ تصوف کی تعلیمات کے ذریعے ربط ضبط بڑھاجس سے شمالی اورجنوبی ہند کی تہذیبی اورلسانی مشکلیں کسی حد تک دورہوگئیںلہٰذا مختلف تہذیبوں اورمذہبوں میں میل ملاپ ہوا۔ ایک دوسرے کو جاننے اورسمجھنے کی راستے ہموارہوئے چنانچہ لوگوں کے دلوںمیں بغض وتعصب اورنفرت کی جگہ رفتہ رفتہ بھائی چارگی نے لے لی۔اصل میں صوفیاے کرام نے اپنی روحانی طاقت ،اپنے کرداراور اپنی گفتار،اپنے ایثار اور اپنے خلوص و رواداری سے ایسی فضا خلق کی جو امن و آشتی، تزکیہ نفس اور اصلاح معاشرہ کی ضامن تھی۔
صوفیائے کرام کی خانقاہیں مختلف مذاہب اورمختلف زبان بولنے والوں کی آماجگاہ ہوتی تھیںاوراب بھی ہیں ۔ یہیں پر مختلف تہذیبوں اورزبانوں کا آپسی لین دین ہوا۔ ان کی خانقاہیں بنی نوع انسان کی ہم آہنگی کاذریعہ بنیں ۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئے ۔ ذات پات اوررنگ ونسل سے ہٹ کر تمام انسانوں کے لیے صوفیانے عزت ووقار چاہا۔چنانچہ ان کی عوامی ہمدردی ، خدمت خلق، روادارانہ اخلاق اورحُسنِ سلوک نے اُنھیں سماج میں ایک معتبر مقام دیا۔ صوفیائے کرام کی عملی زندگی غیرمسلموں کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ تھی ۔ اس لیے غیروں کا متاثرہونا لازمی تھا ۔ عملی زندگی میں صوفیوں اورسادھوسنتوں میں کافی مشابہت رہی ہے۔ ایک طرف پیرومرشد کارشتہ ہے تودوسری طرف گرو اورچیلے کا۔یہی وہ طور تھے جن کے تحت کبھی شنکراچاریہ اوررامانج نے بھکتی تحریک کے ذریعے منزل حقیقت تک پہنچنے کا راستہ بتایااورکبھی پریم مارگی سنتوں نے ذات پات کی تفریق کے خلاف بغاوت کانعرہ بلند کیا اورتمام انسانوںمیں محبت اوراخوت کی تبلیغ کوبنیادی مقصد قراردیا۔ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے صوفی سنت گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار ہیں۔
صوفیائے کرام نے تصوف کی تعلیمات کی نشرواشاعت پر زوردیا ۔ ان کے نزدیک فقروقناعت ، تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب، نفسیاتی خواہشات سے پرہیز اورمعبودحقیقی کی عبادت وریاضت کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔صوفیا تصوف کی تعلیمات کے تحت ملک کے عوام وخواص میں اتحادواتفاق اورجذباتی ہم آہنگی قائم کرنا چاہتے تھے اورسارے ملک کو انسانیت کے رشتے میں جوڑنا چاہتے تھے ۔ غالباً اسی لیے خانقاہوں پر قوالی کی محفلیں منعقد کی جانے لگیں ۔ مزاروں پر پھولوںکی چادریںچڑھائی جانے لگیں ۔ گاگراورصندل وغیرہ کی رسمیں اداکی جانے لگیں۔اس طرح وطن سے محبت کاجذبہ بھی ابھرا اوروطنیت کا شعوربھی جاگا۔
گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تصوف کی تعلیمات کے بعض پہلو بھکتی تحریک سے گہری مماثلت رکھتے تھے ۔ یعنی دونوں طرزفکر میں انسانی عظمت ومساوات ، احترامِ آدم ورواداری، ایک دوسرے سے محبت اورایسے عشق کاتصور پایاجاتاہے جس میں ہرطرح کے امتیازات مٹ جاتے ہیں ، خاص طورسے تصوف میں تو منافرت کے بجائے محبت ،وسیع المشربی ، عوام دوستی اورآزاد خیالی کو اس حد تک اہمیت دی جانے لگی کہ ہرمذہب کو محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کاذریعہ سمجھاگیا اوریہاں تک کہہ دیا گیا اگر خلوصِ دل سے خدا کی عبادت کی جائے تو وہ بت خانے میں بھی ہے اورکلیسا میں بھی ۔ اس طرح یہ با ت واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام ہرمذہب کی انفرادیت کے قائل بھی تھے اورایک دوسرے میں اتحاد واتفاق اورجذباتی ہم آہنگی بھی قائم ودائم دیکھنا چاہتے تھے ۔یہی اصل میں گنگا جمنی تہذیب ہے ۔اس تہذیب کی رواداری کے تمام عناصر ہمارے صوفی سنتوں کی عملی زندگی میںدیکھنے کو ملتے ہیں۔
حضرت بندہ نواز گیسودراز جید عالمِ دین تھے ۔ آپ نے اسلامیات کے علاوہ ہندودھرم کامطالعہ بھی کیاتھا اورسنسکرت زبان سے بھی واقف تھے ۔ آپ نے دکن میں لوگوں کی سماجی ، مذہبی اورروحانی زندگی پر زبردست اثر چھوڑاہے ۔ آپ کی خانقاہ سے تمام لوگ آج بھی فیض حاصل کرتے ہیں ۔آپ کی رواداری اوروسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ آپ ایسے لوگوں کی سخت تنقید کرتے تھے جو ضدی اورکٹر مزاج ہوتے تھے اورجو مختلف مذاہب اورزبان کے میل جول میں مانع ہوتے ۔ رواداری کی ایک مثال سید محمد غوث گوالیاری کی بھی ہے ۔آپ ہندومسلم دونوں مذاہب کے ماہرتھے ۔ حضرت گوالیاری نے ہندوئوں کے تصوف کی ایک کتاب ’’امرت کنڈ‘‘ کافارسی میں ترجمہ کرکے مسلم صوفیوں کے سامنے پیش کیااس ترجمے کے ذریعے ہندو یوگی روایات بھی تصوف میں شامل ہوگئیں جو تصوف کے فروغ میں نہایت موثر ثابت ہوئیں۔ان کی خانقاہ میں ہندواورمسلمان دونوںکو ایک نظرسے دیکھاجاتاتھا ،کہاجاتاہے کہ مشہور موسیقارتان سین ،حضرت گوالیاری کے بڑے معتقد تھے ۔ اسی طرح اجمیرکے حمیدالدین شیخ نے اپنے ایک مریدکو صرف اس لیے اپنے حلقے سے خارج کردیا تھا کہ وہ مذہب کی ثانوی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتاتھا اورغیر مسلم کی اصل روح کے اندر جھانکنے سے قاصرتھا۔ مذکورہ گفتگوسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم صوفیوں کے دیگر تمام مذاہب کے سادھوسنتوں ،رشی منیوں اورگروئوں سے تعلقات استوارتھے ۔ وہ آپس میں عبادت وریاضت اورروحانی معاملات میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے ۔ اصل میں ان میں باہم محبت بھی ہوتی تھی۔
عرض کیاجاچکاہے کہ مسلمانوں کی طرح ہندوئوں میں بھی اصلاحی اورروحانی تحریکیں شروع ہوئی تھیں۔شمالی ہند میں جے دیو، میرابائی ، رامانند ،کبیر مہاراشٹرااورگجرات میں گیانیشور، بنگال میں جیتنیہ اورکرناٹک میںلنکایت کی تعلیمات عوام الناس کے لیے تھیں۔بلاتفریق مذہب وملت ہرطبقے کے لوگوںکو ان تحریکوںمیں شریک ہونے کی دعوت عام تھی ۔ان تحریکوںمیںہندوئوںکے علاوہ مسلمانوںنے بھی شرکت کی۔ یہ خیال عام ہے کہ انھیں تحریکوں سے مسلمانوںمیں ہندی شاعری مقبول ہوئی۔چنانچہ مُلّا قطبن، ملک محمد جائسی ،عبدالرحیم خانخاناں،علاء الدین ،شیخ عثمان، شیخ نبی ،نورمحمد اورفاصل شاہ وغیرہ نے اپنی ہندی شاعری میں ہندوئوں اورمسلمانوںکو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کیں۔ مختصریہ کہ ہندوئوں کی اصلاحی اورروحانی تحریکوںکافیضان ہرایک کے لیے عام تھاخواہ وہ کسی بھی مذہب اورپنتھ کاپیروکارہو۔
اس بات کواورواضح کرتاچلوں کہ صوفیائے کرام سماج اور گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل میں کس طرح اپنارول اداکرتے رہے ؟ انھیں قوت کہاں سے ملتی رہی کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہوتے گئے ۔ قرآن اور حدیث سے اس کے اشارے ملتے ہیں کہ صوفیا کا مطمحِ نظر اللہ رب العزت سے محبت کرناتھا اوربس۔ خداسے محبت کرنے کاطریقہ خود خدانے بتایاہے کہ اس کے نبی کی اتباع کی جائے اوراتباع اُسی صورت میں ممکن ہے کہ نبی سے محبت کی جائے ۔ معلوم ہواکہ اللہ سے محبت کرنے کے لیے نبی سے محبت کرنا لازمی ہے ۔ یعنی بغیرعشقِ محمد خداپر ستی چہ معنی دارد ،اورجب آدمی اللہ اوراس کے رسول دونوں سے والہانہ محبت کرنے لگتاہے تو اس کے اورخدا کے درمیان فاصلے ختم ہوجاتے ہیں ۔ نگارخانۂ رحمت کے دَراُس کے لیے واہوجاتے ہیں ، اوربقول علامہ اقبال اُس کاہاتھ خداکاہاتھ ہوجاتاہے ۔اس منزل پر پہنچنے کے بعد صوفیائے کرام تہذیب اورمعاشرے کی تشکیل واصلاح کاکام اللہ کی اُسی دی ہوئی قوت سے لیتے تھے ۔ چنانچہ وہ جس طرف بھی نظرِکرم کرتے تھے قوم کی قوم معاشرے کامعاشرہ سنورجاتاتھا اورقوموںکے ذہن وشعورمیں انقلاب ِ عظیم برپا ہوجاتا تھا۔ اس حقیقت کااعتراف ہمارے علمائے دین نے کیاہے کہ صوفیائے کرام اوراولیائے عظام کی طاقت وتوانائی کاندازہ لگانا محال ہے۔تاہم مولوی عبدالحق اشارہ کرتے ہیںکہ:
’’…علماوامرابلکہ حکومتوں اوربادشاہوںسے بھی وہ کام نہیں ہوسکتاجوفقیراوردرویش کرگزرتے ہیں۔ بادشاہ کادربار خاص ہوتاہے اورفقیرکادربارعام ہے، جہاںبڑے چھوٹے، امیرغریب، عالم جاہل کاکوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ بادشاہ جان ومال کامالک ہے ۔ لیکن فقیر کاقبضہ دلوںپرہوتاہے اس لیے ان کااثرمحدودہوتاہے اوراِن کابے پایاں۔ اوریہی سبب ہے کہ درویش کو وہ قوت واقتدارحاصل ہوجاتاہے کہ بڑے بڑے جبّاراورباثروت بادشاہوں کو بھی اس کے سامنے سر جھکاناپڑتا ہے‘‘
(ابتدائی نشوونمامیں صوفیائے کرام کاحصہ،ص:7)
صوفیائے کرام نے اپنے حسن سلوک سے سماج میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں مثلاً بھید بھائو، اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کو دورکیا۔ ان کاسلوک سب کے ساتھ یکساں تھا خواہ وہ ہندوہویامسلمان ، آزادہویاغلام ، چھوٹاہویابڑا، شاہ ہویاگدا، غریب ہویامحروم سب کے لیے ان کا سلوک ہمدردانہ تھا۔ انھوں نے اپنی روحانی طاقت سے تمام لوگوںکے لیے خوش گوار سماجی ماحول پیداکیا۔ ایساماحول جہاں اتحادواتفاق اورجذباتی ہم آہنگی ہو۔ نظیراکبرآبادی کے الفاظ میں صوفیانے اس بات کی تبلیغ کی:
جھگڑانہ کرے مذہب وملت کاکوئی یاں
جس راہ میں جوآن پڑے خوش رہے ہرآں
زنّار گلے میں کہ بغل بیچ ہو قرآں
عاشق تو قلندرہے نہ ہندونہ مسلماں
کافرنہ کوئی صاحب اسلام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
مذکورہ بالا معروضات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات جو ہر دور میں انسانی قدروں کی تشکیل اور تزکیۂ قلب و تطہیر کی ضامن رہی ہے جو ذات پات ،مذہب اور عقیدے کی قیود سے آزاد بھی تھیں ۔قرون وسطیٰ میں ہندوستان کی روحانی فضا میںہماری گنگا جمنی تہذیب نشوونما پائی۔ اس کے برعکس جب ہم موجودہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تہذیب سیاسی، سماجی ،معاشی اور اخلاقی ہر طور سے ذات پات، فرقہ وارانہ گروہ بندیوں میں جکڑی ہوئی ہے ۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان گونا گوں مسائل کو حل کرنے کے لیے ہندوستانی معاشرے کو صوفیا اور بھکتی سنتوں کی روحانی تعلیمات کی جتنی ضرورت آج درپیش ہے اتنی ضرورت شاید ماضی میں بھی نہیں رہی ہوگی۔
مختصر یہ کہ صوفیوں اورسنتوں کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کرہمیں اس پر عمل پیراہونا چاہیے تاکہ ایک پُر امن اور ہم آہنگ سماج کی تشکیل میںجو ناقابل مصالحت اختلافات در آرہے ہیں ان کا خاتمہ ہو۔ انسان دوستی ،اعتدال پسندی ،صلح وآشتی اورخلوص ومحبت کا استحکام اُسی وقت ممکن ہے جب ہم تصوف کے سیاق میں صوفیاے کرام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔مزید براں اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرارہتے ہوئے دوسروںکے مذاہب کااحترام بھی کریں کیونکہ تہذیبی ہم آہنگی کے فروغ میں مذہبی رواداری کا جذبہ ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے ،یہ جذبہ اخوت، بھائی چارگی ، مساوات کے مقصد کی نشوونما کرسکتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک اچھے سماج کی تشکیل اور دور حاضر کے اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی طور سے پسماندہ معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ہمیں صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات کوعملی جامہ پہنانے کا عہد علامہ اقبال کے ان اشعارسے کرنا چاہیے:
آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں نقشِ دُوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ ، اِک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
٭٭٭

Urdu Nama 10 Edited by Prof. Saheb Ali

Articles

اردو نامہ ۱۰, پروفیسر صاحب علی

پروفیسر صاحب علی

Ashab e Kahaf aur Yajoj Majoj by Abul kalam Azad

Articles

, مولانا ابولکلام آزاد اصحابِ کہف اور یاجوج ماجوج

مولانا ابولکلام آزاد

JNU KAMRA NO 259

Articles

جے این یو کمرہ نمبر ۲۵۹

عمران عاکف خان