علی امام نقوی کے افسانوں کا فنی تجزیہ کیا جائے تو جو عناصر خاص طور پر متوجہ کرتے ہیں ان میں واقعہ کی فنی بُنت کاری، فضاکی تخلیق اور کردار نگاری کے ساتھ مکالمہ سازی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو چھوتے ہیں اسے محدود نہیں رکھتے یعنی وقوع کو صرف واقعہ کی طرح بیان نہیں کردیتے بلکہ اس میں ایک اکائی پیدا کر دیتے ہیں جس سے خیال اور واقعہ مل کر افسانہ بنتا ہے۔ اس بنا پر افسانے میں ایک ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جس میں کردار خود بخود فطری طریقے سے اپنی شناخت کرواتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں تکنیک اور بُنت کاری کا فن پوری آب و تاب کے ساتھ دمکتا ہے۔ دوسری اہم بات ان کا بیان اور انداز ہے۔ انھوں نے اپنے زیادہ تر افسانے بیانیہ انداز میں تخلیق کیے ہیں۔ باقر مہدی کے رسالے’ اظہار‘میں ’نوسرہار‘ سیّد عارف کے ’جواز‘ میں ’صورتِ حال‘ وغیرہ جیسے خالص علامتی و تجریدی افسانوں سے صرفِ نظر کریں تو ان کا انداز بیانیہ ہی رہا ہے۔مگر ان کا بیانیہ انداز بھی دبازت لیے ہوئے ہے۔ لفظوں کااستعمال اور جملوں کی ساخت کا طریقہ بھی بڑی حد تک نیا ہی ہے۔ اسے ان کے اسلوب کا حصہ کہا جاسکتا ہے۔زیرِ نظر مضمون میں ان کے صرف پانچ افسانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ’تھکے ہارے، کھوئی، ضرورت، وراثت اور نقش‘۔یہ پانچوں افسانے موضوع کے لحاظ سے مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ’تھکے ہارے‘ میں ہجرت کا غم اور ہجرت نہ کرنے کی مسرّت کا رنگ ہے۔ ’کھوئی‘ میں دو تہذیبوں کا تصادم ، جنگ، وفاشعاری اور یادوں کا رنگ ہے۔ ’ضرورت‘ میں سکھ مخالف فسادات کی لہو آمیزی اور مسلم روداری کا رنگ ہے۔ ’وراثت‘ میں رشتے ناتے، ذمہ داریاں اور بھوک کا رنگ ہے اور پانچواں افسانہ ’نقش‘ معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔
محولہ بالا مختلف رنگوں کی بنا پر ان کے افسانہ بیان کرنے کا علیحدہ انداز ابھرا ہے۔ ان افسانوں میں بعض اوقات واقعہ سامنے کا ہوتا ہے اور اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ اپنی پہچان کراتا ہے لیکن افسانے کی مشکل میں ڈھلنے کے بعد اس میں کئی معنوی سطحیں پیدا کردیتا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’تھکے ہارے‘ دہلی سے شائع ہوانے والے رسالے ’کتاب نما‘ میں ستمبر ۱۹۹۰کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس افسانے کی ابتدائی سطر قاری کو مکمل افسانہ پڑھنے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ افسانے کی ابتدا کچھ اس طرح ہوتی ہے:
’’تھکی ہوئی بوڑھی کی آنکھوں میں حسرتیں ہی حسرتیں ہیں ۔اس کا اکلوتا بیٹا ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا۔’سرجھکائے‘ زمانے بھر کی فکریں سجائے ، تھکی ہوئی بوڑھی آنکھوں نے بس ایک مرتبہ بیٹے کے چہرے کو دیکھا تھا۔ پھر وہ بیٹے کے پیروں پہ مرکوز ہوگئیں۔ کولہاپوری چپل کی پالش ماند پڑگئی تھی اور پیر بھی گرد آلود تھے۔‘‘
اس مختصر سے اقتباس سے قاری کے ذہن پر یہ بات عیاں ہونے لگتی ہے کہ اس خاندان پر حسرت و یاس سایہ کیے ہوئے ہے۔ بیٹے کا اپنے چہرے پر زمانے کی فکریں سجانے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بیروزگار ہے یا پھر اچھے روزگار کا متلاشی ہے ۔ کولہاپوری چپل کی پالش کا ماند ہونا مفلوک الحالی کی غمازی کرتا ہے اور پیروں کا گرد آلود ہونا بہتر مستقبل کی تلاش و جستجو کا مظہر ہے۔
اگلے پیرا گراف میں افسانہ نگار اپنے کیمرے سے دو مناظر ہمارے روبرو پیش کرتے ہیں۔ پہلے منظر میں ماں کا وجود ہے جو کہ کمان ہوا جارہا ہے اور پورا سراپا تھکن میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اٹھارہ انیس برس کی بیٹیوں کے تیزی سے تبدیل ہوتے جسموں نے اس کمان زدہ بدن کے اعضا کو مزید کمزور کردیا ہے۔افسانہ نگار اپنے کمیرے کا زاویہ تبدیل کرتے ہیں اور اٹھارہ انیس برس کی بیٹیوں پر مرکوز کردیتے ہیں۔ دونوں بیٹیاں حسرت و یاس کا مجسمہ بنی ہوئی ہیں۔ چھینٹ کی معمولی سی شلوار قمیصوں میں ڈھکی چھپی ، سروں پہ سستے سے دوپٹّے اوڑھے اور آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلائے نہ جانے کس کی منتظر ہیں۔ یہ کمال ہے علی امام نقوی کا کہ وہ اپنے الفاظ کو اور افسانے کے مناظر کو متحرک کردیتے ہیں۔ سارے مناظر میں جان سی پڑجاتی ہے۔ کرداروں کی آواجاہی ذہن کے اسکرین پر جاری رہتی ہے۔ ساتھ ہی افسانہ بھی آگے بڑھتا ہے۔ بیٹے کا یہ کہنا کہ ’’ میں ہار چکا ہوں‘‘ اور تھکی ہوئی آنکھوں کا جواب دینا کہ ’’تلاش ‘‘ نئی نسل کی تقدیر ہے۔
کچھ فقرے یا جملے تاریخی استناد کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ تقریباً آج سے تیس برس قبل ادا کیے ہوئے جملے دورِ حاضر پر بھی صد فی صد صادق آتے ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بے شمار نوجوان بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ اس مار کی بنا پر کئی ٹوٹ جاتے ہیں اور غلط راہوں پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ پورا معاشرہ اُس وقت بھی شکست و ریخت کا شکار تھا موجودہ حالات میں اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت بھی رشوت ستانی اپنے عروج پر تھی آج بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس منظر کو افسانہ نگار نے کس طرح فوکس کیا ہے:
’’ایک ہی محور ہے ماں۔ جسے دفتری زبان میں وسیلہ کہتے ہیں۔
’کیا مطلب؟ـ
پنچانوے فیصد نمبر سے اول درجے کا رزلٹ ، رشوت کے سہارے نوکری دلوانے میں تو کامیاب ہوگیا تھا لیکن ترقی کے لیے وہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔
لیکن تو تو ٹیسٹ میں کامیاب ہوگیا تھا؟
ہاں۔ لیکن اس اسامی پر اونچی ذات کے ایک ہندو کا تقرر ہوا ہے۔
کیوں؟
سرکاری محکمے ان سوالوں کے جوابات نہیں دیتے۔
مطلب یہ کہ اہم اور کلیدی عہدے ہمارے لیے نہیں۔‘‘
یہ پورا منظر نامہ آزادی سے لے کر تادمِ تحریر تبدیل نہیں ہوا اور شاید تبدیل ہونے کے آثار بھی نہیں ہیں۔ اقلیتوں اور نچلی ذات کے افراد بھٹی کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔ ہر محکمے میں حق تلفی کی جارہی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے باضمیر منصف صاحبان کو پریس کانفرنس کرکے اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے معاملات میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ ایک تخلیق کار اپنے زمانے کی تلخیوں ، ترشیوں ، خامیوں اور برائیوں کو فنّی مہارت کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتاردیتا ہے۔
اس افسانے میں پاکستانی مہاجرین کا ذکر کیا گیا ہے۔ دور کے ڈھول سہانے کے مصداق کمان زدہ والدہ سمجھتی ہیں کہ سرحد پار کرکے جانے والے جنّت میں رہتے ہیں۔ ان کے حالات بہتر ہیں اور وہ بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
سرحد پار سے ماموں زاد بھائی کا خط آنے پر وہاں کے حالات سے آگہی ہوتی ہے۔ خطر کچھ اس طرح ہے:
’’ برادرِ عزیز ۔السلام علیکم
تمہارا خط ملا۔ تفصیل پڑھ کر دکھ ہوا۔ اب تک امی اور ابو کے نام پھوپھی کے خط آتے رہے ہیں اور ان کے جوابات امی اور ابو نے جس انداز میں تحریر کروائے ہیں ان کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ امی اور ابو نے پھوپھی کو جنّت کی سیر کروائی ہے اور سچ پوچھو تو ان کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔‘‘
خط سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے لوگ ہر اہم پوسٹ پر قابض ہیں اسی طرح سرحد پار بھی ہر اہم عہدہ اور اسامی پنجابی کو دے دی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے حالات تقریباً ایک جیسے ہیں۔ جو لوگ اپنی مرضی سے نہیں چلتے انھیں وقت کی ٹھوکر چلنے پر مجبور کرتی ہے۔ خط کے اختتام پر تھکی تھکی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ تھکی تھکی آنکھوں میں چمک پیدا ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ درست تھا۔ حسرت و یاس کے مجسموں کا دائیں بائیں دیکھنا ان کی گو مگو کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ لیکن کمان کا مزید جھک جانا آس کو نراس میں تبدیل ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ علی امام نقوی یہ حقیقت بھی اس افسانے کے ذریعے قاری پر عیاں کرتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی اکثریت قومی و ملی تصورِ حیات کی طرف مائل تھی۔ سرحدوں کے دونوں جانب ماضی پرستی کا رجحان غالب رہا۔ چونکہ مملکتِ خدا داد کے انتظام و انصڑام میں ان کو فیصلہ کن کردار عطا ہوا تھا، اس لیے یہ فطری امر ہے کہ مقامیت کے تقاضے مسلسل نظر انداز ہوئے۔ جس سے وہاں صوبائیت اور لسانیت کے مسائل کو ہوا ملی، مقامی لوگوں کے اپنے خواب تھے جو کہ مملکتِ خدا داد کے نظریہ سازوں کے تصورات سے متصادم ہوئے زمینی حقائق پر کسی نے غور نہیں کیا۔ اس افسانے کا اختتام بے حد تلخ ہے جو کہ حقیقت سے قریب تر ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’ضرورت‘ ایوانِ اردو،جون ۱۹۹۰ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس افسانے کی بُنت نہایت ہنر مندی سے کی گئی ہے۔ یہ افسانہ سکھ نوجوان درشن سنگھ کے کردار پر مبنی ہے، جوکہ راوی بھی ہے۔ اس افسانے کا پس منظرسکھ مخالف فسادات پر مبنی ہے۔ دہلی اور قرب و جوار میں بھڑک اٹھنے والے سکھ مخالف فسادات میں درشن سنگھ اپنے والدین کی جلی ہوئی لاشوں کو دیکھتا ہے۔ دہلی سے لٹ پٹ کر وہ بیدر جاتا ہے اور خالصہ کالج میں اسے ملازمت مل جاتی ہے لیکن فسادات کی آگ وہاں بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہاں بھی خون کی ندیاں بہتی ہیں، دھواں اٹھتا ہے۔ آگ دھوئیں اور خون خرابے سے بچتا بچاتا وہ پونہ پہنچ جاتا ہے۔ بے حد پریشان حال۔ وہاں اس کی ملاقات ایک خداترس ، مشفق انسان حکیم صاحب سے ہوتی ہے۔ وہ اس کی ڈھارس ہی نہیں بندھاتے بلکہ اپنے مطب کے سامنے والی عمارت میں اس کے رہنے کا انتظام بھی کردیتے ہیں۔ حکیم صاحب، عرف بابا حکمت کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی شغل رکھتے ہیں۔ ان کے آس پاس ہمیشہ ادیبوں اور شاعروں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ حکیم صاحب درشن سنگھ کو کسی اسکول میں بطورِ مدرس رکھوا دیتے ہیں۔
اس افسانے میں موڑ اس وقت آتا ہے جب وہ ایک دن صبح سانولی سلونی نازک لڑکی دیکھتا ہے۔لڑکی اپنے دوپٹے کو اپنے بالائی جسم پر لپیٹ رکھتی ہے۔ تب وہ فلیش بیک میں آگ، دھویں اور خون کے دریا پر عبور کرتا ہوا اپنے گائوں پہنچ جاتا ہیْ گڑھل کے کنارے پیتل کا لوٹا اسے شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ اسی پیتل کے لوٹے سے اس کے والدہ کا تعلق ہے۔ درشن سنگھ کی والدہ اس پیتل کے لوٹے میں پانی لے کر پہلے ہاتھ دھویا کرتی تھیں، پھر پہنچوں تک پانی بہاتیں، نتھنوں میں پانی ڈالتیں۔ افسانہ نگار یہاں یہ عقدہ نہیں کھولتا کہ درشن سنگھ کی والدہ وضو کرتی تھیں۔ البتہ اس کا انکشاف قاری پر ہونے لگتا ہے۔ مگر ایک روز راوی یعنی درشن سنگھ سویرے جاگ اٹھتا ہے تب اس پر یہ راز افشاں ہوتا ہے کہ اس کی والدہ کس مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ افسانہ قاری کے تجسس میں مزید اضافہ کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ صبح سویرے بستر چھوڑتے ہیں سامنے کے مکان کی کھڑکی کی جانب دیکھنا راوی کا معمول بن جاتا ہے ۔ اسے وہاں وہی سانولی سلونی لڑکی سر پر دوپٹہ لپیٹے نماز ادا کرتی نظر آتی لیکن افسانے کی ایک پرت اور کھلتی ہے جب درشن سنگھ پر پڑوس میں تانک جھانک کا الزام لگایا جاتا ہے اور حکیم صاحب اسے سخت سست سناتے ہیں اور یہاں سے کہیں اور چلے جانے کا حکم دیتے ہیں۔ تب کہیں جاکر درشن سنگھ اعتراف کرتا ہے کہ لڑکی میں اسے اپنی والدہ نظر آتی ہیں۔ یہ سن کر تشکیک کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور لڑکی کے والد صاحب دوسری صبح کھڑکی خود اپنے ہاتھوں سے کھول دیتے ہیں۔ اس افسانے کو علی امام نقوی نے بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ ماضی اور حال دونوں ادوار کو فیلش بیک کی مدد سے پیش کرکے اس افسانے کو پر تاثیر بنادیا ہے۔
اس افسانے میں درشن سنگھ کے ساتھ ہی حکیم صاحب کا کردار بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ابھرتا ہے اور قاری کے ذہن پر تادیر نقش ہوجاتا ہے۔ جس دور میں یہ افسانہ تخلیق کیا گیا اس وقت پونہ سے مرحوم حکیم رازی ادیبی سہ ماہی ’’تکلم‘‘ شائع کرتے تھے۔ وہ بھی حکیم تھے۔ ان کے مطب پر بھی شعرا اور ادبا کا مجمع رہتا تھا۔ شاید علی امام نقوی نے یہ جیتا جاگتا کردار اسی مطب سے اخذ کیا ہے اور افسانے کا تانا بانا اسی کے ارد گرد بنا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’کھوئی‘‘ ان کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ افسانہ اپنے رنگ و روپ کے اعتبار سے ان کے دیگر افسانوں سے مختلف ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ’اونیل‘ امریکی دوشیزہ ہے جو کہ سکون کی تلاش میں بطور سیاح ہندوستان آئی ہے۔ ایک دور ہپیوں کا بھی تھا جو اپنے فرسٹریشن اور ڈپریشن کو مختلف نشہ آور اشیاء کا استعمال کرکے کم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اونیل کے ذہنی انتشار کا سبب اس کا منگیتر تھاجو کہ ویت نام کی جنگ میں آگیا تھا۔اونیل اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ اب وہ سکون کی تلاش میں ہندوستان آگئی تھی۔ اس کی ملاقات ایک پب میں ہندوستانی سفارت کار زویری سے ہوتی ہے۔ زویری اس سے دوستی کرلیتا ہے۔ ایک بار وہ تفریح کے لیے سی وے پر جاتے ہیں وہاں اونیل گنّے کی گنڈیریاں کھانے کی فرمائش کرتی ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے:
’’میں نے گنّے کی گنڈیریاں خریدیں اور رومال پھیلا کر گنڈیریاں اس پر منتقل کردیں۔ میں گنڈیریاں کھا کر کھوئی اِدھر اُدھر پھینکتا رہا اور اونیل اس کی کھوئی ایک ہہ جگہ ڈھیر کرتی رہی۔‘‘
جب زویری ، اونیل سے پوچھتا ہے کہ اب تک تمہاری شادی کیوں نہیں ہوئی؟ اونیل جواب میں کہتی ہے کہ ویت نام کی جنگ یاد ہے نا تمہیں؟ اس جنگ کے لیے ہمارے یہاں جبراً فوجی بھرتی ہوئی تھی۔ کم بخت ۔۔۔۔۔۔۔میں خوش ہوں زویری کہ وہ جنگ ختم ہوئی۔ پر تم جانتے ہو وہ اپنے پیچھے کتنا زہر چھوڑ گئی، تمہیں پتہ ہے پچیس ہزار کام آئے ، لاکھوں بھاگ گئے۔ سن کر زویری اسے بانہوں میں بھر کر محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے مگر اونیل بچی کھچی گنڈیریاں ہوا میں اچھال دیتی ہے اور رومال پر کھوئی بٹور کر زویری کی طرف بڑھا دیتی ہے۔ یہی افسانے کا انجام ہونا تھا اور علی امام نقوی نے انتہائی فنکارانہ انداز سے اس افسانے کے انجام کو نقطۂ عروج پر پہنچایا ہے۔ افسانہ ختم ہوکر بھی جاری ہے۔ اس افسانے کا اختتام چونکانے والا قطعی نہیں ہے بلکہ یہ افسانہ قاری کے ذہن میں اپنے اختتام کی بنا پر کئی انمٹ نقوش ثبت کردیتا ہے۔ساتھ ہی کئی سوالات کے جواب کا متقاضی بناقاری کی جانب نہارتا ہے کہ صاحب بتائیے اونیل کا کردار آپ کو کیسا لگا؟ کیا ساری امریکی دوشیزائیں بے وفا ہوتی ہیں؟ کیا انھیں اپنی یادوں کے سہارے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے؟ کیا وہ حقیقی محبت اور جزوقتی شہوانیت میں تفریق نہیں کرسکتیں؟ کیا وہ زویری جیسے کرداروں کے دامِ فریب میں آجاتی ہیں؟یہ افسانہ ایسے بے شمار سوالات قاری کے لیے چھوڑ جاتا ہے ۔ چونکہ افسانہ ایک شعوری تخلیقی عمل ہوتا ہے جو کہ زمان ومکاں کے ابعاد کیاندر تمام تر جزیات ، کیفیات اور زندگی کی متنوع خصوصیات کے ساتھ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ اس میں خواب اور بیداری کا کھیل رچا جاتا ہے اور حقیقت اور گمان کی آمیزش حقیقی زندگی کے دائرے میں زندہ لوگوں سے مربوط رہ کر ہوتی ہے۔ علی امام نقوی نے بھی زندہ لوگوں سے رشتہ استوار رکھا۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ وہ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو مسترد نہیں کرتے۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ اسی سبب اونیل اور زویری جیسے زندہ کردار افسانے کا حصہ بنے اور ’کھوئی‘ جیسا بہترین افسانہ منظرِ عام پر آیا۔ اگر کوئی تخلیق کار زندگی کے کھیل میں شامل ہی نہیں تو پھر وہ افسانہ کس طرح تخلیق کر سکتا ہے؟ افسانہ ہی زندگی ہے اور زندگی بذاتِ خود ایک افسانہ ہے۔ جس کے اجزائے ترکیبی اظہاریت ، تاثریت اور واقعیت ہیں۔ یہ تینوں اجزا ’کھوئی‘ میں موجود ہیں۔
’میراث‘ نئی نویلی دلہن ’صابرہ‘ کا افسانہ ہے۔ جو اپنے ہی قصبے میں بیاہی گئی ہے۔ وہ اپنے گھر اور سسرال کا موازنہ کرتی ہے۔ دیگر خواتین اور بچے اسے چھیڑتے ہیں مگر اس کا سارا دھیان پلائو پکنے کی خوشبو کی طرف ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ وہ جس گھر میں بیاہ کر آئی ہے وہ بے حد کشادہ ہے۔ افرادِ خانہ بھی کئی ہیں ، دو جیٹھ اور جٹھانیا ں ہیں ،ان کے بچے ہیں، ساس ہے۔ شوہر اور دونوں بڑے بھائی رکشہ چلاتے ہیں جو کہ کرائے کے ہیں۔ بڑی جٹھانی کے ہاتھ میں گھر کے کھانے کا انتظام کرناہے اور کھانا کھلانے کی ذمہ داری نئی دلہن صابرہ پر ڈال دی جاتی ہے۔ سب کو کھانا کھلانے کے بعد جو کچھ بچا کھچا ہوتا ہے وہی صابرہ کے حصے میں آتا ہے۔ وہ اپنے شوہر سے شکایت بھرے انداز میں کہتی ہے کہ آپ کوئی دوسرا کام کیجیے جس سے آمدنی میں اضافہ ہو اور کھانے کو بھر پور ملے۔ مگر وہ انکار کردیتا ہے۔ وقت کب کس کے لیے رکا ہے؟ اور زچگی کے دوران بڑی جٹھانی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ گھر میں عورتیں رو روکر براحال کرلیتی ہیں لیکن باورچی کھانے میں بیٹھی صابرہ اپنی بھیگی آنکھوں سے چاول ، سالن کی ڈیگچیوں اور روٹی کو دیکھتی رہتی ہے۔
اس افسانے میں علی امام نقوی نے قصباتی زندگی کی ہو بہو تصویر کشی کی ہے۔ نئی نویلی دلہن جب سسرال آتی ہے اس کی اندرونی کیفیات کو انھوں نے بالکل اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ صابرہ کے ناتواں شانوں پر جلد ہی گھر کی بڑی ذمہ داری لاد دی جاتی ہے۔ کئی بار اسے روکھی سوکھی کھا کر یا بھوکا رہ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے اس بنا پر صابرہ گھٹن کا شکار ہوجاتی ہے۔
جب بڑی بہو کا انتقال ہوتا ہے تب بھیگی آنکھوں سے کھانے کی چیزوں کو دیکھنا یعنی حسرت و یاس کے دوران امید کی کرن پھوٹنے کا اظہار بھی ہوسکتا ہے۔ شاید اسے اب پیٹ بھر کھانے کا موقع ملے۔ انسانی فطرت میں یہ شامل ہے کہ جب بھوک انسان کو اپنے نرغے میں لے لیتی ہے تب خوشی کا موقع ہو یا غم کا ، وہ ان سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا نقطۂ ارتکاز شکم سیری ہوتا ہے۔ علی امام نقوی نے صابرہ کے کردار کو صرف صابرہ تک محدود نہ رکھتے ہوئے ہمارے معاشرے میں زندگی گزارنے والی ایسی لاکھوں خواتین کی گھٹن سے انسلاک کردیا ہے۔ اس افسانے کی اہم بات اس کے چست مکالمے بھی ہیں۔ چند مکالمے ملاحظہ فرمائیں:
٭ عورت کی بھوک میاں کو کھلا کر مٹے ہے بائولی۔
٭ بائولی، کمانے والے کا پیٹ بھرجائے تو ہماری بھوک آدھی ہوجاوے ہے۔
٭ مجھے تو سرم آوے گی۔ رات بے رات اُنگے جاتے ہیں۔
٭ ابھی جائوں ہوں۔ دو نوالے تو ٹھونس لوں۔ بیاہ کا گھر تو شیطان کا گھر بن جاوے ، کھانے کی ہوس نہ پینے کی ۔
ایسے اور اس قسم کے مکالمے اس افسانے میں کئی جگہ موجود ہیں۔ مختلف کرداروں کا لب و لہجہ اس میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ ’میراث‘ علی امام نقوی کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
علی امام نقوی کے افسانوں میں معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کے مظاہر جابہ جہ نظر آتے ہیں۔ وہ زندگی کی لایعنیت سے معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہیں۔ تاریخ کی دروغ گوئی ذہنی و معاشرتی الجھنوں کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بناتے ہیں۔ ابتدائی چند افسانوں کے علاوہ وہ افسانوں میں خود کلامی کے چکرویو میں نہیں گھرے رہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو نئی صورتِ حال میں ڈھال کر افسانے کو خلق کرنے پر قادر رہے۔ ان کے افسانوں میں بنتے ، بگڑتے ، الجھتے رشتے موجود ہیں۔ جیتے جاگتے کردار ہیں اور واقعات کی ترتیب و تزئین بھی ہے۔ ان کے افسانوں کی قرأت کرتے ہوئے قاری کو مطلق احساس نہیں ہوتا کہ افسانے کا پلاٹ یا اس کے کردار افسانہ نگار کی مرضی کے تابع ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو علی امام نقوی کے افسانوں کو فن کا اعتبار عطا کرتی ہے۔
ان کا ایک افسانہ بعنوان ’نقش‘ معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کا عکاس ہے۔ افسانہ بہو، بیٹا، ماں اور ڈاکٹر ان چاروں کرداروں کو لے کر بُنا گیا ہے۔ بہو اور بیٹے کی میڈیکل رپورٹ میں خامی نہ ہونے کے باوجود پانچ برس بیت جانے کے بعد بھی وہ اولاد کی خوشی سے محروم ہیں۔ تینوں کے لیے یہ زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ سارے علاج ہوچکے ، تمام طبی پیتھیوں کو آزمایا جا چکامگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ گیارہویں میڈیکل رپورٹ لے کر وہ ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ان کے گھر جاکر تینوں سے باری باری گفتگو کرتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ماں جو کہ ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی ہے کی بے جا احتیاط برتنے کی بنا پر بیٹا نفسیاتی مرض کا شکار بن گیا ہے۔ وہ ہر معاملے میں محتاط رہتا ہے اسی بنا پر وہ اولاد سے محروم ہے۔
اس افسانے میں بہو اور ڈاکٹر کے چند مکالمے دیکھیے:
٭ نبضیں بھی چپ سادھیں تو تہذیب کا ایک آدھ اصول اُلانگنا پڑتا ہے بی بی۔ دیکھیں میرا بھی سانس پھول رہا ہے، مگر میں مایوس نہیں ہوا کہ زمین کی پیاس سے بات چلی اور سانسوں کے پھولنے تک آپہنچی۔
٭ تو۔۔۔۔۔ تو پھر سن ہی لیجیے ۔ میرا ۔۔۔۔ میرا گھنا گھنگورا بر ۔۔۔۔۔۔ زمین کے بجائے پلنگ پہ بچھی چادر پر برستا ہے۔
٭ہر شخص اپنی زندگی میں ایسی کئی منزلوں سے گزرتا ہے جو عام طور پر امتحان کہی جاتی ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کے کسی خاص امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا۔ وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے، کیونکہ وہ جانتا نہیں کہ اس کے وجود کا جوہر کیا ہے؟
یہ افسانہ ان لوگوں کے لیے آئینہ ہے بلکہ تازیانہ ہے جو کہ زندگی میں ہرقدم پر محتاط رہنے کا رویہ اپناتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھی ڈر و خوف میں مبتلا کر بیٹھتے ہیں۔ جب کچھ کر گزرنے کا وقت آن پڑتا ہے تب بھی وہ احتیاط برتتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی زندگی کامیاب و کامران نہیں ٹھہرتی بلکہ وہ معاشرتی گھٹن اور انسانی رشتوں کی تقدیس پر بھی تشکیک کے بادل چھوڑ جاتی ہے جو کہ کرداروں کو درد و کرب میں مبتلا کردیتی ہے۔
علی امام نقوی جس دور میں معاشرتی زندگی کی آبیاری کررہے تھے وہ دور شدید انتشاری کیفیت کا دور رہا ہے۔ اس دور میں معاشرتی زندگی میں اور ذہنی اعتبار سے بھی بے یقینی ، ہیجان اور اضطراب کی کیفیات طاری رہی ہیں۔ ایسے حالات میں کسی افسانے کے اہم کردار کی ذہنی کیفیت اجاگر کرنا بے حد کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ کردار کے درون میں در آئی پیچیدگیوں کو منعکس کرنا واقعی مشکل کام سمجھا جاتا ہے لیکن علی امام ایسے مشکل ترین مراحل سے بحسن و خوبی گزرے ہیں۔
’نقش‘ ایک ایس افسانہ ہے جو معاشرتی حالات کا شکار ہوکر پیچیدہ نفسیاتی کرداروں میں ڈھل جانے والی بہو، بیٹا اور ماں کا افسانہ ہے۔ ان کا یہ افسانہ اونچے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے اوپری طمطراق اور اندرونی کھوکھلے پن کو نشانہ بنایا ہے۔ افسانے میں کئی مقامات پر معاشرتی محرکات بھی نشان زد کیے گئے ہیں۔ انسان کے داخلی عوامل اور خارجی عوامل اور محرکات کو اشاروں ، کنایوں اور ذاتی استعاروں میں بڑے احسن طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ خارجی زندگی اور داخلی کشمکش یا داخلی واقعیت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ تینوں کرداروں کی ذہنی کیفیات اور انتشار بڑے واضح انداز میں سامنے آتے ہیں۔
علی امام نقوی نے زندگی جینے والے انسانوں کو کئی زاویوں سے دیکھا ہے اور دکھایا ہے۔ وہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا تعارف اور حوالہ ہے۔ ایسی ہی کئی خوبیاں علی امام نقوی کو ایک معتبر افسانہ نگار کے طور پر مستحکم کرتی ہیں۔
Ali Imam Naqvi ki Afsana Nigari by Qasim Nadeem
Articles
علی امام نقوی کی افسانہ نگاری
قاسم ندیم
Anwar Qamar ka Fanni Ikhtesaas by Dr. Jamal Rizvi
Articles
انور قمر کا فنی اختصاص
ڈاکٹر جمال رضوی
انور قمر ، بیسویں صدی کے سترویں اور اپنی عمر کے انتیسویں برس میں بطور افسانہ نگار ادبی دنیا سے متعارف ہوئے۔ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’نروان‘۱۹۷۰ء میں رسالہ ’تحریک‘ میں شائع ہواتھا۔ اس کے آٹھ برس بعدان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’چاندنی کے سپرد‘ ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۲۰۰۸ء تک مزید تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے، ’چوپال میں سنا ہوا قصہ‘ ۱۹۸۴ء میں ، ’کلر بلائنڈ‘ ۱۹۹۰ء میں اور ’جہاز پر کیا ہوا‘ ۲۰۰۸ء میں۔ان چار مجموعوں میں تقریباً ۶۰؍ افسانے شامل ہیں جن کا موضوعاتی تنوع افسانہ نگار کی قوت مشاہدہ کی پختگی اور ذہنی اپج کا ثبوت فراہم کرتاہے۔انور قمر کے افسانوں میں انسانی زندگی کے متنوع اور متعدد روپ عمر، جنس اور سماجی پس منظر کے اختلاف اور اس اختلاف سے وابستہ تقاضوں کو منعکس کرتے ہیں ۔ ان تقاضوں کے سبب ظاہر ہونے والے انسانی عمل اور رد عمل کی بوقلمونی ان کی افسانوی کائنات کی تزئین و آرائش کچھ اس طور سے کرتی ہے جس سے ان کی فنکارانہ مہارت و انفرادیت نمایاں ہوتی ہے۔ان کے فنی اختصاص کی دریافت کے لیے فکشن کی ان نزاکتوں اور باریکیوں سے کما حقہ واقفیت ضروری ہے جو کسی موضوع کی افسانوی تجسیم میں ناگزیر یت کی حامل ہوتی ہیں۔اس ضمن میں پہلا اور بنیادی مرحلہ موضوع کے انتخاب کا ہوتا ہے اور جیسا کہ افسانے کی تعریف میں بارہا یہ کہا گیا کہ افسانہ انسان کی حقیقی زندگی کا مظہر ہوتا ہے تو اس سیاق میں موضوع خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا تعلق بہرحال زندگی کے حقائق سے ہوگا۔ ان حقائق میں بعض کا تعلق سماجی، سیاسی، معاشی و تہذیبی عوامل سے ہوگا اور بعض انسان کے نہاں خانہ ٔ ذات کے ان اسرار و رموز سے وابستہ ہوں گے جو اکثر موقعوں پر بڑی غیر متوقع صورت میں ظاہر ہوتے ہیںاور اظہار کی اس کیفیت سے انسانی رویہ کا وہ انوکھا پن ظاہر ہوتا ہے جس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش افسانہ نگار اپنی استطاعت فہم و دانش کی بنا پر کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے عصر اور اپنے سماج کے رویہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور چونکہ بحیثیت انسان وہ خود بھی اسی عصر اور سماج سے وابستہ ہوتا ہے لہٰذا زندگی کے متعدد ان امور سے وہ تجرباتی سطح پر دو چار ہوتا ہے جو افسانے کی تخلیق کے لیے اسے موضوع فراہم کرتے ہیں ۔انور قمر کے افسانوں کے موضوعات بھی ان کے عہد و سماج اور خود ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک مضمون میں اپنے تخلیقی محرکات کو بیان کرتے ہوئے جن نکات کی نشاندہی کی ہے ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے عہد اور سماج کا بغور مشاہدہ کیا ہے اور اس مشاہداتی عمل نے انسانی جبلت، نفسیات اور جذبات کے جن متنوع رنگوں کو آشکارکیا ،ان کو اپنے افسانوی کینوس پر اتارنے کی کوشش سے ہی ان کی تخلیقی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔اپنے عہد اور سماج سے وابستگی کا یہ معاملہ تہذیب و معاشرت کے ان جملہ عناصر کا فنکارانہ جائزہ لینے سے عبارت ہے جو انسانی فکر وجذبہ کو ایک مخصوص زاویہ عطا کرتے ہیں۔انور قمر کے افسانوں میں انسانی فکر و جذبہ کا انعکاس تاریخ و تہذیب کے ان حوالوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے جو تہذیبی ارتقا کے سفر میں اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
انور قمر کے افسانوں میں نظر آنے والاانسان ان حالات کا پروردہ ہے جو نظام حیات میں ہونے والے تغیر کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے اور اس امتزاجی عمل کو ایک مخصوص فکری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکامی اس کے ہاتھ لگتی ہے۔کامیابی اور ناکامی کا یہ مسلسل عمل زندگی کے تئیں اس کے اعتقاد اور رویہ کا نہج طے کرتا ہے اور پھر جو تصویر سامنے آتی ہے اس میں حقائق حیات کے مظاہر دلچسپ،حیرت انگیز،ہیبت ناک ،راحت بخش اور اضطراب آمیز صورتوں میں رونما ہوتے ہیں۔ان صورتوں کے اظہار سے انسانی رویہ حقیقت کے اس تصور کے دائرے میں محصور نہیں رہ سکتا جو ہمیشہ یکساں طرز کا حامل ہو۔انور قمر کا فنکارانہ شعور حقیقت کے اس روپ کو دریافت کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دریا کی روانی کا سا مزاج رکھتا ہے ۔ حقیقت کا یہ روپ جب افسانہ نگار کی تخلیقی گرفت میں آتا ہے تو اس کی تخلیق میں آباد دنیا کبھی بالکل جانی پہنچانی لگتی ہے اور کبھی اس قدر انجانی کہ جیسے اس کرہ ٔ ارض پر اس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔فن کی سطح پر افسانے کی کامیابی کا دارو مدار بھی ان دوصورتوں کے امتزاج پر ہوتا ہے اور دراصل یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں افسانہ نگار کی فنکارانہ صلاحیت اجاگر ہوتی ہے کچھ اس طور سے کہ اگر اس کی تخلیق میں یہ امتزاج فنی سلیقہ مندی کا حامل نہ ہوتو تخلیق کی پیشانی پر ’افسانہ‘ کا لیبل تو چسپاں کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا بقیہ وجود اس لیبل کے ساتھ انصاف نہ کر سکے گا۔انور قمر کے افسانوں میں اس فنی سلیقہ مندی کو بیشتر دیکھا جا سکتا ہے ۔ان کے افسانے کسی ایک واقعہ یا کیفیت کی ترجمانی کے لیے جو افسانوی منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں اس میں اس مخصوص واقعے یا کیفیت کے دوش بہ دوش کئی دیگر ایسے عناصر بھی نظر آتے ہیں جو بہ ظاہر اس واقعے یا کیفیت سے کوئی خاص ربط نہیں رکھتے لیکن مذکورہ واقعے یا کیفیت کی تاثر پذیری کا عمل ان عناصر کے بغیر اس حد تک ناقص رہ سکتا ہے جو کہ افسانے اور قاری کے ربط کو عارضی و تفریحی نوعیت کا بنا دے۔انور قمر نے اس فنی نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے افسانے لکھے ہیں لہٰذا ان افسانوں میں مرکزی موضوع کے ارد گر د کئی ایسے ضمنی کوائف بھی نظر آتے ہیں جو مرکزی موضوع کی معنویت کو نمایاں کرتے ہیں۔اس حوالے سے ان کے افسانوں قیدی، شہر خطا کا زہر اور اس کی خانم ، کلر بلائنڈ،ذبیحہ،خزاں زدہ اورروٹی رساں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ان افسانوں میں زندگی کی کسی ایک حقیقت کو پیش کرنے کے لیے ان دیگر حقیقتوں کو بھی اس کے متوازی بیان کیا گیا ہے جو افسانہ نگار کے مدعا کو انسانی جذبات و نفسیات اور معاشرتی حقائق کے تناظر میں واضح کرتے ہیں۔
انور قمر کا فنی اختصاص جن حوالوں سے ترتیب پاتا ہے ان میںایک نمایاں حوالہ سماج اور زندگی سے وابستہ حقائق کی ترجمانی کا وہ انداز ہے جو سماج اور زندگی کے ظاہری رنگ روپ میں پوشیدہ ان اسرار کو آشکار کرتا ہے جن سے عدم واقفیت سماج و زندگی دونوں کے لیے انتشار و اضطراب کا سبب ہوتی ہے۔اس موقع پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ اسرار سماج اور زندگی کے تشکیلی عمل میں کسی اضافی عنصر کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ سماج اور زندگی کی تشکیل کو ایک خاص انداز و مزاج عطا کرنے والے اسباب و محرکات سے ان کی وابستگی ناگزیر نوعیت کی ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر ہوتا یہ ہے کہ ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قلب و نظر کو جن مراحل سے گزرنا لازمی ہوتا ہے عام انسان ان مراحل سے گزرنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتا ۔ اس مرحلے کو عبور کرنے کی اولین شرط یہ ہوتی ہے کہ اپنے عہد سے وابستہ ان عوامل کا معروضی جائزہ لیا جائے جو تہذیب و تمدن کے تاریخی تسلسل کو برقرار رکھنے کا کام انجام دیتے ہیں۔فنکار (افسانہ نگار) ا ن عوامل کو جب تخلیقی آنچ کی حرارت عطا کرتا ہے تو ہی ان کا وہ روپ منجلی ہوتا ہے جو سماج اور زندگی سے وابستہ حقائق کی پراسراریت سے عبارت ہے۔انور قمر کے افسانوں میں سماج اور زندگی کا یہی روپ دیکھنے کو ملتا ہے ۔انسانی ذہن زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کی سعی صدیوں سے کرتا رہا ہے اور اس کوشش میں جو مختلف تصورات و نظریات رائج ہوئے ان میں سے بعض تو کسی مخصوص مذہبی عقیدے کے بطن سے پیدا ہوئے اور بعض کومادی ترقی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔زندگی کی حقیقت سے وابستہ ان تصورات میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ انسان کی ارضی زندگی ایک سفر کی مانند ہے اور اس سفر کی راحتیں اور صعوبتیں اس کے نفس اور ظرف کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالتی ہیں۔ زندگی کے سفر میں شامل انسانی کارواں بسا اوقات اس سفر کے مقصد ہی کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور ایسی صورت میں یہ سفر جاری تو رہتا ہے لیکن مسافر کو یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اسے جانا کہاں ہے۔ انور قمر نے ’چوراہے پر ٹنگا آدمی ‘ میں زندگی کے اس سفر کو ایک بڑے صنعتی و تجارتی شہر کے سیاق میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا مندرجہ ذیل اقتباس اس کیفیت کو پوری شدت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے:
’’ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟۔ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ ان سبوں نے اس چوراہے پر لٹکے آدمی سے پوچھا۔
’’ تم ہی بتاؤ۔ تم سب کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے وہی سوال ان سے کردیا
’’ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔ہم کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘
وہ سب ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے
چوراہے پر ٹنگے آدمی نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔۔ــ’’ ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔ہا
جب تمہیں خود ہی نہیںمعلوم۔۔۔۔۔اور تم سبوں کو نہیں معلوم کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو، تو یہ سوال تم نے مجھ سے کیوں کیا؟ اپنے آپ ہی سے پہلے پوچھ لیتے۔!
اس افسانے میں چوراہے پر ٹنگا آدمی زندگی کا وہ استعارہ ہے جس کے ذریعہ افسانہ نگار زندگی کے سفر کی لاحاصلی کو ظاہر کرتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو انسان زندگی کے اس لاحاصل سفر میں شامل ہیں بہ ظاہر انھوں نے زندگی کے ان لوازمات کو حاصل کر لیا ہے جو سماجی سطح پر ان کے شخصی رتبہ کو فضیلت و امتیازکا حامل بناتے ہیں لیکن اس سفر کے کسی مرحلے پر جب خود زندگی ان سے اس سفر کا مقصد دریافت کرتی ہے تو ان کے پاس اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہوتا اور وہ خود ایک مجسم سوال بن جاتے ہیں۔انسان ، خواہ وہ کسی بھی عہد یا سماج سے وابستہ ہو ،زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سوال سے روبرو ضرور ہوتا ہے اور اس مرحلے پر اس کے افکار و خیال میں جو بیچینی پیدا ہوتی ہے وہ اسے ایک ڈھرے سے بندھی زندگی کے حصار کو توڑنے پر اکساتی ہے اور جب وہ اس کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کی ذاتی ، خانگی اور معاشرتی مجبوریاں اور مصلحتیں اس کے ارادوں کو پھر اسی حصار کا پابند بنا دیتی ہیںاور افکار و خیال کا یہ لاوا اس کی ذات کے آتش فشاں میں ہی سرد پڑ جاتا ہے ۔اس کے بعد زندگی پھر اسی ڈھرے پر چلنے لگتی جس میں کسی نئی راہ کے پیدا ہونے اور زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کے کسی تسلی بخش امکان کے نمو پانے کی امید معدوم ہو جاتی ہے۔انور قمر کے جس افسانے کا اقتباس ابھی پیش کیا گیا ، اسی افسانے کے درج ذیل دو اقتباسا ت اس کیفیت کو پورے تاثر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ان اقتباسات میں جس کردار کے توسط سے اس کیفیت کو ظاہر کیا گیا ہے وہ چوراہے پر ٹنگا ہوا وہی آدمی ہے جسے زندگی کا استعارہ سمجھنا چاہیے:
(۱)’’ہا۔ ہا۔ ہا، اب میں کبھی صبح اخبار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی چائے نہیں پیوں گا۔ کبھی بوٹ پالش نہیں کروں گا۔ کبھی داڑھی نہیں بناؤں گا۔ کبھی ریڈیو نہیں سنو ںگا۔ کبھی کام پر نہیں جاؤںگا۔کبھی راہ چلتے اشتہار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی کسی کو تھینک یو نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ میں اپنی زندگی کے پہیے کو گھماتے گھماتے بور ہو گیا ہوں۔ بے زار ہو گیا ہوں۔ تھک گیا ہوں۔ وہ پہیّا جس محور پر گھوم رہا ہے وہ اپنی جگہ ہی پر قایم ہے۔ جب محور اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا تو پہیّا کیوں کر حرکت کرے گا۔ میں وہیں ہوں جہاں تھا۔ اور اگر محور اب بھی نہ بدلوں تو سالہاسال تک وہیں رہوں گا۔ اس لیے اب محور ہی کوئی اور ہوگا۔ نیا۔ انوکھا۔ اچھوتا۔!
(۲) دوسرے روز حسب معمول اس نے اپنے چائے کے پہلے پیالے کے ساتھ اخبار دیکھا اور یہ خبر پڑھ کر ششدر رہ گیا کہ کل فلورا فاؤنٹن کے چوراہے پر ایک شخص نے اپنے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ۔ جس کی لاش دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہو گیے تھے ۔ اور وہ لوگ اس وقت تک جمع تھے جب تک چوراہے پر ٹنگے اس شخص کی لاش نیچے نہیں اتار ی گئی۔
درج بالا دوسرا اقتباس افسانے کا اختتامی اقتباس ہے جو بہ ظاہر ایک توضیحی بیان ہے جس سے افسانے کے مرکزی کردار کی خودکشی کے بارے میں پتہ چلتا ہے لیکن اس توضیح میں استفسار کے متعدد ایسے پہلو روپوش ہیں جو زندگی کی حقیقت سے وابستہ ہیں۔ افسانے کے مرکزی کردار کی یہ خود کشی زندگی کے اس سفر کا اختتام ہے جس کی بیزارگی سے اکتایا ہوا انسان نئے انوکھے اور اچھوتے محور کو تلاش کرنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن دنیوی مسائل کے سبب اس کا یہ ارادہ تشنہ ٔ تکمیل رہ جاتا ہے اور انجام کار وہ پھر اسی ڈھرے پر لوٹ آتا ہے ۔ اس مراجعت کے بعد اگر چہ وہ ظاہری طور پر زندہ رہتا ہے لیکن زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے والے نئے محور کی تلاس کے ارادے کی عدم تکمیل اس کے باطنی وجود کو فنا کر دیتی ہے۔اس حادثہ کا نظارہ کرنے والا ہجوم بھی زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں ایسے ہی حادثے سے دوچار ہوگا اور بالآخر زندگی کی حقیقت کو جاننے کی یہ سعی ایک مستقل سوال کے طور پر باقی رہے گی ۔انور قمر کے افسانوں میں یہ سوال ان تمام امکانی صورتوں کے ساتھ رونما ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت کا سراغ پانے کی کد و کاوش سے عبارت ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو برتا ہے وہ انسان کی زندگی کے تہذیبی و سماجی اور بعض دفعہ سیاسی حوالوں کے کسی نہ کسی زاویے سے اس سوال پر غور کرنے کی تحریک عطا کرتے ہیں۔موضوع کی افسانوی تجسیم کے دوران ان کا تخلیقی شعور مسلسل اس سوال سے الجھتا نظر آتا ہے اور اس کیفیت سے دو چار ہوتے رہنے کے دوران جب وہ اپنے گرد و اطراف پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں حیات و کائنات کی جو تصویر نظر آتی ہے اسے فنی مہارت کے ساتھ وہ الفاظ کا پیرہن عطا کر افسانے کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں تخلیقیت کا وہ عنصر لازمی طور پر شامل ہوتا ہے جو افسانے کو حسیاتی و جذباتی سطح پر متنفس بنائے رکھتا ہے۔
انور قمر اپنے افسانوں میں مرکزی موضوع کی ترسیل کے لیے جو فضا بندی کرتے ہیں اس میں استفہامی رنگ گرچہ بہت کم پایا جاتا ہے لیکن اگر افسانے میں بیان کردہ مختلف واقعات اور ان واقعات سے پیدا ہونے والے تاثرات کو مرکزی موضوع کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر تاثر ایک سوال کی صورت ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب و محرکات کی جانب ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔ موضوع کی ترسیل کا یہ ہنر انسانی نفسیات و جذبات کی نیرنگیوں پر فنکارانہ مہارت کے بعد آتا ہے اور اس معاملے میں ان کے اکثر افسانوں کو معیاری تخلیق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ان کا ایک بہت مشہور افسانہ ہے ’ جہاز پر کیا ہوا‘ جو فساد زدہ انسانوں کا وہ مرثیہ ہے جس میں ’رن پڑنے‘ کا بیان اگرچہ نہ ہوا ہو لیکن انسانی زندگی پر فساد کے ہیبت ناک اور خونیں اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے جس صورتحال کو پیش منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے وہ افسردگی، اضطراب،اضمحلال،رنج اور غم ناکی سے مملو ہے۔یہ افسانہ سیاست اور مذہب کے اس سفاکانہ ارتباط پر ایک بھرپور طنز ہے جو اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کو بھی ان بے حیثیت کیڑے مکوڑوں کی مانند سمجھتا ہے جنھیں بڑی آسانی سے پیروں تلے کچلا جا سکتا ہے۔سیاست اور مذہب کا یہ ارتباط اس عصر کی ایسی کریہہ حقیقت بن چکا ہے جس کے سبب اقدار حیات کا تصور بڑی حد تک دھندلا پڑ چکا ہے۔افسانہ صرف ان انسانوں کی غم ناک روداد بیان نہیں کرتا جو تجرباتی سطح پر فساد کی زد میں آئے بلکہ ان انسانوں کی خلش آمیز کیفیت بھی ظاہر کرتا ہے جو بہ ظاہر فساد سے تو محفوظ رہے لیکن سسٹم کے تقاضوں کی تکمیل ان کے اور فساد زدہ انسانوں کے درمیان مذہبی یکسانیت کی بنا پر ایسا ربط پیدا کر دیتی ہے جو ان کی فرض شناسی اور ایمانداری کو مشکوک بنا دیتی ہے۔اس افسانے کا کردار سینئر کپتان عرش الرحمن انہی انسانوں کا نمائند ہ ہے جو اپنی ڈیوٹی جہاز رانی شعبہ کے قوانین و احکامات کے مطابق کرتا ہے لیکن جہاز پر موجود فساد زدگان سے اس کی مذہبی یکسانیت اس کے عمل کی شفافیت کو متاثر کرتی نظر آتی ہے ۔ حالانکہ افسانوی کرافٹ کے اس مرحلے پر افسانہ نگار نے جہاز کے مالک کے فیکس کو عر ش الرحمن کے حق بہ جانب ہونے کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے تاہم اس کا اپنے ساتھی بمل دت سے یہ کہنا ’’ یہ دنیا والے کبھی کسی کو اپنے غیر جانب دار ہونے کا موقع نہیں دیتے ۔ گوکہ اس کنٹینر میں آئے ہوئے تمام لوگ میرے بہن بھائی ہیں ، مگر میں ان کے ساتھ کیوں کر امتیازی سلوک کر سکتا تھا؟ اچھا ہوا جو یہ حکم آگیا۔‘‘اس کیفیت کا اظہار ہے جو سسٹم کی پیچیدگیوں میں جکڑی ہوئی زندگی کے کرب سے عبارت ہے۔جس حکم کو وہ اپنی عافیت کا سامان سمجھتا ہے دراصل وہی اس کی شخصیت پر ایسا مستقل سوال ہے جو زندگی کے مختلف مراحل پر اس کے لیے مشکلات و مسائل پیدا کر سکتا ہے۔عرش الرحمن کا مندرجہ بالا بیان افسانے کی وہ کلید ہے جو موضوع کے وسیع تر آفاقی تناظر میں مذہب و سیاست کے سفاکانہ کھیل کو نمایاں کرتی ہے۔اقتدار پرست عناصر کا یہ کھیل عام انسانوں کے لیے کس درجہ اذیت ناک ہوتا ہے ، اسے ’کابلی والا کی واپسی‘میں درد مندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں انور قمر نے ’کابلی والا‘ کے توسط سے برصغیر کے اس سیاسی بحران کو پیش کیا جسے نام نہاد امن پسند بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادکے لیے استعمال کرتی ہیں۔یہ سیاسی بحران ایک عام انسان کی آرزووں اور خواہشوں کو کچھ اس طور سے پامال کرتا ہے کہ اسے اپنا گھر، اپنے لوگ، اپنی زمین اور اپنا وطن سب کچھ پرایا لگنے لگتا ہے اور پھر ایک مسلسل دربدری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔انور قمر نے انسانی جذبات پر حالات کے جبر کی اثر پذیری کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس میں دردمندی، ہمدردی اور دائمی احساس محرومی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
انور قمر نے اپنے افسانوں میں بیان کردہ واقعات کے سیاق میں انسانی جذبات کے زیر و بم کو بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔یہ واقعا ت جن انسانوں پر یا جن کے توسط سے رونما ہوتے ہیں ان کے جذبات کی عکاسی کے لیے واقعہ کی ترتیب میں ان عناصر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو افسانوی کرداروں کے جذبات پر واقعے کی اثر پذیری کی نوعیت کو ظاہر کر سکیں۔افسانے میں بیان کی گئی صورتحال کے خارجی مظاہر سے ان عناصر کو اس طور سے منتخب کرنا جو کردار کی نفسیاتی و جذباتی کیفیت کو متشرح کرے ،افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیت کو واضح کرتا ہے۔اس حوالے سے ان کے افسانوں کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی واقعہ میں کارفرما خارجی مظاہر کو کردار کی داخلی کیفیت کے ساتھ ایسا معنوی ربط عطا کرتے ہیں جو واقعے کی تاثر پذیری کو پوری قوت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ان کے بعض افسانوں میں یہ خارجی مظاہر اگر چہ عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن کردار کی تشکیل کے نفسیاتی و جذباتی مراحل پر ان کے دیر پا اثرات کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔افسانہ ’خزاں زدہ‘ میں ان خارجی مظاہر کے ذریعہ مسز ایمانویل کے ماضی اور حال کی جو روداد بیان کی گئی ہے اس میں آسودگی و خوشحالی اور تنہائی و بے چارگی کا تاثر شدت کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔یہ افسانہ فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن افسانہ نگار نے فساد کی منظر کشی کے بجائے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال کو پیش کیا ہے جو انسانی زندگی کو خو ف اور محرومی کے دائمی احساس میں مبتلا کر دیتی ہے اور پھر اس کا وجود خارجی اور باطنی سطح پر غیر مندمل ہونے والے زخم کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ انور قمر کا یہ افسانہ پہلی بار ۲۰۰۷ء میں کراچی سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالے روشنائی کے افسانہ صدی نمبر حصہ سوم میں شائع ہوا تھا۔ اس میں بیان کنندہ غائب متکلم کے طور پر مسز ایمانویل کا جو احوال بیان کرتا ہے وہ فساد کی زد میں آنے پر مسز ایمانویل کو ملنے والی جسمانی اذیت کی درد ناک روداد ہے ۔اس کے بعد انور قمر نے جب اس افسانے کو اپنے چوتھے افسانوی مجموعے ’جہاز پر کیا ہوا‘ میں شامل کیا تواس روداد میں اس حصہ کا اضافہ کیا جو مسز ایمانویل کی جسمانی اذیت کے سبب ان کی ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے اس خلا سے عبارت ہے جو ان کی شخصیت کو روحانی طور پر دائمی کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔انور قمر کا یہ تخلیقی طریقہ ٔ کار ظاہر کرتا ہے کہ وہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کے ہمہ گیر اثرات کی ان تما م امکانی صورتوں تک رسائی حاصل کرنے کی فنکارانہ سعی کرتے ہیں جو کردار کی سماجی و ذاتی زندگی کو وسیع پیمانے پر متاثر کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ تخلیقی طریقہ کار ان کی فنی ریاضت کا مظہر بھی ہے۔
انور قمر کا افسانوی اسلوب ان کی منفرد فنی صلاحیت کو نمایاں کرتا ہے۔ انھوں نے جس زمانے میں افسانہ لکھنا شروع کیا اس دور میں افسانوی اسلوب کے متعلق نظری مباحث اردوافسانہ نگاری میں ایک فیشن کے طور پر رائج تھے۔ان مباحث میں ان اسلوبیاتی تجربات کی افادیت و معنویت پر گفت و شنید کا سلسلہ سا چل نکلا تھا جو طرز اظہار کو پیچیدہ یا مبہم اور سادہ یا عام فہم بناتے ہیں۔اس ضمن میں افسانے میں علامت و تمثیل نگار ی اور تجریدیت کے فنی سروکار مختلف حوالوں سے زیر بحث رہے۔اسی زمانے میں جدید اور جدید تر افسانے کی وہ بحث بھی چل نکلی تھی جسے سکہ بند قسم کی ترقی پسندی سے بیزاری کے طور پر دیکھا گیا اور ایک مخصوص نظریہ ٔحیات کی تائید و تشہیر کی غرض سے افسانہ لکھنے کو غیر ادبی تخلیقی عمل کے مترادف قرار دیا گیا۔ افسانے میں اسلوب کی سطح پر ہونے والے مختلف قسم کے تجربات کے باوصف یہ دعویٰ مشکل ہی س کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی دور کی افسانہ نگاری کا دامن انسانی زندگی اور اس کے لوازمات سے تہی رہا ہو۔یہ ضرور ہے کہ زندگی اور اس کے لوازم کی پیشکش کا انداز ہر دور میں یکساں نہیں رہا اورافسانہ نگاری کے فنی ارتقا میں ان مختلف النوع قسم کے تجربات کو یکسر غیر اہم بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔انور قمر کے افسانوی اسلوب پر معاصر تخلیقی رجحانات کے اثرات جابجا نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے بعض افسانوں میں رمزیت اور اشاریت کو افسانوی فضا بندی کے لیے استعمال کیا ہے اور بعض موقعوں پر علامتی اسلوب سے بھی استفادہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں لسانی قلابازیاں دکھانے سے اجتناب کیا ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بہ ظاہر سیدھا و سپاٹ نظر آنے والا ان کا افسانوی اسلوب متن کی اس تہہ داری سے عاری ہے جس کی بنا پر افسانوی تخلیق کو فنی امتیاز حاصل ہوتا ہے۔اس ضمن میںان کے موقف کو ان ہی کے ایک افسانے ’کیلاش پربت‘ کے مرکزی کردار کیلاش چند کے اس بیان سے سمجھا جا سکتا ہے۔
’’میں اپنے کوٹ کی آستین میں سے خرگوش نکال کر دکھانے کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی مافوق الفطرت باتیں کرنے کا مجھے خبط ہے۔‘‘
انھوں نے اپنے افسانوی اسلوب میں سحر خیزی کی وہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو متن کی ظاہری ساخت کے طلسم سے قاری کو مبہوت کر دینے کو ہی افسانے کا مقصود سمجھے اور نہ ہی انھوں نے لسانی سطح پر ایسے بے ہنگم تجربات کیے جو افسانوی موضوع کے ترسیلی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوی اسلوب کی تزئین کاری میںبعض اوقات تاریخ و اسطور سے استفادہ بھی کیا ہے لیکن استفادے کے اس عمل میں بھی سماج اور زندگی کے عصری حقائق کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی اور انسان کی حقیقت کودریافت کرنے کا تخلیقی عمل شعوری فنی کاوش کے طور پر نظر آتا ہے اور یہ ان کے فنی اختصاص کاایک اہم حوالہ ہے جس کی بنا پر انھیں اردو کے افسانہ نگاروں میںنمایاں مقام حاصل ہوا۔
Salam Bin Razzaq ke Afsano mein Wajoodi Asraat
Articles
سلام بن رزاق کے افسانوں میں وجودی اثرات
میر عابد
اردو ادب میں جدیدیت کا میلان دوسرے میلانات کی طرح مغرب کے زیرِ اثر وجودمیں آیا اور وسیع معنویت کے ساتھ اردو افسانے میں پھیلنے لگا۔ جدیدیت ایک ایسا تخلیقی رویہ ہے جو روایتی انداز کو ردّ کرتا ہے اور ماضی کے مقابلے میں حال کے تقاضوں کو پورا کرنے اور عصری مسائل کو پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ وحید اختر کے حسبِ ذیل اقتباس سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے:
’’اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنے اور اسے تمام امکانات و خطرات کے ساتھ برتنے کا نام جدیدیت ہے۔ ہر عہد میں جدیدیت ہم عصرزندگی کو سمجھنے اور برتنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت ایک مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ‘‘( ’جدیدیت اور ادب ‘۔ وحید اختر ص: ۳۹)
جدیدیت کی ایک فلسفیانہ اساس وجودیت کا فلسفہ ہے جس میں فرد کی ذات کو مرکزیت Centralityحاصل ہے۔ اس فلسفہ کی رو سے فرد کو اپنے وجود معاشرے اور کائنات میں سب سے پہلے اپنے وجود سے متصادم ہونا پڑتا ہے اور وجود کی آگہی کا کرب جھیلنا پڑتا ہے۔ نیز ساری کائنات میں فرد تنہا و بے یار و مددگار ہے اور اس کا کوئی سہارا نہیں۔ وجودی فکر نے بیسویں صدی میں گہری تقویت اور مقبولیت حاصل کی۔ دو عالم گیر جنگوں کی تباہیوں کے نتیجے میں انسان خوف و ہراز کا شکارہوگیا۔ اس کے علاوہ سائنسی ایجادات اور مادی ترقی نے انسانی وجود کی معنویت اور عظمت مشکوک کردی۔ غرض فرد اجتماعی تصورات سے لاتعلق ہوکر اپنی ذات کے خول میں سمٹ گیا۔
جدیدیت اور فلسفہ وجودیت کے تناظر میں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ فلسفہ وجودیت کی ہمہ گیری اور وسعت کے باوجود یہ باور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جدیدیت سے وابسطہ تمام ادبا اور شعرا وجودیت کو فکری طور پر یا اسے نصب العین بناکر ادب کی تخلیق میں سرگرم ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ فلسفہ وجودیت کے عناصر بتدریج شعوری یا غیر شعوری طور پر پھیلے ہیں اور ہمارا افسانوی سرمایہ اس کے حصار میں محصور ہوتا گیا ہے۔ جدید ناقدین ادب نے بارہا اس امر کا اظہار کیا کہ نئے افسانے میں وجودی اثرات بیش از بیش ملتے ہیں۔ ان ناقدین ادب نے اس بات کا بھی احساس دلایا کہ اکثر افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جنھیں اس طرزِ فکر کی باقاعدہ خبر نہیں یا انھوں نے اس فلسفے کا براہ راست مطالعہ نہیںکیا یا اس فلسفے کے فکری محور سے ان کا تعارف نہیں لیکن پھر بھی بہر نوع ان کی تخلیقات میں وجودی اثرات کی بازگشت واضح اور عیاں ہے۔ ڈاکٹر وحید اختر نے اپنی کتاب ’’فلسفہ اور ادبی تنقید‘‘ میں ان امور کی صراحت حسبِ ذیل میں کی ہے:
’’ ہمارے ادب پر وجودیت کے فلسفہ کا براہ راست اثر کم ہے لیکن ہماری فکر میں وہ عناصر جو وجودیت کی تشکیل کرتے ہیں بالواسطہ اور غیر شعوری طور پرخود بخود شامل ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ وجودیت حقیقی معنوں میں آج کا فلسفہ ہے۔ ہائن مان Heinmannکا خیال ہے کہ وجودیت اب مستقبل نظامِ فلسفہ کی حیثیت سے قابلِ قبول نہیں رہی لیکن اس میں آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے جو بنیادی صداقتیں ملتی ہیں وہ اس فلسفے کی مقبولیت کی آج بھی ضامن ہیں۔ ‘‘ (ص:۱۷۳، ۱۷۴)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہمارے اردو ادب میں خصوصاً افسانوی ادب میںایسے عناصر بیش از بیش ملتے ہیں جو فلسفہ وجودیت کی تعمیر اور تشکیل میں معاون ہوتے ہیں۔یہ عناصر جدید حالات کی تفہیم میں معاون ہیں۔ اس کے اندر بنیادی صداقتیں پوشیدہ ہیں۔ یہ ہمارے تجربے کی کسوٹی پر کھرے اتر چکے ہیں اور موجودہ صورتِ حال کے عین مطابق ہیں۔ اس امر کی صراحت آج کے افسانہ نگاروں کی نگارشات سے واضح ہوتی ہے۔ یہاں سلام بن رزاق کے نمائندہ افسانوں کا جائزہ لیاجاتا ہے تاکہ اس امر کی وضاحت ہوسکے کہ کس حد تک وجودی اثرات کی بازگشت ان کے افسانوں میں موجود ہے۔
نئے افسانہ نگاروں کی نسل میں سلام بن رزاق سب سے زیدہ خلاق افسانہ نگار ہیں۔ جدیدیت کے زیرِ اثر ان کی تربیت ہوئی لیکن انھوں نے سریندر پرکاش، بلراج مین را، خالدہ حسین اور انور سجاد کی روایت سے خود کو الگ کرتے ہوئے تجرید، استعارات اور علامات کے ساتھ روایتی بیانیہ کی شمولیت کی ضرورت محسوس کی اور تکنیکی سطح پر میانہ روی کا ثبوت دیتے ہوئے افسانے لکھے۔انھوں نے زیادہ نہیں لکھا لیکن احتیاط کے ساتھ موضوع اور فن کا لحاظ رکھتے ہوئے لکھا۔ ۱۹۶۴ء سے افسانہ نگاری کا جو سفر شروع ہوا وہ اب چار جلدوں میں موجود ہے۔ ننگی دوپہر کا سپاہی، معبر، شکستہ بتوں کے درمیان اور زندگی افسانہ نہیں جیسے افسانوی مجموعوں کے حوالے سے سلام بن رزاق کی افسانہ نگاری کے ارتقائی سفر کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سلام بن رزاق کے یہاں بیانیہ انداز پایا جاتا ہے اور وہ بے جا آرائش و زیبائش سے گریز کرتے ہیں۔ معاشرہ اور اخلاقی اقدار کی زوال پذیری، مذہبی ایقانات کی بے اثری اور فرد کے استحصال کے پس پردہ جو سماجی اور سیاسی محرکات کارفرما ہوتے ہیں انھیں وہ علامتوں کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام کیفیات کو اپنا ذاتی تجربہ بناکر وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کو خود اپنی وارداتِ قلبی معلوم ہوتی ہے۔ وجودی فن کاروں کی طرح ان کی تقریباً تمام کہانیوں میں ایک خاص قسم کا ڈر، خوف، یاسیت اور محرومی مختلف پیرائے میں نظر آتی ہے۔ باطن میں غوطہ زنی کرکے اس کی گہرائیوں تک پہنچ کر ذات کی تلاش کا عمل ان کے یہاں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں وجودی افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے ان کے افسانے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ کو موضوع بنایا جاتا ہے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کس حد تک سلام بن رزاق کے مذکورہ بالا افسانے میں وجودی اثرات کی بازگشت ملتی ہے۔ ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ میں افسانہ نگار نے جدید انسان کے مسائل اور زندگی کی پیچیدگیوں کو موضوع بنایا ہے۔ ماحول کا انتشار، وجودکی آگہی کا کرب، سفر بے سمت، بے مقصدیت ، رشتوں کی مہملیت، قدروں کی شکست و ریخت، خوف و اندیشہ، تنہائی اور اجنبیت اور نہ جانے کتنے ہی ایسے احساسات اس کہانی میں فنی چابکدستی سے برتے گئے ہیں۔ ایک دو اقتباس ملاحظہ ہوں تاکہ یہ احساس ہوسکے کہ سلام بن رزاق انسانی احوال کو پیش کرتے ہوئے وجودی فکر سے کتنے قریب آگئے ہیں:
’’ نہ تم جانتے ہو کہ تم کہاں جارہے ہو ، نہ میں جانتا ہوں کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہم سب کہاں چلے تھے، کہاں جارہے ہیں ، جب سفر ہی زندگی کی شرط ٹھہری تو پھر سفر اکیلے بھی جاری رکھا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا احسان کیوں لوں۔‘‘ (ننگی دوپہر کا سپاہی، مطبوعہ شب خون، مارچ ؍ اپریل ۱۹۷۷ء جلد ۵ ، شمارہ ۱۰۳، ص: ۴)
زندگی ایک طویل سفر کا نام ہے۔ اس سفر کی ابتدا کی نہ خبر ہے اور نہ ہی انتہا معلوم۔ صرف چلے جانا ہے کہاں، کس طرف ، کدھر، کیوں۔ یہ سب سوالات بے معنی ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سفر کا رُخ کیا ہے۔ اس سفر کی منزل کہاں ہے گویا زندگی انسان کا مسئلہ ہے اور وہ اس مسئلے میں کسی کا شریک نہیں۔ وہ اکیلا ہے ، اکیلا ہی اس سفر کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’سب دھوکا ، سب فریب ، عزیز، رشتہ دار ، جائداد ، خاندان ، عزت یہاں تک کہ کتابیں بھی اور زندگی بھی؟ نہیں۔ زندگی ایک سوال کی شکل میں اس کے آگے چل رہی تھی اور وہ دیوانہ اس کے پیچھے لپکا جارہا تھا۔(ایضاً)
ظاہر ہے یہ وجودی احساس ہی تو ہے۔ کیوں کہ دوست، احباب ، عزیز و اقارب ، خاندان ، جائداد سب دھوکا اور فریب قرار دینا اقدار کی شکست و ریخت کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ رشتے کی مہملیت اور بے اعتباری کی کیفیت بھی اس سے آشکارہ ہے۔ بکھرائو و شکستگی کی اس فضا میں ایک ہی شئے ایسی ہے جس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے زندگی ۔ زندگی کے خطرات و مسائل کے درمیان گھر کرنا بھی معنی خیز ہے یہی ایک مستند چیز ہے جس کے پیچھے دیوانہ وار لپکا جاسکتا ہے۔
وجود کی تلاش کا عمل ، تنہائی اور زندگی کی لایعنیت Absurdityکے احساسات جدید دور کی دین ہیں۔ اور ہمارا جدید افسانوی سرمایہ ان ہی موضوعات کے ارد گرد گردش کرتا نظر آتا ہے۔ سلام بن رزاق کے کرداروں کی غالب اکثریت اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ نیز ان کے کردار وجود کی تہوں سے گزر کر وجود ہی کے توسط سے زندگی کے اسرار و رموز کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایسی ہی کہانیوں میں ’البم ‘ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ کہانی بیانیہ نثر کی عمدہ شاہ کار ہے لیکن اس کے پسِ پردہ راوی کے وجود کی کئی پرتیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ کہانی کا ڈھانچہ اس طرح ہے کہ راوی ’البم‘ میں اپنی تصویر چسپاں کرنے کی کوشش کرتا ہے اچانک تصویر میں کئی دوسرے چہرے اسے ماضی کی گم گشتہ یادوں میں گم کرتے ہیں۔ یہ چہرے اس کے عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہیں۔ ان چہروں میں بوڑھی ماں کا چہرہ خستہ ہے اور بڑھاپا ان کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔ ماں کے چہرے کے ساتھ ایک اور چہرہ جڑا ہوا ہے جو بہت ہی اداس اور مضمحل ہے۔ یہ ان کے والد مرحوم کا چہرہ ہے۔ اس کے بعد تصویر میں اس کی بیوی کا چہرہ ہے جب وہ اس کے گھر میں دلہن بن کر آئی تھی۔ غرض ماں ، باپ ، بیوی ، بھائی، عزیز و رشتہ دار کئی پرچھائیاں اس کے ارد گرد منڈلا رہی ہیں۔ وہ ایک آئینہ کی مانند ہے جس میں دوسروں کے عکس گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ یہاں راوی ایک شدید وجودی بحران سے دوچار ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں جو کچھ ہوں دوسروں کے طفیل ہوں، میں خود کہیں نہیں ہوں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پرچھائیوں کے اس ہجوم میں اپنی ذات کی تلاش کی انتھک کوشش نے مجھے چور چور کردیا۔ میں ایک سعادت مند بیٹا ہوں۔ ایک باوفا شوہر ہوں، شفیق باپ ہوں۔ دوست ہوں یعنی جو کچھ بھی ہوں دوسروں کے طفیل ہوں۔ میں خود کہیں کچھ نہیں ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میری ہستی ایک کتاب ہے جس کا میں صرف عنوان ہوں۔ ورق ورق کھنگال ڈالتا ہوں اندر عنوان سے متعلق ایک حرف نہیں ملتا۔ ‘‘ (افسانہ ’البم‘ مشمولہ ’ شکستہ بتوں کے درمیان)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت مترشح ہوجاتی ہے کہ کہانی میں راوی اپنے وجود کی موجود گی کو درج کرانے کے لیے بے چین ہے۔ غرض افسانہ نگار نے افسانے میں یہ تاثر دلانا چاہا کہ عصرِ حاضر کا فرد بے چہرہ ہے اور یہی بے چہرگی موجودہ دور کے فرد کا مقدر بن گئی ہے۔
سلام بن رزاق کی افسانہ نگاری کی جڑیں تمام تر زمین میں پیوست ہیں۔ بے چہرگی ، احساس تنہائی، اپنے وجود کی بازیافت، بے سمتی جو جدید افسانے کے کلیشے بن گئے۔ سلام بن رزاق کے مشاہدے اور نظر کی تیزی جہانِ دیگر کے پردوں کے پار وہ سب دیکھ لیتی ہے جن کے اسرار ذات دوسرے شناور افسانہ نگاروں پر نہیں کھلتے۔ اس حوالے سے سلام بن رزاق کا افسانہ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ افسانہ انسانی وجود اور درد مندی کے جذبے سے تیار کیا گیا ہے۔ مائیکل کی یتیم خانے کے چرچ میں ولادت ہوتی ہے اور پرورش بھی وہیں ہوتی ہے۔ لیکن یتیم خانے کی باہر کی دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات ان مٹ نقش کی طرح گھر کر جاتی ہے۔ میرا کوئی نہیں میں کسی کا نہیں ۔۔۔۔میں خدا کی مانند تنہا ہوں۔ اس کے ہاتھوں سے ریت سے بچے کا مجسمہ بن جانا اور پھر ماں کے سینے سے دودھ پیتے ہوئے مجسمہ بنانا اس کی انتہائی محبت کی محرومی کا وجودی اشارہ ہے۔ اسے کسی کی سرپرستی اور شفقت نہیں ملتی جس کا وہ متلاشی۔ اسے اس بھری دنیا سے سروکار نہیں۔ اسی لیے وہ شکستہ بتوں کے درمیان رہ کر زندگی کو آخری دہانے پر پہنچا کر خود اپنی ذات کے ساتھ ان بتوں کی مانند شکستہ ہوجاتا ہے۔
سلام بن رزاق جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ان کے ہاں انسانی وجود اور شخصیت کی صلابت پر زور ہے۔ جب آدمی اس سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھٹکنا پڑتا ہے۔ ایک دوست اور مصلح کی طرح سلام بن رزاق اس کے وجود کی آواز بن کر ابھرتے ہیں۔ اس کی مثال کے لیے ان کا افسانہ ’’دوسرا قتل‘‘ اہم ہیں۔ دوسرا قتل میں عصرِ حاضر میں روحانیت، مذہبی عقائد اور اخلاقی رویوں کا قتل یا زوال دکھایا گیا ہے۔ غرض یہاں مادہ پرستی کا عروج ہے اور مادہ پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہولناک نتائج کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے یہاں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کسی جرم کو آپ جتنا چھپانا چاہتے ہیں لیکن انسان کے اندر کی آواز یعنی ضمیر اس کی گواہی اتنی ہی شدت سے دیتا ہے۔ اس افسانے میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر ایک باضمیر شخص اپنے ضمیر کا خون کردیتا ہے تو بے ایمانی ، موقع پرستی اس کا نصب العین بن جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ضمیر ہر ممکن موقع پر انسان کو تاکید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خلاصہ کلام یوں ہے کہ اس افسانے میں سلام بن رزاق کا انسانی وجود سماج، اخلاق اور سچائی کے تئیں اعتماد و وابستگی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
سلام بن رزاق نے اپنی تخلیقی انفرادیت کو کثرت سے جدا کرنے کے لیے دلچسپ کہانی بیان کرنے کی واضح صورت پر دھیان مرکوز کیا ہے جس کی بہترین نمائندگی ان کی کہانی ’’آوازِ گریہ‘‘ سے ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے یہاں انسان کے اندر زندہ درگور کیفیات کو منظر نامہ بنادیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔۔۔۔میرا وجود اندھیرے میں تحلیل ہوچکا ہے۔ اس دردناک بے بسی پر مجھے پہلی بار رونا آتا ہے اور میں بے اختیار رونے لگتا ہوں۔ میں رو رہا ہوں، میرے رونے کی آواز منوں مٹی تلے اس طرح گھٹی گھٹی ، پھنسی پھنسی نکل رہی ہے جیسے کسی شکستہ بانسری کے سوراخ میں کوئی سُر اٹک گیا ہو۔ ‘‘( افسانہ ’آوازِ گریہ‘ مشمولہ ’شکستہ بتوں کے درمیان۔ص:۱۵۷)
غرض مذکورہ بالا افسانے میں واحد متکلم اپنے وجود کے اندر پنپتے حادثات کو خواب کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ گویا سلام بن رزاق کے افسانوں میں فکر کا وہی دائرہ ہے جو فلسفۂ وجودیت کا خاصہ ہے اور اس صراحت پچھلے صفحات میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ مادی ترقی اور روحانی بحران کے اس کی دور میں آج کے فرد کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے وجود کی معنویت کی تلاش ہے۔ آج کاانسان بے چہرہ ہے۔ نفسیاتی الجھنوں اور نیوراتیت کا شکار۔ وہ جذباتی اور ذہنی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ وہ اپنے آپ سے لڑ رہا ہے۔ یہ وہ تمام عناصر ہیں جو سلام بن رزاق کے تقریباً سبھی افسانوں میں کم و بیش پائے جاتے ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ سلام بن رزاق کا وجودی مفکروں کے افکار سے براہ راست کوئی تعارف نہیں یا اس فلسفے کے بنیادی افکار سے ان کا سابقہ نہیں اور کسی تخلیق کار کے لیے ضروری بھی نہیں کہ وہ اپنی تخلیقی نگارشات میں کسی مخصوص فکر ہی کو موضوع بحث بنائے۔ لیکن حالات اور زمانے کے مسائل اور کوائف سے متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی افسانہ نگاری کی ساخت الگ الگ ہے لیکن فکری اعتبار سے وجودیت کے دائرے میں ہی گردش کرتا نظر آتا ہے۔
Bayania ka Jadogar Anwar Khan by Qamar Siddiqui
Articles
بیانیہ کا جادوگر انور خان
ڈاکٹرقمر صدیقی
ممبئی کے افسانہ نگاروں کا مجموعی رویہ جدیدیت سے ہم آہنگی کے ساتھ حقیقت پسندانہ اسلوب سے رغبت کا رہا ہے۔ انور خان ان میں سب سے نمایاں ہیں۔ان کا افسانہ ’’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ ، ’فنکاری‘، ’ کتاب دار کا خواب‘ ، ’یاد بسیرے‘ اور ’فرار‘ جیسے افسانے ان کے شاندار تخلیقی سفر کا اشاریہ ہیں۔ انور خان کے افسانوں کا بنیادی رویہ علامتی ہے اور ابہام کا خلاقانہ استعمال افسانوں کی معنوی تہوں کو مجلا کرتا ہے۔ وارث علوی نے انور خان کی اس فنّی خاصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
’’انور خان کے تمثیلی افسانوں میں ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ اور ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘ نہایت کامیاب افسانے ہیں۔ بوڑھا خدا کی علامت بھی ہوسکتا ہے، اخلاقی روایت کی بھی، ضمیر کی بھی، بہرحال اس کے ابہام میں اس کی آرکی ٹائپل حسن اور معنویت ہے۔ ‘‘ (’تین مضمون نگار‘ مشمولہ ’’جواز‘‘ مالیگائوں، شمارہ ۱۷ ص:۸۹)
بلاشبہ ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ ایک شاہکار افسانہ ہے۔ اس افسانے میں ابتدا سے لے کر اختتام تک انور خان معاشرتی برائیوں کی پرتیں کھولتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے کہانی کے اختتام میں انورخان نے گویا کہانی میں جان ڈال دی ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’وائرلیس گاڑیاں شب و روز دوڑ رہی ہیں۔ طیارے فضا میں منڈلا رہے ہیں۔ ساحل پر بحری افواج چوکس ہیں۔ صنعت کار ہراساں ہیں۔ انڈر ورلڈ کے سلاطین پریشان اور بوڑھے کے نقش پا شہر کے چپے چپے پر بکھرے ہوئے۔ وہ شہر میں بے خطر گھوم رہا ہے۔ کبھی ایسا سننے میں آتا ہے کہ بوڑھا گرفتار ہوگیا ہے۔ کوئی کہتا ہے وہ پھر سیٹھ دیوان چند کے ڈرائنگ روم میں لگے فریم میں لوٹ گیا ہے لیکن لوگ یقین نہیں کرتے جب تک آسمان نیلا ہے، گھاس ہری اور چائے ذائقہ دار۔‘‘ (مشمولہ مجموعہ’ راستے اور کھڑکیاں‘ ص: ۱۰۲)
انور خان کے تین افسانوی مجموعے ’راستے اور کھڑکیاں‘ ، ’فنکاری‘ اور ’یاد بسیرے‘ شائع ہوئے ۔ا ن مجموعوں کی بیشتر سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو پر مشتمل ہے۔ یہ افسانے ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کے فریم سے باہر کردیے گئے انسان اور انسانی قدروں کا بیانیہ ہیں۔ ان افسانوں میں ممبئی کا ماحول، یہاں کی زندگی، یہاں کے لوگوں کے طور طریقے اور مزاج و عادات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ فلم ، ٹی وی اور دیگر تفریحی و تشہیری ذرائع کی مدد سے ممبئی کا جونقشہ مرتب ہوتا ہے وہ خاصا محدود ہے۔ چاندنی بکھیرتے چاند چہروں سے منور جگ مگ کرتا یہ شہر دراصل شہر نہیں شہر کے وہ امیجیز ہیںجنھیں فلم اور ٹی وی اسکرین کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اصل شہر تو انور خان کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ افسانہ ’شام رنگ‘ میں انسانوں کی بھیڑ چیونٹیوں کی قطار کی طرح گلیوں اور سڑکوں پر وقت اور ضرورت کے مردہ جھینگر کو سوت سوت سرکاتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’صدائوں سے بنا آدمی‘ میں انور خان زندگی کی تمام تر سفاکیوں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کرکے بتاتے ہیں کہ جو آدمی ایک دن میں کروڑپتی بنتا ہے وہ ایک ہی دن میں فقیر بھی بن سکتا ہے۔ افسانے کی یہ سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’کھلونے کی مانند خوبصورت بنگلہ اسے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
____بنگلہ کمروں میں منقسم ہے۔ کمروں میں ٹیلی فون براجمان ہیں۔ گھنٹیاں اعداد و شمار اگلتی ہیں۔ اعداد و شمار نے بینک کی پاس بُک بنائی۔ بینک کی پاس بُک نے بنایا سیمنٹ کا نکریٹ کی اونچی عمارتوں کا جنگل جو ہونٹوں پر پتھریلی چپ لیے بنگلے کے عقب سے تک رہا ہے۔
____ اس کے قدم غلط پڑگئے۔
____وہ بے دھیانی میں یہ حرکت کر بیٹھا۔
____وہ ہمیشہ سے سڑک پر ہے۔
جینتی لال نہیں۔ وہ صرف ٹیلی فون کی گھنٹیوں کی زبان سمجھتا ہے۔ ‘‘
(مشمولہ مجموعہ’ راستے اور کھڑکیاں‘ ص: ۴۲)
انور خان کا افسانہ ’’فنکاری ‘‘جسے باقر مہدی نے Circularکہانی قراردیا ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ یہیCircularity اس کہانی کا حسن ہے۔۔۔۔۔ہر بار ہوٹل والا شیٹی ،چائے کے داموں میں اضافہ کردیتا ہے۔ہربار ہوٹل کے گاہکوں میں برہمی پیدا ہوتی ہے اور ہر بار تھوڑی جدوجہد اور احتجاج کے بعد سب شانت ہوجاتا ہے۔یہ کسی ایک شہر ،ایک قصبہ یا ایک ملک کی بات نہیں ہے بلکہ پوری تیسری دنیا کا منظر نامہ ہے ۔باقر صاحب نے اس کہانی پر گفتگو کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ یہ ہندی فلموں کا خاص موضوع رہا ہے لہٰذا فلمی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ کیا زندگی کی بھی اپنی Locationنہیں ہوتی؟جس کی مناسبت سے ہمارے واسطے اور وسیلے ،رہائش کے طور طریقے ،رہن سہن کے آداب،وقت گزاری کے مشاغل ،دیگر دلچسپیاں اور مواقعے ،ساتھ بیٹھنے والے حلقۂ احباب اور نہ جانے کون کون سی چیزوں کے دائرہ کار کا انتخاب اور تعین ہوتا ہے۔افسانہ ’فنکاری‘ احتجاج کا افسانہ ہے اور اس کا کردار استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کی لذت بغاوت کی آب کو ماند کردیتی ہے۔ افسانہ نگار یہ بتانے میں کامیاب ہے کہ احتجاج کس طرح نمائش کی چیز بن جاتا ہے۔ صارفیت اور اشتہاریت کس درجہ سماج پر اثر انداز ہورہے ہیں اور ہمارے آج کے میڈیا اساس سماج میں احتجاج اور بغاوت کو کس طرح نمائشی بلکہ سازشی بنادیا گیا ہے یہ کہانی اس کی ترجمان ہے۔
انور خان نے اپنے افسانوں میں بیانیہ کے مختلف طریقوں کو کامیابی سے برتا ہے۔ شروعات کے افسانوں میں بیانیہ کا Diegtic انداز حاوی ہے اور یہی انداز انور خان کی شناخت بھی بنا مثلاً’ کوئوں سے ڈھکا آسمان‘میں واقعہ نگاری کا اسلوب ہی افسانے کی روح ہے۔ پورے افسانے میں آواز ہی آوازہے،اپنے پورے وجود کے ساتھ ۔یخ بستہ رات،پہلاآدمی ،دوسرا آدمی، تیسرا اور چوتھاآدمی ،گلابی صبح ،ہنستا بچہ،شرماتی لڑکی، پھونس کا مکان،مٹھی بھر چاول،مچھلی کا شوربہ، روئی کی دلائی،کوّوں سے ڈھکا آسمان اور کہانی کے آخر میں کارپوریشن کی گاڑی ،سڑک کا موڑ، شدید سردی کے باعث برہنہ اکڑے ہوئے چند جسم، ان کا گاڑی میں لادے جانا اور گاڑی کا چل دینا۔۔۔۔۔۔یعنی کہانی اندر کہانی ۔انور خان ایسے ہی قصہ گو تھے۔لوگ زمان ومکان سے بے پرواہ منہ کھولے بس سنتے جائیں،گویا کسی نئی دنیا کا سیاح کوئی اجنبی واقعات بیان کررہا ہو!!حالانکہ ان کی کہانیوں کا ہر لفظ اپنے اطراف اوراپنے ماحول کا عکاس ہے۔انور خان کے یہاں بیانیہ کا Mimeticاسلوب جس میں کہانی پر ڈرامائیت غالب ہوتی ہے بھی ملتا ہے ۔اس نوع کے افسانوں میں ’شام رنگ‘، صدائوں سے بنا آدمی‘، ’ لمحوں کی موت‘ ، ’بول بچن‘ اور کسی حد تک ’فنکاری ‘ کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ افسانہ ’’ برف باری‘‘ بیانیہ کے Interal Monologueاسلوب کا عکاس ہے۔ تقریباً آدھا افسانہ راست بیانیہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے باقی آدھا افسانہ داخلی خود کلامی یعنی Interal Monologueکے اسلوب میں۔ ایک ہی افسانے میں دو تکنیکوں کا ادغام افسانے کی ترتیب و ترسیل دونوں کے لیے چیلنچ ہوتا ہے۔ یہاں فن پر اپنی دسترس کی وجہ سے انور خان اس رہِ حاجر و حاجز پر سبک روی سے گزر گئے ہیں۔
ادب کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق تحریروں کا مطالعہ انور خان کا پسندیدہ مشغلہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا تخلیقی کینوس بھی خاصا وسیع ہے۔ روز مرہ کی زندگی ، جبر و استحصال ، ہماری ظاہری وباطنی دنیا ، انور خان کے افسانوں کی یہی رنگا رنگی انھیں معاصر افسانہ میں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔ ان تمام رنگوں میں ایک رنگ صوفیانہ افکار و خیالات کا بھی ہے۔ تلاشِ حق کی یہ جستجو ، یہ تڑپ انور خان کے مزاج کا حصہ تھی۔اپنے پہلے مجموعے کی اشاعت سے تقریباً سات آٹھ سال قبل انھوں نے انورقمر کے نام ایک خط میں تحریر کیا تھا کہ :
’’ میںجاننا چاہتا تھا، دنیا میںیہ اونچ نیچ کیوںہے؟ نیکی کیا ہے؟ بدی کیا ہے؟ نیکی کیوںکی جائے؟ بدی کیوں نہ کی جائے؟ اس دنیا میںمیری حقیقت کیا ہے؟ خود اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ میںکیا کرسکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میںکیا کروں؟ ‘‘(مشمولہ ششماہی ’’اردو نامہ‘‘مدیر: پروفیسر صاحب علی ،مضمون’ انور خان کی فنکاری‘ از: ڈاکٹر جمال رضوی، شمارہ:۷ بابت نومبر ۲۰۱۶ ص: ۲۷۸)
تلاش و جستجو کے اس جذبے نے انورخان سے تصوف کے موضوع پر بھی افسانے لکھوائے۔ اس ضمن میں افسانہ ’’چھاپ تلک‘‘ بہت اہم ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے تصوف کی ظاہری علامات مثلاً درگاہ، پیر و مرشد، محفلِ سماع وغیرہ کے مناظر پیش کرتے ہوئے تصوف کی تعلیمات کا مثبت پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح افسانہ ’بلاوہ‘ میں انھوں نے فنا و بقا کے مسئلے کے علاوہ مابعد الطبیعاتی حقیقتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کا ایک مشاہدہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرا چھا گیا جیسے سورج بدلی میں گھر گیا ہو۔ اْس نے دیکھا وہ ایک بہت بڑے سوراخ کے دہانے پر کھڑا ہے اور تمام چیزیں اْس سوراخ میںکھینچتی چلی جارہی ہیں۔ہرے بھرے درخت ، فضا میں اْڑتے پرندے ، مکانات ، بجلی کے قمقمے ، موٹریں ، گاڑیاں ، ڈاک کا ڈبہ ، خوش پوش راہگیر ، سڑک پر کھیلتے بچے ، سبک اندام حسینائیں، بازار ، رکشائیں ، سب ہی اپنی ملی جلی آوازوں سمیت جذب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔ سوراخ سے مسلسل ایک ڈرائونی سی کھوں کھوں کی آواز آرہی تھی۔ ‘‘
تصوف کی بنیاد بشمول زندگی ، کائنات کے دیگر مظاہر کو التباس (Simulacra) تسلیم کرلیے جانے پر قائم ہے۔ انور خان نے یہاں کمالِ فن سے مختلف تہذیبوں میں رائج فنا کے بیانیوں کی تشکیلِ نو کی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو یہ افسانہ بین المطونیت کی بھی ایک عمدل مثال بن جاتا ہے۔ اس نہج کے دیگر افسانوں میں ’بھیڑیں‘ اور ’عرفان‘ وغیرہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ افسانہ ’کمپیوٹر‘ میں انور خان نے گوکہ وجود ، عدم ، خالقِ کائنات جیسے صوفیانہ/بھکتی افکار کو ہی موضوع بنایا ہے ۔لیکن اس افسانے کی خاصیت یہ ہے کہ ہماری روایتی بصیرتوں کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدیہ خصوصاً سائنسی بصیرتوں کی آمیزش اور انسان اور مشین کے ربط سے پیدا ہونے والی کارکردگی کو اجاگر کرکے ایک نئی منطق کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ سائنس فکشن نہیں بلکہ یہ جدید دنیا کی نئی بوطیقا ہے جس میں مشین کے ذریعے قادرِ مطلق تک رسائی کو درشانے کی سعی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر افسانے کا یہ حصہ پیش کیا جارہا ہے:
’’وہ دھیان کے آسن میں بیٹھ گیا اور اْسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ دھیان میں چلا گیا۔ اُس نے دیکھا اُس کے گرو دروازے پر کھڑے اْسے بلا رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے اْٹھا اور ایک بے جان معمول کی طرح گرو کے ساتھ چل پڑا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر تک چلتے رہے کم از کم رمیش کو یہی محسوس ہوا جیسے وہ صدیوں سے چل رہا ہو ، یہاں تک کہ اُس نے دیکھا کہ وہ بالکل دھرتی کے سرے پر آگئے ہیں۔ اُسے خوف محسوس ہوا مگر وینکٹ چلم ( گرو ) نے اُسے تسلّی آمیز نگاہوں سے دیکھا کہ گھبرائو مت ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ دوسرے ہی لمحے وہ خلا میں تھے۔ حسب معمول وہ سفید روشنیوں میں سے گزرے ، پھر زرد، گہری، نیلی، سبز اور ہلکی آسمانی روشنیوں سے گزرتے ، سرخ روشنیوں میں آگئے۔ آسمانی اور سرخ روشنیوں سے گزرنے کا رمیش کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ ان روشنیوں سے گزرتے ہوئے رمیش کو ایک ہیجان سا محسوس ہوا جو جلد ختم ہوگیا کیونکہ اب وہ ایک بے رنگ وادی سے گزررہے تھے۔ اس وادی میں قدم رکھتے ہی اُنھیں محسوس ہوا کہ اُن پر پھول برس رہے ہیں۔ سکون اور خوشبو کی لپٹو ں نے اُنھیں اپنے ہالے میں لے لیا ہے اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ اُس نے اپنے گرو کی طرف دیکھا۔گرو نے مسکراتے ہوئے اُسے اُفق پر دیکھنے کا اشارہ کیا۔ گرو کے حکم کی تعمیل میں رمیش نے اُفق کی طرف دیکھا۔ گہری سیاہی مائل روشنی نے اچانک ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رمیش نے اس روشنی کو اپنے اندر اُترتامحسوس کیا اور اُس نے دیکھا کہ وہ اور اُس کا گرو اب مجسم روشن ہوچکے ہیں۔ اب وہ سرتاپا آنند تھے۔ بڑی دیر تک وہ یونہی کھڑے رہے یہاں تک کے گرو وینکٹ چلم نے اشارے سے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے اور اگلے ہی لمحے اْس نے خود کو روشنیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پایا۔ رمیش نے آنکھیں کھولیں۔ ہر چیز ویسی ہی تھی اور ابھی رات ہی تو تھی۔ جیسے اْس نے ایک جھپکی لی ہو۔‘‘
یہ اور اس قبیل کے دوسرے افسانوں کی ایک خصوصیت ان کا بیانیہ بھی ہے۔علاوہ ازیں افسانہ ’’کمپیوٹر‘‘ میں زبان کا خلاقانہ استعمال بیانیہ کو مزید جاذبیت عطا کرتا ہے۔ خاص طور سے مابعد الطبیعاتی بیان کے لیے اس کی مناسبت سے زبان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔انور خان نے حقیقت اور علامت کی باہمی آمیزش سے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے جو متنوع اور خیال انگیز ہے۔ انور خان نے بیانیہ میں منظری (Scenic)اور غیر منظری (Non Scenic) دونوں طریقوں کا استعمال کیا ملتاہے۔ کرداروں کے بجائے واقعات کو اہمیت دیتے ہوئے انھوں نے اپنے کئی کامیاب افسانے منظری (Scenic) اسلوب میں تحریر کیے۔مثلاً ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘، ’ صدائوں سے بنا آدمی، ’ شکستگی‘ اور’ سیاہ و سفید‘ وغیرہ ۔ زبان کا معروضی استعمال اور ڈسکورس کے دوران سوال قائم کرنے کا انداز انورخان کے بیانیہ کو پرکشش بناتا ہے۔ سوالات قائم کرنے کا یہ حوصلہ انور خان کی اصل طاقت ہے اور ان کے فنی رویے کی مخصوص پہچان بھی۔ان کے افسانوں میں استفہامی انداز کے علاوہ متن میں موجود صورتِ حال کے نتیجے میں بھی سوالات قائم ہوتے ہیں۔ یہ سوال اساس بیانیہ افسانوں میں معنی کی تکثیریت کو انگیز کرتا ہے۔ انور خان کے یہاں حقیقت نگاری، سادہ اور تاثراتی بیانیہ کے افسانوں کے علاوہ بیانیہ کے حوالے سے قدرے مشکل تمثیلی اور ایک سے زیادہ راویوں کی مدد سے بیانیہ تشکیل دینے کی تکنیکوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’ہوا‘‘ اس کی اچھی مثال ہے۔ تمثیلی بیانیہ میں زندگی کے داخلی و معنوی حقائق بیان کرتے ہوئے اس کے ابدی حقائق پر بھی توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔ تمثیلی قصے میں اخلاقی مضامین کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے مضامین شامل کیے جاسکتے ہیں۔ تمثیل ایک طرح سے استعارہ در استعارہ یا استعارہ بالتصریح سے قریب ترہے لہٰذا اسے فن کے لیے ایک کارگر وسیلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ افسانہ ’’ہوا‘‘ میں انور خان نے اسی وسیلے کے ذریعے بھیڑ یا اجتماع کی نفسیات کے منفی اثرات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
انور خان کے افسانوں میں تکنیک کے تجربات بھی ملتے ہیں۔ اس تعلق سے ان کے کئی افسانوں پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘ ان کا مقبول افسانہ ہے۔ اس میں انھوں نے کٹ اپ کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ کٹ اپ تکنیک میں پہلے جملے کے اختتام سے دوسرے جملے کو شروع کیا جاتا ہے۔ اس سے بیان میں شدت اور تاثر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر یہ چند سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’شہر کی بجلی فیل ہوگئی ہے۔‘‘ کہانی جمع کرنے والا ۔
’’بجلی فیل ہوگئی ہے۔‘‘ پہلا آدمی آگ میں گرتے گرتے بچا۔
’’بجلی فیل ہوگئی ہے۔دوسرا ہڑبڑایا۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ اب صبح نہیں ہوگی۔‘‘(مشمولہ ’راستے اور کھڑکیاں ‘ ،ص: ۱۱)
اس طرح کے کٹ اپ تکنیک کا استعمال افسانے میں کئی بار نظر آتا ہے۔ دراصل اس افسانے میں انورخان نے اس تکنیک کی مدد سے ماحول کے بوجھل پن کے تاثر کو مزید گہرا کردیا ہے۔افسانہ ’ کتاب دار کا خواب‘‘ میں منظر کو ساکن (Freeze Frame)کردینے والی تکنیک کا استعمال کیا گیاہے۔ افسانے میں کسی فلم کی طرح انور خان بہتیرے مناظر کو ہماری آنکھوں کے سامنے بالکل ساکن کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’کتاب دارکا خواب‘ میں دیکھیے:
’’______یکایک سارا شہر تھم گیا ہے۔
_______ آسمان گیند کی شکل میں سر پر ہے۔
_______ غنچہ پھول بنتے بنتے ادھ کھلا رہ گیا ہے۔
_______پرندے ہوا میں اڑتے اڑتے ساکت ہوگئے ہیں۔
_______نوزائیدہ بچہ جس نے ابھی ابھی آنکھ کھولی ہے ، ہاتھ پیر پٹخ کر روتے ہوئے ویسے ہی ٹھہر گیا ہے۔‘‘ (مشمولہ ’’فنکاری ‘‘ ، ص:۲۴)
افسانہ نگار نے اس افسانے میں آثارِ قدیمہ کے توسط سے ایک ایسا تجربہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں پورا منظر ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے اور قاری اپنے آپ کو کتاب دار کے ساتھ ہی ساکت محسوس کرنے لگتا ہے۔ تکنیک کے تجربے کے اعتبار سے دیگر افسانوں میں ہوا، برف باری، نرسری، اپنائیت ، گونج، بول بچن اور میونسپل پارک کا ذکر بھی ضروری ہے۔ خاص طور سے ’’میونسپل پارک‘‘اس میں تو ایک جہان دگر آباد ہے۔افسانہ ’بول بچن‘ کو موضوعی سطح پر ایک عام سا افسانہ گردانا گیا ہے تاہم اس افسانے میں ممبئی کی علاقائی زبان کے الفاظ (slang) کااستعمال ہمیں منٹو کا افسانہ ’’ممد بھائی‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ ظاہرہے اس طرح کے تجربات اردو افسانے میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں لہٰذا یہ افسانہ اس حوالے سے بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ اِس افسانے میں انور خان نے منظری (Scenic) اسلوب استعمال کرتے ہوئے ڈرامائیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’’شاٹ‘‘ میں انورخان نے واقعات کو خاص زمانی ترتیب سے نہ بیان کرتے ہوئے ماضی سے حال کے انسلاک کے لیے فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ فلیش بیک تکنیک کا تعلق بنیادی طور فلم سے ہے ، یہاں ایک ندرت یہ بھی ہے کہ یہ افسانہ فلم کے ایک سین کا بیانیہ ہے جس میں فلیش بیک کے لیے ٹیلی گرام کے حروف ’’ کل مامی کا انتقال ہوگیا ہے‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ایک جملے سے پوری کہانی کی تعمیر و تشکیل کی گئی ہے۔ قاری جب اس کہانی کو Disconstruct کرتا ہے تو اسے زندگی کے بعض ایسے حقائق سے آنکھیں چار کرنی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے تئیں اپنی ترجیحات پر از سرِ نو غور کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔
انور خان انسانی نفسیات کے پارکھ تھے اور انھوں نے اپنے افسانوں میں اس کا بخوبی اظہار بھی کیا ہے ۔انھوں نے ہمارے اطراف و اکناف میں بکھرے چھوٹے چھوٹے واقعات سے کہانیاں بُنیں اور زندگی کے انھیںچھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑی بڑی حقیقتوں کے انکشاف کا وسیلہ بنایا ۔
Surandar Parkash ke Afsane by Dr. Nisar Ahmad
Articles
سریندر پرکاش کے افسانے
ڈاکٹر نثار احمد
۱۹۶۰ کے آس پاس اردو میں علامتی و تجریدی افسانے کا چلن عام ہوا۔ یہ اتنا حاوی رجحان تھا کہ کم و بیش اردو کا ہر قابلِ ذکر افسانہ نگار ادب میں اپنے وجود کی بقا کے لیے علامت و تجرید کا سہارا لینے پر مجبور ہوا۔ افسانوں میں تجرید پیدا کرنے کے لیے کہانی کے بنیادی صنفی عناصر یعنی پلاٹ ، کردار، واقعہ اور فضا کی ناگزیریت سے انکار کیا گیا اور منجھی ہوئی مانوس اور مربوط زبان کے بجائے نسبتاً ناہموار اور کھردری زبان کے ذریعے پر اسرار فضا کی تخلیق کی سعی کی گئی۔ اس کے جواز کے لیے کہا گیا کہ چونکہ افسانے میں فرد کے باطنی انتشار کی ترجمانی کی جارہی ہے اس لیے اس میں منطقی ربط کے بجائے بے ربط اظہار ضروری ہے۔ کہانی میں علامتی اظہار کے لیے داستان ، حکایت، دیومالا، بودھ جاتک ، یونانی دیومالا اور آسمانی صحائف سے جردار اور واقعات مستعار لیے گئے اور انھیں جدید زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے علامت کی تخلیق میں مدد لی گئی۔ بعض افسانہ نگاروں نے ذاتی علامتیں بھی وضع کیں۔ ان افسانوں میں جدید معاشرے کے ذہنی مسائل مثلاً تنہائی کا احساس ، عدم تحفظ کا کرب، بے سمتی و بے معنویت ، بے چہرگی کا احساس، اخلاقی و روحانی زوال، رشتوں کی بے معنویت، تشکیک اور فطرت سے ہجرت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا گیا۔ اگر سیاسی جبر اور معاشی ناہمواری کو دکھایا گیا تو افسانہ نگار کی پوری توجہ اس کے انسانی باطن پر پڑنے والے اثرات پر رہی۔ اس طرح کے جدید افسانے لکھنے والوں میں ایک منفرد نام سریندر پرکاش کا ہے۔
سریندر پرکاش کے تین افسانوی مجموعے ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ (۱۹۶۸)، ’برف پر مکالمہ‘ (۱۹۸۱ء) اور ’بازگوئی‘ (۱۹۸۸) منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ان کے علاوہ درجن بھر افسانے مختلف رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ سریندر پرکاش جدید افسانہ نگاروں میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ انھیں اپنے میڈیم پر فنکارانہ دسترس حاصل ہے۔ وہ الفاظ کو روایتی تلازمات سے آزاد کرکے استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جدید انسان کی ذہنی و جذباتی کیفیات کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے جو دوسروں سے نمایاں طور پر منفرد ہوتی ہے ۔ وہ تجرید اور اسطور دونوں کو فنکارانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ قدیم ہندو دیومالائی اساطیر اور اسلامی اساطیر سے کام لیتے ہیں اور خود اساطیر خلق بھی کرتے ہیں اور ان کے پرسے میں صنعتی دور کے تھکے ہوئے اور ستائے ہوئے انسان کے روحانی کھوکھلے پن ، ذہنی پراگندگی، رشتوں کی شکست و ریخت، اقدار کی پامالی، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نفاق اور تشدد نیز سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسانی ذہن پر پڑنے والے اثرات کی عکاسی فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوع سے زیادہ اس کی پیشکش پر زور ملتا ہے اور وہ موضوع کی پیشکش کے لیے مختلف فنی تدابیر اختیار کرتے ہیں جس کے سبب ان کی کہانیاں ایک دوسرے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی نہیں معلوم ہوتیں جیسا کہ بعض جدید افسانہ نگاروں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں ایک پراسرار ، خوابناک، مبہم اور انجانی دنیا خلق کرتے ہیں جن میں کردار پرچھائیں نما معلوم ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کی شناخت ان کے ظاہری اعمال اور ان کے ناموں سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی باطنی صورتِ حال سے ہوتی ہے۔ یہ کردار اپنے ظاہر میں نہیں بلکہ اپنے باطن میں پھیلتے اور سمٹتے ہیں۔ نیم بیداری کی کیفیتوں سے بنے گئے ان افسانوں میں تحیر و استعجاب کے عناصر پائے جاتے ہیں اور ان کے واقعات میں منطقی ربط نہیں ہوتا بلکہ خواب کی دنیا کے واقعات کی طرح ہم ان میں غیر متوقع اور بعید از فہم واقعات سے دوچار ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے سریندر پرکاش کی علامتوں کو خواب کی علامتوں اور افسانوںکی بافت کو انوکھی بے بدنی سے تعبیر کیا ہے۔ فاروقی صاحب سریندر پرکاش کے پہلے افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’یہ افسانے محض بے پلاٹ کے نہیں ہیں۔ اگر پلاٹ نہ ہو لیکن کردار زمان میں حرکت کرتا رہے تو بھی افسانے کو ایک داخلی ربط میسر ہوجاتا ہے۔ ان کہانیوں کے کردار بھی کسی نقطۂ وقت پر ٹھہرے ہوئے اور اس میں گرفتار ہیں۔ اگر وہ حرکت بھی کرتے ہیں تو اپنے ذہنوں کی خلائوں میں۔ اس طرح ان کہانیوں میں ایک انوکھی بے بدنی (Bodylessness) پائی جاتی ہے جو بیک وقت مضطربھی کرتی ہے اور متحیر بھی۔‘‘
سریندر پرکاش کے پہلے مجموعے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ میں چودہ کہانیاں ہیں۔ ’’رونے کی آواز‘‘ اندورنی اظہار کی کہانی ہے جس میں جگہ جگہ خود کلامی کے ذریعے حزنیہ کیفیت پیدا کی گئی ہے اور اسی کے ساتھ شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے متضاد خیالات کی لہروں کو افسانہ نگار کی بے جا مداخلت کے بغیر بہنے دیا گیا ہے۔ کہانی کا واحد متکلم ایک وجودی کردار ہے جو جدید معاشرے کے مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ اس کا وجود مختلف حصوں میں بٹ گیا ہے۔ وہ بے چہرگی ، تنہائی اور مایوسی کا شکار ہوکر باطنی کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ رشتوں کی ناپائیداری فرد کی بے بسی اور خود غرضی دیکھ کر اسے رونا آتا ہے۔ اس طرح رونے کی آواز مرکزی کردار کے ضمیر کی آواز کی علامت ہے۔ کہانی میں وشنو بابا کو پہلے سرسوتی سے پھر لکشمی سے شادی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وشنو بابا دوسری شادی کے بعد سرسوتی کو روتا بلکتا چھوڑ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سرسوتی علم کی دیوی ہے اور لکشمی دولت کی۔ ان دیومالائی علامتوں کے ذریعے سریندر پرکاش نے جدید معاشرے میں علم سے بے رغبتی اور دولت سے بے پناہ محبت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہانی کی فضا خوابناک اور پر استعجاب ہے اور زبان میں روانی ہے۔ کہانی کے بنیادی ڈھانچے میں اتنی توڑ پھوڑ نہیں کی گئی ہے کہ کہانی پن مجروح ہوجائے۔
’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کو عام طور پر سریندر پرکاش کے پہچان کے وسیلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی نہایت پیچیدہ علامتوں کی حامل ہے۔ کہانی میں زرعی معاشرے سے جدید معاشرے کی طرف ہجرت کی داستان بیان کی گئی ہے۔ کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے تو بات زیادہ روشن ہوجائے گی:
’’ وادی میں بے ترتیب درخت جابجا پھیلے ہوئے تھے جن کے جسموں کی خوشبو فضا میں گھل مل گئی تھی ۔ نئے راستوں پر چلنے سے دل میں رہ رہ کر امنگ سی پیدا ہوتی۔ سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی در سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ میں گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر صاف شفاف چکنی سڑکوں پر آگیا۔ پختہ سڑکوں پر صرف میرے پائوں سے جھڑتی ہوئی گرد تھی جو میں پگڈنڈیوں سے لے کر آیا تھا یا پھر میرے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔‘‘
وادی کے بے ترتیب درخت زرعی معاشرے کی علامت ہے جس میں وسعت اور پھیلائو کے علاوہ فطرت سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔ گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر صاف ستھری چکنی سڑک پر آنا زرعی معاشرے سے جدید معاشرے کی طرف ہجرت ہے۔ پختہ سڑک پر آکر گرد کو جھاڑنا ماضی کے آثار و نقوش سے دستبردار ہونے کا اشاریہ ہے۔ بہر حال پوری کہانی نہایت پیچیدہ ہے اور قاری کے فہم و ادراک کو چیلنج کرنے والی ہے۔ کہانی میں صنعتی معاشرے کی تنہائی ، بے رخے پن اور رشتوں کی ناپائیداری کی طرف بھی بلیغ اشارے کیے گئے ہیں۔
’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ میں ’بدوشک کی موت‘ نسبتاً کم پیچیدہ ہے۔ اس کہانی میں جنگ کے دہشت نال ماحول میں عام لوگوں کی مسرتوں اور مسکراہٹوں کے چھن جانے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’بدوشک‘ دراصل ہندی لفظ ’ودوشک‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی مسخرہ کے ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدوشک راوی کا دوست ہے جو مسخرے پن کی حرکتیں کرتا رہتا ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بدوشک کوئی کردار نہیں بلکہ راوی کی بٹی ہوئی شخصیت ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بدوشک کی موت واقع ہوجاتی ہے تو راوی اور اس کے گھر والے کہتے ہیں وہ ان کی شخصیت کا اٹوٹ انگ تھا اور ان کے ساتھ ۳۵ برسوں سے رہ رہا تھا۔ راوی کی عمر بھی ۳۵ برس کے آس پاس ہے۔ یہ دراصل جنگ کے دہشت ناک ماحول میں مسکراہٹوں اور خوشیوں کے چھن جانے کی علامت ہے۔ کہانی میں جگہ جگہ بارود، ٹینک اور بلیک آئوٹ کا ذکر ہے۔ بدوشک کو اگر کہانی کا ایک کردار بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی کہانی کی علامتی معنویت میں فرق نہیں پڑے گا۔
سریندر پرکاش نے اپنی کہانیوں ’نئے قدموں کی چاپ، پوسٹر، پیاسا سمندر، خشت و گل، رہائی کے بعد، رات روتی ہے، جنگل مہاراج روڈ‘ وغیرہ میں زرعی معاشرے سے ہجرت کرکے صنعتی معاشرے میں آمد اور پھر صنعتی معاشرے کی لعنتوں سے تنگ آکر قدیم تہذیب اور مذہب کی طرف مراجعت کو بڑی فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ’نئے قدموں کی چاپ‘ میں دونوں تہذیبوں کی کشمکش کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ ماضی میں اکتارے پر برہا کے گان کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کیا جاتا تھا لیکن جدید معاشرے میں میاں بیوی دونوں روزگار کے سبب مختلف شہروں کی خاک چھانتے ہیں لیکن انھیں کہیں بھی اطمینان اور سکون میسر نہیں آتا۔ اس طرح مادیت کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب ہر شخص پریشان ہے۔ رشتے ناطے اور بھائی چارہ سب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہاں پر ہابیل اور قابیل کے قرآنی اسطور کے وسیلے سے بھائی چارگی کے خاتمے کو پیش کیا گیا ہے۔ بالآخر اس سارے شکست و ریخت کا حل ماضی میں نظر آتا ہے جہاں مذہبی نظریات اور عقائد اسے ذہنی سکون عطا کرتے ہیں۔ ’پوسٹر‘ میں بھی جدید معاشرتی نظام اور پاپ کلچر کی لعنتوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ مادی آسائش کے حصول کے لیے جائز و ناجائز طریقوں میں امتیاز نہیں رہا۔ شوہر اپنی بیوی کو غیر کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھتا ہے لیکن سوری کہہ کر بغیر کسی ردِّعمل کے وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ پریم ودا جنسی آزادی کے وسیلے سے زندگی کی مسرتوں کو کشید کرنا چاہتی ہے لیکن بالآخر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اسے وجودی خلا کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی بے قراری ، تنہائی اور خودشکستگی کا مداوا سریندر پرکاش مذہب میں دکھاتے ہیں۔ ’خشت و گل‘ میں بھی قدیم و جدید تہذیبوں کی کشمکش کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں قرآن پاک کے حضرتِ نوح کے قصے اور ہندو دیومالا میں منو، برہما، وشنو، مہیش اور گوتم بدھ کے واقعات اور ان سے متعلق تصورات گھلا ملا کر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس طرح کا کامیاب تکنیکی تجربی انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں کیا ہے۔
مذکورہ کہانیوں میں سریندر پرکاش نے کہانی کے بنیادی صنفی عناصر کو یکسر مسترد نہیں کیا ہے بلکہ کہانی پن اور فضا سازی کے سبب یہ کہانیاں دوسری جدید کہانیوں سے منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ ان کے برخلاف ’نقب زن‘ اور ’تلقارمس‘ خالص تجریدی کہانیاں ہیں۔ اول الذکر افسانے میں مختلف دائروں کے ذریعے تجریدیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور موخر الذکر کہانی اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ سریندر پرکاش کی پیچیدہ تر کہانیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کہانی کا انگریزی ترجمہ Linda Wentinkنے Indian Literatureکے لیے کیا تھا اور اسے اردو کی نمائندہ تجریدی کہانی قرار دیا تھا۔ بہر حال تلقارمس لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی عبرانی یا لاطینی لفظ ہے۔ خاطر نشان رہے کہ سریندر پرکاش کے بعد کی دو کہانیوں ’بازگوئی‘ اور ’ جمغورۃ الفریم‘ میں تلقارمس ایک کردار کے طور پر بھی سامنے آیا ہے۔ پوری کہانی میں کہیں کوئی وقفہ ،سکتہ یا کوئی دوسری علامت نہیں ہے۔ اس کے ذریعے سریندر پرکاش غالباً یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جس دور کو یہ کہانی پیش کر رہی ہے اس میں زندگی بھی بغیر رکاوٹ کے ایک ہی رفتار پر چل رہی ہے۔ کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے:
’’ستمبر کے مہینے میں آنسو گیس کا استعمال ٹھیک نہیں۔ ان دنوں کسان شہر سے راشن کارڈ کا بیج لینے آیا ہوتا ہے۔ وہ بڑے مہمان نواز قسم کے لوگ تھے۔ انھوں نے انڈوں کی جگہ اپنے بچوں کے سر ابال کر اور روٹیوں کی جگہ عورتوں کے پستان کاٹ کر پیش کردئے۔ مگر آخری وقت جب میں نزع کے عالم میں تھا وہ میرا راشن کارڈ چرانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خوانچے اونچی اونچی دیواروں پر لگا رکھے تھے اور نیچے وادی میں جھونپڑیاں جل رہی تھیں۔ جھونپڑیاں جلنے تک گاڑی پلیٹ فارم پر آجاتی ہے اور سب لوگ آگے بڑھ کر اپنی لاش پہچان لیتے ہیں پھر وہ گرم کباب کی ہانک لگاتے کوئی نہ پوچھتا کس عزیز کے گوشت کے کباب ہیں۔‘‘
اس اقتباس میں جملے جوڑ کر معنی بر آمد کیے جاسکتے ہیں لیکن اس میں کہانی پن کی تلاش سعی لاحاصل ہوگی البتہ اس میں کچھ واقعات اور کچھ باتیں شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے یکجا کردیئے گئے ہیں۔ اس کہانی کی نہ کوئی تھیم ہے نہ کوئی پلاٹ اور نہ ہی کوئی کردار۔ اس میں جدید دور کے بے شمار مسائل کو شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح یہ اینٹی اسٹوری کی نمایاں مثال ہے۔
مجموعہ ’’ برف پر مکالمہ‘‘ میں گیارہ افسانے ہیں۔ اس مجموعے کے افسانوں میں دیومالائی عناصر کار فرما نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں انتظار حسین سے مدد ملی۔ ’بن باس ۸۱‘ میں رامائن کے اسطور سے اور ’گاڑی بھر رسد‘ میں داستانوں سے مدد لی گئی ہے۔ ان کے برخلاف ’جمغورۃ الفریم، جبی ژان‘ اور ’برف پر مکالمہ‘ میں اسطور سازی کا رجحان ملتا ہے۔ اس مجموعے کی ایک اہم کہانی ’گاڑی بھر رسد‘ ہے جس کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کہانی کا موضوع حکمراں طبقے کے ذریعے عوام کا استحصال ہے۔ آزادی سے قبل ہندوستان کے عوام انگریزوں کے ظلم و جبر اور استحصال کا شکار تھے۔ آزادی کے بعد انگریزوں کے ظلم و جبر سے نجات پانے پر انھوں نے خوشیاں منائیں لیکن جب آزادی کے بعد اپنے ہی ملک کے حکمرانوں نے ان کا استحصال شروع کردیا تو ان کے توقعات کی شکست ہوگئی۔اس تھیم کی پیشکش کے لیے سریندر پرکاش نے داستانوں سے مدد لی ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ پہاڑوں کے پیچھے سے ایک پر اسرار سواری آتی ہے اور کچھ کھانے پینے کے سامان کے علاوہ ایک خوبرو نوجوان کو لے کر روانہ ہوجاتی ہے۔ یہ عمل برسوں سے جاری ہے۔ یہ ایک اجتماعی آشوب ہے جس سے بستی والوں کو نجات دلانے والا کوئی نہیں۔ اس کہانی میں سریندر پرکاش نے سواری کا تصور داستان سے لیا ہے لیکن اس میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے نیا مفہوم پیدا کیا ہے۔ داستانوں میں ہوتا یوں ہے کہ قریہ والوں کو اس اجتماعی آشوب سے نجات دلانے کے لیے بالاآخر ایک خطر پسند شہزادہ یا سبز پوش بزرگ آتے ہیں اور بستی والوں کو نجات دلاتے ہیں لیکن اس کہانی میں کوئی نجات دہندہ نہیں آتا ہے۔ اس سے سریندر پرکاش یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آج آدم زاد جس اجتماعی آشوب میں گرفتار ہے اس سے نجات ممکن نہیں، موجودہ نظام حکومت سے بے اطمینانی کے اظہار کے لیے سواری کے اس تصور سے خالدہ حسین نے اپنی نہایت کامیاب اور پر قوت علامتی کہانی ’سواری‘ میں فائدہ اٹھایا ہے۔ خاطر نشان رہے کہ جدید کہانیوں میں نجات دہندہ کے غائب ہوجانے کے نکتے کی طرف پہلی بار ’سواری‘ پر بحث کرتے ہوئے انتظار حسین نے اشارہ کیا ہے۔ بہر کیف کہانی میں سریندر پرکاش نے جہاں گاڑی کی آمد کو بیان کیا ہے وہاں گاڑی اور گاڑی بان کی جزئیات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے نہ صرف پر اسراریت پیدا ہوتی ہے بلکہ خوف و دہشت کی ایک انوکھی اور پر ہول فضا تیار ہوتی ہے۔ کہانی کی نثر نہایت خوبصورت ہے۔
اس کے بر خلاف ’ بن باس ۸۱‘ میں سریندر پرکاش نے اسطور کے ماخذ کے مطابق کتھا کی زبان سے کام لیا ہے جو نہایت دلکش معلوم ہوتی ہے۔ کہانی میں رام کے بن باس کے اسطور سے کام لیا گیا ہے۔ رامائن کے برخلاف اس کہانی میں بھی رام چندر جی چودہ برس کے بن باس کے بعد واپس نہیں آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رام چندر جی ہندو قوم کے نجات دہندہ تھے۔داستانوں کی طرح اس کہانی کا آغاز بھی پر اسرار انداز سے ہوا ہے۔ کہانی میں جگہ جگہ طنز سے کام لیا گیا ہے۔ اجودھیا میں رام چندر جی کے نہ آنے کے سبب جو تجارتی صورتِ حال ہے وہ ہمارے دور کا آئینہ ہے۔ وٹھل سیٹھ بھیکو کسان کے اناج لوہے کے باٹ سے تول کر خریدتا ہے اور نمک سونے کے باٹ سے تول کر دیتا ہے۔ کہانی کے آخر میں رامائن کے اسطور کو اسلامی اسطور سے ملا دیا گیا ہے۔ غالباً اس کے ذریعے حقیقت کے ایک ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہانی کی ایک بڑی خوبی اس کی روانی ہے اور اسطور کے ماخذ کے مطابق زبان ہے۔ اس سلسلے میں کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’مجھے شما کردیجئے پتا جی۔ رام کو ایودھیا واپس لانے میں اسپھل رہا ہوں۔ ان کی ہٹ کے آگے میری ایک نہ چلی۔ وہ آپ کی آگیا اور ماں کی اکچھا کا پالن کرنے پر ووش ہیں اور مجھے ان کی آگیا کا پالن کرنے پر ووش ہونا پڑ رہا ہے۔ راج سنگھاسن پر ششوبھت ہونے کے لیے اپنی کھڑاویں دی ہیں۔ وہ تو بن باس ہی رہیں گے پرنتو مجھے آدیش دیا ہے کہ میں ان کھڑائوں کی سہایتا سے راج کاج چلائوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ اس کٹھن پریکشا میں سپھل ہوسکوں۔‘‘
اس کے برخلاف ’جپی ژان ، برف پر مکالمہ‘ اور ’ جمغورۃ الفریم‘ میں اسطور سازی کا رجحان ملتا ہے۔ ’جپی ژان‘ سریندر پرکاش کا نمائندہ افسانہ ہے جس پر اس کی اشاعت سے اب تک بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ کہانی کا موضوع جدید معاشرے میں مادیت کے غلبے کے سبب پیدا ہونے والی انجانی ذہنی بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنے کے لیے روحانیت کی طرف مراجعت ہے۔ سریندر پرکاش نے ’جپی ژان‘ کو ایک نجات دہندہ روحانی پیشوا کے علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سریندر پرکاش نے اس کے ایک ہاتھ میں کھتری اور دوسرے میں سنکھ دکھایا ہے۔ کھتری کہیں مہرِ نبوت تو نہیں ؟ اور سنکھ کہیں صورِ اسرافیل تو نہیں؟ جس کو قیامت برپا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ نبی کی حیثیت بشیر اور نذیر دونوں کی ہوتی ہے۔ جپی ژان ایک روحانی پیشوا کی علامت ہے اس خیال کو تقویت اس واقعے سے ملتی ہے جس میں عورتیں جپی ژان کے انتظار میں ایک میدان میں اکٹھا ہیں۔ ظاہر ہے کہ عورتیں زیادہ مذہبی ہوتی ہیں اور معجزات و کرامات پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ بہر حال کہانی میں جپی ژان کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے لیکن جب اس کو بوسیدہ حالت میں دریافت کرلیا جاتا ہے تو ان کے توقعات کی شکست ہوجاتی ہے۔ کہانی میں جدید دور کے دوسرے مسائل کی طرف بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ خوبصورت نثر اور پراسراریت کے سبب کہانی کامیاب ہے۔
’جمغورۃ الفریم‘ میں ہندوستان کے تقسیم در تقسیم کے المیے کو موضوع بنایاگیا ہے۔ جمغورہ غالباً جمہوریت کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ سریندر پرکاش عام طور پر پراسراریت پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر جپی ژان اور تلقارمس جیسے ناموں کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ سریندر پرکاش نے تقسیم کے المیے کو بالکل انوکھے انداز سے برتا ہے۔ ایک کمرہ ہے جس میں ایک کٹی پھٹی لاش پڑی ہے۔ کہیں دور فوارہ چل رہا ہے۔ ایک آدمی سائیکل پر چلا جارہا ہے اور کتا بھونک رہا ہے۔ کتے کو چپ کرانے کے لیے لاش کے کچھ حصے کاٹ کر کتے کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے گویا آزادی کے وقت ہندوستان کی حیثیت ایک لاش کی طرح تھی اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ شروع کردیا لہٰذا اس لاش کا ایک حصہ کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا گیا۔ اس طرح تقسیم کے واقعے کو علامتی انداز میں سریندر پرکاش نے پیش کیا ہے۔ کہانی میں داخلی خود کلامی کی تکنیک استعمال کی گئی ہے اور کہانی میں خوف و دہشت کی فضا ہے۔ ’برف پر مکالمہ‘ میں جدید معاشرے کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ برف در اصل جمود کی علامت ہے اور یہ اخلاقی و روحانی جمود کا اشاریہ ہے۔ کہانی میں اسطور سازی کا عمل ہے۔ اس کے علاوہ ’مردہ آدمی کی تصویر‘ اور ’ ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے‘ میں بھی معاشرے کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں کہانیاں نہایت پیچیدہ علامتی نظام کی حامل ہیں اس لیے کہانی کی ترسیل میں دشواری ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس مجموعہ کی کہانیوں میں خوبصورت نثر، تحیر کا عنصر ، سیاسی و سماجی حوالے اور معمولی چیزوں کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے اندازنے ان کو انفرادی رنگ عطا کردیا ہے۔
’بازگوئی‘ سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری کے نئے موڑ کا اشاریہ ہے۔ اس مجموعے کی کہانیوں میں فکر کا غلبہ ضرور ہے لیکن اسی کے ساتھ سیاسی و سماجی حوالوں کی کثرت بھی ہے۔ ان افسانوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سریندر رکاش ’تلقارمس‘ جیسے چونکانے والے تجربوں کے جادو سے باہر نکل آئے ہیں۔ اس مجموعے کی کہانیاں نسبتاً آسان ہیں۔ ان کی علامتیں اور تمثیلیں قدرے آسان ، مانوس ، واضح اور غیر مبہم ہیں۔ اس لیے قاری کو بہت جلد اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں حالانکہ ان میں بھی سریندر پرکاش نے انہی فنی چابکدستیوں سے کام لیا جو ان کا امتیاز ہے۔
’بازگوئی‘، بجوکا، خواب صورت، جمغورۃ الفریم دو، جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں‘ اور ’ساحل پر لیٹی ہوئی عورت‘ میں اسطور سازی کا رجحان ہے۔ ’بازگوئی‘ سریندر پرکاش کی نمائندہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کہانی کی پوری فضا داستانی ہے۔ کرداروں ، جگہوں اور شہروں کے نام کے ذریعے بھی داستانی فضا تیار کرنے میں مدد لی گئی ہے۔ بظاہر کہانی مصر کے کسی قدیم شہر کی معلوم ہوتی ہے لیکن اسے اپنے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سریندر پرکاش نے کہانی کے درمیان مداخلت کرکے ایمرجنسی کے زمانے کی سیاسی صورتِ حال کا ذکر کیا ہے۔ سریندر پرکاش نے یہ تکنیکی تجربہ کم ہمت اور کم کوش قاری کے لیے کیاہے۔ اگر کہانی کو جگہ جگہ مداخلت کرکے سریندر پرکاش نہ کھولتے تو کہانی غیر معمولی طور طاقتور ہوجاتی۔ بہر کیف کہانی کے وسیلے سے سریندر پرکاش یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اقتدار ایک اندھی قوت ہے جو اس کو کنیز بنانا چاہتا ہے خود اس کا اسیر بن جاتا ہے اور اقتدار پر ہمیشہ قابض رہنے کے لیے حاکم ہر طرح کی گھناونی حرکتیں کرتا ہے۔ مختلف زمانوں اور جگہوں پر یہی عمل دہرایا جاتا رہا ہے۔ لطف کی بات تو ہے کہ حاکم اور مخالف دونوں دستور کی دہائی دیتے ہیں۔ ملکۂ شبروزی اسی اقتدار کی علامت ہے۔ تلقارمس ان باغی کرداروں کا نمائندہ ہے جو اقتدار کی ہوا لگنے کے بعد اپنی ساری بغاوت بھول جاتے ہیں۔ کہانی اپنی بے مثال خوبصورت نثر اور پر اسرار داستانی فضا کے سبب قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس طرح کی خوبصورت ، گداز اور نغماتی نثر اور داستانی رنگ و آہنگ ’جمغورۃ الفریم دو‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہانی وحدتِ آدم کے محور پر گردش کرتی ہے۔ انسان کو وقت اور سیاسی و سماجی صورتِ حال نے مذہب ، رنگ ، نسل اور قبیلہ وغیرہ کے خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔ کہانی لمحے بھر خارج میں چلتی ہے پھر داخل میں سفر کرنے لگتی ہے۔ اس کے لیے سریندر پرکاش کرداروں کو خوابناک کیفیت سے دوچار کرکے ایک انہونی اور انجانی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جہاں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کا حقیقت کی دنیا میں گزر ممکن نہیں۔ بہر حال کہانی میں ہزاروں سال کی تاریخ بولتی ہے۔ ’ساحل پر لیٹی ہوئی عورت‘ بھی بے مثال داستانی رنگ کی کہانی ہے ۔ کہانی کے سیاسی و سماجی حوالوں کو آسانی سے شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔
سریندر پرکاش اپنی افسانوی روایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے استفادہ کرکے اپنی کہانیوں کو روشن کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بیدی کی کہانی ’بھولا‘ کو بنیادی بناکر ’بھولا کی واپسی‘ کے عنوان سے کہانی لکھی ہے۔ بیدی کی کہانی میں بھولا اپنے ماموں کی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن سریندر پرکاش کی کہانی میں دونوں ایک دوسرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بھولا کا ماموں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے اپنی بے حد خوبصورت اور طاقتور کہانی ’بجوکا‘ میں پریم چند کے ہوری کو کردار بنایا ہے۔ پریم چند کا ہوری آزادی سے پہلے کا ہندوستانی کسان تھا لیکن سریندر پرکاش کا ہوری آزادی کے بعد کے ہندوستانی عوام کا نمائندہ ہے اور بجوکا موجودہ جمہوری نظام کی علامت ہے۔ سریندر پرکاش نے اس کہانی کے ذریعے موجودہ طرزِ حکومت سے اپنی بے زاری اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس کہانی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ سریندر پرکاش نے کہانی میں بہت کم مداخلت کی ہے۔
’بازگوئی‘ کے بعد کی کہانیوں میں ’جیلخانی، ترپوسیاں، چیچو کی ملیاں، بالکنی‘ اور ’ایک اور پناہ گزیں‘ میں پاکستان جانے والے مہاجرین کے دکھوں کی داستان سنائی گئی ہے۔ پچاس برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی پاکستانی معاشرہ نے انھیں قبول نہیں کیا ہے اور ان کے ساتھ سیاسی و سماجی اور معاشی اعتبار سے امتیاز برتا جاتا ہے۔ ان کہانیوں میں حزنیہ کیفیت حاوی ہے۔ ان کہانیوں کے کردار ماضی کی یادوں کے اپنے سینے سے لگائے نظر آتے ہیں۔ ان کہانیوں میں سریندر پرکاش خود راوی کی حیثیت سے موجود معلوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود مہاجر ہیں۔ ذاتی تجربے نے کہانیوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ سریندر پرکاش کی ان کہانیوں میں مشترکہ تہذیب کے فنا ہونے کا بھی شدید احساس ہے۔
مختصر یہ کہ سریندر پرکاش کا شمار اردو کے ممتاز علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے یہاں موضوعات ، اسالیب اور تکنیک میں تنوع پایا جاتا ہے۔ زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت داستانی فضا کی تعمیر میں چابکدستی ، بظاہر غیر متعلق اور غیر اہم واقعات کو نزاکت و لطافت سے جوڑنے اور تجریدی علامتی رنگ و آہنگ تیار کرنے کی بے پناہ صلاحیت نے ان کے افسانوں کو انفرادیت کا حامل بنا دیا ہے۔
Naat Rang Issue No 25 , Editor: Sabeeh Rahmani
Articles
نعت رنگ (شمارہ ۲۵) مدیر :صبیح رحمانی
صبیح رحمانی
Naatiya Shairi ke Farogh mein Naat Rang ki Khidmaat
Articles
نعتیہ شاعری کے فروغ میں نعت رنگ کی خدمات
حلیمہ سعدیہ منگلوری
Naat Rang ke 25 Shumare by Dr. Shahzad Ahmad
Articles
نعت رنگ کے پچیس شمارے ڈاکٹر شہزاد احمد
ڈاکٹر شہزاد احمد
Unique Verbs Dictionary by Shamsi Mohd. Hydar
Articles
یونک ورب ڈکشنری
شمسی محمد حیدر
MYSTICISM AND SCIENCE by Dr. Rasheed Ashraf Khan
Articles
تصوف اور سائنس
ڈاکٹر رشید اشرف خان
زیر مطالعہ عنوان گفتگو یعنی ’’ تصوف اور سائنس‘‘ بظاہر مفکر یگانہ مہد ی افادی کے الفاظ میں ’’ گول چیز میں چوکھنٹی ‘‘ کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔یعنی دو متضاد چیزوں کا یکجا ہونا یا بقول امام الہند مولانا ابولکلام آزادعلمی اصطلاح میں ’’اجتماع النقیضین‘‘ ۔ تصوف کا موضوع خالص روحانیت ہے جب کہ سائنس کا نقطۂ پرکار مادیت ہے۔ اگر ہم اپنے زاویۂ نظر کو عالی ظرفی ، وسیع النظری اور باریک بینی سے اپنی نگاہوں کے سامنے لائیں اور قدرے عمیق نظر سے دیکھیں تو ہم بھی شاید اس عالم طلائی کی خیالی دنیا کا جلوہ دیکھ سکیں گے جس کا نظارہ ایک انگریز شاعر نے اپنی شہرۂ آفاق نظمTHE ELDORADOمیں دکھایا ہے۔ یعنی اس کے تخیل نے ایک ایسا تصوراتی خاکہ پیش کیا ہے جہاں پورا شہر سونے میں نہایا ہوا تھا۔جہاںہر چیز سونے کی تھی۔ اس مثال کی مدد سے ہم نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف میں روحانیت کے ساتھ ساتھ کسی قدر مادیت بھی ہے اور سائنس خالص مادیت ہی نہیں بلکہ اس میں روحانیت کی آمیزش بھی ہے۔
تصوف کو انگریزی زبان میں Mysticism اور ہندی بھاشا میں رہسواد کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ عربی اور فارسی زبان کا لفظ ہے ۔تصوف کی تاریخ ۱۴۳۶ سال پرانی ہے ۔اس زمانے میں صوفی پیدائشی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا فطری رجحان قرآن کریم کو سننے سمجھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریروں اور سنتوں پر عمل کرنے کے باعث تعلیمات قرآنی میں ڈھل جانے کی وجہ سے ہوجاتا تھا ۔ سیدھی سادی زندگی ، دنیوی معاملات میں میانہ روی ، اقوال و افعال میں شفافیت ، عبادت الٰہی کا شغف ، اوامرونواہی کا احتساب، خوف الٰہی، اور حقوق العباد کا خیال اور جہنم سے نجات کا تصور یہ تمام باتیں ایک سچے صوفی کی پہچان تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک بس اتنے ہی اصول تصوف کے تھے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابۂ کرام ، تابعین اور تبع تابعین تک ایک سچے صوفی کی مندرجہ ٔ بالا شناختیں کم وبیش قائم رہیں مگر افسوس کہ دائم نہ رہ سکیں۔ عشق الٰہی جو ایوان تصوف کا بنیادی پتھر تھا رفتہ رفتہ دنیاداری اور ریاکاری کی نذر ہوگیا۔ علامہ اقبال نے اس ملمع کاری کو اس طرح سے پیش کیا ہے:
رہنے دے جستجو میں ، خیالِ بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تو ہو ، یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے ، یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کُشتۂ نظارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی میں چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
’’تصوف ‘‘ شروع شروع میں صرف ایک طریقۂ کار یا لائحۂ عمل تھا جس میں صرف عبادت وریاضت پر زیادہ زور دیا جاتا تھا اور اس کے احکام ومسائل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان احکام و مسائل کو مختلف درجات یا مراحل میں تقسیم کیا گیا ۔ ان مراحل کی شرائط کی روشنی میں جو صوفی عمل پیرا ہوتا تھا تواس صوفی کو اصطلاح صوفیہ میں سالک ( بمعنی چلنے والا) طریقے کو (مسلک) راستہ اور مقامات کو منزل مانا جاتا تھا۔ اس ضمن میں خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
بہ مَے سجادہ رنگیں کن ، گَرَت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بُوَد ز راہ رسمِ منزلہا
(یعنی اگر پیر مغاں تجھ سے یہ کہے کہ اپنے مصلے کو شراب میں ڈبو کر بھگا دو تو مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے کیوں کہ تو راہ تصوف میں چلنے والا صوفی (سالک ) ہے جومنزلوں کے طور طریقوں سے بے خبر نہیں ہوتا )
جب تصوف عرب سے ہندوستان آیا تو یہاں صوفی مبلغین اسلام کی اچھی خاصی تعداد پیدا ہوگئی ۔جب علوم کی تدوین و کتابت شروع ہوئی اور اہل تصوف نے زہد ورع اور افعال واعمال پر محاسبے کے طور طریقوں پر کتابیں لکھیں جیسا کہ علامہ قشیری نے اپنے رسالہ میں اور شیخ سہر وردی نے اپنی مشہور کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں لکھا ہے کہ بعض دوسرے اکابر صوفیہ آئے تو علم تصوف ملت اسلامیہ میں ایک مرتب اور مدّون علم کی حیثیت سے سامنے آیا۔
ہندوستان آنے کے بعد تصوف دو خاص حصوں میں بٹ گیا ۔ اسلامی تصوف و غیر اسلامی تصوف ۔ اسلامی تصوف کی بنیاد قرآن کریم ، سنت نبی ، احادیث صحیحہ اور صحابۂ کرام کے اقوال پر تھی جب کہ غیر اسلامی تصوف میں ویدانت اوربھکتی تحریک کے اصول شامل کردیے گئے۔ کرم، یوگ اور مایا کے ہندو نظریات تصوف میں دخیل ہونے کے بعد فلسفہ کی اس شاخ کو وسعت تو بے شک بڑھی اور ہزاروں ہندوؤں نے اسے اپنالیالیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تصوف کے اس روپ کو ناپسند بھی کرتے تھے ۔
صوفیاے کرام اور ان کی سائنسی بصیرت کے ضمن میں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ آج سے صدیوں پہلے سائنسی ایجادات یا علوم سائنس کے طور طریقے نہ تو معلوم تھے اور نہ ان کی طرف کچھ زیادہ توجہ کی گئی تھی لیکن ہم لاشعوری طور پر ان سے واقف بھی تھے اور روزمرہ زندگی میں ان کا استعمال بھی ہوتا تھا ۔ مثال کے طور پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علم العلمان علم الادیان و علم الابدان ، تو اس وقت آپ نے دو سائنسی علوم یعنی علم الٰہیات (Theology)اور علم الابدان (Physical Science)کی خصوصی اہمیت کا اعلان فرمایا تھا ۔ علم الٰہیات کے ذیل میں قرآن کریم مع جملہ علوم القرآن ، علوم الحدیث اور سنن رسول سبھی آجاتے ہیں ۔ اسی طرح علم الابدان، علوم معرفت الانسان (Physiology)علوم حفظان الصحت(Hygiene)بشریات (Anthropology)علم النفس(Psychology)نیز جملہ سماجی علوم(Social Science)اور ماحول کے تعلق سے جانداروں کے توضیحی مطالعہ (Ecology)کا مجموعہ ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود شہر علم تھے لہٰذا مذکورہ ٔ بالا علوم سے کما حقہ واقف ہونا آپ کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اور پھر اپنی سنت کے ذریعے مسلمانوں کو مخاطب کرکے وقتاََ فوقتاََ سائنسی علوم سے آشنا کیا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ احادیث کی شکل میں منضبط کر لیے گئے۔
آج دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے ۔دنیا کے بڑے بڑے ماہرین فلکیات اور ماہرین طبیعات نے جو جدید انکشافات کیے ہیں ،وہ انکشافات آج سے تقریباََ چودہ سو سال قبل احادیث نبویہ میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔جس کی دو مثالیں یہاں پیش کرنا غیر ضروری نہ ہوگا۔
حدیث نمبر۱: { عن ابی موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
لاتقوم الساعتہ حتیٰ یکون القرآن عارا ویتقاالزمان}
’’ جب تک قرآن کریم کو باعث عار نہ سمجھا جانے لگے لگا اور زمانہ جلدی جلدی گزرنے اور اس کے گوشے سمٹنے نہ لگیں گے اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی‘‘
(مجمع الزوائد: حدیث نمبر ۱۲۴۳۷، جلد نمبر ۷ ص ۳۲۴)
مذکورہ حدیث کے عربی متن میںلفظ ’’ تقارب‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں کا قریب ہونا۔اس میں جہاں ایک طرف زمانے کی اضافی حیثیت یعنی(Relative)کی طرف اشارہ ملتا ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی ہے کہ زمانۂ قدیم میں جن کاموں میں لمبے عرصے گزرجاتے تھے وہی کام مستقبل میں نہایت کم عرصے میں انجام دیے جانے لگیں گے،جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ آج سائنس اور ٹکنالوجی ہر شعبۂ حیات میں غیر معمولی ترقی کر چکی ہے۔یہ حدیث دور حاضر کے ذرائع حمل و نقل اور سرعت رفتا رکی غماز ہے۔اس حدیث میں’’ تقارب الزمان ‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانے کے تغیرات کا انکشاف کیا ہے۔
حدیث نمبر۲: {عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی علیہ وسلم قال تغسل
الاناء اذا ولغ فیہ الکلب سبع مرات اولھن او اخراھن بالتراب}
’’ اگر تمھارے برتن کو کتا چاٹ جائے تو وہ سات مرتبہ دھونے سے پاک ہوگا ،جن میں پہلی دفعہ مٹی سے دھویا جائے‘‘
( ترمذی شریف ،ابواب الطہارۃ ص ۶۸)
عہد رسالت میں ایسی ادویات کا نام ونشان تک نہ تھا جوجراثیم پر اثر انداز ہوسکیں لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کے جراثیم کو ختم کرنے کے لیے مٹی سے برتن دھونے کا حکم فرمایا۔حضور صلی علیہ وسلم کی سائنسی بصیرت کا اعتراف اس وقت ہوا جب سائنسی تحقیق نے مٹی میں Tetraliteاور Tetracyclineجیسے اجزا کی نشان دہی کی۔یہ اجزا جراثیم کش دواؤں کے لیے بطور خاص استعمال ہوتے ہیں۔کتوں کے چاٹے ہوئے برتن کے ذریعے ان کے جراثیم انسانوں پر اثر انداز ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے،اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی سے برتن دھونے کی تاکید کی ہے۔یوروپ کے بعض انگریزمحققین نے اس موضوع پر کئی تحقیقی مضامین قلم بند کیے جس میں اس حدیث کا اعتراف بڑی شدت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
بہ خوف طوالت صرف ایک مثال پر اکتفا کی جاتی ہے جو اس ثبوت کے لیے کافی ہے کہ خانقاہوں اور عبادت گاہوں میں قیام کرنے والے صوفیاے کرام ، فخر روحانیت وخدا شناس ، شاہان بے تاج وتخت تھے۔مذکورہ مثال پر مشتمل میر تقی میرؔ کاشعر درج ہے:
فقیرانہ آئے ، صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے
جسے اللہ کی معرفت حاصل ہوگی پھر اسے دنیا نہیں ڈھونڈ سکتی۔وہ اپنے خالق حقیقی کی زندگی میں بھر پور جذب ہوجاتاہے۔تصوف اور سائنس کے حوالے سے عہد رسالت کے دو صوفی سائنس دانوں لبیب بن سعد اور حبیب بن سعد کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگا جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ معظمہ میں تھے اور بعد میں آپ کے ساتھ مہاجر بن کرمدینہ پہنچے۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے ۔ صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ علم نجوم(Astronomy)سے خاطر خواہ دلچسپی رکھتے تھے۔علم ریاضی میں کافی درک حاصل تھا۔ان نجومیوں کا وطیرہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بہ غرض تجارت دور دراز کا سفر کرتے یا برائے غزوات تشریف لے جاتے تو یہ حضور اکرم کی خاص اجازت سے قافلے یا لشکر اسلامی کے ساتھ بطور بدرِقہ(Escort)ضرور جاتے تھے اور اندھیری رات میں اپنی خانہ ساز دوربینوں (Binoculors) کی مدد سے پتہ لگا لیتے تھے کہ رات میں ستاروں کی مدد سے راستہ کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے ؟ قمر در عقرب کب ہوگا، اچھی بری ساعتیں کون سی ہیں ۔چاند گہن اور سورج گہن(کسوف وخسوف) Eclipseکب ہوگا۔ان کے اثرات مخلوق الٰہی پر کیا کیا اور کس طرح پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ قدرت ، دنیاوی علوم اور اپنے خاص احکام میں ہمیشہ سے ایک خط امتیاز (Line of Demarcation)کھینچتی چلی آئی ہے تاکہ دنیا کی نگاہ میں خدا اور بندگان خدا کے افعال میں تعینِ حدود نظر آسکے ۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ دشمنان اسلام نے ایک دفاعی جنگ کا اعلان کیا ۔پہلے تو سرکار دوعالم نے رفعِ شر کی کوشش کی ،جسے دشمنان اسلام نے بزدلی سمجھااور اپنے موقف پر اڑے رہے تب حضور نے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اللہ کا پیغام لائے ہیںکہ علی کی قیادت میں جنگ کی جائے۔حضور کا یہ فیصلہ سن کر دونوں نجومی بھائیوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ ساعت جنگ کے لیے بہت منحوس ہے ۔اگر اس وقت کوچ کیا گیا تو خدا ناخواستہ لشکر اسلام کی شکست یقینی ہے ۔ایک نحس ستارہ ہمارے لشکر پر مخالف نظر رکھتا ہے ۔ حضور نے ان کی بات ان سنی کردی اور حضرت علی سے فرمایا: بسم اللہ مجریھا باذن اللہ مرسٰھا۔دونوں نجومی شکست کے خوف سے لشکر کے ساتھ نہیں گئے اور اپنے حجرے میں بیٹھ کر زائچے بناتے رہے۔ایک وقت ایسا آیا جب دونوں نجومی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کرکے سجدۂ الٰہی میں گر گئے اور کہا یا رسول اللہ مبارک ہو حضرت علی بہ حیثیت فاتح مع لشکر تشریف لارہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا جبرئیل امین نے پہلے ہی یہ خوش خبری سنادی ہے مگر تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا؟ انھوں نے عرض کیا کہ وہ منحوس ستارہ جو دوسال کی مدت میں اپنی جگہ سے ہٹنے والا تھا لیکن جوں ہی ہمارا لشکر روانہ ہوا وہ ستارہ دو دنوں میں اپنے مقام سے ہٹ گیا۔بس ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب ہماری فتح یقینی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ میںنے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ علم نجوم فی نفسہ برا نہیں ہے اسے ضرور سیکھو لیکن اسے عقیدے سے نہ ٹکراؤ ورنہ الحاد اور بے دینی کی طرف لے جائے گا۔
عرب ممالک کے علاوہ ایران اور ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھی تصوف کا اسلامی فلسفہ تیزی سے مقبول ہوا ۔ ایک ہندو مصنفDr. N.K. Singh نے لکھا ہے کہ ایک ہندوستانی صوفی حضرت شیخ ابوسعد ابوالخیر نے ایک حقیقی صوفی کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
“That is the true Man of God, who sits in the midst of his fellowmen, and rises up and eats and sleeps and buys and sells and gives and takes in the bazaars amongst other folk, and yet is never for one moment forgetful of God” .
(Dr. N. K. SINGH: SUFIS of India, Pakistan and Bangladesh. Vol. One
First Edition – 2002. (Preface) PP. X – XI.)
شیخ ابو سعد ابوالخیر کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ طوطیِ ہند حضرت ابوالحسن یمین الدین امیر خسروؔ کے نمایاں افادات کا ذکر ضروری ہے۔ جنھوں نے حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے نامور مرید کی حیثیت سے شہرت دوام حاصل کی۔حضرت امیر خسروؔ کے تعلق سے حسن الدین احمد لکھتے ہیں:
’’ اگر سطحی طور پر دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر خسروؔ کی صوفیانہ منش شاعرانہ طبیعت اور دربارداری کے درمیان تضاد ہے، لیکن اس زمانے کے حالات اور امیر خسروؔ کے خاندانی ماحول پر نظر رکھی جائے ، ان کی زندگی کے تنوع کا تجزیہ کیا جائے اور جس انداز سے انھوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نبھایا اسے پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ان کی زندگی میں مکمل ہم آہنگی تھی‘‘
( مضمون: امیر خسرو کے درباری تعلقات ، مطبوعہ ماہنامہ آجکل نئی دہلی ، نومبر ۱۹۷۴ء ص ۴۴)
فارسی ، اردو اور سبک ہندی کے ادیب وشاعر ہونے کی وجہ سے امیر خسروؔ کاجو بلند مرتبہ ہے وہ تو ہے ہی لیکن موسیقی اور ساز وآواز کی دنیا میں انھوں نے جو کمالات دکھائے اور اختراعات کیں ان سے بھی صرف نظر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں نقی محمد خاں خورجوی لکھتے ہیںـ:
’’امیر خسروؔ نے سب سے پہلے عجمی موسیقی کے انداز پر ترانہ ، قول نقش ونگارِ گل وغیرہ گانے ایجاد کیے۔ باوجودیکہ اسلام میں علما نے موسیقی کو ناجائز قرار دیا تھا لیکن ایک گروہ صوفیوں کا ہر زمانے میں ایسا ہی رہا ہے جو تصوِ فانہ غزلیں گا کر روحانی سرور حاصل کیا کرتے تھے‘‘
( مضمون: امیر خسرو ؔ کی موسیقی، مطبوعہ ماہنامہ آجکل نئی دہلی نومبر ۱۹۷۴ء ص ۱۶)
ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امیر خسروؔ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور وہ شاعر سے زیادہ ایک صوفی بھی تھے ۔ سماع کی وجہ سے موسیقی کے بھی دلدادہ تھے شاعری اور موسیقی کا شمار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے لیکن انھیں سائنس داں اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے آلات موسیقی کی اختراعات کیں ۔ اگر آلات موسیقی ایجاد و اختراع کو آپ فنون لطیفہ کا سر ٹیفکٹ دیں گے تو پھر گراموفون ، ریڈیو ، ٹیلی فون، موبائیل اور کمپیوٹر وغیرہ سبھی فن لطیف کے خاندانی رشتہ دار بن جائیں گے ۔لہٰذا سماع وغیرہ میں کام آنے والے سبھی آلے فن لطیف کے مددگار ومعاون تو بنیں گے لیکن وہ اپنے مقام پر آلات سائنس(Scientific Devices) ہی کہلائیں گے۔
آلات موسیقی دراصل سائنسی اصولوں پر بنائے گئے ہیں اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے جنھیں دو خاص گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (۱) باد سازی(Wind Instrument) (۲) زہی ساز(Bow Instrument) پہلی قسم میں ساز بین ، بانسری ، فلوٹ وغیرہ ہیں جب کہ دوسری قسم میں خنجری وغیرہ ہیں ۔ انھیں میں ضربی ساز (Pluck Percussion) بھی ہیں۔ ضربی سازوں میں سِتار بہت مشہور ہے اور اس کے مؤجد حضرت امیر خسروؔ تھے۔ اس ساز میں راگ پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ امیر خسرو نے اپنی کتاب ’’ قِران السعدین‘‘ اور ’’نہہ سپہر‘‘ میں آلات موسیقی اور ان کے استعمال کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں جو ایک ماہر فن ہی لکھ سکتا تھا۔ امیر خسرو نے ایرانی عود اور وینا کے استفادے کے بعد سہ تار کی تشکیل کی ۔ امیر خسرو کی علم موسیقی میں مہارت کا ایک واضح ثبوت اس قطعے میں ملتا ہے جو ’’ اربعہ عناصر دواوین خسرو ‘‘ میں موجود ہے ۔ ’’خسروی سِتار ‘‘ کی ابتدائی شکل وہ کشمیری سِتار ہے جو صوفیانہ موسیقی (کلاسیکی موسیقی کشمیر) میں استعمال ہوتی ہے۔ اس حوالے سے عظمت حسین خاں میکش کا یہ اقتباس کافی اہمیت کا حامل ہے:
’’ صدیوں پہلے جب ہماری موسیقی نے الفاظ کا جامہ پہنا تو دُھرپد کی ابتدا ہوئی (جو موسیقی کی ایک صنف ہے ) جس میں دیوتاؤں کی استُتھی(تعریف)ہوتی تھی یا مذہبی واقعات کا ذکر ہوتا تھا لیکن دُھرپد شروع کرنے سے پہلے راگ کے وستار (پھیلاؤ) کے لیے چند الفاظ وضع کیے گئے جن میں عبادت یا پرارتھنا کا مفہوم یا تاثر تھا اس اندازکو ’’ الاپ جاری‘‘ کہا گیا ۔ حضرت امیر خسرو نے قوت ایجاد سے کام لے کر ’’الاپ جاری ‘‘ میں بھی ایک نئی چیز پیدا کردی جس کا نام ’’ترانہ‘‘ تھا ۔ ’’ خیال‘‘ گانے والے کے لیے ترانہ گانا بھی ضروری ہے ، کیوں کہ خیال اور ترانہ ، دونوں امیر خسرو کی مو سیقی سے منسوب ہیں‘‘
( مضمون : ترانہ اور خسرو۔ مطبوعہ قومی راج بمبئی ، خسرو نمبر نومبر ۱۹۷۵ء ص ۵۶)
قول اور قوالی بھی امیر خسرو کی ایجاد ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر خسرو اپنی سائنسی اختراعات کی بنا پر ساز وآواز دونوں میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔
اب ہم مولانا محمد جلال الدین رومیؔ کی عالمی شہرت یافتہ مثنویِ معنوی کی بنیاد پر ان کے صوفیانہ خیالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنس سے متعلق ان کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں مولانا روم کے سائنسی نظریات کو سمجھنے کے لیے ان کے فارسی کلام کا عام فہم اردو ترجمہ بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تجارب اجسام(The Gravity of Bodies) کا نظریہ انگریز سائنس داں اسحاق نیوٹن نے۱۶۶۶ء میں پیش کیاتھا کہ درخت سے نیچے گرنے والا سیب آخر زمین ہی کی طرف کیوں آتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں قوت کشش(Gravity) پائی جاتی ہے یہی واقعہ تمام اجسام کے ساتھ پیش آسکتا ہے ۔ اس ضمن میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ:
’’ اس مسئلہ کی نسبت تمام یورپ کا بلکہ تمام دنیا کا خیال ہے کہ نیوٹن کی ایجاد ہے ، لیکن لوگوں کو سن کر یہ حیرت ہوگی کہ سیکڑوں برس پہلے یہ خیال مولانا روم نے ظاہر کیا تھا‘‘
( سوانح مولانا روم : دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۱۰ء ص ۱۵۳)
مولانا جلال الدین رومی نے نیوٹن سے سیکڑوں سال قبل جس قانون قدرت کو اپنی مثنوی میں پیش کیا ہے اس کے فارسی اشعاراور اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
فارسی اشعار
جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش
جُفت جُفت و عاشقانِ جفت خویش
ہَست ہر جُفتے ز عالم جُفت خواہ
راست ہم چوں کہر با و برگ کاہ
آسماں گوید زمیں را مرحبا
با تو اَم چوں آہن و آہن ربا
اردو ترجمہ
تیرے حکمِ خاص سے جتنے ہیں اجزائے جہاں
ہم نوا کی جستجو میں غرق مثلِ عاشقاں
ہم نوا سب کو سکھائیں ہم نوائی کا سبق
جیسے بجلی اور پتی گھاس کی مانگے ہیں حق
آسماں دیتا ہے شاباشی زمینِ پست کو
جیسے آہن دیکھ لے آہن ربائے مست کو
اگر کوئی شخص حکیم کامل مولانا جلال الدین رومی کی روح پُر فتوح سے ان کے شاگرد علامہ اقبال کی طرح سوال کرے کہ یہ بتایئے کہ فضائے بسیط میں زمین کس طرح نظر آتی ہے تو پیر رومی ، مرید ہندی کو مخاطب کرکے فرمائیں گے کہ:
فارسی اشعار
گُفت سائل ، چوں بماندِ این خاک داں
درمیانِ این محیطِ آسماں
ہم چو قندیلے معلّق در ہَوا؟
نے بَر اسفل می رَوَد نَے بر عُلا
آں حکیمش گفت کز جذبِ سما
از جہاتِ شش (چھ) ، بماند اندر ہَوا
چوں ز مقناطیس قبّہ ریختہ
درمیاں ماند آہنے اویختہ
اردو ترجمہ
پوچھا سائل نے کہ قبلہ راز کیوں پوشیدہ ہے
یہ زمیں کیوں وسعتِ افلاک میں پاشیدہ ہے
کس لیے ہے وہ معلّق مثل قندیلِ ہَوا؟
نیچے جانے کو ہے راضی اور نہ اوپر راستہ
بولے اس سے یہ حکیمِ دیدہ ور سن تو ذرا
ہے چہوں جانب سے بے چاری کشش میں مبتلا
سوچ لے گنبد بنایا تو نے مقناطیس کا
اور بیچوں بیچ اک لوہے کا تختہ ہو پڑا
مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دور حاضر میں بہتوں کا مشاہدہ اور قیاس ہے کہ بالعموم ہماری نئی نسلوں کے پاس نہ وہ جنون عشق الٰہی ہے نہ شعور نعت نبی۔ دین وایمان کی وہ روح ، سائنسی بصیرت اور عبادتوں کا خضوع و خشوع دیکھنے کو نہیں ملتا جو ہمارے سیدھے سادے فرشتہ صفت بزرگوں میں پایا جاتا تھا۔ بالخصوص جب یہ ماحول ان تمام ممالک میں ہو، جو ’’اسلامی ‘‘ کہلاتے ہیں یا ان علاقوں اور خطہ ہائے زمین میں ہو جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاََ زیادہ ہے۔ مادیت ، گندی سیاست ، غلط روایات ، تخریب اخلاق ، خوف خدا کی کمی اور جذباتی بے راہ روی نے ہم سے اُس اطمینان قلب اور ذہنی یک سوئی کو چھین لیا ہے جو صحت مند فلسفۂ تصوف کی جان تھی۔ اب تو صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ موبائل ، انٹر نیٹ ، کمپیوٹر ،ٹی وی اور اسی طرح دوسرے سائنسی آلات کی مدد سے صوفیانہ خیالات اور تجربات کی عملی تبلیغ دانش مندانہ طورپرکی جائے ۔ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار کسی قدر کامیاب ثابت ہو۔
٭٭٭٭
مضمون نگار اردو کے جواں سال نثر نگار ، شاعر اور شعبۂ اردو ، ممبئی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔