صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی کیا معنویت ہے؟
اس سوال کی تہ میں شعری تنقید کا ایک نہایت اہم قضیہ کارفرما ہے۔ اس قضیے کے مطابق شاعری کے معنی اور معنویت میں فرق ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے لیے بالترتیب Verbal meaning اور Significanceکی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ۱ معنی دراصل وہ بنیادی مفہوم ہے جو شعری متن کے فوری سیاق، اس کے آس پاس کے صنفی و شعریاتی منطقے کو ملحوظ رکھنے سے برآمد ہوتا ہے۔ معنی بالعموم متعین، مقرر اور محدود ہوتا ہے، مگر واضح رہے کہ معنی کا متعین اور محدود ہونا متن کے اس فوری سیاق کا مرہون ہوتا ہے جس میں متن تخلیق ہوا تھا اور جو متن کو اس کے لمحۂ تخلیق و ماحول سے وابستہ رکھتا ہے۔ وگرنہ متن، سیاق کے کناروں کو توڑ کر باہر جانے کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شعری متن، زبان کے ایک ایسے استعمال سے عبارت ہے، جس میں زبان کی بدیعی و تلازماتی قوت کو زیادہ سے زیادہ ابھارا جا سکے۔ شعری زبان میں آہنگ و صوت سے لے کر نحویاتی و معنیاتی سطحوں تک نئے نئے رشتے ابھارنے اور معنیاتی عدم تعین کی مستقل صورتِ حال تخلیق کرنے کا غیر معمولی ملکہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کسی شعری متن کا معنی متعین کیا جاتا ہے تو دراصل شعری زبان کی تلازماتی قوت پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کی کام یابی کا انحصار شعری متن کے فوری سیاق کو گرفت میں رکھنے پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعری زبان کی تلازماتی قوت کو اگر کوئی چیز پابند کر سکتی ہے تو وہ سیاق یا تناظر ہے، وگرنہ یہ ایک مرکز گریز قوت ہے اور اس کی فطرت میں ایک ایسا اضطراب ہے جو اسے کسی ایک مقام پر رکنے نہیں دیتا اور نئے معنیاتی سلسلوں کی تخلیق پر اسے مائل رکھتا ہے۔ یہ اضطراب انسانی روح میں بھی موجود ہے اسے نئی حیرتوں کی تلاش اور محدود سے لامحدود کی طرف سفر پیما رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔ جب شعری متن اپنے سیاق سے گریز اختیار کرکے کسی دوسرے تناظر میں قدم رکھتا ہے، یعنی کسی دوسرے زمانے، کسی مختلف صورتِ حال، کسی نئی فکر، کسی نامانوس معنیاتی فضا میں اسے پڑھا جاتا اور اس کی تعبیر کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہمارے ہاتھ آتا ہے وہ متن کی معنویت ہے۔
بجا کہ معنویت، شعری زبان کی تلازماتی قوّت کے برسرِ عمل ہونے کا نتیجہ ہے، مگر اس قوت کی عمل آرائی کا میدان وہ عمومی ثقافتی فضا ہے، جسے ہم دنیا کو سمجھنے اور برتنے میں اکثر غیر شعوری طور پر کام میں لاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاعری کی معنویت ایک نفسیاتی عمل نہیں، ایک ثقافتی عمل ہے۔ کوئی شعری متن یا اس کے بعض مصرعے یا الفاظ کسی قاری کے یہاں کسی نفسیاتی واقعے کا محرک بن سکتے ہیں؛ قاری، متن اور اپنی ذہنی دنیاؤں میں بعض اشتراکات دریافت کر سکتا اور ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کیفیت کے زیرِ اثر ادبی متن کے مخصوص معانی قائم کر سکتا ہے، مگر انھیں متن کی معنویت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معنویت، کسی ادبی متن میں معنی سازی کی قوّت کا وہ انکشاف ہے جسے ایک ثقافتی عمل بنایا جا سکے۔ راشد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ الفاظ کے اندر رنگ بھی ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ٹیڑھے ترچھے زاویے بھی۔‘‘ ۲ ایک شاعر کی حیثیت میں راشد الفاظ کی اس دنیا سے خوب واقف تھے جو الفاظ کے لغوی و عمومی معانی کے آگے کی دنیا ہے۔ راشد نے دانستہ معانی کے بجائے رنگوں اور زاویوں کا ذکر کیا ہے۔ الفاظ کس طور اپنے محدود، مقرر معانی کو عبور کرنے کے لیے بے تاب رہتے، نئی نئی جمالیاتی کیفیتوں اور نئے نئے فکری اطراف کے اشارہ نما ہوتے ہیں، اس کے لیے رنگ اور زاویے ہی موزوں استعارہ ہیں۔ الفاظ کے انھی رنگوں اور زاویوں میں، معنی سازی کی قوّت ہوتی ہے۔ انگریزی تنقید میں الفاظ کے رنگوں اور زاویوں کے لیے Connotations کی اصطلاح مروّج ہے۔ ٹیری ایگلیٹن نے لکھا ہے کہ Denotations کے مقابلے میں Connotations آسانی سے گرفت میں نہیں آتے۔ ۳ حقیقت یہ ہے کہ Denotations میں فقط معنی ہے اور Connotations میں معنی سازی کا ملکہ ہے معنی گرفت میں آ جاتا ہے مگر معنی سازی کی قوت پر دسترس محال ہے اور اس قوّت کے ثقافتی تناظر میں اظہار کا دوسرا نام معنویت ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ صارفی معاشرت کا کوئی براہِ راست تعلق راشد کی شاعری کے معنی سے نہیں ہے۔ بلاشبہ صارفی معاشرت، راشد کی نظم کا فوری سیاق نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی کے تیسرے تا ساتویں عشرے کے درمیان، جب راشد شاعری تخلیق کر رہے تھے، صارفی معاشرت نے یہاں وہاں اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ راشد کو اس مغربی معاشرت کو براہِ راست دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا تھا، جہاں صارفیت دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین ثقافتی مظہر میں تیزی سے ڈھلنے لگی تھی، مگر راشد کے لیے صارفی معاشرت بوجوہ مرکزی شعری سروکار نہیں بن سکی تھی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ راشد نے اپنی معاصر عالمی معاشرت کا تصور استعماری معاشرت کے طور پر کیا تھا۔ چنانچہ صارفی معاشرت بالعموم، استعماری معاشرت کے ایک جز کے طور پر ہی ان کے شعری ادراک میں آئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ راشد بہ طور شاعر صارفی معاشرتی کا ٹھیک اسی قدر ادراک کرنے میں کام یاب ہوئے، جس قدر یہ استعماری معاشرت کا حصّہ ہے۔ راشد کے یہاں استعماریت کا سیاسی پہلو مقابلتاً زیادہ نمایاں اور زیادہ اہم تھا۔ یہ سب برحق، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راشد کے لیے اہم ترین چیز شاعری تھی اور وہ شاعر کے طور پر نہ صرف اپنی ذمے داریوں سے خوب آگاہ تھے بلکہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’ادیب کی اصل ذمہ داری پوری زندگی کے سامنے ہے۔ کسی جغرافیائی حد بندی، کسی حکومت، سیاسی عقیدے یا سیاسی حزب یا گروہ کے سامنے نہیں۔ کیوں کہ یہ اس عظیم اور بے کراں زندگی کے، جو ادیب کی ذات کے اندر اور باہر ازل سے رواں دواں ہے اور ابد تک رواں دواں رہے گا، محض مختصر، بے مایہ اور ناقابلِ ثبات اجزا ہیں۔‘‘ ۴ ہر چند ذمے داری کا تصور اور شعور ایک چیز ہے اور اسے اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنانا دوسری چیز ہے۔ تاہم راشد کی شاعری سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی معاصر سیاسی، مقامی، عالمی صورتِ حال بہر حال پوری زندگی کا ایک جز تھی۔ ہر چند راشد نے تنقیدی شعور کے لمحات میں اس جز کو بے مایہ اور حقیر کہا ہے، مگر انھوں نے استعماریت کو جس گہرائی سے پیش کیا ہے اور ایشیائی ممالک کو استعماری تہذیب کی بلندی کی چھپکلی سے تشبیہ، دی ہے، اس سے ہرگز نہیں لگتا کہ ان کے لیے یہ جز پوری زندگی کا بے مایہ اور ناقابلِ ثبات جُز تھا۔ غالباً شاعری کے اسی تصور کی وجہ سے ان کے شعری متن میں ’کئی رنگ اور ٹیڑھے ترچے زاویے‘ ظاہر ہوتے چلے گئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی نئی معنویتیں سامنے آ رہی ہیں۔
صارفی معاشرت اپنے تمام تر جلووں کے ساتھ تو یورپ اور امریکہ میں نظر آتی ہے، مگر اس کے اثرات کی زد میں پوری دنیا ہے۔ مغرب میں یہ مابعد صنعتی عہد کی صورتِ حال ہے۔ اکثر سماجی مفکّرین اسے صنعتی عہد کا لازمی، تاریخی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صنعتی عہد کے نتیجے میں جب اشیا نہایت فراوانی کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کا صَرف سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ان کے صَرف کو ممکن بنانے کے لیے ماس مارکیٹ، ماس پاپولر کلچر کو پیدا کیا گیا اور ان کے فروغ کی خاطر میڈیا، اشتہاری صنعت وغیرہ وجود میں لائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتوں کی بقا، ان کی پیداوار کی کھپت میں تھی، مگر صنعت کار محض اپنی صنعتوں کی بقا پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں تھے: انھیں اپنے سرمائے میں مسلسل اور تیز تر اضافے کی بے لگام ہوس تھی۔ اس ہوس ہی نے صارفیت کو جنم دیا۔ لہٰذا صارفیت، صنعتی عہد کا لازمی تاریخی نتیجہ نہیں، سرمایہ پرستی کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ صارفیت، کثیر پیداواریت کے لا متناہی اور پیہم صَرف کو ممکن بنانے کی تدبیروں کی عملی شکل ہے۔ ان تدبیروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا وہ تصوّر تھا، جس کے مطابق انسان چند بنیادی ضرورتیں رکھتا ہے۔ (خود صنعتیانے کے عمل میں یہ تقاضا کہیں موجود نہیں تھاکہ اشیا کی پیداواریت انسان کی بنیادی ضرورتوں سے فزوں تر ہوگی۔) سرمایہ پرست ذہن نے اس تصوّرِ انسان کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ اس ذہن کے نمایندہ امریکی مصنّف وکٹر لیبو نے 1955ء میں لکھا۔
’’ہماری عظیم پیداواری معیشت … تقاضا کرتی ہے کہ ہم صَرفیت کو اپنا طرزِ زندگی بنائیں۔ یہ کہ ہم اشیا کی خریداری اور ان کے استعمال کو رسومیات میں تبدیل کریں، یہ کہ ہم اپنی رومانی تسکین، اپنی انا کا اطمینان، صَرفیت میں تلاش کریں … ہمیں ایسی اشیا درکار ہیں جو صَرف ہو جائیں، راکھ ہو جائیں، پرانی بوسیدہ ہو جائیں، تبدیل ہو جائیں اور انھیں تیزی کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا کریں۔‘‘ ۵
گویا صارفی انسان کا تصوّر تخلیق کیا گیا۔ اس تصوّر کے مطابق انسان کی ضرورتوں کا کوئی انت نہیں۔ اس کے اندر ان تمام اشیا کی شدید طلب ہے جنھیں کثرت سے منڈی میں لایا جاتا ہے۔ صارفی معاشرت میں اشیا، انسانی ضرورتوں کے مطابق پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ اشیا کے مطابق انسانی ضرورتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ صارفی معاشرت، انسانی نفسیات اور ثقافت کے گہرے مطالعے سے وہ تمام طریقے دریافت کرتی ہے، جو ایک طرف نئی انسانی ضرورتوں کی تخلیق کو ممکن بنائیں اور دوسری طرف نت نئی اشیا اور ان کے روز بدلتے برانڈ کے صَرف کو ایک ثقافتی تعیّش اور روحانی اطمینان میں بدل سکیں۔ دوسرے لفظوں میں صارفی انسان کے تصّور میں روح کا انکار موجود نہیں ہے، مگر یہ روح ارفع اور بے غرضانہ اعمال سر انجام دینے میں اطمینان حاصل کرنے کے بجائے نئی، مہنگی صنعتی اشیا کے صَرف میں سرشاری پاتی ہے۔ کیا انسانی روح اپنی اصل کو ترک کرکے باقی رہ سکتی ہے؟ صارفی معاشرت میں یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ صارفی معاشرت کسی ایسی انسانی ضرورت کے امکان ہی کو ردّ کرتی ہے، جسے وہ پورا نہ کر سکے۔ صارفی تصوّرِ کائنات میں انسانی ضرورتوں اور تمنّاؤں سے انکار کا شائبہ تک موجود نہیں ہوتا؛ وہ خود کو غیر معمولی خلاقیّت کا حامل سمجھتی ہے کہ جو ہر قسم کی انسانی تمنّا کی سرشاری کا سامان پیدا کر سکتی ہے۔
اب اگر اس تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت دریافت کریں تو مجموعی حیثیت میں ان کی پوری شاعری صارفی معاشرت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ نظر آتی ہے۔ وجودیاتی سطح پر راشد کی شاعری اس تصوّر کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاج ہے، جس کے مطابق ہر شے کی قدر و قیمت، اس کی صَرفی حیثیت سے متعین ہوتی ہے۔ صارفی معاشرت میں معنی کے واحد اور اٹل تصوّر کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ متبادل اور استعاراتی معانی کو قبول کرنے کا مطلب لوگوں کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ اشیا کے معنی اور مقصد کو خود اپنے تناظر میں متعین کر سکتے ہیں۔ صارفی معاشرت کے لیے اس سے زیادہ خطرناک کوئی بات نہیں کہ لوگ معنی متعین کرنے اور فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ چنانچہ وہ واحد معنی پر اپنے اجارے سے کسی طور دست بردار نہیں ہوتی۔اس زاویے سے دیکھیں تو راشد کی شاعری صارفی معاشرت کے تصوّرِ معنی کے یکسر برعکس تصوّرِ معنی کی علم بردار نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ خصوصیت دنیا کی تمام شاعری میں ہوتی ہے کہ وہ واحد معنی کے اجارے کو مسترد کرتی اور معانی کے نئے آفاق کی جستجو میں رہتی ہے، تاہم اس ضمن میں راشد کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کی کثرت ہے، نیز بعض مقامات پر راشد براہِ راست صارفی کلچر کی بنیادوں پر ضرب لگاتے ہیں۔ مثلاً
زندگی ہیزمِ تنور شکم ہی تو نہیں
پارئہ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
(کلیات، ص۱۶۱)
صارفی معاشرت کا سارا زور، انسانی زندگی کو اپنے تنور شکم کا ایندھن بنا ڈالنے پر ہے۔ اس نظم میں اس سے انکار ملتا ہے کہ زندگی کو اپنے یا غیر کے تنورِ شکم میں جھونک دیا جائے۔ اس انکار کے پردے میں زندگی کا وسیع اور بلند تصوّر تو موجود ہی ہے، زندگی کے بعض ایسے معانی کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، جو زندگی کو کسی بھی شے کا ایندھن بننے کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ پارئہ نانِ شبینہ اور ہوسِ دام و درم ہوں یا آتشِ دیروحرم ہو۔ نظم کے آخر میں جن مردانِ جنوں پیشہ کا ذکر ہے، ان کے لیے زندگی انھی کی اپنی ہے اور وہی اس کے معانی و مقاصد متعین کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو راشد کے یہاں صارفی معاشرت کا ایک غیر معمولی اور وسیع تصوّر ملتا ہے۔ فقط سرمایہ پرست اور استعمار ہی لوگوں کی زندگی کو ایک قابلِ صَرف شے میں تبدیل نہیں کرتے، مختلف سٹیٹ اپریٹس، نظریے، کلامیے اور آئیڈیالوجی بھی انسانی زندگی کو اپنے تصرّف میں لاتے اور انسانوں سے اپنی ہستی کے معانی خود طے کرنے کی آزادی اور اختیار سلب کرتے ہیں۔ راشد کے یہاں فرد کی داخلی آزادی ایک ایسے تقدّس کی حامل ہے جسے مجروح کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ راشد اپنی اس فکر میں پوری طرح واضح تھے۔
’’میں فرد کی کامل آزادی اور اس کی انا کی نشو و نما کا شدّت سے حامی ہوں۔ ایسی آزادی جس کے راستے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔۔۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اقدار کا مرکز انسان ہے اور تمام اقدار انسان کے ذاتی تجربات سے پیدا ہوئی ہیں۔ کسی الوہی طاقت کی طرف سے مقرر نہیں کی جاتیں، نہ کسی حکومت یا گروہ کی طرف سے عائد کی جا سکتی ہیں۔‘‘ ۶
ہر چند یہ فرد کی آزادی کا مثالی تصوّر ہے جسے مغرب میں بشرمرکزیت فلسفے اور جدیدیت نے پیدا کیا، تاہم راشد کے لیے یہ تصوّر عقیدے کا درجہ رکھتا تھا اور وہ فرد کو ایک قابلِ صَرف شے نہیں سمجھتے تھے اور مذہبی، ریاستی یا سماجی کسی بھی ادارے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تھے کہ وہ فرد کو اپنے مقاصد کے حصول میں صَرف کر دے۔ ان کے نزدیک ان اداروں کا کام فرد کو شے نہیں، ایک باشعور ہستی سمجھنا اور اس کی انا، شعورِ ذات کی نشوونما میں مدد دینا تھا۔ گویا راشد کے یہاں صارفیت کا محض اقتصادی مفہوم نہیں ملتا، ایک نیم فلسفیانہ اور ثقافتی مفہوم بھی موجود ہے۔ یہ مفہوم لا=انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں شدّت سے پیش ہوا ہے۔ مثلاً نظم ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے یہ مصرعے فرد کی آزادیِ کامل پر زور دیتے ہیں۔
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
(کلیات، ص۲۹۱)
مابعد صنعتی عہد کی صارفی معاشرت کی تمام قباحتوں کو راشد کے یہاں تلاش کرنا عبث ہے کہ یہ ان کی شاعری کا مرکزی سروکار نہیں تھا۔ تاہم ان کی بعض نظموں کی تلازماتی اور استعاراتی جہات کی تعبیر صارفی تناظر میں ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی نظم ’وزیرے چنیں‘ ہے۔
اس نظم کی بنیاد الف لیلہ و لیلہ کی ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی شیراز کے ایک نائی کی ہے جو نائی ہونے کے علاوہ دماغوں کا بھی مشہور ماہر تھا۔ وہ دماغ کو کاسۂ سر سے الگ کرکے، اس کی آلائشیں پاک کرکے اسے واپس اس کی جگہ لگانے کے فن میں قابل تھا۔ ایک دن اس کی دُکان پر ایران کا ایک وزیر کہن سال آیا۔ ابھی ’ماہرِ کامل‘ نے دماغ کو صاف کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے بادشاہ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو اسے عجلت میں بے مغز سر لیے دربارِ سلطانی میں جانا پڑا (گویا وہاں مغز کے بغیر ہی کام چل جاتا تھا)۔ دوسرے دن واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس کا دماغ نائی کے پڑوسی کی بلّی کھا گئی تھی۔ چنانچہ متبادل کے طور پر دانیالِ زمانہ کے سر میں بیل کا مغز رکھ دیا گیا اور اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جنابِ وزیر، فراست، دانش اور کاروبارِ وزارت میں پہلے سے بڑھ کر چاق و چوبند ہو گئے ہیں۔ اس کہانی کا (سامنے کا) معنی تو یہ ہے کہ حکومتوں کے لیے وہ لوگ زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو مغز ہی نہیں رکھتے یا زیادہ سے زیادہ بیل کا دماغ رکھتے ہیں۔ اس سے بہتر طنز اربابِ حکومت پر نہیں ہو سکتا تاہم یہ نظم ایک اور تناظر میں گہری معنویت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ غور کریں تو یہ نظم صارفی معاشرت میں فرد کے نئے تشخّص کی تخلیق کے پورے عمل کو منکشف کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار وزیر نہیں، نائی ہے۔ نظم میں اہم تبدیلی وزیر کے کردار میں رونما ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی وزیر کے اپنے ارادے یا اقدام سے نہیں، نائی کی مہارت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو نائی سرمایہ پرست طبقے کی اس آئیڈیالوجی کی علامتی نمائندگی کرتا ہے جس کے ذریعے نئے انسانی تشخّص کی تخلیق کی جاتی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ نظم میں اس کے نائی کے پیشے سے زیادہ اس کے ماہرِ دماغ ہونے پر ارتکاز ملتا ہے۔ ہر چند اسے دعویٰ ہے کہ وہ دماغ کی آلائشیں دور کر تا ہے، یعنی وہ ایک معالج ہے، مگر یہ دعویٰ اسی تضاد اور خود تردیدی صورتِ حال کا حامل ہے جو ہر آئیڈیالوجی میں ہوتی ہے۔ نظم میں اس کے معالج ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کوئی واقعہ مذکورہ نہیں اور جو واقعہ مذکورہ ہے اور جو کہانی میں ایک فیصلہ کن موڑ لاتا ہے، وہ اسے ایک ایسے پیشہ ور نیوروسرجن کے طور پر سامنے لاتا ہے جو نیا دماغ ٹرانسپلانٹ کرنے میں ماہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صارفی معاشرت میں فرد کو یکسر نیا تشخص دیا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کی جگہ بیل کے دماغ کی پیوندکاری، اسی نئے تشخص کی تشکیل کی علامت ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ نائی کے پاس کئی حیوانوں کے مغز موجود تھے۔ وہ کہاں سے آئے؟ کیا ہم اسے نیم اساطیری کہانیوں کے اس عمومی واقعے کے طوپر پر لیں جس میں کوئی بھی عجیب و غریب بات اچانک ممکن ہوتی ہے اور اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وہ لوگوں کے دماغوں کو تبدیل کرنے اور انھیں نئی شناختیں دینے کی خاطر طرح طرح کے دماغ اپنی دست رس میں رکھتا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ وزیر کا مغز ہمسائے کی بلی کھا گئی ہے دراصل اسے نیا اور حیوانی دماغ لگانے کا محض بہانہ تھا۔ اسی طرح سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس نے آخر بیل کے مغز کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ کیا اس بات کا علامتی مفہوم یہ نہیں کہ اس کی دست رس میں ایک سے زیادہ تشخصّات تھے اور اسے اپنی مرضی اور ترجیح کے مطابق کسی ایک تشخص کے انتخاب کا اختیار بھی تھا۔ صارفی معاشرت میں سرمایہ پرست طبقے کو بھی شناخت سازی کے وسائل پر اجارہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز بیل کے مغز کا انتخاب کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ صارفی آئیڈیالوجی کو ایک ایسا انسانی تشخص مطلوب ہوتا ہے جو ارادے اور منشا سے محروم ہو؛ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہو؛ انفرادی سطح پر تلاشِ معنی کی تمنّا نہ رکھتا ہو۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر صارفی طرزِ معاشرت میں شے پر شے صَرف کرتے چلے جانے اور پھر بھی نئی اشیا کی طلب کرتے چلے جانے کے لیے بیل کا مغز ہی چاہیے۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لیے الف لیلہ و لیلہ کی بیل اور گدھے کی کہانی یاد کریں تو بیل کی کرداری خصوصیات آئنہ ہو جاتی ہیں: وہ وہی کچھ کرتا ہے جس کا مشورہ اسے گدھا دیتا ہے۔
اس سلسلے کی دوسری نظم ’ایک اور شہر‘ ہے جو 1957ء میں نیویارک میں لکھی گئی تھی۔ نظم کا موضوع بھی نیویارک شہر ہی ہے۔ اسے ایک اور شہر کا عنوان دینے کی ایک وجہ تو اسے اپنی ایک پہلی نظم ’ایک شہر‘ سے ممیز کرنا ہے جو 1950ء میں کراچی میں تخلیق ہوئی تھی اور دوسری وجہ اس بات پر زور دینا ہے کہ نظم جس شہر سے متعلق ہے وہ ایک نئی، انوکھی اور عجب قسم کا شہر ہے۔ نظم میں شہر اور اس کے باسیوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ اسے ایک صارفی معاشرت کا حامل شہر ثابت کرتا ہے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ میں صارفی کلچر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا گیا اور اسے سرمایہ دارانہ معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔
یہ نظم ’وزیرے چنیں‘ کے گیارہ برس بعد لکھی گئی، مگر دونوں کی بافت (Texture) کو دیکھیں تو دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہیں۔ ’وزیرے چنیں‘ میں انسان کو ایک ایسی نئی شناخت دینے کی کہانی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت اپنی داخلی آزادی، اپنی ہستی کے معنی خود دریافت کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ نظم ’ایک اور شہر‘ کے پہلے بند میں اسی جانب اشارہ ملتا ہے:
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش
تاریکی خود بے چشم و گوش
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
(کلیات، ص۲۳۹)
ایک اور شہر یا صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کو خودشناسی کی تمنا ہی نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ انھیں اس مغز ہی سے محروم کر دیا گیا ہے جو خود آگاہی کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صارفیت، معاشی سرگرمی کے نام پر لوگوں کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنے کی تحریک دیتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید سکیں۔ صارفیت منڈی کو مسلسل آباد اور سرگرمِ کار دیکھنا چاہتی ہے اور آدمی سے اس فرصت، تنہائی اور باطنی خلوت کو چھین لیتی ہے، جس میں آدمی اشیا و مظاہر سے بے نیاز اور ماورا ہونے اور کائنات کی بے کرانیت کو محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
جب آدمی کا دل، فرصت، آزادی اور خودفہمی کے ارماں سے خالی ہو تو دل کی بھی ’قلبِ ماہیت‘ ہو جاتی ہے۔
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند!
(کلیات، ص ۲۶۶)
چشمِ آزِ صیّاد، افرنگی مردانِ راد اور دیو آہن اس سرمایہ دارانہ استعماریت کی طرف غیر مبہم اشارہ ہیں، جس نے ہی صارفیت کو جنم دیا ہے۔ صارفیت کی وحشیانہ ترین شکل وہ ہوتی ہے، جو سیم وزر کو میزان قرار دے دیتی اور باقی تمام پیمانوں (اقدار) کو بے صَرفہ کر ڈالتی ہے۔ یعنی صارفی معاشرت میں اشیا کے معنی اور قدر کا واحد، یک رُخا اور حتمی تصوّر ہوتا ہے۔ یک رُخی، زر اساس اقدار کے سامنے ذوقِ حسن اور ذوقِ عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلّی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ ذوقِ حسن کی عطا کردہ بے قراری اور صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کی ’اک بے پایاں عجلت، میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے__ اسی نظم میں راشد خودفہمی کے ارماں سے تہی، اپنے دل کو چشم آزِ صیّاد اور سیم وزر کو میزان بنانے والوں کو افقی انسان قرار دیتے ہیں: یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر۔ افقی انسان دراصل وہی صارفی انسان ہے۔
نظم ’تعارف‘ جو نیویارک ہی میں 1963ء میں لکھی گئی، اس میں افقی انسان کے تصوّر کو منفی انسان کے تصوّر سے بدل دیا گیا ہے۔ افقی انسان کی طرح منفی انسان بھی بندگانِ زمانہ اور بندگانِ درم ہیں۔ شاعر ان کے لیے اجل تجویز کرتا ہے۔
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو، بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہِ کرم
(کلیات، ص۱۹۶)
قابلِ غور بات ہے کہ راشد کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر صارفی معاشرے کے مشاہدے ہی سے پیدا ہوا ہے۔ ہر چند اسے راشد کے اس تصوّرِ انسان سے جوڑا جا سکتا ہے جو شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں برابر ترقی پذیر ملتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ راشد افقی یا منفی انسان کے تصوّر کو نہ تو دہراتے ہیں نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر مذکورہ دو نظموں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ تاہم بعد کی دو ایک نظموں میں یہ مکمل تصوّر بین السطّور ظاہر ہوتا ہے۔افقی انسان دراصل وہ انسان ہے، جس سے عمودیت منفی ہو گئی ہے۔ نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو شخصیت کی افقی خصوصیات وہ ہیں جن میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی، جبکہ شخصیت کے عمودی پہلووں میں درجہ بندی ہوتی ہے: کچھ خصوصیات اور اقدار، دیگر سے کم تر یا برتر ہوتی ہیں، اور انھی کی وجہ سے شخصیّت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں افقی انسان اقدار کے تصوّر سے تہی ہوتا ہے۔ اس کی نفسی قلم رَو پر واحد، یک رُخے، حتمی اور غیر مبدّل طرزِ فکر کی حاکمیت قائم ہوتی ہے۔ وہ متخیّلہ سے محروم ہوتا ہے جس کی مدد سے آدمی اپنے محدود تجربات کو وسیع تر کائناتی تناظر سے وابستہ کرنے یا اشیا و مظاہر کے نہاں پہلووں کا تصور کرنے، موجود کے جبر سے نجات پانے اور چند ایک معانی پر تکیہ کرنے کے بجائے نئے اور کثیر معانی خلق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ راشد کے لیے متخیّلہ یا عمودیت سے عاری انسان کو زندہ تصوّر کرنا محال ہے، اسی لیے وہ اسے اجل کے سپرد کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے تصوّر میں افقی یا منفی تصوّرِ انسان کی گنجائش ہی نہیں دیکھتے۔
’اندھا کباڑی‘ بھی صارفی تناظر میں خاص معنویت کی حامل نظم ہے۔ اندھے کباڑی پر ہومر کا گمان گزرتا ہے جو یونان کی گلیوں میں اپنی نظمیں گاتا پھرتا تھا، مگر یہ جدید دور کا ہومر ہے جس کے خواب/نظمیں دام سمیت لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس نظم کی معنیاتی بافت میں افقی اور عمودی تصوّر انسان مضمر اور کارفرما ہے۔ اندھا کباڑی عمودی انسان کی نمائندگی کرتا ہے اور خوابوں کو لینے سے گریزاں تمام لوگ افقی انسان ہیں۔ کباڑی، ہومر کی طرح بصارت سے محروم ہے، مگر اس کی متخیّلہ حددرجہ فعال ہے اور خوابوں کی صورتِ گرثانی دینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہٰذا اس کا اندھا ہونا درحقیقت اس کے اپنی عمودیت میں غرق ہونے کی علامت ہے۔
صارفی معاشرت میں ہر شے کو قابلِ صَرف بنایا جا سکتا ہے، سوائے خوابوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھے کباڑی کے خواب نہ کوئی خریدتا ہے، نہ مفت لیتا ہے اور نہ دام سمیت لینے پر تیار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں خواب انسانی ہستی کا وہ جوہر ہیں جسے ’شے‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور صرف اشیا ہی صَرف ہوتی اور معدوم ہوتی ہیں۔ خود راشد کہتے ہیں:
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے
آلودگیِ گردِ سرِراہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
(کلیات، ص۲۸۸)
چنانچہ صارفی معاشرت خوابوں سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس معاشرت میں ہر شے عارضی، وقتی، لمحاتی، موسمی ہوتی ہے۔ ٹھہراؤ، استقلال، دوامیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں وقت کا تصوّر فقط لمحۂ حال تک محدود ہوتا ہے اور ہر شے کی معنویت اور افادیت فقطہ لمحۂ موجود کے حاوی رجحان کے ہاتھوں متعین ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اس معاشرت میں خوابوں سے گریز اور خوف پایا جاتا ہے۔ خواب اگر ایک طرف انسانی وجود کے عمودی اور دوامی عنصر کی نمائندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ وقت کا ایک ایسا ہمہ گیر تصوّر دیتے ہیں، جس میں لمحۂ حال محض ایک معمولی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا خواب صارفی یا افقی انسانوں کو ان کے عمود سے آشنا کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں لمحۂ حال یا جز کی سطح سے اوپر اٹھا کر اُس کُل سے متعارف کروانے کی سعی کرتے ہیں جو ذرّے سے کہکشاں تک ہر شے میں رواں دواں ہے اور جس کے بغیر انسان آزادی کامل کے تجربے سے نہیں گزر سکتا، مگر صارفی انسان اس سب کے سلسلے میں بے حسّ ہوتا ہے، تشکیک میں مبتلا ہوتا ہے یا بری طرح خوف زدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ اندھا کباڑی خوابوں کو (افقی) انسانوں کے سپرد کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور نظم کے آخری مصرعے: ’’خواب لے لو ، خواب__/میرے خواب/ خواب __میرے خواب__/خوااااب__ / ان کے دااام بھی ی ی ی، اس کے غیر معمولی حُزن کا تاثر نمایاں کرتے ہیں، مگر نظم کا المیہ اختتام دراصل ایک ’کنونشن‘ ہے جس کے ذریعے اس امر پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے کہ ’خواب‘ کسی حال میں ’کموڈیٹی‘ نہیں بن سکتے۔ صارفی معاشرت میں خواب واحد ایسا مظہر ہیں جو اس معاشرت کے مرکزی فلسفے کہ ہر شے قابلِ صَرف اور براے فروخت ہے، کا انکار کرتے ہیں۔ نظم میں خود خواب علامت ہیں۔ شاعر نے خاص قسم کے خوابوں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے خواب کو ان تمام مثالی تصوّرات و اقدار کی علامت گردانا جا سکتا ہے جنھیں آرٹ نے منکشف کیا ہے یا جن میں آرٹ بنیاد رکھتا ہے اور جو صدیوں سے انسانی روحوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔۔ شاید اسی لیے اندھا کباڑی خود کو نقشِ گر ثانی کہتا ہے اور خود کو خوابوں کے مالک کے بجاے وارث کے طور پر پیش کرتا محسوس ہوتا ہے (یوں بھی ملکیت کا تصوّر استعماری/صارفی ہے)۔ حقیقی آرٹ، کبھی کموڈیئی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے صارفی معاشرت ان کا انکار کرتی، ان کے سلسلے میں تشکیک پیدا کرتی، ان سے بیزاری خوف کو جنم دیتی ہے یا پھر اس جعلی آرٹ کی سرپرستی کرتی ہے جو خود کو قابلِ صَرف شے کے طور پر پیش کرے یا خود کو صارفیت کے ترجمان کے طور پر سامنے لائے۔
حواشی:
۱؎ یہ فرق تعبیریات کے معروف نظریہ ساز ای۔ڈی۔ ہرش جونیئر نے کیا ہے۔اپنے مقالے Meaning and Significance Reinter-preted میں لکھا ہے:
“Meaning, then, may be conceived as a self-identical schema whose boundries are determined by an originating speech event, while significance may be conceived as a relationship drawn between that self-identical meaning and something, anything, else.”
]مشمولہ Critical Inquiry، شکاگو یونیورسٹی، دسمبر ۱۹۸۴ء، ص۲۰۴[
۲؎ ن۔م۔راشد ، راشد بقلم خود، (مرتبین: سعادت سعید، نسرین انجم بھٹی) جی۔سی یونیورسٹی، لاہور، ص۸۲
۳؎ ٹیری ایگلٹن، How to Read a Poem ، بلیک ول پبلشنگ، اوکسفرڈ، ۲۰۰۷ء۔ ص۱۱۲
۴؎ ن م راشد ، راشد بقلم خود، ص۸۹
۵؎ وکٹر لیبو (Victor Lebow) ، Journal of Retailing ، بہار۱۹۵۵ء، ص۷
۶؎ ن م راشد، راشد بقلم خود، ص۹۳
Sarfi Ma’shrat ke Tanazur mein Rashid ki Shairi
Articles
صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت
ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
Moghia Lok Kahania by Waqar Siddiqui
Articles
موگھیا لوک کہانیاں
وقار صدیقی
Fard E Khayal by Waqar Siddiqui
Articles
فردِ خیال
وقار صدیقی
Kalam E Shah Mubarak Aabro Aur Gowaliari Zaban
Articles
کلام شاہ مبارک آبرو اور گوالیاری(گوالیری) زبان و تہذیب
وقار صدیقی
Adab Aur Maoshara by Qazi Jamal Husain
Articles
ادب اور معاشرہ
پروفیسر قاضی جمال حسین
ابتدائی دور سے لے کر دور جدید تک اردو کے شعری سرمایے کا مطالعہ اس حیثیت سے بھی دلچسپ و معنی خیز ہوگا کہ سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کے زیر اثر محبت کاتصور اور محبوب کی شخصیت بھی متاثر ہوتی رہی ہے یہ تبدیلی انسانی تجربات و جذبات کے اتار چڑھا ؤ کا فطری نتیجہ ہے چنانچہ مغلیہ سلطنت کے عہد زوال میں محبوب کا کردار ان خصوصیات کا جامع نظر آتا ہے جو کسی بادشا ہ وقت کے لیے زیادہ موزوں تھیں کیو ں کہ بد نظمی ،لوٹ مار ،قتل وغارت گری کی کثرت کے باعث بادشاہ ہی عوام کی واحد جائے پناہ اور مرکزتوجہ تھا۔جاگیردارانہ نظام کی تخلیقات کے مطالعہ سے محبوب کا جو کردار ابھرتا ہے اور ا س کی شخصیت جن اوصاف وخصوصیات کی حامل نظر آتی ہے وہ ایک جفاکش ، ستم پیشہ ،اور سنگ دل حاکم وقت کو زیادہ زیب دیتی ہیں اور شاعر جو عوام کا نمائندہ ہے اس کے رحم و کرم ،توجہ و عنایت اورایک نظر کرم کا طالب ،اس کشمکش میں وہ بس ایک بے چارگی کی تصویر نظر آتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ اخلاقی پابندیوں کی بنا پر محبو ب کی جانب سے ایک ادنیٰ التفات کا تصور بھی ناممکن تھا ایسی گھُٹی ہوئی اور تنگ فضا میں ظاہر ہے کہ محبت ایک المیہ کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی ان حالات میں محبوب کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ایک ایسا شخص ہے جس کا معمول آئے دن کسی نہ کسی پر ظلم کرنا ،مشق نا ز کے نتیجے میں دوعالم کا خون کرنا ہے جس کا دشنہء مژگا ں ہمہ وقت لوگوں کو نیم بسمل اور بے جان کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے ۔گویا محبو ب انسانی جذبات سے عاری، محبت کی فطری خواہش سے محروم ایک ایسا ظالم ،تند خو اور سفاک بادشاہ تھا جس کے دل میں رعایا کے لیے کبھی نرم گوشہ نہیں ہوتا اور اسے ان پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہیں ،دنیا میں اور تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے مگر معشوق اپنے چاہنے والا کا کبھی نہیں ہوسکتا ،بیچارہ عاشق اپنے اس محبوب کے قریب بھی نہیں بیٹھ سکتا، جس کی خاطر اس نے اپنے ایمان و آگہی تک کی پر وا ہ نہ کی ،اور پھر حد تو یہ کہ اس آداب عاشقی پر وہ نازاں بھی ہے۔
لیکن جب اخلاقی بندھنوں کے تنگ دائرے سے معاشرے کو نجات ملی اور جاگیردارانہ نظام حیات کی گرفت ہلکی پڑی تو محبوب کا مرمریں جسم قالب خاکی میں تبدیل ہوا اور رگ سنگ میں انسانی لہو دوڑنے لگا ،محبو ب کے دل میں بھی چاہنے اور چاہے جانے کی فطری خواہش بیدار ہوئی ۔عورتوں کی ہم نشینی ،بجائے اخلاقی جرم ،شرافت اور عزت کامعیار بنی۔ دولت کی فراوانی اور شجاع الدولہ جیسے حاکم وقت کے میلان طبع نے عورتوں کے اختلا ط کو اور بھی سہل بنادیا۔ چنانچہ جرأت ،مصحفی اور انشاء کی شاعری میں محبو ب کا جو کردار نظر آتا ہے وہ ایک ایسی عورت ہے جو محبت کا جواب نہ صرف محبت سے دیتی ہے بلکہ اظہار محبت میں جذباتی شوخی بلکہ سطحیت کو بھی معیوب نہیں سمجھتی جب یار کی جانب سے ہمیشہ ہی رخصت بیباکی و گستاخی میسر تھی تو بھلا لکھنؤ کے خو ش مزاج خجلت تقصیر کیوں کر گوارا کرتے ۔نتیجہ ظاہر ہے اس پورے سماجی نظام کا اثر شاعری پر بھی پڑا محبت کی جگہ جنسی جذبے نے اور پرد ہ نشین محبو ب کی جگہ شوخ و بے باک عورت نے لے لی ،جو اپنے عاشق کے گھر رات میں مہمان بھی ہوسکتی ہے ،عاشق کے اصرار پر نہ ماننے والی بات ،مان بھی سکتی ہے ۔ ملاقات کے وقت طرح طرح کے اشارے بھی ہوسکتے تھے ،جن کا جواب
’’دن ہے ابھی رات کے وقت ‘‘
جیسے الفاظ میںبھی دینے سے اسے عار نہیں ! ۱؎اب نہ تو محبوب میں وہ ایذارسانی ،بے باکی و سفاکی نظر آتی ہے اور نہ عاشق میں ذلت کی حدوں کو چھوتی ہوئی خاکساری ،محرومی اور نامرادی ۔یہاں شاعر ایک گوشت پوست کی عورت سے آشنا ہوتاہے جس کے سینے میں انسانی جذبات اور نسوانی خواہشات سے بھرا ہوا ایک دل ہے جس کا مظاہر ہ وہ اپنی عادات واطوارسے بھی کرتی ہے لیکن مختلف اقتصادی ،سیاسی اور تمدنی حالات
کل واقف راز اپنے سے وہ کہتا تھا یہ بات
جرأت کے یہاں رات جو مہمان گئے ہم
کیا جانیے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
اس طرح لکھنؤ کے مخصوص تمدن کی پروردہ شاعری میں محبوب کا کردار ایک ایسی عورت ہے جسے اپنے اور غیر سبھی چھیڑتے ہیں اوراسے اگر خوف ہے تو بس،کسی کے پس دیوا ر ہونے کا۔ ابواللیث صدیقی نے جرأت کے محبوب کے متعلق جو بات لکھی ہے وہ لکھنؤ کے تمام تر شعری سرمایے میں محبوب کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے لکھتے ہیں:
’’جرأت کے دیوان کے مطالعہ سے معلو م ہوتاہے کہ ان کی محبوبہ ایک گداز بدن کی جوان عورت ہے ان کی محبت میں جنسی لگاؤ کا پہلو نمایاں ہے اس لیے وہ مضامین جن پر زیادہ زور دیاگیاہے دراصل نفسانی لذت کے اساس پر مبنی ہیں‘‘۔۱؎
کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملا قات کے وقت
ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت
ناسخ
چھیڑے ہے اس کوغیر تو کہتا ہے اس سے یوں
کوئی کھڑا نہ ہو پسِ دیوار دیکھنا
مصحفیؔ
۱؎ لکھنؤ کادبستان شاعری ،ابواللیث صدیقی ،ص ۱۵۲
کی تبدیلی کی بنا پر جب معاشرے نے پھر ایک نئی کروٹ لی اور نظام زندگی جاگیرداری سے سرمایے داری اور صنعتی تمدن میں داخل ہوا تو زندگی کے تقاضے بھی بدلے ، پرانے تہذیبی اقدارکی جگہ نئی تہذیبی قدریں منظر عام پر آئیں جن سے ادبی اقدار میں تبدیلیاں رونما ہوئیں ،زندگی کے متعلق انسانی رویہ بھی بدلا ۔ مسائل، فکریں،خارجی حالات،اور مادی حقائق نے فر دکے جذبے اور احساس ،فکر وشعور کو بھی متاثر کیا اب نہ تو اس کے سوچنے کا ڈھنگ پہلے کا سا رہا اور نہ اشیا کے متعلق اس کا رد عمل ۔
شاخ در شاخ سائنسی علوم کی کثرت اور وسعت ،حقیقت پسندی اور واقعیت ، کائنات اور کائنا ت کے مظاہرسے متعلق غیر جذباتی ،معتدل اور متوازن نقطئہ نظر پیچیدہ تر سماجی نظام سے ہم آہنگ ،حق ،حسن اور خیر کے نئے اصول و معیار نے شاعری میں محبت کے تصور اور محبوب کے کردار دونوں کو متاثر کیا ،اب محبت میں بجائے جذباتیت ایک سوچ اور گہری فکر کااحساس ہوتا ہے اب وصل کے سوا دوسری راحتیں بھی شاعر کا دامن دل کھینچتی ہیں اور زمانے کے دوسرے بہت سے غم اسے معشوق سے بیگانہ کردیتے ہیں شاعری میں اس نئی عورت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر آغا نے لکھا ہے کہ :
’’نئی عورت کی ذہنی بلندی ،نزاکت اور شعریت کے پیش نظر غزل گو شاعر کو اظہار عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ایک ایسا پیرایہء بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے اس میں بیشتر اوقات شاعر کے جذباتِ محبت میں عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے یہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے دوسرے لفظوںمیں غزل گو شاعر کے یہاں جذبے اور فکر کا خوشگوار امتزج رونماہوا ہے جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط و توازن اور رفعت کا احساس پیداہوتاہے ‘‘۔
محبت میں اسی ضبط وتوازن اور رفعت کے احساس نے جہاں جدید دور میں محبت کے تصور کو امتیاز بخشا ہے وہیں محبوب کی مخصوص روایتی شخصیت کو بھی متاثر کیا ہے چنانچہ اب وہ نہ تو محض ظالم ، جفاکار ،ستم پیشہ ہے اور نہ عریانیت ،فحاشی اور جسمانی لذت تک محدود کوئی طوائف ، بلکہ زمینی اوصاف کی حامل ایک ایسا کردا رہے جس میں کسی Normalعورت کے تمام جذبات ایک پُروقار ٹھہراؤ کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
دوپہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لیے
وہ ترا کو ٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
اس پرسش کرم پہ تو آنسو نکل پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی
(حسرت)
(فراق)
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑے ہیں تو اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں
(شکیب)
(احمد فراز)
(زبیر رضوی)
ان اشعار میں محبو ب کا جو کردار ابھرتا ہے وہ جدید عہد کے تقاضوںسے نہ صرف ہم آہنگ ہے بلکہ ہمارے عہد کے شعرا کے طرز فکر اور ان کے وارداتِ ذہنی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔زندگی کی الجھنیں ،ذہنی نا آسودگی،پراگندگی،اور یک گونہ بے حسی ،سب کچھ ان اشعار میں موجود ہے کہ شاعر جس معشوق کی رفاقت کو اپنا حاصل زیست سمجھتاہے ،شام فراق اس کی یاد میں آنکھوں سے جوئے خوں تو کیا اب ایک قطرہ آنسو بھی نہیں ٹپکتا کیوں کہ محبوب سے جداہو کر وہ کشمکش حیات میں کچھ ایسے کھو جاتا ہے کہ دنیا اور دنیا کی مختلف فکریں اسے محبوب کی یاد سے بیگانہ کردیتی ہیں اور حد تو یہ کہ موجود ہ زندگی کی روزافزوں پیچیدگیوں اور دشواریوں سے مجبور شاعر تنگ آکر اسی محبوب سے ترک تعلق کے بہانے ڈھونڈتا ہوا نظر آتاہے جس کی رسم وراہ کے لیے وہ مدتوں ترسا کیا تھا ۔ جب کہ معشوق شاعری کی روایات کے خلاف غیر متوقع طور پر عاشق کے تئیںمدتوں سراپاخلوص دکھائی دیتا ہے ۔
محبت کے تصور اور محبوب کے کردار میں عہد بہ عہدیہ تبدیلی ،اس کی بے اعتنائی ،ظلم اور سفاکی کی جگہ، شوخی، عریانیت ،اور ہوس پرستی کی یہ داستانیں اور پھر محبت کا میکانکی اور کاروباری انداز سب کچھ محض اتفاقی امور نہیں !اور نہ ہی کوئی غیبی کرشمہ ۔حقیقت یہ کہ پردوں پر بدلتی ہوئی یہ تصویریںپسِ پردہ تہذیبی اقدار اور معاصر سماجی نظام سے گہرا اور مضبوط رشتہ رکھتی ہیں کہ جوںجوں پس منظر میں عوامل اور محرکات بدلتے رہتے ہیں ادبی سرمایے سے ابھرنے والی یہ تصویریں بھی نہایت خاموشی سے اپنے اوصاف بدلتی رہتی ہیں۔
اس تمام گفتگو کاحاصل یہ ہے کہ ادب کی جملہ اصناف خواہ ان کا تعلق شاعری سے ہویا نثرنگاری سے ،اقتصادی ،سیاسی اور سماجی حالات سے بے نیا ز نہیں ہوتیں بلکہ تہذیبی قدریں شاعر کے تصور حسن اور نظریہء جمال سے لے کر دیگر ادبی اقدار تک کو متاثر کرتی ہیں حتی کہ خوب و نا خوب کے معیار بھی اس تہذیبی دباؤ اور تاریخی جبریت سے آزاد نہیں ہوتے معاشرتی حالات کے ہی زیراثر مختلف ادوار یں ادب کی نئی صنفیں وجود میں آتی رہی ہیںاور وقتاً فوقتاً شاعری کی نئی نئی صنفوں کو فروغ ہوتا رہا ہے غرض زبان سے لے کر موضوعات ، خیالات اور افکار، پھر اصناف ، ہیئتیں اور فنی وسائل سبھی کچھ ہم عصرتہذیبی اقدار اور سماجی حالات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور اس طرح بہ نظر غائر ان خطوط پر ادبی سرمایے کا مطالعہ ہمیں مادی حقائق اور خارجی زندگی کو ادبی میلانا ت کے سلسلے میں کافی اہم بنادیتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ اس سماجی دباؤ کی نوعیت کا ہے جو بہت سے غلط نتائج اور متعدد پیچیدگیوں کی وجہ بنتا ہے حالی نے ادب پر انھیں سماجی اثرات کے سلسلے میں لکھا ہے :
’’قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات اس کی رائیں ،اس کی عادتیں ، اس کی نوعیتیں اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارداہ معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور اس کی شاعری کو ہجو گوئی نے بربادکیا اس کا منشا وہی سوسائٹی کادباؤ تھا اور عبید زاکانی نے جو علم وفضل سے دست بردار ہوکر ہزل گوئی اختیار کی یہ وہی زمانے کا اقتضا تھا‘‘۔۱؎
دراصل سوسائٹی کے ساتھ ساتھ شاعر یا ادیب کا خود بخود بدلتے رہنا اور اس تبدیلی کا بے ارادہ ہونا ہی قابل لحاظ ہے بہ صورت دیگر بہت سے معقول اور حق بجانب اختلافات پیداہوں گے جن کاجواب بھی جانب داری اور پہلے سے کسی طے شدہ نظریے کی حمایت کے سوا کچھ اور نہ ہوگا عہد اور ماحول تو خود اپنی ادبی اور فنی قدریں ساتھ لاتے ہیں جو ہر آن بدلتی ہوئی زندگی کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں اس میں فن کار کے شعور و ارداے کو بہت ز یادہ دخل نہیں ہوتا معاصر تہذیبی و اخلاقی قدریں ،مذہبی تصورات ،اقتصادی نظام ،سماجی ادارے اور سیاسی کشمکش یہ سبھی کچھ اس عہد کی ادبی تخلیقات میں موجود ہوتا ہے لیکن اثر اندازی اور اثر پذیری کا یہ عمل کچھ اتنا خاموش اور اس کی جہتیں اتنی غیر محدود ہوتی ہیں کہ ان کی نشان دہی خاصی دشوار ہوجاتی ہیں یہ مسئلہ اس وقت الجھتا ہے اور مشکل اس وقت اور پیدا ہوتی ہے جب نقاد درمیان میں آتا ہے اور ادب کو سماج یا ہیئت اجتماعی سے قریب تر لانے کی شعوری کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں ادب کی اپنی ہیئت تبدیل ہونے لگتی ہے اور اس کی لے کچھ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ادب بجائے فن ِلطیف کچھ اور ہی شکل اختیار کرلیتا ہے ادب میں سماجی شعور حقیقت نگاری اور جمالیاتی قدروں کے علاوہ فکر و نظر کی گہرائی ،اعلی آدرش ،افادیت ،زندگی کی ٹھوس اور متحرک حقیقتوں کا اظہار ،اجتماعی زندگی سے گہرا تعلق ، جیسے مطالبات سے شروع ہوکر ’بات‘سیاسی اغراض ،طبقاتی کشمکش اور سماجی اور معاشی مسائل کے براہ راست حل ڈھونڈنے تک جا پہنچتی ہے اور ادب محض کسی ایک گروہ اور ا س کے نظریات کی ترویج و
۱؎ مقدمہ شعر و شاعری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،ؔص ۱۲۲
اشاعت کا آلہ ء کار بن کر رہ جاتا ہے ادب نہ تو بغاوت و انقلاب کا اسلحہ ہے اور نہ فسطائیت ، مناظرہ یا پروپیگنڈہ -اور فن -محض ز ندگی کا آئینہ دار ،ترجمان یا نقاد نہیں !بلکہ ز ندگی کے تجربات اور روحِ کائنات کا جمالیاتی و تاثراتی اظہار بھی ہے تاثر یا ذوق جمال سے عاری اظہار ،زندگی کی تفہیم تو کرسکتا ہے مگر سائنس یا فلسفہ کے نام پر ،جس کی نوعیت یا سطحیں ادبی اظہار سے قطعی مختلف ہوں گی۔ادب کے سماجی یا اجتماعی پہلو سے انکار مسلمات سے انکار ہوگا لیکن اس کی نوعیت غالباً یہ نہ ہوگی کہ وہ دور حاضر کی سماجی زندگی میں کھل کر حصہ لے ۔ظالموں کے ہاتھ سے عنان حکومت چھین کر بنی نوعِ ا نسان کے علم برداروں کو دے اور اپنی ساری تصویر یں اسی نقطئہ نظر سے بنائے ۔ اختر حسین رائے پوری نے ترقی پسند ادب و ادیب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے یہ بات بھی لکھی ہے کہ :
’’ترقی پسند ادب صرف حقیقت پسند نہ ہوگا بلکہ اس کے سامنے حقیقت کا ایک صاف تخیل ہوگا او روہ ہر تصویر اسی نقطئہ نظر سے بنائے گا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنے سماجی فرض کو نہ سمجھیں…یعنی دور حاضر کی سماجی جنگ میں اس طبقہ کی تائید کرنا جو ظالموں اور غاصبوں کے ہاتھ سے عنان ِ حکومت چھین کر بنی نوعِ انسان کی آزادی کے علم بردارو ںکو دے رہا ہے ادب اپنا سماجی فر ض اس وقت تک ادا نہیں کرسکتا جب تک اس طبقے کا ہمنوا اور ہم گوش نہ ہوجائے ‘‘۔۱؎
مجنوں صاحب نے اگرچہ ترقی پسند ادیبو ںاور نقادو ں کے ان انتہا پسند انہ خیالات کو اپنے مضامین ’’ادب اور ترقی‘‘’’ادب کی جدلیاتی ماہیت‘‘ ادب اور مقصدوغیرہ ہیں بقدر امکان Justify کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی مختلف تاویلیں بھی کی ہیں لیکن جب بنیادی نظریہ ہی ان توجیہوں کو قبول نہ کرتا ہو توایسی صورت میں یہ کوشش کس حد تک با رآور ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اپنی انتہائی میانہ روی ،اور اعتدال پسندی کے باوجود ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے دور کی سب سے نمایا ںخصوصیت یہ ہے کہ اس وقت سرمایے و محنت کے تصادم کی شکل میں ہمارے سامنے سماجی نظام میں فساد پھیلائے ہوئے تھے ، یہ سرمایے دار اور محنت کرنے والوں کا جھگڑا دراصل گنتی کے چند قارونو ں اور خلق اللہ کا جھگڑا ہے اور ادیبوں اور فن کارو ںمیں ان دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرنا ہے جیسا کہ وہ اب تک غیر شعوری طور پر کرتے رہے ہیں اس وقت غیر جانبداری نہ ممکن ہے ،نہ مفید ادیب یا شاعر کبھی اپنے دور کے خطرات وتصادمات سے بیگانگی نہیں برت سکتا ۔ترقی پسند جماعت اس سنگین حقیقت کو محسوس کرتی ہے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے‘‘۔۲؎
۱؎ ادب اور انقلاب ،اختر حسین رائے پوری ،ص۸۵۔۸۴
۲ ؎ ا دب اور زندگی ،احمد صدیق مجنوں ؔ،مضمون ’’نیا ادب کیا ہے، ص۲۲۲
مجنو ں صاحب کا مذکورہ بالا خیال اختر حسین رائے پوری ہی کی صدائے بازگشت معلوم ہوتاہے ۔ بنیادی نظریے میں کوئی اختلاف نہیں فرق صرف لہجہ اور طریق اظہار کا ہے کہ اختر حسین رائے پور ی کے لہجے میں شدت اور ادعائیت نمایا ں ہے جب کہ وہی خیالات مجنو ں صاحب کے یہاں لہجے کی نرمی اور علمیت کے ساتھ ساتھ وضاحتی انداز میں پیش کیے گئے ہیں ۔
شاعر یا ادیب سے سماجی فریضے کے اس مطالبے نے اصل مسئلے کو کافی حد تک پیچیدہ بنادیا
ہے کیوں کہ ایسی صورت میں ادبی فریضے مجروح ہوتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں اولاً تو یہ کہ اس طر ح کے ادبی نظریات کا اگر تجزیہ کیا جائے اور قدرے ٹھہر کر صورت حال سمجھنے کی کوشش کی جائے تو خود عبارتوں کا داخلی تضاد اور اضطراب ادب کے قاری کو کسی واضح نتیجے تک پہنچنے اور پھر اسے قبول کرنے سے باز رکھتا ہے مثلاً مذکورہ عبارت ہی سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ کہ :
۱۔ہمارے دور کی خصوصیت سرمایے اور محنت کا تصادم ہے ۔
۲۔ نتیجتاً سماجی نظام میں فساد پھیلا ہوا ہے ۔
۳۔یہ فسا دچندقارونوں اور خلق اللہ کا جھگڑا ہے۔
۴۔ ادیب اور فن کار کو ان دونوں (قارونوں اور خلق اللہ)میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرنا ہے ۔
۵۔ فن کار اب تک یہ نمائندگی غیر شعوری طور پر کرتا رہا ہے ۔
۶۔ اس تصادم یا فسا د کے وقت ادیب کی غیر جانب داری ممکن نہیں !
۷۔غیر جانب داری مفید بھی نہیں ۔
۸۔فن کار اپنے دور کے خطرات و تصادمات سے بیگانگی نہیں بر ت سکتا ۔
۹۔ترقی پسند جماعت نے اس حقیقت کو محسوس کیا ہے اور دوسروں کو بھی اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے ۔
سماج میں پھیلے ہوئے فساد یا جھگڑے میں فن کار کا پڑنا ہی کیوں ضروری ہے اگر وہ قارونوں اور خلق اللہ کے بیچ ہونے والے اس فساد میں ہاتھ نہیں بٹاتا تو کیا یہ فسا د فرو نہیں ہوسکتا ؟اور کیا اس کے حصہ لینے سے مصالحت کی کوئی صورت نکل ہی آئے گی ۔مارکس کے نظریۂ جدلیت کے رو سے ہر قوت خود اپنے اندر ہی اپنی ضد کا مادہ بھی رکھتی ہے جن کی باہمی آویزش کائنا ت کو حرکت اور نموبخشتی رہتی ہے ۔ طبقاتی جد و جہد ،سماج میں انقلاب اور اس کی ترقی کاوسیلہ بنتا ہے ۔پھر سماج کا یہ طبقاتی اختلاف اقتصادی بنیادوں پر ہے جس کا تعلق ذرائع پیداوار وغیرہ سے ہے نہ کہ شاعری سے۔پھر یہ کہ طبقاتی کشمکش کے بعد وجود میں آنے والا نیا سماج طبقاتی اونچ نیچ یا اختلاف سے پاک نہیں ہوتا بلکہ ظلم کی نئی نئی شکلیں اور کشمکش کی نئی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں ایسی صورت حال میں بے چارہ شاعر اس جھگڑے میں حصہ لے تو کیا ،اور نہ لے تو کیا، معاشرے کا یہ تضاد اور کشمکش اگر ختم ہوتو سماجی حرکت اور اس کی ترقی متاثر ہوتی ہے اور یہ تصادم اگر جاویدانی ہے تو ادیب کے حصہ لینے سے فائدہ ہی کیا ہوا ۔اگر وہ شریک نہیں بھی ہوتاتو بھی تصاد م تو چلتا ہی رہے گا ۔
اس کے بعد جو دشواری نظرآتی ہے وہ یہ کہ بقول فاضل نقاد اگر ادیب نے اب تک غیر شعوری طور پر اس سرمایے و محنت کے تصادم میں کسی ایک کی نمائندگی کی ہے تو حسب روایت غیر شعوری طور پر وہ آ ئندہ بھی نمائندگی کرتا رہے گا۔ نمائندگی کے لیے اس درجہ اصرار اور تاکید کی کیاضرورت ؟ اگر نمائندگی کی اس تاکید سے کسی مخصوص طبقہ (خلق اللہ )کی شعوری نمائندگی کی طرف اشارہ ہے تو ادیب کافکر و شعور ،جو اس کے تجربات و مادی حالات کا نتیجہ ہے محض اس اشارے سے بدلا نہیں جاسکتا ۔
مجنو ں صاحب کایہ بھی خیال ہے کہ اس تصاد م کے وقت ادیب کی غیر جانب داری ممکن ہی نہیں جس کی رو سے غیر جانب داری کے مفید اور مضر ہونے کی بات ہی قطعاً بے معنی ہے کیوں کہ اس کا تو امکان ہی نہیں مضر یا مفید ہونے کی بحث تو جب اٹھتی ہے کہ اس غیر جانب داری کا امکان ہوتا ۔
آگے لکھتے ہیں کہ ’’فن کار اپنے دور کے خطرات و تصادمات سے بیگانگی نہیں برت سکتا ‘‘ اس عبارت کامفہوم یا تو بیگانگی کے امکان کی نفی ہوسکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ فن کار کو ہرگز بیگانگی نہیں برتنا چاہیے کہ اس بیگانگی کی صورت میں وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا اور فن کا ر کہے جانے کا مسحق نہیں ہوگا ۔
مفہوم کے پہلے امکان کی رو سے یہ کون سی مخفی حقیقت تھی جس کا ادراک ترقی پسند جماعت نے کرلیا ہے اور جس سے 1936ء سے قبل لوگ بے خبر تھے اور بالفرض اگر بے خبر بھی تھے تو اس بے خبر ی سے نقصان ہی کیا تھا اور اس حقیقت کے عرفان سے فائدہ ہی کیا پہنچا کہ ادیب اپنے دو ر کے تصاد مات سے بیگانہ نہیں رہ سکتا ۔ا س علم سے پہلے بھی ادیب بیگانہ نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے کیوں کہ مفروضے کی رو سے بیگانگی محال ہے ۔ترقی پسند جماعت دوسروں کو بھی کیوں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے دوسروں کو اگر اس حقیقت کا عرفان ہوجائے کہ ’’فن کار کا اپنے دور کے خطرات سے بیگانہ رہنا محال ہے ‘‘تواس سے ادب کے سلسلے میں کیا نئے امکانا ت پیداہوجائیں گے۔
عبارت کے مفہوم کی دوسری صورت یہ تھی کہ فن کار کو بیگانہ نہ ہوناچاہیے ورنہ وہ فن کار کہے جانے کا مستحق نہ ہوگا ‘‘اس توجیہ کے پیش نظر ان فن پاروں کا کیا ہوگا جن میں اپنے دور کے کسی خطرے یا تصادم کا ذکرنہیں مثال کے طور پر:
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلا دوں کہ اک عالم گلستاں ہے
یا
نشۂ رنگ سے ہے واشدِ گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
کیا ہم ان اشعار کو فن پارہ یا غالب کو فن کار محض اس بنیاد پر نہ کہیں کہ ان اشعار میں اپنے دور کے کسی خطرے کا ذکر نہیں ۔
یہ صورت حال محض مجنو ں صاحب تک محدود نہیں بلکہ مجنوں کامعاملہ ان کے وسیع مطالعہ ، گہری فکر اورشعر و ادب کے ستھر ے ذو ق کی بنا پر دیگر ترقی پسند شاعروں ،ادیبو ںاور نقادوں کے مقابلے میں بہت سلجھا ہوا ہے ۔اختر حسین رائے پوری کے تنقید ی نظریات کاجائزہ لیتے ہوئے شارب ردولوی نے جو نتائج نکالے ہیں اور ان کے متعلق جن خیالات کااظہار کیا ہے بڑی حد تک درست ہیں لکھتے ہیں :
’’اسی لیے اختر حسین رائے پوری کے یہاں ادبی تنقید سماجی اور عمرانی تجزیہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ وہ ادب کوکمیونسٹ پارٹی کا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں ان کی اس انتہا پسندی کے اشارے ان کے مضامین میں اکثر نظر آتے ہیں‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’وہ ادب کو ایک ماہر اقتصادیات اورسماجیات کی رپورٹ کی طر ح دیکھنا چاہتے ہیں وہ مارکس کے نظریات کے ایک جذباتی معلم اور مبلغ کی طرح آئے اور چوں کہ جذباتیت میں گہرائی و گیرائی نہیں ہوتی ہے اس لیے بہت جلد ان کے یہاں اس کا رد عمل شروع ہوگیا اور و ہ اس سے الگ ہوگئے ۔ان کے اسی اندا ز و رجحان کی دجہ سے انھیں سائنٹفک نقاد یا صحت مند مارکسی نقادوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘‘۱؎
ادب کو معاصر تہذیبی اثرات و اقدار سے قریب تر لا نے کی اس انتہا پسندانہ شعوری کوشش
نے دوسری جانب بھی نقادوں کی ایک صف کھڑی کردی اور حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کہیں گم ہو کر رہ گئی۔یہ رد عمل ایک فطری امر تھا جس نے ادب میں سماجی حقائق کی اہمیت سے یکسر انکار کیا اور ادب کو فن کار کامحض شخصی اظہار قرار دیا چنانچہ کلیم الدین احمد کا خیال ہے کہ :
’’سماجی حالات سے ادب پیدا نہیں ہوتا اورنہ ہوسکتا ہے آرٹ کاوجود فن کار کی کاوشوں سے ہوتا ہے سماج کی کاوشوں سے نہیں ہوتایہ ایسی روشن حقیقت جس سے سمجھدارآدمی انکار نہیں کرسکتا مارکسی نقاد اس روشن حقیقت پر پرد ہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہ ادب اور فن کی تخلیق میں فن کاروں کی انفرادیت کو کم ازکم اہمیت دیتے ہیں ‘‘۲؎
۱؎ جدید اردو تنقید ،اصول و نظریات ،شارب ردولوی ،ص۳۵۹۔۳۵۸
۲ ؎ اردو تنقید پر ایک نظر ،کلیم الدین احمد ،ص۱۹۱
یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مارکس کے اقتصادی نظریات کی روشنی میں اد بی تنقید فن کار سے جس قسم کے سماجی شعور اور اجتماعی افادیت وغیرہ کا مطالبہ کرتی ہے اس سے ادیب کی آزادی اور ادب کافنی پہلو مجروح ہوتا ہے۔ اور یہ مارکس سے انتہائی ارادت کانتیجہ ہے کہ اس کے سماجی و اقتصادی نظریات کو فنو ن لطیفہ اور شاعری تک میں راہ دی گئی ۔بلکہ اس کے اصول و معیار تک مارکس کے فلسفے کی روشنی میں وضع کیے گئے۔ چنانچہ کلیم الدین احمد نے احتشام صاحب کی تنقیدی بصیرت کا جائزہ لیتے ہوئے ان پر جہاں اور بہت سے اعتراضات کیے ہیں وہیں یہ بات بھی کھل کرکہی ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں مارکس کی زبان سے کہتے ہیں ۔جو کچھ دیکھتے ہیں مارکس کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔اور خود مارکس کاحال بقول احسن فاروقی یہ ہے کہ :
’’مارکس کی تصانیف کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل یک طرفہ ذہن والا انسان تھا اور وہ سوشل تاریخ ہی کی عینک لگا کر ہر چیزکو دیکھتا تھا…مارکس بھی ادب میں وہی چیزیں دیکھتا ہے جو سوشل تاریخ اور کشمکش کے نقطئہ نظر سے اہم ہیں ۔ ایسی ہی چیزوں کو یکجاکردینا مارکسی تنقید کہلاتی ہے ‘‘۔۱؎
چنانچہ واقعہ ہے کہ بجائے فنی خوبیوں اور خامیو ں کے مارکسی نقاد کسی ادبی تخلیق کے قدر و معیار کے سلسلے میں مادی فلسفہ ،اجتماعی نظام ، سماجی تجزیہ ،تاریخی شعور ،جدلیاتی ماہیت ، طبقاتی تضاد،جہد ِحیات اور اقتصادی بنیادوں ہی کی بات کرتا ہے جن سے ادب یقینی طور پر متاثر تو ہوتا ہے لیکن اولاً تو یہ کہ اس اثر پذیری کی نوعیت دیگر علوم سے قطعاً مختلف ہوتی ہے اور جو فن کار کی تخئیل اور جذبے سے ہم آمیز ہوکر اپنی شناخت قطعا ختم کردیتی ہے اور ثانیاً یہ کہ ان امور کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے شخصی عوامل ہیں جن سے ادب اور ادیب متاثر ہوتاہے اور جنھیں نظر انداز کرنے کے بعد ادب کی افہام و تفہیم ناممکن ہوگی ۔
۱؎ فن تنقید ،احسن فاروقی ،مشمولہ تنقیدی نظریات ،حصہ دوم، ص۱۶۶
Taraqqipasand Shairi Khalilurrahman Azmi ki Nazar Mein
Articles
ترقی پسند شاعر ی — خلیل الرحمن اعظمی کی نظر میں
پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی
ہماری ادبی تاریخ کے معدودے چند اہلِ قلم، جنھوں نے بیک وقت تنقید اور شاعری دونوں میں اپنی صلابتِ فکر کے جوہر دکھائے، خلیل الرحمن اعظمی (1978-1927) اُن میں سے ایک ہیں۔ خلیل صاحب نے چونکہ بہت تھوڑی عمر پائی اور صرف 51 برس میں راہیِ ملک عدم ہوگئے، اس لیے انھوں نے شاعری اور تنقید دونوں میدانوں میں کچھ بہت وافر سرمایہ نہیں چھوڑا، تاہم اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حوالوں سے ان کے جس قدر بھی اکتسابات ہیں، ان کی نمایاں ادبی حیثیت اور قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اعلیٰ درجہ کے تخلیق کار ہونے کے لحاظ سے خلیل صاحب کو یقینا یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ نسبتاً زیادہ گہری بصیرت اور ذہنی ہمدردی کے ساتھ تخلیقی متون کی تعیین قدر کرسکتے تھے، جس کا انھوں نے صحیح معنوں میں اپنے تنقیدی مطالعات میں ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔
خلیل صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ ملکی آزادی سے قبل 1945 میں تقریباً 18برس کی عمر میں ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے اور علی گڑھ میں تعلیم کے دوران بحیثیتِ سکریٹری بڑی سرگرمی کے ساتھ ترقی پسند فکر و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں منہمک تھے۔ اِس جرم کی پاداش میں انھیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ 1947 کے فرقہ وارانہ ماحول کے دوران دہلی سے علی گڑھ کے سفر میں چلتی ٹرین سے پھینکے بھی گئے، تاہم وہ انسانیت کی سربلندی اور نجات کے لیے اپنے مشن اور ذہن و قلم سے جہاد کے فرض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ البتہ ترقی پسند تحریک چونکہ بنیادی طور پر اپنا ایک سماجی نظریہ، سیاسی کردار اور انقلابی منشور رکھتی تھی، شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ وغیرہ اس کی محض ذیلی و ضمنی شاخیں تھیں، جن کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اشتراکی سیاست، معیشت اور قانون کی گاڑی کو ایک خاص سمت اور ڈھرے پر چلانے میں معاونت کرنی تھی۔ ان کی اپنی کوئی خودمکتفی آزادانہ حیثیت ہرگز نہ تھی۔خلیلؔ صاحب جو ایک مفلوک الحال زمیندارانہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے، طبعاً انسانی شرافت، رواداری، عدل و انصاف اور خدمتِ خلق کی اعلیٰ اقدار کے دلدادہ تھے، ترقی پسندی کی انسانی فلاح اور مساوات پر مبنی فلسفیانہ تعبیر سے متفق ہونے کے باوجود اس کی بڑھتی ہوئی ادعائیت، مذہبی انداز کی جکڑبندی اور Regimentation سے بتدریج دل برداشتہ، اور بے زار ہوتے چلے گئے اور بالآخر 1950ء کے قریب جب تحریک اپنے عروج پر تھی، نفع و ضرر کی پروا کیے بغیر اس سے لاتعلق ہوگئے۔
خلیل صاحب جنھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک سے گہری وابستگی کے ساتھ برسوں اس کی خدمت کی اور ذہنی و جسمانی شداید سے بھی گزرے، اس سے علاحدگی کے اسباب پر کبھی بہت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی، نہ اس فیصلے کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
بہت بعد میں ایک عمومی بیان کی حد تک اختصار کے ساتھ، اظہارِ خیال بھی کیا تو صرف اتنا کہا کہ:
’’ترقی پسندی ایک فلسفۂ حیات کے طور پر تو شاید اب بھی بعض لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہو، لیکن طے شدہ منصوبوں اور پروگراموں کا باجماعت ادب، اب اپنی ساکھ اِس قدر کھوچکا ہے کہ اس پر اعتبار کرنے اور ایمان لانے والے ابھی بہت دنوں تک ہمارے یہاں پیدا نہ ہوسکیں گے۔‘‘
ترقی پسند تحریک سے علاحدگی کے چند برس بعد جب وہ پی ایچ ڈی میں داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے مقالے کا موضوع— ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ منتخب کیا، جو پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ جس پر انھیں 1957ء میں ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ کئی برس بعد 1973ء میں پہلی بار علی گڑھ سے شائع ہوا، جس کا ادبی حلقہ میں پہلے بھی کافی ذکر تھا اور اب تک کسی نہ کسی طرح اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی کتابیں اِس موضوع پر خلیل صاحب سے پہلے شائع ہوچکی تھیں۔ خلیل صاحب کے اِس علمی و تحقیقی کارنامہ کو متوازن، تنقید کی بہترین مثال تصور کیا جاتا ہے۔
بقول خلیل ؔصاحب انھوں نے اپنی اِس کتاب میں مجموعی طور پر ترقی پسند ادب کا معروضی objective محاکمہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں دیگر اصناف کے ساتھ شاعری بھی شامل ہے۔ انھوں نے تقریباً دو۲ درجن شعرا کے کارناموں کا جائزہ پیش کیا ہے، جن میں سے چند کے نام اس طرح ہیں: اخترؔانصاری، اسرارالحق مجازؔ، معین احسن جذبیؔ، فراقؔ گورکھپوری، فیض احمد فیضؔ، مخدومؔ محی الدین، علی سردار جعفریؔ، کیفی ؔاعظمی، جاں نثار اخترؔ، ساحر لدھیانوی، مجروحؔ سلطان پوری، اختر ؔالایمان، احمدؔندیم قاسمی، شادؔ عارفی اور منیبؔ الرحمن وغیرہ۔
یہ مضمون آپ ـ’’ اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ پر پڑھ رہے ہیں۔
یقینا یہ چند شعراوہ ہیں جن میں سے فراقؔ اور اخترالایمان کو اگر مستثنیٰ بھی کردیا جائے تو بقیہ تمام کی شناخت، اعتبار اور امتیاز ترقی پسند تحریک کا ہی رہینِ منت رہا ہے۔ اس حلقہ میں اُن کے کارناموں کی نہ صرف خوب خوب داد دی گئی بلکہ ان میں سے بعض کی عالمی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی تحریک ہی رہے۔
خلیلؔ صاحب کے تنقیدی موقف کی ایک اہم خوبی جو ان کا خصوصی امتیاز کہی جاسکتی ہے اور جس کا اظہار موجودہ تنقیدی محاکموں میں بھی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے ہمنوا ہونے اور ترقی پسندی سے یکسر مختلف نقطۂ نظر کی حمایت کرنے کے باوجود جیسا کہ انھوں نے جدیدیت سے وابستہ طریقۂ نقد کے ضمن میں، اظہارِ خیال کرتے ہوئے، وضاحت کی ہے کہ:
’’نیا ادب، مواد اور ہیئت اور جماعت، سیاسی اور غیرسیاسی مسائل کی دوئی، کے بجائے ان کی وحدت پر زور دیتا ہے اورزندگی کی رنگارنگی اور پیچیدگی کو سادہ مفروضوں اور بنے بنائے فارمولوں کی مدد سے میکانکی طور پر حل کرنے کے بجائے آزاد تحقیق کے ذریعہ سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ نظریے اور عقیدہ Dogma سے دست بردار ہوکر سائنسی دور کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انفرادی خلوص کو ضروری سمجھتا ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
’’تخلیقی عمل، ادیب کی شخصیت، افتاد طبع، زندگی کے محسوسات و تجربات کی نوعیت اور اس کے انسانی و سماجی تعلقات، ایک پیچ در پیچ سلسلہ کا نام ہے۔ ان مراحل سے فطری طور پر گزرنے کے بعد ہی نظم یا ادب پارہ اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کرسکتا ہے جو اسے جمالیاتی قدر اور فنی حسن عطا کرتی ہے۔‘‘
خلیلؔ صاحب نے اپنے تنقیدی محاکموں میں ترقی پسند سرمایۂ سخن کا جائزہ لیتے ہوئے کسی خارجی اصول اور فنی و لسانی فارمولے کو نافذ کرنے کے بجائے متعلقہ شعری کائنات سے ہی رہنما اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح کسی کارنامہ کے حسن و قبح کی نشاندہی کی ہے۔
خلیل صاحب نے اپنے الگ الگ مضامین گرچہ کافی مبسوط طور پر زیادہ مثالوں کے ساتھ بھرپور انداز سے سپرد قلم کیے ہیں۔ تاہم اپنی کتاب— ’ترقی پسند ادبی تحریک‘ جس میں بیک وقت بہت سے شعرا کے خصوصیاتِ کلام پر رائے زنی کرنے کی مجبوری تھی، قدرے اختصار سے کام لیا ہے۔ لیکن ضبط و توازن سے کہیں دست بردار نہیں ہوئے ہیں۔
معروف شاعر اختر انصاری کی مزاجی کیفیت اور انفرادی تخلیقی سروکار پرروشنی ڈالتے ہوئے، فرماتے ہیں کہ:
’’اختر انصاری تغزل کے تمام آداب کو برتتے ہوئے، روایتی غزل گوئی کی یکسانیت اور باسی پن کے شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بنیاد خود ان کے اپنے محسوسات ہیں، اس لیے ان میں تاثیر اور دلکشی ہے۔
رومان سے ان کی ہجرت عام نوجوان ترقی پسند شعرا کی طرح انقلاب اور بغاوت کی طرف نہیں ہوئی۔ گھن گرج اوربلند آہنگی سے، ان کے مزاج کو مناسبت نہیں، نظم گوئی میں ان کا انداز سادہ اور سلیس ہے، اخترانصاری نے قطعہ نگاری کو ایک مستقل فن کی حیثیت دی۔ انھیں قطعہ کے فن پر پوری قدرت ہے اور ہر قطعہ تکمیل کا احساس دلاتا ہے ؎
میں نے اک بار کہا، تم سے محبت ہے مجھے
تم نے شرماتے ہوئے، مجھ کو جواب اس کا دیا
آہ لیکن دل ناشاد (یہ غارت ہوجائے)
اِس قدر زور سے دھڑکا، کہ میں کچھ سن نہ سکا
خلیل صاحب کا کمال دیکھیے کہ اِس مختصر سی تحریر کے ذریعہ انھوں نے اخترؔانصاری کے فکر و فن کے جملہ عناصر کی اِس انداز سے نشاندہی کردی کہ اب ان کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ زیادہ باقی نہیں رہا۔
اسرارالحق مجازؔ جنھوں نے اپنی ہلکی پھلکی لیکن خوبصورت رومانی شاعری کے ذریعہ یوروپی رومانی شعرا کی یاد تازہ کردی، ترقی پسندوں کو ان کی شاعری میں سماجی وابستگی اور سیاسی شعور کی کارفرمائی نظر آئی اور اسی انداز سے ان کی تعبیر و تشریح کرتے رہے۔ خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ:
’’مجاز کے ذہن کی تعمیر چونکہ رومانیت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اس لیے یہ ذہن آگے چل کر زندگی کے سنگین حقائق سے عہدہ برآ نہ ہوسکا اور اس کی رومانیت زمانے کے طوفان سے ایسی ٹکرائی کہ اس کی شخصیت پاش پاش ہوگئی۔ نظم- آوارہؔ میں جو رومانی کرب، جھنجھلاہٹ اور وحشیانہ بغاوت ہے، وہ ایک بجھے ہوئے چراغ کا آخری بھڑکتا ہوا شعلہ ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ:
’’مجازؔ کے کلام کو فکر و فن کے اعلیٰ معیار پر جانچا جائے تو شاید اس میں وہ گہرائی اور تفکر نہ ملے جو ادب میں عظمت و بلندی کا ضامن ہوتا ہے، تاہم ان کے کلام کی غنائیت، شادابی اور شگفتگی، ہمارے حواس کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی رہے گی۔‘‘
معین احسن جذبیؔ کے شاعرانہ مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے، خلیل صاحبؔ فرماتے ہیں:
’’جذبیؔ کی شاعری کا آغاز غزل سے ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور کے نوجوان شعرا میں جذبیؔ ہی ایک ایسے شاعر تھے جن کو غزل کے فن پر قابو تھا، اس کی وجہ ان کی شخصیت کا گداز اور آہستہ آہستہ آنچ دینے والا انداز ہے۔ جذبیؔ نے صرف انھیں تجربات کو اپنی تخلیق کا موضوع بنایا جو ان کی شخصیت میں حل ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں بہت سے اہم سیاسی و سماجی مسائل پر انھوں نے لکھنے سے انکار کردیا، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ان موضوعات پر ان کی تخلیقی گرفت ایسی نہیں ہے، جس سے کوئی قابلِ قدر فن پارہ وجود میں آسکے۔‘‘
خلیل صاحب مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جذبیؔ کی اکثر نظمیں احساس کی شدت اور اندازِ بیان کی نشتریت کی وجہ سے ترقی پسند شاعری کے سرمائے میں مستقل ادبی قدر رکھتی ہیں۔ جذبیؔ کے تجربات میں وسعت نہ ہو لیکن گہرائی ہے۔ انھوں نے زندگی کے مختلف مظاہر اور سماجی زندگی کی متنوع حقیقتوں تک رسائی حاصل نہیں کی ہے لیکن ان کا کارنامہ یہ ہے کہ تجربات کی جو متاع، ان کے ہاتھ لگی ہے، اسے انھوں نے سلیقہ کے ساتھ شعر میں ڈھالا ہے۔‘‘
فراق ؔگورکھپوری کی شاعری اردو غزل کی نیم کلاسیکی روایت کے تناظر میں ایک قطعاً نئی آواز تھی، ان کی شعری کائنات میں سماج و سیاست کے ارتعاشات یقینا محسوس کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کو صحیح معنوں میں ترقی پسند شاعر نہیں کہا جاسکتا۔فراقؔ کے اکتسابات پر روشنی ڈالتے ہوئے، خلیل صاحب رقمطراز ہیں:
’’فراقؔ ایک غیرسیاسی شاعر ہیں۔ ان کے تجربات کا محور عام طور پر عشق و محبت، فطرت، جمالیات اور تمدنی مسائل کے دائرے میں ہے، اسی لیے بعض حضرات جو ترقی پسندی کو خالص سیاسی اور وقتی مسائل تک محدود سمجھتے ہیں، وہ فراقؔ کو یا تو ترقی پسند ہی نہیں سمجھتے، یا ان کی شاعری کے بعض عناصر کو علاحدہ کرکے دیکھتے ہیں اور صرف ان کی بنا پر حکم لگانے لگتے ہیں۔ فراقؔ نے بعض سیاسی و سماجی مسائل پر بھی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ’دھرتی کی کروٹ‘، ’شاہنامہؔ آدم‘، ’ڈالردیس‘ اور ’امریکی بنجارہ نامہ‘ وغیرہ لیکن انھیں پورے طور پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔‘‘
فیض احمد فیضؔ جنھیں رومان سے خصوصی رغبت ہے لیکن جو مجازؔ کے مقابلے میں زیادہ گہرے تفکر اور تخیل کی رہنمائی میں زندگی کے طلسم تماشے کو دیکھنے دکھانے کا ہنر جانتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ عملی طور پر بھی تمام زندگی ترقی پسند تحریک کی خدمت کے لیے وقف رہے، انھیں خالصتاً تحریکی معنوں میں حقیقت نگار شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی ترقی پسندی اور شاعرانہ مقام و مرتبہ کے ضمن میں خلیل صاحب فرماتے ہیں:
’’فیضؔ کی شاعرانہ شخصیت کی نشو و نما مناسب طور پر ہوئی ہے اور رومان سے حقیقت کی طرف ہجرت کرکے انھوں نے اپنی آواز کا رس اور اس کی شیرینی زائل نہیں کی۔فیضؔ بلند بانگ شاعری کے کچھ زیادہ قائل نہیں، وہ انقلابی اور سیاسی موضوعات کو کھلے ڈلے طریقہ پر، خطیبانہ اور واعظانہ انداز میں نظم کردینے، یا بندھے ٹکے نعروں کو اوڑھنا بچھونا بنانے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھنے، ان کا خیال ہے کہ ادب برائے ادب کی طرح ادب برائے انقلاب بھی ایک گمراہ کن رجحان ہے۔‘‘
مخدومؔ محی الدین جو صحیح معنوں میں تحریک کے لیے وجہ افتخار تھے، جن کا ایک ایک لمحہ اس کی کامیابی کے لیے وقف تھا، بنیادی طور پر وہ بھی اوسط درجہ کے شاعر رومان تھے اور اسی روزن سے سماجی انقلاب کی سرخ آندھیوں کا مشاہدہ کرنا انھیں پسند تھا۔ خلیل صاحب مخدومؔ کی شعری انفرادیت کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’مخدومؔ نے جو عشقیہ اور رومانی نظمیں لکھیں، ان میں ایک عجب تازگی اور شادابی کا احساس ہوتا ہے۔ ان میں جمالیاتی کیف اور اندازِ بیان کی ندرت ہے ؎
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے، آپ آتے رہے، جاتے رہے
یہ سپردگی اور سرمستی مخدومؔ کی انقلابی نظموں میں بھی ملتی ہے۔ وہ انقلاب کا انتظار بھی اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی کسی خوش جمال محبوب کا انتظار کرتا ہے ؎
اے جانِ نغمہ، جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے، یہ زمیں، بے قرار، کب سے ہے
ہجوم شوق، سرِ رہگزار، کب سے ہے
گزربھی جا، کہ ترا انتظار کب سے ہے
ان کی سب سے کامیاب نظم— ’’چارہ گر‘‘ ہے۔
علی سردارؔ جعفری جو سجادؔ ظہیر کے بعد ترقی پسند تحریک کے سب سے اہم رہنما اور روحِ رواں تھے، انھوں نے اپنی تمام تخلیقی صلاحیت، شاعری میں اشتہاری مواد کے لیے وقف کردی، تحریک کو ممکن ہے اس سے کچھ فائدہ ہوا ہو لیکن اردو شاعری ان کی خدمات سے بہت کم مستفید ہوسکی۔ خلیل ؔصاحب نے ان کی خصوصیات کلام پر صحیح اظہار خیال کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’پریمؔ چند کی نصیحت پر سب سے پہلے سردار جعفری نے عمل کیا۔ انھوں نے اپنے مواد عام طور پر ’قومی جنگ‘ میں شائع ہونے والی خبروں، اداریوں، سماجی جماعتوں کی تقریروں، قراردادوں، عوامی لیڈروں کے بیانات اور ہدایات وغیرہ سے حاصل کیے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں وجدان اور تخلیقی عناصر کی کمی شروع ہی سے کھٹکتی رہی ہے ؎
دوستوں کے لیے، الفت کی زباں ہے لینن
دشمنوں کے لیے، شمشیر و سناں ہے لینن
رگِ مزدور میں خوں، بن کے رواں ہے لینن
دل پہ سرمائے کے اک سنگِ گراں ہے لینن
ہٹلریّت کے نشاں، جس سے جھکے جاتے ہیں
حرّیت کا وہ سرفراز، نشاں ہے لینن
اِس طرح کی نظموں سے شاعر کی ذات، اپج یا اس کی تخلیقی صلاحیت کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ وہی انداز ہے جس کی پیروی احسانؔ دانش اور جوشؔ کے بعض معاصرین بھی کررہے تھے۔‘‘ جعفری کی طویل نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ میں وہ حصہ جو پابند نظم میں ہے۔ اس میں بڑی خوبصورتی ہے لیکن جہاں آزاد نظم کی باگ سنبھالی ہے، یہ رہوار ان کے قابو سے نکل گیا ہے— ’اودھ ؔکی خاکِ حسیں‘ اور نیندؔ، میں ذاتی زندگی کے بعض تجربے آگئے ہیں، اس لیے ان کے استعارے جیتے جاگتے ہیں۔
یہ مضمون آپ ـ’’ اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ پر پڑھ رہے ہیں۔
کیفی ؔاعظمی کی تمام تر شناخت ترقی پسند تحریک سے تھی۔ جو بڑی سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ تحریک کے ایجنڈے کے مطابق شاعری کرتے رہے، خلیل صاحب ان کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کیفی اعظمی ایک شاعرانہ شخصیت لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی نظمیں لطیف کیفیتو ںاور دل کی دھڑکنوں سے معمور ہیں، بعد میں ہنگامی واقعات پر فوری نظمیں لکھنے کی طرف مائل ہوگئے، تاہم میرانیسؔ کے اثر سے ان کے ہاں فصاحت اور روانی باقی رہتی ہے۔
منجمد خون میں شعلے سے تپاں ہیں دیکھو
افقِ دار سے لاشیں، نگراںہیں، دیکھو
وہ زیادہ تر فرمائش پر نظمیں لکھنے لگے تھے، جس کے سبب وقتی شاعری زیادہ ہوئی، لیکن جلد ہی انھیں اپنی ہنگامی شاعری کا احساس ہوگیا، اور کچھ عرصہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ بہت عرصہ بعد ان کی ایک رومانی نظم — ’بوسہ‘ شائع ہوئی جس میں کیفیؔ نے شعریت کی روح کو چھو لیا ہے ؎
جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو
سو چراغ اندھیرے میں، جھلملانے لگتے ہیں
خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھینچ آتا ہے
دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں
جاں ؔنثار اختربھی ترقی پسند ہراول دستے میں نہ صرف شامل بلکہ اس کے اہم نمائندہ ہیں، ان کا سرمایۂ شعری بہت مختصر ہے، خلیلؔ صاحب فرماتے ہیں:
’’جاں نثارؔ اختر رومان سے انقلاب کی طرف آئے۔ وہ ایک انتخابی ذہن رکھتے ہیں، خود اپنا راستہ نکالنے کے بجائے دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پر فوراً چل پڑتے ہیں، چنانچہ انھوں نے اکثر اقبالؔ، جوشؔ، فیضؔ، سردار اور جذبیؔ کے بیان اور خیال اخذ کیے ہیں— البتہ ان کی دو نظمیں— ’خاکِ دل‘ اور — ’خاموش آواز‘ ان کی انفرادیت کی نشانِ راہ ہیں۔‘‘
ساحرؔ لدھیانوی کی شہرت تو فلمی نغمہ نگاری سے تھی لیکن ترقی پسند تحریک کے سبب ان کو خاصی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، ان کے امتیازات کو نشان زد کرتے ہوئے، خلیلؔ صاحب فرماتے ہیں:
’’اُن کی ابتدائی نظموں میں ایک ناپختہ ذہن کے نقوش ملتے ہیں، تاہم ان کے مزاج میں شاعرانہ بے ساختگی اور تغزل کے عناصر شروع سے دکھائی دیتے ہیں ؎
تجھ کو خبر نہیں، مگر اک سادہ لوح کو
برباد کردیا ترے دو دن کے پیار نے
میں اور تم سے ترکِ محبت کی آرزو
دیوانہ کردیا ہے غمِ روزگار نے
پھر نہ کیجے، مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھیے آپ نے، پھر، پیار سے دیکھا مجھ کو
ترقی پسند شاعروں میں ساحرؔ کا مجموعہ کلام سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے۔ اس کی وہ یہ ے کہ ساحرؔ نہ تو فیضؔ کی طرح ذہین طبقہ کے شاعر ہیں اور نہ بہت سے دوسروں کی طرح مزدوروں کے جلسہ کے شاعر۔ ان کی اپیل متوسط طبقہ کے عام تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہے۔ ان کی نظم — ’پرچھائیاں‘ امن کے موضوع پر بہت کامیاب ہے۔‘‘
مجروحؔ سلطان پوری فلم اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود غزل کے منفرد شاعر ہیں، جن کے ہاں روایت کا گہرا شعور بھی ہے اور حال کی آگہی بھی۔ خلیل صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مجروحؔ کی شخصیت کی نشو و نما جگر کے زیراثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کو غزل کے فن پر خاصا عبور ہے۔ سیاسی موضوعات پر ان کی غزلوں میں جو آبداری ہے، وہ معدودے چند شعراکو نصیب ہے:
دیکھ زنداں سے پرے، رنگِ چمن، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے، تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
——
شبِ ظلم، نرغۂ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فرازِ دار سے دیکھ لوں، کہیں کاروان سحر نہ ہو
——
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ، ہاتھ میں آگیا، کہ چراغ راہ میں جل گئے
جوشِ وفاداری میں مجروحؔ نے اپنی روش کے خلاف مزدور اور کسان وغیرہ کو بھی خراجِ پیش کیا لیکن بہت جلد سنبھل گئے، تاہم وہ سیاسی موضوعات کے تنگنائے سے باہر نہیں نکلتے۔ متنوع حقیقتوں کے برخلاف ایک ہی قسم کی کیفیتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔‘‘
اخترالایمانؔ کی کوششوں سے اردو نظم کو ایک خاص وقار اور اعتبار حاصل ہوا، وہ ایک غیرمعمولی صلاحیت کے حامل، اعلیٰ پائے کے تخلیق کار ہیں، جنھوں نے فلمی زندگی کی سطحیت اور ترقی پسندی کی عوامی رغبتوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، گہرے تفکر، خلاقیت اور مخصوص شوریدہ سری کے اوصاف سے مزین اُن کی نظمیں، سرمایۂ شعری میں گرانقدر اضافہ ہیں۔ خلیل صاحب اخترالایمان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جدید شاعری میں اخترالایمان ایک نئے لہجے کے ساتھ آئے۔ ان کے فنی خلوص نے آنی و فانی موضوعات سے بچ کر زندگی کی تہوں میں جانے اور اس کا تجزیہ کرنے پر مائل کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں تفکر کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ ان کا اسلوب جدید ہیئت کا پابند ہے۔ ان کا علامتی اسلوب اور موضوعات کی طرف بالواسطہ رویہ، وقتی مسائل کے بجائے بنیادی حقیقتوں کا عکاس ہے اور اپنے اندر بصیرت اور تہہ داری رکھتا ہے۔ ان کی ہر نظم ایک تصویر بن جاتی ہے جس میں خطوط اور رنگوں کا تناسب اور توازن ہے، ترقی پسند تحریک کا بحرانی دور گزر جانے کے بعد ان کی شاعری کی طرف زیادہ توجہ کی گئی۔
شاد عارفی جو سوداؔ، نظیرؔ اور انشااللہ خاں انشاؔ کے قبیل کے شاعر ہیں، اپنے ہجو ملیح اور طنزیہ اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں، خلیل صاحب نے ان کی انفرادیت کے نمایاں خد و خال پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’شادؔ کی نظمیں اپنی تکنیک، اسلوب اور طرزِ احساس کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک نئے عنوان کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کی نظموں کا موضوع سماجی اور معاشرتی مسائل ہیں۔ انھوں نے ترقی پسند شاعروں کی طرح اپنی شاعری کا دائرہ محض سیاست تک محدود نہیں رکھا، بلکہ زمانہ اور زندگی کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کی کوشش کی۔ بہت سے سیاسی معاملات میں ترقی پسند مصنّفین کی پالیسی سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھا اور اپنی شاعری کا رشتہ آنے والے زمانے سے جوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے زندگی میں جو دُکھ جھیلے ہیں، ان کے بیان میں ایک عمومیت اور ہمہ گیری پیدا ہوگئی ہے، ان معنو ںمیں شادؔ کو موجودہ دور کا عوامی شاعر کہا جاسکتا ہے۔‘‘
منیب الرحمنؔ بیشتر دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود اپنی تخلیقی تب و تاب اور کائناتی صدمات سے شرابور بے حد لطیف نظموں کے سبب ادبی حلقے کے حافظے سے کبھی غائب نہیں ہوئے۔ خلیل صاحب نے منیب الرحمن کی مخصوص انفرادیت، تخلیقی تگ و تاز اور انسانی دردمندی پر بڑی خوبی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں:
’’(جنگ عظیم دوم کے دوران) منیب الرحمن جب انگلینڈ گئے تو جنگ کی تباہ کاری اور ہولناکی کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس نے ان کی ذہنی حالت یکسر بدل ڈالی، ان کی سب سے پہلی نظم کا عنوان ہی’’ جنگ‘‘ ہے ؎
جنگ قابیل کے بیٹوں کا بہیمانہ جنوں
آخری لرزشیں، گرتے ہوئے، ایوانوں میں
اسلحہ جات کا، طاقت کا، حکومت کا فسوں
شہپرِ موت کی تاریک فضا میں لرزش
خوں امنڈتا ہوا آنکھوں میں، دہن شعلہ فشاں
شہر کے کوچہ و بازار میں پیروں کی دھمک
سینہ تانے ہوئے کہسار کے مانند جواں
منیب الرحمن کی اکثر نظموں پر ترقی پسند نقطۂ نظر کی چھاپ بہت واضح ہے۔— انھوں نے کلاسیکی صنف شہر آشوب، کو بھی پیرایۂ بیان کے طور پر استعمال کیا جس میں طنز کے بے شمار تیر و نشترہیں۔ یہ شہر آشوب بہت سے ترقی پسند شعراکے نام نہاد سماجی و سیاسی شاعری پر بھی بھاری ہیں۔ جن میں کسی قسم کی چیخ پکار، گھن گرج، اور نعرۂ انقلاب نہیں ہے، لیکن پھر بھی دلوں پر اثر کرتے ہیں۔ منیب الرحمن ان ترقی پسند شاعروں میں ہیں جنھوں نے اس نظریے سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس تحریک کی بیشتر خامیوں سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کی شاعری اپنے اندر بڑے امکانات رکھتی ہے۔‘‘
ترقی پسند ادبی تحریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ مذکورہ شعرا کی شعری کائنات کے حوالے سے کسی قدر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد خلیل صاحب نے بحیثیتِ مجموعی بھی اس خاص نقطۂ نظر سے شعر و سخن کی سرپرستی اور حمایت میں تحریک کے تاریخی کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ تحریک کے سماجی ایجنڈے اور سیاسی منشور کی مجبوری کے ماتحت بعض بندشوں اور حیدود و قیود کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جن کے سبب اس قافلہ سے وابستہ اکثر شعراکے تخلیقی عزایم سرد ہوگئے اور سطحیت ہی ان کا مقدر بن گئی۔ اس ضمن میں خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ:
’’تقسیم ہند اور فرقہ وارانہ فسادات کا نفسیاتی اثر جس طور پر ترقی پسند شعرا کے ذہنوں پر پڑا، اس نے ایسی شاعری کے لیے زمین ہموار کی جس میں جذبات کی تہذیب و تحلیل نہیں ہوتی، بلکہ فوری تاثر اور ردِّعمل ہی اس کی سب سے اہم بنیاد ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بعض سنجیدہ شعرا نے اس موضوع پر بھی اچھی نظمیں لکھیں اور وہ نظمیں جو بہت اعلیٰ درجہ کی نہیں ہیں، ان میں بھی بہرحال خلوص اور انسان دوستی کی جذبہ ہے۔‘‘
البتہ خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک کی ادبی ساکھ کو جس چیز نے سب سے زیادہ صدمہ پہنچایا وہ 1949ء میں منعقدہ بھیمڑی کانفرنس کا منشور تھا، جس نے تحریک کو خالصتاً سیاسی تحریک میں منتقل کردیا۔ ذاتی غم، انفرادی تجربے اور احساس کی مصوری کو رجعت پسندی قرار دیا گیا۔ آزادی اور انقلاب کی جدوجہد میں بین الاقوامی سیاسی ورجحان کی حمایت، فن کی جمالیاتی اور دائمی اقدار کی نفی، پروپیگنڈہ کو ادب، رمزیت و اشاریت کو بورژوائی فکر کی زائیدہ زوال کی علامت قرار دیا گیا، جن پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں تخلیقی منظرنامہ پر چیخ و پکار، خطابت، تکرارِ خیال اور مصنوعی رجائیت کے دیکھتے دیکھتے بے شمار بادل منڈلانے لگے، تاہم خس و خاشاک کے اس انبارِ ناپیداکنار میں، چند استثنائی مثالیں بھی مل جاتی ہیں مثلاً غلام ربانی تاباںؔ اور سلیمان اریب وغیرہ جنھوں نے سیل میں بہنا پسند نہیں کیا۔
آزادی کے بعد ابھرنے والے بعض شعرا مثلاً بلراج کوملؔ، شہاب جعفریؔ، مظہرامامؔ، منظرسلیمؔ، عمیقؔ حنفی، وحیداخترؔ، حسن نعیمؔ اور شفیقؔ فاطمہ شعریٰ وغیرہ نے ترقی پسند منشور کو نظرانداز کرکے اپنی انفرادی ہستی اور تخلیقی فطانت کی رہنمائی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور آج شاید انھیں کی بدولت وقت کی طوفانی آندھیوں میں بھی شعر و سخن کی شمع روشن ہے۔
خلیل صاحب کا خیال ہے کہ ’’تحریک کے بحرانی دور سے نکلنے کے ساتھ ہی نسبتاًزیادہ متوازن نقطۂ نظر سامنے آیا ہے۔ جامد اور محدود تصورات کے بجائے، روایت کے صحت مند تصور کو سمجھنے اور نئے حالات سے خود کو منسلک کرنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اب اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ شاعری محض خیالات سے نہیں۔ احساس اور تجربے سے پیدا ہوتی ہے، غمِ ذات، غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو انسانی تجربہ ایک رشتہ میں پروسکتا ہے۔ اب ترقی پسندی اور رجعت پرستی کے میکانکی خانے بنانے اور ان میں شاعر کو قید کرنے کی رسم بھی مٹتی جارہی ہے۔‘‘
میرا خیال ہے کہ خلیل صاحب غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان جو آہنی دیوار اور خلیج عرصہ سے حائل تھی، اس میں اب شگاف پڑچکی ہے اور شاعری اپنے آفاقی مفہوم، جمالیاتی اقدار، اعلیٰ انسانی احساسات اور تخلیقی کردا رکے ساتھ گمنامی کے پردوں سے اب باہر آچکی ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی کی معرکۃ الآرا تصنیف ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ کے حوالے سے ترقی پسند شعری سرمائے کے اس مختصر سے جائزے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خلیل صاحب کا کوئی بھی بیان، کسی ذہنی اشتعال، انتقام یا ادعائیت کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ معروضی اور عقلی سطح پر اس سے بہتر کوئی دوسری تحریر اب تک سامنے نہیں آئی ہے، تو شاید غلط نہ ہوگا۔ وہ ترقی پسند نہ ہوکر بھی پورے شعری سرمائے پر کسی طے شدہ فارمولے یا منصوبے کے تحت خطِ تنسیخ کھینچ دینے کے بجائے، اعلیٰ، ادنیٰ تجربات میں فرق و تمیز کرنے کا ہنر جانتے ہیں، اور بڑے ہی مدلل، مخلصانہ اور معقول طریقہ سے اپنے نتائج فکر سامنے لاتے ہیں۔ گرچہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے مولانا شبلی، رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرورؔ کی قائم کردہ تنقیدی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تمام تر ذہانت طباعی اور انفرادیت کے باوجود تنقید کے نئے مغربی پیمانو ںکو برتنے اور شعری متن کے فنی و لسانی تجزیے کے بجائے روایتی تاثراتی طریقۂ نقد سے ہی سروکار رکھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس طرزِ مطالعہ سے بھی جو نتائج برآمد کیے ہیں وہ بالعموم صحیح اور اطمینان بخش ہیں۔
Shameem E Balaghat by Allama Akhlaque Dahlavi
Articles
شمیمِ بلاغت
علامہ اخلاق دہلوی
Adbi Asnaf by Prof. Gyanchand Jain
Articles
ادبی اصناف
پروفیسر گیان چند جین
Chughad by Saadat Hasan Manto
Articles
چغد
سعادت حسن منٹو
Ghul E Naghma by Firaq Gorakhuri
Articles