“eucalyptus” aik Tajaziya by Abdur Rahman

Articles

’یو کلپٹس‘ ایک تجزیاتی جائزہ

عبدالرحمن فیصل

عورت افسانہ نگار بیدیؔ کا بہت پسندیدہ موضوع ہے۔ اپنے اس پسندیدہ (Motif) غالب محرک کی بنیاد پر انہوں نے متعدد افسانے تعمیر کیے ہیں۔ ان میں ایک ’یوکلپٹس‘ بھی ہے، جس میں تین نسوانی کرداروں کے ارد گرد کہانی تشکیل دی گئی ہے۔
افسانے کی ابتداء ہمہ داں راوی کے ذریعہ ایک صورت حال کے بیان سے ہوتی ہے، جس سے یہ اطلاع ہے کہ لمحوں کے گزرنے یا ایک دوسرے پر ڈھیر ہونے سے مٹی کا ٹیلا بنتا ہے۔ مٹی کے ڈھیر ہونے کا بیان لمحوں کے گزرنے کے حوالے سے کیا گیا ہے گویا ’مٹی کا ڈھیر‘ گزرے ہوئے ماہ و سال کا کنایہ ہے، جس سے یو کلپٹس کا درخت نکلتا ہے۔
افسانہ نگار اس صورت حال کے بیان سے ہی قاری کے ذہن میں سوالات قائم کرکے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، مثلاً لمحوں کے ایک دوسرے پر ڈھیر ہونے سے مٹی کا ٹیلا بننے میں کیا ربط ہے؟ اور پھر لمحوں کے ذریعہ بنائے گئے ٹیلے سے ’یوکلپٹس‘ کا درخت نمود پاتا ہے۔ یہ سوالات، قاری کے ذہن میں افسانے کے عنوان کے متعلق بھی دلچسپی پیدا کردیتے ہیں۔
اس کے بعد افسانے میں ’کندن‘ کا کردار سامنے آتا ہے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ عورت ہے اور ایک کرشچین اسکول میں وائس پرنسپل ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ کسی ٹیلیفون کی اطلاع پر وہ گھر لوٹی تھی لیکن بنگلے میں داخل ہوتے ہی وہ ہمیشہ کی طرح ’سرجو‘ کے پاس رک جاتی ہے۔ جو قاعدے کے مطابق نہیں تھا یہ کہہ کر راوی قاری کی توجہ ’کندن‘ کے اس عمل پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔
’سرجو‘ یوکلپٹس کے درخت کا نام تھا۔ یہاں پر افسانے کا راوی درخت کے متعلق اطلاعات فراہم کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’یہ پیڑ کندن نے تین سوا تین برس پہلے لگایا تھا، جب وہ نئی نئی وس کوسن یونیورسٹی سے ٹیچنگ کا ڈپلوما کرکے آئی تھی۔ جب یہاں کھیتھولک چپلن فادر فشر رہا کرتا تھا اور جس نے بنگلہ کا آدھا حصہ کماری کندن کو دے رکھا تھا۔ پھر برس ایک کے بعد وہ مشن کا کام پورا کرکے امریکا چلا گیا اور کندن نے تنہائی سے گھبراکر اپنی بوڑھی ماں کو بلالیا۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کے مطالعہ سے ’یوکلپٹس‘ کے متعلق قاری کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ذہن میں کئی سوال بھی پید اہونے لگتے ہیں کہ کندن اور پوکلپٹس کے درخت میں کیا رشتہ تھا؟ کہ وہ ہمیشہ اس کے پاس رک جاتی تھی۔ اس نے یہ درخت کیوں لگایا؟ اسے ایک مخصوص نام کیوں دیا؟ اور راوی کی یہ اطلاع کہ فادر فشر اس وقت بنگلے میں رہتا تھا، ایک اہم بات یہ بھی کہ لفظ ’کندن‘ کے ساتھ کماری کا اضافہ کیوں کیا؟ جب کہ افسانے کے پہلے پیراگراف میں صرف ’کندن‘ لفظ بیان ہوا ہے۔ یہ تمام سوالات اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یوکلپٹس، کندن اور فادر فشر کے مابین کسی نہ کسی نوع کا ربط ضرور موجود ہے۔
مذکورہ اقتباس کے آخری سطر میں یہ بھی ذکر ہے کہ فادر فشر کے چلے جانے کے بعد کندن اس تنہائی سے گھبراکر اپنی ماں کو بلالیتی ہے۔ فادر فشر کے چلے جانے کے بعد کندن کو تنہائی کا احساس ہونے لگا۔ یہاں افسانہ نگار نے کماری کندن اور فادر فشر کے مابین رشتے کے متعلق نہایت بلیغ اشارہ کیا ہے تاکہ واقعے کے متعلق قاری کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو۔
راوی پھر سے افسانے کی ڈور اسی یوکلپٹس کے درخت سے جوڑ دیتا ہے جہاں کندن قاعدے کے خلاف آکر رک جاتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’وہ پیار سے اس پر ہاتھ پھیرنے ہی والی تھی کہ دوسری طرف برآمدے میں اسے اپنی جیلی فش ماں کا ہیولا سا نظر آیا۔ اسی دم جھک کر کندن نے پیڑ کے نیچے سے تازہ گرے ہوئے پتے اٹھالیے اور ہاتھ میں مسل کر انھیں سونگھنے اور لانبے لانبے سانس لینے لگی جیسے اسے زکام ہو اور یوکلپٹس کی بو تنفس اور اس کے رگوں ریشوں کو ایک طرح کا سکون دے رہی ہو۔ پھر ماں کی طرف منھ کرتے ہوئے کندن تھوڑا کھیسائی۔ ’’میں سرجو کو بڑھتے دیکھ بھی سکتی ہوں، ماں۔‘‘ اور اس نے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
مذکورہ متن کے بغور مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کندن کو اس درخت سے جذباتی لگاؤ ہے۔ جیسے انسانی رشتوں میں ہوتا ہے کہ اس کی قربت اور لمس سے ایک نوع کی قلبی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اقتباس کے آخری چار سطروں میں بیدیؔ ،بڑی فن کاری سے قاری کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں تاکہ مکمل طور پر یہ توضیح نہ ہوسکے کہ کندن اور یوکلپٹس کے درمیان رشتے کی نوعیت کیا ہے۔
اقتباس کے آخر سے تیسری اور چوتھی سطر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس پیڑ کی پتیوں کی خوشبو سے ایک بھولی ہوئی یاد بھی تازہ ہوتی ہے۔ یوکلپٹس کی مسلی ہوئی پتیوں کی خوشبو، کسی ایسی خوشبو کی یاد تازہ کرتی ہیں، جن سے کندن کا جذباتی تعلق ہے۔ جو قاری کے ذہن کو کندن اور فادر فشر کی جانب مبذول کرتا ہے۔ لیکن آخری دو جملے جو کندن کی زبانی بیان ہوئے ’’میں تو سرجو کو بڑھتے دیکھ بھی سکتی ہوں، ماں۔‘‘ اور اس نے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔ کندن اور سرجو کے مابین رشتے کی ایک الگ ہی نوعیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ جیسے ماں اپنے بچے کے لیے کہہ رہی ہو کہ میں اسے بڑا ہوتے دیکھ سکتی ہوں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے افسانے کے یہ دو اقتباس دیکھیں:
’’ہر صبح و شام اسکول جانے سے پہلے اور لوٹنے کے بعد کندن اس کے پاس رکتی اور اس کی نرم سی چھال پر ہاتھ پھیرتی، پیار کرتی……‘‘
’’کندن نے اپنے بدن میں سے کوئی بجلی جھٹکی اور بنگلے کی طرف مڑ آئی۔ راستے میں سرجو کی طرف دیکھا تو ایک بچہ دکھائی دیا، جس سے ڈر کر وہ بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی۔‘‘
ان اقتباسات میں واضح طور پر کندن کے ممتا بھرے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
راوی افسانے کو کندن کی نوکرانی لکھی کے درد زہ کے واقعے سے آگے بڑھاتا ہے کہ جب لکھی درد زہ میں مبتلا ہوتی ہے تو سبھاشنی (کندن کی ماں) اسے گالیاں دینا شروع کردیتی ہے لیکن افسانے میں جیسا کہ بار بار سبھاشنی کو سخت دل دکھایا گیا ہے ایسا نہیں ہے کیوں کہ لکھی جب بھی درد زہ میں مبتلا ہوتی ہے تمام گالیوں کے باوجود سبھاشنی اس کے درد کو محسوس کرتی ہے۔ جو ایک عورت کی ذاتی صفات کا خاصہ ہے۔
’’ادھر لکھی اپنے کوارٹر میں کراہ رہی تھی۔ ادھر ماں گالیاں بکے جارہی تھی اس کی آخری گالی تھی — ’چھنار‘ جبھی لکھی کی چیخ سنائی دی تو ماں اورکندن دونوں منھ اٹھاکر اندھیرے میں دیکھنے لگیں، جیسے لکھی سامنے تڑپتی ہوئی نظر آرہی ہو۔ شاید… زہ کے درد میں مبتلا عورت کہیں بھی ہو، دوسری سب عورتوں کو دکھائی دینے لگتی ہے۔
کندن نے ایک دم گھبراکر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ماں‘‘
سن رہی ہو …… ’’مجھے بھی کان دئیے ہیں پرماتما نے‘‘
کیا جذبہ تھا کہ دوسری چیخ کے ساتھ ہی ماں بھی چلا اٹھی۔ ’’مرتی ہے تومرجائے۔‘‘
افسانے میں سبھاشنی کے جس سخت دلی کا اظہار ملتا ہے در اصل وہ ان تمام مردوں کے لیے ہے جو عورت کے کرب کو نہیں سمجھتے اور اپنے بیوی، بچوں کی ذمہ داری نہیں اٹھاتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کیوں تو ہر بار اس کے ساتھ راس رچا بیٹھتی ہے۔؟‘‘
’’جب وہ تیری ذمہ داری لیتا ہے، نہ تیرے بچوں کی، اپنے…؟‘‘
’’سب مرد ایک ہی رسی سے پھانسی دئیے جانے کے قابل ہیں۔‘‘
کندن کے علاوہ بنگلے میں دو عورتیں اور رہتی ہیں سبھاشنی اور لکھی۔ یہ تینوں عورتیں بغیر مردوں کے اس بنگلے میں رہتی ہیں اگرچہ لکھی کا شوہر ہے لیکن اس کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
لکھی کی چیخیں سن کر سبھاشنی لکھی کے کواٹر میں چلی جاتی ہے تو کندن کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی انتظار کرنے لگتی ہے۔ یہاں پر راوی کا بیان ملاحظہ کریں:
’’کندن کھڑکی میں جاکھڑی ہوئی اور انتظار کرنے لگی۔ روشنی میں تو اونچ نیچ سب نظر آتا ہے، مگر اندھیرا ایک عجیب قسم کی یکسانیت پیدا کرتا ہے صرف عادی ہوجانے پر مصیبتوں کے ہلکے خاکے اور گہرے خاکے دکھائی دیتے ہیں، جو اس یکسانیت میں اور بھی تاکید کا عالم پید اکردیتے ہیں اور آدمی گھبراکر کھڑکی چھوڑ دیتا ہے اور ایک بے پناہ حبس سے بچنے کے لیے کسی کا بھی گریبان پھاڑ دیتا ہے۔‘‘
اس پورے اقتباس کے ذریعے افسانہ نگار نے کندن کے ذات کی تنہائی اور اس اکیلے پن کے کرب کو ظاہر کیا ہے، جو عورت کی زندگی میں مرد ذات کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔
راوی بیان کرتا ہے کہ کندن کھڑکی سے واپس آکر تپائی پر پڑی ہوئی کتابیں الٹنے پلٹنے لگتی ہے۔
’’کندن نے اوپر کی کتاب کو صاف کیا جس کا عنوان تھا— ’’مرد عورتوں کے بغیر—‘‘ —اس نے کتاب کھولی، پہلی چند سطریں پڑھیں اور پھر بند کرتے ہوئے سوچنے لگی —عورتیں، مردوں کے بغیر۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کو بیدیؔ نے بڑی فن کاری کے ساتھ تشکیل دیا ہے۔ کس طرح بیدیؔ صرف دو جملوں (۱-مرد عورتوں کے بغیر‘ ۲- عورتیں، مردوں کے بغیر) سے انسانی رشتوں (مرد اور عورت کے مابین) کی اہمیت کی فلسفیانہ توضیح پیش کرتے ہیں۔ ان دو جملوں کے ذریعہ عورت اور مرد کے فطری ؍قدرتی رشتے کی حقیقت، قاری پر واضح ہوجاتی ہے۔ افسانہ نگار کا یہ بتانا مقصود ہے کہ انسانی زندگی میں مرد اور عورت کا رشتہ کتنا اہم ہے چاہے وہ شوہر بیوی کی شکل میں ہو، باپ بیٹی کی شکل میں ہو، ماں بیٹے کی شکل میں ہو یا بہن بھائی کی شکل میں ہو۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔
اس کے بعد افسانہ تینوں نسوانی کرداروں کندن، سبھاشنی اور لکھی کی زندگی کی تفصیلات کے ذریعہ آگے بڑھتا ہے۔ کندن جب اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھی یتیم ہوجاتی ہے اور زندگی بھر وہ اپنے باپ کا چہرہ دیکھنے کے لیے ترستی رہی۔ ماں کے بیان کے مطابق :
’’اس صدی کے شروع میں جو پلیگ پھیلی تھی اس نے موت میں سچ اور جھوٹ کو برابر کردیا تھا۔ عجیب سی یکسانیت پیدا کردی تھی۔‘‘
سبھاشنی کے ذریعہ دئیے گئے اس اطلاع کے مطابق کہ کندن کا باپ پلیگ میں چل بسا تھا۔ قاری کو شک و شبہ میں ڈال دیتا ہے۔ جس کا آگے چل کر افسانے میں ذکر ملتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’وہ ہمیشہ ایک جرم کے احساس اور اذیت پسندی کے جذبے میں نیچے ٹھنڈے فرش پر سوتی تھی اور ایک رہبانیت سی اس کے جذبات پر چھائی رہتی، جس میں اداسی بھری ایک تسلی تھی…… وہ تو خواب اور بیداری کے اعراف میں روتی ہنستی رہتی اور بھجن اس کا سہارا ہوتے۔
کب نینن سے نیند گنوائی، تکیہ لیف بچھونا کیا
آخر- سمجھ بوجھ کچھ سوچ پیارے، پیار کیا تو ڈرنا کیا؟
اس کے بعد راوی سبھاشنی کی زندگی کے متعلق اطلاع فراہم کرتا ہے کہ کندن کو پالنے اور تنہا رہبانیت کی زندگی گزارنے میں اسے کتنی اذیتیں اٹھانی پڑیں لیکن ان تمام تر تکلیفوں کے باوجود سبھاشنی نے کندن کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ لیکن راوی بیان کرتا ہے کہ تعلیم نے اگرچہ اس کے حسن کو صیقل کردیا تھا پھر بھی اس کی آنکھوں میں شکوک اور وسوسے موجود تھے۔ شاید اس لیے کہ سبھاشنی اس کی زندگی کے ایک خلا کو پُر نہ کرسکی، جو اس کے باپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے زندگی میں حائل تھی۔
’’آنکھیں بڑی بڑی تھیں جن میں بیسیوں شک تھے اور وسوسے۔ ایک عجیب سے ارتقاء میں اس کی آنکھیں کانوں تک کھنچ آئی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا سامنے جاتی ہے تو پیچھے بھی دکھائی دیتا ہوگا۔ یا وہ ایسے ہی دیکھتی رہتی تھی جیسے کوئی اس کا پیچھا کررہا ہے۔ باپ نہ ہونے سے لڑکیوں کو کیسی کیسی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے…۔‘‘
اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کے اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف اگر کوئی انسان ایساکام کرگزرتا ہے جو معاشرے کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ہے تو ساری عمر اسے اور اس کی اولاد کو معاشرے کے طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
لیکن اسی اقتباس کے فوراً بعد افسانہ نگار کندن کے متعلق وہ بات لکھتا ہے جس سے معاشرے کے اپنے بنائے ہوئے اصول و اقدار بے معنی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:
’’اس کے باوجود بارہ تیرہ برس ہی کی عمر میں کندن کو ایک ایسے مرد کے سلسلے میں تجربہ ہوا تھا، جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ شاید وہ مرجاتی مگر کُٹّھ نے اس کی زندگی بچالی، تاکہ بڑی ہوکر یوکلپٹس کا پیڑ بوسکے۔‘‘
لکھی ایک عیسائی عورت تھی۔ اس کا نام لکشمی رام داس تھا اور اس کے شوہر کا نام سِدّھو جو اس کا تیسرا شوہر تھا۔ کبھی اس نے لکھی کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا۔ لیکن افسانے کے ان دو کرداروں (کندن او رسبھاشنی) کے علاوہ لکھی کی زندگی میں مرد ذات کی بہت اہمیت تھی۔
’’مرد… لکھی پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگتی۔ کبھی سب غلط اور کبھی سب ٹھیک معلوم ہونے لگتا… ہاں، ہاں، ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔ سب مرد اس قابل ہیں کہ… میں ایک اور کرلوں گی، مگر نہیں… وہ بھی تو – پھر وہ ایکاایکی خفا ہو اٹھتی اور اپنا ہاتھ جوگی کی طرف لے جاتی۔ اس کے بعد سدھو کا ہمزاد اس کی طرف نم آنکھیں لیے، ہاتھ جوڑے اور لکھی کا ہاتھ جولی کی طرف جانے لگتا۔ پھر وہ دیکھتی۔ جب تک سدھو کا ہاتھ لکھی کے بعدن پر پڑتا اور لکھی کی گرفت ڈھیلی ہوجاتی، آنکھیں چڑھنے، بند ہونے لگتیں اور وہ بے دم سی ہوکر گرجاتی ہے۔‘‘
لکھی کو جب ایک اور لڑکی پیدا ہوئی تو کندن کی ماں گالیاں دیتی ہوئی آئی۔ افسانہ نگار کندن کی زبانی یہ بتاتا ہے کہ ماں کی آخری گالی تھی… ’’ایک اور لڑکی چلی آئی…‘‘
بیدیؔ نے اس جملے کے ذریعے پورے مرد اساس معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے اور عورت کی زندگی کے ذاتی کرب کو نمایاں کیا ہے۔
لکھی کی اب چار لڑکیاں ہوچکی تھیں۔ عورت کی زندگی میں مرد ذات کے نہ ہونے سے اسے کن کن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فکر میں سبھاشنی گالیاں دیتے ہوئے کندن سے کہتی ہے:
’’ایک لائسن (لائسنس) لے لو کندنا!… اب کے وہ حرامی آیا، تو میں اسے گولی مار دوں گی۔‘‘
آگے راوی بیان کرتا ہے کہ:
’’ماں سبھاشنی اپنے تخیل میں لاش دیکھ رہی تھی اور روبھی رہی تھی، جیسے ہر عورت اپنے بیٹے کی سرزنش کے بعد خود رونے بیٹھ جاتی ہے…۔‘‘
اس پورے اقتباس میں ایک عجیب کشمکش کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ سدھو کی بے مروتی بلکہ مرد ذات کی بے مروتی پر گالیاں دیتی ہے اور پھر ممتا کے جذبہ کی وجہ سے رونے بھی لگتی ہے۔
افسانے کے درمیان میں جب سبھاشنی کو معلوم ہوتا ہے کہ لکھی کے پیٹ میں دوبارہ بچہ ہے تو کندن اور سبھاشنی دونوں کے پوچھے جانے پر کہ یہ کیسے ہوا؟ لکھی اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتی ہے لیکن وہ اس بات سے انکار کرتی رہی کہ وہ سدھو یا کسی اور مرد سے نہیں ملی۔
افسانہ نگار یہاں پر ایک سوال قائم کرتا ہے کہ نہیں دیکھا تو پھر یہ سب کیسے ہوا؟ کیوں کہ منطقی طور پر انسانی معاشرے؍ دنیا میں کسی مرد سے ہم بستر ہوئے بغیر عورت کے پیٹ میں حمل کیسے ہوسکتا ہے؟ یہیں سے افسانے پر عیسائیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے اور مریم اور یسوع کے واقعے کی طرف ذہن کو مبذول کرتا ہے۔
سبھاشنی نے خوب ہنگامہ کیا گالیاں دیں کہ کندن لکھی کو بنگلے سے نکال دے لیکن ماں کے گھر سے چلے جانے کی دھمکی کے باوجود بھی کندن لکھی کو اس تکلیف میں اکیلا نہیں چھوڑسکتی تھی۔ اس لیے اس نے ماں کو صاف منع کردیا۔ تو سبھاشنی پھر سے لکھی پر سوالوں کی بوچھار کردیتی ہے۔
’’سچ بتا، کہاں سے لائی ہے؟‘‘
’’کہیں سے نہیں، لکھی کہتی ’’اگر میں نے پاپ کیا ہو تو خداوند یسوع میری چاروں بیٹیوں کو لے جائیں۔‘‘
’’بیٹیوں کا کیا ہے‘‘ ماں کہتی ’’وہ تو ہر عورت چاہتی ہے۔‘‘
کندن ایک جھٹکے کے ساتھ بات کاٹ دیتی۔ ’’ماں……‘‘
مان کندن کی طرف دیکھتی ہے……
’’میں بھی تیری بیٹی ہوں… ‘‘ کندن آنکھوں میں شکایتیں، حکایتیں لیے ہوئے ماں سے کہتی ’’تو چاہتی ہے پرماتما مجھے لے جائیں۔‘‘
ماں سبھاشنی کندن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی،… اور پھر اپنی بیٹی سے لپٹ جاتی، کہتی ہوئی ’’کندن‘‘ اور پھر ’’تو میری بات نہیں سمجھتی، میں بھی تو کسی کی بیٹی ہوں۔ میں بھی سوچتی ہوں میں کیوں اس سنسار میں چلی آئی؟ کیوں نہ پیدا ہوتے ہی مرگئی۔
سبھاشنی اور کندن کے اس مکالمے؍ گفتگو سے افسانہ نگار کا یہ بتانا مقصود ہے کہ مرد کے بغیر ایک عورت کی زندگی کس طرح بے معنی اور اذیت ناک ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ سبھاشنی اپنی پوری زندگی بغیر مرد کے سہارے گزار دیتی ہے اور اسی لیے وہ کہتی ہے ’’میں سوچتی ہوں کہ کیوں اس دنیا میں چلی آئی۔ پیدا ہوتے ہی کیوں نہ مرگئی۔‘‘
اس کے بعد افسانہ نگار وقت کے بہاؤ کو سمیٹتے ہوئے کہتا ہے کہ ڈیڑھ مہینے بعد جب باب ؍فادر فشر آیا اور اسے دیکھتے ہی کندن دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔ لیکن باب نے اسے دور جانے کے لیے کہا تو کندن حیرت زدہ ہوکر پیچھے ہٹ گئی اور نگاہوں میں معمے لیے ہوئے بابی فشر کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔
یہاں پر کندن اور فادر فشر کے درمیان تعلق کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے کہ کندن، فادر فشر سے محبت کرتی ہے۔
کندن اپنے جذبات پر قابوپاتے ہوئے خاموش کھڑے ’باب‘ سے سوال کرکے کہتی ہے کہ باب کچھ تو بولو۔ افسانہ نگار اس کے فوراً بعد لکھتا ہے کہ:
’’کندن کا جسم ساتھ لگتے ہی فادر فشر کی پاکیزگی کے ہمالے اور اس کے وطن کے اینڈیز پگھلنے پسیجنے لگے۔ چند لمحے پہلے سردی میں ٹھٹھرنے والے دو جسموں پر کوئی لحاف سے چلے آئے، جنھیں اتار، ایک طرف پھینک کر باب بولا ’’پرے ہٹ جاؤ… تم عورتیں سمجھتی ہو مردوں کے عصمت ہی نہیں ہوتی؟‘‘
اس پیراگراف میں افسانہ نگار نے فطری طور پر مرد اور عورت کے جسم کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی بہترین عکاسی کی ہے۔ لیکن باب کا یہ کہنا کہ ’’تم عورتیں سمجھتی ہو کہ مردوں کے عصمت ہی نہیں ہوتی ہے۔ قاری کے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے اور پھر افسانہ نگار اس سوال کا جواب خود کندن کی زبانی بیان کرتا ہے:
’’میں نے عورت ہوکر تمھیں معاف کردیا، باب… اور تم…‘‘
’’میرے اور تمھارے درمیان…… میں عورت ہوں۔‘‘
کندن کے اس پورے بیان سے مرد اور عورت کے فطری رشتے کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دنیا کی ہر عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے اور اس کے علاوہ عورت کے خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے جذبے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
اس کے بعد راوی بیان کرتا ہے کہ جب ’باب‘ کندن کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھتا ہے تو ’’پھر اسے خیال آیا شاید…‘‘
اس جملے سے افسانہ نگار کا اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ باب کا پلٹ کر نہ دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے اس کا باپ کبھی اس کی زندگی میں لوٹ کر نہیں آیا۔
کندن اس پر چیخ کر کہتی ہے۔
’’اور اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں پکارا… فا…د…ر…‘‘ اور اس کی آواز بے شمار گھاٹیوں اور ان کی سیاہ تہوں میں گرتی، جذب ہوتی ہوئی دکھائی دی۔‘‘
اس پورے بیان کے بعد راوی پھر سے کہانی کو لکھی پر ہورہے سوالوں سے لاکر جوڑ دیتا ہے۔
’’سچ بتا کون تھا؟… یہ اپجس کی گانٹھ کہاں سے لائی؟‘‘
تم تو یہ مت پوچھو، ماں
ماں ایکا ایکی ڈر گئی۔ اس نے بیٹی کے چہرے پر دیکھا اور کچھ مطلب ڈھونڈھنے کی کوشش کی۔
کندن نے بالقصد چہرے پر ایک معصومیت لاتے ہوئے کہا ’’ہم عورتیں ہیں… ہمیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ماں۔ کیا یہ کافی نہیں کہ وہ بچہ ہے…؟‘‘
اگر پھر لڑکی ہوگئی تو؟‘‘
’’لڑکی کیا انسان نہیں ہوتی؟‘‘
’’ہوتی ہے مگر…‘‘
اس پورے مکالمے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب خود افسانے کے اس اقتباس میں موجود ہیں۔
’’اور پھر سب باتیں ان چند سوالوں میں گم ہوگئیں، جو عورت سے ازل سے پوچھے جارہے ہیں اور ابد تک پوچھے جائیں گے۔ جن کا وہ کبھی جواب دے گی اور کبھی نہ دے سکے گی اور دے گی بھی تو اس پر ہزاروں دباؤ ہوں گے… سماجی، اخلاقی…… اور بچے کو کچھ پتہ نہ ہوگا اور ماں ڈری سہمی رہے گی۔‘‘
راوی بیان کرتا ہے کہ جب لکھی نے گرجے میں کنفیشن کیا تو ایک نئی اطلاع سامنے آئی کہ ’رام داس‘ اس کے خواب میں آیا تھا۔ وہ کسی مرد کے پاس نہیں گئی۔ وہ قسمیں لیتی رہی لیکن لکھی کی اس بات سے سب حیرت میں تھے۔
اس پر کندن نے فرداً فرداً فادر روبیلو اور فادر مائیکل سے پوچھا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر لکھشمی رام داس سچ کہتی ہے تو کیوں نہیں۔ لیکن کندن ایک تعلیم یافتہ عورت تھی اسے اطمینان بخش جواب نہیں ملا تو اس نے فادر فشر کو گرجے سے باہر جانے والے راستے پر روک کر پوچھ لیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’فادر فشر نے ادھر اُدھر دیکھا اور کندن سے کہا ’’نہیں‘‘
کندن چونک گئی اور بولی ’’فادر… تم ایک کیتھولک پادری ہوکر اس بات کو نہیں مانتے؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’کیوں نہیں‘‘
’’اس لیے کہ خدا کے بیٹے اور انسان کے بیٹے میں فرق ہے… میرا خیال ہے، کہیں رات کے وقت سدھو چپکے سے چلا آیا ہوگا۔‘‘
کندن کو ماں کا فقرہ یاد آیا۔ ’’اتپتی کے سب کام پرماتما اندھیرے میں کرتے ہیں۔‘‘ مگر فادر فشر کو آخری حد تک پہنچانے کے لیے کند ن بولی ’’سدھو یا رام داس؟‘‘
’’سدھو‘‘
’’رام داس کیوں نہیں؟‘‘
’’رام داس کوئی حقیقت نہیں رکھتا… اس کا کوئی وجود نہیں۔ وہ تو صرف نام ہے رجسٹر میں۔‘‘
ہاں مگر کندن نے ضد کی ’’آیا بھی تو لکھی کو پتہ نہ چلا ہوگا۔‘‘
’’تم تو جانتی ہو‘‘ فادر فشر نے کندن کے نگاہوں کو ٹالتے ہوئے کہا… ’’پھر خواب کتنا گہرا ہوجاتا ہے……۔‘‘
یہ پورا بیان کنایاتی یا تمثیلی معلوم ہوتا ہے، جو عیسائی مذہب سے مستعار ہے۔ لیکن بیدیؔ اس پورے بیان سے صرف ماں اور اس کے بچے کے مقدس رشتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، جس کا آگے چل کر بیان کیا گیا ہے۔لیکن اقتباس کے آخر میں راوی یہ کہتا ہے کہ کندن حقیقت جاننے کے لیے فادر فشر سے سوال و جواب کرتی ہے یہاں قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا جاننا چاہتی ہے؟ چوں کہ کندن ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہے اور وہ جانتی ہے کہ انسانی معاشرہ میں بغیر عورت اور مرد کے اتصال سے بچے کا کوئی وجود نہیں اور یہ بات فادر فشر بھی جانتا تھا۔ لیکن اقتباس کا آخری جملہ کندن اور فادر فشر کے مابین تعلق کی نوعیت کی پوری وضاحت کرتا ہے اور کندن، فادر فشر پر مرد اور عورت کے فطری رشتے کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتی ہے۔
’’کندن جذبات سے معمور ہوگئی- ’باب‘ اس نے کہا۔ ’’تم ایسا سمجھتے ہو تو کیوں نہیں یہ مشن چھوڑ دیتے؟ کیوں نہیں شادی–‘‘
باب فشر نے کندن کو وہیں روک دیا۔ صرف اتنا کہہ کر– ’’نہیں‘‘
’’تم کیوں نہیں سمجھنے کی کوشش کرتے، باب؟ اس دنیا کے سب دھندے کرتے ہوئے آدمی پادری سے بھی بڑا ہوسکتا ہے، یسوع—۔‘‘
مذکورہ اقتباس سے بیک وقت کئی نتیجے برآمد ہوتے ہیں مثلاً دنیاوی زندگی میں مرد اور عورت کے رشتے کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ قدرت نے عورت کو مرد کے لیے اور مرد کو عورت کے لیے ہی تخلیق کیا ہے۔ دونوں کے ذریعہ ہی انسانی زندگی کا وجود ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ فادر فشر اس بات کو سمجھتا ہے لیکن مذہبی جکڑبندیوں کی وجہ سے مجبور رہتا ہے۔ تیسری اور سب سے اہم بات جو اس اقتباس کے آخری سطر سے معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کا یہی نظام ہے کہ آدمی فطری رشتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایک انسان کی طرح زندگی گزارے تو وہ ایک پادری؍ راہب کے درجہ سے بھی بلند ہوسکتا ہے۔
اس کے بعد افسانے میں بیدیؔ عورت کے اس جذبے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو صرف عورت کی ذاتی صفات کا حصہ ہے، جسے مرد آخر دن تک نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ایک عورت ساری تکالیف برداشت کرکے اولاد کو جنم دیتی ہے، اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پیدائش کے فوراً بعد، لڑکے اور لڑکی تو کیا، زندگی اور موت سے بھی بے خبر لکھی ایک میٹھی نیند سوگئی ایسی نیند جو اس جانکاہی کے بعد ہی آتی ہے اور جس کا احساس مرد کو کبھی نہیں ہوتا۔‘‘
اور بیدیؔ نے عورت کے اس جذبے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ہر عورت کے اندر ایک درد مند دل ہوتا ہے جو ممتا سے لبریز ہوتا ہے۔ اسی لیے لکھی کی تکلیف دیکھ کر کندن، ماں کے نہ چاہنے پر بھی لکھی کے پاس چلی جاتی ہے اور اس کے پیچھے سبھاشنی بھی پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس بار یہ ہوتا ہے کہ لکھی کو ایک مرا ہوا لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں حقیقت کی راہیں ٹٹولتی ہوئی کندن مشن میں پہنچتی ہے۔
’’جہاں مقدس مریم اور اس کے اور بھی مقدس بچے کا آئیکون تھا، جس کے سامنے وہ دو زانوں ہوگئی۔ وہ جو ایک کرشچین سے بہت بڑی تھی، دائیں بائیں طرف دو بڑی سی موم بتیاں کانپنے لگیں، جن سے آئیکون متحرک ہوگیا اور مقدس ماں، بچے کوگود میں لیے کندن پر مسکرانے اور اس سے باتیں کرنے لگی۔‘‘
اس پورے بیان کے ذریعہ بیدیؔ معاشرے سے پرے ماں اور اس کے بچے کے رشتے کی وضاحت کرتے ہیں کہ ماں اور اولاد کا رشتہ ایک مقدس رشتہ ہے اور ممتا کا یہی مقدس جذبہ بھی ہے کہ ہر عورت ساری اذیتیں برداشت کرکے بھی اپنے بچہ کو پیدا کرتی اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ شاید اقتباس کے آخر میں مریم اور یسوع کے آئیکون کے ذریعہ بیدیؔ اسی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
افسانے میں مجسمے کا کندن سے بات کرنے کے بعد، بیدیؔ معاشرے کے بنائے ہوئے اصول و قواعد پر گہرا طنز کرتے نظر آتے ہیں۔
’’جبھی فادر مائیکل آیا اور کندن کو مسیح کو بھیڑوں میں شامل ہوتے دیکھ کر مسکرادیا، لیکن جبھی اس کے ہونٹ بھنچ گئے اور اس نے بچے کا فاتحہ پڑھنے سے انکا رکردیا کیوں کہ کرشچین ہوئے بغیر مرگیا تھا، شراب اور پانی کے ساتھ اس کا بپتسمہ نہ ہوسکا تھا……‘‘
صبح کندن کو ایک اور ہی مسئلہ در پیش تھا۔ بچہ کرسچین تھا اور نہ مسلمان…… نہ ہندو… کون اسے اپنے قبرستان میں دفنانے دے گا۔ شمشان میں جلانے دے گا۔ ہر کوئی یہی پوچھے گا۔ اس کے باپ کا نام کیا ہے؟‘‘
افسانے کے اخیر میں سبھاشنی لڑکے کو تابوت میں رکھ کر دفنادیتی ہے۔ یہاں راوی بیان کرتا ہے:
’’کندن… کندن کہاں تھی؟ تھوڑی ہی دیر میں وہ نیچے سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھ میں سرجو کا ایک بوٹا تھا جسے وہ کہیں سے کھود لائی تھی۔ ‘‘
’’یہ اس پر لگادو ماں‘‘ وہ بولی۔
ماں نے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے کھرپی گرگئی۔ اس نے ایک تیز سی نظر سے سرجو– یوکلپٹس کے پیڑ کی طرف دیکھا اور پھر ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں میں ایک جست کے ساتھ اپنی بیٹی سے لپٹ گئی۔ ماں بیٹی دونوں ایک مشترک غم میں رو رہی تھیں۔‘‘
افسانے کے آخر میں قاری پر کندن اور یوکلپٹس کے مابین تعلق کی نوعیت واضح ہوتی ہے کہ آخر کندن کو سرجو سے اس قدر جذباتی لگاؤ کیوں تھا؟
مذکورہ اقتباس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیدیؔ نے بڑی فنکاری کے ساتھ ان چند سطروں میں عورت کی زندگی کا المیہ پیش کردیا ہے۔ افسانے کے آخری چھ سطروں میں ماں سبھاشنی اور کندن کی گفتگو کے ذریعہ بیدیؔ نے ساری دنیا پر یہ واضح کیا ہے کہ عورت اور مرد کا رشتہ فطری ہے کسی ایک کی بھی عدم موجودگی سے دونوں کی زندگی کا وجود ممکن نہیں۔
٭٭٭

مضمون نگار شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں

Ail Baap Bikao hai ka Tajaziyati Mutala

Articles

’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

عبدالرحمن فیصل

یہ افسانہ راجندر سنگھ بیدی کے آخری مجموعے ’مکتی بودھُ (۱۹۸۲ء) میں شامل ہے۔ افسانے میں چند واقعات اور کرداروں کے ذریعہ بیدی نے اپنے عہد کے شہری معاشرے کی تصویر کشی کی ہے، جب ساری دنیا میں رشتوں؍ کنبے کا تصور بکھر رہا تھا۔ سائنس کی ایجادات نے جہاں انسانی زندگی کو مادیت؍ مادی ترقی سے نوازا، وہیں مادیت پرستی نے انسانی رشتوں، معاشرے کی اخلاقیات و اقداری نظام کو بہت نقصان پہنچایا ۔ دولت کی خاطر بوڑھے والدین کے ساتھ نافرمانی کرنے والی اولادوں پر برملا طنز، افسانے کا موضوع ہے۔ والدین کو تنہا چھوڑ دینے پر بوڑھاپے میں وہ کس کرب سے دوچار ہوتے ہیں، بیدی نے اس کی بہترین عکاسی کی ہے۔
افسانے کی ابتدا ایک اخباری اشتہار سے ہوتی ہے، جسے خریدوفروخت کے کالم میں شائع کیا گیا تھا۔ ہمہ داں راوی کی زبانی یہ اپنی نوعیت کا پہلا اشتہار تھا۔ اس لیے کہ خریدوفرخت کے کالم میں اشیاء کا اشتہار دیا جاتا ہے اور یہ اشتہار ایک ذی روح؍ انسان کے متعلق تھا، اشتہار کا عنوان تھا ’’بکاؤ ہے ایک باپ‘ عمر اکتہر سال، بدن اکہرا، رنگ گندمی، دمے کا مریض۔‘‘ اس اشتہارکے ہی پہلے ٹکڑے کو ذرا سے فرق کے ساتھ بیدی نے اپنے افسانے کا عنوان بھی دیا ہے، ’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ ۔ افسانے کو یہ عنوان دے کر ہی بیدی نے اس معاشرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اشتہار شائع ہوتے ہی معاشرے میں طرح طرح کی باتیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ بیدی نے بڑی فن کاری کے ساتھ اشتہار پر ہونے والی گفتگو کے ذریعہ بھی لوگوں کے ذہنی نفسیات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کوئی بات تو ہوگی؟!
ہوسکتا ہے، پیسے جائیداد والا…
بکواس۔ ایسے میں بکاؤ لکھتا؟
مشکل سے اپنے باپ سے خلاصی ہے۔ باپ کیا تھا چنگیز ہلاکو تھا سالا۔
تم نے پڑھا، مسز گوسوامی؟
دھت- ہم بچے پالیں گی، سدھا، کہ باپ؟ ایک اپنے ہی وہ کم نہیں گو- سوامی ہے!
ہی… ہی ہی۔
باپ بھی حرامی ہوتے ہیں…‘‘ (ص : ۸۵۵-۸۵۶)
افسانہ اشتہار پر آئے خطوط کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ عوام کی گفتگو کی طرح ان خطوط کے ذریعے بھی بیدی نے لوگوں کے نفسیات کی عکاسی کی ہے کہ کس قدر لوگ خود غرض اور لالچی ہوگئے ہیں۔ کسی نے یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر اکہتر سال کی عمر میں ایک باپ نے ایسا اشتہار کیوں دیا۔ کیا اس کی اولاد اس لائق نہیں کہ اسے اپنے پاس رکھ سکے یا کہیں یہ اشتہار اس کی اولادوں نے ہی نہیں دیا۔
اس کے علاوہ لوگوں میںاشتہار کے متعلق خوب دلچسپی بڑھ رہی تھی۔ عوام کا یہ رویہ دیکھ کر اشتہار چھاپنے والوں نے جنرل منیجر سے اشتہاروں کے نرخ بڑھانے کی تجویز پیش کی۔
’’مگر نوجوان بڈھے یا بڈھے نوجوان منیجر نے تجویز کو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہا۔ Shucks۔ ایک پاپولر اشتہار کی وجہ سے نرخ کیسے بڑھادیں؟… اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ‘‘ (ص : ۸۵۶)
مذکورہ اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل منیجر لوگوں کے اس رویہ پر خفگی کا اظہار کرتا ہے۔ بیدی نے یہاں بڑی فن کاری کے ساتھ ان دو لفظوں ’’بڈھے نوجوان یا نوجوان بڈھے‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ یعنی منیجر بوڑھے باپ کے درد کو محسوس کررہا تھا اور خود کو ایسا اشتہار دینے کے لیے قصور وار ٹھہرا رہا تھا۔
اس کے بعد ہمہ داں راوی کے بیان کے ذریعہ بکاؤ باپ کا کردار سامنے آتا ہے، جس کا نام گاندھروداس ہے۔ وہ کسی زمانے میں ایک مشہور موسیقار تھا۔ اس کی بیوی جو برسوں پہلے مرچکی تھی، دونوں کی کبھی نہیں نبھتی، کیوں کہ وہ گاندھروداس کی موسیقی کو ناپسند کرتی تھی۔ دونوں کے درمیان جنسی تعلقات نہ ہونے کے باوجود بھی دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
گاندھروداس کی تین اولادیں تھیں، دو بیٹھے اور ایک بیٹی۔ بڑا لڑکا ایک نامی پلے بیک سنگر تھا۔ چھوٹا بیٹا پریس میں نوکری کرتا اور اپنی اطالوی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا پھرتا۔
گاندھروداس چوں کہ ایک کلاسیکی موسیقار تھا اس لیے پلے بیک موسیقی کے آنے سے اس کا کام ٹھنڈا پڑگیا۔ تو اس نے اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا جو اس وقت تک اس کے ساتھ ہی تھا کہ ہم رکارڈوں کی ایجنسی لے لیتے ہیں تو اس نے صاف انکار کردیا۔
’’گاندھرو نے کہا- چلو، ایچ ایم وی کے رکارڈوں کی ایجنسی لیتے ہیں۔ چھوٹے نے جواب دیا۔ ہاں، مگر آپ کے ساتھ میرا کیا مستقبل ہے؟ گاندھرو داس کو دھچکا سا لگا۔ وہ بیٹے کا مستقبل کیا بتاسکتا تھا؟ کوئی کسی کا مستقبل کیا بتاسکتا ہے؟ گاندھرو کا مطلب تھا کہ میں کھاتا ہوں تو تم بھی کھاؤ۔ میں بھوکا مرتا ہوں تو تم بھی مرو۔ تم جوان ہو، تم میں حالات سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہے۔ اس کے جواب کے بعد گاندھرو داس ہمیشہ کے لیے چپ ہوگیا۔‘‘ (ص : ۸۵۷-۸۵۸)
گاندھرو داس کے بیٹے اس وقت تک ساتھ تھے جب تک اس کے پاس دولت تھی لیکن جیسے ہی اس کے پاس دولت نہیں رہی، دونوں بیٹوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔
مذکورہ اقتباس میں چھوٹے بیٹے کے منع کردینے پر گاندھرو داس کے جذبات بالکل متزلزل ہوگئے۔ افسانہ نگار نے گاندھرو داس کے غصے اور درد کی کیفیت کی بہترین عکاسی کی ہے۔لیکن بیدی اگر یہ اقتباس راوی سے بیان کرانے کے بجائے خود کردار کے داخلی نفسیات کے ذریعے دکھاتے تو بیانیہ اور زیادہ موثر ہوتا۔
راوی بیان کرتا ہے کہ تینوں بہن بھائی جب اکٹھا ہوتے تو اپنے باپ کو رنڈوا نہیں، مرد بدھوا کہتے اور اپنی اس اختراع پر قہقہہ لگاتے۔ اولاد کے ذریعے اپنے والد کے لیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال ان کی بدتمیزی اور نافرمانی پر دال ہے کہ والدین جو اولاد کی پرورش کرتے ہیں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لائق بناتے ہیں اور جب وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو صرف دولت کی خاطر اولاد ان کا مذاق اڑاتی ہے۔
اس کے بعد افسانے میں بیدی ایک سوال قائم کرتے ہیں کہ ایسا کیوں؟ کہ بچے اپنے والد کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں چاترک کے کردار کے ذریعے راوی اس سوال کی تاویلیں پیش کرتا ہے کہ ضرور گاندھروداس میں ہی کوئی خرابی ہوگی۔ لیکن راوی کا یہ بیان ملاحظہ ہو:
’’ہندسوں میں الجھے رہنے کی وجہ سے کہیں چاترک کے الہام اور الفاظ کے درمیان فساد پیدا ہوگیا تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ ہندوستان تو کیا، دنیا بھر میں کنبے کا تصور ٹوٹتا جارہا تھا۔ بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہوکر رہ گئی ہے۔ اس لیے سب بڈھے کسی ہائیڈ پارک میں بیٹھے، امتداد زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے، ہر آنے جانے والے کو شکار کرتے ہیں، کہ شاید ان سے کوئی بات کرے۔ وہ یہودی ہیں، جنھیں کوئی ہٹلر ایک ایک کرکے گیس چیمبر میں دھکیلتا جارہا ہے، مگر دھکیلنے سے پہلے زنبور کے ساتھ اس کے دانت نکال لیتا ہے، جن پر سونا مڑھا ہے اگر کوئی بچ گیا ہے تو کوئی بھانجا بھتیجا اتفاقیہ طور پر اس بڈھے کودیکھنے کے لیے اس کے مخروطی ایٹک میں پہنچ جاتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ وہ تو مرا پڑا ہے اور اس کی فلزاتی آنکھیں اب بھی دروازے پر لگی ہیں۔ نیچے کی منزل والے بہ دستور اپنا اخبار بیچنے کا کاروبار کررہے ہیں، کیوں کہ دنیا میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر آکر تصدیق کرتا ہے کہ بڈے کو مرے ہوئے پندرہ دن ہوگئے۔ صرف سردی کی وجہ سے لاش گلی سڑی نہیں۔ پھر وہ بھانجا یا بھتیجا کمیٹی کو خبر کرکے منظر سے ٹل جاتا ہے، مبادا آخری رسوم کے اخراجات اسے دینے پڑیں۔‘‘ (ص : ۸۵۸)
اس بیان کے ذریعے بیدی نے اس عہد میں پیدا ہونے والے انتشار، رشتوں کے بکھراؤ اور اخلاقی زوال کو پیش نظر رکھ کر پورے معاشرے کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ بیدی نے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلی خود غرضی، بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی اور بزرگوں کے کرب کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بزرگوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی وجہ صرف مادی خود غرضی تھی جو شاید اس صنعتی دو رکی ہی پیداوار تھی۔
ہمہ داں راوی اس کہانی کو دوبارہ اسی اشتہار کے جواب میں آئے خطوط سے جوڑ دیتا ہے اور قاری پر گاندھروداس کے متعلق ایک نئی بات کا انکشاف کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اشتہار کے سلسلے میں آنے والے کچھ لوگ اس لیے بدک گئے کہ گاندھروداس پر پچپن ہزار کا قرض بھی تھا، جو بات اس نے اشتہار میں نہیں لکھی تھی اور غالباً اس کی عیاری کا ثبوت تھی۔ اس پر طرفہ ایک نوجوان لڑکی سے آشنائی بھی تھی جو عمر میں اس کی اپنی بیٹی رُما سے چھوٹی تھی۔ وہ لڑکی، دیویانی گانہ سیکھنا چاہتی تھی جو گوروجی نے دن رات ایک کرکے اسے سکھادیا او رسنگیت کی دنیا کے شکھر پر پہنچادیا۔ لیکن ان کی عمروں کے بُعد کے باوجود ان کے تعلقات میں جو ہیجانی کیفیت تھی، اسے دوسرے تو ایک طرف، خود وہ بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔‘‘ (ص : ۸۵۹)
افسانہ نگار گاندھروداس کے کردار کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں جتاتا ہے اور نہ طرف داری کرتا ہے۔ بلکہ دیانت داری کے ساتھ جہاں وہ اس کے درد کا بیان کرتا ہے، اسی جگہ اس کی عیاریوں؍ خرابیوں کا بھی بیان کرتا ہے۔
مذکورہ اقتباس میں راوی اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ گاندھروداس ایک عیب دار شخص ہے اس لیے کہ اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے اس کی آشنائی تھی لیکن اقتباس کا آخری جملہ ’’ان کی عمر کے بعد کے باوجود… اسے دوسرے تو ایک طرف، خود وہ بھی نہ سمجھ سکے تھے۔‘‘ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ گاندھروداس کا دیویانی کے ساتھ تعلقات، صرف جنسی خواہش کی وجہ سے نہیں تھا۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے افسانے کا یہ اقتباس دیکھیں۔
’’کیا دیویانی اب بھی بابوجی کے پاس آتی ہے؟‘‘
ہاں۔
مسز دُروے کچھ نہیں کہتیں؟
پہلے کہتی تھیں۔ اب وہ ان کی پوجا کرتی ہیں۔ بابوجی در اصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں، فلپ… معلوم ہوتا ہے انھوں نے کہیں پر کرتی کے چِتوَن دیکھ لیے ہیں، جن کے جواب میں وہ مسکراتے تو ہیں، لیکن کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی ماردیتے ہیں…
دُروے کہتا گیا-بابوجی کو شبد- بیٹی، بہو، بھابی، چاچی، للّی، میّا بہت اچھے لگتے ہیں ، وہ بہو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کے گال بھی چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پالیتے ہیں اور آزادی میں قید۔
دیویانی؟
دُروے نے حقارت سے کہا…… سنگیت شاید آڑتھی دیویانی کے لیے…
بابوجی نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکی بچپن ہی میں آوارہ ہوگئی۔ اس نے اپنے ماں باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا، جب کہ وہ نوخیزی سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ پر وہ ہمیشہ کے لیے آپ ہی اپنی ماں ہوگئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبراکر ایک مرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے کے پا س جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، مگر روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔
کیا مطلب؟
دیویانی کو در اصل باپ ہی کی تلاش تھی۔‘‘ (ص : ۸۶۴-۸۶۵)
یہاں پر بیدی جنس کے مسئلے پر ایک فلسفی کی طرح نظر ڈالتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’تم سیکس کو اتنی ہی اہمیت دو فلپ، جتنی کاکہ وہ مستحق ہے۔ تیتر بٹیر بنے بغیر اسے حواس پہ مت چھانے دو… (ص : ۸۶۵)
افسانے میں دُروے کا کردار وہ شخص ہے، جو گاندھروداس کو خرید کر لایا تھا۔ دُروے اسے باپ کی طرح عزت دیتا اور اس کی خدمت کرتا ہے۔ اپنے ملازموں کے پوچھے جانے پر کہ وہ گاندھروداس کو کیوں خرید لایا تو دُروے کہتا ہے:
’’تم نے ان کی آنکھیں دیکھی ہیں۔
جی نہیں۔
جاؤ، دیکھو، ان کی روتی ہنستی آنکھوں میں کیا ہے۔ ان میں سے کیسے کیسے سندیس نکل کر کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟‘‘ (ص : ۸۶۱)
دُروے کے اس مختصر بیان کے بطن سے معنی کی وہ سطحیں نمو کرتی ہیں، جس سے گاندھروداس ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے بوڑھے والدین جن کی نافرمان اولادیں ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں، کے کرب، مایوسی اور ذات کے انتشار کا ادارک، قاری کے حواس پر ہونے لگتا ہے۔
ملازم جمنا داس اور دُروے کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر گھر میں ایک بزرگ کا ہونا ضروری ہے اور انسانی زندگی میں بزرگوں کی کیا اہمیت ہے جیسا کہ دُروے کہتا ہے کہ جہاں بھی میں جاتا ہوں لوگ میرے سامنے سر جھکاتے ہیں لیکن جمناداس کہیں میں بھی اپنا سر جھکانا چاہتا ہوں۔ افسانہ نگار کا یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ دولت ہی انسانی زندگی میں سب کچھ نہیں ہے بلکہ والدین کی محبت، شفقت اور ان کا سایہ اولاد کے لیے روحانی نعمت ہے، جن کے بغیر انسانی زندگی کھوکھلی ہے۔
’’اگر انسان کے زندہ رہنے کے لیے پھل پھول اور پیڑ پودے ضروری ہیں، جنگل کے جانور ضروری ہیں، بچے ضروری ہیں تو بوڑھے بھی ضروری ہیں۔ ورنہ ہمارا ایکولاجکل بیلنس تباہ ہوکر رہ جائے۔ اگر جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر بے وزن ہوکر انسانی نسل ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے۔‘‘ (ص : ۸۶۲)
دُروے اشوک کے پیڑ سے ایک پتہ توڑ کر جمناداس کو دے کر کہتا ہے:
’’اپنی پوری سائنس سے کہو کہ یہ تازگی، یہ شگفتگی، یہ شادابی اور یہ رنگ پیداکرکے دکھائے… …‘‘ (ص : ۸۶۲)
افسانہ نگار یہ بتانا چاہتا ہے کہ باپ ایک درخت کی مانند ہے اور اولاد اس اشوک کے پتے کی طرح جو درخت سے جدا ہونے کے بعد اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔
افسانے کے اخیر میں بیدی نے یہ وضاحت کی ہے کہ والدین سے بڑھ کر دولت دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور افسانے کے اختتامیہ کا آخری جملہ جو بڑی فن کاری کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے افسانہ ایک مخصوص زمان و مکان کے حدود سے آزاد ہوکر آفاقی حیثیت کا حامل ہوجاتا ہے اور پوری انسانیت کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ:
’’تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو، صرف محسوس کرو اسے۔‘‘ (ص : ۸۶۵)

٭٭٭
حواشی : ’’کلیات بیدی‘‘ از مرتب وارث علوی، ص-۸۵۴-۸۶۵


مضمون نگار شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں

Ben Hath ka Kahel by Prof. Haneef Kaifi

Articles

بائیں ہاتھ کا کھیل

پروفیسر حنیف کیفی

Tassawuf Ek Taaruf

Articles

Tassawuf Ek Taaruf

Shaad Aarfi Aik Munfarid Fankar

Articles

شادؔ عارفی: ایک منفرد فنکار

پروفیسر مظفر حنفی

اُردو غزل کی صدیوں پر محیط ، بے کراں روایت میں یہ سعادت گنتی کے تین چار شاعروں کو نصیب ہوئی ہے کہ ان کا ہرشعر اپنے لہجے کی بنا پر دور سے پہچانا جاتا ہے۔ شادؔ عارفی نے غلط نہیں کہا:
اور پھر کہتے ہیں کہ کس کو ندرتِ طرز ادا
میرے شعروں میں مری آواز پہچانی گئی
عام طور پر شادؔ عارفی کو ایک عظیم طنز نگار غزل گو کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے، لیکن وہ عشقیہ غزل کے بھی اتنے ہی اہم شاعر ہیں۔ انھوں نے منظر یہ، طنزیہ اور رومانی نظمیں اتنی اچھی اور ایسی کثیر تعداد میں کہی ہیں کہ تا حال تنقید یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ شادؔ کی غزل اور نظم میں سے کس کا پلّہ بھاری ہے۔ نثر میں بھی شادؔ عارفی نے تنقیدی مضامین اور مکتوبات کی شکل میں قابلِ لحاظ ادبی سرمائے کا اضافہ کیا ہے۔
شادؔ عارفی رامپور میں پیدا ہوئے وہیں عمر بسر کی اور وہیں وفات پائی۔ ان کا سالِ پیدائش ۱۹۰۰ء ہے اور سنہ وفات ۱۹۶۴ء۔ شاعری وہ نو عمری میں ہی کرنے لگے تھے۔ ان کی تخلیقی کاوشیں کم و بیش بچاسٍ برسوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس دوران ان کی شاعری میں کئی موڑ آئے۔ ایک جگہ خود کہا ہے:
وہ رنگیں نوائی ، یہ شعلہ بیانی
کئی موڑ آئے مری شاعری میں
بڑی بات یہ ہے کہ اُس دور میں بھی جسے شادؔ عارفی رنگیں نوائی سے تعبیر کرتے ہیں انھوں نے لب و رخسار والی روایتی شاعری نہیں کی بلکہ اپنے سچّے اور پُرجوش واقعاتِ عشق کو ایسے نادر لہجے میں اس ندرتِ ادا کے ساتھ پیش کیا کہ ان کی عشقیہ غزل کاذائقہ اُردو کی عام عاشقانہ اور روایتی غزل سے منفرد ہو گیا۔ بقولِ شادؔ:
دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ
جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں
انھوں نے دوبار محبت کی اور جواب میں انھیں دوسری طرف سے بھی محبت ملی۔ ان کی عشقیہ غزلوں میں اس دو طرفہ محبت کے جیتے جاگتے، سچے اور تابناک مناظر دیکھے جا سکتے ہیں:
کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ
وہ نہ دیکھے مجھے ، میں اس کا نظارہ کر لوں
………
لائے ہیں تشریف تکیوں پر دُلائی ڈال کر
حُسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے
………
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
………
اس سے جب پوچھا گیا چھُپ چھپ کے رونے کا سبب
دردِ دل کا کام اس نے دردِ سر سے لے لیا
………
دل نوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی
رُخُ محبوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے
………
لکھ کر میرا نام اے شادؔ
اس نے بھیجا ہے رومال
………
بھولی سی ہم مکتب کوئی کوئی سہیلی خالہ زاد
اُن کے ہاتھوں خط بھجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ
………
مسکرا دیں گے مرا نام کوئی لے دیکھے
وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں ، کسی کام میں ہوں
………
ابھی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں
سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے
………
اُسے نسیمِ چمن کہہ رہا ہوں میں لیکن
کہیں نسیمِ چمن مُڑ کے دیکھتی بھی ہے
………
کیا لکھ رہے ہیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر
میں نے دیا جواب ، غزل کہہ رہا ہوں میں
گیسو بدوش محوِ تماشائے آئینہ
اس کی نگاہ روزنِ دیوار نہیں
آج ہم نئی غزل کے عہدِ شباب میں غالباً اس نئے پن، نادرہ کاری اور غیرروایتی آہنگ کو اتنا محسوس نہ کر سکیں جتنا کہ آج سے نصف صدی پیشتر کے نقادوں نے شادؔ کی غزلوں میں محسوس کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یگانہؔ اور فراقؔ سے زیادہ شادؔ عارفی کو نئی غزل کے بنیاد کاروں میںشمار کیا جاتا ہے۔اس دور میں شادؔ کی عشقیہ نظمیں ’’سماج‘‘، ’’ ایک تصویر‘‘ ’’ فسانۂ نا تمام‘‘، ’’بسنت‘‘ ، پھول کی پتی سے‘‘، ’’ وفائے وعدہ‘‘، ’’دسہرہ اشنان‘‘ وغیرہ بھی بے حد مقبول ہوئی تھیں۔ شادؔ عارفی کی رنگیں نوائی کے بارے میں ڈاکٹر معصوم رضا راہیؔ نے سچ کہا ہے:
’’ شادؔ کی عشقیہ شاعری کا پلڑا زمین کی طرف جھکتا ہے۔ غالباً ایسی ہندوستانی فضا اور گھریلو محبت، حسرتؔ کی غزل اور فراقؔ کی رباعی کے علاوہ اُردو شاعری میں صرف شادؔ کی عشقیہ نظم و غزل ہی پیش کر سکی ہے ۔ ان کی محبت کے یہ گیت اتنے مقدس اور گھریلو ہیں کہ حسرت موہانی کے علاوہ کوئی اور شاعر عشق کی اس سادگی اور پاکیزگی کی منزل پر نظر نہیں آتا۔‘‘
ہمارے عظیم اور قابلِ ذکر شاعروں میں میرؔ، فانیؔ اور یگانہؔ کی تنگدستی اور پریشاں حالی کے تذکرے عام ہیں لیکن شادؔ عارفی کے حالاتِ زندگی ان سب سے زیادہ تلخ ہیں۔ کچھ ابتدائی برسوں کو چھوڑ کر انھوں نے تمام عمر انتہائی مفلسی، بے روزگاری اور پریشانی میں بسر کی۔ چالیس برس کی عمر میں شادی کی تو اہلیہ ڈیڑھ برس میں ہی انتقال کر گئیں۔ اعزّا و اقارب نے انھیں فریب دیے اور صحت بھی جواب دے گئی۔ طُرّہ یہ کہ طبعاً بیحد غیور اور خود دار تھے اس لیے کسی کی مدد قبول کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے ان سب باتوں کے زیر اثر ان کا مزاجِ شعر ، طنز کی طرف مائل ہو گیا اور انھوں نے زمانے کی نا انصافیوں اور خام کاریوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے اپنے قلم کو تلوار بنالیا:
میں دنیا پر طنز کروں گا
دنیا میرے کیوں در پے ہو
اور
اس نے جب سو تیر چلائے
میں نے ایک غزل چپکا دی
علامہ نیازؔ فتح پوری نے ان کی بابت لکھا ہے۔
’’ شادؔ عارفی زمانۂ حال کے شاعروں میں ایک خاص رنگ کے نقّاد و طنز نگار ہیں جن کی غزلیں اور نظمیں جارحانہ انتقاد سے تعلق رکھتی ہیں ، ان میں کہیں کہیں مزاحی رنگ بھی آجاتا ہے۔ اس رنگ کی شاعری میں ایک خاص لب و لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں قطعیت بہت زیادہ ہو۔ اس کوشش میں بہت سے حضرات آرٹ سے ہٹ کر خشک واعظ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن شادؔ عارفی شاعرانہ زہر خند تبسمِ زیرِ لب کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘
حق تو یہ ہے کہ اردو شاعری میں خالص طنز کی روایت جو انگریزی کے زیر اثر اور مزاح کے غلبے کی وجہ سے ادب میں دوسرے درجے کی چیز بن گئی تھی، شادؔ عارفی کی تخلیقات میںدوبارہ زندہ ہو گئی اور اس رنگ میں شادؔ عارفی نے وہ خاص طرز اختیار کی جس کے موجد بھی وہی تھے اور خاتم بھی وہی ٹھہرے ، ملاحظہ ہوں یہ اشعار:
آشیاں پھول نہیں تھے کہ خزاں لے اڑتی
آپ اس بحث میں جانے کی اجازت دیں گے
………
مگر یہاں تو جل رہا ہے آدمی سے آدمی
سُنا یہ تھا چراغ سے چراغ جلتے آئے ہیں
………
دل میں لہو کہاں تھا کہ اک تیر آلگا
فاقے سے تھا غریب کہ مہمان آگیا
………
اُسے جس حال میں سجدہ کیا ہے
اسے اللہ بہتر جانتا ہے
………
کہنے والوں نے کہا ظلِ الٰہی جن کو
ہم انھیں سایۂ دیوار نہیں کہہ سکتے
………
لاکھوں ہیں ہم سب بے چارے
اے شہزادو! تم سب کے ہو
………
جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی
چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا
………
کاروبارِ قفس اب یہاں آ گیا
وہ فلاں چل بسا، وہ فلاں آگیا
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
………
کہیں رہ نہ جائے مشینوں کی دنیا
کہیں آدمی آ نہ جائے کمی میں
………
ناجائز پیسے کی اُجلی تعمیروں کے ماتھے پر
آپ نے لکھا دیکھا ہوگا یہ سب فضلِ باری ہے
………
جہاں تک ہماری غزل جائے گی
تعزّل کے معنیٰ بدل جائے گی
بلا شبہ شاد عارفی نے تغزل کے معنی تبدیل کر دیے ، غزل میں ایسی کاٹ پیدا کر دی، اس میں وہ معنویت اور مقصدیت شامل کی جس نے اُسے زمانۂ حال کی چیز بنا دیا اور اپنے معاشرے کی تمام خامیوں پر نشتر زنی کرنا سکھا دیا۔
نقدِ ماحول کہ فن ہے میرا
ہر طرف رُوئے سخن ہے میرا
بقول حفیطؔ جالندھری:
’’شادؔ عارفی اپنے ارد گرد کے سیاسی اور ادبی دور سے مکمل با خبر ہی نہیں بلکہ مجاہدانہ اور سخت گیر انہ طریق پر اُس پُرآشوبی کے نقّاد صادق ہیں۔ شادؔ نے اپنے دَور کے حالات سے جو احساسات اخذ کیے ان کا اظہار مثبت اور واضح طور پر نُدرتِ ادا کے ساتھ کیا ہے۔‘‘
شادؔ نے طویل و مختصر سو طنزیہ نظمیں بھی کہی ہیں جن میں اپنے عہد کی برائیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سماج کی دُکھتی رگوں پر نشتر چلائے گئے ہیں۔ یہ نظمیں ایسی نئی نئی اور دلچسپ ہیئتوں میں ہیں کہ شادؔ عارفی کی فنکاری پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ ان کی نظم نگاری پر اظہار خیال کرتے ہوئے خلیل الرحمن اعظمی رقمطراز ہیں:
’’ شادؔ عارفی نے اپنے نظموں میں بیانیہ پیرایہ اختیار کرنے کے بجائے ڈرامائی، مکالماتی اور تمثیلی انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے یہ کمال کیا ہے کہ ایک ہی مصرع کے اندر دو دو اور تین تین کرداروں کے مکالمے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔ ٹی ایس ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے۔ ان تینوں آوازوں کا ایک ہی نظم میں اجتماع بہت ہی مشکل کام ہے۔ شادؔ نے اُردو نظم میں یہ کام بھی کر دکھایا ہے۔‘‘
ان کی نظموں میں ’’ شوفر‘‘ ، ’’ پرانا قلعہ‘‘ ’’ ان اونچے اونچے محلوں میں‘‘ ، ’’رنگیلے راجا کی موت‘‘، ’’ نمائش ‘‘ ، ’’ ان سے ملیے‘‘ ’’ ٹکڑ گدے ‘‘ اور ’’ ابھی جبلپور جل رہا ہے‘‘ وغیرہ اُردو نظم کے سخت سے سخت انتخاب میں جگہ پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پروفیسر احتشام حسین نے لکھا ہے:
’’ مجھے ذاتی طور پر شادؔ عارفی کی شاعری نے متاثر کیا۔ وہ جو تھے وہی ان کی شاعری ہے، زندگی نے انھیں جو دیا وہ اُن کے کلام میں کبھی غصّہ بن کر ، کبھی طنز اور زہر خند بن کر اور کبھی دکھے دل کی پُکار بن کر محفوظ ہو گیا۔‘‘
اپنی عشقیہ اور طنزیہ غزل نیز منظریہ عاشقانہ اور طنزیہ نظموں میں شادؔ عارفی نے جس مجتہدانہ شان کے ساتھ زبان کا تخلیقی استعمال کیا ہے جس طرح عام بول چال کے غریب اور ٹاٹ باہر الفاظ کو اپنے جادو نگار قلم کے لمس سے ادبی شان عطا کر دی ہے اس کی مثال اُردو شاعری میں نایاب ہے اور یہ صفت انھیں سچے معنوں میں ایک عوامی شاعر بناتی ہے۔پروفیسر آل احمد سرورؔ نے غلط نہیں کہا:
’’ جو لوگ شاعری کی زبان اور بول چال کی زبان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، انھیں شادؔ کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ شادؔ نے بول چال کی زبان کی طاقت اور شعریت کو جس طرح اجاگر کیا اور جس طرح بقول ایذرا پاؤنڈ ، حقیقی نفسیات کو زبان دی ہے اُسے جدید اُردو شاعری ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘
کچھ اپنے کھرے مزاج کی وجہ سے اور کچھ اپنی شاعری کے بالکل ہی نئے رنگ کی وجہ سے اردو تنقید نے ان کی زندگی میں اس عظیم فنکار کو وہ اہمیت نہ دی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے لیکن ان کی وفات کے تین سال کے اندر ہی ایک مجموعہ مضامین ’’ ایک تھا شاعر‘‘ منظرِ عام پر آیا جس میں ہر اہم تخلیق کار اور ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نقادوں نے شادؔ عارفی پر مضامین لکھ کر ان کی اہمیت اور عظمت کااعتراف کیا۔ اس کے چند برس بعد ہی ان کی شخصیت اور فن پر ایک تحقیقی مقالہ بھی شائع ہو گیا۔ اسی طرح ان کی حیات میں انجمن ترقی اردو کے ایک مختصر سے انتخاب کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا شعری مجموعہ تک نہیں شائع ہو سکا تھا لیکن انتقال کے بعد مرحوم کا تمام کلام ’’ شادؔ عارفی کی غزلیں‘‘، ’’ سفینہ چاہیے‘‘، ’’ اندھیر نگری‘‘، ’’ شوخیِ تحریر‘‘ ’’دکھتی رگیں‘‘، ’’ کلیاتِ شادؔ عارفی‘‘ میں محفوظ ہو گیا ہے۔ ان کے مکاتیب اور مضامین ’’ ایک تھا شاعر‘‘، ’’ نثر و غزلدستہ شاد عارفی‘‘ اور ’’ شادؔ عارفی ایک مطالعہ‘‘ میں شائع کیے گئے ہیں۔
شادؔ عارفی کی نثر بھی ان کی شاعری کی مانند انفرادی رنگ و آہنگ اور مخصوص لہجہ رکھتی ہے۔مختلف لوگوں کے نام ان کے خطوط اور ادبی موضوعات پر ان کے مضامین سے کچھ مختصر مختصر اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جو بر جستگی اور کاٹ میں شعروں کی طرح پُر تاثیرا اور پُر کیف ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ کوئی بھی ادب کھجور یا ناریل کا درخت نہیں ہوتا کہ اس سے شاخیں نہ پھوٹیں۔‘‘
’’ جوش ملیح آبادی کی آج کل کی شاعری پر اتنا تبصرہ کافی ہوگا کہ وہ اپنے قطعات میں لغت کمپوز کررہے ہیں۔‘‘
’’ میرے نزدیک اچھے شعر کی تعریف اس میں نہیں کہ وہ صحیح ہو۔ اپنے معنی پر دلالت کرتا ہو بلکہ میں کسی بھی شعر میں سب سے پہلے تخیل کی انفرادیت اور پھر ندرتِ ادا پر نظر ڈالتا ہوں۔‘‘
’’ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، کے معنی یہ سمجھائے جاتے ہیں کہ اپنے بزرگوں کو ان کی غلطی پر ٹوکنا غلطی ہے حالانکہ وہاں گرفتن کے معنی ہیں تقلید۔ مطلب یہ کہ بزرگوں کی غلطیوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘
’’ بلا مبالغہ ہر روز پچاس ساٹھ نادر تخیلات ذہن میں آتے ہیں لیکن مشکل سے پانچ چھ فنی گرفت میں آتے ہیں، باقی کو ترک کر دینا پڑتا ہے اور صرف اس لیے کہ ان کو ادا کرنے کے لیے موزوں الفاظ دستیاب نہیں ہوتے۔‘‘
’’ جلی ہوئی رسّی کے بل اور گھڑے کی چکناہٹ میں دنیا کو کیا پسند ہے ۔ آپ جانتے ہیں اور مجھے کیا پسند ہے ، دنیا جانتی ہے۔‘‘
’’سب سے اچھی کتاب وہ ہے جس میں بیان کی ہوئی باتیں کسی دوسری کتاب میں نہ پائی جائیں۔‘‘
’’ ڈومنی ڈومنی کے ہاں بغیر معاوضہ لیے ناچتی ہے۔ اس لیے میں شاعر ہو کر ایسے شاعر سے جو مدیر بھی ہو، ہزار مجبوریوں کے بعدبھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہاں اس حکومت سے التماس کر سکتا ہوں جس کے ہاتھ جھوٹا موتی سچے موتی پر مسکراتا ہے۔‘‘
’’ لوگ ادب نوازی کا ڈھونگ رچاتے ہیں مگر شاعر سے اپنے پیسے پیسے کے عوض قصیدہ چاہتے ہیں۔‘‘
’’ کس قدر مہمل بات ہے کہ عیسائی، یہودی ، سکھ، ہندو ہونے کی وجہ سے آپ اس کے یا وہ آپ کا دوست نہ بن سکے صرف اس لیے کہ آپ نماز پڑھتے ہیں وہ گنگا کو جاتا ہے یا واہ گرو خالصہ کا نعرہ لگاتا ہے۔‘‘
’’صرف لفظوں کو جمع کر دینے سے تکملۂ شعر تو ممکن ہے مگرتاثیر دینا ممکن نہیں۔ ‘‘
’’غزلوں میں اشعار کی ترتیب موڈ کے تحت ہونی چاہیے۔ مطلع سیاسی ہے تو پوری غزل سیاسی ہو، عاشقانہ ہے تو سب شعر عاشقانہ ہوں۔ ایک قافیہ دوسرے کو کاٹتا ہوا نہ ہو، نفی اور اثبات کا اجتماع ٹھیک نہیں۔‘‘
’’ میرا ایک مخصوص زاویۂ فکر ہے جو طنز و سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ندرتِ ادا میرے نزدیک شعر کی جان ہے۔‘‘
’’ ہمارے شعرا ایران و مصر پر اس طرح نظمیں لکھ رہے ہیں جیسے گھر پر سب خیریت ہے۔‘‘
بحیثیت مجموعی شادؔ عارفی کی اہمیت اور عظمت سے کسی بھی دبستانِ ادب کو انکار نہیں ہو سکتا۔ شمس الرحمن فاروقی کا یہ قول صد فیصد صداقت کا حامل ہے:
’’ شادؔ کی طنزیہ غزل ہی نے جدید غزل کی راہ ہموار کی۔۔ شادؔ عارفی بہر حال ایک عہد ساز شاعر تھے، ان کے بعد آنے والے ہر شاعر، بالخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔
٭٭٭

Intezar Husain ki Safarnama Nigari by Dr. Abrar Ahmad

Articles

انتظار حسین کی سفرنامہ نگاری

ڈاکٹرابراراحمد

انتظارحسین اردوکے ایک ایسے ادیب ہیں جنھوں نے ادب کے جس میدان میں بھی قدم رکھااسے اپنی فنی اورتخلیقی مہارت سے ایک نئی سمت ورفتارعطاکی ہے۔وہ کثیرالجہت ادبی شخصیت کے حامل ہیں۔انھوں نے جہاں افسانہ ،ناول،ڈراما،خاکہ ،سوانح ،تراجم ، تنقید،خودنوشت اورکالم نگاری کے میدان میں اپنے فکری وفنی کمالات دکھائے ہیں وہیں سفرنامہ میں بھی ان کی خلّاقانہ مہارت ’’زمین اورفلک اور‘‘اور’’نئے شہرپرانی بستیاں ‘‘کے سفرناموں میں اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ رنگ جماتی نظرآتی ہے۔ان کے یہ سفرنامے مختلف ممالک کے نہ صرف تاریخی وسیاحتی مقامات کی سیرکراتے ہیں بلکہ ان کی تہذیبی ،معاشرتی اورادبی زندگی پرسیرحاصل بحث بھی پیش کرتے ہیں۔اس طرح سے انتظارحسین نے اردوسفرناموں کی قدیم بنیادی روایتوں کی حدبندیوں کوتوڑکراور فنی وموضوعاتی دونوں سطح پر نت نئے تجربات کرکے اپنی ایک منفردشناخت اورپہچان قائم کی ہے۔
’’زمین اور فلک اور ‘‘ انتظار حسین کے ان تین ہندستانی اسفار کا مجموعہ ہے جوانھوں نے مختلف سمیناروں اور متعددتقریبات میں شرکت کے لیے کیے تھے ۔اس مجموعہ میں شامل پہلاسفر انھوں نے حضرت نظام الدین اولیاکے عرس کی تقریب میں شرکت کے لیے کیاتھاجسے انھوں نے ’’مور کی تلاش ‘‘کے عنوان سے قلم بند کیاہے ۔اس سفر میں تقسیم ہند سے ذراقبل ،دہلی کی جوادبی وتہذیبی صورت ِحال تھی اس کو پیش نظر رکھاہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ تقسیم ہند سے قبل کی دہلی کو تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اورجب انھیں ان کے ذہن میں موجود تصویر کے مطابق دہلی نہیں ملتی تو وہ قدم قدم پر حیرت واستعجاب کااظہار کرتے ہیں ۔موجودہ دہلی میں انتظار حسین کوکوئی کشش اس لیے نظرنہیں آتی ہے کیو نکہ اس نے اونچی عمارتوں اورپررونق بازاروں کے چکرمیں اپنے ویرانوں ،درختوں اورپرندوں کو گم کر دیاہے۔ لہذاانھیں موجودہ ہندستان ماضی کے ہندستان سے کمتر معلوم ہوتاہے۔انتظار حسین نے جہاں قدیم تہذیب وثقافت کی گم شدگی پراپنی حیرانی ظاہر کی ہے وہیںبعض تبدیلیوں کی انھوں نے تعریف بھی کی ہے ۔
’’یہ اکیلی بستی نظام الدین ہی کی داستان نہیں ۔پوری دلی کااحوال یہی ہے ۔شادآباد ہونے کے شوق میں اس نے اپنے ویرانوں کوگم کردیاہے اوراپنے موروں کورخصت کردیاہے ۔ نئی دلی واہ واہ سبحان اللہ،وسیع شاہراہ ہیں پررونق بازار۔میں کناٹ پیلس کودیکھااورالف لیلہ کاابوالحسن بن گیا۔تقسیم سے پہلے والاکناٹ پیلس اب پھل پھول کر کتناشادآبادہوگیاہے۔‘‘۱؎
اس سفرنامہ کاایک اہم موضوع ادب اور ادیب ہے جہاں بھی انتظار حسین کوموقع ملاہے انھوں نے اس پر بھر پور طبع آزمائی کی ہے۔انھوں نے اردواورہندی کے ممتاز ادبا وشعرا سے ملاقاتیں کیں اورموجودہ علمی وادبی صورت حال پربات چیت بھی کی ہے۔خاص طور پر جدید ہندی شاعری کے حوالے سے جوباتیں کی ہیں وہ قابل توجہ ہیں ۔ہندی کے جدید شعرااور ان کی شاعری پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کاعالم یہ کہ وہ اردومیں نظمیں لکھتے ہیں اور اسے کویتاکانام دیتے ہیں ان کی کویتامیں رسم الخط کے علاوہ کوئی بھی چیز ہندی کی نہیں ہے کہیں یہ اردورسم الخط کوبدلنے کی سازش تونہیں ہے ۔انتظارحسین جدید ہندی شاعری پر اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں سنتارہاتھااورکڑھ رہاتھاکہ کوی لوگ اردوکی نظمیں لکھ کر لائے ہیں اوراسے ہندی بتارہے ہیں۔ یہی احساس مجھے اس وقت ہوا۔جب وشنوپربھاکر جی نے سرت بابوکی سوانح جوانھوں نے ’’آوارہ مسیحا‘‘کے نام سے لکھی ہے مجھے عطاکی ۔میں اسے جہاں تہاں سے پڑھ رہاتھااورسوچ رہاتھاکہ اس کتاب میں رسم الخط کے سواکون سی بات ہندی والی ہے۔توکیااردواپنے رسم الخط میں ہے۔‘‘۲؎
انتظارحسین نے اس سفرنامہ میں ترقی پسندادیبوں اورانقلابیوں کے دورخے پن پر خوب طنز کیاہے۔اور ساتھ ہی ان کی قلعی بھی کھولی ہے کہ وہ کس طرح انقلاب کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں۔انقلاب کانعرہ بلند کرتے کرتے کس طرح وہ عیش وآرام کی زندگی بسرکرنے کابندوبست کرتے ہیں ۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو صرف نعروں سے ہی سب کچھ حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں جہاں جان کاخطرہ ہوتاہے وہاں سے وہ بھاگ لیتے ہیں۔اس طرح سے انتظار حسین نے ادیبوں کے مزاج سے قوم کے مزاج کومتعین کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’میں نے سرسے پیرتک رہبر صاحب کودیکھا۔’’رہبر صاحب آپ ابھی تک جیل جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں توانقلابی یہ عمر آنے سے پہلے ہی کوٹھی اورکار کے بندوبست میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔‘‘ ۳؎
انتظار حسین زندگی کی تلخ وترش صداقتوں میں طنزو مزاح کاعنصر شامل کرکے ایسے پر لطف انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی شگفتہ معلوم ہونے لگتی ہیں۔لیکن اس سے طنزکی نشتریت میں اضافہ ہوجاتاہے۔وہ انور عظیم کومرکز بناکر ترقی پسندوں پرطنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں نے عرض کیا کہ انورعظیم صاحب کوئل ایک ہی ہوا کرتی ہے کہ اس کی اکیلی آوازہی سے فضابھرجاتی ہے۔بہت سے توکوّے ہواکرتے ہیں یاترقی پسند ادیب ہوتے ہیں ۔ویسے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ میں اگر ہجرت نہ کرتاتوہندوستان کومیری ذات سے کیافیض پہنچتا۔یہی ہوناتھاکہ میں علی سردارجعفری سے ادب کی ہدایت پاکر دوسراانورعظیم بن جاتااورہندوستان کوایک کے بجائے دوانورعظیم برداشت کرناپڑتے ۔‘‘۴؎
’’پھر ایک دن یوں ہوا کہ پاکستانی زائرین کاپوراقافلہ درگاہوں،اورمقبروں کے سفر پرنکلاـــ۔حضرت بختیارکاکی کی درگاہ،حضرت چراغ دہلوی کی درگاہ،خواجہ باقی باللہ کی درگاہ،صفدرجنگ کامقبرہ،قطب صاحب کی لاٹھ ۔اورپھر ہماری بس اچانک برلامندر کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔میں نے منوبھائی کوٹہوکا،دیکھ رہے ہو ،پاکستانی زائرین مورتیوں کے درشن کریں گے۔‘‘۵؎
انتظارحسین نے ریوتی سرن شرماکے حوالے سے تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی ہندوتہذیب ومعاشرت ، بودوباش ،رہن سہن ،رسم ورواج غرضیکہ پوراگھریلوماحول و معاشرہ اوراس معاشرے کے بطن سے جنم لیتی ہوئی انسانی نفسیات اورطرزفکر کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیاہے ۔انھوں نے تین عہد کو چند سطورمیں اس خوش اسلوبی سے بیان کیاہے کہ وہ عہد ہماری نظروں کے سامنے جی اٹھتاہے۔
’’خیر اب میں سرلاکی بدولت پتل یگ سے نکل آیاتھااورتھال کٹوری یگ میں سانس لے رہاتھااوراب میں تھال کٹوری یگ سے بھی نکل آیاہوں اورڈنر ٹیبل کے زمانے میں ہوں ۔ریوتی کے گھر میں زمانہ بالکل بدل چکاہے۔ڈرائینگ روم کے برابر ایک ڈائننگ روم ہے۔ہم ڈائننگ ٹیبل پربیٹھ کرپوری پراٹھے کھارہے ہیں ۔میز پر کوئی تھال کوئی کٹوری نہیں ہے۔ہمارے سامنے چینی کے پلیٹ ہیں۔‘‘۶؎
انتظارحسین نے اس سفرنامہ میں دہلی اورنواح دہلی ،آگرہ اورفتح پورسکری کے تاریخی وادبی مقامات کی سیاحت سے ہندستان کی تہذیبی ،ثقافتی اورادبی تاریخ کواجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور ساتھ ہی وہ اپنی یادوں کے سہارے ہندستان کے ان نقوش اورتصاویر کوبھی پیش کرتے ہیں جنھیں ماضی کی گرد نے دھندلاکردیاہے۔ماضی کوبیان کرتے ہوئے وہ حال پر حیرت وافسوس کااظہارکرتے ہیں جس سے سفرنامہ میں ایک اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
اس مجموعہ میں شامل دوسرااورتیسراسفر انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سمیناروں میں شرکت کی غرض سے کیاتھا۔دوسراسفر انھوں نے ۱۹۸۰ء میںــ’’ مختصر افسانہ سمینار ‘‘ کی تقریب میں شرکت کی غرض سے کیا جسے انھوں نے ’’بندر کی دم ‘‘ کے عنوان سے لکھا اورتیسراسفر ۱۹۸۳ء میں ’’میرسمینار‘‘ کی تقریب میں شرکت کے لیے کیاتھا اسے انھوں نے ’’زمین اور فلک اور ‘‘کے زیر عنوان بیان کیاہے ۔ان دونوں سفرناموں میں انتظارحسین پر حیرت واستعجاب کے بجائے رنج وملال کی کیفیت طاری نظرآتی ہے ۔وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کرماتم کناں ہوجاتے ہیں کہ وہ کیسے کیسے لوگ تھے اورکیاکیامناظر تھے جونظروں سے اوجھل ہوگئے۔ ان کاکہناہے کہ قدیم تہذیبوں اوراس سے وابستہ لوگوں کے گم ہونے سے صرف لوگوں کے چہرے ہی نہیں بدلے ہیں بلکہ ان لوگوں کے جانے سے زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں، یہاں تک کہ کھانے پینے کی اشیابھی اس سے متاثر ہوئے بنانہ رہ سکیں ۔ یہی وجہ کہ لکھنؤکی ربڑیوں اورکھانوں میں اب وہ لطف نہیں رہاجوپہلے ہواکرتاتھا۔لکھنؤکی ربڑی اب گلے میں اٹکنے لگی ہے ۔یہی حال ناگپور کے سنترے اوربنارس کے رس گلوں کاہے کہ اب ان میں رس باقی نہیں ہے وہ بے رس ہوچکے ہیں :
’’پہلی سی بات اب کہاں رہ گئی ہے ۔سندیلہ میں لڈوئوں میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی ۔چوک لکھنؤمیں ربڑی میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی ۔ناگپور میں سنتروں میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی ۔ ذائقے زوال میں ہیں ۔زمانے سے برکت اٹھ گئی ۔سب صنعتی عہد کی برکتیں ہیں صاحب!‘‘۷؎
اسی طرح لکھنؤ کے انواع واقسام کے کھانے کاذکرکرتے ہیں اورداددیتے ہیں لیکن جب ان کی نظر موجودہ لکھنؤچوک پر پڑتی ہے تووہ غمگین ہوجاتے ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ نادان اب اس لکھنؤ کااوراس کے اس رنگ ڈھنگ کوڈھونڈنا نادانی ہے باعث پریشانی ہے ۔وہ رنگ ،وہ ذائقے ،وہ خوشبوئیں اور وہ پری چہرہ لوگ جن سے لکھنؤکبھی عبارت تھااب خواب وافسانہ ہے ۔سو اپنے ہوش کی دواکر اور اسی کو حقیقت جان کہ اب اصل لکھنؤیہی ہے۔
’’لیجئے اب اور ہی طرح کی خوشبوئوں کی لپٹیں آنے لگی ہیں کہ زبان اور تالوکے بیچ کیسے کیسے ذائقے بھربھرانے لگتے ہیں۔ہوائی چپاتیاں ،ورقی پراٹھے اٹھارہ ورق ’’لیجئے اب اور ہی طرح کی خوشبوئوں کی لپٹیں آنے لگی ہیں کہ زبان اور تالوکے بیچ کیسے کیسے ذائقے بھربھرانے لگتے ہیں۔ہوائی چپاتیاں ،ورقی پراٹھے اٹھارہ ورق والے ،پستہ بادام کی تہ دی ہوئی پوریاں، انناس والامزعفر ،نارنجی زردہ ،شش رنگا،یاقوتی مٹی کی ورقی ہنڈیوں میں لگی ہوئی ۔مگر میری آنکھیں میرے ساتھ دغاکرتی ہیں ۔انھیں نقشہ اورنظرآتاہے ۔اے نادان ،اپنی آنکھوں پراعتبار کر۔ توکونسے چوک کاتصور لے کر یہاں آیاہے۔وہ چوک جنھوں نے دیکھاان کے لیے اب وہ خواب ہے۔ جنھوں نے سناان کے لیے افسانہ ہے ۔نہ وہ رنگ نہ وہ ذائقے نہ وہ خوشبوئیں نہ وہ پری چہرہ لوگ نہ وہ نگر سرمہ سا۔بلاخانے ویران ہیں۔ع،:خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں‘‘۸؎
انتظارحسین ان اسفار کے دوران ہندستان کے مختلف تہذیبی شہروں جیسے دہلی، لکھنئو،علی گڈھ ،الٰہ آباد،بنارس ،پٹنہ ،بمبئی ،اورنگ آباد،حیدرآباداور جے پوروغیرہ کاسفرکرتے ہیں ۔اور ان تمام شہروں کے تہذیبی زوال پر افسوس کااظہار کرتے ہیں کہ یہ شہر کیاتھے اور اب یہ کیاہوگئے ہیں ۔انھوں نے ان قدیم شہروں کی پراگندگی اورانتشار کوموازانہ ومقابلہ کی تکنیک سے اس طرح پیش کیاہے کہ ان کی پراگندگی مزید بڑھ جاتی ہے ۔انتظارحسین لکھنئو کے تہذیبی تغیر وتبدل کوکچھ انداز سے بیان کرتے ہیںـ:
’’مگر وقت تیزی سے گزررہاہے ،بد ل رہاہے ۔چودھرائن کی عمر ڈھلتی جارہی ہے اور لکھنئوکے رئوساشرفاکااقبال گہنارہاہے۔تعلقہ داروں کے ٹھاٹ باٹ ختم ہورہے ہیں ۔چودھرائن کی محفل میں درہمی پیداہوتی چلی جارہی ہے ۔مگر وہی ٹھساوہی اللّے تللّے حویلی رہن رکھی جاتی ہے ۔اب اس حویلی سے ایک خوشبورخصت ہورہی ہے دوسری خوشبوآرہی ہے ۔ڈیرہ دارنیاں گئیں۔چودھرائن ، بڑی چودھرائن ،چوٹی چودھرائن ،گھرانے کی آخری کلی رشک منیر ،سب چہک مہک کر رخصت ہوئیں۔ اب اصغر علی محمد علی اپنی خوشبوئیں لے کر یہاں براجمان ہوتے ہیں ۔مگرجب وہ خوشبونہ رہی تویہ خوشبوکیسے رہ جائے گی ۔عطریات کازمانہ بھی تووہی تھا۔اصغر علی محمد علی کے عطر تھوڑے عرصے خوب چلے۔مگر اب یہ عمارت مقفل پڑی ہے ۔پہلے وہ جومہکتے تھے اوردوائے دل بیچتے تھے رخصت ہوئے۔اب وہ بھی جن کے عطر کی مہک دوردورتک گئی تھی یہاں نظرنہیں آتے ۔‘‘۹؎
انتظار حسین نوابوں اور مغلوں کی تہذیب وثقافت کوبہت عقیدت مندی کی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے وہ اس تہذیب کے زوال کوکرب وحسرت کے ساتھ پیش کرتے ہیں اوراس کے زوال پر افسوس بھی کرتے ہیں ۔لیکن اس تہذیب نے اوراس کی چمک دمک نے کتنے عام لوگوں کی زندگیوں کوبے نور اوربے رونق کیاتھااس کی طرف ان کی نظر کبھی نہیں جاتی ہے ۔وہ اس تہذیب کی قصیدہ خوانی کرتے کرتے کبھی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ انسانوں کومختلف طبقوں میں بانٹ دیتے ہیں انھیں یہ بات پسند نہیں کہ عام آدمی ہاتھی کی سواری کرے ،یہ ان کو ہاتھی کازوال نظرآتاہے ۔ہاتھی کاعروج ان کوبادشاہوں کے یہاں نظر آتاہے حالانکہ ہاتھی کازوال تواسی وقت شروع ہوگیاتھاجب انسان نے اسے جنگل سے لاکے اپنے کھونٹوں سے باندھ دیاتھا۔
’’میں نے ہاتھی کے حال پر ایک افسوس اس وقت کیاتھاجب دلی میں جامع مسجد اورلال قلعہ کے بیچ ایک ہاتھی کولکھنئوکے کرتوں کااشتہاری بنے دیکھاتھا۔ایک افسوس اس وقت کیاجب جے پورکے قلعہ میں ہاتھیوں کوایراغیراسواریوں کوڈھوتے دیکھا۔ہندستان ترقی کررہاہے مگرہندستان کے ہاتھی پرزوال آچکاہے۔‘‘۱۰؎
انتظارحسین حیدرآباد کودیکھتے ہیں اورعش عش کراٹھتے ہیں کہ یہ شہر اب بھی اپنی آن شان اور بان کوبڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے ۔چارمینار ،مکہ مسجد،گولکنڈہ ،قطب شاہوں کے مقبرے یہ سب اس تہذیب و ثقافت کی نشانیاں ہیں جوبزبان حال ان بادشاہوں کی عظمت وسطوت کوبیان کررہی ہیں کہ وہ کتنے عظیم اوربلندمرتبت لوگ تھے ۔انتظار حسین سالار جنگ میوزیم کودیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ یہ نوادرات تنہا ایک شخص کی کاوشوں کانتیجہ ہیں۔کاش کوئی پاکستان میں بھی اس جذبہ سے سرشارہوتاتووہاں بھی ایک شاندارمیوزیم وجودمیں آسکتاتھا۔
’’سالارجنگ میوزیم بھی دیکھا۔واہ واہ سبحان اللہ یہاں امرائووروسااس طرح کے ہواکرتے تھے ۔ یہ ایک شخص کے جمع کیے ہوئے نوادرات ہیں ۔کچھ باپ داداکے ،زیادہ اپنے کہ انہیں آراستہ کیاگیاتوہندوستان کاایک نمائندہ میوزیم وجودمیں آیا۔کاش پاکستان کے امرائووروساپربھی سالارجنگ یاکسی ایسے ہی نواب کاپرچھاواں پڑجاتا۔‘‘۱۱؎
اسی طرح بمبئی شہر کی گنجان آبادی ،تنگ وطویل گلیاں ،فلک بوس عمارتیں اوران عمارتوں میں کلبلاتی زندگیوں کی انتظارحسین نے کچھ اس اندازسے تصویرکشی کی ہے کہ بمبئی شہر اپنی تمام ترخوبیوں اورخامیوں کے ساتھ ہماری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتاہے۔بڑھتی ہوئی بمبئی کی آبادی اورتنگ ہوتی زمین نے آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی انسانوں کوکیسے ایک بار پھر سے غاروں میں رہنے پر مجبورکردیاہے۔بمبئی کی تنگ گلیاں اوراس میں بنے فلیٹ کسی غار سے کم نہیں ہیں ۔انتظار حسین بمبئی شہر کی زندگی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’بمبئی کونیاشہر کس نے کہا۔مجھے تووہ انسانی تہذیب سے پہلے کاشہرنظرآیا۔آدمی نے غاروں سے’’بمبئی کونیاشہر کس نے کہا۔مجھے تووہ انسانی تہذیب سے پہلے کاشہرنظرآیا۔آدمی نے غاروں سے نکل کر بستیاں بسائیں۔شہرآبادکئے ۔حویلیاں تعمیر کیں۔بمبئی پہنچ کر وہ واپس غاروں میں چلاگیا۔بمبئی غاروں کاشہر ہے ۔غارنئی طرز کے ہیں ۔انہیں فلیٹ کہاجاتاہے۔ساراشہر فلک بوس غاروں سے پٹاپڑاہے اورآدم لوگ سے لبالب بھراہے۔غارہی غار۔لوگ ہی لوگ ۔غاروں سے نکلتے ہوئے ،غاروں میں داخل ہوتے ہوئے ۔مجھے اس شہر سے بہت خوف آیا۔قدم قدم پہ کھٹکالگارہتاکہ کہیں ساتھیوں سے بچھڑنہ جائوں ۔بچھڑااورکھویا۔‘‘۱۲؎
انتظارحسین نے مذکورہ بالاشہروں کے ممتازاردواورہندی کے ادیبوں وشاعروں سے ملاقاتیں کی اور ان سے ادبی وعلمی مسائل وموضوعات پر گفت وشنید بھی کی ،ساتھ ہی اردواورہندی کی موجودہ صورتِ حال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔اس ضمن میں ہندی کہانی کاروں اور ان کی کہانیوں پر جوبات چیت ہوئی وہ خاص طورپر قابل ذکر ہے۔انتظار حسین پریم چند کے چھوٹے صاحبزادے امرت رائے کی ہندی کہانی پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’امرت رائے اپناافسانہ لے کر آئے ہوئے تھے ۔امرت رائے ہندی کے لیکھک ہیں ۔میں مستعد ہوبیٹھاکہ چلوایک محفل ایسی بھی ہوئی جس میں میں ہندی کاافسانہ سنوں گامگر عجب ہندی تھی ۔میں منتظر ہی رہاکہ کوئی فقرہ کوئی مکالمہ ایساآئے کہ میں اسے ہندی جانوں ۔آخر میں میں نے طے کیاکہ یہ اردوافسانہ تھاجوہندی میں لکھاگیا۔‘‘۱۳؎
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’زمین اورفلک اور ‘‘اردوکاایک اہم اور قابل قدر سفرنامہ ہے ۔اس سفرنامے میں ہندستان کی ادبی، تہذیبی اورثقافتی زندگی کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس سفرنامے میں انتظار حسین ایک گم شدہ زمین اورآسمان سے دوبارہ ملاقات کے آرزومند ہیں۔ اسی لیے موجودہ ہندستان میں انھیں کوئی کشش اوردلچسپی کی بات نظرنہیں آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر ماضی کے ان نقوش کوتلاش کرتے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں ۔اس سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں انتظار حسین نے تاریخی مقامات ،مقابر،عمارتوںاورغاروں کے تذکرے میں اپنے تاثرات کے ساتھ ساتھ تخیلات سے بھی جابجاکام لیاہے ،جن میں کثرت سے دیومالائی حوالے ملتے ہیں ،جس سے آگہی کے نئے منظر نامے روشن ہوتے ہیں ۔اس سفر نامے کی سب سے خاص بات اس کااسلوب اورانداز بیان ہے جو اپنے اندر ایک نوع کی جاذبیت لیے ہوئے ہے۔انتظار حسین اپنے داستانوی اوردیومالائی اسلوب سے اس سفرنامے میں ایک ایسی فضاتعمیرکرتے ہیں کہ قاری اس فضاکے سحر میں کھوجاتاہے ۔یہ انتظارحسین کے فن کی ایک ایسی خوبی ہے جوانھیں دوسرے سفرنامہ نگارو ں سے منفرد وممتازبناتی ہے ۔
’’نئے شہر پرانی بستیاں ‘‘انتظار حسین کے ان اسفارکامجموعہ ہے جوانھوں نے مختلف اوقات میں متعدد پروگراموں میں شرکت کے لیے ہندستان ،برطانیہ ،ایران اورنیپال جیسے ممالک کاسفرکیاتھا۔ اس سفرنامے میں انھوں نے مذکورہ بالاممالک کے متعددتہذیبی وثقافتی شہروں کی روداد سفر کوپیش کیاہے۔اس سفرنامے کو پہلی بار۱۹۹۹ء میں سنگ میل پبلی کیشنزلاہورنے زیورِطباعت سے آراستہ کرکے قارئین کے لیے کتابی شکل میں شائع کیاتھا۔یہ ۱۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۔اس سفر نامے میں سات عناوین قائم کیے گئے ہیں جن کے تحت ان اسفارکی روداد کوبیان کیاگیاہے جوبالترتیب اس طرح سے ہیں۔’’نئے شہر میں پرانا آدمی ‘‘ ، ’’نیاتیرتھ‘‘،’’جمناسے کاویری تک‘‘،’’ایک پھیرا ایران کا‘‘،’’مندروں کے نگر میں ‘‘،’’اردودیارہند میں ‘‘ ، ’’پورب گئے پچھم گئے‘‘۔
’’نئے شہر میں پراناآدمی‘‘یہ سفرنامہ نہیں بلکہ یہ ایک مضمون ہے جسے انتظارحسین نے اردومرکز لندن کی تقریب میں اظہارتشکرکے طورپرپڑھاتھا۔اس مضمون میں انھوں نے سفر کی اہمیت وافادیت کوبیان کرتے ہوئے یورپ کے آج کے سفر اورپہلے کے اسفارکے درمیان کیافرق ہے اس پرروشنی ڈالی ہے ۔پہلے لوگ انگریزی زبان کوتمام علوم کی کنجی سمجھتے تھے اورمغربی تہذیب کوترقی کی سیڑھی گردانتے تھے۔ لہذااس نقطۂ نظر کے ساتھ وہ اس شہر کاسفرکرتے تھے اور ان کے سفر کامقصد انگریزی زبان سیکھنا ہوتاتھااس لیے وہ اس شہر کی تہذیب وثقافت سے مرعوب ہوجاتے تھے۔اور ان پر اس شہر کی تہذیب ومعاشرت کاایسااثر ہوتاکہ وہ اپنی ساری روایات بھول جاتے تھے۔اردوادب اوراردوکے ادیبوں پر ایک زمانے تک مغرب کی ادبی روایت اوران کے ادیبوں کااتنااثررہاکہ وہ اپنی ادبی روایات کوہی بھول گئے تھے اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کوئی اگر مغربی ادباوشعراکے ساتھ اردوکے کسی شاعریاادیب کانام لے لیتا تو پوچھنا پڑتا تھا کہ یہ بزرگ کیابیچتے تھے ۔ لیکن اب اس شہر کی حالت ذرامختلف ہے اب یہاں اردوزبان کابھی بول بالاہے ۔اورلوگ اس شہر کاسفر اردو سمیناروں اورمشاعروں میں شرکت کی غرض سے کررہے ہیں اس لیے اس شہر کااب وہ رعب داب نہیں جوپہلے ہواکرتاتھا۔اورنہ ہی جوائس ،لارنس اور ایلیٹ جیسے ادیب ہیں کہ جن سے لوگ رعب کھاتے تھے ۔سویہ شہر اب انتظارحسین کی قدامت پرستی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتاہے۔
’’نیاتیرتھ‘‘اس مجموعہ کاپہلا سفرنامہ ہے جس میں انتظارحسین نے لندن کی تہذیبی ،ثقافتی ،معاشرتی اورعلمی زندگی کابہت باریک بینی سے مشاہدہ کیاہے۔ انھوں نے لندن شہر کے حوالے سے یورپ کی مصنوعی اوربناوٹی زندگی کوپیش کیاہے کہ یہاں کے گلی کوچے،ہوٹل ، بازار،بس،گاڑیاں ،پارک،حیوانات ونباتات غرض یہ کہ ہر چیز صاف ، شفاف،دھلی منجھی اورچمچماتی نظرآتی ہے لیکن یہ چمک دمک صرف نظروں کادھوکاہے حقیقی زندگی بے نوراوربے رونق ہے۔ان کے تصنع کی انتہایہ ہے کہ یہاں فطرت بھی ایک ڈسپلن میں رہتی ہے ۔پرندے ایک مخصوص وقت ہی میں چہچہاتے ہیں ۔درخت اورجھاڑیاں ایک حد تک ہی بڑھ سکتی ہیں اگر حدسے تجاوزکیاتوکتردی جاتی ہیں ۔ پھولوں کاعالم یہ ہے کہ رنگ برنگ کے پھولوں سے علاقہ بھراپڑاہے ایسالگتاہے کہ پوراعلاقہ ایک پھلواڑی ہو، مگران پھولوں سے خوشبوغائب ہے ۔ مغرب کی زندگی بھی بالکل اسی طرح کی ہے کہ دورسے دیکھنے میں بہت خوش رنگ اورپرکشش معلوم ہوتی ہے لیکن قریب جائو توپتہ چلتاہے کہ زندگی رمق وحرارت سے خالی ہے ۔اس شہر میں انسان چلتا پھرتاربوٹ معلوم ہوتاہے جوجذبات واحساسات سے خالی ہے ۔صرف انسان ہی نہیں بلکہ پوراعلاقہ ہی مصنوعی وبناوٹی نظرآتاہے ۔اس سفرنامہ کاسب سے نمایاں پہلویہ ہے کہ انتظار حسین لندن شہر کی ہرچیز کوآنکھ بند کرکے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اس پرتنقیدی نگاہ بھی ڈالتے ہیں ۔
’’سبحان اللہ کیاسبزہ وگل کانقشہ جماتھا۔ڈہڈہاتے پھول ۔یہ بڑے بڑے اوراتنے خوش رنگ۔ مگرخوشبوندارد۔وہ پوراعلاقہ بس سمجھو کہ باغ تھا۔مگروہ جواپنے یہاں باغ کانقشہ ہوتاہے کہ جس روش سے گذرتے ہیں خوشبوکی ایک لپٹ آئے گی اورآپ کے دل دماغ میں بس جائے گی۔ ورڈسورتھ کی فطرت میں رنگ ہی رنگ ہے ۔خوشبواس میں نہیں ہے۔ہاں سلیقہ اس میں بہت ہے۔ فطرت اوراتنی خوش سلیقہ۔‘‘۱۴؎
انتظارحسین لندن شہر کی صرف خامیوں کوہی بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ اس میں جوخوبیاں ہیں اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔وہ لندن کی اس روایت سے بہت متاثر ہیں کہ اگر وہاں کے مکان میںکسی نے چند دن بھی بتائے ہیں، چاہے وہ ان کے ملک کاہویابیرون ملک کاوہ اس کی شناخت کوباقی رکھتے ہیں ۔بس اس کے نام کے سامنے اپنے نام کی تختی لگادیتے ہیں ۔اس طرح سے ایک ہی مکان میںبیک وقت کئی ناموں کی تختیاں لگی ہوتی ہیں ۔ اورکسی کواس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔
’’یہ ہوٹل کیسنگٹن ہے ۔اس کے عین مقابل ایک مکان ہے جس پر سوبرس پہلے کے ایک مکین کی تختی لگی ہوئی ہے جس سے اڑتی اڑتی سی شناسائی ہماری بھی ہے ۔رابرٹ برائوننگ کہ ۱۹۸۹ء تک یہاں اس شاعر کاقیام رہا۔مطلب یہ کہ آخری سانس اسی گھر میں لیا۔مگراس ایک تختی پرکیاموقوف ہے ۔ایسے ناموں کی تختیاں اس شہر میں جانے کتنے گھروں پرلگی ہیں ۔مکان ایک ہے،مکین دودو۔ایک مکین وہ جواب قیام پذیر ہے۔ایک مکین وہ جس نے ایک زمانہ پہلے یہاں قیام کیاتھا۔تختی اس کے نام کی بھی لگی ہے ،اس کے نام کی بھی ۔تھوڑاعرصہ قیام کیاہے اورشخصیت پرائے دیس کی ہے توبھی کوئی مضائقہ نہیں ۔رسل روڈپرایک مکان میں قائد اعظم نے بس کوئی ڈیڑھ برس قیام کیاہوگا۔مگر مکان پر تختی لگ گئی ،ایم اے جناح ہائوس(۱۸۹۵ء)۔‘‘۱۵؎
اس سفر کے دوران انتظارحسین نے لندن کے مختلف تاریخی وسیاحتی مقامات کابھی مشاہدہ کیا۔نیشنل آرٹ گیلری ،برٹش میوزیم ،برٹش لائبریری ،اورینٹل کورنر،ہائیڈپارک،لیک ڈسٹرکٹ ،بی بی سی لندن اوروہاں آنے والے زائرین کودیکھااوران مشاہدات کو اپنے مخصوص انداز میں اس سفرنامہ میں پیش کیاہے ۔ساتھ ہی وہاں موجود اردوکے دانشوروں اورادیبوں سے ملاقات کی اوران سے اردوکے تعلق سے بات چیت بھی کی ۔جن شخصیات سے اس سفر میں انھوں نے ملاقات کی ان میںرضاعلی عابد،عبید صدیقی ،آصف جیلانی ،الطاف گوہر،افتخارعارف ، ڈاکٹرزہرااحسن،پروفیسرامین مغل ،تصدق حسین ،شبانہ محموداوربلوم فیلڈخاص طورپر قابل ذکر ہیں۔
اس مجموعہ کادوسراسفرنامہ ’’جمناسے کاویری تک‘‘ہے جس میں انتظارحسین نے ہندستان کے قدیم شہروں ،دہلی ، حیدرآباد ، کلکتہ ، بنگلور،میسوروغیرہ کاذکرکیاہے ۔انتظارحسین عام طورپر سیاسی مسائل اورسیاسی گفتگوسے اپنادامن بچاکر نکل جاتے ہیں لیکن اس سفرنامہ میں وہ سیاسی مسائل سے بچ نہ سکے ۔یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد تنازعہ اوراس سے منسلک دوسرے مسائل بیچ بیچ میںاپنی جھلک دکھاتے نظرآتے ہیں ۔رامائنی تنازعہ بھی انھیں میں سے ایک ہے ، اس کاپس منظر یہ ہے کہ رامائن کے مختلف Versionجومختلف زمانوں اورمختلف علاقوں کے حوالے سے تاریخ میں ملتے ہیں جن میں رام اورسیتاکے کردارکومختلف رشتوں میں دیکھاگیاہے ۔کہیں بھائی اوربہن کے روپ میں اور کہیں پتی اورپتنی کے رشتے میں ،یعنی ہرVersionاپنی الگ کہانی بیان کرتاہے۔اس موضوع پر اس سفرنامہ میں تفصیل سے گفتگوکی گئی ہے ۔پروفیسر وجیندر شاستری جودہلی یونیورسٹی میں سنسکرت کے ہیڈآف دی ڈیپارٹمنٹ تھے وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں ۔
’’اب رام جنم بھومی کاجھگڑاکھڑاہوگیا۔مجھے کچھ سمجھ آتی نہیں ۔پھرآہستہ سے ٹکڑالگایا۔پتہ نہیں رام جی پیداہوئے بھی تھے یانہیں ۔‘‘۱۶؎
کنڑ زبان کے مشہورناول نگار اننت مورتی جی بابری مسجد کے پورے مسئلے کومدنظررکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تاریخی واقعات کو اس کے پورے تاریخی پس منظر میں رکھ کر دیکھناچاہیے تبھی ہم کسی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ورنہ ہم تضادات کے ایسے نرغے میں گھر جائیں گے کہ وہاں سے واپسی ناممکن ہوجائے گی۔
’’لوگ تاریخ کوآج کے حساب سے پڑھتے ہیں ۔وہ بادشاہ جوکچھ کررہے تھے اسے اسی زمانے کی سیاست کے پس منظر میں دیکھناچاہیے پھرکوئی ایک بات لے لیتے ہیں ۔باقی بات چھوڑدیتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اورنگ زیب نے بنارس میں مندر ڈھاکرمسجدتعمیر کی۔مگریہ بھی صحیح ہے کہ بنارس یونیورسٹی کے بیچ ایک لاٹھ کھڑی ہے جس پراورنگ زیب کاایک حکم نامہ کندہ ہے ۔حکم نامہ یہ ہے کہ کسی مندر کوڈھانے کی کوشش نہ کی جائے ۔ٹیپوسلطان بہت غیرمتعصب اورروشن خیال حکمران تھا۔مگریوںبھی ہواکہ ایک وقت میں اس نے ہندوئوں کوزبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی ۔یہ اصل میں اس وقت کی سیاست تھی۔‘‘۱۷؎
اسی طرح دہلی کی سیاسی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دہلی میں مسلم علاقوں میں جوبدحالی ،بدنظمی اورگندگی پائی جاتی ہے اس کے وہ خودذمہ دارہیں ۔کیونکہ جامع مسجد کے علاقے کی صفائی مہم کے بعد انھوں نے جس ردعمل کااظہار کیااس کے بعد کوئی بھی حکومت ان علاقوں میں کسی بھی طرح کے مثبت اقدام اورترقیاتی کام کرانے کی زحمت نہیں کرے گی کہ وہ کام بھی کرائے اورووٹ سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ۔ چنانچہ اب جوان علاقوں کی حالت ہے وہ اسی ردعمل کانتیجہ ہے۔
’’اس صفائی کے خلاف جوہنگامہ ہواتھااس کااحوال مجھے بتاتے ہوئے کہنے لگا،پتہ ہے اب کیاہوگا۔کوئی حکومت مسلمانوں کے علاقوں کی طرف توجہ نہیں دے گی ۔انھیں کیاپڑی ہے کہ وہ اپنے ووٹ گنوائیں ،بیشک مسلمانوں کے علاقےSlumبن جائیں۔مجھے لگاکہ دلی کے مسلمانوں کی زندگی میں شاید اب وہ منزل آگئی ہے کیونکہ اس کے بعد میں نے حضرت نظام الدین اولیاکی درگاہ پربھی حاضری دی تھی اورمیں نے اس باراس کوچے کاحال بھی ابتردیکھا۔‘‘۱۸؎
انتظارحسین عام طورپر ہندستان کے شہروں کاجب ذکرکرتے ہیں توان کی نظراس شہر کے تہذیبی ومعاشرتی زوال پرجاکے ٹھہرجاتی ہے اور وہ اس شہر کے زوال کا نوحہ پڑھناشروع کردیتے ہیں۔لیکن اس سفرنامہ میں ان کارویہ کچھ بدلاسانظر آتاہے ۔وہ حیدرآباد،بنگلوراورمیسور کاذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بنگلورتوباغوں کاشہر ہے ۔ہرطرف ہریالی ہی ہریالی ہے ۔سبزہ نے پورے شہر کواپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔ دہلی اورکلکتہ کی طرح اس شہر میں پالوشن ،بھیڑبھاڑ،شورغل بالکل نہیں ہے ۔انتظار حسین کوان شہروں کی آب وہوااورآبادیوں کاتناسب بہت پسندآیا۔ان شہروں کودیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئے کہ ہندستان میں اب بھی ایسے شہر ہیں جوآلودگی اورٹریفک کی اودھم سے پاک ہیں ۔انتظارحسین نے ان شہروں کے تاریخی ،تہذیبی ، مذہبی اورادبی مقامات واداروں کی سیاحت بھی کی،خاص طور حیدرآباداورمیسور کے میوزیم ،مقابر ،مساجد اورمزاروں کی زیارت کی اوراس سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان کامانناہے کہ حیدرآباد لٹ کر بھی اپنے دامن میںبہت کچھ لیے ہوئے بیٹھاہے۔صرف حیدرآبادہی نہیں بلکہ یہ تینوں شہر آج بھی اپنی تہذیبی شناخت کو بڑی حدباقی رکھے ہوئے ہیں ۔وہ میسورشہر کی سرسبزی وشادابی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مصفاکوچے ،منزہ ہوا۔نہ گرد،نہ دھواں،نہ ٹریفک کاشور۔یعنی ہرقسم کی آلودگی سے پاک۔خوب شہر ہے ۔صندل سے مہکتاہے،درختوں سے بھراہے۔میسورکی دوچیزیں خاص طورپر مشہورہیں، صندل اورسلک ،جابجاصندل کی لکڑی کے کاریگراپنی کاریگری کی دکان سجائے بیٹھے ہیں ۔ان کی دکان میں قدم رکھو،صندل کی خوشبومیں بس جائوگے ۔بزازوں کی دکانوں میں جائو۔تھان کھول کھول کرسلک کی رنگ رنگ ساڑھیوں کے انبارآپ کے سامنے لگادیں گے ۔سوکوچۂ وبازارمیں گہماگہمی ہے مگربڑے شہروں کے بازاروں والااودھم نہیں ہے۔‘‘۱۹؎
اس سفر میں انتظار حسین نے اردواورہندی کے ادیبوں وشاعروں کے علاوہ کنڑزبان کے ادیبوں سے بھی ملاقات کی ۔انھوں نے دکن میں اردوکی بہتر حالت کودیکھ کر کہاکہ دہلی ،یوپی اوربہار میںاردوخوب پھولی پھلی۔اب ایسالگتاہے کہ ان علاقوں کوجوفریضہ انجام دیناتھاوہ دے چکے اب کسی اورعلاقے کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اردوکے گیسوئے برہم کوسنوارے سجائے ۔اوردکن اس ذمہ داری کواٹھانے کے لیے اپنے آپ کوتیار کررہاہے۔اسی کے ساتھ انھوں نے گم ہوتے ہوئے دکنی لہجے پر وہاں کے ادیبوں کی توجہ مبذول کرائی کہ آپ لوگ فخرتو قلی قطب شاہ پر کرتے ہیں اورسندکے طورپر ناسخ وآتش کومانتے ہیں۔زبان کودھونے مانجھنے کے چکر میں اردوکے نہ جانے کتنے زندہ لہجے گم ہوگئے۔ان کے علاوہ انھوں نے ہندستان کی مختلف جامعات کوبھی دیکھا،وہاں کے اساتذہ و طلباسے ادب کے تعلق سے بات چیت کی اوران کواپنی کہانیاں بھی سنائی۔جواہرلال نہرویونیورسٹی کی ایک ایسی ہی محفل کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’لیکن جے این یویعنی جواہر لال نہرویونیورسٹی کی محفل کاذکرکروں نہ کروں ،اس یونیورسٹی کا،نہیں اس کے اردگردکاذکر ضرورکروں گا۔یونیورسٹی اپنی جگہ،مگر مجھے اس کے اردگرد نے پکڑا۔اس یونیورسٹی میں میں نے پہلی بارقدم رکھاتھا۔لیجئے ہم کیمپس میں داخل ہوگئے۔کیمپس ۔یہ کیمپس ہے۔یہاں توجنگل پھیلاہواہے۔اورپہاڑیاں ہیں ۔انتظارصاحب ،یہ اراولی کی پہاڑیاںہیں جن کاذکرمہابھارت میں آیاہے۔میں نارنگ صاحب کی بات سنتاہوں اورحیران وششدر دیکھتاہوں۔ جنگل ،پہاڑیاں ،تویہ اراولی کی پہاڑیاں ہیں ۔پھریاں سے اندرپت کتنی دورہوگا۔ اوریہ موروں کی جھنکارکہاں سے آرہی ہے۔اراولی پہاڑیوں کے بیچ سے یااندرپت کے باغوں سے جہاں سداکوئلیںکوکتی اورمورجھنکارتے رہتے تھے۔مگریہ توسامنے یونیورسٹی کی عمارت کھڑی ہے۔اراولی پہاڑیوں کاجادوکافورہوا۔ہم یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں جہاں ایک محفل کااہتمام ہے ۔ پروفیسرنامورسنگھ صدارت کریںگے۔میں افسانہ پڑھوںگا۔آگے وہی جوہواکرتاہے۔ طلبا، طالبات،پروفیسرحضرات،اکادکاباہرکامہمان۔کوئی مروت میںتحسین کاکلمہ کہے گا۔کوئی شایدسچے دل سے ۔پھرکچھ سوال۔میری طرف سے ان کے ٹوٹے پھوٹے جواب۔‘‘۲۰؎
’’ایک پھیراایران کا‘‘یہ سفر انتظارحسین نے انورسجاداوراصغرندیم سیدکی معیت میں جنوری ۱۹۹۰ء میںایک سمینارمیں شرکت کی غرض سے کیاتھا۔اس سفرنامہ میںانھوںنے ایرانی تہذیب ومعاشرت پراپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اظہارخیال کیاہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں کیاکچھ تبدیلیاں رونماںہوئیںاس پر بھی انھوںنے ایک طائرانہ نظرڈالی ہے۔وہ دومثالوں کے ذریعے سے وہاں ہونے والی تبدیلی کوپیش کرتے ہیں کہ اسلامی ایران میں صرف نسوانی آوازمیں موسیقی کوغیرمستحسن قراردے دیاگیاہے اسی طرح خواتین کربلاکوکرداروں کی صورت اسٹیج پرپیش کرنابھی ممنوع ہوگیا ہے ۔انھوں نے وہاں کے اہم تاریخی و مذہبی مقامات کی زیارت بھی کی ۔ اس سفرنامہ کوانتظارحسین نے ڈائری کی تکنیک میں لکھاہے ۔ایرانی بازاروں کی رونق کووہ اپنے منفرداسلوب و اندازسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’سامنے بازارہے کہ دورتک پھیلانظرآرہاہے۔چلوچل کرمشہد کابازاردیکھیں ۔چلتے چلتے ایک گلی میںمڑے۔گلی سے جونکلے توکیادیکھا۔ایک اورہی طرح کابازار۔زعفران کی خوشبومیں بساہوا،سرخ رنگ میں رنگاہوا۔بڑے بڑے طشت زعفران سے بھرے ہوئے۔چلوزعفران کوتوہم نے پہچان لیا۔مگربرابرمیں یہ جوشوخ قسم کاسرخ مال طشتوں میں سجارکھاہے یہ کیاہے۔ایرانی دوست نے بتایاکہ صاحب یہ زرشک ہے ۔پلائوبریانی میں پڑتاہے ۔اورلیجئے اسی بازار کے اندرایک اوربازارجیسے بڑے سے باغ میں سیرکرتے کرتے کوئی خوبصورت سی روش آجائے۔ خاکِ شفاکی سجدہ گاہیں،تسبیحیں ،رنگ رنگ کے نگینے ،قسم قسم کی انگھوٹھیاں ،چھوٹی چھوٹی زعفران کی پوٹلیاں ۔جیسے بازار نہ ہو،نمائش گاہ ہو۔‘‘۲۱؎
’’مندروں کے نگر میں‘‘اس سفرنامہ میں انتظارحسین نے نیپال کے مشہورشہر کاٹھمنڈوکے اردگردکے پس منظراوراس کے تاریخی ومذہبی مقامات اوران مقامات سے جڑی روایات اورحکایات کوپیش کیاہے۔ انھوں نے اس سفر نامہ میں دیومالائی کہانیوں کاجابجااستعمال کیاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کاٹھمنڈومندروں کاشہر ہے۔ یہاںلوگوں کے رہنے کے لیے جتنے گھرنہیںہیں اس سے کہیں زیادہ مندر ہیں ۔یہاں لیجنڈاوردیومالاکی بہتات ہے ۔ہرشے اورہر مندرکے ساتھ کوئی نہ کوئی دیومالائی کہانی یالیجنڈچمٹی ہوئی ہے۔جس مندرمیں قدم رکھئے وہ اپنے آپ میں ایک دیومالائی جہان معلوم ہوتی ہے ۔مندروں میں نصب مورتیاں اوران سے منسوب مختلف داستانیں گویا کاٹھمنڈو شہر شہرنہ ہوکوئی دیومالائی جہان ہوجس میںانتظارحسین گھوم پھر رہے ہیں۔وہ اس شہرکی ہرشے کوحیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوربیان کرتے ہیں :
’’تھوڑاآگے چلواورکماری کودیکھ لو۔جیتی جاگتی ننھی دیوی ۔یہ ننھی دیوی کون ہے۔یہ اٹھارویںصدی کے بیچ کاواقعہ ہے ۔راجہ جے پرکاش مل نیپال میں راج کرتاتھا۔ایک رات عجب گھڑی آئی کہ رانی نے اعلان کرڈالاکہ میں جگت ماتاہوں ۔راجہ نے شردھاسے سرجھکادیا۔لیکن اگلے دن اس نے ایک ننھی لڑکی کودیکھاکہ اسی لہجہ میں اعلان کررہی تھی کہ میں جگت ماتاہوں ۔راجہ کواس پرسخت غصہ آیا۔حکم دیاکہ یہ لڑکی شہر سے نکل جائے ۔لیجئے نکل گئی ۔مگراگلے دن کیاہوا۔راجہ کواحساس ہواکہ اس سے کوئی بڑاپاپ ہوگیاہے ۔لڑکی کوجھٹ پٹ بلوایااوربھرے دربارمیں اس کے آگے ماتھاٹیک دیا۔حکم دیاکہ ہمارے راج محل کے پاس اس کے لیے شاندارگھرتعمیرکیاجائے۔ ننھی لڑکی کواس میں رکھاگیا۔سال کے سال تیوہارمنایاجاتااورراجہ ننھی جگت ماتاکے سامنے سیس نواتا۔‘‘۲۲؎
انتظارحسین نے یہ سفرایک ورک شاپ میں شرکت کے لیے کیاتھاجس کو اکسفورڈ(ایشین کلچرل فورم آن ڈیویلپمنٹ)اورنیٹ ورک کلچر(ایشیا)نے منعقد کیاتھا۔اس کامقصد مذہبی بنیادپرستی کی مذمت اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کوفروغ دیناتھا۔دراصل بابری مسجد کے انہدام نے سیکولرذہن کے لوگوں کی روح تک کوہلادیاتھا۔انھوں نے بہت غوروفکر کے بعد یہ پروگرام طے کیاکہ کیوں نہ ہم تاریخ ،آرٹ ، ادب کے حوالے سے اپنی روایات کودیکھیں اوران کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہماری روایت کیاہے اورہم کدھر جارہے ہیں ۔ اننت مورتی جی اس ورک شاپ کے مقصدکی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’دوستوسچی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کاواقعہ ہماری روحوں میں گہرااترگیاہے۔ایک مسجد منہدم نہیں ہوئی ۔اس کے ساتھ بہت کچھ ڈھے گیاہے۔مسلمان صوفیوں اورہندوجوگیوں نے مل کر جومشترکہ سمبلز تخلیق کئے تھے وہ بھی مسجد کے ساتھ ڈھے گئے ۔اب کیاکریں ۔مذہب کی نفی کاکوئی فائدہ نہیں ہے ۔مذہب کی نفی کرکے توچند ہی لوگ آپس میں مل پاتے ہیں ۔ہندستان ، پاکستان ،بنگلہ دیش میں یہ جوبہت سی خلقت بسی ہوئی ہے وہ تومذہب میںایمان رکھتی ہے۔ توکیاہم ہندواورمسلمان رہتے ہوئے آپس میں نہیں مل سکتے۔مسلمان مسلمان رہے، اورہندوہندورہے اورپھرملیں۔مذہب کی اس طرح کی قبولیت ہی سے سیکولرزم کوتقویت حاصل ہوگی ۔ممکن ہے بعض لوگوں کواس میں تضادنظرآئے ۔مگر مجھے اس میں کوئی تضادنظرنہیں آتا۔توآئیں سرجوڑکربیٹھیں اورسوچیں۔‘‘۲۳؎
اس ورک شاپ میں ہندستان ،پاکستان اوربنگلہ دیش کے نامورادیبوں ودانشوروں نے حصہ لیاجن میں اصغر علی انجینئر،غلام شیخ صاحب ،اننت مورتی ،گیتانجلی،کرشناسوبتی ،سدھیر،انتظارحسین ،جاوید بھٹی ،نیلم، حناقیصر،شومی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان لوگوں نے اپنے اپنے اندازمیں اس پر کھل کر بحث کی ۔اس بحث کے بیچ بیچ میں تقسیم ہنداورسقوط مشرقی پاکستان کے سانحات کاذکر بھی آتاہے جس سے کچھ دیر کے لیے ماحول غمگین ہوجاتاہے۔ لیکن پھر کوئی دانشوراٹھتاہے اورلوگوں کی توجہ کومشترکہ تہذیب کی طرف مبذول کراتاہے۔ اس طرح سے یہ سفرنامہ صرف نیپال کے مندروں اوروہاں کے لوگوں کے مذہبی عقائد ورسم رواج کے بیان تک ہی محدودنہیں رہتاہے بلکہ اس میں۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ،۱۹۴۷ء،اور۱۹۷۱ء کے واقعات کابھی ذکرکیاگیاہے جن کی وجہ سے اس کی حیثیت ایک تاریخی دستاویز کی ہوجاتی ہے ۔
’’اردودیارہندمیں‘‘اس میں انتظارحسین نے ہندستان میں اردوکی موجودہ صورت حال اور مستقبل میں اس کے امکانات کوبیان کیاہے ۔ان کامانناہے کہ اردوکوئی اینٹ مٹی کی عمارت نہیں ہے کہ جب جی میں آیاگرادیااوراس کی جگہ کوئی دوسری عمارت تعمیر کردی۔ اردوسخت جان اورزندہ زبان ہے اسے مٹاناآسان نہیں ہے بلکہ اب توہندستان میں اردوکاایک بالکل الگ ہی نقشہ نظرآرہاہے۔لوگ اب اردوکی سماجی وتاریخی حیثیت کوتسلیم کرنے لگے ہیں کہ اردوعوامی رابطہ کی زبان ہے۔ اس کے علاوہ اردوزبان کے اندر جوشیرینی ،نغمگی اورکشش ہے وہ بھی لوگوں کواپنی طرف کھینچ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیراردوداں طبقہ بھی اس کی طرف کھچا چلا آرہاہے۔نئے ہندستان میںاردوکے سحر کایہ عالم ہے کہ ہندی کے ناشرین اردوکے شعراکے کلام اورافسانہ نگاروں کے افسانوں کوہندی میں منتقل کررہے ہیں ۔لیکن یہ نیالسانی عمل خوداردوکے لیے ایک بڑاچیلنج ہے ۔ اس فضااوراس نئے لسانی عمل میں کیااردواپنی شناخت کوباقی رکھ پائے گی یاتحلیل ہوجائے گی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
’’پورب گئے پچھم گئے ‘‘اس سفرنامہ میں انتظارحسین نے لندن ،اوسلواوربرلن جیسے شہروں کی روداد سفرکو بہت ہی مختصر انداز میں بیان کیاہے ۔وہ ان شہروں کے بازاروں پارکوں اورمیوزیم وغیرہ کی صفائی ستھرائی اورنظم وضبط کودیکھ کربہت متاثر ہوتے ہیں اور ان کے ذوق سلیم کی داددیتے ہیں کہ انھوں نے کیاخوب شہر بسایاہے ۔ان کے شہر بستی اورجنگل کاآمیزہ ہیں ۔لیکن اس آمیزش میں بھی کوئی شتر بے مہارنہیں ہے کہ جوجدھر چاہے نکل لے۔ہر ایک چیز میں نظم وضبط پایاجاتاہے۔پاکستان کی طرح نہیں ہے کہ جنگل بڑھناشروع کیاتوشہرکونگل گیااورشہر بسناشروع ہواتوجنگل اوردرختوں کونگلنے لگا۔یورپ کامعاملہ یہ ہے کہ یہاں عمارتوں کے بیچ درخت اورپہاڑیاں اس طرح سے ہیں کہ یہ طے کرنامشکل ہے کہ شہر جنگلوں اورپہاڑیوں میں بساہے یاشہر کے اندر جنگل اورپہاڑیاںآگئی ہیں ۔وہ اوسلوشہر کی اسی خوبی کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اوسلووالوں نے طے کیاکہ ایساشہر بسائو کہ بستی اورجنگل کاآمیزہ ہو۔توخوب آمیزہ تیارکیا،ہرپہاڑی فلیٹوں اورگھنے درختوں کاملاجلاگلدستہ ہے ۔‘‘۲۴؎
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتظارحسین نے سفرناموں کی عام روش سے ہٹ کر اپنی ایک الگ راہ بنانے کی شعوری کوشش کی ہے۔انھوں نے اپنے سفرناموں میں تاثرات کے ساتھ ساتھ تخیلات سے بھی جابجا کام لیاہے ۔انھوں نے متعلقہ ممالک کی ثقافتی وتہذیبی حالات،علمی وادبی احوال کوصرف ظاہری آنکھوں سے دیکھنے پراکتفانہیں کیابلکہ اپنے تجربات اورمشاہدات کی روشنی میں اسے جانچاپرکھاہے اورپھر اسے تحریری شکل عطاکی ہے جس سے ان کے سفرنامے محض بصری مناظریاواقعات نہیں بلکہ تہذیب وثقافت کے مرقعے بن گئے ہیں ۔انھوں نے حال کوماضی کے تناظر میں پیش کرکے لوگوں کواس سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی ہے کہ اگرعقل ودانش ہے تو ان واقعات سے سبق حاصل کرو۔انتظارحسین اپنے سفرناموں میں واقعاتِ سفر سے زیادہ کیفیاتِ سفر کوبیان کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے سفرناموں میں تاثرات ،جذبات واحساسات اورذاتی ردعمل کااظہارکثرت سے ملتاہے۔اسلوب اوراندازبیان کے لحاظ سے بھی ان کے سفرنامے عام سفرناموں سے بالکل الگ اورمنفرد ہیں۔انھوں نے داستانوی اوردیومالائی اسلوب کااستعمال کرکے اردوسفرنامے کونئے اسالیب سے روشناس کرایاہے۔اس طرح سے انتظارحسین نے اپنے تخلیقی انداز سے اس صنف کارشتہ ادب کی دوسری اصناف سے جوڑدیاہے جن کے باعث ان کے سفرنامے فکشن کے بہت قریب نظرآتے ہیں ۔

حواشی
۱۔ انتظارحسین ،زمین اور فلک اور،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی ،۲۰۱۲ء ،ص۱۱
۲۔ ایضاً، ص۱۶
۳۔ ایضاً، ص۱۴
۴۔ ایضاً، ص۳۱
۵۔ ایضاً، ص۲۸
۶۔ ایضاً، ص۱۹
۷۔ ایضاً، ص۱۴۲
۸۔ ایضاً، ص۱۱۰
۹۔ ایضاً، ص۱۱۲
۱۰۔ ایضاً، ص۱۱۳
۱۱۔ ایضاً، ص۱۵۳
۱۲۔ ایضاً، ص۶۳
۱۳۔ ایضاً، ص۷۶
۱۴۔ انتظارحسین ،نئے شہرپرانی بستیاں ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۹ء،ص۲۸
۱۵۔ ایضاً، ص۱۹۔۱۸
۱۶۔ ایضاً، ص۸۶
۱۷۔ ایضاً، ص۷۱
۱۷۔ ایضاً، ص۷۱
۱۸۔ ایضاً، ص۴۲
۱۹۔ ایضاً، ص۷۷
۲۰۔ ایضاً، ص۴۹
۲۱۔ ایضاً، ص۱۰۹
۲۲۔ ایضاً، ص۱۴۳
۲۳۔ ایضاً، ص۲۲۔۱۲۱
۲۴۔ ایضاً، ص۱۶۰

Dr.Abrar Ahmad
Assistant Professor
Department Of Urdu, Arabic& Persian
Poona College of Arts Science & Commerce, Camp, Pune
Mobile. 855400863

Fan E Mausiqi aik Jaiza by Bazmi Abbasi Chiraiyakoti

Articles

فن موسیقی- ایک جائزہ

بزمی عباسی چریا کوٹی

فنون لطیفہ میں فن موسیقی کا مرتبہ بلند تر سمجھا جاتا ہے۔ انسانی تمدن اور معاشرت کی ترقیوں کے ساتھ اس فن کی ترقی پہلو بہ پہلو ہوتی رہی۔ جب سے انسانی تاریخ دنیا میں روشناس ہوئی دنیا نے اس فن کو بھی پہچانا۔ فنونِ لطیفہ میں سے ہر ایک فن انسان کے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ سے متعلق ہے ۔ مصوری نے ترقی کی تو انسان کے حاسہ بصر پر اپنا معجز نما اثر ڈالا۔ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اس مصوری کا ایک کرشمہ ہے لیکن موسیقی کا درجہ اس سے بھی بالا تر ہے۔ موسیقی کا قبضہ براہِ راست روح پر ہوتا ہے۔ جس قدر اس فن نے ترقی کی اس کی دل فریبی بڑھتی گئی انسان اور حیوان یکساں طور پر اس سے متاثر ہوئے۔ اس کی ہمہ گیری میں مذہب قوم و ملت و ملک کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے بھی آگے بڑھیے تو وحشی اور متمدن اقوام کے تاثرات میں کوئی فرق نہیں ہے جن چیزوں کا فطرت سے تعلق ہے اُن کو کسی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ فطرت اور طبیعت حیوانی کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔
کچھ خواص ایسے ہیں جو نوعِ انسانی کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے ہنسنا اور کچھ خواص ایسے ہیں جو حیوان کی جنس میں پائے جاتے ہیں، اور ہر جان دار میں یکساں نظر آتے ہیں جیسے سانس لینا۔ انہیں خواص میں سے موسیقی بھی ہے جس کا ہر جان دار پر جس میں قوتِ سماعت ہے اثر ہوتا ہے۔ عرب کے بدو ایک خاص قسم کا راگ الاپتے ہیں جس کو سن کر اونٹوں میں ایسا نشاط پیدا ہوتا ہے کہ وہ برابر چلتے رہتے ہیں۔ اس طرح جانوروں کو پانی پلاتے وقت ایک طرح کی سیٹی بجاتے ہیں جس سے اُن کا پانی پینے کی طرف میلان ہوتا ہے۔ سپیرا سانپ کے سامنے بین بجاتا ہے جس سے سانپ مست ہو کر کھڑا ہوجاتا ہے، چرواہے گائے، بکری اور بھینس اور اونٹ کو دوہنے کے لیے خاص قسم کا راگ گاتے ہیں جس سے دودھ اُن کے تھنوں میں اترتا ہے، تیتر اور بٹیر پکڑنے کے لیے شکاری کچھ گاتے ہیں جس کو سن کر وہ اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو سلانے کے لیے ایک مخصوص راگنی ہے جسے لوری کہتے ہیں جس کو سن کر بچے سوجاتے ہیں۔ موسیقی کے اثرات روزمرہ کے تجربے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض آدمیوں پر تو اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ ہلاک ہوگئے۔ ایک واقعہ ہے کہ اجمیر میں قوال نے یہ شعر گایا۔
گفت قدوسی فقیر بے درنا و دربقا
خود بخود آزاد بودی خود گرفتار آمدی
اس کو سن کر مولانا محمد حسین الہ آبادی کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کا یہ واقعہ تذکروں میں موجود ہے کہ قوال نے ان کے سامنے یہ شعر گایا:
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر ست
اس کو سن کر ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور اُن کی روح پرواز کر گئی۔
صاحب اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ کسی مجلس میں ماہرین موسیقی جمع تھے ایک شخص پریشان حال پھٹے کپڑوںمیں وہاں آیا۔ صاحب خانہ نے جو ایک رئیس تھے اس کو صدر جگہ بٹھا دیا حاضرین کو یہ بات ناگوار ہوئی۔ رئیس نے یہ بات سمجھ لی اور اُس شخص سے گانے کی فرمائش کی اُس شخص نے اپنی جھولی سے چند لکڑیاں نکالیں اور اُن کو جوڑ کر ان پر تار کھینچ دیے اور ایک راگ چھیڑی تمام حاضرین پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا اور سب ہنستے ہنستے بے تاب ہوگئے (غالباً یہ دادرا رہا ہوگا) پھر اُس نے ان تاروں کو بدلا اور دوسری راگ چھیڑی اس کا یہ اثر ہوا کہ حاضرین روتے روتے تھک گئے، (غالباً یہ راگ جو گیارہا ہوگا) پھر اُس نے تاروں کو بدلا اور تیسری راگ چھیڑی اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام حاضرین سوگئے (غالباً یہ راگنی نیلمبری تھی) گانے والے نے سب کو غافل پا کر وہاں سے راہِ فرار اختیار کی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کی تواریخ میں مذکور ہے کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو جانور اور پرندے بھی جمع ہوجاتے تھے۔ اہل ہنود کے عقیدے کے مطابق تو کائنات کی ہر شے یہاں تک کہ جمادات بھی راگوں کے اثرات سے مبرا نہیں ہیں۔
ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق موسیقی کو سنگیت کہتے ہیں اُن کے نزدیک یہ فن بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ ہندو علمائے بلاغت کا قول ہے کہ موسیقی بھی بلاغت ہے۔ موسیقی کو گندھیرو وید بھی کہتے ہیں۔ چاروں ویدوں رِگ وید، سام وید،یجروید اور اتھرووید کے علاوہ پانچواں وید گندھرووید ہے۔ اس کا گائین وِدّیا فنِ غنا بھی کہتے ہیں اور اسے سام وید کا ضمیمہ خیال کیا جاتا ہے۔
ناردجی نے کہا ہے کہ نہ تو میں جنت میں رہتا ہوں نہ عابدوں کے دل میں رہتا ہوں میرے ماننے والے جہاں گاتے ہیں میں وہاں رہتا ہوں، ہر قوم اورہر ملک میں فنِ موسیقی کے موجد کے متعلق مختلف اقوال ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ اہل ہندو کے حکماء کی اس کے متعلق کچھ اور رائے ہے اور مسلمان ماہرین موسیقی کی رائے کچھ اور ہے۔ مورخین کی تحقیقات سے اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ چین اور ہند کے آپس کے تعلقات کی قربت وجہ سے راگ اور راگنیوں کا دونوں میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ اہل ہنود اور عرب مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ موسیقی ستاروں اور سیاروں کے عمل سے وجود میں آئی۔
حکمائے اسلام جیسے فارابی، بو علی سینا اور اخوان الصفا نے بیان کیا ہے کہ پہلا شخص جس نے موسیقی کو بحیثیت فن دنیا کے سامنے پیش کیا وہ فیثا غورث ہے۔ علامہ شہر ستانی لکھتے ہیں کہ فیثا غورث نیثار کا بیٹا تھا جو چھٹویں صدی قبل مسیح میں گزرا ہے وہ سامو کا رہنے والا تھا۔ ۵۳۲ء قبل مسیح میں اس نے بہت ترقی کی۔ اس کے ملک کے لوگ اس کے مخالف ہوگئے اس لیے اس نے اٹلی میں سکونت اختیار کی وہاں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ فریسیڈیس اس کا شاگرد بہت مشہور ہوا۔ کلانوس دو رزی بھی اس کا شاگرد تھا۔ وہ اس بات کا قائل تھا کہ موجودات کا قیام عدد سے ہے اور خدا نے سب سے پہلے اسی کو پیدا کیا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ تمام عالم بسیط روحانی راگوں سے بنا ہے اور راگوں سے روح متاثر ہوتی ہے اس کی رائے میں عالم اجسام میں جتنے تاثرات ہیں، جیسے رنگ لذت و سرور غم شیرینی و تلخی وغیرہ یہ سب عالم ارواح میں جواہر ہیں۔
تاثیر پیدا کرنے والی دعا و تسبیح کے وقت رقتِ قلب گریہ و زاری اور حضوری قلب کے لیے ہی موسیقی ایجاد ہوئی۔ چنانچہ زمانۂ قدیم ہی سے عبادت گاہوں میں دعا کے وقت گانے اور باجے کا استعمال جاری ہے ان اوقات میں راگنیوں کا استعمال ہوتا ہے جن کے سننے سے گریہ و زاری اور قلب میں رقت پیدا ہو۔ حضرت داؤد علیہ السلام مزامیر زبور کی تلاوت کے وقت کام میں لاتے تھے۔ نصاریٰ اپنے گرجوں میں ان راگوں کا استعمال آلاتِ موسیقی کے ساتھ کرتے ہیں ۔اہل ہنود بھی اپنی عبادت گاہوں میں موسیقی کا استعمال کرتے ہیں اُن کے یہاں ساز کے ساتھ آرتی اور بھجن بڑی عبادت ہے۔ مسلمان تلاوتِ قرآنی میں مخصوص الحان کا استعمال کرتے ہیںان سب کا مقصد رقتِ قلب خضوع اور خشوع پشیمان ہو کر گناہوں سے توبہ کرنا اور پاکئی قلب سے خدا کی طرف رجوع ہونا ہے۔
عربوں کے تمدن میں سب سے اہم حصہ ان کا تحفظ انساب ہے اُس میں اُن کو یہاں تک کمال حاصل تھا کہ گھوڑوں اور اونٹوں کے انساب بھی ان کے یہاں محفوظ تھے۔ اس طرح انہوں نے موسیقی کا نسب نامہ بھی مرتب کر لیا تھا۔ اُن کے خیال میں پہلا شخص جس نے گایا وہ قابیل ہے جس نے ہابیل کے مرنے پر اُس کا مرثیہ گایا۔ بارہبریوس شامی متوفی ۱۲۸۹ء لکھتا ہے کہ قین کی لڑکی نے آلاتِ موسیقی ایجاد کیے اسی وجہ سے گانے والی لڑکی کو قینہ کہتے ہیں۔
یہاں یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ یہود قابیل کو لامح کا بیٹا اور اس کو عود کا موجد مانتے ہیں۔ اس کا ایک لڑکا طوبال تھا۔ جس نے اپنے نام پر طبل ایجاد کیا۔ طوبال کی لڑکی ضلال نے معارف ایجاد کیا۔ تواریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ طنبور قوم لوط کی ایجاد ہے لیکن دوسرے مورخین کے خیال میں طنبور کے موجد صائبین ہیں۔ جو لیس پالکس ایک بڑا مورخ گزرا ہے اس کے خیال میں طنبور عربوں کی ایجاد ہے، ستار ایرانیوں کی ایجاد ہے۔
فن موسیقی کی تایخ اسلام : اسلام سے قبل عربوں میں موسیقی کا عام رواج تھا۔ گانے والی لڑکیاں مغنیات علمی و ادبی مجالس میں اس طرح شریک ہوتی تھیں جس طرح گانے بجانے کے جلسوں میں۔ اس زمانے میں پردے کا رواج نہیں تھا۔ عورتیں بھی مردوں کی طرح آزاد زندگی بسر کرتی تھیں اور دعوتوں میں باجوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں۔ حضرت محمد ﷺ کے زمانے تک یہ رواج قائم رہا۔ جنگ اُحد میں ۶۲۵ء میں اہل قریش کے ہمراہ ہند بنت عتبہ سب سے آگے دف پر رجز گاتی اور بدر کے مقتولین پر نوحہ کرتی جاتی تھی۔ عرب عورتیں نوحہ اور مرثیہ گانے میں بہت مشہور تھیں۔
مورخین ہر فن کی تاریخ لکھنے میں اس فن کے موجود کی تحقیق ضرور کرتے ہیں۔ اسی اصول کے پیش نظر عرب مورخین نے بھی اس سلسلے میں یہ بحث کی ہے کہ وہ کون شخص ہے جس نے سب سے پہلے گایا؟ گانا انسان کے ساتھ پیدا ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہنسنا، رونا، چیخنا ،گانا وغیرہ انسانی فطرت ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو تمام امور فطرت اس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اس کے متعلق اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ سب سے پہلے جو انسان پیدا ہوا وہ ہنسا ہوگا یا رویا ہوگا ، گایا ہوگا۔ یہ تحقیق ضروری ہے کہ موسیقی نے فن کی صورت کب سے اختیار کی؟ موسیقی کا وجود کب ہوا ؟اس کی ترقی کی رفتار کیا تھی؟ کس زمانے میں اس کا عروج و زوال ہوا؟ اس کے کیا اسباب تھے ؟اس فن پر کتنی کتابیں لکھی گئیں؟
ابتدائی انسانی تمدنی دور میں موسیقی سے متعلق معلومات معتبر تاریخوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے کچھ کتبے ملے ہیں جن سے اتنا معلوم ہوتا ہے اسیرین کے زمانے میں کچھ عرب قیدی آئے تھے جو روسا کی مزدوری کرتے تھے یہ قیدی کام بھی کرتے تھے اور گاتے بھی تھے اُن کا گانا اسیرین کو پسند آیا۔ اسیرین فونیشین یہود اور عرب میں تجارتی رابطے قائم تھے اور زبان کا بھی اشتراک تھا جس نے مذاقِ موسیقی کے لیے زمین ہموار کی۔
پروفیسر اسٹیفن لکھتا ہے کہ اسیرین اور یہودیوں کی موسیقی میں گہرا تعلق رہا ہے۔ یہود عرب اور اسیرین میں اشتراک اور تعلقات کافی گہرے تھے اس لیے ان کی موسیقی اور اسیرین میں الفاظ کی بہت مماثلت ہے، مثلاً اسیرین میں شرو اور عربی میں شاعر ایک ہی ماخذ ہے۔ سریانی میں شروگانا عبرانی میں شیر بہ معنی گانا سریانی میں زمار و عبرانی میں زمرہ اور عربی میں منزماربہ معنی گانا سریانی میں الوبہ معنی نوحہ عبرانی میں ایلل عربی میں دلوال بہ معنی نوحہ۔
سریانی میں موسیقی کے لیے عام لفظ نیگوتویاننگو تو مادہ ناگو بمعنی آواز عبرانی ناگن۔ بہ معنی ستار بجانا اسی سے لفظ نگینا بنا بہ معنی موسیقی یار تار والا باجا۔ سریانی میں آن بمعنی راگ عبرانی میں انا عربی میں غنا باجوں کے لیے سریانی زبان میں لفظ طبلو (ڈھول) اور اداپو (طبلہ) عبرانی اور آرامی میں طبیلا اور تو پھر عربی میں طبل اور دف عبرانی میں زنمیر بانسری عربی میں زمرسریانی میں قرنو عبرانی میں قرنِ عربی میں قرن وغیرہ۔
موسیقی کو ہندوؤں کے عقائد کے مطابق مذہب کا درجہ حاصل ہے اور قدیم ویدک دور سے ہی موسیقی کو بہت متبرک مانا جاتا ہے۔ اس فن کو ہندوؤں نے بامِ عروج تک پہنچایا۔ اس میں شک نہیں کہ فنِ موسیقی کے معاملے میں ہندوستان تمام دنیا کامعلم ہے۔ موسیقی کے ذریعے بہت سے امراض کا علاج ہندوؤں میں بہت قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ بہت سی راگ راگنیوں کے اثرات موسم اور انسان کے مزاج پر بھی مرتب ہوتے ہیں، مثلاً بھیروں راگ کے اثر سے کولہو خود بخود چلنے لگتا ہے۔ مالکوس راگ کے اثر سے پتھر پگھل جاتے ہیں۔ راگ ہنڈول کے اثر سے جھولا خود بخود متحرک ہوجاتا ہے۔ دیپک راگ سے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ شری راگ کی تاثیر سے سیاہ آندھی آتی ہے اور میگ راگ کی تاثیر سے پانی برستا ہے۔
شاستروں میں لکھا ہوا ہے کہ مہا دیو نے آسمان کی گردش کی آوازیں سن کر سات سُر قائم کیے پھر ان کو سات سیاروں کی تعداد پر مرتب کیا گیا پھر بارہ بروج کے مطابق ان کے بارہ سُر قائم کیے گئے اور پھر ہر ایک کا علیحدہ نام رکھا گیا ان سب کا مجموعہ سرگم ہے۔ سات سر کو سپتھک کہا جاتا ہے یعنی سات سروں کا مجموعہ۔ ان سات سروں کو تین سے ضرب دینے پر اکیس سر ہوئے۔ اس اصول سپتھک پر ہارمونیم کے سُر قائم کیے گئے ، ان میں سے ہر ایک سر دوسرے سے اکیس درجوں تک اونچا ہوتا ہے۔
سارے گاما پا دھانی سے بارہ سر اس طرح بنے سارِ رِگ گ م مَ پَ دَھ دَھ نِی نِی
راگ : انسان کی زبان سے جو آواز گلے زبان تالو ، ہونٹ، ناک وغیرہ سے نکلتی ہے اس کو سُر کہتے ہیں۔
ہندوؤں میں چھ راگ اور چھتیس راگنیاں تسلیم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ۶ راگ یہ ہیں بھیرو راگ، مالکوس راگ ، راگ ہنڈول، دیپک راگ، شری راگ میگھ راک۔
مسلمانوں نے بھی اپنے دور اقتدار میں فن موسیقی کی زبردست سرپرستی کی اس میںاضافے کئے اور اس طرح اس فن کو ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ گو کہ اسلام میں موسیقی کو ناپسندیدہ اور خلافِ شریعت مانا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود عربوں ، ایرانیوں ، ترکوں، مغلوں ، افغانوں میں اس فن کے عظیم ماہرین پیدا ہوئے جن کے درخشندہ کارناموں کو قیامت تک فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ آج بھی ہندوستان میں فن موسیقی کے عظیم مسلم ماہرین کی بہتات ہے جن کی وجہ سے کہ فن زندہ ہے اور ترقی میں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
رسائل اخوان الصفا میں رسالہ موسیقی جس کا ماخذ ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی متوفی ۸۷۴ء ہے جو عرب کے شریف خاندان سے تھا۔ بصرہ میں ۷۹۰ء میں پیدا ہوا المامون ۳۳۔۸۱۳ء اور المستعصم ۴۲۔۸۳۳ء کے مزاج میں اسلامی تعصب اور مذہبی رنگ غالب تھا الکندی کی مذہبی ترقی پسندی اس نے پسند نہیں کیا اور اس کے تمام کتب خانے کو ضبط کر لیا۔ اس کو عرب کا فلسفی کہتے تھے۔ اس نے فلسفے کے علاوہ موسیقی پر بھی بہت سی کتابیں لکھیں اور موسیقی کو بہت ترقی دی اُس کی مشہور تصانیف میں سے رسالہ فی ترتیب النغم ۔ رسالہ بھی الایقاع الیٰ صناعۃ الموسیقی ۔ رسالہ فی الاخبار عن صناعۃ الموسیقی کتاب لعزم فی تالیف اللحون بہت مقبول ہوئیں۔
کمال لادین ابوالفضل جعفر بن تعلب الادنوی متوفی ۷۴۹ھ اپنی کتاب الامتاع میں لکھتے ہیں کہ ابو ہلال عسکری نے اپنی کتاب وائل الاعمال میں لکھا ہے کہ اکثر علما کا اتفاق ہے کہ پہلا شخص جس نے گانا گایا وہ طولیس ہے اس کا نام ابو عبدالمنعم عیسی ابن عبداللہ الداعب ۶۳۲ء سے ۷۰۱ء میدنے کا رہنے والا تھا۔ حضرت عثمان کی والدہ ہاروی نے اس کی پرورش کی فارسی غلاموں کے گانے سنے تھے جو اُس کو پسند آئے اور ان کی نقل کی۔ حضرت عثمان کی خلافت کے آخری دور میں ۶۴۴ء میں اس کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ اپنی مہارتِ موسیقی کی وجہ سے مدینے میں اس کی بہت عزت تھی۔
اس کو لوگ بہت منحوس مانتے تھے اس وجہ سے کہ وہ جس روز پیدا ہوا اسی روز حضرت محمد صلعم کا وصال ہوا جس دن اس کا دودھ چھڑایا گیا اسی روز حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتقال ہوا۔ جس روز بالغ ہوا اسی روز حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا جس دن اس کی شادی ہوئی اسی روز حضرت عثمانؓ کا انتقال ہوا۔
شام بن طویس سعید ابن مسیح نام ابو عثمان سعید ابن مسجع متوفی ۷۵۱ء مشہور ماہر موسیقی مکہ میں پیدا ہوا۔ ابن سریج نام ابو یحییٰ عبیداللہ ابن سریح ۷۲۶-۶۳۴ء ایک ترکی غلام کا لڑکا تھا۔ مکہ میں پیدا ہوا فارسی راگیں گاتا تھا زبردست ماہر موسیقی تھا اور اس نے فن میں قابل قدر اضافے کیے ابن مسجح کا شاگرد تھا طویس سے بھی کچھ سیکھا تھا۔ سکینہ بنت الحسین اس کی سرپرست تھیں۔
اسلامی دورِ اقتدار میں اسپین میں ایک عرب زریاب نامی وہ جامع کمالات ایک عظیم سائنس داں ہونے کے علاوہ زبردست ماہر موسیقی تھا جس نے موسیقی کو بہت ترقی دی اور اضافے کیے موسیقی پر بہت سی کتابیں لکھیں۔
ابو نصر فارابی ترکستان کے شہر فاراب میں ۲۵۹ھ نویں صدی عیسوی کے اواخر میں پیدا ہوا وہ ایک عظیم سائنس داں ، فلسفی ، ادیب اور ماہر موسیقی تھا اس نے مختلف موضوعات پر ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھیں۔ اس کی کتابوںکے ترجمے یورپی زبانوں میں ہوئے اس کو ارسطو ثانی کہا جاتا تھا مسلم دانشوروں میں وہ بہت اعلیٰ و ارفع حیثیت کا مالک تھا۔
ابوالحسن علی المسعودی : وہ نویں صدی عیسویں کے آخر میں بغداد میں پیدا ہوا وہ اک سائنس داں ، دانشور فلسفی اور عظیم ماہر موسیقی تھا جس نے کئی راگ و راگنیوں کا اضافہ کیا اور فن موسیقی کو بامِ عروج پر پہنچایا۔
شیخ الرئیس ابن سینا : ابن سینا بخارا کے ایک قصبے افشیہ میں ۹۸۰ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک عظیم سائنس داں اور ریاضی داں تھا۔ فن موسیقی کا بڑا ماہر تھا موسیقی پر اس کی کئی کتابیں ہیں۔
نصیرالدین طوسی : یہ ۱۸؍فروری ۱۲۰۱ء میں خراسان میں پیدا ہوا وہ ماہر سائنس داں تھا اس نے سائنس فلسفہ ریاضیات فلکیات نوریات جغرافیہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ وہ ایک عظیم ماہر موسیقی بھی تھا اور اس فن پر بھی اس کی بہت سی تصانیف ہیں۔
قبل از اسلام عربوں میں موسیقی کا بہت رواج تھا جسے اسلام آنے کے بعد بھی عربوں نے برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس میں زبردست اضافے کیے۔ طلوع اسلام سے کچھ پہلے عرب میں دو گانے والی عورتیں بہت مشہور تھیں جن کو عاد کی جرامہ تان کہتے تھے مکہ کے لوگ اُن کے گانے پر دل و جان سے فریفتہ تھے۔ اسی طرح بنو جدیس کی دو ماہر گانے والی لڑکیاں ہذیلہ اور عفیرہ تھیں بعض مورخین کا خیال ہے کہ حاتم طائی کی ماں بھی بہترین گانے والی تھی۔ الخنسا ایک مشہور مرثیہ گو تھی جو مرثیے گاتی تھی۔ اسی طرح ہند بنت عتبہ مشہور شاعرہ اور گانے والی تھی بنت عفرن بھی ایک ماہر موسیقار تھی۔ حریرہ اور خلیدہ بشیر ابن عمر کی گانے والی لڑکیاں جو النعمان ثالب متوفی ۶۰۲ء کے عہد میں الحرا کا سر برآ وردہ شخص تھا جو حضرت محمد صلعم کے دربار میں بعد ہجرت حاضر ہوا تھا۔ مالک ابن خیبر مغنی ایک اور گانے والا جو بنو طے کے ایک وفد میں ۶۳۰ء میں حاضر ہوا تھا ۔ طبری لکھتا تھا کہ یہ مالک ابن عبداللہ ابن خیبری تھا۔
چودھویں اور پندرہویں صدی میں جب مسلمانوں نے ہند میں اسلامی سلطنتیں قائم کیں اسی زمانے سے مسلمانوں نے فن موسیقی کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ سلاطین نے اپنے دربار میں ماہرین موسیقی کو داخل کیا اور موسیقی کو بہت اہمیت حاصل ہوئی اور فارسی راگوں نے ہندی راگوں سے مل کر نئی موسیقی کو جنم دیا۔ سلطان علا الدین خلجی ۱۳۱۶-۱۲۲۵ء کے دربار میں امیر خسرو مشہور شاعر و ماہر موسیقی داخل ہوئے۔ ان کو فارسی راگوں پر عبور تھا۔ قوالی کے علاوہ فارسی اور ہندی کی اور بھی کئی راگیںانہوں نے ایجاد کیں۔ ستار میں بھی انہوں نے ترقی دے کر نئی ترمیمات کیں۔ اُس زمانے میں گوپال نانک کی موسیقی کا شہرہ تھا۔ بادشاہ وقت نے اس کو بلا کر اس کا گانا سنا امیر خسرو نے اس کی راگوں کو بغور سنا پھر دوسرے موقع پر انہیں راگوں کو اُس سے بہتر گا کر سنا دیا۔
امیر خسرو نے جن راگوں اور راگنیوں کو موسیقی میں اضافہ کیا وہ یہ ہیں۔ (۱) مجر (غار اور فارسی ) ۲۔ سارگیری (یورپی+ گورا)۔ گن کلی + فارسی ۳ ۔ یمن (ہنڈول +فارسی) ۴۔ عشاق (سارنگ+بسنت +فارسی) ۵۔ (موافق (وڈی+ماسری فارسی دو کا و حسینی)، ۶۔ غنم (پوربی میں کچھ تبدیلی کی) ۷۔ زیلف (کھٹ رانگنی میں تصریف کیا) ۸۔فرغنہ (گن کلی + گورا) ۹۔ سرپردہ (گورسارنگ + فارسی) ۱۰۔ باخریز (دیکار+ فارسی ) ۱۱۔فردوست (کانھڑا + گوری+ پوربی+شیام کلیان+ فارسی) ۱۲۔ صنم (کلیان + فارسی)
امیر خسرو نے ستار میں بھی کچھ اضافے اور ترمیم کر کے اُس کو چار تاروں والا آلہ موسیقی بنایا اور چاروں تاروں کے الگ الگ نام دیئے یعنی پہلے تار کو کویزر کہا دوسرے تار کا نام مثنیٰ رکھا تیسرے تار کو مثلث کہا اور چوتھے تار کا نام بیم رکھا۔ ستار طبل اور دف عربوں کی ایجاد ہے۔ مگر ایران میں جب ستار پہنچا تو سہ تار کہا گیا یعنی تین تاروں والا باجا۔
مغلوں کے دور میں دکن سے کچھ ماہرین موسیقی دہلی آئے جن میں ترھٹ کے راجہ شیر سنگھ کے درباری لوچن کوی بھی تھے انہوں نے راگ ترنگی دریافت کیا۔ اکبر بادشاہ ۱۶۰۵-۱۵۴۳ء کو موسیقی کا بڑا شوق تھا۔ اس کے زمانے میں عربی فارسی راگوں کو ہندی راگوں میں ملا کر موسیقی کو نیا رنگ دیا گیا ، عہد اکبر ی میں ہری داس فقیر و رندا بن کا رہنے والا جو ماہر موسیقی تھا اور تان سین کا استاد تھا۔ تان سین گوالیار کا رہنے والا تھا۔ جسے شہنشاہِ موسیقی تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اکبر کا درباری تھا اس کو نو سو نناوے راگوں پر قدرت تھی۔ دیپک راگ اسی زمانے میں موقوف ہوئی اس لیے کہ اس سے اکثر آگ لگ جاتی تھی۔
اکبر کے دربار میں راجہ مان سنگھ گوالیاری موسیقی کا بہت بڑا سرپرست تھا آج تک گوالیار موسیقی کی روایات کا عظیم مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔
شاہجہاں کے دربار میں بھی گانے والوں کی بڑی عزت تھی اور اس دور میں بھی موسیقی نے بڑی ترقی کی اُس دور کا مشہور ماہر موسیقی جگن ناتھ نامی ایک شخص تھا جسے کوی راج کا خطاب ملا تھا۔ لال خاں جوتان سین کی اولاد میں سے تھا اور فن موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا اسے بھی بہت سے انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ایک موقع جگن ناتھ اور لال خاں کو شاہجہاں نے ان کی مہارت فن کے صلے میں ان کے وزن کے برابر چاندی جس کی قیمت چار ہزار پانچ سو روپے ہوتی تھی، انعام دیا۔
اورنگ زیب کے دور میں البتہ موسیقی کی ہمت افزائی نہیں ہوئی۔ اور نہ دربار تک رسائی ہوسکی۔ اس کا سبب اورنگ زیب کا مذہبی کٹر پن تھا۔ اس کے عہد میں ایک بار چند گوپیوں نے ایک جنازہ بنایا اور اسے لے کر روتے ہوئے اورنگ زیب کے محل کے قریب سے گزرے اور اورنگ زیب نے دریافت کیا کس کا جنازہ ہے تو دربایوں نے جواب دیا کہ موسیقی کا جنازہ ہے۔ لوگ دفن کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اورنگ زیب نے کہا کہ اس کو بہت گہری قبر میں دفن کریں تا کہ پھر کبھی باہر نہ آئے۔
انگریزوں کے دور میں ابتدا میں موسیقی راجہ و شہزادگان اور نوابان ہند کے درباروں تک محدود رہی۔ انگریز ہندی راگ راگنیوں کو بے اصول و بے قاعدے سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تا ہم سرولیم جونس اور سر ڈبلو او سے، کیپٹن ڈے اور کیپٹن دلار نے ہندی موسیقی کاکا فی مطالعہ کیا اور اس فن میں مہارت حاصل کی۔
سلطان حسین مشرقی بادشاہ جونپور فن موسیقی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے سات راگیں ایجاد کیں جو اب تک ماہرین گاتے ہیں، مخدوم بہا الدین ذکریا ملتانی متوفی ۶۶۶ھ ملتان کے قاضی اسلام اور بڑے درویش تھے موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھے ، اُن کی ایجاد کی ہوئی راگیں فن موسیقی کی کتابوں میں درج ہیں۔
سلطان عالم واجد علی شاہ اودھ کے نواب فن موسیقی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ انہوں نے دھنا سری، بھیم پلاسی اور ملتانی کو باہم ملا کر سلطانی راگنی ایجاد کی گئی۔
عہد اکبر کے ماہرین موسیقی : میاں تان سین ،شیخ محمد غوث گوالیاری کے بڑے محبوب تھے انہیں روضے سے متصل مدفون ہوئے۔
۲) سبحان خان نے مدینے میں حضرت محمد صلعم کے روضہ مبارک کے سامنے ایک نعت دھرپت راگنی میں گایا تھا، مدینے میں قیام کیا اور مرنے کے بعد جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
۳) سرگیان خان فتح پوری۔ ۴) چاند خاں ۵) سورج خاں (یہ دونوں بھائی تھے) ۶) تان ترنگ خاں پسرتان سین ۷) میاں چندو خاں ۸) میاں داؤد خاں ۹) ملا اسحاق ۱۰) شیخ خضر ۱۱) شیخ بجو ۱۲) حسن خان ۱۳) مرزا عاقل
فن موسیقی کو چھ راگ اور چھتیس راگنیوں میں بنیادی طور پر تقسیم کیا گیا لیکن اس کے بعد ان کو مزیدیوں بھی تقسیم کیا گیا کہ ہر ایک راگ کی بیوی جس کو بارما کہتے ہیں اور اُس کے لڑکے اور پھر ہر لڑکے کی بیویاں جس کی تفصیل فن موسیقی پر مرتب کتابوں میں درج ہے ان سب کا ذکر خود ایک طویل داستان ہے جس کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ ان تمام راگوں راگنیوں اور اُن کے ملحقات میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا کر ہزاروں کی تعداد میں راگیں اور راگنیاں بنتی گئیں۔
راگ راگنیوں کا دیوتا : ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ہر راگ اور راگنی کا ایک دیوتا یعنی موکل مانا گیا ہے جو اُس راگ راگنی کا محافظ ہے۔
یہ عقیدہ اہل ہنود میں اس طرح عام ہے جس طرح حکمائے یونان اور مسلمانوں میں اشراقین و مشائین تسلیم کرتے ہیں۔ مشائخین اس کو رب النوع کہتے ہیں اور اشراقین رب الاصنام سے تعبیر کرتے ہیں مجوسی اس کو اردی بہشت کہتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی اس فلسفے کے ماننے والے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی ہر مس اور افلاطوں وغیرہ بھی اس کے قائل تھے۔
ہند میں علا الدین خلجی سے محمد شاہ تک قریب سبھی فرمانراؤں نے موسیقی کی سرپرستی کی اور اس طرح موسیقی نے مندروں میں پوجا پاٹ کے ساتھ دربار میں بھی رسائی حاصل کی۔
امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں ایرانی نغمات کو شامل کیا۔ ستار و طبلہ جیسے ساز ایجاد کیے۔ قوالی ،خیال، مندروں کی دھرپد،دربار کی دھرپدر،اگنیاں ایجاد کیں۔ اکبر کے دور میں موسیقی نے بہت ترقی کی اور تان سین جیسے فنکار کو دنیا نے دیکھا۔ نواب واجد علی شاہ کے دربار میں ٹھمری اور دادر ایجاد کی گئی۔ پنجاب میں غلام نبی شوری میاں نے راگنی پٹہ ایجاد کی۔ جے پور میں جب رجب علی خان بین کار اور بہرام خاں ماہر موسیقی مشہور ہوئے۔
رام پور میں روشن خاں ڈاگر پیار خاں باسط خاں جعفر خاں صادق علی خاں جیسے استاد فن موجود تھے۔ نواب کلب علی خاں کے عہد میں بہادر حسین خاں، پیاز خان، امیر خاں، عنایت خاں، رحیم اللہ خاں، عظیم اللہ خاں، قطب بخش ، حیدر شاہ الفوزہ نواز اور بہت سے فنکار موجود تھے۔ ان کے علاوہ محمد حسین خاں وزیر خاں نبی بخش خاں بین کار عنایت حسین خاں نذیر حسین خاں فدا حسین خان ترودیئے بندہ خاں سارنگی نواز حفیظ خاں کریم خاں، ستار نواز بندہ ، دین محمد علی خاں صاحب ، زادہ حیدر علی خاں صاحب زادہ سعادت علی خاں، سید سجاد حسین سوز خواں اور ٹھاکر نواب علی خاں وغیرہ موسیقی کے درخشندہ ستارے تھے جن کا تعلق دربارِ رام پور سے تھا۔
ہندوستان کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک بھی موسیقی اور خاص طور سے ہندی موسیقی سے متاثر ہوئے افغانستان اور ایران میں بھی موسیقی کا جادو چلتا رہا۔ وسطی ایشیاء اور عرب علاقے پہلے ہی سے موسیقی کے بڑے مراکز بن چکے تھے۔ بو علی سینا نے قرنا اور شہنائی ایجاد کی۔ رفتہ رفتہ موسیقی نے یونان اور یورپ کو بھی متاثر کیا الغرض مسلمانوں نے پوری دنیا میں موسیقی کو معراج کمال تک پہونچایا۔ بیسویں صدی کے مشہور ماہرین موسیقی جن کا ہندوستان میں ڈنکا بجا وہ یہ ہیں وزیر مرزا قدرپیا، بندہ دین منے خاں، فضل حسین میاں علی، جان راحت حسین ،راحت حیدر جان، للن پیا ،اعظم پیا، فیاض خاں، ولایت حسین خاں، شفق اکبر آبادی ، استاد حافظ علی خاں۔
امراؤ استاد صادق علی خاں، معز الدین ،ملکہ جان ،زہرہ جان، بیگم اختر، اختری بائی فیض آبادی ، شمشاد بیگم، ثریا ،نور جہاں، استاد عبدالکریم ،نذر الاسلام، تصدق اسد، استاد اللہ دیے خاں، استاد عظمت حسین خاں ،مئے کش اکبر آبادی، ظہور خاں اور بیجو باورا ،بڑے غلام علی ،چھوٹے غلام علی، استاد علاؤ الدین خاں وغیرہ کے نام نامی ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہیں گے۔ سبھی مسلمان ماہرین فن موسیقی ہر قسم کے مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ تنگ نظری سے بالکل پاک اور مبّرا تھے۔
مندرجہ بالا فنکاروں کے علاوہ بر صغیر ہندو پاک کے صفِ اول کے ماہرین موسیقی کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حاجی سبحان خاں، نائک بخشو، بیجو نائک ،میاں رمضان خاں، تان رس خاں، میاں اچیل، امراؤ خاں، میاں نعمت خاں ، سدا رنگ، میاں من رنگ، احمد ابراہیم خاں ، استاد حاجی الطاف حسین خاں، ولایت حسین خاں، چاند خاں، سورج خاں، محمد غوث گوالیاری وغیرہ آفتابِ موسیقی فیاض خاں کو دھر پد ، خیال، ترانہ، سرگم، ٹھمری، دادرا ،غزل، سوز، سلام پر کامل عبور حاصل تھا۔ آفتابِ موسیقی کا خطاب مہاراجہ میسور نے عطا کیا۔ مہاراجہ اندور نے لاکھوں روپے کا نقد انعام ان کو دیا۔ تصدق خاں آگرے کے مشہور ماہرِ موسیقی تھے۔ ان کے والد کلن خاں بھی ماہر گانے والے تھے۔ تصدق کے مشہور پاکستانی شاگرد اسعد علی خاں تھے۔ ان کے علاوہ عطا حسین اور بندے حسین خاں بھی کافی مشہور ہوئے۔
شفق اکبر آبادی، نتھن خاں کے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے کلن خاں ،محمد بخش، کرامت خاں ،محمد خاں اور عبداللہ خاں سے تعلیم حاصل کی اور دھر پدکے ماہر ہوئے۔ محبوب خاں مشہور ماہرِ موسیقی تھے۔ یہ فیاض خاں آفتابِ موسیقی کے خسر تھے۔ استاد علی خاں شاستری سنگیت اور سرود کے ماہر مانے گئے ۔ان کے پرداد غلام بندی خاں قدیم ہندوستان کے ماہر موسیقی تھے۔ سنگیت سمراٹ استاد اللہ دیے خاں احمد ضلع علی گڑھ کے مشہور خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ مہاراجہ بڑودہ اور مہاراجہ کولہاپور کے دربار سے منسلک رہے وہ دھر پد، خیال، ترانے اور پٹے کے ماہر تھے۔ وہ نائیک بھی تھے ڈھائی ہزار سے زائد گانے گائے۔ سو برس میں اتنا بڑا فنکار موسیقی میں نہیں ہوا۔ ۱۹۴۶ء میں ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔
عظمت حسین خاں میکش اکبر آبادی ماہر موسیقی تھے۔ اپنے ماموں حاجی الطاف حسین اور اپنے چچا سنگیت سمراٹ استاد اللہ دیے سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۷۵ء میں انتقال ہوا۔ ظہور خاں رام داس میکش اکبر آبادی کے سگے نانا تھے۔ خورجہ کے رہنے والے اور زبردست ماہر موسیقی تھے۔ موسیقی میں رام داس تخلص کرتے تھے۔ راگ درباری کے ماہر تھے۔
ابراہیم خاں ریاست بوندی کے رہنے والے تھے ۔ نواب ٹونک کے یہاں ملازم تھے۔ راگ باگیسری کے ماہر تھے۔استاد حاجی الطاف حسین خاں میکش اکبر آبادی کے ماموں تھے۔ ظہور خاں رام داس کے لڑکے تھے۔ ۱۹۶۰ء میں سابق صدر حکومت ہند جناب راجندرپرساد نے ان کو کئی ایوارڈ عطا کیے۔ خیال اور رات پور پادھنا کے ماہر تھے۔
موجودہ دور میں پورے بر صغیر ہندوپاک میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان ماہرین موسیقی ریڈیو ، ٹی وی، فلم انڈسٹری وغیرہ میں پھیلے ہوئے ہیں جن کے نام بین الاقوامی دنیا میں چاند سورج کی طرح چمک رہے ہیں۔ مثلاً عبدالکریم خاں، عبدالوحید خاں، امیر خاں، بڑے غلام علی خاں، احمد حسین ، بیگم اختر، برکت علی خاں، فیاض خاں، منصور نزاکت علی ، سلامت علی، محمد حسن، مہدی حسین، مہدی حسن، غلام فرید صابری وغیرہ جنہوں نے غزل، قوالی، شاستری سنگیت وغیرہ میں بڑا نام کمایا۔
آلاتِ موسیقی کے ماہرین کی بھی ایک بڑی تعداد ہندوپاک میں اپنا جادو جگائے ہوئے ہے مثال کے طور پر عبدالحلیم، جعفر خاں علی، احمد حسین ،علی اکبر خاں اللہ رکھا، ذاکر حسین خاں، علاؤ الدین خاں، امجد علی خاں، بسم اللہ خاں، حافظ علی خاں، عمران خاں ولایت خاں وغیرہ۔

Urdu Nama – 6

Articles

اردو نامہ -6

Intekhab E Kalam Kumar Pashi

Articles

کمار پاشی کا منتخب کلام

کمار پاشی

۱
یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے
پرندے لوٹ کے آنے لگے اڑانوں سے

کوئی تو ڈھونڈ کے مجھ کو کہیں سے لے آئے
کہ خود کو دیکھا نہیں ہے بہت زمانوں سے

پلک جھپکتے میں میرے اڑان بھرتے ہی
ہزاروں تیر نکل آئیں گے کمانوں سے

ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی
دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں سے

شکار کرنا تھا جن کو شکار کر کے گئے
شکاریو اتر آؤ تم اب مچانوں سے

روایتوں کو کہاں تک اٹھائے گھومو گے
یہ بوجھ اتار دو پاشیؔ تم اپنے شانوں سے

۲

لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے
ہم بیابانوں میں تب خاک اڑانے نکلے

کھل گیا دفتر صد رنگ ملاقاتوں کا
حسن کے ذکر پہ کیا کیا نہ فسانے نکلے

عشق کا روگ کہ دونوں سے چھپایا نہ گیا
ہم تھے سودائی تو کچھ وہ بھی دوانے نکلے

جب کھلے پھول چمن میں تو تری یاد آئی
چند آنسو بھی مسرت کے بہانے نکلے

شہر والے سبھی بے چہرہ ہوئے ہیں پاشیؔ
ہم یہ کن لوگوں کو آئینہ دکھانے نکلے

 

 

۳

تیری یاد کا ہر منظر پس منظر لکھتا رہتا ہوں
دل کو ورق بناتا ہوں اور شب بھر لکھتا رہتا ہوں

بھری دوپہری سائے بناتا رہتا ہوں میں لفظوں سے
تاریکی میں بیٹھ کے ماہ منور لکھتا رہتا ہوں

خواب سجاتا رہتا ہوں میں بجھی بجھی سی آنکھوں میں
جس سے سب محروم ہیں اسے میسر لکھتا رہتا ہوں

چھانو نہ بانٹے پیڑ تو اپنی آتش میں جل جاتا ہے

صرف یہی اک بات میں اسے برابر لکھتا رہتا ہوں
کیا بتلاؤں پاشیؔ تم کو سنگ دلوں کی بستی میں
موتی سوچتا رہتا ہوں میں گوہر لکھتا رہتا ہوں
————————————————————————————————————

کمار پاشی کی منتخب نظمیں

ایودھیا! آ رہا ہوں میں

ایودھیا! آ رہا ہوں میں
میں تیری کوکھ سے جنما
تری گودی کا پالا ہوں
تری صدیوں پرانی سانولی مٹی میں کھیلا ہوں
مجھے معلوم ہے تو مجھ سے روٹھی ہے
مگر اب دور تجھ سے رہ نہیں سکتا
پرائے دیش میں گزری ہے جو مجھ پر
وہ خود سے بھی کبھی میں کہہ نہیں سکتا
ذرا سر تو اٹھا اور دیکھ
کتنی دور سے تجھ کو منانے آ رہا ہوں میں
تجھے تیرے ہی کچھ قصے سنانے آ رہا ہوں میں
ایودھیا! جانتا ہوں تیری مٹی میں اداسی ہے
نہ جانے کتنی صدیوں سے
مری بھی روح پیاسی ہے
کہ ہم دونوں کی قسمت میں خوشی تو بس ذرا سی ہے
بہت دن ہو گئے ہیں مجھ کو تیرے آسماں دیکھے
سنہری دھوپ دیکھے چمچاتی کہکشاں دیکھے
تری گلیاں ترے بازار اور تیرے مکاں دیکھے
وہ دن جو تجھ میں روشن تھے وہ برسوں سے کہاں دیکھے
بچھڑ کر تجھ سے جو منظر بھی دیکھے رائیگاں دیکھے
مگر ہاں یاد آیا
ایک منظر اور بھی محفوظ ہے مجھ میں
حویلی ایک چھوٹی سی اور اس میں نیم کے سائے
کہ جس میں آج بھی زندہ ہیں شاید میرے ماں جائے
اسی منظر کے پیچھے اور بھی دھندلے سے منظر ہیں
پرانی گم شدہ تہذیب کے گھر ہیں
جہاں خوابوں کی دنیا ہیں
جہاں یادوں کے دفتر ہیں
اندھیرے روبرو میرے
ستارے میرے اندر ہیں
کہیں رادھا کہیں سیتا کہیں بیاکل سی میرا ہے
کہیں پر کربلا ہے اور کہیں پر رام لیلا ہے
ترا میرا تو ان گنت جنموں کا قصہ ہے
کہ مجھ میں دور
صدیوں دور
گوتم اب بھی زندہ ہے
ہوا رک رک کے آتی ہے
جو گونجی تھیں ہزاروں سال پہلے
وہ صدائیں ساتھ لاتی ہے
مرے اندر جو میرے روپ ہیں
مجھ کو دکھاتی ہے
ایودھیا! میں ترے مرگھٹ کا باسی ہوں
مجھے تو جانتی ہوگی
مجھے معلوم ہے مجھ کو
مرے ہر نام سے پہچانتی ہوگی
اجڑ کر رہ گیا جو میں وہ میلہ ہوں
بھرا سنسار ہے پھر بھی اکیلا ہوں
تری مٹی سے جاگا ہوں
تری مٹی میں کھیلا ہوں
تری مٹی کو پہنا ہے
تری مٹی کو اوڑھا ہے
بہت جی چاہتا ہے اب تری مٹی میں کھو جاؤں
کئی صدیوں کا جاگا ہوں
تری مٹی میں سو جاؤں
ایودھیا! میرا باہر کربلا ہے
اندروں میرا کپل وستو ہے، مکہ ہے مدینہ ہے
مجھے تیرے پرانے اور روشن دن میں جینا ہے
بدن پر ہے ترا بخشا ہوا یہ کیسری بانا
ہے بھکشا پتر ہاتھوں میں
سفر میرا ہے اب تاریک راتوں میں
ایودھیا! سر اٹھا
اور دیکھ لے مجھ کو
تھکے قدموں سے اب تیری ہی جانب آ رہا ہوں میں
سفر تاریک ہے
پگ پگ پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں میں
مجھے آواز دے گھبرا رہا ہوں میں
تری خاطر جو برسوں سے چھپا رکھا ہے دل میں
وہ اجالا لا رہا ہوں میں
ایودھیا!
آ رہا ہوں میں
——————————————————————————

یہ گرتا ہوا شہر میرا نہیں

یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں
ہوا سے الجھتا ہوا میں چلا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں
رات کے دشت میں تیرے میرے مکاں
دور ہوتے چلے جا رہے ہیں
لہو کے اجالے بھی معدوم ہیں
اور تاریک گنبد میں معصوم روحوں کے کہرام میں
بے صدا آسماں کی طرف
خوں میں لتھڑے ہوئے ہاتھ اٹھتے ہیں تحلیل ہو جاتے ہیں
اور کہیں دور اپنی فصیلوں کے اندر بکھرتی ہوئی
نامرادوں کی بستی کے اوپر
ہوا سے الجھتا ہوا میں اڑا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں
میں بلاتا ہوں آواز دیتا ہوں اب اس حسیں شہر کو
جو پرانی زمینوں کے نیچے کہیں دفن ہے
کوئی آواز کانوں میں آتی نہیں ہے
میں شاید پرانی زمینوں کے نیچے بہت دور نیچے کہیں دفن ہوں
خوں میں لتھڑے ہوئے ہاتھ
تاریک گنبد
یہ اندھی ہوا
پھڑپھڑاتا ہوا ایک زخمی پرندہ
کہیں دور اپنی فصیلوں کے اندر بکھرتی ہوئی
نامرادوں کی بستی کے اوپر
میں جلتے پروں سے اڑا جا رہا ہوں
یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں ہے
———————————