Fikr o Nazar (Magazine) Editor Prof. Rahat Abrar

Articles

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مجلہ فکر و نظر

پروفیسر راحت ابرار

Iqbal Ba Chashme Dil by Hasnain Aaqib

Articles

اقبال بہ چشمِ دل

حسنین عاقب

Ibne Safi Mukhtasar Sawaneh Hayat

Articles

ابن صفی __مختصر سوانح حیات

محمد حنیف

ابن صفی ٢٦،جولائی ١٩٢٨ء کو الٰہ آباد ڈسٹرکٹ کے گائوں نارہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد صفی اللہ اور والدہ نزیرہ بی بی نے ان کا نام اسرار احمد رکھا ۔اسرار احمد کا خاندان نارہ کے راجہ ویشدر دیال سنگھ سے تعلق رکھتا تھا جو قبول اسلام کے بعد بابا صدیقی کے نام سے معروف ہوئے ۔ان کا مزار آج بھی نارہ میں موجود ہے ۔ابن صفی کے والدین کا تعلق ایک جاگیر دار گھرانے سے تھا ۔ان کے دادا مولوی عبدالفتح تقسیم سے قبل ایک اسکول ٹیچر تھے ۔والدہ نزیرہ بی بی کا خاندان حکیموں کا خاندان کہلاتا تھا ۔والدہ کے چچا ،تایا حکیم احسان علی اور حکیم رحمان علی نے طب پر مستند کتابیں چھوڑی ہیں۔ان کی فارسی کتابیں طب رحمانی اور طلب احسانی عرصے تک ہندوستان کے طبی مدارس میں شامل نصاب تھیں۔نزیرہ بی بی نے بڑی شفقت اور محنت سے اسرار احمد کی پرورش کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ انھیں بہتر دوستوں کی صحبت اورا چھے تعلیمی مواقع میسر آ سکیں۔
اسرار احمد کے بھائی ایثار احمد اور بہن غفیرہ خاتون بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔البتہ ان کی بہن عذرا رحمان (بلاغت خاتون) اور ان کا ساتھ ساری زندگی رہا ۔
اسراراحمد نے ابتدائی تعلیم نارہ کے پرائمری اسکول میں جبکہ ثانوی تعلیم مجیدیہ اسلامیہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔جب وہ آٹھ برس کے تھے تو انھیں طلسم ہوش ربا کی پہلی جلد پڑھنے کا اتفاق ہوا مگر زبان کے ثقیل ہونے کے باعث وہ اسے اچھی طرح نہ سمجھ پائے لیکن اس کی کہانی نے ان کے تخلیقی ذہن پر گہرا اثر مرتب کیا اس کے بعد انھوں نے طلسم ہو ش ربا کی ساتوں جلدوں کو باربار پڑھا ڈالا۔
اسرار احمد نے کم عمری میں ہی نثر لکھنا شروع کر دیا تھا ۔جب وہ ساتویں درجے میں پہنچے تو عادل رشید کے زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ ”شاہد” میں ان کی پہلی کہانی ”ناکام آرزو” شائع ہوئی۔آٹھویں درجے میں آنے کے بعد شاعری بھی شروع کر دی۔جگر مرادآبادی حواس پر چھائے ہوئے تھے چنانچہ ابتدا خمریات سے ہوئی ۔
اس دوران ان کے والدین الٰہ آباد منتقل ہوگئے اور حسن منزل کے فلیٹ نمبر پندرہ اور سولہ میں قیام پذیر ہوئے چنانچہ اسرار احمد نے میٹرک ڈی ۔اے۔وی اسکول الٰہ آباد سے کیا ۔انہی دنوں رائیڈرہیگرڈ کی”She”اور” “Return of Sheکا اردو ترجمہ عذرا اور عذرا کی واپسی کے نام سے پڑھنے کا موقع ملا ۔جس نے ان کے ذہن کو اسراریت کی طرف آمادہ کیا ۔میٹرک میں پہنچے تو بے بی کمیونسٹوں کا ساتھ ہو گیا جس کے باعث ان کی شاعری میں ظالم سماج اور سرمایہ دار در آئے ۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے باعث بدلتے ہوئے حالات نے انھیں کمیونسٹوں سے برگشتہ کر دیا ۔ان دنوں ترقی پسندی کا بھی بڑا چرچا تھا۔چنانچہ اسرار احمد بھی اپنے آپ کو اس سے دور نہ رکھ سکے ۔جس کے نتیجے میں ان کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ۔
اسرار احمد نے انٹر میڈیٹ کی تعلیم ایونگ کرسچین کالج الٰہ آباد میں حاصل کی۔یہ ایک مخلوط تعلیمی ادارہ تھا جہاں آپ کی شاعری پروان چڑھتی رہی۔کالج کے دوسرے سال بزم ادب کی صدارت ان کے حصے میں آئی چنانچہ سالانہ مشاعرے میں ان کی پڑھی جانے والی نظم”بنسری کی آواز” کو بے حد داد ملی ۔
١٩٤٧ء میں اسرار احمد جب الٰہ آباد یونی ورسٹی پہنچے تو ڈاکٹر سید اعجاز حسین کے لیکچر ز نے ذہنی نشو ونما کے نئے باب کھول دئیے ۔ لیکن یہ عرصہ کافی مختصر رہا کیوںکہ آزادی ہندوستان کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔اس سلسلے میں یونی ورسٹی میں بھی خنجر زنی کی ایک واردات ہو گئی چنانچہ بزرگوں نے آپ کا یونی ورسٹی جانا بند کرادیا ۔جب ١٩٤٨ء میںتقسیم پاک و ہند کے بعد حالات معمول پر آئے تو دوبارہ داخلے کی ہمت اس لیے نہیں پڑی کہ ان کے ساتھی اگلے درجے میں پہنچ چکے تھے ۔
الٰہ آباد یونی ورسٹی میں پرائیویٹ امیدواروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی ۔یوپی میں صرف آگرہ یونی ورسٹی ایسے طلبا کا واحد سہارا تھی ۔لیکن شرط یہ تھی کہ امیدوار کو کسی ہائی اسکول میں معلمی کا دو سال کا تجربہ ہونا چاہیے ۔چنانچہ پہلے اسلامیہ اسکول الٰہ آباد اور اس کے بعد یادگار حسین اسکول میں پڑھایا ۔اس طرح انھوں نے آگرہ یونی ورسٹی سے بی ۔اے کیا۔اس دوران ادبی ذوق کے باعث ان کے مراسم عباس حسینی اور ان کے بھائی جمال رضوی (شکیل جمالی) سے ہو گئے اور یوں ایک نئے گروپ کی تشکیل ہوئی جس میں عباس حسینی کے کزن سرور جہاں (مشہور مصور سرور جہاں عابدی) ،مجاور حسین رضوی (ابن سعید ) ڈاکٹر راہی معصوم رضا ،اشتیاق حیدر ،یوسف نقوی ،حمید قیصر ،قمرجائسی ،نازش پرتاب گڑھی اور تیغ الٰہ آبادی (مشہور شاعر مصطفی زیدی) شامل تھے ۔
١٩٤٨ء میں عباسی حسینی نے ایک ادبی رسالہ ماہنامہ ”نکہت” کی داغ بیل ڈالی ۔اسرار احمد حصہ نظم اور مجاور حسین نے حصہ نثر سنبھال لیا۔اس دوران اسرار احمد نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی شروع کی اور سنکی سولجر اور طغرل فرغان کے قلمی ناموں سے کہانیاں اور طنز و مزاح پر مشتمل مضامین لکھنے لگے ۔
اتنا کچھ لکھنے کے باوجود اسرار احمد اپنی تحریروں سے مطمئن نہیں تھے ۔آٹھ برس کا وہ لڑکا جس نے طلسم ہوش ربا کو اچھی طرح سے کھنگال ڈالا تھا اور جس کے ذہن پر رائیڈرہیگرڈ کی پراسرار زمین اور واقعات و اسرار نے قبضہ جما رکھا تھا وہ انھیں کچھ اور کرنے پر اکساتا رہا ۔
١٩٥١ء کے اواخر میں ایک ادبی نشست کے دوران کسی نے کہا کہ اردو میں صرف وہ کہانیاں مقبولیت کا درجہ پاسکتی ہیں جن میں جنسیت کا عنصر شامل ہو ۔اسرار احمد نے اس سے اختلاف کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اس کا متبادل سامنے لائیں گے ۔اسرا ر احمد کے مشورے سے عباس حسینی نے ماہنامہ ”جاسوسی دنیا” کا اجر ا کیا۔جس کے تحت اسرار احمد نے ابن صفی کے قلمی نام سے پہلا ناول ”دلیر مجرم” لکھا ۔یہ ناول مارچ ١٩٥٢ء میں شائع ہوا۔اس ناول کا پلاٹ وکٹر گن کے ناول آئرن سائڈزلون ہینڈ سے ماخوذ تھا جبکہ فریدی اور حمید کے کردار ابن صفی کے اپنے تخلیق کردہ تھے ۔دلیر مجرم کے بعد ابن صفی باقاعدگی سے جاسوسی دنیا کے لیے ہر ماہ ناول لکھتے رہے اور ان کی تحریروں کے چاہنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی رہی ۔
اگست ١٩٥٣ء میں جبکہ جاسوسی دنیا کے سات ناول شائع ہو چکے تھے ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر گئے جہاں ان کے والد صفی اللہ اپنے کام کے سلسلے میں پہلے سے کراچی میں مقیم تھے ۔ابن صفی نے جاسوسی دنیا کا آٹھواں ناول”مصنوعی ناک” دوران سفر تحریر کیا ۔کراچی آ کر ابن صفی پہلے پہل C-1ایریا لالو کھیت (لیاقت آباد) میں رہائش پزیر ہوئے ۔پاکستان آکر بھی ابن صفی تواتر کے ساتھ ہر ماہ جاسوسی دنیا کے لیے ناول تحریر کرتے جو کہ جاسوسی دنیا الٰہ آباد ہی سے شائع ہوتے رہے ۔١٩٥٣ء میںجب ان کی عمر صرف ٢٥ برس تھی وہ برصغیر پاک و ہند میںاردو پڑھنے والوں کے حواسوں پر چھا چکے تھے ۔لوگ بے چینی سے ہر ماہ ان کے ناول کا انتظار کرتے اور ٩ آنے قیمت کا ناول کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کو تیار ہو جاتے ۔
١٩٥٣ء میں ابن صفی ”ام سلمی خاتون” کے ساتھ رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔سلمیٰ خاتون ١٢،اپریل ١٩٢٨ء کو پیدا ہوئیں ۔ان کے والد محمدامین احسن سلطان پور ،انڈیا میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولس کے عہدے پر فائز تھے ۔ان کی والدہ کا نام ریاض فاطمہ بیگم تھا ۔سلمیٰ خاتون کا تعلق ایک تعلیم یافتہ مذہبی گھرانے سے تھا ۔مشہور شاعر محمد احسن وحشی ان کے دادا جبکہ چچا مولانا نجم احسن ،مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے ۔سلمیٰ خاتون کے بھائی مکین احسن کلیم روزنامہ مشرق لاہور کے چیف ایڈیٹر رہے اور ان کی بہن صفیہ صدیقی کا شمار بھی اچھے لکھنے والوں میں ہوتا ہے ۔
١٩٥٥ء میں ابن صفی نے ایک نیا کردار”عمران” تخلیق کرکے عمران سیریز کا آغاز کیا۔اس سلسلے کا پہلا ناول ”خوفناک عمارت” اگست ١٩٥٥ء میں اے اینڈ ایچ پبلیکشنز،١٣،حسن علی آفندی روڈ ،کراچی سے شائع ہوا۔الٰہ آباد میں عمران سیریز کے پہلے دو ناول ”خوفناک عمارت” اور ”چٹانوں میں فائر” ماہنامہ نکہت کے تحت عباس حسینی نے ”عمران کے کارنامے ” کے عنوان سے اکتوبر ١٩٥٥ء میں شائع کیے۔عمران کے کردار کو بھی قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں ہر ماہ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے ناول باقاعدگی سے شائع ہونے لگے۔١٩٥٦ء میںجاسوسی دنیا کی شعلہ سیریز نے ایک تہلکہ مچا دیا اور ابن صفی کی شہرت آسمانوں کو چھونے لگی۔
ابتدائی طور پرانڈیا میں عمران سیریز کے ناول ماہنامہ نکہت الٰہ آبادکے تحت شائع کیے جاتے تھے ۔عمران کے کارنامے اس قد ر مقبول ہوئے کہ ١٥،دسمبر ١٩٥٥ء کو نکہت کے ”ناول نمبر” میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا ۔
عمران سیریز کا چوتھا ناول ”بھیانک آدمی” جاسوسی دنیا کے تحت شمارہ ٤٩ کے طور پر مارچ ١٩٥٦ء میں شائع ہوا ۔اس کی وجہ جاسوسی دنیا کے گولڈن جوبلی ناول ”شعلوں کا ناچ” کی اشاعت میں تاخیر تھی ۔اکتوبر ١٩٥٦ء میںنکہت نے ”عمران نمبر”کے عنوان سے ”جہنم کی رقاصہ” اور ”سانپوں کے شکاری” یکجا کر کے شائع کیے ۔نومبر ١٩٥٧ء میں”عمران کی جاسوسی” کے عنوان سے نکہت نے ”دھوئیں کی تحریر” اور ”لڑکیوں کا جزیزہ” ایک ہی جلد میں شائع کیے۔بالآخر دسمبر ١٩٥٧ء میں عباس حسینی نے فیصلہ کیا کہ عمران سیریز کو ماہنامہ نکہت کے زیر اہتمام مستقل طور پر ہر ماہ شائع کیا جائے اور اس کی ابتدا عمران سیریز کے جو بیسویں ناول”پاگل کتے” سے ہوئی۔
ابن صفی کی شخصیت اپنے قارئین کے لیے اب تک اسرار میں گم تھی ۔چنانچہ قارئین کی بے حدفرمائش پر ابن صفی کی تصویر پہلی مرتبہ گولڈن جوبلی ”شعلوں کا ناچ” میں اپریل ١٩٥٦ء میں شائع ہوئی اور یوں لاکھوں مداح ان کی صورت سے آشنا ہوئے ۔
اکتوبر ١٩٥٧ء میں ابن صفی نے اسرار پبلیکشنز لالوکھیت کراچی کی بنیاد ڈالی اور یہاں سے جاسوسی دنیا کا جو ناول پہلے پہل شائع ہوا وہ ”ٹھنڈی آگ” تھا ۔یہ ناول بیک وقت الٰہ آباد سے بھی شائع ہوا۔
١٩٥٨ء میں ابن صفی اپنے نئے تعمیر شدہ مکان ناظم آباد نمبر ٢ میں منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بقیہ ماہ و سال گزارے۔اس کے ساتھ ہی جنوری ١٩٥٩ء میں اسرار پبلیکشنز ،فردوس کالونی کراچی نمبر ١٨ میں منتقل ہوگئی۔دفتر کے باوجود ابن صفی اپنے تخلیقی کاموں کے لیے گھر میں لکھنا زیادہ پسند کرتے تھے ۔عمران سیریز کے آغاز کے بعد ابن صفی ہر ماہ دو سے چار ناول لکھ ڈالتے تھے ۔جون ١٩٦٠ء تک ابن صفی جاسوسی دنیا کے ٨٨(پرنس وحشی) اور عمران سیریز کے ٤١ (بے آواز سیارہ) ناول لکھ چکے تھے ۔اس دوران اٹھوں نے جاسوسی دنیا کے میگزین ایڈیشن کا بھی اجرا کیا ۔یہ پاکستان میں ڈائجسٹ کی ابتدائی شکل تھی ۔اس کا پہلا شمارہ نومبر ١٩٥٩ء میں شائع ہوا لیکن اس کے چار شمارے ہی شائع ہوپائے ۔اس تیز رفتار تخلیقی عمل سے وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئے اور شیزوفرینیا اور نروس بریک ڈائون کا شکار ہوگئے ۔چنانچہ ١٩٦٠ء سے ١٩٦٣ء کے دوران وہ کچھ نہ لکھ پائے ۔بالآخر قریبی عزیزوں ،دوستوں اور لاکھوں مداحوں کی دعائوں کے علاوہ حکیم اقبال حسین کے علاج سے وہ صحت یاب ہوئے ۔
٢٥،نومبر ١٩٦٣ء کو ایک طویل انتظار کے بعد ابن صفی کی عمران سیریز کا ٤٢ واں ناول”ڈیڑھ متوالے” منظر عام پر آیا جس نے برصغیر پاک و ہند میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ۔ہندوستان میں اس ناول کی تقریب رونمائی آنجہانی لال بہادر شاشتری نے کی جو کہ اس وقت وزیر مواصلات تھے ۔ایک ہفتے کے بعد ہی اس ناول کا پہلا ایڈیشن فروخت ہو گیا ۔کئی شہروں میں یہ ناول بلیک میں فروخت ہوا ۔اس لیے اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جس کی تقریب رونمائی صوبائی وزیر قانون جناب علی مظہر نے کی ۔
صحت یابی کے بعد انھوں نے معالج کی ہدایت کے مطابق لکھنے کے عمل میں آہستگی پیدا کی ۔چنانچہ روزنامہ حریت میں ”ڈاکٹر دعاگو” کے عنوان سے عمران سیریز کا ناول قسط وار لکھنا شروع کیا ۔اس کے بعد ”جونک کی واپسی” اور ”زہریلی تصویر” بھی قسط وار چھپتے رہے ۔یہ ناول ہفتے میں دو بار اتوار اور بدھ کو شائع ہوتے تھے ۔
١٩٦٥ء کے دوران ابن صفی کے ناولوں کے یک رنگ ایڈیشن لاہور سے شائع ہونا شروع ہوئے ۔٢٧،جون ١٩٦٧ء کوابن صفی کے والد صفی اللہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اس دوران ابن صفی جاسوسی دنیا کا پلاٹینم جوبلی نمبر ”دیوپیکر درندہ” تحریر کر رہے تھے ۔٧٠، کی دہائی میں قومی ادارے آئی ایس آئی کی درخواست پر جاسوسی کے بنیادی طریق کار پر چند لیکچرز بھی دئیے۔
ابن صفی نے ١٩٧٣ء میںفلم پروڈیوسر نواب محمد حسین تالپر المعروف بہ مولانا ہپی کی فرمائش پر فلم ”دھماکہ” کی کہانی لکھی جو کہ عمران سیریز کے ناول”بے باکوں کی تلاش” پر مبنی تھی۔اس فلم کو ہدایت کار قمر زیدی نے ڈائریکٹ کیا ۔ابن صفی نے اس فلم کے مکالمے اور گیت بھی لکھے ۔حتیٰ کہ ہیروئن کے کپڑے بھی انھوں نے ڈیزائن کیے ۔فلم میں جاوید شیخ نے ظفر الملک اور مولانا ہپی نے جیمس کے کردار ادا کیے ۔”بیباکوں کی تلاش ” کی صبیحہ کا کردار شبنم نے بخوبی اد کیا ۔عمران اور ایکس ٹو کی ٹیم کو اس فلم میں پیش کرنے سے احتراز کیا گیا۔X2کی آواز کے لیے ابن صفی نے اپنی آواز دی۔یہ فلم کراچی میں ١٣،دسمبر ١٩٧ء کو ریلیز ہوئی لیکن چند تکنیکی وجوہ کی بناء پر خاطر خواہ کامیابی نہ حاصل کر سکی۔
جنوری ١٩٧٧ء میں مشتاق احمد قریشی نے ابن صفی میگزین کے عنوان سے ایک نئے ڈائجسٹ کا اجرا کیا ۔ابن صفی اس کے اعزازی مدیر اعلیٰ تھے ۔بعد میں چند قانونی دشواریوں کے باعث اس ڈائجسٹ کا نام نئے افق کر دیا گیا ۔
مارچ ١٩٧٧ء کے الیکشن کے دوران پاکستان ٹیلی وژن ،اسلام آباد سینٹر نے عمران سیریز کے ناول”ڈاکٹر دعاگو” کی ڈرامائی تشکیل کی ۔اس کا اسکرپٹ حمید کاشمیری نے تحریر کیا اور اداکار قوی خان نے عمران کا کردار ادا کیا ۔پی ٹی وی نے اس کی اشتہاری فلم بھی نشر کی۔لیکن الیکشن کے منسوخ ہو جانے کے بعد یہ ڈراما بھی نہ نشر ہو سکا ۔بعد میں مارشل لا حکام نے الیکشن کا سارا ریکارڈ ضبط کر لیا اور یوں یہ ڈراما کہیں ردی کی نظر ہو گیا ۔
١٨،جون ١٩٧٨ء کو ابن صفی کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ابن صفی نے ان کی جدائی کے کرب کو اپنی نظم ”ماں” میں سمودیا ۔
ستمبر ١٩٧٩ء میں ابن صفی کے پیٹ میں درد اٹھا تو انھیں ہسپتال لے جایا گیا ۔وقتی طور پر تکلیف رفع ہو گئی تو گھر واپس آ گئے ۔اس برس دسمبر میں یہ تکلیف دوبارہ ہوئی تو جناح ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں داخل کر ایا گیا۔اس وقت ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ انھیں لبلبے کا کینسر ہے ۔فیملی فزیشن ڈاکٹر سعید اختر زیدی اور ایک ڈاکٹر قمر الدین صدیقی نے ان کا علاج کیا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔پھر آخری دنوں میں جنرل فزیشن ڈاکٹر رب اور کینسر اسپیشلسٹ سید حسن منظور زیدی نے بھی ان کا علاج کیا لیکن مشیت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔دسمبر ١٩٧٩ء سے جولائی ١٩٨٠ء کے درمیان ان کی صحت تیزی سے گر رہی تھی لیکن انھوں نے لکھنا نہیں چھوڑا ۔ہفتہ ٢١،جولائی ١٩٨٠ء بمطابق ١٢،رمضان المبارک ١٤٠٠ھ کو فجر کے قریب اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر ابن صفی ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ان کا نامکمل عمران سیریز کا آخری ناول”آخری آدمی” ان کے سرہانے رکھا تھا ۔
ابن صفی نے پسماندگان میں اپنی اہلیہ سلمیٰ خاتون کے علاوہ چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیوں کو سوگوار چھوڑا ۔
١۔ ڈاکٹر ایثار احمد صفی ،ماہر امراض چشم ، ان کا انتقال ٣،جولائی ٢٠٠٥ء ہوا
٢۔ ابرار احمد صفی، میکانیکل انجینئر ،امریکا میں رہائش پزیر ہیں۔
٣۔ ڈاکٹر احمد صفی، مکانیکل انجینئر ،معاش کے سلسلے میں لاہور میں مقیم ہیں۔
٤۔ افتخار احمد صفی، الیکڑیکل انجینئر ، ریاض ،سعودی عرب میںرہائش پزیر ہیں۔
صاحبزادیوں میں نزہت افروز، ثروت اسرار اور محسنہ صفی شامل ہیں۔ابن صفی کی اہلیہ جمعرت ١٢،جون ٢٠٠٣ء کو اس دنیا سے انتقال فرما گئیں۔
ابن صفی نے جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے علاوہ بھی چند کتابیں لکھیں جن کے نام حسب ذیل ہیں:
١۔ پرنس چلی۔یہ ناول دلکش سیریز میں اولاً ”زلفیں پریشاں ہو گئیں” کے عنوان سے شائع ہوا لیکن بعدمیں مزید اضافہ کے ساتھ پرنس چلی کے نام سے شائع ہوا۔
٢۔ آدمی کی جڑیں۔یہ نفسیاتی ناول ابن صفی نے جاسوسی دنیا کے میگزین ایڈیشن کے لیے لکھنا شروع کیا تھا جو کہ نامکمل رہ گیا ۔
٣۔ بلدران کی ملکہ۔ معزز کھوپڑی، گلترنگ،شمال کا فتنہ، ان کی تخلیق کردہ ریاستوں شکرال، قلاق، اور کراغال کی نمائندہ طویل کہانیاں ہیں۔
٤۔ ”اب تک تھی کہاں”، مصر کے اساطیری ماحول میں پروان چڑھی ایک پراسرار کہانی جو کہ عالمی ڈائجسٹ میںقسط وار شائع ہوئی۔
٥۔ ”ڈپلومیٹ مرغ”۔”ساڑھے پانچ بجے”، ابن صفی کے لکھے گئے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مجموعے
٦۔ ”تزک دوپیازی” ۔دوپیازہ کی آپ بیتی جو کہ پیروڈی کے طور پر لکھی گئی۔
(بشکریہ ’اردو فلک ڈاٹ نیٹ)

Bahtareen Jadeed Afsane

Articles

بہترین جدید افسانے

انٹرمیڈیٹ کے لیے

Iqbal Aur Iqbaliat by Prof. Abdul Haq

Articles

اقبال اور اقبالیات

پروفیسر عبد الحق

Premchand ke Afsane

Articles

پریم چند کے افسانے

پریم چند

“Adeeb” Urdu Zaban o Adab Tareekh Number

Articles

سہ ماہی ’ادیب‘ کا اردو زبان و ادب تاریخ نمبر

مرزا خلیل احمد بیگ

Bayania Tareef o Tabeer by Dr. Abdur Rahman Faisal

Articles

بیانیہ - تعریف وتعبیر

ڈاکٹر عبدالرحمن فیصل

 

اردو میںNarrativeکاترجمہ ’بیانیہ‘اورNarratologyکا’بیانیات‘کیاجاتاہے۔ جدید تنقیدمیں نقدِبیانیہ اوراس کے نظریاتی مباحث کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔ اس نے باقاعدہ ایک شعبہ علم’بیانیات‘(Narratology)کی شکل اختیار کرلی ہے۔
’بیانیات‘مطالعۂ متن کاایک شعبہ (Discipline) ہے ۔جس میں بیانیہ کی ساخت(Narrative structure) کامطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ تھیوری صرف نظریاتی مباحث کامجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اطلاقی اہمیت وافادیت بھی مسلم کرتی ہے۔ یہ بیانیہ کے مختلف ترکیبی عناصرکی تعریف متعین کرتی ہے اوران اسباب پربھی غورکرتی ہے جن کے ذریعے بیانیہ متن معرضِ وجودمیں آتاہے۔ علم بیانیات کے ذریعے ایسے مخصوص ،بیانیہ اصول بھی مرتب کیے جاسکتے ہیں جوبیانیہ کی امتیازی خصوصیات کاتعین کرنے کے علاوہ اس کی مختلف سطحوں کی علاحدہ علاحدہ شناخت قائم کرنے میں معاون ہوں۔ غرض یہ کہ علم ’’بیانیات‘‘میں بیانیہ کی تھیوری ،اقسام، اوصاف اوراس کی اہمیت وافادیت کامطالعہ کیاجاتاہے۔
اردوادب میں اس موضوع پراب تک بہت کم لکھاگیاہے۔ لیکن مغرب میں بیانیہ کی تھیوری ،اس کے اوصاف ، اہمیت وافادیت پربہت کچھ لکھاجاچکاہے ۔Encyclopedia of literary Critics & Criticism میں بیانیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے :
“What are Narrative. Is a sequence of events connected by Causality and probability”. (1)
(ترجمہ:بیانیہ کیا ہے ؟یہ واقعات کا ایسا تسلسل ہے جو ممکنات اور سبب ونتیجے کی منطق سے مربوط ہوتا ہے۔)
Gerald Priceلکھتے ہیں:
“Narrative has been minimally defined as the Representation of at least one event one change in a state of affairs. In narrative discourse revisited, for example Gerard Genette wrote: the idea of minimal Narrative presents a problem of definition that is not slight [….] for me, as soon as there is an action or an envent, even a single one, there is story because there is a transformation, a transition from an earlier to a later and resultant state. (1983:18f).” (2)
(ترجمہ: کم سے کم الفاظ میں بیانیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ بیانیہ کم سے کم ایک واقعے یا ایک صورت حال میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیانیہ کلامNarrative) discourse )کی نظر ثانی میں، مثلاـ ژراژنت نے جو لکھا ہے کہ کم سے کم بیانیہ(minimal narrative) کا تصور بیانیہ کی تعریف کے مسائل کو پیش کرتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک جیسا میں نے کہا کہ صرف ایک عمل یا ایک واقعہ ہو تو وہ قصہ ہے کیوں کہ ایسی صورت میں ماقبل سے بعد کی طرف کوئی نہ کوئی نتیجہ خیز تقلیب ہوتی ہے۔)
Jerame Brunerبیانیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” A Narrative is an account of events occuring over time it is irreducibly durative.” (3)
(ترجمہ: بانیہ واقعات کا وہ بیان ہے جو ایک وقت مقررہ میں واقع ہوتا ہے اور اس کا کردارلازماً زمانی ہوتا ہے۔ )
Paul Cobleyاپنی کتاب Narrative the new Critical Idomمیں لکھتے ہیں:
” Story Consists of all the events which are to be depicted, Plot is the chain of causation which dictates that these events are some how and that they are there fore to be depicted in relation to each other… Narrative is the showing or the telling of these events and the mode selected for that to take place…Narrative is a sequence that is narrated.” (4)
(ترجمہ: کہانی ان تمام واقعات سے تعمیر ہوتی ،جسے بیان کیا جانا ہے۔پلاٹ اسباب کی وہ زنجیر ہوتا ہے جو یہ متعین کرتا ہے کہ یہ واقعات ایک دوسرے کی مطابقت میں بیان کیے جانے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بیانیہ ان واقعات کو بیان کرتا یا دکھاتا ہے اور یہ بھی طئے کرتا ہے کہ انہیں کس طرز پر بیان کیا جائیگا۔)
زرارژینت(Gerard Genette) بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگرہم خودکوصرف ادبی اظہار کی عمل داری تک محدود رکھیں توہم کسی دقت کے بغیر بیانیہ کی تعریف کرسکتے ہیں:
’’یہ زبان کے ذریعے اوربہ طورخاص تحریری زبان کے ذریعے ،حقیقی یا افسانوی واقعہ یاواقعات کے تسلسل کی نمائندگی ہے۔‘‘(۵)
بیانیہ کی تھیوری کے مضمرات اوراس کے امکانات کوپوری وضاحت کے ساتھ پیش کرنے والے ناقدین میں ایک قابل قدرنام ڈچ خاتون Mieke Balکا ہے۔ انھوںنے اپنی تصنیف “Narratology: An Introduction to the theory of Narrativeمیں بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
” A narrative text is a text in which a narrative agent tells a story.” (6)
(ترجمہ: ایک بیانیہ متن،وہ متن ہے جس میں ایک راوی کہانی بیان کرتا ہے ۔)
بال نے بیانیہ متن کو موضوع بحث بناتے ہوئے بیانیہ کی یہ تعریف وضع کی ہے ۔ اس کا اطلاق بیانیہ کی ان تمام اصناف پر ہوسکتا ہے جن کا ذریعۂ اظہار لسانی نشانات یعنی الفاظ ہیں۔
اردومیں سب سے پہلے ممتاز شیریں نے بیانیہ کے متعلق اپنے مضمون ’’ناول اورافسانے میں تکنیک کاتنوعـ‘‘میں لکھا ہے :
’’بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے ۔ جویکے بعددیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں۔ ہم بیانیہ کوبقول عسکری کہانیہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔‘‘(۷)
مندرجہ بالااقتباس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ممتازشیریں کے نزدیک بیانیہ سے مراد وہ تحریر ہے کہ کوئی شخص واقعات کوترتیب دے کر کوئی افسانہ تشکیل دیتاہے۔ شمس الرحمن فاروقی ، ممتازشیریںکے اس اقتباس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ممتاز شیریں(یامحمد حسن عسکری اوران کی اتباع میں ممتاز شیریں) بیانیہ سے وہ چیزمرادلیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جسے روسی ہیئت پرست نقاد وں خاص کربورس آئخن بام(Boris Eixenbam)نے Syuzetیعنی قصہ مروی کا نام دیاتھا۔ قصہ مروی سے اس کی مرادتھی واقعات اوران کی وہ ترتیب، جس ترتیب سے وہ قاری تک پہنچتے ہیں۔ Syuzetیعنی قصہ مروی کے متقابل شئے کوآئخن بام نے fabulaیعنی قصہ مطلق کانام دیاتھا۔ قصہ مطلق سے اس کی مرادتھی وہ تمام ممکن واقعات جوکسی بیانیہ میں ہوسکتے تھے،لیکن جن میں سے چندکو منتخب کرکے بیانیہ مرتب کیاجائے۔‘‘ (۸)
فاروقی صاحب بیانیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’بیانیہ سے مراد ہروہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ (event)یاواقعات بیان کیے جائیں۔‘‘(۹)
پروفیسرقاضی افضال حسین نے اپنے مضمون’’واقعہ راوی اوربیانیہ‘‘میں بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
’واقعہ کابیان اصطلاحاً بیانیہ کہلاتاہے۔‘‘(۱۰)
مندرجہ بالاتمام تعریفوں سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ واقعہ یاواقعات کابیان ،کم سے کم ایک صورت حال کا تبدیل ہونا، واقعات کاترتیب واربیان ،جوسبب اورنتیجے کی منطق پرمبنی ہوبیانیہ کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔
بیانیہ کی ان تعریفوں میں ایک لفظ ’’واقعہ‘‘(event)قدرمشترک ہے۔ یایہ کہیں کہ بیانیہ کے وجود کے لیے واقعہ شرط ہے ۔ توسوال یہ ہے کہ واقعہ کیاہے؟یاکسے کہتے ہیں؟میکے بال لکھتی ہیں:
“Events have been defined in this study as ‘the transition from one state to another state, Caused or experienced by actor s ۱۱؎
(ترجمہ:اس مطالعہ میں واقعہ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ ایک صورت حال سے دوسری صورت حال میں تقلیب ہے جس سے کوئی کردار گزرتا ہے یا اس کا تجربہ کرتا ہے۔)
Shlomith Rimmankenanلکھتا ہے:
“An event may be defined without great rigaur as somthing that happens, something that can be summed up by a verb or a name of action.”۱۲؎
(ترجمہ: ایک واقعہ کی بغیرکسی دشواری کے یہ تعریف کی جا سکتی ہے کہ’’کچھ ہوا‘‘( یعنی جو ہوا) اسے ایک ’فعل‘ یا ’عمل کے اسم‘ میں مجملاً بیان کیا جا سکتا ہے۔ )
واقعہ کی تعریف کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیںکہ:
’’وہ بیان جس میں کسی قسم کی تبدیلی حال کاذکرہوeventیعنی واقعہ کہاجائے گا۔‘‘
مثلاً حسب ذیل بیانات میںواقعہ بیان ہواہے:
(الف):
(۱) اس نے دروازہ کھول دیا
(۲) دروازہ کھلتے ہی کتااندرآگیا۔
(۳) کتااس کوکاٹنے دوڑا۔
(۴) وہ کمرے کے باہر نکل گیا۔
ان کے برخلاف مندرجہ ذیل بیانات کوواقعہ یعنی eventنہیں کہہ سکتے ،کیونکہ ان میں کوئی تبدیل حال نہیں ہے:
(ب):
(۱) کتے بھونکتے ہیں
(۲) انسان کتوںسے ڈرتاہے۔
(۳) ہرکتے کے جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔
(۴) کتے کے نوک دار دانتوں کودندان کلبی کہاجاتاہے۔(۱۳)
پروفیسرقاضی افضال حسین واقعہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جس عمل (حرکت) میں صورت حال تبدیل ہوتی ہواسے واقعہ کہتے ہیںاور صورت حال سے مراد وہ زمانی تسلسل ہے جس میں مظہر /تنظیم/اشیاء ایک ہی شکل میں قائم رہتی ہیں۔ اس تسلسل یاٹھہرائو یاتنظیم میں کسی عمل کے سبب تبدیلی رونماہوتی ہے تواسے واقعہ کہتے ہیں۔‘‘(۱۴)
واقعہ کی اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لسانی نشانات کے بیان میں جب ایک صورت حال کسی عمل کے سبب زمانی ومنطقی طورسے دوسری صورت حال میں تبدیل ہوتی ہے توواقعہ وجودمیں آتاہے اورواقعے کے لسانی اظہار یاتنظیم کو بیانیہ کہتے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال ذہن میں آتاہے کہ صورت حال تبدیل ہونے سے پہلے کابیان کیاکہلائے گا۔ کیونکہ وہ بھی اسی بیانیہ متن کاحصہ ہے ۔ ایک مثال کے ذریعے اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔ایک افسانہ نگاردن یارات کے کسی حصے کا منظر بیان کرتاہے یاکسی کمرے یامکان کی تصویر کشی کرتاہے تویہ ایک صورت حال ہوگی اور جب کسی عمل کے نتیجے میں اس صورت حال میں تبدیلی ہوتی ہے تووہ واقعہ ہوگا۔ مثلاً ’’رات کاسناٹا جنگل کی طرح سائیں سائیں کررہا تھا ، کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز کے علاوہ کہیں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔میں بسترپر لیٹا چھت کو گھورے جارہا تھا۔‘‘یہ ایک صورت حال ہے ’’کہ اچانک ایک دل دہلادینے والی دھماکے کی آواز سنائی دی ۔میں ڈرسے بسترپر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ ایک واقعہ ہوا۔ اس بیان میں صورت حال بیان کرنے والے لسانی نشانات کے ساختیاتی مجموعے کو ’’وصف حال‘‘ (Description)اورواقعہ کے بیان کو بیانیہ (Narration)کہتے ہیں ۔یعنی ایک مکمل متن، بیانیہ اوروصف حال سے مل کر تعمیر ہوتاہے۔
زرار ژینت(Gerard Genette)لکھتا ہے:
’’ہربیان حقیتاً دوقسم کی نمائندگی سے مل کربنتاہے۔ جومختلف تناسب میں ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوتے ہیںایک طرف عمل اورواقعات کی نمائندگی ہے ۔جواپنے خالص مفہوم میں بیانیہ ہے اوردوسری طرف اشیاء وکرداروں کا بیان ہے جوروئیداد اور تفصیل کانتیجہ ہے۔۔۔۔روئیدادکاتصور بیانیہ کے بغیر کیا جاسکتا ہے ،لیکن حقیقت میں یہ کبھی آزاد حالت میں نہیں ملتا:بیانیہ ،روئیداد کے بغیرقائم نہیں ہوتالیکن روئیداد پراس کایہ انحصار، متن میں اس کے غالب کردارکو متاثر نہیں کرتا۔ روئیداد بالکل فطری طورپر بیانیہ کالاحقہ ہے جوہمیشہ فرماں بردار ،ہمیشہ بہت ضروری غلام ہوتاہے اورکبھی دعویِ خود مختاری نہیں کرتا۔‘‘(۱۵)
وصف حال Descriptionبیانیہ کاایک لازمی جزو ہے یعنی ایک مکمل بیان /متن بیانیہ اوروصف حال سے مل کر تعمیر ہوتاہے ۔
بیانیہ کاتعلق چونکہ واقعہ سے ہوتاہے اورواقعہ صورت حال کی تبدیلی سے عبارت ہے اس لیے اس میں افعال کوکلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وصف حال (Description)کاتعلق اشیاء، افراد یاکسی موقع کی تصویر سے ہوتاہے جس میں مرکزی حیثیت اسماء کوحاصل ہوتی ہے۔
اقتباس ملاحظہ ہو:
’’بیانیہ کاسروکار فعل یاواقعہ سے ہے جوخالص تسلسلِ عمل ہے اور اس سبب وہ بیان کے ڈرامائی اورزمانی کردار پر زور دیتاہے۔ دوسری طرف روئیداد یا صراحتی بیان چونکہ یہ اشیاٗ اورمعروض پران کے ہمہ وقتی وجودکے حوالے سے غور کرتاہے اورعمل کے تسلسل کوبھی ایک منظرتصور کرتاہے۔ وقت کومعطل کرتااور بیانیہ کوایک مخصوص مکانی عرصے میں پھیلاتا محسوس ہوتاہے۔ اس طرح کلام کی یہ دواقسام دومتضاد رویّوں کااظہار کرتی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘(۱۶)
مذکورہ اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ بیانیہ کا سروکار فعل یا واقعہ سے ہے یعنی واقعہ فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ فعل سے تعلق ہونے کے سبب واقعہ کی کچھ صفات بھی ہوں گی جیسا کہ مذکورہ اقتباس میں ذکر ہوا ہے کہ بیان کے ڈرامائی اور زمانی کردار پر زور دیتا ہے۔ ڈرامائی کردار پر زور دینے کے معنی یہ ہوئے کہ واقعہ حرکت سے عبارت ہوگا یعنی ایک صورت حال جب دوسری صورت حال میں تبدیل ہوگی تو اس عمل میں سبب اور نتیجے کا تعلق ہوگا۔ دوسرا، زمانی کردار کے معنی یہ ہیں کہ اس عمل /حرکت میں ایک زمانہ بھی شامل ہوگا۔ فعل سے عبارت ہونے کے سبب واقعہ کی ایک صفت یہ بھی ہوگی کہ اس عمل کا کوئی نہ کوئی کرنے والا بھی موجود ہوگا۔ یعنی واقعہ جسے پیش آئے گا، اصطلاحاً اسے کردار کہتے ہیں۔ اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ تمام شرائط واقعہ کے بنیادی وصف ہیں۔
بیانیہ کے لیے واقعہ کاہوناشرط ہے ۔واقعہ حقیقی بھی ہوسکتاہے۔ یعنی خارج میں اس کاوقوع ہواہواورواقعہ خیالی بھی ہوسکتاہے۔ یعنی خارج میں اس کاوقوع نہ ہوبلکہ خیال یاجذبے کی غیرمادی دنیامیں ہو۔قاضی افضال حسین لکھتے ہیں:
’’ان دونوں صورتوں میں واقعہ کی تعریف نہیں بدلتی ہے لیکن اس کے بیان کی صفات وامتیازات بدلتے جاتے ہیں۔ مثلاً واقعہ اگر خارج میں ہو جس کی صفت یہ ہے کہ حواس کے ذریعے اس کاادراک ممکن ہواس لیے نتیجتاً اس کی تصدیق ہوسکے تواس کابیان خبر، تاریخ، سوانح، سفرنامہ یا روزنامچہ وغیرہ کہاجائے گا۔ اوراگرواقعہ نہ تو خارج میں ہواورنہ ہی اس کی تصدیق ممکن ہواورنہ تصدیق ضروری ہو۔تو اس کا بیان داستان افسانہ نگار یافکشن کی دوسری شکلیں کہلائے گا۔‘‘(۱۷)
اس طرح واقعہ کی نوعیت کے اعتبارسے بیانیہ (تحریری بیانیہ)کودوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ اول غیرافسانوی بیانیہ اوردوسراافسانوی بیانیہ ۔ کوئی بھی بیان یامتن خود بخود وجودمیں نہیں آتابلکہ کوئی اسے بیان کرتایاترتیب دیتاہے ۔ واقعہ بیان کرنے والے کواصطلاحاً راوی کہتے ہیں یعنی ہرنوع کے بیانیے میں ایک بیان کرنے والا موجود ہوتا ہے۔
بیانیہ حرکت وعمل کی تصویرپیش کرتاہے ۔اس کاتعلق صورت حال کی تبدیلی سے ہے۔بیانیہ اس وقت قائم ہوتاہے جب اس میں کسی واقعہ کاانعقاد یاکم از کم اس کے انعقاد کاامکان موجود ہو۔ کسی بھی عمل یاواقعے کاانعقاد لازماً کسی نہ کسی زمانے کاپابند ہوتاہے اوراسی کے سہارے بیانیہ یاتوسیدھے خطوط پر آگے بڑھتا ہے یااپنے گردوپیش پھیلتاہے۔ بیانیہ محض بیانِ واقعہ یا واقعات کاسلسلہ نہیں بلکہ واقعات کابامعنی سلسلہ ہوتاہے۔ دوسرے الفاظ میں واقعات ایک مربوط اورمنظم سلسلے کے تحت بیان ہوتے ہیںخواہ اس کاربط منطقی ہوزمانی ہو، سبب یانتیجے کی منطق پر ہویا یہ تعلق ایک کردار یاکرداروں کے مختلف صورت حال سے دوچار ہونے کے نتیجے میں پیداہو۔یعنی بیانیہ کے لیے واقعات میں معنی کی وحدت بنیادی شرط ہے۔
لسانی اظہارکے علاوہ اظہار کے وہ طریقے جن میں واقعہ بیان نہیں ہوتابلکہ واقعے کو آنکھوں کے سامنے پیش کیاجاتاہے ان کوبیانیہ کہاجائے گایانہیں مثلاًڈرامہ ،فلم، اخباری فلم وغیرہ ۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ:
’’یہ سوال بڑی حدتک پیش کردگی پرمبنی ہے اورپیش کردگی ہی پرمبنی کرکے خالص بیانیہ کوبھی تین انواع میں تقسیم کیاجاسکتاہے :
۱۔لکھاہوابیانیہ، جوزبانی سنانے کے لیے خصوصی طورپر لکھاگیاہومثلاً ناول، افسانہ، سفرنامہ، تاریخ وغیرہ۔
۲۔ایسابیانیہ جوصرف زبانی سنایاجائے مثلاً داستان، جب تک وہ غیر تحریری شکل میں ہو۔
۳۔ ایسابیانیہ جولکھاہواہو۔لیکن پہلے وہ زبانی سنایاگیاہویاجسے زبانی سنانے کی غرض سے لکھاگیاہو۔ مثلاً داستان جب وہ زبانی سنانے کے کام کی ہولیکن لکھ لیا گیا ہو یاچھاپ دیاگیاہو۔‘‘(۱۸)
گویا فاروقی صاحب بیانیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، تحریری بیانیہ اور غیر تحریری بیانیہ یعنی زبانی بیانیہ خصوصاً داستانوی بیانیہ۔
رولاں بارت لکھتا ہے:
’’دنیا میں بیانیے کی اقسام بے شمار ہیں… بیانیہ کے اظہار کے وسیلوں میں تحریری یا غیر تحریری، مدلل و مربوط زبان، ساکت یا متحرک تصاویر، جسمانی حرکات و سکنات، یا پھر ان سب کی آمیزش سے بنا کوئی وسیلۂ اظہار شامل ہے۔ بیانیہ اسطور،روایتی قصوں حکایتوں، داستانوں، مختصر افسانوں، رزمیوں، تاریخ، المیہ، ڈراما (تجسس ڈراما)، طربیہ مائم (Pantomime) ،مصوری (مثلاً کارپاکسیو کی کی پینٹنگ، سینٹ ارسلا کو یاد کریں)، دھندلے شیشوں کی کھڑکی، سنیما، کامکس، مقامی خبروں اور گفتگو، سب میں موجود ہوتا ہے۔ یہ ہیئتوں کے لامتناہی تنوع میں تو ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ بیانیہ ہر عہد میں، ہر مقام پر اور ہر سماج میں وجود رکھتا ہے۔‘‘(۱۹)
رولاں بارت کے اس بیان سے بیانیہ کی ہمہ گیر آفاقیت کے ساتھ ساتھ اظہار کے ان تمام طریقوں کا بھی علم ہوتا ہے، جن میں بیانیہ موجود ہوتا ہے۔ماہرین بیانیات نے بیانیہ پربہت توجہ صرف کی ہے ۔ شاید اسی لیے بیانیات کو جدید تنقید میں ایک اہم ترین مقام حاصل ہے ۔ بیانیہ کی دنیابہت وسیع ہے ۔اسے پوری زندگی کااستعارہ کہہ سکتے ہیں ۔بقول زویتان ڈارف (Tzvetan Todorov)’’بیانیہ برابر ہے حیات کے۔‘‘(۲۰)
رولاں بارتھ(Roland barth) کاخیال ہے کہ بیانیہ ہرعہد اور سماج اورہرجگہ موجود ہے ۔انفرادی اور اجتماعی طورپر ہر شخص کاحوالہ بیانیہ ہی ہے ۔’’بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں۔‘‘بیانیہ کی حیثیت بین الاقوامی ،ماورائے ثقافت اورماورائے تاریخ ہے ۔یہ بس موجود ہے جس طرح زندگی موجود ہے۔
رولاں بارتھ کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ’ بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں‘ ، کیوں کہ بیان کے ذریعے ہی اس دنیا میں ہرفرد اور معاشرہ کی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے ۔
٭٭٭
حوالہ جات حواشی:
۱۔ Encyclopedia of litrary Critics & Criticism: Edited by Chris Murray. V2-Pg793, 1999.
۲۔ Narrative Theory: Micke ball. v.I, Pg11,2004
۳۔ ایضاً ۔Pg217
۴۔ Narrative the new Critical Idiom: Paul Cobley. Pg-5 to 7, 2001, Routledge Newyork.
۵۔ بیانیہ کی سرحدیں : مترجم قاضی افضا ل حسین ،مشمولہ تنقید علی گڑھ ۔ص۱۶۴،۲۰۱۱ء
۶۔ Narratology: An Introduction to the theory of Narrative: Mieke ball.Pg-16, 1999. Second edition. University of Toronto Press.
۷۔ ناول اورافسانے میں تکنیک کاتنوع۔ممتاز شیریں۔ تنقید علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۸۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۵۳۔۲۰۱۱ء
۹۔ ایضاً۔ص۵۳
۱۰۔ واقعہ ،راوی اور بیانیہ ازقاضی افضال حسین ۔مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۱۱۔ Narratology: An Introduction to the theory of Narrative: Mieke ball.Pg-182, 1999. Second edition. University of Toronto Press.
۱۲۔ Shlomith Rimmon-Kenan : Narration Fiction, Contemporary Poetics Second Edition 2003 Routledge London Newyork
۱۳۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۵۳
۱۴۔ واقعہ ،راوی اوربیانیہ ازقاضی افضال حسین مشولہ ،تنقید،علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۱۵۔ بیانیہ کی سرحدیں :مترجم قاضی افضال حسین، مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص:۱۷۱۔۱۷۲
۱۶۔ رسالہ تنقید ششماہی علی گڑھ ۲۰۱۱ء،ص:۱۹۸)
۱۷۔ واقعہ ،راوی اوربیانیہ ازقاضی افضال حسین مشولہ ،تنقید،علی گڑھ ۔ص۲۰۴
۱۸۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۶۰
۱۹۔ بیانیہ کا ساختیاتی تجزیہ: ایک تعارف مترجم ارجمند آرا، مشمولہ تنقید ششماہی علی گڑھ، ۲۰۱۱ء، ص:۶۴
۲۰۔ رسالہ تنقید ،علی گڑھ ،مدیر قاضی افضال حسین ۔ص۶۲

Ahde Hazir mein Mashriqi Uloom by Obaidur R .Hashmi

Articles

عہد حاضر میں مشرقی علوم و افکار کی معنویت

پروفیسرقاضی عبید الرحمن ہاشمی

قبل اس کے کہ مختصراً مشرقی علوم و افکار کی ضرورت اور اہمیت بیان کی جائے، مشرق، اہل مشرق، خصوصاً اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صدیوں سے چلے آرہے مغربی تصورات و افکار سے بھی کسی قدر واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے جس پر بیسویں صدی میں بڑی خوش اسلوبی، ہمدردی اور خلوص کے ساتھ ایڈورڈ سعید نے اپنی معروف کتاب مشرقیات(Orientalism) میں روشنی ڈالی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ مشرقیات(Oriantalism) کی تحریک نے ان تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو وحشی، غیر مہذب اور پسماندہ بتایا جو مغربی دائرہ ٔاثر سے باہر تھے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد ان تہذیبی تبدیلیوں کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا جن سے مغرب کی سیاسی، عسکری اور اقتصادی توسیع پسندی میں آسانی ہوسکے۔ چنانچہ مشرقیات بنیادی طورپر بیک وقت استحصالی بھی تھی اور نوآبادیاتی بھی۔
مغربی معاشرے میں قرونِ وسطیٰ سے اسلام کے بارے میں مناظراتی صورت نظر آتی ہے کہ یہ ایک پرتشدد اور خطرناک عقیدہ ہے۔ جبکہ موجودہ مغربی فکر سر تاسر اسلام دشمنی اور کینہ پروری کی غماز ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں مغربی سیاحوں کے سفر ناموں میں کثرت سے بے سر پیر اور حیران کن بیانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان متون میں مسلمانوں کو بے دین، شہوت پسند، لالچی، ظالم اور وحشی کہا گیا ہے۔ ان کے نزدیک بظاہر یہی وہ بنیادی عناصر تھے جن سے مشرقی اسلام عبارت تھا۔ Divine Comedyمیں دانتے (1320d)نے حضور مقبولؐ کے خلاف صریح نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں۔ بہت سے یورپین دانشوروں اور مصنّفین نے اسی بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے جس میں کئی نام عالمی شہرت رکھتے ہیں، مثلاً Machiavelli(d1527)، سمن اوکلےSimon Ockley(d1720)، بولین ولیرسBoulain Villiers(d1722)، ڈائڈریٹDiderot (d1784)، مولیرMoliere (d1673)اور والٹیرVoltaire (d1778)وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جنھوں نے مسلمانوں، اسلام اور حضور مقبولؐ کے بارے میں نہایت ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پایرلوتی Pierre Lote (d1923)جو کہ عثمانیوں کا دوست سمجھا جاتا تھا اس کا خیال تھا کہ مسلم ممالک میں مقامی عورتیں شہوت پرست، بدچلن اور آوارہ ہوتی ہیں۔
نیپولین کے زیر نگیں مصر کے تذکرے میں فلابیر کہتا ہے کہ یہاں مردوں کی شہوت انگیزی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی داشتاؤں کے ساتھ قاہرہ کے شاہی محل کے سامنے کھلے میدان میں سب کے سامنے مباشرت کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس وجہ سے زیادہ حیران کن ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے مرد عورتوں کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں واضح قوانین دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل مغرب اور مغربی سیاحوں نے مسلمانوں کی شہوت زدگی کی جو تصویریں پیش کی ہیں انھوں نے کبھی اسلام کی تعلیم پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی، اس سے اسلام اور مسلمانوں کے سلسلہ میں غیر مسلموں کی عقل عامہ کی شدید کمی کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جیکولین سیزیری(Jecelune Cesari)اس تناقص کا سبب تلاش کرنے کے لیے اس تاریخی تناظر کی طرف اشارہ کرتی ہیں جب قرون وسطیٰ کے بعد بحیرۂ روم میں اسلام اور یورپ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بارے میں تمام اطلاعات یورپی نقطۂ نظر کی پیداوار ہیں جو ان سیاسی اور مذہبی تناقضات کی زائیدہ ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں اس طرز فکر کے ذریعہ شخصی اور ذاتی پسند و ناپسند کو بنیاد بنا کر اسلام کی سچائی کو ملبے کے نیچے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
یورپ میں اسلام سے متعلق مواد(Literature)کا تعلق سفر ناموں تک محدود نہیں ہے۔ ۱۸ویں صدی تک آتے آتے محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ریسرچ پہلے شروع ہوگئی تھی چنانچہ ان متعلقات نے استشراق(Orientalism) کی شکل میں بتدریج ایک باقاعدہ مبسوط ضابطۂ فکر کی شکل اختیار کرلی، تاہم اس عرق ریزی کے پس پشت ہمیشہ ایک ’غیر‘ کا ہی تصور کارفرما رہا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس بشری نقطۂ نظر نے نہ صرف یہ کہ یورپ کو تعصب سے آزاد نہیں ہونے دیا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور بالآخر اہل مغرب کو اعلان کرنا پڑا کہ اسلام مغربی اقدار اور بالعموم سائنسی ترقی کا دشمن ہے۔ استشراق(Orientalism)نے ایک ایسی سائنس اور خیالات کی روایت ڈالی جس کی اساس اس بات پر تھی کہ مشرق اور مغرب وجودیاتی (Ontological)سطح پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا اس نے ۱۸ویں صدی اور ۱۹ویں صدی میں اس بنیاد پر ایک بین الاقامی نوآبادیات کا جواز پیدا کیا۔
استشراق کی خاص دلیل یہ تھی کہ اسلام ہر طرح کی سائنس وتحقیق کو گناہ سمجھتا ہے جس نے مسلمانوں کو وحشی گروہ کے ساتھ جوڑ دیا۔ ارنیسٹ رینن (Mernes Renan D 1892)کے مطابق مسلمان سائنس سے نفرت کرتے ہیں، تحقیق کو غیر ضروری، غیر مفید اور فضول سمجھتے ہیں۔ فطری سائنس سے بھی انھیںنفرت ہے، یہ الگ بات ہے کہ رینن نے مسلمانوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی تائید میں کوئی ثبوت بہم پہنچانا ضروری نہیں سمجھتا ہے۔ یوں بھی وہ اسلام کے بجائے یہودیت پر اپنے کاموں کے لیے مشہور تھا اور سامی روایت پر تحقیق میں اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی تحقیقات میں سامی دشمنی کی بھی نمایاں جھلک موجود ہے۔ اس کے اسلام کے بارے میں متعصبانہ رویہ غالباً اس کی اسی ذہنی حالت سامی دشمنی کا پیدا کردہ تھا۔ اس نے اپنے مضمون’اسلام اور سائنس‘ میں مشرقی وسطیٰ میں مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار اسلام کو قرار دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ تمام سامی مذاہب و ثقافتوں میں اسلام کا مطمح نظر سائنس اور سائنسی خیالات کے بجائے صرف الہامی اکتسابات اور شاعرا نہ جوش و خروش تک محدود ہے۔ حالانکہ رینن جو کچھ کہہ رہا ہے اس کا زیادہ تر تعلق قرونِ وسطیٰ میں مغربی کلیساؤں سے وابستہ عیسائیوں کے سائنس کے بارے میں ذہنی رویے سے ہے۔
آج ان مستشرقین کی ذہنیت کے گہرے اثرات کو ان مغربی تجزیوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو انھوں نے مسلم دنیا کے تعلق سے کیے ہیں۔ مغربی میڈیا ان مظاہر سے بے حد متاثر ہے جو مسلم دنیا سے متعلق اہم نشانات اور اسلام کے ثقافتی تصورات کے بارے میں انتشار پیدا کرنے والے ہیں۔
تشدد اور ہٹ دھرمی کے واقعات کی فوری اطلاعات کے ذریعہ مغربی تخیل کو اسلام کے خلاف برگشتہ کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں میڈیا اسلام اور اسلامی دنیا کے مسلمانوں کی ایسی علامتی شبیہہ پیش کرتا ہے جس میں سیاسی اور نظریاتی بنیاد پرستانہ جہت شامل ہوتی ہے۔ مختلف میڈیا کے ذریعہ گمراہ کیے جانے کے سبب عوام کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ شام، الجیریا، ایران، مصر، افغانستان، ترکی اور عراق میں کیا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اہل مغرب میں جب تک اسلام کے بارے میں صحیح معلومات اور واقفیت نہیں ہوگی اس وقت تک وہ مذکورہ شبہے سے خوف زدہ رہیںگے۔ علاوہ ازیں موجودہ عہد میں مسلمان ملکوں میں اسلام کے بارے میں بڑھتی ہوئی واقفیت ان کے نزدیک بین الاقوامی گروہی دہشت پسندی کے مترادف رہے گی۔
اس مغربی نقطۂ نظر کو اسلامی دنیا کی بعض تحریکوں سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے۔ مثلاً انقلاب ایران، امریکی سفارت خانے کا محاصرہ، توڑ پھوڑ، انور سادات کا قتل (۱۹۸۱ء)، سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ، عرب اسرائیل جنگ، الجیریا اور افغانستان کا بحران اور حالیہ زمانے میں خصوصیت کے ساتھ شام اور عراق کے حالات کو مغربی میڈیا نے جس طرح پیش کیا ہے، اس سے کمیونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد ایک نئی نزاعی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے ہر بین الاقوامی واقعے کو اسلام سے منسوب کردینے کے باعث ، تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریے کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اسلام کی سیاسی جہت پر حد سے زیادہ اصرار کے باعث اس کی دینی حیثیت پر کسی قسم کی عالمانہ گفتگو آج کم ہی کی جاتی ہے چنانچہ مغرب کا دانشورانہ تخیل اسلام کو صرف ایک سیاسی محرک کی حیثیت سے ہی دیکھنے دکھانے پر مصر نظر آتا ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ آج ہماری زندگی اور اس کے تمام تر مظاہر و ممکنات، تہذیبی ادارے، علوم و فنون اور افکار و خیالات پر صحیح معنوں میں دانش مغرب کی مکمل حکمرانی ہے۔ مغربی سیاسی و نظریاتی تسلط اور تہذیبی بالادستی کا جو عمل ہمارے ملک میں خاموشی کے ساتھ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دو سو برسوں سے جاری تھا آج وہ اپنی مکمل صورت میں اپنے تمام تر عذاب و ثواب کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ تہذیبی یلغار کا عمل جو ابتدا میں بہت مدھم تھا گزشتہ کچھ برسوں میں صنعتی، مواصلاتی اور تکنیکی شعبوں میں برق رفتار ترقی کے طفیل اس قدر تیزی سے آگے بڑھا ہے کہ عقل حیران ہے اور یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ سیلاب کب، کس طرح اور کہاں جاکر تھمے گا۔
آج جہاں ہماری تمام تر معاشرتی زندگی، اس کے امتیازی خد و خال اور اقدار کو اپنی نیستی کا خطرہ درپیش ہے، خود ہمارے علوم و افکار بھی نوآبادیاتی اثرات سے اس قدر رنگین ہوچکے ہیں کہ ان کی الگ سے شناخت ایک مشکل مرحلہ بن چکی ہے۔ ہمارے جملہ علوم، ادبی و جمالیاتی افکار، مذہبی و روحانی اقدار، فنی و فکری کارگزاریاں اور ادارے نہ صرف عام بے اعتنائی کے شکار ہیں بلکہ بدیسی ثقافت کے ملبے میں دب کر یہ تمام سرمایۂ علم و دانش بتدریج معدوم ہوئے جاتے ہیں، چنانچہ تہذیب مغرب کی تحقیر یا اس کی گوناگوں برکات سے چشم پوشی کیے بغیر بھی جب ہم پچھلے کچھ برسوں میں اپنی علمی و فکری متاع کا جائزہ لیتے ہیں تو اطمینان سے زیادہ تشویش کو راہ ملتی ہے اس لیے کہ ہم نے نئی عمارت بنانے کی دھن میں نہ صرف سنگ و خشت اور رنگ و روغن مغرب سے مستعار لیا بلکہ عمارت کی بنیادبھی مستعار افکار کی سرزمین پر استوار کرتے رہے اور اسی پر فخر کرتے رہے۔ تاہم جس طرح ہماری ادبی و لسانی تاریخ میں پہلے بھی نو آبادیاتی ترجیحات کے غلبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی رہی ہے، مشرقی اور ہند اسلامی ثقافت سے وابستہ امتیازی اور آفاقی، فنی اور جمالیاتی اقدار پر زور دیا جاتا رہاہے۔ ہمارے عہد میں بھی مغربی افکار کی سرکش لہروں کے متوازی ایک لہر مشرقی علوم و فنون اور خالص ہندوستانی افکار و خیالات کے احیا اور اثبات کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ مغرب جو خود اپنے وجودی اور روحانی زخموں کا مداوانہ کرسکا اس کے ژولیدہ افکار ہماری تاریک راتوں کو کس طرح منور کرسکیں گے۔ اس طرز فکر کے نتیجے میں جہاں وسیع تر پیمانے پر زندگی کی ہر سطح پر از سر نو غور و خوض اور نقد و احتساب کا عمل تیز ہوا ہے ادبی سطح پر بھی عظیم کلاسیکی شاہکاروں کی شعریات کی بازیافت اور ان کو از سر نو جانچنے اور پرکھنے کا رجحان بھی تیزی پکڑ رہا ہے۔ مشرق کی منفرد علمی ادبی روایات اور ان کی گہری بنیادوں کی جستجو کا مقصد دراصل خود اپنی ہستی کو جواز فراہم کرنا اور اپنا شناخت نامہ ترتیب دینا ہے۔
اس نوع کی سرگرمی کی معنویت افادیت اور اہمیت موجودہ دور میں یوں بڑھ جاتی ہے کہ آج وہ تمام افکار و نظریات جن کی تعقل پسندی اور معروضیت کا بڑا شہرہ تھا، اکثر و بیشتر سرنگوں ہوچکے ہیں اور وہ تمام محل جو صرف مادی خیالات اور مغربی افکار کی بنیادوں پر استوار کیے گئے تھے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر رہے ہیں۔ میری مراد ترقی پسند تحریک کی فکری بنیادوں اور جدیدیت کے میلان کی پشت پر کارفرما فلسفے اور نظریات سے ہے۔
نئے عہد میں مشرقی اقدار کی جستجو کا ایک مفہوم ہماری، علمی ادبی روایات میں مضمر سچے مذہبی شعور و ادراک اور روحانی و قلبی واردات کی بھی تلاش و جستجو ہے جن کی آگہی سے دانش مغرب قاصر ہے۔ اساطیر، دیومالا، علامات، مابعد الطبعیاتی افکار اور وہ تمام فنی و لسانی لزوم جو ہماری خالص مشرقی ثقافت اور تخلیقی مزاج کا صدیوں سے حصہ رہے ہیں ان کی تعبیر و تشریح اور افہام و تفہیم موجودہ آگہی کا لازمی نتیجہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہماری علمی ، ادبی ، جمالیاتی اور فنی روایات میں مشرقی ، روحانی اور انسانی مآخذ و سرچشموں کو ڈھونڈنے کا عمل جس قدر تیز ہوگا اسی قدر سرعت کے ساتھ ہمیں اپنی علمی میراث کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا اور مغربی علوم کے مقابلے میں اپنے سرمایۂ علم و ودانش کے تئیں ہماری تحقیری روش بھی یکسر بدل جائے گی۔ تاہم اس عمل کو اگر کوئی Puritanismاور ترقی معکوس سے تعبیر کرتا ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہوگی۔ مشرق و مغرب کے بنیادی فلسفیانہ حقائق میں مماثلتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے علمی و ادبی ورثے اور اکتسابات کے امتیازات کو نمایاں کرنے کا عمل کسی طرح منفی یا Fanaticتصور ہرگز نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭

Guftagu Band Na Ho by Vaqar Qadri

Articles

گفتگو بند نہ ہو (مراٹھی نظموں کے تراجم)

وقار قادری