Urdunama 2
Articles
Tafheem E Kalam E Ghalib by Prof. Hameedi Kashmiri
Articles
تفہیم کلام غالب اکتشافی تنقید کے تناظر میں
پروفیسر حامدی کاشمیری
اکتشافی طریق نقد ہر اچھے اور بڑے شاعر کی طرح غالبؔ پر بھی پوری امکان خیزی کے ساتھ صادق آتا ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کلام غالب پر اسکی تطبیق اور عمل آوری کے امکانات لامحدود ہیں۔ اول اس لیے کہ تنقید کے اس طریقِ کار کی نتیجہ خیزی کے لیے یہ (کلامِ غالبؔ)زرخیزیت سے مالا مال ہے۔ دوم خود غالبؔ نے کئی جگہوں پر نظم اور نثرمیں اس نوع کے تنقیدی نظر یے سے ملتے جلتے نکات کی نشان دہی کی ہے۔اس طریق نقد کی روسے بلاشبہ غالب فہمی کے لیے ایک نیا تناظر فراہم ہوتا ہے اور غالب کی تخلیقی شخصیت آب و تاب اور آن بان کے ساتھ جلوہ گر ہوجاتی ہے۔
اس نظریے کی رو سے غالبؔ کے بارے میں بہ تکرار پیش کیا گیا یہ مفروضہ ختم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے شاعری میں شخصی زندگی ،معاصرت،تاریخ یا عقائد کے بارے میں اپنے خیالات کا راست اظہار کیا ہے،ان کے اشعار سے میکانکی انداز سے مختلف خیالات کے استحزاج کا عمل تنقیدی عمل سے نہ صرف مغایئر ہے بلکہ یہ غالب کی تخلیقیت کے نظام کو پس پشت ڈالنے کی مترادف ہے ۔شاعری خیالات سے نہیں بلکہ حسیاتی تجربات سے تشکیل پاتی ہے اور حسیاتی تجربات شاعر کی باطنی شخصیت کی تمام تر توانائیوں کا احاطہ کرتے ہیںجبکہ خیالات ،خواہ کتنے ہی گراتقدر کیوں نہ ہوں دانش مندی اور عقلیت کے ہی مظہر ہوتے ہیں جو کسی طرح شخصیت کی تکمیلیت کے دعویدار نہیں ہوسکتے۔
کلام غالب کو منطقی خیالات کے تشدد سے نجات دلانے اور اس کی آزاد نامیاتی خاصیت کے زیر اثر نادیدہ جہات کی جانب سفر کرنے والے تخلیقی تجربات کی شناخت کا عمل غالب فہمی کے لیے رازمے کی حیثیت رکھنا ہے۔یہ غالب سے صحیح معنوں میں متعارف ہونے کا عمل ہے۔ یہ عمل بنیادی طور پر نقاد سے شعر میں زبان کے مخصوص برتاؤ کے اصول وجوضوا بط سے گہری واقفیت کا متقاضی ہے۔شعر میں نثر کے خلاف زبان کا برتاؤ ترسیلیت کے روایتی معائر کی نفی کرتا ہے۔زبان فی نفسیہ اظہاریت کا وسیلہ ہے اور زبان ہی شعرکا وسیلہ اظہار بھی ہے لیکن شعر میں یہ روزمرّہ کی ترسیلی ضرورت کے برعکس شاعر کے کسی خیال، عندیے، عقیدے یا تصور کا اظہار نہیں کرتی۔یہ کہنا درست ہوگا کہ شعر میں برتاؤ میں آتے ہی اس کا ترسیلی برتاؤ کا لعدم ہوجاتا ہے ۔نثر میں بھی روزمرہ کی صورت قائم رہتی ہے،نثرنگار واضح اور برمحل الفاظ سے اپنے معنی کو سامع یا قاری تک پہنچاتا ہے اور اس کی ترسیلیت مددکا درجہ حاصل کرتی ہے ۔اس کے علی الرغم شعر میں جہاں متکلم شاعر کی نمائندگی نہیں کرتا ہے وہ ایک فرضی کردار کا روپ اختیار کرتاہے اور تمامتر تخٔیلی دنیا میں اپنے وجود کو منواتا ہے۔
اگر کلام غالبؔ میں زبان کا برتاؤ ترسیلیت اور واقعیت کی نفی کرتا ہے تو پھر اس کا تفاعل کیا ہے؟شعر ظاہر ہے زبان ہی سے شکل پذیر ہوتا ہے ،اس لئے اس کے تقاعل کا زیر بحث آنا ناگزیر ہے۔شعر میں زبان کا ایک منفرد اور مخصوص تفاعل ہے۔اس تفاعل کی شناخت انتقال معنی کے بجائے انسلا کاتی امکان پذیری سے ہوسکتی ہے ۔دراصل شعری عمل میں شاعر کے باطن میں اظہار طلب، سیال،اجنبی اور مختلف النوع مشاہدات،محسوسات اور واردات شعور اورلاشعور کے خطِ امتیاز کو مٹاکر کسی نئی صورت میں ڈھلنے کا امکان پیدا کرتے ہیں،الفاظ قواعد اور تزئیں کاری سے صرف نظر کرکے اس طرح ترکیب پذیر ہوتے ہیں کہ وہ معانی کی بندشوں سے نکل کر زیادہ سے زیادہ امکانی توسیعات کے ساتھ نادر اور نادیدہ تجربات سے معمور ہوجاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ الفاظ کی ترتیب تجربے کو بے پردہ کرتی ہے،یہ کسی قطعہ زمین پر بسیرنے کی چادر کی طرح سعحی طور پر پھیل نہیں جاتا بلکہ یہ آئس برگ کی طرح زیر آب رہتا ہے۔یہ الفاظ میں منتقل ہونے کے باوجود الفاظ میں مستور ہوتا ہے،اگر الفاظ کی ترتیب تجربے کو آشکار کرتی تو تفہیم کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔شاعری مثلاً غالب کی شاعری اصلاً تفہیم کا مسئلہ پیدا کرتی ہے اور قاری کے لیے اس کے اسرار کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں۔
نقاد شعر میں لسانیاتی عمل کو مرکز توجہ بناتے ہوئے ان انسلا کاتی امکانات کو دریافت کرتا ہے جو تجربے کے وسیع تر آفاق پر حاوی ہوں۔تجربہ بالعموم دوانواع کی صورتیں اختیار کرتا ہے۔اول یہ توسیع پذیر اطراف کی شناخت کرکے ایک عضوی کل میں ڈھلنے کے میلان کو ظاہر کرتا ہے ۔مختلف الاعناصر ہونے کے باوجود عضویت یا تکمیلیت پذیری کی طرف راغب ہوتا ہے ۔دوم موسیقی کی طرح لاجہتیت کی طرف نادیدہ،نوبہ نو اور متغیر پہلوؤں کو راہ دیتا ہے۔اول الذکر شناخت اورنمایاں ہونے کے رحجان کو راہ دیتا ہے جبکہ موخر الذکر مرکز گریز ہوجاتا ہے اور انار کے رنگوں کی طرح پھیل جاتا ہے۔دونوں صورتوں میں بہرحال یہ الفاظ ہی کا عمل ہے جو معجز نمائی کرتا ہے ۔کلام غالب سے صحیح رابطہ قائم کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ہم ان کے کلام میں اس نوح کے لسانیاتی عمل پر نظر رکھیں۔یہ الفاظ کے لغوی معانی کی نشاندہی کا عمل نہیں اور نہ ہی الفاظ کے ربط باہم سے کسی وسیع تر معنی کی تلاش ہے۔یہ دراصل الفاظ کی اپنے سیاق میں تجربے یعنی تخیلی صورت حال کی امکان پذیری کی دریافت کا عمل ہے۔ شاعر کے ہاتھوں الفاظ کی ترتیب مکمل ہوجاتی ہے تو شعر شاعر کی مداخلت سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ یہ اپنے طور پر اپنے وجود کا اثبات کرتا ہے اور آزادانہ عمل سے کرتا ہے۔اس کا یہی خود وضع کردہ انداز الفاظ کے تخلیقی برتاؤ کی توثیق کرتا ہے۔اسی نقطۂ نظر سے غالب کی منتخبہ شاعری معنی یا خیال کی عائد کردہ جبریت سے نجات پاتی ہے۔
الفاظ کے اس خود کارانہ عمل سے جو تجربہ شکل پذیر ہوتا ہے وہ نقاد کی حسی گرفت میں تو آسکتا ہے،لیکن یہ قاری کے لئے بہر طور گریزاں رہے گا،کیونکہ قاری خواہ کتنا ہی باذوق کیوں نہ ہو الفاظ کی تلازمی باریکیوں ،سیاقی روابط،معنوی امکانات اور ہئیتی ضوابط سے مطلوبہ واقفیت نہیں رکھتا۔لا محالہ وہ شعری تجربے میں شرکت کے لئے نقاد کی دست گیری کا طالب ہوتا ہے اور نقاد یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ وہ قاری کو شعری تجربے سے حتی الامکان روشناس کرائے گا ،وہ شعر کا مفہوم یا اس کا مرکزی خیال یا نثری روپ قاری تک منتقل نہیں کرتابلکہ وہ اس جہات آشناتجربے سے خود گزرتا ہے اور قاری کو بھی گزارتا ہے، چونکہ یہ کام اسے نثری زبان میں انجام دیتا ہے اس لئے ضروری طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا شعری تجربے کی اپنی رمزیت اور نزاکت کے ساتھ نثری زبان میں منتقلی ممکن ہے؟یہ منتقلی ممکن ہے بشرطیکہ نقاد نظم کے اجزا کی تشریح پر اترآئے اور نہ ہی تنقید کے نام پر نظم پر نظم لکھے۔وہ تجربے تک رسائی حاصل کرنے کیلئے قاری کو الفاظ کے معنی کے بجائے متنی سطح پر انسلاکاتی توسیعات کی جانب اشارہ کرے۔وہ اشارات سے کام لیتا ہے،یہ ضرور ہے کہ بعض الفاظ ،جو نظم کے سیاق میں اور اپنی انفرادی صورت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی توضیح طلب ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ توضیح نظم کی داخلی صورت سے پوری مطابقت رہتی ہے، یہ برہنہ توضیحی عمل کے مترادف نہیں۔یہ الفاظ کے اپنے سیاق میں اپنے برتاؤ (Behaviour) کا عمل ہے اور یہی عمل صورت پذیر تجربے کی اکشافیت کو خود نقاد کے لئے ممکن بناتا ہے اور اس کے توسط سے قاری کے لئے ممکن ہوجاتا ہے۔
ضمناًاس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ کوئی نقاد یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ جو تجربہ اس پر منکشف ہوا ہے وہ حتمی ہے یعنی تجربے کی جملہ اسراریت اس پر منکشف ہوجاتی ہے،چونکہ قاری اساس تنقید کے موئدین نے فن کی تفہیم کے ضمن میں قاری اور قاری میں فرق کیا ہے۔ یہاں تک کہ زمانی اعتبار سے بھی قارئین اور قارئین میں فرق روا رکھا گیا ہے،اس لئے نقاد اور نقاد میں بھی فرق ہوسکتا ہے ۔ہر نقاد اپنی زباں شناسی ،علمیت،ادراکیت اور احتیاسیت کے مطابق شعری لسانیات سے اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔نتیجتاً ہر نقاد پر اپنی استعداد کے مطابق تجربے کی اکتشافیت ممکن ہوگی۔لفظوں سے جو تجربہ نمود کرتا ہے وہ تخلیقیت کا کامل مظہر ہوتا ہے،وہ اسی فطری انداز میں لفظوں سے نمود کرتا ہے۔
جس طرح زمین سے پودا اگتا ہے یا لاوا پھوٹتا ہے،نقاد اپنی پوری احتساسی قوتوں کی بدولت اس کا ادراک کرتا ہے ۔یہ ایک نادرالوجود حیاتیاتی فنا منا کے ادراک کا عمل ہے۔ایک اجنبی حسین اور دلکش نامیاتی تجربہ ابھرتا ہے اور نقاد(قاری)کو حیرت ومسرت سے دوچار کرتا ہے اور اپنے بدلتے رنگوں اور متغیر اوضاع کی بنا پر تجسس کو راہ دیتا ہے ۔یہ تجربہ خالصاً حسیاتی ہوتو جمالیاتی نشاط پرمنتبح ہوتا ہے،یہ حسیاتی ہوتے ہوئے بھی مابعد طبیعاتی اور تمدنی نوعیت کا بھی ہوسکتا ہے یعنی یہ تحیر کے ساتھ ساتھ تفکر کو بھی انگیخت کرسکتا ہے۔غالبؔ کے تجربے بوقلموںہیں وہ خالصاً جمالیاتی بھی ہیں اور جمالیات سے مابعد الطبیعات کی جانب رواں ہوتے ہیںاور نشاط و تفکر کے امتزاج کو بھی پیش کرتے ہیں۔
شعری تجربہ کی نوعیت اور اسکی پہچان کے لئے شعر کی قرأت بھی توجہ طلب ہے۔شعر کے چند ابتدائی الفاظ میںنہ صرف بیاں کندہ کے خد وخال کو اجاگر کرتے ہیں ،بلکہ اس کی قرأت بھی تجربے کے ادراک کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی کردار واقعہ کے ارتباط و آمیز ش کو بھی سامنے لاتی ہے۔اس طرح سے اس ڈرامائی صورتِ حال کی نشاندہی ہوتی ہے جو کردار کے علاوہ منظر ، فضا، تنائو، تضاد اور طنزکی مدد سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ گویا لسانیاتی عمل سے ایک اجنی اور منفرد شعری کائنات کی نمود کی شناخت ہے۔ یہ کائنات حقیقی کائنات سے الگ ہے۔اس کے زمین و آسماں اور شمس و قمر الگ ہیں۔اس کے مظاہرسے و موجدات اور مخلوقات الگ ہیں۔ اس کے کردار اپنے عمل کا خود جواز ہیں جومربوط ہیں۔اس کائنات میں جو بھی ڈراما واقعہ ہوتا ہے،وہ اجنبیت کے باوجود انسانی ذہن کے لیے قابل قبول ہوتا ہے۔دراصل کوئی بھی چیز فن کی صورت میں ڈھل جانے کے باوجود ارضیت سے لاتعلق نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ فنکار آسمانوں سے آگے پرواز کرنے کے باوجود زمین سے پیوستہ ہوتا ہے اور اسکے حسی اور لاشعوری تجربات انسانی معنویت رکھتے ہیں۔
غالبؔ ایک بڑے فنکار ہیں۔انہوں نے لسانیاتی عمل سے معجزہ کاری کی ہے۔ انہوں نے اپنے باطنی وجود سے پھوٹنے والے لاتعداد تجربات کی ایک نادرہ کار ثروت مند اور رنگا رنگ کائنات خلق کی ہے۔ یہ کائنات انتہا نا آشنا اور زمانی اور مکانی اعتبار سے لا محدود ہے۔ یہی خود گرو خود آگاہ کائنات غالب کی بے بایاں تخلیقی قوتوں کا علامتی اظہار ہے اور اس میں باریابی کے لیے شعری لسانیات کی کارگزاری سے بھرپور واقفیت لازمی ہے۔
٭٭٭
Bare Aaloo ke Kuch bayaN Hujaye
Articles
بارے آلو کا کچھ بیاں ہوجائے
مشتاق احمدیوسفی
دوسروں کو کیا نا م رکھیں،ہم خود بیسیوں چیزوں سے چڑتے ہیں۔کرم کلا ،پنیر،کمبل اور کافکا،عورت کاگانا،مرد کا ناچ،گیندے کا پھول،اتوار کا ملاقاتی،مرغی کا گوشت،پاندان،غرارہ، خوبصورت کا شوہر۔۔۔۔ زیادہ حد ادب کہ مکمل فہرست ہماری فرد گناہ سے بھی زیادہ طویل اور ہری بھری نکلے گی ۔ گنہ گار سہی لیکن مرزا عبدالودود بیگ کی طرح یہ ہم سے آج تک نہ ہواکہ اپنے تعصبات پر معقولات کا نیم چڑھا کر دوسروں کو اپنی بے لطفی میں برابر کا شریک بنانے کی کوشش کی ہو۔مرزا تو بقول کسے ،غلط استدلا ل کے بادشاہ ہیں ،ان کی حمایت ووکالت سے معقول سے معقول ’’کاز‘‘نہایت لچر معلوم ہونے لگتا ہے۔اسی لیے ہم سب انھیں تبلیغ دین اور حکومت کی حمایت سے بڑی سختی سے باز رکھتے ہیں ۔ ان کی ایک چڑ ہوتو بتائیں۔فہرست رنگارنگ ہی نہیں ،اتنی غریب پرور بھی ہے کہ اس میں فقیر بے تقصیر کا نام بھی خاصی اونچی پوزیشن پر شامل رہ چکا ہے ۔بعد میں ہم سے یہ پوزیشن بینگن کے بھر ُتے نے چھین لی اور اس سے جیکی کینیڈی کے دولہا اونا سس نے ہتھیا لی ۔ مرزا کو آج جو چیز پسند ہے کل وہ دل سے اتر جائے گی اور پرسوں تک چڑ بن جائے گی۔ لوگ ہمیں مرزا کا ہمدم ہی نہیں ،ہمزاد بھی کہتے ہیںلیکن اس یگانگت وتقرب کے باوجود ہم و ثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مرزا نے آلو اور ابو الکلا م آزادکو اول اول اپنی چڑ کیسے بنایا۔نیز دونوں کو تہائی صدی سے ایک ہی بریکٹ میں کیوں بند کر رکھا ہے؟
بوئے یاسمن با قیست :
مولانا کے باب میں مرزا کوجتنا کھرچا ،تعصب کے ملمع کے نیچے خالص منطق کی یہ موٹی موٹی تہیں نکلتی چلی گئیں۔ایک دن کئی وار خالی جانے کے بعد ارشاد فرمایا’’ایک صاحب طرز انشاء پر داز نے بانی ند وۃ العلما ء کے بارے میں لکھا ہے کہ شبلی پہلایونانی تھا جو مسلمانوں میں پیدا ہوا ۔اس پر مجھے یہ گرہ لگانے کی اجازت دیجیے کہ یونا نیوں کی اس اسلامی شاخ میں اابو الکلا م آخری اہل قلم تھا جس نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی!‘‘ہم نے کہا’’ان کی شفاعت کے لئے یہی کافی ہے کہ انھوں نے مذہب میں فلسفے کا رس گھولا۔ اردو کو عربی کا سوز وآہنگ بخشا‘‘ فرمایا،’’ان کی نثر کا مطالعہ ایسا ہے جیسے دلدل میں تیرنا !اسی لیے مولوی عبدالحق اعلانیہ انھیں اردو کا دشمن کہتے تھے۔علم و دانش اپنی جگہ ،مگر ا س کو کیا کیجیے کہ وہ اپنی انا اور اردو پر آخری دم تک قابو نہ پاسکے ۔کبھی کبھار رمضا ن میں ان کا ترجمان القرآن پڑھتا ہوں تو (اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ مارتے ہوئے )نعوذ باللہ محسوس ہوتا ہے گویا کلام اللہ کے پردے میں ابوالکلا م بول رہا ہے !‘‘ ہم نے کہا ’’ لاحول ولا قوۃ! اس بزرگ کی تمام کردہ ونا کر دہ خطائیں تمھیں صرف اس بنا پر معاف کر دینی چاہئیں کہ تمھاری طرح وہ بھی چائے کے رسیا تھے ۔ کیا نام تھا ان کی پسند یدہ چائے کا؟اچھا سا نام تھا۔ ہاں !یاد آیا۔وہائٹ جیسمین !یا سمن سفید !‘‘
شگفتہ ہوئے فرمایا ’’ مولانا کا مشروب بھی ان کے مشرب کی مانند تھا۔ٹوٹے ہوئے بتوں کو جوڑ جوڑ کر امام الہند نے ایسا معبود تر ا شنے کی کوشش کی جو اہل سومنات کو بھی قابل قبول ہو۔ یونانی فلسفے کی عینک سے جب انھیں دین میں دنیا اور خد امیں ناخداکا جلوہ نظر آنے لگا تو وہ مسلما ن ہوگئے اور سچے دل سے اپنے آپ ایمان لے آئے ۔اسی طرح یہ چینی چائے محض اس لیے ان کے دل کو بھا گئی کہ اس میں چائے کے بجائے چنبیلی کے گجرے کی لپٹ آتی ہے۔ حالانکہ کوئی شخص جو چائے پینے کا ذرا بھی سلیقہ رکھتا ہے،اس لیے چائے پیتا ہے کہ اس میں چائے کی۔۔۔۔۔۔۔۔فقط چائے کی۔۔۔۔۔۔۔مہک آتی ہے ،نہ کہ چنبیلی کے تیل کا بھبکا!‘‘
ہم نے کہا،’’تعجب ہے! تم اس بازاری زبان میں اس آبِ نشاط انگیز کا مضحکہ اڑارہے ہو، جو بقول مولانا’طبع شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر ِعالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی۔‘ اس جملے سے ایسے بھڑکے کہ بھڑکتے چلے گئے۔ لال پیلے ہوکر بولے،’’تم نے لپٹن کمپنی کاقدیم اشتہار ’چائے سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے‘دیکھا ہوگا۔ مولانا نے یہاں اسی جملے کا ترجمہ اپنے مداحوں کی آسانی کے لیے اپنی زبان میں کیا ہے۔!‘‘ بحث اور دل شکنی کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہالیکن مزید نقلِ کفر کرکے ہم اپنی دنیا وعاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے ۔ لہٰذا اس تشبیب کے بعد مرزا کی دوسری چڑ یعنی آلو کی طرف گریز کرتے ہیں۔
یہ دانت سلامت ہیں جب تک :
مرزا کا ’’باس‘‘ دس سال بعد پہلی مرتبہ تین دن کی رخصت پر جارہا تھااور مرزا نے اپنے مشیروںاوربہی خواہوںکو جشن نجات منانے کے لیے بیچ لکژری ہوٹل میں لنچ پر مدعو کیاتھا۔وہاںہم نے دیکھا کہ سمندری کچھوے کا شوربہ سُڑ سُڑپینے کے بعد مرزا مسلم کیکڑے (مسلّم کے معنی یہ ہیں کہ مرحوم کی سالم ٹانگیں،کھپرے، آنکھیں اور مونچھیں پلیٹ پر اپنی قدرتی حالت میں نظر آرہی تھیں) پر ٹوٹ پڑے۔ہم نے کہا،’’مرزا! ہم نے تمھیں چہکا مارتی خمیری نان کھاتے دیکھا ہے، کھروں کے چٹپٹے سریش میں ڈبو ڈبوکر ،جسے تم دلّی کے نہاری پائے کہتے ہو۔ مفت کی مل جائے تو سڑاندی سارڈین یوں نگلتے ہوگویا ناک نہیں رکھتے اور تواور رنگاماٹی میں چکماقبیلے کی ایک دوشیزہ کے ہاتھ سے نشیلاکسیلا جیک فروٹ لپ لپ کھاتے ہوئے فوٹو کھنچواچکے ہو۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔اس کے بعد پشاور میں چڑوں کے پکوڑے کھاتے ہوئے بھی پکڑے جاچکے ہو۔تمھارے مشربِ اکل وشرب میں ہر شے حلال ہے سوائے آلو کے!‘‘
کھِل گئے ،فرمایا،’’ہم نے آج تک کسی مولوی ۔۔۔۔۔کسی فرقے کے مولوی کی تندرستی خراب نہیں دیکھی۔ نہ کسی مولوی کا ہارٹ فیل ہوتے سنا۔ جانتے ہو کیا وجہ ہے؟ پہلی وجہ تو یہ کہ مولوی کبھی ورزش نہیں کرتے۔دوسری وجہ یہ کہ سادہ غذا اور سبزی سے پرہیز کرتے ہیں!‘‘
ہوٹل ہـٰذا اور آلو کی عمل داری :
سبزی نہ کھانے کے فوائد ذہن نشین کرانے کی غرض سے مرزا نے اپنی زیر تجربہ زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کیا جو آلو سے کیمیائی طور پر متاثر ہوئے تھے۔ ذکر آلو کا ہے۔انہی کی زبان غیبت بیان سے اچھا معلوم ہوگا۔تمھیں تو کیا یاد ہوگا؟دسمبر ۱۹۵۱ء میں منٹگمری گیاتھا۔پہلی دفعہ کراچی سے باہر جانے کی مجبوری لاحق ہوئی تھی۔ منٹگمری کے پلیٹ فارم پراترتے ہی محسوس ہوا گویا سردی سے خون رگوں میں جم گیا ہے۔ادھر چائے کے اسٹال کے پاس ایک بڑے میاں گرم چائے کے بجائے مالٹے کا رس پیے چلے جارہے تھے۔ اس بندۂ خدا کو دیکھ دیکھ کر اور دانت بجنے لگے۔ کراچی کا دائمی حبس اور بغیر کھڑکیوں والا کمرہ بے طرح یاد آئے ۔قلی اور ٹانگے والے سے صلاح ومشورے کے بعد ایک ہوٹل میں بستر لگادیا۔جس کا اصلی نام آج تک معلوم نہ ہوسکا۔لیکن منیجر سے لے کر مہتر تک سبھی اسے ہوٹل ہٰذا کہتے تھے۔ کمرہ صرف ایک ہی تھا جس کے دروازے پر کوئلے سے بحروفِ انگریزی واردو’’کمرہ نمبرا‘‘ لکھاتھا۔ ہوٹل ہٰذا میں نہ صرف یہ کہ کوئی دوسرا کمرہ نہیں تھا ، بلکہ مستقبل قریب یا بعید میں اس کی تعمیر کاامکان بھی نظر نہیں آتا تھاکیونکہ ہوٹل کے تین طرف میونسپلٹی کی سڑک تھی اور چوتھی طرف اسی ادارے کی مرکزی نالی جو شہر کی گندگی کو شہر ہی میں رکھتی تھی، جنگل تک نہیں پھیلنے دیتی تھی۔جزیرہ نمائے کمرہ نمبر۱، میں ’’اٹیجڈ باتھ روم‘ تو نہیںتھا،البتہ ایک اٹیجڈتنور ضرور تھا۔ جس سے کمرہ اس کڑاکے کی سردی میں ایسا گرم رہتاتھاکہ بڑے بڑے سنٹرلی ہیٹیڈ(Centrally Heated) ہوٹلوں کو مات کرتا تھا۔ پہلی رات ہم بنیان پہنے سورہے تھے کہ تین بجے صبح جو تپش سے ایکا ایکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ امام دین بیرا ہمارے سرہانے ہاتھ بھر لمبی خون آلود چھری لیے کھڑا ہے۔ ہم نے فوراً اپنی گردن پر ہاتھ پھیرکر دیکھا۔ پھر چپکے سے بنیان میں ہاتھ ڈال کر پیٹ پر چٹکی لی اور پھر کلمہ پڑھ کے اتنی زور سے چیخ ماری کہ امام دین اچھل پڑااورچھری چھوڑکربھاگ گیا۔تھوڑی دیر بعددوتین بیرے سمجھا بجھاکراسے واپس بلالائے۔ اس کے اوسان بجا ہوئے تو معلوم ہوا کہ چھری سے وہ ننھی منی بٹیریں ذبح کر رہاتھا۔ ہم نے ایک وقار کے ساتھ کہا،’’ عقلمندآدمی! یہ پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘اس لیے فوراً اپنی بھول کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ وہ پہلے ہی بتا دیاکرے گا کہ چھری سے بٹیر ہی ذبح کرناچاہتا ہے نیز اس نے آسان پنجابی میں یہ بھی یقین دلایا کہ آئندہ وہ چیخ سن کر ڈرپوکوں کی طرح خوفزدہ نہیں ہوا کرے گا۔
ہم نے رسان سے پوچھا،’’تم انھیں کیوں ذبح کررہے تھے؟‘‘ بولا’’ جناب ! ضلع منٹگمری میں جانور کو حلال کرکے کھاتے ہیں۔ آپ بھی کھائیں گے ؟‘‘ ہم نے قدرے ترش روئی سے جواب دیا ’’ نہیں!‘‘ اور ریلوے ٹائم ٹیبل سے پنکھا جھلتے ہوئے سوچنے لگے کہ جولوگ دودھ پیتے بچوں کی طرح جلدی سوتے اور جلدی اٹھتے ہیں ،وہ اس رمز کو کیا جانیں کہ نیند کا اصل مزہ اور سونے کا صحیح لطف آتا ہی اس وقت ہے جب آدمی اٹھنے کے مقررہ وقت پر سوتا رہے کہ اسی ساعت ِ دزدیدہ میں نیند کی لذتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی جانور کو صبح دیر تک سونے کی صلاحیت نہیں بخشی گئی۔ اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر خودکو مبارکباد دیتے دیتے صبح ہوگئی اور ہم پوری اور آلو چھولے کا ناشتہ کرکے اپنے کام پر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد معدے میں گرانی محسوس ہوئی،لہٰذا دوپہر کوآلو پلائو اور رات کو آلو اور پنیرکاقورمہ کھاکر تنور کی گرمائی میں ایسے سوئے کہ صبح چار بجے بیرے نے اپنے مخصوص طریقے سے ہمیں جگایا۔جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
ناشتے سے پہلے ہم سر جھکا ئے قمیص کا بٹن نوچ کر پتلون میں ٹانکنے کی کوشش کررہے تھے کہ سوئی کھچ سے انگلی میںبھک گئی۔بالکل اضطراری طور پر ہم نے انگلی اپنی قمیص کی جیب پر رکھ کر زور سے دبائی ،مگر جیسے ہی دوسری غلطی کا احساس ہوا تو خون کے گیلے دھبے پر سفید پائوڈر چھڑک کر چھپانے لگے اور دل میں سوچنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے بیوی بھی کیا چیز بنائی ہے لیکن انسان بڑ اہی نا شکرا ہے ۔اپنی بیوی کی قدر نہیں کرتا۔اتنے میں بیرا مقامی خالص گھی میں تلی ہوئی پوریاں لے آیا۔منٹگمری کا اصلی گھی پاکستان بھر میں سب سے اچھا ہوتا ہے۔اس میں چار فی صد گھی ہوتاہے۔بیرے نے حسب معمول اپنے ابروئے تساہل سے ہمیں کرسی پر بیٹھنے کا اشا رہ کیااور جب ہم اس پر ۴ کے ہندسے کی طرح تہرے ہوکر بیٹھ گئے تو ہمارے زانوپر گیلا تولیہ بچھایا اور اس پر ناشتے کی ٹرے جما کر ر کھ دی ۔ ۱؎
ہم نے نگاہ اٹھا کر دیکھاتو اسے جھاڑن منہ میں ٹھونسے بڑے ادب سے ہنستے ہوئے پایا ۔ہم نے پوچھا ’’کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ وہ تو منیجر صاحب ہنس رہے تھے۔بولتے تھے،’’ہم کو لگتا ہے کہ کراچی کاپسنجر بٹیر کو تلئیر سمجھ کے نہیں کھاتا!‘‘
ممکن ہے بعض شکی مزاج قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر کمرے میں میز یا اسٹول نہیں تھا تو بان کی چار پائی پر ناشتہ کیوں نہ کر لیا۔ شکایتہ نہیں ،اطلاعاً عرض ہے کہ جیسے ہی منٹگمری کا پہلا مرغ پہلی بانگ دیتا ،بیرا ہماری پیٹھ اور چار پائی کے درمیان سے بستر ایک ہی جھٹکے میں گھسیٹ لیتا۔ اپنے زوربازو اور روز مرہ کی مشق سے ا س کام میں اتنی صفائی اور مہارت پیدا کرلی تھی کہ ایک دفعہ سرہا نے کھڑے ہوکر جو بستر گھسیٹا تو ہما را بنیان تک اتر کر بستر کے ساتھ لپٹ کر چلا گیا اور ہم کھری چارپائی پر کیلے کی طرح چھلے ہوئے پڑ ے رہ گئے ۔پھر چارپائی کو پائینتی سے اٹھا کر ہمیں سر کے بل پھسلاتے ہوئے کہنے لگا ،’’صاحب !فرنیچر خالی کرو !‘‘وجہ یہ ہے کہ اس فرنیچر پر سارے دن ’’پروپرائٹر اینڈ منیجر ہوٹل ہٰذا ‘‘ کادربار لگا رہتا تھا۔ایک د ن ہم نے اس بے آرامی پر پرُ زور احتجاج کیا تو ہوٹل کے قواعد وضوابط کا پنسل سے لکھا ہوا ایک نُسخہ ہمیں دکھایا گیا،جس کے سرورق پر’’ضابطہ فوجداری ہوٹل ہٰذا ‘‘ تحریرتھا۔اس دفعہ ۹کی رُو سے فجر کی اذان کے بعد ’’پسنجر ‘‘کو چارپائی پر سو نے کا حق نہیں تھا۔البتہ قریب المرگ مریض ۔زچہ اور یہود و نصارٰی ا س سے مستثنیٰ تھے لیکن آگے چل کر دفعہ ۲۸(ب)نے ان سے بھی یہ مراعات چھین لی تھیں۔اس کی رُو سے زچہ اورقریب المرگ مریض کو زچگی اور موت سے تین دن پہلے تک ہوٹل میں آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ خلاف ورزی کرنے والوںکو بیروں کے حوالے کردیا جائے گا۔
ہر چیز کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں ۔ایک تاریک،دوسرا زیادہ تاریک لیکن ایمان کی بات ہے اس پہلو پر ہماری نظر بھی نہیں گئی تھی اور اب اس غلط فہمی کا ازالہ ہم پر واجب ہوگیا تھا۔پھولی ہوئی پوری کا لقمہ پلیٹ میں واپس رکھتے ہوئے ہم رندھی ہوئی آواز میں اس جعل ساز پرند کی قیمت دریافت کی بولا’’زندہ یا مردہ؟‘‘ہم نے جواب دیا کہ ہم تو شہر میں اجنبی ہیں ۔فی الحال مردہ کو ہی ترجیح دیں گے۔کہنے لگا’’دس آنے پلیٹ ملتی ہیں ۔ایک پلیٹ میں تین بٹیریں ہوتی ہیںمگر جناب کے لئے تو ایک ہی راس کافی ہوگی!‘‘
قیمت سن کر ہمارے منہ میں بھی پانی بھر آیا ۔پھر یہ بھی تھاکہ کراچی میںمویشیوں کا گوشت کھاتے کھاتے طبیعت اکتا گئی تھی۔لہٰذا دل ہی دل میں عہد کرلیا کہ جب تک منٹگمری کا آب ودانہ ہے ،طیور کے سوا کسی چیز کے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔لنچ پر بھنی ہوئی بٹیر،چائے کے ساتھ بٹیر کا تنوری چرغا،سونے سے پہلے بٹیرکا آب جوش۔اس رہائشی تنور میں فرد کش ہوئے ہمیں چوتھا دن تھا‘‘اور تین دن سے ہی یہی اللّے تللّے تھے۔
(طویل مضمون سے اقتباس)
٭٭٭
(مشمولہ سپ ماہی ’’نقیبِ تعلیم‘‘ ، بھیونڈی، دسمبر 2013)
Saamraj, Nai Nauaabadiyat aur Radd e Nauaabadiyat
Articles
سامراج نئی نوآبادیات اور رد نوآبادیات
احمد سہیل
نوآبادیات کوئی ’جدید مظہر‘ نہیں ہے۔ قدیم ادوار میں یونانی ، رومن مورز اور عثمانیہ میں نوآبادیات کو فروغ حاصل ہوا۔ بعد ازاں اس نوآبادیاتی نظام کو برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمن، ہالینڈ، پرتگال اور بلیجیم نے توسیع دی۔ ’کالونی‘ کی اصطلاح ’کالونوس‘ (Colonus)سے اخذ کی گئی ہے۔ جس کے معنی ’کسان‘ کے ہیں۔ جدیدنوآبادیات پندرہویں صدی کے لگ بھگ شروع ہوا۔ جب ۱۴۸۸ء میں جنوبی افریقی ساحلوں پر مغربی قوموں نے نوآبادیات قائم کی۔ امریکا کو ۱۴۶۲ء میں نوآبادیات بنایا گیا۔ نوآبادیاتی نظام سے یہ معنی لیے جاتےہیں کہ لوگوں کو ایک علاقے سے نقل مکانی کرکے نئی نوآبادیاں قائم کرتے ہیں اور وہاں کی زمینوں، قوانین، صفت و حرفت ، ثقافت اور نظام حکومت پر قبضہ کرتے ہیں اور مقامی آبادی کو ان کے تہذیبی ورثے اور نظام معاشرت کو کم تر محسوس کرواتے ہیں اور اپنی احساس برتری کو ان پر حاوی کردیتے ہیں اور اتنی ناانصافیاں کرتے ہیں جو جبر یہ بشری استحصال بھی ہے جس میں نوآبادیاتی قوتیں مقامی آبادی پر خودمختاری اور بالواسطہ طریقے سے اپنا غاضبانہ نظام چلاتی ہے۔ نوآبادیات ایک قوم کا دوسری قوم پر غلبے کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ یورپی اقوام نے اپنی نوآبادیات قائم کرنے کے لیے جو جنگیں لڑیں وہ عام طور پر ان سرحدوں سے بہت دور لڑی گئی۔ ان جنگوں کے تمام منفی اثرات ایشیا اور افریقی قوموں پر پڑے مگر ان نوآبادیاتی تباہ کاریوں اور انسانی استحصال کے بعد یورپی سامراجی قوتیں اپنے طور پر امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور یورپ میں ہونے والی سائنسی ترقیوں کو نوآبادیات سے آنے والے دولت، وسائل اور غلاموں کے سبب ان کی معیارِ زندگیوں کو بلند سے بلند مقام تک پہنچادیا۔
نوآبادیاتی نظام کا مظہر فلحال غیر وضاحتی اور غیر واضح ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نوآبادیات، پس نوآبادیات، نئی نوآبادیات اور نئی نئی نوآبادیات کی اصطلاحوں کی تشریح و تفہیم کے لیے ایک دوسرے سے تقابل کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسے ایک ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں سامراجی اور نوآبادیاتی متغیرات کے حسب مراتبیات کے متغیروں کے طور پر شناخت کرواتا ہے مگر اس سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں اس میں اس نظریے کے نظریہ دان اور محققین ترمیم اور ردِّوبدل کرنا پسند نہیں کرتے اور نوآبادیات… سامراج کی تعریف سے اپنے لہجے کے ماڈل کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔
اب بشریات میں بھی نوآبادیات کی نئی مباحث ہوئیں ہیں جن میں نوآبادیاتی نظام و نظریے کو تاریخ ادب اور نوآبادیاتی ماضی کا تناظر میں مطالعہ کرکے ان کے درمیان حدود کو مٹایا یا کم کیا جارہا ہے۔ سفریات (سیاحت) کے مطالعوں اور ’نسل نگاری‘ ، بشریاتی نوآبادیاتی مطالعوں کو نئی نوآبادیات کو معکوسی سمت بھی دی۔ ۱۹۶۰ء کے نوآبادیاتی بشری مطالعوں میں دو فردعی نمائندگی کو ایک جدوجہد اور فکری مکالمے کے تجزیات کے سیاق میں پیش کیا گیا۔جس نے نوآبادیاتی آقاؤں کو تاریخ اور نوآبادیات پر ازسرِ نو سوچنے اور لکھنے پر مجبور کیا۔ کیونکہ نوآبادیاتی حکومتوں نے اپنی ہی نہیں بلکہ محکوم قوموں کی تاریخ اور ثقافت کی شکل بھی بگاڑدی۔ جس میں تہذیبی مسماریت اور نوآبادیاتی قوموں کی ’احساس برتری‘ حاوی تھی۔ ثقافتی مطالعوں میں ثقافتی، تہذیبی افتراقات سے ہی ’نسلی دبستان‘ کی بنیاد پڑی جس میں اولین موضوعات نوآبادیات سے متعلقہ مباحث کے ہی ہوتے ہیں۔
مغرب سے بھی نوآبادیات ایک عرصے اخلاقی، معاشرتی و سیاسی اہلِ فکر کے لیے تشویش کا باعث رہا اور صلیبی جنگوں کے بعد اور امریکہ کی سول وار تک سیاسی دانشور سیاسی دانشور نے غیر ملکی ؍مغرب کی سازشی حکمت عملیاں، قدرتی قانون اور انصاف کے التباسات پر سوچا گیا اور یہ تناؤ، کشمکش،تصادم کی کیفیت، لبرل، روایتی اور نوآبادیاتی حرکیات کی صورت میں شدت سے ابھرا اور اس میں بایاں بازو نے نظریہ دان رجحان کے حامل فلاسبہ اور ادیبوں نے اس کے معیارات وضع کرتے ہوئے انسانی مساوات اور عدل سے منسلک کیا۔ جن کی نوآبادیات کے حق میں دلیل دینے والی قوتیں یہ کہتی رہی کہ یہ ’وحشی معاشروں‘ کے لیے ضروری تھا۔ جو ایک ’نوآبادیاتی مشن‘ ہے۔ نوآبادیاتی مطالعوں میں فطرت قانون اور نئے عہد کی بازیافت لبرل ازم، شہنائیت، مارکسزم، لنین ازم اور پس نوآبادیات کے نظریے کے تحت کیے جاتے ہیں۔
برطانیہ جیسی طاقت ور حکومت کو جنوبی افریقہ میں پچاس سے کم بوئر کسانوں کو شکست دینے کے لیے دس برس کا عرصہ لگا۔ سوڈان کے حریت پسند عسکری رہنما مہدی سوڈانی نے برطانیہ کو شکست دی اور جنرل گورڈن ان کی فوجوں کے ہاتھوں ہی مارا گیا۔ ادھر ہندوستان میں ’ریشمی رومال‘ اور ’روٹی‘ والی نوآبادیات شکن تحریکیں شروع ہوگئی تھیں۔ ہندستان میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا۔ بھگت سنگھ اور ادھم سنگھ کی سامراج دشمنی سے کون واقف نہیں اور اس زمانے میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن سے انگریزوں کی سامراجی سفاکی اور بربریت ابھر کےسامنے آئی۔ اس کے ساتھ کی چھوٹی اور بڑی سامراجی طاقتوں کے مابین کشمکش شروع ہوگئی اور اس صدی کے اختتام سے پہلے فرانس اور جرمنی کی افریقا کے ممالک میں فوج کشی اور سازشیں شروع ہوگئی اور اس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتارہا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں نوآبادیاتی ممالک بڑے پیمانے پر جنگ کی تیاری کررہے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کی صورت میں سامراجیوں کے درمیان ہولناک تصادم ہوا جس کے لیے چودہ سال کے اور اسی زمانے میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ پارہ پارہ ہوئی جو برطانوی سامراج کی بڑی سازشی فتح تھی۔
موجودہ سامراجی دور میں دو عالمگیر جنگیں لڑی گئیں۔ ان کی شروعات کے لیے بظاہر وقتی حادثات کچھ بھی ہوئے ہوں، بنیادی طور پر ان جنگوں کی وجہ سے سامراجی طاقتوں کی طرف سے نوآبادیات کی تقسیم پر جھگڑا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں بھی ایک طرف برطانیہ، فرانس، روس، بلجیم، ہالینڈ وغیرہ کے ممالک تھے، جن کے پاس دنیا بھر میں بے شمار نوآبادیات تھیں اور دوسری طرف جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کا گروہ تھا۔ جنھوں نے صنعتی لحاظ سے خوب ترقی کرلی تھی۔ لیکن سرمایہ دارانہ ترقی کے باعث تیار شدہ مال کے لیے منڈیاں نوآبادیات کی شکل میں موجود نہ تھیں۔ ان منڈیوں اور نوآبادیات کے حصول کی خاطر ہی پہلی جنگِ عظیم لڑی گئیں۔ جن میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو نہ صرف ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ورسیلز معاہدہ کے تحت ذلت آمیز شرائط صلح بھی تسلیم کرنا پڑیں۔ جرمنی کے سرمایہ دار طبقے نے اس ذلت اور رسوائی کا انتقام لینے اور ایک بار پھر نوآًادیات کی تقسیم کے لیے جنگ کی تیاریاں شروع کرلیں۔ بنیادی طور پر دوسری عالمگیر جنگ نوآبادیات کی تقسیم کے لیے ہی تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب تک دنیا میں سامراج موجود ہے۔ جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔ ان دنوں اگرچہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد گرم جنگ کے امکانات کو نظر انداز کیا جارہا ہے لیکن جس طرح سے پرانے نوآبادیاتی نظام کی جگہ نیا نوآبادیاتی نظام قائم کیا جارہا ہے، جو کسی ملک میں پرانے نوآبادیات نظام کی طرح فوج کشی کرکے قبضہ تو نہیں کرتا۔ لیکن اقتصادی اور معاشی لوٹ کھسوٹ مقامی ایجنٹوں کے ذریعے حسب سابق ہی کرتا ہے۔ پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی لوٹ کھسوٹ کی خاطر جہاں ایک طرف امریکا، جرمنی، فرانس اور برطانیا جاپان وغیرہ میں سامراجی تضادات موجود ہیں، وہاں ان دبی کچلی قوموں میں سامراج کے خلاف شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ اگرچہ فلحال نہ توبین السامراجی تفاوات اس قدر ہگرے ہوئے ہیں کہ سامراجی طاستوں کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کریں اور نہ ہی دبی کچلی قوتوں میں سامراج کے خلاف بغاوت کے جذبے کی شدت پائی جاتی ہے۔ اس لیے عالمی جنگ کا کوئی خطرہ موجود نہیں۔ تاہم سامراجی لوٹ کھسوٹ کے جاری رہنے اور اس لوٹ کھسوٹ کے لیے سامراجی طاقتوں کے درمیان تفاوات کی موجودگی کے باعث جنگ کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جساکتا ہے۔ کسی وقت بھی یہ تفاوات شدید ہوکر جنگ کے امکانات پیدا کرسکتے ہیں جنگ کو دائمی طو رپر ختم کرنے کے لیے سامراج کا خاتمہ ضروری ہے جب تک سامراج ختم نہیں ہوتا جنگ کے امکانات موجود رہیں۔ اس لیے دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کا بنیادی سبق یہ ہے کہ انسانیت کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے سامراج کے خاتمے کی جدوجہد ضروری تھی۔ مورّخ مبارک علی کا کہنا کہ یہ التباس ہوتا ہے۔ اس سبب استعماری قوتوں کے بارے میں رویہ کبھی نوآبادیاتی عوام کے لیے سودمند اور دوستانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر قسم کے تشدد کو روا رکھنا اپنا حق سمجھتی ہے۔
پس نوآبادیاتی تنقید کے علم برداروں نے مغربی سامراج کے پنجے سے آزاد ہونے والے ممالک کے ادب پر سیر حاصل بحث کی۔ خاص کر ہندوستان کی آزادی کے بعد آنے والی ادبی تنقید کو اس رجحان سے متعارف کروایا۔ ساٹھ کی دہائی میں ایشیا اور افریقا کے کئی ممالک استعماری قوتوں سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس عالمی سیاسی تناظر کے زیر اثر نوآبادیاتی تنقید نے تیسری دنیا کے مزاحمتی احتجاجی تناظر میں بھی اپنی فکری اور تنقیدی حصّہ داری کااحساس دلوایا۔ ان رجحانات کے ڈانڈے مابعدجدیدیت اور رد تشکیل کے ادبی اور لسانی نظریوں سے بھی ملائے گئے۔ پس نوآبادیاتی تنقید میں یقیناً مشرق اور مغرب کی امتیازات ، تعصبات، تشدد، سفاکی کی عمیق آگہی موجود تھی۔ اس میں ماضی کی ستم، انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال کا ادراک اس قدر حاوی تھا کہ اپنی مقامی شناخت کی تلاش میں پسماندہ، ترقی پذیر اور تیسری دنیا کا ادب بھٹک گیا اور ان اقدار کو تلاش کرنے لگا جو مغرب کی اقدار اور روایت کی دین تھیں۔ یہ رویہ سراسر واہماتی عینیت پسندی کے زمرے میں آتا تھا۔ لہذا انھی سابقہ مغربی اور بدیسی آقاؤں کی فکری گرفت سے چھٹکارا نہ مل سکا۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ رد نوآبادیاتی تنقید نے نسبتاً ایک ایسے وسیع النظر تناظر کو جنم دیا جو پہلے نہیں تھا، یہ نظریہ ابھی بھرپور طور پر ابھر کے سامنے نہ آسکا، کیونکہ نئے آزاد ہونے والے ممالک اسی پروانے خول میں بند ہیں۔ نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہیے وہ ہندستان ہو یا الجزائر، سوڈان ہو یا انڈونیشیا، تقریباً ادب وفن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیونکہ نوآبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طور پر نہیں کاٹی گئیں تھیں۔ لہذا ان ممالک کے فکری افق پر منافقت، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ فرد ہو یا حکومت ایک طبقہ ہو یا ایک معاشرہ، ہر مقام پر سمجھوتے کیے گئے اور پس نوآبادیاتی ادب و فکر میں التباس کی دھند پھیلی۔ پس نوآبادیاتی تنقید میں انھی پرانے نظریوں اور دانش سے رہنمائی حاصل کی گئی اور کوئی آئیڈیالوجی راسخ نہ ہوسکی۔ تقریباً سبھی چھوٹے بڑے، سابقہ غلام ممالک کسی واضح فکری قدر کو نہ اپنا سکے اور نہ ہی کوئی مستحکم نظام ان کے حصّے میں آیا۔ وہی دو ممالک جو ایک ہی نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد ہوئے ایک دوسرے کے دشمن ٹھہرے جن خوابوں کو پانے کے لیے سامراجی نظام سے ٹکر لی گئی، بعد میں وہ سب ہی منافقت، زرپرستی اور اقتدار پسندی کے نذر ہوگئے۔ فرد سے فردکا قلبی رشتہ کٹ گیا۔ فکری اور عمرانیاتی آدرش بکھر بکھر کر ریزہ ریزہ ہوگئے تو فرد کو اپنے پھسپھسے اور کھوکھلے نظریات اور جحانات کا احساس ہوا یہ احساس قرۃالعین کے ناولوں سے جابجا ملتا ہے۔ خاص کر ان کا ناول ’چاندنی بیگم‘ میں ہندستان کی آزادی کے بعد دو ملکوں کی تہذیبی، سیاسی، معاشی پامالی کی نوحہ گری ہے۔ جن میں نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد نئے اقتدار کی ترجیحات ایک ارب عوام کی ترجیحات سے مختلف تھیں، فرد مجہول اور نفسیاتی مریض بن کے رہ گیا۔ رد نوآبادیاتی تنقید نے نیم جاگیردارانہ نظام، سیاست، قانون، صحافت، نئے سرمایہ دارانہ نظام (چھوٹے) شوبزنس پاپولر ذرائع ابلاغ، سستی اور سطحی تفریحی پر ڈراموں سے فرد ہی کا نہیں بلکہ معاشرے کی بنیادی اکائی ’خاندان‘ کے سکوں کو تباہ و برباد کردیا۔ نوآبادیاتی نظام کے باطن سے پیدا ہونے والے استحصالی نظام کو خوش آمدید کہنے پر مجبور ہوگیا۔ اسی طرح خدیجہ مستور کے ناول ’آنگن‘ میں خاندانی اکائی کا تتر بتر ہوجانا اور زریں اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر حالات سے معاشی اور معاشرتی مفاہمت کرلینا ظاہر ہوتا ہے، شوکت صدیقی کے ناول ’خدا کی بستی‘ میں ہجرت کے حوالے سے نئی تبدیلی کی اذیت ناکی ملتی ہے۔ جس کے پس منظر میں سامراجی رجحان کا حاوی محرک نمایاں ہے، جہاں فرد کے آدرش ٹوٹ پھوٹ گئے اور کوئی نظریہ حیات نہ ابھرسکا۔ عبداللہ حسین کا ناول ’نادار لوگ‘ میں پاکستانی حوالے سے فرد کی باطنی سچائی کو اجاگر کرتے ہوئے معاشی منعفت پسندی کو ٹھکرا دیا گیا۔ ساٹھویں دہائی میں تیسری دنیا کے لیے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی ادبیات میں رد نوآبادیاتی تناظر کو محسوس کیا گیا خاص کر اردو کے جدیدیت پسند رجحان میں فرد کی جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور قنوطی سیاق میں جو کچھ لکھا گیا وہ انحطاطِ ذات تو تھا ہی، مگر اصل میں اس کے پس منظر میں ردنوآبادیاتی کا نظریہ لاشعور بھی چھپا ہوا تھا۔
انہ۔۔۔۔ سویت روس، انقلاب ایران، سقوط مشرقی پاکستان اور دیگر عالمی تبدیلیوں نے رد نوآبادیاتی تنقید کی راہیں مستحکم کیں۔
ایک جاپانی شاعر کیوکروڈا (Kio-Kuroda)نے کچھ سال قبل ایک نظم ’ہنگرین قہقہہ‘ لکھی۔ اس طویل نظم میں ردنوآبادیاتی رجحان کو شناخت کیا جاسکتا ہے۔
میں کل ضرور لکھوں گا
ہنگری کے متعلق ایک نظم
لوکاشیؔ کون ہے
جسے پھانسی دی گئی
ناگےؔ کہاں ہے
جسے ہم بھلا چکے ہیں
جیسے میں گم شدہ ہوں
ہنگری میں روس کے نوآبادیاتی تسلط کے خلاف بغاوت کے حوالے سے اس نظم کو دیکھیں تو ردنوآبادیاتی رجحان کے عناصر کی کارکردگی کا اس میں صریحاً بیاں نظر آتا ہے۔
خاص کر ۱۹۷۰ء کے بعد تیسری دنیا کی فکری بساط پر نوآبادیاتی پس منظر میں نئے تاریخی تناظر اور عقل پسندی کے مہروں کو اپنایا گیا یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہر ادب اپنے مخصوص احوال کے تناظر میں ایک نوآبادیاتی کو اپنے ذہن کے اصل فکری التباس اور حقیقی صورتِ حال کا پتہ چلا کہ ایک مصنوعی آئیڈیالوجی، قدامت پسندی اور اقتدار پسندی کے رجحان نے علم و ادب کا کس صفائی سے استحصال کیا۔ پس نوآبادیاتی فکر میں بغاوت کا شور شرابا بہت تھا جس فکر جذباتی اور سطح ہوگئی اور سیاسی اور گروہی اہداف کو پالینے کے لیے اسے استعمال کیا گیا۔ مثلاً پاکستان میں جب بھی مارشل لا لگا تو ظاہراً تو مزاحمتی شعرا کی ایک فوج ابھر کر سامنے آئی لیکن چونکہ ان کے پاس نظریاتی قوت کی کمی تھی اس لیے ان کے تمام جذبات و دانش مثل حباب ثابت ہوئے اور ان کی شاعری افادیت پسندی اور شوبزنس سے آگے نہ بڑھ سکی۔
آئرلینڈ کے شاعر ولیم بٹلر یٹس ( William Butler Yeats)کو جدید انگریزی ادبیات کے مخاطبے (ڈسکورس) اس سبب امتیاز و مقام حاصل ہے کہ انھوں نے یورپ کے ہائی ماڈرن ازم کے باطن میں پویشدہ نوآبادیاتی رویوں کا سراغ لگایا۔ یٹسؔ نے آئرلینڈ کی روایت تاریخ اور سیاسی سیاق میں اس بات کاشدت سے احساس دلوایا کہ اس کڑے وقت میں قوم پرست آئرلینڈ تکالیف کا شکار ہے، انگریزی شعرا اور اردو ادیب آئرلینڈ کے سلسلے میں نوآبادیاتی ذہنیت کا اظہار کررہی ہے کیونکہ آئرلینڈ کی ثقافت و ادب مغربی جدیدیت سے قطعاً محتلف ہے۔
یٹس (Yeats)کو آئرلینڈ کے قومی شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ سامراج شکن ہیں۔ انگریز ثقافت کا حاوی عنصر آئرلینڈپر نوآبادیات پنجے کو ثابت کرنے کےلیے کافی ہے۔ آئرلینڈ کی ثقافتی خود مختاری کا خواب اصل میں رد نوآبادیاتی رجحان ہے۔ آئرلینڈ کی تاریخ مسخ کی گئی ہے۔ یٹس ؔ کا خیال ہے کہ رد نوآبادیاتی مزاج کے سبب آئرلینڈ کی تاریخ کے موضٰعات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان کی نظم ’ماہی گیر‘ (Fisherman)رد نوآبادیاتی تجربے کا حساس اظہار ہے۔
یہ طویل ہے، میری ابتدا سے
آنکھوں تک پکارتا ہوں
یہ نیک اور سادہ آدمی
میں تمام دن چہرے میں دیکھتا ہوں
کیا میں امید کروں
کہ اپنی نسل پر لکھوں
اور حقیقت (۱)
ایڈورڈ ولیم سعید نے لکھا ہے کہ یٹسؔ کی شاعری نے نوآبادیاتی رویوں کو دریافت کیا ہے۔ ایڈورڈ سعید کے بقول انگریزی زبان پر آئرلینڈ کے اس شاعر کی شعری فطائت کاادراک نہ ہوسکا ( یا انھیں دانستہ طو رپر نظر انداز کیا گیا) کیونکہ آئرلینڈ پر انگریز ثقافت ، ادب اور یورپ کی جدیدیت کی یلغار ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔ یٹس ؔ نے آئرلینڈ کے ساحلوں پر برطانوی سامراج کی ریشہ روائیوں کو محسوس کیا۔ وہ اپنی شاعری میں اپنے تجربات کے حوالے سے سامراج شکن رویوں کو جگہ دیتے ہیں رد نوآبادیاتی وساطت سے ایڈورڈ سعید نے مصر، ترکی سیلوں (سری لنکا) انڈونیشیا، چین اور ہندستان کی مشالیں دیتے ہیں اور ادبی اور ثقافتی حوالوں سے تیسری دنیا کے ان ممالک میں رد نوآبادیاتی رجحان کا پتہ لگاتے ہیں۔ (۲)
یورپ میں چند لکھنے والے ایسے بھی ملتے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقات میں رد نوآبادیاتی رویوں کو جگہ دی۔ ان میں سب سے نمایاں نام فرانسیسی ڈراما نگاری ژان ژینے ( Jean Genet)کا ہے۔ ان کے ڈرامے ’دی بلیک‘ (The Black)میں سیاہ فام طوائف نوآبادیاتی نظام کے کارندوں کو یک بعد دیگرے موت کے گھاٹاتار دیتی ہے۔ دیکھنے میں یہ نسلی نوعیت کا احتجاج ڈراما ہے لیکن اصل میں ژان ژینے نے اس کھیل میں مغرب کے نوآبادیاتی نظام کے رد کو ابھارہ ہے۔
برٹینڈرسل (Bertrand Russell)جنھیں فلسفہ اور ریاضی کے میدان میں شہرت حاصل ہے وہ مغرب کی گوری تہدیب کے نشاۃ الثانیہ کے اس حد کت خواہاں ہیں کہ ان کی فکر نوآبادیاتی رنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ وہی برٹینڈرسل ہیں جنھو ںنے ژان پال سارتر کی رفاقت میں ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا کے نوآبادیاتی اور سامراجی عزائم کا پردہ چاک کرتے ہوئے امریکا پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا اور امریکا کو جنگی مجرم قرار دیا۔
اسی طرح انگلستان کے افادیت پسند فلسفی جاں اسٹیورٹ مل (Mills)کے نظریات میں ہندستان سے نفرت آسمان کو چھوتی ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کانوآبادیاتی نظام اخلاقی مذہبی اور نسلی برتری کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوا بلکہ یورپ کی عقلیت پسندی، منطقی ہیئت، ثنوتیت اور سائنسی ترقی نے ہندستان کے روایتی معاشرے پر باآسانی تسلط قائم کرلیا۔ انگریز کو بھی علم تھا کہ انھیں ہندستان میں خوش آمدید نہیں کہا گیا بلکہ کمزور معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے اور داخلی خلفشار اور بحران کا فائدہ اٹھا کر انھیں ہندستان میں اپنی نوآبادیات قائم کی اور انھیں یہ خام خیال تھی کہ اعلا اصولوں، اخلاقی اور تہذیبی اوصاف کے سبب ’سونے کی چڑیا‘ ان کے ہاتھ لگی ہے۔ ایک انگریز جان لارنس جو ۱۸۵۷ء میں پنجاب میں متعین تھا، اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’ہم یہاں لوگوں کی مرضی یا ان کے انتخاب سے نہیں آئے ہیں۔ بلکہ ہم اپنی اخلاقی برتری، حالات کی موافقت اور مثیت ایزاری کی مرضی کے تحت اقتدار میں آئے ہیں۔ یہی وہ چار ٹر ہے جس کی بنیاد پر ہم ہندستان میں حکومت کررہے ہیں۔ (۳)
لاطینی امریکا میں رد نوآبادیاتی رجحان اب خاصا پرانا ہوچکا ہے۔ نوآبادیات کا فکری احساس خاصا حساس بھی نہیں بلکہ اس کا اظہار لاطینی امریکا اور امریکا کے ’چکانو ادب ‘ (Chicano Literature) امریکا میں بسنے والے لاطینی امریکی نژاد باشندوں بالخصوص میکسیکو کے باشندوں کا ادب جو انگریزی زبان میں لکھا گیا۔ میں نمایاں طو رپر محسوس کیا جاسکتا ہے جو اصل میں یورپی نسل کے امریکی باشندوں کے سامراجی رویوں کے سبب وجود میں آیا۔ میکسیکو نے ۱۸۲۱ء میں اسپین سے آزادی حاصل کرنے کے بعد میکسیکو کے شمالی صوبہ جات پر مشتمل ’’Aztlan‘‘کے نام سے ایک ریاست ری پبلک آف میکسیکو میں شامل کردی۔ اس تسلط کے خلاف ۱۸۴۸ء تک خاصی مزاحمت کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ابھی اس نوآبادیاتی تسلط سے نجات حاصل نہ ہوپائی تھی کہ امریکا نے اپنی نوآبادیات کو بڑھانے کے لیے جنوبی سرحدوں کی جانب ریلوے لائن بچھانا چاہی لہذا ۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۰ء تک میکسیکو کے مقامی باشندوں اور مغربی استعمار کے درمیاں گھماسان کا رن پڑا۔ جس میں ملین کے قریب میکسیکو کے باشندے مارے گئے۔ شکست کے بعد ٹیکسس، نیو میکسیکو ، ایرے زونا، کیلے فورنیا اور آدی گن (آدھا) کو بندوق کے مور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کا حصّہ قرار دے دیا گیا اور بڑی صفائی سے مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ لہذا آج بھی امریکا کے چکانو ادب اور بالخصوص شاعری میں Aztlanصوبے کا نوآبادیاتی ناسٹلجیائیہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نوآبادیات کے رد میں معاشرتی اور سیاسی حوالے سے معاشرتی نمونوں (روٹی، مکھن، لوبیا) کی علامتوں کی مدد سے نوآبادیاتی نظام کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کی تصویر بھرپور طور پر سامنے آتی ہے۔
تم کچرا کھاتے ہو
تمھاری روٹی اور مکھن کے ساتھ
اور میں، میرا کھاتا ہوں، لوبیے کے ساتھ
اور ٹوٹریے ** کے ساتھ منہ مارتا ہوں
(میکیسکن روٹی (Tortilla))
البرٹ کامیوؔ نے ہزار الجزائر کی آزادی کے نغمے گائے ہوں مگر وہ فرانسیسی نوآبادیات سے الجزائر کو آزاد ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور کسی صورت میں بھی الجزائر ( جو ان کی جنم بھوی بھی تھی) کو خود مختار ملک کا رتبہ دینے کے حق میں نہ تھے، وہ ہر طور سے فرانسیسی نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے تھے اور اس نظام کے تحفظ کے بھی خواہاں تھے۔ ٹی ایس ایلیٹ (T.S.Eliot)نے عیسوی شریعت کو رائج کرنے کے متمنی تھے۔ انھوں نے ’ویسٹ لینڈ‘ میں روحانیت اور قنوطیت کا ڈراما رچا کر مغربی ثقافت کو مغربیت رائج کرنے کا عندیہ دیااور جدیدیت کی آڑ میں مغرب کی نوآبادیاتی توسیع پسندی اور سامراج پرستی کا خواب دیکھا۔ دریردا (Derrida)نے دبے الفاظ میں نوآبادیاتی تصورات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ دریردا مغربی مابعدالطبیعات کو ’گوری اساطیر‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو ان کی نظر میں مغربی ثقافت کا جبر ہے۔ دریردا کے ان خیالات نے نئے نقادوں کو مزید سوچنے پر اکسایا۔ باختنؔ کے Dialogisگرماسکی (Gramsci)کے مماثلتی تصور، فوکو کا قوت دور آگہی کا تصور اصل میں نوآبادیات شکن تصورات ہیں۔ ان افکار نے مغرب کے آون گارڈ اہرام یا ماڈل کی کوتاہ شعوری کا احساس دلوایا۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب ’Orientalism‘میں چار ہزار سال کی تاریخی تناظر میں پس نوآبادیاتی تنقید کے حوالے سے فلسطین سے سیاسی سے اپنی فکری رفاقت کا احساس دلوایا۔ (۴)
دوسری جنگ عظیم کے ہیرو جنرل مٹگمری، جو نوآبادیاتی تسلط پسندی کے حامی تھے مگر اسی شدت سے وہ نوآبادیات خطوں میں عیسائیت کے احیا کے خواہش مند بھی رہے انھوں نے مغرب کی برتری کو کمزور نوآبادیات اور نئے آزاد ہونے والے سابقہ نوآبادیاتی ممالک پر ٹھونسنے کے لیے ، ناٹو، سیٹو، سینٹو جیسے سامراجی دفاعی معاہدات کی منصوبہ بندی کی۔ اس صورتِ حال کو بھاپ کر الفریڈ سیووئے (Alferad Sauvy)کے نظریہ تیسری دنیا کو ابھارہ گیا۔ پھر غیر وابستہ ممالک کی تحریک چلی۔ یہ سب رویوں اور جحانات در نوآبادیات کے سلسلے میں ہی تھے جس سے تیسری دنیا کے ممالک دوچار تھے۔
اسی طرح نوبیل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل مارکیوز گارشیا، اکتاویوپاز، البرٹو اپسنووزا (Espinosa)کی تحریروں میں ردنوآبادیاتی احساس خاصا ترش ہے جو فکری سط پر خاصا گہرا بھی ہے۔ چلی کے شاعر پابلو نرودا نے رد نوآبادیات کی وساطت سے اپنے خدشات کااظہار کیا ہے۔ خاص طور پر وہ چلی کی داخلی نوآبادیات اور لاطینی امریکا میں پھیلے ہوئے مغربی سامراج کی توسیع پسندی کو اپنی شاعری میں بیاں کیا ہے۔
I knew that man, and when i could
when I still bad eyes in my head
when I still bad a voice in my throat,
I sought him among the tombs and I said to him
pressing his arms that still was not dust
“Everything will pass, you will still be living,
you set fire to life
you made what is yours”
So let no one be perturbed when
I seem to be alone and am not alone
I am not without company and I speak for as
Someone is bearing me without knowing it
But those I sing of those who know
go on being born and will over flow the world (5)
میکسیکو کے ناول نگار کارلوس فونیتیس (Carlos Fuentes)نے اپنی تحریروں میں امریکی نوآبادیاتی زمین کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ان کی ناول ’’The Old Gringo‘‘ (لاطینی امریکا، بالخصوص میکسیکو میں امریکیوں کو طنزاً ’گرینگو‘ کہتے ہیں) میں اس بات کا احساس دلوایا ہے کہ میکسیکو کے شمالی علاقوں میں امریکا نے پروٹسٹنٹ مذہب اور سرمایہ دارانہ ثقافت کی آڑ میں نوآبادیات کو فروغ دیا جس کا سلسلہ جنوبی میڈی ٹیرین ( Mediter ranean)تک جاتا ہے۔ نوآبادیاتی سلسلے میں ریگنؔ انتظامیہ نے نکارا گوا میں جو کچھ گُل کھلائے وہ تاریخی تناظر میں پریشان کن ہے۔ فونیتیس ؔ نے بل مائر ؔ (Billmoyer)کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ۱۹۵۴ء میںگوئتے مالا میں جوکچھ ہوا وہ سب امریکا کی سامراجی قوت کے سبب ہوا۔ لہذا لوگوں نے اسے Vietnamization of Central America یا Central Americanization of Vietnamکا نام دیا۔ (۶)
یہ ڈراما تو ویت نام کے خونی ڈرامے سے ایک صدی پہلے لاطینی امریکا میں کھیلا جاچکا تھا۔ جس کی سب سے بھاری قیمت میکسیکو کو ہی ادا کرنی پڑی اور آج تک یہ ملک خسارے میں جارہا ہے۔
قونیتین ایک ماہر نفستیا ہیں۔ انھوں نے ۱۹۶۱ء میں اپنی کتاب ’بدنصیب زمین‘ میں طبی فطرت نوعیت کا نوآبادیاتی تجزیہ کیا ہے جو معاشروں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ ان کے خیال میں نوآبادیات اپنی شناخت کے ساتھ مقامی علاقوں میں داخل ہوکر ان علاقوں پر قبضہ کرلیتی ہے اور اپنی نوآبادیاتی صفات کو انسان قرار دیتی ہے اور مقامی باشندوں کو ان کی کمتری کااحساس دلوا کر غلامانہ ذہنیت پیدا کرجاتی ہے جس کے لیے ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے جو مکمل طور پر ’نسلی‘ نوعیت کا ہوتا ہے۔ فونتین اسے ’متشدد مزاحمت‘ کہتے ہیں جو مقامی نفسی حسیت، عزت نفس کے پردے میں نوآبادیاتی خوشامدی ٹولہ پیدا کرتا ہے۔ انھو ںنے الجزائری جنگ آزادی کی کھل کر حمایت کی۔ ان کے خیال میں نوآبادیات مکمل طور پر معاشی نظریہ بھی ہے کیونکہ سامراج اعلا درجے کی سرمایہ داریت ہوتی ہے جس میں سرمایہ ’منافع‘ کو پیدا کرتا ہے۔ فونتین کا خیال ہے کہ تیسری دنیا کے بدترین استحصال کا نشانہ ہونے والے انسانوں کو ’افتادگان خاک‘ کہا۔ یہ ان کی کتاب کا عنوان بھی ہے۔ جس کا اصل اور بنیادی مقولہ ہے کہ مغربی سرمایہ کار طبقہ بیک وقت تعمیری اور طفیلی کردار کاحامل ہے اور نوآبادیاتی گماشتے کا کردار ادا کیا۔ اس عمل کے دوران استحصالی نوآبادیاتی نظام مقامی محنت کشوں اور کسانوں کا سفّاک اور بے رحمانہ استحصال کرتا ہے۔ فونتین کا نوآبادی نظریہ اصل میں ’تیسری دنیا کی انقلابی جدوجہد‘ کے مکالمے میں پوشیدہ ہے…. اس سلسلے میں کولمبیا کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل مارکیز گارشیا نے لکھا ہے ’’سیاست کے تناظر میں دیکھنے سے لاطینی امریکا کی نوآبادیات اور پس نوآبادیات کی معاشرت کاادراک تو ہوسکتا ہے مگر لاطینی امریکا کو آپ اس نظریے سے دیکھنے سے محروم ہوجائیں…. اس نظر سے گارشیا نے نوآبادیات کو لاطینی امریکا کے تناظر میں دیکھا۔
اردو میں باقاعدہ طور پر نوآبادیاتی فکرکا آغاز ۱۷۹۹ء میں فورٹ ولیم کالج کی بنیاد پڑنے کے بعد ہوا۔ جس نے ہندومسلم روابط میں دراڑیں ڈالیں۔ میر امد دہلوی نے گل گرسٹ کی سرپرستی میں ’باغ و بہار‘ لکھی اور میر امن نے اپنے مربی ڈاکٹر گل گرسٹ کو سر آنکھوں پر بھی بٹھایا۔ سوداؔ کے ’شہر آشوب‘، واجد علی شاہ کی ’مثنوی حزں اختر‘، نظیر اکبرآبادی کی نظمیں، پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ’فسانہ آزاد‘ میں دبے الفاظ نوآبادیاتی رویوں کے خلاف فکری مزاحمت ملتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی آخری عمر کی شاعری میں کنارتاً نوآبادیاتی رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اکبر الہ آبادی کی طنزیہ شاعری میں نوآبادیاتی نظام کی نفی کی گئی ہے۔ جوش ملیح آبادی جذباتی انداز میں بکنگھم پیلس کو بم سے اڑا دینے کی خواہش کرتے ہیں۔ ایک طبقہ سرسید احمد خان پر انگریز نوازی کا الزام لگاتا ہے حالانکہ سرسید نے ہندستان کے ٹوٹے پھوٹے ہریمت زدہ معاشرے اور فکری ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے لہذاوہ کچھ وقت کے لیے انگریزوں سے مزاحمت کے حق میں نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندستان مغرب سے اچھی چیزیں اخذ کرے اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہندستان میں نہ آج اردو ہوتی اور نہ ہی فکری ارتقا کی صورت نکل پاتی نہ ’مقدمہ شعر و شاعری‘ ہوتا، نہ ’آبِ حیات‘ نہ ’بانگ درا‘ ہوتی نہ ’ضربِ کلیم‘… اور نہ ہی ترقی پسند تحریک نظر آتی نہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی کباحث اردو معاشرے کو جلا بخشتے اور نہ ہی عبدالسلام جیسا سائنس دان پیدا ہوتا۔
نظم جدید کی تحریک کے بعد اردو کو کئی فکری تغیرات سے گزرنا پڑا ۔ ترقی پسند تحریک نے یقیناً نوآبادیاتی رجحان کو رد کردیا۔ یہ ایک بڑی مزاحمتی تحریک بھی تھی لیکن جب ہم گوری نوآبادیاتی ذہنی ساخت کے پس منظر میں چلتے ہوئے ۵۰ء کے دہے تک پہنچتے ہیں تو ہمیں یکبارگی یہ احساس ہوتا ہے کہ روسی انقلاب سے متاثر آزادی کی وہ تحریکیں جو اشتراکیت کے حوالے سے اپنی جدوجہد برقرار رکھے ہوئے تھیں انھیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ روسی ذہنی ساخت عالمی اشتراکیت کے سیاق و سباق میں گوری نوآبادیاتی نظام کا نعم البدل بن جائے گی۔ اس کا سب سے واضح ثبوت برصغیر کے ادب بالخصوص اردو میں ملتا ہے۔ ہنگری پر جب روسی ٹینک چڑ دوڑے تو فیض احمد فیضؔ سے لندن کے ایک صحافی نے اس پر اظہارِ رائے کے لیے کہا، فیض کا جواب تھا، ’’روسی ٹینک آزادی کو پامال کرنے کے لیے نہیں بلکہ آزادی کی حفاظت کرنے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔‘‘ جب کہ ہنگری اور چیکوسلواکیہ میں روس نے اپنی فوجیں داخل کیں تو ژان پال سارتر نے روس کی شدید مذمت کی۔
اسی طرح روسی فوجوں کے افغانستان میں دخول کے بعد جب بھارتی وزیر اعظم نے یہ موقوف اختیار کیا کہ یہ اس وقت کی افغانی حکومت کی دعوت پر وہاں پہنچے ہیں تو ہندستان کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر ترقی پسند دانشوروں میں، جن میں علی سردار جعفری پیش پیش تھے اس موقوف کی حمایت کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ دونوں حالتوں میں یہ Neo Colonialismمطمع نظر تھا جس میں اردو کی ترقی پسند تحریک کے دو رہنما فیض احمد فیضؔ اور علی سردار جعفری کی تاریخی سطح پر سیاسی جبر اور جارجیت کے سلسلے میں مصلحت کوشی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ آئیڈیالوجی کے جبر کے تحت ان جیسے کئی سکہ بند ادیبو ں اور دانشوروں نے ہنگری اور چیکوسلواکیہ کے قابل مذمت واقعے کو تاریخی سطح پر درست قرار دیا لہذا آج نہیں تو کجل ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کون تاریخ کا مجرم ہے؟ ان دانشوروں کو مغربی سامراج اور نوآبادیات کے ظلم و جبر تو نظر آتے ہیں مگر سرخ نوآبادیاتی نظام اور آئیڈیالوجی سے جو نوآبادیات وجود میں آئیں وہ ان کی نظروں سے اوجھل رہی۔
سامراجیت (امپریلزم) کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی اصطلاح ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امپیریلزم کو ’نوآبادیات‘ کی اصطلاح میں تبدیل کردیا گیا۔ تھرڈ نیو انٹرنیشنل ڈکشنری میں نوآبادیات کو کسی قوم کا ماتحت علاقہ حاصل کرنا اور اپنا تسلط قائم کرنا ہے اور اپنی معاشی اور دفاعی اقتدار کو قوت کے ذریعے زیر کرکے اپنا جارہانہ تسلط قائم کرنا ہے۔ تاکہ نئی منڈیاں تلاش کی جائیں۔ ۱۷۸۷ء کے بعد جن عالمی قوتوں نے دوسرے براعظموں کے پسماندہ ملکوں پر اپنا تسلط جمایا۔ ان میں برتانیا ، پرتگال، فرانس، ہالینڈ، اسپین، پرتگال پیش پیش تھا۔ بہرحال برتانیا نوآبادیاتی نظام کا سب سے کامیاب ملک رہا۔ جہاں اس کی نوآبادیات میں کبھی سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ ۱۹۵ ممالک نے نوآبادیات سے آزادی حاصل کی مگر بدقسمتی سے وہ نئی نوآبادیات کے چنگل میں پھر پھنس گئے اور نئی معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی غلامی پر مجبور ہوگئے۔
خلاصہ کلام
بیسویں صدی کی چالیسویں دہائی سے قبل نوآبادیاتی اصطلاحات معرض وجود میں نہیں آئی تھی۔ ’سامراج‘ کو ہی نوآبادیاتی معنوں میں لیا جاتا تھا۔ ۱۹۴۰ء کے بعد پس نوآبادیاتی رویہ تنقید میں عام ہوا۔ پس نوآبادیاتی تنقید نوآبادیاتی تنقید سے کلی طور پر انحراف کرتی ہے لیکن رد نوآبادیاتی تنقید کا مسلک جداگانہ ہے یہ نہ تو پس نوآبادیاتی تنقید کی ضد ہے اور نہ ہی اس کی تائید مزید ہے۔ اپنے حس کارکردگی میں یہ نوآبادیاتی تقندی کا رد ہوتے ہوئے بھی تعمیری (Constructive)کردار ادا کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ رد نوآبادیاتی تنقید، نوآبادیاتی تنقید کارد ہے لیکن یہ پس نوآبادیاتی تنقید کی توسیع ہے جو کہ مغربی اور اشتراکی سامراجیت سے اپنی برہمی کا اظہار کرتی ہے اور فرد اور گروہ کو اسے نوآبادیاتی ماضی کے شعور، مستحکم منطقی تاویلات کی وساطت سے بیاں کرتی ہے۔ رد نوآبادیاتی تنقید مخاطبے (ڈسکورس) کے نئے مسائل اور قادیانہ مزاج کو پس نوآبادیاتی سیاق میں پرکھتے ہوئے سب سے پہلے اقتدار کی عفریت سے نجات دلوانا چاہتی ہے کیونکہ یہی عنصر فکر و ادب کا کاغذی پیراہن ہوتا ہے۔ اقتدار پسند طبقے کے رویوں اور جحانات کا عمیق گہرائیو ںسے مطالعہ کیے بغیر ردنوآبادیاتی تنقید کا کوئی جواز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوآبادیاتی تنقید خود میں منفی اقدار کی حامل نہیں۔
اب گروہ، ممالک اور آئیڈیالوجی کی جنگ نہیں ہوتی، اس دور میں تمام جنگیں ثقافت کے مابین ہیں۔ جیسے مذہبی، سیاسی، معاشی اور ماحولیاتی اصطلاحات میں بات کر انسان کے گلے میں نئے التباسات کے طوق ڈالے جارہے ہیں۔
ردنوآبادیاتی تنقید، سامراجی قدروں اور نظریات کو ہی نشانِ ہدف نہیں بناتی بلکہ دیگر جمہوری، معاشرتی اور سیاسی نظاموں میں چھپے ہوئے نوآبادیاتی اور سامراجی عنصر (عزائم) کو بھی شناخت کرلیتی ہے کیونکہ ان نظاموں میں فرد کی آزادی ایک دھوکہ ہے جب یہ نظام ہائے جیات مغرب سے سابقہ نوآبادیاتی خطوں میں برآمد کیے جاتے ہیں تو نراجیت، فاششت اور آمریت کا روپ دہار لیتے ہیں۔
اردو میں سامراج اور نوآبادیات کے حوالے سے چند اصطلاحات کے اردو تراجم اور منفردات درج کیے جارہ ہیں۔ جو عموماً نوآبادیاتی مطالعوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
استعماریت- استعماریت پسندی – عادات Colonisalism
نوآبادیایہ – کالونی طریقے سے – مستعمرانہ Colonally
آبادکار-مستعمر – نوآبادی کا باشندہ Colonist
نوآبادیات نظام – استعماریت پسند Clonization
افسر نوآبادیات Colonization Officer
آباد کار Colonizer
نئی بستی قائم کرنا Colonize
نوآبادیاتی استعماری Colonial
نیا استعمار- نئی نوآبادیات Neo Colonisalism
پس استعماریت – پس نوآبادیات Post Colonisalism
رد استعماریت – ردنوآبادیات De Colonisalism
سابقہ نوآبادیاتی نیو کلیائی مخاطبہ Former Colonist Nuclear Discourse
1. W.B.Yeats, Collected Poems, New York: Macmillan, 1959. P. 146.
2. Said Edward W., Culture and Imperialism, New York: Alfred A. Knopf, 1993. PP 220-238.
3-رابرٹ سلیل (ترجمہ مبارک علی)، ’’کلچر امپیریلزم‘ ، لاہور: ماہ نو جولائی ۱۹۸۶ء ، ص: ۲۳
4. Said, Edward. Orientalism, New York: Pantheon, 1978.
5. Neruda, Pablo, Fully empowered, trans. Alastair Reid, New york: Farrar Straus & Ciroux, 1986, P 131.
6. Moyers Bill, World of Ideas, New York: Doubleday 1989 PP 506-513. (Conversation with carlos Fuentes)
ll
Jadeediyat, Maba’d Jadediyat aur PasNauaabadiyat
Articles
جدیدیت، مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیات
احمد سہیل
جدیدیت، مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیات کا مخاطبہ وسیع، پیچیدہ، مخالق نامطابق میدانوں میں بٹا ہوا ہے۔ ان تینوں نظریاتی مباحث سے بھی روابط، انسلاک کے کثیر الجہت معنی پوشیدہ ہوتے ہوئے بھی ان کی محدودیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ یہ اپنے مزاج اور اس کے پس منظر میں مابعد پر ہی مکالمہ نہیں کرتی بلکہ اپنے قریبی اور اختتامی ’مابعد‘ تصورات کو بھی حدود المکان اپنے مباحث میں شامل کرتی ہے۔ بہرحال ان تینوں تصورات کے انسلاکی پہلوؤں میں متن کو مختلف اندازسے تجزیہ کیا جاتا ہے اور انھی متنی تجزیات کے مباحثی بطن سے فکر کے وسیع تر دروازے کھل جاتے ہیں اور متن کی صورتِ حال میں نئے امکانات تلاش کرکے ان کے فکری روابط کو دریافت کرنے کے بعد کئی فکری اور اضافی پہلوؤں کا انکشاف بھی ہوپاتا ہے۔ لہذا مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی فکر رویوں کی یکسانیت اور تفاوت کے کئی دلچسپ نکات ابھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لسان کے حوالے سے ہی بیانیہ آوازیں مابعد جدیدیت کے عام چوکھٹے (فریم ورک) میں اپنی جلوہ نمائی کرتی ہیں اور اسی حوالے سے عدم تسلسل، عدم مقامیت، عدم مرکزیت، نایقینیت اور نوآبادیات شکنی جیسے تصورات ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ نکات ، شناخت ، تاریخ اور موضوعیت جیسے متنازعہ فی مسائل پر سوچنے پر اکساتے ہیں۔
انسانی موضوعات سے آئیڈیالوجی اور لسانی مخاطبوں کا ممکن ہونا:
مابعد جدیدیت اور بالخصوص پس ساختیات کے ہدوف میں موضوع اور تنقیدی انسان پسندی کے قیاسات کے انسانی موضوعات کو لامرکز کرنا، شامل ہوتا ہے۔ موضوعات اور فلسفیانہ فکر شکنی کے صورتِ حال میں مسلسل شناخت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ادبی تحریروں کے ڈھانچوں کو شعوری طور پر کار گر معنیات عطا کرتےہیں، جیسے کہ وہ ان پہلوؤں سے فکری مخاطبہ کرتی ہے جس کا تعلق نوآبادیاتی خطوں میں لینے والے لوگوں ےس ہوتا ہے اور ان کی پہچان اور ان کی صورتِ حال پر ’موضوعیات‘ کا حاوی عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ موضوع اور موضوعیاتی عنصر کے یہی انسلاکی رویے لسان سے ہی متعلق ہوتے ہیں کیونکہ موضوعیت کے تساولی عنصر سے ہی موضوعیت لسان سے متعلق و منسلک ہوجاتی ہے اور انسانی فطرت کے متبادلیات قیاس ہی نہیں کیے جاتے بلکہ اس سے فکری تشکیلات بھی جنم لیتی ہیں اور انسانی موضوعات سے ہی آئیڈیالوجی اور لسانی مخاطبہ بھی ممکن ہوپاتا ہے۔ جو موافق طور پر پس نوآبادیات کے مخاطبے میں مثبت طور پر اور مابعد جدیدیت کو بھی متعارف کرواتا ہے جو کہ مثبت اقدار اور افتراقات کو ایک دوسرے سے اپنی شراکت داری کا احساس بھی دلواتے ہیں اور آئیڈیالوجی پر کلیت اور یکسانیت کو مستحکم بناتے ہیں۔ جس طرح جدیدیت کے تصورات مجّرد اور مغائرتی چیلنجوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیتےہیں اور مابعد جدیدیت کے مخفی اور ثنوئی مرابتیاتی افکار کو ’ذات دیگر‘ کے حوالے سے منظر عام پر لاتے ہیں اور اپنی سفارشات میں افتراقات کی کثیرالجہت اور مخٓلق نا مطابق کثریت کو ثنوتی تضادات سے جدا بھی کرتی ہیں۔
بورژواژی لبرل ازم سے بیزاری:
لنڈا ہیچن (Linda Hutcheon)نے ژان فرانسرز (Jean Francois)کے مابعد ثقافت کے تناظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا لبرل انسان دوست ثقافت کا حاوی لیبل انکے برخلاف جاتا ہے۔ اس سے زیادہ صحیح اور نمایاں طور پر ان کے خیالات کو اس طور پر لیا جاسکتا ہے جیسا کہ ہیچن نے لیوتاغ (لیوتار) کے بارے میں لکھا ہے کہ :
حقیقت پسندانہ مابعدجدیدیت ثقافت کے لیے ضروری ہے کہ مہابیانیہ کے جوابی اقدار کے تصور سے آگاہ ہو جیسا کہ اسطور اور فن میں ہوتا ہے، یہ جدیدیت کے لیے بھی اطمینان بخش قرار پاتا ہے۔ ہیچن کا خیال ہے کہ لیوتاغ نے مابعد جدیدیت کی وساطت سے مہابیانیہ پر جس قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا ہے وہ اصل میں بورژواژی لبرل ازم سے بیزاری ہے۔ ہیچن کے بقول لیوتاغ کا مابعد جدیدیت کے حوالے سے مہا یا مابعد بیانیہ کے لیے یہ خیالات بے اعتقادیت سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔ جو کہ اصل میں ’معنویت کی گم شدگی‘ کا رنج و غم ہے۔ جس کے پس منظر میں اصل ماتم اس بات کا ہوتا ہے کہ آگہی کے عمل اور فن یا دنیا میں بنیادی طور پر بیانیہ کی آگہی کا کسی قسم کا وجود نہیں ہوتا۔
مہا بیانیے کا تصور جدیدیت کے یہاں ناقابل قبول ہے:
لیوتاغ نطشے کی طرح عیسائیت، روشن خیالی اور مارکزم پر بحث کرتے ہیں۔ جو کہ اصل میں مغربی تہذیب کا مہابیانیہ تصور کیا جاتا ہے جو کہ مابعد جدیدیت کی تشکیک کی وجہ سے آنکھیں کھولتا ہے اور عظیم کہانیوںکی کل تشریح اور توجیہات کو انسانی فطرت، حریّت ، ترقی اور تاریخ کے مخصوص ماحول میں ہی پروان چڑھاتا ہے۔ بہرحال لیوتاغ کا چھوٹا بیانیہ تکثرتی معاشرے میں نطشے کے Overmanکے مرابتیاتی منصوبے اور ’غلام‘ کام کرنے والوں سے بہت مختلف نوعیت کا ہے۔ دریرداؔ اور نطشےؔ کی طرح لیوتاغ بھی اس بات کا تاثر دیتے ہیں کہ مہابیانیہ کی ضروری بنیادیں مزید قبول نہیں کی جاسکیں۔ بہرحال نطشے اور لیوتاغ دونوں کا ہی تاریخی تناظر چارو ناچار ایک مخصوص دائرے میں گردش کرکے اپنا سفر مکمل کرتا ہے ۔ لیوتاغ کا خیال ہے کہ ’مکمل طور پر مہابیانیے کا یہ تصور جدیدیت کے یہاں ناقابل قبول ہے کیونکہ مابعدجدیدیت کی تشکیلیت سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے۔
فن کا انفرادیت اور اجتماعیت سے غیر واضح انسلاک:
مابعد جدیدیت کا ’پتلاپن‘ مابعدبیانیہ انفرادی انسانی موضوع کو اتفاق و موافقیت کے نظریے کی ’دریافت‘ میں بہادیتا ہے، چاہے بیانیہ کا نظام ہمیں اس بات پر سوچنے کی اجازت دے دے کہ ہم تساولی اور آفاقی سطح پر نظیرے اور فنکارانہ عمل کی عوامی بحث کو افتراق کے بیاں میں واضح کریں۔ اتفاق اور موافقت کے وجدان کو تساولی التباس کے اس انسلاک کے ساتھ ابھارے جس کا تعلق فرد اور معاشرے سے ہوتا ہے جس میں انسان زندگی بسر کررہا ہوتا ہے لیکن فن کا انفرادیت اور اجتماعیت سے انسلاک غیر واضح ہوتا ہے جو درحقیقت انسان کی زندگی اور فن سے علیحدگی کا عندیہ دیتی ہے جو کہ انسانی پیکریت کے مقابلے میں ابتری اور انشتار کو ابھارتے ہوئے اسے گرفت میں نہیں لے پاتی اور مابعد جدیدیت کے فن کے بارے میں برعکس قسم کی غلط بیانی بھی ایک مخصوص نظام کے ساتھ ترتیب پاتی ہے لہذا انفرادی انسانی موضوع، فن، معاشرہ اور نظریہ مجبوریوں میں لپٹا محسوس ہوتا ہے۔
مابعد جدیدیت-مابعد بیانیہ کی جانب بے اعتقادی ہے:
لیوتاغ نے مابعد جدیدیت کے سیاق کو سائنسی تناطر میں موضوع بحث بناتا ہے اور ان کے تفتیشی رسائی کے شعبدے تجربی مطالعوں سے بہت پیچھے ہیں۔ لیوتاغ نے ’جدید‘ کی اصطلاح کو سائنس اور قانونی حوالے سے ظاہر کرتے ہوئے مابعد بیانیے کے تصور کو ابھارہ ہے جو کہ مہابیانیے کے لیے واضح طور پر جازبیت کو ابھارتی ہے جیسے ’روح کی جدلیات‘ ۔ تفہیماتی معنویت، عقلی آزادی یا موضوع کے اعمال اور دولت کی تخلیق کاری سے متعلق ہے۔
لیوتاغ کا خیال ہے کہ روشن خیالی بیانیہ قیاسی طور پر پیغام دینے والے اور پیغام وصول کرنے والے کے درمیان ایک طرح کی موافقیت ہے اس رابطے میں اصل’مقولہ ‘ پیش کی قدر کا ہوتا ہے۔ جو اس وساطت سے عقلی ذہن کی متوقع ہم کلامی ہوتی ہے۔ لیوتاغ نے مابعد جدیدیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مابعد بیانیہ کی جانب بے اعتقادی ہے۔ اور اس سے زیادہ بیانیہ کے وظائف زبان کے بیانیے کے عناصر کے سبب جبر کا شکار ہوجاتے ہیں اور یوں بیانیہ ادراک اور مظاہر کو نئی معنویت سے آشکار کرتا ہے لہذا مابعدجدیدیت کی اصطلاح کی تساولی وجوہات کی بنا پر مہابیانیہ کا عدم امتیاز بھی ہے جس پر روایت کے حوالے سے زبان کی تلوار لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور اسی دنیا اور زبان کا آپسی رابطہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ دریرداؔ کے تصور ’لفظ کی مرکزیت‘ میں پوشیدہ ہے جو کہ معنی کی مرکزیت میں توازن پیدا کرنے کے لیے قطبین کے تناؤ کے درمیان افتراقات کو بھی تلاش کرتا ہے۔
دریرداؔ کے رد تشکیل کے اس مخاطبے کو رومان سیلڈن (Roman Selden)نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے ، ’معنی کی مرکزیت‘ کی خواہش میں یہ موجودگی کی ضمانت ہوتی ہے۔ جیسے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ذہنی اور طبیعی وجود ایک مرکز پر مجتمع ہوتا ہے اور اس کیفیت کی ساخت اس کے مکاں پر آکر جمع ہوجاتا ہے۔ بہرحال فرد کی آزادی کے بغیر چھوٹا بیانیہ یا مہابیانیہ ایک دھوکہ ہے اور مائیکرو بیانیے سے ہی میکرو بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ اجزا ہی مل کر ’کل‘ بیانیے کو بناتے ہیں۔ ریاستی جبر ہویا ریاستی استبداد ان سب سے چھوٹے برے بیانیے ہی فرد سے ابلاغ کی جہتیں ابھر کر فرد اور اجتماع کو تاریخی جبر اور معاشرتی و سیاسی استبداد کی صورتِ حال سے آگاہ کرتا ہے اور اسی سے نوآبادیاتی بیانیہ اور مخاطبہ کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔
نطشے، فورائیڈ، فوکو اور دریردا کے مدِّ نظر مرکزیت کا قیاس مختلف سطح پر ایک کل کی صورت میں عقلی موضوعیت ہے اور اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ مرکزیت کے اصولوں سے باہر رہ کر اس پر سوچا جائے جیسا کہ ہم وجود جوہر، ہرستی، سچائیہ، ہیئت، ابتداور اختتام۔ شعور، فرد، خدا پر فکری مکالمہ کرتے ہیں جو شاید قطبین کے مجموعے کے حاوی ثنوتی اختلافات یا تضادات سے نظریں چراتے ہیں اور اس کام میں ’عمل‘ کی مرکزیت کی شناخت کو پالینے کے لیے ’خیال دیگر‘ سے انکار بھی کردیا جاتا ہے۔
مشرق اور مغرب کے ثنوئی اختلافات کی تشکیلات:
ثافتی انتشار مخاطبوں کے ان بیانیوں میں انتشار فکر اور گرمگو صورتِ حال پیدا کردیتے ہیں۔ جس سے نوآبادیاتی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ’ثقافت اور سامراجیت‘ میں ایڈورڈ ولیم سعید اسی قسم کی عدم یکسانیت کے التباس کو مرکزیت کی شناخت اور موضوعیت میں دریافت کیا جو انفرادیت اور اجتماعیت میں ابھرتی ہے، یوں زبان بیانیہ کی دوسری قسم بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے مغرب اور مشرق کے جوغے دار اضداد کی تشکیلات پ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرق اور مغرب کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نوآبادیات کی مشیری اور سامراجیت کو ثقافتی ثمر کے طور پر پیش کرتے ہوئے نوآبادیاتی معاشروں نے محکوم آبادیوں پر اپنے فن اور ادب کو اعلا ترین بناکر پیش کیا۔ جس طرح شیکسپیئر کا کیلیبن (Caliban)پس نو آبادیاتی اسطوری کردار ہے جس کا قریبی انسلاک زبان و تاریخ کسے ہے اور اس کی زبان انسانی کاوشوں سے ہی جنم لیتی ہے کیونکہ نوآبادیات کبھی نہ کبھی اپنے لسانی روپ کو سامنے لاتی ہے اور بعض دفعہ یہ اپنی شناخت کی بحالی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی ہے اور وہ پس قطبین میں پہنچ کر قوم پرستانہ اقتدار اور آزادی کو بیاں بالیقین میں تبدیل کردیتی ہے۔ لہذا اس سلسلے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مختلف اقسام کی شناخت ہمیشہ ناکام رہتی ہیں یوں بھی ثنوئی اختلاف کے تصور میں قوم پرستانہ اور سامراج متعلقات بہت پسندیدہ ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ پرانا اقتدار آسانی سے نئے اقتدار کی جگہ نہیں لے سکتا اور یوں نئے تصورات، خیالات حدود اور جوہر تیزی سے زمین میں آتے ہیں اور اس طور پر تصورات کی نئی صف بندی، فکر کے نئے اور بنیادی نوعیت کے سکونی تصورات کی شناخت کی درجہ بندی ہوپاتی ہے جو کہ سامراجی عہد کے دوران ثقافت کے افکار کی پہچان قرار پاتے ہیں۔ نوآبادیاتی شناخت کے سلسلے میں ’شناختی بیت‘ بھی نمود کھاتی ہے۔ جس کا مقولہ ’ہم‘ اور ’وہ‘ ہوتا ہے۔ اس قسم کی میکانیت نئی ہیئت، سیاسی افتراقات کی حرکیات سے جنم لیتی ہیںباوجود اس کے کہ ردِّ تشکیل حدود اور تجدیدات نوآبادیوں اور نوآبادیوں کے درمیاں ایک کٹھن عمل ہوتا ہے۔
مابعد جدیدیت سے پس نوآبادیات کا ابھرنا، اور اختتام محیط ارض سرمایہ داریت پر ہونا
ایڈورڈ سعید کے خیال میں نوآبادیاتی صورتِ حال اس سیاق میں ہوتی ہے کہ کیسے فن و ادب ایک دوسرے سے باہم ہوکر نوآبادیات کی سیاست کے رویوں کو ابھارتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے لکھا ہے کہ نوآبادیاتی ادب عموماً مغربی سامراج کے مہابیانیہ کو تہہ بالا کرتا ہے اور محمبّر (Concrete)دعوؤں کے ساتھ نوآبادیاتی موضوعات سے رابطہ کرتی ہے۔ شناخت اور موضوعیت کے حوالے سے ایڈورڈ سعید بنیادی مسائل کو چھیڑتے ہوئے سامراجی تجربے کو ادراکِ نو کے حوالے سے Compartmentalisedکی اصطلاح سے علیحدہ کرکے بیاں کیا ہے اور ایڈورڈ سعید ان حدود کو بآسانی مغربیت اور مشرقیت میں تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ عارف ڈارلک (Arif dirlik)کا اس سلسلے میں یہ خیال ہے کہ ان مسائلی حدود کو سیاسی اور معاشی متعلقات سے باہم کردیا جاتا ہے۔ عارف ڈارلک نے اپنے ایک مقالے Borderland Radicalismمیں مابعد جدیدیت اور پسِ نوآبادیات کے تنقیدی رویوں کی وساطت سے حدود، موضوعیت اور تاریخ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ عارف ڈارلک نے انکشاف کیا ہے کہ مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیات کا رجحان نوآبادیت کی پس سرمایہ داریت پر زور دیتا ہے کیونکہ مابعدجدیدیت کی صورتِ حال نمایاں طور پر اعتدال پسند عہد کی پیداواریت ہے۔ جو کہ نظری فرائض کے تحت تاریخ اور معاشرتی نظریات کو چیلنج کرتی ہے اور اس کو حاصل کرنے کےلیے سیاسی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ بہرحال ساتھ ہی وہ تاریخ کے موضوعات کا صفایا کردیتی ہے۔ یہ تمام صورتِ حال سیاسی عمل کے طور پر سامنے آتی ہیں اور تاریخ کے موضوعات کو تہس نہس کردیتے ہیں اور ساتھ ہی کئی موضوعات کی ’خطرناکی‘ کو بھی کم کردیتے ہیں۔ یہ قبل تصوراتی نوعیت کے نظریات ہوتے ہیں اور اپنے مزاج میں دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
عارف ڈارلک کا دعوا ہے کہ یہ پسن نوآبادیات کی انبساطی تکثریت ہے جو کہ سرحدوں کے حدود کے بہاؤ کے محدود مکاں (Space)پر زور دیتے ہیں اور اشرفیہ کے مشابہ بیانیہ اور ثقافت سے بہت زیادہ اختلاف نہیں کرتے جیسا کہ انھیں کرنا چاہیے۔ ڈارلک نے بہتے ہوئے موضوعات کے مقام کے رجحانات میں پائے جانے والے روابط کا بھی سراغ لگانے کی کوشش کی ہے کہ مابعد جدیدیت سے پس نوآبادیات ابھرتی ہے اس کی انتہا محیط ارض سرمایہ داریت پر آکر اپنا دم توڑتی ہے۔ پیدواریت کے اس لچک دار دور میں ہم سب سرحدوں میں مقید زمینوں پر رہتے ہیں۔ سرمایہ، عدم علاقائیت اور عدم مرکزیت، سرحدوں کے علاقے تشکیل دیتے ہیں جہاں آسانی سے گھوما پھرا جاسکتا ہے، فرد، ریاست اور معاشرے کے کنٹرول سے دور رہتا ہے لیکن پھر بھی ریاست اور معاشرے کا تصادم بھی مشاہدے میں آتا ہے۔ بہرحال مسئلہ یہی ہوتاہے کہ پس نوآبادیاتی مخاطبہ ہی اس کو منظرِ عام پر لاتا ہے اور مادی زندگی آزادی کے مخاطبے کے مسئلے اور اس کی علیحدگی اور بذاتِ خود اس کی مادی زندگی کی صورتِ حال اسی حالت میں عصری، آفاقی معاشرے بنیادی اصولوں کو محیط ارِ سرمایہ داریت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
عارف ڈارلک کا خیال ہے کہ دانش ور طبقہ محیط ارض سرمایہ دارانہ نظام کا ہی حصہ ہے جو ان کے یہاں زماں و مکاں کا ملا جلا تصور ہے۔ بہرحال مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیاتی ادب انارکی اور انتشار ہی برپا نہیں کرتا بلکہ وہ جدیدیت کی فکریات (آئیڈیالوجی) کے خلاف باغی بھی پیدا کرتے ہیں اور لازمیت کی شناخت کے کل بیانیے کو بھی رائج کرنا چاہتے ہیں۔ عالمی نوعیت کا سرمایہ دارانہ نظام کا کسی انسان دوستی یا آئیڈیالوجی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ آزاد غلاموں کی منڈیوں میں مقامیوں کا استحصال کرنا اور اپنی برتری کو محیط ارض پر پھیلانے کے لیے ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرکے ہر اس فکر و آئیڈیالوجی کو کچل دیتے ہیں جو ان کی راہ میں آتے ہیں اور فکری بیانیہ اور اس کا مخاطبہ ممکن نہیں ہوپاتا۔
مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی مباحث روشن خیال پروجکٹ کا نقد ہے:
عارف ڈارلک کا موقف یہ ہے کہ جدیدیت کا پروجکٹ انیسویں صدی کی اس فکری روشن خیالی کے بعد تشکیل پاتا ہے جب اس کے بطن سے آفاقی اخلاقیات، قانون، آزادنہ فنون اور معروضی سائنس کو تشکیل دینے کی سعی کی گئی ہے کیونکہ اس سے یہ امید ہوچلی تھی کہ فن اور سائنس نہ ہی فطرت کی قوتوں کو کنٹرول ہی نہیں کریں گے بلکہ آفاق، ذات، اخلاقی طریقۂ کار، اداروں کے قوانین اور انسانی وجود کے انسباط کی آگہی کو بھی اپنی گرفت میں لاسکے گی۔
لگتا تو ایسا ہے کہ مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی مباحث بذاتِ خود روشن خیال پروجکٹ کا نقد ہے جو کہ عدم تسلسل، تدبیلی اور غیر یقینیت کی راہوں کو مٹانا چاہتی ہیں۔ اس کے مصنوعی پن کا مظاہرہ عموماً ذات کے انعکاس کی صورت میں نمودار ہوتا ہے جیسا کہ ناول نگار، افسانہ نگار تھامس پنچن ، سلمان رشدی، کارلوس فونٹین، مارکیز اور اردو میں جوگندر پال، سریندر پرکاش، احمد ہمیش، الیاس احمد اور آغا گل کے افسانوی متن کا بنیادی مقولہ ہے۔ یہ چلن بیانیہ آرکی ٹیکچر کے انتشار میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جس میں کسی زمانی خاکے، منصوبے اور فریم ورک کے وجود کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا لیکن لسانیات کے نظام میں یہ رد تشکیل اور تشکیل نو کے مباحث کو ابھار دیتا ہے۔ ایک نقطۂ نظر سے مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیات کو نقطۂ اتصال فراہم کرتا ہے اور بیانیہ اور لسان میں نئی تعبیرات کھولتے ہوئے ہائی ماڈرن ازم کو دریافت کرتا ہے جیسا کہ جیمس جوائس کے Finnegans Wakeمیں نئی زبان و الفاظ کے کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس طرح ناصر کاظمی کے شاعرانہ بیانیے میں نئی لسان و لفظیات اور معنیات کی نئی گرہیں کھلتی ہیں۔ حبیب جالب کی شاعری کابنیادی مخاطبہ اسی نوآبادیات کی باقیات کے خلاف احتجاج اور فکری مزاحمت کا مہابیانیہ ہے جبکہ ن م راشد کے یہاں سامراجی قوتوں کے خلاف آگہی اور اعصابی تناؤ دراصل جدید تر فرد کی وہ بے چینی پائی جاتی ہے۔ جو پس نوآبادیاتی معاشروں کا المناک سانحہ بنا۔ راشد کی شاعری نئی نئی جدیدیت اور مقامی نوآبادیاتی رویوں کا درد بھرا اور حقیقت پسندانہ مخاطبہ ہے اور ہائی ماڈرن ازم کا پردہ چاک بھی کرتی ہیں جس ک پس منظر میں نوآبادیاتی فکر کا بھیانک منظر نامہ ادراک میں آتا ہے۔ یہی آگہی راشد کے شعری بیانیے میں داخل ہوکر نئے نوآبادیاتی رجحان کو ابھارتی ہیں جو کہ مقامیت کے حصار میں تیسری دنیا کے فرد کی اذیت ناک سیاسی، معاشرتی اور آئیڈیا لوجیکل تجزیوں کا قنوطی اور دل خراش تجزیوں کا مشاہدہ ہے۔
نوآبادیاتی شناخت اور باہمی افتراقات کو دریافت کرتی ہیں:
پس نوآبادیاتی دیگر Post-ismsکی طرح نہ ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ نہ ہی نوآبادیاتی مطالعوں کا اختتام ہے اور ن ہی یہ اسے منفرد کرتا ہے بلکہ وہ نئی آگاہیوں اور رسائیوں کے تحت نوآبادیاتی تصورات اور اس کے واقعات و مظاہر کو قدرے قریب ترین تناظر فراہم کرتے ہیں۔ جس سے نوآبادیاتی موضوعات کے تاریخی سیاق میں نئی شناخت تشکیل پاتی ہیں۔ اور جو نوآبادیاتی شناخت میں مطالعہ کیے جانے والے ثقافتی، معاشرتی گروہوں کے باہمی افتراقات کو دریافت کرتے ہیں۔ پارتھا چٹرجی (Partha Chaterjee)کے بقول ’قوم اور اس کا انتشار کے وصف نوآبادیاتی پروجکٹ ہیں جو کہ اقتداری اور اقتدار پسندطبقے سے مختلف طبقہ ہوتا ہے۔ یہ اصل میں اعتدال پسند طبقہ ہوتا ہے۔ اور اقتدار پسند طبقے سے مغائرتی فاصلہ رکھے ہوئے ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ متن ان افتراقات سے دھند صاف کرتا ہے۔ جس میں ’دوسروں‘ کو کم تر اور ریڈیکل سطح پر مختلف بتایا جاتا ہے۔
قوت و اقتدار کا شعور پر قابض ہونا
نوآبادیاتی پروجکٹ سیاسی اور معاشی قوتوں کے اس عدم مساوات کو بھی اپنی تعریفات میں شامل کرتا ہے جو ان کے عالمی انسلاکات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں ثقافتی اور مذہبی متعلقات ہی نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی حرکیات اور رجحانات کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے جو کہ آلتھیوسے (Althuseer)کی درجہ بندی کے حوالے سے ریاست کے ادارتی اور جبریاتی آلات (Apparatues)ہوتے ہیں۔
بلاشبہ ہم اس وقت جس صورتِ حال کا مطالعہ کررہے ہیں وہ نوآبادیاتی کو بحیثیت کلیاتی واقعات کے قریبی تناظر میں پرکھنا چاہتی ہے کہ نوآبادیات کی اصطلاح دنیا کو پہلے ہی نوآبادیاتی آقاؤں اور نوآبادیاتی نظام میں کچلے ہوئے لوگوں کے انسلاک کے ماجرے کی صورت میں ادارک میں آچکی ہے جو کہ حاشیائی سطح پر ابھر کر مرکوز ہوجاتی ہے جیسا کہ ایڈورڈ ولیم سعید نےمشرقیت کے حوالے سے یہ اشارہ کیا ہے کہ ’’سامراجی قوتوں کو ایک دوسروں کو خلق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ مشرق کے فکریاتی نظام میں یہ تعریف خود ان کے مرکز میں برپا ہوتی ہے۔ سامراج کی سیاست اس مرکز کے دوسرے قطبین سے بھی خوف زدہ ہوتی ہے جو حاشیاتی سطح پر ایک منصوبے کے تحت ’دوسرے‘ کے طور پر نوآبادیات کے محکوم لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان تمام کا تمام انسلاک ایک مرکز پر ہی محیط ہوتا ہے۔
سیاست اور معاشرت پر ثقافت کا غلبہ:
نگووگی واتھیونگ (Naugi Wathoings)اپنے نظریہ اور فکشن میں نوآبادیات کی اثر پذیری کو ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سیاسی اور معاشری سیاق کے موضوعات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے زیادہ ثقافتی نوآبادیاتی منصوبہ بندی کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں جو کہ نوآبادیات میں بسے ہوئے لوگوں کی مدد سے ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے ارتباط اور یک جہتی کی کوئی صورت نکال لیتے ہیں انھوں نے The Cultural Factor in Neo-coloialeraمیں اپنے اس موقف کااظہار کیا ہے کہ ’’سیاسی اور معاشی کنٹرول پر ثقافت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ آہستہ آہستہ گہرا سے گہرا تر ہوتا چلاجاتا ہے جو کہ تعلیم، ابلاغ، ادب، مذہب، زبان کے تحفظ، حکمتِ عملی اور حرکت پذیری کو کلی طور پر کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اقتدار اور قوت کا جبری تصور ہے جو کہ رویوں، مطمع نظر، اقدار محسوسات کی صدرت میں مخصوص آئیڈیالوجی پر حاوی ہونا چاہتا ہے اور بعدازاں قوت کی یہ صورتِ حال شعور کے تمام حصّوں پر غلبہ جمالیتی ہے۔ ذاتی پیکروں سے لے کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی انھیں محسوس کیا جاتا ہے۔ جس میں حاوی رجحان طبقات اور اسکی تمثالوں کو ثقافتی اور نفسیاتی سطح پر کنٹرول کرتے ہیں اور جبری تصورات اور طبقاتاس بات کی کوش کرتے ہیں کہ ’غلامی‘ کے طوق کو وہ عام سی انسانی صورتِ حال کے طور پر رائج کردیں۔
ثقافتی نوآبادیات کی منصوبہ بندی نو (Neo)نوآبادیاتی اصطلاح اور معنویت کو نئی طور پر روشناس کرواتے ہوئے وہ اشرافیائی طبقے کے معاشی ہدوف کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو کہ سابقہ نوآبادیاتی نظام کی اساس ہوتی ہے۔ ثقافتی نوآبادیات سابقہ نوآبادیات میں فلم، ریڈیو، ٹیلی وژن، انٹرنیٹ، فیشن اور شو بزنس کے افقی التباس کو رواج دے کر سابقہ نوآبادیات میں بسنے والے عوام کو فکری جمود کے حصار میں مقید کردیتے ہیں۔
پس نوآبادیاتی ادب، سامراجی قوتوں کی ساخت سے برآمد ہوتا ہے
جب پس نوآبادیاتی نظام میں تعلیمی نظام اور زماں ثقافتی پیداوار کا روپ دہار لیتی ہے تو اس کے نتیجے میں پس نوآبادیاتی ادب ابھرتا ہے۔ ’’پس نوآبادیاتی ادب یورپی رزمیہ اور بیانیہ سے ہوتی ہوئی یورپی بورژوا ناول کی بنیادوں پر تناسب کا رنگ اختیار کرتی ہے۔ جو بہت ہی عمیق طریقے سے تاریخی اور ثقافتی امتیازات کو بڑی صفائی سے مٹا کر پس نوآبادیاتی افتراق کو ابھارتے ہیں اور اس ردعمل کے طور پر غیر فطری پس نوآبادیات ابھرتی ہے اور خود اپنے ہاتھوں سے ہی اپنا گلاخود ہی گھونٹ دیتی ہے اور اپنے اختلافات اور اپنی ڈاڑاروں کو خود ہی منظرِ عام پرلاتی ہے…..!‘‘
(’’پس نوآبادیات کیا ہے؟‘‘ از مشرا وارہیجن) لیکن اب نئے محیط ارض کا عالمی منصوبہ نئی نوآبادیات کی تشکیل بندی کرکے ثقافت اور ادب کو نئے رنگ میں پیش کرتے ہوئے تیسری دنیا کے عوام کا آبادی کی منصوبہ بندی سے لے کر مذہبی درس گاہوں پر نقب لگانے سے بھی باز نہیں رہتا اور یوں نوآبادیات کا نیا بیانیہ بھی تجربے میں آتا ہے اور اس کے بیانیے کو اس کے ذرائع ابلاغ اعلا قسم کا بیانیہ اور طاقت ور مخاطبہ قرار دے کر عالمی سطح پر اس کی رونمائی کی جاتی ہے۔
پس نوآبادیاتی صورتِ حال دراصل نوآبادیات کے معاشرتی سیاسی، معاشی اور ثقافتی ردعمل کے مزاحمت اور احتجاج کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ مشرا او ر ہیچن کا موقف ہے کہ پس نوآبادیاتی ادب سامراجی قوتوں کی ساخت میں سے برآمد ہوتے ہیں جو اس کے ترتیب وار طریقۂ کار کے ثقافتی غلبے سے تشکیل پاتے ہیں اور اس مقام پر پس نوآبادیات کی نبضوں کو تلاش کرتے ہیں جن کے بطن میں نوآبادیاتی مخاطبہ چھپا ہوتا ہے اور پس نوآبادیاتی ثقافتی رویوں کے مثبت اور منفی نتائج سے پیشگی طور پر آگاہ بھی ہوتا ہے اور اپنی ثقافت کو مقفل کردیتا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کسی طور پر بھی نوآبادیاتی ادب اور ثقافت کی تشریح اور ترجمہ ان کی زبانوں میں ہو اور یہ بھی چاہتا ہے کہ یورپی مطالعے اور قرات کو لا مرکز کرکے اس کو نوآبادیاتی متن کے حصوں میں شامل کردے جس میں مسخ چہروں والے نام اور بے شناخت لوگوں اور ان کی آئیڈیالوجی کو پیش کرتے ہیں۔ یہ قوت اور حاوی اقتدار کا حصہ ہوتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ قوت کے اس انسلاک کو موثر طور پر پھیلا جائے۔ نوآبادیات سے نوآبادیاتی صورتِ حال پھوٹتی ہے۔ ارتقائی حالت میں وہ نوآبادیاتی نظام سے اختلاف بھی کرتی ہے۔ نوآبادیاتی تناظر میں ادب کے تنقیدی پہلوؤں کو تجزیہ کیا جاتا ہے۔ مغرب کے انسان دوست مابعد بیانیے کی بنیادوں میں کئی مسئلے مسائل ہیں جنھیں نوآبادیاتی رجحانات اور تصورات جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یوں نوآبادیات بذات خود سیاست اور تاریخ کا محرک بن جاتے ہیں اور نوآبادیات کے تنقیدی فریم ورک کے باہر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا اور یوں وہ اپنے تناظر کو شناخت کے لیے پس نوآبادیاتی تناظر کا محتاج ہوجاتا ہے۔
عینیت: جواز اور عقلیت کا استحقاق ہے:
مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیات کا جب بھی قریبی طور پر تقابل کرنا مقصود ہو تو ذہن میں جدیدیت بطور پس نوآبادیات کے آتی ہے۔ ان کے انسلاکات دریافت ہوتے ہیں جو کہ نوآبادیات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔ اس تعلق سے جدیدیت اور نوآبادیاتی مطالعوں میں پیچیدگی بھی پیدا ہوتی ہے جو بلاشبہ دلچسپ بھی ہے اور کسی طور پر موضوع سے الگ بھی نہیں اور وہ اپنے مطالعوں اور تجزیات کا جواز خود ہی پیش کرتی ہے۔ دونوں ہی روشن خیال بیانے کے مبادزت (Chalenges)کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ جدیدیت عرصے سے اپن طو رپر کچھ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی تھی۔ بقول لیوتاغ مابعد بیانیے نے مغرب کے انسان دوست افکار کو دوبارہ منفرد کیے ہوئے دیوتا میں تبدیل کردیا۔ اس سلسلے میں اس قسم کے تجزیات ہوئے کہ سرمایہ داریت کے عروج اور مغربی قوتوں کی سامراجی دلچسپی نے جدیدیت کے تصورات کو ابھارتے ہوئے اس کی کلیت میں ارتقا کے عنصر کو بازیافت کرنا چاہا۔ یہ عینی نوعیت کا ارتقائی تصور بہرحال روشن خیال پروجکٹ سے کشید ہوتا ہے اور یہ جواز اور عقلیت کا استحقاق بھی ہے کیونکہ ذہن اور جواز اور ’کنٹرول‘ قسم کی فطرت سے مکمل طو رپر علیحدہ وہتی ہے جو کہ ’اندر‘ اور ’باہر‘ کی جنگ کا سبب بنتی ہے۔ اس کا تمام کا تمام ڈھانچہ منطقی ہئیت اور اس کاخلاصہ موضوعی (Substantive)سیاق میں ہوتا ہے۔ جو کہ موضوعی وجودی کیفیت اور معروضی حقیقت کو بھی احاطہ مشاہدہ میں لاتا ہے۔ جدلیات کی روشن خیالی میں ہورک ہائمر (Hork Heimer)اور اودونو (Adorno)نے لکھا ہے کہ تخلیقی دیوتا کی روح فطرت کے قوانین جیسی ہوتی ہے مینز (Mans)کا کہنا ہے کہ خدا کا اقتدار اعلا دنیا کے اوپر ہوتا ہے اور قیادت ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ مینرز کی اس تعریف میں قوت کی مشق جو کہ موضوع اور معروض کے مابیں ایک قسم کے التباس کے انسلاک کا عندیہ دیتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس کو کس طرح بڑے سے بڑا کیا جائے اور یہی ’آقا‘ کا تصور معاشرے کے نظام میں ’آقا‘ اور ’غلام‘ کی حرکیات کے غلبے کا سبب بنتا ہے پھر کلی سطح پر معاشرے میں وہ بذات خود قوت کی علامت ہی نہیں بنتا بلکہ یہ اپنے طور پر اپنے آپ کو مستحکم سے مستحکم تر بناتا رہتا ہے اس بات کو ہورک ہائمر اور ادودنو نے ’ثقافتی صنعت‘ (Cultural Industry)کہا جو کہ اپنی ہی خدمات کو اپنی ہی ذات کی بقا کے لیے ایک مرکز پر لے آتی ہے اور یہ ثقافتی اشیا سامراج کو آفاقی اور فطری غلبے کی شدت کے ساتھ ابھارتی ہے۔ ہورک ہائمر اور ادودنو نے اپنے مطالعوں اور تجزیات میں خارجی نوآبادیات کا تذکرہ نہیں کیا جس کی مدد سے روشن خیالی اور سامراج کے انسلاک کو آگہی میں لایا جاسکے۔ اسی حوالے سے یہ مقامی لوگوں کو ’ترقی‘ کا جھانسہ دے کر مغربی غلبے کا جواز پیش کرتے ہیں، اسی طرح کی صورتِ حال کئی نوآبادیاتی بیانیوں میں نظر آتی ہے۔ خاص طو رپر کانریڈ ( Conrad)کیپلنگ (Kipling)وار ڈینیسن (Dinesen)پال ڈی ایووا (Paul D. Ivo)کے مخاطبے میں مقامی آبادیوں کے لوگوں کی معاشرتی حرکیات اور ماحولیاتی احوال نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ تمام مخاطبے فطرت کی تمثالوں کو تشریح کررہے ہوں۔ لیکن یہ تمام کے تمام بیانیے عمیق قسم کے سیاسی ردعمل میں تبدیل ہوکر کبھی کبھار بشریات کے سوالوں کو اٹھاتے ہیں۔ ان بیانیوں میں ’مقامی‘ (آدمی) فطری سطح پر غیر تہذیبی انسان ہوتا ہے۔ فکر کا یہ تمام کا تمام ڈھانچہ ثنوئی اخلافات کے نظام کو ابھارتا ہے جس سے فرد فطرت سے علیحدہ ہوکر مغائرت کی نئی سطحوں کو بنتے دیکھتا ہے جس میں زیادہ تر صورتِ حال اس قسم کی ثنوئی اختلافات کی ہوتی ہے۔
فطرت؍ ثقافت
دائیں ؍ بائیں
جنگ ؍ امن
دن ؍رات
آقا ؍ غلام
ثواب ؍ گناہ
اچھا ؍ برا
عروج ؍زوال
ہار ؍ جیت
مہذب ؍ جنگلی
زندگی ؍ موت
ملاپ ؍ جدائی
زمین ؍ آسمان
مغرب ؍ مشرق
اندھیرا ؍ اجالا
لڑکا ؍ لڑکی
محبت ؍ نفرت
گرم ؍ سرد
بہادر ؍ بزدل
جھوٹ ؍ سچ
جنت ؍ دوزخ
چاند ؍ سورج
غریب ؍ امیر
جدید ؍ قدیم
اور انھی ثنوئی اختلافات کی مدد سے نوآبادیاتی فکر کو عقلیت کا روپ دے دیا جاتا ہے جو اس وقت سیاسی اور معاشی محرکات سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اصل میں مغربی عقلیت اپنے آپ کو تاریک ابتریت (Chaotic)اور فطرتی دنیاؤں میں آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ ان نوعیتوں کی قراتوں میں نوآبادیاتی قاری ادیرداؔ کے رد تشکیل کے افتراق (Differance)کی اصطلاح کو پالیتا ہے۔
مابعد جدیدیت، جدیدیت کو مکمل طور پر مسترد نہیں کرتا۔ بیچن نے اسے Rhetoric of rupureکہا ہے۔جس میں ماضی کی مثنیت کو Remainsجانا گیا ہے اور اس بات کا درس بھی دیا جاتا ہے کہ معاشرتی حقیقتوں کی ساخت مخاطبوں کے بعد تشکیل پاتا ہے اور ہیچن نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مابعد جدیدیت کا مابعد بیانیہ کی جدیدیت کا انسلاک ایک قسم کا تنقیدی Revisitingاور طنزیاتی مکالمہ ہے جو کہ فن اور معاشرے کے ماضی سے متعلق ہوتا ہے اور اس کمشکش میں بعض دفعہ نئے مظاہر بھی ادراک کا حصہ بنتے ہیں، عموماً مابعدجدیدیت نوآبادیاتی تاریخی متعلقات کو اپنی مباحث سے بے دخل نہیں کرتا۔ بہرحال یہ لازمی نوعیت کا رد نوآبادیات اور پس نوآبادیات کا شناختی پیمانہ ہے جو مابعد جدیدیت کے نظر انداز کیے ہوئے معاشرتی نظریے کی عملیات سے روشن خیالی کی نئی کرنوں کو ابھرتا محسوس کرتا ہے تاکہ نوآبادیات کی قراتِ نو ممکن ہوسکے کیونکہ یہ بیانیے پر حاوی خیال کیا جاتا ہے۔
لبرل انسان دوست بدیعیات، تشکیک سے عبارت ہے:
چٹرجی (Chaterjee)نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ رد نوآبادیات کے شروع کے زمانے میں جس قسم کی ’قومیت‘ کو فروغ حاصل ہوا، وہ پیچیدہ تھا کیونکہ یہ ثقافتی اعتدال پسندی تھی، وہ اس طرح کہ وہ نوآبادیاتی حکومتوں سے اپنی خود مختاری ایک محکوم حالت میں کرتی تھیں جو کہ پس روشن خیال معاشرتی افکار کے آفاقی جواز کے ماخذات سے تشکیل پاتا تھا۔ یہ پس نوآبادیاتی نظریے کے پھلنے پھولنے کے لیے تذبذب کا مقام تھا۔ جو اس بارے میں زور دیتا تھا کہ آزادی کو تسلیم کروانے کے لیے صرف سیاسی اور معاشی خود مختاری پر ہی تکیہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ بات بھی صاف ہے کہ نوآبادیات منصوبے اور اس کا مخاطبہ سابقہ نوآبادیات سے ہی ترتیب پاتا ہے۔ بعد ازاں یہ لبرل انسان دوستی کی بدیعیات کے طریقے کار کی تشکیک کی صورت میں ابھرا اور آفاقی مہا بیانیے کو پس نوآبادیات اور مابعد جدیدیت کے پروجکٹ سے جوڑ دیا گیا۔
نئے نوآبادیاتی موضوعات کی لاتشکیلیت اور مزاحمتی ماڈل کی فراہمی:
مابعدجدیدیت کے زیر اثر پس نوآبادیاتی فکر ایک خطرناک اور حساس قسم کا وظیفہ ہے کیونکہ اس سے پس نوآبادیات ایک دوسرے سامراجی پروجکٹ میں داخل ہوجاتی ہے۔ جب بھی پس نوآبادیات کو مابعدجدیدیت کی اصطلاح میں رکھ کر مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس نے مابعدجدیدیت کے بطن سے جنم لیا ہے اور پس نوآبادیات کے سیاسی اور تاریخی جہتیں بھی وہیں سے پھوٹتی ہیں حالانکہ یہ اس کا نوآبادیاتی فکر کے تناظر کا کلیدی نکتہ ہوتا ہے۔
مشرا اور بیچن نے اس سلسلے میں (۱) نسل (۲) زمان اور (۳) سیاسی کشمکش کا ایک دوسرے سے فرق واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان تینوں تصورات کو پس نوآبادیات کے کسی بھی نظریے میں جوڑا جاسکتا ہے۔ اگر پس نوآبادیات کے نظریے اور اس کی عملیات کو اگر غیر موثر بنادیا جائے تو روشن خیال پروجکٹ اس کو عقلی بنادیتا ہے۔ وہ نوآبادیاتی موضوعات کو خلق کرنے کے علاوہ موضوع کی صورتِ حال اور اس کے موضوعات کی ہیئت بندی کرنے کے لیے سوالات اٹھاتا ہے جو بعد میں رد نوآبادیات کے منصوبے کا لازمی حصّہ بن جاتا ہے اور اس سے رد نوآبادیاتی پروجکٹ میں کئی عنوانات کی توسیع ممکن ہوپاتی ہے۔
بہت سے پس نوآبادیاتی لکھنے والے نوآبادیاتی یا نئے نوآبادیاتی موضوعات کو لاتشکیل کرکے قوت کی ساخت کو نوآبادیاتی موضوع سے Intertellateکرتے ہیں۔ یہ موضوعات کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور کسی طو رپر د تشکیل کا وظیفہ بھی قرار پاتے ہیں ایک ہی وقت میں وہ اقتصادی اور ثقافتی سامراجیت کے درمیاں پیچیدگیاں کھڑی کردیتے ہیں تاکہ مزاحمت کے ماڈل اور نظریات مہیا کیے جائیں۔
مزاحمتی مابعد جدیدیت اور معاشرتی کشمکش سے معنی کا پیدا ہونا:
بیچن کے بقول مابعدجدیدیت بنیادی طور پر متنازعہ ہے کیونکہ یہ سیاسی اور تاریخی متعلقات کو الجھا دیتی ہے۔ ٹریسا ایبرٹ (Teresa Ebert)اسے مزاحمتی مابعدجدیدیت کہتی ہیں۔ جو کہ لفظ اور دنیا کے مابین ایک تصور ہے۔ اس میں زبان اور معاشرتی حقائق یا مختصر طور پر افتراق میں متن کے نتائج نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن یہ معاشرتی کشمکش کے لیے کوشش ضرور کرتا ہے۔
زبان رسمی نظام سے معنی حاصل نہیں کرتی لیکن معاشرتی کشمکش سے معنی جنم لیتے ہیں۔ لہذا یہ عیاں ہے کہ ’مزاحمتی مابعد جدید کی اصطلاح دو ’’Postism‘‘کو رسائی عطا کرتے ہوئے زبان کی مادّی کارکردگی میں جبر کے خلاف کشمکش کرنے کے لیے ’علاقہ‘ فراہم کرتی ہے اور یوں معنیاتی خصائص کا خلاصہ مابعدجدیدیت اور نوآبادیات کے مابین شراکت داری کا احساس دلواتا ہے۔ مادّی زبان کی اختراع نوآبادیاتی فرد کے شعور اور سائیکی میں اس سبب داخل کی جاتی ہے کہ وہ جبر کے خلاف مزاحمت کو بھول جائے اور لمحہ گزارنے میں لگ جائے کیونکہ سامراجی نظام نوآبادیاتی فرد پر لمحوں کو بہت بھاری کردیتا ہے تاکہ فرد روئی اور بنیادی ضرورتوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے اور سامراجی نظام کا دیا ہوا نظریہ زیست اپنالے۔ زندگی سے سمجھوتہ اور معاملہ کرکے خود کو مٹادے تاکہ معاشرتی کشمکش کی فکری معنویت خود ہی دم توڑ دے۔
درخاتمہ:
مابعدجدیدیت کی وساطت سے جب بھی نوآبادیاتی مطالعوں سے متعلقہ موضوعات پر بحث کی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ ہر نوآبادیاتی مظہر کو ہم اس حوالے سے سمجھ پائیں۔ مابعدجدیدیت سے نوآبادیات کا تقابل ایک صحت مندانہ فکری تصّور ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی مابعد جدیدیت اتنی واضح نہیں کہ وہ نوآبادیاتی مطالعوں کو کامل اور مکمل طور پر اپنے ادراک میں لاسکے۔ مابعدجدیدیت، جدیدیت کے دوسرے قطبین پر کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں کہیں نہ کہیں جدیدیت کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور نوآبادیات، پس نوآبادیات، رد نوآبادیات، نئی نوآبادیات علاقاتی ؍ مقامی نوآبادیات وغیرہ چاہے کوئی بھی مطالعہ ہو وہ جدیدیت اور ہر اس مغربی بازگشتوں اور اس کے ثقافتی مطالعوں سے دور رہتا ہے جس میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے والا ’سامراج‘ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد والے ’نوآبادیات‘ مظاہر کا جبر دکھائی دیتا ہے۔
مابعدجدیدیت کی بحث عرصے سے ہونے کے باوجود بھی اس کی بہت سی باتیں انسانی فہم میں نہیں آرہی کیونکہ ان کی تفہیم اور تشریح گرمگو ہے۔ مابعدجدیدیت کے حوالے سے جب بھی نوآبادیاتی بحث ہوتی ہے تو مابعدجدیدیت نوآبادیوں مطالعوں پر جبری طور پر غالب ہوجاتی ہے کیونکہ مابعدجدیدیت میں ’مغربی سائیکی‘ چھپی ہوتی ہے جس کا تناسب کچھ زیادہ ہی ہے۔ جب بھی نوآبادیاتی مطالعے کیے جائیں تو ضروری ہے کہ علاقائی ؍ مقامی مابعدجدیدیت کے فکر احوال اور حوالوں کے ساتھ اسے گرفتِ بحث میں لایا جائے۔ اگر ’مغربی‘ مابعدجدیدیت کے مجرد تصورات کا جوں کا توں لے کر اور اس کی مخفی رجعت پسندی کے منفی رجحان اور مخصوص سائیکی کی تہذیبی نامیات کو آگہی میں لائے بغیر نوآبادیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ ریت کے محل کی طرح پل بھر میں ڈھیر ہوجاتا ہے۔ نوآبادیاتی مطالعے بنیادی طو رپر ’مغربیت‘ کی اس سامراجی قوتوں کے خلاف کھلا احتجاج اور مزاحمت ہی نہیں بلکہ ماضی میں مغرب کی ان سامراجی قوتوں نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے خطوں میں جو گل کھلائے ان زخموں کا دور اور سفّاکی نوآبادیات میں بسنے والا فرد اب بھی اپنے جسموں پر محسوس کرسکتا ہے۔ نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہوجانے کے بعد نوآبادیاتی باقیات اور اس کا استحصالی نظام اب بھی ان سابقہ نوآبادیاتوں میں اپنے مقامی مہروں کی معاونت سے قائم ہے۔ آدھی صدی سے زائد گمرجانے کے بعد بھی نوآبادیاتی باقیات کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا کیونکہ مغرب کی جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے فکری سیاق وسباق کا حاوی غلبہ نوآبادیاتی مطالعوں میں تشکیک، ایہام کو ابھار کر نوآبادیاتی فرد کو فکری سطح پر الجھا کر اس کا میٹھی چھری سے قتلِ عام کرتا ہے ان کی آگے پڑھنے اور ترقی کی جتنی بھی کوشش ہوتی دکھائی دیتی ہیں وہ اصل میں ’مغربیت‘ کے تصورات اور عزائم کا سانحہ ہوتی ہیں اس منفی فکر اور عملی حرکیات نے وہ گل کھلائے اور کھلا رہی ہے۔ جس میں آزاد فکر اور آزاد فرد کا تصور مفقود ہے جبکہ ’آزاد غلاموں‘ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مابعدجدیدیت میں معاشرتی معاشی اور تمدنی اختتاصیت کو کمال ہوشیار سے ایک دوسرے میں مدغم کرکے نئے مخاطبے کو تشکیل دے دیا جاتا ہے اور نوآبادیاتی تاریخ کو غیر اہم گردان کر اس کو سرمایہ دارانہ سامراجیت کو نوآبادیاتی فکر سے مصنوعی انسلاک کی کوشش بھی کی جاتی ہے، اور حقیقی تاریخی حرکیات کو وہ بنادیا جاتا ہے جو حقیقت میں سچی نہیں ہوتیں، اس میں بصریت کا خلا بھی ہوتا ہے اور جب یہ فکری ’نمونے‘ نوآبادیاتی خطوں میں برآمد کیے جاتے ہیں تو وہ ترسیل کی تشکیک کا شکار ہوکر خود ہی غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ مابعدجدیدیت اور نوآبادیاتی مطالعوں کی قرأت کی منہاجیات ایک دوسرے سے مختلف اندام کی ہوتی ہے اس کا بیانیہ، جمالیاتی مخاطبہ کچھ ایسے قیاسات کو بھی جنم دیتا ہے جو فکری متغیرات کی صورت میں ایک دوسروں کو مسترد بھی کردیتے ہیں کیونکہ ان دونوں مطالعوں میں تاریخ اور ثقافتی راہیں اور رسائیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔
نوآبادیاتی فکر میں فرعد اور گروہ قابلِ تقسیم ہوتے ہیں۔ انھیں با آسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ان کو بانٹ کر ان کے حقوق کو غصب کرلیا جاتا ہے اور ان کو ان کی ہی سرزمین پر دوسرے درجے کا شہری بنادیا جاتا ہے یوں سامراجی نظام بڑی ہوشیاری سے اکثریت پر غلبہ جمالیتا ہے۔ استغراب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ مغرب کی اجتہادی تحریک نے کلیسا کو چیلنج کیا اور نشاۃ ثانیہ نے مغرب کے فرد کو آفاقی مرکزیت عطا کی، انساں دوستی کے تصور، سائنسی، تجربی اور عملیاتی ترقی نے ادعائیت اور تنگ نظری کو مسترد کرتے ہوئے کشادہ دل کا جھانسہ دیا۔ جبکہ مغرب کی یہی روشن خیالی ایشا، افریقا اور لاطینی امریکا کی قوموں کو عیارانہ طور پر اپنا غلام بنانے کےلیے ایک عمیق نوعیت کا استحصال اور سامراجی پیمانہ ثابت ہوا۔ ان کی فکری معنیت نے سامراج کے شکنجے کو نوآبادیاتی علاقوں میں گہرا سے گہرا تر کردیا۔ جدیدیت نے نوآبادیاتی تسلط میں آئے ہوئے علاقوں میں فرد کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیردیا۔ اصغری (Micro)اور اکبری (Macro)نامیات کو بڑی ہوشیاری سے تہس نہس کیا گیا اور احساس دلوایا کہ سامراجی حکمران ہی تاریخ بناتے ہیں اور تاریخ لکھتے ہیں، اس کے موئف بھی وہی ہوتے ہیں۔ اصل میں ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی جبر کا تسلسل ہی تاریخ کو رقم کرتا ہے۔ تاریخ اجتماعی جبر سے عبارت ہوتی ہے۔ مابعدجدیدیت کا مغربی تناظر اپنی تاریخ کو بناتا ہے۔ تاریخ گری کے بعد وہ دوسروں کی تاریخ کو بڑی ہوشیاری و صفائی سے بگاڑ بھی دیتا ہے اور نوآبادیاتی فکر کو ابہام، تشکیک، عدم شناخت اور ادھورے پن میں مبتلا کرکے اس کے نامکمل ہونے کا جواز پیش کرتا ہے۔ مابعدجدیدیت ہزار واحدنی نظریے کی نفی کرے لیکن جب بھی وہ نوآبادیاتی مطالعوں میں اپنا نفوذ کرتی ہے تو وہ، وہ نہیں رہتا جس کا وہ عموماً اعادہ کرتا ہے۔ وہ ادبی مخاطبے کو بھی بیاں کرتی ہے لیکن ثقافتی مخاطبے کے سلسلے میں ان کا ذہن صاف نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ نوآبادیاتی مطالعے اور اس کی فکری جہتیں سب کے سب چشم زن میں مسمار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرد کا احزان اس میں ہے نہ کسی ثقافتی جہت کا بھرپور اخصار مابعد جدیدیت کے متعلقہ احقاق مکیں نمو پذیر ہوتا ہے۔ مابعدجدیدیت بعض دفعہ نویساریت پسندوں کے تصورات سے نوآبادیاتی مطالعوں کی تفہیم کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مابعدجدیدیت نویساریت پسندوں کے احصار میں رہ کر اپنی نوآبادیاتی آگہی کو انشراح کے تفہیمی نظام میں تبدیل کردیتے ہیں اور ان باتوں سے اغماض برتے ہیں جو کہ ان کے فکری وار ذہنی نظام کے ادراک میں شامل نہیں اور مابعد جدیددیت کے فکری اہمال نوآبادیاتی مطاعلوں میں جب بھی نفوذ کرتے ہیں تو اس میں مغربی سامراج کی ایالت بھر کر نوآبادیاتی نوآبادیات تصورات کو مدھم کرنا چاہتی ہے۔ مابعدجدیدیت کا سامراجی نظام نئی مغربیت کے روپ میں اپنی نمو چاہتا ہے جو فکرکا ایک ایسا تاریخی جبر ہے جس میں انخفاف بہت ہے اور نوآبادیاتی نظریاتی مطالعوں میں منازعت کا باعث بھی بنتا ہے۔ مابعدجدیدیت اور نوآبادیاتی اپنے مزاج میں ایک دوسرے کی ضد ہرگز نہیں مگر ان کے فکری افتراقات بہت وسیع اور عمیق ہیں۔ کوئی مطالعاتی اور تنقیدی ماڈل کو ہم سرے سے مسترد نہیں کرسکتے۔ موضوعیت ہو یا معروضیت یا اس کی تکنیکی مباحث، یہ سب ادبی نظریوں کے لیے ضروری ہیں۔ نظریاتی ماڈل ہیئتی ہوتا ہے یا نظریاتی، جس میں جبریاتی عنصر حاوی ہوتا ہے۔ تمام مطالعے قرأت سے ابتدا کرتے ہیں پھر تفہیم، تمدنی حرکیات اور تاریخی جبر کا تناظر فکرِ آگہی کو نئی راہوں سے متارف کرواتے ہیں اور فرد کی فکر کو سیراب کرتے ہیں۔
مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیاتی مطالعوں کے لیے مناجیاتی اور فکری سفارشات:
(۱) موضوع کی لامرکزیت اور تاریخانہ
lنسل، طبقہ اور جنسی گروہوں کی موضوعاتی صورتِ حال
lفطرت کے موضوعات کی تشکیل پر زور دینا
lمابعدجدیدیت کو انسان دوست نظریے کے طور پر تشریح و تعریف
lمابعدجدیدیت کو بطور سامراجیت کے نظریے کے طور پر تشریح و تعریف
lتقابلی موضوعات کو مرکوز نکتے پر لاکر یکساں نوعیت کے عمومی سوالات کی گرہیں کھولنا۔
مرکزیت کبھی بھی متن کو مکمل طور پر گرفت میں نہیں لے پاتا اور رد تشکیلیت کے تناظر میں حاشیائی اور سابقہ مرکزیت اپنے آپ کو تسلیم کروانے کے لیے اپنی ہی ثقافت کو بے شناخت بنادیتی ہے، جس کاقیاس کیا جاسکتا ہے۔
(۲) متنی حکمت عملیوں کو حاوی مخاطبے کو تہس نہس کرنے کے لیے منظرِ عام پر لانا:
lسامراج کی نشاہندی کرنا اور عام بدیعیاتی حکمت عملیوں کو حاضر مخاطبے کو مقابلے کے لیے زمانی اور مکانی سطح پر پیش کرنا
lمتن کے ساتھ معاملہ : قبل نوآبادیاتی متن کا زبانی اور تحریری انسلاک (کہانی گو؍ واقعہ گو کو بطور راوی جاننا – اسطور کا استعمال ) جادوئی حقیقت پسندی (عقلیت کے بنے بنائے تناظر کے رویوں سے مبارزت)
lلسانی نظام کے افتراق کو نمایاں کرنا
lکھلے بیانیے
lتصمین: تنقیدی فاضلوں کو دہرورانا، جب یکسانیت کو قلب میں طنزیہ افتراقات کا رمز بنتے ہیں اور ثقافتی تبدیلی کے تسلسل کو قائم رکھتے ہیں۔
lبیانیہ تناظر کو ناپیدار کرنا
(۳) متن کے اندر رد تشکیلیت کی حرکیت:
lبطور ایک سیاسی ایجنڈے کے کھلے اور مہابیانیے کو لاتشکیل کرنا اور کردار بندی کے باہر رہ کر انسانی تجربے کی تدوین کرنا جو مثبت ردتشکیل میں مغربی فلسفے سے متعلق ہوتی ہے۔
lمنطقی مبادزت کی منطقی درجہ بندی کو اختلافات کے ساتھ تشریح و تفہیم کرنا جس طرح اسپیوک کا کہنا ہے کہ ’ردتشکیل مغربی تاریخی بیانیے کے تصور سے بنیادپاتا ہے۔‘
lمہابیانیے کو نوآبادیاتی مرکز سے توڑ کر علیحدہ کردینا، اس کی کھوج کرنا اور ان کے متعلق منطقی درجہ بندی کے حوالے سے سوچ و بچار کرنا جو ہم خود سے بھی مغائرت کیے ہوئے ہو۔
(۴) ادبی روایت اور مکمل متن کا تساولی انسلاک:
lہمیشہ حاوی مخاطبے کو مدنظر رکھے جانا
lادبی ماضی کے تنقیدی تناظر کو مدِّنظر رکھنا
(۵) تاریخی یقینیت کے سوالات:
lتاریخی بیانیے کی تشکیلی فطرت پر زور دینا
lگم شدہ مہابیانیے کو دریافت کرنے کےلیے اسے نوآبادیاتی بیانیے سے الگ رکھنا (یہ مسئلہ نسوانی اور گے اور لزبن متن میں مشاہدہ کیا جاتا ہے)
lانسانی تاریخ کو بطور اجتماعیت جاننا، لیکن جس کے تجربات انفرادی ہوتے ہیں اور انسان دوستی اور آفاقیت سے اختلاف کرتے ہیں۔
lمتبادل ، نظرثانی، تاریخ کا جغرافیائی ردعمل
(۶) حقیقت پسندی پر نقد:
lدوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنے کے سوالات اور اس کے تشریح و بیاں کے لیے حقیقت پسندانہ تناظر کی ضرورت۔ اس صورتِ حال میں ’اصل‘ کو دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جو پہلے ہوچکا ہے ، وہی سامنے لایا جائے۔
(۷) آفاقیت اور لازمیت کو مسترد کیے جانا:
lمرکز کے مرکزی مخاطبے کے سوالات
lمغربی افکار اور اس کے تاریخانہ کے بنیادی سوالات
lعمومی اور مقامی مظاہر کا مرکوز مطالعہ
lغیر یقینیت اور تبدیلی کی خواہش کو تسلیم کیا جانا
lاختلافات
(۸) ذیلی نوآبادیات کا مطالعہ:
lسابقہ نوآبادیاتی خطوں میں پائے جانے والے متن اور مخاطبوں میں ذیلی نوآبادیات کا سراغ
lنوآبادیاتی نظام سے نجات حاصل کیے ہوئے ممالک میں بڑے لسانی، معاشی، مذہبی یا سیاسی گروہوں کے چھوٹے گروہوں کے استحصال سے آگہی۔
lسابقہ نوآبادیاتی علاقوں میں ذیلی نوآبادیات کی حرکیات، جبر اور مزاحمتی احتجاج کا نیا بیانیہ اور اس کا کھوج لگانا۔
lسابقہ نوآبادیات میں نئی نوآبادیات (نوآبادیات کی باقیات) کی آگہی و تشریح
lذیلی نوآبادیات میں پائے جانے والے ذیلی گروہوں کا آپسی نظریاتی تصادم- تصادم کی یہ صورتِ حال سیاسی، انسانی حقوق، مذہبی آزادی، لسانی، معاشی اور ثقافتی مسائل کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔
lعسکری اور دفتر شاہانہ طبقے کا نوآبادیاتی نظام کی باقیات سے جڑا رہنا
lذیلی نوآبادیات میں جاگیردارانہ نظام کا برقرار رہنا
Works Cited
Abrams, M. H. A. Dictionary of Literary Terms: Seventh Edition, USA, : Harcourt Brace, 1999.
Adam, Ian, (Ed) “Past the Last Post” Areil: A Review of English Literature, Vol 4, No.4, Oct – 1989.
Ashcroft B., Griffiths G. and Tiffin H. “Key Concepts in Post-colonial Studies”. New York: Routledge. 1998.
Brodber, Erna. “Fiction in the Scientific Procedure.” (Essay)
Brodber, Erna. Jane and Louisa Will soon come home. London: New Beacon Books. 1980.
Deane, Seamus. Introduction to James Joyce’s “Finnegan’s Wake”. Penguin, 1992.
Dirlik, Arif. “Borderlands Radicalism” in After the Revolution: Waking to Global Capitalism. Hanover. Wesleyan UP, 1994
Hutcheon, Linda. “Postmodernism” in Encyclopedia of Contemporary Literary Theory. Ed Irena R. Makaryk. Toronto: University of Toronto Press, 1993.
Hutcheon, Linda. A Poetics of Postmodernism: History, Theory, Fiction. New York: Routledge, 1988.
Robinson, Dave. Nietzsche and Postmodernism. New York: Totem, 1999.
Rushdie, Salman. Imaginary Homelands: Essays and Criticism, 1981-1991. New York: Viking, 1991
Said, Edward. Culture and Imperialism. New York: Random House, 1993.
Selden, Raman and Widdowson, Peter. A Reader’s Guide to Contemporary Literary Theory (Third Edition). Kentucky, USA: University Press of Kentucky, 1993
ll
Rafia Sbabnam Abidi by Shaikh Hasina
Articles
پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی

شیخ حسینہ
رفیعہ شبنم عابدی کی پیدائش مہاراشٹر کے بمبئی کے علاقے میں بی۔ آئی۔ ٹی بلاکس نامی کالونی میں ۷؍دسمبر ۱۹۴۳ کو ہوئی یہ گھرانہ بڑا ہی معزز گھرانہ ہے۔ رفیعہ کے جد اعلیٰ سید محمد مدنی جو کہ اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے عالم دین تھے جن کا سلسلہ اٹھارہویں پشت میں امام جعفر صادق سے جا ملتا ہے۔ وہ مدینے سے ایران ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف لائے اور ہندوستان آکر یہاں رشد و ہدایت میں اپنے آپ کو مصروف کر لیا، تبلیغ دین اور انسان دوستی کا درس عام کرنے کی خاطر مہاراشٹر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے پونہ ضلع کے ایک قصبہ ’’ منچر‘‘ میں آ گئے اور یہ جگہ انھیں ایسی بھائی کہ ہمیشہ کے لئے یہیں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں مراٹھا سرداروں کا تسلط تھا۔ اس دور میں جن سیدوں کو جاگیر اور انعام و اکرام سے نوازا گیا ان میںرفیعہ شبنم عابدی کے آبا و اجداد بھی شامل تھے۔ اسی باعث اس خاندان کو ’’ انعام دار خاندان ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آگے جاکر ان کے چار بیٹے ہوئے ان چاروں نے بھی ’’منچر‘‘ ہی میں سکونت اختیار کی۔ اس بارے میں رفیعہ شبنم عابدی نے لکھا ہے کہ :
’’ وہ ایک درویش صفت عالم دین تھے۔ اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں علم بانٹتے بانٹتے کسی نیک ساعت میں مہاراشٹرا کے ضلع پونے کے ایک قصبے منچر ( جسے ایرانی سپاہی پہلے ہی مینو چر بمعنی جنت نشاں کا لقب دے چکے تھے۔) پہنچے، یہ جگہ خد اجانے کیوں انھیں ایسی بھائی کہ بستی کے عین قلب میں کافی اونچائی پر اپنا حجرہ بنا کر تا دم آخر بستی والوں پر علم و عرفان کی بارش برساتے رہے۔ پھر ان کے چار بیٹے مستقل طور پر یہیں بس گئے ۔ میری رگوں میں اسی قبیلے کا خون دوڑرہا ہے جسے آج بھی سادات جعفری منچر کے نام سے جوڑا جاتاہے۔‘‘ ۲؎
رفیعہ کے والد صاحب کی جائے پیدائش بھی منچر ہی ہے۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش معاش میں وہ بمبئی آگئے۔ اور پھر انھوں نے بمبئی ہی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ رفیعہ کے والد سجاد علی منچری ایک اچھے شاعر، ادیب اور ماہر ریاضیات تھے۔ شاکر لقب کرتے تھے۔ شاعری میں انھیں بالواسطہ دبستان داغ سے نسبت تھی انھوں نے شاعری کی تقریباً ہر ایک صنف شاعری میں طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے۔ وہ پرائمری ٹیچرز ٹریننگ کالج میں لکچرر تھے بعد میں صدر مدرس کے مقام پر فائز ہوئے۔ ان دنوں جب مہاراشٹر ریاست عمل میں نہیں آئی تھی اور سرکاری اداروں کا وجود نہ تھا سجاد علی منچری درسی کتابوں کی ترتیب اور تیاری بڑی ذمہ داری سے نبھایا کرتے تھے۔ تحتانوی اور ثانوی دونوں جماعتوں کی سائنس اور ریاضی کتابیں بڑی مشقت اور عرق ریزی سے تیار کیا کرتے ا ور یہ سلسلہ ہنوز ریاست مہاراشٹر کے قیام میں آنے اور ٹیکسٹ بک کمیٹی و بال بھارتی اداروں کے شروع ہونے تک جاری و ساری رہا۔
رفیعہ کی والدہ سیدہ زینب بھی ایک نہایت ہی دلکش اور سادہ طبیعت کی مالک خاتون تھیں اور اس دور میں جب لڑکیوں ک تعلیم معیوب و معتوب سمجھی جاتی تھی سیدہ زینب نہ صرف قرآن مجید اور دینی تعلیم سے آراستہ تھیں بلکہ روزنامہ انقلاب کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔ ساتھ ہی مولوی نذیر احمداور راشد الخیری وغیرہ کے ناول پڑھ کر ادب کے مطالعہ سے بھی فیض یاب ہو اکرتیں ۔ ایک اچھی گھریلو عورت کی تما م ذمہ داریاں اور بچوں کی پرورش و پرداخت ان کے اولین فریضے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کی بھی پابندتھیں۔
ایسے علم و ادب کے دلدادہ والدین کے گھر میں رفیعہ نے اپنی زندگی کی پہلی سانس لی۔بی۔ آئی۔ ٹی بلاکس نامی یہ کالونی جہاں رفیعہ پید اہوئیں۔ اس دور میں تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں سے آباد تھی۔ ایک ایسی صاف ستھری میں جو ہر طرح کی گراوٹوں کمیوں اور خامیوں سے پاک صاف تھی۔ شعبہ حیات کے لگ بھگ تما م ذی علم و با شعور افراد جیسے ڈاکٹر، انجینئر، ماہر تعلیم، وکیل، پروفیسرز ،شعر و ادبا تمام کے تمام نے ا س بستی کو اپنے وجود سے معمور کیے ہوئے تھے۔ اس کالونی میں ایک لائبریری تھی جو وہاں کے مکینوں کی ادبی ذوق و شوق کا منہ بولتاثبوت تھی۔ جہاں مختلف موضوعات پر نہ صرف ادبی بلکہ مذہبی کتب کا گنج بیکراں موجود تھا۔ رفیعہ کے لئے ادبی شخصیات اور ان کی بیش قیمتی خدمات کو سمجھنے کے لئے لائبریری نے بڑا اہم کردار نبھایا ہے۔ اسی کالونی میں ’’ انجمن باشندگان بی آئی ٹی بلاکس‘‘ نامی ادبی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا جو یہاں کے علم دوست شخصیات کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ ا س سوسائٹی کے صدر رفیعہ کے والد صاحب ہی تھے ۔ اس انجمن کے ذریعہ ہر سال ادبی، سماجی، اور ثقافتی پروگراموں کے علاوہ مشاعرے بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ جن میں اس دور کے مشہور و معروف شعرا مثلاً کیفی اعظمی، شکیل بدایونی، اعجاز صدیقی، احسن دانا پوری، خمار بارہ بنکوی، منیر الہ آبادی وغیرہ شرکت کیا کرتے تھے۔ رفیعہ کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں ان تمام شعرا نے بھی بڑا بڑاخاص رول نبھایا۔ بچپن ہی سے مطالعہ کے شوق اور ان تما م شعرا و ادبا کی محبت او رشفقت کے باعث رفیعہ کے شعر و ادب کی طرف اٹھتے قدم روز بروز اور زیادہ مستحکم ہوتے چلے گئے۔ رفیعہ کے گھر میں ا س وقت کے تمام ادبی جرائد آیا کرتے تھے ، آجکل ، افکار، اصلاح، ماہ نو، نقوش، نگارا ایسے جریدوں کی بھر مار تھی۔ شعری مجموعے بھی منگوائے جاتے ا س کے علاوہ عروض و اصطلاحات پر مبنی کتابیں وغیرہ بھی گھر ہی میں موجود تھیں۔ رفیعہ نے کم سنی کی عمر سے ہی ،متذکرہ بالا تما باتوں سے استفادہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اندر ایک شاعرہ نے انگڑائی لی اور شبنم کی صورت میں وہ تمام دنیا سے متعارف ہوئیں۔
سجاد علی منچری کی یہاں کل نو اولادیں ہوئیں۔ رفیعہ ان میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ، منچری صاحب کی پانچ بیٹیوں او رچار بیٹوں نے ادبی ذوق ورثہ میں پایا تھا۔ رفیعہ کو علاحدہ کریں تو باقی تمام بھائی بہن بے حد جدت پسند اور خوش طبع تھے۔ ا س کے بر خلاف رفیعہ کافی سنجیدہ مزاج، اور بے حد حساس تھیں اور الگ تھلگ اپنی دنیا میں مگن رہنا جیسے ان کی عادت بن گئی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بہ دن ان کی حساس طبیعت اور سنجیدہ مزاجی نے انھیں بے انتہا گہری سوچ و فکر اور عمیق مشاہدہ کرنے کی صلاحیت عطاکی، انھوںنے ایک ایک موضوع پر سنجیدگی سے غور و خوض کر ناشروع کر دیا۔ اسی علاحدہ اور نرالی طبیعت نے انھیں احساس کمتری کا شکار بھی بنادیا تھا ۔لیکن اس میں مبتلا ہوکر رہنے کی بجائے اپنے سنجیدہ فن کی گہری بصیرت سے شعر و ادب کو ایک نرالا رنگ و روپ عطاکیا۔ اسی نئے رنگ سے انھوں نے خیالات و تصورات کا ایک نیا جہاں بسایا اور دنیا کو یہ احساس دلایا کہ وہ بالکل’’ منفرد و مختلف‘‘ ہیں۔ بچپن میں بہن بھائیوں میں جب بھی شعرگوئی کا مقابلہ ہوا کرتا تو سب سے بہترین غزل کہنے کا انعام رفیعہ ہی کے حصے میں آتا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتاہے کہ ان کے تخلیقی سفرکی شروعات ان کے گھر آنگن سے ہی ہوتی ہے۔
با قاعدہ ان کے تعلیمی سفر کا آغاز بمبئی میونسپل کارپوریشن کے زیر نگرانی چلنے والے امام باڑہ گرلز اسکول سے ہوا۔ جہاں انھیں پانچویں جماعت میں داخل کروا یا گیا۔ ان کے شعری سفر کی ابتداء بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ ا س اسکول کے محرک انسپکٹر آف ایجوکیشن سید ابو محمد طاہر تھے۔ انھوں نے طلبہ کے اندر موجود ادبی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے نظم خوانی کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ رفیعہ نے اسی سلسلے کے تحت طاہر صاحب کی عقیدت میں نظمیں کہناشروع کیں۔ بقول رفیعہ شبنم عابدی :
’’ہماری کلاس ماڈل کلاس قرا ردی گئی تھی۔ میں چونکہ کلاس میں مانیٹر تھی لہٰذا مجھے ہی ا س کاسرخیل بنایا گیا۔ میرا کام یہ تھا کہ کسی بھی استاد شاعر کی نظم از بر کرکے تحت اللفظ میں بآواز بلند سناؤں اور ٹیپ کا بند یا مصرعہ دوسرے دہرائیں۔ بس اسی دوران کب کسیے ایک مشاعرہ نے میرے ا ندر انگڑائی لی اور میں نے طاہر صاحب کی عقیدت میں نظمیں کہنا شروع کیں۔ ظاہر ہے بچکانہ نظمیںمثلاً :
جب بھی طاہر جناب آتے ہیں
ہم کو جغرافیہ پڑھاتے ہیں
کبھی نظموں کی با ت کرتے ہیں
کبھی کچھ شعر بھی سناتے ہیں
کبھی کرتے ہیں کچھ سوال عجیب
کچھ طریقے نئے سکھاتے ہیں‘‘۳؎
مذکورہ تمام باتوں کا نتیجہ یہ کلا کہ رفیعہ کو پانچویں جماعت ہی میں آزادؔ، نظیرؔ، اقبالؔ اور حالیؔ جیسے شعرا کی نظمیں ازبر ہو نے لگیں بعد ازاں رفیعہ نے نوویں جماعت کے لئے انجمن اسلام سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول بلاسس روڈ میں داخلہ لیا اس اسکول کے نظم و ضبط نے انھیں خاصہ متاثر کیا ۔ یہاں وسیع لائبریری تھی جس نے رفیعہ کے مطالعہ کو علم و ادب کے بسیط میدان سے آشنا کروایا اور رفیعہ کے مطالعہ کو تقویت بخشی۔ انھوں نے پریم چند، کرشن چندر، علی عباس حسینی، خواجہ احمد عباس اور عصمت چغتائی کی کئی کہانیاں اور افسانوں کے مجموعے پڑھ ڈ الے جس کی بدولت ان کا رجحان افسانہ نگاری کی طرف ہو گیا۔ اس دور میں ’’انقلاب ‘‘ نے رفیعہ کے علم و ادب کے ذوق کو پروان چڑھانے تخلیقی سفر کو صحیح سمت و راہ مہیا کرانے میں اہم کردار نبھایا۔ ’’ ہفت رنگ‘‘ کے نام سے انقلاب میں انور اشفاق کا ترتیب کردہ ایک صفحہ نکلتا تھا۔ رفیعہ ’’ ہفت رنگ قلم کار‘‘ سوسائٹی کے گرلز سیکشن کی برسوں سیکریٹری رہیں۔ رفیعہ جب تک سیف طیب جی اسکول میںزیر تعلیم رہیں ان کا رجحان شاعری سے زیادہ نثر کی طرف رہا۔ نوویں جماعت میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’ آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں‘‘ جس میں انھوں نے اپنے ایک آنکھوں دیکھے حادثے کو بیان کیا ہے۔یہ افسانہ روز نامہ انقلاب میں ’’بچوں کی دنیا‘‘ میں شائع ہوا، اسی دور میں پہلی دفعہ روزنامہ انقلاب میں رفیعہ کی غزل خواتین کے صفحہ’’ عالمِ نسواں‘‘ میں چھپی۔ مطلع ملاحظہ فرمایئے:
روکا تو بہت موجوں نے مگر ہم دامنِ ساحل پا ہی گئے
اک کوشش پیہم کرتے رہے اور جادۂ منزل پا ہی گئے
اسی زمانہ میں ’’ ماہ نامہ شمع ( دہلی) میں ایک اور غزل شائع ہوئی مطلع کچھ اس طرح تھا:
جو غم سے دور ہو ، وہ زندگی اچھی نہیں لگتی
تڑپ جب تک نہ شامل ہو ہنسی اچھی نہیں لگتی
شاعری کا یہ ورثہ ان کے والد صاحب کی طرف سے ملا مگر شاعری میںوہ اپنے والد صاحب کی شاگردی اختیا رنہ کر سکیں ، غالباً اپنے والد صاحب کو اپنا کلام دکھانے میں شرم مانع آجاتی ہو گی۔ مگر انھوں نے اپنے کلام پر نہ ہی کبھی کسی سے اصلاح لی اور نہ کسی کی شاگردی اختیار کی بس اپنی راہیں خود ہی تلاشتی رہیں۔
۱۹۶۰ء کے آس پاس جب تانیثیت کی تحریک بھی زور شور سے چل پڑی تھی۔ اسی دور میں رفیعہ شبنم منچری کے نام سے رومانی و سماجی کہانیاں لکھنے لگیں تھی۔ اس وقت وہ سب سے زیادہ ’’ واجدہ تبسم‘‘ کے رومانی افسانوں کا مطالعہ کیا کرتیں۔ اسی سے متاثر ہوکر ’’ جب دل ہی ٹوٹ گیا‘‘ اور ’’ میں پاگل میرا منوا پاگل‘‘ یہ دو رومانی ناول بھی لکھے۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء تک ماہنامہ بیسویں صدی میں رومانی کہانیاںلکھتی رہیں۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد انھوں نے صوفایہ گرلز کالج میں داخلہ لیا اور انٹر میڈیٹ میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوئیں۔ یہاںڈاکٹر فصیح الدین صدیقی اور محترمہ خیر النسا باقر مہدی جیسے باصلاحیت اساتذہ کی رہنمائی نے رفیعہ کے تخلیقی سفر کو رہنمائی عطا کی۔ انھوں نے صوفایہ کالج سے۱۹۶۵ء میں بی اے آنرز کیا پھر پروفیسر نجیب اشرف ندوی کی نگرانی میں ایم اے مکمل کر لیا۔ سینٹ جوزف کالج بمبئی سے پروفیسر نظام الدین گوریکر کے زمانے میں فارسی ایم اے اوّل درجے سے کامیاب ہوئیں۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری ’’ ہندوستان میں شیعیت اور عزا داری‘‘ کے عنوان پر بمبئی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آدم شیخ کی نگرانی میں حاصل کی ۔ اس کے بعد ان کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’ ملّا وجہی اور انشائیہ‘‘ کے لئے بمبئی یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا۔
رفیعہ نے جیسے ہی بی اے آنرز کامیاب کیا تو انھیںکے اسکول یعنی سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول میں لکچرر کے طور پر متعین کر دیا گیا۔ ایسااس لئے بھی ہوا کہ طالب علمی کے دور میں رفیعہ اس اسکول میں تما م اساتذہ کی ہر دل عزیز طالبہ تھیں۔ دوسرے ان میں قابلیت بھی بے پناہ تھی۔ اس ملازمت کو ابھی دو برس ہوئے تھے کہ ان کی شادی ’’ سید حسن اختر عابدی‘‘ سے ۱۹۶۷ء میں ہو گئی۔ عابدی صاحب اتر پردیش ضلع مراد آباد کے ’’نو گاواں سادات‘‘ کے ایک معزز گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ مائیکے کی طرح سسرال بھی عالم ، فاضل اور ذی فہم با شعور لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ عابدی صاحب خود بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے معاشیات میں بی۔ اے کرکے بمبئی یونیورسٹی پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعد بمبئی کے میو نسپل کارپوریشن میںمحکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ اتناہی نہیں عابدی صاحب کو شعر و شاعری سے بھی خاصہ لگاؤ رہا ہے۔ اچھا شعری ذوق رکھتے ہیں۔ ’’شعلہ‘‘ تخلص کرتے ہیں۔ عابدی صاحب کو شعر و شاعری کا یہ رنگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے وقت آل احمد سرور، خورشید الاسلام، معین احسن جذبی، خلیل الرحمٰن اعظمی جیسے اعلیٰ شعری شعور اور ادبی ذوق رکھنے والے استادوں کی شفقت اور صحبتو ںکا نتیجہ ہے۔ عابدی صاحب کے چند اشعار دیکھئے ـ:
ہو گئیں سب حقیقتیں جھوٹی
اب تو کاغذ کی ناؤ چلتی ہے
آگ سے کھیلتے ہو کیوں شعلہؔ
یہ جلاتی ہے اور جلتی ہے
۔۔۔
اگلے تصورات کو بالکل فضول کر
دنیا کی انگلیاں اٹھیں کچھ ایسی بھول کر
کب تک جئیں گے یوں ہی فرشتوں کی زندگی
اپنے اصول توڑ ، مجھے بے اصول کر
شعلہ تو نذر کر دے غزل زندگی کے نام
اپنی سخن وری کی نہ قیمت وصول کر
اسی شعر فہمی اور ذی علمی کے باعث عابدی صاحب رفیعہ کی تمام شعری تخلیقات کے اولین سامع اور ناقد بھی رہے ہیں۔ رفیعہ خود اس بات کا اقرارکچھ اس طرح کرتی ہیں :
’’ وہ میری شعری تخلیقات کے نہ صرف اولین سامع اور ناقد ہیں بلکہ محرک بھی ہیں میری نوے فیصدی شاعری ان ہی کی ذات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ کوئی بات ، کوئی رمز، کوئی کنایہ، کوئی واقعہ، کوئی حادثہ، جو ان کی زندگی سے ہوتا ہوا مجھ تک پہنچتا ہے۔ شعر بن جاتاہے۔‘‘ ۴؎
عابدی صاحب کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے خود کو پس منظر میں رکھا اور رفیعہ کو آگے بڑھنے اور لکھنے پڑھنے میں مکمل تعاون کرتے رہے۔ شادی کے بعد رفیعہ نے ادبی مشاغل ترک کردینے کا تہیہ کر لیا تھامگر شفیق و مہربان مانند دوست شوہر کی سرپرستی اور اعتبار کا نتیجہ تھا کہ رفیعہ نے یہ کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کیں اور ایک فرماں بردار نصف بہتر کی طرح نہ صرف ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے تعلیم مکمل کی بلکہ امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض بھی تقریباً ۳۸ سال تک بے حد ذمہ داری اور خندہ پیشانی سے نبھاتی رہیں ساتھ ساتھ ان کاتخلیقی سفر بھی جاری رہا۔
انجمن اسلام طیب جی اسکول میں لکچرر تھیں اسی دوران رفیعہ کا تقرر برہانی کالج ( مجگاؤں) میں اردو اور فارسی کی لکچرر کے طور پر ہوا۔ یہاں تقریباً چھ برس تک وہ لکچرر شپ کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ ۱۹۸۱ میں ان کا تقرر مہاراشٹرا کالج آف آرٹس سائنس اینڈ کامرس میں بحیثیت ریڈر ہوا۔ یہاں اول تو فارسی درس و تدریس اور بعد ازاں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے تقریباً بیس برس کے طویل عرصہ تک منسلک رہیں اور مہاراشٹرا کالج کو علم و ادب کا گہوارہ بنادیا۔ آخر کار ۲۰۰۱ء میں ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بمبئی یونیورسٹی میں کرشن چندر چئیر پر بحیثیت پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو فائز ہوئیں اور دو سال بعد یعنی ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئیں اس طرح رفیعہ تقریباً ۳۸ سال درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہیں اور اپنی گراں قدر ادبی خدمات سے اپنے طلبہ کو سرفراز کرتی رہیں۔
رفیعہ شبنم عابدی کی پانچ اولادیں ہیں۔ دو بیٹیاں اور تین بیٹے۔ سب سے بڑی دختر شاداب سید ہیں رضوی کالج باندرہ میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کی دوسری بیٹی سیماب سید جو کہ دوبئی میں مقیم ہیں۔ دونوں بیٹوں کو شعر و شاعری سے گہرا شغف ہے۔ ۔ بیٹیوں میں سید دانش رضا بھی شاعر ی کا شغل فرماتے ہیں۔ دوسرے بیٹے شارق رضا کو نہ صرف شعر و و ادب سے لگاؤ ہے بلکہ اچھی خاصی شاعری بھی کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں متحدہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم ہیں اور سب سے چھوٹے فرزند سید محمد کاشف کینیڈا میں بر سر روزگار ہیں۔ انھیں البتہ شعر و شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ تما م بھائیوں بہنوں میں شاداب سید بڑی بیٹی ہونے کی حیثیت سے نہ صرف اپنی والدہ کے بے حد قریب ہیں بلکہ جذباتی و شعوری دونوں طور پر شاداب کا رشتہ رفیعہ سے بے حد گہر اہے۔
رفیعہ شبنم عابدی کا نام بیسیویں صدی کی اہم خواتین قلم کاروں میں بے حد نمایاں رہا ہے۔ آزادی کے بعد جن خواتین شاعرات نے اپنے فن کا لوہا منوایا اور اپنی مختلف پہچان و منفرد شناخت قائم کی اس میں ادا جعفری، شفیق فاطمہ شعریٰ ترنم ریاض، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، عذرا پروین، رخسانہ جبین اورشہناز نبی وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔ نقادوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ مختصر سی فہرست رفیعہ شبنم عابدی کے نام کے بغیر بالکل مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کی انہی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہندوستان کے کئی سرکاری اور دیگرنیم سرکاری اداروں کی طرف سے انھیں اب تک کل ۲۸ چھوٹے و بڑے اعزازار سے نوازا جا چکا ہے۔
انعامات و اعزازات:
آل انڈیا روبی ادبی ایوارڈبرائے طرحی غزل (۱۹۶۸ء)، مہاراشٹرا اردو اکادمی ممبئی، بہار اردو اکادمی، پٹنہ، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ، کلچرل اکاڈمی بنگلور، مغربی بنگال اور اردو اکادمی، نیتاجی سبھاش چندر بوس سمرتی سمّان دہلی برائے صحافت (۱۹۹۰ء) مائیناریٹیز ایجوکیشنل فیڈریشن ایوارڈ برائے بہترین مدرس، کالج اور یونیورسٹی ٹیچر ایوارڈس(۱۹۹۸ء) رضوی ایجوکیشل فاؤنڈیشن ، ثانی زہراؐ ایوارڈ برائے نمایاں ادبی خدمات (۲۰۰۰ء) اور دیگر چھوٹے بڑے انعام و اکرام ، اس کے علاوہ مختلف تنظیموں اور اداروں کی رکن نامزد ہوئیں۔ ساہتیہ اکاڈمی دہلی میں پریلیمنری ایڈوائزر کی حیثیت سے دوبار شامل ہوئیں۔بمبئی یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر ہوتے ہوئے مختلف کمیٹیوں کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔
فی الحال رفیعہ شبنم عابدی اپنے شوہر کے ہمراہ اندھیر ی( مغرب) سات بنگلہ کی گلشن کالونی میں سن رائز اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ مالک ایزدی سے دعاہے کہ انھیں درازی عمر اور تندرستی عطا کرے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی ان کی شخصیت سے فیض یاب ہوتی رہیں۔
شخصیت :
میرے کردار کو کیا قتل کرے گی دنیا
میں جہاں بھی رہی بیدار ضمیروں میں رہی
کہتے ہیں کہ انسان کہ شخصیت پر بچپن کے حالات و واقعات گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ رفیعہ شبنم عابدی چونکہ ایک اعلیٰ ادبی گھرانے میں پید اہوئیں انھیں علم و ادب کا خزانہ ورثہ میں ملا۔ رفیعہ کے بھائی بہن انھیں خاموش طبع ہونے سنجیدہ مزاجی اورسبھی سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ’’ کونے کی مکھی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ مگریہ کونے کی مکھی در اصل ایسا گوہر نایاب نکلی جس نے سوچ کی گہرائی و گیرائی میں غوطہ زن ہوکر بڑی متانت کے ساتھ اپنی تازہ گہری فکر کو شاعری ، تنقید اور تحقیق کی صورت میں پرت در پرت اپنی شخصیت کے نہاں خانوں کو لوگوں کے سامنے ایسے شگفتہ و شاداب لب و لہجے میں پیش کیا کہ ہر کوئی ان کے مشاہدے کا قائل ہو گیا۔ اور انھیں ادب میں ایک اعلیٰ و افضل مقام پر بیٹھا دیا۔
ا س پراثر شخصیت کو سامنے دیکھنے کا موقع مجھ نا چیز کو اس وقت ملا جب شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمیناربہ عنوان ’’ فراق گورکھپوری فن اور شخصیت‘‘ کا کلیدی خطبہ موصوفہ نے پیش کیا اور ان کی شخصیت کا اولین تاثر ایساتھا جس کا بیان میری ناقص عقل کے بیان سے بالاتر ہے۔ ایک تو شخصیت معمر، پر وقار، اور اوپر سے تقریر کا انداز ایسا بے مثال کہ دل چاہ رہا تھاکہ وہ بولتی ہی چلی جائیں اور میری تمام حسیات منجمد ہو کہ سماعت تک محدود ہو جائے۔ تاکہ میں انھیں سنتی چلی جاؤں۔ یہ مبالغہ بالکل بھی نہیں ہے۔ میں ان کی تعریف وتوصیف بھلاکیا بیان کر سکوں گی۔ بہر حال آج ان کی شخصیت کسی تعریف ، توصیف اور کسی سرٹیفکٹ کی محتاج نہیں ہے۔ اس بات کا اعتراف ان کے سخن شناس خود بھی کرتے ہیں۔
ان کا چہرہ علم و ادب سے ان کی آشنائی کا بین ثبوت معلوم ہوتاہے کسی کی بات سنتے وقت ان کے چہرے پر سوچ و فکر کی گہری لکیریں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا کسی گہرے تخیل سے ابھر کربس اب یا تب کوئی علم و دانش سے بھرا جملہ ان کے لبوں سے ادا ہوگا۔ اس سے زیادہ دلچسپ اور خوبصورت ان کی بڑی گہری آنکھیں سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہیں۔ بقول عابدی صاحب یہ آنکھیں جن سے ہوش مندی اور ذہانت جھانکتی ہے۔ جو اچھے اور برے کی تمیز کرنا جانتی ہیں ناک ستواں نہ سہی مگر ان کی پر وقار شخصیت کے اعتبار سے وقاربھر ناک ان کے چہرے پر بہت جچتی ہے۔ آنکھوں میں ہلکی سی کاجل کی لکیر اور لب ساری کی مناسبت سے کسی ہلکے رنگ کی لپ اسٹک سے مزین ، جن لبوں سے ہمہ وقت مقدس الفاظ نکل کر مدِّ مقابل کے حواسوں پر چھا جاتے ہیں لب و لہجہ بے حد مترنم اور آوازکا اتار چڑھاؤ کسی دھیمی موسیقی کا گمان کراتا ہے۔ رفیعہ بونے قد کی ہیں۔ گندمی رنگ ، خوش پو شاک او رہلکے گھنگھریالے دراز گیسو، کم عمر اور چھوٹے انھیں عزت و احترام سے رفیعہ آپا کہہ کر پکارتے ہیں تو بڑی محبت و اپنائیت سے بڑے عمدہ طریقے سے اور بڑی خندہ پیشان ی سے ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ مزاج ایسا صلح پسند ہے اپنے دشمنوں کو بھی فوراً معاف کر دیتی ہیں۔انھیں کی زبانی سنیئے:
میں اپنے دشمنوں سے بھی بدلہ نہ لے سکی
نفرت مرے مزاج کا حصہ کبھی نہ تھی
ان کی سار ی خوبیاں انھیں ایک عمدہ ، ہندوستانی عورت کے حسن کی عمدہ مثال بنا دیتی ہے اور یہ صرف حلیہ کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی وہ ہندوستانی عورت کا سچا روپ ہیں۔ تانیثی اور نسائی شاعرہ ہونے کے باوجود کافی conservative واقع ہوئی ہیں، یہاں وہ ’’ خاتون خانہ ہو وہ صبا کی پری نہ ہو‘‘۔ ا س بات کی قائل نظر آتی ہیں۔ ا سکے باوجود اپنے حقوق آگہی اور ان کا جائز استعمال کرنے سے وہ کبھی چونکتی نہیں ہیں
’’ ہر چند کہ آزادیِ فکر و فن کی قائل ہوں مگر آزادیِ نسواں کا مفہوم میرے نزدیک وہ نہیں جو ہماری بیشتر شاعرات کے یہاں دکھائی دیتاہے۔ مجھے مرد سے کوئی شکایت نہیں کہ وہ عورت پر ظلم کیوں کرتا ہے۔ مجھے عورت سے شکایت ہے کہ وہ مرد کے ظلم کیوں سہتی ہے۔ اپنے آپ کو مظلوم کیوں تصور کرتی ہے۔ ‘‘ ۵؎
بعض اوقات یہ احتجاجی لہجہ ہلکی سی کرختگی اختیار کر جاتاہے۔ پھر وہی ان کا ازلی اعتدال پسند رویہ اسے تھپکی دے کر پر سکون کر دیتا ہے۔ ان کا یہی رویہ انھیں مردوزن میں یکساں مقبول کرتاہے۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مذہب کی پاسدار اور عورتوں کی بے جا آزادی کے خلاف سہی لیکن بعض اوقات ان روایتوں سے انحراف کرتی نظر آتی ہیں اور یہی کشمکش ان کی حیات و شخصیت کے ساتھ ساتھ شاعری کی بھی شناخت معلوم ہوتی ہے۔
شہر میں ، دشت میں، گلزار میں کب جاتی ہے
میری آواز مرے گھر میں ہی دب جاتی ہے
۔۔۔
ایک لمحہ بھی اگر سیر کو باہر نکلوں
شہر میں ڈھونڈھنے لگتا ہے مجھے گھر میرا
درون خانہ افراد کے تاثرات سے ان کی شخصیت کاجو تاثر نکلتا ہے۔ وہ کچھ ایساہے کہ وہ نہایت ہی شوہر پرست، سلیقہ شعار بیوی ، اپنے بچوں کی خواہشات پر ممتا نچھاور کرنے والی ماں اور ایک ایسی بہو جو اپنی ساس کی گہری سہیلی اور بہو کی دوست و غم گسار ساس ہیں۔ شاداب سیدلکھتی ہیں:
’’ میں نے اپنی ماں کی شکل میں ایک ایسی عورت کو دیکھا جو بہو بنی تو ساس اپنے سارے دکھڑے ، حال دل راز بیاں کرنے کے لئے اس کا انتظار کرتی اور بچپن کی پکی سہیلیوں کی طرح بیٹھ کر ایک دوسرے کا درد بانٹا جاتا۔ سسر کے ساتھ عربی، فارسی زبان و ادب کے علاوہ مذہبی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ ممی وہ ماں ہے جو بیٹیوں کو رخصت کرتی ہے تو اس نصیحت کے ساتھ کہ ساس کو اپنی ماں سمجھنا اور نندوں اور دیوروں کو بھائی بہن۔ اور جب بہو بیاہ کر لاتی ہیں توبیٹوں کے سر پر اپناہاتھ رکھ کر قسم لیتی ہیں کہ تمھارا سلوک اپنے ساس سسر کے ساتھ بالکل والدین جیساہوگا۔ جو درجہ والدین کا ہے وہی بیوی کے والدین کا ہوگا ۔‘‘ ۶؎
رفیعہ کی شخصیت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ رشتے نبھاناخوب جاتی ہیں۔ شاید اسی باعث ان کے بہو بیٹے انھیں کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ ویسے تو انھیں غصہ جلدی نہیں آتا مگر جب کوئی بات طبیعت کے منافی ہو جائے اور ناگوار محسوس ہو، وہ بھی خاص طور سے اپنے خود کے بچوں کے تعلق سے تو انھیں غصہ ضرور آتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ غصہ میں احتجاج انگریزی زبان میں کرتی ہیں اور فر فر انگریزی کے کچھ اس طرح کے جملے ان کے منھ سے نکلتے ہیں مثلاً :
I cannot tolarate all these things, I hate this, I don’t like nonsense,
وغیرہ وغیرہ جن سے سب سے زیادہ محبت کرتی ہیں انھیں سے تغافل برتتی ہیں مگر ان کی طبیعت میں کچھ اس طرح کی نرمی موجود ہے کہ اپنے دشمنوں تک سے زیادہ دنوں تک ناراض نہیں رہ سکتیں۔ تو اپنے بچوں سے کب تک ناراضگی مناسکتی ہیں۔ ان کی ۳۸ سے ۳۹ سالہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد بھی ان کا اعتدال پسند رویہ ہی ہے۔ اور ا س معتدل رویے کی باعث انھوں نے اپنے شوہر، بچوں امور خانہ داری اور شعر و ادب
ان تمام خانوں کو صحیح ڈھنگ سے پر کرنے کی مکمل سعی کی اور کامیاب بھی ٹھہریں۔
ان کی انصاف پسند طبیعت اور صلح رحمی والے رویہ کا کئی لوگ فائدہ اٹھا تے ہیں۔ خاص کر شعر و ادب میں اتنا بلند مقام ہونے کی وجہ سے ان کے کئی دشمن بھی ہیں لیکن حریفوں کوحسن و سلوک سے زیر کرناان کے دلوں پر حکومت کرنے کی ضد ان میں بدرجہ اتم موجودہے۔ سچ تویہ ہے کہ لڑنا جھگڑنا ان کی سرشت میں ہے ہی نہیں۔ اور اگر کسی سے لڑائی ہو بھی جائے تو لڑتے لڑتے انھیں رونا آ جاتاہے۔ اور اسی کے بارے میں سوچ سوچ کر جان ہلکان کر دیتی ہیں یہاں تک کہ بیمار ہو جاتی ہیں پھر تمام بچے اور عابدی صاحب کوئی نہ کوئی الٹی سیدھی حرکتیں کرکے ان کا جی بہلائے رکھنے اور دھیان بٹانے رکھنے کی سعی میں جٹ جاتے ہیں۔
زندگی اور ادب کے متعلق رفیعہ کے چند اصول ہیں وہ چاہتی ہیں کہ جہاں بھی جاؤں کامیاب ٹھہروں۔ ان کی اس ضد نے انھیں گھر آنگن سے لے کر ادبی دنیا کی بسیط وادیوں تک میں کامرانیاں عطا کیں۔ گھر میں مکمل طور پر ایک روایتی گھریلو عورت کا کردار نبھایا ایک ایسی خاتون خانہ جس نے اپنے گھریلو کام اور ادبی مصروفیات کے با وجود اپنے بچوں کوصحیح طریقہ زندگی سکھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا تو وہیں ادب کے تئیں مکمل خدمات انجام دیتی رہیں دوست و احباب کے حلقۂ میں کوئی علیل ہوا تو اس کی عیادت و غم گساری کے لئے جانا بھی از حد ضروری خیال کرتی ہیں۔ انھیں دیکھ کر اور ان کے علم و عمل کے قصے سن کر یہ گمان ہونے لگتاہے کہ آیا یہ عورت کوئی عورت ہی ہے یا جادو گرنی جوہمہ وقت ہر کام کرنے پر یونہی آمادہ رہتی ہے۔ مگر ہر وقت کا م کو کرنے کے لئے تیار رہنے والی یہ شخصیت بعض اوقات عجلت میں بہت سے کام بگاڑ بھی دیتی ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا ایک چھوٹا سا منفی پہلو ہے۔ کہ وہ عجلت پسند ہیں۔ اسی باعث جب کچھ کام بگڑ جاتے ہیں تو ندامت او رپچھتاوا بھی محسوس کرتی ہیں۔
فیاض احمد فیضی جو رفیعہ کو اپنے بچپن سے جانتے ہیں وہ ا س مسحور کن شخصیت اور ان کی مداح کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ :
’’ رفیعہ شبنم کی دیانت داری کے بارے میںکیا عرض کروں انھیں زندگی میں بد دیانتی کے بہت کم مواقع نصیب ہوئے۔ لیکن جہاں بھی ملے وہ ان سے یوں دامن بچا کر نکل گئیں جیسے آج کل کے سیاستدان سچ بولنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی عادت نہ بگڑ جائے۔ رفیعہ شبنم کو میں نے کبھی کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے۔ لیکن وہ سب بڑے بے ضرر قسم کے جھوٹ ہو اکرتے ہیں۔ ‘‘ ۷؎
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھلے کی خاطر وہ جھوٹ بھی کہہ سکتی ہے۔ واقعی وہ ان کی حساس اس طبیعت اب تک ان پر چھائی ہوئی ہے۔ یا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب ا س طبیعت نے انھیں اتنی مہارت عطاکر دی ہے کہ لفظوں کے بغیر صرف حسیات سے ہی وہ لوگوں کے دکھ جان لیتی ہیں۔
بڑا سکون، بڑا سکھ ہے اس کے سائے میں
وہ ایک پیڑ جو برگد کی چھاؤں جیسا ہے
استاد کی حیثیت سے بھی رفیعہ کی شخصیت اتنی ہی اہم اتنی ہی پر اثر رہی ہے۔ آج بھی ان کے شاگرد انھیں بے انتہا عقیدت و احترام کے ساتھ نہ صرف آنکھوں پر بٹھاتے ہیں بلکہ ان ہی کے نقش پا پر چلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میںاعجاز احمدلکھتے ہیں:
’’ بقول شخصے : معلم اس جوہری کی مانند ہوتاہے جو ایک بے ڈول پتھر کو تراش کر نگینہ بنادیتا ہے۔ ہماری استاد بالکل اسی طرح کی جوہری ہیں۔ جوہم جیسے کم اور ناقص العلم طلبہ کو تراش کر انھیں کامیاب زندگی گزارنے میں بڑی مدد دیتی ہیں۔ اور ان کے پڑھانے کا انداز بہت ہی خوبصورت ہے۔ وہ پڑھائی کے دوران اپنے حسنِ عمل سے بچوں کے ذہنوں میں رچ بس جاتی ہیں۔‘‘ ۸؎
رفیعہ شبنم عابدی کی ہمہ جہت، ہمہ رنگ شخصیت اور ا س میں نہاں و پوشیدہ ، خوبیوں کی قوس قزح کو چند ایک صفحوں میں سمیٹنا بالکل ناممکن امرہے ۔ او رمجھ جیسی ناقص العلم، ناقص العقل طالب علم کے بیان سے باہر بھی۔ ان کی شایان شان پذیرائی کرنے کاحق تو ادب کے جیالے اور متوالے بھی اب تک ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ البتہ تریاق کی خصوصی پیش کش ’’ شناخت رفیعہ شبنم عابدی نمبر سے ان کی شاعری اور شخصیت کے کئی باطنی پہلو ہر خاص و عام کے سامنے آ گئے ہیں۔
حواشی
۱۔اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ: مرتبہ نیر جہاں جولائی ۲۰۱۴ ص ۹۱
۲۔ماہنامہ شاعرممبئی: شمارہ مارچ ۲۰۱۰ ص ۲۹
۳۔ایضاََ ص ۱۲
۴۔ایضاََ ص ۱۲
۵۔ ماہنامہ تریاق ممبئی: رفیعہ شبنم عابدی نمبرجون ۲۰۱۷ ص۳۵
۶۔ایضاََ ص ۷۲
۷۔ ایضاََ ص ۵۷
۸۔ ایضاََ ۶۲
Kulyate Sauda (Niskha e India office) by Prof. Naseem Ahmed
Articles
’’انڈیا آفس میں محفوظ کلیات سوداؔ کے ایک قلمی نسخہ کا تعارف‘‘(مع ترمیم و اضافہ)
پروفیسر نسیم احمد
’’انڈیا آفس میں محفوظ کلیات سوداؔ کے ایک قلمی نسخہ کا تعارف‘‘
(مع ترمیم و اضافہ)
ارتقاے زبان ایک فطری اور ناگزیر عمل ہے۔ اس ارتقائی عمل میں الفاظ اور ان کے تلفظات مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور اپنی تغیر پذیر شکل کے ذریعے اپنے زمانے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چنان چہ کسی بھی عہد کی لسانی تاریخ ان تغیرات کی صحیح آگہی کے بغیر ترتیب نہیں دی جا سکتی اور اگر کسی زبان کی لسانی تاریخ صحت کے ساتھ مرتب نہیں کی گئی تو اس زبان میں تحقیق و تنقید کی بنیاد میں متزلزل رہیں گی اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ ادب یا تو سرے مفقود ہوگا یا کم از کم اس کے پنپنے اور پھولنے پھلنے کے امکانات کم ہوں گے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کسی بھی شخص کو خواہ وہ کتنا بڑا ادیب اور عالم کیوں نہ ہو، تحقیق وتدوین کے نام پراُسے شاعر کی زبان میں ترمیم وتصحیح کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے باوجود ادبیات کی تاریخ میں ارادی اور غیر ارادی تحریفات کی مثالیں اس کثرت سے موجود ہیں کہ ان کا احاطہ بہ آسانی ممکن نہیں۔ جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے، ارادی تحریفات کے ضمن میں ناسخ کے شاگرد میر علی اوسط رشک اور ذوق کے شاگرد مولانا محمد حسین آزاد کے نام سرِ فہرست رکھے جا سکتے ہیں۔
کلام سوداؔ کے مطالعے کے سلسلے میں اگر چہ ارادی اور غیر ارادی تحریفات کے درمیان واضح طورپر کوئی خط فاصل قائم نہیں کیاجاسکتا تاہم یہ کہاجا سکتاہے کہ ان کے کلام میں ترمیم وتحریف کا سلسلہ ان کی زندگی ہی میں شروع ہوگیاتھا۔ چنان چہ ان کے ایک شاگرد معین بدایونی کے بارے میں میر حسن کا بیان ہے کہ ’’دیوان ِ استادِ خود راموافق طبعِ خود درست می کند وسخن خودرا سرسبز می نماید‘‘ معین کو جب استعمال عام کے خلاف لفظ کی سند درکار ہوتی تھی تو وہ اپنے استادکے کلام میں حسب خواہش تصرف کرلیاکرتے تھے اور اپنی بات بالا رکھتے تھے۔ معاصر تذکروں میں بھی ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جن کا متن کلام سودا ؔ کے کسی قدیم نسخے کے متن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثا ل کے طورپر میرؔ کے تذکرے میں ایک شعر اس طرح نقل ہواہے :
موج نسیم گرد سے آلودہ ہے نپٹھ
دل خاک ہوگیا ہے کسی بے قرارکا
جب کہ دوسرے تمام قدیم ماخذ میں شعر کی شکل یہ ہے:۔
موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہوگیاہے کسی بے قرار کا
سودا ؔ نے مندرجہ ذیل اشعار قطعہ میں غالباً اسی طرح کی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیاہے :
ہے جو کچھ نظم ونثر عالم میں
زیر ایراد ِ میرؔ صاحب ہے
ہر ورق پر ہے میرؔ کے اصلاح
لوگ کہتے ہیں سہوکاتب ہے
سوداؔ کا ایک اور شعر ان کے کلام کے قدیم مخطوطات میں ا س طرح درج ہے:
اندامِ گل پہ ہونہ قبااس مزے سے چاک
جوں خوش چھبوںکے تن پہ مسکتی ہیں چولیاں
لیکن مجموعہ نغز اور بعض دوسرے تذکروں میں شعر کامصرع دوم اس طرح نقل ہواہے:
ع جوں خوش قدوں کے تن پہ مسکتی ہیں چولیاں
سوداؔ نے یہاں ہندی وفارسی ترکیب قصداً استعمال کی ہے جو فارسی ترکیب کے مقابلے میں زیادہ چست اور مناسب ہے حالاں کہ ایک دوسرے شعر میں خوش قد کی ترکیب بھی موجودہے ۔
رفتار دیکھتے ہوتم ان خوش قدوں کی ہاے
ٹھوکر لگے ہے دل کے تئیں جس خرام میں
تذکروں میں اس قسم کے اختلافاتِ متن کی مثالیں بکثرت موجود ہیں لیکن انھیں حتمی طورپر ناقلین کے ارادی تصرف کانتیجہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس کے بر خلاف ملک اور بیرون ملک کے کتب خانوں میں محفوظ کلام سوداؔ کے لاتعداد مخطوطات میںسے کم ازکم پانچ خوش خط اور دیدہ زیب نسخوں کے متعلق وثوق کے ساتھ یہ کہاجاسکتاہے کہ ان میں دیدہ ودانستہ تحریفیں کی گئی ہیں اور الحاقی کلام شامل کیاگیاہے۔زیر بحث نسخوں میں کی گئی تحریفات کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے۔
۱۔ الفاظ کے معمولی ردوبدل کے ذریعے زبان کو سہل بنانے یاقدیم اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۲۔ کسی شعر کو بزعم خود زیادہ چست اور بامعنی بنانے یامضمون میں جدت پیدا کرنے کی غرض سے کسی خاص لفظ یاترکیب کو بدل دیاگیاہے۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں بعض اوقات مصرعے دولخت اوراشعار بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ مثلاً: سوداؔ کی ایک غزل جس کے قوافی( دہن، کفن، لگن، وغیرہ) ہیں، کے ایک شعر میں قافیہ ’چمن‘ کوبدل کر اس کا مناسب ’سحر‘ لفظ رکھ دیاگیاہے۔ بعض اوقات شعر وزن سے بھی خارج ہوگیاہے مثلاً:-
اندام میں کچھ اس کے تپ ہجر نہیں ہے
دی عشق نے ظالم ترے بیمار کو آتش
کے مصرع اول کو ا س طرح تبدیل کیاہے: ع اندام میں تو کچھ شب تار نہیں ہے
لیکن عام طورپر ان نسخوں میں الحاقی کلام کی شمولیت نیز الفاظ وتراکیب کی تبدیلی اتنی صفائی سے کی گئی ہے کہ محققین تک اس کی گرفت سے قاصر رہے ہیںحتیٰ کہ بعض حضرات مثلاً ڈاکٹر شمس الدین صدیقی،پروفیسر عتیق احمدصدیقی اورڈاکٹر ہاجرہ ولی الحق نے بھی کلام سودا ؔ کی ترتیب کے سلسلے میں ان نسخوں سے بلاتامل استفادہ کیاہے۔سطور ذیل میں بہ غرضِ اختصار صرف ایک نسخے کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
انڈیا آفس لائبریری لندن کے ذخیرۂ مخطوطات میں فہرست نمبر۱۴۶، پی ۳۵۳ کے تحت کلام سوداؔ کا نہایت عمدہ نستعلیق خط میں لکھا ہوا ایک قلمی دیوان محفوظ ہے جو عام طور پر نسخۂ جانسن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نسخہ ۱۳ سطری مسطر کے ۴۷۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی نقلیں (فوٹو اسٹیٹ، الیکٹرو اسٹیٹ کاپیاں ) خدا بخش لائبریری پٹنہ ، مولانا آزاد لائبریری ، علی گڑھ ، اترپردیش اردو اکادمی لائبریری، لکھنؤ کے علاوہ بعض اہل علم حضرات کے ذاتی ذخیرئہ کتب میں بھی موجود ہیں ۔ راقم نے اردو اکادمی لائبریری میں محفوظ نقل سے استفادہ کیا ہے ۔ یہ مُثنّیٰ بہت واضح اور ایک حد تک مانند اصل ہے ۔ نسخے پر کہیں کاتب کا نام، سنہ کتابت اور مقام کتابت وغیرہ کا اندراج نہیں ہے۔
اس مخطوطے میں اصل کتاب کے آغاز سے قبل ، پہلے ورق پر ایک تصویر ہے جس میں نوابی وضع قطع کا ایک شخص قالین پر بیٹھا ہوا پیچوان پی رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ملازم نما شخص ہاتھ میں کاغذ لیے کھڑا ہے ۔ قالین پر بیٹھے ہوئے شخص کے سامنے ایک کتاب پڑی ہے ۔ تصویر کی کوئی تفصیل درج نہیں ۔ قیاس کہتا ہے کہ یہ مسٹر جانسن ، سوداؔ یا کسی نواب یا شہزادے کی ہوگی ۔ مرتب ’’قصائد سودا ‘‘ پروفیسر عتیق احمد صدیقی کا خیال ہے کہ ’’غنچہ لاتو قلم دان ‘‘ کی روایت غالباً تصویر مذکور کی بنیاد پر اختراع کی گئی ہے۔ چنان چہ لکھتے ہیں ۔ ’’تصویر میں کوئی تعارفی عبارت نہیں لیکن شاید اسی تصویر سے غنچہ کی روایت پیدا ہوئی ہے ۔ ‘‘ (۲) شیخ چاند مرحوم (متوفی ۱۹۳۶ء) کی کتاب ’’سودا ‘‘ (طبع۱۹۳۶ء ) اور ڈاکٹر خلیق انجم کی تصنیف ’’ مرزامحمد رفیع سودا ‘‘ (طبع ۱۹۶۶ء ) مین آغاز کتاب سے پہلے یہ تصویر سوداؔ کے نام سے موجود ہے ۔ فرق یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں ثانی الذکر سے پیچھے کھڑے ملازم اور سامنے رکھی ہوئی کتاب کو تصویر سے حذف کر دیا گیا ہے۔
نسخۂ جانسن کے پہلے ورق کی پشت کے بالائی سرے پر پختہ خط میں ایک انگریزی عبارت اور ورق ۴ پر صا ف ستھرے عمدہ نستعلیق خط میں دو فارسی عبارتیں ملتی ہیں ۔ ان کے علاوہ دیوان کی ابتداسے قبل ورق ۲پر تئیس ۲۳ اشعار کا ایک قصیدہ ’’ع دیکھا نہ جائے اس سے روے گل رُخاں پہ رنگ ‘‘ بھی سوداؔ تخلص کے ساتھ موجود ہے ۔ جس پر کوئی عنوان درج نہیں لیکن گریز کے شعر:-
’’ہے اب مگر وہ ایک کہ جس کا یہ ہے خطاب
ممتاز الدولہ فخر جہان وحسام جنگ‘‘
سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم ممتاز الدولہ فخر جہاں حسام جنگ کی مدح میں کہی گئی ہے ۔ مزیدبرآں ایک مدحیہ شعر:-
’’تیری وہ ذات گو تو نہیں ہے شہ فرنگ
کرسی میں تیری پایہ اورنگ کا ہے ڈھنگ ‘‘
سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی انگریز افسر ہی کی تعریف میں یہ قصیدہ کہا گیا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ افسر جانسن ہی ہو ۔ حالاںکہ کسی تذکرے یا معاصر تاریخی کتاب سے سو داؔ اور مسٹر جانسن کے تعلقات پر روشنی نہیں پڑتی ۔ مخطوطے کی مذکورہ انگریزی عبارت کا متن یہ ہے :
”Mr. Richard Johnson, the gift of ye author Mirza Souda”
اور فارسی عبارتیں حسب ذیل ہیں :
دیوان میرزا رفیع سودا ، گذرایند ئہ میر حسین صاحب ، در بلدئہ لکھنؤ ،
داخل کتاب خانہ سرکار شد
دیوان سرکار نواب صاحب ممتاز الدولہ مفخر الملک حسام جنگ مسٹر رچارڈ جانسن صاحب بہادر دام اقبالہ ۔
مسٹر جانسن اور میر محمد حسین کے بارے میں مختلف تذکرو ں اور تار یخی کتابوں سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ اختصار کے ساتھ سطور ذیل میں پیش کی جاتی ہیں :
مسٹر جانسن کا شمار اپنے زمانے کے ذہین انگریز افسر وں میں ہوتا تھا ، لکھنؤ آنے سے قبل وہ بر دوان کا صاحب کلاں اور بنگال کو نسل کا فعال رکن تھا ۔ وہ سیاسی ساز باز کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ ۱۷۶۵ء میںنواب میر جعفر کے انتقال کے بعد اس نے، ان کے بڑے لڑکے نجم الدولہ معروف بہ میر پھلوری کو مرشداآباد کے صاحب کلاں مسٹر مڈلٹن کی مدد سے تخت نشین کرایا ۔ (۳) اس نواب گری کے معاوضے کے طور پر جانسن اور اس کے معاون انگریز افسر وں نے نواب نجم الدولہ اور ان کے وزیروں سے نقد روپیوں کے علاوہ کافی تعداد میں جواہرات ، قیمتی اشیا اور بیش بہا تحائف حاصل کیے ۔ (۴) یہ تحائف ڈائرکٹر کے حکم امتناعی کے باوجود وصول کیے گئے تھے، چنان چہ کمپنی نے رشوت لینے کے الزام میں جانسن اور اس کے دیگر ساتھیوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا۔ لیکن جانسن اپنی فطانت اور سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت اس الزام سے بری ہوگیا ۔ علاوہ ازیں جانسن روایتی طور پر ایک ظالم اور مغرور انگریز افسر بھی تھا۔ ایک مرتبہ اپنے کسی نوکر کو مارنے اور اس کے ساتھ بے حد سختی برتنے کی پاداش میں اس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا اور جب اس نے کو رٹ میں حاضر ہو نے سے انکار کر دیا تو حکم عدولی کے جرم میں اُسے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ لیکن تین مہینے کی سزا کاٹنے کے بعد جب اس نے معافی کی ایک تحریری درخواست کو رٹ میں گزاری تو اُسے منظور کر لیا گیا (۵)۔
نسلی افتخار اور سیاسی جوڑ تور سے قطع نظر ، جانسن کی قابلیت ، علم دوستی ، ادبا پروری ، معاملہ فہمی ، رعب اور دبدبے کے واقعات بھی بعض معاصر کتب میں مرقوم ہیں ۔
۱۔مرزا ابوطالب اصفہانی، لندنی نے لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔ ’’ مسٹر جانسن کہ دوم او (مسٹر ایوس (Ives) رزیڈنٹ) بود ۔ لیاقت ہمہ کار داشت بہ حدے کہ اہل کاران وزیر ( آصف الدولہ) از ترسِ معاملہ دانیش شب خواب بہ آرام نمی کر دند ۔ اماچہ فائدہ کہ بہ سبب ناموافقت مسٹر ایوس در کارہا دخل نہ داشت ‘‘(۶)
۲۔علی ابراہیم خاں خلیلؔ نے نواب محبت خاں محبتؔ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ۔۔ ۔۔ ’’مثنوی موسوم بہ ’’اسرار محبت ‘‘ کہ حکایت عشق سسی پنو [ است ] بفر مودہ ممتاز الدولہ مسٹر جانسن بہادر منظوم نمودہ ‘‘۔ (۷)
۳۔میر قمر الدین منّت ، لالہ رام جس متخلص بہ محیطؔ ومغمومؔ اور ان کے چھوٹے بھائی لالہ جواہر سنگھ رامؔ وغیرہ بھی جانسن کی سر کار سے وابستہ تھے (۸) ۔ ’’ مخطوطات انجمن ترقی اردو‘‘ کراچی ، پاکستان ، کے مرتبین نے جانسن کی سر کار میں رام جس محیطؔ کے توسُّل کی تقریب کا ذکر اور جانسن کی ادب نوازی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے ۔ ’’ یہ وہی جانسن صاحب ہیں جن کو دربار لکھنؤ سے ممتاز الدولہ کا خطاب ملا تھا ۔ جانسن صاحب بڑے ادب پرور تھے ۔ لکھنؤ میں رہے تو اس صفت میں نیک نام رہے اور بنا رس چلے گئے تو وہاں بھی رام جس محیطؔ وغیرہ اُن کے متوسل رہے۔ (۹) یہ اطلاع کہ ’’جانسن بنارس چلے گئے‘‘ غلط اور مبنی بر سہو ہے۔ اصلاً محیط ’’داروغہ پرمٹ ‘‘ ہو کر بنارس چلے آئے تھے اور یہیں ۱۱۹۹ھ میں علی ابراہیم خاں خلیلؔ سے اُن کی ملاقات ہوئی تھی ۔ خلیلؔ کے الفاظ یہ ہیں:۔ ازدل برداشتگا ن سموم عشق و منسلکان سر کار ممتاز الدولہ مسٹر جانسن بہادر (بودہ) است۔ بعد ازاں بہ سر رشتہ داری پر مٹ ضلع بنارس ماموراست ۔ در ۱۱۹۹ھ باراقم آثم در بنارس ملاقی شدہ ‘‘ (۱۰) ۔
۴۔لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی نے بھی اپنی ایک کتاب ’’ تنمیق شگرف ‘‘ رچرڈ جانسن کے نام معنون کی تھی ، اب یہ کتاب نایاب ہے ۔ (۱۱)
۵۔ میر قمرالدین منّت نے ۱۱۹۶ ھ میں مشہور پنجابی قصہ ’’ ہیررانجھن ‘‘ کے عنوان سے فارسی زبان میں نظم کر کے اپنے مربی مسٹر رچرڈ جانسن کے نام معنون کیا ۔ (۱۲)
۶۔ انڈیا آفس لندن کے شعبۂ ہندوستانی میں ۹۲ صفحات پر مشتمل نو طرزمرصّع کا ایک قلمی نسخہ محفوظ ہے۔ یہ کتاب مکمل نہیں بلکہ اس میں پہلے درویش کی کہانی تک ، داستان کا ابتدائی حصہ ہی ہے ۔ اس کے صفحہ اوّل پر مندرج ایک عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ لکھنؤ میں محمد بخش خاں نام کے کسی کاتب نے ’’ سر کار نواب صاحب ممتاز الدولہ ، مفخر الملک حسام جنگ مسٹر رچرڈ جانسن صاحب دام اقبالہ ‘‘ کی لائبریری کے لیے تیا ر کیا تھا ۔ یہ نسخہ انیسویں صدی عیسوی کا مکتوبہ بتایا جاتا ہے ۔ (۱۳) (۱۳ الف)
میر حسین ایک نسبتاً غیر معروف شخصیت ہے۔ نسخۂ جانسن کے اندراجات کے پیش نظر ہمارا قیا س یہ ہے کہ وہ بہ حیثیت دیوان مسٹر جانسن کی سرکار سے متوسل تھا۔ دوسرے مآخذ کے مطابق اُس کا پورانام میر محمد حسین تھا ۔ وہ انگریزوں سے بہت زیادہ ربط ضبط رکھتا تھا۔ اس لیے عرفِ عام میں فرنگی کے لقب سے مشہور تھا ۔ نواب آصف الدولہ نے ہارپر کے نام اپنے شکایت نامے میں جانسن کا ذکر کر تے ہوئے لکھا ہے کہ اس (مسٹر جانسن ) نے میر محمد حسین سے بہت زیادہ ربط ضبط بڑھارکھا ہے اور حسب منشا اس (میر محمد حسین ) کے لیے وظیفہ مقرر کراکر جتنی رقم چاہتا ہے اس کے نام سے خود وصول کر تاہے ۔ (۱۴)
۱۷۸۴ء میں جب جانسن رزیڈنٹ کی حیثیت سے حیدر آباد گیا تو میرمحمد حسین بھی وہاں پہنچ گیا ۔ جانسن کے بعد میرمحمد حسین کا بھی اودھ چھوڑکر حیدر آباد چلے جانے پر سرکار اودھ نے میر مذکور کا وظیفہ بند کر دیا تھا ۔جانسن نے نواب کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ میر محمد حسین حیدرآباد آنے پررضا مند اس وقت ہوا جب گور نر جنرل نے اسے یقین دلایا کہ اس کاسرکاری (اودھ کا) وظیفہ باقاعدگی کے ساتھ ملتارہے گا۔ لیکن نواب نے اپنے خط میں اس بات کی تردید کی کہ ہیسٹنگ (گورنر جنرل ) کے ساتھ اس کا اس قسم کا کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ کمپنی نے بھی گورنر جنرل اور کونسل کی ہدایت کے مطابق میر محمد حسین کے وظیفے کی رقم (جو ۷۳۳،۳۲روپیے پر مشتمل تھی ) نواب سے طلب کی۔ نواب آصف الدولہ نے عذر پیش کیا اور کمپنی کو لکھا کہ اس طرح کا کوئی معاملہ سرکار اودھ اور گور نرجنرل کے بیچ نہیں ہوا ہے ۔ لیکن کمپنی باربار اپنا مطالبہ دہراتی رہی اور جانب داری میں یہ کہتی رہی کہ حیدر آباد کے قیام کے دوران میر محمدحسین نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور سات سوروپیے ماہوار جو کمپنی میر مذکور کو دیتی رہی ہے اسے سرکار اودھ ہی سے وصول کیا جائے گا ۔ لیکن جب لارڈکارنوالس گورنر جنرل ہوئے تو انھوںنے اس مطالبے کو باطل قراردے دیا اور یہ ہدایت کی کہ اس (وظیفہ کے ) مد میں سرکار اودھ سے جو رقم وصول کی گئی ہو وہ کمپنی کے حساب میں شامل کر لی جائے ۔ (۱۵)
مرزا علی لطف کے ایک بیا ن سے بھی جانسن اور میر محمد حسین کے تعلقات پر روشنی پڑتی ہے ۔ تذکرہ نگار موصوف میرقمرالدین منّتؔ کے حالات میں ’’ ویرا نی شاہجہان آباد‘‘ کے بعد لکھنؤ میں ان کے ورود کا تذکرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’میرمحمد حسین فر نگی لقب کی باد فروشی کے سبب مشتاق اُن کا وہاں ایک زمانہ ہوا ۔ بعد چندے مربی گری سے میر مذکور کے ، ممتاز الدولہ مسٹر جانسین بہادر کی سرکار میں توسل انھوں نے حاصل کیا ۔‘‘ (۱۶)
تذکرہ ’’ ریاض الوفاق ‘‘ کے مصنف ذوالفقار علی مست نے میر محمد حسین سے کلکتے میں اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور ’’ خلاصۃالافکار ‘‘ کے حوالے سے ان کے بارے میں چند اطلاعات فراہم کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میر محمد حسین عربی وفارسی کے علاوہ علم طب ، علم ریاضی اور علم طبیعی سے واقف ہیں ۔ ان کا مولد لکھنؤ ہے۔ دکن گئے تھے ، سخت بیمار ہوکر وطن روانہ ہوئے۔ بنارس کے قریب ۱۲۰۵ھ میں فوت ہوئے۔ صاحب دیوان شاعر ہیں ۔ ان کے دیوان میں تقریباً چھ ہزار ابیات ہیں لیکن کسی شعر میں تخلص موجود نہیں ۔ (۱۷)
مصحفیؔ نے اپنے تذکرے ’’ عقد ثریا ‘‘ کے آخر میں’’ خاتمہ ‘‘ کے زیر عنوان دو ایسے ’’ دانش مندوں ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو ’’ بمقتضاے موزونی طبع ‘‘ کچھ کہ لیا کر تے تھے لیکن اس سے ’’اظہار کمال شاعری ‘‘ مقصود نہ تھا ۔ اس لیے انھوں نے کوئی تخلص اختیا ر نہیں کیاتھا ۔ ان میں دوسرے ’’دانش مند ‘‘ کے ذکر میں’’ میر محمد حسین لندنی ‘‘ کا عنوان قائم کر کے فارسی کا ایک شعر نقل کر دیاگیا ہے (۱۸)ممکن ہے کہ مصحفیؔ نے ’’لندنی‘‘ یہاں ’’فرنگی‘‘ کے بدل کے طور پر استعمال کیا ہو اور اس سے مراد یہی میر محمد حسین ہوں ۔
’’ در سنہ گیارہ سو اکیانوے ۱۱۹۱ھ بہ سبب ویرانی دار الخلافہ وارد لکھنؤ گشتہ۔۔۔۔۔بنا بر ِ نقادی میر محمد حسین مرحوم ۔۔۔۔ سکّۂ تمام عیار سخش رواج باز از گوش صغیرو کبیریافت و ہم بہ توجہ آں سید عالی قدر توسل بہ ۔۔۔۔۔ مسٹر جانسن بہادر سلمہ‘۔۔۔۔۔بہم رسانیدہ بہ سفر بنگالہ و دکن برداخت۔۔۔۔۔۔‘‘ ۱۸ (الف)
(تذکرہ یوسف علی خاں بحوالہ نواے ادب اپریل ۱۹۵۱ ص:۱۲
مصحفیؔ نے میر صدرالدین محمد صدّر کے حال میں لکھا ہے کہ:
’’(میر محمد حسن) مرد کم گو بود خلیق و بدلہ سیخ و لطیف مزاج و خوش اختلاط است۔۔۔ خط شفیعارا بیار خوب میں نوسیہ گا ہے بعد سالے ماہے بمقتضاے ٔ موزونی طبع خیالِ شعر ہم فی کند‘‘ اور نہ اطلاع بھی دی ہے کہ ’’ از چند گاہ بہ لکھنؤ رسیدہ رفاقت جانسن فرنگی اختیار نمودہ ‘‘ ۱۸ (ب)
(عقد ثریا، طبع دوم ۱۹۷۸ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ص ۷۴)
نسخہ جانسن کو اردو دنیا سے روشناس کرانے کاسہرا شیخ چاند مرحوم کے سر ہے ۔ انھوں نے اس کا تعارف اپنی کتاب ’’سودا‘‘ (مطبوعہ۱۹۳۶ء ) میں قدرے تفصیل سے پیش کیا ہے ۔ ان کا بیان ہے کہ یہ دیوان ’’ سوداؔکی زندگی کا لکھاہواہے ۔۔۔ اور بہ طور تحفہ لکھنؤکے ریزیڈنٹ اور شاعرکے ممدو ح جانسن کو دیا گیا تھا۔۔۔ یہ بہت ہی خوبصورت نستعلیق خط میں لکھاہوا ہے۔۔۔ جانسن کی مدح میں سوداؔ نے ایک قصیدہ بھی لکھا ہے۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ (نسخہ )خاص طور پر جانسن کی نذر کر نے کے لیے تحریر کیا گیا تھا۔۔۔ بہت صحیح اور مستند نسخہ ہے ۔‘‘ (۱۹)
شیخ چاند مرحوم کے محولہ بالا مفروضے کی بنیاد پر محققین اور علماے ادب نے بغیر کسی تحقیق وتفتیش کے نسخہ مذکور کو کلام سوداؔکاواحد مستندنسخہ باور کرلیا ، چنان چہ پاکستان میں ڈاکٹرمحمدشمس الدین صدیقی نے اس کو بنیاد بناکر’’کلیاتِ سودا‘‘مرتب کیا جسے ’مجلس ترقی ادب لاہور ، نے چار جلدوں میں شائع کیا (۲۰) ۔ اور ہندوستان میں ڈاکٹر محمدحسن نے اس نسخے کی مبینہ غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر املااور خط کی تمام خصوصیتوں کوعلیٰ حالہ قائم رکھتے ہوئے نہایت اہتمام کے ساتھ اس کی کتابت کرائی اور ماڈل ٹاؤن دہلی سے چھپوا کر عام کیا۔ جناب رشید حسن خاں نے اسی کی بنیادپر’’انتخاب سوداؔ‘‘ کے نام سے سوداؔ کے منتخب کلام کا مجموعہ ایک مبسوط مقدمے کے ساتھ ترتیب دیا جو۱۹۷۲ء میں مکتبہ جامعہ دہلی سے شائع ہوا۔ علاوہ بریں ڈاکٹر عتیق احمد صدیقی، ڈاکٹر خورشید الاسلام اور ڈاکٹر ہاجرہ ولی الحق نے بالترتیب ’’ قصائد سوداؔ‘‘ ’’انتخاب کلام سوداؔ‘‘ اور ’’ غزلیات مرزا محمد رفیع سوداؔ‘‘ کی تدوین اور ترتیب میں اس نسخے سے استفادہ کیا ہے ۔
قاضی عبد الودود مرحوم اردو ادب میںکسی تعارف کے محتاج نہیں ، ڈاکٹر محمودشیرانی کے بعد اردو تحقیق نے جس قدر بھی وقار حاصل کیاہے وہ تمام تر قاضی صاحب کی دیانت دارانہ محنتوں کا ثمرہ ہے۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں نسخۂ جانسن کے بارے میں ایک حد تک شیخ چاند مرحوم کے قول کا ہی اعادہ کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ یہ وہ نسخہ ہے جو سوداؔ نے رچرڈجانسن نائب رزیڈنٹ اودھ کو اپنی موت سے دو چار سال قبل دیا تھا ‘‘(۲۱)
ڈاکٹر خلیق انجم نے اپنی تصنیف ’’مرزامحمد رفیع سوداؔ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ وہ یہ نسخہ ہے جسے سوداؔ نے رچرڈ جانسن کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔۔۔۔۔یہ کلیات سوداؔ کے معتبر ترین نسخوں میں ہے ۔۔۔۔۔‘‘(۲۲)
جناب رشید حسن خاں کا شمار عصرحاضر کے ژرف بین اور سنجیدہ محققین میں ہوتا ہے ۔ ان کے تحقیقی اور علمی کارناموں کے مطالعے سے مترشح ہوتاہے کہ وہ تحقیق میں شرک گوارا نہیں کرتے ، نہ ہی سہل انگاری اورعجلت کے قائل ہیں، سنسنی خیز اور سنی سنائی باتوں پر ایمان لانا مذ ہب تحقیق کے منافی خیال کر تے ہیں ۔ لیکن چوںکہ انسان خطاونسیاں سے مرکب ہے اس لیے اُس سے بھول چوک اور غلطیوں کا سر زد ہوجانا بہر حال بعیداز امکان نہیں۔ یہاں زیر تبصرہ مخطوطے کے بارے میں اُن کے غیر محقق بیان کو سامنے رکھ کر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موصوف نے محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اسے معتبرترین نسخے کا درجہ دے دیا ہے۔ انھوں نے مختلف مقامات پر اپنے اس مفروضے کی پرزور حمایت کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں :ـ۔
۱۔’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کلیات سودا کے نسخہ جانسن میں ،جس کی کتابت لازماً سوداؔ کے آخری زمانے میںہوئی ہے … اس لفظ (تڑپھ) کا املا یہی ہے ‘‘(اردواملا ،طبع اول ص۶۶۱)
۲۔’’ یہ نسخہ ۔۔۔۔ الحاقی کلام سے پاک ہے ۔۔۔۔۔‘‘ اس میں اغلاطِ کتابت کم ہیں‘‘ (۱)۔(مقدمہ ’’انتخاب سودا‘‘ ص ۳۰) (۱۱)۔( ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ ص۱۷ از رشید حسن خاں )
۳۔ اس کی مدد سے کلام سوداؔ کے متن کی تصحیح بخوبی ممکن ہے۔ (مقدمہ’’ انتخاب سودا‘‘ ص۳۰)
۴۔ ’’ کلام سودا کا (بہ لحاظ صحت متن وانتساب متن ) اہم ترین اور معتبر ترین خطی نسخہ وہ ہے جو انڈیا آفس لائبریری ، لندن میں محفوظ ہے ۔ اس کی کتابت سوداؔ کی زندگی میں ہوئی تھی ۔ ۔۔۔ تکمیل ۱۱۹۳ھ تا۱۱۹۵ھ میں ہوئی تھی ۔۔۔ یہ نسخہ سوداؔ کے ایک ممدوح رچرڈ جانسن کی نذر کیا گیا تھا۔۔۔۔‘‘ (’’ادبی تحقیق۔۔۔۔۔‘‘ ص۱۳۰ )
۵۔ ’’انڈیا آفس لندن کے ذخیرۂ مخطوطات میں کلام سوداؔ کا وہ نادر مخطوطہ محفوظ ہے جس کی کتابت سوداؔ کی زندگی کے بالکل آخری زمانے میں ہوئی تھی ۔ یہ بیش قیمت خطی نسخہ سوداؔ کے ایک ممدوح رچرڈ جانسن کو نذر کیا گیا تھا ، جو اودھ میں نائب رزیڈنٹ اور قائم مقام رزیڈنٹ رہ چکا ہے ۔ ‘‘ (مقدمہ ’’انتخاب سوداؔ ‘‘ ص ۲۹، ۳۰ )
۶۔ ’’۔۔۔۔اردو ادب پر جانسن کا یہ احسان ہے کہ اس کی بدولت کلام سوداؔ کا اہم ترین نسخہ وجود میں آیا اور محفوظ رہا ۔ ایسا نسخہ جس کو پیش نظر رکھے بغیر تصحیح وتدوین کا کام انجام دیا ہی نہیں جاسکتا ۔ اب تک دریافت شدہ نسخوں میںصحت متن کی بنا پر یہ واحد مخطوطہ ہے جس کو تدوین کی بنیاد بنایا جانا چاہیے۔ ( مقدمہ’’ انتخاب سوداؔ ‘‘ ص۳۲)
پروفیسر خورشید الاسلام نے سوداؔ کے کلیات کا ایک انتخاب ’’کلام سوداؔ‘‘ کے نام سے مرتب کیا، جو ۱۹۶۴ء میں انجمن ترقی اردو علی گڑھ سے شائع ہوا ہے۔ پروفیسرموصوف اپنے مقدمے میں نسخۂ جانسن کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’۔۔۔۔ یہ وہ نسخہ ہے جسے سوداؔ نے اپنے اہتمام میں لکھوا کر جونسن کو پیش کیا تھا۔۔۔۔‘‘ (ص ۳۱) خلیق انجم نے بھی یہی راے اس نسخے کے بارے میں ظاہر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : یہ وہ نسخہ ہے جسے سوداؔ نے رچرڈ جانسن کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
ڈاکٹرمحمد شمس الدین صدیقی نے برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ کلامِ سوداؔ کے نسخوں کی مدد سے کلیاتِ سوداؔ مرتب کیا تو انھوں نے بہ وجوٗہ نسخۂ جانسن کو بنیادی نسخے کی حیثیت سے استعمال کیا۔ اور عام طور پر اسی کی قرأت کو ترجیح بھی دی۔ اُن کا قیاس ہے کہ یہ نسخہ ۱۷۸۱ء کے نصف اوّل میں مکمل ہوا اور سوداؔ نے اسے رچرڈ جانسن کی خدمت میں میرحسین کی معرفت پیش کیا۔
درج بالا بیان کے علی الرغم مرتب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے بنیادی نسخے میں اغلاطِ املا و کتابت اور الحاقی کلام کے علاوہ متعدد نظموں کے غلط انتسابات بھی موجود ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ دیوان کتابت کے بعد سوداؔ کی نظر سے نہیں گزرا۔
ڈاکٹر محمد حسن نے نسخہ جانسن کے مشمولات کو’’ کلیات ِ سوداؔ‘‘ (جلد اول ) کے نام سے اس کے اصل خط اور ترتیب کے مطابق ادارہ تصنیف ماڈل ٹائون دہلی -۹ سے ۱۹۴۹ء میں شائع کیا ہے ۔مقدمے میں ان کا ارشاد ہے کہ:
[۱] ’’ یہ نسخہ مصنف کی زندگی میں مرتب ہوا اور لکھنو میں ایک اہم شخصیت کو پیش کیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ سوداؔ نے خود پیش کیا ہو یا شاعر کے ایماسے پیش کیا گیا ہو۔ قرین قیاس ہے کہ اس کی ترتیب میں زیادہ توجہ صرف کی گئی ہوگی‘‘ (مقدمہ’’کلیات سودا ؔ‘‘ جلد اول ص ۳۱)
[۲] ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس مخطوطے سے مقابلے کے بعد سوداؔ کے متعدد اشعار کی صحیح قرأت تک بھی رسائی ممکن ہے ‘‘ (ایضاً ص ۳۱)
اپنے اس دعوے کے ثبوت میں مرتب نے ایک شعر نسخہ آسی سے پیش کیا ہے جس میں ’’صورت دیبا‘‘ کو ’’صورت زیبا‘‘بنادیا گیا ہے ۔ لیکن یہ اختصاص صرف جانسن کے متن تک محدود نہیں بلکہ قدیم ترین مطبوعہ ایڈیشن ’’نسخہ مصطفائی ‘‘ میں صحیح متن ’’دیبا‘‘ہے اور جو بعد کے مراحل میں دنیا ’’اورزیبا ‘‘ میں بدل گیا ۔ مرتب نے اپنے ادعا سے قبل اسی کلیات کے پیش لفظ میں لکھاہے کہ ممکن ہے میر محمد حسین نے جانسن کی خوشنودی حاـصل کر نے کے لیے یہ مخطوطہ اس (جانسن ) کے کتب خانہ میں داخل کرایا ہو (ایضاً) ڈاکٹر موصوف کا یہ بیان بھی درست نہیں کہ ’’یہ نسخہ ۱۱۹۲ھ کے لگ بھگ مرتب ہو ا‘‘۔ (ایضاًص۳۰)
ڈاکٹر جمیل جالبی نے سوداؔ کے دیوانِ اُردو پر تبصرہ کرتے ہوئے تقریباً انھی باتوں کو دہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: (۱) ’’۔۔۔۔ البتہ ایک نسخہ انڈیا آفس لندن میں محفوظ ہے جو سوداؔ کی زندگی میں سوداؔ کے ایماپر لکھنؤ میں انگریز وں کے نائب رزیڈنٹ رچرڈ جانسن کے لیے لکھوایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کلیات ِسوداؔ کا واحد معلوم نسخہ ہے جو سوداؔ کی نظر سے گزراتھا اور جس میں کتابت کی غلطیاں بھی کم ہیں ۔‘‘ (تاریخ ادب اردو جلددوم و طبع دوم ۱۹۸۷ء مجلس ترقی ادب لاہور ،پاکستان ،ص۶۶۹)
(۲) قائم کے تعلق سے ایک جگہ لکھتے ہیں : ۔۔۔۔۔قائم کا بہت سا کلام ۔۔۔۔۔غلطی سے کلیات سوداؔ میں شامل ہو گیا ہے اور میر کلیات سوداؔ کے اس نسخے میں شامل نہیں ہے جو خود سوداؔ کی نگرانی و زندگی میں رچرڈ جانسن کے لیے تیار کرایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔(ص: ۷۴۹)
لیکن مندرجہ بالا راپنی دونوں آرا اے کے برخلاف موصوف ۱۹۹۴ء میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں نسخہ ٔ جانسن کا ضمناً ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ وہی ممتاز الدولہ رچرڈ جانسن بہادر ہیں جو لکھنؤ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے نائب رزیڈنٹ تھے اور جنھیں دیوان سوداؔ محمد حسین نے خوشخط لکھواکر پیش کیا تھا اور جو آج نسخہ ٔ جانسن کے نام سے معروف ہے ‘‘۔ (مصحفی کے تذکرے۔ ایک تجزیاتی مطالعہ، مشمولہ یادگار نامہ۔ فخر الدین علی احمد مطبوعہ ۱۹۹۴ء، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ۔ ص ۴۱۰)
ڈاکٹرعبدالاحد خاں خلیل مرحوم کا ایک تحقیقی مضمون ’’رچرڈ جانسن اور سوداؔ‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ نیا دور، لکھنؤ شمارہ اپریل ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا ہے۔ نسخۂ جانسن کے بارے میں ان کی راے بھی شیخ چاند مرحوم کے مفروضے سے چنداں مختلف نہیں بلکہ اُن کے بیان کی توضیح معلوم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ دیوان چوں کہ خود سوداؔ کے ایما سے اور اُن کی نگرانی میں تحریر ہوا تھا۔ [اور] اس زمانے کے ممتاز رکن حکومت یعنی مسٹر رچرڈ جانسن کو پیش کیا گیا تھا اس وجہ سے اس کا امکان بالکل نہیں ہے کہ اس میں کسی دوسرے ہم عصر شاعر کا کلام شامل کر لیا گیا ہو۔ چنان چہ الحاقی کلام اس میں یکسر موجود نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ سب ہر لحاظ سے قابل اعتماد ہے‘‘۔
پروفیسر اکبر حیدری کی راے ہے کہ ’’یہ نسخہ ۱۱۹۳ تا ۱۱۹۵ کے درمیان رچرڈ جانسن کو پیش کیا گیا تھا‘‘ (اکادمی لکھنؤ، مئی ۱۹۸۲ء ص ۸۵) البتہ انھیں یہ ماننے میں تامّل ہے کہ نسخہ الحاقی کلام سے یکسر پاک ہے۔ وہ ’’مثنوی در ہجو فدوی معروف بہ قصۂ بوم بقال ‘‘ کو سوداؔ کی نہیں شیداؔ کی تصنیف خیال کرتے ہیں۔
غالبا ً شیخ چاند ایم ۔اے ۔ ایل۔ ایل۔ بی (متوفی ۱۹۳۶ء) کے بیان پرقاضی صاحب مرحوم کی مہرتصدیق کے بعد مزید تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور حسن ظن کی بنا پر یہ بات دہرائی جاتی رہی کہ یہ نسخہ جو رزیڈنٹ یا نائب رزیڈنٹ کو سوداؔ نے نذر کیا تھا ، سب سے معتبر نسخہ ہے اور یہ کہ اس کی کتابت ۱۱۹۲ھ تا ۱۱۹۵ھ کے درمیان ہو ئی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
راقم سطور نے زیر بحث ’دیوان سوداؔ‘ کے متن کا مقابلہ ملک اور بیرون ملک میں موجود کلام سوداؔ کے کئی معتبر اور قدیم نسخوں سے کرنے کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کاتبِ دیوان خوش خط اور پڑھا لکھا ہونے کے علاوہ جعل سازی کے فن میں بھی مہارت تامہ رکھتا ہے ۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے الفاظ و حروف میں جا بجا اس طرح ترمیمیں کی ہیں کہ سرسری طور پر ان کی گرفت نہیں کی جاسکتی ۔ کاتب کی اس جعل سازی کی وجہ سے ہمارے محققین اور علماے فن تدوین نے نسخہ مذکور کے بارے میں غلط آرا قائم کی ہیں اور گمراہ کن مفروضے پر اپنی تحقیق و تدوین کی بنیا د یں رکھی ہیں۔
یہاں مذکورہ بالا دعوے کی تائید میں چند تحقیقی معروضات پیش کیے جائیں گے ، بعد ازاں ’’دیوان‘‘ کے محرف و الحاقی کلام ، نظموں کے غلط انتسابات اور اغلاط املا و کتابت پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جائے گی ۔
۱۔ دیوان کے پہلے ورق کی پشت کے بالائی سرے پر منقول انگریزی عبارت سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ کتاب مرزا محمد رفیع سوداؔ نے مسٹر جانسن کو تحفتہً دی تھی ۔ لیکن خود پیش کی تھی یاکسی کے توسط سے، یہ واضح نہیں۔ دراصل انگریزی خط کے انداز اور جاے تحریر سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ عبارت بعد کی ہے اور کسی ایسے شخص کا اضافہ ہے جس سے فارسی عبارات کو سمجھنے میں تسامح ہواہے۔ اس کے بر عکس فارسی عبارتیں کاتب متن کے قلم سے اُسی خط اور روشنائی میں لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔ مزید بر آں فارسی الفاظ’’ گذرایندہ ٔمیر حسین صاحب ‘‘سے اول تو انگریزی عبارت کی تردید ہوتی ہے دویم اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ’’دیوان مذکور ‘‘ سوداؔنے نہیں، میر حسین نامی ایک شخص نے جانسن کو پیش کیاتھا ۔
۲۔ جانسن کا پورا نام رچرڈ جانسن تھا ۔ عام طور پر مسٹر جانسن کے نام سے جاناجاتاہے اور اسی نام سے تاریخی کتابوں میں اس کے حالات درج ہیں ۔ میر حسین کو اس کی سرکار میں غیر معمولی رسوخ حاصل تھا اور اپنی ’’باد فروشی ‘‘ کے سبب عوام میں ’’فرنگی ‘‘ لقب سے یاد کیاجاتا تھا۔ مسٹر جانسن اور میر محمد حسین کے اس باہمی رشتے کے پیش نظر غالب گمان یہی ہے کہ صاحب بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ دیوان میر مذکور نے اُنھیں دیاہوگا ۔
۳۔ فارسی عبارات میں جانسن کا ذکر خطابات (ممتاز الدولہ مفتخر الملک حسام جنگ صاحب بہادر) کے التزام کے ساتھ کیاگیا ہے لیکن سوداؔ (متوفی ۱۱۹۵ھ/۱۷۸۱ء) کی زندگی میں لکھی گئی کسی کتاب میں جانسن کے نا م کے ساتھ خطابات مذکور نہیں ۔حیدر آباد کے قیام کے زمانے (۸۶۔۱۷۸۴ء)کی تحریروں سے بھی اس کے خطاب یافتہ ہونے کا کو ئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ’’خیابانِ آصفی‘‘کے مولف مانک راؤ وِٹھل راؤ نے کتاب کے آخر میں مملکت آصفیہ، حیدر آبادکے کل سر سٹھ رزیڈنٹوں کا ایک چارٹ اور فٹ نوٹ میں ان کے خطابات کی نشا ن دہی کا التزام کیاہے لیکن انھوں نے بھی جانسن کے کسی خطاب کا ذکر نہیں کیاہے۔ (۲۳)
۴۔ مشہور معاصر تاریخ نویس او رمصنف ابو طالب اصفہانی لندنی، جانسن کا بڑا مداح ہے۔ اس نے اپنی تالیف ’’وقائع زماں نواب آصف الدولہ ‘‘معروف بہ ’’تاریخی آصفی ‘‘میں ۷۶۔۱۷۷۵ء ؍۱۱۸۹ھ تا۱۷۹۶ء/۱۲۱۱ھ تک کے سیاسی اور معاشی حالات قلم بند کیے ہیں ۔ وہ جانسن کے علم و فراست کا ذکر اور اس سے اپنے قلبی تعلق کا اظہار باربار کرتا ہے لیکن اس کے کسی خطاب کا تذکرہ اس کے یہاں بھی موجود نہیں ۔ پوری کتاب میں اس نے جانسن کے لیے مسٹر جانسن لکھاہے جب کہ ایک دوسرے انگریز افسر وینسٹیارٹ کانام خطاب کے ساتھ لکھاہے ۔ کتاب مذکور کی عبارت دیکھیے:
’’مسٹر وینسٹیارٹ ہوشیارجنگ اور مسٹر جانسن اس سفر میں جنرل کے ساتھ تھے‘‘ (۲۴)
یہاں صرف مسٹر جانسن لکھنا یہ ظاہر کرتاہے کہ مصنف اس کے خطابات سے ناواقف تھا۔
۵۔ ۱۷۷۹؍ ۱۱۹۳ھ سے ۱۷۸۱؍۱۱۹۶ تک لکھنؤمیں جانسن کے زوال کا زمانہ تھا ۔ بیگمات اودھ اور نواب کے ساتھ اس کے تعلقات نہایت کشیدگی اختیا ر کر چکے تھے ۔ نواب آصف الدولہ نے تنگ آکر جانسن کی بد عنوانیوں کی شکایت اس وقت کے رزیڈنٹ مسٹر ہار پر سے کی تھی ، نتیجے کے طور پر ۱۷۸۲ء میں اسے اپنے عہدے سے الگ ہوناپڑا تھا۔ ایسی صورت میں سرکار اودھ کی جانب سے اس کا خطابات سے نوازاجانا نیز نواب کے ایک معتمد علیہ درباری شاعر کا جانسن کی مدح میں قصیدہ لکھنا اور اپنا دیوان نذر کرنا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے ۔
۶۔ مسٹر جانسن کی فر مائش پر لکھی گئی مثنوی موسوم بہ ’’ اسرار محبت ‘‘ کا سنہ تصنیف ۱۱۹۷ھ ہے۔اس مثنوی میں فرمائش کنندہ کو نکتہ داں ، شفیق ، قدرداں ، مہرباں ، والامناقب ، فخر فرنگستان وغیرہ صفات سے متصف کیاگیا ہے لیکن مسٹر جانسن بغیر کسی اعزازی نام کے ساتھ نظم کیاجانااس دعوے کی قوی دلیل ہے کہ اس وقت تک جانسن کو کوئی خطاب نہیں ملاتھا۔
۷۔ تذکرہ گلزار ابراہیم پہلی تاریخی دستاویز ہے جس میں ’’مسٹر جانسن ‘‘ کے نام سے قبل ’’ممتاز الدولہ ‘‘ اور بعد میں ’’بہادر‘‘ کااضافہ کیاگیا ہے ۔ یعنی ممتاز الدولہ مسٹر جانسن بہادر‘‘ لیکن ’’مفتخر الملک حسام جنگ ‘‘ یہاں بھی موجود نہیں ۔ تذکرہ میںموجود داخلی قرائن سے پتا چلتاہے کہ اس کی تکمیل ۱۷۸۴ء / ۱۱۹۹ھ کے بعد ہی کسی سال میں ہوئی ہوگی ۔
۸۔ انڈیا آفس لائبریری ، لندن میں موجود ’’نوطر ز مرصع ‘‘ کے صفحہ ٔ اول پر جانسن کا پورا نام ’’سرکار نواب صاحب ممتا ز الدولہ مفتخر الملک حسام جنگ مسٹر جانسن صاحب دام اقبالہ ‘‘ لکھاہواہے ۔ یہ نسخہ انیسویں صدی عیسوی کا مکتوبہ بتایاگیاہے ۔(۲۵)۔
۹۔ اصفہانی کے ایک بیان کے مطابق ۱۷۸۶ء میں حیدر آباد میں رزیڈنٹ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد جانسن لکھنو ٔ چلاآیا اور اودھ میںمسٹر ایوس (Ives) کے رزیڈنٹ مقرر ہونے پر وہ دوبارہ رزیڈنٹ کا نائب بنا ۔ اس مرتبہ نواب کے ساتھ اس کے تعلقات نسبتاً بہتر رہے ۔ راقم کا خیال ہے کہ اسی زمانے میں جانسن کو خطابات عطاہوئے ہوں گے اور میر حسین نے یہ نسخہ اس کی نذر کیاہوگا ۔
۱۰۔ ذوالفقار علی مست نے کلکتے میں میر حسین سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے اور جو اطلاعات بہم پہنچائی ہیں ان کی روشنی میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہی وہ میر حسین ہے جو فرنگی یا لندنی کے لقب سے مشہور تھا اور جانسن سے منسلک تھا ۔ اور جس نے زیر بحث دیوان اس کی نذر کیا تھا ۔ تذکرہ نگار نے یہ بھی لکھاہے کہ میر محمد حسین کا دیوان چھہ ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور کسی شعر میں تخلص موجود نہیں ۔ ’’ عقد ثریا‘‘ کے آخر میں ’’داانش منداں ‘‘ کے زیر عنوان جس میر محمد حسین کا ایک فارسی شعر نقل ہے وہ یقینا یہی میر حسین ہیں۔ مصحفیؔ نے بھی لکھاہے کہ یہ ’’دانش مند‘‘ تخلص نہیں رکھتا تھا ۔ اس سے یہ نتیجہ مستنبط کیاجاسکتاہے کہ چوںکہ یہ شخص شاعر بے تخلص تھا اس لیے اس نے اپنے شاعرانہ کمال کا مظاہرہ کرنے کے لیے شاعر کی زبان و بیان میںرچرڈ جانسن کی مدح کہ کر اس میں سوداؔ تخلص شامل کر دیا ۔
۱۔ ’’تحریفات ‘‘
سوداؔ کے کلام میں ترمیم و تحریف کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ چنان چہ میر حسن نے ان کے ایک شاگرد معین بدایونی کے ترجمے میں لکھا ہے کہ : ’’دیوان استاد خودرا موافق طبع خود درست کند و سخن خود را سر سبز می نماید ‘‘ (۲۶) علاوہ ازیں معاصر تذکروں میں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جن کا متن کلام سوداؔ کے کسی قدیم نسخے کے متن سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ مثال کے طور پر میرؔ کے تذکرے میں ایک شعر اس طرح نقل ہوا ہے :
’’موج نسیم گرد سے آلودہ ہے نپٹھ
دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا‘‘
جب کہ دوسرے تمام قدیم مآ خذ میں مصرع اول کی شکل یہ ہے :
’’ع موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے ‘‘
مرزا سوداؔ نے مندرجہ ذیل اشعار قطعہ میں غالباً اسی طرح کی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
ہے جو کچھ نظم و نثر عالم میں
زیر ایراد میر صاحب ہے
ہر ورق پر ہے میرؔ کے اصلاح
لوگ کہتے ہیں سہو کاتب ہے
تذکروں میں اس قسم کے اختلافات متن کی مثالیں بکثرت موجود ہیں لیکن انھیں حتمی طور پر ناقلین کے ارادی تصرف کانتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کے بر خلاف نسخۂ زیر بحث کے متعلق وثوق کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ اس میں دیدہ و دانستہ تحریفیں کی گئی ہیں۔
ان تحریفوں کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے۔
۱۔ الفاـظ کی معمولی ردوبدل کے ذریعے زبان کو سہل بنانے یا قدیم اثرات کو زائل کر نے کی کوشش کی گئی ہے یا
کسی شعر کو بزعم خویش زیادہ چست اور بامعنی بنانے یا مضمون میںجدت پیدا کرنے کی غرض سے کسی خاص لفظ یا ترکیب کو بدل دیا گیا ہے ۔
یہ تبدیلیاں اتنی صفائی سے کی گئی ہیں کہ ہمارے بعض ممتاز محققین تک ان کی گرفت سے قاصر رہے ہیں ۔مثلاً:-
(i)۔ کلامِ سوداؔ کے تمام قدیم مآخذ میں ایک مصرع کی شکل یہ ہے ’’ع دکھلائیے لے جاکے تجھے مصر کا بازار‘‘ لیکن زیر بحث نسخے کے کاتب نے’’ مصرکا بازار ‘‘کی جگہ’’مصر کے بازار ‘‘ کردیا ہے جسے ’’مصر کی بازار ‘‘ بھی پڑھاجاسکتاہے ۔
(ii)۔ ایک اور مصرعے ’’نہ پہنچے دل ستی ہرگز زباں تلک یک حرف ‘‘ میں زبان کے قدیم اثرات کو زائل کر نے کی غرض سے متن کو یوں بدل دیا ہے ’’ع کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زباں یک حرف ‘‘
(iii)۔ ایک اور شعر قدیم نسخوں میں اس طرح نقل ہے ۔
’’ایک شب آ، کوئی دلسوز نہ رویا اس پر شمع تک گور ہماری سے جلی دور سدا ‘‘
نسخہ جانسن میں دوسرا مصرع بہ ادنیٰ تصرف اس طرح لکھاگیا ہے :
ع ’’شمع بھی گورہماری پہ جلی دور سدا ‘‘
(iv)۔ فارسی کے مشہور شاعر حافظؔ کی ایک غزل کو سوداؔاور بیدارؔ دونوں نے تضمین کیا ہے ۔ دیوان حافظؔ، دیوان بیدارؔ اور کلام سوداؔ کے قدیم نسخوں میں غزل مذکور کاایک مصرع اس طرح ملتاہے:
ع ’’جز ایںقدرے نتواں گفت در جمال تو عیب ‘‘لیکن نسخۂ جانسن میں’’ گفت ‘‘کو بدل کر ’’یافت ‘‘کردیا گیا ہے ۔
(v)۔ میرؔ کی بھی ایک غزل سوداؔ کے یہاں مخمس میں تضمین ہوئی ہے ۔دیوان میرؔ کے تمام نسخوں اور کلام سوداؔکے قدیم نسخوں میں میرؔ کی غزل کاایک مصرع اس طرح لکھا ہواہے۔ ع’’ خاک کن کن کی ہوئی صرف، بناکیاکیا کچھ ‘‘لیکن نسخۂ زیر بحث میں اس کی شکل یہ ہوگئی ہے۔ ع’’خاک کن کن کی ہوئی ، ظرف بنا کیا کیا کچھ ،‘‘یہاں یہ محرف متن بہ اعتبار معنی غلط بھی ہے ۔
(vi) اسی طرح تاباںؔ کی ایک غزل کے خمسے میں بھی اس کے کئی مصرعوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر تاباںؔ کا ایک مصرع دیوان تاباںؔ اور دیوان سوداؔ کے قدیم قلمی اور مطبوعہ نسخوں کے علاوہ بیشتر تذکروں میں اس طرح ملتاہے ’’ع بیاں کیا کروں ناتوانی میں اپنی ‘‘ لیکن نسخہ ٔجانسن میں تصرف کے ساتھ یوں لکھاگیاہے ’’ع ولے کیا کہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘
اس غزل کے ایک دوسرے مصرعے ’’مری خاک پر لوگ رکھتے ہیں گل کو ‘‘ میں ’’خاک ‘‘کی بجاے ’’گور‘‘ کردیاگیا ہے ۔
ذیل میںمختلف اصناف سخن سے ایسے ہی کچھ اور منتخب اشعار درج کیے جاتے ہیں تاکہ نسخۂ جانسن اور قدیم نسخوں (اصل متن ) کا فرق واضح تر ہو جائے۔
(الف) ’’غزلیات‘‘
نسخۂ جانسن
نسخہ ہائے قدیم
۱
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب چشم کھلے گل کی تو موسم ہو خزاں کا
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
۲
دکھلائیے لے جاکے تجھے مصر کے بازار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصر کا بازار
لیکن نہیں خواہاں کوئی وھاں جنس گراں کا
______________________
۳
اے برق کس طرح سے میں حیراں ہوں تجھ کنے
حیراں ہوں کس طرح ستی اے برق تجھ کنے
نقشہ ہے ٹھیک دل کے مرے اضطراب کا
______________________
۴
کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زَباں یک حرف
نہ پہنچے دل ستی ہرگز زَباں تلک یک حرف
اگر بیاں کروں طالع کی نارسائی کا
______________________
۵
ایک شب آ، کوئی دلسوز نہ رویا اُس پر
______________________
شمع بھی گور ہماری پہ جلی دور سدا
شمع تک گور ہماری سے جلی دور سدا
۶
یھاں تک ہوں میں ضعیف کہ کہتے ہیں میرے عضو
یھاں تک گداز غم ہوں کہ کہتے ہیں میرے عضو
باریک و ناتواں ہے اب اس کی کمر کہ ہم
______________________
۷
ہزار حیف کوئی باغ میں نہیں سنتا
ہزار حیف کوئی باغ میں جو سنتا ہو
چمن چمن پڑی کرتیں ہیں بلبلاں فریاد
______________________
۸
نہ میرے دل کی خموشی ہے موجب آرام
نہ میرے دل کو خموشی۔۔۔۔۔۔الخ
کبھو ہوا ہے، کرے مرغ نیم جاں فریاد
______________________
۹
عقل نے ایک دن آکر یہ کہا سوداؔ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاس یاہم سے رہا کیجیے یا ہم سے دور
خواہ نزدیک ہمارے رہو، خواہ ہم سے دور
۱۰
منہ تو مجھے لگاوے تو کب جام کی طرح
منہ تو کہاں لگوں ہوں تیرے جام کی طرح
اتنا بھی واہ واہ میسر ہو گر کہیں
______________________
۱۱
تو تو اس معنی سے کیا شاد ہوا ہووے گا
تو تو اس معنی کو سن شاد ہوا ہووے گا
پوچھیے اہل دلوں سے کہ وہ کیا کہتے ہیں
پوچھیے۔۔۔۔ دلوں سے۔۔۔۔۔۔؟
۱۲
خانۂ مشرب کی دیکھ تازہ بنا کو میرے
دیکھ کے تازی بنا، خانۂ مشرب کی مجھ
کہتے ہیں نت ساکن دیر و حرم واہ واہ
______________________
۱۳
مستی سے اس نگاہ کی، لے محتسب خبر
گردش سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
دنیا تمام بزم خرابات ہو گئی
______________________
۱۴
سوداؔ سے یہ کہا میں کچھ ذکر کر کسی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموشی نے تو تیری، عالم کا جی لیا ہے
تیری خموشی نے تو عالم کا جی لیاہے
۱۵
سمجھے اگر تو اتنا یہ زندگی مرض ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو درد جس طرح کا پھر وہ تجھے دوا ہے
ہو زہر جس طرح کا ۔۔۔۔۔ الخ
۱۶
نامے کا غور سے ٹک میرے جواب لکھنا
نامے کا ٹک سمجھ کے میرے جواب لکھیو
انشاے ظاہری کے باطن میں مدعا ہے
______________________
۱۷
(ب)قصائد
فراہم زر کا کرنا باعث اندوہ دل ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کچھ جمع سے غنچے کو حاصل جز پریشانی
حصول جمع سے غنچے کو، آخر ہو پریشانی
۱۸
بہ رنگ شیشۂ مے وقت اشک ریزی کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلے سے پڑتی ہے دل تک مرے ہزار گرہ
گلے سے پڑتی ہے دل تک ہزار بار گرہ
۱۹
ہے غرض اس نظم سے اتنی ہی کچھ تا کیحے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرض اپنے حال کا نزد شہ ہر دو جہاں
عرض اپنے حال کی نزد۔۔۔ الخ
۲۰
عجب نہیں ہے کہ جاتی رہی ہو دنیا سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبس خوشی نے مرے دل سے اب کیا ہے فرار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے کنار
۲۱
دلا اس اپنے غم دل کو نت غنیمت جان
دل تو اپنے غم دل کو اب غنیمت جان
بدل خوشی سے تو اس دور میں نہ کر زنہار
______________________
۲۲
کسو سے یھاں غم دل یوں نہ لے گیا دوراں
کسو ہی سے غم دل یوں نہ۔۔۔۔ الخ
کہ شادی مرگ کیا ہو نہ اس کو آخر کار
______________________
۲۳
نہیں ہے شادی بے غم چمن میں دنیا کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ چاک کرکے گریباں ہنسے ہے گل اے یار
کہ گل ہنسے ہے گریبانِ پیرہن کو پھاڑ
۲۴
سنی میں ایک غزل بلبل طبیعت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ دل کے لخت گرے چشم سے ہزار ہزار
کہ لخت دل گرے آنکھوں ستی ہزار ہزار
۲۵
زمیں وہ نور سے اس مرتبہ ہے مالا مال
ہے اس قدر وہ زمیں نور سیتی مالا مال
کہ جس کی رات کے آگے نہیں ہے دن کو قرار
______________________
۲۶
اسی ہی غم سے جہاں میں ظہور کرتی ہے صبح
اسی ہی غم سے نکلتی ہے ظاہرا دم صبح
ہمیشہ پنجۂ خورشید اپنی جیب پہ مار
ہمیشہ پنجۂ خورشید سے گریباں پھاڑ
۲۷
انجم تگرگ وار زمیں پر ٹپک پڑیں
انجم تمام قطرۂ خوں ہو، ٹپک پڑیں
صدمہ ٹک اس سے پہنچے اگر آسماں تلک
صدمہ اگر اس سے پہنچے کبھو آسماں تلک
۲۸
نہیں ہے کام مجھے شعر و شاعری سے ولے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرد نے مجھ کو نصائح سے بار ہا یہ کہا
خرد نے مجھ ستی سمجھا کے بار ہا یہ کہا
۲۹
یک تن نوالہ خوار نہ ہو اس سے تا ابد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز ازل سے ہے یہ نگوں کاسۂ سفال
ہے سرنگوں ازل ستی یہ کانسۂ سفال
۳۰
دونوں عارض گویا شیشے ہیں مے گلگوں کے
عارض اس کے گویا شیشے ہیں مئے گلگوں کے
زنخ ان دونوں میں یوں جیسے نمک داں میں گزک
______________________
۳۱
سن کے میں نے یہ کہا اس سے کہ مایۂ ناز
سن کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مایۂ حسن
خیر ہے بات سمجھ کر تو کہ اتنا نہ بہک
۳۲
حلم تیرے کے جو ہم وزن فلک سے کچھ شے
بار تجھ حلم میں ہے یہ کہ تیرے وقت خرام
ڈال دیوے زرہ سہو و خطا کوئی ملک
ہووے ذرہ بھی اگر مرکز خاکی پہ دھمک
۳۳
گزرے وہ جس طرف سے کبھو اُس طرف نسیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرف سیتی
باد سموم ہووے وہیں گر کرے گزار
باد سموم ہووے صبا گر کرے گزار
۳۴
زہے امام زماں، خاک در سوا جس کے
زہے امام کہ جز خاک درستی جس کے
قبول ہو نہ کبھو سجدۂ نماز گزار
_____________________
۳۵
مقابلے سے کماں کے ترے عدو تیرا
تری کمان کے آگے ستی عدو تیرا
کبھو نہ نبھ سکے روزِ نبرد کر کے فرار
______________________
۳۶
دل کو بے جا تیرے کوچے میں ہے نالے کی ہوس
تیرے کوچے میں عبث دل کو ہے نالے کی ہوس
راہ زن راہ نبود باک ز فریاد جرس
______________________
۳۷
(ج)مخمسات
ع ولے کیا کہوں ناتوانی میں اپنی
ع بیاں کیا کروں ۔۔۔۔۔۔ الخ
۳۸
ع مری گور پر لوگ رکھتے ہیں گل کو
ع مری خاک پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
۳۹
ع نہیں رہتے میری گلا تم کیے بن
ع نہیں رہتے میرا گلا تم کیے بن
۴۰
ع کی اس شوخ نے جب سے سیر گلستاں
کیا جب ستی اُن نے سیر گلستاں
۴۱
ع قینچی کی طرح ہرگز پرزے نہ کترتی تھی
ع قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی
۴۲
ع جب شام کی ہوتی ہے پھر شمع نمط گلنا
ع جب رات کے ہوتے ہی نت شمع نمط جلنا
۴۳
ع تقصیر نہیں دل کی میں فرض کیا ہونا
تقصیر نہیں دل کی قسمت کا برا ہونا
۴۴
ع جزایں قدر نتواں یافت درجمال تو عیب
ع جزایں قدر نتواں گفت در جمال تو عیب
۴۵
ع کشمیری ٹولے سے میں ایک فاحشہ بلائی
ع کشمیری ٹولے سیتی ایک فاحشہ بلائی
۴۶
ع خاک کن کن کی ہوئی ظرف بنا کیا کیا کچھ
خاک کن کن کی ہوئی صرف، بنا کیا کیا کچھ
الحاقی کلام
زیر بحث دیوان سوداؔ کا یہ نسخہ الحاقی کلام سے بھی یکسر پاک نہیں، راقم کی تحقیق کے مطابق ایک سو چودہ اشعار کی ایک مثنوی (۱)، چھ شعر کی ایک غزل اور ایک غزل کے دو شعر مع مطلع اس نسخے میں ایسے ہیں جنھیں سوداؔ کے نتائج افکار سمجھنا تحقیقی نقطۂ نظر سے درست نہیں معلوم ہوتا۔ آئندہ سطور میں اس اجمال کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
۱۔ مثنوی ع یارو خدا ایک ہے دوسرے بر حق نبیؐ
’’در ہجو فدوی‘‘ کے عنوان سے ایک سو چودہ ۱۱۴ اشعار کی یہ مثنوی کلام سوداؔ کے بعض دوسرے نسخوں کے علاوہ نسخۂ جانسن میں بھی شامل ہے۔ لیکن معاصر تذکرہ نگاروں کے بیان اور اس میں موجود چند اشعار کے پیش نظر اسے سوداؔ کی تصنیف نہیں کہا جا سکتا۔ تذکرہ نگاروں کے بیانات یہ ہیں:
(i)میر حسن نے فدویؔ لاہوری کے ذکر میں لکھا ہے۔ ’’میر فتح علی شید اہجواو (فدوی) راخوب کردہ است، قصۂ بقال و بوم حسب حال او درج نمودہ است‘‘ (۲۷)
(ii)علی ابراہیم خاں خلیل نے بھی فدویؔ کے حالات میں یہی بات کہی ہے۔ اُن کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’میر فتح علی شیداؔ در ہجو او قصۂ بوم و بقال ضبط نمودہ‘‘(۲۸)
(iii)تیسرے معاصر تذکرہ نگار ابوالحسن امیر الدین احمد امر اﷲ الہ آبادی نے شیداؔ کے حال میں بالواسطہ طور پر اس مثنوی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثنوی در ہجو فدوی لاہوری کہ حریف مرزا (رفیع سودا) بود بہ نظم آوردہ۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام مثنوی انشاء اﷲ تعالیٰ در ذیل احوال فدوی قلمی خواہد شد‘‘۔ (۲۹) چنان چہ فدویؔ لاہوری کے ترجمے میں تذکرہ نگار نے اپنے بیان کے مطابق مثنوی مذکور کے ایک سو گیارہ (۱۱۱) اشعار نقل کیے ہیں (ایضاً ص۲۰۰۔۱۹۶)تذکرہ مسرت افزا طبع اول مرتبہ قاضی عبدا لودود میں یہ مثنوی موجود نہیں ہے ۔اصلاً مرتب نے ان اشعار کو غیر ضروری خیال کرکے حذف کردیا تھا ۔ نتیجتاً یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ تذکرہ نگار اپنے مذکورہ بالابیان :’’تمام مثنوی انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘ کے باوجود فدوی لاہوری کے حالات قلم بند کرتے وقت شیدا کی مثنوی ’’درہجو فدوی‘‘ نقل کرنا بھول گیا ہے۔
اِن بیانات کے علاوہ اس مثنوی کے درج ذیل اشعار بھی اس کے تصنیف شیداؔ ہونے پر دلالت کرتے ہیں:-
۱
حضرت سوداؔ تلک جو مرے استاد ہیں
۴
ایسا ہی ایک اور شعرحضرت استاد کا
شعر پہ ان کے بھی اب اُن کے یہ ایراد ہیں
جو قلم فہم سے خلق نے دل میں لکھا
۲
شعر وہ اُن کا سنا جا کے انھوں نے کہیں
۵
سن کے انھوں نے پسند اُس کا جو مضموں کیا
شیخ و برہمن کو ہے جس میں کہ نسبت بہ دیں
میں نے تب اس بحر میں یوں اسے موزوں کیا
۳
اُن کو یہ لازم نہ تھا آن کر اس شہر میں
۶
بس چل اب آگے نہ کہ کچھ انھیں شیداؔ خموش
اٹکیں یہ اس شخص سے طاق ہے جو دہر میں
کیحے اس سے سخن ہووے جسے عقل و ہوش
متذکرہ بالا شواہد کی موجودگی میں مصحفیؔ، سعادت خاں ناصر، قاضی عبدالودود مرحوم، جناب رشید حسن خاں اور ڈاکٹر سید محمد عقیل رضوی کا یہ خیال کہ یہ مثنوی سوداؔ کی تصنیف ہے، قابل قبول نہیں۔ کسی قدر تامل کے ساتھ یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ مثنوی خود سوداؔ ہی نے لکھ کر اپنے شاگرد کو دے دی ہو لیکن مندرجہ بالا اشعار کے ساتھ اُن کا اسے اپنے دیوان میں درج کرنا یا درج کرنے کی اجازت دینا قطعاً بعید از امکان ہے۔
(۲)
’’حاضر ہے تیرے سامھنے سوداؔ کر اس کو قتل
مجرم یہ سب طرح سے ہے پریک نگاہ کا‘‘
یہ شعر نسخۂ جانسن اور کلام سوداؔ کے بعض دوسرے نسخوں میں موجود ایک غزل: ع ’’چھٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلف سیاہ کا‘‘ کا مقطع ہے۔ لیکن قائم نے صرف تخلص کی تبدیلی کے ساتھ اپنے تذکرے میں اسے بند رابن راقمؔ تلمیذ سوداؔ کے نام سے درج کیا ہے۔ اگر قائمؔ کا بیان درست ہے (اور درست نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں) تو اِس مقطع کی بنا پر پوری غزل سوداؔ کی بجاے راقمؔ کی تصنیف قرار پائے گی اور یہ بھی کہ ’’مخزن نکات‘‘ کے سنہ تصنیف ۱۱۶۸ھ سے قبل معرض وجود میں آچکی ہوگی۔ اس غزل کا سوداؔ کی تصنیف نہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اس کی زندگی میں ترتیب دیے ہوئے کسی نسخے میں یہ غزل نہیں ملتی، نہ ہی کسی تذکرے میں اس کا انتساب سوداؔ سے ہوا ہے۔
(۳)
بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
قاتل ہماری نعش کو تشہیر ہے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
گر ہو شراب و خلوت و محبوب خوب رو
زاہد قسم ہے تجھ کو جو تو ہو تو کیا کرے
(نسخۂ جانسن)
یہ تینوں شعر کلام سوداؔ کے تقریباً تمام نسخوں کے علاوہ نسخہ جانسن میں بھی نو شعر کی ایک غزل میں موجود ہیں۔ علاوہ بریں، میرؔ، شورشؔ اور قاسمؔ نے صرف مطلع، گردیزی اور خلیلؔ نے تینوں شعر، میر حسن اور مبتلاؔ نے شعر نمبر ۱، ۳ مصحفیؔ نے شعر نمبر ۱،۲ اور باطن اکبر آبادی نے صرف شعر نمبر ۳ کو سوداؔ کے نمونۂ کلام میں درج کیا ہے، خود سوداؔ نے متذکرہ بالا غزل کو ایک مخمس میں تضمین کیا ہے جس میں یہ تینوں شعر بھی شامل ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ تینوں شعر خفیف تصرف کے ساتھ دیوان یقینؔ کے تمام مطبوعہ وغیر مطبوعہ نسخوں میں پانچ شعر کی ایک غزل میں موجود ہیں نیز تذکرہ ’’چمنستان شعرا‘‘ میں انھیں یقینؔ کی تصنیف بتایا گیا ہے۔
انعام اﷲ خاں یقینؔ مرزا سوداؔ اور میرؔ کے معاصر اور مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ پانچ شعر کی غزلیں کہتے تھے۔ اُن کے دیوان میں کل ایک سو ستر غزلیں ہیں اور سب کی سب پانچ شعر کی۔ اردو شعرا میں یہ اختصاص انھی کے ساتھ مخصوص ہے۔ لچھمی نرائن شفیق اورنگ آبادی (مصنف چمنستان شعرا) نے ان اشعار کو اپنے تذکرے میں یقین کے نام سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:-
فتح علی خاں این دو بیت کہ تحریر یافت بنام میرزا رفیع سودا گرفتہ و میر محمد تقی میرہم فقط مطلع این ریختہ را کہ بالا مرقوم شد، در ترجمۂ او نوشتہ۔ و فقیررا در اکثر دواوین یقین این سہ بیت بہ نظر رسید، واﷲ اعلم، لیکن از نہج بستگی این معلوم می شود کہ این ابیات لا ریب از یقینؔ اند۔ ہر کہ واقف طرز سخن گوئی ہر دو صاحبان است۔ زبان ہریک می شناسد و تفریق اشعار می نماید۔ دو دو بیت کہ بقایا ھمیں ریختہ بود بقلم آمد:
جو کوئی کہ عرض حال کرے تجھ ستی مرا
اوّل بیان واقعۂ کربلا کرے
ہوتا ہوں خاک راہ وفا بے گماں یقیںؔ
ہے دل میں یوں کہ شرطِ محبت ادا کرے(۳۰)
میرؔ اور گردیزی کی طرح شفیق بھی معاصر تذکرہ نگار ہے اور یقینؔ کی شاعری کا اس قدر دلدادہ ہے کہ اس نے اس کی تمام غزلوں پر غزلیں کہی ہیں۔ لہٰذا قیاس یہ کہتا ہے کہ ضروری تحقیق و تفحص کے بعد ہی اس نے اپنے معاصر تذکرہ نگاروں کے بیان کی تردید کی ہوگی۔
منقولہ بالا اشعار میں تیسرے شعر کا مصرع اوّل دیوان سوداؔ، کے بر خلاف دیوان یقینؔ میں اس طرح مندرج ہے۔ ع خلوت ہو اور شراب ہو، معشوق سامنے
راقم سطور کا خیال ہے کہ سوداؔ نے یقینؔ کی غزل کے تین شعروں پر (جو واقعی بہترین شعر ہیں) اپنے مخمس کی بنیاد رکھی اور بقیہ اشعار اپنی طرف سے کہ کر مخمس مکمل کر لیا۔ بعد ازاں کاتبوں نے ان اشعار کو سوداؔ ہی کی تصنیف سمجھ کر کلیات سوداؔ، کے حصہ غزلیات میں شامل کر لیا۔ جہاں تک مصرع مذکور میں تبدیلی کی بات ہے وہ دراصل بند کے دوسرے مصرعوں کے قافیوں کی رعایت سے کی گئی ہے۔ اس طرح کی تصرفات کی مثالیں سوداؔ کے یہاں اور بھی ہیں مثلاً: حافظؔ کا ایک مصرع دیوان حافظؔ میں اس طرح ہے ’’ع عرض حاجت در حریم حرمتت محتاج نیست‘‘ لیکن قافیوں کی رعایت سے اس کی شکل یہ ہوگئی ہے ’’ع عرض حاجت در حریم حضر تت چوں آورم‘‘ اور میرؔ کے اس مصرعے ’’ع حسرت وصل و غم ہجر و خیال رخ دوست‘‘ کو قافیے کی تنگی کی بنا پر تبدیل کرکے ’’ع حسرت وصل و غم ہجر و خیال آزار‘‘ کر دیا گیا ہے۔ سوداؔ اپنے معاصر ین کے اشعار تضمین کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے چنان چہ انھوں نے میر،ؔ قائمؔ اور تاباںؔ کی غزلوں کو بھی جزوی یا کلی طور پر تضمین کیا ہے۔ خود یقینؔ کا ایک مصرع اُن کے ایک مخمس ترجیع بند میں بہ طور مصرع ترجیع شامل ہے۔ اس مخمس کا آخری بند جس میں یقینؔ کے کلام کے بارے میں سوداؔ کی پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے، درج ذیل ہے:
مصرع کو یقیںؔ تیرے سوداؔ نے سنا تھا کل
روتا ہے وہ یوں تب سے برسے ہے گویا بادل
ہے رعد نمط نالاں بجلی کی طرح بے کل
پڑھتا ہے یہی پھر پھر آنکھوں کے تئیں مل مل
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے
ان دونوں انتسابات کے برخلاف ’’سید صباح الدین عبدالرحمن نے دیوانِ فغاںؔ کے ایک قلمی نسخے مملوکہ پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے انھیں اشرف علی خاں فغاںؔ کی تصنیف قرار دیا ہے ‘‘۔ (۳۱)
لیکن یہ انتساب درست نہیں معلوم ہوتا ۔
’’غلط اور نا مکمل انتسابات‘‘
کسی کتاب میں موجود کلام کی صحت کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ غلط انتسابات سے کس حد تک پاک ہے۔چنان چہ اگر کسی نسخے میں کسی نظم یا بعض نظموں کی پیشانی پر درج سرخیاں اصل سے مطابقت نہیں رکھتیں تو انھیں مصنف کے نتائج قلم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زیر بحث ’’دیوان سوداؔ‘‘ میں شامل بعض نظموں کے عنوانات غیر معتبر اور نامکمل ہیں اور قرائن سے یہ پتا چلتا ہے کہ کاتب نسخہ ان عنوانات کے اندراج کے سلسلے میں کافی غیر محتاط ہے۔
ڈاکٹرمحمد شمس الدین صدیقی نے اپنے مرتبہ ’’کلیات سوداؔ‘‘ (جلد اوّل) کے مقدمے میں نسخۂ جانسن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے دوسری چند غلطیوں کے علاوہ تین قصیدوں کے غلط عنوانات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ اور لکھاہے کہ یہ غلطیاں اس نسخے میں ایسی ہیں کہ اگر سوداؔ کی نظر سے گزرتیں تو تصحیح سے نہیں بچ سکتی تھیں۔ ’’قصائد سودا‘‘ کے مرتب ڈاکٹر عتیق احمد صدیقی نے بھی بعض قصیدوں کے غلط انتسابات پر محققانہ بحث کر کے عنوانات کا صحیح تعین کیا ہے۔
راقم سطور کی تحقیق کے مطابق نسخہ مذکور میں ایسی متعدد نظمیں موجود ہیں جن کی سرخیاں غلط یا نامکمل ہیں۔ علاوہ بریں مفقود العنوان کلام بھی اس میں بہ کثرت شامل ہے۔ یہاں بہ نظر اختصار صرف ایک مخمس کے غلط عنوان کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔
’’ع ہم کو دکھا جب اپنے تم اطوار رہ گئے‘‘ (۲۶ بند)
چھبیس بندوں کا یہ مخمس کلام سوداؔ کے کم و بیش تمام نسخوں کے ’’حصہ مخمسات‘‘ میں بغیر کسی عنوان کے موجود ہے۔ اس کے بر خلاف زیر بحث ’’دیوان سوداؔ‘‘ میں اس کا عنوان ’’تضمین بر غزل خود‘‘ ہے۔ راقم کو یہ غزل کلام سوداؔ کے کسی قلمی یا مطبوعہ نسخے میں نہیں ملی۔ تفصیل حسب ذیل ہے:-
اس مخمس کے نویں بند کا اصل شعر جس پر مصرعے لگائے گئے ہیں، یہ ہے۔
’’کہ باغباں قسم ہے تجھے کیا چلی بہار
دامانِ گل پکڑ کے جو یہ خار رہ گئے‘‘
حکیم قدرت اﷲ خاں قاسمؔ نے اس شعر کو سوداؔ کے ایک مجہول الاسم شاگرد عاکفؔ سے منسوب کیا ہے اور یہ اطلاع دی ہے کہ مرزا سوداؔ نے اسے اپنے ’’واسوخت‘‘ میں تضمین کیا ہے۔ بہ ظاہر واسوخت سے یہی مخمس مراد ہے کیوں کہ سوداؔ کے یہاں یہ شعر اس مخمس کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں ملتا۔ علاوہ بریں موضوع اور مواد کے اعتبار سے یہ مخمس دراصل واسوخت ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ دوسرے تذکرہ نگار نواب اعظم الدولہ میر محمد خاں سرور نے ایک شخص کے حوالے سے عاکفؔ کا صرف ایک شعر نقل کیا ہے، جس کا مصرع اوّل منقولہ بالا شعر کے مصرع اوّل کے مطابق ہے لیکن مصرع ثانی مختلف ہے۔ یہ دوسرا مصرع حسب ذیل ہے:-
’’ گل کو جو دیکھ دیکھ کے روتی ہے عندلیب‘‘
سرورؔ نے چو ںکہ یہ شعر کسی نا معلوم شخص کی زبانی سن کر نقل کیا ہے اس لیے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ راوی کو دوسرا مصرع یاد نہ رہا ہو اور اُس نے غلطی سے کسی دوسرے شعر کا مصرع نقل کر دیا ہو۔ لیکن خوب چند ذکاؔ نے اپنے تذکرے ’’عیار الشعرا‘‘ میں اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ مرزا رفیع سوداؔ نے عاکف کی غزل کو اپنے ’’مخمسات‘‘ میں نظم کیا ہے۔ اور مندرجہ بالا شعر ہی کو ان الفاظ کے ساتھ نمونے کے طور پر نقل کیا ہے۔ ’’غزل اُو (عاکف) رامرزا مرحوم (مرزا سودا) در مخمسات خود تنظیم کردہ، ایں شعر از ہمان غزل است‘‘ (عیار الشعرا، قلمی، مائکرو فلم، اکادمی لائبریری، لکھنؤ) سوداؔ کے زیر بحث مخمس کا آخری بند یہ ہے:
سوداؔ کی تم نہ مانیو یہ لن ترانیاں
اس گفتگو کے کرنے سے گھستی نہیں زباں
جو کچھ کوئی کہے وہ سنا کیحے مہرباں
تجھ کو کے عاکفاں کو چھٹ اس کے جگہ کہاں
در سے اٹھا دیا پس دیوار رہ گئے
ذکاؔ کی صراحت اور اس بند کے آخری دو مصرعوں میں سے پہلے مصرعے میں لفظ ’’عاکفاں‘‘ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سوداؔ نے عاکفؔ کے صرف ایک شعر کو نہیں بلکہ پوری غزل کو اس مخمس میں تضمین کیا ہے۔ اس بنا پر یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نظم کا عنوان ’’تضمین بر غزل خود‘‘ کی بجاے ’’تضمین بر غزل عاکفؔ‘‘ ہونا چاہیے۔
’’اغلاط املا و کتابت‘‘
شیخ چاند مرحوم کا یہ دعوا کہ ’’یہ (نسخہ) سوداؔ کی زندگی میں خاص اہتمام سے تیار ہوا ہے‘‘۔ (سودا ص ۱۰۸) اور جناب رشید حسن خاں کا یہ بیان کہ ’’اس میں اغلاط کتابت کم ہیں‘‘ (مقدمہ انتخاب سودا ص ۳۰) درست معلوم نہیں ہوتا۔ ’’خاص اہتمام‘‘ کے ساتھ تیار کردہ نسخے کو املا و کتابت کی عام فرو گذاشتوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اور احتیاط کا تقاضا بھی یہ ہے کہ کاتب؍ مصنف یا جس کی نگرانی میں یہ نسخہ تیار ہو رہا ہو، وہ اس پر نظر ثانی کرکے حتی الوسع غلطیوں کی تصحیح کر دے (اتفاقیہ غلطیوں کا رہ جانا دوسری بات ہے) لیکن اس مخطوطے میں کسی ایک مقام پر بھی تصحیح نہیں کی گئی ہے، نتیجتاً نسخے میں بعض لفظوں کا املا غلط ہے، کئی الفاظ قرأت کی عدم صحت کی بنا پر غلط لکھ دیے گئے ہیں اور بہت سی جگہوں پر الفاظ لکھنے سے رہ گئے ہیں۔ اس قسم کی چند نمایاں مثالیں سطور ذیل میں درج کی جاتی ہیں:-
نسخہ جانسن
صحیح صورت
۱
قطرہ گرا تھا چوکی مرے اشک گرم سے
قطرہ گرا تھا جو کہ۔۔۔۔ الخ‘‘ ہونا چاہیے
دریا میں ہے ہنوز پہپولا حباب کا
__________________
۲
نہ طبع جبد سے سر زد کبھو ہوں معنی رنگیں
صحیح لفظ ’’طبع حیز‘‘ (ہیز) ہے۔
جہاں میں تخم سے تھوہر کے کب گلزار ہو پیدا
__________________
۳
اے طفل اشک ہے فلک ہفتمی پہ عرش
’’فلک ہفتمیں‘‘ صحیح املا ہے۔
آگے قدم نہ رکھیو تو زنہار دیکھنا
______________
۴
چھپنے کی عشق کے نہ بنی بات پیش یار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو طرح سے میں سامھنے اس کے چھپائی بات
۔۔۔۔ ’’اس کے بنائی بات‘‘ ہونا چاہیے
۵
زلفوں کے تلے شوخ کی، خط کا نہیں آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶
دوڑی ہے شب خوں سپہ شام جہاں پر
’’دوڑی پے شب خوں‘‘ ہونا چاہیے۔
انکار قتل سے تو کرے ہے سخن ہنوز
’’سجن ہنوز‘‘ ہونا چاہیے۔
میلا نہیں ہوا ہے ہمارا کفن ہنوز
_______________________
۷
آتش کو رنگ گل کی صبا تو نے پھونک دی
’’پھونک پھونک‘‘ ہونا چاہیے۔
جلوائے آشیاں کے مرے خار و خس تمام
_______________________
۸
ہوں اسیر اُس کا جسے بعد گرفتاری صید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ گرفتاری سے مطلب رہے نے دام سے کام
’’نہ گرفتار سے مطلب‘‘ ہونا چاہیے۔
۹
نہ غنچے گل کے کھلتے ہیں نہ نرگس کی کھلی کلیاں
’’کھلیں کلیاں‘‘ ہونا چاہیے۔
چمن میں لے کے خمیازہ کسی نے انکھڑیاں ملیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰
تبسم یوں نمایاں ہے مسی آلودہ ہونٹھوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ ہو ابر سیہ میں اس طرح بجلی کی اچہپلیاں
نہ ہوں ابر۔۔۔ اچپلیاں‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۱
کیا ہے عہد و پیماں اشتیاق اپنے سے یہ میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جس ساعت گلی لکھنا مجھے تیرا میسر ہو
’’گلے لگنا‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۲
بوئوں میں تخم دل کو جہاں وہاں زقوم ہو
’’تخم گل کو جہاں وھاں‘‘ ہونا چاہیے۔
پالوں جو عندلیپ قفس میں تو بوم ہو
’’عندلیب‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۳
چوب شکست خوردۂ کشتی ہوں میں کہ جو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی میں ہو نہ غرق نہ آتش کہ جل سکے
’’آتش میں جل سکے‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۴
نہیں گلخن بھی کچھ گلشن سے کم احباب اے سودا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکھیں سیر چمن سے کچھ مجھے معذور بہتر ہے
’’سے گر مجھے معذور‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۵
شیخ گل بازی کو تم سے روز للچاتا ہے دل
۔۔۔۔۔۔۔ ’’تم سے زور‘‘ ہونا چاہیے
زرد چیرا آپ کا گیندے کا گویا پھول ہے
_______________________
۱۶
ٹک تری مرضی سے باہر جو کرے کار جہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ سے کام زمانے کے ووہیں جائے بحل
۔۔۔۔۔۔ ’’جائے بچل‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۷
اس کے قبضے پہ جو ہو دست مبارک تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ رہے دین محمدؐ کے سوا اور ملل
’’نہ رہیں دین۔۔۔الخ‘‘ ہونا چاہیے۔
۱۸
مدح اپنی نہ سمجھ یہ جو کہا میں اس سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رتبہ تجھ ہجو کا اعلیٰ ہی سخن یہ اسفل
’’تجھ مدح کا اعلیٰ ہے‘‘ ہونا چاہیے
۱۹
تالب جو پہ کرے خیمہ کو استاد حباب
’’استادہ حباب‘‘ ہونا چاہیے۔
تابچھاوے بروشِ سبزۂ فرشِ مخمل
ؔ’’بہ روش سبزہ فروش مخمل‘‘ ہونا چاہیے۔
۲۰
پہنچیں نہ ہم مبادا کسیکی گماں تلک
۔۔۔۔۔’’مباد کسی کے‘‘ ہونا چاہیے۔
۲۱
دریاے طبع سے یہ کئی گوہر سخن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری رسال کے لیے پہنچے مجھے رسال
’’تیرے نثار کے لیے‘‘ ہونا چاہیے۔
۲۲
دیکھے سے جس کی جلوہ پاکیزہ طینتوں کے
’’جس کا جلوہ‘‘ ہونا چاہیے۔
آنکھوں کو امن ہووے جی کے تئیں اماں ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۳ٍ
دانتوں کے بیچ اس کے ہے جسقدر بھسونڈا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصف ذخامت اس کا کیجے تو کیا بیاں ہو
’’وصف ضخامت‘‘ ہونا چاہیے
۲۴
تکان پاکی سدا اس کی جو سنی سو کہی
کی صدا اس کے جو سنے سو کہے‘‘ ہونا چاہیے۔
سیاہ خیمۂ لیلیٰ میں قیس ہے زنجیر
_______________________
۲۵
یک خم تھی دل انھوں کا پرازبادۂ غرور
’’یک خم تھا‘‘ ہونا چاہیے۔___
تیں اُس میں کر دیا نمک تیغ آب دار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۶
رہ نوردوں کی نظروں میں اکثیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اکسیر‘‘ ہونا چاہیے
بد تراز گرد کارواں ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۷
عیش و عشرت ہی سدا دمساز
’’عیش و عشرت [سے] ہے سدا۔۔‘‘ ہونا چاہیے۔
پیر ہو کوئی یا جواں ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۸
باد پیما ترا تعالیٰ اﷲ
’’تعال اﷲ‘‘ ہونا چاہیے۔
جلوہ گر آکے وہ جہاں ہووے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۹
احوال اس کا دیکھ کے کہنے لگا طبیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب فسد و مسہل اس کے لیے ہے مفید تام
’’اب فصد۔۔۔۔۔۔ الخ‘‘ ہونا چاہیے
۳۰
دیہات جو ہیں مصرف مطبخ کے اُن میں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نقدی کے عوض ہو مجھے سحنک طعام
۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’صحنک‘‘ ہونا چاہیے
۳۱
یہ سن کے دیا کچھ تو ہوئی عید و گرنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوال سے پھر ماہ مبارک رمضاں ہے
’’شوال بھی پھر ماہ‘‘ ہونا چاہیے۔
۳۲
اپنی منہ کی نہ کہا کن نے سخن گوہر
’’اپنے منہ کے۔۔۔ سخن [کو] گوہر‘‘ ہونا چاہیے۔
لعل سودا ہی کو پر ہم نے اگلتے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۳
سمجھ کے باندھا آشیاں ہم رہے گا با آب و تاب گلشن
’’باندھا [تھا] آشیاں‘‘ ہونا چاہیے۔
یہی کہ غنچے نے آنکھ کھولی، خیال گل تھا تو خواب گلشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۴
پر اب خوشی ہے یہ خلقت کو تیری صحبت سے
۔۔۔ ’’تیری صحّت سے‘‘ ہونا چاہیے۔
کہ آج تک نہ ہوئی ہوئیگی ز روز نخست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۵
اتنی ہے کثرت لغزش بہ زمیں ہر باغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ثمر شاخ سے اوتر سو گرا سر کے بہل
’’جو ثمرشاخ سے اترا سو گرا سر کے بھل‘‘ ہونا چاہیے۔
مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں یہ بات بلاتامل کہی جا سکتی ہے کہ دیوان سوداؔ کا زیر بحث نسخہ نہ تو خود مصنف نے جانسن کو پیش کیا تھا اور نہ اس کی تیاری میں اُس کی مرضی کو کوئی دخل تھا، بلکہ میر محمد حسین جو جانسن کا ملازم (دیوان )اور شاعر بھی تھا ہی نے اسے تیار کراکر جانسن کے کتب خانے میں داخل کیا تھا۔ اسی نے اس میں جابہ جا تحریفیں کی ہیں اور سوداؔ کے نام سے ایک قصیدہ کہ کر کتاب کے آغاز میں شامل کیا ہے۔ دراصل یہ نسخہ اپنی تمام ظاہری چمک دمک اور غیر معمولی مقبولیت کے باوجود ٹھوس داخلی یا خارجی شہادتوں کی عدم موجودگی اور الحاقات و تصرفات نیز نظموں کے غلط انتسابات اور املا و کتابت کی متعدد غلطیوں کے باعث کسی طرح سند اعتبار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور اس کی بنیاد پر سوداؔ کے کل کلام کو یا اس کے بعض حصوں کو مرتب کرنا حد درجہ گمراہ کن اور سعی لاحاصل کے مترادف ہوگا۔
Naz’m Aur Kalam E MauzoN by Moid Rasheedi
Articles
نظم اور کلام موزوں:فکرآزاد کی نظری اساس
معید رشیدی
آزاد میں نقد کا مادہ مطلق نہ تھا۔نظر مشرقی حدود میں پابند تھی۔وہ لکیر کے فقیر تھے،باریک بینی اور آزادیِ خیال سے مبرا۔انگریزی لالٹینوں کی روشنی ان کے دماغ تک نہیں پہنچی تھی۔1
اس زمانے میں مغرب کی طرف نظریں اٹھ رہی تھیں۔سب سے پہلے آزاد نے اس طرف توجہ کی تھی اور لوگوں کی توجہ دلائی تھی۔2
دونوں اقتباسات کلیم الدین احمد کے ہیں۔دونوں میں جو تضاد ہے، وہ اظہرو من الشمس ہے۔آزاد مشرقی روایات کے امین تھے۔ان کے کمال علم میں کلام نہیں،لیکن شعر و ادب کی تفہیم،توضیح،تعبیر،تجزیے اور تقابل کے معائر ان کے ہاں مخصوص سیاق میں تھے،جسے کلیم الدین احمد ’مشرقی حدود‘سے تعبیر کرتے ہیں،مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کی حیثیت مجتہد کی تھی۔انھوں نے ادب کی تفہیم و تعینِ قدرمیں نظری مباحث کی ضرورت محسوس کی اور اپنی تحریروں میں انھیں چھیڑا بھی۔وہ اپنے پیش روئوں سے کئی قدم آگے تھے۔آزاد اور حالی مخصوص معنوں میں اپنی روایات کے باغی بھی تھے۔اس عہد میں بغاوت کی یہ لے سرسید کے ہاں سب سے تیز تھی۔دنیا بدل رہی تھی۔نئی قدریں پرانی قدروں پر غالب آرہی تھیں۔ہند ایرانی/ہند اسلامی تہذیب کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ 1857میں ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔نو آبادیات کی سائکی نئے تجربات کے ہمراہ متنوع تغیرات بھی لائی ۔ان تبدیلیوں نے مغرب کی تفہیم کے لیے راہ ہموار کی۔محمد حسین آزاد کی ذہنی پرورش مشرقی ماحول میں ہوئی تھی،لیکن نہ وہ لکیر کے فقیر تھے،اور نہ ہی آزادیِ خیال سے مبرا۔اگر وہ مشرقی حدود ہی میں پابند رہنا چاہتے، تو ان کی نظر مغرب کی طرف کیوںکر اٹھتی، اور وہ کیوں کہتے:
اس سے یہ نہ سمجھنا کہ میں تمھاری نظم کو سامان آرائش سے مفلس کہتا ہوں۔نہیں[،]اس نے اپنے بزرگوں سے لمبے لمبے خلعت اور بھاری بھاری زیور میراث پائے۔مگر کیا کرے کہ خلعت پرانے ہوگئے اور زیوروں کو وقت نے بے رواج کر دیا۔تمھارے بزرگ اور تم ہمیشہ سے نئے مضامین اور نئے انداز کے موجد رہے مگر نئے انداز کے خلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں۔وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں[،] کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں۔ہاں[،] صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے۔3
بڑی بات یہ ہے کہ آزاد وقت کے تقاضوں سے با خبر تھے۔وہ عربی اور فارسی کے بڑے عالم تھے،اوربھاشا کی باریکیوں کے ساتھ سنسکرت کی روایات کا بھی درک رکھتے تھے۔انگریزی سے کماحقہ واقف نہ تھے،لیکن’ ہم وطن انگریزی دانوں‘اور بعض انگریزدوستوں/شاگردوں سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ان کی صحبت میں انگریزی ادب اور اس کے متون کی تفہیم کی کوشش کرتے تھے۔حصولِ علم کا جنون اور نئے میدانوں کی سیر کا جذبہ انھیں ہمہ وقت بیدار، رکھتا تھا۔کرنل ہالرائڈ(Holroyd)اور ڈاکٹر لائٹنر(Leitner)سے انھیں قربت تھی۔’نیرنگ خیال‘اور’نظم آزاد‘کا انتساب ہالرائڈ ہی کے نام ہے۔نبیرۂ آزادآغامحمدطاہرنے آزاد کی تصنیف’کائناتِ عرب‘کے دیباچے میں ڈاکٹر لائٹنرسے آزاد کے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔آزاد کی عمر کا ایک بڑا حصہ لائٹنرکے ساتھ گزرا۔لائٹنرجب سنٹرل ایشیا گئے توآزادبھی ان کے ساتھ تھے۔آغا محمدطاہرکا بیان ہے کہ’’ڈاکٹر لٹنر[لائٹنر]صاحب کا قاعدہ تھا کہ اپنی رائے کا اظہار کردیتے۔مولانا اس مضمون کو بنا سنوار کر لے جاتے۔ڈاکٹرصاحب کو پسند آیا تو بہت خوب۔ورنہ مولوی صاحب دوبارہ لکھیں۔‘‘(4)لائٹنرسے آزاد کی جس قدر قربت تھی،بعدمیں اختلاف بھی اتنا ہی ہوگیا،لیکن اختلافی امور اور ان کی وجوہ کی طرف توجہ نہ کرکے سردست اس بات پر توجہ دینی ہے کہ آزاد نے انگریزی/مغربی فکر و فلسفے کی تفہیم کے لیے انگریزی متون کا کتنا مطالعہ کیا ،اور ’انگریزی صندوقوں‘سے کس قدر خلعت و زیور حاصل کئے۔انھوں نے مغربی ا صولوں کی پیروی تو کی،لیکن کیا وہ ان اصولوں کی تہ تک پہنچ پائے تھے،اور کیا انھوں نے ان کے متون سے براہِ راست استفادہ کیا تھا؟اس ضمن میں آزاد کا کوئی ٹھوس بیان نہیں ملتا۔انشا پردازی کے رنگ کو برقرار، رکھنے میں وہ اکثر گول مول باتیں کہہ جاتے ہیں۔یہ ان کا سب سے بڑا عیب ہے۔ان کے معاصر حالی اور شبلی انگریزی سے واقف نہ تھے،مگرآزاد کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ان کے بعض جملے(جو مبہم ہی صحیح)اور اسلم فرخی کے بعض بیانات اس باب میں رہنمائی کرتے ہیں۔پھر اس سلسلے میں ان کی کتاب’نیرنگ خیال‘خود ہی اہم حوالہ ہے۔آزاد لکھتے ہیں:
میں نے انگریزی انشا پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔5
یہ چند مضمون جو لکھے ہیں[،]نہیں کہہ سکتا کہ ترجمہ کیے ہیں۔ہاں[،]جو کچھ کانوں نے سنااور فکر مناسب نے زبان کے حوالے کیا[،]ہاتھوں نے اسے لکھ دیا۔6
کیسی حسرت آتی ہے۔جب میں زبان انگریزی میں دیکھتا ہوں کہ ہر قسم کے مطالب و مضامین کو نثر سے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔7
میں زبان انگریزی میں بالکل بے زبان ہوں اور اس ناکامی کا مجھے بھی افسوس ہے۔8
مندرجہ بالااقتباسات کی روشنی میں کوئی حتمی فیصلہ ممکن نہیں۔’’میں جب زبان انگریزی میں دیکھتا ہوں۔‘‘…صرف یہی جملہ لے لیجیے یا پھر انگریزی خیالات سے چراغ روشن کرنے والی جو بات ہے،اس سے یہی گمان گزرتا ہے کہ انھوں نے انگریزی متون سے براہ راست استفادہ کیا تھا،لیکن جب وہ اپنے(نیرنگ خیال)کے مضامین کو ترجمہ کہنے سے انکار کرتے ہیں ،اور کانوں سے سن کر زبان کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں تومبہم کیفیت پیدا ہوتی ہے،اور ذہن الجھ جاتا ہے،کہ واقعہ کیا ہے۔جب وہ زبان انگریزی میں بالکل بے زبان ہونے کا اعتراف کرتے ہیں تو مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔اسلم فرخی کا بیان ہے کہ ’’راقم الحروف نے ان کی تحریرکردہ ایک انگریزی درخواست بچشم خود دیکھی ہے۔‘‘(9)/’’انھوں نے سنین اسلام کے عنوان کے سلسلے میں انگریزی میں ایک مضمون بھی لکھاتھالیکن ان کی واقفیت اتنی نہ تھی کہ وہ ایڈیسن اور جانسن کا براہ راست مطالعہ کرتے اوران کے مضامین کو اردو میں منتقل کرلیتے۔‘‘(10)اس زمانے میں ایک ایسا شخص جس کی تربیت اور تعلیم مشرقی ماحول اور حدود میں ہوئی ہو،اگر وہ انگریزی میں درخواست اور مضمون لکھنے کی استعداد رکھتا ہے تو یہ کم بڑی بات نہ تھی،(فرخی کا بیان اپنی جگہ)لیکن اس پہلو پر زیادہ اعتبار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ مثالوں کا فقدان ہے۔ہو سکتا ہے کہ کسی انگریز دوست/شاگرد کی مدد سے وہ درخواست/مضمون لکھا گیا ہو۔بہر حال اتنی بات تو صاف ہے کہ آزاد کو انگریزی سے دلچسپی تھی،اور وہ اس کے حصولِ علم کی کوشش بھی کرتے تھے۔مالک رام کہتے ہیں:
نیرنگ خیال میں جتنے مضمون شامل ہیں[،]یہ دراصل انگریزی سے ترجمہ کئے گئے ہیں۔ان میں سے چھ مضمون جانسن کے ہیں،تین ایڈیسن کے اور بقیہ دوسرے انگریزی ادیبوں کے۔لیکن ان کے ترجموں میں آزاد نے اپنی ذہانت اور سحر بیانی سے اتنا رد و بدل کر دیا ہے کہ ان کا درجہ ترجمے سے بڑھ کر تخلیق کا ہو گیا ہے۔11
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔اول یہ کہ یہ مضامین ترجمہ ہیں یا نہیں۔دوم یہ کہ اس قدر، ردوبدل کی ضرورت کیوں پڑی۔زبان اور انشا کے معاملے میں آزاد اپنے مزاج سے مجبور ہیں۔عام (تخلیقی)تحریر اور ترجمے میں فرق ہے۔دونوں کے تقاضے جدا ہیں۔ذہانت اور سحر بیانی اپنی جگہ،لیکن رد و بدل کی کثرت یہ باور کراتی ہے کہ آزاد میں ترجمے کی صلاحیت مفقود تھی۔ان کے مضامین اور ایڈیسن اور جانسن کے مضامین میں جو مشترک باتیں موجود ہیں، تو اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ اس کام میں کوئی اور بھی شریک تھا۔اس لیے کہ’’پروفیسر صاحب[آزاد]کو یہ بھی شوق تھاکہ وہ اپنے انگریزی جاننے والے تلامذہ سے کارآمدمغربی خیالات اخذ کرتے اور انھیں اپنے سرور آگیں اور پرکیف طرز میں ڈھال لیتے۔‘‘(12)یہ سچ ہے کہ آزاد نہ محض انگریزی کی وکالت میں پیش پیش تھے،بلکہ اپنے معاصرین میں وہ اس زبان کو سیکھنے اور سمجھنے میں بھی بہت آگے تھے۔انھیں احساس تھا کہ اس زبان کو سیکھے بغیر وہ دنیا سے کٹ جائیں گے،اور عالمی، خصوصاً مغربی ادبیات میں کیا کچھ ہو رہا ہے،اس کے علم سے محروم رہیں گے۔وہ تغیر چاہتے تھے۔ادب میں وسعت کے قائل تھے۔اس لیے انھوں نے احساس دلایا کہ انگریزی، شجر ممنوعہ نہیں ہے۔اپنی محنت سے انھوں نے انگریزی کی شدبد پیدا کی،لیکن انگریزی کے معیاری اور دقیق متون وہ اپنے انگریز دوستوں/شاگردوں سے پڑھوا کر سنتے تھے۔پھر ان پر غور کر کے اپنی زبان میں ڈھال لیتے تھے۔کالج کی ملازمت کے ساتھ وہ انگریزوں کو اردو پڑھایا کرتے تھے۔لائٹنر کی رفاقت میں وہ انگریزی ادب سے آشنا ہوئے،اور یہ آشنائی انھیں نئے جہانوں کی سیر کی طرف لے گئی۔انھیں زبان کے دقیق مسائل میں دلچسپی تھی۔الفاظ کی تشکیل اور ان کے مآخذ کے مختلف حوالوں پر مسلسل غور کرتے رہے۔متعدد ممالک کا سفر بھی کیا۔قدیم فارسی،عربی اور سنسکرت کے الفاظ میں لسانی اشتراک ڈھونڈتے رہے۔مسلسل غور و فکر کے نتیجے میں ’سخندان فارس‘منصہ شہود پر آئی۔ان سے ڈیڑھ سو سال قبل ٹیک چند بہار اور خان آرزو نے الفاظ کی ماہیت پر غوروفکر کرنے کی بنیاد اردو معاشرے میں ڈال دی تھی۔یہ دونوں بقول آزاد’فلسفی لغت ِ فارسی‘تھے۔دونوں فارسی کے ماہر تھے،اور ہندی ان کے وطن/گھر کی زبان تھی۔آزاد نے ان کی روایت کو جلا بخشی،لیکن انھوں نے کوئی لغت تیار نہیں کیا،بلکہ زبانوں کے اختلاط کا جائزہ لیا،اور ان کے اثرات کی نشاندہی بڑی چابک دستی سے کی۔اس زمانے میں اس موضوع میں دلچسپی لینے والے خال خال تھے،لیکن آزاد کی علمیت،تحقیقی مزاج اور ذوقِ جستجو نے اردو میں تقابلی لسانیات کے مطالعے کی مستحکم روایت قائم کی،اور’ فیلا لوجیا‘ (Philology)کے تصورو تعارف سے اپنی بساط کے مطابق اہلِ اردو کو آگاہ کیا۔
نو آبادیات کے مختلف پہلوئوں میں ایک نکتہ لسانی تغیر کا بھی ہے۔ان تغیرات سے آزاد کا ذہن آشنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ علوم کے مختلف شعبوں کی طرف ان کی نظر اٹھ رہی تھی۔انگریز حاکم تھے اور ان کی زبان ہندوستانیوں کے لیے توجہ کا مرکز،مگر ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ان کی زبان سے بھی نفرت کرتا تھا، کہ کہیں یہ نئی زبان ہماری تہذیب ہی کو غارت نہ کردے۔اکبرالٰہ آبادی اس احتجاج کی سب سے بلندآواز اور نمایاں علامت ہیں۔دراصل معاملہ زبانوں کا نہیں،تہذیبوں کا تھا۔انگریزی سیکھنے میں زیادہ قباحت نہ تھی،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر زبان اپنی تہذیب بھی ساتھ لاتی ہے۔آزاد زبان کے ریفارمر نہ تھے۔وہ ان تصورات و عقائد کے خلاف تھے جو برسوں سے بے منطق اور بغیر مناسب سیاق کے دہرائے جارہے تھے۔سرسید تحریک نے معقولیت اور منطقی جواز کا جو اصول وضع کیا تھا،اس کے اثرات آزاد پر بھی ہیں۔نیچر کی ترجمانی کا سادہ نظریہ ان کے ہاں بھی کارفرما ہے۔نیچر اپنے آپ میں کتنی مبہم،پراسرار اور پیچیدہ ہے،اس سے نیچر کی ترجمانی پر اصرار کرنے والے ادبی ریفارمر نا واقف تھے۔ان کے نزدیک کسی چیز کا ہوبہو پیش کرنا ہی نیچر ہے۔پہاڑ،جنگل،دریا اور کسی موضوع کے خارجی حوالے ہی ان کے لیے نیچر ہیں۔ شبلی اسی کو’ محاکات‘ کہتے ہیں، جو یونانی تصور ہے، اور عرب ناقدین کے وسیلے سے ان تک پہنچا ہے۔ محمد حسین آزاد کی لسانی خدمات کا اعتراف ہر ذی نظر کرے گا، لیکن ان کے روایات کے باغی اور مجتہد ہونے والی جو بات ہے، اس ضمن میں ان کے نظری اختصاص اور نقد و نظر کے معائر پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے، اور یہی پہلو ان کی عظمت کا تاریخی جواز فراہم کرتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل اسلم فرخی کی یہ رائے ملاحظہ ہو:
آزاد کے نظریۂ شعر میں خیالی، ما بعدالطبیعاتی اور افادی سبھی عناصر موجود ہیں لیکن انھوں نے کسی چیز کی وضاحت نہیں کی۔ بہر حال انھوں نے کچھ نئی باتیں ضرور پیش کی ہیں اور مغرب و مشرق کو ہم آہنگ کر نے کی کوشش کی ہے۔ 13
یہاں سے گفتگو نیا موڑ لیتی ہے اور کچھ بنیادی سوال قائم ہوتے ہیں۔پہلا یہ کہ آزاد کا نظریۂ شعر کیا ہے۔دوسرا یہ کہ انھوں نے کون سی نئی باتیں پیش کیں۔تیسرا یہ کہ مغرب و مشرق کو ہم آہنگ کرنے کی ان کی کوشش کہاں تک بار آور ہوئی۔ان کے نظریۂ شعر کی تفہیم میں ان کے دو لکچر بنیادی حوالہ ہیں۔ دیگر کتب بھی اس ضمن میں معاونت کرتی ہیں۔پہلا لکچر انھوں نے 5اگست1867میں دیا تھا جس کا عنوان ہے’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات‘۔دوسرا لکچر 19اپریل1874میں دیا تھا جس کا کوئی عنوان انھوں نے شاید متعین نہیں کیا۔دونوں لکچر’نظم آزاد‘(1899)میں شامل ہیں۔یہ لکچر آزاد نے انجمن پنجاب کے جلسوں میں دیے۔انجمن کا قیام21جنوری1865کو سکشا سبھا کے مکان میں ہوا جس میں حکومت کے عہدیدار اور نمائندے بھی شریک ہوئے۔پنڈت من پھول کو صدارت سونپی گئی۔پنڈت جی نے انجمن کا نام’انجمن اشاعت ِ مطالب ِ مفیدہ پنجاب‘رکھا،جس کے مقاصد میں لٹریچر تیار کرنا، علمی جلسے منعقد کرنا… جن میں تعلیمی،سماجی،تہذیبی،اخلاقی،اصلاحی اور انتظامی امور پر مضامین پیش کیے جائیں،تاکہ اظہار خیال کے لیے فضا ہموار ہو۔لکچروں کا اہتمام کیا جائے تا کہ ذہنی اصلاح ہوسکے۔ڈاکٹر لائٹنر کی تجویز پرآزاد27مارچ1867میں انجمن کے سکریٹری منعقد کیے گئے۔سکریٹری بننے کے بعد انھوں نے انجمن کو نئی زندگی دی،اور بقول منظراعظمی محض ایک سال میں انھوں نے چھتیس مضامین،لکچر اور تبصرے پڑھے۔انجمن میں ہالرائڈ کی تجویز پر جدید طرز کے مشاعروں کا انعقاد ہوا جس میں مصرع طرح کے بجائے کوئی عنوان دیا جاتا تھا۔یہی مشاعرے نظم نگاری کی تحریک کا نقطۂ آغاز ہیں، جس میںآزاد اور حالی کی شخصیت اپنی خدمات کے حوالے سے بہت نمایاں ہے۔آزاد کے جن دو لکچروں کا اوپر ذکر کیا گیا وہ نظم نگاری کی تحریک کا منشور قرار پائے۔انھوں نے جو نظری مباحث قائم کیے،انھیں حالی نے زیادہ مبسوط،معروضی اور علمی طرز پر’مقدمہ شعروشاعری‘(1893)میں پیش کیا۔
محمد حسین آزاد کا کارنامہ محض یہی نہیں ہے کہ انھوں نے ’آب حیات‘(1880)کو تذکروں کے عام معیار سے نکال کر ادبی تاریخ و تنقید کے حصار میں لا کھڑا کیا،بلکہ نظری سطح پر پہلی بار مروجہ موضوعات کے سطحی برتائو کے خلاف جرأت آمیز صدا بلند کی ،اورانگریزی ادب کی طرف اذہان کومائل کیا۔اس ضمن میں ان کے شعری مجموعے کے پہلے صفحے کی یہ عبارت ملاحظہ ہو…’’نظم آزاد،جو حسن و عشق کی قید سے آزاد ہے۔‘‘’حسن و عشق‘ کو قید سمجھنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کا خیال ان کے ذہن میں کیوں آیا۔ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں ادب کا افادی نظریہ رہا ہو،کہ ادب کو اخلاق درست کرنے کا آلۂ کار ہونا چاہیے، یا ادب سے متعدد نوع کے اصلاحی کام لیے جائیں،لیکن وہ ان زنجیروں کو توڑ دینا چاہتے تھے جن میں اردو شاعری گرفتار تھی۔وہ اپنے ادب کو کم مایہ نہیں،گراں مایہ سمجھتے ہیں۔زورِعبارت،مضمون کا جوش و خروش اور لطائف و صنائع کے اعتبار سے وہ اردو زبان کو دیگر زبانوں سے کسی قدر کم تصور نہیں کرتے۔انھیں اس بات پر افسوس ہے کہ اردو شاعری بے موقع احاطوں میں محبوس ہوگئی ہے، جس میں معاملاتِ عشق کا بیان ان کے نزدیک سب سے قابلِ اعتراض پہلو ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس شخص نے زندگی میں اتنے دھوکے کھائے ہوں،عتاب کا شکار ہوا ہو۔تحفظِ ناموس کے لیے شہر شہر بھٹکا ہو۔انگریزوں سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے جاسوسی تک کی ہو۔جس کے سامنے اس کے باپ کو سرعام بغاوت کے الزام میں گولی ماردی گئی ہو،اس کے مزاج میں دہشت نہیں تو اور کیا ہوگی۔اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے شخص کے مزاج کی تشکیل میں عشقیہ واردات کہاں سے بار پائیں گی،لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پر آشوب دور میں عشق اپنی معنویت اور جاذبیت کھو بیٹھتا ہے؟زندگی دو پہلوئوں سے عبارت ہے…حقیقت اور رومان۔رومانیت محض عشقیہ واردات کا نام نہیں۔یہ تخیل،تجسس اور اسرار پر مبنی ہے۔عشق کی تعریف بھی اپنے اندر گیرائی رکھتی ہے۔اس لیے اس کے سطحی تصور سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں۔آزاد کا اعتراض عشقیہ واردات کے اظہار پر نہیں ہے۔وہ تو عشق کے مفہوم/مضمون کو تنگ دائروں میں مقید کرنے کے خلاف ہیں۔ایسے ہی اعتراضات پر حالی نے مقدمہ میں مفصل بحث کی ہے۔وصل کا لطف،بہت سے حسرت و ارمان،ہجر میں آہ و بکا،شراب و ساقی،بہار و خزاں،شکوۂ فلک،اقبال مندوں کی خوشامدجیسے مضامین ہی میں اگر شاعری محبوس ہوجائے، اور فقط نازک خیالی ہی شاعری کا جوہر ٹھہرے، تو پھر شعر کی عظمت،وسعت اور گہرائی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا،اور اس کی اظہارِ ذات والی تعریف میں ’ذات‘کے معنی بدل جائیں گے۔آزاد موضوعات و مضامین میں تنوع اور تراکیب و لفظیات میں ندرت چاہتے تھے۔وہ اپنے عہد کے سروکاروں کے ساتھ جینا چاہتے تھے۔ان کے خیالات ان کے عصر کے بطن کا زائیدہ ہیـ:
اب وہ زمانہ بھی نہیں کہ ہم اپنے لڑکوں کو ایک کہانی،طوطے یا مینا کی زبانی،سنائیں۔ترقی کریں،تو چار فقیر لنگوٹ باندھ کر بیٹھ جائیں،یا پریاں اڑائیں؛دیو بنائیں اور ساری رات ان کی باتوں میں گنوائیں۔اب کچھ اور وقت ہے۔اسی واسطے ہمیں بھی کچھ اور کرنا چاہیے۔14
محمد حسین آزاد کی شخصیت اسی لیے معتبر ہے کہ وہ استفادے پر زور دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ مغربی ادب کے سامنے اپنے ادب کو مطعون اور بے مایہ ٹھرائیں۔وہ مشرق و مغرب میں امتزاج اور تفاعل کے قائل ہیں۔وہ ان لوگوں میں نہیں ہیں،جن کے نزدیک 1857کے ساتھ شاعری بھی ختم ہوگئی۔ان کے لیے دنیا/زندگی بہت وسیع ہے۔اسی لیے وہ اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔مغربی افکار سے چراغ روشن کرنے کے ساتھ انھوں نے مٹی کی خوشبو بھی محسوس کی۔وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اردو پر فارسی کے اثرات کے ذکر میں شعرا کے ذہنی رویوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ احساس دلایاکہ ہمیں اس کا بھی احتساب کرنا چاہیے کہ ہم جس مٹی کی پیداوار ہیں،اور جس ماحول میں رہتے ہیں،اس کی عکاسی میں اجتناب کیوں کریں۔وہ بیرونی علامتوں،اصطلاحات اور لفظیات کے منکر نہیں،لیکن اس پہلو پر معترض ضرور ہیں کہ ہمارا شاعر پپیہے/کوئل کی آواز اور چنپا/چنبیلی کی خوشبو کو بھول گیا۔ہزار/بلبل اور نسرین/سنبل جو کبھی نظر سے بھی نہ گزری تھیں،ان کی تعریفیں کرنے لگا۔رستم اور اسفند یار کی بہادری پر نظر ٹھہری اور ارجن کی شجاعت کا ذکر مفقود ہوا۔کوہِ الوند اور بے ستون کے آگے ہمالے کی سرسبز و شاداب پہاڑیاں اور برف سے ڈھکی چوٹیاں توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔جیحوںسیحوں کی روانی نے کہرام مچایا اور ان کے مقابلے گنگا جمنا کی روانی بے لطف رہی۔ہمارا شاعر ایرانی موسموں،تہواروں،رسم و رواج اور روایات کے بیان میں رطب اللسان تھا،لیکن آزاد نے پہلی بار ایوانِ شاعری میں احتجاج درج کیا کہ جس مٹی سے ہمارا خمیر اٹھا ہے،اسے نظر انداز کرنا غیر فطری ہے۔انھوں نے شعرا کا ذہن زمینی وابستگی کی طرف مائل کیا۔ان کا اعتراض بجا تھااور اس کے اثرات دوررس۔شعری وسائل اور صنعتوں کے بے جا استعمال کو وہ غیر مستحسن قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ’’بیشک مبالغے کا زور ،تشبیہ اور استعارے کا نمک زبان میں لطف اور ایک طرح کی تاثیر زیادہ کرتا ہے۔لیکن نمک اتنا ہی چاہیے کہ جتنا نمک۔نہ کہ تمام کھانا نمک۔‘‘(15)انھوں نے اردو شاعری کی ندرت اور،رفعت کا اعتراف تو کیا،لیکن حسن و عشق کے مروجہ اسالیب پر جب انھوں نے چوٹ کی تو کچھ جملے کافی سخت بھی ہوگئے۔مثلاً یہی جملہ …’’انجام یہ کہ زبان ہماری ایک دن نظم سے بالکل محروم ہوگی اور اردو میں نظم کا چراغ گل ہوگا۔‘‘(16)انگریزی کی پیروی پر زور دینے اور اس نوع کے جملوں کے نتیجے میں اس عہد کے اخبارات میں ان کے خلاف کافی کچھ لکھا گیا۔عشقیہ معاملات کے بیان پر جس طرح انھوں نے اعتراضات کئے،لوگوں کو لگا کہ وہ پوری کلاسکی شاعری پر طنز کر رہے ہیں۔معاملہ اتنا طول پکڑا کہ انھیں ایک اخبار کے مدیر کے نام خط میں وضاحت کرنی پڑی:
بیشک میری بھی یہی رائے ہے کہ بے عشق کے کلام بے مزہ رہتا ہے۔لیکن میرے تمام لیکچر میں یہ کہیں نہیں ہے کہ عاشقانہ کلام کو بالکل ترک کرنا چاہیے۔اور خود انگریزی کلام بھی عشق سے خالی نہیں۔17
کلیم الدین احمد کی اس رائے سے بات شروع ہوئی تھی کہ آزاد میں نقد کا مادہ مطلق نہ تھا۔اس جملے پر اکثر لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ان کی یہ رائے کتنی صحیح یا کتنی غلط ہے،اس میں الجھنے سے بہتر ہے کہ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں جہاں سے اردو تنقید کا خمیر اٹھا ہے۔پودا، ایک دن میں درخت نہیں بن جاتا۔فصل ایک دن میں نہیں اگ آتی۔کھیت کے لہلہانے سے قبل کے مراحل پر نگاہ رکھنا بھی ضروری ہے۔تنقید کی وہ شکل جو محمد حسن عسکری،کلیم الدین احمد اور شمس الرحمن فاروقی کے ہاں ہے،اس کی بنیاد میں تذکروں کی وہ روایت بھی شامل ہے،جہاں ذوق ہی شعر کی پرکھ کا پیمانہ تھا۔آج یقینا شعر کی پرکھ کے معیار بدلے ہیں،لیکن وہ کلیتاًکہیں سے برآمد نہیں کئے گئے،اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔اردومیں تنقیدی اصولوں کے ڈانڈے عربی فارسی شعریات میں پیوست ہیں۔نظری مباحث کے سرے بھی عرب فلسفیوں کے ہاں موجود ہیں۔افلاطون،ارسطو،لونجائنس،ہوریس،دانتے،کولرج،میتھیو آرنلڈ،کروچے،آئی۔اے۔رچرڈس،ازراپائونڈسے لے کر ٹی۔ایس۔الیٹ تک کے افکار سے ہم انگریزی ادب کے وسیلے سے بہرہ ور ہوئے۔آج ہماری تنقید جس بصیرت سے مالامال ہے،اس میں عربی فارسی شعریات کے ساتھ مغربی شعریات سے استفادہ بھی شامل ہے۔آزاد کے زمانے تک اردو میں تنقید کوئی مستقلDisciplineنہیں بنی تھی۔تبصرے/ریویواور تنقید میں کوئی فرق نہ تھا۔اصول سازی پر توجہ نہ تھی۔بین اللسانی اور بین العلومی مطالعے کا چلن نہ تھا۔آزاد نے سب سے پہلے ادبی استحکام کے لیے مشرق و مغرب کے امتزاج پر زور دیاـ:
اردو اپنی زبان ہے اور انگریزی کنجی خدا نے دی۔ہم اور ہمارے ساتھی پرانی لکیروں کے فقیر،جو کچھ کرنا تھاسو کرچکے۔نہ ان میدانوں میں اب ہم سے کچھ ہو سکے۔چقماق کے دونوں جزوں کو ٹکرائو کہ آگ نکلے۔اون اور شیشے کو رگڑو کہ ایلکٹرسٹی[الکٹرسٹی] کے فوائد حاصل ہوں۔لیکن فقط پتھر ہو،تو پتھر ہی ہے اور فقط شیشہ،ڈر کا گھر۔اپنی زبان کے زور سے اس میں اس طرح جان ڈالو کہ ہندوستانی کہیں:سودا اور میر کے زمانے نے عمر دوبارہ پائی۔اس پر انگریزی روغن چڑھاکر ایسا خوش رنگ کرو کہ انگریز کہیں:ہندوستان میں شیکسپیر کی روح نے ظہور کیا۔18
محمد حسین آزادکی دوراندیشی اس اقتباس سے ظاہر ہے۔انھوں نے کہیں بھی اپنی تحریر کو تنقید نہیں کہا۔وہ اوکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ نہ تھے،کہ وہاں کی نہج پر تنقید لکھتے۔ان کی تو زندگی ہی اتنی منتشر رہی، کہ کبھی اطمینان سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقع نہ ملا،لیکن شعرو ادب سے شدید وابستگی ہی تھی کہ آخری بیس سالوں کی حالت ِجنون میں بھی لکھتے پڑھتے رہے۔حالی اردو کے پہلے ناقد تسلیم کیے جاتے ہیں،مگر انھوں نے بھی ان سے خاصا استفادہ کیا ہے۔کلیم الدین احمد نے صحیح کہا ہے کہ حالی کام کی باتیں کام کی زبان میں کرتے ہیں،جب کہ آزاد پرانے تذکروں کے رنگ میں ڈوب کر گل بوٹے کھلانے میں رہ گئے،اور کام کی باتیں بھی کام کی زبان میں نہ کرسکے۔بنیادی اعتراض ان کے اسلوبِ بیان پر ہے،نہ کہ ان کے افکار پر۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے افکار پر بھی اعتراض کی گنجائشیں ہیں،لیکن ان سے ہزار اختلاف صحیح،انھوں نے جو’کام کی باتیں‘کی ہیں،ان کے اعتراف سے مفر نہیں۔ان پر جتنی تنقیدیں ہو سکتی تھیں،وہ تنہا کلیم الدین احمد نے کرلیں۔ان کے فقرے چست کرنے کے ڈھب پر انھوں نے واہ واہ کہا،لیکن اسے مغز سے خالی قرار دیا۔یہ سبھی باتیں اپنی جگہ،مگر اپنے مخصوص انداز ہی میں صحیح،انھوں نے جو نظری اساس فراہم کی،اس پر گفتگو ہونی چاہیے،کیوں کہ ان کے نظریے کی تفہیم اسی وقت ہو سکتی ہے،جب ہم ان کے متن سے براہِ راست مکالمہ کریں۔’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات‘سے مکالمے کے نتیجے میں کئی نکتے ہاتھ آتے ہیں۔پہلا سوال یہی ہے کہ شعر کیا ہے۔ہماری عروض کی کتابیں،فن شاعری کے استاد اورتذکرے یہی کہیں گے کہ شعر کلام موزوں و مقفیٰ کو کہتے ہیں،لیکن آزاد اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلام کو موزوں و مقفیٰ ہونا کافی نہیں،بلکہ اسے موثر ہونا بھی ضروری ہے۔محض منظومہ ان کے نزدیک ایسا کھانا ہے،جس میں کوئی مزانہیں۔نہ ترش،نہ شیریں۔یہاں اچھی خاصی بحث ہو سکتی ہے کہ شاعری کیا ہے،اور نظم کیا ہے۔شعر کے لیے وزن ضروری ہے یا نہیں۔قافیہ پیمائی اور تخلیقی مراقبے میں کیا فرق ہے۔تاثیر کا ہونا اگر شرط ہے تو اثر سے کیا مراد ہے۔اس کے پیمانے کیا ہوں گے…وغیرہ وغیرہ۔عروضی ساخت اور شعری بافت میں پیٹرن کے حوالے سے مناسبت ضرور ہے ،لیکن عروضی مباحث اور مطالبات کی تکمیل کا مطالعہ نقاد کے لیے جتنا اہم ہے،تخلیق کار کے لیے اتنا ہی اہم نہیں۔بہت سے اچھے شعرا عروض سے واقف ہی نہیں ہوتے۔اس لیے موزونیت کی میزان فقط فاعلاتن فاعلات ہی نہیں،بلکہ طبیعت بھی ہے۔آزاد صحیح نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موزونیِ طبع جوہرِخداداد ہے۔ہو سکتا ہے کہ کوئی بہت بڑا عروضی ہو،لیکن وہ شاعری بھی کرلے یہ کوئی ضروری نہیں۔بعض حضرات ایسے بھی ہیں،جوموزوں شعر کو بھی ناموزوں پڑھتے ہیں۔اس لیے طبیعت کی موزونیت لازمی ہے،اور یہی آزاد کا مطمحِ نظر ہے۔
شاعری کسی تجربے کے توسط سے تخیلی پیکر تراشنے کا نام ہے۔شاعری میں موزونیت لازمہ نہیں،خاصہ ہے۔اس لیے تخلیقی عمل میں تخیل کو مرکزیت حاصل ہے۔تخیل پر حالی اور شبلی نے مفصل بحث کی ہے،لیکن آزاد کے ہاں تخیل کی تعریف کا کوئی خاص اہتمام نہیں۔انھوں نے گفتگو کے انداز میں مطالب کا جو سلسلہ چھیڑا تو بات بات میں شعر کی ماہیت سے متعلق بعض بنیادی باتوں پر اظہارِ خیال بھی کرتے گئے۔ادبی تخلیق کی بنیاد تخیل پر ہے۔تخیل(Imagination)کی بہترین تعریف کولرج نے کی ہے۔آزاد کی رسائی کولرج کے خیالات تک نہ تھی،لیکن شاعر کے فکری کینوس کو اجالنے میں انھوں نے تخیل کی اصطلاح استعمال کیے بغیر اس کی اہمیت کا احساس دلایا۔تخیل ذہن میں موجود خیالات کو مکرر ترتیب دینے کا نام ہے۔فینسی(Fancy)اس کی اہم ترین حالت ہے،جو نئی نئی اشیا میں ربط پیدا کرتی ہے۔تخلیقی عمل میں یہ تحرک کا کام کرتی ہے۔آزاد کہتے ہیں:
شاعر اگر چاہے تو اموراتِ عادیّہ کو بھی بالکل نیا کر دکھائے۔19
[شاعر]تمام عالم میں اس طرح پر حکومت کرتا ہے ۔جیسے کوئی صاحب خانہ اپنے گھر میں پھرتا ہے۔پانی میں مچھلی اور آگ میں سمندر ہوجاتا ہے۔ہوا میں طائر بلکہ آسمان پر فرشتے کی طرح نکل جاتا ہے۔جہاں کے مضامین چاہتا ہے [،]بے تکلف لیتا ہے اور بہ تصرف مالکانہ اپنے کام میں لاتا ہے۔20
اموراتِ عادیّہ یا کسی بھی تجربے کو ’بالکل نیا کر دکھانا‘ہی تخیل کی تعریف ہے،کہ یہ نقش ثانی ہے،اور افکار کے خزانے کو مکرر ترتیب و تنظیم عطا کرنے سے عبارت ہے۔پھر شاعر کے تخیلی اختیارات کی وسعت کا اقرار تخیل کے اوصاف کی توضیح پر دال ہے۔آزاد جب یہ کہتے ہیں کہ شاعر اگر چاہے تو ’’پتھر کو گویا کردے۔درختان پا در گل کو رواں کر دکھائے۔ماضی کو حال ۔حال کو استقبال کردے۔دور کو نزدیک کردے۔زمین کو آسمان۔خاک کو طلا۔اندھیرے کو اجالا کردے…زمین اور آسمان اور دونوں جہان[،]شعر کے دو مصرعوں میں ہے۔ترازو اس کی شاعر کے ہاتھ میں ہے۔جدھر چاہے جھکا دے۔‘‘(21)تو ایک طور پر وہ Fancyہی کی تعریف کرتے ہیں۔ماضی کو حال،حال کو استقبال،خاک کو طلا اور طلے کو خاک میں بدلنا، فینسی ہی کی مثالیں ہیں۔شاعری کی نظری اساس میں یہ پہلو بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے،لیکن اس کے بیان میں آزاد کے پاس تنقیدی اصطلاحات نہیں تھیں،اور یہ ان کے شعورِ نقد کے اظہاریے کی مجموعی صورتِ حال ہے۔
آزاد شاعری کو الہام تصور کرتے ہیں۔شاعری الہام ہے یا نہیں۔یہ بحث فلسفے پر قائم ہے۔جہاں محض موشگافیاں ہی کی جاسکتی ہیں۔شاعری اگر واقعی الہام ہے تو شاعر کی حیثیت محض ایک منشی کی ہوگی،کہ وہ اس شانِ نزول کو حوالۂ قلم کردے،اور بس۔شاعری میں کسب ِ فن کے لیے ریاض کی ضرورت پڑتی ہے۔شاعر اپنے شعر کو خود متعدد ،دفعہ کاٹتا چھانٹتا ہے۔اس عمل میں وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔اس لیے شاعری الہام نہیں،کہ غیب سے اچانک نازل ہوجائے۔کائنات کے اسرار پر فکر کرنا بھی کوئی شے ہے۔البتہ یہ سچ ہے کہ شاعری کسبی نہیں،وہبی چیز ہے،اور اس سے قطعی یہ مراد نہیں کہ بغیر غور و فکر کے کسی پر اشعار اترتے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ تخلیق ایک قسم کا مراقبہ ہے،لیکن یہاں بھی غور و فکر سے مفر نہیں۔آزاد شعر کی تعریف میں لکھتے ہیں:
شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالات سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے اور اسی قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسلہ خاص ہے۔خیالات پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں،مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔22
اس اقتباس کے دوسرے ٹکڑے پر اعتراضات کا دفتر کھڑا کیا جا سکتا ہے،لیکن پہلے ٹکڑے کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔’جوش و خروش‘اور سنجیدہ خیالات سے شعر مراد لینے میںبحث کے کئی در وا ہوتے ہیں۔حالی نے بھی’سادگی،اصلیت اور جوش‘کو اچھے شعر کا وصف بتایا۔سنجیدگی سے مراد یہی ہے کہ شاعری ایک نوع کے ضبط اور ٹھراؤ کا مطالبہ کرتی ہے،اور جوش و خروش کا مقصود لاابالی پن نہیں، کہ جو اور جس طرح جی میں آئے،باندھ دو۔یعنی بقول غالب؛ شعر قافیہ پیمائی نہیں،معنی آفرینی کا نام ہے۔معنی خیزی کے عمل میں تخلیقی ضبط/سنجیدگی کے ساتھ جوش یعنی بے ساختہ پن اور موثر پیرایے کا بھی دخل ہوتا ہے۔جوش سے حالی آمد مراد لیتے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ آزادنے شعر میں جوش و خروش کی صفت سے اپنے نظریے کو صلابت عطا کی۔محمدحسین آزاد کے مطابق شعر کو موثر،متین اور جوش و خروش سے پر ہونا چاہیے۔یہ بہت اچھی بات ہے،لیکن سب سے بڑا قضیہ ان کے نظریۂ ادب میں اخلاقیات کے تصور کا ہے۔وہ ادب پر اخلاقی قدغنیں عائدکرتے ہیں۔کہتے ہیں:
شاعر کو ایک نسبت خاص عالم بالا سے ہے۔23
فی الحقیقت شعر ایک پر تو روح القدس کااور فیضان رحمت الٰہی کا ہے۔کہ اہلِ دل کی طبیعت پر نزول کرتا ہے۔24
شاعروں کی بدزبانی و بد خیالی سے شعر بھی تہمت ِ کفر سے بدنام نہیں ہوسکتا۔در حقیقت ایسے کلام کو شعر کہنا ہی نہیں چاہیے۔25
حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو وہ گرد و نواح کے زمینی حقائق کو شعر میں سمونے کی بات کرتے ہیں،کہ ہمارا شاعر گنگا جمناکا ذکر نہیں کرتا۔ہمالے کی بلندی اور ارجن کی شجاعت اسے متاثر نہیں کرتی،اور دوسری طرف اسے ’عالم بالا‘میں پہنچا کر دوسری ہی دنیا کا مخلوق گردانتے ہیں۔یہ بھی فرماتے ہیں کہ برے خیالات کا اظہاریہ شعر ہو ہی نہیں سکتا۔خیالات کا اچھا یا برا ہونا اپنی جگہ،لیکن کوئی خیال مضمون بن کر جب شعر میں آتا ہے تو خواہ وہ برا ہی صحیح،فنی عناصر اس کے معیار کو طے کرتے ہیں۔تخلیق کو اخلاق سے سبق لینے کی ضرورت نہیں۔پھر نیک خیال اور بد خیال کیا ہے۔خیالات کا رشتہ براہِ راست معنی سے ہے،اور شعروادب میں معنی کو کسی مخصوص عینک سے دیکھنا مناسب نہیں۔یہاں ترسیل کے ہمراہ اپنے اپنے طور پر تفہیم کی بھی آزادی ہے۔مسئلہ کسی خیال کے پاک یا ناپاک ہونے کا نہیں،بلکہ اصل معاملہ تخلیقی برتاؤ کا ہے،کہ کس طرح کوئی خیال تخلیقی بنت کا حصہ بنتا ہے اور اس کی ترسیل/تفہیم کے معائر کیا ہیں۔ترسیل میں تخلیقی عناصرسے جوجھنا پڑتا ہے اور یہ عناصر معنی کو انگیز کرتے ہیں۔خیال کا حسن معنی میں ہے،اور معنی کا حسن تجرید میں۔آزاد نے یہ کہہ کر اہم نکتے کو پالیا ہے کہ شاعر معنی کی تصویر دل پر کھینچتا ہے۔(26)’معنی‘کیفیت کا نام ہے اور ’دل‘سے اشارہ اثر پذیری کی طرف ہے۔
لفظ و معنی کی بحث کا سرا قدیم عربی شعریات کی طرف منتقل ہوتا ہے۔جاحظ،عبدالقاہرجرجانی،ابن رشیق قیروانی وغیرہ نے لفظ و معنی کے ا ختصاص اور منازل کی تعین میں فکر ِبلیغ سے کام لیتے ہوئے متن/لفظ اور معنی کے رشتے پر مبسوط ڈسکورس قائم کیا ہے۔آزاد کو عربی فارسی شعریات کا عمیق درک تھا۔فکر ِآزاد کی تشکیل میں یہ عناصر جز و لا ینفک ہیں۔ان کی تنقید کا ڈھانچہ لفظ و معنی کے مروجہ اسالیب میں حسن و قبح کی تلاش سے عبارت ہے۔معاصر ادبی تنقید میں لسان کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔اس تنقیدی تھیوری کے نظامِ کلام(Discourse)میں دریدا(Jacques Derrida) ،اور سوسیور(Ferdinand de Saussure) کے نظریات پر ادراکِ معنی کی کوششیں نمایاں ہیں۔معنی تک رسائی کے پیمانے ہر عہد میں نامیاتی رہے ہیں۔معنی کے سیاق کی جڑیں دور تک پھیلی ہوتی ہیں۔اس لیے شاعر اگر معنی کی تصویر کھینچتا ہے ،تو اس تصویر میں جو سیاق خلق ہوگا،اس کی اساس جدلیاتی ہوگی۔آزاد نے اپنے فکری اور معاشرتی حدود میں شاعری کی تفہیم کے لیے بعض اہم نکتوں کی طرف اشارہ کر دیا ہے،جن پر آئندہ بھی بحثیں ہوتی رہیں گی۔مثلاً ان کا یہی جملہ ،کہ ’’شاعرگویا ایک مصور ہے۔‘‘(27)مصور کا کام تصویریں بنانا ہے۔وہ تصور سے کام لیتا ہے۔تصور اور تخیل میں فرق ہے۔تصورMimesisہے،جب کہ تخیلImagination۔یہاں ذہن افلاطون اور ارسطو کی جانب بھی جاتا ہے۔تصور یعنی نظریۂ نقل(Mimesis)کی بحث بہت قدیم ہے۔ارسطو نے نقل کو ترجمانی کا نام دیا۔تصور ادراک کی منزل ہے،تخیل اس سے بہت آگے کی شے ہے۔شاعری مصوری یا نقل نہیں،تخیلی تجربہ ہے،اپنی وسعت میں بے کنار۔آزاد کے زمانے میں یہ نکتے صاف نہ تھے۔ان کے ہاں تخیل اور تصور ایک ہی چیز کا نام تھا۔آزاد قوتِ واہمہ(Fancy)کی اصطلاح استعمال کیے بغیر اس کی تعریف کرتے ہیں،کیوں کہ ان کے ہاں نظریے کی منطقی تنظیم اس طور پر متشکل نہیں ہوئی تھی،جس طرح آج کے ناقدین کے ہاں ہے،اس لیے ان کی فکریات اور نظری اساس کو ابوالکلام قاسمی کے الفاظ میں اردو تنقید کی شیرازہ بندی کی اولین کوشش کہنا،بالکل بجا ہے۔(28)
٭٭٭
حواشی:
(1)کلیم الدین احمد،اردو تنقید پر ایک نظر،1983،سبزی باغ،پٹنہ:بک امپوریم،ص:57
(2)ایضاً،ص:107
(3)محمدحسین آزاد،نظم آزاد،1899،لاہور:مفیدعام پریس،ص:4
(4)محمدحسین آزاد،کائنات عرب،1922،لاہور:آزاد بک ڈپو،ص:6
(5)محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،1970،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:14
(6)ایضاً،ص:15-16
(7)محمدحسین آزاد،نظم آزاد،1899،لاہور:مفیدعام پریس،ص:6
(8)محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،1970،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:15
(9)اسلم فرخی،محمد حسین آزاد:حیات اور تصانیف(حصہ دوم)،1965،کراچی،پاکستان:انجمن ترقی اردو،ص:348
(10)ایضاً
(11)مالک رام،تعارف،مشمولہ:نیرنگ خیال/محمدحسین آزاد،1970،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:6
(12)گورنمنٹ کالج لاہور کی تاریخ سے اقتباس،مشمولہ:محمد حسین آزاد:حیات اور تصانیف/اسلم فرخی(حصہ دوم)،1965،
کراچی،پاکستان:انجمن ترقی اردو،ص:348
(13)اسلم فرخی،محمد حسین آزاد:حیات اور تصانیف(حصہ دوم)،1965،کراچی،پاکستان:انجمن ترقی اردو،ص:93
(14)محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،1970،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:15
(15)محمدحسین آزاد،نظم آزاد،1899،لاہور:مفیدعام پریس،ص:3
(16)ایضاً،ص:6
(17)محمدحسین آزاد،مکاتیب آزاد،مرتبہ:فاضل لکھنوی،1966،لاہور،پاکستان:مجلس ترقی ادب،ص:84
(18)محمدحسین آزاد،نیرنگ خیال(اول و دوم)،1970،دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:27
(19)محمدحسین آزاد،نظم آزاد،1899،لاہور:مفیدعام پریس،ص:2
(20)ایضاً،ص ص:3-4
(21)ایضاً،ص ص:2-3
(22)ایضاً،ص:8
(23)ایضاً،ص:2
(24)ایضاً،ص:3
(25)ایضاً
(26)ایضاً،ص:8
(27)ایضاً،ص:2
(28)ابوالکلام قاسمی،مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت،2002،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردو زبان،ص:235
( بحوالہ سہ ماہی ’’اردو چینل‘‘ شمارہ نمبر 29، بابت جلد ۱۳، شمارہ ۲ ، اگست ۲۰۱۱)
Kahani Taj Karti Hai by Mohammad Umar Ansari
Articles
کہانی راج کرتی ہے
محمد عمر انصاری
Apsara Ki Waapsi by Abdul M.N. Ansari
Articles
اپسرا کی واپسی
م۔ن۔ انصاری