Urdu Channel Issue No. 05

Articles

اردو چینل شمارہ نمبر 5

Fareeb A Short Story by Mohammad Ansar

Articles

فریب

محمد انصر

 

میں مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اترہی رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھ کر کچھ ٹھٹک سا گیا۔وہ عورت یہ دیکھتے ہی میرے پاس آگئی اور اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہنے لگی ،میں بہت بھوکی ہوں۔میں نے اس کی باتیں بے دھیانی میں سنیں اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ خیال آیا کہ سارے پیسے تو مسجد میں دے دیے ، میں نے کہا ..پیسے نہیں ہیں..یہ باتیں کہتے ہوئے میری نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں ،میں جب سے رکا تھااسے دیکھے جا رہا تھا،اس نے اس طرح دیکھنے پر فوراً کہا’میرے بیٹوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے‘میں نے جلدی سے کہا… اچھا… اچھا. .. اور پھر اپنی جیب دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔ لیکن اسے لگامیں بہانے کر رہا ہوں… وہ پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی…. میں تھوڑی دیر رک کر اسے دیکھتا رہا کہ اس بوڑھی عورت کی شکل ہو بہو میری ماں کی طرح ہے۔اس عورت نے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے میری طرف دوبارہ رخ کیااور پھر ہاتھ دراز کرتے ہوئے بولی.. میں رات سے بھوکی ہوں…. میں نے پھر کہا…. میرے پاس پیسے نہیں ہیں…. نہیں تو میں ضرور دیتا….وہ کسی دوسرے شخص کی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگی… . مجھے ایک عجیب سا خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا پتہ پوچھ لوں…. اسے دیکھنے کے بعد ماں کے چہرے کا کچھ عکس دیکھ لیا کروں گا …. میں اس کی طرف بڑھا تو وہ رک گئی…. میں نے کہا…. آپ کہاں رہتی ہیں…. اس نے بغیر کچھ کہے گھور کر دیکھا.. ..تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں…. میں نے جلدی سے کہنا چاہا کہ آپ کی شکل میری ماں سے…. ابھی جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ غصے سے دیکھتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی…. میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے…. اور پھر گھر کی طرف بڑھنے لگا…. گھر سے مسجد دور ہونے کی وجہ سے تنہا چلنا مشکل ہو رہا تھا…. ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ اس بوڑھی عورت کا چہرہ نظر کے سامنے گھومنے لگا ….اور میں سوچنے لگا.. ..میری ماں کے چہرے پر اتنی جھریاں نہیں تھیں ۔انہوں نے شروع میں کچھ پریشانیاں ضرور اٹھائی تھیں لیکن بعد کے دنوں میں ہم لوگوں نے انہیں خوب آرام دیا تھا…. اور ہاں…. اس بوڑھی عورت کے چہرے پر بے شمار جھریاں تھیں… اس کی پیشانی پر بل پڑتے پڑتے ایک نصف دائرہ سا بن گیا تھا.. ایسا لگ رہا ہے اس کے چہرے کی دونوں جانب نقش نگاری کی گئی ہو.. اس کی ٹھوڑی نیچے کی جانب لمبی نکلی ہوئی تھی.. شاید چمڑی لٹک گئی تھی اور پھر اس خیال پر بہت افسوس ہوا کہ میں اسے کچھ بھی نہ دے سکا.. ..تبھی پیچھے سے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ،میں نے چونک کر دیکھا تووہ میرا دوست شاداب تھا جس کی قصبے میں پرچون کی دوکان ہے،ابھی کچھ روز پہلے ہی اس کا دیپک سے جھگڑا ہو گیا تھا۔اس کی بھی پرچون کی ہی دوکان ہے چونکہ دیپک بھی میرا دوست ہے۔اس لیے بیچ بچائو کے لیے جانا ہوا تھا۔ شاداب مسکرا تے ہوئے کہنے لگا،کس خیال میں گم ہو دوست اور پھرکچھ گپ شپ کے بعد اپنی دوکان کی جانب جاتے ہوئے بولا… ارے بھئی…کیا بات ہے… آج کل داڑھی بہت لمبی ہو رہی ہے…ملا بن رہے ہو کیا،اور ہم دونوں نے ایک ساتھ ایک قہقہہ لگایا… میں دوکان سے کچھ دور نکلا ہی تھا کہ شور سنائی دیا،اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ سامنے کی گلی سے وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگا تے ہوئے آرہے ہیں،میں نے سوچا کوئی حکومت کے خلاف مظاہرہ ہوگا۔لیکن ان کے نعروں اور اسلحوں نے مجھے خوف زدہ کر دیا اورمیں نے راستے سے ہٹ کر انھیں راستہ دینا چاہا، تبھی ایک آواز آئی…ارے! یہ ملا بھی ساداب کا مِتر ہے۔اتنا کہنا تھا کہ دو لوگ دوڑتے ہوئے آئے ۔ایک کم عمر لڑکے نے داڑھی پکڑتے ہوئے کہا….وند ے ماترم کہو…میں یکایک ایسے حادثے سے گھبرا گیا اور میری گھگھی بندھ گئی۔تبھی میرے منھ پہ دو گھونسے یہ کہتے ہوئے پڑے کہ ملّے، آتنک وادی وندے ماترم نہیں کہے گا۔میں نے خوف سے چلاتے ہوئے کہا…وندے ماترم…اور پھر ایک سانس میں کئی بار کہا….لیکن ایسا لگا انھیں کسی بھی بہانے سے مجھے پیٹنا منظور ہے۔دو تین لڑکوں نے موٹی گالیوں کے ساتھ اتنا مارا کی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا….اورپھر نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔تھوڑی دیر کے بعد ایسا لگا مجھے کوئی اٹھا رہا ہے،میں نے ڈرکر چیختے ہوئے کہا …. وندے ماترم…بھارت ماتا کی….ابھی جملہ ادھورا ہی تھا کہ کسی نے قدرے دھکا دیتے ہوئے زوردار طمانچہ مارااور کہا….ایمان فروش …وندے ماترم کہتا ہے۔میں ہکا بکا..آنکھیں مل کر دیکھنے لگا،تب تک پولس کی گا ڑیوں کی آوازیں سنائی دیں۔میں نے اپنے حواس درست کیے اور ایک گلی کی جانب بھاگا کہ مجھے گواہ کے طور پر تھانے جانا پڑسکتا ہے۔ اس گلی سے چلتا ہوا سبزی منڈی کی طرف مڑا ہی تھا کہ وہی بوڑھی عورت دکھائی دی۔ وہ پاگلوں کی طرح کوڑے دان میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا لیکن نظر انداز کر دیا اور اپنے کام میں لگی رہی۔ میں چند قدم کے فاصلے پر ٹھہر گیا اور اس دوران وہ کچھ تربوز کے ٹکڑوں کو لیکر آگے بڑھی، اس پر لگی گندگی کو اپنے کپڑوں سے صاف کیا اور جلدی جلدی کھانے لگی۔یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔دوڑکر اس کے پاس پہنچا ،سوچا اسے روکوں، لیکن وہ ہوں..ں..ں کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ میں نے کہا‘ میرا گھر یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے،آپ میرے گھر چلیں میں پیٹ بھر کھانا کھلائوں گا ،لیکن اس نے چہرے کی چوٹ کو گھورکر دیکھا اور شیطان کی طرح کھانے لگی، میں نے قریب پہنچ کر کہا….آپ میری ماں…ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے غصے سے تربوز کے چھلکوں کو پھینکتے ہوئے کہا…تو میں کیا کروں؟ماں کہنے سے میرا پیٹ نہیں بھرتا،اس سے میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اور خدا کے لیے..تم میرا پیچھا چھوڑ دو..تم سے ڈر لگ رہا ہے۔بوڑھیا کی باتوں سے چونک کر میں نے آس پاس کے ماحول پر نظر ڈالی تو سب کچھ پہلے جیسا تھا، ابھی بھی بوڑھیا بھوکی تھی یعنی ’وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے ‘کے نعروں سے میرے ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہواتھا، بھارت ابھی بھی ترقی پذیر ملک تھا۔میں سوچ میں گم تھا کہ کسی آواز سے چونکا ‘اب بوڑھیا پیٹ دبائے رو رہی تھی، چہرہ آنسوئوں سے تر تھا اور درد کی شدت کی وجہ سے تمتما رہا تھا۔ مایوسی کے عالم میں اس کے چہرے کو دیکھا تو ایسا لگا کہ جھریاں کوئی نقش بنا رہی ہیں ،میں نے پاس جاکر غور سے دیکھا تو اس میں بھارت کا نقشہ نمایاں ہو رہا تھا۔

———————————–

Saleeb Par Latke Hue Log

Articles

صلیب پر لٹکے ہوئے لوگ

محمد فرقان سنبھلی

کیا یہی انصاف ہے اور انصاف کی مجھے امید بھی کیوں کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔انصاف ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی کس سے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں غلطی تو میری ہی ہے ۔۔میں نے اپنے باپ دادا کا کہا نہ مانا ۔۔۔۔۔۔باپ دادا ہی کیوں ۔۔۔ان سے بھی عظیم ہستیوں کے قول پر توجہ نہیں دی ۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ اس عظیم دوست کی بات بھی نہیں سنی جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے ۔ تو۔۔ ۔ ۔۔۔ پھر تو یہ ہونا ہی تھا ۔۔ لیکن کیا یہی میرا قصور ہے ؟
سوچتے سوچتے مسلم کا گلا رندھ گیا ۔۔۔۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔تبھی دروازہ پر ہو ئی دستک نے اسے چونکا دیا۔
’’کون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟تذبذب میں مبتلامسلم نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ دروازہ پر علاقہ کا مشہور غنڈہ سیم کھڑا تھا ۔
’’یہ میرے دروازہ پر ۔۔۔۔۔۔۔یا خدا ۔۔۔رحم کر۔‘‘
مسلم دل ہی دل میں ہول رہا تھا کہ سیم نے اسے گھورتے ہوئے کہا:
’’کیااندر آنے کو نہیں کہوگے میاں؟‘‘
’’جی ۔۔۔۔جی ۔۔۔۔کیوں نہیں ۔۔تشریف لائیے۔‘‘مسلم نے اپنی بیٹھک کے اندر پڑے بوسید ہ سے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔سیم پہلے تو بوسیدہ صوفے پر بیٹھنے میں جھجھکا پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا ۔
’’میں نے سنا ہے کہ تمہاری زمین کا جھگڑا چل رہا ہے ۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔تو یہ بات ہے ْ‘‘مسلم قدرے سنبھل کر بیٹھ گیا ۔ ’’اس جھگڑے کوشروع ہوئے تو زمانہ گزر گیا ۔۔۔۔۔کتنا خون بہہ چکا ۔۔اور آپ کو تو سب معلوم ہی ہوگا ۔‘‘
’’ہاں بھئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب یہ خون خرابہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جناب خون خرابہ تو آپ کا روز کا شغل ہے ۔ پھر آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم بڑے بے باک انداز میںگویا ہوا۔
’’مگر تمہارا شغل تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔اور پھر مجھے تم سے ہمدردی بھی ہے ۔‘‘
مسلم کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو گئی۔
’’اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم نے سوال کیا ۔
’’میں تم دونوں کے درمیان صلح کرا دیتا ہوں ۔‘‘
’’صلح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’ہاں تاکہ تم دونوں اچھے دوستوں کی طرح سکون سے زندگی گزار سکو۔‘‘
’’میں جانتا ہوں کہ آپ چاہیں گے تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا،لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا ؟‘‘سیم نے مسلم کے چہرے پر آنکھیں جما دیں ۔
’’بھروسہ تو ہو کہ انصاف ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم مجھ پر شک کر رہے ہو ۔‘‘سیم کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا ۔
مسلم نے سیم کے لا ل ہوتے چہرے کو دیکھ کر بات گھمانے کی کوشش کی ۔’’صلح کس شرط پر ہو گی ؟‘‘
’’شرط کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اگر تیار ہو جائو تو ہم تمھیں تمام دوسری سہولتیں بھی مہیا کرا ئیں گے ۔‘‘
’’کیسی سہولتیں؟‘‘مسلم نے حیرانی سے سیم کی طرف دیکھا ۔
’’جو تم چاہو‘‘سیم نے بائیں آنکھ دبا کر اوباش قسم کی ہنسی کے ساتھ کہا۔مسلم کو اس مخصوص اشارے سے گھبراہٹ محسوس ہوئی۔
’’ہم دونوں کے درمیان زمین تقسیم کیے دیتے ہیں کچھ حصہ پر تم قابض ہو جائو گے باقی اس کے پا س رہنے دینا ۔۔۔۔۔تم فکر نہ کرو اسے ہم تیار کر لیں گے۔ وہ ہماری بات نہیں ٹالے گا۔‘‘
’’اور ہماری قدیمی عبادت گاہ۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’تمہارے پا س تو نئی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ توسراسر۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بدلے میں ہم تم کو دولت ، خوبصورت حوریں ، ہتھیار یا جو تم چاہو تمہیں دیں گے۔‘‘سیم کی فریبی چال اب مسلم کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔
’’لیکن یہ ہماری پشتینی زمین ہے جس پر وہ زبردستی قابض ہوئے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ اس کی بھی تو پشتینی زمین ہے کہ اس کے پاک صحیفے میں اس زمین کا ذکر ہے ۔‘‘
’’لیکن جغرافیائی اعتبار سے یہ زمین ہماری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو آپ بھی جانتے ہیں ۔‘‘
’’بھول جائو ان باتوں کو ۔۔۔۔ان باتوں میں اب کچھ نہیں رکھا ۔۔ماضی نہیں حال اور مستقبل کی فکر کرو۔‘‘سیم کی آواز تیز ہونے لگی تھی ۔ مسلم کے بھی دانت بھنچ گئے ۔
’’تو کیا میں ان خونریزیوں کو بھی بھول جائوں جن کے سبب میرے عزیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں تمہیں بھولنا ہوگا۔‘‘سیم جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔’’سنو!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سوچ لو ۔ ۔۔۔۔۔ دو دن ۔۔۔۔چار دن ۔۔۔۔اس درمیان تمہارے گھروں پر آگ بھی نہیں برسے گی ۔۔۔۔۔۔اب یہ تمہارے فیصلے پر منحصر ہے کہ آگ برسنا ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے ۔ ‘‘
مسلم، سیم کی دھمکی سے سکتے کی حالت میں بیٹھا رہ گیا ۔ اس کا دماغ سن ہو چکا تھا ۔ سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت جیسے مائوف ہو گئی تھی ۔ مسلم نے اہل خانہ کو جمع کرکے سیم کی تجویز اور دھمکی بیان کی تو نوجوانوں کا خون کھول اٹھا مگر بزرگوں نے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔
مسلم کے بڑے بیٹے نے کہنا شروع کیا ۔ ’’یہ زمین محض پشتینی زمین ہی نہیں بلکہ عظیم تاریخ کا حصہ ہے ۔ ہمارے بزرگوں کی عظمتوں کی نشانی ہے ہم کسی بھی قیمت پر اس کا سودا نہیں کر سکتے ۔ ہماری لڑائی بر حق ہے اور یہ جاری رہے گی ۔ ‘‘
’’نہیں بڑے بھائی ۔۔۔۔۔بہت ہو چکا ۔۔۔۔۔۔۔کب تک ہم زمین کے اس ٹکڑے کو پاک بتا کر خون میں نہاتے رہیں گے ۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ خود ہمارے سامنے جھک کر آئے ہیں تو ہمیں بھی تقسیم کر لینی چاہیے۔ ہماری زندگیاں تو کٹ چکیں مگر ان نو نہالوں کو تو دیکھئے۔۔۔۔۔ان کے معصوم چہرے دہشت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ کب تک سہم سہم کر زندگی جینے کو مجبور رہیں گے ۔ ‘‘مسلم کے چھوٹے بیٹے کے ضبط کا باندھ ٹوٹ رہا تھا ۔ اس اختلاف پر مسلم چیخ اٹھا۔

فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔

’’ہماری صفوں میں اتحاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ہم آج مصیبتوں میں گھرے ہیں ۔ کاش کہ ہم متحد ہوتے !!!‘‘
’’اب منجھلے بیٹے نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ ’’ابا حضور ! اس وقت اگر تھوڑا حصہ لے کر اس پر قابض ہو جائیں تو بعد میں بقیہ زمین کی آزادی کے لیے بھی کوشش کر سکتے ہیں ۔ رہی بات معاہدہ کی ،وہ تو ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں ۔‘‘ مسلم بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر بیٹے سننے کو تیارہی نہیں تھے ۔
آخر کار چھوٹے نے سیم سے مل کر معاہدہ کر لیا جس کا غم مسلم اور اہل خانہ مناتے ہی رہ گئے ۔ چھوٹا کامیابی کا جشن مناتا اپنی منکوحہ گوری چٹی میم کے ہمراہ مسلم کے سامنے پہنچا تو مسلم کو بہت افسوس ہوا ۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا ۔ ’’افسوس کہ تم باطل کی فریبی چال نہ سمجھ سکے ۔ ‘‘
’’ہم مل کر باطل کو شکست دیں گے ابا حضور ۔‘‘ چھوٹے کی منکوحہ گولڈی نے پر عزم لہجے میں کہا۔
’’کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘مسلم نے ٹھنڈی آہ بھری ۔
شادی اور اقتدار کے سرور میں ڈوبے چھوٹے کو اچانک بقیہ زمین کو واپس حاصل کرنے کا مشن یاد آیا تو اس نے محاذ آرائی کا ارادہ گولڈی پر ظاہر کر دیا ۔ گولڈی سوچ میں ڈوب گئی اس نے چھوٹے کو اس کے مقصد سے غافل کرنے کی تمام تدبیریں کیں لیکن ناکام رہی ۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی ۔ ’’تمہیں تمہارا حصہ تو مل چکا ہے پھر کیوں جھگڑا کرنا چاہتے ہو ۔ وہ تمہیں مار ڈالیں گے ۔ ‘‘
’’حصہ۔۔۔۔۔کون سا حصہ مل گیا؟۔۔۔۔۔سیم نے مکمل خود مختاری کا وعدہ کیا تھا۔کیا ایسا ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ہم اب بھی مجبور کے مجبور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ جب چاہتے ہیں ہمیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔ایسے میں ان کا مقابلہ تو کرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنا حق چائیے۔ ‘‘چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر زبان سے بے حد مضبوطی کے ساتھ الفاظ ادا ہوئے تھے ۔
’’اف ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے خواہ تم سب قتل کر دیے جائو۔‘‘گولڈی کے جملے نے چھوٹے کو آگ بگولا کر دیا ۔
’’ہاں ہاں !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘
گولڈی چھوٹے کی دہکتی آنکھیں دیکھ کر خوفزدہ تو ہوئی مگر ہمت کرکے اس نے آخری حربہ استعمال کر ہی لیا ۔ ’’کیا تمہاری نظر میں اس عظیم المرتبت شہید کی مثال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ،جوانسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے خود اپنے حق سے دست بردار ہو گئے تھے ۔‘‘
گولڈی کی بات پر چھوٹا جھنجھلا گیا ۔ ’’نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ تم مجھے کمزور بنانے کی کوشش کر رہی ہو ۔ ‘‘چھوٹے کے لا شعور ی جملے سے گولڈی بری طرح بوکھلا گئی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو ۔
’’میں ۔۔۔۔نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا میں کیوں ؟‘‘
چھوٹے نے مسلم کے سامنے پہنچ کر اپنے ارادے ظاہر کیے تو مسلم نے اسے گلے لگا لیا ۔ دونوں محاذ آرائی کے لیے حکمت عملی تیار کرنے میں منہمک ہو گئے ۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اچانک ان کے گھروں پر آگ کی بارش شروع ہو گئی ۔ اس اچانک حملے سے مسلم اور اہل خانہ حیران و پریشان ہو گئے ۔ مشورہ کے بعد طے کیا گیا کہ فی الحال مقابلہ کرتے ہویے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوا جائے اور جب طاقت بڑھ جائے تب واپس لوٹ کرمقابلہ کیا جائے۔ برستی آگ اور گھپ اندھیرے میں مسلم کا قافلہ اونچے اونچے عجوبہ روزگار مقبروںوالی بستی کی طرف نکل پڑا۔دشمن برابر ان کا تعاقب کر رہا تھا ۔ تاریک راہوں کو پار کرتے ہوئے ایک زور دار چیخ سن کر قافلہ ٹھٹھک گیا ۔
’’چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم کی کانپتی آواز نے جیسے کافلہ پر بم پھوڑ دیا تھا ۔ مسلم نے چھوٹے کے جسم سے بہتے خون کو دیکھا اور اسے اپنے گھوڑے پر کھینچ لیا ۔
’’چلو تیزی سے چلو ۔۔۔۔دشمن قریب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔وقت برباد نہ کرو ۔۔۔۔۔آگے بڑھو۔‘‘
مسلم نے قافلے کو آگے بڑھنے کی ہدایت کی ۔مسلم کی آواز گونجی تو سبھی نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے ۔ دوڑتے دوڑتے اب وہ اس قدر دور نکل آئے تھے کہ دشمن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اب انھیں سنائی نہی دے رہی تھی ۔ دشمن نے یا تو ان کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا تھا یا پھر وہ بھٹک گئے تھے ۔ ممکن ہے کہ زمین پر دوبارہ قابض ہونے کے جشن میں ڈوب گئے ہوں ۔
مسلم نے آخری سانس لیتے چھوٹے کے بدبدانے کی آواز سنی۔’’گو۔۔۔۔۔۔۔۔لڈ۔۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔‘‘
تب مسلم نے قافلے کی طرف نگاہ دوڑائی ۔ اسے گولڈی کہیں دکھائی نہیں دی ۔ تو کیا وہ رات کی تاریکی میں ان سے الگ ہو گئی تھی ۔ کہیں وہ کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی جشن میں شریک ہونے تو نہیں چلی گئی ؟مسلم کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ بیٹے کو کیا جواب دے ۔ اسے یاد آرہا تھا کہ اس نے چھوٹے کو کتنا سمجھایا تھا کہ وہ دشمن کی چال میں نہ پھنسے ۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔

فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔

قافلہ اب ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا ۔ مسلم کے حکم پر یہیں خیمے نصب کر دیے گئے ۔ چھوٹے کی ہلاکت نے قافلے کو غم و غصے میں مبتلا کردیا تھا ۔ ان کی زمین ان سے چھینی جا چکی تھی ۔ انھیں بے گھر کیا جا چکا تھا ۔ یہاں تک کہ ان کے عزیزوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ۔ مسلم نے اہل خانہ کو رات کی تاریکی میں قندیلیں روشن کرتے دیکھا ۔ مسلم کو لگا کہ انھیں ابھی شکست نہیں ہوئی ہے ۔ قندیل کی روشنی میں اہل خانہ کے چہرے دمک رہے تھے ۔ اسے بڑی تقویت حاصل ہوئی ۔
مسلم نے ان کے درمیان پہنچ کر مشورہ طلب کیا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے ۔ دشمن نے ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کیا اور اس کا حشر سامنے تھا ۔ سیم کی غنڈہ گردی اور دشمن کی قبضے سے زمین کی آزادی کے لیے ، کیا حکمت عملی تیار کی جائے ۔وہ مسلسل غور و فکر کر رہے تھے لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ تبھی سہمے ہوئے نو نہالوں کے گروہ سے مسلم کے پوتے نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا ۔
’’وہ زمین ہمارا پشتینی حق ہے ہم نے اس کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں اور ہم اب بھی اس کے لیے ہر قربانی پیش کرنے کو تیار ہیں ۔ ‘‘

فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔

’’تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم تیار ہیں ۔‘‘تمام نو نہال ایک سر میں نعرے لگا رہے تھے دیکھتے دیکھتے سارا قافلہ ایک آواز میں بول اٹھا ۔ مسلم نے حکم دیا۔
’’ٹھیک ہے تو ہم واپس اپنی مٹی پر لوٹیں گے جہاں ہم پیدا ہوئے اور ہم ہی کیا ہمارے باپ دادا بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔‘‘قافلہ واپس لوٹ رہا تھا اور مسلم سوچ رہا تھا ۔ ’’تو دنیا گول ہے اور شاید ابھی تک ہم اس کے پیرا میٹر پر ہی رقص کر رہے ہیں لیکن ایک دن آئے گا جب کشش ثقل کی قوت ہمیں مرکز میں لے کر آئے گی ۔ اور وہ دن ضرورآئے گا۔‘‘

Majzoob A Short Story by Mubeen Nazeer

Articles

مجذوب

مبین نذیر

رٹائر مینٹ کے بعد  والد صاحب خود کو مصروف رکھنے کے لئے چھوٹا موٹا کاروبار کیا کرتے تھے..جو موسم کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا تھا… نومبر. دسمبر کا مہینہ چل رہا تھا سردی اپنے عروج پر تھی… اس کی مناسبت سے سردی کے لوازمات کی تجارت کا کام جاری تھا … میں بھی وقتاً فوقتاً دکان پر ڈیوٹی دیا کرتا تھا…
 دکان پر طرح طرح کے گاہکوں سے سابقہ پڑتا .. کوئی گاہک خوب مول بھاؤ کرنے کے بعد بھی سامان نہ خریدتا تو کوئی بغیر کسی لیت و لعل کے فوراً اپنی ضرورت کا سامان لے کر روانہ ہو جاتا… کبھی کوئی معذور آتا اپنی بپتا سناتا اور کم سے کم دام کا مطالبہ کرتا…. گداگر  بھی آتے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے اور اپنی پسند کا سامان مناسب داموں پر لے جاتے…
 ایک رات سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے میں دکان بند کرنے کی تیاری کر رہا تھا اسی وقت ایک لڑکی جو بوسیدہ نقاب لگائے، ہاتھ میں  چھڑی لیے پھرتی رہتی تھی ـ جسے لوگ نیم پاگل کہا کرتے تھے، گلی کوچوں میں اکثر گھومتی پھرتی نظر آتی تھی،  اکثر بچے اور نوعمر لڑکے تنگ کیا کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی تو بڑی عمر کے سمجھ دار افراد بھی ان میں شامل ہو جایا کرتے تھے لیکن وہ اللہ کی بندی کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتی ـ لوگوں کی تلخ و تُرش باتوں کو خاموشی سے سنتی. ان کی شرارتوں پر کسی رد عمل کا اظہار کئے بغیر اپنی راہ لیتی….. اگر کوئی بہت زیادہ ہی تنگ کرتا تو اپنا ہی اپنا رو دھوکر خاموش ہوجاتی…. دکان پر وارد ہوئی.بوسیدہ نقاب .دبلی پتلی، بکھرے ہوئے بال، بے رونق مگر پُراسرار آنکھیں… جذبات سے عاری سپاٹ لیکن  شاداب  چہرہ.. کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن کی خاموشی بھی  بہت سارے مقررین کی لچھے دار تقاریر سے بہتر اور پراثر ہوتی ہے ـ
آج اس کے سر پر نقاب کے اوپر کی چھتری نہیں تھی ـ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ آج چھتری شریر لڑکوں کی شرارت کی نذر ہوگئی ہے ـ اس لئے اس نے دوپٹے کا اپنے کانوں کو سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کے طور پر استعمال کیا تھا ـ چونکہ میں جلدی میں تھا میں نے نہایت بے رخی سے پوچھا کیا بات ہے؟ تو اس نے کان پٹی کی طرف اشارہ کیا… میں نے سوچا کہ یہ بے چاری تو قیمت دینے سے رہی،، اس لئے اسے بلا قیمت ہی دینا پڑے گا ـ میں جب کان پٹی نکال کر سے دینے کے لئے مڑا تو اس کے  سپاٹ چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ رقص کررہی تھی  ـ جس میں ہزار طرح کے رنگ  تھےـ جسے میں کوئی نام نہ دے سکا ـ میرے ہاتھ سے اس نے سامان لیا، الٹ پلٹ کر دیکھا ـ  دوپٹے کے اوپر سے ہی کان پٹی لپیٹ لی ـ  پھر یہ کان پٹی اس کی شخصیت کا ایک جزو لاینفک بن گئی ـ برقعے میں ہونے کے بعد بھی چھتری کے اوپر سے کان پٹی باندھے رہتی تھی ـ اس نے دکان پر ایک نظر ڈالی گویا ساری دکان کا جائزہ لے رہی ہو ـ اس کے بعد  ٹیبل پر چند سکے رکھے اور کان پٹی لے کر چلی گئی.. میں نے ان سکوں کو گنا…  نہ نفع ہوا نہ نقصان….
 پندرہ دن کے بعد سردی مزید بڑھ گئی ،  کام اچھا چل رہا تھا… وہ دوبارہ آئی. وہی پہلے کی سی حالت…  سردی کی زیادتی کے اثرات اس کے  چہرے سے عیاں تھے..  شادابی ندارد. اس نے  موزوں کا مطالبہ کیا..کام کی زیادتی کے باوجود میں نے اسے مختلف موزے دکھائے… اس نے ایک موزہ پسند کیا.. کچھ دیر بیٹھی سوچتی رہی… جیب سے مٹھی بھر ریزگاری نکال کر میرے حوالے کی اور چلتی بنی… پچھلا واقعہ مجھے یاد تھا .. میں نے ریزگاری گنی.. نہ نفع نہ نقصان… میں سوچ میں پڑ گیا… پہلا واقعہ اتفاقی ہو سکتا ہے لیکن اس مرتبہ ؟؟ میں ہفتوں اس کے متعلق سوچتا رہا… غور و فکر کرتا رہا..  اور اس کا انتظار کرتا رہا… ذہن اس کی پر اسرار شخصیت کی گھتی سلجھانے میں لگا رہا جو مزید الجھتی جا رہی تھی….
 جاڑے کا موسم قریب الختم تھا…. اس لئے سردی عروج پر تھی جس طرح چراغ کی لو بجھنے سے پہلے زور سے بھڑکتی ہے سردی بھی  جاتے جاتے سب کو رلا رہی تھی… میں اس کا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا… ایک شام سردی  بہت تھی، ہر طرف کہرا چھایا ہوا تھا..  جس کی وجہ سے سڑک پر آمد ورفت بہت کم تھی. وہ دکان کے سامنے سے گزری… موزہ اور دستانہ ندارد.    میں نے نوکر کو بھیج کر اسے بلایا…. وہ سردی سے کانپ رہی تھی… پیروں میں چپل بھی نہیں تھے ـ میں نے دریافت کیا تو کہنے لگی کہ محلے کے جوانوں نے چپل چھپا دی… اور بچوں نے کان پٹی پھاڑ دی .. میں نے اسے سردی سے بچنے کے لوازمات دینا چاہے.. وہ انکار کرتی رہی… میرے اصرار پر اس نے تمام سامان لے لیے… میں منتظر تھا کہ آج وہ ان کی قیمت کے متعلق کیا اقدام کرتی ہے؟دیکھوں… اس نے معنی خیز نظروں سے میری جانب دیکھا گویا میرے دل کی بات جان گئی ہو… اور بغیر دام دیئے ، تمام چیزیں لے کر چل دی…میں نے اس کے  تمام سامان کی اصل قیمت کا دل ہی دل میں اندازہ کرلیا تھا … ارادہ تھا کہ جب وہ قیمت ادا کرے گی اس سے بات کروں گا… مگر اس مرتبہ وہ چکمہ دے گئی… میں نے قیمت اپنی ڈائری میں نوٹ کرلی….
میں بدظن ہو گیا… پچھلے تمام خیالات ذہن سے جھٹک دئیے کہ یہ بھی  عام سی پاگل لڑکی ہے ـ میں خواہ مخواہ اس کے پیچھے سر کھپاتا رہا…. جب بھی اس کے متعلق سوچتا ہنسی آجاتی….
زندگی کی رنگینیوں میں یہ واقعہ بھی کہیں کھو گیا اور میں اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث اس حماقت کو بھی بھول گیا …
ایک دن جب میں دکان پر پہنچا تو نوکر نے مجھے کچھ رقم دی… میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہی نیم پاگل لڑکی دے گئی ہے اور تاخیر کے لئے معذرت کر گئی ہے… میرا جذبہ اشتیاق عروج پر تھا میں نے رقم گنی… ڈائری نکال کر چیک کیا…. میری حیرت کی انتہا نہ رہی…اس مرتبہ بھی نفع و نقصان کا پلڑا برابر تھا….
———————————————————

Firaq Ki Shairi by Prof. Siddiqur Rahman Kidwai

Articles

فراق کی شاعری میں عشق و وصل

صدیق الرحمن قدوائی

کسی تہذیب کی روایت جو تاریخ کی آزمائش سے گزرتی ہوئی مختلف نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہتے، تمام انقلابات کے باوجود مکمل طور پر فنا نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی ساتھ ترمیم اور تبدیلی کا عمل ضرور جاری رہتا ہے۔ شعوری طور پر بھی اورغیر شعوری سطح پر بھی۔ مگر اردو کے ادبی کلچر میں روایت کی جڑیں کچھ زیادہ ہی مضبوط ہیں۔ انحراف نکی کوششیں تو ہوتی رہتی ہیں۔ خصوصاً ہمارے زمانے میں تو اس کا دعویٰ بہت ہورہا ہے مگر اس کا اظہار سطح کے اوپر اوپر زیادہ نظر آتا ہے۔ معنی خیز اور دیرپا تبدیلیوں کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اور روایت اپنے گہرے سائے ساتھ ساتھ لیے ہوئے چلتی ہے۔ چنانچہ اردو والوں کے مزاج و مذاق کی تربیت میں غزل کا اثر عام طور پر ہر جگہ موجود ہے۔ اس سے نظر چرانے یا اس پر توبہ توبہ کرنے کی ’دانش ورانہ‘ اور ’نقادانہ‘ مشقتوں کے باوجود یہ ہے اور مدتوں رہے گا۔ اس کی بناء پر وہ سارے خطرات بھی ہیں جن کا بار بار ذکر ہوتا رہتا ہے اور وہ فائدے بھی ہیں جن کا پتہ ہمارے اچھے تخلیق کاروں کے کلام سے چلتا ہے۔ خطرہ اس وقت بالکل عیاں ہوجاتا ہے جب ہم ایک ’فارمولا نثر‘ اور ’فارمولہ شاعری‘ کو نہ صرف اپنے ہاں پنپتا ہوا بلکہ داد وصول کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ الفاظ، استعارات، تشبیہات، تلمیحات غرض کہ جو کچھ بھی موجود ہے انھیں جوڑ بٹور کر طرح طرح سے ترتیب دے دیجیے اور مشاعرہ لوٹ لیجیے۔ سننے والے یا پڑھنے والے کا تخیل و تصور خود بخود ہر لفظ کی مناسب تاویل اپنے بس بھر کرلیتا ہے یہ اس لیے مشکل نہیں کہ تصوف اور عشق نے تلازمات کی ایک پوری بھیڑ ہر لفظ کے پیچھے پیچھے لگادی ہے، جن سے دو تین صدیوں کے اندر ہم سب مانوس ہوگئے ہیں۔ اور یہ نہ ہو تو ایہام کا اپنا جادو بھی خوب چلتا ہے۔
مگر اس سے الگ اچھے فن کاروں نے ان ہی سب شعری وسائل کو کچھ اس طرح بھی برتا کہ وہی الفاظ پہلے جتنا کچھ کہتے تھے اس سے کچھ زیادہ ہی کہنے لگے۔ یعنی جانے بوجھے الفاظ میں نئی Spacesاور زیادہ گہرائیاں دریافت ہوگئیں۔ اور اسی بناء پر غزل کی روایت میں ہمیشہ ہر زمانے کی رعایت سے ایک ’عصریت‘ Con temporariness رہی جس نے اسے کبھی پرانا نہیں ہونے دیا۔ اور آج بھی اپنے خلاف تمام تنقیدی فیصلوں کے باوجود وہ ہمارے مجموعی تہذیبی اثاثے کا سب سے قیمتی، موثر اور مقبول حصہ ہے اور اس سطح کی شاعری سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ’عشق‘ محض ہماری لغت کا ایک لفظ نہیں بلکہ مشرق کی عہد بعہد ارتقاء پذیر تہذیب کے متعدد عناصر کا حامل ایک تصور ہے۔ اور جب چاہیں اسے نئی نئی معنیاتی صورتوں میں تبدیل کردیں۔ وہ رومی کی زبان میں ’’طبیب جملہ علت ہائے ما‘‘ لے کر اشخاص کے درمیان جنسی تعلق تک سب کچھ اندر سمیٹے ہوئے ہے وہ اقبال کے فلسفیانہ نظام میں بھی اسی طرح ٹھیک بیٹھ جاتا ہے جیسے فیض کے ہاں انقلاب کے تصور میں۔ غرضکہ اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کے زیر اثر تربیت پانے والا کوئی بھی شخص عشق سے بچ کر نہیں نکل سکا۔ فراق بھی ان ہی لوگوں میں ہیں۔ مگر ان کا عشق اور اسی کے سبب ان کا لمحۂ وصل بھی اوروں سے مختلف ہے۔ فراق کا زمانہ، ان کی ذات، ان کے مطالعے و مشاہدے انھیں اس منزل سے آسان گزرنے نہیں دیتے۔ غزل کی بنائی ہوئی صدیوں سے پلنے والی ذہنی و جذباتی فضا میں سانس لیتے رہنے کی بدولت ’’عشق‘‘ تو ان کے رگ و پے میں ضرور سرایت کرگیا۔ مگر وہ اس کے اس مفہوم سے مطمئن نہیں جو ان سے پہلے یا ان کے عہد کی غزل میں عام تھا۔ چنانچہ وہ اس کے ایک ایسے مفہوم کی تلاش میں ہیں جو فکر، جذبہ اور احساس کی ساری کائنات کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ وہ اپنے عشق کو بہ یک وقت حسیں اور تہہ دار بنانے کی تمنا میں اسے وسیع مگر اور زیادہ مبہم کرتے چلے جاتے ہیں۔ شاید ان کے ذہن کے گوشوں میں کہیں یہ بھی خواہش ہو کہ وہ اقبال سے آگے جاکر کسی جہان تازہ کا پتہ لگا آئیں۔مگر یہ سب ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ وہ کسی خاص فلسفیانہ نظام سے ربط و ضبط نہیں رکھتے۔ وہ بیسویں صدی کے ایک لبرل ذہن رکھنے والے حساس، ہوش مند انسان ہیں جو اپنی اور اپنے عہد کی زندگی کے عام تقاضوں اور مسئلوں کو خواہ وہ سیاسی و سماجی ہوں یا ذاتی معاملات کے پروردہ ہوں، رومانی تعبیرات کے ذریعے سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ شاعر ہیں اور غزل کے راستے فلسفہ، مذہب، سیاست اور اخلاقیات وغیرہ تک پہنچتے ہیں۔ فراق کے عشق میں وہ ساری خواہشات سما گئی ہیں جو ان کے زمانے ایک مہذب انسان کو عزیز ہیں۔ اس تصور کی شاعرانہ تعبیرات وہ طرح طرح سے کرتے ہیں، کہیں کہیں وجد آفریں اندا زمیں اور کہیں سپاٹ نثریت لیے ہوئے:
تاریخِ زندگی کے سمجھ کچھ محرکات
مجبور اتنی عشق کی بے چارگی نہیں

نگاہ اہل دل سے انقلاب آتے ہیں
یقیں رکھ عشق اتنا بے سروساماں نہیں ہوتا

امید و یاس، وفا و جفا، فراق و وصال
مسائل عشق کے ان کے سوا کچھ اور بھی ہیں

رفتہ رفتہ عشق مانوسِ جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے عشق میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
فراق کے ابتدائی کلام میں اساتذہ کے رنگ کا گہرا اثر ہے، مگر رفتہ رفتہ وہ اس سے نکلتے ہیں اور پھر اسی زور میں وہ زبان، عروض اور اردو شعریات کے مانوس اصولوں کی توڑ پھوڑ کرنے لگتے ہیں۔ طویل غزلیں کہنے، بعض مصرعوں کو مختلف غزلوں میں دہراتے رہنے اور ایک ایک بات کا بار بار کہتے رہنے کی عادت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ ان کی تکمیل Perfectionکی تلاش ہے جو کہیں کام آتی ہے اور کہیں ناکام ہوجاتی ہے۔ فراق نے صوفیوں کے عشق کی سپردگی، اقبال کے عشق کے تحرک اور قوت نمو اور عام جنسی عشق کے بھرپور لذت انگیز اضطرار سب کو یکجا کرنا چاہا جو وہ نہ کرسکے مگر اس خواہش سے کچھ ایسے شرارے اٹھے جو ان کی شاعری میں ہر طرف دوڑتے ہوئے ملتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب ان کا عشق انھیں وصل کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
وصل کی اصل اساس کو متحرک کرنے والیب ۔۔۔۔ ہے جس کی وجہ سے اس کے جلو میں آنے والی لذت کی تمنا جسم و جاں میں سرایت کر جاتی ہے مگر یہ وصل محض دو جسموں کے ملاپ کی سہل نہیں۔ یہاں غالب کا شعر یاد آتا ہے:
ہمارے ذہن میں اس فکر ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو!
بات کو بہ یک وقت سلجھانے اور الجھانے سے احساس بھی اس دام میںہمیشہ کے لیے گرفتار ہوجاتا ہے اور اسی میں ساری لذتیں ہیں۔ خیر یہ تو معاملہ ہوا غالب کا ، ذکر تو ان کا نہ تھا مگر ایسی باتیں ان کے بغیر بھی کیسے ہوسکتی ہیں۔ ان جیسوں کا ذکر کہیں بھی ٓٓآئے جملۂ معترضہ نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً ایک ایسے کے تعلق سے جسے وہ پہلے ہی جگمگا گئے ہیں۔ یہی گوشہ بیسویں صدی کے شاعروں میں ہمیں فراق کے ہاں سب سے زیادہ روشن اور نیا نیا سا لگتا ہے۔ زمانہ گزر گیا جب پہلی بار ان کا یہ شعر پڑھا تھا:
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے آجانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
مگر اس نے جس عالم حیرت میں پہنچایا اسی کے اندر ایک جہت سے دوسری جہت تک ڈولتے پھرنے میں جو لطف آج بھی آتا ہے اس کا اظہار ممکن نہیں۔ اسی طرح کے اشعار جو نئی نئی کیفیتیں پیدا کرتے ہیں اور احساس پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں انھیں بیان کرنے کی کوشش ان لذتوں کا خون کرنے کے سوا کچھ نہی، مگر اس شعر کی بدولت فراق کی شاعری کے محض ایک پہلو کی طرف دل و دماغ کچھ اس طرح متوجہ ہوا کہ اس جیسے دوسرے اشعار پر بھی نظر ٹھہرتی چلی گئی اور پھر ایسا لگا کہ وہ محض کوئی آتی جاتی کیفیت نہیں ہوگی جس نے فراق سے یہ شعر کہلوایا بلکہ ان کا احساس انھیں ایک مخصوص سطح پر بار بار لے جاتا ہے جہاں یہ کیفیت ان سے جدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ اس طرح کے سب اشعار باہم مل کر ہم آہنگ احساسات و جذبات کی ایک اکائی تشکیل کرتے ہیں۔
وصل یہاں محض محبوب سے ہمکنار ہونا نہیں بلکہ ابدی ناآسودگی اور لازوال تشنگی کو اور اجاگر کرنے والا لمحہ ہے۔ اب محبوب سے مل کر سارے غم دور نہیں ہوتے بلکہ ایک نیا اور پہلے سے زیادہ گھلا دینے والا دکھ نس میں اتر جاتا ہے۔ یہا ں عاشق کی ذات محبوب سے مل کراداسیوں میں ڈوب جاتی ہے اور وصل تنہائی کا مداوا کرنے کی بجائے تنہائی کے احساس کو اور زیادہ گہرا کردیتا ہے:
بتائیں کیا دل غمگین اداس کتنا تھا
کہ آج توع نگہِ ناز نے بھی سمجھایا

فضا تبسمِ صبحِ بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی
فراق کے محبوب کی ذات اردو شاعری کے روایتی محبوب کے ناقابل شناخت وجود سے بھی مختلف ہے۔ یہاں محبوب کا ایک آزادانہ وجود ہے، وہ محض عاشق کا خواب نہیں بلکہ اس کے ہاں بھی جذبہ و احساس کی ایک دنیا ہے جسے پانے کی خواہش عشق کو عام انسانی رشتوں کے مقابلے میں زیادہ دلکش بنادیتی ہے اور پیچیدہ بھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ لمحۂ وصل بھی عشق کی تکمیل کا لمحہ نہیں ہوسکتا:
عشق اگر ایسے سے ہوجائے تو کیا کیجیے فراق
جس کو کھو کر جاں بلب ہوں جس کو پا کر جی بھر آئے

ہم آغوشی بھی چٹکی سی لیے جاتی ہے سینے میں
کہ یہ ارمان بھی نکلا ہوا ارماں نہیں ہوتا
وصل یہاں آنے والی تنہائیوں کا پیغام ہے اور وصل کی گھڑی پر بھی ہجر کے سائے منڈلاتے ہیں، جس کا انتظار تھا وہ جب آیا تو وہ شاعر کی جذباتی دنیا سے مختلف نہیں بلکہ اسی جیسا ہے۔ شاید عشق ہے بھی اسی کیفیت کا نام جب دو وجود باہم اس قدر قریب ہوجائیں کہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ میں شامل ہوکر اور زیادہ اداس ہوجائیں۔ فراق کے ہاں وصل تمام جسمانی لذتوں اور سرمستیوں کے ساتھ ہوتا ہے جس کی سب سے اچھی مثالیں روپ میں ملتی ہیں۔ لمس کی لذتوں سے بھرپور اشعار اور رباعیاں اس کے بغیر وجود میں نہیں آسکتیں تھیں، مگر یہ انتہا نہیں۔
تجھے تو ہاتھ لگایا ہے بارہا لیکن
ترے خیال کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں

ترا وصال بڑی چیز ہے مگر اے دوست
وصال کو مری دنیائے آرزو نہ بنا

کہاں وہ خلوتیں دن رات کی اور اب یہ عالم ہے
کہ جب ملتے ہیں دل کہتا ہے کوئی تیسرا بھی ہو

عجب کیا کھوئے کھوئے سے جو رہتے ہیں ترے آگے
ہمارے درمیاں اے دوست لاکھوں خواب ہائل ہیں

اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی
اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

حسن کو ایک حسن ہی سمجھے نہ ہم اور اے فراق
مہرباں نامہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اور پھر آدھی رات والی نظم اپنے ہالے میں زمین و آسمان کے سارے حسن اور سارے کرب کو سمیٹے ہوئے آخر تک پہنچتی ہے تو فراق درد و لذت کے سارے تلاطم کو یوں ہمکنار کرلیتے ہیں:
اب آؤ میرے کلیجے سے لگ کے سوجاؤ
٭٭

Tanqeedi Tahrireen by Ahmed Sohail

Articles

تنقیدی تحریریں ۔۔۔۔ احمد سہیل

Shibli Ka Nazarya E Shairi

Articles

شبلی کا نظریۂ شاعری

ڈاکٹر پرویز احمداعظمی

شبلیؔ نعمانی کی شخصیت اردو ادب میں ناقد،شاعر، مورخ، سوانح نگار اورسیرت نگار کی حیثیت سے مسلم اور لاثانی ہے ۔ ان کے شعر اور شاعری سے متعلق نظریات و افکار ’شعرالعجم‘ اور’ موازنۂ انیس و دبیر‘ کے علاوہ ان کے مختلف مضامین میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن اتنی بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کو شاعری، اس کے فنی لوازمات اوراس کی تنقید سے خاص انسیت رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے نظریاتِ شاعری اور اس کے دیگرامورسے متعلق اپنے خیالات کوتفصیل اور توضیح کے ساتھ ’’شعرالعجم‘‘ میں پیش کیا بلکہ عملی تنقید کے نمونے بھی ’’ موازنۂ انیس و دبیر‘‘ میں پیش کیے۔ شبلیؔ نے ’’موازنے ‘‘میں مرثیہ نگاری کے فن پر اصولی بحث کے علاوہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ ، مبالغہ، روز مرہ اور محاورہ اور دیگر شعری محاسن کی تعریف و توضیح اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی ہے، جن سے ہمیں ان کے شعری شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شبلیؔ کے نظریۂ شاعری اور شعری تنقید کو سمجھنے کے لیے ان کی مذکورہ دونوں کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔
انہوں نے ’’شعرالعجم‘‘ کی پہلی جلدمیں ’شعر کی حقیقت‘ ،’ شاعری کے متعلق ارسطو اور مِل کی رائیں‘ اور چوتھی جلدمیں ’شاعری کی حقیقت‘،’ شاعری کے اصلی عناصر‘، ’محاکات‘،’ تخیل‘، ’حسنِ الفاظ‘ اور لفظوں کی نوعیتوں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی یہ تصنیف خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے کہ اسی میں انہوں نے اردو شاعری کے تعلق سے اپنی گراں قدر آرأ کا اظہار کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو شاعری کی شعریات کو سمجھنے کے لیے حالیؔ اور شبلیؔ کی آرأ اور کتابیں اردو ادب میں نوادر کی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ انہیں دونوں اکابرین نے اردو شاعری کی شعریات کے اصول و ضوابط طئے کرنے کی ابتدائی کوششیں کی ہیں۔
در اصل شعرالعجم شبلیؔ کی وہ کتاب ہے،جس میں انہوں نے اپنے شاعری اور امورِ شاعری سے متعلق خیالات ؛مطالعے ، مشاہدے اور تجربے کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی حتی المقدور سعی کی ہے۔ شاعری کے اصلی عناصر، تاریخ اور شعر کا فرق، شاعری اور واقعہ نگاری کا فرق جیسے مسائل پر مدلل بحث کی ہے تاکہ شاعری کے جملہ معاملات واضح ہو جائیں۔ اس کے لیے وہ لفظ اور معنیٰ کی بھی بحث کرتے ہیں اور ان کی مختلف نوعیتوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ شاعری کو ذوقی اور وجدانی شے کہتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ شاعری کی جامع تعریف پیش کرنا آسان نہیں لہٰذا وہ مختلف انداز سے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:
’’ شاعری چونکہ وجدانی اور ذوقی چیز ہے، اس لئے اس کی جامع و مانع تعریف چند الفاظ میں نہیں کی جا سکتی اِس بنا پر مختلف طریقوں سے اس کی حقیقت کا سمجھانا زیادہ مفید ہوگا کہ ان سب کے مجموعہ سے شاعری کا ایک صحیح نقشہ پیش نظر ہو جائے۔‘‘ ۱؎
شاعری کی حتمی تعریف چند لفظوں میں بیان کرنا واقعتاً مشکل ہے۔ اس لیے شبلیؔ نے حتمی تعریف کے بجائے مختلف مثالوں سے اس کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے ۔ اس کے بعد وہ ادراک اور احساس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ خدا نے انسان کو مختلف اعضا اور مختلف قوتیں دی ہیں۔۔۔ان میں سے دو قوتیں تمام افعال اور ارادات کا سر چشمہ ہیں، ادراک اور احساس، ادراک کا کام اشیا کا معلوم کرنا اور استدلال اور استنباط سے کام لینا ہے۔ ہر قسم کی ایجادات ، تحقیقات ، انکشافات اور تمام علوم و فنون اسی کے نتائج عمل ہیں۔
احساس کا کام کسی چیز کا ادراک کرنا ، یا کسی مسئلے کا حل کرنا، یا کسی بات پر غور کرنا اور سوچنا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب کوئی موثر واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے، غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے، خوشی کی حالت میں سرور ہوتا ہے، حیرت انگیز بات پر تعجب ہوتا ہے، یہی قوت جس کو انفعال یا فیلنگ سے تعبیر کر سکتے ہیں شاعری کا دوسرا نام ہے، یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے،‘‘ ۲؎
علامہ شبلیؔ کے شاعری سے متعلق یہ بنیادی خیالات ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں ، جس کے باعث اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ان کے نزدیک حیوانات پر جب کوئی جذبہ طاری ہوتا ہے تو وہ متفرق حرکتوں یا آوازوں سے اس کاا ظہار کرتے ہیں جو’ شیر کو گرجنے ، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے ، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے‘ پر مجبور کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان پر کوئی جذبہ طاری ہوتا ہے تو اس کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعری میں جذبات اور کیفیت کی اہمیت کے خاصے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
’’جو جذبات الفاظ کے ذریعے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔۔۔شعر کی تعریف یوں بھی کر سکتے ہیںکہ جو کلام انسانی جذبات کو بر انگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے،‘‘ ۳؎
شبلی کا کہنا ہے کہ شاعری کا کام جذبات کو تحرک دینا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خیالات کو مزید واضح کرتے ہیں ۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ تمام عالم ایک شعر ہے۔ زندگی میں ہر جگہ شاعری بکھری پڑی ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے۔ وہ ایک یوروپین مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’ ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے، شعر ہے ۔ اس بناپر فلک نیلگوں ، نجمِ درافشاں ، نسیم سحر، گلگونۂ شفق، تبسمِ گل، خرامِ صبا، نالۂ بلبل، ویرانیِ دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے۔۔۔جو چیزیں دل پر اثر کرتی ہیں، بہت سی ہیں، موسیقی، مصوری، صنعت گری وغیرہ لیکن شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے،‘‘ ۴؎
فنون لطیفہ کا ذکر اور ان کا تقابل کرتے ہوئے وہ کہتے ہیںکہ شاعری دیگر فنون کے مقابلے بہتر ہے کیوں کہ شاعر ان کیفیات کی بھی تصویر کشی کر سکتا ہے، جن کی پیش کش مصور اوربت تراش نہیں کر سکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ساری زندگی میں شعریت پائی جاتی ہے ۔ قدرتی مناظر، صبح کی دل آویزیاور شام کا دل کش سماں، ان سب میں ایک مسحور کن کیفیت ہوتی ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شبلیؔ کے نظریاتِ شاعری، شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید عبداللہ ’’اشاراتِ تنقید‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ شبلیؔ نے اصناف شعر کی بھی تجزیاتی بحث کی ہے ۔ اور کئی امور میں حالی سے آگے بڑھ گئے ہیں۔۔۔شعرالعجم اور موازنہ انیس و دبیر کی تشریحات ذوق کے لیے یوں ہیں’’گویا دبستان کھل گیا‘‘۔۔۔یہ تو ظاہر ہے کہ شبلیؔ کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطۂ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج ، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکائو رکھتا ہے۔‘‘ ۵؎
مذکورہ اقتباس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شبلی کے بارے میں اس طرح کی رائے کئی ناقدین کی ہے کہ وہ جمالیاتی اور تاثراتی نقاد ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم لیکن وہ فن کی خوبیوں اور خامیوں دونوں پر برابر نگاہ رکھتے ہیں۔ ’موازنے ‘میں، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صرف میر انیس کی شاعری کی تعریف کے لیے یہ کتاب لکھی، اس میں بھی انہوں نے میر انیس کی شاعری کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔
شبلیؔ کے نزدیک شاعری تمام فنون ِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً: موسیقی ، مصوری ، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعری کے سلسلے میں وہ محاکات کا ذکر کرتے ہیں اور پھراس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ محاکات کے معنیٰ کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگرچہ مادی اشیا کے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ ۔۔تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں۔‘‘ ۶؎
وہ صرف محاکات کی تعریف ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ محاکات کن کن چیزوں سے قائم ہوتی ہے ۔اس کی بھی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تخیل ، جدت ادا اورالفاظ کی نوعیت ، کیفیت اور اثر کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک لفظ جسم ہیں اور مضمون روح ہے۔ اس مسئلے پر اہل فن کے دو گروہ ہیں ایک لفظ کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا معنیٰ کو۔ شبلیؔ کا زور لفظ پر زیادہ ہے۔ لفظ اور معنی کی بحث میں لفظوں کی اقسام اور ان کی نوعیت کی صراحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
’’الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں، بعض نازک ، لطیف، شستہ، صاف، رواں اور شیریں اور بعض پر شوکت، متین، بلند، پہلی قسم کے الفاظ عشق و محبت کے مضامین ادا کرنے کے لیے موزوں ہیں، عشق اور محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں، اس لیے ان کے ادا کرنے کے لیے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہییں،‘‘ ۷؎
لفظ اور معنیٰ کی بحث نہایت دلچسپ ہے۔ فصیح اورمانوس الفاظ کا اثر، سادگی ادا، جملوں کے اجزا کی ترکیب پر اپنی آرأ کا اظہار کرتے ہوئے شبلیؔ اس کے اثر کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ، یہ ہے کہ خیال یا مضمون کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اگر لفظ عمدہ نہیں ہوں گے تو خیال کا اثر جاتا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال کی عمدگی کے ساتھ ساتھ الفاظ کا عمدہ ہونا بھی ضروری ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کہ شبلیؔ کا نقطۂ نظر تاثراتی اور جمالیاتی ہے، کو مضائقہ نہیں لیکن ان کی نگاہ شاعری کی دوسری خوبیوں پر بھی رہتی ہے ۔ موازنۂ انیس و دبیر میں انہوں نے شعری صنعتوں کی جس طرح تشریح پیش کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے کہ جس صنعت کے ضمن میں انہوں نے جو شعر نقل کیے ہیں ۔ وہی شعر اکثر کتابوں میں نقل کیے گئے ہیںیعنی چراغ سے چراغ جلانے کا کام ہوا ہے۔
اردو شاعری کی نظریاتی بحث ، اسے پرکھنے، پرکھنے کے لیے کسوٹی تیار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور مثلاً: لفظ و معنیٰ، محاکات، تخیل، جدت ادا، بداعت اسلوب وغیرہ کی اہمیت اور شعری محاسن کے بارے میں جس طرح سے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ آج بھی ہمارے لیے بیش بہا خزانے کی مانند ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حالیؔ اور شبلیؔ کی نظریاتی بحث نے ہی اردو شاعری کو ایک مثبت سمت عطا کی اور شاعری کو کلی طور سے پرکھنے کا کام شروع ہوا۔اسی لیے اردو شاعری کی نظریاتی بحث کے سلسلے میں حالیؔ اور شبلیؔ نہایت اہم ہیں۔ انہیں دونوں اکابرین کی بدولت اردو شاعری کی تنقید اور چھان پھٹک کا چراغ روشن سے روشن تر ہوا۔
حواشی
۱؎ شعر العجم، جلد چہارم، ص: ۱
۲؎ ایضاً، ص: ۲۔۱
۳؎ ایضاً، ص:۲
۴؎ ایضاً، ۳۔۲
۵؎ اشاراتِ تنقید، ص: ۲۸۹۔۲۸۸
۶؎ شعر العجم، جلد چہارم، ص: ۶
۷؎ شعر العجم، جلد چہارم، ص: ۶
کتابیات
۱؎سید عبداللہ(ڈاکٹر)، اشارات تنقید،
۲؎شبلی نعمانی ، شعرالعجم، جلد اول، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ۱۹۷۲ (طبع ششم)
۳؎شبلی نعمانی ، شعرالعجم، جلد چہارم، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ناقص الاول
۴؎شبلی نعمانی ، موازنۂ انیس و دبیر، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، ۲۰۰۴
٭٭٭
مشمولہ ششماہی ’’اردو نامہ‘‘ شمارہ 9 ص:200تا 207

 

Urdu Channel Issue No. 4

Articles

اردو چینل شمارہ نمبر ۴

قمر صدیقی

Deepti Mishra ki Shairi by Qasim Imam

Articles

دیپتی مشرا کی شاعری ۔۔۔۔ تقریر : قاسم امام

قاسم امام

Adab Aur Awami Zaraye Tarseel by Md. Mohsin Raza

Articles

ادب اور عوامی ذرائع ترسیل

محمد محسن رضا

ادب میں ادیب اور قاری کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کا مسئلہ ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ مگر آج کے اطلاعاتی، صنعتی اورجدید ٹکنالوجی کے دور میں خود ادب کی شناخت اور اس کا وجود ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے جس کو شمیم حنفی نے اپنے ایک مضمون ’’اردو ادب کی موجودہ صورت حال‘‘ میں اشوک باجپئی کے اداریے کے حوالے سے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
’’خبر ادھر عرصے سے یہ پھیلتی رہی ہے کہ اکیسویں صدی میں ادب اور زبانوں کا خاتمہ قریب ہے۔ جو نیا اطلاعاتی سماج بنے گا، جسے علم پر مبنی سماج بھی کہاجاسکتا ہے، اپنے لیے ایک عالمی زبان گڑھے گا اور اس میں تخلیقیت کا اظہار ادب سے مناسبت رکھنے والے روایتی وسیلے کے بجائے کسی زیادہ مستقبل شناس کا انتخاب کرے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کتاب نامی انقلابی ایجاد کی موت کا وقت آگیا ہے۔ـ‘‘
سائنس و ٹیکنالوجی نے زندگی اور سماج کے ہر شعبے کو بے حد متاثر کیا ہے اور ان پر اس کے مثبت و منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ صنعتی ترقی و جدید سائنسی ایجادات و انکشافات نے انسان کو ایک طرح سے ماضی و مستقبل کے دوراہے پرلا کھڑاکیا ہے جہاں ایک طرف اپنے ماضی اور اپنی تہذیب و ثقافت سے بچھڑنے کا درد و غم ستا رہا ہے تو دوسری طرف مادی ترقی، خوش حال زندگی اور روشن مستقبل کی خواہش بھی سر اٹھا رہی ہے۔ اور انسان اسی دوراہے پر کھڑا ماضی و مستقبل کے پیچ و خم میں الجھ کر کشمکش بھری زندگی گذارنے پرمجبور ہے۔ وہ ان دونوں میں توازن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ انسانوں کے اندر یہ کیفیت پیدا کرنے میں جدید سائنسی ایجادات و انکشافات اور غیر متوازن صنعتی و معاشی ترقی کا رول سب سے اہم اور زیادہ ہے۔ جس میں عوامی ذرائع ترسیل خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا شامل ہیں۔
ادب لفظوں کے ذریعہ حسن ترتیب و تنظیم کے ساتھ جذبات و احساسات اورافکار و خیالات کے اظہار کا نام ہے۔ ادب سماج کا پروردہ بھی ہوتا ہے اور سماج کا رہنما اور پیش رو بھی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو نہ ’’انگارے‘‘ کو ضبط کیا جاتا اور نہ ’’سوز وطن‘‘ کو۔ اور نہ ہی ہٹلر کے ذریعہ جرمنی کے ادب کا معیار متعین کیا جاتا یہاںتک کہ افلاطون بھی شاعری کو ملک بدر نہیں کر پاتا۔ بہرکیف، ادب فکر و فن کے مجموعے کا نام ہے جس میں ایک کو جسم اور دوسرے کو اس کی روح قرار دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک واقعہ اگرکوئی رپورٹر بیان کر رہا ہے تو وہ واقعہ خبر ہے، اور وہی واقعہ اگر کسی فنکار کا موضوع بن جائے تو ادبی شاہکار ہے۔ ادب میں فکر و فن دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔ ادب کا مقصدکیا ہے اور کیا ہونا چاہیے قطع نظر اس سے ادب اپنے مقصد سے اسی وقت ہم آہنگ ہو سکتا ہے جب اس کی ترسیل ممکن ہو۔
تحریر کے وجودمیں آنے سے قبل انسان اشاروں کے ذریعہ یا مکمل زبانی بول کر ابلاغ و ترسیل کا کام انجام دیتا رہا اور اپنے جذبات و احساسات اور خیالات و تجربات کو ایک دوسرے سے شیئر کر تا رہا۔ پھر حروف، الفاظ اور رسم الخط کے وجود میں آنے کے بعد تحریری ترسیل کا دور شروع ہوا۔ یہ تحریری ترسیل اشاراتی اور زبانی ابلاغ و ترسیل پر بہت جلد حاوی ہوگئی اور ایک عرصۂ دراز تک ذرائع ابلاغ پر اپنی بالادستی قائم رکھی۔ اس تحریری ترسیل کی بالادستی کو سب سے پہلے طباعتی ترسیل نے متاثر کیا جس کا دور تقریباً 1500ء سے 1900ء تک ہے جس میں چھاپہ خانے کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ پھر میڈیا اور صحافت کا دور شروع ہوا جس میں پرنٹ میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے تحریری ترسیل کی بالادستی تقریباً ختم کردی اور عوامی ذرائع ترسیل و ابلاغ میں سر فہرست آگئی۔
عوامی ذرائع ترسیل سے مراد ابلاغ و ترسیل کے وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعہ عوام و خواص بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کے خیالات و نظریات، جذبات و احساسات اور واقعات و حادثات سے آگہی حاصل کرتے ہیں، اسے ماس میڈیا اور پاپولر کلچر بھی کہاجاتا ہے۔ اس میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں شامل ہیں۔
عوامی ترسیل و ابلاغ ایک دوطرفہ عمل ہے اس کے مثبت پہلو ہیں تو منفی اثرات بھی ہیں۔ یہ ایک دو دھاری ہتھیار کے مانند ہے جس کا استعمال ایک طرف سماجی، معاشی ترقی کو تیز کرنے اور آزادی و جمہوریت کے آفاق کو وسعت دینے کے ساتھ بین الاقوامی ربط و ضبط اور اپنے وقار کو قائم کرنے کے لیے کیا جاسکتا ہے تو دوسری طرف آزادی کو کچلنے، جمہوری نظام کی جڑیں اکھاڑنے، ملک اور اقوام کے درمیان نفرت و دشمنی پیدا کرنے اور عوام کو کسی خاص رجحان یا نظریے کی طرف مائل کرنے کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل سے جہاں علوم و فنون، سائنس اور تعلیم و تفریح کے وافر سامان مہیا ہو رہے ہیں۔ وہیں یہ انسانی جذبات و احساسات اور فکر و خیالات کو بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر متاثر کر رہی ہے۔ جس میں ادب بھی شامل ہے۔
آج ہم جس دور میں اور جس سماج میں زندگی بسر کر رہے ہیں اسے اطلاعی سماج کا دور کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ زندگی اور سماج کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو انفارمیشن ٹکنالوجی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ اخبارات، رسائل، اشتہارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، کیسٹ، سیٹلائٹ اور انٹرنیٹ نے ترسیل و ابلاغ کی دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے دنیا میں نشریات کا ایسا جال بچھا دیا ہے کہ وسیع و عریض دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
زندگی کے ہر شعبے کی طرح ادب پر بھی جدید عوامی ذرائع ترسیل کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ ماس میڈیا ادب کے فروغ میں نمایاںکردار ادا کر رہا ہے۔ اس نے ادب کو درباروں اور مجلسوں کی چہار دیواری سے نکال کر عوام کے گھروں میں داخل کر دیا۔ آج سینکڑوں اخبارات، ادبی رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، سوشل سائٹسsocial sitesکے ذریعہ بھی ادب کو فروغ مل رہا ہے اور انٹرنیٹ نے تو ان سب کو یکجا کر کے عوام کی رسائی کو مزید آسان کر دیا ہے۔ ان کی مدد سے ادبی تخلیقات عوام تک بآسانی پہنچ رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ادب کے قارئین کی تعداد میںبھی آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اضافہ ادب کی تخلیق میں اضافے کا سبب بن چکا ہے۔ یہ عوامی ذرائع کی مدد سے ادب کے فروغ کا مثبت پہلو ہے۔
بلاشبہ ادب کی نشرو اشاعت میں عوامی ذرائع ابلاغ و ترسیل کلیدی رول ادا کر رہا ہے اور اس سے زبان و ادب کا ارتقا ہو رہا ہے اگرچہ ان کا بنیادی مقصد ادب کی ترویج و اشاعت نہیں ہے پھر بھی ضمناً ادب کا فروغ ہو رہا ہے مگر فائدہ سے کہیں زیادہ ادب کا نقصان ہو رہا ہے، کئی زاویے سے ادب پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ادب کی روح مجروح ہو رہی ہے اور سنجیدہ ادب اور قارئین کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔
جدید عوامی ذرائع ترسیل نے نہ صرف ادب کی روح کو متاثر کیا ہے بلکہ ہمارے جذبات و احساسات کو بھی کچل کر رکھ دیا ہے۔ آج بھی کفن، اپنے دکھ مجھے دے دو، ہتک جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ بدھیا، سوگندھی، کالوبھنگی، اندو، سکینہ جیسے کردار بھی ہیں اور ان پر کہانیاں بھی لکھی جاتی ہیں مگر ان میں جذبات و احساسات کی وہ شدت نہیں ملتی جو ہمیں متاثر کرسکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کے واقعات و حادثات سے عوامی ذرائع ترسیل کی مدد سے ہر روز ہمارا سابقہ پڑتا ہے اس طرح کے واقعات بلکہ کوئی بھی واقعہ اب ہمارے لیے بہت زیادہ اہمیت نہیںرکھتا ہے۔ چوری، ڈکیتی، قتل، ظلم، استحصال، ناانصافی یہ سب عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے یہ ہمارے قوت احساس کو نہیں جگا سکتے۔ یہ اس وقت کے ادب میںبھی ہو تو ایک خبر کے سوا کچھ نہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم ہے۔
جدید ذرائع ترسیل نے ہماری ذہنی و فکری آزادی کو غلام بنا کر ادب کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہمارے حال و مستقبل بلکہ روزمرہ کی معمولات کا بھی فیصلہ ماس میڈیا کرتا ہے کہ ہم کیا سوچیں، کیا دیکھیں، کیا کھائیں، کیا پہنیں، کیا خریدیں، کیا پسند کریں، کیا ناپسند کریں، کیا پڑھیں، کیانہ پڑھیں وغیرہ۔ اس میں بھی سیاسی نظام کا اہم رول ہوتا ہے۔ یہ ہمیں بلا واسطہ اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے اور بالواسطہ ماس میڈیا کی مدد سے ہماری رائے کی نوعیت کا فیصلہ خود کرتا ہے۔ یہ ذہنی و فکری غلامی بنام آزادی ادب اور ادیب دونوں کے لیے مہلک ہے۔ یہ برسراقتدار طبقہ میڈیا پر جن کا کنٹرول ہے ادیب کو ایک طرف یا تو صرف تفریح نگار بنا دیتے ہیں یا دوسری طرف محض پرچارک، جو کسی سیاسی پارٹی کی ہر آن بدلتی ہوئی پالیسی کے مطابق اپنی تحریر بدل سکے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ جبر ادب پیدا نہیں کرسکتا، جب تک ادیب بے ساختگی سے آزادی سے نہیں لکھتا ادبی تخلیق ناممکن ہے۔ ادبی تخلیق کو ذہنی ایمانداری سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تخیل قید میں بار آور نہیں ہوسکتا۔ جب ذہنی آزادی فنا ہوجاتی ہے تو بقول ممتاز شیریں ’’ادب مرجاتا ہے۔‘‘
عوامی ذرائع ابلاغ و ترسیل کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں چوتھے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بالواسطہ یا بلا واسطہ برسر اقتدار طبقے کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اور ان کی پالیسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں خود غیر جانب دار ہوتے ہوئے بھی جانبداری کا ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ ہم ان سے ادب کی آفاقیت اور غیر جانبدارانہ رویے کو برقرار رکھنے کی امید رکھیں۔ ان کا بنیادی مقصد تجارت و معیشت ہے اور یہ اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب ان کے قارئین، ناظرین اور سامعین کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اس لیے وہ اپنی ادبی تخلیقات کو قابل نشر و اشاعت سمجھتے ہیں جو ان کے مقصد کے حصول میں معاون ہوں۔ جس سے نہ صرف ادیب و قاری کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات متاثر ہوتے ہیں بلکہ زبان و اسلوب بھی متاثر ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جدید عوامی ذرائع ترسیل ادبی تخلیقات کی ترسیل و ابلاغ میں معاون ضرور ہیں مگر یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ کیا ادب کے فروغ میں بھی معاون ہیں؟
_______________
MD MOHSIN RAZA
126. JELUM HOSTEL JNU, NEW DELHI
E. Mail ID.mohsinrazajnu@gmail.com
Mob.no. 8506928945
کتابیات:
(1) دیویندر اسر۔ ادب کی آبرو۔سنجو آفسیٹ پرنٹرز کرشن نگر، دہلی۔ 1996ء
(2) محمد خاور نوازش۔ (مرتب) ادب، زندگی اور سیاست۔ مثال پبلشرز، فیصل آباد۔ 2012ء
(3) دیویندر اسر۔ عوامی ذرائع ابلاغ، ترسیل اور تعمیر و ترقی۔ (مترجم ) شاہد پرویز۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،د ہلی۔ 2002ء