AinoN Bhara Kamra A Short Stories by Afzal Ansari

Articles

آئینوں بھرا کمرہ

افضال انصاری

“ٹیکسی……”
اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی اور اس کے پیر کا دباؤ بریک پر بڑھ گیا، اس نے ٹیکسی روکی اور ونڈو سے باہر جھانکتے ہوئے پوچھا…
“کہاں جانا ہے؟ “
وہ تین نوجوان تھے، اسے دیکھتے ہی پہلے ان کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے اور پھر زیرِ لب مسکراہٹ… کیوں… کیونکہ اس کا نام شردّھا تھا اور وہ ایک عورت تھی..
دن بھر میں اس طرح کے دسیوں واقعات ہوتے تھے اور اب وہ ان نظروں اور چہروں کی عادی ہو چکی تھی – اس نے ان تینوں کو گلیکسی سنیما کے باہر اتارا اور آگے بڑھ گئی –
یہ آج کی اس کی آخری ٹرپ تھی، اب اسے سیدھا گھر جانا تھا، مگر کیسا گھر؟، اس دو کمرے کے فلیٹ کو گھر بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ گھر افراد سے بنتا ہے اور وہ فلیٹ  میں اکیلی تھی اور…. ہاں!!! یادوں کا ایک ہجوم بھی تھا جو بستر پر پہنچتے ہی اسے گھیر لیتا اور یوں کچھ دیر تنہائی کا احساس ختم ہوجاتا، مگر درد کا احساس بڑھ جاتا-
ایک چھوٹا سے قصبے میں دو کمروں اور بڑے سے آنگن کا ایک گھر تھا، ہاں وہ مکمل گھر تھا کیونکہ اس میں شردھا کے ماں باپ اور دو چھوٹے بھائی بہن رہتے تھے، سِکّوں کا سرمایہ کم، لیکن محبتوں کا سرمایہ بے پناہ تھا، شردّھا کے ماں باپ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے-
ایک دوپہر جب سخت چلچلاتی دھوپ کی وجہ سے گھر کے سارے افراد آرام کر رہے تھے شردّھاخاموشی سے باہر نکل آئی، کیونکہ آج سُرَیْنَا کے گھر کے آنگن میں اس نے سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کا پروگرام بنایا تھا –
کھیل کے دوران اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے قدم لڑکھڑا رہےہیں اور پھر یہ ڈگمگانا اتنا بڑھا کہ شردّھا  زمین پر لڑھک گئی ، اس کی سہیلیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں-
اچانک وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی، گلا خشک ہو رہا تھا، اس خواب کو…. ہاں!!! شردّھاکے لیے وہ تو اب ایک ڈراؤنا خواب ہی بن کر رہ گیا تھا کیونکہ وہ ایک بھیانک زلزلہ تھا جس نے شردّھاکے پورے خاندان کو اس سے چھین لیا تھا، زمین کے ان جھٹکوں کو آج بھی شردّھا محسوس کرتی تھی – فریج سے پانی کی بوتل نکال کر شردّھانے منہ سے لگالی اور ایک ہی سانس میں نصف کے قریب بوتل خالی کر دی –
بستر پردوبارہ لیٹتے ہی ایک عمارت چشم تصور میں نظر آئی یہ ایک یتیم خانہ تھا جہاں شردّھانے زندگی کے دس برس گزارے اور انہی دس برسوں میں اسے یہ احساس ہوا کہ وہ نہایت ہی بدصورت ہے کیونکہ یہاں محبت سے دیکھنے والی وہ نظریں نہیں تھیں جو اپنوں کی ہر بدصورتی کو چھپا لیتی ہیں –
یتیم خانے کے دس برسوں نے شردّھا کو زندگی کے بہت سے تجربے دئیے، یہاں کے منتظمین کے ذریعے خوبصورت لڑکیوں کا مسلسل جسمانی و ذہنی استحصال ہوتا، لیکن شردھا ان سب سے بچی ہوئی تھی یا یوں کہہ لیں کہ شردھا کی بدصورتی نے اس یتیم خانے میں شردھا کی حفاظت کی-
یتیم خانے سے نکلنے کے بعد اس نے اسی شہر کے ایک غریب علاقے میں چھوٹا سا کمرہ کرائے سے لیا اور ایک جنرل اسٹور پر کام کے لیے لگ گئی – کھانے اور کرایہ کے علاوہ اس کا کوئی اور خرچ تو تھا نہیں اس لئے رقم پس انداز ہونا شروع ہوئی ویسے بھی خرچ کرتی تو کہاں؟؟
میک اپ، اچھے ملبوسات شردھا کے کسی کام کے نہیں تھے –
پانچ برس میں اس کے اکاؤنٹ میں ایک خطیر رقم جمع ہوچکی تھی – اس کے ذہن میں شروع سے ایک ٹیکسی لینے کا خیال جڑیں بنا رہا تھا –
رقم کے جمع ہوتے ہی اس نے ایک نئی ٹیکسی خریدی، جنرل اسٹور پر کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایک ڈرائیونگ سکول سے کار ڈرائیو کرنا سیکھ لیا تھا اور سیکھنے کے فوراً بعد ہی اسے لائسنس بھی مل گیا-
جس دن شردّھا نے پہلی بار اپنی ٹیکسی شہر کی سڑکوں پر نکالی، ہر اسٹاپ چوک چوراہوں پر لوگوں نے اسے بڑی حیرت بھری نظروں سے دیکھا، ایک صحافی کی نظر بھی اس پر پڑ گئی اور اس نے شردّھا کے فوٹو کے ساتھ دوسرے دن کے اخبار میں شردّھا  کو شہر کی اولین خاتون ٹیکسی ڈرائیور کا خطاب دے دیا اور یوں سارا شہر اسے جاننے لگا –
ابتدائی دنوں میں وہ ٹیکسی آٹھ گھنٹے چلانے کے بعد کھڑی کر دیتی تھی، مگر تنہائی کے سولہ گھنٹے اس کے لیے گزارنے مشکل ہو جاتے، ان سولہ گھنٹوں میں وہ بمشکل ایک آدھ گھنٹے سو پاتی-
مگر اب وہ اس وقت تک شہر کی سڑکیں ناپتی رہتی، جب تک تھک کے چور نہیں ہوجاتی- بیس گھنٹے ٹیکسی چلانے کے بعد وہ بستر پر لیٹتے ہی سو جاتی اور ماضی کی یادوں سے بچی رہتی –
ٹیکسی چلاتے ہوئے یہ شردھا کا دسواں سال تھا اور شردّھا  بھی عمر کے کئی میل طے کر چکی تھی، اس وقت اس کی عمرچونتیس سال تھی ، اس نے ایک اچھے سے علاقے میں ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے سے لے لیا تھا اور اسے خوب اچھی طرح سجایا مگر اس فلیٹ کو اس نے آئینوں سے خالی رکھا، وہ آئینوں کا کرتی بھی کیا، سیاہ رنگت پھولی ہوئی ناک اور فربہی مائل جسم، کوئی ایسی چیز نہیں جسے آئینے میں دیکھا جائے اور ویسے بھی دن بھر مسافروں کی طنزیہ نظریں اس کے لیے آئینے کا ہی کام کرتی تھیں –
معمول کے مطابق وہ صبح سات بجے اپنی ٹیکسی لے کر نکلی – اگلے ہی چوراہے پر اسے ایک نوجوان ہاتھوں میں دبے ہوئے اخبار کو لہراتا ہوا نظر آیا، اس نے ٹیکسی روک دی –
“کراس روڈ، شیتل کارپوریشن جانا ہے!!! “
” جی بیٹھ جائے… “کہتے ہوئے  شردّھانے میٹر ڈاؤن کیا اور وہ نوجوان ہلکی سی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ تھینک یو بولتے ہوئے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا – ٹیکسی چلاتے ہوئے ایک دو بار شردھا نے عقبی شیشے میں دیکھا تو اسے اپنی جانب ہی دیکھتا ہوا پایا – بہت ہی پیارا اور خوبصورت سا نوجوان تھا، شردھا کا بھی جی چاہا کہ اسی عقبی آئینے میں بار بار دیکھے مگر فطری حیا آڑے آجاتی –
دس منٹ میں ٹیکسی مطلوبہ مقام پر پہنچ گئی، اس نوجوان نے تھینکس کہتے ہوئے کرایے کی رقم اس کی جانب بڑھا دی اور عمارت کی جانب بڑھ گیا – اندر داخل ہونے سے پہلے وہ مڑا تو شردھا کو اپنی ہی جانب متوجہ پایا، چردھا نے فوراً گئیر بدلا اور گاڑی آگے بڑھا دی – آگے جانے کے بعد بھی شردھا کی نگاہیں بار بار عقبی شیشے کی جانب اٹھ جاتیں مگر وہ تو جا چکا تھا –
دوسرے دن شردھا نے ٹیکسی وقت سے پہلے نکال لی اور اسی چوراہے پر جا کر رک گئی – جیسے اسے امید تھی کہ وہ نوجوان پھر آئے گا اور ویسا ہی ہوا دس منٹ کے بعد ہی ہاتھوں میں اخبار دبائے اسے وہ آتا ہوا نظر آیا، اتفاق سے اس وقت وہاں صرف شردھا کی ہی ٹیکسی موجود تھی – وہ جلدی سے ٹیکسی کی جانب بڑھا – قریب آتے ہی وہ چونک گیا –
“ارے آپ!!! واہ کیا اتفاق ہے! “اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا –
” آپ روز صبح اسی روٹ سے گزرتی ہیں؟ “
اس نوجوان نے شائستگی سے پوچھا..
” جی “
شردھا نے گئیر بدلتے ہوئے جواب دیا
“ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں، اگر آپ برا نہ مانیں تو…. “
اس نوجوان نے ہچکچاتے ہوئے مالتی سے کہا –
” جی کہیے، کیا بات؟ “
” وہ دراصل بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ٹیکسی کا ملنا بڑا دشوار امر ہے، اکثر ٹیکسی کے انتظار میں، میں آفس کے لیے لیٹ ہو جاتا ہوں، مجھے لگتا ہے آپ کا یہاں سے قریب میں ہی کہیں مکان ہے اور آپ کے ٹیکسی نکالنے کا وقت بھی وہی ہے جو میرا آفس کے لیے نکلنے کا وقت ہے، میں چاہتا ہوں کہ اگر آپ روزانہ مجھے اس چوراہے سے پِک کر لیں تو میں بہت بڑی دشواری سے بچ جاؤں گا “
شردھا کو یوں لگا جیسے زندگی میں پہلی بار اوپر والے نے اس کے دل کی بات سن لی ہے اور وہ بھی اتنی جلد…
اس نے فوراً جواب دیا –
” ہاں، ہاں، کیوں نہیں، مجھے بھی روزانہ ایک طے شدہ کرایہ مل جایا کرے گا – “
” اوہ! بہت بہت شکریہ! آپ نے…. سوری کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟ “
” شردھا “
ہاں شردھا جی، آپ نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی، شکریہ آپ کا بہت بہت شکریہ”
“ارے نہیں شکریے کی کیا بات ہے، میرا اپنا بھی تو فائدہ ہوگا –
شردھا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا –
وہ نوجوان بھی ہنس پڑا –
“امر! ویسے میرا نام امر ہے، شردھا جی آپ سے دوبارہ مل کر بڑی خوشی ہوئی “
باتوں کے دوران ہی ٹیکسی شیتل کارپوریشن پہنچ گئی ، نوجوان نے اترتے ہوئے اس یاد دہانی کرائی، مگر اس یاد دہانی کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ  شردھا کو اب صرف اگلی صبح کا انتظار تھا، وہ امر کے آنے سے آدھا گھنٹہ پہلے اسٹاپ پر پہنچ جاتی اور بے چینی سے اس کا انتظار کرتے رہتی، کچھ ہی دنوں میں امر اس سے اتنا گھل مل گیا کہ اب شردھاسیدھا امر کے مکان سے اسے بٹھاتی اور امر کی واپسی بھی شردھاکے ساتھ ہی ہوتی –
آج شردھا نے مارکیٹ سے پہلا آئینہ خریدا اور اُسے لا کر اپنے ڈرائنگ روم میں لگا دیا اور اس کے سامنے کھڑی ہو گئی، آج شردھا کو اپنی بدصورتی اتنی زیادہ محسوس نہیں ہو رہی تھی –
وقت کے ساتھ ساتھ شردھا نے خود پر بھی خرچ کرنا شروع کر دیا اب وہ اچھے اسپرے استعمال کرتی، نئے فیشن کے لباس خریدتی، ساتھ ہی ساتھ اس کے فلیٹ میں آئینوں کی تعداد بھی بڑھ چکی تھی – گھر جانے کے بعد وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھتے رہتی – ہر بار اسے ایسا محسوس ہوتا کہ امر کی نگاہیں بھی اسے دیکھ رہی ہیں اور وہ شرما جاتی –
اس دن شردھا نے دوپہر دو بجے امر کو شیتل کارپوریشن سے بٹھایا اور کچھ ہی دور گئی ہوگی کہ ٹیکسی ایک جھٹکے سے رک گئی –
“ارے! کیا ہوا شردھا؟ ٹیکسی کیوں روک دی؟ “
” دیکھتی ہوں، شاید انجن میں کچھ خرابی ہوگئی ہے “کہتے ہوئے شردھا اتر گئی، بونٹ اٹھائے کافی دیر تک وہ پریشان رہی، تھوڑی دیر بعد اسے مانوس سی خوشبو کا احساس ہوا، امر اس کے بالکل بازو میں کھڑا تھا –
” کیا ہوا شردھا؟ “
” کچھ نہیں صاحب معمولی سی خرابی تھی، شاید دور ہوگئی ہے، میں اسٹارٹ کر کے دیکھتی ہوں –
شردھا نے ٹیکسی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی اور وہ پہلی ہی کوشش میں چل پڑی –
“آئیے امر جی! بیٹھ جائیں “
اوہ بھگوان کا شکر ہے ٹیکسی اسٹارٹ ہوگئی ورنہ اب دوسری ٹیکسی کی تو عادت ہی نہیں رہی”
امر نے ہنستے ہوئے کہا اور اسی وقت اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی –
“ہاں ٹینا ڈارلنگ … ارے کچھ نہیں وہ ٹیکسی راستے میں بگڑ گئی تھی اس وجہ سے تھوڑی دیر ہوگئی، نہیں نہیں میں بس پندرہ منٹ میں ریسٹورنٹ پہنچتا ہوں، اوہ سوری ٹینا… او کے… بائے “
کہتے ہوئے اس فون ڈسکنکٹ کیا اور شردھا کومخاطب کرتے ہوئے  کہنے لگا..
” شردھا آج تمہیں تھوڑی سی تکلیف دینا چاہوں گا “
” کہیے امر جی کیا کرنا ہے؟ “میرے مکان پر تھوڑی دیر کے لئے تمہیں رکنا ہے، میں چینج کر لوں پھر مجھے گرینڈ ریسٹورنٹ ڈراپ کر دینا”
“جی امر جی، جیسا آپ کہیں “
شردھا نے ٹیکسی امر کے گھر کے باہر روکی تھوڑی ہی دیر میں امر نہایت خوبصورت لباس میں باہر آیا اور ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا –
” چلیں شردھا؟ تھوڑا فاسٹ…. “
شردھانے ٹیکسی آگے بڑھا دی اور تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں امر کو گرینڈ ریسٹورنٹ کے باہر اتار دیا – ہوٹل کے باہر ہی ایک دراز قامت خوبصورت لڑکی کھڑی ہوئی تھی، اس نے جیسے ہی امر کو دیکھا لپک کر قریب آئی اور امر کے گلےلگتے ہوئے کہنے لگی –
” اوہ امر، میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی تھی “
” سوری، ڈارلنگ ویری ویری سوری، ٹیکسی میں خرابی کے باعث میں تھوڑا لیٹ ہوگیا، بٹ چلو اب اندر چلتے ہیں، تھینکس شردھا… “
امر نے شردھا کو دیکھا کر ہاتھ لہرایا اور ریسٹورنٹ میں داخل ہو گیا –
شردھا نے خاموشی سے ٹیکسی آگے بڑھا دی
——-
امر چوراہے پر کھڑا بے چینی سے ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا –
” شردھا آج آئی کیوں نہیں ابھی تک؟ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا… اوہ لگتا ہے ٹیکسی نے آج پھر ہاتھ بتا دیا ہوگا “
خود سے ہی سوال جواب کرتے ہوئے امر نے کھمبے سے ٹیک لگائی اور اخبار کھول لیا –
 اس کی نظریں ایک خبر پر رک گئیں –
خبر تھی کہ..” کولابار علاقے میں ایک فلیٹ سے شردھا نامی شہر کی اولین خاتون ٹیکسی ڈرائیور کی لاش ملی ہے، اندازہ ہے کہ اس نے خودکشی کی ہے – اس سارے واقعے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے فلیٹ میں درجنوں آئینے تھے لیکن سارے آئینے پولس کو ٹوٹے ہوئے ملے –
امر نے اخبار فولڈ کیا اور قریب سے گزرتی ہوئی ٹیکسی کو آواز دی…
“ٹیکسی”
                           —————–
علم والوں کی بستی اور دین والوں کے شہر مالیگاؤں کے  افضال انصاری نئی نسل کے ذہین افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں. درس و تدریس سے وابستہ ہیں. مطالعہ کے رسیا ہیں. قلمدان ادبی واٹس ایپ گروپ سے لکھنے کا آغاز کرنے والے افضال انصاری نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر جامعہ اردو علی گڑھ کے پلاٹینم جوبلی جشن میں افسانے کے نام پر شہر مالیگاؤں کی نمائندگی بھی کی ہے.
فیس بک کے ادبی فورمز اردو افسانہ فورم، عالمی افسانہ فورم اور حقائق پر لگنے والے تمام افسانوں کو پڑھنے اور ان پر بے لاگ تبصروں کے سبب بھی آپ محترم مانے جاتے ہیں. موصوف مستقبل قریب میں افسانوں کے مجموعہ کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں.
قلمکار :افضال انصاری
اسلام نگر، مالیگاؤں
موبائل :9226070707

Volcano A Short Story by Dr. Qamar Saleem

Articles

آتش فشاں

محمد قمر سلیم

راعین پہلی ایسی آئی اے ایس آفیسر تھی جو اتنی کم عمر میں ملک کے چیف سکریٹری ہوم کے عہدے پر فائز تھی ۔ اس نے ۲۲ سال کی عمر میں آئی اے ایس کا امتحان ٹاپ کیا تھا۔راعین چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے سب کی چہیتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ سب پر اس کا خوب رعب چلتا تھا۔ وہ بہت بولڈ آفیسر تھی۔اس کی شبیہ ایک ایمان دار بیوروکریٹ کی تھی۔کسی بھی غلط کام کو اس نے منظوری نہیں دی اسی لیے اس کے ہم منصبوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی بہت محتاط رہتی تھی۔ راعین کی شخصیت ایسی تھی کہ ملک کا ہر سیاست داں اورحکومت کے وزراء اور اہم اعلیٰ عہدے داران سب ہی اس پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔اس نے اپنی ذہانت کی بنا پرنہ جانے کتنے مواقعوں پر ملک اور قوم کو خطروں سے باہر نکالا تھا ۔ادھر کچھ مہینوں سے وہ بہت پریشان تھی کیوں کہ نئی حکومت جب سے آئی تھی اسے ہو م سکریٹری کے عہدے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن ڈرتی بھی تھی کہ اپوزیشن اور عوام حکومت کو چین سے نہیں رہنے دیں گے اس لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
راعین جب سے ہوم سکریٹری بنی تھی اذلان اس کے ڈرائیور کے فرائض انجام دے رہا تھا۔حکومت نے اذلان کا بھی ٹرانسفر کرنا چاہا جسے راعین نے رکوا دیا اور یہ کہہ کر قصّہ ختم کیا جب تک وہ ہوم ڈپارٹمنٹ میں ہے، اذلان ہی اس کا ڈرائیور رہے گا۔اذلان راعین کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ایک دن راعین نے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش بھی کی تو اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ سوپور کا رہنے والا ہے۔ اب دلی میں شفٹ ہو گیا ہے اور ایشور نگر میں رہتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن مائرہ بھی ہے جو کالج میں پڑھتی ہے اور وہیں ہاسٹل میں رہتی ہے۔ راعین اکثراذلان کے بارے میں سوچا کرتی تھی کہ وہ اتنا اداس کیوں رہتا ہے؟اذلان کتنا ہینڈسم ہے، کتنی اچھی انگلش بولتا ہے ، کتنا اچھا اس کا برتائو ہے ، پڑھا لکھا لگتا ہے پھر بھی وہ ڈرائیور کی نوکری کر رہا ہے؟نہ جانے کیوں، راعین کو اس کی آنکھوں سے درد جھلکتا سا نظر آتا تھا۔ کچھ تو ہے جس کو وہ چھپا رہا ہے۔کچھ تو ہے جسے وہ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا ر ہا ہے اس نے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن اذلان زیادہ تر خاموش ہی رہا ۔ وہ جتنا اس کے بارے میں سوچتی اتنا ہی اذلان اس کے وجود پر طاری ہو تا جا رہا تھا ۔ وہ کوشش کے باوجود اپنے آپ کو اذلان سے الگ نہیں کر پا رہی تھی۔ دھیرے دھیرے راعین اذلان کی طرف کھنچنے لگی۔ ایک انجانا سا خوف اس کو ستانے لگا کیوں کہ اس کے دل میں اذلان کے لیے ایک خاص مقام پیدا ہو گیا تھا۔ وہ اذلان کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہے۔ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی یکطرفہ دیوانگی کو کیا نام دے۔ کیا اس کے دل کے کسی گوشے میں محبت کا چراغ روشن ہے؟وہ اپنے ہی ڈپارٹمینٹ کے ادنیٰ سے ڈرائیور سے محبت کیسے کر سکتی ہے۔دنیا ، حکومت اور ملک کے عوام اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ مگر اس نے کبھی بھی اپنے فرائض سے کوتاہی تو نہیں کی ہے ۔ اس نے کبھی بھی حکومت کو اور عوام کو مایوس نہیں کیا ہے ۔ کیا اس کا یہ قدم سب کے لیے باعث شرم ہوگا ۔۔۔ مگر یہ تو اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔ تو کیا ہوا دنیا بھر کی نظریں تو اس کے اوپر ٹکی ہوئی ہیں۔ دنیا اسے اس کے ذاتی معاملے کے طور پر تو نہیں دیکھے گی ۔وہ عجب کشمکش میں تھی۔ وہ اپنے آپ بڑ بڑانے لگی ’مگر میں بھی تو انسان ہوں، کیا میرے جذبات نہیں ہیں ؟ کیا میرے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟ اور نہ جانے ایسے ہی کتنے سوالات اس کے ذہن میں ابھرتے رہے ۔ اس نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے دی، راعین! ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ بھی ایک عورت ہے جس کے سینے میں ایک حسّاس دل دھڑکتا ہے اور ہر عورت کی طرح اسے بھی اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کا حق ہے ۔ یہی سوچ کر اس نے سوچا اسے اذلان سے اپنی خواہش کا اظہار کر دینا چاہیے۔ لیکن کیسے ؟ ایک دن جب وہ گھر واپس جا رہی تھی ، اچانک اس نے اذلان سے کہا ، ’ اذلان ذرا کار روکیے۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے کے ساتھ کار روک دی ۔ کار رکتے ہی راعین آگے کی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ اذلان کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقہ تھا ۔راعین کے بیٹھنے کے بعد اذلان نے کار کو پھر سڑک پر دوڑانا شروع کر دیا۔ راعین نے اس سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ وہ اذلان سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔ اس کا گھر آگیا تھا۔ وہ اذلان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کار سے اتر گئی اور کار اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
تین دن ہو چکے تھے اسے آگے کی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے لیکن وہ اپنے دل کی بات اذلان سے نہیں کہہ سکی تھی ۔ آج وہ کچھ سوچ کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے جا ہی رہی تھی کہ اذلان نے اس سے کہا ، ’میڈم !کیا بات ہے آج آگے نہیں بیٹھیں گی۔‘ اسے جیسے کرنٹ لگا ہو اور وہ کچھ کہے بنا آگے جاکر بیٹھ گئی لیکن پھر وہی خاموشی۔اس نے ایک بار پھر اذلان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھنا
شروع کر دیا ۔ ـ’ ارے اذلان آپ اپنی بہن کو ہمارے گھر لے کر آیئے ‘ ’ جی میڈم ! ‘ اس کا مختصر سا جواب تھا۔’ اذلان آپ کی بہن کیا کر رہی ہے ؟ ‘ جی! وہ ڈینٹسٹ کا کورس کر رہی ہے۔ ‘ ’ ارے واہ ! بہت اچھا کیا جو اس کو آپ لوگ ڈینٹسٹ بنا رہے ہیں۔ یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ آج ہم مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔‘ کچھ دیر بعد اس نے اذلان کو مخاطب ہو کر پوچھا ، ’اذلان ! آپ اگر برا نہیں مانے تو پوچھ سکتی ہوں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل نہیں کی۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی شکر تھا کہ آگے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی حالانکہ اذلان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اذلان بولا، ’ نہیں میڈم ! ایسا نہیں ہے ۔ ‘ اور پھر اتنا کہہ کر اذلان تو جیسے پھٹ پڑا تھا۔ ’ میڈم! آپ اونچے عہدے پر بیٹھے لوگ کیا جانیں گے کشمیریوں کے بارے میں۔‘ اس نے بہت طنزیہ لہجے میں کہا، ’ کشمیری تو صرف دہشت گرد بن سکتا ہے ، اسے کیا لینا دینا پڑھائی سے ۔ آپ اعلیٰ تعلیم کی بات کر رہی ہیں ،۔کچھ وقفے کے بعد اذلان رندھی ہوئی آواز میں بولا، ’ کشمیر کا ہر بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کشمیری طالب علم کچھ بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ہر کشمیری نوجوان ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔میں جو بننا چاہتا تھا وہ نہیں بن سکا ، کیا ملا مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے۔‘
اس کی عجیب کیفیت تھی ۔کچھ توقف کے بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا ، ’ میڈم ! میں کشمیری ہوں اور ایک کشمیری کا درد صرف ایک عام کشمیری سمجھ سکتا ہے ، یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کشمیری بھی نہیں اور مرکز کی بات کرنا تو فضول ہے ۔ کون سے ماں باپ ہیں جو چاہیں گے کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر بندوق ہاتھ میں اٹھائے؟ کون سی ماں چاہے گی کہ اس کی کوکھ سونی ہو؟کس باپ نے خواب نہیں دیکھے؟ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارے دل ہندوستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔’سارے جہاں سا اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ہم کہتے نہیں تھکتے۔ اور ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم آزاد کشمیر بنا نہیں سکتے ، پاکستان کے ساتھ جا نہیں سکتے، اور ہندوستان ہمیں اپنانا نہیں چاہتا ۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ پتھر پکڑا دئے گئے سیاہی کی جگہ خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کے خواب ریت کے ٹیلوں کی طرح ہیں کہ کب طوفان آئے اور ان کے خوابوں کو چکنا چور کرکے چلا جائے۔ اب تو ہر کوکھ سوکھ گئی ہے اور پھر کوئی کیوں اپنی کوکھ ہری کرے ،کیا اس لیے کہ اس میں دہشت گرد بسیرا کرے ۔ بچے کا وہ حسین احساس ہر کشمیری عورت کے لیے خواب بن کر رہ گیاہے کیوں کہ وہ حقیقت بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ کشمیر کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں ماتم نہ ہوتا ہو، جہاں کوکھ سونی نہ ہوئی ہو۔وہاں ہر ماں روتی ہے، ہر باپ تڑپتا ہے، ہر بیٹی سسکتی ہے اور ہر بیٹے کا خون کھولتا ہے۔ ہر کشمیری ا من چاہتا ہے ، کشمیر کی ترقّی چاہتا ہے لیکن یہ سیاست داں پاکستان کا بہانہ لیکر کشمیریوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے کاروبار تباہ کر رہے ہیں ۔کشمیر ی سیاحت ختم کی جا رہی ہے۔ کشمیری بے روزگار ہو رہے ہیں۔کیا پھربھی کشمیری تشدد اپنائے گا ۔ ارے اس کے تو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ صبح کھاتا ہے تو شام کی فکر ستانے لگتی ہے۔ وہ تشدد کیوں کر کرے گا؟کیا ہر ماں بچے کو اسی لیے جنم دے رہی ہے کہ اسے تشدد کی نظر کر دے ۔ نہیں یہ صرف سیاست کا کھیل ہے جس میں عام کشمیری مارا جا رہا ہے ۔ سیاست داں نہیں چاہتے کہ کشمیر کا کوئی حل نکلے کیوں کہ جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس دن ان سیاست دانوں کی دوکانیں بند ہو جائیں گی ۔ ان سیاست داں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو تو صرف اقتدار چاہیے ہے ، سیاست کرنا ہے چاہے وہ انسانی لاشوں پر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے بچے نہیں مرتے ہیں۔ ان کے یہاں کوکھ سونی نہیں ہوتی، ان کے گھر نہیں اجڑتے ہیں ، ان کے خواب چکنا چور نہیں ہوتے ہیں، ان کے یہاں ماتم نہیں ہوتا ہے، ان کے بچوں کو پتھر نہیں ملتے، کتابیں ملتی ہیں کتابیں۔۔۔یہ کیا جانے درد کیا ہوتا ہے؟ یہ کیا جانے موت کیا ہوتی ہے؟ یہ دلوں کی تڑپ کیا جانے؟ یہ تو سب بیوپاری ہیں بیوپاری۔۔۔لاشوں کے بیوپاری ، جذبات کے بیوپاری، دلوں کے بیوپاری۔۔۔یہ کیا جانے دہشت کیا ہوتی ہے ؟گولی کی آواز اور دردناک چیخ کی آواز میں کیا فرق ہوتا ہے؟ پیلٹ گن سے ان کے بچے اندھے نہیں ہوتے ، ان کی اور ان کے اہل ِ خانہ کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں۔آپ کو کیا معلوم ہر ماں راستے میں نگاہیں بچھائے بیٹھی رہتی ہے ، وہ جب تک دروازے سے نہیں ہٹتی جب تک اس کا لال گھر نہ آجائے اور پھر وہ شکرانۂ رب بجا لاتی ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا لال خود واپس آئے گا، یا چار کاندھوں پر سوار ہو کر آئے گا یا پھراس کے لا پتا ہونے کی خبر آئے گی اور پھر اس کا انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھیں پتھرا جائیں گی۔یا پھر اس کے بیٹے کی لاش آئے گی اور پھر اس کے احتجاج میںاور لاشیں بچھ جائیں گی اور پھر نہ جانے کتنی گودیں سونی ہوجائیں گی۔کوئی نہیں سمجھ سکتا کشمیری کا درد کوئی نہیں۔ ۔۔کوئی ہمارے بارے میں کچھ نہیں سوچتا ۔نہ ہماری ریاست کے لوگ اور نہ ہمارے ملک کے لوگ ۔ ہمیں تو سب نے زخم دیے ہیں۔کیا ہمارے ہندوستانی آقا اورکیا ہمارے نام نہاد پاکستانی آقا ۔اور کیا دیا ہے ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیں؟ ہم اپنی جنگ خود ہی لڑ رہیں ہیں۔ ۲۰۔۲۵ کروڑ کی آبادی نے کب ہمارے لیے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ہم سے صرف اتنی محبت ہے کہ کبھی کبھار کسی اخبار میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کر دیا جاتا ہے ۔ یہی ہمارا وجود ہے، یہی ہماری داستان ہے۔‘
’ہاں میڈم ! آپ نے پوچھا تھا کہ میں کیوں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکا؟ میری بھی دنیا تھی میرے بھی حسین خواب تھے ایک جھٹکے میں سب چکنا چور ہوگئے۔میرے والد کشمیر کے بڑے بزنس مین تھے ۔ میں بھی آئی اے ایس آفیسر بننا چاہتا تھا۔ میرے والدین نے ہم سب بہن بھائیوں کو اچھے اسکول میں پڑھایا تھا۔ یہ اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔میں انٹر پاس کرکے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ساتھ ہی آئی اے ایس کی تیاری بھی چل رہی تھی۔ میرے چھوٹے بھائی روحان نے دسویں پاس کی تھی اور میری بہن زائرہ انٹر میں تھی وہ میڈیکل میں جانا چاہتی تھی ۔ مائرہ جو میرے ساتھ رہتی ہے نویں میں تھی ۔ تبھی دہشت گرد میری بہن زائرہ کو اٹھا کر لے گئے۔ زائرہ اور روحان بہت چیخے چلّائے لیکن گولیوںکی آوازوں کے بیچ ان کی چیخ پکار بے معنی تھی۔ روحان کسی طرح ان کے ٹرک میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ ان کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔ہم نے سارے جتن کرلیے۔پولس ، منسٹر، نیتاکسی کو نہیں چھوڑا۔ اپنے بچوں کو واپس لانے کے لیے میرے باپ نے سب کے آگے ہاتھ جوڑے۔وہ دن ہمارے گھر قیامتِ صغرا لیکر آیا تھا۔ گھر ماتم کدہ بن گیا۔ چولھے بجھ گئے تھے ، سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ زندگی ہم سے روٹھ گئی تھی ۔۔۔ما ں باپ کے آنسوئو ں کے بیچ لوگوں کی جھوٹی ہمدردیاں، فریبی وعدے۔ روتے رو تے ما ں کی آنکھوں کا پانی سوکھ گیا تھا۔ بابا کا سینا دھونکنی بنا ہوا تھا۔ مائرہ حیرانی کی مجسم تصویر تھی۔میں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر بس چکر کاٹ رہا تھا۔ہمارے ہنستے کھیلتے گھر کو نظر لگ گئی تھی ۔ میرے بابا کا بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا ۔انھوں نے زمین آسمان ایک کر دیا مگر ان کے بچوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔
تقریباً ۱۵ دن بعد ایک شام جے کے ایس اے کی گاڑی ہمارے گھر کے سامنے آکر رکی۔ انھوں روحان کی لاش کو باہر نکالا اور زائرہ، جو ایک سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی ، کو گاڑی سے اتارا۔ جے کے ایس اے کے جوانوں اور آفیسر ز نے مجھے اور میرے بابا کو دلاسا دیا اور کہا ، ’ ہماری اسپیشل ٹیم نے آپ کی بیٹی اور بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ہم آپ کے بیٹے کو نہیں بچا سکے ۔ زائرہ نے آفیسرز اور جوانوں کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن ناکام رہی۔ ایک جمِ غفیر امنڈ پڑا تھا ہمارے گھر پر ۔ہزاروں لوگوں نے روحان کی تدفین میں حصّہ لیا تھا۔ گھر میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ زائرہ نے بسترِ مرگ پکڑ لیا تھا۔امی بابا غم سے نڈھال تھے ،میں بھی ٹوٹ چکا تھا، ‘ اس کی آواز رندھ گئی تھی ۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ غصے سے پاگل ہو ئے جا رہا تھا۔راعین کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ پر چلا گیا تھا اذلان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کے چند قطرے اس کے ہاتھ پر گرے۔ راعین نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اذلان کو تسلی دی ۔ اذلان آگے کچھ کہنے والا تھا کہ راعین کا گھر آگیا۔اس نے سوچا کا ر کا رخ مڑوا دے لیکن کار اس کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ وہ کار سے اترکر لاچار و مجبوری کی تصویر بنی کھڑی تھی ۔
وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی نہ ہی اس نے رات میں کھانا ٹھیک طرح سے کھایا تھا وہ تو فقط اذلان کے خیالوں میں ہی گم تھی، اس کے بارے میں ہی سوچے جارہی تھی۔اس نے سچ ہی تو کہا تھا کہ کشمیریوں کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے ۔ صرف ان کو بہکے ہوئے نوجوان کہہ کر سب اپنا پلّہ جھاڑ لیتے ہیں۔ کتنی سچائی تھی اذلان کی باتوں میں ، کتنا درد چھپا تھا اس کے سینے میں۔ اتنے اونچے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی وہ بھی توکشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن یقیناً وہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں سوئی تھی۔ صبح نو بجے اذلان کا ر لیکر آ گیا تھا۔ پی ایم او سے ایک اہم کال آئی تھی اس لیے اس نے اذلان سے پی ایم او آفس چلنے کے لیے کہا تھا۔ وہ دونوں راستے بھر خاموش رہے۔ پی ایم او آفس میں اس نے پرائم منسٹر کے سکریٹری سے کچھ ضروری باتیں کی ۔دس منٹ بعد وہ وہاں سے نکلی لیکن کچھ پریشان سی تھی پی ایم او سے وہ سیدھی اپنے آفس آئی اور اب وہ اترپردیش کے تین دن کے دورے پر جارہی تھی۔ دوپہر میں اس کی ماں کا فون آیا تھا۔وہ اپنی ماں کو ’ آپا ‘ کہہ کر بلاتی تھی ۔ ’ جی آپا! بولیے ۔‘ ہاں بیٹا ، ارے بیٹا میں نے تجھے بتایا تھا نا رشتے کے بارے میں ۔وہ تیرے پاپا پوچھ رہے تھے۔‘ اس نے ماں سے بہت ہی جھنجھلا کر کہا تھا ’ ارے آپا! ایسی کیا جلدی ہے۔ ابھی تو میں لکھنئو جارہی ہوں وہاں سے آکر بات کرتی ہوں۔‘ ’اچھا‘ کہہ کر اس کی ماں نے فون رکھ دیا ۔ راعین کافی پریشان تھی کیوں کہ یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوگئے تھے جس میں کافی جانی مالی نقصان ہوا تھا۔حکومت کسی بھی قیمت پر
نہیں چاہتی تھی کہ صحیح بات میڈیا کے سامنے آئے اسی لیے راعین کو لکھنٔو میں پڑائو ڈالنا ہی تھا۔ حکومت کو یقین تھا کہ وہ معاملے کو سنبھال لے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ وہ حالات کو معمول پر لانے کے بعد دلی واپس آگئی تھی ۔ صبح جب وہ گھر سے نکل رہی تھی اس کی ماں نے وہی راگ الاپا اس کی شادی کا۔
و ہ شام کو گھر آنے کے بعد وہ اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھومنے لگی ۔ ماں نے اس سے کہا، ’ پہلے مجھے بتا تیرا کیا ارادہ ہے مجھے تیرے پاپا کو جواب دینا ہے۔‘ ’ ہاں، آپا! مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے۔‘ پھر اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی ماں سے کر دیا۔ ’بیٹا! اپنے پاپا اور بھائیوں کے سامنے یہ بات اپنی زبان پر بھی مت لانا، تیرے پاپا اور بھائی کبھی راضی نہیں ہوں گے، نہیں بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’آپا ! کیوں نہیں ہو سکتا ۔ آپا میں کہیں اور شادی نہیں کروں گی ۔کوئی کچھ سوچے کوئی کچھ سمجھے میں صرف اذلان سے ہی شادی کروں گی۔‘ ’بیٹا یہ کیسی ضد ہے۔‘ ’ نہیں ! آپا، یہ ضد نہیں ہے ۔ میں اذلان کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہوں۔‘ ’لیکن بیٹا! دنیا جہان کیا کہے گا۔ تیرے پاپا بھائی کسی کو منھ دکھانے لایق نہیں رہیں گے اور پھر لوگ تیرے بارے میں کیسی کیسی باتیں کریں گے۔ تیری ساکھ پے کتنا اثر پڑے گا۔ ‘
دھیرے دھیرے راعین نے اذلان کے دل میں جگہ بنا لی اور اب اذلان بھی راعین کی طرف راغب ہو رہا تھا ۔ راعین کے ارادے اب اور بھی مظبوط ہوگئے تھے ۔ اس نے اذلان کو شادی کے لیے بھی تیار کر لیا تھا ۔ اس نے اپنے پاپا اور بھائیوںکو بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود لیکن راعین اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہیں ہوئی اور ایک دن اذلان اور راعین نے کورٹ میرج کرلی۔ ان کی شادی ہوتے ہی اس کے والدین اور بھائیوں نے اس کا سرکاری بنگلہ چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنے آبائی مکان میں واپس چلے گئے تھے ۔ ادھر حکومت نے اذلان کا ٹرانسفر ہوم سے سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ میں کر دیا تھا۔
اس شادی کی وجہ سے اس کی زندگی میں بحران پیدا ہو گیا تھا ۔ اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ آفس کی زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی تھی۔نئی حکومت پہلے ہی سے اس کے اوپر اعتبار نہیں کر رہی تھی یہ سنہرا موقع اس کے ہاتھ آگیا تھا۔اب حکومت کے احکامات اس تک نہیں آتے تھے ۔ ایک طرح سے سارا کام کاج اس کا ڈپٹی سنبھال رہا تھا۔ہے۔ حکمران پارٹی کی طرف سے اس پر تنقیدیں بھی بہت ہو رہی تھیں۔گھر والے بھی اس سے خفا تھے ۔ اس گھڑی میں اگر کوئی اس کے ساتھ تھا تو اذلان اور اس کی ماں۔ ۔تبھی فون کی گھنٹی بجی ۔ اس کی ماں کا فون تھا۔ ’ جی آپا! ‘ بیٹا تو فکر نہ کر سب اچھا ہو جائے گا ۔ میں تیرے پاپا اور بھائیوں کو منا لوں گی ۔بیٹا ویسے تجھے سب مس کرتے ہیں ۔ بیٹا تو اپنا خیال رکھنا۔ تیری بہت یاد آرہی ہے۔‘ وہ خاموشی سے سنتی رہی ، اس کی ماں رورہی تھی۔پھر وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچنے لگی۔ کتنے دکھ اٹھائے ہیں میری ماں نے۔ میری خاطر اسنے اپنی پوری جوانی دائو پر لگا دی۔اس کی سب خواہشات، تمنائیں ، خاک میں مل گئیں ، اس کا ہر خواب چکنا چور ہوگیا۔ جوانی میں اس پر بڑھاپا آگیا۔ کیا نہیں کیا اس نے میرے لیے۔ میں تو بچپن سے ہی بیماررہتی تھی اور بیماری بھی ایسی جو زندگی بھر کا روگ تھی، روزانہ ہی تو کم سے کم ہر تین گھنٹے بعد میری تھریپی ہوتی تھی۔ڈاکٹرس بھی تو پر امید نہیں تھے ۔ وہ تو میری ماں کی انتھک محنت تھی جس کی وجہ سے آج میں یہا ں ہوں۔مجھے نہیں یاد ہے کہ میری ماں کبھی بھی تین گھنٹے سے زیادہ سوئی ہو۔اس نے میری نوکری لگنے کے بعد ہی تو سروس چھوڑی تھی۔صبح سے لیکر رات تک سب کے کام کرنا ۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں کم سے کم چھ مرتبہ میریی تھیریپی کرنا ۔اور رات میں سب کے سونے کے بعد میری تھریپی کرکے پھر سونا۔ اور وہ بھی جب کہ مجھے جنم دینے والی ماں تو مجھے دو سال کا ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ مجھے زندگی کے اصل معنی تو میری آپا نے بتائے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتاکیوں لوگ ماں کو سوتیلا اور حقیقی کے نام دیتے ہیں ، کیوں ماں کے ساتھ سابقے اور لاحقے لگائے جاتے ہیں۔ ماں تو ماں ہوتی، صرف ماں۔ اس کے منھ سے ایکدم نکلا، ’اے اللّہ! تو سب کو میری ماں جیسی ماں دینا۔‘

وہ اپنے پاپا کو بہت چاہتی تھی ۔ اس کے پاپا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ وہ روشن خیال ، سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے ۔ ہر چھوٹے بڑے سے بہت محبت کرتے تھے ۔ امیر غریب میں کبھی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ان کے نذدیک سب برابر تھے۔
وہ تو کہتے ہیں چھوٹے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں ان کی دلشکنی نہیں کرنا چاہیے اسی لیے اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے پاپا کے رویّے سے ہوا تھا۔ اس نے تو سوچا تھا کہ جب وہ اذلان سے شادی کی بات کہے گی تو اس کے پاپا اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ازلان گہری نیند سو رہاتھا۔ راعین خود سے باتیں کرنے لگی، ’ پاپا اذلان بہت اچھے ہیں ، وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ بہت پڑھے
لکھے ہیں ۔ پاپا میں جانتی ہوں آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے لیکن پاپا ایسا نہیں ہے۔ اذلان ہر لحاظ سے ہمارے خاندان سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔ سروس کرنے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا ہے۔ ا ذلان نے ایم ایس سی انجینیرنگ اور ایم بی اے کیا ہے۔پاپا آپ شاید نہیں جانتے کہ اتنا پڑھ لکھنے کے بعد اذلان کا ہوم منسٹری میں ڈرائیور کی پوسٹ پر کام کرنا مصلحت سے خالی نہیں تھا۔ اذلان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سینے میں آتش فشاں سلگ رہا تھا ۔ پاپا آپ کو تو اپنی بیٹی پر فخر کرنا چاہیے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کی بیٹی نے ایک آتش فشاں کو ٹھنڈا کر دیا ۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹ جاتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔پھر صرف کشمیر ہی نہیں جلتا پورا ملک اس کی لپٹوں میں جھلس جاتا ۔اور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوتا۔۔۔ پاپا ! مجھے وہ دن یاد ہے جب اذلان نے مجھے بتایا تھا۔۔۔اذلان نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر بہت جذباتی ہو کر کہا تھا، ’ روحان کے انتقال کے چند دنوں بعد ہی زائرہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ روحان اور زائرہ کی موت کے بعد امی بالکل خاموش ہوگئی تھیں۔ کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ صرف آسمان کی طرف دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر ان کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور ایک دن وہ بھی خاموشی سے ہم سب سے بہت دور چلی گئیں۔ میرے بابا اتنا زیادہ ڈر گئے تھے کہ مائرہ کو اپنی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں نے کسی مرد کی آنکھوں میں اتنا خوف نہیں دیکھا تھا۔ بابا تین مہینے تک صدمہ برداشت کرتے رہے پھر انھوں نے بھی زندگی سے ہار مان لی۔میں بھی بے بس تھا۔ دل تو چاہتا تھا سب کچھ جلا کر راکھ کر دوں لیکن بابا نے مائرہ کی ذمے داری میرے اوپر ڈال دی تھی۔ میں صرف ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہوں اور مائرہ تو بے جان پتھر ہے۔ اس نے ہنسنا رونا سب چھوڑ دیا ہے۔اسے دیکھ کر بہت ڈر لگتا ہے کہیں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اسی لیے میں اپنے غصے کو پی گیا ۔بابا نے ہی مرنے سے پہلے مجھ سے کہا تھا بیٹا مائرہ کو یہاں سے دلی لیکر چلے جائو ۔ یہاں یہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے اور مائرہ کا بھی وہ وہی حشر کریں گے جو انھوں نے زائرہ کا کیا تھا۔ بیٹا مائرہ یہاں محفوظ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی وہ کرو جو روحان نے کیا ۔ میں نہیں چاہتا میرے خاندان کا نام و نشان مٹ جائے۔اور پھر مرتے وقت انھوںنے کہا تھا بیٹا روحان کو دہشت گردوں نے نہیں جے کے ا یس اے نے مارا تھا اور انھوں نے ہی زائرہ کے ساتھ اتنے دن منھ کالا کیا۔بیٹا زائرہ نے اس وقت اشارے سے ان آفیسرز کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ہم نہیں سمجھ سکے۔مرتے وقت اس نے سب کچھ بتایا تھا وہی آفیسرز جو انھیں چھوڑنے آئے تھے انھوںنے ہی ان کے ساتھ ننگا ناچ کھیلا تھا اور الزام دہشت گردوں پر عائد کر دیا تھا۔‘ یہ کہہ کر اذلان خاموش ہوگیا تھا۔پاپا آپ کو یہی شکایت ہے نا کہ میں نے آپ کی مرضی سے شادی نہیں کی ۔پا پا سچ تو یہ ہے کہ جو رشتے
آرہے تھے انھیں مجھ میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ میرے عہدے سے دلچسپی تھی۔مجھے اذلان سے اچھا شوہر مل ہی نہیں سکتا تھا ، وہ سچی محبت کرنے والا انسان ہے۔ پاپا! اور پھر آپ کی اپاہج بیٹی کو کون حقیقت میں اپناتا۔۔۔ کوئی نہیں! صرف اور صرف اذلان ۔‘
راعین گھٹن محسوس کر رہی تھی ۔ اس نے اپنی آپا کو فون ملایا ۔’ہاں بیٹا ۔ اچھا ہوا تیرا فون آگیا ۔میں تجھے ہی فون کرنے والی تھی ۔کل ہم سب لوگ تیرے گھر آرہے ہیں ۔ہاں ہاں تیرے پاپا اور سب بھائی ۔میں نے کہا تھا نہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ اس کی آپا نے سب ایک سانس میں کہہ ڈالا۔راعین نے اذلان کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا ۔


ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
qamarsaleemin@yahoo.co.in

Kulyat E Shab by Shab Ansari

Articles

شب نوردیاں (کلیاتِ شب انصاری)

شب انصاری

Saem A short Story by Waseem Aqeel Shah

Articles

صائم

وسیم عقیل شاہ

     رحمت علی اپنی بوسیدہ سی چپلیں ہاتھ میں لیے بڑے دروازے سے مسجد کے صحن میں داخل ہوئے۔ پسینے میں شرابور، بے حال سے وضو خانے کے قریب پہنچے اور اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کرنے لگے۔سامنے حوض کے وسط میں خوب صورت فوارہ چھوٹ رہا تھا اور حوض کے پانی میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ حوض کے قریب پہنچتے ہی انھیں ٹھنڈی ہوا کے لطیف جھونکو ں نے بحال کردیا۔ سلیقہ مند قطرے چھن چھناتے ہوئے پانی کے اس محدود ذخیرے میں پڑرہے تھے۔ رحمت علی کا جی چاہا کہ سورج کی گرمی سے جھلسا ہوا روزہ دار بدن پانی کے ان فرحت بخش قطروں کے سپرد کردے۔
         ’’ظہر کا وقت ہے نا چاچا؟‘‘
         رحمت علی نے حوض کے کنارے دائیں طرف کی نششت پر بیٹھے بزرگ سے پوچھا جو مسواک کر رہے تھے۔
           ’’ہاں! ابھی ساڑھے تین ہی تو بجے ہیں،کافی وقت ہے۔‘‘
           باریش بزرگ نے بغیر نظریں اٹھائے جواب دیا۔
           رحمت علی کو وقت کے تاخیر سے گزرنے کا احساس ہوا۔ سچ مچھ دن طویل معلوم ہو رہا تھا اور آج واقعی وہ اپنی جان سے آدھے ہوگئے تھے۔شدت کی بھوک پیاس نے انھیں بے حال کر رکھا تھا اس پر مسجد کامپلیکس کی دکانوں سے تازہ مٹھائیوں اور لذت دار پکوانوں کی اڑتی مہک انھیں بے چین کرنے لگی۔
            وضو کرتے وقت ٹھنڈے پانی کے لمس نے ان کے روم روم میں رچی تشنگی کوجیسے سیراب کردیا۔ایمانی حلاوت سے سر شار رحمت علی نے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی۔ دعا میں برسات کے خیال سے ان کے ہونٹ پھڑ پھڑا اٹھے تھے۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ صحن کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے جانے کتنی دیر نیم دراز حالت میں پڑے رہے مگر تھالوں اور رکابیوں کی کھڑکھڑاہٹ سے چونک کر سیدھے ہوگئے ۔اب کے مسجد کی پر سکون فضا میں سر سراہت سی دوڑ گئی۔ سوئے ہوئے روزے دار کروٹیں بدلنے لگے، کچھ اٹھ بیٹھے اور اپنی سفید داڑھیوں کو سنوارنے لگے۔ عصر کی اذان کا وقت قریب آگیا تھا اور مسجد میں افطار کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، دستر خوان جھاڑے جا رہے تھے، برتن دھوئے جا رہے تھے تو ایک طرف بچے پھلوں کی قاشیں کاٹ کر ترتیب سے رکھ رہے تھے ۔ مسجد میں آنے والوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بیشتر آنے والوں کے ہاتھوں میں پلاسٹک کی تھیلیاں تھیں اور کچھ لوگ طشتریوں اور خوانوں کو خوش رنگ کپڑوں سے ڈھانکے افطار کی سوغاتیں پیش کر رہے تھے ۔
          انہیں میں ایک شخص غالباً آٹھ سال کی بچی کو گود میں لئے مسجد میں داخل ہوا۔ بچی نے سرخ رنگ کا اسکارف اوڑھ رکھا تھااور گلے میں تازہ پھولوں کا ہار جو اس کے پیٹ تک لٹکا ہوا تھا اور جس کی مہک روزے کے احساس کو شدت پہنچا رہی تھی۔ اس کے کمھلائے ہوئے چہرے پر نور کا ایک ٹکڑا سا ٹھہرا معلوم ہو رہا تھا اور ہونٹ سوکھی انجیر کی مانند، جن پر مچلتی پیاس کو دیکھ کر صاف معلوم پڑتا تھا کہ وہ بھی روزے دار ہے۔بچی کو دیکھ کر رحمت علی کی آنکھوں میں اپنے بیٹے کا چہرہ اتر آیا۔ رضوان کے کمسنی میں رکھے گئے روزوں کی یادداشتیں ان کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ خاص کر اس کا پہلا روزہ انھیں خوب اچھے سے یاد ہے۔جب وہ آٹھ برس کا تھا اور انھوں نے اسے اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں بھر میں اس وقت تک گھمایا تھا جب تک ہر خاص و عام نے اس کی بلائیں نہ لے لی تھیں۔
           اچانک مسجد کے صدر دروازے پر ایک شور سا اٹھا۔ رحمت علی نے گردن گھمائی تو دیکھا کہ چار پانچ خوش پوش اور مضبوط قدو قامت کے نوجوان قہقہے لگاتے ہوئے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ مسجد کے احاطے میں آتے آتے ان کی آوازیں مدھم ہوکر سرگوشیوں میں کھو گئیں۔ لڑکوں نے واٹر فلٹر مشین سے بھر بھرگلاس پانی پیا اور طہارت خانے میں جا گھسے ۔ پھر کچھ دیر بعد وہ فلسفیانہ نگاہوں سے مسجد کے بے ترتیب مکینوں کو دیکھتے ہوئے بڑے دروازے کی طرف چل دیے۔
           رحمت علی نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید دفتر کے ملازم تھے یا پھر مال اور دکانوں میں کام کرتے ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سڑکوں پر دکانیں لگاتے ہوں۔ لیکن رمضان المبارک کے اس مقدس ماہ میں انھیں پانی پیتے دیکھ کر رحمت علی کو قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ نہ اس وقت انھیں حیرت ہوئی تھی جب وہ ’وینکٹیش انّ بھنڈار‘ سے واپسی کرہے تھے اور پاس ہی کھانے کے معیاری ریستوران کے باہر رحمانیہ کالج کے چند طلبہ برگر، پیزا اور چاٹ جیسی کھانے کی مختلف چیزیں ہاتھوں میں لیے ادھم مستی مچا رہے تھے۔ بھلے ہی رحمت علی کو ان پر بھی حیرت نہ ہوئی ہو لیکن ان کی آنکھوں میں شرمندگی کا ایسا احساس تھا جو کسی لفظی تصویر میں نہ ڈھل سکے ۔
         عصر کے لئے موذّن نے صدا دی تو رحمت علی نے سر کا رومال ڈھیلا کیا اور وضو کے لیے حوض کی طرف بڑھے۔ نماز کے بعد انھوں نے ہمت جٹائی اور نہ چاہتے ہوئے مسجد کا صحن پار کیا۔
         باہر سورج مغربی ہو رہا تھا مگر آسمان پر ہلکی نیلی چادر ایسی صاف و شفاف تنی ہوئی تھی کہ جس پر بادل کا ایک دھبہ تک نہیں تھا۔سڑک کے دونوں کناروں پر سجی دکانوں پر آمد عید کی بہاریں، گویا کہ سیدھی اور ساکت کھڑی سڑک کو گدا گدا رہی تھیں۔
         رحمت علی نے اطراف کا سرسری جائزہ لیا اور جھک کر اپنے ٹھیلے کی دونوں مٹھیوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پھر بسمہ اللہ پڑھی اور پورے بل سے اسے اوپر اٹھاکر کسی ستون کی طرح جم گئے۔ ان کے ہاتھوں کی نسیں تن کر پھڑ پھڑانے لگیں اور پورے جسم میں جیسے ایک ولولہ سا چھوٹ گیا۔ اگلے ہی لمحے چار کونٹل اناج سے لدا محمد علی روڈ کے ایک پچپن سالہ محنت کش حمال کا ٹھیلہ تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بازار کی بے ہنگم بھیڑ میں گم ہو گیا۔
                             ختم شد۔۔۔۔۔۔۔

UrduChannel – 1

Articles

UrduChannel - 1

Urdu Nama – 1

Articles

اردو نامہ۔۱

پروفیسر صاحب علی

Kulliyar e Kashif

Articles

کلیاتِ کاشف

مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی

Shafeeq Fatima Shera ka Sheri Canvas

Articles

شفیق فاطمہ شعریٰ کا شعری کینوس اور نسائی حسیت

قمر جہاں

بیاباں سبزۂ نوخیز سے آباد ہوتے ہیں
سکھی تم بھی جو اپنا دل بسا لیتیں تو اچھا تھا
حیا ہے خوف ہے پندار ہے ضد ہے یہ کیا شے ہے
تم اس خود ساختہ زنداں کو ڈھادیتیں تو اچھا تھا
ہمیشہ التجائیں رائیگاں جاتی رہیں میری
کبھی میری خوشی کی بھی دعا لیتیں تو کیا ہوتا
(’ صدا بصحرا ‘ازشفیق فاطمہ شعریٰؔ)
نسائی جذبات سے لرزاں یہ دل نشین آوازبیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں ابھرنے والی اس شاعرہ کی آواز تھی جس کے پیش نظر اردوشاعری میں نسائی حسیت کی پیش کش کا کوئی بہت کامیاب نمونہ نہیں تھا۔باوجود اس کے اس نے خالص نسائی جذبات کو الفاظ کا شفاف پیرہن عطا کیا، وہ بھی اس کامیابی کے ساتھ کہ یہ نظمیں اردو شعروادب کی تاریخ میں خوشگوار اور تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئیں اور شائقین ادب کے قلوب و اذہان کے لیے باعث مسرت و بصیرت۔ یہ منفرد آواز اس وقت گونجی جب بقول محمود ہاشمی ’’اردو میں خصوصاً جدید نظم میں کسی نسوانی آواز کا عدم وجود بے حد کھلتا تھا۔‘‘(۱)
شعریٰ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز منظوم تراجم سے کیا۔ انھوں نے اقبال کی پیام مشرق، ارمغان حجاز اور جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ (ادھورا) کیا۔ ساتھ ہی اسپین کے نوبل انعام یافتہ غنائی شاعر JAUN RAMON JIMENEZ کی نظموں کا ترجمہ کیا تھاجو ان کے پہلے مجموعۂ کلام ـ ’گلۂ صفورہ‘ میں شامل ہے۔یہ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جس میں ان کی شادی (۱۹۶۵) سے قبل کی نظمیں شامل ہیںلیکن اس کی اشاعت مکتبہ جامعہ سے ۱۹۹۰؍ میں ممکن ہوسکی ۔ دوسرا مجموعۂ کلام ’آفاق نوا‘ ہے جس میں شادی کے بعد کا کلام شامل ہے لیکن اگر اشاعتی ترتیب سے دیکھا جائے تو یہ مجموعہ ’گلۂ صفورہ‘ سے پہلے یعنی ۱۹۸۷ میں شائع ہواجب کہ ان کا کلیات ’سلسلۂ مکالمات‘ کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی سے ۲۰۰۶ میں شائع ہوا، جس میں مذکورہ دونوں مجموعوں کے علاوہ ’کرن کرن یادداشت ‘اور ’سلسلۂ مکالمات‘نامی مجموعے بھی شامل ہیں۔ ۱۳ ؍ اگست ۲۰۱۲؍کو آسمان ادب کا یہ روشن ستارہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
شعریٰ کی نظمیں گجر، صبا، آئینہ ، سوغات، شب خون، شعروحکمت، شاہراہ اور بہت بعد میںپاکستان سے شائع ہونے والے رسالہ بادبان اور دیگر ادبی رسالوں کی زینت بنتی رہیں۔ ان کی نظموں نے اپنے آغاز میں ہی باذوق قارئین کو چونکایاتھا۔ حمید نسیم نے انھیں عہد حاضر کے پانچ سب سے بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے اورگلۂ صفورہ‘ کے گرد پوش پرقاضی سلیم ان کا تعارف کراتے ہوئے ’ ’شعریٰ اردو شاعری کی پہلی نسائی آوازہے‘‘ جیسا اہم بیان درج کیا ہے۔
شعریٰ کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ ابتدائی عہد کے کلام میں نو بلوغیت کے عہد کے نسوانی جذبات کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے وہیں آگے چل کر ان کی شاعری میں احساسات کی نزاکت اور غنائیت کے ساتھ ساتھ فکر کی گہرائی و گیرائی اور متانت ودانش وری کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ ان کی ہم عصر شاعرات میں سے کسی کے یہاں نظر نہیں آتا۔ خواتین کے سماجی مسائل پر اپنے منفرد انداز میں قلم اٹھانے والی اس شاعرہ کی گرفت میں انفس و آفاق بھی ہیں، بحروبر اور دشت و شجر بھی اور آج کا وہ صنعتی اور مادی عہد بھی جس میں تمام جمالیاتی اور اخلاقی قدریں اپنی ناقدری پر ماتم کناں ہیں۔ان کے یہاں مستعمل علامتوں ، تشبیہوں اور استعاروں میں قرآنی آیات، بزرگوں کے اقوال و ملفوظات کا بکثرت استعمال نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کی جڑیں اپنے تہذیبی ورثے میں برگد کی پارنبیوں کی طرح پیوست ہیں۔ موضوعات کے تنوع کے ساتھ ہی فنی باریکیوں پر بھی ان کی نظر گہری ہے۔ شعریٰ کی شاعری میں نسائی حسیت ان کے ہشت پہلو کلام کا ایک مختصر سا زاویہ ہے۔کلامِ شعریٰ میں نسائی حسیت کی نشان دہی سے پہلے بہتر ہوگاکہ نسائی حسیت کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہر ذی روح میں خواہ وہ انسان ہو یا جانورفطری طور پر قوت حس ودیعت کی گئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسان قوّت گویائی کا سہارا لے کر اپنی حسیت یا اپنے احساسات کا اظہار کر سکتا ہے جب کہ جانور اس قوت سے محروم ہے ۔ انسان کی یہ حسّی صلاحیت عمر، طبقہ ،مزاج اور جنس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ کسی سے کوئی رشتہ اور لگاؤ بھی حسی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے ،یہ رشتہ فرد سے بھی ہو سکتا ہے اور سماج یا سیاست سے بھی ۔ حسیت کو بیدار کرنے میں شخصیت کے مخصوص مزاج کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ اسی طرح مختلف طبقات یا جماعت کے لوگوں کے احساسات و جذبات اور سوچنے کے انداز میں فرق ہوتا ہے علاوہ ازیں جنسیت یعنی Sex بھی حسیت کو متاثر کرتا ہے۔
عورتوں میں چند مخصوص خوبیاں اور صفات ایسی ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے ان کی حسیت میں کچھ ایسی انفرادیت آجاتی ہے جو مردوں میں نہیں پائی جاتی ۔جیسے جذباتیت، ایثار و قربانی ،ممتا ، وفا ، پناہ اور رقیق القلبی وغیرہ کا جذبہ جو مردوں کے بالمقابل عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ عورتوں کی ان حسیات کو جو عرف عام میں عورتوں سے مخصوص ہیں ،نسائی حسیت یا عورت پن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ صفات خالص فطری نہیں بلکہ اس میں سماج اور معاشرے کا بہت بڑا رول ہوتا ہے جو مشرقی اورمغربی عورت کے تقابل سے بالکل صاف اورواضح ہو جاتا ہے۔نسائی حسّیت کے سلسلے میں خالدہ حسینؔ لکھتی ہیں:
نسائی حسیت صرف یہی نہیں کہ مؤنث واحد متکلم کا صیغہ اپنا لیا جائے۔ گھر آنگن اور سنگھار اور برہا کی بات کی جائے۔ اوڑھنی کے رنگوں اور چوڑیوں کی چھنک کو شاعری میں ایک معتبر مقام دلوایا جائے۔ نسائی حسیت سے مراد ہے کہ عورت جس طرح زندگی کو دیکھتی اور بسر کرتی ہے وہ مرد سے مختلف ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہر انسان وقت کو اپنے حوالے سے پہچانتا ہے۔یعنی اس کا وقت کا تصور ذاتی اور داخلی نوعیت رکھتا ہے۔ اس طرح عورت کا وقت کے ساتھ تعلق اور زمانی احساس مرد سے مختلف ہے کیوں کہ اس کے شب و روز اور معاملات و مسائل کی نوعیت منفرد ہے ۔ وہ اپنی سائیکی (جو مرہون منت ہے اس کی جسمانیات کی )کے حوالے سے فطرت کے تمام مظاہر کو ، جن میں اس کے پانچوں حواس سے اخذ کردہ تجربہ یعنی رنگ ، خوشبو ، آواز ، لمس اور ذائقہ شامل ہیں اپنے ا نداز سے محسوس کرتی ہے اس میں صدیوں کے روایتی تلازمات کا بھی دخل ہے اور حال کی تبدیلیوں اور مستقبل کی امیدوں کا تعلق بھی ۔وہ جب موسموں ، رتوں رنگوں اورخوشبوؤں کا تجربہ کرتی ہے تو اس کے تلازمات میں ممتااور بیٹی، بہن اور بیوی کی ذات بھی شامل ہے ۔مرد اس سے مختلف انداز میں سوچتا اور محسوس کرتا ہے ۔ اس کی سوچ دور رسی اور ارتکا زکی خصوصیت رکھتی ہے ۔ جب کہ عورت بے شمار کام بہ یک وقت نمٹاتی اور ان گنت رشتوں کو قائم رکھتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ہر عورت فنکار ہے ۔ یوں شعر میں عورت کی شخصیت ایک منفرد نقطہء نظر کی صورت اختیار کرتی ہے تو اسے ہم نسائی حسیت کا نام دیں گے ورنہ محض مؤنث کا صیغہ استعمال کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔(۲)
نسائیت عورت کی حسیت کا ایک نمایاں پہلو ہے عورت کی مکمل حسیت یا نسائی حسیت کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ، جس کا تعلق عورت کی پوری زندگی اور اس کی پیچیدگیوں سے عبارت ہے۔ اس میں اس کے جذبات و احساسات، افکار و تخیلات ، مزاج و اطوارسبھی کا دخل ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر عورت کی حسیت ایک دوسرے سے منفرد ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ گھریلو اور سماجی زندگی میں یکسانیت اور مطابقت کی بنا پر ان کے فکرو احساس کے دھارے میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔شاعری میں نسائی حسیت کا اطلاق ان اشعار پر ہوتا ہے جن مین عورت کی مخصوص فطرت، اس کی ذات، ذہنی و نفسیاتی کیفیات ، اس کی خواہشات و آرزوؤں کا بیان فطری انداز میں ہوتا ہے اور اس میں کسی روایتی کردار یا اصلاحی جذبہ کی شمولیت نہیں ہوتی ہے۔ ساتھ ہی وہ موضوعات بھی نسائی حسیت کے زمرے میں آتے ہیں جس میں کسی سیاسی وسماجی مسئلے کا بیان ایک عورت (ماں،بیوی، بہن،بیٹی)کے زاویہء نگاہ سے کیا جاتا ہے۔
نسائیت
نسائیت اور تانیثیت عورت کی حسیت کے دو نمایاں پہلوہیں ، جنھیں نسائی حسیت کے تحت رکھا گیا ہے۔ اول الذکرکا تعلق جذباتی حسیت سے ہے جب کہ آخر الذکرکا فکری حسیت سے ہے۔نسوانیت اور نو بلوغیت سے تعلق رکھنے والے شدید جذبات کے اظہار کو ’ نسائیت ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ شعریٰؔ کو زمانہء طالب علمی سے ہی ادب کے علاوہ مذہب،تاریخ اور عصری حالات و سانحات سے گہری دلچسپی تھی ۔ تاہم شاعری کی سطح پر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نوجوانی اور جوانی کے دور میں یا بالفاظ دگر شادی سے قبل کی نظموں میں غنائیت سے بھرپور نیز جذبات کو بر انگیختہ کرنے والاایسا اسلوب ملتا ہے جو شعریٰ کا اپنا ذاتی اسلوب ہے اور جسے’ نسائیت‘ کے ذیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ نظمیں بے چینی اور شوریدگی ،سلگتے ہوئے جذبات کا بہاؤ،احساسات کی شدّت کی تپش ، اپنی کھال سے باہر نکلنے اور کسی کو ٹوٹ کر چاہنے کی ناآسودہ خواہش اور جذباتی زندگی میں ناکامیوں کا زبردست تخلیقی اظہار ہیں۔ غیر معمولی غنائیت اور لہجے کا ایسا اتار چڑھاؤجو موسیقی سے لبریز زمزموں کی شمعیں روشن کردیتا ہے۔حمید نسیم کے الفاظ میں ’’گلہء صفورہ کی نظموں میں فکر محکم اور پختہ ہے لیکن بیشتر نظموں میں ایک ترنگ سی ، جذبہ کا ایک وفور سا ہے ۔ اسلوب میں ایک لہک ہے جس کی حدت سے Effervescent Lyricism ایک ابھرتی ہوئی موج کی مانند ہے ،جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے ۔‘‘ (۳)
عشق شروع سے ہی نہ صرف اردو شاعری کا بلکہ انسانی زندگی کامرکزی موضوع رہا ہے ۔عہد قدیم سے لے کرآج تک شعرا اس محبوب موضوع کو نئے پیرہن میں پیش کرتے رہے ہیں۔لیکن شعریٰؔ کی شاعری اس حیثیت سے ایک ممتاز حیثیت کی حامل ہے کہ اس میں عشقیہ جذبات کا اظہار (جن پر ابھی تک شعرا قابض تھے) ایک شاعرہ کی جانب سے ہوا اور یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مرد کی طرح عورت بھی اپنے دھڑکتے ہوئے دل میں لطیف جذبات و احساسات رکھتی ہے۔اس کے دل میں بھی عشق و محبت کے حسین جذبات پنہاں ہوتے ہیں۔یہ صرف معشوق نہیں عاشق بھی ہے۔ شعریٰؔ کی اس قبیل کی شاعری خالص جذبات واحساسات کی شاعری ہے جو ظاہری آلائش سے پاک دل کا رشتہ دل سے رکھتی ہے۔ ’ارضِ نغمہ ‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
جب سے مجھ کو دل ملا دل کو دھڑکنیں ملیں
تب سے میرے دل میں تھا اس کے پیار کا قیام
اس کی راہ میں مجھے کتنے ہم سفر ملے
ایک مے سے ہیں گداز جن کی زندگی کے جام (۴)
عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں خواتین تانیثیت کے نام پر زندگی کے ہر میدان میں مساوی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، وہیں مشرق میں عورت ابھی درونِ خانہ ہی آزاد نہیں کجا بیرونِ خانہ ۔ وہ اپنی زندگی کے کسی فیصلے میں آزاد و خود مختار نہیں۔ ہماری تہذیب و ثقافت جہاں سماجی سطح پر عورتوں کا دائرہ محدود اور زندگی بسر کرنے کے اصول و ضوابط مرد حضرات سے مختلف ہیں، جہاں شادی بیاہ جیسے اہم ترین معاملات میں بھی لڑکیوں کی رائے لینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی ، جہاں وفا، عصمت ، پاکیزگی اور قربانی جیسی صفات عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں؛ ایسی تہذیب و ثقافت میں عشق جیسے شجر ممنوعہ کے پھل کو چکھنے کی اجازت کسے ہوسکتی ہے۔ اوراگر کسی نے غلطی سے اس پھل کو چکھنے کی جسارت کرلی تو یقیناً راندۂ درگاہ ہونا طے ہے۔ مشرقی ممالک میں ایسا قدم اٹھانے والی دوشیزاؤں کو آنر کلنگ کے نام پر زندگی کی قید سے آزاد کر دینا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ لیکن عشق تو ایک فطری اور الوہی جذبہ ہے،جس سے دامن بچانا ممکن نہیں ۔ ’ صدا بصحرا‘ میں ایک ایسی ہی لڑکی کی سہمی سہمی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے ، جو عشق کی کسک سے آگاہ ہے لیکن حیا اور پندار کے نام پر خاموش اور اظہار سے قاصر اندر ہی اندر گھٹ رہی ہے:
سکھی پھر آگئی رت جھولنے کی گنگنانے کی
سیہ آنچل کی تہہ میں بجلیوں کے ڈوب جانے کی
سبک ہاتھوں سے مہندی کی ہری شاخیں جھکانے کی
لگن میں رنگ آنچل میں دھنک کے مسکرانے کی
امنگوں کے سبو سے قطرہ قطرہ مے ٹپکنے کی
گھنیرے گیسوؤں میں ادھ کھلی کلیاں سجانے کی(۵)
’صدا بصحرا‘ کے اس بند میںگنگنانے ، جھولنے اور مہندی کی ہری شاخیں جھکانے والی رت سے مرادساون کا وہ روایتی مہینہ ہے ،جب ایک طرف تو پانی ٹوٹ کر برستا ہے اور دوسری طرف دوشیزاؤں کے پورے وجود پر ایک شعلہ صفت ہریالی چھا جاتی ہے اور جذبات سلگنے لگتے ہیں۔ نظم میں سکھی کو جو لڑکی مخاطب کرتی ہے وہ در اصل ان ہی جذبات کی نمائندگی کرتی ہے۔اور جس لڑکی سے یہ باتیں کی جارہی ہیں وہ راوی کی اپنی ہم زاد ہے،ایسی ہم زاد جس پربدلتے ہوئے موسموں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ وہ ایک ایسی جھیل ہے جس کی تہہ میں اگرچہ ہلچل ہے لیکن اس کی سطح بہت پرسکون اور خاموش ہے ۔مختصر یہ کہ راوی جذبہ ہے جب کہ اس کا مخاطب اس کا اپنا شعور ہے۔فضیل جعفری ؔلکھتے ہیں’’ حقیقت یہ ہے کہ نوجوانی اور جوانی کے دور میں ان پر’ میر ابابیت ‘کا غلبہ تھا ۔علاوہ ازیں ان کی بعض نظموں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عشق تو ٹوت کر کیا مگر کلی پھول نہ بن سکی۔ اپنی ایک بڑی خوبصورت نظم ’سمتیں ‘کے اس بند میں انھوں نے جو داستان بیان کی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔‘‘ (۶)
اس شاعری میں جدت کا رنگ اور آہنگ پایا جاتا ہے ،جس میں عشق و محبت کے سارے رنگ محبوب کی فکرمندی، روٹھنے منانے کا کھیل،بچھڑنا اور پھر زندگی کی تاریک راتوں میں محبوب کی یادوں کے اجالوں کو اپنے ہمراہ رکھناغرض یہ کہ تمام احساسات مرد کے عشقیہ جذبات واحساسات سے مختلف ہیں ۔ شعریٰ کی نظموں میں عورت رادھا ، میرا اور سیتا کا روپ ہے جس نے اپنے محبوب کو ٹوٹ کر چاہا ہے۔ نظم ’سمتیں‘ کے یہ دو بند ملاحظہ ہوں :
راہی سب سے روٹھو لیکن مت روٹھو
اپنی میٹھی اور منوہر بانی سے
اس لہجہ سے جس پر سب مفتون ہوئے
جس کی بدولت لگتے ہو لاثانی سے
—————-
راہی یوں نہ سمجھنا بازی ختم ہوئی
جنم جنم ہم راہوں میں ٹکرائیں گے
جنم جنم چمکیں گے اشارے سمتوں کے
دل کی قسمت کے تارے گہنائیں گے (۷)
مندرجہ بالا اقتباسات میں جدید شاعری کے مروجہ تکنیکی عناصر یعنی علامتوں ، استعاروں اور امیجری کی پیچیدگی نظر نہیں آتی لیکن جذبات و احساسات کی شدّت اور بیانیہ کی ندرت نے مجموعی طور پر اتنا زبردست تاثر تخلیق کر دیا ہے ،جس سے دامن بچا کر نکل جاناممکن نہیں۔ان اشعار میں عشق کا اظہار ایک خالص ہندوستانی عورت کی طرف سے ہوا ہے جو ہندوستانی شاعری کا امتیاز ہے جب کہ اب تک فارسی شاعری کے زیرِ اثرعورت اردو غزل کا معشوق تھی۔ شعریٰ کے کلام کی نسائیت ’’سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں‘‘کا ایک روپ ہے، جو ایک عورت کی زبان سے تشکیل پارہا ہے۔ اس سے قبل کی شاعری میں عورت ستر پردوں میں ملفوف معشوقہ یا پھر سنگ دل شاہدان بازاری تھی۔ وہ سب کچھ تھی بس نہیں تھی تو ایک عورت۔ اس کے بارے میںاب تک جو کچھ لکھا یا کہا گیا وہ اس کے تئیں محض مرد کا تصور یا اس سے متعلق مرد کی آرزوؤں اور خواہشوں کا مظہر تھا۔ شعریٰ کی اس قبیل کی دوسری کئی نظموں جیسے’ زوالِ عہد تمنا‘،’زیرِ چرخِ کہن‘،’گلۂ صفورہ‘،’اسیر‘، ’صدا بصحرا‘اور ’پریتی‘ وغیرہ کا عمومی اسلوب بیک وقت شیریں بھی ہے اور اس پر اداسی کی پرچھائیں بھی نظر آتی ہے۔شعریٰؔ کی ابتدائی شاعری کی اس غیر معمولی حد تک غنّائیت اور داخلیت کے بارے میں وحید اخترؔ لکھتے ہیں :
ان کے لہجے پر عرب شاعروں کے عشقیہ آہنگ کا بھی اثر ہے ۔لیکن جو چیز انھیں ممتاز کرتی ہے وہ ان کا افسردگی آمیز تفکر ہے ۔اس افسردی میں کھوکھلے رجائیت سے زیادہ ایمان افروز کیفیت ہے ۔ دوسری خصوصیت جو انھیں تمام خواتین شعرا سے ممتا ز کرتی ہے ،ان کا نسائی لب ولہجہ ہے۔ترقی پسند دور کی شاعرات میں ادا بدایونی ؔ اور صفیہ شمیمؔ ملیح آبادی کے یہاں جو لہجہ ہے وہ اس دور کے مرد شاعروں سے الگ نہیں ،صرف نام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خواتین کی نظمیں ہیں۔اس کے برخلاف شعریٰؔ کی نظم کا پورا ڈھانچہ اور ان کے لہجے کی ہلکی سی کسک ،دردمندی اور نرمی ان کے جنس کی صاف غمّازی کرتی ہیں۔(۸)
تانیثیت
تانیثیت بنیادی طور پر ایک شعوری تصور ہے جس کے پیچھے بطور محرک عورت کے وہ اجتماعی تجربات کار فرما ہیں جو اس نے مرد اساس نظام و اقدار میں استحصال اور نا انصافی کی شکل میں حاصل کیے ہیں ۔مرد اور عورت کے درمیان حیاتیاتی تفریق کے سبب اسے سیمون دی بوار کے لفظوں میں ہمیشہ’ دوسری جنس ‘ہی سمجھا گیا۔چونکہ وہ صرف ایک کمیوڈٹی تھی اس لیے سیاسی ، سماجی، معاشی اور قانونی سطح پر اس کے لیے یکساں حقوق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔تانیثی تحریک کا بنیادی مقصدان حقوق کی حصولیابی اور ترقی کے میدان میں انھیں یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔اجتماعی طور پر تانیثیت کی لہر اٹھنے سے پہلے حقوق نسواں کی تمام تر جدوجہد انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ایک تحریک کی شکل میں تانیثیت کا آغاز انیسویں صدی کے دوران برطانیہ میں ہوااور تب سے اب تک مغرب میں تانیثی تحریک نے تین ارتقائی مراحل طے کیے ہیں جنھیں تین’ لہر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پہلی لہر میں، جس کا آغاز برطانیہ میں ہوا عورتوں کی تعلیم، ان کے لیے روزگار کے مواقع اور شادی سے متعلق قوانین جیسے مسائل کو اٹھایا گیا ۔ اس تحریک کو زبردست کامیابی ملی عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل گئے اور ۱۸۷۰ء میں شادی شدہ عورتوں کی حق ملکیت کا قانون بھی عمل میں آگیا۔ تانیثیت کی یہ لہر پہلی عالمی جنگ تک جاری رہی۔
برطانیہ میں حقوق نسواں کی اس بلند بانگ صدا نے نہ صرف یہ کہ پورے یورپ کی خواتین کوبیدار کردیا بلکہ اس کی گونج امریکہ کی شاہراہوں تک پہنچی ۔نتیجتاً بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں یوروپی ممالک اور امریکہ میں عورتوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے آواز بلند کی گئی۔ تانیثیت کی اس دوسری لہر میں اسقاطِ حمل کے حق اور لسبین مسائل کو بھی حقوق نسواں کی تحریک میں شامل کیا گیا۔ یہ لہر تنازعات کا شکار ہوکر ۱۹۹۰ء کے آس پاس ختم ہوگئی ۔
تانیثی تحریک کی تیسری لہر بیسویں صدی کی آخری دہائی سے ذرا قبل نمودار ہوئی۔ اس تحریک سے عورت کی ایک نئی شبیہ ابھر کر سامنے آئی۔ اب عورت ادعائیت کی حامل ہے ، طاقت ور ہے، اپنے تشخص پر اسے خود اختیار ہے ۔ یہ تحریک عورت کے سیاسی ،سماجی اور معاشی طور پر خود مختار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی انفرادی تشخص پر بھی مصر ہے۔عورت کو اپنا تشخص یا پہچان خود قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
بیسویں صدی کے دوران برصغیر ہندوپاک میں عورتوں کی تعلیمی بیداری کے نتیجے میں ان کا شعور بھی بیدار ہوا اور بیرونِ خانہ معاملات سے وابستگی نے ان کے اندر تشخص کا احساس جگایا۔یہی تشخص تانیثیت کا مرکزی موضوع ہے لہٰذا تانیثیت کو ’جدید عورت کی حسیت‘ اور نسائیت کو’قدیم عورت کی حسیت ‘سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ امتیاز صرف یہ ہے کہ نسائیت کا عنصر تو عصر حاضر کی شاعرات کے یہاں بھی مل جائے گا لیکن تانیثیت بیسویں صدی کے نصف آخر اور خاص کر ۱۹۶۰؁ء کے پہلے شاذ ہی نظر آتا ہے ۔البتہ افسانہ نگاروں نے بیسویں صدی کے آغاز میں ہی خواتین کی مساوی حیثیت پر زور دیا۔ انھوں نے خواتین کی سماجی نابرابری ، کمتر حیثیت اور تعلیم سے محرومی کو اپنا موضوع بنایا۔ بلا مرضی اور بے جوڑ شادی، جنسی ناآسودگی، درونِ خانہ عورتوں کا جنسی استحصال، کثرت ازدواج، بچوں کی بھرمار اور اس کے اوپر لعنت ملامت وغیرہ موضوعات بھی تانیثیت کے رجحان کے تحت حیطۂ تخلیق میں لائے گئے۔ ان مسائل کی کامیاب اور پرزور پیش کش سب سے پہلے رشید جہاں اور پھر عصمت کے یہاں نظر آتی ہے۔ تعلیمی بیداری کے نتیجے میں خواتین کا شعور بیدار ہو، ساتھ ہی تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے وہ گھر سے باہر کی دنیا سے بھی آشنا ہوئیں۔باہر کی دنیا میں قدم رکھتے ہی وہ اس کربناک حقیقت سے بھی روشناس ہوئیں کہ صرف معاشی خود کفالت ہی سماجی مساوات کی آخری حد نہیں بلکہ یہ اس کی ایک چھوٹی سی اکائی ہے۔ ورکنگ وومن کے سامنے اپنے مسائل کا ایک کھولتا ہوا جہنم موجود تھا۔ کام کے مواقع میں بھی عدم مساوات، مشاہرے میں ان کے ساتھ امتیاز اوراس قسم کے دیگر مسائل ورکنگ وومن کی نفسیات و تجربات کا حصہ ہیں ۔ تانیثی رجحان جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا ویسے ویسے اس کے سامنے خواتین سے متعلق مسائل کی فہرست نئی نئی شکل میں آنے لگی۔
تانیثیت کے اس کارواں میں شاعرات بھی پوری سج دھج کے ساتھ شریک ہوئیں۔ پروین شاکر، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی،سارا شگفتہ اور زہرا نگاہ وغیرہ نے ایک طرف جہاں عورتوں کے مسائل کو اٹھایا وہیںسماجی، سیاسی اور معاشی سطح پر ان کے مساوات کی متقاضی ہوئیںہے۔ان شاعرات کے یہاں اظہار کے پیرایے اور لہجے میں فرق ہے تاہم مقصد سب کا ایک ہے یعنی عورت کے وجود کو اس کے پورے احترام کے ساتھ منوانا۔محض مراعات کی بخشش مسئلے کا حل نہیں ۔ پہلے عورت کی نفسیاتی، جذباتی اور انسانی تشخص کو تسلیم کرنا پڑے گا تب ہی باہمی شرکتیں مکمل ہو سکتی ہیں۔اس سلسلے میں جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً سبھی شاعرات نے اپنی شاعری کا آغاز ’تانیثیت‘نہیں بلکہ ’ نسائیت ‘ سے کیا ، اور نوعمری کے نسوانی اور غنائی جذبات کو شاعری کا جامہ پہنایالیکن بہت جلد ہی شرم و حیا ،کپکپاتے ہوئے ہونٹ اور خواہشات کی دھیمی دھیمی سلگتی آگ کی جگہ بغاوت، جسارت اور اعلان جنگ نے لے لی۔نظم ’گھاس بھی مجھ جیسی ہے‘ میںکشور ناہید لکھتی ہیں:
گھاس بھی مجھ جیسی ہے ؍ ذرا سر اٹھا نے کے قابل ہو ؍ تو کاٹنے والی مشین ؍ اسے مخمل بنانے کا سودا لیے ؍ ہم پر وار کرتی ہے (۹)
یہ ہے صدیوں کے ظلم اور مردوں کی غلامی کا شکار عورت۔وہ بولنا چاہتی ہے تو اسے قوت گویائی سے محروم کردیا جاتا ہے،کھلے آسمان میں اپنے پنکھ پھیلا کر اڑنا چاہتی ہے تو ا س کے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ صدیوں سے استحصال کا شکار عوت اپنے وجود اپنے جسم اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑتی ہوئی لہولہان ہورہی ہے اور بسا اوقات شکست سے دوچار بھی تاہم اس کی ہمت پر آفرین کہ وہ اس شکست کو جز سنجیدنِ پر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ بالزاک نے کہا تھا ’’شادی شدہ عورت غلام سے بھی بدتر ہے۔‘‘ بس فرق یہ ہے کہ بالزاک نے فرانس کے تناظر میں یہ بات انیسویں صدی میں کہی تھی جب کہ جنوبی ایشیا میںاکیسویں صدی کی شادی شدہ عورت کی حالت اب بھی اس قول کی صداقت کی گواہ ہے۔کشور ناہید کی ایک اور نظم نیلام گھر کے کچھ مصرعے ملاحظہ ہوں:
مرے منھ پر طمانچہ مار کر ؍ تمھاری انگلیوں کے نشان ؍ پھولی ہوئی روئی کی طرح ؍ میرے منھ پر صد رنگ غبارے چھوڑ جاتے ہیں ؍ تم حق والے ہو ؍ تم نے مہر کے عوض حق کی بولی جیتی ہے (۱۰)
اس کے علاوہ جاروب کش،میں کون ہوں ،سنسر شپ ، دفعہ ۱۴۴ ؍اور اینٹی کلاک وایز جیسی نظمیں بھی ان کے تانیثی رویوں کی بھر پور نمائندگی کرتی ہیں۔انھوں نے اپنے وجود کو پوری طرح اس معاشرے سے منوایا جہاں عورت کی جمہوری حق حکمرانی اور پوری یا آدھی گواہی جیسے مسائل پر ابھی تک بحث جاری ہے۔پاکستان میں جنرل ضیا ء الحق کا عہد آمریت عورتوں کے لیے سیاسی اور سماجی دونوں سطح پر ناسازگار ثابت ہوا ۔ اسلامی حکومت کے نام پر خود ساختہ قوانین کو جبراً نافذ کرنے کے نتیجے میں تعلیم یافتہ عورتوں کے طبقے میں شدید احتجاج ہوا۔ ’حدود قانون‘ اور ’ نصف گواہی‘ جیسے مسئلے پر عورتوں کا شدید ردّ ِ عمل سامنے آنا لازمی تھا۔’ حدود آرڈیننس‘ کے خلاف اسی عنوان سے زہرہ نگاہ ؔ نے ایک نظم لکھی جو خواتین کے احتجاج کی تصویر پیش کرتی ہے۔
فہمیدہ ریاض اپنی نظموں میں خدا، مذہب اور معاشرے سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ان کی نظموں میں احتجاج اور بغاوت کی شدت فرسودہ معاشرے اور مذہبی بندشوں کے بارے میں از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔مقابلہء حسن، باکرہ ، نینا عزیز ، اقلیما،چادر اور چاردیواری اور کب تک اسی قبیل کی نظمیں ہیں، جن میں مذہب اور سماج کے خودساختہ ٹھیکیداروں کو انتہائی طاقتور آواز میں چیلنج کیا گیا ہے ۔
چونکہ مرد اساس معاشرے کے قانون ساز مرد حضرات ہیں اس لیے معاشرتی سطح پر سارے اختیارات آج بھی مرد ہی کو حاصل ہیں۔ عورت کو محض اس کی ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ مانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت کاگاڑی کے دو پہیے ہونا صرف مقولے کی حد تک درست ہے ورنہ عملی زندگی میں عورت کی حیثیت ثانوی ہے ۔ عورت کی اس بے جان حیثیت کو فہمیدہ ریاض نے اپنی نظم’ گڑیا ‘میں بہت خوبصورتی کے ساتھ موضوع بنایا ہے:
جب جی چاہے کھیلو اس سے ؍ الماری میں بند کرو ؍ یا طاق میں اسے سجا کر رکھ دو ؍ اس کے ننّھے لبوں پہ کوئی پیاس نہیں ؍ نیلی آنکھوں کی حیرت سے مت گھبراؤ ؍ اسے لٹا دو ؍ پھر یہ جیسے سو جائے گی(۱۱)
خالص نسائی لہجے کی سوگوار شاعرہ پروین شاکر ؔنے بھی اپنی ایک نظم ’نک نیم ‘ میں عورت کی اس حالت کو موضوع بنایا ہے ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں کبھی مذہب ، کبھی سماج تو کبھی تہذیب و ثقافت کے نام پرعورت کے ساتھ بے شمار زیادتیاں اور ناانصافیاں روا رکھی گئیں۔ خانگی تشدد، زدوکوب، جنسی استحصال اورکبھی عزت تو کبھی جہیز کے نام پر قتل یہ سب عام واقعات ہیں۔ عورت کی ذہانت، صلاحیت اور قابلیت سے قصداًچشم پوشی کی گئی ، اسے مرد کے مقابلے میںجسمانی طور پر کمزور اور ناتواں نیز جذباتی طور پرزیادہ حساس اور نم دیدہ قرار دیا گیا۔ ناقص العقل بھی کہا گیا اگرچہ سائنس اسے ثابت نہیں کر سکی۔اس کے علی الرغم مردکو عقل و فراست، ذہانت اور تفکر پسندی کی صفت سے متصف قرار دیا گیا۔اسے سیتا، ساوتری،شکنتلا، پدمنی اور دروپدی کا درجہ دیا گیا یا پھر، پری ، شہزادی، گڑیا، ملکہ اور مہارانی کا ۔ محروم رکھا گیا تو صرف ایک حیثیت سے اور وہ حیثیت ایک انسان کی ہے۔یہ ذہنیت صرف مشرق ہی تک محدود نہیںبلکہ مغرب جو ترقی پسندی کی روشن مثال ہے وہاں بھی رائج ہے۔ سلویا پلاتھ کے مطابق”They spoke about us, to us and at us but never for us.”مرد اساس معاشرے میں عورت کی ذات اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی و نمائندگی سے یکسر محروم رہی ۔ پروین شاکر ’نک نیم‘ میں اس طرح تصویر کشی کرتی ہیں:
تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو ؍ ٹھیک ہی کہتے ہو ؍ کھیلنے والے سب ہاتھوں کو ؍ میں گڑیا ہی لگتی ہوں ؍ جو پہنا دو مجھ پہ سجے گا ؍ میرا کوئی رنگ نہیں ؍ جس بچے کے ہاتھ تھما دو ؍ میری کسی سے جنگ نہیں ؍ سوتی جاگتی آنکھیںمیری ؍ جب چاہے بینائی لے لو ؍ کوک بھرو اور باتین سن لو ؍ یا میری گویائی لے لو ؍ مانگ بھرو سیندور لگاؤ ؍ پیار کرو آنکھوں میں بساؤ ؍ اور پھر جب دل بھر جائے تو ؍ دل سے اٹھا کے طاق پہ رکھ دو ؍ تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو ؍ ٹھیک ہی کہتے ہو(۱۲)
فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر ؔ کی ان نظموں کے بعد جب ہم اسی موضوع پر شعریٰؔ کی نظم کا جائزہ لیتے ہیں توشعریٰؔکی فکری انفرادیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔’ گڑیاگھر ‘جیسے اکہرے موضوع میں بظاہر کسی فکری گہرائی یا موضوعی پیچیدگی کی گنجائش نظر نہیں آتی لیکن شعریٰؔنے اس موضوع میں بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے اور اپنی مخصوص تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ’گڑیا گھر‘ جیسے پامال موضوع کو ایک ندرت بخشی ہے۔یعنی مرکزی موضوع کے علاوہ بھی اس میںبعض ضمنی موضوعات کو سمیٹ لیا ہے ،جس کی وجہ سے تانیثیت کی جو دھیمی اور تیز ہوتی لے پروین شاکر یا فہمیدہ ریا ض کے یہاں نظر آتی ہے جسے پڑھتے ہوئے یکسانیت بلکہ توارد کا احساس ہوتاہے وہ یکسانیت شعریٰؔ کے یہاں نظر نہیں آتی۔ بلکہ ان کے یہاں سوگواری اور متانت کی ایک کیفیت ہے جوقاری کو ایک گہری سوگواری سے دوچار کرتی ہے ۔اور ان کا سنجیدہ اور فلسفیانہ انداز قاری کو غور و فکر دعوت دیتا ہے۔ شعریٰؔ کی نظم’گڑیا گھر‘ کا ابتدائی بند ملاحظہ ہو:
ریاضت کے لیے مردان حق ؍ کوہ و بیاباں کی طرف نکلے ؍ کبھی ڈوبے کبھی ابھرے ؍ مگر گڑیا کی رنگیں پالکی کو پالکی بردار ؍ جس بستی میں لے آئے ؍ وہیں اپنی تپسیا کی ڈگر پر اس کو چلنا ہے(۱۳)
پروین شاکر اور فہمیدہ ریا ض ؔکی نظموں ( گڑیا اور نک نیم )کے بر خلاف شعریٰؔ کی نظم میں شائستہ اور پُر وقار لہجے کے ساتھ فکراور دانش وری کی ایک لہر ملتی ہے جو نہ صرف یہ کہ ظاہری طور پرموضوع کا احاطہ کرتی ہے،بلکہ اس میں عورت کی مکمل زندگی کا ایک عکس پیش کیا گیا ہے ۔ ہمارا سماج جہاںسربراہِ مملکت سے لے سربراہِ خاندان تک اقتدار اور طاقت کی ہر کرسی کا حقدار صرف اور صرف مرد ہے۔جہاں قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے ۳۳؍ فیصد نشستیں محفوظ کرانے کا بل سولہ برسوں سے زیرِ التوا ہے ،جہاں پہلی لوک سبھا سے سولہویں لوک سبھا تک کے طویل سفر میں خواتین کی شمولیت کا تناسب ۵ فیصدکی جگہ صرف ۱۲ فیصد ہوا ہے اور جس ملک میں اکیسویں صدی میں بھی جہیز کے لیے عورتوں کو نذر آتش کر دینے کی خبریں تقریباً روز ہی اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ایسے معاشرے میںخواتین کے سماجی، سیاسی، قانونی اور دیگر حقوق کے تحفظ اور صنفی مساوات کے خواب بھی کیسے دیکھے جاسکتے ہیں۔ شعریٰؔ اسی موضوع کو ایک آفاقی رنگ دیتی ہیں :
چھٹی حس بھی معطل ہونے لگتی ہے جب اخبار کی خبروں سے ؍ تو پرکھوں کی دعائیں ؍ کام آتی ہیں ؍ وہ گڑیا کو کہانی ؍ ایسے بیڑوں کی سناتی ہیں ؍ ہزاروں سال کے ترک ِ وطن کے بعد بھی ؍ جن کی جڑیں ؍ اپنی زمیں سے جڑ نہیں پائیں (۱۴)
عورت کو جنم سے ہی ایک گھر کی خواہش ہوتی ہے جو گزرتے عمر کے ساتھ شدید ہوتی جاتی ہے۔ ناسمجھ اور معصوم بچیوںکا ریت کے گھروندوںکی تعمیر میں منہمک ہونا ان کے اس فطری رجحان کی غمازی کرتاہے۔ اس کے باوجود عورت تمام عمر باپ،بھائی ، شوہر اور بیٹے کے گھر میں زندگی بسر کرتی ہے،اس کا کوئی اپنا گھر نہیں ہوتا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسے ووٹ ڈالنے ، ملازمت ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور جائیدادکی ملکیت کے حقوق حاصل ہیں تاہم جب ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہیں تو پاتے ہیں کہ آج بھی اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ ورکنگ وومن کے نام سے شناخت رکھنے والی ملازمت پیشہ عورتوں کے گھروں کے باہربھی نیم پلیٹ پر مرد حضرات کے نام ہی جگمگاتے ہیں۔شعریٰؔ رقم طراز ہیں :
یہ حسرت رہ گئی ؍ سارا جہاں ہوتا ؍ گھروندا اپنا موروثی ؍ پہن کر خول کچھوے کانہ پھر یوں زندگی کرتے ؍ غبار آلود چہروںاور پراگندہ لٹوں والے ؍ ملامت کیش(۱۵)
انسان کے خواب و حقائق کی کوئی انتہا نہیں ،اس نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں اور چاند پر اپنے نقش پا ثبت کیے۔اس کی خواہشیں، تمنائیں اور آرزوئیں روزنت نئے ایجادات کا عملی جامہ پہن کر ہمارے سامنے مجسم نظر آتی ہیں اوراب تو وہ مقام آگیا ہے کہ انھوں نے عقل انسانی پرحیرت کے سارے در بند کر دیئے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اس ہوشربا ترقی نے انسان کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں منہمک رکھا ہے۔’’لب کشا‘‘میں لکھتی ہیں:
ہم آہنگ گردش ستاروںکی ہے ؍ پڑ گئیں جو فضاؤں میں لیکیں پرانی ؍ وہ ان پر پھرے جارہے ہیں، پھرے جارہے ہیں ؍ سب حدیں ان کی پیمودہ ہیں ؍ مگر اپنے خواب و حقائق کا سیل عظیم ؍ کوئی لیک اس کی بنا دے ؍ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟ ؍ کبھی جو بنا دے بھی کوئی تو سوچو ؍ ہمارے قدم اور لیکوں کا رشتہ کہاں تک ؍ کہ اک حد پہ مٹ جائیں گی وہ ؍ تو کیا ہم بھی تھم جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؍ ہم تو بڑھتے ہی رہتے ہیں ؍ چاہے وہ زلزال ہو جو ہمکتا نظر آئے ؍ چاہے وہ ایک سوچ ہو جو تراشے چلی جائے بے شوروشیون ؍ سیہ دہشتوں کے پہاڑ(۱۶)
لیکن اس کے بعد شعریٰؔ جب معاشرے میں عورت کی حالت پر نظر ڈالتی ہیں تو اس کے برعکس پاتی ہیں۔عورت تو آج بھی وہی ہیں جہاں روز اول تھی ۔’’اک ستارہ آدرش کا‘‘میںیوں گویا ہوتی ہیں:
’’ہم نے انساں کا جنم پایا ‘‘ ؍ ستارے گارہے تھے—– ؍ ’’کس عمل کے اجر میں ؍ پایا ستارو، ؍ تم نے انساں کا جنم؟‘‘ ؍ ہم تو انساں کے جنم میں بھی ستارے ہی رہے(۱۷)
اردوادب کی ممتاز شاعرات کے یہاں تانیثیت کی بے باک اور چبھتی ہوئی آواز کے پہلو بہ پہلو جب ہم شعریٰ کی ان نظموں کو رکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ شعریٰؔ کے یہاں تانیثیت کا مخصوص آہنگ نظر نہیں آتا ۔ ان کے پہلے مجموعے میں نسائیت ضرور نظر آتی ہے۔ ’گلہ ء صفورہ‘ کے گردپوش پر قاضی سلیم کے اس جملے ’’ شعریٰ ؔ اردو شاعری کی پہلی نسائی آواز ہے ‘‘کے حوالے سے فضیل جعفری لکھتے ہیں کہ ’’ قاضی صاحب کا یہ قول فیصل’ گلہء صفورہ‘ میں شامل نظموں پر ہی صادق نہیں آتا بلکہ اس کا تعلق شعریٰؔ کے عمومی شعری اور فکری رویے سے ہے۔ عورتوںکے سلسلے میں شعریٰؔ کا جو وژن ہے اس کی تشکیل میں مشاہدات کے علاوہ ان کے ذاتی تجربات کا کردار بھی نمایاں ہے ۔‘‘ (۱۸) ذاتی تجربات سے شعریٰؔ کے گھریلو مسائل کی طرف اشارہ ہے ۔ شعریٰؔ کے عہد میں تانیثیت کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ اٹھا ، لیکن شعریٰؔ اس سے بالکل بھی متاثر نہیں تھیں ۔تانیثیت سے شعریٰؔکی جذباتی یا نظریاتی وابستگی تلاش کرنے سے قبل تانیثی تحریک کے سلسلے میں شعریٰؔ کی آرا سے رجوع کرنا زیادہ مناسب ہے۔وہ لکھتی ہیں:
اقبال نے نسوانی زندگی کو نسبتوں کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
مریم ازیک نسبت عیسیٰؔ عزیز
از سر نسبت حضرت زہرا عزیز
خانوادہ کی دنیاعقبیٰ تک توسیع یاب ہے لیکن خانوادہ کے وقت کے تسلسل کا ایک موڑ یوم مسئولیت ہے،جہاں زن و مرد دونوں اپنے انسانی جوہر کی نمود کے ساتھ ، فرد واحد کی حیثیت سے ذات یکتاکے حضور حاضر پائے جاتے ہیں ۔ نسبتوں کا تناظر پیچھے چھوٹ جاتا ہے یہاں نہ مریم نسبت سے عیسیٰ عزیزالوجود ہیں نہ عیسی نسبت مریم سے بلکہ اپنی سج دھج اپنے تیور اور اپنے جوہر سے عزیز الوجود ہیں ۔ اس پہلو سے اقبال کی نگاہ نے صورت حال کو نہیں دیکھا۔۔۔
یہ ضروری نہیں کہ ان خیالات کی بنا پر میں اناثی تحریک کی گرد کارواں سمجھی جاؤں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اس تحریک کے رطب و یابس کا بوجھ اٹھانا میرے بس کا روگ نہیں۔ اپنے عہد کے تناظر میں گھر سنسار کا منظر نامہ ابھرے تو دکھائی دیتا ہے کہ گھر سنسار حال حال تک اپنی خیر منارہا تھا کہ کہیں اشتراکی ریاستوں کی اجتماعی رہائشی فارمولوں میں تحلیل ہو کر نہ رہ جائے۔۔۔آخر میں اپنے یہاں کی صورت حال پر ایک نظر ڈالنا بھی قرین انصاف ہو گا۔ عرصہء دراز سے یہاںعورت کو حور ارضی کاتشخص عطا کیا گیا ہے۔ اس موقف میں ایسا لگتا ہے کہ شاید روز حساب یہ اپنے نامہء اعمال کو بھی اپنے سرپرستوں سے پڑھوائے جانے پر اصرار کرے گی۔(۱۹)
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ شعریٰؔ تانیثیت کی تحریک سے وابستگی تو دور کی بات اس تحریک کوپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں ۔ شعریٰؔ نے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کو زندگی گزارنے کے لیے ’رابعہ تابعیہ‘ کے حوالے سے پورا منشور مرتب کردیا ہے۔ عقائد کی دیوار کو توڑ کراجتہاد کی جو بنیاد حضرت آسیہ ؓنے رکھی تھی اسے رابعہ ؒنے آگے بڑھایا ہے۔ انھوں نے خود اپنی مثال دے کر خواتین کو خود کفیل بننے اور پورے اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا ہے۔
’’وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاًلِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اِمْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبّ ِ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاًفِیْ الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْن ‘‘( اور اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ،جب کہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے) (سورہ تحریم : آیت : ۱۱) قرآن کریم کی اس آیت کے حوالے سے نظم ’دعائے بانوئے فرعون ‘ میںا س عقیدے کو باطل قرار دیا ہے کہ شوہر سے غیر مشروط ہم آہنگی کا نام وفا ہے اور عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو اس وفا کی بنا پر ہی باشرف اور نیک ٹھہرے اور اس کی عبادتیں اور نیکیاں اسی شرف کی بنا پر تولی جائیں۔عہد قدیم کی اس عظیم المرتبت خاتون کی دعا کے ان الفاظ میں ان کا مکمل تعارف موجود ہے ایسا کافی ووافی تعارف جس کی بنا پر انسانی تاریخ میں ایک مثال اور ایک آدرش کی حیثیت سے ان کا تذکرہ کیا جائے گا ۔ قرآن مجید میں تاریخ عالم کی جھلک، ارتقا کے سنگ ہائے میل بنانے والے انسانی کارناموں پر مشتمل ہے۔’ دعائے بانوئے فرعون‘ کے یہ مصرعے ملاحظہ ہوں:
اتفاق و بخت کا ہر دام جبر ؍ توڑ دینے کی یہ مختاری ، ؍ یہ گھر کے راج سے ، ؍ حق بجانب ارجمندو بے گزند، ؍ دست برداری ، ؍ خدا یا ؍ تیرے رازوں میں ؍ یہ کیسا راز ہے(۲۰)
شعریٰؔ اپنے ایک مضمون میںلکھتی ہیں:
فرعونی جلال وجبروت کو ٹھکراتے ہوئے صرف عائیلی نظام سے نہیں بلکہ ناکسوں کے خشک وتر سے بھی غیر مشروط ہم آہنگی کے وفادارانہ عقیدہ کو وہ [ فرعون کی بیوی حضرت آسیہؓ] مسترد کرتی ہیں، جس کو آج سے ہزاروں برس پہلے مسترد کرنا جان کا زیاں تھا۔۔۔ان کا یہ رویہ انھیں خدا سے دور نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے جوار قرب کے باغات میں بسیرا کرنے کا تمنائی بناتا ہے۔(۲۱)
ساتھ ہی شعریٰؔ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ عورتوں کو ذریعہ معاش کے لیے گھر کی چہار دیواری سے باہر نکلنا پڑتا ہے،کیوں کہ صارفیت کے اس دور میںبسا اوقات تنہا مرد کی آمدنی کے ذریعے گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ’شاہ راہ آرزو ‘ نامی نظم کا یہ صرف ایک پہلو ہے دوسرا پہلو ملک میں پھیلی ہوئی غربت اور غریبوں کی زندگی کی سچائی اور مشکلات کو اجاگر کرنا ہے:
سطح غربت سے بھی نیچے پلنے والا صبر و شکر ؍ متصل ہو جب شب غم میں بلاؤں کا نزول ؍ مٹ کے رہ جاتا ہے فرق اندرون ِ خانہ و بیرونِ در ؍ صبح دم دونوں ہی (مرد وزن ) ؍ تلاش رزق میں باہر نکلتے ہیں ؍ تبھی چلتا ہے کام(۲۲)
اور وہ جانتی ہیں کہ روز اوّل سے اسی لیے بابِ رعایت کشادہ ہے کہ بسا اوقات خواتین کا ملازمت کرنا ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔اسلام عورت کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کا محافظ ہے اور اسے ملازمت و تجارت میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ تاریخ اسلام کا اگر مطالعہ کیا جائے تو امہات المؤمنین ، صحابیات کرام اور دیگر خواتین اسلام کے باقاعدہ تجارت اور صنعت و حرفت سے وابستہ اور معاشی طور پر خودمختار ہونے کی کئی مثالیں نظر آتی ہیں۔ روشن ترین مثال ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی ہے:
لارہی ہیں بھر کے مشکیزے کہاں سے لڑکیاں؟ ؍ ۔۔۔۔۔۔بہتے چشموں سے ؍ بیابانوں سے ۔۔۔۔۔۔۔ایندھن ؍ میوہ ہائے خشک وتر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باغات سے ؍ کچھ رداؤں میں ہیں مستور ؍ اور کچھ ان میں ہیں بے چادر کھلے سر ؍ خادمائیں بھی ہیںمخدومات بھی پاکیزہ اطوار ؍ یہ ہیں معروف النسب اپنے قبیلے میں، ؍ انھیں پہچانتے ہیں نام سے ان کے، ؍ غیورانِ عرب۔ ؍ کون ہیں یہ؟ ؍ یہ وہی ہیں جن کے قدموں کے تلے ؍ مردانِ آزاد ؍ ڈھونڈتے ہیں اپنی جنت کا سراغ (۲۳)
شعریٰؔ معاشی طور پرعورت کی خود مختاری کی اس وجہ سے بھی قائل تھیںکہ معاشی پائیداری عمدہ سماجی زندگی کی بنیاد ہوتی ہے اور عورت کی خستہ حالی میں معاشی کمزوری کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ظلم وزیادتی کی اصل وجہ معاشی طور پر مرد کا دست نگر ہونا ہی ہے۔اور شعریٰؔ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھیں بلکہ اس تجربے سے گزری بھی تھیں جب ان کے والد لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کے سلسلے میں نظریاتی اختلاف کی بنا پر ان کی والدہ اور ان بھائی بہنوں کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
شعریٰؔعورت کو صنف کی حد میں محدود رکھنے کی قطعی مخالف ہیں ۔ وہ نسوانی چہرے کے پس منظر میں انسانی چہرے کی جھلک تلاش کرنے کی قائل ہیں ۔جنس کی بنیاد پر تقسیم کی وہ قائل نہیں ہیں ۔ مردوں کی بالا دستی والے نظام معاشرت کے اس اصول کے خلاف تھیں کہ عورت کو تو ہمیشہ صنف کی حد میں محدود کردیا جاتا ہے، جب کہ اس کے بر خلاف مردانہ تجمل کو لازماً انسانی سج دھج کا آئینہ مانا گیا ہے ۔ اس سلسلے کی ان کی خوبصورت نظم ’رابعہ تابعیہؒ کی یاد میں ‘ ہے اس میں لکھتی ہیں :
امتیاز ِ مردو زن سے ماورا
سطح برتر بھی ہے اک انسانیت کی
جس پہ ابھرے وہ معاصر تابعین(۲۴)
رابعہ تابعیہؒ علامت ہیں عورت کے خود کفیل ہونے کی۔ رابعہ تابعیہ ؒالمعروف بہ رابعہ بصریؒ کا شمار تاریخ اسلام کی ان پاکیزہ اور نیک خواتین میں ہوتا ہے جن کی از ابتدا تا آخر تمام زندگی فقرو غنا سے عبارت ہے۔انھوں نے شدید ریاضت،علم سیکھنے کے کمال اور زہدو عبادت سے ایسا مقام پالیا تھا کہ ان کے عہد کے بڑے بڑے زاہدوعابد مالک بن دینارؒ،سفیان ثوریؒ،شفیق بلخی ؒ اور ابراہیم ادہمؒ جیسے بزرگ ان کے پاس بیٹھنا اور ان کی گفتگو سننا اپنے لیے باعثِ شرف سمجھتے تھے۔وہ بزرگ بھی جو عمر اور بای النظر میں علم اور تصوف میں ان سے آگے تھے ،ان کی مجلس میں مؤدب رہتے تھے۔ اور حسن بصری ؒ جیسے صاحب علم بزرگ کے نزدیک ان کا یہ مرتبہ تھا کہ:
مجلس خاموش محو انتظار ؍ کس کی آمد پر نہ جانے آج ہے موقوف آغاز خطاب ؍ گوش بر آواز ہیں ہم سب یہاں ؍ لب کشا ہوتے نہیں لیکن حسن بصری ؍ کہ اب تک رابعہ آئی نہیں ؍ ’’ کس طرح شربت بھرا اتنا گراں برتن ؍ جو ہاتھی کے لیے ہے ؍ میں اٹھا کر چیونٹیوں کے سامنے رکھ دوں‘‘ ؍ حسن بصری نے پو چھا (۲۵)
مادری نظام کے بعد انسانیت نے جوں ہی پدری نظام میں قدم رکھا ،تمام اقدار کا مرکز مرد بن گیا۔ اساطیری دیویاں ماقبل تاریخ کی خرافات ٹھہریں اورخدا ، دیوتا ، فرشتے ، اوتار اور پیغامبر وغیرہ کا صیغہ آہستہ آہستہ تذکیر میں بدل گیا۔ پدرانہ نظام معاشرت میں گھر سے لے کر تخت اور مکتب سے لے کر منبر اور محراب تک ہر درجے پر مرد اپنا ہی حق فائق سمجھتا آرہا ہے ۔ایسے میں اگر ایک زاہد و صالح عورت اپنے اقوال و افکار سے اور اپنی عبادات کی انتہا سے ہلچل مچادے تو یہ حیرت کا مقام ہے۔اور یہی رابعہ ؒ شعریٰؔ کے لیے سر چشمہء فیضان ہیں۔ کہتی ہیں : ’’رابعہ سر چشمہء فیضان ہیں میرے لیے‘‘۔رابعہ بصری ؒکی جن خوبیوں نے شعریٰؔ کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اور جن کی وجہ سے وہ انھیں ’سرچشمہء فیضان‘ قرار دیتی ہیں ان میں سے ایک رابعہؒ کا خود کفیل ہونا اور مرد کی با لا دستی والے اس معاشرے میں کسی کا دست نگر نہ ہوکر ایک خود مختار زندگی بسر کرنا ہے:
زندگی نے بارہا آواز دی ؍ پرکشش محمل کی جانب ؍ وہ مگر بہر مثال ؍ پاپیادہ ہی رہیں اپنی ریاضت کی ڈگر پر گامزن ؍ اک کھلی دنیا کا انسانی تناظر ؍ اس میں اک خاتون تنہا خود کفیل ؍ منفرد اپنی روش میں بر بنائے اجتہاد ؍ بے ہراس و برحق و بااعتماد ؍ یہ طریق زندگی خود ان کا اپنا انتخاب(۲۶)
عورت کے سلسلے میں شعریٰؔ کی یہ شعری تحریریں صنفی انصاف اور صنفی مساوات جیسے نظریات سے آگے کی منزل ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان جیسا جمہوری ملک ہو یا امریکہ جیسا ترقی یافتہ ۔ دنیا کے تمام ممالک میں خواتین کو مال واسباب کی طرح استعمال کیا جارہا ہے اور انھیں مال و اسباب کو فروخت کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی بنا دیا گیا ہے۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ’’ رابعہ تابعیہؒ‘‘ ایک طاقتور نظم ہے کہ انھوں نے اس میں ’صنف ‘ والی قدیم دیوار کو ڈھا کرمعاشی، سماجی، مذہبی اور سیاسی غرض کہ ہر زاویے سے عورت کو مرد کا نصف بہتر کہنے کے بجائے ایک آزاد اور خود مختار انسانی وجود کے طور پر پیش کیا ہے ۔شعریٰؔ کا تاریخی شعور بہت بالیدہ ہے ۔ اکثر وہ شاعرات جنھوں نے تانیثیت کو برتنے کی کوشش کی ، اعتدال و توازن کی ڈور ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور باغیانہ پن ان کے لہجے میں در آیا۔نتیجتاً ان کی شاعری ، شاعری کم اور نعرہء بغاوت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔اس کے بر عکس شعریٰؔ کے یہاں ایک خوشگوار توازن پایا جاتا ہے۔ انھوں نے تانیثیت کے نام پربے مہار آزادی اور جنسی بے راہ روی کا استقبال نہیں کیا بلکہ ان کے تانیثی رویے کو اس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے جو تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں ’اسلامی تانیثیت‘ کے نام سے رائج ہے۔پڑھی لکھی مسلم خواتین اب نہایت سنجیدگی سے اپنے حقوق کے لیے متحرک ہورہی ہیں۔ ناری شکشا نکیتن لکھنؤ میں اقتصادیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر عذرا بانو لکھتی ہیں:
جنسی مساوات ایک طرح کی جنگ نہیں مردوں سے، بلکہ ایک ایسی روایت کو توڑنا ہے جو ہمارے سماج میں برسوں سے بودی گئی ہے۔ سماج کو چاہیے کہ اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور قبول کریں کہ عورت مرد زندگی کے ہم سفر ہیںاور سماج کی پہچان اور ترقی صرف مردوں سے نہیں بلکہ عورتوں سے بھی ہوتی ہے۔ آج کی عورت نے برابری کی آواز اٹھانے کے حق کو طلب کیا ہے۔ یہ برابری تعلیم ، نوکری، سیاست اور جائداد وغیرہ کے لیے ہے۔ یہ نعرے عورتوں کو آگے لانے کے لیے ہیںجو ان کی شخصیت اورخیالات میں تبدیلی لانے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔(۲۷)
شعریٰ نے تاریخ سے ایسی مسلمان خواتین کو اپنا موضوع بنایا،جنھوں نے خود مختاری کی زندگی گزارتے ہوئے بھی عظمتوں کی بلندیوں کو چھوا اور آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن گئیں ۔ان کا آئیڈیل آسیہؓ، خدیجہؓ، عائشہؓ اور ہاجرہؓ جیسی خواتین ہیںاور وہ ان ہی کرداروں سے روشنی اخذ کرتی ہیں۔ شعریٰ کی اس قسم کی نظموں میں ’گلۂ صفورہ،‘’ مریم صدیقہ‘ ،’رابعہ تابعیہ کی یاد میں‘، ’دعائے بانوئے فرعون‘، ’اک ستارہ آدرش کا‘ اور ’شاہ راہِ آرزو وغیرہ‘ ہیں۔ شعریٰ اپنے معاشرے اور ماحول سے نامطمئن ضرور ہیں ،لیکن باغی نہیں۔ یہی اعتدال و توازن انھیں فکر وفن کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔
حواشی
۱۔ محمود ہاشمی، ’’آفاقِ نوا -ایک جائزہ‘‘ ، سوغات،شمارہ: پہلی کتاب (ستمبر ۱۹۹۱ء)، ص، ۴۲۳۔
۲۔خالدہ حسین،’’زہرانگاہ‘‘، شعر و حکمت ،کتاب :۱۲،دور : سوم ،ص،۱۰۳۔
۳۔ حمیدنسیم،’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ (ایک تعارف)‘‘،مشمولہ شفیق فاطمہ شعریٰؔ، سلسلہء مکالمات،ہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء ، ص ، ۳۷۷۔
۴۔شفیق فاطمہ شعریٰؔ،سلسلہء مکالمات ،ص ،۲۶۹۔
۵۔ایضاً،ص،۳۱۸۔
۶۔فضیل جعفری، ’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کی شاعری ( ۱۹۶۵ء کے بعد کی کچھ نظموں کے حوالے سے ) ‘‘، اردو ادب (سہ ماہی)کتاب : ۳۶۱ ، (جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳ء) ،ص ،۳۹۔
۷۔ایضاً،ص،۳۱۰۔
۸۔وحیداختر، ’’ اردو نظم آزادی کے بعد‘‘، سرورا لہدیٰؔ(مرتبہ)، کلیاتِ وحید اختر جلددوم،ص،۸۰۔
۹۔کشور ناہیدؔ،دائروں میں پھیلی لکیر،نئی دہلی؛ نئی آواز، جامعہ نگر،۱۹۸۷ء،ص،۵۲۔
۱۰۔ ایضاً،ص، ۲۷۔
۱۱۔فہمیدہ ریاض ،میں مٹی کی مورت ہوں ، لاہور؛سنگ میل پبلیکیشنز،۱۹۸۸ء، ص ۶۴۔
۱۲۔پروین شاکر ،ماہِ تمام، دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۰۸ء، ص، ۷۷۔
۱۳۔ شعریٰؔ، سلسلہء مکالمات ،ص ،۱۱۴
۱۴۔ ایضاً،ص،۱۱۵۔
۱۵۔ ایضاً،ص،۱۱۷۔
۱۶۔ایضاً، ص،۳۲۔
۱۷۔ایضاً، ص،۱۴۹۔
۱۸۔فضیل جعفری ؔ، ’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کی شاعری ( ۱۹۶۵ء کے بعد کی کچھ نظموں کے حوالے سے ) ‘‘،اردو ادب ، ص، ۵۱۔
۱۹۔ شفیق فاطمہ شعریٰؔ، ’’دعائے بانوئے فرعون ‘‘، مشمولہ سلسلہء مکالمات ، ص ،۱۸۰۔
۲۰۔ ایضاً، ص ،۱۶۱۔
۲۱۔ ایضاً،ص،۱۸۰۔
۲۲۔ ایضاً،ص،۲۴۱۔
۲۳۔ ایضاً، ص،۲۴۰۔
۲۴۔ ایضاً،ص،۱۳۹۔
۲۵۔ ایضاًایضا۔
۲۶۔ ایضاً، ص،۱۴۰۔
۲۷۔ بحوالہ خلیل احمد بیگ۔’’تانیثیت‘‘۔ مشمولہ اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہات (مرتبہ) صالحہ صدیقی۔ دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ ۲۰۱۳۔ ص،۷۱۔

Shafeeq Fatimia Shera ki Shairi by Qamar JahaN

Articles

شفیق فاطمہ شعریٰ ؔکے کلام میں پیکر تراشی

قمر جہاں

تھم جاتے ہیں پل بھر کو نوا گر سفر نصیب
یہ کس ساگر کی پروردہ بدلی ہوگی
کتنی جاں لیوا مسافتیں طے کر کے اسے
اس وادی کے دامن میں ملا
ہنگام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برسنے کا (شعریٰؔ)
دشت شاعری کی خارزار راہوں کی جان لیوا مسافتیں طے کرکے اپنا انفرادی اور امتیازی تشخّص قائم کرنے والا یہ خوبصورت لہجہ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کا ہے ۔ جس نے بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں اپنی طویل نظم ’’ فصیلِ اورنگ آباد ‘‘ کے ذریعے باذوق قارئین کو نہ صرف چونکایا بلکہ اردو شاعری کی تاریخ کو ایک نیا اوراہم موڑ دینے کا عزمِ مصمّم کیا ۔
اردو شاعری کے ابتدائی دور سے ہی خواتین کی شاعری کے نقوش ملتے ہیں لیکن یہ نقوش اتنے مدھم اور دھندلے ہیں کہ وہ اردو شعرو ادب کی تاریخ میں کوئی نمایاں اور دیر پا اثر نہ چھوڑ کر تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتے ہیں تفنّنِ طبع اور ذہنی تسکین کے لیے کی جارہی اس شاعری میں پر اعتمادی اور انفرادیت نہیں بلکہ تقلید کا رویّہ صاف نظر آتا ہے لہٰذا اس میں عورت کی انفرادیت اور اس کا امتیازی لہجہ تلاش کرنا عبث ہے۔
شاعری سے قطعِ نظر اگر فکشن پر نظر ڈالی جائے توترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر رشید جہاں ؔ کے پر اعتماد اور باغی لہجہ نے مردوں کی بالادستی والے اس معاشرے میں عورت کے وجود اور اس کے حقوق کا احساس دلایا اس کے ساتھ ہی عصمت چغتائیؔکا بے باک لہجہ بھی ادب میں اپنے قدم جمارہا تھا لیکن شاعری کی تاریخ ہنوز کسی وجودِ زن کے قرطاس و قلم سے محروم تھی۔ محمود ہاشمی کے الفاظ میں ’’ اردو میں اور خصوصاً جدید نظم میں کسی نسوانی آواز کا عدم وجود بے حد کھلتا تھا ۔‘‘کہ انھیں حالات میں شفیق ؔفاطمہ آسمانِ شاعری پر شعریٰؔ بن کر نمودار ہوئیں ،جس کی ضیا پاش کرنوں نے ماقبل کی تاریخ میں ٹمٹماتے ہوئے نسوانی لہجے میں خود کو شعریٰ( آسمان کا روشن ترین ستارہ (Siriusثابت کیا۔ ان کی شاعری کے تعلق سے یہ دعویٰ غلط نہیں کہ انھوں نے نہ صرف شاعرات کی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ خوبصورت، دلکش اور مسحور کن لب و لہجہ کی حامل یہ پہلی شاعرہ تھی جس کی شاعری کے کینوس پر بکھرے ہوئے قوس قزح کے متعدد رنگوں نے مردوں کے ہمراہ اپنا نام درج کرایا۔ ذہنِ جدید کے شمارہ نمبر ۲۸؍ میںجمال اویسیؔ لکھتے ہیں ’’میرے سامنے اردو شاعری کی پوری تاریخ ہے اور میں اقبالؔ کے بعدراشدؔ، میراجیؔ، اخترالایمان ، فیضؔ، منیر نیازیؔ،ضیا جالندھریؔ، مجید امجدؔ ، منیب الرحمٰن اور شفیق فاطمہ شعریٰؔ وغیرہ کو اہم نظم نگار شاعر تسلیم کرتا ہوں۔‘‘
ادب میں زبان کا براہِ راست نہیں بلکہ اس کا تخلیقی استعمال کیا جاتا ہے اورتخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے: تشبیہہ،پیکر ، استعارہ اور علامت۔نثر ہو یا شعر ،اگر ان میں زبان کا تخلیقی استعمال نہ کیا جائے تو وہ ادب نہیں بلکہ صحافت کے دائرے میں آجاتا ہے۔ زبان کے اس تخلیقی استعمال کے متعلق شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں :
تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں ۔ اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیر تخلیقی ہو جائے گی ۔ یہ اصول اس قدر بین اور شواہد و براہین کے ذریعہ اس قدر مستند ہے کہ اس سے اختلاف شاید ممکن نہ ہو۔(شعر، غیر شعر اور نثر، ص، ۱۳۹)
چونکہ گفتگو’’ شفیق فاطمہ شعریٰؔ کے کلام میں پیکر تراشی‘‘ سے ہے اس لیے تشبیہہ، استعارہ اور علامت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بحث براہِ راست پیکرتراشی یا امیجری کے حوالے سے کی جا رہی ہے ۔ پیکر تراشی یا امیجری کا سیدھا سادہ مفہوم لفظوں کے ذریعے تصویر کشی ہے۔امیجری، پیکر تراشی یا محاکات کا عمل بنیادی طور پر اشاراتی یا علاماتی زبان کا حصہ ہوا کرتا ہے ۔ امیج کے لفظی معنی یوں تو پیکر یا تصویر کے ہوتے ہیں لیکن جب یہ لفظ شاعری کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے اس وقت محض پیکر یا تصویر کے معنی کے بجائے یہ لفظ ایک اصطلاح بن جاتا ہے۔ امیجری کی تعریف کرتے ہوئے مشہور نقاد پروفیسرابوالکلام قاسمی نےC. Day Lewis کی معرکۃ الآرا کتاب The Poetic Imageکے حوالے سے لکھا ہے کہ:
لفظی تصویریں بنانا امیج سازی کا بنیادی مقصد ہے اور یہ کہ اس وقت پوری نظم ایک مکمل امیج بن جاتی ہے جب اس کے مختلف حصوں میں متنوع پیکروں کی تخلیق ایک ساتھ مل کر مبسوط اور مرکب تشکیل کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔(شاعری کی تنقید، ص، ۱۱۸)
گذشتہ سطروں میں محاکات کو پیکر تراشی اور امیجری کے ہم معنی لفظ کے مفہوم کے طور پر استعمال کیا گیاہے ۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ پیکر تراشی کے ساتھ ساتھ محاکات پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ شعر کے لوازم میں محاکات کا ذکر سب سے پہلے شبلیؔ نے کیاہے، انھوںنے محاکات کو شعر کا ایک لازمی عنصر قرار دیا ہے ۔ وہ محاکات کی تعریف یوں کرتے ہیں :’’محاکات کے معنی کسی چیز یاکسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویرآنکھوں میں پھر جائے۔‘‘( شعرالعجم (جلد چہارم) ص، ۸)پیکر کی تعریف کرتے ہوئے شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں،’’ہر وہ لفظ جو حواسِ خمسہ میں کسی ایک( یا ایک سے زیادہ ) کو متوجہ اور متحرک کرے پیکر ہے ۔ یعنی حواس کے اس تجربے کی وساطت سے ہمارے متخیلہ کو متحرک کرنے والے الفاظ پیکر کہلاتے ہیں ۔‘‘(’’علامت کی پہچان‘‘ شعر، غیر شعر اور نثر، ص، ۱۳۹)صاحبِ آئینۂ بلاغت مرزا محمد عسکری محاکات کی تعریف کے ضمن میں لکھتے ہیں ’’کسی منظر کا مرقع الفاظ کے ذریعہ سے کھینچنا جس کی تصویر کوئی مصور نہ کھینچ سکے۔‘‘(آئینۂ بلاغت، ص، ۳۶)
تقریباً سوا سو سال پر محیط اردو تنقید کی تاریخ میں اہم مقام کے حامل ان نظریہ ساز ناقدین کی آرا کو مد نظر رکھتے ہوئے پیکر تراشی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مادی اور غیر مادی مناظر کی تفریق سے قطع نظر کسی منظر، شے یا حالت کی ایسی تصویر کشی کی جائے کہ قاری یا سامع کے حواسِ خمسہ میں سے کوئی حس متحرک ہو جائے۔ واضح ہو کہ مصوری اور پیکر تراشی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ فنِ مصوری میں کسی منظر کی ہو بہو تصویر کھینچنا فن کی پختگی اور فنکار کی مہارت کا ثبوت ہے جب کہ پیکر تراشی میں شاعراپنی مرضی کے مطابق اصل نقش میں حذف و اضافہ کر لیتا ہے۔اسی لیے شبلیؔ محاکات کو شاعرانہ مصوری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ لیکن وہ تصویر کشی یا مصوری اور محاکات میں فرق کرتے ہیں ۔ شبلیؔ کے مطابق مصوری میں ہو بہو تصویر کھینچی جاتی ہے جب کہ محاکات کے ذریعے شاعر ہو بہو تصویر نہیں کھینچتا بلکہ اصل نقش میں کچھ اضافے اور کچھ کمی کے ذریعے اپنے خیال کی تر جمانی کرنے والی تصویر کھینچتا ہے۔ اس طرح کی تصویر کشی کو نئی تنقید میں ’’پیکر تراشی‘‘یا ’’ امیجری‘‘ کہا جاتا ہے۔
پیکر تراشی کا سب سے اہم رول مجرد تصورات کو مجسم اور ٹھوس پیکر میں تبدیل کرنا ہے۔ اس طرح پیکر تراشی کے ذریعے شاعر ایسی فضا خلق کرتا ہے کہ ہم مناظر کو دیکھنے، آوازوں کو سننے اور بعض کیفیات کو لامسہ، ذائقہ اور شامّہ کی مدد سے محسوس کرنے لگتے ہیں ۔
شعریٰؔ کے شعری امتیازات ،ان تمام فنی تدابیر اور شاعرانہ ہنر مندی میں مضمر ہیں جن کو انھوں نے اپنے شعری اظہار اور لسانی طریقِ کار کا حصہ بنایا ہے ۔ کلامِ شعریٰؔ میں ان عناصر کی تلاش و جستجو کرنے پر،جن سے ان کا کلام دو آتشہ ہوجاتا ہے ،پتہ چلتا ہے کہ ان کے کلام میں جہاں فکر کی گہرائی وگیرائی اور دیگر فنی محاسن عروج پر ہیں ،وہیںاحساس کو مہمیز کرنے والے پیکروں کی فراوانی اور مجرد احساسات وکیفیات کو لفظوں کے ذریعے رونما ہوتے ہوئے دکھانے کے سارے وسائل موجود ہیں ۔ موضوع کی ڈرامائی پیش کش ،متفرق اجزا کے ترک و اختیار اور الفاظ کے خلاقانہ استعمال سے وہ ایسا مرقع تیار کرتی ہیں کہ جب نظم کے درمیان کوئی منظر نامہ آجاتا ہے تو ہم خود کو قاری کے بجائے ناظر محسوس کرنے لگتے ہیں۔
شعریٰؔ نے شعری تصویر بنانے اور تاثر خلق کرنے کے لیے جس انداز کے پیکروں کی تخلیق کی ہے ان میں بصری پیکروں کی فراوانی ہے ۔ان کی نظموں کے ان گنت بند یا مصرعے مناظر کا بیان کم کرتے ہیں اور انھیں رو بہ عمل ہوتے ہوئے زیادہ دکھاتے ہیں۔ ان مناظر سے کبھی خوش گوار تاثر ابھرتا ہے ،کبھی حیرت و استعجاب کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور کبھی کھوئے ہوؤں پرافسردگی کا احساس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر شعریٰؔ کی شاعری میں پیکر تراشی کے بہت عمدہ نمونے ملتے ہیں ۔ نظم’ راگ یُگ کی نظمیں ‘سے یہ مصرعے ملاحظہ ہوں:
حاشیہ دیوار کی صورت
ڈھیر سنہرا
پیلے سوکھے پتوں کا
چر مر کرتا ضرر سے عاری
خاک میں رلتی چر مر اس کی سنتا ہوا
کھڑکی سے چپکا کھڑا وہ بے پروا
ہر آہٹ کے ہر آواز کے ڈھانچے میں
رینگ رہا بیری بھیدی———-(سلسۂ مکالمات، ص، ۱۰۵)
اس بند میں جس نوع کا شعری پیکر تراشا گیا ہے اس کا تعلق قاری کی قوّتِ بصارت اور قوّتِ سماعت کو مہمیز کرتا ہے۔ حاشیہ دیوار، پیلے سوکھے پتوں کا سنہرا ڈھیر،چر مر، ضرر سے عاری،کھڑکی سے چپکا،بے پروا ،بیری ، بھیدی ان الفاظ کے ذریعے استعارے اور پیکر کا پورا نظام مرتب ہو گیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ ایک خاموش اور پر اسرار تصویر کو مختلف زاویوں سے دکھانا چاہتی ہے اور وہ یقیناً اپنے مقصد میں بحسن و خوبی کامیاب ہوئی ہے۔
اردو شاعری میں زیادہ تر پیکری اظہار بصری اور صوتی رہا ہے اگرچہ نئے شعرا کے یہاں لمسی اور ذوقی پیکر وں کا استعمال ملتا ہے۔نئے شعرا میں سے راشد ؔ ، میراجیؔاور فیض میں راشدؔ کے یہاں استعارہ زیادہ ہے پیکر کم ، جب کہ فیض نے پیکر کا استعمال زیادہ کیا ہے۔لیکن فیض ؔ کے پیکر داخلی منظر کو زیادہ ابھا رتے ہیں اس لیے زیادہ تر بصری ہیں میراجیؔ واحد شاعر ہیں جو پانچوں حواس پر قادر ہیں ۔ بقول فاروقیؔ’’نئی شاعری جو میراجیؔ کی طرف بار بار جھکتی ہے اور ان کے یہاں سے اپنا جواز ڈھونڈھتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ ‘‘(،شعر، غیر شعر اور نثر، ص، ۹۰)
شاعرانہ امیجری کے ماہرین کا عام خیال ہے کہ ایسے حسّی پیکر تراش لینا جو کسی مخصوص قوّتِ حاسہ کو بر انگیخت کر لیں ہر چند کہ اہم اور قابلِ تعریف شعری محاسن میں سے ایک ہے ،لیکن پیکر جس حد تک اور جتنے زیادہ حواس کو متحرک کرے گا اتنا ہی اس شاعری کا معیار بلند ہوگا ۔ایک ساتھ مختلف حواسِ انسانی کو بیدار کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہوتا تاہم اس ضمن میں بھی شعریٰؔ کا امتیاز غیر معمولی ہے۔ان کی نظموں میں متعدد مقامات پر یکساںاور متوازی طور پر ایک سے زیادہ حواس کو متحرک کرنے والے مخلوط پیکروں کی فراوانی ہے ۔ایک سے زائد حواس کی پیکر تراشی میں قاری اس طرح محو ہوجاتا ہے کہ اس کا پورا وجود شاعر کی بنائی ہوئی فضا،آواز،خوشبو،رنگ اور منظر میں شریک ہو جاتا ہے۔نظم ’ بہتا پانی‘ میں لکھتی ہیں :
اچانک کہیں اک درندے کا بین
وحشت آلود بد مزہ بو املتاس کی
تیز جھونکا سا بھرتا اڑان
جھاڑ جھنکاڑ کے درمیاں
پر بچاتا سمٹتا گذرتا ہوا ———–(سلسلۂ مکالمات، ص، ۷۳)
اس اقتباس میںمتحرک بصری پیکر کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔پہلے ہی مصرعے میںمستعمل علامت’ درندے کا بین ‘استماعی تجربہ ہے لیکن درندے کا لفظ بصری حسّیت کو بھی مہمیز کرتا ہے۔ بدمزہ بو بیک وقت قوت ذائقہ ، شامّہ اور باصرہ جب کہ تیز جھونکا سا بھرتا اڑان احساسِ بصارت جیسے حواسِ انسانی کو متحرک کرتا ہے۔ غیر معمولی طور پرمتحرک یہ منظر اپنے مختلف حوالوں سے قاری کے ایک سے زائد حواس ( قوّت ِ باصرہ،سامعہ،شامہ، ذائقہ) کو بیدار کرتا ہے۔الفاط کے جدلیاتی استعمال سے شعریٰؔ نے تصویر کو ایسا ہشت پہل بنا دیا ہے کہ دیکھنے کا ہر زاویہ منظر کا کوئی نیا پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے۔استعارے ،علامت اور پیکر کا یہ دلکش امتزاج شعریٰؔ کی انفرادیت ہے۔اس قسم کے پیکر شعریٰؔ کے یہاں بکثرت ملتے ہیں:
گپھا گپھا یگوں کے دائرے
گپھا گپھا یگوں کے دائرے میں
بن گھنے کہ جن میں جھٹپٹا
تپسویوں کے ساتھ ساتھ تھا سدا مقیم
جل رہے ہیں
جل رہا ہے فجر کا الاؤ
سگندھ اس کی اتنی گھائل اتنی تیز ہے
کہ سیلی سیلی یہ سگندھ ہے لہو لہو۔ ———–(نظم:فجر کا الاؤ، سلسلۂ مکالمات، ص، ۷۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہیرے کی کنی سی کہ ہے طینت میں سرشتہ
کبھی آواز کی لو بن گئی
آفاق بہ آفاق پلٹتی ہوئی اوراق
کبھی چھنتی رہی آنکھوں سے پیہم صفت ِ اشک
تو بدلتا ہوا رستہ
تہہ دریا سے دہکتی ہوئی بالو میں
نکلتا ہوا رستہ
جسے دیکھا
وہ مرا وہم نہیں میرا یقیں تھا—–(نظم:نرمل میٹھے پا نی کی تلاش میں، سلسلۂ مکالمات،ص،۸۳ )
اردو شاعری کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میںمناظر فطرت کی ترجمانی یا منظر نگاری ،مغربی شاعری سے اثر پذیری کا نتیجہ ہے ۔ یہ خیال 1857 کے بعد نشوونما پانے والی شاعری کی حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے لیکن دکنی اردو شاعری کے متعلق یہ رائے درست معلوم نہیںہوتی ۔ فطرت پرستی اور مناظر قدرت کی پیش کش کے آغاز کا سہرا غالباً محمد قلی قطب شاہؔ کے سر ہے مگر اس کی منظر نگاری بالکل ضمنی ہے ۔ قطب شاہی دور کے شعرا میں غواصیؔ نے سب سے پہلے منظر نگاری کی طرف توجہ دی۔منظر نگاری کے تحت فطرت کی کیف سامانیاں اور رنگینیاں بیان کی جاتی ہیں۔منظر نگاری کے دلکش نمونے مثنویوں اور خاص کر ’ سحر البیان ‘ میں ملتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مرثیہ میں بھی منظر نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے گئے ہیں ۔ کربلا کے بے آب وگیاہ میدان میں پیڑ پودے اور جنگل وغیرہ کا ذکر بے معنی ہے لیکن چہرے یا تمہید کے بندوں میں شعرانے خوب خوب کمالات دکھائے ہیں ۔ جنگ کے وقت منظر کا بیان تو سورج کی تمازت، ریت کی تپش اور لو، دھوپ کے تھپیڑوں تک محدود ہے لیکن اس محدود منظر میں بھی خاص کر انیسؔ نے ایسی گل کاریاں کی ہیں کہ موسم بہار کے مناظر بھی پھیکے پڑ جائیں ۔
شعریٰؔ کے کلام میں منظر نگاری کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں ۔شعریٰؔ کے منظر نگاری کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے بیانات کی بنیاد تخیل پر نہیں بلکہ مشاہدہ پر رکھی ہے اور ایک مصور کی طرح قدرتی مناظر کی بڑی خوبصورت تصویر کشی کی ہے ۔ نظم’ فصیل اورنگ آباد ‘ میں فصیل کے دوسری طرف کھیتوں کی منظر کشی اس طرح کرتی ہیں :
ایک سمت کھیتوں کی خوشگوار ہریالی
فرط سر خوشی سے ہے پتی پتی متوالی
ننھی ننھی چڑیوں کے دل یہاں ابلتے ہیں
کھیت کی خموشی سے زمزمے ابلتے ہیں
کاشتکار کے دل کے سب دبے چھپے ارماں
ان حسین خوشوں کی گودیوں میں پلتے ہیں
اک ہوا کے جھونکے سے کھیت ہوگئے ترچھے
جھک کے پھر وہ اٹھتے ہیں گر کے پھر سنبھلتے ہیں

منقولہ اشعار میں اور بطورِ خاص مؤخر الذکر شعر میں لہلہاتے کھیت کی جس قدر جاندار اور حقیقی تصویر کشی کی گئی ہے اس سے خوبصورت تصویر کشی ممکن نظر نہیں آتی ۔ مناظر فطرت کی پیکر تراشی میں شعریٰؔ نے تکلف، مبالغے اور رعایت لفظی و معنوی خاص کر صنعت حسن تعلیل کانہایت فن کا رانہ استعمال کیا ہے ۔حسن تعلیل کا اتنا خوبصورت استعمال میر انیس ؔ کی یاد تازہ کردیتا ہے کہ میر انیس ؔنے بھی قدرتی مناظر کی تصویر کشی میں اس صنعت کا خوبصورت استعمال کیا ہے ۔شعریٰؔ کے یہاں مناظر فطرت کے بیان میں اس صنعت کا استعمال ملاحظہ کیجیے:

شوخ و شنگ کرنیں بھی جھیل میں نہانے آئیں
بے قرار موجوں پر ناچ اٹھے ستارے سے
اف کنول کے پھولوں کا یہ تبسم شیریں
کانپ اٹھے ہیں شرما کر موج کے اشارے سے

اسی طرح ’خوابوں کی انجمن ‘ میں بھی منظر نگاری کے دلکش نمونے نظر آتے ہیں ۔خاص کر اس کے پہلے بند میں چاندنی رات کی اتنی مکمل اور جاندار عکاسی کی گئی ہے کہ شاعرہ کی چشمِ خامہ کے بالمقابل حقیقی کیمرہ ناکام نظر آتا ہے ۔ بارہ مصرعوں پر مشتمل یہ بند پڑھتے ہوئے ہم کسی اور ہی خوبصورت لیکن پرسکون ماحول میں پہنچ جاتے ہیں اس بند میں بھی حسن تعلیل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں۔ منظر یہ ہے کہ رات کی تاریکی اپنا دامن وسیع کرتی جارہی ہے اور ستارے تنہا اس تیرگی سے دست و گریباں ہیں :
تیرگی کے نرغے میں کانپ کانپ اٹھے تارے
کررہا ہے روشن تر ان کو خوف پسپائی
سایے میں درختوں کے اپنے جال بننے کو
ٹہنیوں سے چھن چھن کر روشنی اتر آئی
کررہے ہیں سرگوشی جھنڈ کچھ سندولی کے
سوچتے ہیں بڑھ جائیں جا ملیں مناروں سے

اکثر مقامات پرایسی انوکھی تشبیہا ت و استعارات کی زرتابی کے ساتھ منظر کشی کرتی ہیں کہ ان کے تخیل کی داد دینی پڑتی ہے ۔ اردو شاعری کے منظر نامے پر آغاز سے ہی مناظرِ فطرت جیسے سورج،چاند ، ستارے ، پہاڑ ، دریا ، درخت، پھول، ہوا موسم ، بادل ،اور بارش وغیرہ کی چھاپ بہت گہری ہے ۔ لیکن قدیم شعرا کے یہاں زیادہ تر فطرت بحیثیت ایک معروض کے سامنے آتی ہے۔ جہاں شاعر کا مقصد مناظرِ فطرت کی معروضی پیش کش کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ہے ۔ مناظرِ فطرت کی پیش کش کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ فطرت کے رسمیاتی یا عمومی اظہار سے قطعِ نظر فطرت کو اپنے موضوع کے پسِ منظر کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ جب کہ نظم کا اصل موضوع کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسی نظمیں فطرت کا لینڈ اسکیپ معلوم ہوتی ہیں لیکن پوری نظم میں اصل موضوع اسی طرح متاثر کن ہوتا ہے جیسے کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویر میں فطری مناظر تصویرِ مقصود کے حسن میں اضافہ کرنے کا باعث ہوتے ہیں،اور شاعر کا کمال اس بات میں مضمرہوتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات کو ابھارنے میں فطرت کا کتنا کامیاب اور خوبصورت استعمال کیا ہے۔ فطرت کو شعری وسیلے کے طور پر استعمال کرنے والے شعرا میںنمایاں ترین نام اقبال ؔ کاہے ۔ اقبالؔ کی متعدد نظموں کے آغازمیں مناظرِ فطرت کی سادہ پیکر تراشی کا تاثر ابھرتا ہے، لیکن انجام تک پہنچتے پہنچتے فطرت کا رشتہ کسی گہری اور فلسفیانہ فکر سے استوار ہو جاتا ہے ، اور وہ زندگی یا قوم و فرد کے افکار کا علامیہ بن جاتی ہے۔ اقبال کے علاوہ جوشؔ اور اختر الایمانؔ وغیرہ نے بھی فطرت کو شعری وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان شعرا کے یہاں فطرت کا معروضی اور غیر معروضی دونوں تصور موجود ہے۔
شعریٰؔ نے فطرت کو شعری وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔شعریٰؔ کے یہاں ان کی بنیادی فکر (اسلامی فکر )اور آگہی تک رسائی حاصل کرنے میں مناظرِ فطرت شاعرہ کے ہم سفر و رہنما بن کر سامنے آتے ہیں ۔ا س طرح فطرت شعریٰؔ جیسی ’’اہلِ نظر‘‘شاعرہ کے لیے انکشافِ ذات ،عرفانِ الٰہی اور’ ثبوتِ حق ‘کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ ان کی ایک نظم’ اسیر‘سے ایک بند ملاحظہ ہو:

یہ پانی جس نے دی پھولوں کو خوشبو دوب کو رنگت
حلاوت گھول دی آزاد چڑیوں کے ترنم میں
دہکتے زرد ٹیلوں کے دلوں کو خنکیاں بخشیں
ڈھلا آخر یہ کیسے میرے آزردہ تبسم میں

شعریٰؔ کی یہ نظم مکمل طور پر منظر کشی کے سہارے ہی آگے بڑھتی ہے اور پوری نظم میں مناظر کے ذریعے ایک سوگوار اور دلکش فضا تخلیق کی گئی ہے ۔ شعریٰؔ کی اس نظم میں منظر نگاری کے اس فنکارانہ استعمال کا ذکر کرتے ہوئے گوپی چند نارنگؔ لکھتے ہیں ’’ ایسی نظموں کو پڑھ کر اس امر کی توثیق ہوجاتی ہے کہ جس طرح وقت کا تحرک واقعات کا progression یا مکالمہ سے واردات کا کھلنا،بیانیہ عنصر ہو سکتے ہیں اسی طرح منظر کاری بھی بیانیہ سے باہر نہیں۔‘‘(’’جدید نظم کی شعریات اور بیانیہ ‘‘اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد، ص، ۳۹)
مذکورہ نظموں کے علاوہ نہ صرف یہ کہ شجرِ تمثال، خلدآباد کی سرزمین، فصیلِ اورنگ آباد، ایلورہ، شفیع الامم اور یاد نگر وغیرہ نظمیں بھی پیکر تراشی کے نمونوں سے آراستہ ہیں بلکہ ان کا پورا کلیات ہی ایک ایسا خوبصورت البم ہے جس میں جابجا متحرک اور غیر متحرک تصویریں قاری کے حواس کو بیدار کرنے کے ساتھ ایک ایسے انجانے جہان کی سیر کراتی ہیں کہ قاری ایک مسحور کن کیفیت سے دوچار ہوتا ہے ۔ باذوق حضرات کلیاتِ شعریٰؔ کی ورق گردانی کرسکتے ہیں ۔
کلامِ شعریٰؔ میں موجود فنی اور فکری محاسن کے باعث ہی فضیل جعفریؔ کا خیال ہے کہ جو مقام انگریزی فکشن میں جین آسٹنؔ کا ہے، اردو نظم میں وہی مقام شفیق فاطمہ شعریٰؔ کا ہے۔جدید نظم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فضیل جعفری کہتے ہیں، ’’وہ [ شعریٰؔ] تمام جدید شاعروں سے یکسر مختلف ہیں ۔ آخر میں یہ بھی کہہ دوں کہ پاکستانی شاعرات جن کی نظموں کا ڈنکا چار دانگ عالم میں پیٹا جارہا ہے ، تاحال شعریٰؔ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں ۔ ‘‘( ’’ جدید نظم کا موجودہ منظر نامہ‘‘اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد، ص، ۱۷)۔
کتابیات
ابوالکلام قاسمی ، شاعری کی تنقید، نئی دہلی؛ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، ۲۰۱۱ء۔
اردو نظم ۱۹۶۰ء کے بعد، تیسری اشاعت، دہلی؛اردو اکادمی، ۲۰۱۳ء۔
شفیق فاطمہ شعریٰؔ ، سلسلۂ مکالمات، دہلی؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۲۰۰۶ء۔
شمس الرحمٰن فاروقی، شعر، غیر شعر اور نثر، تیسری اشاعت، نئی دہلی؛ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، ۲۰۰۵ء۔
علامہ شبلی نعمانی، شعرالعجم حصہ چہارم، اعظم گڑھ، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، ۲۰۱۴ء۔
مرزا محمد عسکری، آئینۂ بلاغت، تیسری اشاعت، لکھنؤ، اتر پردیش اردو اکادمی، ۲۰۱۵ء۔


قمر جہاں جواں سال مصنفہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر ہیں ۔

Qurratul Ain Haider Shakhsiyat Aur Fun

Articles

قرۃ العین حیدر : شخصیت اور فن