Murcha A short Story by Mushtaq A Mushtaq

Articles

مورچہ

مشتاق احمد مشتاق

ٹرین محل نما بڑے سے اسٹیشن پر آکر رکی؛ مسافر تیزی سے اپنی اپنی بوگیوں سے نکلے، اورنکلتے ہی بھیڑ کا روپ دھار کر اسٹیشن کے باہری دروازے سے ہجوم در ہجوم ٹیکسی، بس اور آٹورکشا میں سوار ہوکرشہر کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے اس بے چہرہ بھیڑ میں وہ بھی تھا – رنگ گندمی اتنا گہرا کہ جلد سے خون کی لالی صاف جھلک رہی تھی، شباہت ایسی کہ مانو مغربی کہانی کا کوئی کردار ہو،ساتھ میں دو کیمرے جس میں سے ایک اس کے گلے میں جھول رہا تھا جس سے وہ مناظر کو تصویر کرنے کا کام لیتا اور دوسرا جو اس کی بیگ میں بند تھا اس سے وہ فلم بندی کا کام کرتا – بیگ اپنی پشت پر لادے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ایک ٹیکسی میں جا بیٹھا، ٹیکسی تیر کی طرح اپنے ہدف کی طرف چل پڑی اور وہ اپنی بھوری بھوری آنکھوں سے شہر کو کسی دریا کی طرح بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا – ٹیکسی بڑے سے پر شکوہ ہوٹل کے پارکینگ زون میں رکی اس نے پرس سے کچھ روپے نکال کر ڈرائیور کے ہاتھ میں تھمائے
اور تیزی سے گیٹ پر کھڑے آدمی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کاونٹر پے بیٹھے مینجرکو اپنا شناختی کارڈ دیا مینجر نے کاغذی کاروائی کرتے ہوئے پوچھا
“کس سلسلے میں آئے ہو؟؟
“سیلانی آدمی ہوں سیرو سیاحت کی غرض سےآیا ہوں”اس نے جواب دیا،،؛ یہ یہاں اپنا نام ایڈریس اور موبائل نمبر لکھ دو؛ مینجر نے رجسٹر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا- نام ایڈریس اور موبائل نمبر رجسٹر پر درج کرنے کے بعد وہ ویٹر کے ہمراہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا-، کمرے میں پہنچ کر ویٹر کو کچھ روپے دیتے ہوئے چائے ناشتہ لانے کو کہا اور بڑی تیزی سے
باتھ روم میں داخل ہو گیا…….. کچھ دیر بعد وہ چائے کی چسکی لیتے ہوئے ویٹرسےکہہ رہا تھا،” مجھے ایک ایسا آدمی چاہیے جو کچھ دنوں کے لیے جب تک میں یہاں ہوں میرے ساتھ رہے اور مجھے یہاں کے جھگڑے دکھائے”جھگڑے دکھائے” ویٹرچونک سا گیا، “سر جھگڑا بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے ارےممبئی آئے ہو تو گیٹ وے آف انڈیا دیکھو، چوپاٹی دیکھو، حاجی علی کی درگاہ، ممبادیوی کا مندر ، نئیں تو گورےگاوں جاو فلم انڈسٹری دیکھو”نہیں مجھےیہاں کےجھگڑےدیکھنا ہے، اس نے کرخت لہجے میں کہا، اور جھگڑوں کا سبب معلوم کرکےاسے اپنے کیمرے میں قید کرناہے”اچھا ڈاکومنٹری فلم بنانی ہے تمہیں “ویٹر نے چہکتے ہوئے کہا” ایسا بولونا سر- ٹھیک ہے ابھی تم آرام کرو، اپن ارینج کرتا ہے،جیسا تم بولتا ہے ویسیچ آدمی مارننگ میں ادھر تمھارے پاس ہویگا – جو تم کو اکھّا ممبئی کے جھگڑے دکھائے گا-
 “مینٹل ہے سالا ” ویٹر نے دبے لہجے میں کہا –
” چلو ابھی گڈبائے سر، سویرے-مورننگ میں ملتے ادھرچ،
ویٹر کے جا تے ہی اس نے بیگ سے لیپ ٹاپ نکال کرآن کیا، لیپ ٹاپ کی ڈارک اسکرین پر روشنی کے ساتھ کچھ رنگ ابھرے میل باکس اوپن ہوگیا اور پھر اس کی انگلیاں کی بورڈ پر کسی مشاق رقاصہ کی طرح تھرکنے لگیں ، انگلیوں کی حرکت سے اسکرین پر حرف ابھرے اورایک دوسرے سے جڑ کر تحریر ہونے لگے”میں پوری دنیا میں اپنے کام کو انجام دیتے ہوئے آخری سرے تک آگیا ہوں – یہ میرا آخری پڑاؤ ہے صرف دس دن اور کام فنیش گڈلک”سینڈ، کی، دبائی اور اسکرین، کو کی بورڈ پر تیزی سے جھکا دیا،دوسری صبح اس نے غسل کیا چائے ناشتہ کرنے کے بعد ایک طائرانہ نظر گھڑی کی جانب کی جو دس بجنے کا اعلان کر رہی تھی،
اس نے الماری میں رکھا بیگ اٹھایا اور اس میں سے ایک بڑا سا  فائے ڈی کیمرہ نکال کر اس میں بیٹری لگائی کیمرہ کو آن کیا اور کیمرے میں لگی اسکرین کو گھورنے لگا
اسی اثنا میں ڈور بیل کی آواز گونجی اس نے کیمرہ آف کیا اور دروازے کی طرف بڑھ کر دروازہ کھول دیا،سامنے ویٹر اس کےمطلوبہ شخص کے ساتھ موجود تھا؛-ویٹر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا”یہ رہا وہ آدمی جو تمہیں اکھا ممبئی گھمائے گا اور تمہارے مطلب کا چیز، بولے تو،،، جھگڑا؛؛ جھگڑا دکھائے گا، سارے لفڑے بازوں کا کچا چٹھا ہے اس کی پاس  ہے ممبئی کے ہر سیانےکو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ھیکہ کون سا سیانا کب سیان پتی کرے گا،سیان پتی بولے تو جھگڑا؛؛ ویٹر جیسے ہی چپ ہوا اس نے فوراً اپنی جیب سے پاکٹ نکالا اور ہزار ہزار کے دس نوٹ ویٹر کو دیتے ہوئے کہا “تھینک یو اب تم جا سکتے ہو” ویٹر جوابی کلمات کہہ کر وہاں سے خوشی خوشی چلا گیا، ویٹر کے جاتے ہی اس نے گائیڈ سے استفہامیہ انداز میں کہا “میرے خیال سے؛ ویٹر نےتم کو سمجھا دیا ہوگا؛ کہ تمہیں کیا کرنا ہے” جی سر”تو پھر لے چلو، مجھے ایسی جگہوں پر جہاں جھگڑتے ہوتے ہوں- او کے سر گائیڈ نے پر جوش انداز میں کہا؛؛؛ اور کچھ ہی دیر میں ان کی ٹیکسی سڑک پر دندناتی ہوئی بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں آکر رکی، گائیڈ اور وہ ٹیکسی سے اترے اس نے کیمرہ آن کیا اور دور تک پھیلے ہوئے مناظر قید کرنے لگا، دوکانیں قطار در قطار سڑک کے دونوں جانب دور تک دیوار کی طرح استادہ  تھیں جن میں زندگی گزارنے کے پورے لوازمات موجود تھے-وہ ایک اک منظر کو بڑی خوبی سے اپنے کیمرے میں قید کررہا تھا-کہ اچانک لوگ گھبرا کر بھاگنے لگے، دکانیں بند ہونے لگیں گائیڈ نے ایک آدمی سے بھاگنے کی وجہ دریافت کی؛ ارے کیوں بھاگ رہے ہو کیا، ہوا کیا ہے؟ ج جگگا؛؛؛ جگا دادا نے گلاب کانچیا کا مرڈر کر دیا؛ اتنا بول کر آدمی تیزی سے آگے بڑھا اور بھیڑ کا حصہ بن گیا-؛ ہنگامہ دیکھ کر وہ اور گائیڈ پاس کھڑی ٹیکسی میں بیٹھ گئے؛ یہ جگا اور گلاب کانچیہ کون ہیں ؟ اس نے گائیڈ سے پوچھا؛ اور یہ مرڈر کیوں ہوا-گائیڈ کچھ دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا-جگا اور کانچیہ یہ دونوں بیس پچیس سال پہلے بہت گہرے دوست تھے گاؤں میں مکھیا کے لڑکے سے کسی بات پے جھگڑا ہوا اور یہ لوگ پولیس اور مکھیا کےڈر سے بھاگ کر شہر آگئے لوگوں سے کام مانگا مگر کسی نے کام نہ دیا بھوک جب برداشت سے باہر ہوئی تو قدم برائی کی طرف بڑھے، وقت گزرتا گیا اور ان کے قدموں کی رفتار بڑھتی گئی اور جب لہو بدن میں بجلی بن کر دوڑنے لگا تو ایک لڑکی دونوں کی زندگی میں آئی جس کو پانے کے لئے دونوں الگ ہوگئے؛؛؛؛ ؛؛؛؛
 ؛؛ گائیڈ چپ گیا، ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی گلاب کانچیا کی لاش لیکر گزری اور ایمبولینس کے پیچھے پولیس جیب جگا کو لیکر نکلی؛؛؛؛ اور آج دونوں ختم ہوگئے – – اس نے جیب کو فوکس کیا اور ژوم کرتے کیمرہ آف کردیابہت ؛ اینٹریسٹنگ اچھی کہانی ہے ویرینائس ویریگڈ؛ پیکپ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
 زمین اپنے مدار پر چکر لگاتی رہی؛ رات اور دن کے نام بدلتے رہے؛ اچانک کمرے میں روشنی ہوئی اور اس نے گائیڈ سے کہا؛ ابھی تک ہم نے جتنے بھی جھگڑے شوٹ کئے  سب کے معاملات ایک جیسے ہیں؛ ان میں ایک بھی جھگڑا ایسا نہیں ہے جو مجھے آیٹرک کر سکے یا جس کا سبب جان  کر میری آنکھوں میں خون اتر آئے اور میں اپنے مقصد کو پا سکوں،گائیڈ اس کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا اور اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا،،،،،،،، کچھ دیر بعد وہ پھر گویا ہوا؛ ہر وہ شخص جیسے ہم نے جھگڑتے یا مرتے ہوئے دیکھا ہے سب کی لڑائی اپنے مفاد کیلئے تھی -ایسے جھگڑے تو جنگلوں میں جانوروں کے درمیان روز ہوتے ہیں، کل کا ہمارا لوکیثن کیا ہے – اس نے گائیڈ سے دریافت کیا؛؛گائیڈ نے جواب دیا؛؛ ایشیاء کی سب سے بڑی جھوپڑپٹی دھاراوی؛؛ اس نے سیگریٹ سلگاتے ہوئے کہا؛ او کے ہم کل ملتے ہیں گڈنائٹ؛؛؛ اور ڈھیر سارا دھواں کمرے میں بکھر گیا – سورج نارنجی دوشالہ اوڑھے اپنے افق سے ابھرا ہی تھا کہ اس کا کمرہ فون کی گھنٹی سے گونج اٹھا، اس نے موبائل اٹھا کر
اپنی نیند آلود آنکھوں سے موبائل اسکرین کو دکھا جس پر گائیڈ لکھا ہوا آ رہا تھا اس نے حیرت سے گھڑی کی جانب نظر ڈالی جس میں ساڑھے چھ بجے رہے تھے اس نے کال ریسیو کی کمرے میں گائیڈ کی پتلی آواز ابھری؛ سر آپ فوراً دھاراوی کے نہرو نگر پہنچو؛ اس نے او کے کہا اور تیزی سے بیڈ سے اٹھ گیا،؛ اب سورج سیمابی لبادہ پہنے
اپنے افق سے اوپر اٹھ چکا تھا؛ اور وہ ٹیکسی سے اتر کر
گائیڈ کے ہمراہ دھاراوی کی تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا نہرو نگر کے بھگت سنگھ چوک میں جہاں لوگوں کی بھیڑ تماشائی بنی کھڑی تھی؛ وہ اور گائیڈ بھی ان میں شامل ہوگئے اس نے کیمرہ آن کیا اور اس منظر کو قید کرنے لگا جس میں ایک نوجوان پانچ لوگوں سے لڑ رہا تھا کچھ دیر بعد ان پانچوں میں سے چار اپنی جان سمیٹ کر وہاں سے فرار ہوگئےاورجو ایک بچاتھا
 اس کی گردن نوجوان کے مضبوط بازوں میں پھنسی ہوئی تھی نوجوان نے اسے دبوچے ہوئے چلا کر کہا اگر آج کے بعد تو نے یا تیرے آدمیوں نے اس گھر کی طرف دکھا تو تم میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا؛ اتنا کہہ کر اپنی گرفت میں پھنسے شخص کو چھوڑ دیا؛ گرفت سے چھوٹتے وہ شخص وہاں سے بھاگا اور بھیڑ چھٹ گئی،  نوجوان ایک جھوپڑے کے پاس بیٹھے ساٹھ سال کے بوڑھے اور اس کی بیوی کو دلاسا دینے لگا؛؛؛؛ اس نے کیمرہ بیگ میں رکھا اور گائیڈ سے کہا؛ یہ نوجوان ان لوگوں کو کیوں مار رہا تھا؛ وہ لوگ اس بوڑھیا اور بوڑھے کے گھر پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتے تھے؛ اچھا تو وہ نوجوان ان کا لڑکا ہے؛؛ نہیں ان کا کوئی بھی نہیں ہے بس وہ ان پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکا اور انھیں مار بھگایا؛ اس کے علاوہ کوئی وجہ؛ اس نے پوچھا؛ نہیں اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں؛ گائیڈ نے اتنا کہا اور اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے اپنے کے گلے میں لٹک رہے کیمرے سے اس نوجوان کی تصویر کھینچی لی؛ گائیڈ اس کی خون آلود آنکھیں حیرت سے دیکھنے لگا  اس نے زور سے آواز لگائی پیکپ؛ ہوٹل پہنچ کر اس نے کمرے میں ہی کھانا منگوایا اور گائیڈ کے ساتھ  کھایا، کھانے سے فارغ ہو کر اس نے گائیڈ کے ہاتھ میں ایک پھولا ہوا لفافہ تھماتے ہوئے کہا تم نے اپنا کام بہت اچھے طریقے سے انجام دیا تم مجھے ہمیشہ یاد رہو گے گڈ بائے اب ہم کبھی نہیں ملیں گے اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا روم میں جاکر میل باکس کھول کر لکھا؛؛ میشن فینش ؛؛میری فلائٹ دو روز بعد ہے جلد ملاقات ہوگی ؛ دوسرے دن وہ ٹرین میں بیٹھا اخبار کی سرخی دیکھ رہا تھا ؛ دھاراوی کے نہرو نگر میں رہنے والے ایک نوجوان کا قتل لاش کھاڑی سے برآمد پانچ لوگ گرفتار؛؛مسکراتے ہوئے اس نےاخبار ایک طرف رکھا اور  چور چور کی آواز پر چونکا ایک دس گیارہ سال کا بچہ چور چور کی آواز لگاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرا اس نے بچے سے پوچھا؛ تمہاری کوئی چیز چوری کی ہے اس نے ؛ لڑکے نے جواب دیا، نہیں  اس عورت کا پرس چوری کیا ہے؛وہ عورت تمہاری کون ہے؛ بچے نے معصومیت سے کہا؛؛؛ کوئی نہیں؛بچے کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا، اور ٹرین  گپھا سے نکل کر چنگھاڑ تی ہوئی شہر میں داخل ہوگئی-

Tafheem Issue No. 14-15 Editor: Umar Farhat

Articles

تفہیم شمارہ نمبر 14 -15

عمر فرحت

Tafheem Issue No.13 Editor : Umar Farhat

Articles

تفہیم شمارہ نمبر 13

عمر فرحت

Tafheem Issue No. 12 Editor: Umar Farhat

Articles

تفہیم شمارہ نمبر ۱۲

عمر فرحت

Chandni Tera Naam Rahe by M.N. Ansari

Articles

چاندنی تیرا نام رہے

عبدالمجید نورالہدیٰ

Dotcom A Complete IT Book by Rehan Kausar

Articles

ڈاٹ کام مکمل انٹرنیٹ گائڈ

ریحان کوثر

Surendra Parkash ki Afsana Nigari

Articles

سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری

گوپی چند نارنگ

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو افسانے کے کئی رجحان سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے جو رجحان بنیادی نوعیت کے ہیں وہ چار ہیں۔ پہلا رجحان تقسیم کے المیے کو پیش کرنے کا ہے۔ اس ذیل میں اس طرح کے افسانے آتے ہیں۔ ایک تو وہ جن کی نوعیت ہنگامی تھی اور جو فسادات کو براہ راست موضوع بنا کر لکھے گئے تھے۔ دوسرے وہ جو تہذیبی سطح پر تقسیم کے المیے کو پیش کرتے ہیں۔ اس رجحان کے بہترین علم بردارہندوستان میں قرۃ العین حیدر اور پاکستان میں انتظار حسین ہیں۔ دونوں کے نقطۂ نظرتکنیک اور کینوس میں بڑا فرق ہے، لیکن دونوں کے ایسے افسانوں کا محرک بعض محبوب تہذیبی قدروں کا زوال ہے۔ دوسرا رجحان زندگی کی جامعیت اور اس کے نارمل حسن کو اس کی سیاہی اور سفیدی کے ساتھ پیش کرنے کا ہے۔ اس رنگ کے امام راجندر سنگھ بیدی ہیں۔ نئی نسل کے بیشتر لکھنے والے بھی زندگی کی ہمہ پہلو ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی میں بیدی والی بات نہیں۔ البتہ یہ لوگ اس لحاظ سے پچھلے افسانہ نگاروں سے مختلف ہیں کہ ان میں سے بیشتر کسی طرح کی نظریاتی وابستگی قبول نہیں کرتے اور ’’سوچے سمجھے نتائج‘‘ کی فارمولا کہانی سے بچتے ہیں۔ ان کے ہاں بنیادی اہمیت فرد کو حاصل ہے، اور بجائے ٹائپ، کردار پر زور ملتا ہے۔ یہ زندگی کے حقیقی خدوخال کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افسانہ نگاروں میں رام لال،جوگندرپال،شرون کمار درما، اقبال متین، ستیش بترا، قیصر تمکین، رتن سنگھ، اقبال مجید، امرسنگھ کے افسانے یا اتر پردیش کے قصباتی تمدن سے متعلق قاضی عبدالستار کے افسانے۔ دوسری طرف وہ افسانے ہیں جن میں کسی علاقے کی گھریلو زندگی کی ترجمانی کی گئی ہے، مثال کے طور پر جیلانی بانو، واجدہ تبسم، یا آمنہ ابو الحسن کے افسانے۔ چوتھا بنیادی رجحان تجریدی اور علامتی افسانے کا ہے۔ اس قسم کا افسانہ آزادی سے پہلے کے افسانہ نگاروں کے ہاں بھی ملتا ہے، مثلاً کرشن چندر کا ’’غالیچہ‘‘، ’’چوراہے کا کواں‘‘، ’’جہاں ہوا نہ تھی‘‘ اور ’’چھڑی‘‘ احمد ندیم قاسمی کا ’’سلطان‘‘ اور ’’وحشی‘‘ اور ممتاز شیریں کا ’’میگھ ملہار‘‘۔ احمد علی کے بعض افسانے بھی تجریدی افسانوں کی ذیل میں آتے ہیں۔ لیکن ادھر نئی نسل کے بعض افسانہ کے نگاروں نے اسے ایک رجحان کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہندوستان میں اردو افسانہ کے اسی جدید رجحان سے بحث کی جائے گی۔ ایسے افسانوں میں اشاریت اور علامتیت کو باقاعدہ فن کی حیثیت سے برتا جاتا ہے۔ وزیر آغا نے ایک جگہ صحیح لکھا ہے۔ ’’اشاراتی عنصر تمام اصناف ادب میں اہمیت حاصل کر رہا ہے اور افسانے نے بھی اسے اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ دراصل تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ فرد کی تیز نگاہی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ اب وہ پلک جھپکتے میں بات کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے اور اس لیے واشگاف انداز کا کچھ زیادہ دلدادہ نہیں رہا۔‘‘ سیدھے سادے روایتی افسانے کے مقابلے میں علامتی افسانہ کچھ غیر مرئی سا ہوتا ہے۔ اس میں ٹھوس ہونے کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو منطقی افسانے کی خصوصیت ہے۔ اس میں زماں اور مکاں کا واقعیاتی احساس بھی نہیں ملتا بلکہ زماں اور مکاں دونوں ذہنی تجرید کی سطح پر واقع ہوتے ہیں اور ان میں اچانک تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ علامتی افسانے میں ٹھوس کرداروں کا کام تمثیلوں اور علامتوں سے لیا جاتا ہے جیسا کہ آگے چل کر وضاحت کی جائے گی۔ علامتیں ایک طرح کے وسیع استعارے میں جن کے شعوری اور نیم شعوری رشتوں کو ابھار کر افسانہ نگار معنوی تہہ داری پیدا کر دیتا ہے۔ علامتوں کے حسی پیکر ہوتے ہیں، لیکن بعض علامتوں سے افسانہ نگار فضا آفرینی کا یا محض خاص طرح کے تاثر ابھارنے کام لیتا ہے۔ ایسے افسانے کا کمال یہ ہے کہ وہ لغوی اور علامتی دونوں سطحوں پر پڑھا جا سکے۔ بعض افسانوں میں خاص لفظوں کا استعمال ایسی معنوی وسعت اختیار کر لیتا ہے کہ ان میں علامتی افسانہ کی شان ازخود پیدا ہو جاتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’سلطان‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ تجریدی افسانہ ہمارے افسانے کے اس سفر کی نشاندہی کرتا ہے جس کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہے۔ یہ انسان کے ذہنی مسائل، اس کے کرب اور حقیقت کے عرفان کی تلاش کا اظہار ہے۔ صرف فکر یا ذہنی سوچ کی سطح پر ۔ افسانہ علامتی ہو یا تجریدی، اس میں لغوی معنی صرف ایک طرح کا اشارہ کردیتے ہیں۔ باقی کام پڑھنے والے کی ذہنی استعداد کا ہے۔ در اصل لفظوں کے ظاہری،منطقی اور لغوی معنی کے علاوہ اور معنویت بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت اگر یہ بات نظر میں رہے تو ان سے لطف اندوز ہونا چنداں مشکل نہیں۔ پاکستان میں اس رجحان کے نمائندہ افسانہ نگار مندرجہ ذیل ہیں:
انتظار حسین (آخری آدمی) عبداللہ حسین (جلاوطن) ،خالدہ اصغر (ایک بوند لہو کی، سواری، بے نام کہانی)، انور سجاد (مرگی، چوراہاکونپل،گائے، پرندے کی کہانی) اور غلام الثقلین (لمحے کی موت، وہ ،سرگوشی) ہندوستان میں اس کو آگے بڑھانے والوں میں دیوندرا سر، سریندر پرکاش، بلراج مین را، کمار پاشی، احمد ہمیش اور عوض سعید کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یہاں اس رجحان سے مزید بحث کرنے کے لیے صرف سریندر پرکاش کو لیا جائے گا، اس لیے نہیں کہ ان کا افسانہ بہترین ہے بلکہ اس لیے کہ اس سے اس رجحان کے سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ تجزیاتی طور پرافسانے کا ڈھانچا کیا ہے۔ اس میں علامتیں اور ذہن واحساس کی رو کس طرح کام کرتی ہے اور کیا اس میں کسی طرح کی کوئی معنوی تہہ داری ہے یا نہیں؟ جدید ادب پر تنقید کرتے ہوئے میرا مسلک کچھ ایسا ہے کہ اس طرح کے تجزیے کے بعد ہی ہم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم نئے رجحانات کے بارے میں کوئی حکم لگا سکیں۔
سریندر پرکاش کے افسانے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کا شمار اردو کے اہم علامتی افسانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے افسانوں کی طرح اس کی بھی تلخیص ممکن نہیں، لیکن اگر ایسی کوئی ناکام کوشش کی جائے تو وہ کچھ اس طرح کی ہوگی: سمندر اور میدان سے گزرنے کے بعد وہ وادی میں اتر گیا۔ دوسرے تھوتھنیا اٹھائے اس کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیاں الوداع الوداع کہہ رہی تھیں۔ وادی میں سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر چکنی سڑکوں سے گزرتے ہوئے وہ ایک کشادہ مکان کے پھاٹک پر رکا۔ خاموشی میں اس کی آواز گونجی۔ ولندیزی دروازے نے باہیں پھیلا کر خیر مقدم کیا۔ ڈرائنگ روم کی آرائش سے اس نے اندازہ کیا کہ یہاں کارہنے والا خوش سلیقہ آدمی ہوگا اور دونوں گرم جوشی سے ملیں گے۔اس نے گل دان کو چھوا اور اپنی انگلیوں پر اس کی خنکی محسوس کی اور آتش دان کے سیاہ مرمر کی دھاریوں کے صحرا میں خود کو ڈھونڈنے لگا۔ ایک تصویر اس کا ہاتھ لگنے سے گر گئی۔ اس میں ایک آدمی گود میں ایک ننھی سی بچی کو اٹھائے ایک عورت کے ساتھ بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ یہ تصویر کبھی کھنچوائی تھی۔ بر آمدے سے کسی کے لاٹھی ٹیک کر چلنے کی آواز آرہی تھی، مسلسل، باقاعدہ۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ سمندر کنارے کا کوئی شہر ہے اور باہر برف گررہی ہے، لیکن کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالا تو برف نہیں تھی۔ وہ تنہائی محسوس کرتے ہوئے غمزدہ سا ہوگیا۔ اتنے میں اس کے ذہن سے ایک سانپ نکلا اور اپنی تیز تڑپتی ہوئی سرخ زبان نکالے ہوئے بیڈروم میں چلا گیا۔ یہاں ایک عورت نے انگڑائی لی اور ایک بچی کھیلتی ہوئی نظر آئی۔ لاٹھی ٹیکنے کی آواز پھر آنے لگی۔ برآمدے میں ایک اندھا آدمی لاٹھی کے سہارے چل رہا تھا۔ اس نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ برآمدے کے موڑ سے گزرگیا۔ اس نے سوچا کاش ڈرائنگ روم کی سب چیزیں اس کی ہوتیں۔ لیکن اس کا وجود اسے قالین پر اوندھا پڑا ہوا محسوس ہوا اور وہ رونے لگا، لاٹھی کی آواز پھر آئی۔ اس نے بوڑھے کو لپک کر پکڑنے کی پھر کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ برآمدے کے پاس کانسے میں ڈھلا ہوا ایک بوڑھا بیٹھا ناریل پی رہا تھا۔ اس نے چاہا وہ بھی اسی کی طرح اطمینان سے بیٹھ کر تمباکو کو پیتا رہے، لیکن جواب ملا کہ کانسے میں ڈھلنا پڑے گا۔ وہ سوچنے لگا کہ ایک بپھرے ہوئے سمندر، ریت اڑاتے ہوئے صحرا اور برف باری کے طوفان میں اکیلا انسان کیا کر سکتا ہے؟ وہ دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دینے لگا جو یہ سب سوچتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ وہ ابھی خوش سلیقہ آدمی سے ملاقات کے انتظار میں تھا کہ آواز آئی، چلو اب دیر ہو رہی ہے۔ وہ ڈرائنگ روم کی چیزوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔ آواز پھر آئی۔ یہ سب تمہارا ہی تو تھا مگر اب مہلت نہیں۔ وہ کسی انجانی چیز کے کھو جانے کے احساس سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بے بس ہو کر اس نے کہنا چاہا: اگر کبھی کوئی کمزور، بے سہارا کشتی ساحل سے آلگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں۔
کہانی کے پہلے ہی پیرا گراف میں ہمیں ایک قافلہ دکھائی دیتا ہے:
’’سمندر پھلانگ کر ہم نے جب میدان عبور کیے تو دیکھا کہ پگڈنڈیاںہاتھ کی انگلیوں کی طرح پہاڑوں پر پھیل گئیں۔ میں اک ذرا، رکا اور ان پر نظر ڈالی جو بوجھل سر جھکائے ایک دوسرے کے پیچھے چلے جارہے تھے۔ میں بے پناہ اپنائیت کے احساس سے بھر گیا تب علاحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک بے نام کسک کی صورت اختیار کی اور میں انتہائی غمزدہ، سرجھکائے وادی میں اتر گیا۔ جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سب تھوتھنیاں اٹھائے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ بار بار سر ہلا کر وہ اپنی رفاقت کا اظہار کرتے اور ان کی گردنوں میں بندھی ہوئی دھات کی گھنٹیاں ’’الوداع‘الوداع‘‘ پکار رہی تھیں اور ان کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے کونوں پر آنسو موتیوں کی طرح چمکے رہے تھے۔‘‘
سمندر ،میدان، پگڈنڈیاں ان سب کے ایک ساتھ سامنے آنے سے ذہن کسی طرح کے سفر کی طرف جاتا ہے۔ شاید وہ سفر جو قدیم سے جدید کی طرف رہا ہے یا لوک کلچر سے آج کے صنعتی کلچر کی طرف رہا ہے۔ پہلے انسان سب کے ساتھ تھا اور اپنائیت کے احساس سے سرشار تھا۔ لیکن جدید کی ’’وادی‘‘ میں اترتے ہوئے علاحدگی کے بے نام جذبے نے ذہن میں ایک کسک کی صورت اختیار کی اور وہ انتہائی غمزدہ ہو گیا۔‘‘ افسانہ کی معنوی کلید اسی پہلے پیرا گراف میں موجود ہے۔ فوراً بعد دوسرے پیراگراف میں تھوتھنیوں اور گھنٹیوں سے ذہن جانور کی طرف یا غیر متمدن انسان یا بنیادی انسان کے Archetypeکی طرف جاتا ہے جواب وقت کی فصیل کے اس پاررہ گیا تھا۔ وادی میں نئے راستوں پر چلتے ہوئے اس کے ’’دل میں رہ رہ کے امنگ سی پیدا ہوتی‘‘ ہے‘ آگے بڑھنے کی‘نئی مسافت طے کرنے کی یا کچھ پانے کی۔ سامنے سائنسی، صنعتی یا تہذیبی ارتقا کا ’’سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی سیڑھی چڑھ رہا تھا۔‘‘ قدیم کی ’’گرد آلود پگڈنڈیاں‘‘ پیچھے رہ گئیں اور وہ جدید کی ’’صاف شفاف‘ چکنی سڑکوں‘‘ پر چلنے لگا۔ ملاحظہ فرمائیے پگڈنڈی کے مقابلے پر صاف شفاف چکنی سڑک ذہن کو موجودہ دور کی ظاہری چمک دمک اور بے حسی سے کس قدر نزدیک لے آتی ہے۔ انسان کی معصومیت اور اپنائیت کی مسرت کا دن ڈھل رہا تھا اور شام ہوتے ہوتے وہ ایک مکان میں داخل ہوا۔ شام اداسی یا غم کا استعارہ ہے۔ اس سے مراد جدائی کا آغاز بھی ہوسکتا ہے اور مشینی ترقی کے تاریک دور کی ابتدا بھی۔ خاموشی میں انسان کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی پکار رہا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس کے پچھڑ کر تنہارہ جانے کی طرف۔ مغربی طرز کا ولندیزی دروازہ باہیں پھیلا کر اس کا خیر مقدم کرتا ہے۔ مکان میں پرانے انداز کے آریائی جھروکوں جیسی کھڑکیاں ہیں، لیکن ان پر گزرے ہوئے وقت کے بھاری پردے پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں لفظوں کی معنوی چکاچوند میں جو کچھ سامنے آتا ہے، ان سب پر نظر رہنی چاہیے۔ اگر قاری محض لغوی معنی سے چپکا رہے گا تو افسانے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ کھڑکیاں بھی ہیں، جھروکے بھی، پرانے تمدن کی نشانیاں بھی اور تاریخ کا تسلسل بھی‘ نیز یہ بھی نظر میں رہے کہ شاید ماضی کی روشنی بھاری پردوں کے ادھر رہ گئی ہے اور مستقبل کی کرنیں بھی حال تک نہیں پہنچ سکتیں۔ ڈارئنگ روم کی آرائش دیکھ کر معاً ذہن انسان کی صنعتی ترقی اور مادی آسائش یا آرام پسندی کی طرف جاتا ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے کہا ہے:
’’آتش دان میں آگ بچھ چکی تھی۔‘‘ اس سے مراد قدروں کا زوال اور یقین کا فقدان بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح جدید انسان کی ذہنی افسردگی کو ایک بار پھر ابھارا گیا ہے۔ سمندر اور میدان یعنی فطرت کے بے پایاں حسن کی جگہ اب دھات کے گلدان یعنی بے حسی نے لے لی ہے۔ پہلے انسان کو فطرت سے ہم کلامی کا شرف حاصل تھا لیکن اب گلدان کا اپنا ’’الگ وجود‘‘ ہے۔ اس کے چھونے سے انگلیوں پر سوائے ’’خنکی‘ کے کچھ اور محسوس نہیں ہوتا۔ علامتوں کا جو نظام سامنے آچکا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں اشارہ فطرت کے تجارتی قدر بن جانے یا صنعتی کلچر کے بے جان اور بے حس ہونے کی طرف کیا گیا ہے۔
آتش دان کے سیاہ مرمر کی سفید دھاریوں کو صحرا کہا ہے، خالی، اداس اور خاموش! شاید یہ جدید دور کی بے شخصیت آبادیاں ہیں، جن میں دور دور تک مسرت کے نخلستان کا نشان نہیں۔ اگر چہ انسان اس میں خود کو پانا چاہتا ہے لیکن ہوس کی ’’ریت کے جھکڑ‘‘ کے اندر گم ہو کر رہ گیا ہے۔
عورت مرد اور بچی کی تصویر سے ذہن خاندانی وابستگی اور ملی جلی مسرتوں کی طرف جاتا ہے۔ اس کی مسکراہٹ ماضی میں ممکن تھی، اب نہیں۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ شخصیت کے زوال اور اپنائیت کے احساس کے فنا ہوجانے سے انسان اپنی مسکراہٹ پر بھی قادر نہیں رہے۔ بر آمدے میں لاٹھی ٹیک کر چلنے والا آدمی کون ہے؟ اس کی رفتار میں باقاعد گی ہے۔ یہ آرہا ہے، جارہا ہے، لیکن کبھی ہاتھ نہیں آتاکہیں یہ ’’ وقت‘‘ تو نہیں، جس کو کوئی روک نہیں سکتا ٹک ٹک گھڑی کے پنڈولم کی طرح اس کی رفتار میں باقاعدگی ہے، اور یہ ہمیشہ حرکت میں ہے۔ یہ صنعتی اور میکا نکی انسان بھی ہوسکتا ہے جو پوری طرح ’’وقت‘‘ کے قابو میں ہے۔ یہ اندھا ہے۔ نیز جدید انسان بھی تجارتی اقدار کے حصول کی دوڑ میں اندھا ہورہا ہے۔ لاٹھی سے مراد صنعتی دوڑ میں مادی آسائشوں کا وہ سہارا بھی ہو سکتا ہے جن کے بغیر انسان ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا ۔ لاٹھی کی آواز کی باقاعدگی موجودہ تہذیب کی میکا نیکیت اور اکتا دینے والی یکسانیت کو بھی ظاہر کرتی ہے اور وقت کی رفتار اور تسلسل کی مظہر بھی ہے۔ اس کے بعد افسانہ میں سمندر اور برف کا ذکر ہے۔ بپھرا ہوا سمندر مشینی تہذیب کا پھیلائو ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں برف اس تہذیب کی سرد مہری کی علامت ہوگی۔ سرخ زبان والا سانپ جو انسان کے ذہن سے پھن اٹھا کر نکلتا ہے۔ مرد کے خانگی خوف یا جنس کا استعارہ ہو سکتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس کے فوراً بعد عورت اور بچی کا ذکر کیا ہے جس سے سانپ کی علامت اپنے تمام امکانات کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ لاٹھی کے سہارے چلنے والے انسان کے معمولات بندھے ہوئے ہیں اور وہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح بے بس آگے پیچھے حرکت کرتا رہتا ہے۔ دوسرا اس انسان سے ملنا چاہتا ہے۔ کمرے کی حسین چیزوں کو اپنانا چاہتا ہے اور عورت اور بچی کے اپنائیت کے احساس سے سرشار ہونا چاہتا ہے، لیکن کسی بات میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور وہ تنہا اور خالی خالی محسوس کرتا ہے۔ یہ پرانی اور نئی تہذیبوں کا ٹکرائو ہے۔
کانسے میں ڈھلا ہوا انسان اطمینان سے تمبا کو پی رہا ہے، یہ گویا علامت ہے ماضی میں زندہ رہنے کی یا بے حس ہونے کی۔ یعنی اس دور میں فراغت سے وہی ہے جس کا احساس بیدار نہیں یا جو صرف سانس لینے پر قانع ہے۔
اس مقام پر کہانی کے یہ جملے خاصے اہم ہیں:
’’ایک بپھرا ہوا سمندر، ایک ریت اڑاتا ہوا صحرا اور ایک برف کا طوفان اور میں اکیلا آدمی! میں کیا کچھ کرلوں گا؟میں دل ہی دل میں اس چیز کو گالی دیتا ہوں جو یہ سب کچھ سوچتی ہے مگر نظر نہیں آتی اور مجھ نحیف، کمزور بے سہارا کو بھٹکاتی پھرتی ہے۔‘‘
جو سب کچھ سوچتی ہے، لیکن نظر نہیں آتی۔ شاید انسان کا ذہن ہے۔ تجزیے کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد علامتوں کے نظام کے بارے میں اس وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ڈرائنگ روم ہمارا جدید معاشرہ ہے۔ سمندر، میدان اور وادی سے گزر کر آنے والا شخص عہدِآفرینش کا انسان ہے اور جس انسان سے اس کی ملاقات نہیں ہو پاتی وہ وقت ہے یا صنعتی دور کا بے شخصیت انسان ہے جس کا وجود میکانکیت کی نذر ہو چکا ہے۔ کہانی عہدِآفرینش کے انسان کی اپنائیت،رفاقت اور معصومیت کے احساس سے شروع ہوتی ہے، صنعتی دور کے اثر سے پیدا ہونے والی ذہنی علیحدگی (Alienation) کی مختلف کیفیتوں کو ابھارتی ہے اور اپنائیت کے فقدان کے المیہ کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر ختم ہو جاتی ہے۔ عہد آفرینش کے انسان کو جو بجائے خود اپنائیت اور رفاقت کی علامت ہے، ڈرائنگ روم یعنی جدید معاشرے سے رخصت ہونا پڑتا ہے تو وہ قالین یعنی دھرتی کو ایک نظر دیکھتا ہے اور اسے اپنی بانہوں میں بھرلینے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشرہ اس کا اپنا ہے لیکن علیحدگی کے جذبے کی وجہ سے اسے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کہا ہے۔ آخر میں یہ کہہ کر کہ ’’اگر کوئی کمزور ،نحیف،بے سہارا کشتی ساحل سے آکر لگے تو سمجھ جانا کہ وہ میں ہوں‘‘ اس تمنا کا اظہار کیا گیا ہے کہ شاید کبھی اپنائیت کو اپنا کھویا ہوا قالب پھر مل جائے۔
سریندر پرکاش نے جدید انسان کے ذہنی مسائل کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ اس کی کہانیاں زبان و بیان کے ایجاز اور تہ در تہ علامتوں کی معنویت کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ وہ بظاہر نہایت سادہ زبان استعمال کرتاہے جیسے کوئی روانی سے بے تکلف لکھے چلا جاتا ہو، لیکن ہر سطر گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہوتی ہے اور چندہی جملوں کے بعد احساس ہونے لگتا ہے کہ پڑھنے والے کو ذہنی چیلنج کا سامنا ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں کا تانا بانا خواب اور بیداری کے بیچ کی کیفیتوںسے تیار ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر چیزیں اپنی روایتی طور سے ہٹ کر سامنے آتی ہیں اور پڑھنے والا چونک چونک اٹھتا ہے۔ نیم شعوری اور تحت الشعوری کیفیتوں کے امتزاج سے جا بجا تحیر کے چھینٹے بھی ملتے ہیں جو کہانی کی دلچسپی بنائے رکھتے ہیں۔سریندر پرکاش کے افسانوں میں لفظوں کے لغوی اور منطقی معنوں کے پیچھے ایک اور جہانِ معنی آباد نظر آتا ہے۔ وہ استعاروں کے جال سے علامتی معنوں کی ایک وسیع اور روشن فضا قائم کردیتا ہے۔ اس کی ذہنی پر چھائیاں اجلی ،نمایاںاور متحرک ہوتی ہیں اور واقعات کا ایک دریا سا اپنے حسی اور فکری اتار چڑھائو کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ لغوی معنی سے پرے دیکھ سکنے والوں کے لیے سریندر پرکاش کے افسانوں میں داستان کی سی واقعیت ہے اور قصے کی سی کشش! لیکن وہ لوگ جو رسمی معنی میں ابلاغ کا ماتم کرتے رہتے ہیں، ان کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ انھیں تخیلی نارسائی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
٭٭٭

Aesthetic of Absurd: Miraji by Moid Rasheedi

Articles

ابہام کی جمالیات : میراجی

معید رشیدی


[شعر خوب معنی ندارد…بیدلؔ]

شعری دھند میں لپٹی ہوئی دوآوازیں ہیں…میرجی اورمیراجی۔دوسایے ہیں جو ہمارے تعاقب میں ہیں اور ہم ان کے تعاقب میں۔داستان رات اور سایے کی ہے۔رات انسان کی پہلی شناخت ہے۔سایہ آدمی کا پہلاہمزاد ہے۔سایے کی رات کتھادھند کے خمیر سے پھوٹی ہے۔یہ زمین بنجرہے!۔یہاں سوال اگتے ہیں:
جانے کس پاتال سے آئے
دھندلی رات کے دکھیا سائے
پاتال،رات اور سایہ…تینوں علامتیں ہیں۔معنوی اعتبارسے نہایت دبیز۔ان کی وجودی تعبیرمعنی کو وہ سمت عطاکرتی ہے جہاں لفظ’گنجینۂ معنی کاطلسم‘بن جاتاہے۔اس شعر کے توسط سے جب ہم نے میراجی کو سمجھنا شروع کیاتومحسوس ہواکہ یہ شخص دیوانہ ہے۔سوالات بہت کرتاہے،اورسوالات بھی ایسے کہ اس کے ہر سوال میں سوالوں کی ایک دنیاآباد ہے۔دھندلی رات کادکھیاسایہ دھرتی کے پاتال تک پہنچنے کی کوشش میں ماراماراپھرتاہے:
نگری نگری پھرامسافرگھرکارستہ بھول گیا
کیاہے تیراکیاہے میرااپناپرایابھول گیا
آوارگی ابہام کاچہراہے۔دھندلی رات کے دکھیاسایے نے ابہام کی چادر اوڑھ لی ہے۔ابہام کیاہے؟یہ کوئی صنعت نہیں۔ہرلفظ اس وقت تک مبہم اوربے معنی ہے جب تک ہم اسے مفروضوں کے ذریعے بامعنی نہ بنائیں۔ابہام لفظ کے خمیر میں ہے۔یہ مانوس و نامانوس کاایک سلسلہ ہے جس میں شاعر زندگی کے تجربوں کواجنبیاتاہے۔ابہام معنی کے طرفوں کوکھولنے کے لیے متن کی قرأت کاطریقہ بھی فراہم کرتاہے۔یہ طریقہ سوال سے شروع ہوکر سوال ہی پر ختم ہوجاتاہے۔ابہام کے پاتال میں چھپی زندگی خود سب سے بڑاسوال ہے۔توپھرابہام سے مفرکہاں؟قرأت کاتجزیاتی نظام ہرلفظ کومعنوی اساس پر پھیلنے کا موقع عطاکرتاہے۔استعارہ لفظ کے معنوی امکانات کو پھیلانے کاعام ذریعہ ہے۔زبان کی اساس استعاراتی ہے۔مفروضہ جب روزمرہ کاحصہ بن جاتاہے تو اس کی استعاراتی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔اس لیے ہرنیااستعارہ مشاہدے کی ندرت کوپیش کرتاہے۔شاعری زبان کامعجزہ ہے۔اس لیے ادبی تخلیق پر ہونے والی ہربحث کاآغاز لسانی بنت کے مسائل سے ہوتاہے۔لفظ ومعنی کے رشتے کوسمجھے بغیر معنوی رعایتوں کی تفہیم ادھوری ہے۔ہراستعاراتی پیکر مشاہدات کے متعدد اجزاسے باہم مربوط ہوتاہے۔انھی اجزاکی کثرت سے رعایتیں وجود میں آتی ہیں۔چونکہ مجازکی تمام صورتیں ابہام کی کوکھ سے پیداہوئی ہیں،اس لیے قاری کا ذہن ان صورتوں سے آشناہوتے ہوئے بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ہرقاری متن سے مطابقت کانیاقرینہ ڈھونڈتاہے۔
ابہام شعری خواص کوتوانابناتاہے،کیونکہ یہ شاعری کی جڑوں میں پیوست ہے۔یہ ذہن کی مستقل حالت ہے۔انسانی ذہن ہمیشہ شک،واہمہ یامبہم کیفیات کاشکار،رہتاہے۔عبیداللہ علیم کی ایک تقریب میں جون ایلیانے کہاتھاکہ شاعری اظہارذات نہیں،بلکہ ہیجانِ ذات کااظہارہے۔یہ دراصل ذات کے حوالے سے ذہنی ہیجان کامعاملہ ہے جواکائی کی صورت کسی تخلیقی متن میں اپنی تمام ترکثرت کے ساتھ متشکل ہوتاہے۔کوئی بھی نظم،چاہے اس کابیانیہ جتنابھی سپاٹ ہو،ابہام سے مبرانہیں ہوتی۔نظم کاکوئی بھی مطالعہ شرح،تعبیریاتجزیے کے لیے نہ صرف ابہام کے درجات سے ہوکرگزرتاہے،بلکہ ان میں الجھتابھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تخلیقی متن کی قرأت ایک نوع کامجاہدہ بھی کہلاتی ہے۔قرأت کی پیچیدگیاں باذوق قاری کو مسرت بہم پہنچاتی ہیں۔میراجی کی شاعری میں ابہام ایک پاتال ہے۔فکری بنت،دھندلی رات کی مانند ہے اور دکھیاسایہ ان کامرکزی شعری کردار۔اسی لیے ابہام کی جمالیات کو ہم نے ان کی شاعری کاسرنامہ بنایاہے۔قرینہ یہ ہے کہ باغی اور وحشی تخیل والایہ دکھیاسایہ دھندلے اوراندھے نغموں میں راتوں کی کہانی سناتاہے:
آؤ۔اپنے باغی،وحشی تخیل کی
دھندلے،اندھے نغموں میں
سن لوکہانی راتوں کی۔ [مدھوری بانی]
یہ تحریر آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
قصہ گوئی کی تاریخ/تصور،رات ہی سے وابستہ ہے۔انسان نے اپنی اساطیر کوتخیلی حکایات میں پہچانا۔رات کتھاکابیانیہ سادہ ہوہی نہیں سکتااوریہاں تورات کاہرلمحہ خون بن کر تجربے کی آنکھوں سے رس رہاہے۔سرخ وسیاہ کے اس جنگل میں ایک سادھوآسن جمائے،دھونی رمائے پریم کے منتر پڑھ رہاہے۔الفاظ زبان سے اداہورہے ہیں اورمعنی کاچشمہ اداس آنکھوں سے پھوٹ رہاہے۔من مندر میں ایک دیوی ہے جس کے علم میں بنگال کاجادوہے۔روایت ہے کہ اس کے شہر میں جانے کے کئی راستے ہیں،واپس آنے کاکوئی راستہ نہیں۔اب سادھواس شہرکافقیربن چکاہے۔وہ اس شہر کی سانولی مٹی میں ضم ہوچکاہے۔اسی مٹی سے کالی بنتی ہے اورمیراسین کامیراجی کالی[رات]کی کہانی سنارہاہے:
رات اندھیری،بن ہے سونا،کوئی نہیں ہے ساتھ،
پَوَن جھکولے پیڑ ہلائیں،تھرتھرکانپیں پات
دل میں ڈرکاتیرچبھاہے،سینے پرہے ہاتھ،
رہ رہ کرسوچوں یوں کیسے پوری ہوگی رات؟ [نارسائی]
واہمہ کے دشت میں میراجی کاتخیل ارضی پیکرتراشتاہے۔ان کاارضی بیانیہ قدیم وطویل ہندوستانی تہذیب کے سلسلوں سے عبارت ہے۔ان کاکلام انھی سلسلوں کامظہرہے۔ابہام کی جمالیات نے ان کے تخیل کودبازت عطاکی ہے۔ان کی قرأت میںمعنوی پہلوؤں کی دریافت کے لیے ابہام کے مدارج کوطے کرناہے۔ابہام اورایہام میں فرق ہے۔ایہام[Pun]ایک شعری صنعت ہے جس میں ایک لفظ کے دومعنی مراد لیے جاتے ہیں۔ایک قریب کاہوتاہے،دوسرابعید کا،اورلکھنے والے کی مراد بعیدمعنی سے ہوتی ہے۔Ambivalenceبھی اسی سے مشابہ ہے۔یہاں دونوں معنی ایک دوسرے سے جداہونے کے ساتھ محدود ہوتے ہیں،جبکہ ابہام کثرت ِ معنی پردال ہے۔ابہام کی تعریف میں مارکسی نقادٹیری ایگلٹن لکھتاہے:
Ambiguity happens when two or more senses of a word merge into each other to the point where the meaning itself becomes indeterminate.(1)
یعنی ابہام معانی کاانضمام ہے۔کسی سیاق یاتناظر میں کوئی مبنی برابہام لفظ اپنے لغوی معنی [Literal Sense]میںاستعمال نہیں ہوتا۔ایک لفظ سے جب کئی معنی دریافت ہوں تومجازاپناسایہ وسیع ترکرلیتاہے۔کسی مخصوص/لغوی معنی سے تجاوزشعری عناصر[تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجازمرسل، تمثیل، مبالغہ،علامت وغیرہ]کی تشکیل کاموجب بنتاہے۔بنیادی چیز تخیل ہے۔قوتِ واہمہ[Fancy]اس کاغیر منقسم حصہ ہے۔واہمہ مختلف معانی میں ارتباط پیداکرتاہے اورمنضبط قوتِ حاسّہ اسے صحیح سمت عطاکرتی ہے۔واہمہ ابہام کی کلید ہے۔ابہام عام گفتگو میں بھی درآتاہے،لیکن سب سے مبہم شعری زبان ہوتی ہے جس کاہرجزاپنی فطرت میں جدلیاتی ہوتاہے۔شمس الرحمن فاروقی کاخیال ہے:
اجمال اور جدلیاتی لفظ کے بعد ابہام شاعری کی تیسری اورآخری معروضی پہچان ہے۔[موزونیت اوراجمال کی موجودگی ہمیشہ فرض کرتے ہوئے]ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگرکسی شعر میں صرف ابہام ہی ہے توبھی وہ شاعری ہے۔عام طورپرجدلیاتی لفظ اورابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں،لیکن جس طرح تنہاجدلیاتی لفظ شعرکوشاعری میں بدل دیتاہے،اسی طرح تنہاابہام بھی شعر کوشاعری بنادیتاہے۔شعر میں ابہام یاتوعلامت سے پیداہوتاہے یاایسے الفاظ کے استعمال سے جن سے سوالات کے چشمے پھوٹ سکیں۔جتنے سوالات اٹھیں گے شعراتناہی مبہم ہوگااوراتناہی اچھاہوگا۔(2)
یعنی اجمال اورجدلیاتی لفظ کی طرح ابہام بھی شاعری کامستقل جزہے،اوریہ تینوں شاعری کی معروضی شناخت مقرر کرتے ہیں،لیکن ابہام بذاتِ خود کبھی معروضی نہیں ہوتا۔[یعنی] ابہام کی معروضی شناخت ممکن نہیں،کسی مبنی برآہنگ شعری متن میں ابہام موجودہوتواسے شاعری کہاجاسکتاہے۔ابہام شاعری کی آخری معروضی شناخت نہیں،بلکہ یہ پہلی شناخت ہے اورشاعری کی اولین شرط بھی۔فاروقی صاحب بجافرماتے ہیںکہ اگرکسی شعرمیں صرف ابہام ہی ہے توبھی وہ شاعری ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام طورپرجدلیاتی لفظ اورابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ہمارے خیال میں ابہام پہلے آتاہے،جدلیاتی لفظ بعدمیں۔اس لیے کہ جدلیاتی لفظ کی بنیاد ہی ابہام پرہے۔وہ کون سااستعارہ ہے جس سے ایک سے زائد سوالات پیدانہیں ہوتے؟اگرسوالات پیداہوتے ہیں تواس کی وجہ ابہام ہے۔اس طرح اس کی اولین حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔چوں کہ جدلیاتی لفظ از خود مبہم ہوتاہے،اس لیے ترسیل کا مسئلہ بھی پیداہوگا۔ابہام میں ابلاغ کاعمل جمالیات کوبھی طے کرتاہے۔
یہ تحریر آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
اکثر کہاجاتاہے کہ فلاں شعر/نظم مہمل ہے۔ابہام سے شعر نہ توچیستاں بنتاہے اور نہ ہی مبالغے سے کوئی شعرلغویات کے دائرے میں آتاہے۔ہرشعرمہمل نہیں ہوتا۔قصور تواپنی تفہیم کابھی ہوتاہے۔کوئی خیال کسی کے لیے مہمل ہوسکتاہے،لیکن وہی خیال دوسروں کے لیے بھی مہمل ہو،کوئی ضروری نہیں۔مبالغہ ابہام کے بطن سے نکل کر استعارے کی وجودیات میں داخل ہوجاتاہے۔ابہام نہ تواہمال ہے اور نہ اِشکال۔اہمال’مہمل گوئی‘کوکہتے ہیں،جبکہ ابہام معنی خیزی کاعمل ہے۔یہاں کوئی نہ کوئی معنی ضرورنکل آئے گا۔اِشکال میں کوئی خیال مشکل ضرورہوتاہے،ناقابلِ فہم نہیں۔بعض حوالوں سے یہ مشکل دورہوسکتی ہے۔کہاجاتاہے کہ’شاعری انکشاف ہے اسی لیے مبہم ہے۔‘کسی پرمہملیت کالیبل لگانابہت آسان ہے۔جب آدمی بشیربدراوراحمدفرازکوپڑھنے کاعادی ہوجاتاہے تواسے ن۔م۔راشداورمیراجی کی شاعری تومہمل معلوم ہوگی ہی۔ہم نے بعض لوگوں کوکہتے سناہے کہ میراجی مہمل بکتے ہیں۔کچھ لوگوں کویہ شکایت ہے کہ جس طرح فیض ہماری زبان پررہتے ہیں،میراجی نہیں رہتے۔ان کاکلام زبان زدنہیں ہوتا۔بھئی زبان زد توچٹکلے بھی ہوجاتے ہیں۔توشاعری اورلطیفے میں کیافرق ہے؟فیض کامیراجی سے کوئی موازنہ نہیں۔دونوں اپنے ڈھب کے شاعر ہیں۔میراجی کاکلام اگریاد نہیں رہتاتواس میں ان کاکوئی قصورنہیں۔میراجی وجودکاشاعرہے۔وہ مٹی میں چھپے پاتال میں لے جاناچاہتاہے۔جب زندگی ہی مبہم ہے تومیراجی سے کیوں مطالبہ کیاجائے کہ ان کے مطالب آسان ہوں؟ فاروقی صاحب نے پرلطف بات کہی ہے کہ :
ذاتی طورپرمیں کسی شاعری کومہمل کہنے سے اتناہی ڈرتاہوںجتناکوئی مسلمان دوسرے مسلمان کوکافرکہنے سے ڈرتاہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میںکفرکافتویٰ ہمیشہ سے بہت سستارہاہے،اورآج بھی ہے۔(3)
اب تک کی گفتگومیں بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ ابہام کی شناخت کیوں کرمقررکی جائے؟ابہام کی دبازت علامت ہے۔علامت میں تشبیہ،استعارہ یاتمثیل کامفہوم شامل ہوتاہے۔یہ استعارے سے زیادہ عمیق ہے۔علامت اپنے تمام انسلاکات کے ساتھ ظاہرہوتی ہے۔فرض کیجیے کہ’ آسمان‘،زمانے کااستعارہ ہے،لیکن اس میں عظمت،وسعت،تحرک،تغیر،وقت،جیسے تمام مفاہیم بھی موجود ہیں۔آسمان،خداکابھی استعارہ ہوسکتاہے اورظالم کابھی۔اس کی کیفیت کی مناسبت سے مفاہیم بدلیںگے،لیکن یہی آسمان جب علامت کے معنی میں لیاجائے گاتواس میں یہ سارے معانی مراد لیے جائیںگے۔
ابہام پرگفتگومیں سرولیم ایمپسن کی کتاب’Seven Types Of Ambiguity‘اہم حوالہ ہے۔یہ کتاب ایمپسن نے اس وقت لکھی جب وہ بائیس برس کے بھی نہیں تھے۔جب وہ چوبیس سال کے ہوئے توپہلی بار یہ کتاب 1930میں شائع ہوئی،اورجدیدادبی تنقید میںسنگ میل قراردی گئی۔ایمپسن نے ابہام کو سات حصوں میں تقسیم کرکے ان کی الگ الگ درجہ بندی کی۔اس نتیجے پرپہنچے کہ ابہام شاعری کے خمیرمیں ہے۔ابہام کی تعریف میںلکھتے ہیں:
‘Ambiguity’ itself can mean an indecision as to what you mean, an intention to mean several things, a probability that one or other or both of two things has been meant, and the fact that a statement has several meanings.It is useful to be able to separate these if you wish, but it is not obvious that in separating them at any particular point you will not be raising more problem than you solve.(4)
ایمپسن نے ابہام کی جمالیات کواسلوب کی لطافت سے تعبیر کیاہے۔ہماراخیال ہے کہ ابہام توبت ہزارشیوہ ہے۔اس تک رسائی کے محض سات نہیں،ہزاروں درہیں۔اس کی تہ میں اترنے کی کوشش میں قاری مزید الجھتاجاتاہے،اورمعنی التوامیں رہتاہے۔
کچھ لوگ ابہام کے بڑے مخالف ہیں ۔میراجی اور راشد کی شاعری کے مطالعے میں ابہام کا ذکر شدو مد سے کیا جاتا رہاہے ۔یہاں سلیم احمد کے دو مضامین کا حوالہ دینا مناسب معلوم پڑتا ہے ۔ ’ابہام کیوں ؟‘ اور ’ ابہام اور بازی گری ‘ ۔ انھوں نے ابہام کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے اور اس نوع کے سوالات قائم کیے ہیں :
·ہمیں ایک نظم مبہم معلوم ہوتی ہے ۔ اس کا کیا سبب ہوتا ہے ؟
·[قاری کے ساتھ] شاعر بھی ابہام میں مبتلاہوتا ہے ۔ کیوں ؟
·ابہام کی فنی ضرورت کیا ہے ، یعنی دانستہ ابہام کی غرض و غایت کیا ہے ؟
سلیم احمد نے ابہام کی ممکنہ صورتوں کا جائزہ لینے کی بساط بھر کوشش کی ہے اور ابہام کو الہام سے ملاکر دیکھا ہے :
شاعری کے کسی سنجیدہ طالب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ شاعری اپنی آخری حدود میں ’’حقیقت نامعلوم‘‘ کا اشاریہ ہے ۔ یہ حقیقت اظہار اور ابلاغ سے گریزاں ، اور طالب ِ اخفا ہے ۔ اس کی فطرت ہی یہ ہے کہ ظاہرہونے سے بچتی ہے ۔ مگر شاعری ہمیشہ اس حقیقت پر کمند انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ۔ یہ حقیقت تو قابو میں نہیں آتی مگر شاعری ایک ایسا آئینہ ضرور تیار کردیتی ہے جس میں اس کا عکس جھلملانے لگے یا کم از کم وہ نیم ظاہر ہوجائے ، گھونگھٹ میں چھپے ہوئے محبوب کی طرح حقیقت کی یہ جلوہ نمائی شاعری کو الہام بنادیتی ہے ۔ الہام ابہام کے بغیر ممکن نہیں ، اور راز کھل کر بھی راز ہی رہتے ہیں ۔(5)
یہ تحریر آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
شاعری کو الہام کہاجاتارہاہے ۔ یہ ایک الگ نظریہ ہے ۔ شاعری الہام ہے یا نہیں ، الگ بحث کا موضوع ہے ، لیکن اس بحث میں بعض اختلافات کے باوجود جو نکتہ اہم ہے وہ ابہام کا اعتراف ہے ، کیونکہ یہاں الہام کا دارومدارہی ابہام پر رکھاگیا ہے ۔[ایہام سے قطع نظر ] نظری سطح پر ابہام کے مطالعے کا چلن میراجی اور راشد کی شاعری کے جائزے سے ہوا۔ ایک گروہ نے ابہام کی حمایت کی اور دوسرے نے سخت مخالفت ۔ اس معرکے میں ابہام کی نظری اساس کو استحکام حاصل ہوا۔سلیم احمد کا مضمون ہے ’ ابلاغ کا مسئلہ ‘ ۔ اس میں انھوں نے وزیر آغاکے مضمون ’ ابلاغ سے علامت تک ‘ پر گفتگو کرتے ہوئے شاعری میں ابلاغ کے مسئلے کوالہام [ غیر اناکا شعور]کے حوالے سے سلجھانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے نزدیک تخلیق ،داخلیت [غیر انا کا شعور] سے خارجیت [ انا کا شعور ] کے سفر کا نام ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ تخلیقی امیج پوری تخلیقی شخصیت کا نچوڑ ہوتی ہے ۔ انھوں نے وزیر آغا اور شمس الرحمن فاروقی کی شاعری کو بری شاعری کا نمونہ اس بنیاد پر قرار دیا کہ ان کے یہاں ’غیر انا‘ کا شعور ’انا‘ کے شعور سے مکالمے پر تیار نہیں ہوتا اور اسی لیے ان کی شاعری میکانکی ہوجاتی ہے ۔ انھوں نے ’ فکر کا طاعون ‘ والے مضمون میں فاروقی صاحب سے اپنے اختلافات واضح کیے ہیں ۔اس ضمن میں فاروقی صاحب کے تین مضامین حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’ تعبیر کی شرح ‘ ، ’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘ اور ’ شعر کا ابلاغ ‘ ۔ان مضامین کا براہِ راست تعلق ابہام سے ہے ۔ متن سے معنی کشید کرنے کا عمل تعبیر کہلاتا ہے ۔ تعبیر کے مختلف وسائل ہیں۔تعبیر کے عمل میں معنی کشید کرنے کا مرکزی وسیلہ ابہام ہے ۔تخلیقی سطح پر اظہار ، ترسیل اور ابلاغ کے تینوں مراحل میں زیریں لہر کے بطور ابہام موجود ہوتاہے ۔ ادبی تخلیق میں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے وجدان کو اپنے اوپر مکمل طور پر ظاہر کرلیاہے ؟کیا اس بات پر کوئی مصر ہوسکتا ہے کہ اس کے اظہار نے مکمل ترسیل حاصل کرلی ہے ؟ کیا اس پہلو پر کوئی اَڑ سکتا ہے کہ اسے تخلیقی متن کا پور ا ، ابلاغ ہوچکا؟ترسیل کی ناکامی کے لیے مصنف کو قصور وار ٹھہرانے سے پہلے تھوڑے توقف کے ساتھ غور کرلینا چاہیے کہ متن کا تشکیلی نظام کیا کہتا ہے اور متن کی قرأت کیسے کی جائے ؟ ہر متن ایک ہی زاویے سے نہیں پڑھاجاسکتا۔میراجی کا متن ترسیل کی ناکامی کا المیہ نہیں ؛ ابہام کی جمالیات کا محورہے ۔ محمد حسن عسکری نے میراجی پر خاکہ لکھتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ لوگوں کو میراجی سے شکایت رہتی ہے کہ وہ سمجھ میں نہیں آتے ۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے پڑھنے والوں کا خیال نہیں رکھا۔ اس نوع کی باتیں اب کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ۔
کلیات میراجی کی پہلی نظم ہے ’چل چلاؤ‘۔موضوع ’بے ثباتی ِ دنیا‘۔اس موضوع پر شاعری کا انبار ہے۔میرؔ جی نے تو ہستی کوحباب اور اس کی نسبت ، نمائش کو سراب سے تعبیر کیا ہے۔میر کے ہم عصر نظیر نے بھی کہا ہے ۔’سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا /جب لاد چلے گا بنجارہ‘۔ولی نے بھی خدو خال کی بات کو خال خال بتا کر زندگی کو دردو غم سے جوڑ دیا ہے۔میرجی سے میراجی تک کے سفر میں بے ثباتی ِ دنیا کا موضوع پامال بھی بہت ہوا۔شیلی بھی کہہ کر چلا گیا:
Our sweetest songs are those that tell of sadist thought
اس طرح درد و غم کے اظہار پر شاعروں کا اجارہ ٹھہرا۔حزنیہ اظہار شعر گوئی کا فیشن بھی قرار پایا۔جب تک درد کی جبلت کو محسوس نہ کیا جائے۔جب تک غم کی ماہیت سے ہوکر نہ گزراجائے۔اسے اپنے باطن میں کیسے اتارا جاسکتاہے؟ہاں صاحب ، میراجی غم کاشاعر ہے۔دکھوں کو اس نے پہچان لیاہے۔درد اس کے درون میں ہے۔غم اس کے وجود میں ہے۔وہ اپنے تخیل کو وحشی کیوں کہتا ہے؟راتوں کی کہانی کیوں سناتا ہے؟یہ کیسا عاشق ہے جو محبوب کی چوٹی اور کمر کا مقتول نہیں؟اس کے یہاں محبت پوجا بن گئی ہے اور اس محبت سے پھوٹنے والاہر منطقہ اس کے لیے مقدس ہے۔
میراجی کی شاعری عشق کا صحیفہ ہے۔اس جوگی نے دنیا کو ہزار رنگ میں دیکھا،لیکن:
’بس دیکھا اور پھر بھول گئے‘
کیوں؟اس لیے کہ کسی منظر کو ثبات نہیں۔’چل چلاؤ‘ ایک ’ لمحے ‘ کی جمالیات کو محسوس کرنے کا تجربہ ہے۔زندگی کو دیکھنے کے بے شمار زاویے ہیں۔قطرے میں دریا کی تلاش تصوف کا علاقہ ہے۔جز کو عظیم کُل کا حصہ سمجھنا اہل تصوف کا شیوہ رہاہے۔زندگی کا ہر لمحہ حیات ِ کُل کاایک جز ہے۔فانی نے کہا ہے:’ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی/ زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا‘۔غالب نے بھی کہا ہے:’عشرت ِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا‘۔غالب جادہ ٔ راہ ِ فنا کو عالم کے اجزاے پریشاں کا شیرازہ بتاتے ہیں۔میراجی نے عرصۂ حیات کے ، ایک لمحے میں سمٹنے کا تجربہ کیا ہے :
ہر منظر ، ہر انساں کی دیا اور میٹھا جادو عورت کا
اک پل کو ہمارے بس میں ہے ، پل بیتا ، سب مٹ جائے گا،
اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو ،
تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو؟
کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی ؟

ہے چاند فلک پر اک لمحہ ،
اور اک لمحہ یہ ستارے ہیں ،
اور عمر کا عرصہ بھی ، سوچو ! اک لمحہ ہے !
[چل چلاؤ]
میراجی نے عرصۂ حیات کو ایک لمحہ سمجھنے کے ساتھ ہستی کو ایک ذرہ بھی تصور کیا ہے ۔مسرت کے فلسفے میں زندگی کو خواب سے تعبیر کرکے انھوں نے مسرت کے خوف کا ادراک کیا ہے ۔اس دنیا میں ہرشخص مسرت کی تلاش میں ہے لیکن وہ مسرت سے خوف کھاتے ہیں ۔اس لیے کہ کہیں یہ مسرت زندگی کو خواب نہ بنادے ۔مسرت میں جو رومان کا پہلو ہے وہ خواب کی کیفیت کو جلا بخشتا ہے ۔شکست ِ خواب ان کے یہاں کرب انگیز تجربہ ہے ۔خواب بہر حال خواب ہے ۔ہر خواب حقیقت نہیں بنتا۔خواب کا ٹوٹنا میراجی کے یہاں دل کا ٹوٹنا ہے ۔انھیں معلوم ہے کہ ہر مسرت فانی ہے ۔اس لیے اس تجربے سے گزرنے میں انھیں ڈر کا احساس ٹیسیں مارتا ہے :
میں ڈرتا ہوں مسرت سے ،
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں ، کائناتی نغمہ ٔ مبہم میں الجھا دے ؛
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت ؛
[میں ڈرتا ہوں مسرت سے ]
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کائنات کے نغمۂ مبہم میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر پل انھی نغموں میں گھرے ہوئے ہیں جن میں کائنات کے اسرار پوشیدہ ہیں ۔وہ ابہام کو بعض اوقات شعوری طور پر موزوں کرتے ہیں ۔ان کی بعض نظمیں پہلی قرأت میں آسان معلوم پڑتی ہیں لیکن جب تہہ میں اتر نے کی کوشش کی جاتی ہے تو معاملہ پیچیدہ ہوتا جاتا ہے ۔ان کی ایک نظم ہے ’سمندر کا بلاوا‘ ۔اس کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں ۔سمندر یہاں کلیدی وجودی علامت ہے ۔متکلم داخلی وجودی کردار ہے ۔بعض حضرات سمندر کو ماں کی علامت بتاتے ہیں کہ میراجی نے اپنی ماںکی یاد میں یہ نظم لکھی تھی ، لیکن اس طرح تو نظم ایک سیاق میں مقید ہوجاتی ہے ۔اس نظم کے کوڈز کو جب ڈی کوڈ کیا جاتا ہے تو معنی کی کئی نمایاں لہریں ابھرتی ہیں ۔ان لہروں میں بہہ جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور یہ معنی کی سیال کیفیات کی وجہ سے ہیں۔سرگوشیوں سے شروع ہونے والی اس نظم میں آوازوں کی چمک ، دھمک ، شور اور اسرار کا جال پھیلا ہوا ہے ۔’صدا‘ اور ’ندا‘ دو بنیادی ذیلی علامتیں ہیں:
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھارہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دیے جارہی ہے
عموماً صدا اور ندا کو ہم معنی تصور کیا جاتا ہے لیکن لغت اور علامت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔صدا پر ندا غالب ہے ۔صدا زندگی اور ندا موت ہے ۔اگر آپ اسے رد کرتے ہیں تو صدا خارج اور ندا باطن کا بلاوا ہے۔ اگر آپ اسے بھی رد کرتے ہیں تو صدا فانی ہے اور ندا لافانی تجربہ ہے ۔ ہر اک شے سمندر سے آئی اور سمندر میں جاکر ملے گی تو اس سمندر کا بلاوا وجود کا بلاوا ہے ۔سمندر کی ندا قطرے کی صدا سے ٹکرا رہی ہے :
یہ اک گلستاں ہے …ہوا لہلہاتی ہے ، کلیاں چٹکتی ہیں /…
یہ پر بت ہے …خاموش ساکن /…
یہ صحرا ہے …پھیلاہوا ، خشک ، بے برگ صحرا /…

نہ صحرا نہ پربت ، نہ کوئی گلستاں ، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی ، سمندر میں جاکر ملے گی
گلستاں ہو ، پربت ہو کہ صحرا، تینوں دبیز علامتیں ہیں ۔ ان میں زندگی کے دونوں پہلو موجود ہیں۔ گلستاں میں ہواکا لہلہانا، کلیوں کا چٹکنا ،غنچوں کا مہکنا، پھولوں کا کھلنا …یہ سب زندگی اور بقا کی علامتیں ہیں لیکن انھیں پائداری میسر نہیں ۔بہار کے بعد خزاں کا دور بھی آتاہے ۔پربت کے دامن میں وادی ہے ۔وادی میں ندی ہے ۔ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہے ۔ندی زندگی کی علامت ہے ۔اس کی حرارت میں ناؤ کا بہنا زندگی کا رومان ہے لیکن ناؤ بہتے بہتے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔منظر ، پس منظر میں چلاجاتا ہے ۔حال سے ماضی بننے کا سفر تاریخ کے جبر کو بھی ہویدا کرتا ہے ، اس کے فنتاسی کو بھی اوراس کے اثبات کوبھی ۔صحرا کے بگولوں سے بننے والے عکس مجسم بھی زندگی کی رمق لیے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اک پل کو یہ متشکل ہوتے ہیں اور جیسے ہی طوفان اٹھتا ہے یا تند ہوا چلتی ہے تو عکس ِ مجسم بکھرجاتے ہیں ۔یہ فنا کی منزل ہے ۔یعنی ہر شے فانی ہے ۔تغیر مادّے کی فطرت میں ہے ۔مادہ ایک صورت سے دوسری صورت میں منتقل ہوتا ہے ۔ختم نہیں ہوتا ۔فنا اور بقا ،دونوں مستقل حالت نہیں ہیں ۔ہر بقا کو فنا کے رستے ہوکر گزرناپڑتا ہے ۔بہار کے بعد خزاں ہے لیکن خزاں کے بعد نئی بہار بھی تو ہے ۔ہرشے سمندر سے آئی ،سمندر سے جاکر ملے گی ۔سمندر زندگی کی نہایت عمیق علامت ہے ۔یہ زندگی کا منبع ہے ۔سمندر وقت کی بھی علامت ہے ۔شاعر پر یہ راز کھل چکا ہے کہ ثبات محض تغیر کو ہے ۔ہر شے مدارج ِ انتقال سے گزرتی ہے ۔اس لیے شاعر کی نظر اب نہ صحرا پر ہے ، نہ پربت پر اور نہ کسی گلستاں پر۔شاعر تو پیڑوں کے ایک جھرمٹ پر اپنی نگاہیں جمائے ہوا ہے ۔جھرمٹ جہاں ہر درجے کے پیڑ موجود ہیں۔مختلف رنگ، نسل اور جسامت کے ۔ ایک پیڑ گرتا ہے تو وہیں کوئی نو نہال سر اٹھاتا ہے ۔اجتماع تہذیب کابھی نقش ہے ۔یہاں ہر وحدت ، کثرت کا حصہ ہے ۔جس طرح فرد سماج کااور جس طرح قطرہ سمندر کا حصہ ہے :
نہ صحرا نہ پربت ، نہ کوئی گلستاں ، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی ، سمندر میں جاکر ملے گی
جب شاعر یہ کہتا ہے کہ ’ تو پھر یہ ندا آئینہ ہے ، فقط میں تھکا ہوں ‘ ، تو آئینے کا طلسم ٹوٹتا ہے ۔ نداآئینہ ہے اور آئینہ وجود ۔جسم مرتا ہے ، روح منتقل ہوتی ہے ۔اسی طرح آئینے میں عکس کچھ دیر کو ٹھہرتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے ۔آئینہ قائم رہتا ہے ، چہرے بدل جاتے ہیں ۔
’دن کے روپ میں رات کہانی ‘، ’جاتری ‘، ’محبت‘ ، ’ اونچا مکان ‘ ، ’ عکس کی حرکت ‘ ، ’ شام کو ، راستے پر ‘ ، ’ اُفتاد‘ ، ’ محبوبہ کا سایہ ‘ ، ’ فنا ‘ جیسی دیگر تمام نظمیں ابہام کی جمالیات میں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں:
لیکن یہ رنگ خیالوں کے اب میری نظر میں سایہ ہیں
سب بیتی رات کا جادو ہیں ، سب پچھلے جنم کی مایا ہیں [محبوبہ کا سایہ ]
جس جگہ آکے ازل اور ابد ایک ہوئے تھے دونوں ،
ایک ہی لمحہ بنے تھے مل کر [بعدکی اڑان ]
رات اک بات ہے صدیوں کی ، کئی صدیوں کی [دن کے روپ میں رات کہانی ]
یہ لہریں ہیں ، انھیں نسبت ہے کالی رات کے غمناک دریا سے [سرسراہٹ]
میراجی کی شخصیت اور شاعری دونوں کے ساتھ ابہام کا گہرا رشتہ ہے۔میراجی کی موت پر منٹو نے کہا تھا کہ اگر وہ کچھ دیر سے مرتا تو یقیناً اس کی موت بھی ایک درد ناک ابہام بن جاتی۔منٹو نے میراجی کے ’تین گولے‘ والے خاکے میں لکھا ہے کہ اس کے سارے وجود میں ایک ناقابل ِ بیان ابہام کا زہر پھیل گیاتھاجوایک نقطے سے شروع ہوکرایک دائرے میں تبدیل ہوگیاتھا،اس طور پر کہ اس کاہرنقطہ اس کا نقطۂ آغاز ہے اوروہی نقطہ ، نقطۂ انجام۔

حواشی
(1)Terry Eagleton,How to read a poem,Indian edition 2007,Blackwell Publishing,P:125
(2)شمس الرحمن فاروقی،شعر،غیرشعراورنثر،2005،قومی کونسل براے فروغ اردوزبان،نئی دہلی،ص:96
(3)ایضاً
(4)William Empson, Seven Types Of Ambiguity, 1949,Chatto and Windus,London,P :5-6
245-246،اکادمی بازیافت ، کراچی ،: پاکستان ، ص ص: 2009سلیم احمد، مضامین سلیم احمد، مرتبہ: جمال پانی پتی ، (5)

Majrooh and Progressive Movement by Farooqui

Articles

مجروحؔ سلطان پوری اور ترقی پسند تحریک

شمس الرحمٰن فاروقی

مجروحؔ سلطان پوری اس بات سے متفق نہ ہونگے ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے منسلک ہونے کی وجہ سے انھیں جو شہرت اور عزت ملی اس کی قیمت سے بہت زیادہ قدر و قیمت کے حامل شعر کہہ کر انھوں نے خود ترقی پسند غزل کی توقیر بڑھائی۔بہ الفاظ دیگر مجروحؔ سلطان پوری کی عزت ترقی پسند تحریک کے باعث نہیں بلکہ ترقی پسند تحریک کا اعتبار مجروحؔ جیسے شعراء کے باعث تھا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ ترقی پسند نظریے پر ان کے عقیدئہ راسخہ اور اس کے رہنمائوں سے ان کی عقیدتِ شدیدہ نے اشعار بھی ان سے کہلائے جو ترقی پسند غزل کی بدنامی اور خود ان کے شاعرانہ مرتبے میں تخفیف کا سبب بنے۔یعنی ترقی پسندی سے وفاداری کی بنا پر ان کا نقصان دونوں طرف سے ہوا۔جیل جانا یا نوکری سے برطرفی بھی نقصانات ہیں،(اور مجروحؔ جیل گئے بھی)لیکن یہ نقصانات شعر کی زندگی کے مقابلے میں چند روزہ ہیں۔ترقی پسند صاحبان فیضؔ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے جیل جانے کی بات ضرور کرتے ہیں ،کہ فیضؔ صاحب نے اپنے آدرشوں اور اصولوں کی خاطر قید کی صعوبت بھی اٹھائی۔حالانکہ واقعہ یہ ہے سزا ئے قید نے فیضؔ کی شہرت میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔اچھے شاعر تو وہ بہرحال تھے،لیکن جیل ان کو اور اس طرح ان کی شاعری کو ،ترقی پسندی کا اسطور بنا دیا۔اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ فیضؔ صاحب چاہے جتنے بڑے انقلابی ترقی پسند رہے ہوں ،لیکن شاعری کے معاملے میں خاصے محتاط تھے۔ انھوں نے برہنہ حرف نہ گفتن کے اصول پر بیش از بیش عمل کیا۔مجروحؔ صاحب تو ہٹلر کے چیلوں کو دوڑا کر مارنے اور حسن کو کارخانے میں ڈھال کر اسے موٹر سائیکل(یا شاید سائیکل ) قسم کی چیز قرار دینے کے لیے بدنامی بٹورتے رہے اور ان کے اچھے اشعار دوسروں کے لیے شہرت کے شہپر بنتے رہے۔ غنی کاشمیری؎
یاراں برد نہ شعر مارا ٭ افسوس کہ نام ما نہ بردند
میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجروحؔ کے یہ اشعار میں نے لڑکپن میں شکیلؔ بدایونی کے نام سے سنے تھے ۔عرصہ دراز کے بعد میں نے ان کا مجموعہ(یا انتخاب) دیکھا تو حقیقت آشکار ہوئی۔؎
یہ رکے رکے سے آنسو یہ دبی دبی سی آہیں
یوں ہی کب تلک خدایا غمِ زندگی نباہیں

کبھی جادئہ طلب سے جو پھرہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں باہیں
یہ شعر بہت اعلی پائے کے نہیں ہیں(ان دنوں البتہ بہت اچھے لگتے تھے اور اتنے برس بعد آج بھی یاد ہیں) لیکن ان کا لہجہ بہر حال جگرؔ ،فراقؔ اور حسرتؔ موہانی کی غزل سے بہت مختلف ہے۔ان دنوں ہم لوگ بھی کچھ پڑھے لکھے نہ تھے ،افسوس تو ان پڑ ھے لکھوںپر ہوتا ہے جنھوں نے ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
جیسے اشعار کا سہرا فیضؔ کے سر باندھ دیا اور یہ بھی نہ دیکھا کہ ان شعروں کا آہنگ اور کیفیت فیضؔ کے رنگ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔اس طرہ یہ کہ مجروحؔ کی طرف سے احتجاج ہوا تو تو لوگ خفا ہوئے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی،شعر تو مشہور ہوگئے کسی بھی نام سے سہی۔مجروحؔ نے اپنے بارے میں خوب کہا ہے کہ’’چپ رہوں تو معضوب اور بولوں تو مغضوب ہوں‘‘۔
اسی طرح میں اس بات کا بھی گواہ ہو کہ میری عمر کے لوگوں نے مجروحؔ سلطان پوری کو ترقی پسند تحریک کے حوالے سے نہیں ،جگرؔ صاحب کے بھی حوالے سے نہیں ،محض شاعری کے حوالے سے جانا۔’’ گائے جا پپیہے گائے جا‘‘بڑی شاعری نہ سہی لیکن اس نظم میں ہم نوبارگانِ شعر کو لطف آتا تھا وہ جوش کے گاڑھے لہجے اور احسان دانش(ان دنوں احسان بن دانش) کے مزدور کی بیٹی میں نہ تھا۔اور جب فیضؔ کا نام میرے کانوں میں پڑا ،اور احتشام حسین کا تعریفی ذکر میں نے اپنے والد مرحوم سے سنا(یہ بات ۱۹۴۸ء کی ہے) تو اس سے مجروحؔ کی جگہ میرے دل میں کم نہ ہوئی ۔ لیکن وہ اس قدر کم گو اور کم نما تھے کہ فیضؔ، سردار جعفری،جذبیؔ اور دوسرے ترقی پسند شعراء کے غلبے میں گھرے ہوئے مجروحؔ ہم نوجوانوں کو بہت کم نظر آتے تھے۔میرؔ کا شعر یاد آیا؎
وہ کم نما ء دل ہے شائق کمال اس کا
جو کوئی اس کو چاہے ظاہر ہے حال اس کا
یہاں یہ بات بھی ظاہر کردوں کہ ترقی پسندوں میں سردار جعفری میرؔ شناسی کے لیے مشہور ہیں اور بجا مشہور ہیں۔ لیکن مجروحؔ سلطان پوری کو بھی میرؔ سے سچا اور گیرا شغف ہے اور وہ میرؔ کا کلام سمجھتے بھی خوب ہیں۔میرؔ کو جذب کیے بغیر مجروحؔ سلطان پوری اس طرح کے شعر نہیں کہہ سکتے تھے۔؎
وہ تو گیا یہ دیدئہ خوں بار دیکھئے
دامن پہ رنگِ پیرہنِ یار دیکھئے
اسیرِ بندِ زمانہ ہوں صاحبانِ چمن
مری طرف سے گلوں کو بہت دعاء کہئے
خنجر کی طرح بوئے سمن تیز بہت ہے
موسم کی ہوا اب کے جنوں خیز بہت ہے
اپنی اپنی ہمت ہے اپنا اپنا دل مجروحؔ
زندگی بھی ارزاں ہے موت بھی فراواں ہے
مجرحؔ کی بہترین غزلوں میں کلاسیکی غزل کی تمکنت اور آہنگ کی بلندی ہے۔آہنگ کی بلندی سے میری مراد خطابانہ یا وعظانہ انداز نہیں،بلکہ زبان کی وہ موسیقیاتی صفت ہے تجریدی سطح پر جس کی مثال روی شنکر کے ستار یا فیاض خاں کی آواز کے جوار بھاٹے اور گونج میں دیکھی جا سکتی ہے۔
آہی جائے گی سحر مطلع امکاں تو کھلا
نہ سہی باب قفس روزن ِزنداں تو کھلا
سیلِ رنگ آہی رہے گا مگراے کشت چمن
ضرب موسم تو پڑی بند بہاراں تو کھلا
دل تلک پہنچے نہ پہنچے مگر اے چشم حیات
بعد مدّت کے ترا پنجہ مژگاں تو کھلا
پھر آئی فصل کہ مانند برگ آوارہ
ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے
اس پر باقر ہروی کا شعر یاد آگیا؎
برگ گل رابہ کف باد صبامی بینم
باغ ہم جانب اونامہ بر سے پیدا کرو
فرق یہ ہے کہ باقر ہروی کے شعر میں معشوق کے نام نامہ و پیام کا ذکر ہے۔اور مجروح سلطان پوری خود بہار ِباغ کے مکتوبِ الیہ ہیں۔ایک اگر معشوق میں گم ہے تو دوسرا اپنے نصب العین کو اپنا عشق گردانتا ہے اور اس کا معشوق خود اسے آواز دیتا ہے،جیسا کہ اسی غزل کے ایک شعر میں ہے؎
ہمارے لب نہ سہی وہ دہان زخم سہی
وہیں پہنچتی ہے یاروں کہیں سے بات چلے
کلاسیکی آہنگ کی ایک مثال میں چند شعر اور دیکھئے؎
ہوئے ہیں قافلے ظلمت کی وادیوں میں رواں
چراغ راہ کئے خوں چکاں جبینوں کو
نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہروانِ حیات
یہ قافلے تو نہ جانے کہاں قیام کریں
پارئہ دل ہے وطن کی سر زمیں مشکل یہ ہے
شہر کو ویراں کہیں یا دل کو ویرانہ کہیں
یہ کہنا مشکل ہے کہ مجروح ؔ نے خود کو بعض مضامین وافکار کا پابند نہ کر لیا ہوتا تو ان کی غزل کن راہوں اور وادیوں میں گامزن ہوتی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے ان کی شاعری میں کاروبار حیات اور معاملات جہد وعمل کے بارے میں ایک شدت شعور ،ایک فوری پن، اور خارج کی زندگی کے بارے میں سریع التاثیری ضرورپیدا کی۔ان کے یہاں ایک ولولہ کچھ کر جانے کے لئے تیاری اور جوش ،اور زندگی کی خاطر موت کے لطف اندوز ہونے کاجو تاثر نظر آتا ہے وہ انھیں تمام معاصرغزل گویوں میں ممتاز کرتا ہے؎
جگائیں ہم سفروں کو اٹھائیں پرچم شوق
نہ کب ہو سحر کون انتظار کرے
سیر ساحل کرچکے اے موج ساحل سر نہ مار
تجھ سے کیا بہلیں گے طوفان کے بہلائے ہوئے
کچھ زخم ہی کھائیں چلو کچھ گل ہی کھلائیں
ہر چند بہاراں کا یہ موسم تو نہیں ہے
اکتا کے ہم نے توڑ دی زنجیر نام وتنگ
اب تک فضا میں ہے وہی جھنکار دیکھئے
یہ سب اشعار درست ہیں،ان میں ’’پیغام‘‘کا عنصر الگ سے نہیں لایا گیا،بلکہ شعر میں مل گیا ہے۔ ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ ان پر کوئی سیل نہیں لگ سکتا ۔سرور صاحب نے یگانہ کے بارے میں عمدہ بات کہی تھی کہ ان کے یہاں اکڑ تو ہے ،لیکن فرحت نہیں ۔مجروحؔ کے مندرجہ بالا اشعار کی عدم ا لنفالیت اورماحول سے لوہا لینے کی ادا ایک حد تک یگانہ کی یاد تو دلاتی ہے ،لیکن ان اشعار میں غزل کی زبان از خود بول رہی ہے ،یگانہ کی طرح تکلف کا احسا نہیں ہوتا ۔اور یہ بھی ہے کہ ان اشعار کو یا ان کی طرح کے اور اشعار کو معنی سے آزاد کرکے صرف کیفیت کے بل بوتے پر نہیں پڑھا اور قبول کیا جاسکتا ۔یہ اشعار کسی نہ کسی طرح کی دعوت فکر ضرور دیتے ہیں۔
مجروح ؔکا کلام بہت تھوڑا ہے،لیکن ابھی اس کے بارے میں اور بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ مجروح نے اتنا کم کیوں کہا؟ان کا پہلا مجموعہ ’’غزل ‘‘مشکل سے پچھتر اسّی صفحات کا تھا۔نیا مجموعہ جس میں ’’غزل‘‘کا خاصا حصّہ شامل ہے،اس سے کچھ ہی بڑا ہے۔ایک اردو ایک فارسی نظم کی شمولیت نے ’’مشعل جاں‘‘ کو ’’غزل‘‘کے مقابلے میں کچھ زیادہ تنوع عطا کردیاہے۔دونوں نظمیں بہت عمدہ اور مجروح ؔکے عام کلاسیکی رنگ میں رچی ہوتی ہیں۔لیکن یہ سارا سرمایہ پچاس پچپن برس کی مشق سخن کے سامنے کچھ نہیں معلوم ہوتا ۔مجروحؔ کی کم سخنی جدیدادب کالاینحل معما ہے۔توقع تھی کہ زیر نظر کتاب میں اس معمے کا حل نہیں تو اس پر کچھ روشنی ضرور ہوگی،لیکن یہ توقع پوری نہیں ہوتی ۔مجروحؔ اور ان کے چا ہنے والوںاپنا وطن خاص کرکے نقادوں سے سردمہری کا شکوہ ہے۔اور یہ شکوہ کچھ الجھا بے جا بھی نہیں لیکن یہ بات بھی خیال میں رکھنے کی ہے مجروح نے کہا کس قدر کم ہے۔اب ایسی کثرت بھی نہ چاہتے جیسی ہم ان دنوں بعض لوگوں کے یہاں دیکھتے ہیں اور جس کا نقصان مصحفیؔنے اٹھایا۔میرؔ نے تو کثرت سے زیادہ کثر ت کی شہرت کے با عثِ نقصان اٹھایا ،ورنہ ان کا تمام کلیات مع مثنویات ومراثی مصحفیؔ کے اول تین دیوان سے بہت زیادہ نہیں ۔کثرت کلام سے زیادہ قلت کلام نقصان دیتی ہے۔مجروحؔ نے گزشتہ تیس برسوں میں دو غزلوں کا بھی اوسط نہ رکھا۔غالبؔ کو تو جنت کے خیال سے وحشت ہوتی تھی کہ تا ابد وہی ایک حور ساتھ رہیگی تو زندگی اجیرن ہوجائے گی ۔اردو غزل کا قاری ہزار ہابرس سہی ،لیکن وہ ان دس پندرہ غزلوں میںکیا کھئے اور کیا پس انداز کرے؟مولانا روم نے مثنوی کے چھ ضخیم دفتر کہہ لینے کے بعد ساتواں مجوزہ دفتر نہ لکھا ۔لیکن مولانا اس وقت تک چھبیس ہزار شعر وں کی شاہکار مثنوی اور کم سے کم تیس ہزار شعر کا دیوانِ غزلیات اور سیکڑوں رعبایاں کہہ چکے تھے۔اور یہ سب اس پائے کا کہ اتنا ضخیم و حجیم کلام بھی سراپا انتخاب ہی کہا جائے گا۔’’مشعلِ جاں‘‘ میں شامل فارسی مثنوی میں قوتِ کلام کا اظہار صاف پتہ دیتا ہے کہ بستہ شد دیگر نہ می آید بروں کا معاملہ یہاں نہیں ہے۔اور نہ ابھی ان بدلے ہوئے زندگانی کو پھاند کر سیرآں سوئے تماشا کا وقت آیا ہے۔کارلائل کے بارے میں سنا ہے کہ جب اس نے اپنی ’انقلابِ فرانس‘ مکمل کی تو آب دیدہ ہوگیا کہ اس کے آگے کیا لکھوں۔ چارلس ڈکنس نے انقلاب فرانس کے بارے میں اپنے ناول ’’دو شہروں کا ایک قصہ‘‘ کے بارے میں مبالغہ آمیز مگر مبنی برحقیقت دعوی کیا کہ میں نے اپنا ناول لکھنے کے پہلے کارلائل کی کتاب پانچ ہزار مرتبہ پڑھی تھی۔مگر مجروحؔ کی غزل میں اتنی کیفیت نہیں کہ وہ اتنے مسلسل اور مکرر مطالعے کی متحمل ہو سکے۔ان پر زمانے کا یہ حق بہرحال ہے کہ ان کے گنجِ ہائے رنگا رنگ سے مزید مستفیض ہو۔
٭٭٭

Black and White by Tahir Anjum Siddiqui

Articles

بلیک اینڈ وائٹ

طاہر انجم صدیقی