Guldasta E Payam E Yar by Prof. Saheb Ali

Articles

گلدستہ پیامِ یار

پروفیسر صاحب علی

Assurance A Short Story by Waseem Aqeel Shah

Articles

آشواسن

وسیم عقیل شاہ

        اس کے پاؤں میں پڑے چھالے پھوٹنے لگے تھے، جن سے رسنے والا پانی پسینے سے مل کر شدید جلن پیدا کر رہا تھا ۔ اس پر دھوپ کی تمازت اسے الگ بے حال کیے ہوئے تھی ۔ اب ایک قدم بھی آگے بڑھانا اس کے لیے محال تھا، لیکن اس کا عزم ہی تھا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جلوس کے ساتھ ساتھ لیے چل رہا تھا۔
         سفر کی سرد وگرم صعبتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتا ہوا، لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں لیتا ہوا ہزاروں کسانوں کا یہ جلوس سیکڑوں میل پیدل مارچ کرتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ وشوا بھی اپنی پگڑی میں امیدیں باندھے اس جلوس میں شامل ہوا تھا۔اسے بھی آس تھی کہ اب کے حکومت کی حس ضرور جاگے گی اور جلد ہی کسانوں کے مطالبات پورے کر دیے جائیں گے۔ اسی لیے وہ اس طویل سفر میں درپیش ہر تکلیف کو اپنے خوابوں کی خوش آئند تعبیر کے بدلے برداشت کرتا ہوا چل رہا تھا۔ اور مسلسل چل رہا تھا ۔ راستے میں لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر اس کے رگ و پے میں مسرت کی لہر دوڑ جا تی اور اس کے قدم خود بخود تیز ہونے لگتے ، اتنے تیز کہ وہ عَلم اٹھائے، پیش پیش رہنے والے جلوس کے پرجوش نوجوانوں سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کرتا ۔ یہ امیدیں ہی اس کے حوصلے اور راحت کا سبب بن رہی تھیں، وگرنہ اپنی بے فیض زندگی سے وہ گویا بجھ سا گیا تھا۔
         اسے اپنی بیوی شکنتلا کے بے موت مرنے کا شدت سے احساس تھا۔ اگر پچھلے برس فصل کی قیمت اس کی محنت کے برابر آئی ہوتی تو وہ اس کا علاج صحیح ڈھنگ سے کرواتا اور شاید وہ بچ بھی جاتی! مگر بیماری کے بعد وہ جی ہی کتنا! نہ اس کے پاس وقت تھا نہ وشوا کے پاس کہ وہ پھر سے قرض کے لیے دوڑ بھاگ کرتا ۔ حالانکہ اس کے ناتواں کاندھوں پر پہلے ہی قرض کا اتنا بوجھ تھا کہ وہ اگلا قرض لینے کا کسی بھی طرح سے اہل نہیں تھا ۔ تب بھی اگر کوئی بینک یا ادارہ ترس کھا کر اسے قرض دیتا بھی تو ضابطے کی کاروائی پوری کرنے تک شکنتلا کے پاس وقت کتنا تھا ۔۔۔ ! اسے لگتا تھا کہ شکنتلا، سندھیا ہی کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی اور مری بھی شاید اسے ہی دیکھ دیکھ کر ۔ آخر وقت میں سندھیا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جو حسرت آمیز کیفیت تھی اسے یاد کر کے وشوا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔
         سندھیا۔۔۔! اس کی سگھڑ بیٹی۔۔۔ سچ مچ وشوا کو پتا ہی نہ چلا کہ کھیتوں کی بالیوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر اسے ستانے والی اس کی معصوم گڑیا کا بچپن، کب اور کس اوٹ کے پیچھے چھپ گیا! مگر اب جب کہ سندھیا پچیس کے اوپر ہوچلی تھی تو اس کے بڑھتے سن کا ایک ایک دن وشوا پر بھاری گزر رہا تھا۔
         بھلا ہو ان نیتاؤں کا جنہوں نے کسانوں کو جاگرت کیا اور انہی کے حق میں ریاستی سطح پر ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا ۔تاکہ سرکار اور اس کے کارندوں کو کسانوں کے مسائل سے آگاہ کرایا جاسکے ـ سندھیا کو لیکر وشوا نے اپنی ساری امیدیں اور آشائیں اسی جلوس سے باندھ لی تھیں۔ اب تو اسے گویا یقین ہوچلا تھا کہ حکومت ان کا ساتھ دے گی اور فصل کے صحیح داموں میں خریدو فروخت کا قانون بنے گا، جس کی بنا پر اب کی بار اس کی تیار فصل کے دام مناسب آئیں گے ۔ اور رہی بات قرض کی تو وہ سرکار سے پر امید تھا کہ یقیناً اس کا قرض معاف کر دیا جائے گا یا اطمنان کی حد تک اس میں کمی کر دی جائے ۔ اس نے ایک موٹا موٹا حساب جوڑ کر یہ بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلے چھ، آٹھ مہینوں میں اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے سندھیا کے جہیز اور لگن کا ٹھیک ٹھاک بندوبست ہوجائے گا۔ اسی لیے جلوس میں شامل ہونے سے ہفتہ بھر پہلے ہی وہ گاؤں کے رشتہ لگانے والے ’کرتا‘ سے ملا تھا او ر اسے پیشگی ہزار روپیے دے کر سندھیا کے لیے اچھا سا لڑکا ڈھونڈنے کی منتیں کی تھیں ۔
         پانچ دنوں کے طویل سفر کے بعدجلوس اپنے مقام پر پہنچا۔ رات کومنتظمین اور کچھ فلاحی اداروں کی جانب سے جھنکا بھاکر کھانے کی دوسری اشیا تقسیم کی گئیں۔ اسے زہر مارکر کے سبھی تھکے ہارے کسانوں نے سوتے جاگتے رات گزار لی۔صبح کو جلوس کے اہم لیڈروں نے منتریوں اور سرکاری نمائندوں سے تین گھنٹے کی طویل میٹنگ کی ،پھر جب باہر آئے تو یہ بھاشن دیا۔
          ” دیش واسیوں کے لیے اَناج پیدا کرنے والے ہر ایک کسان کا مسئلہ اس کا اپنا ذاتی نہیں بلکہ پورے دیش کا مسئلہ ہے ۔ سرکار مانتی ہے کہ سبھی کسانوں کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان میں ہر ایک کی ذمہ داریاں مختلف ہیں ۔ لہذا اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار نے کسانوں کی آدھی سے زیادہ مانگوں کو قبول کر لیا ہے اورآشواسن دیا کہ اگلے چھ مہینوں بعد ان پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ بقیہ مانگوں پر غور کرنے کے لیے ایک سال کی مدت لی ہے تاکہ ان مانگوں پر ہرپہلو سے غور کیا جاسکے ”۔
         سرکاری فیصلے سے ہجوم پر کہیں خوشی تو کہیں غم کی لہر دوڑ گئی۔ بیشتر کسانوں کے مطابق اس فیصلے میں سوائے واپسی کے لیے سفری انتظامات کرنے کے، ہر ایک مدعا آشواسن تھا۔ اور آشواسن کا لفظ خاص کر کسانوں کے لیے کبھی بھی نیا نہیں رہا بلکہ آشواسن کے معنی ان کے نزدیک صرف انتظار۔۔۔۔انتظار۔۔۔ اور انتظار کے سوا کچھ نہیں تھا ۔
          فیصلہ سنتے ہی وشوا کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اوربدن پر لرزا طاری ہوگیا۔وہ سر تھامے کپکپاتے پیروں سے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔پتا نہیں وہ کتنی دیر اسی کیفیت میں بیٹھا رہاکہ اچانک اس نے اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ سامنے ایک شخص کھڑا تھا،اس کی شکل کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی ۔وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔
         ’’ارے وشوا ،کیا تو نے مجھے پہچانا نہیں میں کیشو ہوں کیشو ‘‘۔
کیشو کا نام سن کر اس کی آنکھوں میں شناسائی اتر آئی اور دونو ں دوست بغل گیر ہوگئے۔
        کیشو نے بتایا کہ وہ بارہ پندرہ برسوں سے دور کے ایک گاؤں میں اپنے سسرال کی زمین پر کاشت کار رہا ہے اور اب وہیں بس گیا۔ پھر اس نے وشوا کے اترے ہوئے چہرے پر نظریں جما کر پوچھا :
         ’’تیرا کیا حال ہے؟‘‘
         وشوا نے افسردگی سے اپنی بیوی کی موت کی خبر سنائی۔سن کر کیشو نے بڑا افسوس ظاہر کیااور کچھ توقف کے بعد پوچھا :
          ’’تیری ایک بٹیا بھی ہے نا؟کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔؟
          ’’سندھیا ‘‘۔
           وشوا نے جواب دیا:
          ’’ہاں ،سندھیا۔۔۔اب تو شادی ہوگئی ہوگی اس کی ۔۔؟‘‘
          وشوا نے مایوسی سے گردن ہلائی اور دھیمی آواز میں کہا:
           ’’ اسی کی فکر ستارہی ہے مجھے‘‘۔
           وشوا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے بارے میں اسے کچھ بتائے مگرکیشوکی ضد کے آگے وہ مجبور ہوگیا ۔
           کیشو نے پوری بات سن کر اسے غور سے دیکھا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوا:
          ’’وشوا، چنتا مت کر سب ٹھیک ہوجائے گا ‘‘۔
          ’’نہیں رے کیشو تو نہیں جانتا مجھے اپنی کھیتی سے زیادہ سندھیاکی فکر ہے اور تو تو جانتا ہے آج کل لڑکے والے ’ہنڈا ‘ (روپیوں کی شکل میں دیا جانے والا جہیز) لیے بغیر کہاں راضی ہوتے ہیں ۔ تبھی پیچھے سے ایک نوجوان نے کیشو کو آواز دی۔
         “چلو بابا دیری ہو رہی ہے ،کہیں بس نہ نکل جائے‘ ‘۔
         کیشو نے دیکھا ایک اچھے قد و قامت کا نوجوان کیشو سے مخاطب ہو ا اور پلٹ کر پاس ہی کھڑے اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا ۔
          ’’وشال ہے نا۔۔۔؟ کتنا بڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔!‘‘
           کیشو نے دیکھا وشوا کی نظریں وشال کا تعاقب کر رہی ہیں ۔اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی ۔
         ’’ہاں، میرا بیٹا ۔۔۔۔۔۔وشال۔۔۔۔ ‘‘اسی برس شادی کرنے جا رہا ہوں اس کی ‘‘۔
          وشوانے تجسس سے پوچھا :
          ’’لڑکی دیکھی ؟ ‘‘
         ’’ہاں دیکھی تھی ،پندرہ برس پہلے ۔۔۔۔۔‘‘
         کیشو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
         اس پر وشوا نے حیرت سے پوچھا:
         ’’پندرہ برس پہلے۔۔۔۔ کہاں دیکھی تھی ؟‘‘
          ’’تیرے گھر میں ‘‘۔
           وشوا حیرت و مسرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کیشو کا منہ تکنے لگا۔
         ’’اب منہ کیا دیکھتا ہے جلدی سے اپنے گاؤں کی بس پکڑ اور چنتا چھوڑ میں جلدہی تیری وہینی کو لے کر سندھیا کا ہاتھ مانگنے تیرے گھر آؤں گا ۔ ‘‘
         مائک سے مسلسل آنے والی آوازیں اب بند ہوچکی تھیں البتہ دس دس منٹ بعد ہدایتی پیغام ضرور آ رہے تھے ۔ میدان دھیرے دھیرے خالی ہو نے لگا تھا ۔ جلوس میں شامل کسان جوق در جوق ریلوے اسٹیشن اور بس اڈے کی طرف چلے جا رہے تھے ۔
         کیشو کی باتوں سے وشوا کی ڈھارس بندھی ۔وہ بس میں سوار ہوا اور جگہ بنا کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی تو کھڑی سے آتی ہوا سے وشوا کو راحت کا احساس ہوا اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاکر آنکھیں بند کر لیں اور کیشو کے بارے میں سوچنے لگا ۔ کتنا بھلا آدمی ہے کیشو ،پرانی دوستی کا مان رکھ لیا اور میری اتنی بڑی پریشانی دور کردی۔وہ اس دن کا تصور کرنے لگا جس کا آشواسن کیشو نے دیا تھاکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سندھیا کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر آئے گا اور وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔اچانک ایک منحوس سا خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا کہ کہیں کیشو کا آشواسن بھی سرکاری آشواسن کی طرح صرف انتظار۔۔۔۔۔ انتظاراور انتظار ہی نہ ر ہ جائے !!!
——————————————————————–

Shaur E Arooz by

Articles

شعورِ عروض

شعورِ

My Journey by Salambin Razaaq

Articles

میرا تخلیقی سفر

سلام بن رزاق

کسی مفکر کا قول ہے ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ۔‘‘ اس قول میں ذرا سی ترمیم کر دی جائے تو ایک ادیب کی حیثیت سے میرا معروضہ یہی ہوگا کہ ’’میں لکھتا ہوں اس لیے میں ہوں ۔‘‘ مفکر کی سوچ اس کی زندگی کی دلیل ہے تو ایک ادیب کی تحریر اس کے وجود کی شہادت ہے ۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم کیوں لکھتے ہو ؟ تو شاید میں اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ میں ایک چینی کہاوت ضرور سنانا چاہوں گا۔ ’’پرندے اس لیے نہیں گاتے کہ ان کے پاس گانے کا کوئی جواز ہے ۔ پرندے اس لیے گاتے ہیں کہ ان کے پاس گیت ہیں ‘‘ میں اس لیے لکھتا کہ میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ ہے ۔
اگرچہ لکھنا ایک شعوری عمل ہے مگر لکھنے کی خواہش ادیب کے لاشعور کی گہرائیوں میں پرورش پاتی رہتی ہے ۔ جو مناسب وقت پر الفاظ کا جامہ پہن کر صفحۂ قرطاس پر نموپذیر ہوتی ہے ، بسا اوقات ہمیں خود پتہ نہیں چلتا کہ ہم نے کب اور کیوں لکھنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے میں ابھی چھوٹا تھا ، تیرنا نہیں جانتا تھا مگر تالاب کے کنارے بیٹھ کر دوسرے بچوں کو تیرے ہوئے دیکھنے میں مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔ پتہ نہیں ایک دن اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے دھکا دے دیا۔ میں پانی میں گرکر کا غوطے کھانے لگا مگر ڈوبنے سے بچنے کے لیے غیر ارادی طور پر ہاتھ پائوں بھی چلاتا رہا بالآخر جوں توں کنارے پر آلگا مگر اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مجھ میں حیرت انگیز طور پر تبدیلی آگئی ہے۔ میرے دل سے گہرے پانیوں کا خوف جاتا رہا اور میں بھی رفتہ رفتہ دوسرے بچوں کے ساتھ تیرنے لگ گیا۔ میرے لکھنے کی ابتدا بھی کچھ اس طرح ہوئی ۔ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، داستانِ امیر حمزہ، الف لیلیٰ ، طوطا مینا، حاتم طائی ، باغ و بہار ، تاریخ اسلام ، صادق حسین سردھنوی، مولانا عبدالحلیم شرر اور نسیم حجازی کے تاریخی ناول ، ابن صفی کے جاسوسی ناول اور جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں چلا کہ پڑھتے پڑھتے کب لکھنا شروع کردیا ۔ اب غور کرتا ہوں کہ وہ کون تھا جس نے مجھے پانی میں دھکا دیا تھاتو لگتا ہے کہ وہ کوئی اور نہیں شاید میرا ہی ہمزاد تھا۔
اول اول قلم چلانا شوق تھا رفتہ رفتہ جی کا روگ بن گیا اور اب تو تاحیات اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ جس شوق کو کچی عمر میں ہنسی کھیل میں شروع کیا تھا، اب وہ لاعلاج مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور صورت یہ ہے کہ اگر میں قلم کو چھوڑنا بھی چاہوں تو قلم مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں ۔اکثر کوئی خیال کوئی سوال ، کوئی واقعہ ، کوئی کردار اچانک میرے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور کسی بیتال کی طرح میرا تعاقب کرتا ہے ۔ تب میں حتی الامکان اس سے دامن بچاتا ہوں ، آنکھیں چراتا ہوں ، بھاگنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا تاوقتیکہ میں اسے کسی موکل کی طرح اپنے قابو میں کرکے الفاظ کی بوتل میں بند نہیں کر دیتا۔
جب لکھنا شروع کیا تو چھپنے کا شوق پید ا ہونا بھی لازمی تھا۔ لہٰذا چھوٹے بڑے رسائل اور جرائد کے کشت زاروں میں قلم کا ہل چلایا ، الفاظ کی کاشت کی اور دادوتحسین کی فصل کاٹی۔ یوں تو میں ہلکے پھلکے تنقیدی مضامین ، تبصرے ،ڈرامے ،بچوں کے مضامین اور کہانیاں تراجم ، ریڈیو فیچر ، ٹیلی فلمیں اور فیچرفلمیں بقدر ظرف ہر صنف میں طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں مگر ایک قلمکار کی حیثیت سے افسانہ لکھ کر مجھے روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے اور اسے اگر کسی چیز کے مماثل قرار دوں تو وہ کم و بیش مہاتما بدھ کے نروان والی کیفیت سی ہو سکتی ہے ۔ مجھ سے ایک انٹرویوں میں پوچھاگیاتھا۔’’آپ کس حیثیت سے یاد کیا جانا پسند کریں گے؟‘‘ میں نے بلا تامل جواب دیا۔ ’’افسانہ نگار کی حیثیت سے ۔‘‘ اگر چہ میں جانتا ہوں فی زمانہ لکھنا اوروہ بھی افسانہ تضیع اوقات ہے ۔ تاہم اس کو کیا کیا جائے کہ بعض طبیعتیں خسارے کے سودے میں ہی تسکین پاتی ہیں ۔ ایسے موقع پر غالب کا یہ مصرعہ بڑی تسلی دیتا ہے :
ع عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
آج سے پچیس تیس برس پہلے معاشرے میں ادب کی اہمیت اور ضرورت ایک مسلمہ حقیقت تھی ۔ ادب ہمارے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سب سے بڑا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج معاشرے کا منظر نامہ بدل چکا ہے آج ہمارا معاشرہ ایک ہولناک صورتِ حال سے گزررہا ہے اور ایک تشویش ناک مستقبل ہمارا منتظر ہے اقدار پارہ پارہ ہوچکی ہیں ۔ جو اصول صبح بنائے جاتے ہیں شام میں شکستہ پیمانوں کی طرح پاش پاش ہوجاتے ہیں ۔ تہذیبیں دم توڑ رہی ہیں ۔ خدا کی موت کا اعلان تو بہت پہلے کیا جا چکا تھا اب خود انسانیت معرض خطرمیں پڑ چکی ہے ۔ اس ہیجان اور انتشار کے دور میں پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کے معاشرے کو افسانے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں ۔۔۔۔۔ ذرائع ابلاغ نے ایک عام قاری کے ذوق کو اس قدر پامال کردیا ہے کہ صرف افسانہ ہی نہیں پوراادب اس کے نزدیک ایک شوق فضول کے سوا کچھ نہیں ۔ بہر حال صورت ِ حال جو بھی ہو میں اتنا جانتا ہوں کہ معاشرے کی ضرورت ہو یا نا ہوں مگر افسانہ میری ضرورت ہے یقینا ہے ۔ میں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی ‘‘میں بطور دیباچہ لکھا تھا :
انسانی قدروں کی بساط مضحکہ خیز طور پر الٹ گئی ہے وزیر شاہ پر سوار ہو گیا ہے ۔ ہاتھی گھوڑے کہیں کے کہیں جا پڑے ہیں اور پیادے چاروں خانے چت ہیں اس بکھری بازی کو دوبارہ کون جمائے ؟ کوئی نہیں جانتا بازی کہاں سے چلی تھی کہاں تک پہنچی ؟ مگر تعجب ہے کہ لوگ بازی پھر بھی کھیلے جارہے ہیں ۔ پر اب کوئی ضابطہ ہے نہ اصول ۔ ساری بازی کسی پاگل کی سنک کی طرح چل رہی ہے۔‘‘ اس دیباچے کو لکھے اٹھائیس برس گزر گئے ۔ آج اٹھائیس برس بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں بلکہ صورت حال زیادہ پیچیدہ اور بھیانک ہو گئی ہے ۔میرے پائوں ننگے ہیں اور سر پر دھوپ کی چادر تنی ہوئی ہے ، تلوئوں میں چھالے پڑے ہیں اور راستہ پر خار ہے ۔
پیچھے مڑکر دیکھنے کا سوال ہی نہیں ۔ اگر میں نے ایسا کیا تو کسی جادو کے زور سے پتھر کا ہوجائوں گا ۔ اس خوف سے میں چلتا جا رہاہوں ۔ متواتر چل رہا ہوں ۔ میر اسفر جاری ہے ، میں اس سفر میں لمحہ لمحہ ٹوٹتا ہوں ، ریزہ ریزہ بکھرتا ہوں ۔ افسانہ لکھنا میرے نزدیک اپنے اسی کرچی کرچی وجود کو سمیٹنے کا نام ہے جس کے وسیلے سے میں اپنے آپ کو ماحول کی جبریت سے آزاد کرتا رہتا ہوں ۔ میرا افسانہ دراصل میری نجات کاذریعہ ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ افسانہ لکھنا کوئی خوشگوار عمل نہیں ہے ۔ بقول راجندرسنگھ بیدی یہ کام ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کی کھال کھینچ کر اسے ننگے بدن نمک کی کان سے گزارا جائے ۔ مگر کیا کیا جائے کہ تخلیق کار کو اسی میں راحت ملتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ سیپی کے سینے میں جب کوئی کنکر گڑ جاتا ہے تو وہ اس کے اندر ٹیس پیداکرنے لگتا ہے ۔ سیپی اس رِڑک کو کم کرنے کے لیے اپنے اندر ایک قسم کا لعاب پیدا کرتی ہے اور لعاب کو اس پھنسے ہوئے ذرے کے گرد لپیٹتی رہتی ہے کنکر پر لعاب کی تہہ جمتی رہتی ہے ۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کنکر لعاب سے مل کر موتی بن جاتا ہے افسانہ لکھنا بھی دراصل اپنے اندر پھنسے کسی خیال کی رِڑک سے نجات پانے کا عمل ہے ۔ یہ خیال ہی کی رِڑک ہے جو افسانہ نگار کے جگر میں گڑتے گڑتے بالآخر افسانے کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ میں اپنے افسانوں کے حوالے سے زندگی کو انگیز کرتا ہوں اور زندگی کے حوالے سے اپنے افسانوں میں رنگ بھرتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض افسانہ نگار ،عظیم موضوعات کی تلاش میں بہت دور نکل جاتے ہیں اس قدر دور کہ بسا اوقات اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں جب کہ آنکھیں کھلی اور ذہن بیدار ہوتو ہر واقعہ ایک کہانی اور ہر فرد ایک کردار ہے ۔ میں اپنی ذات کے آئینے میں اپنے اطراف کے لوگوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتا ہوں ۔ میرے بیشترافسانوں کے کردار خود میری ذات سے کچھ اس طرح برآمد ہوئے ہیں کہ انھیں یوں اچانک دیکھ کر میں حیران رہ گیا ہوں ۔ ان کی محبتیں ، ان کی نفرتیں ان کی شرافت ، ان کی کمینگی ، ان کی سر کشی ، ان کی بزدلی ، ان کے سکھ دکھ ، غم و غصہ ، سختی و نرمی سب میرے ہی جذبہ و احساس کے مختلف عکس ہیں۔ اگر فلائبیر، مادام بواری ہے ، منٹو کا لی شلوار کا دلال ہے تو پھر میں واسوہوں ، ننگی دوپہر کا سپاہی ہوں ، بجوکاکی شالوہوں ، خصی کا پر س رام ہوں ، کام دھینوکا مادھوہوں ۔ انجام کار کا راوی ہوں ۔
میں ایک عام آدمی کا افسانہ نگار ہوں کیوں کہ میرے اردگرد ایسے ہی لوگ بستے ہیں ۔ مظلوم ، مجبور،محروم اور ناآسودہ ۔ مگر خاطر نشان رہے کہ یہ عام آدمی نہیں ہیں ۔ میرے کردار وہ سخت جان افراد ہیں جو دن بھر میں بیسیوں دفعہ ٹوٹتے ہیں ، ٹوٹ کر بکھرتے ہیں مگر دوسری صبح اپنے بستر سے صحیح و سالم اٹھتے ہیں۔ وہ روز شکست کھاتے ہیں مگر زندگی جینے کا حوصلہ نہیں ہارتے۔ میرا افسانہ نعرہ نہیں چیخ ہے ۔ بسا اوقات ایسی چیخ جو سینے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے ۔ ان کی بے کسی اور بے چارگی دیکھ کر مجھے پکاسو کی عالمی شہرت یافتہ تصویر ، گویرنیکا ، کے اس گھوڑے کی یاد آتی ہے جو جاں کنی کے عالم میں چیخ رہا ہے ۔ اُس کی دلخراش چیخ کو بظاہر ہم اپنے کانوں سے سن نہیں پاتے البتہ اس کی خوفناک مگر خاموش گونج ہمارے وجود میں ایک پر شور طوفان کی سی کیفیت پیدا کردیتی ہے ۔ یہ وہ بد نصیب لوگ ہیں جنہیں حالات نے اپنے چکر ویومیں جکڑ رکھا ہے ۔ وہ اس چکر ویوسے نکلنا چاہتے ہیں مگر ابھیمنیوکی طرح، چکرویو کو توڑکر اس سے باہر نکلنے کا منتر نہیں جانتے ۔ میں حالات کے چکر ویو میں پھنسے انہیںبیمار، تھکے ہارے اور دبے کچلے افراد کا افسانہ نگار ہوں ۔ ان کے دکھ درد ان کی یاس و محرومی ان کا اضطراب و انتشار ہی میرے افسانے کا محرک اور موضوع ہے ۔ میں باغیوں کی کہانیاں اس لیے نہیں لکھتا کہ میرے عہد میں کوئی باغی نہیں ہے ۔ میں فاتحین اور نائکوں کے افسانے کیوں کر لکھوں کہ میرے عہد میں ظلم کو بہادری مکاری کو دانائی کج روی کو راستی اور موقع پرستی کو سیاست کا نام دیا گیا ہے ۔ ساری قدریں سر کے بل کھڑی ہوچکی ہیں ۔آج مذہب ،ذات ، قوم اور علاقے کے نام پر انسانوں کو اتنے خیموں میں بانٹ دیا گیا ہے کہ پورا سماج ٹکرے ٹکرے ہو کر بکھر گیا ہے ۔ میرے کردار اسی پارہ پارہ معاشرے کے افراد ہیں ۔ وہ اس گھنائونے معاشرے میں جینے اور مرنے پر مجبور ہیں ۔ انھیں غصہ آتا ہے ۔ وہ احتجاج بھی کرتے ہیں ۔ مگر ان کا غصہ اور ان کا احتجاج اس الائو کی مانند ہے جس کی آ گ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ میرا افسانہ دراصل اُسی بجھے ہوئے الائو کی راکھ میں چنگاریاں تلاش کرنے کا عمل ہے ۔
مجھے اس نوجوان کی کہانی یاد آرہی ہے جس نے ٹھٹھرا دینے والے موسم میں پہاڑ کی چوٹی پر ننگے بدن رات گذارنے کی شرط لگائی تھی اور دور ایک کٹیا میں جگنو کی طرح ٹمٹماتے چراغ کی لو پر نظریں گڑائے اس نے صبح کے ستارے کا استقبال کیا تھا اور شرط جیت گیا تھا۔ میرے کردار جس الائو کے گرد بیٹھے ہیں اگرچہ اس کی بھی آگ سرد پڑ چکی ہے مگر ان کے لہو میں ایک مدھم چراغ روشن ہے ۔ اُمید کا یہ چراغ ان کے اندر زندگی کی حرارت پیدا کرتا ہے ۔ وہ افق پر نظریں گڑائے صبح کے انتظار میں رات کاٹ رہے ہیں وہ شرط جیتیں گے یا نہیں یہ انھیں بھی نہیں معلوم مگر وہ اتنا جانتے ہیں کہ شرط کے لیے زندہ رہنا ضروری ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب ان کی نجات کی خاطر مصلوب ہونے کے لیے کوئی مسیح نہیں آئے گا ۔ نہ صداقت کے نام پر کوئی زہر کا پیالہ پئے گا ۔ہر شخص کو اپنی صلیب خود اٹھانی ہے اور اپنے حصے کا زہر خود ہی پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منٹو کی موت پر کرشن چندر نے کہا تھا۔وہ اردو کا واحد شنکر ہے جس نے زندگی کے زہر کو گھول کر پی لیا ہے ۔ آج سے پچاس برس پہلے ممکن ہے کرشن چندر نے ایسا محسوس کیا ہو کہ تنہا منٹو زندگی کے زہر کو گھول کر پی سکتا ہے ۔ہمارے اردگرد چپے چپے پر اس قدر زہر پھیلاہے کہ منٹو کیا شنکر بھگوان بھی زمین پر آجائیں تو اس زہر کو نہیں پی سکتے ۔ لہٰذا معاشرے کا یہ زہر تھوڑا تھوڑا ہم سب کو پینا ہوگا۔ یہ ہمارے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ۔ ایک قلم کار کی حیثیت سے میرے سامنے بھی یہ چیلنج موجود ہے لہذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں افسانے میں کیا لکھتا ہوں دراصل اپنے حصے کا زہر پی کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتا ہوں، علی ھذا القیاس۔
———————————————————————-

Shishe ka Ghar by Surendar Parkash

Articles

شیشے کا گھر

سریندر پرکاش

شیشے کے گھر میں سیڑھیاں، بنانا اور پھر ان سیڑھیوں پر اس کی آخری چھت تک پہنچنا کیا ایک مسئلہ نہیں ہے؟ یہ فرض کرلیا گیاہے کہ فنکار کو اس کی فن کاری کی دادملنی ہی چاہیے۔ لیکن کیافن کی تخلیق کے پیچھے داد خواہی کا جذبہ کلبلارہا ہوتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس مفروضے سے فن کی قدروقیمت کم ہوتی ہے۔ بڑے فن کی یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ قاری،سامع یا ناظر کو فنکار کے تجربے میں شامل ہونے کی تحریک دے۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر دادا ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اور اگر تخلیق نے خاطر خواہ اثر نہیں کیا اور اس کی طرف نقاد یا قاری متوجہ نہیں ہوا تو فن کو اپنی تخلیقی صلاحیت پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
تخلیق کو بسا اوقات معاوضے کے ترازو میں بھی تولاجاتا ہے لیکن یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ فن اپنا معاوضہ صرف سکّوں ہی کی صورت میں وصول نہیں کرتا۔ زیادہ تر فن کو پرکھنے والے ہی نہیں ملتے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کا فن بھی انھیں لوگوں کو پرکھنے کے لیے پیش کردیا جاتا ہے جو عام درجہ کا فن پرکھنے کی عادت بنا کر بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاں تخیل (Imagination) کی کمی ہوتی ہے اور وہ ایک محدود نظریہ فن کی بنیاد پر اپنا کام چلاتے ہیں۔ اکثر ایسی صورت میں ادب کو اس کا پارکھ قارئین میں مل جاتا ہے جو اپنی زندگی میں کم وبیش اسی ذہنی سفر کا تجربہ رکھتا ہے جیسا کہ اعلیٰ درجہ کا فنکار۔
جب مجھ پر پہلا خیال اترا جسے میں نے قلم بند کرنے کی کوشش کی تو میں صحیح معنوں میں تخلیقی عمل سے اچھی طرح روشناس نہ تھا۔ کوئی سامنے کا دیکھا ہوا واقعہ۔ کوئی دلچسپ کردار اچھا لگتا تو میں اس کی قلمی تصویر بنانے کے لیے قلم اٹھالیتا۔ لیکن وہ تصویریں بے جان ہوتیں۔ نہ ان کی شریانوں میں خون گردش کررہا ہوتا نہ ان کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہوتا۔ نہ ہی ان کے وجود میں روح جنبش کررہی ہوتی۔ نہ ہی میں ان تصویروں کا دکھ سکھ جان پاتا اور نہ ہی ان کے وسیلے سے اپنی ذات کا سکھ کہہ پاتا۔
میں الگ سے ایک آدمی ہوتا اور اپنی قلمی تصویروں سے میرا رشتہ اسی وقت ٹوٹ جاتا۔ جب میں ان کو اپنی طرف سے مکمل کر کے الگ ہوتا ، لیکن ایک خلش سی باقی رہتی۔ اپنے اندر ایک کمی سی محسوس ہوتی اور اس کیفیت کو ٹھیک طور پر سمجھنے کا شعور مجھ میں بالکل نہ تھا۔ ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ میرا پہلا افسانہ تھا۔ جسے لکھنے کے بعد میں بے حد اداس ہوگیا۔ مجھے بے گھر ہونے کا احساس بری طرح ستانے لگا۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کے سارے غم میں، میں نے اپنے آپ کو شریک پایا۔ اس گھر کے مکینوںسے اجنبیت کا کرب میرے اندر تک سرایت کر گیا۔
لیکن نہیں، یہ میں نہ تھا، یہ تو کوئی اور ہی شخصیت تھی۔ جس کا وجود اچانک عمل میں آگیا تھا جو میرے وجود کاانگ تھی۔ لیکن پھر بھی مجھ سے، میرے ماحول سے اور میرے رشتے ناطے والوں سے اجنبی تھی۔ کون ہے یہ؟ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ تب میری نظروں کے سامنے ایک مجسمہ ابھرا جس کا آدھا دھڑ عورت کا تھا اور آدھا مرد کا۔ وہ وشنو کا اور نریشور کاروپ تھا۔ بات میری سمجھ میں آگئی۔ وہ راز میں سمجھ گیا کہ وشنو کا یہ روپ جس نے تخلیق کیا تھا وہ کہنا کیا چاہتا تھا۔
فنکار کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنے ہی نطفہ سے اور اپنے ہی بطن سے ایک نئی شخصیت کو جنم دیتا ہے یعنی اس کی شخصیت کا مرد اس کی شخصیت کی عورت سے بیاہ رچا لیتا ہے اور ان کے قرب سے پیدا ہونے والا بچہ آنکھیں مل مل کر اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہنچاننے کی کوشش کرتا ہے اور اسے سب اجنبی، اجنبی سا لگتا ہے اور پھر وہ بچہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔
’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کی تخلیق کے بعد مجھ میں اور میرے بطن سے میرے ہی نطفے سے پیدا ہونے والے بچے میں ایک عجیب کشمکش سی شروع ہوگئی اور پھر ایک دن آیا کہ اس نے قلمدان میرے ہاتھ سے چھین لیا اور میں بے حسی اور بے کسی کے عالم میں گم سم کھڑا رہا۔ وہ بچہ جیسے جیسے توانا ہوا جاتا تھا، میں ویسے ویسے ہی کمزور و ناتواں ہوا جاتا تھا اور پھر ایک وقت آیا جب وہ جدو جہد ختم ہوگی اور میں نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد سریندر پرکاش نام کا خاوند،باپ، بھائی اور دوست محض ایک نام رہ گیا اور زندگی کی پوری باگ ڈور سریندر پرکاش افسانہ نگار نے سنبھال لی۔
گو کہ سریندر پرکاش ابھی زندہ تھا، لیکن مردوں کے برابر کہ دونوں شخصیتیں الگ الگ اپنی زندگی گزاررہی تھیں۔ ایک جو تخلیق میں مصروف تھی اور دوسری جو رشتوں ناطوں کے محدود دائرے میں سانس لے رہی تھی۔
وہ کون ہے جو ،رونے کی آواز، بجو کا، بازگوئی اور ساحل پر لیٹی ہوئی عورت تخلیق کرتا ہے اور پوجا کا تلک میری پیشانی پر لگادیتا ہے، جس نے مجھے سکھایا کہ مذہب کو ذاتی عقیدے کے حصار سے نکال کر فلسفہ کے ساحل پر لا کر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں اسلام، عیسائیت اور ہندومت اپنے آفاقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں فرد کا کرب، انسانیت کا کرب بن جاتا ہے اور آدمی زندگی کا مہامنتر پاجاتا ہے اور آزادی۔ آزادی!
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ایک ہی گھر میں قیام کرتی ہیں۔
میری جگہ اگر آپ ہوں تو آپ پر کیا گزرے گی۔
یہ کس نے بجائی بانسری؟ اور کون سے پیڑ پہ کوئل نغمہ سرا ہوئی اور کوئل کے کنٹھ میں کانٹا چبھا ہے۔ مت رو کوئل مت رو۔ کالی کلوٹی کوئل تو حسن کا مجسمہ ہے۔
اُف! اس نظام میں کس نے خون نہیں تھوکا؟
تو صاحبو۔ مطلب یہ ہوا کہ فنکار دوہری زندگی جیتا ہے۔ ایک چہرہ، چہرے پر لگا رہتا ہے اور ایک چہرہ چہرے کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے عتاب مجھ پر نازل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی نفرتیں، شکایتیں اور دشنام میرے لیے ہیں۔ نیکیاں، تعریفیں اور اعزاز اس کے لیے جو میری شخصیت کے پردے میں چھپا بیٹھا ہے یہاں تک کہ اب لفظ بھی اسی پر نازل ہوتا ہے اور میں محض تماشائی کی طرح سب کچھ دیکھتا ہوں اور کڑھتا ہوں۔
اگر آپ نے میرا افسانہ ’سرنگ ‘پڑھا ہے تو آپ کو ضرور معلوم ہوگا کہ مجھے اس نے ایک ٹنل میں لا پٹکا ہے، جس میں سے نکلنے کا راستہ بڑا دشوار گزار ہے اور آدم خور چوہے میری بوٹی بوٹی کے بھوکے ہیں۔ مجھے دو جنگیں ایک ساتھ لڑنا پڑ رہی ہیں۔ ایک اس کے ساتھ اور دوسری آپ کے ساتھ۔ جی ہاں! میں آپ کے ساتھ بھی برسرِپیکار ہوں۔
’بجوکا‘ میں جب زمانے کا سردو گرم برداشت کرنا ہوتا ہے تو وہ مجھے ’بجوکا‘ بنا کے کھیت میں کھڑا کر دیتا ہے اور فصل کاٹتے وقت وہ ہوری بن کے آموجود ہوتا ہے اور جب ہوری کا مقدر موت بن جاتی ہے تو وہ خود،بجوکا‘ بن جاتا ہے اور میری فصل کا ایک چوتھائی لینے کا حق دار بن جاتا ہے۔ ’بازگوئی‘ میں نیک موسیقار اور شاعر تلقار مس وہ ہے اور جب تلقار مس کا پتن ہوتا ہے تو وہ مجھے تلقارمس بناڈالتا ہے اور میرے ہاتھ پائوں کاٹ کر ملکہ شہروزی کے محل کے کھنڈر میں پھنکوا دیتا ہے۔
نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میرا مزاج بالکل بدلتا جارہا ہے۔ میرے اوپر کی کھال اتر رہی ہے اور میرا سارا وجود اس کی شخصیت میں سماتا جارہا ہے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں ایک دن اپنی شخصیت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا اور اس کا تابع ہو کر رہ جائوں گا۔ کیا یہ ایک عظیم کرب نہیں ہے کہ میں زندہ ہوں اور اپنی زندگی کا ثبوت مجھے اس کے وسیلے سے دینا پڑ رہا ہے۔
سیرابی و تشنگی کا احساس میرا کہاں رہا ہے کہ میںاپنے سننے اور پڑھنے والوں کو جس میں شامل کروں!شاعری کرنا یا افسانہ لکھنا ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے لیے اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس گلی میں داخل ہونا پڑتا ہے، ورنہ آپ کا لفظ، لفظ نہیں بنتا جو پڑھ کر پھونکا جاسکے۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا شیشے کا یہ گھر عجیب ہے۔ جس میں کوئی سیڑھی نہیں اور جس کی کوئی چھت نہیں اور آپ اس کی چار دیواری کے اندر رہ کر بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتے۔ باہر سے آپ کی نظریں فنکار کو کھائے جاتی ہیں اور اندر سے فنکار اپنا خون گھونٹ گھونٹ پیتا رہتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ مرنے کے باوجود فنکار اپنی موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اکثر دیکھا ہے، وہ شیشے کے گھر میں گردن جھکائے آہستہ آہستہ ٹہلتا رہتا ہے، لیکن اس کے اندر بلا کی بے چینی ہوتی ہے وہ جانتا ہے کہ اس گھر میں کوئی دروازہ نہیں، باہر نکلتا ہے تو کسی ایک دیوار کا شیشہ ضرور ٹوٹے گا اور پھر ٹوٹے ہوئے گھر میں بھی اسے ہی جھک کر ایک ایک کرچی چننا ہے۔


Mumbai Uzma ki Mukhtasar Tareekh

Articles

ممبئی عظمی کی مختصر تاریخ

توفیق احسن برکاتی

Saghar E Kausar

Articles

ساغرِ کوثر

عزیز الحق کوثر ندوی

Arabi aur Urdu ke Lisani Rawabit

Articles

عربی اور اردو کو لسانی روابط

Mahim ki khadi translated by Salam Bin Razzaq

Articles

ماہم کی کھاڑی ۔۔۔ ناول۔۔۔ مدھو منگیش کرنک ۔۔۔ ترجمہ سلام بن رزاق

سلام بن رزاق

Main kenary by Fozia Mughal

Articles

مائین کنارے

فوزیہ مغل