Zikr E Raza
Articles
Shabkhoon ka Tauzihi Ishariya
Articles
شب خون کا توضیحی اشاریہ : ڈاکٹر انیس صدیقی کی معرکہ آرا تحقیقی کتاب
ڈاکٹربی محمد داؤد محسن
ڈاکٹر انیس صدیقی کا شمار کرناٹک کے ان معدودے چند اردو قلم کاروں میں ہوتا ہے جن کی پہچان ادبی حلقوں میں ہے بھی اور نہیں بھی ۔ یہ ان قلم کاروں میں سے نہیں ہیں جو ہر دوسرے ہفتہ اپنی تخلیقات کے ساتھ کسی نہ کسی اخبار کے ادبی صفحات کی زینت بڑھاتے ہیں اورنہ رسائل کی رونق بڑھاتے ہیں۔ ان کا شماران نام نہاد ، کثیر جہات قلم کاروں میں بھی نہیں ہوتا جنھوں نے نظم و نثر کی کم کم ہی اصناف کو اپنی طبع آزمائی سے محفوظ رکھا ہے۔ سمیناری لکھاریوں کی فہرست میں بھی ڈاکٹر انیس صدیقی شامل نہیں ہیں۔ فیس بک اور واٹس اپ کی واہ واہی خرافات سے بھی خود کو بچائے رکھا ہے۔ لیکن یہ اپنی سنجیدہ علمی و ادبی کاوشوں کی وجہ سے اردو کے پڑھے لکھے طبقے میں نہ صرف اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں بلکہ قدر کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر انیس صدیقی نے ابتدائی زمانے میں ہی اپنے میلان طبعی کا محاسبہ کیا، اپنے لیے منزلیں طے کیں اور ان تک رسائی کے لیے راستوں کا انتخاب کیا۔ آج بھی وہ نہایت تندہی اور دل بستگی کے ساتھ ان ہی راہوں پر گامزن ہیں۔ ادبی صحافت ، ترتیب و تدوین اور تحقیق، ادب کے باب میں ان کی ترجیحات ہیں۔ چنانچہ زمانۂ طالب علمی میں اپنا ادبی رسالہ ’نوائے عصر‘ جاری کیا۔ کالج اور یونیورسٹی کے مجلّوں کی ادارت کی۔ کئی مقامی ادبا اور شعرا کے کلام کو ترتیب دیا اور انھیں شائع کیا۔ کرناٹک اردو اکادمی کے رکن نامزد ہوئے اور اکادمی کے ترجمان ’اذکار‘ کی ادارت ان کوتفویض کی گئی تو انھوںنے ممتاز شیریں کے ’نیا دور‘ اور محمود ایاز کے’سوغات‘ کی طرح ’اذکار ‘کی بھی قومی سطح پر شناخت بنائی۔ انجمن ترقی اردو ہند(شاخ) گلبرگہ کے ترجمان ’انجمن ‘کے کئی شمارے بھی ڈاکٹر انیس صدیقی نے ترتیب دیے ہیں۔ گلبرگہ کے مقامی روز نامہ ’کے بی این ٹائمز‘ کے ادبی صفحہ ’ادب نما‘ کے مرتب کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات قابل لحاظ رہی ہیں۔
ڈاکٹر انیس صدیقی کی اولین تحقیقی کاوش ان کا پی ایچ ڈی کے لیے لکھا گیا تحقیقی مقالہ تھا جو بعد میں ’کرناٹک میں اردو صحافت ‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں منظر عام پر آیا ۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگاکہ کرناٹک کی مختلف جامعات کے اردو شعبہ جات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے درجنوں مقالے لکھے اور لکھوائے گئے لیکن ان مقالوں میں زیور طباعت سے آراستہ ہونے والے مقالوں کی تعداد غالباً ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہے۔ اس کے اسباب و علل پر گفتگو ایک دفتر کا متقاضی ہے اور یہاں صرف اس بات کا اظہار مقصود ہے کہ ڈاکٹر انیس صدیقی نے اپنا تحقیقی مقالہ شائع کیا اور یہی ان کی محقق کی حیثیت سے پہچان کا سبب بنا۔ اس کے بعد اپنے مختلف احباب کی شراکت سے گلبرگہ کے ادبا و شعرا کا انتخاب ’افلاک‘ ، گلبرگہ کے شعر و ادب کی سمت و رفتار پر انجمن ترقی ہند اردو(شاخ) گلبرگہ کے سمیناروں کے مقالوں پر مشتمل کتاب ’گلبرگہ میں شعر و ادب‘ ترتیب دی ۔ پھر ممتاز شاعر ، ادیب و نقاد شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مختلف کتابوں اور رسالوں میں شائع شدہ انٹرویو کو یکجا کرکے ’فاروقی : محوِ گفتگو‘مرتب کیا۔اسی طرح ’خاکہ نگاری اردو ادب میں‘ ان کی مرتبہ ایک اور کتاب ہے جس میں انھوں نے خاکہ نگاری کے آغاز و ارتقا اور اس کے فن پر تا حال شائع شدہ مضامین کو نہایت سلیقہ سے ترتیب دے کر اسے ایک دستاویزی حیثیت دی ہے۔
پیش نظر کتاب ’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘ ڈاکٹر انیس صدیقی کے تحقیقی جنون و جستجو کی مظہر ایک ایسی عدیم المثال کتاب ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے اپنے اشاعتی پروگرام کے تحت تقریباً 1500 صفحات پر مشتمل کتاب کو دو ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے ۔اس کتاب کے ایک ایک صفحے سے ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور عرق ریزی کا پتہ چلتا ہے۔
اشاریہ سازی اردو میں بہت زیادہ قدیم فن نہیں ہے۔ محققین کو مواد کی رسائی میں آسانی فراہم کرنے والا تحقیق کے فن کا ہی یہ ایک شعبہ ہے۔ حالیہ دو تین دہوں میں اردو کے اہم اور غیر اہم ادبی ، مذہبی ، علمی و سائنسی رسائل کے اشاریے سامنے آئے ہیں۔ جامعاتی سطح پر بھی اس فن میں کام ہوا ہے ۔لیکن اردو کے رجحان ساز رسالہ ’شب خون‘ کااشاریہ تیار کرنے کا سہرا ڈاکٹر انیس صدیقی کے سربندھا۔ ’شب خون‘ اردو کی ادبی صحافت کی تاریخ کا روشن ترین نام ہے اس رسالہ نے اردو میں جدیدیت کے رجحان کی بنیاد رکھی اور اس رجحان کو فروغ دینے اسے مستحکم اور توانا کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ۔ ڈاکٹر انیس صدیقی کے مطابق ؛
’’شب خون نے اردو ادب میں جدیدیت کے انقلاب آفرین رجحان کی اساس رکھی اور اس کی معنویت اور اہمیت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔’شب خون‘ نے نئے فکری و معنوی ابعاد اجاگر کیے ۔ قاری کے فکر و ذہن کو مرتعش کرنے والے فکر انگیز مباحث کو جنم دیا۔ جدید ادب کے مالہ و ماعلیہ پر عالمانہ انداز کے حامل مضامین شائع کیے ، جدیدیت کی تائید و تردید ، افہا م و تفہیم ،وضاحت اور حد بندیوں پر کثرت سے مضامین شائع کی ہیں۔ ‘‘
جہانِ شعر و ادب میں اردو کی ادبی صحافت کے منارۂ نور’ شب خون‘ کے اشاریہ کی ترتیب و تدوین اور اس کی ضرورت کا جواز ڈاکٹر انیس صدیقی نے یوں پیش کیا ہے؛
’’ اردو ادب کے توانا اور مقبول ترین رجحان جدیدیت کے آغاز و ارتقا ، اس کا تاریخی پس منظر، اس کے صحیح خد و خال ، نظم و نثر کی تمام اصناف پر اس کے اثرات و اطلاقات، اس کے رجحان سے متاثر اور اس کے ہم نوا اہل قلم سے متعلق کسی بھی موضوع پر تحقیقی کام ’شب خون‘ میں شائع ہوئی تحریروں کے حوالے کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا ’شب خون ‘کا پیش نظر اشاریہ ، ان تحقیق کاروں کے لیے مفید ہوگا جو جدید ادب اور اس کے متعلقات کے کسی موضوع پر کام کررہے ہیں۔ ‘‘
’شب خون کا توضیحی اشاریہ‘ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ جلد اول میں دو باب اور جلد دوم میں تین ابواب شامل ہیں۔ پہلا باب ’شب خون‘ کے تعارف پر مبنی ہے۔ جس میں ہندوستان کی اردو ادبی صحافت کے تاریخی سیاق و سباق میں ’شب خون ‘کے اجرا ، ادارت ، ضخامت ، کتابت و طباعت اور اس کے مستقل کالموں سے متعلق معلومات افزا مواد کے علاوہ شب خون کی ادبی خدمات سے متعلق مشاہرین ادب کی آراء کو بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا باب ’شب خون‘ میں شائع شدہ نثری نگار شات کا احاطہ کرتا ہے۔ جس میں اصناف کے اعتبار سے زمرہ بندی کی گئی ہے۔ اس باب کا سب سے اہم حصہ مضامین سے متعلق ہے۔ اس میں ڈاکٹر انیس صدیقی نے ’شب خون ‘میں شائع ہوئے سات سو سے زائد تنقیدی و تحقیقی مضامین کی توضیحات قلم بند کی ہیں۔ اس کی افادیت یہ ہے کہ تحقیق کار کو ان مضامین کے مندرجات اور ان کی کیفیت و کمیت کا پتہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔
تیسرا باب شعری نگارشات پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی اشاریہ ساز نے اصناف کے اعتبار سے شعری نگارشات کی تفصیلات کو درجہ بند کیا ہے۔ چوتھا باب شب خون میں شائع ہوئے تراجم پر محیط ہے اس حصہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شب خون میں دیگر زبانوں کے ادبیات کے سیکڑوں ادبی شہ پاروں کو اردو قارئین سے متعارف کرانے میں بڑا اہم کام انجام دیا ہے۔
پانچواں اور آخری باب سب سے اہم ہے جسے ’ماحصل ‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس باب میں شب خون کے کل 293شماروں میں شائع شدہ قلم کاروں اور ان کی نثری و شعری نگارشات کے تعلق سے دلچسپ معلومات اعداد و شمار اور گراف کے توسط سے پیش کی گئی ہیں۔ مثلاً بتایا گیا ہے کہ ’شب خون ‘کے کل 293شماروں میں 1357قلم کاروں کی 16721شعری و نثری تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 710نگار شات شمس الرحمن فاروقی کی ہیں۔ ’شب خون ‘میں شائع ہونے والی خاتون قلم کاروں کی تعداد صرف 91ہے جو کل تعداد کا 6.7فی صد ہے۔ غیر مسلم اردو قلم کاروں کی تعداد 138بتائی گئی ہے نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’شب خون‘ میں شائع شدہ کل 16721تخلیقات میں 2748کا تعلق نثر سے اور13169کا تعلق شاعری سے ہے۔ جب کہ تراجم کی تعداد 806ہے۔ ’شب خون ‘کے تعلق سے اس طرح کی کئی اور معلومات اس حصہ کو نہ صرف دلچسپ بناتی ہیں بلکہ قاری کو حیرت انگیز مسرت سے بھی دو چار کرتی ہیں۔ کتاب کے آخر میں دو مفصل اشاریے الگ الگ اردو اور غیر اردو زبانوں کے قلم کاروں کے شامل ہیں۔
اس مضمون کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کتاب پر لکھے گئے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے مقدمہ کا ذکر نہ کیا جائے۔ فاروقی صاحب کے تبحر علمی ، کثیر جہات ، وقیع اور گراں قدر ادبی خدمات کا ذکر کرنا الفاظ کا زیاں ان معنوں میں ہے کہ اسکالر ، دانشور، نابغۂ روزگار ، عبقری شخصیت ، لیجنڈ جیسے الفاظ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے محاذی بونے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ ادبی دنیا واقف ہے کہ فاروقی صاحب ہی شب خون کے روح رواں تھے اور یہ ڈاکٹر انیس صدیقی کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ایسی شخصیت نے اس کتاب کی تیاری میں نہ صرف ان کی رہنمائی کی بلکہ اس کتاب کے لیے مقدمہ بھی قلم بند کیا۔ فاروقی صاحب کے مطابق ؛
’’حالاں کہ اشاریہ سازی یا فہرست سازی خالص علمی اور شماریاتی کام ہے لیکن اشاریہ اورفہرست سازی خاص کر کتابوں یا رسالوں کی اشاریہ سازی اور فہرست سازی میں فہرست ساز کی اپنی رائے (یا اپنے تعصبات)کی جھلک کہیں نہ کہیں نظر آجاتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ انیس صدیقی نے خود کو ہر طرح کے تعصب اور خود درائی سے محفوظ رکھا۔ مشمولات میں اس قدر تفصیل اور اندراجات میں اس قدر تنوع ہے کہ یہ اشاریہ عام کتاب کے طورپر ، عام دل چسپی کی خاطر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ ‘‘
شمس الرحمن فاروقی صاحب اور ’شب خون ‘کی مداحی اور پرستاری کے دعوے دار، ان کی وابستگی کے حوالے سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے کئی احباب شمالی ہند کی مختلف جامعات میں اہم مناصب پر فائز ہیں۔ لیکن کسی نے اس رسالے کی خدمات پر کام کرنے یا کروانے کی جانب توجہ نہیں کی۔یہ بات ہمارے لیے باعث فخر و انبساط ہے کہ اس کام کو جنوبی ہند کے محقق ڈاکٹر انیس صدیقی نے انجام دیا اور بہت بہتر طریقہ سے انجام دیا۔ بہر حال ڈاکٹر انیس صدیقی نے اپنی کتاب کے ذریعہ ’شب خون ‘کی نہایت غیرمعمولی اور روشن ادبی خدمات پر جمتی ہوئی زمانے کی گرد کو اپنی بے لوث تحقیقی جستجو سے صاف کرنے اور نئی نسل کو اس تاریخ ساز رسالے کی خدمات سے واقف کرانے کا اہم کام انجام دیا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں ڈاکٹر انیس صدیقی کی اس گراں قدر تحقیقی کتاب کی پذیرائی ہوگی اور ’فاروقیات‘کے باب میں ایک اہم اضافہ تصور کی جائے گی۔
٭٭٭
Evelyn Ki Shahzadi by Ibn E Adam
Articles
ایولین کی شہزادی
ابنِ آدم
Interview of Adil Mansuri by Dr. Qasim Imam
Articles
ہر تجربہ رواج نہیں پا تا ہے
عادل منصوری
ڈاکٹرقاسم امام : عادل منصوری صاحب سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ نے جو ماڈرن یا سر ریلسٹک شاعری کی ہے تو کیا یہ سب کچھ آپ کے ذہن میں پہلے سے تھا یعنی یہ کہ آپ کا تخلیقی تجربہ اسی طرح کا اظہار چاہتا تھا یا پھر آپ نے جدیدیت سے متاثر ہوکر اس اندازِ بیان کو اختیار کیا؟
عادل منصوری: ’ماڈرن ‘ یا ’سرریلسٹ‘ وغیرہ قسم کے نام شاید تخلیق کاروں نے نہیں دیئے۔ پینٹنگ کے ذریعہ اس بات کو موثر طریقے سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ’لینڈ سکیپ‘ اور ’پورٹریٹ‘پینٹنگ غالباً ہر دور میں، ہر وقت میں تقریباً روایتی یگانگت سے منسلک رہتے ہیں۔ آنکھ کے سامنے کوئی منظر یا شخص موجود ہوتا ہے، جس کا تاثر فنکار برش، رنگوں کی مدد سے کینواس پر پھیلاتا ہے۔ اس کے برعکس جب ’کیوبزم‘ اور ’ایبسٹریکٹ‘ پینٹنگ کا دروازہ کھلتا ہے اور کینواس بالکل بدل جاتا ہے۔ پکاسو، ڈالی ، پولوک تک پہنچتے پہنچتے کینواس اپنی فریم توڑ کر پھیلنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے افق در افق پھیلتا ہوا خلاء کی لامحدود یت سے جا ملتا ہے۔ اب اسے اپنی قدیم فریم کی حدود میں واپس لے جانا ناممکنات میں شامل ہے۔بالکل اسی طرح :
یہ ہم سے پوچھ کہ معیارِ دوستی کیا ہے
کہ ہم نے سانپ بھی پالے ہیں آستینوں میں
محسوس یہ ہوتا ہے مجھے آپ سے مل کر
پہلے بھی کہیں اپنی ملاقات ہوئی ہے
جیسے شعر کہنے والا اب :
حیرت سے سبھی خاک زدہ دیکھ رہے ہیں
ہر روز زمیں گھٹتی ہے کونوں کی طرف سے
ڈھوتے ہیں شب و روز یہ الفاظ کی اینٹیں
رہتی ہے ادھوری ہی ، وہ دیوار الگ ہے
دل کی گہرائی میں خواہش کے اگیں ہاتھ ہزار
اور خواہش کے ہر اک ہاتھ میں سُرخاب کا پر
اظہار کا نیا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ کافکا، بیکٹ اور ’تھیئٹر آف ایبسرڈ‘ کے متعدد قلم کاروں نے معنی کی فریم توڑ دی ہے ،اور تخلیقی تجربے کے اظہار کے لیے خلاء کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اور تحت الشعور میں موجزن احساسات کو وسعتِ آفاق میں پھیلا دیئے ہیں۔
ڈاکٹرقاسم امام : اچھا ، اس طرح کا اندازِ بیان اختیار کرتے وقت آپ نے کبھی یہ نہیں محسوس کیا کہ اردو میں اس نوع کی شاعری ابھی رواج نہیں پاسکی ہے ، اس طرح کی شاعری کی کوئی مستحکم روایت نہیں ہے تو اس پر شدید رد عمل سامنے آئیں گے؟
عادل منصوری:شدید ردِّ عمل کا خوف محسوس کریں تو پھر ادب اور آرٹ میں کوئی نئی بات، نیا تجربہ، نئی جدّت وجود ہی میں نہیں آسکتی۔ اگر شدید ردِّ عمل سامنے آنے کے فرضی خوف کی دیوار کے پیچھے نت نئے اظہار کے پیکروں کو روپوش کردیا جائے تو تجسس کے افق پر پَو پھٹنے کے منظر کا تصور کیسے مجسوم ہوسکے گا۔ نہ صبحِ کاذب ہوگی ، نہ صبحِ صادق تاریکی کی اتھاہ گہرائی میں امید کی کرن کیسے جگمگائے گی؟ سنگ نا تراشیدہ میں محور خواب پیکروں کو کیسے جگایا جاسکے گا۔ جواب میں سوالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ دروازہ کب تک بند رہے گا؟
ڈاکٹرقاسم امام :خیر نظموں میں سر ریلسٹک انداز بیان کسی نہ صورت نبھ جاتا ہے اور آپ نے اس نہج پر چلتے ہوئے کچھ شاہکار نظمیں بھی خلق کی ہیں اور آج یہ اندازِ بیان اردو کی نظمیں شاعری میں رواج بھی پاگیا ہے لیکن غزل میں شاید یہ کوششیں اتنی کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپ کی ’’الف اور شین ‘‘ سیریز کی غزلوں اور ظفر اقبال کی اینٹی غزل میرے خیال میں اردو میں اتنی رواج پاتی نظر نہیں آرہی ہے؟
عادل منصوری:نظم کے ذریعے افتخار جالب اور احمد ہمیش نے اظہار کے کینواس کو پھیلانے میں بہت اہم ، نمایاں اور کامیاب تجربے کئے ہیں۔ غزل میں ظفر اقبال نے مشعل کو بلند کئے ہوئے بڑی پیش رفت کی ہے۔ غزل کو نئی وسعت اور زبان کو انوکھی دھار عطا کرنے کا ان کا کارنامہ اردو غزل کو نئی تابناکی سے منور کررہا ہے۔ اب تک ، ۔۔۔۔۔ ان کی کلیا ت کا سلسلہ اگر ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے تو دوسرے پلڑے میں کیا کیا رکھا جاسکتا ہے؟ کسی بھی طرزِ تحریر کا رواج پانا ، یہ تخلیقی عمل کے بعد کی بات ہے۔ ہر تجربہ رواج بھی نہیں پا تا ہے۔ یہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا معیار بھی تو نہیں بن سکتا۔ شاید نظم کی بہ نسبت غزل کی فریم منہدم ہونے میں مزید وقت ، شدید ضرب اور کئی ایک ظفر اقبال درکار ہوں۔لیکن پچھلی پانچ دہائیوں میں غزل کتنی بدلی ہے، کتنی کامیاب رہی ہے یہ تو اظہرمن الشمس ہے۔
ڈاکٹرقاسم امام : ہاں ! یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی اور ظفر اقبال اور کچھ دیگر شعراء کی اس نوع کی غزلوں سے ایک بے تکلفی کا مزاج پیدا ہوا اور نئے شعراء نے آپ حضرات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تخلیقی اظہار میں لکیر کے فقیر نہ رہتے ہوئے بے تکلفی کا اظہاراختیار کیا۔ کیا آپ اسے جدید غزل کی کامیابی تصور کرتے ہیں؟
عادل منصوری:زبان کی نسبت بے تکلفی کا مزاج ظفر اقبال کی غزلوں میں شروع ہی سے کامیاب ترین شکل میں نمایاں ہے۔ آج وہ اردو غزل میں Legendہیں ، اور یہ بات راتوں رات تو ظہور میں نہیں آجاتی۔
ڈاکٹرقاسم امام :گجراتی شاعری میں عادل منصوری بھی ایک Legendشاعر کا نام ہے۔ خیر سے اردو کے جدید شعرا کی مختصر سے مختصر فہرست میں بھی آپ کا نام ضرور شامل رہتا ہے۔ تو ان دو مختلف زبانوں میں شاعری کرتے ہوئے آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ یعنی اپنے آپ کو جذباتی طور کس زبان سے زیادہ قریب پاتے ہیں اور جب آپ ایک زبان میں شاعری کررہے ہوتے ہیں تو کیا دوسری زبان اور اس کی شاعری اور اس کی شعری روایت سے بھی استفادہ کرتے ہیں؟
عادل منصوری:دو مختلف زبانوں میں شاعری کرنے کا تجربہ کچھ عجیب سا ہے۔ گجراتی مادری زبان ہوتے ہوئے بے تکلفی اور آسانی کے ساتھ اظہار کا ذریعہ بنتی ہے۔ دن بھر گھر میں گجراتی بولتا ہوں ۔ اردو نائٹ اسکول میں جاکر پڑھی، سیکھی اور ڈھیر ساری کتابیں پڑھیں اور مشاعرے سنے، پھر بھی جب جب ذریعہ اظہار کے طور پر برتنے کی گھڑی آتی ہے تو ذہن میں ایک گھنٹی سی بجنے لگتی ہے ، کہ کہیں زبان میں لکھنے، بولنے ، برتنے میں کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہورہی ہے؟ کئی بار لغت بھی زیرِ مطالعہ رہتا ہے۔ لغت میں ایک ہی لفظ کے کئی کئی معنی اور بعض جگہ تو متضاد معنی دیکھ کر شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہوں ۔ شاید اسی تجربے کے تحت ’’ یہود یُو کان یُوس یکرز‘‘ قبیل کی نظمیں بھی کہی ہیں۔
گجراتی میں غزل کہتے وقت اردو زبان اور غزل کی شعری روایت اور تجربے سے ، اور اردو میں نظم لکھتے وقت گجراتی زبان اور گجراتی نظم کی شعری روایت اور تجربے سے بھر پور استعادہ کرتا رہتا ہوں۔ اصل میں، دو زبانوں اور دو زبانوں کی شعری روایات کے درمیان ایک Balancing Actہے میرے لیے۔ کبھی کبھی اس عمل پر مجھے تعجب بھی ہوتا ہے۔ اردو کی عظیم شعری روایت سے گجراتی غزل میں بھر پور استفادہ دیکھا جاسکتا ہے۔ تقریباً 35-40سال قبل ممبئی میں ’آئی ، این، ٹی‘ کے ایک بڑے گجراتی مشاعرے میں نظامت کرتے ہوئے ، ہر دو شاعر کے درمیانی وقفے میں ظفر اقبال کے منتخب شعر سناتا رہا۔ گجراتی شاعروں اور سامعین کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ گجراتی کے مقبول اور معمر شاعر امرت گھایلؔ (جو اردو بھی جانتے تھے ) ظفر اقبال کے شعروں بہت متاثر ہوئے۔ ’آبِ رواں‘ منگوا کر بڑے ذوق شوق سے پڑھی اور ایک حد تک ان کا اثر بھی قبول کیا۔
ڈاکٹرقاسم امام :گجراتی غزل پر اردو غزل کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور کیا گجراتی غزل کی بنیاد اردو غزل پر ہی ہے؟
عادل منصوری:جی ہاں! گجراتی غزل کی بنیاد اردو پر ہی ہے۔ تقریباً 150-175سالوں سے گجراتی میں غزلیں لکھی جارہی ہیں۔ 103برس کی عمر کے بزرگ شاعر حضرت عاصمؔ رَاندِیری (محصود میاں صوبے دار) آج بھی بقید حیات ہیں۔ اختر شیرانی کے رنگ میں نظمیں ، غزلیں کہتے ہیں۔ ’سلمیٰ‘ کی طرح ’لیٖلیٰ ‘ نام کی فرضی محبوبہ سے خطاب کرتے ہوئے شاعری کرتے ہیں۔ ان کی کلیات کا نام بھی ’لیٖلیٰ‘ ہی ہے اور کافی مقبول و مشہور ہے۔
ابتدا میں گجراتی میں فارسی اور عربی آمیز غزلیں لکھی جاتی تھیں۔ پھر اردو آمیز اور 1960ء سے خالص گجراتی میںغزلیں لکھی جارہی ہیں۔ ممبئی، احمد آباد اور گجرات کے کئی بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر مشاعروں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اور ان مشاعروں میں اکثر جدید غزل کا دور دورہ ہے۔
ہم لوگوں نے جب گجراتی میں غزل کہنی شروع کی تو سامنے اردو غزل کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔خاص طور پر جدید اردو غزل کے تخلیقی سفر کا غیر شعوری ادراک، گجراتی غزل کی کشتی چلانے کے لیے بادبان اور پتوار بن گیا۔1960ء سے پہلے گجراتی غزل کی دنیا میں جدید اردو غزل سے واقفیت برائے نام بھی نہیں تھی۔ گجراتی کے وہ شعرا جو اردو شاعری سے واقفیت رکھتے تھے ان میں اکثر اختر شیرانی اور عبد الحمید عدم کو اہم شاعر مانتے تھے اور بات بات میں ان کے شعر ٹانکا کرتے تھے۔
جدید اردو غزل کا تجربہ گجراتی میں نئے گل کھلا گیا۔ بہت قلیل مدت میں گجراتی غزل کا رنگ روپ ، زبان اور طرز سب کچھ بدل گیا۔ غزل ، روایت کی لکشمن ریکھا پھلانگ کر باہر نکل آئی۔ اتاری ہوئی کینچلی میں سانپ کا واپس جانا ، ناممکن ہوگیا۔ سانیٹ اور ہائیکو کی طرح غزل بھی اب گجراتی شاعری کا حصّہ بن گئی ہے۔ بلکہ اہم اور مقبول ترین حصّہ بن گئی ہے۔
ڈاکٹرقاسم امام:خیر یہ بھی بتاتے چلیں کہ امریکہ جو کہ اب آپ کا وطنِ ثانی بن چکا ہے ، یہاں اردو کی کیا صورتِ حال ہے۔ اور تخلیقی اظہار کے لیے آپ لوگ اردو زبان کا استعمال کرتے ہیںتو کیا وہاں اتنے دنوں رہتے ہوئے سوچنے کے عمل میں بھی اردو کا اتنا ہی ساتھ ہوتا ہے جتنا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے تھا؟
عادل منصوری:یہاں امریکہ میں سوچنے کے عمل میں اردو کا اتنا ہی ساتھ ہوتا ہے جتنا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے تھا۔ اردو کے رسائل ، کتابیں، مشاعرے ، ٹی وی چینلوں میں زبان کی دھڑکنیں سنائی دیتی رہتی ہیں۔
———————————————————————
Interview of Shamim Hanafi by Prof. Saheb Ali
Articles
افسانہ ایک معجزاتی صنف ہے
پروفیسرشمیم حنفی
ڈاکٹرصاحب علی:پروفیسرشمیم حنفی صاحب! اردو زبا ن وادب میں آپ کا شمار ایک اچھے تخلیق کار اور سنجیدہ تنقید نگار میں ہوتا ہے۔ ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اردو کی موجودہ ادبی صورتِ حال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
پروفیسرشمیم حنفی: صاحب علی صاحب ! اصل میں ادب کی موجودہ صورت حال کا تعلق انسانی صورت حال سے ہوتا ہے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں انسانی صورتِ حال کا جو نقشہ ہے وہ پریشان کن اور ہولناک ہے۔ آج دہشت ، خوف ، نفرت، اجتماعی اموات اور تہذیبی زوال کا ماحول ہے۔ نسلیں اخلاقی اعتبار سے معذور اور اپاہج ہونے لگی ہیں۔ ایسے ماحول میں ادب کی صورت حال بھی وہی ہوگی جو حال عام زندگی کا دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے یہاں اکا دکا لوگ اچھے لکھنے والے ہیں وہ لکھ رہے ہیں۔ مگر ہر زمانے کی طرح آج بھی خراب لکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، چنانچہ آج کا ادب غیر موثر ہوگیا ہے اور ادب کا حلقہ محدود ہوتا جارہا ہے۔ اس صارفیت کے دور میں ادیب کی آواز میں یا ادب کے دائرہ عمل میں کوئی بہت زیادہ امکان ، وسعت یا پھیلاؤ دکھائی نہیں دیتا۔
ڈاکٹرصاحب علی:آپ کے نزدیک اردو ادب کی موجودہ صورتِ حال کچھ بہتر نہیں ہے تو کیا اردو تنقید بھی اپنے مقصد اور منصب کو بچانے میں ناکام رہی ہے؟
پروفیسرشمیم حنفی:کسی مہذب اور صحت مند ادبی معاشرہ میں تنقید کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور اولیت کا درجہ تخلیق کو حاصل ہوتا ہے۔ مگر ہمارے زمانے کا معجزہ اور بدمذاقی یہ ہوئی کہ اردو ادب کا نقاد اپنے آپ کو جج سمجھنے لگا ۔ کچھ منصف اور کچھ سند بانٹنے والا، کچھ لوگوں کو بنانے اور بگاڑنے والا۔ اس کے علاوہ تنقید کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہوئی کہ ہمارے یہاں تنقید زیادہ تر یونیورسٹیوں میں لکھی گئی ، جہاں لوگ ذہانت اور دیانت داری سے ڈرتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک مخصوص کلچر ہے اور اردو کی تو یوں بھی بہت چھوٹی سی دنیا ہے، جہاں مواقع کم ہیں اور کم مواقع کے لیے رسہ کشی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ جو تنقید کا اکیڈیمک بیک گراؤنڈ ہے اس سے تنقید کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ حالانکہ ماضی قریب میں احتشام حسین، حسن عسکری، آل احمد سرور ، کلیم الدین احمد، خلیل الرحمن اعظمی اور وحید اختر یونیورسٹیوں سے وابستہ تھے اور اچھی تنقید لکھتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب علی: جو لوگ یونیورسٹیوں سے وابستہ نہیں ہیں تو کیا وہ مقابلتاً بہتر تنقید لکھ رہے ہیں؟
پروفیسرشمیم حنفی: میرا توخیال ہے کہ بہتر لکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شمس الرحمن فاروقی ہیں جن کی تنقید سے میں سو فیصدی اتفاق نہیں کرتا۔ بہت رائیں ہیں جن سے مجھے کچھ اختلاف ہے لیکن یہ تو میں بہرحال تسلیم کروں گا کہ شمس الرحمن فاروقی کی تنقید کا جو Range ہے اور جو اس کی ایک خاص طرح کی Sophisticationاور شائستگی ہے وہ ہمارے یہاں کم لوگوں کو میسّر ہے۔ اسی طرح ہمارے یہاں زیادہ تنقید لکھنے والوں میں باقر مہدی ہیں جو پیشہ ور نقاد نہیں ہیں۔ آپ ان کا کوئی مضمون پڑھ لیں تو اس میں ذہانت کاکوئی نہ کوئی نکتہ یا کوئی نئی اور بامعنی چیز آپ کو ضرور ملے گی ۔ فضیل جعفری ہیں جو پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں مگر اچھی تنقید لکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب علی: اردو شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیا ل ہے؟ آج کل شاعری اچھی ہورہی ہے یا نہیں؟
پروفیسرشمیم حنفی:اچھی، بری نہیں، بے چہرہ ہورہی ہے۔ مثلاً ایک شاعر کی غزل آپ نے پڑھی ، اس پر دوسرے کا نام لکھ دیجئے، کوئی نہیں پہچان پائے گا کہ یہ فلاں کی غزل ہے یا فلاں کی نہیں ہے۔ بالکل یہی حال نظم کا بھی ہے، بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنا انفرادی رنگ پیدا کرپاتے ہیں۔ مثلاً اردو شاعری میں آپ عرفان صدیقی کی غزل چھانٹ سکتے ہیں۔ شہریار کی غزل آپ پہچان سکتے ہیں۔ محمد علوی کی غزل ہو یا نظم آپ شناخت کر لیں گے۔ قاضی سلیم کی تخلیقات کو آپ فوراً الگ کرلیں گے۔ کچھ نئے لکھنے والے بھی ہیں جن کے اشعار مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اور انھیں میں پڑھتا ہوں۔ مثال کے طور پر مہتاب حیدر نقوی، فرحت احساس اور خورشید عالم وغیرہ کی غزلیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کیونکہ شاعروں کی بھیڑ میں اپنا رنگ قائم کرنا اور اپنی شناخت متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے بہت لمبی مدت اور ذہانت چاہئے۔
ڈاکٹرصاحب علی: اردو افسانے کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں کچھ بتائیں؟
پروفیسرشمیم حنفی:اردو افسانہ ایک معجزاتی صنف ہے اور یہ ہمیشہ مقبول رہی ہے۔ اس کی ہمارے پاس سوسال پرانی روایت ہے۔ اس عرصے میں بہت سی کہانیاں ایسی لکھی گئی ہیں جو غیر معمولی درجے کی ہیں اگر آپ منشی پریم چند سے دیکھنا شروع کریں تو کرشن چندر، منٹو، بیدی، غلام عباس، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور ان کے بعد کے پورے دور نے جو کمالات دکھائے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے عہد کی پوری بصیرت اور حسّیت کا اظہار زیادہ منظم اور مربوط سطح پر شاعری کی بہ نسبت افسانے یعنی فکشن میں ہواہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہماری زندگی جن تماشوں میں گھری ہوئی ہے اس کی زیادہ مربوط تصویر فکشن ہی میں ابھر سکتی ہے۔ لہٰذا میرا اپنا خیال ہے کہ ہمیں اپنے زمانے کو سمجھنے کے لیے آج کے فکشن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن ادھر جو کچھ اردو افسانے اور ناول تخلیق کئے جارہے ہیں ان کے حوالے سے میں نہیں کہہ سکتا ۔کیونکہ اب ادھر جو بالکل نئے نام آئے ہیں ان کا تاثر بننے دیجئے۔ ان کو سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس معاملے میں عجلت سے نہ ہمیں کام لینا چاہیے نہ ان لوگوں کو لینا چاہیے جو لکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹرصاحب علی:کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مدتوں سے کہانیاں تخلیق کررہے ہیں مگر انھیں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق سمجھے جاتے ہیں جیسے ممبئی میں سلام بن رزاق، انورخان، انورقمر، ساجد رشید اور علی امام نقوی وغیرہ۔
پروفیسرشمیم حنفی:دیکھئے صاحب! میں ممبئی کے افسانہ نگاروں میں سریندر پرکاش کے افسانے پڑھتا ہوںان کا شمار تو اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ سلام بن رزاق، انور خان، انور قمر، ساجد رشید اور علی امام نقوی کی کہانیاں پڑھتا ہوں۔ ان لوگوں نے اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔ لیکن ابھی ایسی کوئی کہانی سامنے نہیں آئی ہے جو اس عہد کا استعارہ بن گئی ہو۔ اس کے لئے شاید ہمیں انتظار کرنا پڑے۔
ڈاکٹرصاحب علی: ڈاکٹر صاحب! اردو شاعری ہندوستان میں اچھی ہورہی ہے یا پاکستان میں؟
پروفیسرشمیم حنفی: اب یہ تو آپ نے جھگڑے کا سوال پوچھ لیا۔ ایک تو اردو کی بہت چھوٹی سی دنیا ہے اور اس میں ہم یہ کہیں کہ شاعری بہار میں اچھی ہورہی ہے یا حیدر آباد میں ، دلی میں اچھی شاعری کی جارہی ہے کہ پنجاب میں، یہ کہنا بڑا مشکل کام ہے۔ لیکن جب میں اپنی پسند کی اچھی نظموں اور غزلوں کے مجموعے اور نئے لکھنے والوں کے ناموں کا شمار کرتا ہوں تو وہ اتفاق سے ہندوستان میں نہیں رہتے، پاکستان میں رہتے ہیں۔ مثلاًسعید الدین کا مجموعہ میں نے دیکھا، مجھے اچھا لگا۔ حارث خلیق کے دو مجموعے سامنے آئے، مجھے بہت اچھے لگے۔ عذرا عباس اور تنویر انجم وغیرہ کی نظمیں آئیں۔ میں نے پڑھا۔ لیکن میرے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کمرے میں تخلیق پائی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب علی: کیا افسانے بھی پاکستان میں اچھے لکھے جارہے ہیں؟
پروفیسرشمیم حنفی:میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ افسانے ہمارے یہاں بہت اچھے لکھے گئے لیکن جن لوگوں نے لکھا وہ Estabslihedہیں۔ اب ان کے قلم سے بھی کوئی نئی چیز نہیں نکل پارہی ہے۔ اگر کوئی نئی بات آپ اپنے افسانے کے ذریعے نہیں کہہ سکتے تو افسانہ نہیں لکھنا چاہیے کیونکہ خاموشی کی بھی قدر ہوتی ہے اور اظہار کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب علی: تنقید نگاری کے تعلق سے آپ کیا فرمائیں گے؟
پروفیسرشمیم حنفی: تنقید ہمارے یہاں بہت اچھی لکھی گئی ہے اور اب بھی لکھی جارہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب علی:اس وقت اردوکے کون کون سے تنقید نگار اچھی تنقید لکھ رہے ہیں۔
پروفیسرشمیم حنفی: صاحب علی صاحب ، آپ کو ناموں سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ بس یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہمارے یہاں تنقید اچھی لکھی جارہی ہے۔
صاحب علی:ناموں سے دلچسپی کا سوال نہیں ہے بلکہ ان کے تنقیدی مضامین سے ہم بھی استفادہ کرنا چاہیں گے۔
شمیم حنفی:میں کچھ دنوں پہلے مظفر علی سید، سید باقر رضوی اور آصف فرخی کے تنقیدی مضامین کو پڑھ رہا تھا وہ مجھے اچھے لگے۔ ابھی میں نے ایک مضمون اجمل کمال کا پڑھا جو بہت اینٹی محمد حسن عسکری مضمون تھا۔’ نقّاد کی خدائی‘ کے نام سے وہ کتاب لکھ رہے ہیں، مجھے بہت اچھا لگا کہ ایک اچھا مضمون سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ مجھے وارث علوی ، باقر مہدی اور فضیل جعفری کے مضامین سے بہت روشنی ملتی ہے۔ مجھے بہت زیادہ اکیڈیمک قسم کی تنقید یا اکیڈیمک قسم کی معلومات سے بھرا ہوا مضمون زیادہ راس نہیں آتا۔
ڈاکٹر صاحب علی: اکیڈیمک سے کیا مراد ہے؟
پروفیسرشمیم حنفی:اکیڈیمک سے مراد یہ ہے کہ جو مکتبی انداز کی چیزیں لکھی جاتی ہیں اگرچہ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اس طرح سے نہیں لکھتا، لیکن مجھے اس کی بجائے کہیں ذہانت کا ، بصیرت کا واقعی اظہار ہوا ہو تو یہ چیزیں مجھے زیادہInspireکرتی ہیں اور ان سے مجھے ایک روشنی ملتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب علی: پروفیسرصاحب! اکابرین اردو کا خیال ہے اردو ادب میں ابھی پوری طرح جدیدیت نہیں آپائی ہے تو پھر مابعد جدیدیت کے کیا معنی ہیں؟
پروفیسرشمیم حنفی: پتہ نہیں صاحب ! مجھے معلوم نہیں کون آیا اور کون نہیں آیااور کس کی جگہ کب خالی ہوگی، مجھے کچھ نہیں پتہ۔ میرے ذہن میں ایک ہی Criteriaبنتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ فن پارہ یا ادب میرے لئے بامعنی ہے جس سے میں اپنے احساسات کا رشتہ قائم کرپاتا ہوں ۔ وہ ادب چاہے دو سو سال پہلے لکھا گیا ہو یا پانچ سوسال پہلے۔ اس سے مجھے کوئی مطلب نہیں۔ ہمارے زمانے میں بہت سے لکھنے والوں کی تحریریں ایسی ہیں جن سے میرے احساسات کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوپاتا۔ میرے شعور میں ان کی کوئی جگہ نہیں بنتی اور وہ میرے لیے غیر اہم ہیں۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ہمیں Theoriesکے پیچھے بہت نہیں بھاگنا چاہئے اس لیے کہ یہ ایک طرح کی غیر تخلیقی سرگرمی ہے، جس کا براہ راست ادب سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ تنقیدی اصول ادب کو پرکھنے کا ایک معیار فراہم کرتا ہے ، ہمیں اسے پڑھنا چاہئے اور اس سے مدد لینی چاہئے، لیکن یہ کہ اعلیٰ ادب اس کی مدد سے لکھا جاسکتا ہے اس کی کوئی ضمانت نہیں۔
ڈاکٹر صاحب علی:کیا ادب سے کوئی غیر معمولی سماجی رول ادا کیا جاسکتا ہے؟
پروفیسرشمیم حنفی: ادب زندگی کا ایک چراغ ہے جو اندھیرے میں جلتا رہتا ہے۔ یہ اندھیرے کو دور تو نہیں کرسکتا البتہ اندھیرے کو جھیلنے کی طاقت ہمارے اندر پیدا کردیتا ہے۔ کم از کم میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ ادب سے کوئی سماجی رول ادا کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب علی:کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ اردو کا رسم الخط بدل کر دیو ناگری کر دیا جائے تو یہ زبان زیادہ پھولے پھلے گی اس تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے ؟
پروفیسرشمیم حنفی:دیکھئے جناب !یہ تو بہت شا طرانہ بات ہے کہ رسم الخط بدل دیجئے ۔ایک زمانے میں عصمت آپانے یہ بات کہی تھی ۔علی سردارؔ جعفری اور مجروحؔ سلطان پوری کا بھی یہی خیال تھا۔اس پر بڑی بحثیں ہوئی تھیں ۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ رسم الخط کوئی قمیص نہیں ہے کہ جب جی چاہا ایک اتار کر پھینکی اور دوسری پہن لی ۔رسم الخط انسان کی قمیص نہیں بلکہ اس کی جلد ہے اور اس کو اتار کر نہیں پھینک سکتے ۔
ڈاکٹر صاحب علی:آپ شاعری اچھی کرتے ہیں مگر ابھی تک آپ کا کوئی شعری مجموعہ نہیں آیا؟
پروفیسرشمیم حنفی:صاحب علی صاحب !دیکھئے میں شاعری اچھی کرتا ہوں یا نہیں یہ تو مجھے معلوم نہیں ۔ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ لہریں جب اٹھتی ہیں تو کبھی غزل کہنے لگے اور کبھی جی چاہا تو ڈارامہ لکھ لیا ۔میری ایسی صلاحیت نہیں ہے کہ میں کسی فن میں کمال حاصل کر سکوں بس یہ ہے کہ شعر کہتا ہوں کوئی مجموعہ نہیں چھپاہے اور نہ میرا کوئی ارادہ ہے ۔
ڈاکٹر صاحب علی:آپ نے ڈرامے خوب لکھے ہیں اور ڈراموں کے مجموعے بھی چھپے ہیں ۔بتایئے اب تک آپ کے کتنے مجموعے چھپ چکے ہیں ؟
پروفیسرشمیم حنفی: میرے ڈراموں کے اب تک چار مجموعے ’’مٹّی کا بلاوا ‘‘،’’زندگی کی طرف ‘‘،’’مجھے گھر یاد آتا ہے ‘‘اور ’’بازار میں نیم ‘‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔’’مٹّی کابلاوا‘‘کئی یونیور سٹیوں کے نصاب میں شامل ہے ۔
ڈاکٹر صاحب علی: کیا آپ کا کوئی فل لینتھ ڈرامہ بھی ہے ؟
پروفیسرشمیم حنفی: میں نے ریڈیو کے لئے بڑے ڈرامے لکھے ہیں اور فل لینتھ بھی لکھے ہیں اور میرے بہت سے ریڈیائی ڈرامے ایسے بھی ہیں جن کو طلبہ نے یا کسی کسی گروپ نے تھوڑی بہت تبدیلی کر کے اسٹیج بھی کیا ہے ،لیکن ابھی تک میں نے کوئی بڑ ا ڈراما نہیں لکھا ہے ۔البتہ آج کل ایک ڈراما ’’حویلی ‘‘کے نام سے لکھ رہا ہوں جو فل لینتھ ڈراما ہے ۔
ڈاکٹر صاحب علی:ڈراما ’’حویلی ‘‘کے پلاٹ کے بارے میں کچھ بتایئے ؟
پروفیسرشمیم حنفی:یہ ایک تہذیبی ڈراما ہے اور اس کا سیدھا سا ایک پلاٹ ہے کہ ایک خاندان ہے اس کی دو شاخیں ہیں ان کی مشترکہ جائیداد ایک پرانی حویلی ہے ۔ اس حویلی کے لئے خاندان میں جھگڑا ہے ۔میں باقی باتیں ابھی نہیں بتاؤں گا جب ڈراما چھپے گا تو پڑھ لینا۔
ڈاکٹر صاحب علی: موجودہ دور میں اردو ڈرامے کی معنویت کیا ہے؟
پروفیسرشمیم حنفی:ڈرامے کا زندگی کی حقیقتوں سے اور جوہم زندگی گزار رہے ہیں اس کے معمولات سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ہمارے یہاں ڈرامے کی بڑی شاندار روایت قائم رہی ہے۔ پارسی تھیٹر سے لے کر بیسویں صدی کے نصف اوّل تک اچھی روایت ملتی ہے، لیکن آجکل ڈراموں کی طرف سے ہماری توجہ ہٹ گئی ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ آج کے زمانے کے واقعات اور روز مرّہ زندگی کے مسائل کے بیان کے لیے ڈراما ایک طاقتور صنف بن سکتا ہے لیکن ڈراما لکھنے کے لیے جس خاص قسم کی بصیرت اور حسیّت چاہئے وہ ہمارے یہاں اب عام نہیں رہی۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو والوں کو اپنی کھوئی دولت سے دوبارہ رشتہ قائم کرنا چاہئے اگرچہ فلم اور ٹی وی راہ میں حائل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب علی: ہمارے ملک میں اردو کی صورتِ حال کیسی ہے؟
پروفیسرشمیم حنفی:افسوس ناک ہے۔ اردو زبان کے تعلق سے جو آرائشی قسم کی باتیں کہی جارہی ہیں کہ صاحب ! اردو کے اتنے ادارے قائم ہیں۔ اتنی اردو اکاڈمیاں ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان اداروں اوراردو اکاڈمیوں میں ہوتا کیا ہے؟ کیا اردو زبان کی بقا اور تحفظ کا دار و مدار آئے دن کے جلسوں اور تماشوں پر ہے؟ یہ سب Public Relationکے اڈّے ہیں۔ اردو دفاتر میں اب تو ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ملتے ہیں جن کو اردو لکھنا پڑھنا تک نہیں آتا۔ تو سوال یہ ہے کہ اردو کی پرورش کے کیا یہی طریقے ہیں؟ بورڈ قائم کرلیجئے ، ادارے قائم کرلیجئے۔ لیکن بہر حال ناشکرا بھی نہیں ہونا چاہئے اگر وہ بھی کچھ نہ کرتے تو ہم کیا کرسکتے تھے۔ ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔اردو زبان کی ترقی کے تعلق سے اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ جنوبی ہندوستان میں اردو کے ساتھ وہ برا سلوک نہیں کیا جارہا ہے جو شمالی ہندوستان میں کیا جارہاہے۔ آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں اردو کی صورتِ حال شمالی ہند کے مقابلے میں بہتر ہے اور سو بات کی ایک بات یہ کہ اردو والے خود بھی اپنی زبان کے تعلق سے سنجیدہ نہیں دکھائی دیتے۔
ڈاکٹر صاحب علی:پروفیسر صاحب! ایک آخری سوال اور ہے کہ صارفیت کے معاشرے میں ادب اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا؟ کیا قلمکار کی تخلیق میں اتنی قوت اور کشش باقی رہ جائے گی کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے؟
پروفیسرشمیم حنفی:صاحب علی صاحب! یہ صحیح ہے کہ صارفیت کے معاشرے نے ہر چیز کو ایک مادّی شئے میں تبدیل کردیا ہے۔ مرتبہ ،عہدہ ایک شئے ہے، شہرت ایک شئے ہے۔ یعنی ہر چیز کو آپ مادّی چیزوں میں منتقل کرسکتے ہیں۔ شہرت ہے تو آپ پیسے زیادہ کما سکتے ہیں۔ عہدہ زیادہ بلند ہے تو آپ بہت سارے فائدے اٹھا سکتے ہیں۔ بنگلے بنوا سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں قلمکار کا جو رول ہوا کرتا تھا اور جس سے معاشرے میں ایک خاص طرح کی پاکیزگی بھی منسوب کی جاتی تھی وہ رول تو اب قلمکار کا رہا نہیں ____پھر بھی چھپے ہوئے لفظ میں ایک جادو ہوتا ہے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ دنیا چاہے جتنی ترقی کرلے، مگر جب تک انسان کے اندر تخلیق قوت باقی رہے گی تب تک ادب باقی رہے گا اور ادب کا احترام کیا جاتا رہے گا۔
٭٭٭
Novel Rajdhani Express by Dr. Saleem Khan
Articles
راجدھانی ایکسپریس
ڈکٹر سلیم خان
Shaad Shanasi by Feroz Muzaffar
Articles
شاد شناسی
انجینئر فیروز مظفر
Aain E Tabeer
Articles
آئینہِ تعبیر
ڈاکٹر محبوب ثاقب