Urdu Channel, Issue No. 02
Articles
Azaan : Translation of Contemporary Marathi Stories
Articles
اذان( عصری مراٹھی کہانیوں کے تراجم)
قاسم ندیم
Ghalib by Kalidas Gupta Raza
Articles
غالب ( مختصر حالات اور انتخابِ کلام مع شرح)
کالی داس گپتا رضا
Shorish E Fikr by Dr. Sarwat Khan
Articles
شورشِ فکر
ثروت خان
Sau Takalluf
Articles
سو تکلف
سو تکلف
My Journey by Rajindar Singh Bedi
Articles
افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل
راجندر سنگھ بیدی
میں معافی چاہوں گا کہ اس مضمون کو لکھنے کے لیے مجھے اپنی ذات سے ہوکر گزرنا پڑرہا ہے۔ آپ اس لیے بھی درگذر کریں گے کہ اتنی بڑی مخلوق کی میں بھی اکائی ہوں ایک،لہٰذا سب کو سمجھنے کے لیے میری نزدیک یہ ضروری ہے کہ پہلے میں اپنے آپ سے سمجھ لوں۔
افسانوی تجربہ کیا ہے؟ مجھے افسانہ سازی کی لت کیسے پڑھی؟ اگر یہ مجھے اور میرے کچھ دوستوں کو پڑی، تو باقی دوسروں کو کیوں نہیں پڑی؟ کیوں نہیں میں کسی فرنانڈس کی طرح گرجے کے سامنے بیٹھا موم بتیاں بیچتا؟
فن کسی شخص میں سوتے کی طرح نہیں پھوٹ نکلتا۔ ایسا نہیں کہ آج رات کو آپ سوئیں گے اور صبح فن کار ہوکر جاگیں گے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں آدمی پیدائشی طور پر فن کار ہے، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے، کہ اس میں صلاحیتیں ہیں، جن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ چاہے وہ اسے جبلت میں ملیں اور یا وہ ریاضت سے ان کا اکتساب کرے، پہلی تو یہ کہ وہ ہر بات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محسوس کرتا ہو، جس کے لیے ایک طرف تو وہ داد تحسین پائے اور دوسری طرف ایسے دکھ اٹھائے، جیسے کہ اس کے بدن پر سے کھال کھینچ لی گئی ہو اور اسے نمک کی کھان سے گزرنا پڑرہا ہو۔ دوسری صلاحیت یہ کہ اس کے کام و دہن اس چرند کی طرح ہو جو منھ چلانے میں خوراک کو ریت اور مٹی سے الگ کرسکے۔ پھر یہ خیال اس کے دل کے کسی کونے میں نہ آئے گا کہ گھاسلیٹ یا بجلی کا زیادہ خرچ ہوگیا۔ یا کاغذ کے ریم کے ریم ضائع ہوگئے۔ وہ جانتا ہو کہ قدرت کے کسی بنیادی قانون کے تحت کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ پھر وہ ڈھیٹ ایسا ہو کہ نقش ثانی کو ہمیشہ نقش اول پر فوقیت دے سکے۔ پھر اپنے فن سے پرے کی باتوں پہ کان دھرے۔ مثلاً موسیقی، اور جان پائے کہ استاد آج کیوں سُر کی تلاش میں بہت دور نکل گیا ہے۔ مصوری کے لیے نگاہ رکھے اور سمجھے کہ وشی واشی میں خطوط کیسی رعنائی اورتوانائی سے ابھرے ہیں۔ اگر یہ ساری صلاحتیں اس میں ہو تو آخر میں ایک معمولی سی بات رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جس ایڈیٹر نے اس کا افسانہ لوٹا دیا ہے، گدھا ہے!
اس کے بعد کوئی بھی چیز افسانے کے عمل کو چھیڑ Trigger ofکرسکتی ہے۔ مثلاً کوئی راہ جاتا اس کی پگڑی اچھال دے، یا کوئی ایسا حادثہ پیش آئے جس پہ اس غریب کا کوئی بس نہ ہو اور جو اسے بے سلامتی کا شکار کردے اور وہ اپنے آپ میں ٹھان لے کہ مجھے اس بے تعاون ، بے رحم دنیا میں کہیں جگہ پانا ہے کچھ بن کے دکھانا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک آدمی خطرے سے دوچار نہیں ہوتا اس میں مدافعت کی وہ قوتیں نہیں ابھرتیں، قدرت کے پاس جن کا بہت بڑا خزانہ ہے۔
نوعمری میں یہ سب باتیں میرے ساتھ ہوئیں اور مجھے یقین ہے کہ تھوڑے سے یا زیادہ فرق کے ساتھ دوسرے فن کاروں پر بھی بیتی ہوں گی۔ اکثر لوگوں کو حادثے پیش آتے ہیں اور وہ گوناگوں مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ وہ فن کے راستے پر سے ہوکر گزرنے کی بجائے کسی اور طرف مڑ لیے۔ صد ہرجا کہ نشیند ، صد راست۔ انھوں نے یا تو اپنے مخصوص کام میں جھنڈے گاڑے اور یا تھک ہار کر جنت کو سدھارے۔ گویا بے عزتی اور پے درپے حادثوں کے بعد کچھ کرنے، بن کر دکھانے کے سلسلے میں اپنے ملک کے ہر اردو داں نوجوان کی طرح غزل کہنے کی کوشش کی، لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ کیوں کہ چھوٹی عمر ہی میں میری شادی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ میری بات سمجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی معشوق میرے سامنے تھا ہی نہیں۔ اگر تھا تو مجھے بچہ سمجھ کر ٹال جاتا تھا۔ اگر وہ رکے تو میری بیوی جوتا پکڑ کر اسے ہنکا دیتی تھی۔ میں نے تو یہ پڑھ رکھا تھا کہ عشق پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔اس لیے میں چپکے سے بیٹھا اس کا انتظار کرتا اور کرتا ہی رہ گیا۔ میں نے ہجر و وصال، وفا و بے وفائی، رقیب و مستحب کے مضمون شاعروں کے تتبع میں باندھے، مگر وہ سب مجھے جھوٹے اور کھوکھلے لگتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مستحب تو میں خود ہوں۔ رقیب روسیاہ کی کیا مجال جو میرے گھر کے پاس پھٹکے۔ یہ تو شادی کے ان لکھے معاہدے کی دوسری مد ہے، جس کی رو سے اگر رقیب کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ حوالات تو بھجوایا جاسکتا ہے۔ بہت کم لوگ جو فیض کی طرح رقیب کے ساتھ رشتہ پیدا کرسکتے ہیں اور اس کے افادی پہلوسے واقف ہیں۔ گویا زندگی شعر کے سلسلے میں جو بھی تعلیم دیتی ہے، میں اس میں کورا ہی رہا۔ اس کے برعکس میڈم زندگی نے تلافی مافات میں مجھے دوسرے مسئلے دے دئیے۔ مثلاً خانہ داری کے مسئلے ، روزگار کے مسئلے جو کسی طرح بھی عشق کے مسائل سے کم نہ تھے۔ حالات میں ایسا جمود پیدا کردیا اور بدن میں ایسی کپکپی کہ لاہور کے لنڈے بازار سے خریدا ہوا مرانجا مرانج پرانا پھٹا کوٹ بھی مجھے نہ بچا سکا۔
بس، بہت ہولی۔ اب میں اپنی بات بند کرتا ہوں، کیوں کہ ’’گرم کوٹ‘‘ کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا اور کیا نہ ہوا، یہ کچھ لوگ جانتے ہیں، بلکہ کیا نہیں ہوا کے بارے میں انھیں مجھ سے زیادہ واقفیت ہے۔
افسانے اور شعر میں کوئی فرق نہیں۔ ہے تو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ ایک لمبی اور مسلسل بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بحیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔ پھر شعر با۔الخصوص غزل میں آپ عورت سے مخاطب ہیں لیکن افسانے میں کوئی ایسی قباحت نہیں۔ آپ مرد سے بھی بات کررہے ہیں۔ اس لیے زبان کا اتنا رکھ رکھاؤ نہیں۔ غزل کا شعر کسی کھردرے پن کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن افسانہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کی وجہ سے اس میں کھردرا پن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیز ہوسکے۔ دنیا میں حسین عورت کے لیے جگہ ہے تو اکھڑ مرد کے لیے بھی ہے، جو اپنے اکھڑپن ہی کی وجہ سے صنف نازک کو مرغوب ہے۔ فیصلہ اگرچہ عورت پہ نہیں ، مگر وہ بھی کسی ایسے مرد کو پسند نہیں کرتی جو نقل میں بھی اس کی چال چلے۔ ہمارے نقادوں نے افسانے کو داد بھی دی تو نظم کے راستے سے ہوکر، نثر کی راہ سے نہیں، جس سے اچھے اچھے افسانہ نگاروں کی ریل پٹری سے اتر گئی اور جن کی نہیں اتری تھی، ایسی توصیف سے متاثر ہوکر انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی لائن کے نٹ بولٹ ڈھیلے کرلیے۔
یہ بات طے ہے کہ افسانے کا فن زیادہ ریاضت اور ڈسپلن مانگتا ہے۔ آخر اتنی لمبی اور مسلسل بحر سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہت سی صلاحیتیں اور قوتیں تو ہونی چاہئیں ہی۔ باقی کی اصناف ادب، جن میں ناول بھی شامل ہے، کی طرف جزواً جزواً توجہ دی جاسکتی ہے لیکن افسانے میں جزو کل کو ایک ساتھ رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا ہراول اور آخری دستہ مل کر نہ بڑھیں تو یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ شروع سے ہی لے کر آخر تک لکھ لینے کے بعدپھر آپ ایک لفظ بڑھانے یا دو فقرے کاٹ دینے ہی کے لیے لوٹ سکتے ہیں۔ رد و اضافے کی یہ نسبت میں نے بے خیالی میں قائم نہیں کی۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ افسانے میں ایراد اضافے سے زیادہ ضروری ہے۔ آپ کو ان چیزوں کو قلم زد کرنا ہی ہوگا جو بجائے خود خوبصورت ہوں اور مجموعی تاثر کو زائل کردیں ا ور یا مرکزی خیال سے پرے لے جائیں۔
اب میں ایک چونکا دینے والی بات کرنے جارہا ہوں اور وہ یہ کہ اردو زبان نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ افسانے کے فن لطیف کو اس طریقے سے سمجھ سکے یا قبول کرسکے، جیسے سمجھنا یا قبول کرنا چاہیے۔ میری اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ پیچھے مڑ کر دیکھئے کہ ہر آن آپ نے ڈکشن پر کچھ زیادہ ہی زور دیا ہے۔ اس عمل کا گراف بنایا جائے تو وہ میرؔ، انیسؔ، اور غالبؔ کے بعد نیچے ہی آتا ہوا دکھائی دے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ’فسانۂ آزاد ‘‘ کو افسانہ یا ناول ہی سمجھ کر پڑھا۔ ہم نے اس کا مقابلہ Vanity Fairسے کیا ہے۔ ہم نے آغا حشر کو ہندوستانی شیکسپیئر بھی کہا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ہم نے دونوں میں سے کسی ایک کو نہیں پڑھا اور اگر پڑھا تو فرق کو نہیں سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ پونا فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں ممتحن کی حیثیت سے جب میں نے ایک امیدوار سے سوال کیا…آپ کو کون سے مصنف پسند ہیں تو اس نے آنکھ جھپکے بغیر جواب دیا۔ ’’مجھے تو دو ہی پسند ہیں سر، گلشن نندہ اور شیکسپیئر!‘‘
کبھی ’’ہمایوں ‘‘ اور’ ادبی دنیا‘ کے پرچے فیاض محمود اور عاشق بٹالوی کی توصیف میں کالے تھے اور آج ہم ہی افسانے کی تاریخ میں ان بے چاروں کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ہم نے افسانے میں زور بیان کو اس قدر سراہا ہے کہ ادب تو ایک طرف خود ادیب کو نقصان پہنچایا ہے۔ افسانے میں اظہار کے تخلیقی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ گریز کا ہے۔ لیکن ہمارے شغف ناآشنا کان ،گریز کو معجز بیان کا نام دیتے ہیں۔ ہم ابھی تک داستان گوئی، فلسفہ رانی اور تخلیقی واقعات کو آج یا کل کے کرداروںکی معرفت پیش کردئیے جانے پر سردسھنتے ہیں۔ سردھننے سے مجھے کچھ کد نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ تو ہم کچھ بھی کرکے دھنیں گے ہی کہ ہماری عادت ثانیہ ہوچکی ہے۔ مگر تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب ہم خطیب، مؤرّخ اور فلسفہ بردار ہی کو افسانہ نگار کا نام دیتے ہیں۔
افسانہ کوئی سودیشی Indigenousشے نہیں۔ ہم نے جاتک کہانیاں لکھیں، کتھا ساگر لکھی اور ہم سے لوگ انھیں مغرب لے گئے جہاں انھوں نے کہانی کو فن بنادیا۔ ہیئت میں بے شمار تجربے کیے، جن سے استفادہ کرنے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہے۔ افسانے کے فن کو چھوڑئیے، کسی بھی فن کو جانچنے پرکھنے کے لیے عالمی پیمانے پر اسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی علاحدگی (Isolation)نہیں ہے۔ ملکوں اور قوموں کی حدیں نہیں ہیں۔ بشرطیکہ آپ منٹو کو موپساں اور مجھے چیخوف کے نام سے نہ پکارنے لگیں۔ حالانکہ یہ ممکن ہے کہ میں خود کو کاوا باٹا کہلوانا پسند کروں۔ آپ کو کیسا لگے اگر میں کہوں کہ رام لال اور جوگندر پال ہندوستان کے ہیزش بوہل ہیں اور قرۃ العین حیدر ،ہان سویان! مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ بشرطیکہ ہان سویان کے ہم وطن اسے اپنے دیس کی قرۃ العین حیدر کہیں۔
عجیب دھاندلی ہے نا ۔ معلوم ہوتا ہے اردو اسم بامسمّیٰ ہوتی جارہی ہے۔ ہیزش بوہل کا ایک جج کردار یہ کہتا ہے:
’’…ایسے مقدمے میں انصاف قسم کی کوئی چیز ہی نہیں کیوں کہ ملزم اس کا تقاضا ہی نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی آمریت ہے جس میں انفرادی اظہار اور اخلاقی سہوزمانی (Anachronetic)بات ہے…‘‘
مذکورہ ریاضت اور عالمی پیمانے پہ گردوپیش کی آگہی کے بعد ہی افسانے پر عبور حاصل ہوتا ہے اور جب یہ بات ہوجاتی ہے تو افسانہ لکھنے والے کے اضطرار (Reflexes) کا حصہ ہوجاتا ہے۔ نہ صرف آپ کی بے ارادہ بات سے افسانے کا مواد مل سکتا ہے بلکہ ہر موڑ، ہر نکڑ پہ افسانے بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور وہ تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں سمیٹتے ہوئے افسانہ نگار کے ہاتھ قلم ہوجائیں۔ بہرحال افسانوی تجربے پر عبور حاصل ہوجانے کے بعد افسانہ نگار کو یونان کے اساطیری کردارمی ڈاس کا وہ لمس مل جاتا ہے جس سے ہر بات سونا ہوجاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہندوستان کا افسانہ نگار سونے کو بھی چھوتا ہے تو وہ افسانہ ہوجاتا ہے۔ گھبراہٹ کی بات اس لیے نہیں کہ اتنا سونا پاکر می ڈاس بھی بھوکا مرا تھا۔
افسانہ لکھنے کے عمل میں بھولنا اور یاد رکھنا دونوں عمل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے بڑی بڑی ڈگریوں والے…پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ اچھا افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ کیوں کہ انھیں بھول نہ سکنے کی بیماری ہے۔ میں ایک دماغی تساہل کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ جسے منٹو نے میرے نام ایک خط میں لکھا…’بیدی، تمھاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو،لکھتے ہوئے سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ منٹو کا مطلب ہے۔ میری کہانیوں میں کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہے۔ مگر میں کیا کرتا؟ ایک طرف مجھے فن اور دوسری طرف زبان سے لوہا لینا تھا ۔ اہل زبان اس قدر بے مروّت نکلے کہ انھوں نے اقبال کا بھی لحاظ نہ کیا۔ کسی سے پوچھا آپ اقبال سے ملے تو کیا بات ہوئی۔ بولے، کچھ نہیں، میں ’جی ہاں جی ہاں ‘ کہتا رہا اور وہ ’ہاں جی ہاں جی ‘ کہتے رہے۔ اب کے حالات میں نسبتاً آسانی ہے کیوں کہ سند کے لیے ہمیں کہیں دور نہیں جانا ہے۔ پرسوں ہی ڈاکٹر نارنگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں ایک تحریک چلی ہے جو شوکت صدیقی جیسے ادیبوں کی پورب سے آئی زبان کو ٹکسالی نہیں مانتی۔ بہرحال میں نے منٹو کی تنقید سے فائدہ اٹھایا اور دھیرے دھیرے اپنی کہانی سے ہاتھ کو مار بھگایا۔ لیکن اس کا کیا کروں کہ وہ ادھر ادھر سے ہوکر پھر رونما ہوجاتا ہے۔ وہ بے ادائی کی ادا جس کی طرف منٹو نے اشارہ کیا میرکے الفاظ میں خاک ہی میں مل کر میسّر آتی ہے لیکن یہی بے ادائی اور قلم برداشتگی جہاں منٹو اور کرشن چندر میں مزہ پیدا کرتی تھی، وہیں بدمزگی بھی۔ منٹو کی تنقید کی وجہ سے میری حالت اس عورت کی سی تھی جو مقبوض اور تاراج بھی ہونا چاہتی ہے اور پھر اس کا بدلہ لینا بھی۔ جب میں نے منٹو کے کچھ افسانے میں لاابالی پن دیکھا تو انھیں لکھا…’’منٹو تم میں ایک بری بات ہے اور وہ یہ تم لکھنے سے پہلے سوچتے ہو اور نہ لکھتے وقت سوچتے اور نہ لکھنے کے بعد سوچتے ہو۔‘‘
اس کے بعد منٹو اور مجھ میں خط و کتابت بند ہوگی۔ بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے میری تنقیدکا اتنا بر انہیں مانا جتنا اس بات کا کہ میں لکھوں گا خاک، جب کہ شادی سے پرے مجھے کسی بات کا تجربہ ہی نہیں۔ اس پہ طرفہ یہ کہ میں نہ صرف بھینس کا دودھ پیتا ہوں بلکہ اسے پال بھی رکھا ہے۔ میں انھیں کیسے بتاتا کہ اگر اونٹ کا رشتہ مسلمان سے ہے۔ گائے کا ہندو سے، تو سکھ کا بھی کسی سے ہوسکتا ہے۔
افسانہ ایک شعور، ایک احساس ہے، جو کسی میں پید انہیں کیا جاسکتا۔ اسے محنت سے تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن حاصل کرنے کے بعد بھی آدمی دست بہ دعا ہی رہتا ہے۔ کچھ وافر باتیں سوئے ہضم کی وجہ سے بھی اس میں آجاتی ہیں اور کچھ ذہنی فتور سے…تسکین کی بات صرف اتنی ہے کہ افسانہ ابھی ہمارے ہاتھ سے نکل کر ایڈیٹر کے ہاتھ نہیں پہنچا۔ ہم اس میں ایرادو اضافہ کرسکتے ہیں اور اس پر بات نہ بنے تو پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ اگر ہیمنگ وے پانچ سو صفحے لکھ کر ان میں سے صرف چھیانوے صفحے کا مواد نکال سکتا ہے، تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
اُردو میں بہت عمدہ افسانے لکھے گئے ہیں۔اگر ان کی تعداد گنی چنی ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تقاضے پورا کرنے میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ایمان ہاتھ سے جارہا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اہم اپنے ہی امیج میں قیدی ہوکر رہ ئے ہیں۔
مشمولہ: ممبئی کے ساہتیہ اکاڈمی انعام یافتگان، مرتب :پروفیسر صاحب علی ، صفحہ نمبر 97تا 104
Baqyat E Kausar
Articles
باقیاتِ کوثر
قاضی گل مینا کمال احمد
Bedi Aur Aik Chadar Maili Si
Articles
راجندر سنگھ بیدی اور ایک چادر میلی سی
ڈاکٹر عبد الحق عشرت
A Study of Sufi Poetry in Marathi Literature
Articles
مراٹھی ادب میں صوفیانہ شاعری
ڈاکٹر عبد اللہ امتیاز
My Poetry by Akhtarul Iman
Articles
میری شاعری
اختر الایمان
میری عادت ہے جب نظم ہو جاتی ہے اسے رکھ دیتا ہوں اور اتنے دن رکھا رہنے دیتا ہوں کہ نظم ذہن سے محو ہوجائے ۔نظر ثانی کرتے وقت اکثر اوقات نظم کا اچھا برا سامنے آجاتا ہے پھر بھی یہ کوئی قاعدہ یا کلیہ نہیں۔میں نے یہ عادت اس لیے اختیار کی کہ شاعری پر کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی تھی نہ کوئی مشورہ کیا تھا۔جس طرح کا مزاج تھا اس میں استادی شاگردی والا ڈھرّہ چل بھی نہیں سکتا تھا ۔شاعری شروع کی تھی لونڈے پن میں۔رکان تھی مصرع موزوں کرنے کی مگر جب کچھ دوستوں اور بزرگوں نے کہا تمہارے اندر شاعر بننے کی صلاحیت ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کیا۔شاعری کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے سمجھنے کے لیے کافی ریاض کیا۔کچھ ایسے بے لاگ بات کرنے والے دوست اور ساتھی بھی مل گئے جو مجھے پسند تھے اور گاڑی دھیرے دھیرے ڈھرّے پر آگئی۔
ڈھرے کا یہ مطلب نہ نکالیے کہ مہاتما بدھ کی طرح کسی پیڑ کے نیچے القا یا الہام ہوا۔کہنے سے مراد ہے مجھے کس طرح کا شاعرانہ رویہ پسند ہے،اور اسے اختیار کرنے کی سبیل کیا ہو،اس کا ایک دھندلا ساراستہ دکھائی دیا۔ہر دور کی تخلیق اور احتساب، پیش رو‘بڑے لکھنے والوں کی تخلیقات کو ذہن میں رکھ کر کیا جاتا ہے ۔سامنے غزل کی بڑی شاعری تھی۔پھر مسدس سریلے بول اور غالبؔ کو از سر نو روشناس کرانے والے لوگ۔
یہ درست ہے لکھنے کے بہت ابتدائی دور میں شاعرکو اتنا شعور نہیں ہوتا کہ چیزوں کی بہت چھان پھٹک کرے مگر غیر شعوری ہوتے ہوئے بھی فن کا ایک معیار تو ذہن میں ہوتا ہے۔ راستہ دھندلا ہوتا ہے پھر بھی کوئی یہ تو نہیں چاہتا کہ کوشش رائیگاں جائے۔تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہیے والا بھی ایک راستہ ہے مگر میرے ذہن میں وہ نہیں تھا۔
آج کل کے چل چلاؤ کے زمانے میں اچھے خاصے معقول حضرات بھی ایک الجھن کا حل دوسری الجھن کی صورت میں پیش کردیتے ہیں۔شاید سوچتے ہیں کون جھنجٹ میں پڑے۔ کسی نے پوچھا آسمان پر کتنے ستارے ہیں جواب دیا سمندر میں جتنے قطرے ہیں ۔اب چاہے راتوں کو بیٹھے آسمان تکا کیجئے چاہے سمندر میں غوطہ لگائیے اس سے انہیں کچھ مطلب نہیں۔ جدید اردو شاعری کا بھی کچھ ایسا ہی حال دکھائی دیتا ہے۔اس خواب کو بھی کثرت تعبیر کرنے پر پریشان کردیا ہے۔گنبد میں ہر کوئی اپنی سی کہے جاتا ہے اور ہر نئے آنے والے کی تعمیر یا (تخریب)الجھنوں میں اضافہ کردیتی ہے، اور نقصان میں رہتے ہیں شعر و شاعری سے لطف اٹھانے والے یا ان سے بھی زیادہ خود شاعری۔مختصر یہ کہ جدید اردو شاعری کے تصوّر کو بعض لوگوں نے جان بوجھ کر انجانے میں ایک گورکھ دھندابنادیا ہے۔اور یوں وہ اکثر لوگوں کے لیے بھول بھلیاں بن کر رہ گئی ہے۔ایسی صورت حال کے ہوتے ہوئے وہی لوگ فائدہ میں رہ سکتے ہیں جو اپنی عینک میں صحیح نمبر کا شیشہ لگا کر دیکھنے کی کوشش کریں۔
جدید اردو شاعری ایک ایسی پھلواری ہے جس کی زمین تو حالیؔ، اسماعیل ،آزاد اور ان کے دوسرے ہم خیالوں نے تیار کی تھی لیکن اس میں سب سے پہلا خوشنما اور بارآور پودا عظمت اللہ اور بجنوری ؔنے لگایا تھا۔اپنے وسیع مفہوم کے لحاظ سے جدید اردو شاعری کا اطلاق حالیؔ اور اس کے بعد کی شاعری پر کیا جاسکتا ہے مگر آج اضافی ادب خصوصاً مغربی ادب کے مطالعے کے اثرات سے ہمارے جو نئے شاعر پیدا ہوئے ہیں ان کے صحیح پیش رو میری نظر میں عظمتؔ اللہ اور بجنوریؔ ہیں۔گذشتہ دس پندرہ سال کی اردو شاعری میں فن اور خیال کے تمام تجربات شجرے کے لحاظ سے انہیں کے ذیل میں آئیں گے ۔عظمت اللہ خاں نے ’’سریلے بول‘‘کے آغازمیں نئی پود کے نام اپنے کلام کاانتساب یوں کیا۔
’’اس آنے والی پود کے لیے جس کے ہونٹوں پر ابھی ماں کے دودھ کا مزہ کچھ یونہی سا باقی ہے۔جس کی آواز میں ابھی لڑکپن کا سریلا پن گونج رہا ہے یہ چند lyric نظمیں سوغات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔اس پود کے پھولنے پھلنے کے بعد بڑا کام یہ ہوگا کہ اس کی نغمہ سرائی سے اردو شاعری فطرت کی طرح وسیع ہوجائے اور فطرت ہی کی طرح گونج اٹھے۔اگر ان چند بولوں سے اس پود کو اردو ادب کا ایک نیا دور طلوع کرنے میں ذرا بھی مدد ملی تو گویا ان ناچیز۔چیزوں کا صلہ مل گیا۔‘‘
یہ اس شاعر کے الفاظ ہیں جسے اپنے اوپر اعتماد تھا۔اس اعتماد کی تائید اس نئے دور نے زیادہ سے زیادہ زور دار الفاظ میں کی ہے جو اردو شاعری میں طلوع ہوچکا ہے لیکن اس نئے دور میں اپنے پیشرو کے ہم نوا اس کے جیسے اعتماد کے حامل نہیں ہیں۔چاہے آزاد نظم اور دوسرے ضمنی تجربات ہوں چاہے جنسی موضوعات اور چاہے سیاسی عقائد اور خیالات۔ہر ایک کے حامیوں کی ہستی کچھ برسبیل تذکرہ ہی دکھائی دیتی ہے۔یہ تسلیم کہ شروع میں صرف قدامت پرستی اور محض بے علمی یا جہالت کی جس مخالفت سے سامنا پڑا تھا وہ اب دور ہوچکی ہے یا کم سے کم دب سی گئی ہے ۔مگر اس کی جگہ اب آنے والوں کی باہمی غلط فہمیوں نے لے لی ہے۔ادب برائے ادب کا مقولہ تو اب ایک پرانی سی بات ہے اس کا نعم البدل ادب برائے زندگی کی صورت میں نمودار ہواتھا۔اس کی چھان پھٹک کے بعد اب جو صورت مجھے دکھائی دیتی ہے اسے دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک وہ لوگ جو زندگی برائے زندگی کے قائل معلوم ہوتے ہیں اس گروہ کی سطحیت ہی انہیں درخور اعتنانہ سمجھنے کا جواز ہے۔دوسرے گروہ میں وہ لوگ آتے ہیں جو زندگی برائے ادب پر عمل پیرا ہیں۔اور اپنے مسلک کے پردے میں ادب برائے زندگی کے مفہوم کو بھی لئے ہوئے ہیں لیکن ان کا راستہ بھی صاف نظر نہیں آتا۔
ہمارے جدید شاعروں کی مختلف الجھنوں کا ابتدائی زمانہ تو گذرتا جارہا ہے بلکہ یوں کہئے ختم ہونے کو ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ منزل بھی تقریباًآن پہونچی ہے جہاں کھڑے ہوکر سب سے پہلے انہیں سختی کے ساتھ نیا جائزہ لینا ہوگا پھر مستقبل پر ایک نظر ڈال کر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ان کی محنتوں کے بے ثمر ،ہونے کا اندیشہ ہے ۔عظمت اللہ اور بجنوری کی شخصیتیں اس سلسلے میں اب بھی ان کی راہ نما ہوسکتی ہیں۔یہ دونوں شاعر مغربی علوم کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم سے بھی کماحقہ،واقف تھے اور اس کے پہلو بہ پہلو رائے زنی کی وہ اہلیت بھی ان کی ذہانت کا خاصہ تھی جو صرف گہرے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ بجنوری کے مقدمے سے قطع نظر ان کی تخلیقات میں تجربوں کے باوجود ایک توازن تھا ایک ایسی ہم آہنگی تھی جو انسان کی سطحیت سے بچائے رکھتی ہے آج ہمارے بہت سے شاعر جنسی موضوعات پر محض اس لیے خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ اس میں انہیں لذّت حاصل ہوتی ہے۔آزاد نظم یا دوسرے ضمنی تجربوں کی طرف اس لیے رجوع کرتے ہیں کہ ان کی عجب پرستی ہی نمودکا باعث بن جائے اور اپنی ہر نظم سرخ روشنائی سے اس لیے لکھتے ہیں کہ سرخ پھریرانوجوانوں کے لیے فیشن سا بن گیا ہے۔
عظمت اللہ نے جس دور کی پیشن گوئی کی تھی وہ آگیا ہے اور شاعری کے دروازے ہر طرح کے موضوعات کے لیے کھل گئے مگر کتنے اس دروازے سے داخل ہونے کی نیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ آج کی ادبی فضا سے ہوسکتا ہے ۔لکھنے والے پلٹ پلٹ کر پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔جس طرح قصیدہ ،مرثیہ،رجز،پوری شاعری نہیں شاعری کی ایک صنف ہے،اور زندگی کے صرف ایک رخ کی نمائندگی کرتے ہیں وہی صورت حال غزل کی بھی ہے۔ غزل کی تعریف جو میں نے پڑھی ہے وہ،بازی کردن محبوب و حکایت کردن ازجوانی و حدیثِ صحبت و عشق زناں’’یعنی محبوب کے ساتھ کھیل ،رنگ رلیاں ،جوانی کی باتیں اور عورتوں کے ساتھ عشق و محبت کے قصّے ۔ظاہر ہے بڑا دلچسپ موضوع ہے۔خدا سب کو اس کی توفیق دے مگر یہ زندگی کا صرف ایک رخ ہے ۔اس کا زمانہ اور وقت بھی بہت محدود ہے۔
پندرہ بیس سال پرانی بات ہے میں نے مدراس کی ایک فلم لکھی تھی جس کا نام ’’آدمی‘‘ تھا۔(یوسف خان)دلیپ کمار،کے ساتھ اس فلم میں بہت سے بڑے بڑے اور معروف اداکار بھی تھے۔کوڈے کنال میں فلم کی شوٹنگ ہورہی تھی جس ہوٹل میں ہم سب کا قیام تھا اس کا نام شاید کوائیلٹی ہوٹل تھا۔ایک روز رات کے کھانے کے بعد یوسف خان نے ڈائنگ ہال میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو روک لیا ۔کہا اخترالایمان کی شاعری سنیں گے ۔ان میں ایک مصور بھی تھا جو گجرات کا رہنے والا تھا۔باقی سب کی زبان بھی اردو نہیں تھی۔یوسف خان نے کہا وہ نظم کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے۔خیر!شاعری ہوئی یوسف ترجمہ کرتے گئے اور محفل بخیر خوبی ختم ہوگئی،اگلے روز شام کو میں ٹہلنے کے لیے کمرے سے نکل رہا تھا کہ یوسف خاں آئے اور معنی خیز انداز میں مسکراکر کہنے لگے وہ مصور صاحب جو کل رات ہال میں تھے بیٹھے تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔کہتے ہیں اسی قوّال کو بلاؤ جو کل سنا رہا تھا۔
یہ لطیفہ بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ شاعری کے ساتھ گانا بجانا جڑے ہونے کے سبب سننے والے شاعری کو تفریحی پروگرام کا بدل یا اس کا مترادف سمجھنے لگے ہیں ۔کوئی سنجیدہ چیز نہیں۔غزل کی طرف میرے اس رویہّ کا نتیجہ غزل کے کچھ شیدائیوں نے یہ نکالا ہے کہ میں غزل کا مخالف ہوں ۔نہیں ایسی بات نہیں ۔غزل کا حامی نہ ہونا مخالف ہونے کے مترادف نہیں۔نہ حامی ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ غزل میں پھولنے پھلنے کی گنجائش نہیں رہی دوسرا سبب یہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں غالبؔغزل کا نقطہ عروج ہے۔
میں مزید اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہنا صرف اس قدر ہے کہ نظم ایسی صنف ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔زندگی سے متعلق کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر نظم نہیں کہی جاسکتی۔ اخلاقی، سیاسی، معاشی، سماجی، نفسیاتی، رومانی کوئی بھی موضوع ہو نظم کا کینواس اتنا بڑا ہے کہ اس پر جو رنگ فنکار ڈھنگ سے استعمال کرے گا،اچھا لگے گا۔
اس پچھلے چالیس پچاس برسوں میں نظم کی صنف اتنی وسیع اور ترقی یافتہ یا اتنی بالغ ہوگئی ہے کہ اس پر پوری طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے قناعت بہت اچھی چیز ہے انسان کو لالچی اور کمینہ ہونے سے بچاتی ہے۔حیوانیت کا توڑ بھی کرتی ہے مگر شاعری میں قناعت کا استعمال نقصان دہ ہے۔چونکہ قناعت اس ملک کے فلسفہ اور مزاح کا بڑا جزو ہے اس لیے ہم نے غزل پر قناعت کرلی مگر زندگی میں حریص اور کمینے ہوگئے۔
غزل اور بے غزلی کی بحث میں نہ پڑیئے۔ غزل ہی کیا ایسے اور بہت مسائل ہوں گے جن پر مجھے آپ سے اتفاق نہیں ہوگا اور آپ کو مجھ سے مگر اس بات پر ہم ضرور متفق ہوں گے کہ کوئی صنف سخن ہو اس میں وسعت کی گنجائش ہونی چاہیے اور زبان کا ایسا استعمال ہونا چاہیے کہ پہلے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اضافہ بھی ہو اور زبان اپنے وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوسکے اور وہ صنف اور پیکر زندگی سے ہم آہنگ بھی ہو فن کا کام پوری زندگی کا احاطہ کرنا ہے اس کے کسی ایک رخ کا نہیں ۔تحریر وجود ہی میں کیوں آئی؟اس لیے کہ اشاروں اور اشکال کی زبان محدود تھی۔اس قید سے بچنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے صرف شاعری ہی کا استعمال نہیں کیا آدمی نے نثر کی بھی بہت سی اصناف ایجاد کی ہیں۔کہانی لکھی،ڈرامہ لکھا،ناول لکھا،رپورتاژ لکھے،سوانح لکھی غرض کہ جو قلم کی زد میں آیا اگر ایک صنف نے ساتھ نہیں دیا تو دوسری ایجاد اور اختیار کی یہی بات اس نے شاعری میں بھی روا رکھی۔مثنوی لکھی،قصیدہ لکھا،مرثیہ لکھا،رجز لکھے،غزل لکھی اور جب زبان کو وسعت دینے کی ضرورت محسوس کی، گوناگوں خیالات کا اظہار چاہا تو نظم ایجاد کی۔بیان کو وسعت دینے کے لیے زبان لا محدود چاہئے۔ زبان تو ایک ہی ہے مگر موضوع کے ساتھ لفظوں کا دروبست بدل جاتا ہے۔ رپورتاژکی زبان کلاسیکی شاعری کے لیے موزوں نہیں۔قصیدہ اور مرثیہ کا ٹھاٹھ غزل میں کام نہیں آتا اور غزل کی نزاکت نظم کے دشوار گذار میدانوں میں ساتھ نہیں چل سکتی۔کچھ لوگ اگر دو مصرعوں میں بات کہنے کو غزل کا مترادف سمجھتے ہیں تو دوہا بھی دو ہی مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے مگر دوہا غزل نہیں ہوتا نہ دوہے کا انداز بیان غزل کے لیے موزوں ہے۔ادب، فن، شاعری جہاں انسانی جذبات اور معاملات کو رقم کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اس کا مقصد زبان کی وسعت اور ترویج بھی ہے۔زبان میں وسعت آتی ہے پھیلے ہوئے ہشت پہلو موضوعات سے اور وہ صرف نظم میں آسکتے ہیں اس لیے کہ نظم محدود صنف سخن اور اظہار خیال کے ذریعہ کا نام ہے۔
جب میں شاعری میں کھردرے پن کا ذکر کرتا ہوں اس کا مطلب اخباری زبان نہیں ہوتا۔کلامِ موزوںبھی نہیں ہوتا۔اس کا مطلب ہوتا ہے بندھے ٹکے مروجہ اشارے اور تشبیہات ،بیان کے پیش افتادہ انداز اور مضامین سے گریز،ٹکسالی محاوروں اور روزمرہ سے پرہیز۔ایسی زبان جو ابھی شاعری کی خیرادپر نہیں چڑھی ،ان لفظیات سے مراد ہوتی ہے،جن میں ابھی کنوارا پن کی خوشبو ہے۔ اس لیے کہ وہ تواناہوتے ہیں اور نئے موضوعات میں خیال کے اظہار کا بھرپور ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔تخلیق کا ایک اور اہم پہلو خود احتسابی ہے۔
خود احتسابی ایسی صفت ہے جس کا ہونا ایک قلم کار کے اندر اس کی ذہنی صحت مندی کی علامت ہے۔ہر انسان کو اپنی اولاد عزیز ہوتی ہے یہ تسلیم مگر اپنے احمق بیٹے کو دنیا کا سب سے زیادہ خود صورت اور ذہین انسان سمجھ لینا ذہنی کج روی کی علامت ہے۔
٭٭٭
مشمولہ: ممبئی کے ساہتیہ اکاڈمی انعام یافتگان، مرتب :پروفیسر صاحب علی ، صفحہ نمبر 17تا 24