Interview Mohammad Alvi by Farhan Haneef Warsi

Articles

پاکستان میں نئے لب و لہجے کی تلاش پہلے شروع ہوئی

محمد علوی

فرحان حنیف: علوی صاحب! اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔ میں نے سنا ہے ، آپ کا تعلق کسی روحانی خانوادے سے بھی ہے۔
محمدعلوی: ہاں۔ آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔ احمد آباد میں نہرو پل کے مشرقی سرے پر واقع خان پور سیّد واڑے میں حضرت شاہ وجیہہ الدین علوی الحسینی الگجراتی ۔ؒ ۔۔کا مزار آج بھی مرجع الخلائق ہے۔ آپ اپنے وقت کے ایک بڑے عالم اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ میرا تعلق آپؒ کے گدّی نشینوں کے خاندان سے ہے اور میرے بڑے بھائی سیّد احمد علوی درگاہ شریف کے حالیہ سجادہ نشین ہیں۔ میرے والد صاحب کانام سیّد بڑا صاحب میاں علوی تھا۔ ایک اور دلچسپ بات آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میرے آباء و اجداد نے پورے بھڑوچ ضلع میں مذہب اسلام کی تبلیغ کی ہے اور کئی دیہات اور کئی گائوں کے باشندوں کو حلقۂ اسلام میں داخل کیا ہے۔ میں 10؍ اپریل 1927ء کو احمد آباد میں پیدا ہوا اور صرف ساتویں جماعت تک میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔
فرحان حنیف: کیا آپ کو اپنا اولین شعر یادہے؟ یہ بھی بتایئے کہ آپ نے پڑھنے لکھنے کی شروعات کس طرح کی ؟
محمدعلوی: پہلا شعر تو اب یاد نہیں ہے۔البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ والد نے آٹھ نو سال کی عمر میں بغرضِ تعلیم مجھے دہلی کے جامعہ میں داخل کیا تھا۔ وہیں دورانِ تعلیم میں نے بچوں کے ایک مشاعرے میں حصّہ لیتے ہوئے کبوتر پر ایک نظم کہی تھی۔ جج حضرات نے میری اس نظم کو پسند کیا اور بطور اوّل انعام مجھے مولوی اسماعیل میرٹھی کی تصانیف کے مکمل سیٹ سے نوازا۔ دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوتے ہی میں واپس احمد آباد آگیا۔ اب مجھے ایک مقامی اسکول میں بھیجا گیا۔ مجھے پڑھنے میں بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ اسکول کا ناغہ کرکے دوستوں کے ساتھ کھیل میں مصروف رہتا یا پھر شرارتیں کرتا۔
میرے دوست اور کزن مظہر الحق علوی (انگریزی کے سو(100) ناولوں کے مترجم) کے والد کو مطالعہ کا شوق تھا اور ان کے پاس تاریخی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ مظہر الحق علوی، وارث علوی اور میں نے مل کر صادق سردھنوی کی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں۔ تیرتھ رام فیروز پوری کے تراجم بھی پڑھے۔ احمد آباد میں اس وقت کلیم بک ڈپو ہوا کرتا تھا ، وہاں سے لیکر ہم تینوں نے شفیق الرحمن کی ’’حماقتیں‘‘ اور احمد ندیم قاسمی کی ’’بگولے‘‘ نامی کتابیں پڑھیں۔ مذکورہ دونوں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہی ہم نے خود میں ایک طرح کی تبدیلی محسوس کی۔ ان دنوں نظیرؔ اکبرآبادی کی کلیات بھی پڑھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں موجود تخلیقات میں جہاں گالیاں آتی تھیں وہاں ڈاٹ ڈاٹ ڈاٹ ہوتا تھا، ہم تینوں ان خالی جگہوں کو مناسب گالیاں لکھ کر پر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی کی تصانیف اور تخلیقات بھی برابر پڑھنے لگے۔ ترقی پسند تحریک ان دنوں شباب پر تھی۔ اس وقت ہم لوگ اٹھارہ سال کے رہے ہوں گے۔ میں 1946ء کی بات کر رہاہوں۔ ترقی پسند تحریک نے ہم تینوں کو متاثر کیا اور ہم نے اس تحریک سے جڑنے کا فیصلہ کیا۔احمد آباد میں ہم نے بڑی محنت کی اور ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کی۔ 1947ء میں احمد آباد میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، نیاز حیدر، مجاز لکھنوی، ممتاز حسین اور ساحر لدھیانوی نے بھی شرکت کی تھی۔ ان دنوں مشاعروں کی فضا گرم تھی اور سامعین علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور نیاز حیدر کی نظموں اور اشعار پر اچھل کر داد دیتے تھے۔ داد پانے کے اس جوش نے کچھ ایسا اثر کیا کہ میں نے بھی انہی کے رنگ میں شاعری کا آغاز کردیا۔
ان دنوں احمدآباد سے ممبئی کا کرایہ آٹھ دس روپے ہی تھا۔ وارث علوی اور میں سجاد ظہیر صاحب کے مکان پر منعقدہ میٹنگوں میں شریک ہونے لگے۔ کرشن چندر چار بنگلہ(اندھیری) کے ایک بوسیدہ بنگلے میں مقیم تھے۔ ساحر لدھیانوی، ممتاز مفتی، میراجی، مجاز لکھنوی اور نیاز حیدر اس بنگلے کے اوپری حصّے میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ دن بھر سبھی آوارہ گردی کرتے اور شام ہوتے ہی یہاں جمع ہوجاتے۔ وارث علوی اور میں بھی وہاں پہنچ جاتے ۔بڑی ہماہمی رہتی۔ جیل کی باتوں یا پھر مجروحؔ سلطان پوری کی غزلوں کا دور چلتا۔ مجھے بھی ان دنوں مدنپورہ، بھمڑی اور مالیگائوں کے کئی مشاعروں میں پڑھنے کا موقع ملا۔ وارث علوی اور میں نے 1949ء میں بھمڑی کانفرنس میں بھی حصّہ لیا۔
بھمڑی کانفرنس کے بعد ترقی پسند تحریک کا جادو ختم ہونے لگا اور کچھ میرا بھی موڈ تبدیل ہوگیا۔ میں نے فراقؔ گورکھپوری ، سیف الدین سیفؔ، مجاز ؔلکھنوی، مخدومؔ محی الدین اور ناصرؔ کاظمی کی شاعری کا مطالعہ کیا۔ حلقۂ اربابِ ذوق کے تمام مصنفین کو پڑھا ۔ میراجیؔ کو بھی توجہ سے پڑھا۔ اس مطالعے کا اثر یہ ہوا کہ میں نے 1949ء میں مجازؔ لکھنوی کی زمین میں ایک غزل لکھی جو ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس وقت میرا اپنا کوئی لہجہ نہیں بنا تھا۔ وہ غزل تھی:
غمِ جاناں کو ابھی اور ابھر جانا تھا
زہر بن کے مری رگ رگ میں اتر جانا تھا
آج تو ان کی نگاہوں میں بھی تھا لطف و کرم
آج تو گردشِ دوراں کو ٹھہر جانا تھا
ان کا آنا بھی تھا ہنگامۂ محشر کی مثال
ان کا جانا بھی قیامت کا گزر جانا تھا
اس دور میں، میں نے زیادہ تر غزلیں لکھیں جو’ ادبِ لطیف‘، ’صبا‘ اور’ تحریک‘ وغیرہ میں چھپتی رہیں۔ ان غزلوں میں سیف الدین سیفؔ اور ناصرؔ کاظمی کا بھی رنگ شامل تھا۔ شاید 1952ء تک میں اس قسم کی شاعری کرتا رہا۔ بڑی ہلکی پھلکی سی غزلیں لکھتا رہا۔ 1952ء کے بعد میں شاعری چھوڑ کر کاروبار اور دیگر عیاشیوں میں مصروف ہوگیا۔
فرحان حنیف: آپ شاعری سے کب تک روٹھے رہے؟
محمدعلوی: ہاں بتاتا ہوں۔1959ء تک یہ جمود طاری رہا۔1959ء میں دوبارہ شاعری نے اپنی طرف کھینچا اور پہلی مرتبہ میں نے چار پانچ نظمیں لکھ کر ’’سوغات‘‘ کے لیے محمود ایاز صاحب کو روانہ کردیں۔ خوش قسمتی سے محمود ایاز صاحب کو وہ نظمیں اچھی لگیں اور انھوں نے نام مخفی رکھ کر شہر یار سے ان نظموں پر تاثرات لکھوائے اور ’’سوغات‘‘ کے ’’جدید نظم نمبر‘‘ میں ان نظموں کو شامل کیا۔ قارئین نے اور ادبی حلقے نے ان نظموں کو سراہا اور اس طرح نظمیں لکھنے کا آغاز ہوا۔ 1959ء سے 1962ء تک میں زیادہ تر پاکستانی رسائل ادبِ لطیف، نصرت، نقوش، سویرا، نیادور اور سات رنگ وغیرہ میں چھپتا رہا۔ 1963ء میں محمود ایاز صاحب نے میرا پہلا شعری مجموعہ ’’خالی مکان‘‘ شائع کیا۔ یہ جدید شاعری کا پہلا شعری مجموعہ تھا۔ حالانکہ ان دنوں خلیل الرحمن اعظمی، شہر یار، بلراج کومل، باقر مہدی، بشیر بدر، بمل کرشن اشک، قاضی سلیم، شاذ تمکنت اور وحید اختر جدید شاعری میں اپنی چھاپ چھوڑ چکے تھے ، لیکن شائع ہونے والا پہلا مجموعہ ’’خالی مکان‘‘ ہی تھا۔
فرحان حنیف: کیا’’خالی مکان ‘‘ کے بعد آپ نے حسبِ مزاج پھر خاموشی اختیار کرلی؟
محمدعلوی: (ہنستے ہوئے) جی ہاں۔ 1967ء میں الہ آباد سے شمس الرحمن فاروقی نے ’’شب خون‘‘ جاری کیا ____ فاروقی صاحب مجھے’’شب خون‘‘ کے ساتھ ایک رقعہ بھی روانہ کرتے جس میں نظمیں بھیجنے کی فرمائش ہوتی۔ لہٰذا 1967ء میں ایک بار پھر شاعری کا موڈ بنایا اور چند مہینوں میں اتنی شاعری کی کہ فاروقی صاحب نے 1968ء میں دوسرا شعری مجموعہ ’’آخری دن کی تلاش‘‘ شائع کیا۔
فرحان حنیف: ’’آخری دن کی تلاش‘‘ کے بعد شاعری یا موڈ کو پکڑنے کی تلاش کب شروع ہوئی؟
محمدعلوی: (زوردار قہقہہ ) اس بار یہ خاموشی1975-76تک چھائی رہی۔ بس کاروبار میں الجھا رہا۔ میں احمدآباد میونسپل کارپوریشن کا اے گریڈ کا کانٹریکٹر تھا۔ خوب دولت کمائی، کبھی کلب میں جاکر رمی کھیلتا، کبھی گھر والوں کے ساتھ پکچر دیکھنے چلا جاتا، کبھی دہلی جاکر دوستوں سے ملتا، کبھی ممبئی چلاآتا اور ٹیکسی لے کر ندافاضلی کو ڈھونڈتا، ندا کہاں ہے، کیسا ہے۔ باقر مہدی سے بھی خوب جمتی تھی۔ بہرحال 1975-76تک کچھ نہیں کہا،اور جب کہنا شروع کیا تو ایک نشست میں کئی کئی نظمیں اور غزلیں کہہ ڈالیں۔ 1978ء میں بلراج مینرا نے’’تیسری کتاب‘‘ شائع کی۔ اس کے بعد پھر گیپ آگیا ۔ 1992ء میں چوتھی کتاب’’ چوتھا آسمان‘‘ منظر عام پر آئی اور ساہتیہ اکیڈمی نے اسے ایوارڈ سے نوازا۔ 1995ء میں اردو ساہتیہ اکیڈمی گجرات نے ’’رات اِدھر اُدھر روشن‘‘ کلیات چھاپی اور اس کے بعد سے ایک بار پھر جمود طاری ہے۔ کبھی کبھار ایک آدھ نظم ہوجاتی ہے۔ گجرات بھوکمپ پر ایک نظم لکھی تھی ’’زلزلہ‘‘:
آنے سے پہلے کم سے کم
ایک خط تو بھیج دیا ہوتا
یا ٹیلی فون کیا ہوتا
ہم تیرا سواگت کرنے کو
گھر سے سڑکوں پر آجاتے
گھر یوں نہ ہم کو کھا جاتے
فرحان حنیف: علوی صاحب۔۔!۔۔ آپ ترقی پسند تحریک سے بھی منسلک رہے، اور آپ کا شمار جدید لب و لہجہ کے اہم شاعروں میں بھی ہوتا ہے، آپ نے ان دونوں تحریکوں کو کس روپ میں محسوس کیا؟
محمدعلوی: 1947ء کے بعد اردو کے مجموعی فکری نظام میں ایک تبدیلی آگئی تھی اور ترقی پسندوں نے اس تبدیلی کو۔ شکستِ خواب سے تعبیر کیا تھا، اور پھر جب فیض احمد فیضؔ کا یہ مصرعہ سامنے آیا:
؎۔۔یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
تواس شکستگی کو خود ترقی پسندوں نے بھی قبول نہیں کیا۔بہرحال اس تبدیلی سے انڈر کرنٹ تجسّس اور احساس کا ایک ماحول بنا اور ہندوستان سے قبل پاکستان میں نئے لب و لہجے کی تلاش شروع ہوگئی۔ پاکستان میں حلقۂ اربابِ ذوق کے سبب ہیئت کی تبدیلی ، نئے الفاظ کی تلاش، نئے پیکر اور نئی علامتوں کی کھوج کا آغاز ہوا۔ اِدھر ہندوستان میں ترقی پسند جوشؔ ملیح آبادی کی رہنمائی میں سرگرمِ عمل رہے۔ یہاں اجتماع سے بات کی جارہی تھی اور وہاں فرد کو بنیاد بناکر بات کی جارہی تھی۔ پاکستان میں مختارؔ صدیقی، ضیاءؔ جالندھری، یوسف ظفرؔ، قیوم نظرؔ اور میراجیؔ کی آوازیں حاوی تھیں۔ اگر دیکھاجائے تو جدید شاعری جو ہندوستان میں آئی ، وہ ترقی پسند اور حلقۂ اربابِ ذوق کے ملاپ کے ردِّ عمل میں آئی۔ اچھا اِدھر علی سردار جعفری کے اپنے ہیئتی تجربے بھی تھے۔ ترقی پسندوں میں فرد کی نفی کی جارہی تھی اور حلقۂ اربابِ ذوق میں سماج کی نفی کی جارہی تھی۔
جدید شاعری نے اپنے ورثے میں فرد اور سماج کا ایک متبادل روپ دینے کی سعی کی ہے۔ ناصرؔ کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، ابنِ انشاء، منیر ؔنیازی، عزیز حامدمدنیؔ، سلیمؔ احمد ،انتظار حسین اور باقر مہدی جدیدیت کے اہم نام ہیں۔ایک اور شاعر ہیں ڈاکٹر راہی معصوم رضاؔ انھیں کیوں نظر انداز کیا گیا مجھے نہیں معلوم۔ آرزوؔ لکھنوی نے ’’سنہری بانسری‘‘لکھتے وقت یہ احتیاط برتی تھی کہ اس میں فارسی اور عربی کے ثقیل الفاظ نہ ہوں، عام بول چال کے الفاظ ہوں:
اس نے بھیگے ہوئے بالوں سے جو جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
اب یہ شعر لب ولہجے کے لحاظ سے بہت خوبصورت ہے ، مگر اس کا مفہوم کیا اخذ کریں گے؟آرزوؔ لکھنوی تو کلاسک میں سے ہیں اور ادب میں ان کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے لب و لہجے کو مانجھا، صاف کیااور اسے عام بول چال کی زبان سے نزدیک کیا۔ ایک طرف جدید شاعری میں کئی چہرے ہیں۔ایک چہرہ وہ ہے جو اس زبان میں بات کرتا ہے جو عام بول چال کی زبان ہے۔ عام بول چال کی زبان میںشاعری کا جادو جگانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔آج پاکستان میں جو زبان استعمال ہورہی ہے وہ وہی کلاسیکی زبان ہے۔
فرحان حنیف: اب تو جدیدیت کے ختم ہونے کی بات کی جارہی ہے۔ خاص طور سے مابعد جدیدیت کے حوالے سے۔ علوی صاحب آپ کے تاثرات کیا ہیں؟
محمدعلوی: وارث علوی کا ’’ذہن جدید‘‘ میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انھوں نے اس قسم کی باتوں کو تنقیدی اچھل کود سے تعبیر کیا تھا۔ ہر عہد کی اچھی شاعری جدید ہوتی ہے۔ اردو شاعری ہرعہد میں اپنے سماج کے حالات اور اس کے اتار چڑھائو کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ جدید شاعری تنہائی کا شکار ہے یا اقدار کی شکست کا نوحہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ عمیقؔ حنفی کی شاعری کو کس خانے میں رکھیںگے؟ محمد علوی کی شاعری کا بڑا حصّہ کس خانے میں رکھیں گے؟ میں نے رام اور ایودھیا دونوں پر نظم لکھی ہے۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں ایک عہد ختم ہوگیا۔ غالبؔ کی شاعری اچھی شاعری ہے اور وہ آج بھی جدید ہے۔ جوشاعری وقت کے ساتھ پرانی ہوجاتی ہے وہ نہ جدید ہوتی ہے اور نہ ہی قدیم ، وہ صرف بری شاعری ہوتی ہے۔ شہریار، محمد علوی اور ندا فاضلی جدیدیت یا مابعد جدیدیت سے نہیں، بلکہ اپنی شخصیت اور شاعری سے پہچانے جاتے ہیں۔
———————————-

 

Nqah o Naqshab by Sultan Haider Josh

Articles

نقش و نقشاب

سلطان حیدر جوش

Simba A Famous Arabic Cartoon Series by Dr. M. Shahid

Articles

سمبا

ڈاکٹر محمد شاہد

Aakhri Aadmi A Short Story by Intezar Hussain

Articles

آخری آدمی

انتظار حسین

الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔ اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔
اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔
اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر وم الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔
پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا۔ “تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔” اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔
اور الیاب ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت کھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوت تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔
الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاس لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔ جاننا چاہئے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پا یا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے منڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔
الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بند ھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔
الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔
الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو ہنسی کی ایسا بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔
الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔
الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔
الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔
اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔
الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھہنے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔
الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے پشت میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔
الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب اس بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔
جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔
جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑ تی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔


 

Urdu Fiction Tafheem, Tabeer aur Tanqeed

Articles

اردو فکشن تفہیم ، تعبیر اور تنقید

شہناز رحمن

Tariqa E Nizamat by Mohammad Mahdi Al Qasmi

Articles

طریقہ نظامت

محمد مہدی القاسمی