Tilism Ashort Story Collection by Furqan Sanbhali
Articles
Importance of Non Fiction in Urdu
Articles
اردو میں غیر افسانوی اصناف کی اہمیت مسلم ھے ـ
وسیم عقیل شاہ

The Lost Lands of Paradise A Short Story by Yavuz Ekinci
Articles
بہشت گمشدہ
یعود اکینسی
اِرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انپڑھ غریب عورت ہوں۔ میرا کوئی نہیں ہے۔ میرے پوتے پوتیاں مجھ پر ہنستے ہیں۔ جو لوگ مجھے دیکھنے آتے ہیں مَیں اُن کی سرگوشیاں سنتی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس نے بہت جی لیا اب اِسے مرنے دیا جائے ،سکون خود بخود مل ہی جائے گا۔ میں خوش قسمت بھی ہوں اور انپڑھ بھی، بدقسمت بھی ہوں اور اکیلی بھی، ناخوش و ناراض بھی ہوں اور غصّے میں بھی ۔
اِرم اب تم کیا کروگی جب میری یہ تکلیف دہ زندگی دیکھو گی۔کیا تم اپنی اُس چھوٹی بندوق سے میری تکالیف کا خاتمہ کرسکتی ہو جو ہمہ وقت تمھارے ساتھ ہوتی ہے۔ اے اِرم! میرے تمام سوالوں کا جواب دو۔ صرف تم جانتی ہو کہ مجھے مرنے کی کتنی آرزو ہے۔ میں موت کی طلبگار ہوں۔ صرف موت ہی نہیں آتی۔ میں نے مرنے کی کوشش بھی کی لیکن میرے چچا سائمن نے مجھے روک دیا۔ اُس نے کہا، یسوع مسیح کے بارے میں سوچو!میں یسوع مسیح کی تکلیف کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی اِن گزرے تمام سالوں سے (موت کی) منتظر ہوں۔
اے موت! یہ بھی نہیں آتی۔میں نے ہمیشہ اِس کی خواہش کی ہے۔اِرم جب موت کی خواہش کی جائے تب موت نہیں آتی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اِ سے عادت پڑچکی ہے کہ وہ ہمیشہ نامناسب وقت پر آتی ہے۔حسن! مجھے حیرت ہوگی اگر اب وہ تکلیف بن جائے۔ مجھے امید ہے شاید وہ جہنم میں جل چکا ہوگا۔ اب اُس کے پاس گناہوں پر پچھتانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ میں اِس بات کو یقینی بنا دوں گی کہ مرزا مجھے اُس کے باپ کے قریب نہ دفنانے پائے۔میں بیری کے درخت کے نیچے دفن ہونا چاہتی ہوں۔ جہاں ارم بھی ہے۔ ارم میرے تمام سوالوں کا جواب ہے، میرے آنسوئوں کا سرچشمہ اور میرا سورج بھی۔ اے ارم! میں تمھارے پاس آرہی ہوں۔ اب جبکہ میں مرنے کی جدوجہد کررہی ہوں ، حسن ہزاروں سال زندہ رہنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔وہ ہر دن کی شروعات ہمیشہ زندہ رہنے کی بیوقوفانہ خواہشات سے کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر کے اطراف سے پتھر نکالتا ہے، شراب خانے کے احاطے میں انہیں پہاڑ کی شکل میں جمع کرتا ہے، سخت میدانوں کو صاف کرتا ہے اور اُن کے اطراف میں پتھر کے گھر اور پتھر کی دیواریں بنایا کرتا ہے۔ اس طرح سے بنایا کرتا ہے جیسے یہ سب ہمیشہ باقی رہے گا اور وہ خود بھی ہزاروں سال تک زندہ رہے گا۔ جبکہ نہ یہ جگہ ہمیشہ ہمیش باقی رہے گی اور نہ ہی موت بھی۔ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کے بعد کے خوف نے اُس کے دماغ کو مائوف کردیا ہے۔ ملّا محفوظ بڑی سادگی سے یہ کہتے ہوئے اُس کا مذاق اڑاتا ہے کہ ’’حسن! کوئی انسان ہمیشہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘میں نے ہمیشہ اُس کا طنزیہ لہجہ سنا ہے۔ ’’یہاں تک کہ صاحبِ دولت وعظمت سلیمان بھی ایسا نہ کرسکے‘‘حالات ویسے نہیں رہے جیسے اُس نے امید کی تھی۔ قسمت کی آندھی نے ہر شے کو تہس نہس کردیا۔ اُس کی زندگی، اُس کا جسم، اس کے جذبات، اس کی خواہشات اور اس کی تمام امیدیں تباہ و برباد ہوگئیں۔بیماری نے اُس پر فتح پالی۔ تمام اسپتال، زیارت گاہیں، شیخ وطبیب سبھی نے سیکڑوں امراض کی تشخیص کی لیکن اسے مختصراً بھی افاقہ نہیں ہوا۔ اُس کی صحت دن بدن خراب ہوتی گئی اور اس کا وہ جسم جو کبھی تندرست توانا ہوا کرتا تھا ،دوائوں اور درد کو برداشت نہ کر سکا۔ وہ پہاڑوں جیسا شخص جو چٹانوں کو ہلادیا کرتا تھا ، پتھروں کو چھوکر پگھلا دیا کرتا تھا۔وہ اب جھرّیوں میں سکڑ چکا ہے۔ یہاں تک کہ اب وہ خود سے رفعِ حاجت کے لیے بھی نہیں جا سکتا ۔ وہ شخص جو ہمیشہ شراب کے نشے میں چور ہوتا تھا اب وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے پانی کا ایک گلاس بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اگر بستر پر آگ بھی لگ جائے تب بھی وہ اِس قابل نہیں ہے کہ وہاں سے اٹھ سکے۔ اُس کے تعلق سے میرے ذہن میں دوطرح کے خیالات تھے۔ایک تو یہ کہ میں اُس آدمی کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھوں جس نے مجھے اداس کیا اور دوسرے یہ کہ میں خاموشی سے خوشیاں منائوںاِس لیے کہ یہ ایک طرح کا قدرتی بدلہ ہے۔
بیماری کے ایّام میں حسن کو اپنے بیٹے مرزا کی جانب سے صلہ رحمی اور شفقت کی امیدیں تھیں۔ وہی مرزا جس کی حسن نے ہمیشہ تضحیک کی تھی اور اُے نیچا دکھایا تھا۔ حسن، مرزا کے ساتھ باپ ہونے کے ناطے کبھی بھی پیار و محبت سے پیش نہیں آیا تھا۔ غصّہ اور تمام تر نفرتوں کے باوجود بھی حسن اپنے والد کا بہترین سہارا تھا۔ مرزا اپنے والد کو صاف کرتا تھا، نہلاتا تھا، داڑھی بنایا کرتا تھا اور کپڑے تبدیل کرنے میں اُس کی مدد کرتا تھا۔ اُس نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شکایت نہیں کی۔ اپنے بیٹے کی محبت دیکھ کر حسن شرم سے زمین میں گڑتا چلا گیا۔
افسوس حسن افسوس!یقیناً مجھے تیز آواز میں بولنا چاہیے تاکہ دوسری عورتیں بھی سن سکیں اور ایک دوسرے کو اپنی کہنیاں مار کر کہ سکیں کہ یہ غریب عورت اپنے شوہر کے بارے گا رہی ہے۔وہ اُس سے بہت محبت کرتی ہے اور اتنے سالوں کے بعد بھی وہ معمولی معمولی باتوں کو نہیں بھول سکی۔یہ بات اپنے دانت باہر نکالتے ہوئے ایک بڑے سر والی ایسی عورت نے کہی جس کے وجود سے شرارت اور دشمنی آشکار ہو رہی تھی۔میں اُن کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔حسن اب یہ تمام زمینیں، میکدہ، پتھروں سے بنے ہوئے گھرسب کے سب اِس دیہات میں تکلیف دہ یاد بن کر رہ گئے ہیں۔جب جب میں اِن پر سوچتی ہوں تب تب مَیں مر تی جاتی ہوں۔
اُس رات کسی نے خونخوار طریقے سے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔خوف و دہشت کی ایک لہر مجھ میں سرایت کر گئی۔ میں خوفزدہ ہو چکی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے میں کچھ جانتی ہوں اور میں نے کسی آسیب کو دیکھ لیا ہے۔ہم نے عجلت میں گھر چھوڑ دیا۔ جب مرزا انھیں روکنے کی کوشش کررہا تھا تب میں اُس پر ناراض ہوئی اور اُس پر چیخنے چلّانے لگی۔اِس لیے کہ مَیں خوفزدہ تھی وہ لوگ مجھے قتل کرنے جا رہے تھے۔وہی لوگ ایک رات ملّا محفوظ کو اُس کے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے اور اُسے چشمے کے قریب قتل کردیا تھا۔ مرزا اُن لوگوں کے پاس کھڑا ہوا تھا اِس لیے میں مرزا پر برس رہی تھی۔میں نے اُس سے کہا کہ وہ اپنا منہ بند رکھے اور اس طرح سے میں بچ گئی۔ مَیں اُسے بھی بچانا چاہتی تھی۔وہ خاموش بیٹھ گیا۔ رستم خواب آلود آنکھوں سے اِس بھیانک رات کو خود پر آشکار ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ ایک مرتبہ جب گائوں کے تمام مرد و خواتین اور بچے ایک چوراہے پر جمع ہوگئے تھے تب سپاہیوں نے ہمارے گھروں کو ساز و سامان سمیت نذرِ آتش کردیا تھا۔ باڑوں کو جانوروں سمیت جلا دیا تھا۔ اُس رات نہ صرف ہمارا، گھر، ہمارے کھیت اور ہمارا سرمایہ جلایا گیا بلکہ ہمارا ماضی ، ہماری یادیں اور ہماری امیدیں بھی راکھ ہوگئیں۔ مَیں نے اپنے گھر کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھا۔ شعلوں کی یہ لپٹیں آسمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے اپنی شادی کی وہ منحوس رات آج بھی یاد ہے۔
مَیں شادی کے روز ایک ایسے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی جس کی شاخیں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔ جس پر سرخ و سیاہ مرغ کو ذبحہ کر کے لٹکا دیا گیا تھا۔ مذبوح مرغوں کی گردنوں سے بہتا ہوا خون درخت کی شاخوںپر منجمد ہو رہا تھا۔ مجھے تو حیرت ہو رہی تھی مگر حسن! تم اُس درخت کے نیچے بہت خوش تھے۔ لوگ تمھارے اطراف رقص کر رہے تھے۔ جیسے ہی مَیں گھر میں داخل ہوئی وہ لوگ جو ڈانس کر رہے تھے اچانک پھلوں، میٹھائیوں اور خشک میواجات پر ٹوٹ پڑے۔
ایک زور دار آواز آئی ۔آسمان میں شعلے اڑتے ہوئے نظر آئے۔چھت پر موجود شادی کا درخت(سجاوٹ)تباہ ہوگیا۔میں نے مرزا کا ہاتھ پکڑ کر کر ہمارے جلتے ہوئے گھر، سرمائے اور یادوں سے باہر کھینچا۔بی نیوز بھی اپنے ساتھ لکڑی کی گڑیا باہر لے آئی وہ شعلوں کو دیکھ رہی تھی اور گڑیا کو جھولا بھی دئیے جا رہی تھی۔ ایک سپاہی دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے بی نیو کے ہاتھوں سے گڑیا چھین لی اور وہ اُسے آگ میں پھیکنا ہی چاہتا تھا کہ دوسرے سپاہی نے مداخلت کردی۔ اُس نے پہلے سپاہی کے ہاتھ سے گڑیا لے کر واپس میری بیٹی کے ہاتھوں میں دیدی۔
فاطمہ نے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا ۔ ماں ! دیکھو یہاں کون ہے۔ مَیں نووارد کو دیکھنے کے لیے پیچھے پلٹی لیکن اُسے شناخت نہ کرسکی۔ فاطمہ نے کہا، کیا تم اِسے نہیں جانتی ہو؟ یہ ہمارے پڑوسی کی لڑکی دِلان ہے۔ یہ کئی مرتبہ تمھیں دیکھنے کے لیے اسپتال بھی آچکی ہے۔ حال ہی میں اِس کی منگنی ہوئی ہے۔ پھر اُس نے سرسری نظر زینب کی طرف ڈالتے ہوئے کہا جو یٰسین پڑھ رہی تھی اور اُس حسد رکھتی تھی۔ کبھی کبھی یہ تمام باتیں قسمت پر منحصر ہوتی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟جب دِلان میرا بوسہ لینے کے لیے نیچے جھکی اُس کا چہرا چمک رہا تھا۔ مَیں نے اس کا ہار، کنگن، بالی اور انگوٹھی دیکھی۔ پھر مَیں نے مسکرادیا۔ اُس نے تیز آواز میں مجھ سے دریافت کیا کہ کیا مَیں ٹھیک ہوں ؟جیسے ہی میں نے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں مَیں ٹھیک ہوں ، وہ فوراً میرے پاس سے بھاگ گئی۔ خدا معاف کرے شاید اُسے میری طویل عمر کی وبا لگ گئی ہوگی۔ مَیں نے اپنی آنکھوں کو مضبوطی سے بند کرلیا تاکہ مَیں اُن کی سرگوشیاں نہ سن سکوں۔ مَیں اپنے آپ کو اپنے خوف سے بچانا چاہتی تھی۔ مَیں گہری نیند کی منتظر تھی۔
اُس روز حسن اپنے سر کے بال اور داڑھی منڈوا کر آیا تھا۔ وہ اپنی قدوقامت سے بڑا جیکٹ زیب تن کیے ہوئے تھا۔ وہ حیرت و یاس کے جذبات میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں جانوروں کے باڑے میں اُس کا دیا ہوا کھانا کھا رہی تھی۔ وہ بے کلی کے ساتھ اپنے پیروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔دوسری طرف فوراً دیکھنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے ہماری نظریں ملی۔ پھر اُن نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ہئٹِس تم میری بیوی بننے جارہی ہو۔ تم اور مَیں شادی کررہے ہیں۔ مَیں اپنے اندرون میں کہیں پِستی جا رہی تھی۔ ارم کا اعضا سے جدا جسم میرے ذہن کے درخت پر جھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ مَیں نہیں جانتی تھی کہ اب روئوں بھی تو کس لیے۔ میرے رونے کا مقصد کیا ہوگا۔ میرا نام جو کہ المست تھا اب ہئٹِس ہوچکا تھا جیسے کوئی عیسائی اب مسلم ہو چکا ہو۔ میرے والد کے بڑے بھائی اور بہنوں کو قتل کرکے پہاڑوں میں سڑنے کے لیے چھوڑا جاچکا تھا۔ مجھے ایک ایسے شخص سے شادی کرنی تھی جس سے میں قطعی محبت نہیں کرتی تھی۔ پھر مَیں کس لیے روئوں؟ مَیں خود بھی نہیں جانتی تھی۔ پہلے ہی بہت رونے کے سبب میرے آنسو ضائع ہو چکے تھے۔ خفیہ طور پر بہت زیادہ ماتم منالینے کے بعد اب مَیں خاموش تھی۔ مَیں نے صرف اُس کی آنکھوں میں دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔
دوسرے دن حسن نے مجھے گودام سے باہر نکالا۔ مَیں نہیں جانتی تھی کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ مَیں صرف اتنا جانتی تھی کہ پتیاں جھڑ چکی ہیں اور کچھ درختوں پر بمشکل ہی پتے رہے ہوںگے۔اپنے اطراف کی تبدیلیاں دیکھ کر مَیں نے اندازہ لگانا شروع کیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ مَیں اندھیروں کی عادی ہوچکی تھی اِس لیے روشنی میری آنکھوں کو تکلیف پہنچا رہی تھی۔ ہم سیڑھیوں سے اوپر گئے ۔ حسن کی ماں’’ایکسی‘‘ جو کہ اِن دِنوں دو مرتبہ گودام میں آچکی تھیں ، کمرے کے بالکل وسط میں بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کینہ پرور نظروں سے میری جانب گھور رہی تھی۔ تب ہی مَیں نے اندازہ لگا لیا کہ میری ساس کے ساتھ میرے تعلقات کبھی بھی دوستانہ نہیں رہ سکتے۔ اُس کے لیے مَیں صرف ایک کافر کی بیٹی تھی، ایک ایسا گناہ تھی جس کا کفّارہ ناممکن ہو، ایک ایسا سیاہ داغ تھی جو کبھی دھویا نہ جاسکے، کبھی فراموش نہ کیا جاسکے۔
میرے لیے کسی کو کوئی پچھتاوا نہیں ہوسکتا۔ حسن شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ مَیں اپنے گردوپیش سے بے نیاز رہی، یوں کئی دن گذر گئے۔ مَیں گھر میں ہر وہ کام کرنے لگی جس کا حکم مجھے دیا جاتا تھا۔ مَیں نے کبھی کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ شاید مَیں بہت حد تک مرچکی تھی۔ مَیں کھانا بناتی تھی، صاف صفائی کیا کرتی تھی، بستر لگاتی تھی، پانی لایا کرتی تھی اور تقریباً ہر کام ہی کیا کرتی تھی۔ اب مَیں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ مجھے زندہ رہنا ہے۔ چاہے پھر مجھے زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ لیکن جب کبھی رات کو مَیں بستر پر جاتی تب ہر وہ چیز مجھ سے ملنے آجایا کرتی تھی جسے مَیں نے دن بھر کسی بوتل میں بند کر کے رکھا تھااور اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ دن کا اجالا پھیلنے تک مَیں رویا کرتی تھی۔
شادی کے روز حسن کے رشتہ داروں سے گھر بھر گیا۔ اُس نے یہ کہہ کر اپنے دوستوں سے مجھے متعارف کروایا کہ میں الیپو(شام کا ایک شہر)میں رہنے والے اُس کے کسی شناسا کی بیٹی ہوں۔ مَیں ایسی حالت میں نہیں تھی کہ لوگوں سے کہہ سکوں کہ مَیں نے کیا تجربہ کیا ہے۔ بوڑھی عورتیں مجھے دیکھنے کے لیے آتیں اور میری آنکھ، بال، گردن، کمر، قامت، ہاتھ اور پیروں کی تعریفیں کرتیں۔ اُن میں سے ایک نے میرے چہرے کی خوبصورتی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تمھارے پاس خوبصورت دکھائی دینے کی بہت ساری جوہات ہیں۔ پھر اُس نے آگے بڑھ کر ہونٹ سے نیچے کسی نشان کو چھوا ۔ عورتیں میری خوبصورتی دیکھتی جاتی تھیں اورسرگوشیاں کرتی جاتی تھیں۔ مجھے یاد آیا کہ کس طرح سے اِرم میرے بالوں ،آنکھوں اور چہرے کی تعریف کیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مَیں نے اُس سے اداس لہجے میں پوچھا تھاکہ ’’تم مجھے کتنا یاد کروگی؟‘‘ارم میرے اِس سوال پر چونک پڑی تھی۔ وہ بہت دیر تک میری جانب دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے کہا ’’مَیں کیسے کہہ سکتی ہوں کہ بہت کم، نہیں نہیں ،مَیں تمھیں بہت یاد کروں گی۔‘‘
بوڑھی عورتیں میری ساس سے باتیں کر رہی تھیں اور میری تعریفوں کے گیت گا رہی تھیں۔ میری ساس کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی کی موت کا ماتم منا رہی ہو۔ وہ فوراً غصّے میں آگئی اور چیختے ہوئے کہا ، دیکھو اُس کے پورے چہرے پر داغ ہی داغ ہے۔ کیا تم اِسے خوبصورتی کہہ رہی ہو؟ وہ میری بے عزتی کرنے لگی۔ میرے حسن کو دیکھو اور پھر اِس داغدار دلہن کو دیکھو۔ جب مَیں نے اُس کی آواز سنی مَیں نے اپنا سر جھکالیا۔ مَیں ارم اور اپنی خوبصورتی کے نشانات کے بارے میں سوچنے لگی۔ ارم نے میرے جسم پر موجود خوبصورتی کے ہر نشان کا ایک نام رکھا ہوا تھا۔ انہی ناموں کو یاد کرتے ہوئے میں نے اُن میں سے ایک کو چھو کر محسوس کیا۔ انار، انجیر، سارنگی، ابابیل، آدم، مریم، ستارہ، تیتر اور آسمان اُن نشانات کے نام تھے۔
کھانا تیار بھی ہوا اور نگل بھی لیا گیا۔ رقص وسرور کی محفلیں سجیں، آتش بازیاں اور ہوئی فائرنگ بھی ہوئی اور بہت جلد ہی شادی اپنے اختتام تک پہنچ گئی۔ یکے بعد دیگرے تمام مہمان اپنے گھروں کو چلے گئے۔ میری ساس نے میرا ہاتھ پکڑکر حجلۂ عروسی تک میری رہنمائی کی۔ میرا چہرہ سرخ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔ کمرے کے بالکل وسط میں ایک بڑا سا بیڈ تھا۔ انھوں نے مجھے اُس پر بیٹھا دیا۔ میری ساس، جہنّم کی چڑیل ، نیچے جھکی اور میرے چہرے سے نقاب اوپر اٹھا دیا ۔اُس نے میری آنکھوں میں دیکھا اور مجھے سمجھایا کہ اِس رات مجھے کیسا برتائو کرنا تھا۔ اُس نے نقش و نگار سے آراستہ کاٹن کا ایک کپڑا مجھے دے کر کہا تھا کہ میں اُس کا استعمال کروں۔ اُس کے بعد اُس نے سرخ نقاب سے میرا چہرہ دوبارہ ڈھک دیا اور کمرے سے چلی گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کمرے سے میری روح بھی جا چکی ہو۔ مَیں آوازیں برابر سن رہی تھی مگر ایک بھی لفظ سمجھنے کے قابل نہیں تھی۔ جب میری ساس کمرے سے باہر نکلی، مَیں نے اپنے سرخ نقاب ہی سے کاٹن کے اُس کپڑے کی طرف دیکھا اور پھر خوف میری ریڑھ کی ہڈی تک سرایت کرتا چلا گیا۔
چیخ و پکار، گیت وسنگیت اور تالیوں کی فوج کمرے سے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ دروازے کے سامنے آ کر وہ لوگ رک گئے۔ آوازیں، گیت، شور وغل، لطائف اور بے شمار چیزیں میرے ذہن سے ٹکرا کر مجھے الجھن میں مبتلا کر رہی تھیں۔ ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھلااور اسی چیخ و پکار اور شور و غل کے درمیان حسن کو پشت سے دھکّا دے کر کمرے میں ڈھکیل دیا گیا۔ ہنسی اور تالیوں کی گھن گرج اب تھم چکی تھی۔
مرزا کی آواز نے مجھے اپنے خیالی خوابوں سے بیدار کیا۔ زینب بلند آواز میں میرے بازو میں بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی۔ اُس کی آواز جذبات سے رندھی ہوئی تھی اور اُس کی آنکھیں نم تھیں۔ دِلان سب کو پانی پلا رہی تھی اُس نے مجھے بھی تھوڑا پانی دیا۔ اُس نے میری پیٹھ پکڑ کر مجھے سہارا دیااور گلاس میرے منہ سے لگایا۔ جب کچھ پانی میری گردن اور سینے پر گرگیا تب اُس نے میرے بازو میں پڑے ہوئے کپڑے سے مجھے نرمی کے ساتھ خشک کیا اور پھر آرام کے ساتھ مجھے اپنے بستر پر لٹا دیا۔ مَیں باہر سے آتی ہوئی آوازیں سن سکتی تھی۔
آوازیں! آوازوں کا شور گھٹتی ہوئی آندھی کی طرح مدھم ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ مکمل خاموشی ہوتی چلی گئی۔ حسن دروازے کے سامنے ایسے کپڑوں میں کھڑا تھا جو اُس کے لیے بہت بڑے تھے۔ مَیں نے سرخ نقاب کے پیچھے سے اُس کی جانب دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس نے کسی اور کے کپڑے پہنے ہوں۔اپنے جیکٹ کو کھینچتے ہوئے اُس نے اپنا گلا صاف کیا۔ جب وہ اپنی جیب سے سنہرا ہار نکال کر میری گردن میں ڈالنے کے لیے قریب آیا، اچانک مَیں نے گزری ہوئی اُس رات کے بارے میں سوچنا شروع کردیا جب ہمارے گھروں پر مسلّح چوروں کے گروہ نے حملہ کیا تھا۔ مجھے وہ انداز بھی یاد آیا جس طرح سے انھوں نے عورتوں کے زیورات چھینے تھے۔حملے کی رات گودام میں قتل کیے جانے والے ہر چوہے کی آواز بھی مَیں سن سکتی تھی۔مریم انھیں اپنا سونے کا ہار دینا نہیں چاہتی تھی اِس لیے اُس نے مدافعت کی۔ ایک ڈاکو نے اپنی بندوق کا نشانہ اُس کی طرف کیا اور اُسے سوٹ کردیا۔ پھر وہ حقارت کے ساتھ اُس کے مردہ جسم کو دیکھنے لگااور جھک گیا تاکہ اُس ہار کو کاٹ کر نکال سکے۔
حسن نے میرے چہرے سے سرخ نقاب اٹھایا ۔ مَیںنے مدھم ہوتی ہوئی قدموں کی آوازیں اور شوروغل سنا۔ حسن میرے سامنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنے قدموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کے بعد وہ کھڑا ہوگیا اور اُس نے اپنا جیکٹ ، پتلون اور شرٹ اتاردیا۔ کسی اور کے کپڑے۔ جب اُس نے میرا کمربند کھولنے کی کوشش کی تب اس کے پسینے میں شرابور ہاتھ کانپنے لگے۔ مَیں نے اپنے بستر کے نیچے کپڑے کا وہ سفید ٹکڑا رکھ لیا جسے میری ساس نے مجھے دیا تھا۔ مَیں چھت کی طرف دیکھنے لگی۔مَیں ارم کے تصوّر کی طرف بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی جومیری آنکھ کی پتلیوں میں کہیں راکھ ہو چکی تھی۔جتنا مَیں اُسے بھولنے کی کوشش کرتی ہوں اتنا ہی واضح اس کا چہرہ اور آواز میرے ذہن میں گونجنے لگتی ہے۔آنسو میرے گالوں پر بہنے لگے ۔ مَیں اپنے گھر والوں کو یاد کرنے لگی۔ جنھیں ننگا اور تارتار کرکے جانوروں کی طرح گولی مار دی گئی تھی۔ مَیں اُس مسلّح شخص کے بارے میں سوچنے لگی جو اُن تمام لوگوں کے کپڑے لے گیا تھا۔ مَیں تصوّرات اور آوازوں کے سمندر میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ پھر حسن لیمپ بجھانے چلا گیا۔ جب کانپتا ہوا شعلہ بھی ڈوب گیا، وہ تاریکی جو ہمارے اردگرد رینگ رہی تھی اُس نے کمرے پر حملہ کردیا۔ مَیں اب بھی چھت کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں اندھیروں کی عادی ہوچکی تھیں ۔ مَیں خاموش ہی رہی۔
ارم! ارم!اب مَیں اپنی موت کے بستر پر ہوں۔ میرا بیٹا، پوتے پوتیاں، داماد اور تمام رشتہ دار میرے پاس جمع ہیں۔ہر کوئی میری طرف محبت، ہمدردی اور ترس کھا کر دیکھ رہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کر بھی تھوڑے خوش ہو رہے ہیں کہ وہ نہیں مر رہے ہیں۔ جب مَیں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا تب مَیں دیکھ سکتی تھی کہ وہ میری موت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وہ سوچ رہے تھے کہ موت میرے لیے سب سے موزوں ہے اور مَیں پہلے ہی مر چکی ہوں۔ اگرچہ کہ مَیں اب بھی سانسیں لے رہی تھی۔ ہر کوئی تنائو اور الجھن کا شکار نظر آرہا تھا۔ رستم ہر دو منٹ پر اپنے فون کی طرف دیکھتا جا رہا تھا اور کچھ لکھتا جارہا تھا۔ ہو سکتا ہے مَیں موت کے بستر پر نہ ہوںاور وہ اسکول میں ہو۔ ہر کوئی، وہ جو کئی دنوں سے وہاں تھے اور وہ بھی جو مجھے دیکھنے آئے تھے، وہ میرے چہرے کی طرف اِس طرح دیکھتے تھے جیسے مجھ سے اجازت مانگ رہے ہوں کہ اب ہمیں جانے دیا جائے۔ زینب اور دلبر دن بھر قرآن پڑھتے رہے تھے۔ جیسے وہ بھی چاہتے ہوں کہ میری روح جلد از جلد میرے جسم کو آزاد کردے۔ مَیں کہہ سکتی تھی کہ وہ لوگ تھک چکے ہیں اور مَیں اب بھی اتنی طاقتور ہوں کہ انھیں روک رکھا ہے۔ بے صبری بھیڑ مجھے آندھی کی طرح ادھر سے ادھر اڑانے لگی۔ اُن کے چہروں سے مایوسی بے صبری اور الجھن نمایاں ہو رہی تھی۔ ایسے ماحول سے میرا سر پھٹا جا رہا تھا۔
دروازہ کھلا اور بی نیوز کی چھوٹی لڑکی یعنی میری پوتی اسٹران سفید ڈریس میں کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کے بال جوڑے کی شکل میں بندھے ہوئے تھے۔ اُس کے سانولے سے چہرے پر غم کے تاثرات تھے۔جب وہ اندر آئی عورتیں قرآن پڑھ رہی تھیں۔ میری سانسیں رک رک کر چل رہی تھیں۔ رستم ابھی بھی فون پر کچھ لکھ رہا تھا یا کوئی اور کام کررہ تھا، مرزا شفقت کے ساتھ اسٹران کی جانب دیکھ رہا تھا۔ جب اس کی ماں نے اُسے اپنی آغوش میں لیا تب ہماری آنکھیں ایک دوسرے سے ملیں۔ مَیں نے مسکرانے کی کوشش کی۔وہ دوسری جانب دیکھنے لگی اور خاموش ہو گئی۔وہ خوفزدہ نظر آرہی تھی۔ اُس نے میری جانب اشارہ کیا اور مضبوطی سے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔ ہمارے پڑوسی کی لڑکی پروین نے دلبر کے کانوں میں کچھ سرگوشی کی۔ مَیں نے دیکھا کہ پروین ترچھی نظروں سے میری جانب دیکھ رہی ہے۔ مَیں نے اُس کے ہونٹوں کی حرکتوں کو پڑھنا شروع کیا۔ صرف اِس لیے کہ مجھے کچھ شک تھا۔ دلبر اُس کی طرف پلٹی کہا کہ اِن کی عمر کم ازکم سو سال ہے۔ ہو سکتا ہے اُس سے زیادہ بھی ہو۔ پروین پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ پرتجسّس نظروں سے میری جانب دیکھنے لگی اور کہا کہ ماشاء اللہ ! اتنی لمبی عمر!اے خدا، اب اِسے اٹھا لے ، اب اسے سکون ملے۔ دلبر بھی اثبات میں اپنا سر ہلانے لگیں۔ اِس نے بہت تکلیف جھیلی ہے اب اگر یہ مر بھی جائے تو اِسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ شاید اب یہی اِس کی قسمت ہے۔ مَیں نے اپنی آنکھیں بھینچ لی تاکہ میں یہ منظر نہ دیکھ سکوں۔
ارم !ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مَیں موت سے ڈر رہی ہوں اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ مَیں جلد ہی مر جائوں۔اگرچہ کہ میں خوفزدہ نہیں ہوں میری آنکھیں گردوغبار سے اٹی پڑی ہیں۔ نہ ہی مَیں اپنے اندرون کو کترنے والے کیڑوں سے خوفزدہ ہوں،میرا گوشت اور ہڈیاں تحلیل ہورہی تھیں ، میرے پھیپھڑوں اور دل میں کھٹمل رینگ رہے تھے۔ سچائی سے آگے کوئی چیز نہیں تھی۔ مَیں اِن میں سے کسی بھی چیز سے خوفزدہ نہیں تھی۔مَیں جو کچھ بھی سوچ رہی تھی وہ یہی تھا کہ جب میں مرجائوں گی تب مَیں دوبارہ تمھارے ساتھ مل جائوں گی۔موت مجھے تمھارے پاس دلہن بنا کر پہنچا دے گی۔
میری نظروں کا محور، میرے مسائل کا حل اور میری عبادتوں کا ثمر ، تم ہو ارم۔اِن گزرے ہوئے سالوں میں مَیں نے تمھیں چھپا کر رکھا تھا۔ پہلے اپنے آپ سے چھپایا اور پھر اُن تمام لوگوں سے جو میرے اطراف میں تھے۔ لیکن اب نہ مَیں یہ بوجھ اٹھا سکتی ہوں اور نہ اِسے اپنے ساتھ قبر میں لے جا سکتی ہوں۔ مجھ میں اب اتنی طاقت نہیں ہے۔اِس بوجھ سے اب مَیں سانس نہیں لے پا رہی ہوں۔ ہر سانس مجھے اپنے سینے میں خشک آگ کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ مَیں محسوس کر سکتی ہوں کہ میری روح دھیرے دھیرے میرا جسم چھوڑ رہی ہے۔ ہر گذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ ساتھ میرا وزن کم ہوتا جا رہا ہے۔اس دوردراز اور ویران سرزمین پر میرے دوست اور میرا پورا خاندان اپنی آنکھوں میں الوداعی سلام لیے میرے اطراف جمع ہیں۔زینب میرے بازو میں بیٹھ کر قرآن پڑھ رہی ہے تاکہ میری روح میرے ٹوٹے پھوٹے جسم سے آسانی کے ساتھ نکل جائے۔
ہر شے سیاہ ہوتی جارہی ہے۔ یقیناً یہ میرے آخری لمحات ہیں۔ میں نے اشارے سے کمرے میں موجود لوگوں کو جانے کے لیے کہا۔ جب وہ جانے لگے تب میں نے اُن کی سرگوشیاں سنی وہ کہہ رہے تھے۔ ’’مجھے امید ہے خدا اِس کی روح جلد ہی قبض کر لے گا،موت ہی اِس کے لیے نجات ہے۔ موت کے لیے خدا کا شکر ہے۔‘‘ہاں ارم ! مَیں خود بھی موت پر خدا کا شکر اداکرتی ہوں۔ میں تمھاری بخت کے خوش قسمت ستارے کی بھی مشکور ہوں جو اب بھی باقی ہے۔ اگر موت نہ ہوتی تو میں تم تک کیسے پہنچ سکتی تھی۔ لوگ اپنے پیچھے بے صبری، سرگوشیاں اور الجھنیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اب صرف مرزا اور رستم ہی کمرے میں رہ گئے تھے۔ ہم خوفزدہ اور مایوس ہو کر ایک دوسرے کی جانب دیکھ رہے تھے۔ جیسے منہ میں کہیں دوری پر تین دانت ہوں اور اُن کا ایکدوسرے سے تعلق ہو۔ رستم دیوار کے منقّش پردوں سے چپک کر کھڑا ہوا تھا۔ ابراہیم، اسماعیل کو خدا کے لیے قربان کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ (رستم) پوری توجہ کے ساتھ ابراہیم، اسماعیل، سفید دنبہ اور پَروں والے فرشتے کو دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے مجبور ہو کر اُس کی طرف دیکھا اور اُس نے اپنی نظریں پھیر لی۔
مَیں نے اشارے سے رستم اور مرزا کو اپنے قریب بلایا۔ رستم میرے بائیں جانب اور مرزا میرے دائیں جانب بیٹھ گیا۔ مَیں نے اپنے بیٹے اور پوتے کی طرف دیکھا۔ مَیں نے اُن کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ تھوڑا سرکتے ہوئے مَیں نے اُن سے اور قریب آنے کو کہا۔ مرزا میری باتیں سننے کے لیے میرے منہ سے قریب جھک گیا۔ تب کمرے میں تیز میوزک کا دھماکہ ہوا۔ مرزا نے غصّے سے رستم کی جانب دیکھا جو اپنے فون کال کا جواب دینے میں مصروف تھا۔ ’’اُس چیز کو فوراً بند کرو‘‘رستم ابھی بھی فون پر تھا ’’دوست میں تمھیں بعد میں کال کرتا ہوں‘‘پھر وہ غصّے سے تپتے ہوئے اپنے والد کہ قریب اس طرح آیا جیسے کہہ رہا ہو کہ ابّا جان تم کبھی نہیں سمجھو گے۔مرزا غصّے ، مایوسی اور اداسی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر دوبارہ میرے کانوں سے قریب جھک گیا۔میں اپنے بیٹے کے کانوں میں ٹھنڈی آہوں کے ساتھ ارم، ارم کہہ رہی تھی۔جب میں سرگوشی میں یہ نام لے رہی تھی ،تو مجھے کچھ راحت کا احساس ہوااور میں گہری سانس لینے کے قابل ہو گئی۔ میں نے مرزا کو اور قریب کھینچا اور کہا میرے بیٹے! میرے مرزا!مجھے سنو! یہ سنو کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں۔ اس کوشش نے میری سانسیں روک دی۔ میرا گلا خشک ہو گیا۔ مَیں نے پھر ایک گہری سانس لی۔ میرے بیٹے مرزا! مرزا! یوں محسوس ہوتا ہے تم مجھے نہیں سن رہے ہو۔ پھر اُس نے تیز آواز میں کلمۂ شہادت پڑنا شروع کردیا۔ مَیں نے اُسے خاموش کرنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھایا اور اسے اور قریب کرنے کی کوشش کی۔ اب میرا منہ اس کے کانوں کو چھو رہا تھا۔ مَیں نے اُس سے حسن کے بارے میں، ارم کے بارے میں اور میری آخری خواہش کے بارے میں کہا۔ مجھے وہاں دفن کرو یہ میری آخری التجا ہے۔ ورنہ تمھیں میری دعائیں نہیں ملے گی۔اُس کے چہرے کا رنگ اس طرح سے اڑ گیا جیسے اُس کے گلے میں کوئی بال پھنس گیا ہو۔ وہ کھنکارتے ہوئے سانسیں لینے لگا۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں نے اسے روک دیا۔ اس کے منہ پر میں نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
اگر تم میرے پیارے بیٹے ہو، میرے بہادر بیٹے ہو تو مجھ سے وعدہ کرو مرزا کہ تم مجھے وہاں دفن کرو گے۔
میرا ہاتھ دباتے ہوئے اس نے کہا کہ ہاں ہاں میں وعدہ کرتا ہوں۔
دھندلے تصوّرات کے درمیان میں نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں بند کیں۔ مرزا احساسِ جرم کے ساتھ اپنے بیٹے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ رستم سمجھ نہیں پایا کہ یہاں کیا ہوا تھا۔ وہ مایوس دکھائی دے رہا تھا۔ میری آخری التجا کسی ایسے گناہ کی طرح تھی جسے میں نے اُن کے خلاف کیا ہو۔ مرزا کی پریشانی اور مایوسی کے جذبات اُس کے چہرے سے غائب ہوچکے تھے لیکن رستم کے چہرے پر اب بھی موجود تھے۔ مرزا کے چہرے پر عزم محکم اور غصّے کے اثرات نمایاں تھے۔ یہاں تک کہ میری زبان منہ میں سوج گئی تب بھی میری آہوں سے ارم ارم کی صدائیں آرہی تھیں۔ بہت پہلے جب اِس کمرے کی گھٹن میں میری آواز دبا دی گئی اُس کے بعد مَیں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔
٭٭٭
یعود اکینسی کا افسانہ ’بہشتِ گمشدہ ‘ کا اردو ترجمہ معروف مترجم ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے کیا ہے۔ یہ اردو ترجمہ انھوں نے اردو چینل کے لیے کیا تھا جو اردو چینل کے شمارہ ۳۳ میں شامل ہے۔
یعود اکینسی بئٹ من کے ایک گائوں یدی بلوک میں 1979ء میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ڈیسلے یونیورسٹی سے ایجوکیشن کے شعبے میں گریجویشن مکمل کیا۔ اکینسی حال میں بیٹ من میں معلم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ یوزونسو یِل یونیورسٹی ترکی سے بھی منسلک ہیں۔ اکینسی کوان کے افسانوں پر کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ 2005ء میں انھیں ہلڈن ٹینر ایوارڈ اور 2007ء میں یونس نادی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔اُن کا شمار ترکی اورکرد زبان کے اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ اُن کی تخلیقات کے انگریزی اور جرمن زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ اُن کے حالیہ ناول “جنت کی گمشدہ زمین”کو کُرد، ترکی اور انگریزی زبانوں میں “دی ٹریس”نامی ٹائٹل کے ذریعے ریلیز کیا گیا۔اکینسی فی الحال اپنے تیسرے ناول پر کا کر رہے ہیں۔ (قمر صدیقی)
Masnavi Mauzzaye Mashooq by Shah Mubarak Aabroo
Articles
مثنوی موعظہِ آرائشِ معشوق
پروفیسر ظفر احمد صدیقی
Language and Border Short Story by Sheerko Fateh
Articles
سرحد اور زبان
شیرکو فتح
کہانی کا محلِ وقوع ایران، عراق اور ترکی کی سرحدیں ہیں جہاں ایک عراقی کرُد بطور اسمگلر اپنے شب و روز گزار رہا ہے۔ایک سابق فوجی سے زمینی سرنگوں کا نقشہ خرید لینے کے بعد یہ اسمگلر جنگ زدہ سرحدوں کی طرف نکل پڑتا ہے تاکہ وہاں سے عیش وآرام کے سازوسامان اپنے ملک میں لا سکے۔اپنے ہر سفر کے دوران وہ بارودی سرنگوں کو زمین سے اوپر لے آتا اور واپسی کے سفر میں انھیں دوبارہ دفن کردیا کرتاتھا۔وہ کسی کتاب کی طرح ویران زمین کا مشاہدہ کرتا اور وہاں واقع ہونے والی تمام تر تبدیلیوں پر توجہ دیتا۔سرحد پر اُس کا ہر سفر زندگی سے موت کے سفر کی طرح ہوتا۔
اسمگلر ڈھلوان سے نیچے اترا اور بارودی سرنگوں کی طرف جانے لگا۔وہ پوری توجہ کے ساتھ گن گن کر اپنے قدم رکھ رہا تھا۔گلِ بہار اپنی پوری تروتازگی کے ساتھ کِھلا ہوا تھا۔ ہوائوں نے گھاس کی پتّیوں کو سیدھا کر رکھا تھا۔گھاس کی یہ پتیاں پورے میدان میں اُگی ہوئی تھیں اور اپنے آپ کو پتھروں بھری اُس چراگاہ میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں جو عمودی شکل میں پہاڑوں تک جاتی تھی۔اُس کے پیچھے ایک بڑا سا ٹیلہ اور ایک راہداری تھی۔شاید بارودی سرنگوں کو صاف کرنے والے یہاں ابھی نہیں آئے تھے۔یہاں نہ کسی قسم کی روکاوٹیں تھیں اور نہ ہی وارننگ بورڈ۔
اسمگلر چراگاہ کے کنارے پر پہنچ کر رک گیا۔پھر کچھ دور دوسری جانب چلنے کے بعد وہ پیچھے ہوا،تاکہ اندر جانے کے لیے صحیح مقام کا انتخاب کر سکے۔وہاں موجود پتھروں کی جگہیں اور محلِ وقوع اُس کے لیے کسی سراغ سے کم نہیں تھے۔اُسے جلد ہی اُس مقام کا پتہ چل گیا جس کی اُسے تلاش تھی۔چراگاہ اب بھی ویسی تھی۔آہنی سلاخ اٹھا کر اُس نے ایک مرتبہ اور اپنے اطراف میں نظر ڈالی۔
ڈھلوان کے اوپر سے بھورے نیلے رنگ کا ایک ٹیلہ نمودار ہو رہا تھا۔اُس کے اوپر سطح مرتفع کسی منبر یا چبوترے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔دو بدنصیب اور تقریباً عریاں درختوں کی شاخیں گھاٹی میں لٹکتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔اُس نے راتوں میں آنے والی آوازوں کے بارے میں سوچا پھر یہ محسوس کیا کہ جب وہ اپنے گھر سے جدا ہوا تھا تب شاید اُس نے کوئی چیز اپنے پیچھے چھوڑ دی تھی۔
اپنی پشت پر لدے ہوئے بیگ کو برابر کرتے ہوئے اُس نے چراگاہ پر رینگنا شروع کیا۔دور سے یہاں گھنی ہریالی محسوس ہوتی تھی جبکہ گھاس کی پتیوں نے زمین کے کچھ ہی حصے کو ادھر اُدھرسے ڈھانپ رکھا تھا۔اِسی وجہ سے یہ قطعۂ زمین اُس کے لیے تکلیف دہ بن چکا تھا۔یہ حصہ جیسا نظر آتا تھا اِس کے برعکس یہ اُن تمام بارودی سرنگوں کے لیے مثالی بھی تھاجنھیں ایک کے اوپر ایک تین پرتوں میں رکھا جاتا ہے۔اِس کا ابھاراور نوکیلا حصہ اوپر کی جانب تھا تاکہ مٹی پربارودی سرنگوں کی پکڑ مضبوط رہ سکے۔اسی ترکیب کی بنا پر یہ بارودی سرنگیں بمشکل انسانی پنجوں سے بڑی تھیں اور دیکھنے میں کھلونے کی طرح نظر آتی تھیں۔
بارودی سرنگوں کو کھودنے کے بعد ،اسمگلر کوہمہ وقت اِس حالت کی سنگینی کا احساس رہتا۔جب اُس نے اُس سرنگ پر لکھے ہوئے الفاظ کی اُس جگہ شناخت کی جہاں انسانی قدم سرنگ کی سب سے اوپر والی پرت یا ڈسک پر پڑتے ہیں۔ ان تحریروں میں کوئی دلکشی نہیں تھی اور یہ محض لفظی علامتیں تھیں۔انھیں مٹی سے ڈھکے ہوئے بھورے ہرے رنگ کے حصّے پر کنندہ کیا گیا تھا اور یہ پڑھنے کے لیے بھی نہیں تھیں۔ انھیں اِس طرح سے کنندہ کیا گیا تھا کہ یہ دھماکے کی صورت میں زخم اور درد کا پیغام دیتے ہوئے غائب ہوجائیں۔یہ کنندہ تحریریں شاید دھماکہ ہونے سے پہلے کی الٹی گنتی تھیں۔
اسمگلر نے گھٹنوں کے بل ہوتے ہوئے اپنے سر کو زمین کے قریب کیا۔
اپنی ہیٹ سے چھُو کر اُس نے اپنے سامنے ایک نشان زدہ راستہ دیکھا جو آگے جانے کے بعد تنگ ہوجاتا ہے۔اُن سنگریزوں نے اُس کی مدد کی جنھیں جگہ یاد رکھنے کے لیے ایک خاص مقام پر رکھ دیا گیاتھا۔لیکن اب اُن مقامات کے ہرسینٹی میٹر کو اُسے اپنی یاداشت میں لانا تھا۔ایک مرتبہ وہ اُن سے ٹکرایا بھی لیکن فوراً رک گیا اور اپنے کوٹ کی جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالااور اُس کی مدد سے سامنے کی جگہ کا موازنہ کرنے لگا۔ سنگریزوں کا مقام اور کاغذ پر بنی ہوئی ڈرائنگ اُسے یکساں نظر آنے لگی۔اُس نے کاغذ کے اُس ٹکڑے کو موڑ کر واپس رکھ دیا۔اُس کے بعد اُس نے اپنی ہیٹ ہٹا لی اور اپنی ہتھیلی کے پچھلے حصّے سے اپنی پیشانی صاف کرنے لگا۔پھر اُس کے بعد اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال تلاش کیا اور اپنے چہرے کو صاف کیا۔اس کے بعد اُس نے رومال کو اپنے سر پر اس طرح سے رکھا کہ اُس کی پیشانی بھی چھپ گئی۔پھر اپنی ہیٹ کی مدد سے اُسے اور محفوظ کرلیا۔
پوری توجہ کے ساتھ وہ آگے جھکا اور اپنی کہنیوں کو زمین پرآرام سے رکھ دیا۔اب وہ اپنے اطراف کے ہر سینٹی میٹر کا دوبارہ مشاہدہ کر رہا تھا۔اُس نے جب یہ سوچا کہ وہ صحیح جگہ پر ہے تب اُس نے کچھ لمحوں کے لیے ایک مرتبہ اور اپنی آنکھیں بند کرلی۔ اُس کے بعد اس نے آہنی سلاخ کومخصوص زاویے پر ایک ایک ملی میٹرتک کھینچنے کی کوشش کی۔پسینہ اُس کی کنپٹی سے بہہ رہا تھا۔ وہ باریک سے باریک مزاحمتوں کو روکنے کے لیے تیار تھا اگرچہ وہاں کی مٹی اِس کا سبب نہیں تھی۔مزاحمت کو محسوس کرنے کا کام اُس نے اپنی انگلیوں سے اِس طرح سے شروع کیا جیسے کہ وہ اُس کی شدّت کو اور بڑھا رہا ہو۔ آہنی سلاخ کو دوبارہ اسی راستے پر رکھ دیا گیا۔وہ ایک خاص زاویے پر سطح سے بالکل قریب پڑی ہوئی تھی ۔ اگر اِس طرح سے آہنی سلاخ اوپر آجائے تب یہ بارودی سرنگ کے اُس کنارے سے مَس ہو سکتی ہے جہاں سرنگ کا ابھار ہے۔ اب اُسے یقین ہو گیا کہ سلاخ کی نوک کسی چیز سے مَس ہوئی ہے۔دوبارہ رکتے ہوئے ایک لمحہ توقف کے بعد اسمگلر نے اپنے اوزار کو زمین سے باہر نکالااور اپنے سامنے رکھا۔اب اُس نے باریک سوراخ کو کھودنا شروع کیااور اپنی انگلیوں سے مٹی کے ڈھیر کو کنارے لگانے لگا۔باریک سوراخ نے مخروطی روشن دان کی شکل اختیار کر لی تھی۔بارودی سرنگ کا کمزور حصّہ کسی تباہ شدہ عمارت کی طرح گرنے لگا۔آہستہ آہستہ صاف کرنے پر سرنگ واضح نظر آنے لگی۔اسمگلر نے اپنے سر کو جھکاتے ہوئے دوسری ڈسک پر سے ریت ہٹائی۔وہ چاہتا تھا کہ پھونک کر پوری مٹی صاف کردے لیکن وہ اوپر سے زور نہیں لگا سکتا تھا اور کسی بھی حال میں کوئی خطرہ اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا۔نیچے کی ڈسک کو مکمل طور پر کھول دینے کے بعداُس نے اپنے جسم کا اوپری حصّہ اوپر اٹھایا اور اپنے شانوں کو بالکل سیدھا کر لیا۔اب نیچے نظر کرکے اُس نے اپنے مقصد کی طرف دیکھا۔ اُسے اپنا مقصد صاف نظر آرہا تھا۔اس کی حالت قابلِ رحم ہوچکی تھی مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جیت پر خوش بھی تھا۔ یہ جیت کسی جال سے بچ نکلنے اور خود پر منحصر ہونے کے احساس پر مبنی تھی۔ وہ گہری سانسیں لینے لگا،پھر اپنی سانسوں کو روک لیا۔ اب وہ اپنی کہنیوں کے سہارے زمین پر آرام نہیں کر رہا تھا بلکہ آگے کی جانب جھک کر اُس نے اپنی دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ڈسک کے نچلے سرے تک پہنچا دیا تاکہ وہ بارودی سرنگ کو چاروں جانب سے اوپر اٹھا سکے۔جب اُس نے بارودی سرنگ کو آہستہ سے زمین سے اوپر اٹھایاتب اُسے معمولی سا ٹیڑھا کیا جس کی وجہ سے ڈسک پر موجود باقی کی مٹی بھی نیچے گر گئی۔اب اُس نے بارودی سرنگ کو اپنے پیر سے تیس سینٹی میٹر دور نہ نظر آنے والی ایک پگڈندی پر رکھ دیااور اِس بات کو یقینی بنایا کہ گھاس اُسے چھو نہ سکے۔اُس نے نمک سے بھرا ہوا کاغذی بیگ نکالا اور اُس مخروطی روشن دان میں کچھ نمک انڈیل دیاتاکہ واپسی کے سفر میں وہ اِس سوراخ کا آسانی کے ساتھ پتہ لگا سکے۔ اگر ہوا نمک کو ادھر اُدھر پھیلا بھی دیتی ہے تب بھی وہ بآسانی اُس کی شناخت کر سکتا ہے۔یہ نشانی صرف اُسی شخص کو دیکھائی دے سکتی تھی جو اپنے سر کو زمین کی جانب جھکا لے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اُس نے کاغذ کے ٹکڑے پر ایک مرتبہ اور نظر ڈالی۔بارودی سرنگوں کی خاص جگہوں کے علاوہ بھی اُسے کچھ چھپی ہوئی سرنگوں کا پتہ چلاجن سے اُس کا سامنا ہو سکتا تھا۔ایسی زیادہ تر سرنگیں بالکل ہموار تھیں۔لیکن اُس کے راستے میں تین جگہوں پرایسا نظر آتا تھا جیسے وہاں تیل پھیلا ہوا ہو۔ سلینڈر مٹی میں سیدھے رکھے ہوئے تھے۔اُس کے بالکل اوپر ایک انٹینا تھا جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اُسے چھونے پر وہ دھماکے کا ٹریگر ثابت ہوگا۔اِس طرح کی سرنگ کو اچھلتی ہوئی سرنگیں کہا جاتا ہے۔ اِس لیے کہ اِس طرح کی سرنگیں حرکت میں آنے پر پہلے ایک میٹر اوپرہوا میں اچھلتی ہیں تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اُس کا آہنی حصّہ کسی بھی شخص کے پیٹ کو پھاڑ سکے۔یہ سرنگ اسمگلر کے لیے ایک چھوٹا فائدہ اور دوبڑے نقصان کا باعث تھی۔وہ زمین کھودے بغیر اپنے نقشے کے مطابق ان کا اندازہ کر سکتا تھا۔ اگرچہ دوسری سرنگوں کی بہ نسبت یہ سرنگ کافی وزنی تھی اور انٹینا کے سبب بہت زیادہ احتیاط کے بعد ہی اُسے وہاں سے نکال کر زمین پر رکھا جا سکتا تھا۔
اچھلتی ہوئی سرنگوں تک پہنچنے سے پہلے اُس نے دو ہموار سرنگوں کوکھودا۔بہت زیادہ تھک جانے کے بعد اُس نے اپنی سرگرمی کو اتنا آہستہ کرلیا کہ جھپکتی ہوئی پلکیں بھی اُسے چونکا سکیں۔اُس نے کجروی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھا تاکہ وہ اپنی توجہ کو ایک خاص نقطے پر مرکوز کرسکے۔ دوپہر ہوچکی تھی چراگاہوں سے ہلکی ہوائوں کا گزر جاری تھا۔کچھ لمحوں کے لیے اسمگلر نے سوچا کہ شاید وہ کوئی اور ہے جو گھٹنوں کے بل اس بیکار زمین پر کھڑا ہو۔اگرچہ وہ وہاں سے نہ صرف گائوں کی ہر سمت کا مشاہدہ کر سکتا تھابلکہ دندانے دار چٹانوں اور نوکیلی چوٹیوں کو بھی دیکھ سکتا تھا لیکن زمین کی وسعت اور پھیلائو کے تعلق اُس کے یہاں کسی قسم کے جذبات نہیں تھے۔اُس نے بہتی ہوئی سرد ہوائوں کے جھونکے محسوس کیے۔اُس نے کچھ دھیمی دھیمی آوازیں محسوس کیں ایسا لگتا تھا جیسے یہ آوازیں کسی کمرے کے اندر سے آرہی ہوں۔
ایک مرتبہ پھر سے اُس نے اپنا سر زمین پر جھکا دیا۔گھاس کی پتیوں کی کھرکھراہٹ نے اُسے الجھن میں مبتلا کردیا۔اُس نے کچھ چونٹیوں ، سفید سنگریزوں اور مکڑیوں کے چمکتے ہوئے عارضی جالوں کو دیکھا۔انٹینا حکم کی تعمیل کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔اسمگلر اور قریب ہوا اور گھاس کو کنارے کیا۔اُس نے کدال لے کر اپنے اطراف کے سلینڈر کھودنا شروع کیا۔جب تک اُس کی نظر انٹینا پر ہے تب تک اُسے کوئی خاص احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔
اتنا کرنے بعد اُس نے اپنے آپ کو بالکل سیدھا کیا اور گہری سانسیں لینے لگا۔اُس نے اپنے ہاتھوں سے اُس راستے کا پتہ لگا لیا جہاں سے وہ بارودی سرنگ باہر نکال سکتا تھا اور اُس جگہ کا بھی تصور کرلیا جہاں اُسے رکھنا تھا۔یہ جگہ نالیوں کے درمیان کسی پناہگاہ کی مانند نظر آرہی تھی اور واپسی کے سفر پر اُسے اِس جگہ کا اندازہ کرنا بھی آسان تھا۔اُس نے اپنے ہاتھوں کو اُس سوراخ میں ڈالا اور وہاں موجود بارودی سرنگ کو اپنی انگلیوں سے پکڑ کر باہر نکالا۔لیکن اُس نے اِس بات کا دھیان رکھا کہ اوپر نکالتے وقت انٹینا کسی چیز سے ٹکرا نہ سکے۔اپنے منصوبے کے مطابق اب اسمگلر نے بارودی سرنگ سے اپنے ہاتھ ہٹالیے۔اُس نے سلینڈر کو خود کے متعین کردہ مقام پر رکھااور اُسے آہستہ سے مٹی میں دبانے لگا تاکہ وہ زمین پر صحیح طورسے کھڑا رہ سکے۔اب وہ کھڑا ہوا اور اپنے ہاتھ سلینڈر سے ہٹالیے۔
سرنگ کافی طویل تھی اور اُس کا ایک تہائی حصّہ زمین میں دبا ہوا تھا۔اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس علاقے کا نگہبان اپنی دوربین سے اِن تمام حالات کا اندازہ کرلے۔لہٰذا اُس نے ایک گڑھا کھودااور اُس میں جھکتے ہوئے بارودی سلینڈر کو نیچے رکھ دیا۔زیادہ تر سلینڈر اب زمین میں چھپائے جاچکے تھے صرف انھیں قریب ہی سے دیکھا جا سکتا تھا۔اُس نے دوبارہ سوراخ پر نشانات لگائے اور آگے کی جانب رینگنے لگا۔
سرنگوں کی سرزمین سے گزرتے ہوئے اُسے شام ہوگئی۔ہر سرنگ کو کھودنے کے بعد وہ سورج کا مشاہدہ کرتا رہا تھا۔آخری سرنگ چٹان سے تیس سینٹی میٹر کی دوری پر واقع تھی۔جہاں کچھ فاصلوں پر گھاس اگی ہوئی تھی۔یہ دیکھ کر اُسے کچھ اطمینان ہوا کہ اُس نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے۔اب وہ سخت زمین کی طرف آہستہ آہستہ چلنے لگااِس وجہ سے اُس کے اندر اپنی حفاظت کا احساس بھی پیدا ہوا۔اب وہ اپنے راستے کی طرف پیچھے دیکھنے لگا۔کھود کر دوبارہ منتقل کی گئی سرنگیں ناقابلِ دید ہوچکی تھیں۔وہ آخری سرنگ بھی نظر نہیں آرہی تھی جسے اُس نے زمین میں صرف ٹیڑھا کردیا تھا۔
اسمگلر کھڑا ہوا اُس نے اپنا کوٹ اور پینٹ صاف کیا۔ یہ کام وہ ہمیشہ احتیاط سے کیا کرتا تھا۔سرحد کے حفاظتی دستے سے تال میل قایم کرلینا اُس کے سفر آخری حصّہ تھا۔
اب اُسے سرحدی نگہبانوں کا سامنا کرنا تھا۔اگرچہ کے وہ لوگ اُس کے منتظر تھے لیکن وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ(اسمگلر) کب آئے گا۔جو کوئی بھی وہاں ڈیوٹی پر تھا اُس نے مطالبہ کیا کہ وہ داخلہ فیس ادا کرے۔جس شہر میں وہ جانا چاہتا تھا وہ شہر پہاڑوں سے تین کیلو میٹر کی دوری پر واقع تھا۔اُس نے سرحدی اسٹیشن سے اُس شہر کی طرف دیکھا۔پہلی نظر میں اُسے محسوس ہوا کہ وادیوں اور بل کھاتے ہوئے راستوں سے گذر کر یہ ایک ایسا شہر ہے جسے مکمّل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہو۔جب کہ حقیقت یہ تھی کہ سرحد کے دوسرے جانب وہ ایک گنجان آبادی والا شہر تھا۔اُس جگہ سے قریب جہاں وہ ہمیشہ جایا کرتا تھا بالکل قریب قریب کچھ دیہات آباد تھے۔ جب اُس کے پاس کافی وقت ہوتا تب وہ کم از کم ایک دیہات ضرور دیکھ لیا کرتا تھا۔جہاں کسی اور جگہ کی بہ نسبت شراب کچھ زیادہ ہی سستی ہوا کرتی تھی۔لیکن اِس وقت وہ صرف ایک چھوٹے شہر میں جانا چاہتا تھا۔
اُس کی خواہش تھی کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے وہ واپس آجائے۔عام طور پر وہ بیرونی ممالک میں دن،رات اور دوسرے دن کی دوپہر ہی گزارا کرتا تھا۔کیوں کہ دوپہر کے بعد سرنگوں سے بھری سرزمین سے گزرنے میں اُسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔اِس لیے بھی کہ اُسے کھودی گئی سرنگوں کو دوبارہ دفن کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا تھا اور وہ شہر واپس ہونے سے پہلے باہر رات بھی گزارنا نہیں چاہتا تھا۔ وہاں سے گزرتے وقت اُس نے گشت کرنے والے محافظوں کے بارے میں سوچاکہ وہ لوگ سرنگوں کی جانب جانے والے راستوں پر خاص توجہ دیتے ہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی ایسی چیز کے بارے میں سوچے جو اُس کے اطمینانِ قلب کو مجروح کرے۔
اُس نے سرحد کی جانب چلنا شروع کیا اور اِس بات پر توجہ دینی شروع کی کہ اب آگے کیا ہوسکتا ہے۔وہ اپنے آرڈر لے جا رہا تھا اور اُسے اپنی پشت پر لدے ہوئے بوجھ کا احساس بھی تھا۔
صبح صادق کے وقت وہ سرحد کے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔چٹان کے شگاف میں ایک کنٹینر کو بیرک بنایاگیا تھا۔بھوری خاکی اور دور تک پھیلی ہوئی پتھریلی زمین کے درمیان راستہ کسی نہر کی طرح نظر آرہا تھا۔بیرک اُس کی راہ کے سیدھے زاویے پر رکھا ہوا تھا۔اسمگلر جب اُس کے قریب پہنچا تب اُسے وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔وہاں روکاوٹیں نہیں تھیںاور بیرک کی سمت بھی ایسا کوئی نشان نہیں تھا جس سے سرحدوں کا اندازہ کیا جا سکے۔کنٹینر کی جانب کا چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا۔لیکن چھوٹی سیڑھیوں سے بھی اتر کر اُس کے سامنے کوئی نہیں آیا۔کوئی اندر اُس کا منتظر تھا۔ اسمگلر دانستہ طور پر اندر داخل ہوا اور سیڑھیوں کے قریب پہنچنے سے پہلے بآوازبلند دعائیہ کلمات ادا کیے۔ اُس کی یہی عادت تھی کہ وہ سرحدی محافظوں کے سامنے بالکل چاپلوسی اور خوش مزاجی کے ساتھ آیا کرتا تھا اور غیر رسمی طریقے سے انھیں متاثر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اگرچہ کہ یہ ممکن تھا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کبھی کوئی ایسا شخص وہاں پر ہو جو اُسے نہ جانتا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی اعلیٰ افسر وہاں موجود ہو۔
وہ بیرک میں داخل ہوا اور چار سرحدی محافظوں پر نظر ڈالی۔ وہ لکڑی کے ایک بوسیدہ ٹیبل کے اطراف کھانا کھاتے ہوئے بیٹھے تھے۔ بندوقیں دیوار پر جھکی ہوئی تھیں۔اسمگلر کو فوراً اپنا ریڈ ہائوس کا تکلیف دہ سفر یاد آگیا۔ اگرچہ اگلے ہی لمحے وہ سرد مہری کے ساتھ اُن کے سامنے پہنچ گیا۔ایک شخص نے اُسے کرسی پیش کی۔ اسمگلر اُن کے ساتھ شامل ہوگیا اور آس پاس سگریٹ تقسیم کرنے لگا۔ جنھیں وہ ایسے موقعوں کے لیے اپنے ساتھ لایا کرتا تھا۔چاروں سرحدی محافظ اپنا کھانا روک کر بالکل اُس طرح سے خوشی خوشی سگریٹ پینے لگے جسے اُن کے جیب میں سگریٹ موجود ہی نہ ہو۔
اسمگلر بحالتِ مجبوری اُن لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا ۔اُس کی حالت کسی ایسے بِن بلائے مہمان کی سی تھی جو کسی طور اپنی خفگی چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔زبان اُس کے لیے مسئلہ تھی اور تقریباً تمام سرحدی محافظوں کا بھی یہی حال تھا۔وہ کچھ قابلِ فہم جملے ادا کرتے تھے اور اسمگلر امید وبیم کی حالت میں اُن کا جواب اپنے تاثرات یا ہائو بھائو سے دیتا تھا۔اکثر سرحدی محافظین ملک کے دور دراز کے حصّوں سے آتے تھے اسی بنا پر مقامی لوگوں کی بہ نسبت اُن سے بات کرنا زیادہ مشکل ہوا کرتا تھا۔اِس لیے کہ مقامی لوگ جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی یہیں رہتے آئے تھے۔ وہ دونوں زبانیں جانتے تھے۔ لہٰذا انھیں کبھی یوں بھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے ہی ملک میں غاصب فوجوں کے ارکان ہوں۔ اسمگلر کو کم از کم اتنے الفاظ تو یاد ہی تھے کہ وہ عام سی گفتگو جاری رکھ سکے۔شروعات ہی سے اُس نے اس بات کا اندازہ لگالیا تھا کہ اُس کی بات چیت کی صلاحیت بلاواسطہ اُس پر واجب الادا روپیوں پر اثر ڈال سکتی ہے۔عام طور پر سرحدوں کے محافظ اجنبیوں کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرتے ہیں اوربے پرواہ ہوکر ٹیکس میں بھی کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے۔یہ ایک فطری تقاضہ ہے۔
اُن میں سے ایک بہت زیادہ باتیں کررہا تھا اور وہی اِس گروپ میں سب سے زیادہ اہم بھی تھا۔ وہ اسمگلر کے سامنے بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا اور اپنے سگریٹ کے ہر کش کے ساتھا اپنی مونچھوں کو تائو بھی دیتا جا رہا تھا۔ اُس نے باہر کی خبروں کے تعلق سے پوچھا۔
اسمگلر نے مختصراً سوچا اور پھر حکومت کی کہانی پر آخری ضرب لگائی اور یہ اعلان کیا کہ اب درجہ حرارت 40ڈگری سیلسیس ہونے والا ہے۔وہ تمام لوگ حیرت زدہ ہوگئے انھیں یہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ جانی پہچانی کہانی نہ ہو کر کوئی لطیفہ ہو۔اِس بات پر وہ جتنا ہنس سکتے تھے اُس سے زیادہ انھوں نے اِس پر بحث کی۔
اب برف پگھل چکی تھی اور بیرک ایسی جگہ میں تبدیل ہوگیا تھا جہاں روایتی قوانین کی گنجائش نہیں تھی۔ اُن میں سے ایک شخص کھڑا ہوا ، اپنے جانے کے لیے راہ بنائی اور وہ واپس اسمگلر کے لیے ایک پلیٹ لے آیا۔ اب بات چیت کچھ خاص اہم نہیں رہ گئی تھی۔اب اسمگلر کو مہمان سمجھا جانے لگا تھا اور چائے ختم ہونے تک یہی ماحول برقرار رہا۔
٭٭٭
شیرکو فتح کی پیدائش 1964ء میں مشرقی برلِن میں ہوئی۔شیرکو فتح کی والدہ کا تعلّق جرمنی اور والد کا تعلّق عراق کے کرد علاقے سے تھا۔فتح نے اپنے بچپن کا بیشتر حصّہ عراق میں گزارا۔آج بھی اُن کے خاندان کے بہت سارے لوگ وہاں رہتے ہیں۔1975ء میں وہ اور اُن کے والدین مغربی جرمنی میں آباد ہو گئے۔فتح نے مغربی جرمنی میں فلسفہ اور فنِ تاریخ کی بڑھائی کی اور یہیں فتح نے فلسفیانہ فنِ تفسیر پر اپنی تھیسِس مکمّل کی۔
٭٭٭
معروف کردی فکشن نگار شیر کوفتح کا افسانہ ’سر حد اور زبان ‘کا ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ افسانہ انھوں نے اردو چینل کے لیے ترجمہ کیا ہے اور اردو چینل کے شمارہ ۳۳ میں شامل ہے۔
Beginning of Jafar Magholi and Hasan Toofan
Articles
جعفری مغولی اور حسن طوفان کی شروعات
بختیار علی
میرا نام حسن طوفان ہے۔ میری اور جعفری مغولی کی پرورش پارٹی کے خیالات کے درمیان ہی ہوئی۔ جس دن ہمیں میموستا شآبوین نے بلوایا اور یہ خوشخبری دی کہ ہم دونوں کو قتل و غارت گری کرنے والے خفیہ محکمے کی ذمہّ داریاں دی جاری ہیں، ہم خلائوں میں اڑنے لگے۔ اگر میری یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی ہے تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مغولی مجھ سے کئی گنا زیادہ خوش تھا۔ جب ہم میموستا کی دریائی گھوڑے جیسی مونچھ اور وحشی نظروں کے سامنے کھڑے تھے تب مغولی اپنے پتلے ہونٹ اور چوڑی ناک لیے کسی مجسّمے کی طرح اس قدر خاموش تھا جیسے وہ اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہو۔ اُس کا گندہ شطرنجی مفلر اُس کی گردن کے اطراف لپٹا ہوا تھا۔ اُس کے ظاہری خد وخال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی چوہا غیر فطری طورپر بہت زیادہ بڑا ہو گیا ہواور دو پیروں پر کھڑا ہو۔وہ بے انتہا خوش تھا یوں لگتا تھا گویا اُسے شاہِ روم کا تاج پہنا دیا گیا ہو۔
جعفری مغولی کہا کرتا تھا کہ وہ قتل کرنے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔اُسے یقین تھا کہ قتل و غارت گری والے شعبے میں ہمارا داخلہ ہمیں اعلیٰ عہدوںتک لے جائے گا۔ اُس نے تب سوچا اور وہ اب بھی سوچتا ہے کہ وہ لوگ جو قتل و غارت گری میں ماہر و مشاق نہیں ہوتے اور جو اپنی راہوں کی رکاوٹیں پھلانگ کر آگے نہ بڑھ پائیں انھیں مخروطی مینار کے نیچے اُس وقت تک کھڑا ہونا پڑتا ہے جب تک وہ سڑ کر مر نہ جائیں۔ ہم کند ذہن لوگ تھے، ہمارے اور اُن ذہین لوگوں کے درمیان کوئی بھی قدر مشترک نہیں تھی جنھوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اعلیٰ عہدوں تک ترقی حاصل کی تھی اور طاقتور ترین شخصیت کا روپ دھار لیا تھا۔ ہمارے پاس ہماری بیوقوفی اور بندوق کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں تھا۔ دو بے قیمت سرمائے جنھیں شاذونادر ہی اہمیت دی جاتی ہوگی۔ میں نے ہمیشہ یہ خیال کیا تھا کہ کوئی بیوقوف جس کے ہاتھ میں بندوق ہو وہ بھی ترقی کرتا ہوا اِس ملک کا صدر بن سکتا ہے اور میں اکثر و بیشتر ہی اپنے اِس خیال پر کھرا اترا ہوں۔
مغولی اور میں دونوں ہی بیوقوف تھے لیکن ہم جانتے تھے کہ ہماری بیوقوفی کا ہمیں کس طرح فائدہ اٹھانا ہے۔ ایک مقامی شخص سے ایک بھیڑ کے بچّے پر بحث و تکرار کرتے ہوئے ہم دونوں دوست بن گئے تھے۔ اُس شخص کی کئی خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ ہم دونوں بھی نوجوان تھے۔ ہم دونوں بھی وہاں اُس شخص کی شوخ وچنچل لڑکیوں کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ جب ہم دونوں کو پتہ چلا کہ وہاں جانے کا ہمارا مقصد ایک ہی تھاتب بالکل دو، رازداروں کی طرح ہم دوست بن گئے۔
ہمارے تعلقات کافی پرانے ہیں ۔جن دنوں ہم قتل وغارت گری والے شعبے میں کام کرتے تھے، اُس شعبے کا نام کرد زبان میں ’’قتل غارت گری ‘‘والا شعبہ میں نے خود رکھا تھا۔ جبکہ جعفری مغولی اِس شعبے کو وحشیانہ انداز میں Finishing off Sports Clubکہا کرتا تھا۔ جب ہم پارٹی کیڈر صابر ترانو کے پاس بطور نوآموز رضاکار کام کیا کرتے تھے۔ وہ خفیہ جدو جہد کرنے والا ایک لیڈر اور اسّی کی دہائی کا باضابطہ سیاستداں تھا۔ اُس نے اپنے ہم خیال لوگوں کا ایک گروپ بنایا ہوا تھا۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ وہ اپنے وقت کے انقلابی تشدد کاموجد تھا۔ ایک ایسا وقت یا دور جسے میں سیاہ دور کہتا ہوں مگر میرے ساتھی اُسی دور کو زندگی سے بھرپور دور کہتے ہیں۔ اُس زمانے میں قتل و غارت گری کے لیے بہت سارے گروہ سرگرم تھے مگر اُس کے گروہ کی طرح عقلیت پسند کوئی گروہ نہیں تھا۔
ترانو ایک کمزور شخص تھا جو عینک لگایا کرتا تھا جس کے چہرے پر جھرّیاں تھیں۔ اُس نے اپنی زندگی میں نہ کبھی کسی چیونٹی کو مارا تھا اور نہ کبھی کسی مرغ کا قتل کیا تھا۔ لیکن وہ اپنے آپ کو انقلاب کا نظریہ ساز کہا کرتا تھا۔ اس کی زیادہ تر باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ مجھے اُس کی یہ بات یاد ہے، وہ کہا کرتا تھا کہ ہماری یہ زندگی ، ہماری یہ دنیا اپنے اختتام پر ہے۔ اِس کا مکمّل انحصار خاموشی پر ہے۔ اُس وقت کے سیاستدانوں میں دو قسم کے نظریات تھے۔ ایک کو میں داغدار اسکول کہا کرتا تھا اِس لیے بھی کہ اُن کی سیاسی تشہیر کا اختتام ہمیشہ مخالفین کی بے عزّتی پر ہوا کرتا تھا۔ دوسرا نظریہ جو بہت زیادہ خطرناک اور باعزت بھی تھا ،اُسے میں خاموش قتل کا طریقۂ کار کہا کرتا تھا۔ یہ پراسرار حالات میں خاموشی کے ساتھ اپنے مخالفین کا صفایا کیا کرتے تھے۔ اِس طرح سے کئی سوالات بغیر جواب کے ختم ہوجایا کرتے تھے۔ بے شمار کہانیوں کا کمزور اختتام ہوجایا کرتا تھا اور کئی راز بغیر وضاحت کے رہ جاتے تھے۔ وہ اس طرح کے حالات پیدا کردیتے تھے کہ قتل ایک راز بن کر رہ جاتا اور یقین کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ میں اپنے آپ کو اُس دور کا تخلیق کار سمجھتا تھا۔میں نے اپنی سیاسی تعلیم کے کچھ سال ترانو کی نگرانی میں گذارے جو خاموش سیاست کا ایک اہم لیڈر تھا۔مغولی اور میں اُس کے لیے کام کیا کرتے تھے۔ ہم فسطائیت پسندوں کو نیست نابود کرنے کا کام کرتے تھے اور مزدوروں اور باغیوں پر ہونے والے مظالم کو شمار کیا کرتے تھے۔ پارٹی میں ترانو کے کچھ مخالفین کے مفقودالخبر ہونے کے پیچھے بھی ہمارا ہی ہاتھ تھا۔ ہم نے ترانو کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے بیشمار لیڈران کو قتل کیا تھا اور یہ پورا کام ہم نے مکمّل خاموشی میں کیا۔
قومی جدوجہد میں کئی سال گذارنے کے باوجود بھی ترانو کی ٹیلر کی دکان تھی۔ وہ کسی معصوم کی طرح اپنی سلائی مشین پر جھکا ہوتا۔ اُس کی آنکھوں کی کمزور روشنی دیکھ کراُس کے مہمان، گاہک اور وہاں سے گذرنے والے اُس پر ترس کھاتے اُس سے ہمدردی ظاہر کرتے۔ وہ اتنا کمزور اور ناتواں انسان تھا کہ کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اِس خونی اور پیچیدہ آپریشن کے پیچھے اِس کمزور مخلوق کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ دبلا پتلا اور بیمار نظر آتا تھا۔ اگر تم کبھی اُسے دیکھو تب تمھارا دل بھی اُس کے لیے رونے لگ جائے گا اور تم خود بھی افسوس کرو گے کہ یہ کتنا بدنصیب شخص ہے۔ اپنی رذیل اور ذلیل قسمت ہی کی وجہ سے وہ بہت ہی مشکل دنوں میں بھی جاسوسوں کی نظروں سے محفوظ رہا۔
مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے رہنما اور استاد صابر ترانو بھی مغولی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ جعفری مغولی کا قتل کرنے کا اپنا ایک الگ ہی انداز تھا۔ وہ اپنے شکار کے بالکل قریب چلا جاتا وہ اُن سے باتیں کرتا اُن کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا پھر اُس کے بعد اُن پر بندوق تان دیا کرتا اور انہیں قتل کردیتا تھا۔ وہ اپنی بندوق ہمیشہ اپنی جیب میں رکھا کرتا تھا۔ اُ س کے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا تھا جو ہمیشہ اپنی بندوق اپنی جیب میں رکھتا ہو۔ وہ اپنے شکار کے قریب پہنچنے کا بہانہ ڈھونڈتا اور بالکل قریب سے انہیںپیٹ میں گولی ماردیا کرتا تھا۔ جیسے ہی اُس کا شکار زمین پر گرتا اور چیخنے چلّانے کے لیے اپنا منہ کھولتا تب وہ دوسری گولی اُس کے منہ میں داغ دیا کرتا۔ مغولی کا انداز مجھ سے بالکل مختلف تھا۔ میں اپنے طاقتور اور کبھی نہ لرزنے والے ہاتھوں سے نشانہ لیا کرتا تھا اور پندرہ بیس میٹر دور سے اپنے شکار کے سینے میں گولی مارا کرتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی اپنے کسی شکار پر سینے کے علاوہ کہیں اور گولی چلائی ہو۔ میرا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا۔
قتل کا فن یہ نہیں کہ شکار کے کسی بھی نظر آنے والے حصّے پر گولی مار دی جائے۔ یہ تو ایک بزدل اور نہ اہل قاتل کی علامت ہے۔ قتل یعنی اپنے شکار کو سینے میں مارنا اور سینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
مغولی اور میرے اندازِ قتل کے علاوہ بھی کئی لوگ تھے۔ مثال کے طور پر شِبر جو صرف اور صرف پیشانی پر نشانہ لگایا کرتا تھا۔ وہ لوگ جو ستّر کی دہائی کے اخیر میں اور نوّے کی دہائی کے وسط میں پیشانی پر گولی مارے جانے کی وجہ سے قتل ہوئے وہ سب کے سب ہی شِبر مصطفی کے شکار بنے تھے۔ تقسیم اپنے شکار پر سیدھے سر سے پیر کے انگوٹھے کی جانب گولی چلایا کرتا تھا۔ بیزنگ یا سی ایو اپنے شکار کوپچاس سے کم گولیوں کی سزائیں کبھی نہیں دیتا تھا اور انہیں چھلنی کردیا کرتا تھا۔ فرائے تُنچی پیچھے سے گولی مارا کرتا تھا۔ عام طور پر وہ اپنے شکار کی گردن کے منکے پر یا شانوں پر گولیاں مارا کرتا تھا۔
تقریباً ہم پچاس لوگ اِس میدان میں کام کر رہے تھے۔ ہمارا کام ہی ایک دوسرے کو صاف کرنا تھا ،چاہے وہ پارٹی کا مخالف ہو یا ملک کا دشمن۔ ہم میں سے ہر ایک کا اپنا ایک الگ راستہ تھا ۔ ہم ایک بااختیار کیڈر کے خاص مقصد کے لیے کام کر رہے تھے۔ مغولی اور میں اکثر ایک ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ چمڑے کے بڑے دستانے پہنا کرتا تھا۔ اُس کا دھمکی آمیز اظہار اس کی نرم نازک اور خوشگوار آواز کے برعکس ہوا کرتا تھا۔ یہی چیز اُسے اپنے دشمن کے قریب لے جاتی تھی اور وہ اُن سے باتیں بھی کیا کرتا تھا۔ جب کبھی تم اس کی نرم اور موسیقی سے پُر آواز سنو گے تب تمھارے تمام شکوک و شبہات دور ہوجائیں گے اور تم بھی دوبارہ اُس پر یقین کر لو گے۔ کبھی کبھی وہ بالکل خاموش ہوجاتا اور جب کبھی میںاُس کی طرف دیکھتا تب مجھے بھی یقین نہیں ہوتا کہ سوجے ہوئے چہرے، ابلتی ہوئی آنکھیں اور ٹیڑھے ہونٹوں سے اتنی سحر انگیز آواز نکلتی ہوگی۔
ہم یکے بعد دیگرے اپنے شکار کو قتل کیا کرتے تھے۔ میں تمام قاتلوں میں سب سے تیز تھا۔ جیسے ہی میرا شکار نمودار ہوتا میں فوراً(چاہے پھر وہ مرد ہو یا عورت)اُس کے سینے کو دیکھتا اور وقت برباد کیے بغیر پلک جھپکتے ہی اپنا کام پورا کر جاتا۔ میری یاداشت اچھی ہے اور مجھے یہ یاد نہیں آتا کہ کبھی میںاپنے شکار کو دیکھ کر چونکا ہوں یا انہیں کبھی کسی قسم کا شبہ ہونے دیا ہوں۔میرے نزدیک سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ہم اپنے شکار کو موت کے تعلق سے سوچنے کی اجازت دے دیں۔ ان مختصر سانسوں(لمحات) میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ نہ سیاست ، نہ نفرت اور نہ ہی بدلے کے جذبات۔صرف ایک ہی چیز شکار سے جوڑے رکھتی ہے اور وہ ہے موت۔میرے لیے سب سے اہم بات یہی ہوتی تھی کہ شکار خوفزدہ ہوئے بغیر مر جائے۔ موت اور موت کے یقین کے درمیان اُسے بالکل بھی وقفہ نہ ملے۔ مغولی مجھ سے مختلف تھا وہ تیتر اور انسان مارنے میں کوئی فرق نہیں کرتا تھا۔اس کا خیال تھا جس طرح تیتر اپنی موت پر دوستوں کو یاد کرتے ہیں اِسی طرح ایک پرلطف گیت کے ساتھ ہمیں بھی اپنے شکار کوموت تک لانا چاہیے اور جب دونوں جانب یہ پتہ چل جائے کہ ایک ایسے طوفان کا سامنا ہے جس میں ایک جانب قاتلوں کا مکمل اختیار ہے اور دوسری جانب شکار ہے تب دونوں اپنی قسمت کو مکمل طور پر قبول کر لیتے ہیں اور وہ اِس کھیل کا اختتام ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔
بغاوت کے ایک سال بعد تک میں قتل و غارت گری کے محکمے کا ایک ممبر تھا۔ ایک روز انھوں نے ہمیں عورتوں کی ایک لمبی لسٹ تھما دی ۔ جنھیں ہمیں یکے بعد دیگرے اٹھانا(قتل کرنا) تھا۔ میں نے ابھی تک کسی عورت کا قتل نہیں کیا تھا۔ ایک شام انھوں نے مجھے ایک خوبصورت عورت کو قتل کرنے کے لیے بھیجا جو اپنے بالکل نوجوان شوہر کے ساتھ ایک غلیظ گھر میں رہتی تھی۔ پارٹی میں کئی سال کے تجربات نے مجھے یہ سکھا دیا تھا کہ میں اپنے شکار کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش نہ کروں۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں پرتجسس نہیں تھا لیکن تجربات نے مجھے یہ سکھادیا تھا کہ شکار کے بارے میں جاننے سے صرف سر درد ہی ہوتا ہے۔ شکار کے تعلق سے بہت زیادہ معلومات ہاتھوں میں کپکپی طاری کردیتی ہے۔ ہچکچانے پر مجبور کردیتی ہے اور پھر ہم اپنا شکار نہیں کرپاتے۔ میں جانتا تھا کہ اگر میں اسے قتل نہیں کروں گا تب بھی مغولی ، تُنچی یا فاضل قندیل میں سے کوئی ایک یہ کام کردے گا۔ ہمارے پاس ایسے کئی لوگ تھے جو کہانیوں کی گہرائی تک جانا چاہتے تھے، وہ قتل و غارت گری کی وجوہات جاننا چاہتے تھے۔ وہ خود فیصلہ کر کے احساسِ جرم سے پرے قتل کرنا چاہتے تھے۔ اُن میں سے بہت سارے لوگوں نے تاریک راتوں میں دوغلے اور مشتبہ حادثات میں اپنی جانیں گنوا دی تھیں۔ اگر کسی روز تم قاتل بن جائو تب اپنے شکار کے تعلق سے زیادہ معلومات لینے کی کوشش نہ کرو۔ شکار کے تعلق سے زائد معلومات کام کو مشکل بنا دیتی ہے اور اِس کے نتائج اور بھی بھیانک ہوتے ہیں۔
ایک دن میں اُس خوبصورت خاتون کو قتل کرنے کے لیے گیا۔ میرا پورا جسم اس طرح کانپ رہا تھاجیسے میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کا قتل نہ کیا ہو۔میں نے اسے غور سے دیکھا، وہ ایک لمبی رعب دار اور خوبصورت خاتون تھی۔ جب میں نے اُس کے گھر میں قدم رکھاتب وہ نائلون کی رسّی پر دھلے ہوئے کپڑے لٹکا رہی تھی۔ اُس نے پتلا کرُد ڈریس پہنا ہوا تھا۔ میں آسانی کے ساتھ اُس کے نیچے چھپی ہوئی کالی پٹی دیکھ سکتا تھا۔ میں اپنی زندگی میںکبھی عملی طورپر کسی عورت کے خیال میں محو نہیں ہوا تھا۔اگرچہ اس طرح کسی خاتون کو مارنا مجھے مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا بچہ اپنے ہاتھوں میں خالی پیالہ لیے سیڑھیوں پر بیٹھا رو رہا ہے۔ جیسے ہی میں نے اپنی پستول باہر نکالی اور اُس پر نشانہ لگایا تب چراغ بجھنے یا دل دھڑکنے سے بھی مختصر لمحے کے لیے اپنی زندگی میں پہلی بار میں ہچکچایا ۔ میں اپنی پستول نیچے کر کے پارٹی کے حکم کی تعمیل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ شاید میں اُسے قتل نہ بھی کرتا لیکن بدقسمتی سے اُس کا شوہر کمرے سے باہر آگیا اور اُس نے میرے ہاتھوں میں پستول دیکھ لی۔ اُس آدمی کا خوفزدہ وجود، گلے میں پھنسی ہوئی چیخ اور چہرے پر بکھری ہوئی وحشت نے میری کمزوری کو باہر نکال دیا ۔میں نے فوراًٹریگر دبایا اور اُس خوبصورت عورت کے دل میں گولی اتار دی۔خون کے چھینٹے چاروں طرف پھیل گئے۔ اگرچہ کہ میں دس میٹر کی دوری پر تھا، میں بھی شرابور ہو گیا۔ عورت نیچے گر گئی اور میں حیرت و یاس کی تصویر بنا اسی جگہ منجمد ہو گیا۔
اس دن سے پہلے کبھی مجھ پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا تھا۔ مغولی ہمیشہ اپنے آپ کو خون میں رنگ دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے رومال کو خون میں بھگو کر بطور یادگار اپنے پاس رکھا کرتا تھا۔ لیکن میں ہمیشہ اپنے شکار سے اتنا فاصلہ بنائے رکھتا تھا کہ خون کے چھینٹے مجھ تک اڑنے نہ پائیں۔ میں فوراًوہ جگہ چھوڑدیا کرتا تھا۔ آندھی کی طرح فرار ہو کر غائب ہوجاتا تھا۔ میں اتنا تیز دوڑتا تھا کہ مجھے طوفان کہا جاتا تھا۔ لیکن اُس دن یوں لگتا تھا جیسے میں کسی سحر کی گرفت میں ہوں اور کسی نے میرے پیر پکڑلیے ہیں۔ میں بہت دیر تک وہاں سے ہلا بھی نہیں۔ گولیوں کی آواز بہرہ کردینے کی حد تک تیز تھی۔ بارود کی بُو سے پورا احاطہ بھر چکا تھا۔ میں نے اُس کے شوہر کو دیکھا جو روتے ہوئے میری جانب بڑھ رہا تھا۔ میں نے سیڑھیوں کے پاس اسے چیختے ہوئے دیکھا۔ دھیرے دھیرے میں اُس عورت کے قریب گیا۔ وہ اپنے ہی خون میں تر تھی اور اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ میں نے اس کی بڑی ہری ہری آنکھیں دیکھیں۔ اس کی خالی اور بے سوال نگاہیں مجھ پر مرکوز تھیں۔ خون میں شرابور میں وہاں سے نکل گیا۔ گیٹ کے باہر میں نے مغولی کو دیکھا ۔ جب اُس نے مجھے دوسری جانب کھینچا تب میں چیخ رہا تھا۔
وہ میرا پارٹی کے لیے کام کرنے کا آخری دن تھا۔ اسی شام میں نے ہر چیز چھوڑدی اور یہ کھیل کھیلنا بند کردیا۔ میرے جانے کے بعد مغولی، تُنچی، دنسازاور حاجی کوتر نے ہر کام کیا۔ ایک سال سے کم وقفے میں انھوں نے پورے ملک میں بیشمار عورتوں کو قتل کیا۔ یہ جعفری مغولی سے میری پہلی جدائی تھی۔ اُس کے بعد میں نے تیرہ سالوں تک اُسے نہیں دیکھا۔لیکن جب میں نے اُسے دوبارہ دیکھا تب میں نے محسوس کیا کہ دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے، وقت اپنی گردش پر لوٹ چکا ہے لیکن مغولی میں ذرّہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔
٭٭٭
معروف کرد فکشن نگار بختیار علی کا افسانہ ’جعفر مغولی اور حسن طوفان کی شروعات‘ کا ترجمہ معروف مترجم ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے اردو چینل کے لیے انگریزی سے اردو میں کیا تھا۔ یہ ترجمہ رسالہ اردو چینل کے شمارہ نمبر ۳۳ میں شامل ہے۔
Taraqqi Pasand Tahreek Aur Mumbai by Prof. Saheb Ali
Articles
ترقی پسند تحریک اور ممبئی
پروفیسر صاحب علی
Shazarat E Marifat
Articles
شذرات ِ معرفت
ابو صالح لقمان ندوی
Shibli aur Muandeen E Shibli by Shameem Tariq
Articles
شبلی اور معاندین شبلی
شمیم طارق
(لفظوں کی تہذیب کے حوالے سے)
علم اور علمی شخصیتوں کی تاریخ کے علاوہ شبلی نے جن موضوعات پر داد تحقیق دی ہے ان کا سب سے موزوں عنوان ’’ شعر و ادب کی تنقید ‘‘ ہے اور شعر و ادب کی تنقید خاص طور سے ’’ شعر العجم ‘‘ اور ’’ موازنۂ انیس و دبیر ‘‘ کی نکتہ سنجی و نکتہ آفرینی سے اردو میں تنقیدی اور تقابلی مطالعے اور موازنے کی روایت کو اعتبار و استحکام حاصل ہونے کے ساتھ خود شبلی کی علمی فکری وراثت کو بھی امتیاز حاصل ہوا ہے۔ وہ امتیاز یہ ہے کہ وقت کے ساتھ جہاں ان کے ذہن و ظرف کی وسعت، منتخب کیے ہوئے موضوعات کی اہمیت، ارتباط لفظ و معنی کی لطافت اور اسلوب نگارش کی ندرت کا اعتراف بڑھتا جارہا ہے، حتیٰ کہ مرزا خلیل احمد بیگ کے بقول یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ
’’ آج جدید لسانیات اور اسلوبیات کی روشنی میں اسلوب کی تشکیل و توضیح کا جو کام جاری ہے اس کی جڑیں بلاشبہ ’’ شعر العجم ‘‘ میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ ‘‘ ۱؎
وہیں معاندین شبلی کی کم از کم ان تحریروں کا بھرم ٹوٹ رہا ہے جو شبلی کی اجلی شبیہ کو داغدار کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ صرف لفظوں کی تہذیب یا ان کے محل استعمال کے حوالے سے بھی یہ واضح کرنا مشکل نہیں ہے کہ شبلی کی تحریروں میں شاید ہی کہیں کوئی ایسا لفظ استعمال ہوا ہو جس کے محل استعمال کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا جاسکے۔ لیکن معاندین شبلی کی تحریروں میں ایسے الفاظ کی شناخت بہت آسان ہے جو اپنے استعمال کرنے والوں کی بدنیتی کے ساتھ بے خبری و بے بصری کا بھی رونا رو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی مثال مولوی عبدالحق کی ہے جنھوں نے محمد امین زبیری کے ترتیب دیے ہوئے شبلی کے خطوط کے مجموعے ’’خطوط شبلی ‘‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ
’’ مولٰنا شبلی کی تصانیف کو ابھی سے لونی لگنی شروع ہوگئی ہے۔ زمانہ کے ہاتھوں کوئی نہیں بچ سکتا۔ ‘‘ ۲؎
’’لونی لگنے ‘‘ کا مطلب وہ شور، کھار یا نمکین مٹی کا لگنا ہے جو دیواروں سے جھڑتی ہے اور کتاب میں لگنے کے بعد اس کو پڑھے جانے کے لائق نہیں چھوڑتی۔ لونی ان ہی کتابوں کو لگتی ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اس لیے شبلی کی تصانیف کو لونی لگنے کے طعنے کے پس منظر میں یہ سوال ہر شخص پوچھ سکتا ہے کہ جس کی کتاب ’’ المامون ‘‘ پر سر سید احمد خاں نے ۱۸۸۷ء میں یعنی جب شبلی کی عمر ۲۹،۳۰ سال تھی، مقدمہ لکھ کر ان کی مورخانہ بصیرت اور سادہ و شگفتہ طرزِ تحریر کی تحسین کی ہو، حالی نے جس کی دانشوری کی یہ کہہ کر داد دی ہو کہ
ادب اور مشرقی تاریخ کا ہو دیکھنا مخزن
تو شبلی سا وحید عصر و یکتائے زمن دیکھیں
جس کی کتاب ’’ شعر العجم ‘‘ کو پروفیسر برائون کی کتاب ’’ تاریخ ادبیات ایران ‘‘ کا ماخذ بننے کا شرف حاصل ہوا ہو، عالم خوند میری کے بقول جو ہماری تہذیبی میراث کا حصہ ہو اور جس کے ایک وارث ابوالکلام آزاد ہوں اور دوسرے علامہ اقبال، عالم اسلام میں جس کی تصانیف میں دلچسپی کا اظہار اور ان کے ترجمے کی ضرورت پر اصرار، جس کی زندگی ہی میں کیا جانے لگا ہو اور آج جن کے تراجم انگریزی، عربی، فارسی، پشتو، ترکی اور ہندوستان کی کئی علاقائی زبانوں میں کیے جاچکے ہوں، اس کی تصانیف کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کو لونی لگنا شروع ہوگئی ہے، لونی لگنے کے مفہوم سے ناآشنائی اور اس لفظ کے محل استعمال سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ شبلی کی تصانیف کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے لکھا گیا مولوی عبدالحق کا یہ جملہ ان ہی کے ایک خطبے کی ان سطور کی روشنی میں ناقابل اعتناء ہے کہ
’’ لفظ ایک بڑی قوت ہے اس کا برمحل استعمال خیالات میں قوت پیدا کرتا ہے جو اس گر سے واقف نہیں اور لفظ کے سبھی برمحل استعمال کو نہیں جانتا اس کا بیان اکثر ناقص، ادھورا اور بے جان ہوتا ہے۔ ‘‘
دوسری مثال ڈاکٹر وحید قریشی کی ہے جنھوں نے اپنی کتاب ’’ شبلی کی حیات معاشقہ ‘‘ میں نفسیاتی جائزے کے نام پر شبلی کے بارے میں بعض ایسی باتیں لکھی ہیں جن سے ان کے ذہن کی کجی کے ساتھ مطالعے کی کمی کا بھی اظہار ہوتا ہے مثلاً انھوں نے لکھا ہے کہ
’’ ۔۔۔۔۔ ان کی نرگسیت ان کے دینوی مشاغل، علمی مشاغل، شاعری اور عورتوں کے عشق، لڑکوں کے عشق سب میں کارفرما نظر آتی ہے۔ ‘‘ ۳؎
یا یہ کہ
’’ ۔۔۔۔۔ حسن و عشق کی رنگینیوں میں تلاش کررہی تھی ۔۔۔۔۔۔ جس کے تین مرکز تھے ابوالکلام کی ذات، عطیہ بیگم اور تیسرے مدراس کی کوئی ہستی۔ ‘‘ ۴؎
مندرجہ بالا دونوں اقتباسات کا حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہتی کہ وحید قریشی نے ’’ نرگسیت ‘‘ کی اصطلاح سنی تو ضرور تھی مگر اس کے حقیقی مفہوم سے واقف نہیں تھے۔
اردو میں جس انگریزی لفظ کا ترجمہ ’’ نرگسیت ‘‘ کیا جاتا ہے وہ Narcissism ہے اور اس سے مراد خود پسندی، خود ستائی، جذبۂ محبوبیت، خود لذتی اور وہ ذہنی نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان اپنی ذات ہی کو سب کچھ سمجھتا اور اسی میں محو رہتا ہے۔ یہ مفہوم یونانی اساطیر سے ماخوذ ہے جس کے مطابق یونان میں ’’نرگس ‘‘ نام کا ایک شخص گذرا ہے جو اپنے حسن پر اتنا نازاں تھا کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ ’’ ریکو ‘‘ نام کی ایک پری اس پر فریفتہ ہوگئی لیکن ’’ نرگس ‘‘ نے اس کو ٹھکرا دیا۔ ’’ ریکو ‘‘ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی اور گھل گھل کر مرگئی۔ اس کی زندگی ختم ہوگئی لیکن چونکہ اس کی موت اذیتناک کرب کا نتیجہ تھی اس لیے مرنے کے بعد بھی اس کی چیخ فضا میں گونجتی رہی۔ انتقام کی دیوی کو ’’ ریکو ‘‘ پر رحم آیا اور اس نے ’’ نرگس ‘‘ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ سزا کے طور پر ’’ نرگس ‘‘ کو پانی کے ایک چشمے کے کنارے کھڑا کردیا گیا جس میں وہ اپنا عکس دیکھتا رہا اور بالآخر اپنے آپ پر عاشق ہوگیا۔ یہی عشق اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا اور وہ بھی گھل گھل کر مرگیا۔ جس جگہ وہ دفن ہوا وہاں ایک پھول کھلا اور اس پھول کو ’’ نرگس ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔
علم نفسیات کی اصطلاح کے طور پر اس لفظ کو جن لوگوں نے استعمال کیا ان میں Alfred Binet کا نام بہت اہم ہے جس نے ۱۸۸۷ء میں Narcissism یعنی نرگسیت کی اصطلاح استعمال کی۔ ۱۸۹۸ء میں Havelock Ellis نے Narcissus Like Self Absorption جیسے جملے کے ذریعہ نرگسیت کے اصطلاحی مفہوم میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ۱۸۹۹ء میں Paul Nacke نے اس لفظ کا استعمال ان مردوں کے لیے کیا جو دوسروں یا جنس مخالف کے جسم کے بجائے خود اپنے جسم سے جنسی تلذذ حاصل کرتے ہیں اور ۱۹۱۴ء میں یعنی جس سال شبلی کا انتقال ہوا فرائڈ کا مضمون On Narcissism شائع ہوا جس میں اس نے نفسیاتی اعتبار سے اس لفظ یا اصطلاح کو وسیع تر مفہوم عطا کرتے ہوئے اس کو پرائمری اور سیکنڈری Narcissm میں تقسیم کرکے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ نرگسیت کی ابتدائی شکل یہ ہے کہ انسان تمام تر جنسی قوتوں کو اپنے اندر مرکوز کرلے جبکہ اس کے بعد کی یا ترقی یافتہ نرگسیت یہ ہے کہ انسان جنسی تلذذ کی تمام صورتیں خود اپنی ذات میں تلاش کرے۔ فرائڈ کے شارحین کے لفظوں میں
Primary narcissism is a natural and necessary investment of one’s sexual energy in oneself, a sexual version of ordinary self-interest. Whereas secondary narcissism is a defensive reaction of withdrawing one’s sexual interest from other people and focusing it exclusively on oneself.
فرائڈ کے برعکس Karen Horney نے نرگسیت کو ذات سے برگشتگی کا اظہار قرار دیا ہے۔ اس کی نظر میں ایسا شخص ظلم، نمائش اور عریانیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اس لفظ یا اصطلاح کا استعمال ایسی ذہنی بیماری کے لیے بھی کیا جاتا ہے جس کا خاصہ Lack Of Empathy ہے۔ ان مفاہیم کی روشنی میں شبلی کی شخصیت میں کوئی ایسی علت یا علامت نظر نہیں آتی جس کے سبب ان پر نرگسیت کا الزام عائد کیا جاسکے۔ انھوں نے نہ تو اپنی ذات سے برگشتگی کا اظہار کیا نہ ہی ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنسی تلذذ کی صورتیں وہ اپنی ذات میں تلاش کرتے تھے۔ وہ کسی طرح کی ذہنی بیماری اور خود پسندی میں بھی مبتلا نہیں تھے۔ خود پسندی میں مبتلا ہوتے تو بڑوں، چھوٹوں اور ہم عمر ادبیوں شاعروں کی مدح و ستائش نہ کرتے۔ اس لیے یہی کہا جاسکتا ہے اور یہی سچ بھی ہے کہ شبلی اپنی نو عمری میں اپنی عمر سے چالیس سال بڑے سرسید کی طرف متوجہ ہوئے، ادھیڑ عمر میں اپنی عمر سے ۳۰ سال چھوٹی عطیہ میں دلچسپی لی یا ابوالکلام آزاد ان کی توجہ کا مرکز بنے جو عمر میں ان سے ۳۱ سال چھوٹے تھے تو اس کی وجہ علمی شخصیتوں میں ان کی دلچسپی اور ان کی قدر دانی تھی۔ اس قدر دانی میں جمالیاتی احساس یا حسن پسندی کے جذبے کی فروانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شبلی حسن و نفاست اور جوہر قابل کے دلدادہ تھے اور جہاں کہیں کوئی جوہر قابل دکھائی دیتا تھا اس پر فدا ہوجاتے تھے، ایم مہدی حسن کے بقول
’’ مولانا (شبلی) ادبی حیثیت سے اس کا (حسن کا) نہایت صحیح مذاق رکھتے تھے۔ عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ ان کی حکیمانہ شوخیاں سرمایۂ ادب ہوتی تھیں۔ ‘‘ ۵؎
لیکن جمالیاتی احساس یا کسی علمی شخصیت کے تصورات و نگارشات یا جوہر ذاتی میں جلوئہ حسن دیکھنے کی شبلی کی وضع کو نرگسیت سے تعبیر کرنا کور ذوقی اور نرگسیت کے مفہوم سے ناآشنائی ہے۔ سید شہاب الدین وسنوی نے اپنی کتاب ’’ شبلی، معاندانہ تنقید کی روشنی ‘‘ میں نرگسیت کی تفہیم میں دیڑھ صفحہ صرف کیا ہے مگر اس میں ایک جملہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے Men who were sexually excited by their own bodies rather than someone’s else’s کے مفہوم کی وضاحت ہوتی ہو۔ اس مفہوم سے واقفیت کے بغیر وحید قریشی کے اس الزام کی تردید نہیں ہوسکتی جو انھوں نے عطیہ اور ابوالکلام کا نام لے کر شبلی پر عائد کیا ہے۔ یہاں اس لفظ کی تفہیم کی کوشش اس لیے کی گئی ہے کہ اس تفہیم سے وحید قریشی کے الزام کی لغویت پوری طرح واضح ہوجائے۔
تیسری مثال پروفیسر ظہور الدین کے ایک مضمون کے اس جملے میں ہے کہ
’’ ۔۔۔۔۔ شبلی نے شعر العجم کی اس (پہلی) جلد کی تالیف کے دوران سب سے زیادہ استفادہ لٹریری ہسٹری سے کیا۔ بسا اوقات تو انھوں نے برائون کے دلائل کے محض ترجمہ کرنے پر ہی اکتفا کیا ۔۔۔۔۔ ‘‘ ۶؎
اس قسم کی کچھ باتیں ناصر عباس نیر نے بھی اپنے ایک مضمون میں لکھی ہیں اور ان تحریروں کے سبب شبلی کے کسی مضمون سے استفادہ کرنے، ترجمہ کرنے یا سرقہ کرنے کے مفاہیم ایک دوسرے میں خلط ملط ہوگئے ہیں۔ شبلی انگریزی کے اسکالر نہیں تھے۔ ان کے کسی مداح نے بھی ان کے انگریزی داں ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایسی صورت میں ان پر یہ الزام کیسے عائد کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے کسی انگریزی تحریر کا سرقہ یا ترجمہ کیا۔ انگریزی تحریروں کے اردو، عربی، فارسی ترجموں سے ان کے استفادہ کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ ضروری بھی تھا کہ اس کے بغیر اس موضوع کا حق نہیں ادا کیا جاسکتا تھا جس پر شبلی لکھ رہے تھے اس لیے شبلی پر ترجمہ یا سرقہ کرنے کا الزام بھی صحیح نہیں ہے۔ انھوں نے کئی مصنفین کی اصل یا ترجمہ کی ہوئی تحریروں کو پیش کرنے کے بعد اپنا تنقیدی نقطۂ نظر پیش کیا ہے اور تنقیدی نقطہ نظر کا اصل جوہر یا دوسرے لفظوں میں ادب کی اعلیٰ قدروں سے ان کی وابستگی، نکتہ سنجی و نکتہ آفرینی اور تربیت یافتہ ادبی مذاق سے آگہی اس وقت سامنے آئی ہے جب شبلی نے کسی تخلیق کار یا اس کے تخلیقی شاہکار کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ فردوسی اور عمر خیام وغیرہ پر ان کی تنقیدی نگارشات اور جملے اس کی دلیل ہیں۔ اس لیے شبلی پر ترجمہ یا سرقہ کرنے کا الزام اسی صورت میں قابل اعتناء ہوسکتا تھا جب ان کے تنقیدی جائزے یا اخذ کیے ہوئے نتیجے میں کسی اور کی تحریر کی نشاندہی کی جاتی۔ پروفیسر ظہور الدین اور ناصر عباس نیر کی کئی تحریریں استفادہ، ترجمہ اور سرقہ جیسے لفظوں میں حد فاصل قائم رکھنے میں ناکام رہنے کے علاوہ اس لیے بھی ناقابل اعتناء ہیں کہ ان میں شبلی کے مآخذ اور دلائل پر الزامات عائد کیے گئے ہیں، اخذ کیے ہوئے نتائج پر نہیں۔
شبلی کی علمی فکری وراثت میں ان کا اسلوب نگارش بھی شامل ہے جس میں لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے معنوی مناسبت کے علاوہ صوتی مناسبت کا بھی التزام ہے۔ وہ اس حد تک لفظوں کے احترام کے قائل تھے کہ لفظوں کے اصراف سے ہی نہیں ان کے بے جا استعمال سے بھی گریز کرتے تھے۔ وہ فلسفیانہ موضوعات پر مضمون لکھ رہے ہوں یا علمی اور ادبی موضوعات پر، لفظوں کی اس تہذیب سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا جو جمالیاتی احساس اور علمی وقار سے عبارت ہے اور جس میں لطافت، متانت، سلاست اور لفظ کی کفایت کے ساتھ وضاحت، صراحت، قطعیت اور جامعیت بھی ہے۔ مثال کے طور پر پیش ہے ’’ شعر العجم ‘‘ سے ایک مختصر اقتباس :
’’ اس عالم میں شاعر کی تاریخ زندگی عجیب دلچسپیوں سے بھری ہوتی ہے۔ بلبل نے اسی عالم میں اس سے زمزمہ سنجی کی تعلیم پائی ہے۔ پروانے اس کے ساتھ کے کھیلے ہیں۔ شمع سے رات بھر وہ سوز دل کہتا رہا۔ نسیم سحری کو اکثر اس نے قاصد بنا کر محبوب کے یہاں بھیجا ہے۔ بارہا اس نے غنچہ کی عین اس وقت پردہ دری کی جب وہ معشوق کا تبسم چرا رہا تھا۔ واقعات عالم پر جب وہ عبرت کی نظر ڈالتا ہے تو ایک ایک ذرہ ناصح بن کر اس کو اخلاق اور موعظت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس عالم میں وہ گور غریباں میں جا نکلتا ہے تو بوسیدہ ہڈیاں اعلانیہ اس سے خطاب کرتی ہیں۔ عالم شوق میں وہ پھول ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے تو اس کو صاف معشوق کی خوشبو آتی ہے۔ ‘‘ ۷؎
شبلی کی اس نثر میں زمزمہ سنجی، شمع، پروانہ، سوز دل، نسیم سحری، معشوق کا تبسم، بوسیدہ ہڈیاں جیسے الفاظ اور تراکیب میں ارتباط لفظ و معنی کے ساتھ ارتباطِ صوت و حرف کی بھی خوبصورت مثالیں موجود ہیں اور ان کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تراکیب و الفاظ بنے ہی تھے اس موقع و مقام کے لیے جہاں شبلی نے انہیں استعمال کیا ہے۔ معاندین شبلی کی تحریروں، خاص طور سے شبلی کی شخصیت کو داغدار یا ان کی علمی حیثیت کو ٹھیس پہنچانے کے لیے لکھی گئی تحریروں میں لفظ و معنی کے ارتباط اور الفاظ و تراکیب کے استعمال کی وہ تہذیب جو شبلی کی علمی فکری وراثت کے علاوہ اردو نثر کی بھی روح ہے، نہ صرف یہ کہ موجود نہیں ہے بلکہ اس میں استعمال کیے ہوئے بعض لفظ ’’ اسقاطِ لفظ ‘‘ کی مثال بن گئے ہیں۔
حواشی
۱ٍ۔ ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ, شبلی کا تصور لفظ و معنی , مشمولہ شبلی کی علمی و ادبی خدمات, نئی دہلی ۱۹۹۴ء, ص ۱۰۰
۲۔ مولوی محمد امین زبیری, خطوطِ شبلی, لاہور, ص ۳۶
۳۔ وحید قریشی, شبلی کی حیاتِ معاشقہ, لاہور , ص ۳۲
۴۔ وحید قریشی, شبلی کی حیاتِ معاشقہ, لاہور, ص ۴۱
۵۔ مہدی بیگم, مکاتیب مہدی, ص ۷
۶۔ پروفیسر ظہور الدین, شبلی : شعر العجم جلد اول کی روشنی میں, مشمولہ شبلی کی علمی و ادبی خدمات, نئی دہلی , ص ۱۱۲
۷۔ شبلی نعمانی, شعر العجم
Koza E Fikr by Safeer Siddiqui
Articles
کوزہِ فکر ( شعری مجموعہ)
سفیر صدیقی