Mommad Bhai Ashort Story by Saadat Hasan Manto

Articles

ممد بھائی

سعادت حسن منٹو

فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔

ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر’’ پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے۔’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں۔۔۔۔۔۔فسٹ کلاس کھیل۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں!‘‘

بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔’’پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔

فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔۔۔۔۔۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔

یہودی، پنجابی، مرہٹی،کشمیری،گجراتی،بنگالی،اینگلوانڈین،فرانسیسی،چینی،جاپانی غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ عورتیں کیسی ہو تی ہیں۔۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیے۔۔۔۔۔۔ بس عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔

اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیا۔۔۔۔۔۔

اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کررہا ہوں، اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔

اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔

آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مررہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اس کا نام ممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت،گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔

میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا ۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اس پر ٹوٹ پڑیں تووہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کردیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔

اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی۔۔۔۔۔۔صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھی، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورد سال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔

مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جُتا ہوتا تھا، اس کووہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔۔۔۔۔۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا یاکسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔

میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کردیے اور ان سے کہا’’دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا۔’’منٹو صاحب!ممد بھائی فرشتہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتہ۔۔۔۔۔۔ جب اس نے ڈا کٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔

ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔

ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہر حال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔ اس قسم کا آدمی جوہر کولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔

میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اوررات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہوکرواپس آکر فوراًسو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کرممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔

ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوائنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی،اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جارہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔

میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہواکرتی۔مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی قسم کا بخار تھا۔ انفلوائنزا تھا، ملیریاتھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔

دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔۔۔۔۔۔ آنا بھی کسے تھا۔۔۔۔۔۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔۔۔۔۔۔ دو تین یا چار۔۔۔۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی مرے یا جیے۔۔۔۔۔۔ ان کی بلا سے۔۔۔۔۔۔

میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔۔۔۔۔۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

میں نے خیال کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہوگا۔بڑی مریل آواز میں کہا۔’’آجاؤ!‘‘

دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔

اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔

وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔

قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کردی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا۔’’ آپ کون ہیں؟‘‘

اس نے مختصر سا جواب دیا۔’’ممد بھائی!‘‘

میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔توآپ ممد بھائی بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔مشہور د ادا!‘‘

میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا۔’’ہاں ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ میں ممد ہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کا مشہوردادا۔۔۔۔۔۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو۔۔۔۔۔۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے، جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘

میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا’’ارے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے تیرا۔۔۔۔۔۔جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک دم جلدی آ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘

ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا، وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔۔۔ ۔۔۔لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم ونازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں یہ سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔

کھولی میں کرسی نہیں ۔ میں نے ممد بھائی سے کہا وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے۔ مگر اس نے انکار کردیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘

پھر اس نے ٹہلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔

اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے۔۔۔۔۔۔نیفے میں۔۔۔۔۔۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘

ممد نے خنجرسے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیزہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟‘‘

چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔

ڈاکٹر آگیا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو۔۔۔۔۔۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچیئن انداز میں سلام کیا اورپوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔جو معاملہ تھا، وہ ممد بھائی نے بیان کردیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔

ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔۔۔۔۔۔سٹیتھو سکوپ لگا میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا۔’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ملیریا ہے۔۔۔۔۔۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔‘‘

ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا۔’’میں کچھ نہیں جانتا۔ انجکشن دینا ہے تو دے، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔‘‘

ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا۔’’نہیں ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا۔’’تو ٹھیک ہے۔‘‘

’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔۔۔۔۔۔

’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔‘‘

ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھی دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا۔’’کیوں؟‘‘

’’بس۔۔۔۔۔۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔

ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن کا لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا’’دس روپے!‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔

ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کودیکھا اور گرج کر کہا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘

ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا۔’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘

ڈاکٹر پنٹو بوکھلا ہوگیا۔’’ میں کب لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ دے رہے تھے!‘‘

’’سالا۔۔۔۔۔۔ہم سے فیس لیتے ہو۔۔۔۔۔۔ واپس کرو یہ نوٹ!‘‘ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔

ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کردیا اور بیگ بند کرکے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔

ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔۔۔۔۔۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔۔۔۔۔۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘

تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘

ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں۔’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے۔۔۔۔۔۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت ہے، کون بری حالت میں۔۔۔۔۔۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘

میں نے ازراہ تفنن پوچھا۔’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘

سالا۔۔۔۔۔۔ہم کیا نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ کشمیری ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے سے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘

میں پانی پانی ہوگیا۔

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کہا۔’’ومٹو بھائی!کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار! اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی۔۔۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ سکا۔’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے۔۔۔۔۔۔ تم خوش رہو۔‘‘

ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔

ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔’’نہیں، مسٹر منٹو!ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘

میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کررہا ہے۔

بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔

پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانھیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب کے گلی نے بتایا تھا۔

اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں، اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میںیہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔

لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔

میں جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا’’ومٹو بھائی! بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انھیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ۔۔۔۔۔۔ اس میں کیا مزا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ چیز۔۔۔۔۔۔یہ خنجر۔۔۔۔۔۔ یہ چھری۔۔۔۔۔۔یہ چاقو۔۔۔۔۔۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ آرٹ۔۔۔۔۔۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان۔۔۔۔۔۔ جس کوچاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے۔۔۔۔۔۔ کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر دیکھو۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔۔۔۔۔۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو۔۔۔۔۔۔بندوق، پستول سب بکواس ہے۔‘‘

ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن جب میں اس کا ذکر کیا کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔

جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھاجو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔

وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیںآتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔

اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔

میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔۔۔۔۔۔ یا اس خنجر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔۔۔۔۔۔

ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتاتھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھی۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔

میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے، جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے، اس کو کل ایک آدمی نے خراب کردیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کردی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔‘‘ ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا۔’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ اس نے کہا’’ میں چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘

ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا۔’’جا۔۔۔۔۔۔تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘

اور اس کا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔

ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پررہا کردیا گیا۔

دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی،انسپکٹر، سب انسپکٹرسب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کرباہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طورپر اوپرکو اٹھی ہوتی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔

چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔۔۔۔۔۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا۔۔۔۔۔۔لیکن مر گیا۔۔۔۔۔۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘

آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔

مقدمہ چلنا تھا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق نہیں وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا نہیں تھا۔

وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا۔’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا پرکورٹ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘

عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انھوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کرسکتی ہیں۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔

اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔

آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔۔۔۔۔۔مجسٹریٹ تم کو اندر کردے گا۔‘‘

اور وہ سوچتا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کوقتل کیا ہے یا اس نے۔۔۔۔۔۔لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشناہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔یہ کیا؟‘‘

’’کچھ نہیں ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔۔۔۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کروہ ضرور تم کو سزا دے گا۔۔۔۔۔۔ اب بولو، میں کیا کروں؟‘‘

میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا۔’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔۔۔۔۔۔سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہار خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘

’’تو میں منڈوادوں؟‘‘ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری۔۔۔۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا۔’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے جو کچھ بھی ہو، وہ تم نہ پوچھو۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انھیں منڈوا دوں تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوادوں ومٹو بھائی؟‘‘

میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا۔’’ہاں، اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوادو۔۔۔۔۔۔ عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘

دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں۔۔۔۔۔۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔ لیکن صرف دوسرے کے مشورے پر۔۔۔۔۔۔

مسٹر ایف، ایچ، ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد بھائی بھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کردیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کرکے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔

عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔

شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تواس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔

اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا۔’’ کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘

اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا۔’’سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘

مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جکا ہے۔’’کوئی بات نہیں ممد بھائی!۔۔۔۔۔۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی!‘‘

اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں۔’’سالا۔۔۔۔۔۔ اپن کو یہ غم نہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘

پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا۔’’سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘

مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا۔’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو۔۔۔۔۔۔ ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ ہمیں پھانسی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔۔۔۔۔۔ آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔۔۔۔۔۔سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دوہتر اپنے منہ پرمارا۔’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر۔۔۔۔۔۔سالا۔۔۔۔۔۔اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔۔۔۔۔۔ اب جا اپنی ماں کے۔۔۔۔۔۔‘‘

اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔

————–

Intekhab E Kalam Joosh Malihabadi

Articles

انتخابِ کلام جوش ملیح آبادی

جوش ملیح آبادی

شکست زنداں کا خواب

کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی
سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
آنکھوں میں گدا کی سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
کیا ان کو خبر تھی زیر و زبر رکھتے تھے جو روح ملت کو
ابلیں گے زمیں سے مار سیہ برسیں گی فلک سے شمشیریں
کیا ان کو خبر تھی سینوں سے جو خون چرایا کرتے تھے
اک روز اسی بے رنگی سے جھلکیں گی ہزاروں تصویریں
کیا ان کو خبر تھی ہونٹوں پر جو قفل لگایا کرتے تھے
اک روز اسی خاموشی سے ٹپکیں گی دہکتی تقریریں
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

———————————————————————

الوداع

اے ملیح آباد کے رنگیں گلستاں الوداع
الوداع اے سر زمین صبح خنداں الوداع
الوداع اے کشور شیر و شبستاں الوداع
الوداع اے جلوہ گاہ حسن جاناں الوداع
تیرے گھر سے ایک زندہ لاش اٹھ جانے کو ہے
آ گلے مل لیں کہ آواز جرس آنے کو ہے

 

آ کلیجہ میں تجھے رکھ لوں مرے ‘قصر سحر
اس کتاب دل کے ہیں اوراق تیرے بام و در
جا رہا ہوں تجھ میں کیا کیا یادگاریں چھوڑ کر
آہ کتنے طور خوابیدہ ہیں تیرے بام پر
روح ہر شب کو نکل کر میرے جسم زار سے
آ کے سر ٹکرائے گی تیرے در و دیوار سے

 

ہائے کیا کیا نعمتیں مجھ کو ملی تھیں بے بہا
یہ خموشی یہ کھلے میدان یہ ٹھنڈی ہوا
وائے یہ جاں بخش بستاں ہائے یہ رنگیں فضا
مر کے بھی ان کو نہ بھولے گا دل درد آشنا
مست کوئل جب دکن کی وادیوں میں گائے گی
یہ سبک چھاؤں ببولوں کی بہت یاد آئے گی

 

کل سے کون اس باغ کو رنگیں بنانے آئے گا
کون پھولوں کی ہنسی پر مسکرانے آئے گا
کون اس سبزے کو سوتے سے جگانے آئے گا
کون جاگے گا قمر کے ناز اٹھانے کے لیے
چاندنی راتوں کو زانو پر سلانے کے لیے

 

آم کے باغوں میں جب برسات ہوگی پر خروش
میری فرقت میں لہو روئے گی چشم مے فروش
رس کی بوندیں جب اڑا دیں گی گلستانوں کے ہوش
کنج رنگیں میں پکاریں گی ہوائیں ‘جوش جوش
سن کے میرا نام موسم غمزدہ ہو جائے گا
ایک محشر سا گلستاں میں بپا ہو جائے گا

 

صبح جب اس سمت آئے گی برافگندہ نقاب
آہ کون اس دل کشا میداں میں چھیڑے گا رباب
اس افق پر شب کو جب انگڑائی لے گا ماہتاب
چاندنی کے فرش پر لہرائے گا کس کا شباب
جگمگائے گی چمن میں پنکھڑی کس کے لئے
رنگ برسائے گی ساون کی جھڑی کس کے لئے

 

گھر سے بے گھر کر رہی ہے آہ فکر روزگار
سرنگوں ہے فرط غیرت سے اب و جد کا وقار
خلعت ماضی ہے جسم زندگی پر تار تار
پھر بھی آنکھوں میں ہے آبائی عمارت کا خمار
شمع خلوت میں ہے روشن تیرگی محفل میں ہے
رخ پے گرد بیکسی شان ریاست دل میں ہے

 

کوچ کا پیغام لے کر آ گیا مہر منیر
گھر کا گھر ہے وقف ماتم زرد ہیں برنا و پیر
رخصت بلبل سے نالاں ہیں چمن کے ہم صفیر
آ رہی ہے کان میں آواز گویاؔ و بشیرؔ
چھٹ رہا ہے ہات سے دامن ملیح آباد کا
رنگ فق ہے عزت دیرینۂ اجداد کا

 

کیا بتاؤں دل پھٹا جاتا ہے میرا ہم نشیں
آئیں گے یاں خرمن اجداد کے جب خوشہ چیں
آ کے دروازے پہ جیسے ہی جھکائیں گے جبیں
گھر کا سناٹا سدا دے گا یہاں کوئی نہیں
جود و بخشش کا کلیجہ غرق خوں ہو جائے گا
میرے گھر کا پرچم زر سرنگوں ہو جائے گا

 

آہ اے دور فلک تیرا نہیں کچھ اعتبار
مٹ کے رہتی ہے ترے جور خزاں سے ہر بہار
نوع انساں کو نہیں تیری ہوائیں سازگار
فکر دنیا اور شاعر تف ہے اے لیل و نہار
موج کوثر وقف ہو اور تشنہ کامی کے لئے
خواجگی رخت سفر باندھے غلامی کے لئے

 

آ گلے مل لیں خدا حافظ گلستان وطن
اے ‘امانی گنج کے میدان اے جان وطن
الوداع اے لالہ زار و سنبلستان وطن
السلام اے صحبت رنگین یاران وطن
حشر تک رہنے نہ دینا تم دکن کی خاک میں
دفن کرنا اپنے شاعر کو وطن کی خاک میں


 

حسن اور مزدوری

ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار
چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار

 

چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا
آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا

 

گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں
نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں

 

ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو
کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو

 

دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت
ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت

 

پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی
نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی

 

غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے
عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے

 

چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب
ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب

 

اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں
آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں!

 

حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے
دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے

 

فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار
جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار

 

آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے
صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے

 

اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے
جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے

 

بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے
جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے

 

نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار
ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار

 

کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے
انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے

 

مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے
جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے

 

فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے
جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے

 

نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ
کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟

 

ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر
سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر

 

باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا
آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا

 

سر برہنہ کیوں ہے وہ پھولوں کی چادر کیا ہوئی
اے شب تاریک تیری بزم اختر کیا ہوئی

 

جس کے آگے تھا قمر کا رنگ پھیکا کیا ہوا
اے عروس نو ترے ماتھے کا ٹیکا کیا ہوا

 

اے خدا ہندوستاں پر یہ نحوست تا کجا؟
آخر اس جنت پہ دوزخ کی حکومت تا کجا؟

 

گردن حق پر خراش تیغ باطل تا بہ کے؟
اہل دل کے واسطے طوق و سلاسل تا بہ کے؟

 

سر زمین رنگ و بو پر عکس گلخن تا کجا؟
پاک سیتا کے لیے زندان راون تا کجا؟

 

دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے
اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے


 

ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب

کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر بھیڑیا ہے بھیڑیا
بھیڑیے کو مار دو گولی پئے امن و بقا
باغ انسانی میں چلنے ہی پہ ہے باد خزاں
آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں
ہاتھ ہے ہٹلر کا رخش خود سری کی باگ پر
تیغ کا پانی چھڑک دو جرمنی کی آگ پر
سخت حیراں ہوں کہ محفل میں تمہاری اور یہ ذکر
نوع انسانی کے مستقبل کی اب کرتے ہو فکر
جب یہاں آئے تھے تم سوداگری کے واسطے
نوع انسانی کے مستقبل سے کیا واقف نہ تھے
ہندیوں کے جسم میں کیا روح آزادی نہ تھی
سچ بتاؤ کیا وہ انسانوں کی آبادی نہ تھی
اپنے ظلم بے نہایت کا فسانہ یاد ہے
کمپنی کا پھر وہ دور مجرمانہ یاد ہے
لوٹتے پھرتے تھے جب تم کارواں در کارواں
سر برہنہ پھر رہی تھی دولت ہندوستاں
دست کاروں کے انگوٹھے کاٹتے پھرتے تھے تم
سرد لاشوں سے گڈھوں کو پاٹتے پھرتے تھے تم
صنعت ہندوستاں پر موت تھی چھائی ہوئی
موت بھی کیسی تمہارے ہات کی لائی ہوئی
اللہ اللہ کس قدر انصاف کے طالب ہو آج
میر جعفرؔ کی قسم کیا دشمن حق تھا سراجؔ
کیا اودھ کی بیگموں کا بھی ستانا یاد ہے
یاد ہے جھانسی کی رانی کا زمانہ یاد ہے
ہجرت سلطان دہلی کا سماں بھی یاد ہے
شیر دل ٹیپوؔ کی خونیں داستاں بھی یاد ہے
تیسرے فاقے میں اک گرتے ہوئے کو تھامنے
کس کے تم لائے تھے سر شاہ ظفر کے سامنے
یاد تو ہوگی وہ مٹیا برج کی بھی داستاں
اب بھی جس کی خاک سے اٹھتا ہے رہ رہ کر دھواں
تم نے قیصر باغ کو دیکھا تو ہوگا بارہا
آج بھی آتی ہے جس سے ہائے اخترؔ کی صدا
سچ کہو کیا حافظے میں ہے وہ ظلم بے پناہ
آج تک رنگون میں اک قبر ہے جس کی گواہ
ذہن میں ہوگا یہ تازہ ہندیوں کا داغ بھی
یاد تو ہوگا تمہیں جلیانوالا باغ بھی
پوچھ لو اس سے تمہارا نام کیوں تابندہ ہے
ڈائرؔ گرگ دہن آلود اب بھی زندہ ہے
وہ بھگتؔ سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے
اہل آزادی رہا کرتے تھے کس ہنجار سے
پوچھ لو یہ قید خانوں کے در و دیوار سے
اب بھی ہے محفوظ جس پر طنطنہ سرکار کا
آج بھی گونجی ہوئی ہے جن میں کوڑوں کی صدا
آج کشتی امن کے امواج پر کھیتے ہو کیوں
سخت حیراں ہوں کہ اب تم درس حق دیتے ہو کیوں
اہل قوت دام حق میں تو کبھی آتے نہیں
بینکی اخلاق کو خطرے میں بھی لاتے نہیں
لیکن آج اخلاق کی تلقین فرماتے ہو تم
ہو نہ ہو اپنے میں اب قوت نہیں پاتے ہو تم
اہل حق روشن نظر ہیں اہل باطن کور ہیں
یہ تو ہیں اقوال ان قوموں کے جو کمزور ہیں
آج شاید منزل قوت میں تم رہتے نہیں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس اب کس لئے کہتے نہیں
کیا کہا انصاف ہے انساں کا فرض اولیں
کیا فساد و ظلم کا اب تم میں کس باقی نہیں
دیر سے بیٹھے ہو نخل راستی کی چھاؤں میں
کیا خدا ناکردہ کچھ موچ آ گئی ہے پاؤں میں
گونج ٹاپوں کی نہ آبادی نہ ویرانے میں ہے
خیر تو ہے اسپ تازی کیا شفا خانے میں ہے
آج کل تو ہر نظر میں رحم کا انداز ہے
کچھ طبیعت کیا نصیب دشمناں ناساز ہے
سانس کیا اکھڑی کہ حق کے نام پر مرنے لگے
نوع انساں کی ہوا خواہی کا دم بھرنے لگے
ظلم بھولے راگنی انصاف کی گانے لگے
لگ گئی ہے آگ کیا گھر میں کہ چلانے لگے
مجرموں کے واسطے زیبا نہیں یہ شور و شین
کل یزیدؔ و شمرؔ تھے اور آج بنتے ہو حسینؔ
خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا نہیں
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں

———————————————————————

Injeel , Injil Urdu Translation

Articles

انجیل کا اردو ترجمہ

مولانا محمد حلیم انصاری

Adab un Nabi

Articles

آداب النبی

مفتی محمد شفیع

Kucha E Badnam ki Masjid by Naguib Mahfouz

Articles

کوچۂ بدنام کی مسجد

نجیب محفوظ


عصر کے درس کا وقت قریب ہوچلا تھا، لیکن مسجد میں صرف ایک ہی سامع تھا ۔ امامِ مسجد شیخ عبد ربہ کےلیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ جب سے اس مسجد میں آئے تھے ، صرف ایک ہی سامع ان کے درس میں حاضر ہوتا تھا۔ یہ سامع چچا حسنین تھے جو گنے کا جوس بیچتے تھے۔ مسجد کے مؤذن اور خادم بھی درس میں شامل ہوجاتےتھے تاکہ درس کااحترام برقرار رہے اور امام صاحب کی دلجوئی بھی ہوجائے۔ شیخ عبد ربہ کو بجا طور پر یہ اچھا نہیں لگتا تھا ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس کے عادی ہوگئے تھے۔ وہ دن ان کی زندگی کا بد بخت ترین دن تھا جب ان کی منتقلی کوچۂ بدنام کی اس مسجد میں طے پائی تھی۔ اس دن وہ سخت غضبناک ہوئے تھے اور اس منتقلی کو رکوانے یا تبدیل کرانے کی پوری کوشش کی تھی۔ لیکن آخر کار مجبورا انہیں یہ منتقلی تسلیم کرنی پڑی۔ رقیبوں نے کھِلّی اڑائی، تو دوستوں نے مزا لیا۔ اسے اپنے درس کے لیے سامع کہاں ملیں گے؟ مسجد دو اڈوں کے سنگم پر واقع تھی۔ ایک طرف طوائفوں کا کوٹھا تھا، تو دوسری طرف دلالوں اور نشیڑیوں کا جمگٹھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پورے محلے میں سوائے چچا حسنین کے کوئی بھی نیک یا سنجیدہ آدمی نہیں تھا۔ ان کی نظر جب بھی اِس کوٹھے یا اُس اڈے پر پڑتی تو وہ سہم سے جاتے۔ گویا کہ انہیں ڈرتھا کہ کہیں شرم وحیا باختگی کے جراثیم ان کےسانس لینے کے ساتھ ہی ان کے سینے میں نہ گھس جائیں۔ اس کےباوجود ، وہ پابندی کے ساتھ درس دیتے رہے اور چچا حسنین پابندی کے ساتھ درس سننے آتے رہے ، یہاں تک کہ امام صاحب نے ایک دن چچا حسنین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا:
– اتنی محنت کررہے ہیں آپ ! اتنی محنت کے ساتھ تو آپ جلد ہی خود امام ومرجع بن جائیں گے!
بوڑھے چچا شرماکر ہنسے اور بولے!
– اللہ کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔۔
آج کا درس نفس کی پاکیزگی پر تھا۔ امام صاحب کہہ رہے تھے کہ نفس کی پاکیزگی پر ہی اخلاص کی بنیاد ہے، یہ لوگوں کے درمیان اچھےبرتاؤ اور تعلقات کی ضامن ہے، یہ سب سے اچھی چیز ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے دن کی شروعات کرتا ہے ، چچا حسنین نے اپنی عادت کے مطابق کمال توجہ کے ساتھ درس سنا ۔ وہ بہت کم ہی سوال کرتے تھے، صرف کبھی کبھی کسی آیت کے معنی اور کسی فریضہ کے بارے میں پوچھ لیاکرتے تھے۔
سنگینیٔ اتفاق دیکھو کہ عصر کے وقت ہی کوٹھے میں چہل پہل شروع ہوجاتی تھی۔ پورا کوٹھا مسجد کے سامنے والی کھڑکی سے دکھائی دیتا تھا، ایک تنگ پٹی کی شکل میں ، کہیں کہیں ٹیڑھا میڑھا تھا، لیکن دور تک چلا گیا تھا، اس کے دونوں کناروں پر بوسیدہ گھروں اور قہوہ خانوں کے دروازے تھے۔ ایک عجیب قسم کا شہوت انگیز منظرتھا۔
عصر کے وقت، کوٹھے میں تیاری کی لہر دوڑ جاتی ہے، ایسا لگتا کہ کوٹھا ابھی نیند سے بیدار ہوکر چلنا ہی چاہتا ہے۔ زمین پر پانی کا چھڑکاؤ ہوتاہے، دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور ان پر عجیب وغریب قسم کے دستک دئے جاتےہیں ۔ قہوہ خانوں کی کرسیاں ترتیب سے لگادی جاتی ہیں، کھڑکیوں میں عورتیں بن سنور کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور بات چیت کرتی ہیں ۔ فضا میں حیا سوز ہنسی گونج جاتی ہے، راہداری میں خوشبو جلادی جاتی ہے، اسی دوران کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے ، لیکن بائی فوراً ہی اسے چپ کراتی ہے مبادا مرنے والی کے ساتھ ان کی روزی بھی نہ چلی جائے۔
ایک دوسری عورت ہسٹیریائی انداز میں ہنستی ہے اپنی اس سہیلی کو یادکرکے جو اس کے بغل میں بیٹھے بیٹھے ہی مرگئی تھی۔
فحش اور سوقیانہ گانوں کی مشق کرتی ہوئی کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں ، کوٹھے کے آخری حصہ میں چہل پہل شروع ہوتی ہے، جو کرسیاں ترتیب دینے کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ کوٹھے کی مالکن نکلتی ہے اور پہلے گھر کے دروازے کے سامنے بیٹھ جاتی ہے، پہلا فانوس جلا دیاجاتا ہے اور سب جان لیتے ہیں کہ عنقریب ہی کوٹھا آباد ہوجائے گا۔
ایک دن شیخ عبدہ کو کال آیا ، انہیں مذہبی امور کے نگرانِ اعلی سے ملاقات کے لیے بلایا گیا تھا، ان سے یہ بھی کہا گیا کہ تمام اماموں کو بلایا گیا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی ، خاص طور پر موجودہ حالات کو دیکھ کر تویہ بالکل بھی کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ اس کے باوجود شیخ عبدہ فکرمند ہوگئے اور لوگوں سے اس بلاوے کے اسباب کے تعلق سے پوچھ تاچھ کی۔ نگرانِ اعلی کی با اثر شخصیت دیکھتے ہوئے ان کا پوچھ تاچھ کرنا بجا تھا۔ یہ نگرانِ اعلی ایک بہت بڑے عہدیدار کا قریبی تھا، یہ عہدیدار لوگوں کے درمیان بری شہرت کا مالک تھا، اس کی پہچان ایک ایسے عہدیدار کے طور پر تھی جو کنگ میکر کی حیثیت رکھتا تھااور تمام قومی مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کرتاتھا۔ عنقریب ہی وہ سب ہی اس کے سامنے بربادی کے نمائندوں کے طور پر کھڑے ہوں گے اور ادنی سی لغزش سرزد ہوتے ہی غصہ کی آندھی انہیں لےاڑے گی۔
بہر حال شیخ نے بسم اللہ کیا اور بہترین انداز میں میٹنگ کے لیے تیار ہوئے۔ کالے رنگ کا جبہ زیب تن کیا، نیا سا کاخان پہنا، عمامہ سرپر رکھا اور اللہ پر بھروسہ کرکے چل نکلے۔ نگرانِ اعلی کےدفتر کے سامنے شدید ازدحام تھا، شیخ عبدہ کے مطابق بالکل حشر کے دن جیسی بھیڑ تھی۔ تمام امام میٹنگ کے تعلق سے چہ میگوئیاں کررہے تھے۔ اسی دوران بڑا دروازہ کھلا اور انہیں داخل ہونے کو کہا گیا۔ سب امام فوراً ہی کشادہ کمرہ میں داخل ہوئے یہاں تک کہ کمرہ کھچاکھچ بھر گیا۔ نگرانِ اعلی ان کی جانب پروقار اور بارعب لہجہ میں متوجہ ہوا۔ کچھ اماموں نے اس کی تعریف میں مدحیہ شاعری کہی جسے اس نے ایسے سنا جیسے کہ وہ اسے پسند نہ ہوں ، اس دوران اس کے ہونٹوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ دراز تھی۔ پھر سناٹا چھا گیا، اس نے حاضرین پر ایک نگاہ دوڑائی اور انہیں مختصر سا سلام کیا ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اسے یقین ہے کہ وہ اس کی امیدوں پر کھرا اتریں گے، پھر اس نے اپنے سرکے اوپر لٹکی ہوئی تصویر کی جانب اشارہ کرکے کہا:
-اِن کے اور اِن کے خاندان کے تئیں ہمارا فرض ہی اس میٹنگ کا سبب ہے۔
بہت سارے حاضرین کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں ۔ نگرانِ اعلی کی نگاہیں بدستور ان کے چہرے پر مرکوز تھیں ، اس نے کہا:
– آپ لوگ اِن کے ساتھ جس مضبوط رشتہ سے بندھے ہوئے ہیں ، اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے، آپسی محبت کی ایک تاریخ رہی ہے۔
دل کی سوزش کم کرنے کے لیے لوگوں نے خوش مزاجی کے ساتھ تائید کی ۔۔اس نے مزید کہا:
– یہ حالیہ بحران جس سے ملک دوچار ہے، آپ لوگوں سے پرخلوص عمل کا تقاضا کرتاہے۔
دلوں کے نہاں خانوں میں اضطراب بڑھ گیا:
لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں ! دجالوں اور شر انگیزوں کو بے نقاب کردیں تاکہ حقدار کا حق پختہ ہوجائے۔
نگرانِ اعلی اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور ٹہلتے ہوئے پوچھا کہ کوئی سوال ہے؟ موجودین پر خاموشی طاری ہوگئی یہاں تک کہ ایک بے خوف امام کھڑا ہوا اور کہا کہ جناب نگرانِ اعلی نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے ، اگر ہدایات کی خلاف ورزی کا خوف نہ ہوتا تو وہ خودہی بڑھ کر یہ فرض نبھاتے۔ نگرانِ اعلی کے بات شروع کرتے ہی شیخ عبد ربہ کی پریشانی ختم ہوگئی تھی انہیں فورا ہی معلوم ہوگیا تھا کہ انہیں کسی قسم کے محاسبہ یا تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا ہے بلکہ اس مرتبہ حکومت ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشاں ہے ۔ کسے معلوم ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد ان کی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کئےجائیں اور ان کی تنخواہوں اور بھتوں میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن جلد ہی وہ پھر پریشان ہوگئے جیسے صاف ستھرے ریتیلے ساحل پر پھیلی ہوئی موج تھوڑی دیر بعد ہی جھاگ میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ انہیں بخوبی پتہ چل گیا تھا کہ حکومت ان سے کیا چاہتی ہے؟
عنقریب ہی انہیں جمعہ کے خطبہ میں وہ سب کہنا پڑ ےگا جو ان کے ضمیر کے خلاف اور لوگوں کی شدید ناراضگی کا باعث ہوگا۔انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ انہیں جیسے بہت سے ہیں جو ان کے جذبات میں ساجھی ہیں او ر اسی بحران کے شکار ہیں۔ لیکن ایسا لگتاتھا کہ سب کے لیے بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ نئے فکر میں غلطاں وپیچاں مسجد لوٹ آئے۔
٭ ٭ ٭

یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
علاقہ کا مشہور غنڈہ شلضم اپنے گینگ کے ساتھ مسجد سے کچھ ہی دوری پر واقع شراب خانہ ’’ اھلا وسھلا‘‘ میں بیٹھا ہواتھا، وہ انتہائی غضبناک تھا اور شراب کے ہر پیگ کے ساتھ اس کا غصہ مزید بھڑک جاتا ۔ وہ گرجدار آوازمیں بولا:
-یہ پاگل لڑکی ’’نبویۃ‘‘ اس حسان نامی لونڈے سے محبت کرتی ہے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ایک ساتھی نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا:
– ہوسکتا ہے کہ صرف گاہک ہو ، صرف گاہک نہ کم ، نہ زیادہ !
شلضم نےاپنا فولادی ہاتھ میز پر پٹخا، میز پر رکھے ہوئے برتن اور مونگ پھلی کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھر گئے، وہ وحشتناک آواز میں چیخا:
– نہیں ۔۔ وہ لیتا ہے ، دیتا کچھ نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا خنجر ہی اس کا کام تمام کرے گا، وہ پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیتا لیکن مختلف شکلوں میں خوب تحفے وصول کرتاہے!
چہروں پر نفرت و حقارت چھاگئی، خمار آلودنگاہوں نے تابعداری کا اعلان کیا ، وہ بولا:
-وہ لونڈا عموما اس وقت آتا ہے جب وہ ناگن ناچتی ہے، اس کے آنے کا انتظار کرو، پھر کسی طرح بھڑجاؤ، باقی لوگ۔۔۔
انہوں نے باقی ماندہ پیگ چڑھایا، ان کی آنکھوں سے انکے برے ارادے منعکس ہورہے تھے۔
٭ ٭ ٭
نماز عشاء کے بعد ، شیخ عبد ربہ نے اپنے دو ہم جماعت اماموں سے ملاقات کی، ایک کا نام خالد اور دوسرے کا نام مبارک تھا۔ وہ دونوں اس کے پہلو میں منہ لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔انہوں نے کہا کہ کچھ اماموں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اس پروپیگنڈہ کا حصہ بننے سے منع کردیا تھا۔ خالد نے شکایت بھر ے انداز میں کہا:
-عبادت گاہیں سیاسی دھینگا مشتیوں اور ڈکٹیٹروں کی تائید کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں !
شیخ عبد ربہ کو لگا کہ ان کا دوست ان کے زخم پر نمک چھڑک رہا ہے اور انہوں نے سوال کیا:
-کیا بھوکے مرنا چاہتے ہو؟
ایک بوجھل سناٹا پسر گیا شیخ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان دونوں کے سامنے اپنی ناک بچانے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ وہ اطمینان کے ساتھ یہ کام کریں گے، وہ گویا ہوئے:
-جسے کچھ لوگ دھینگا مشتی سمجھتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہی عین حق ہو۔
شیخ کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ کر خالد دنگ رہ گیا اور بات چیت کرنے سے کترانے لگا، رہا مبارک ، تو اس نے غصہ کے ساتھ کہا:
-ہم ایک اسلامی اصول کو قتل کردیں گے ، جس کا نام امر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔
عبد ربہ اس پر غصہ ہوگئے، وہ اندر ہی اندر اپنے ضمیر پر بھی غصہ تھے جو انہیں اذیتیں دے رہا تھا۔ وہ بولے:
– بلکہ ہم ایک اسلامی اصول کو زندہ کریں گے جس کا نام ہے ۔ اللہ ، اس کے رسول اور أولی الأمر کی اطاعت کی دعوت دینا۔
مبارک نے اس پر سخت نفرت بھرے انداز میں سوال کیا:
-کیا تم اِنہیں أولی الأمر سمجھتے ہو؟!
عبد ربہ نے چیلنج بھر ے انداز میں اسی سے سوال کیا:
-یہ بتا خطبہ دینے سے انکار کردے گا؟
مبارک ناراض ہوکر اٹھ کھڑا ہوا، پھر وہاں سے چلا گیا، تھوڑی دیر میں خالد بھی وہاں سے چلاگیا۔ شیخ نے دونوں کو کوسا اور بغاوت پر آمادہ اپنے دل کو بھی برا بھلا کہا۔
٭ ٭ ٭
آدھی رات سے تھوڑا پہلے، داہنی طرف سے ساتویں کوٹھے کا صحن نشیڑیوں سے بھر گیا ۔ وہ ایک ریتیلی زمین کے ارد گرد دائرہ کی شکل میں لگی لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اس ریتیلی زمین پر روشنی کا فوکس تھا ۔ نبویۃ گلابی رنگ کا سلیپنگ ڈریس پہنے ناچ رہی تھی۔ تالیاں بج رہی تھیں ، خمار آلود زبانوں سے وحشیانہ چیخیں بلند ہورہی تھیں اور شلضم کی نگاہیں کوٹھے کے دروازے پر مرکوز تھیں۔ اچانک حسان ترتیب سے سنوارے ہوئے بالوں اور دمکتے چہرے کے ساتھ داخل ہوا۔ شلضم کی دہکتی نگاہوں نے اس کا تعاقب کیا ۔ حسان کھڑا نبویۃ کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ اس کو اس کی آمد کا پتہ چل گیا۔ نبویۃ نے دراز مسکراہٹ ، رقص کناں پیٹ کی الھڑ حرکت اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے محبوب کو خوش آمدید کہا۔
حسان اکڑ کر آگے بڑھتاہے اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ شلضم کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ سیٹی کی ہلکی سی آواز نکالتا ہے۔ اس کے گینگ کے دولڑکے آپس ہی میں بھِڑ جاتےہیں، دوسرے لوگ بیچ بچاؤ کے لیے آتے ہیں، لڑائی مزید سخت ہوجاتی ہے یہاں تک کہ نشہ میں دھت لوگ دروازے کی طرف بھاگنے لگتےہیں ایک کرسی فانوس پر آکر لگتی ہے ، فانوس ٹوٹ جاتا ہے اور چاروں طرف سخت تاریکی پھیل جاتی ہے۔ پیروں کی دھمک کے ساتھ چیخ کی آواز خلط ملط ہوجاتی ہے ۔ آوازیں بلند ہوجاتی ہیں ، کسی عورت کی چیخ فضا میں بلند ہوتی ہے، اس کے فورا بعد کوئی آدمی بری طرح کراہتا ہے ۔ جلد ہی غبار آلود صحن لوگوں سے خالی ہوجاتاہے، وہاں باقی بچتی ہیں تو دو لاشیں جو پڑی پڑی خاموش تاریکی کو آبادکئے ہوتی ہیں۔
اگلا دن جمعہ کا تھا ۔ نماز کے وقت دیگر دنوں کے برعکس مسجد نمازیوں سے بھر گئی ، کیونکہ جمعہ کی نماز کے لیے دور دراز علاقوں جیسے خازند ار اور عتبۃ سے بھی لوگ آتے تھے ۔ قرآن کی تلاوت کی گئی ، پھر شیخ عبد ربہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ، ایسا لگا کہ سیاسی خطبہ سن کر نمازیوں کو دھچکا لگا ، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ سب سننے کو مل سکتا ہے، اطاعت اور وفاداری کے وجوب پر مقفع مسجع عبارتیں سن کر وہ شک اور شدید غضب کے شکار ہوگئے۔ جیسے ہی خطبہ میں ان لوگوں کو برا بھلا کہاگیا ’’جوقوم کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے لوگوں کو بغاوت پر ابھارتے ہیں ‘‘، مسجد میں واویلا مچ گیا ، چاروں طرف احتجاج و ناراضگی کی صدا بلند ہوئی، کچھ لوگوں نے بآواز بلند اعتراض کیا ، کچھ دوسرے لوگوں نے امام کو گالیاں دیں، اسی وقت نمازیوں کے درمیان موجود جاسوس اٹھے اور احتجاج وغصہ کے طوفانی شور وشرابہ کے درمیان بہت زیادہ مخالفت کرنے والوں کو کھینچ کر باہر لے گئے۔
بہت سے لوگ مسجد چھوڑکر چلے گئے۔ لیکن امام نے باقی لوگوں کو نماز کے لیے بلایا، بڑی غمناک اور رنجور نماز تھی۔
٭ ٭ ٭
اسی دوران ، بائیں جانب سے دوسرے کوٹھے کے ایک کمرہ میں ایک طوائف اور ایک گاہک موجود تھے، طوائف بیڈ کے کنارے نیم برہنہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا جو آدھا پانی سے بھر اہوا تھا اور اس میں کھیر ا تھا، وہ وہی کھیرا کھا رہی تھی۔ بستر کے سامنے ایک کرسی پر گاہک بیٹھا ہوا تھا، وہ اپنی جیکٹ نکال رہا تھا اور برانڈی کی چسکیاں لے رہا تھا۔ اس کی نگاہوں نے سرسری طور پر کمرے کا جائزہ لیا، پھر آکر طوائف پر ٹھہر گئیں، اس نے جام اس کے ہونٹوں سے قریب کیا، اس نے ایک گھونٹ پی، اس نے جام پھر اس کے ہونٹوں سے لگایا، مسجد سے آنے والی تلاوت کی آواز ان کے کانوں پر پڑی، اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی نادیدہ مسکراہٹ مرتسم ہوگئی ، اس نے اس کی طرف دیکھا اور غصہ سے بڑ بڑایا:
-یہ لوگ اس جگہ مسجد کیوں بناتے ہیں؟ پوری دنیا میں انہیں کوئی اور جگہ نہیں ملی ؟
طوائف نے بغیر کھیرا کھانا بند کئےہوئے کہا :
– یہ جگہ بھی دوسری جگہوں کی طرح ہی ہے۔
اس نے دوپیگ چڑھائی اور تیز نگاہوں سے اس کے چہرہ کو ٹٹولتے ہوئے کہا:
– کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتی؟
-ہمارا رب ہمیں معاف کردے گا۔۔۔
اس کے حلق سے ایک طوفانی قہقہہ بلند ہوا، اس نے کھیرا طوائف کے ہاتھوں سےلے کر اپنے منہ میں ٹھونس لیا، اس لمحہ امام عبد ربہ اپنا خطبہ دے رہے تھے، وہ سر جھکائے ان کی باتیں سنتا رہا، پھر استہزائیہ انداز میں مسکرا کر بولا:
-منافق !۔۔ سنو تو یہ منافق کیا کہہ رہا ہے!
اس نے اپنی نگاہیں کمرہ میں دوڑائیں ۔ اس کی نظر سعد زغلول کی ایک تصویر پر آکر رک گئی جو پرانی ہونے کی وجہ سے دھند لاگئی تھی ، اس نے تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:
– انہیں پہچانتی ہو؟
-انہیں کون نہیں پہچانے گا؟
اس نے جام میں بچی کھچی شراب اپنے پیٹ میں انڈیل لی اور بوجھل زبان میں کہا :
– طوائف محب وطن اور شیخ منافق!
اس نے کراہتے ہوئے کہا:
-ہائے رے قسمت ! وہ دولفظ بول کر خزانہ لوٹ لیتا ہے اور ہمیں دو آنہ اس وقت تک نہیں ملتاجب تک کہ ہم اپنے پورے جسم کا پسینہ نہ بہادیں۔۔
اس نے مزید چٹکی لیتے ہوئے کہا:
– یہاں بہت سے عزت دار لوگ ہیں جو تمہاری اس بات سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں رکھتے، لیکن ایسا کہنے کی ہمت کون جٹائے ؟
-نبویۃ کے قاتل کے بارے میں سب کو معلوم ہے ، لیکن اس کے خلاف گواہی دینے کی ہمت کون جٹائے ؟
اس نے اپنا سر افسوس کے ساتھ ہلایا اور بولا:
– نبویۃ!۔۔۔۔ بیچاری ! ۔۔۔۔ اس کا قاتل کون ہے؟
-شلضم ، اللہ اسے واصل جہنم کرے۔۔۔
-اے ساتر، اے رب، رب اس کا گواہ ہے، اچھا ہے کہ اس ملک میں صرف ہم ہی گناہ گار نہیں ہیں۔۔۔
اس نے اسے ڈانٹ کر کہا:
-لیکن تم بات کرنے میں وقت برباد کردیتے ہو۔۔!
٭ ٭ ٭

یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
شیخ عبد ربہ نے مسجد میں وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کا استعمال اپنے مفاد کے لیے کرنے کا عزم کیا ، انہوں نےوزارت کو ایک شکایت نامہ بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ انہیں اپنے قوم پرست خطبہ کی وجہ سے پریشانیوں اور دست درازیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نےاس واقعہ کوبطور خاص ان کی دفاع کے لیے پولیس والوں کی دخل اندازی اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے معاملہ کو بعض اخباروں میں مبالغہ آمیز شکل میں شائع کروانے کی کوشش کی ، انہیں قوی امید تھی کہ وزارت ان کی حالت بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی۔ لیکن عصر کے وقت انہیں ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا ۔ عصر کے درس کے وقت آج کوئی سامع نہیں تھا، انہوں نے دروازہ سے جوس کی دکان کی طرف نظر دوڑائی ، جوس والا اپنے کام میں منہمک تھا ، انہیں لگا کہ وہ درس بھول گیا ہے، وہ دروازے کے قریب آئے اور اس کا نام لےکر پکارا:
– چچا حسنین ، درس۔
چچا حسنین نےآواز پر بلا ارادہ اپنا سر گھمایا ، لیکن جلد ہی سختی کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رخ پھیر لیا۔شیخ عبد ربہ خجل ہوگئے ، اسے پکارنے پر پچھتائے اور اسے کوستے ہوئے لوٹ گئے۔
فجر کی اذان کا وقت تھا ، رات کا سناٹا پسرا ہواتھا، ہوا میں ٹھنڈک تھی اور چاند آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ مؤذن اذان گاہ پر چڑھا اور فضا میں ’’اللہ اکبر ‘‘ کی آواز بلند ہوگئی ۔ ابھی وہ اذان کے کلمات دہرانا چاہتا ہی تھا کہ فضا میں بمباری شروع ہونے کا خوفناک الارم بلند ہوا، اس کا دل بڑے زور سے دھڑکا اس نے اللہ کی پناہ مانگی ، اپنے اعصاب پر قابو پایا اور دوبارہ اذان کےکلمات جاری رکھنے کوتیار ہوا۔ الارم بند ہوگیا تھا۔ بمباری کا الارم تقریباً ہر رات کا معمول بن گیا تھاجو صحیح سلامت گزر جاتاتھا۔ یہ اس وقت سے جاری تھا جب سے اٹلی نے اتحادیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیاتھا۔ وہ پوری قوت کے ساتھ بولا : لا إلہ الااللہ اور اس میں غنائیت لانے کی کوشش کی۔ اچانک ایک خوفناک دھماکہ ہوا جس سے زمین دہل گئی۔ اس کی آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ جہاں تھا وہیں ساکت و جامد کھڑا رہ گیا۔ اس کے پہلولرز رہے تھے اور اس کی آنکھیں دور افق پر ٹھہری ہوئی تھیں جہاں سرخ شعلہ دکھائی دے رہاتھا۔ وہ دروازے کی جانب بھاگا اور لرزتے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ وہ مسجد کے فرش پر پہونچتے ہی امام اور خادم کی جانب بھاگا اور لرزاں آواز میں کہا:
-پھر سے حملہ ہوا ہے۔۔کیا کریں؟
امام نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
-پناہ گاہ دور ہے۔ اب تک لوگوں سے بھر چکی ہوگی۔ مسجد کی عمارت بہت مضبوط ہے ، فی الحال یہی سب سے بہتر پناہ گاہ ہے۔
وہ سب ایک کونے میں بیٹھ گئے اور تلاوت کرنے لگے۔ باہر کی طرف سے مختلف آوازیں آنے لگیں ۔۔۔ تیز قدموں کی چاپ ، چیخ وپکار، فکرمند تبصرے، دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں۔ ایک بار پھر زمین یکے بعد دیگرے بمباری سے دہل اٹھی، اعصاب پر خوف سوار ہوگیا اور دلوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مسجد کا خادم چلایا:
-بال بچے گھر میں ہیں ، گھر پراناہے، امام صاحب!
امام نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
– اللہ موجود ہے ۔۔۔اپنی جگہ سے ہلنا مت۔۔
لوگوں کی ایک بھیڑ مسجد میں آئی ، کچھ لوگوں نے کہا:
– یہ محفوظ جگہ ہے۔۔
ایک کھردری آواز آئی:
– یہ حقیقی حملہ لگتاہے ، بیتی راتوں سے الگ۔۔
امام آواز سن کردل گرفتہ ہوگیا۔ یہ جانور نما آدمی ، اس کا یہاں پایا جانا کسی بری خبر کا پیش خیمہ لگتا ہے ۔ کچھ اور لوگ آئے ، اب کی بار پہلے سے زیادہ تھے۔ کچھ زنانہ آوازیں آئیں جن سے امام کے کان نا مانوس نہیں تھے۔ ایک آواز آئی:
-میرا سارا نشہ ہرن ہوگیا ہے۔۔
امام ہتھے سے اکھڑ گیا اور پوری قوت کے ساتھ چلایا :
– پناہ گاہ جاؤ ، اللہ کے گھروں کا احترام کرو، سب نکلو یہاں سے۔
ایک آدمی چیخا :
-چپ رہئے جناب ۔
ایک تمسخر آمیز ہنسی کی آواز آئی پھر شدید دھماکہ کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی ۔ مسجد چیخ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ امام پر رعب طاری ہوگیا اور وہ گویا بموں کو مخاطب کرتے ہوئے جنونی انداز میں چیخا:
-نکل جاؤ یہاں سے ۔اللہ کے گھروں کو گندا مت کرو۔
ایک عورت بولی:
– شرم کرو۔
امام پھر چیخا :
– نکل جاؤ، تم پر اللہ کی لعنت ہو۔
عورت نے ترکی بہ ترکی جواب دیا:
– یہ اللہ کا گھر ہے ، تیرے باپ کا نہیں !
ایک کھر دری آواز آئی :
-چپ ہوجائیں ، جناب! ورنہ میں آپ کی سانس کی ڈور کاٹ دوں گا۔
سخت تبصرے ہونے لگے ، تمسخر آمیز الفاظ کا تبادلہ ہونے لگا۔ مؤذن نے امام کے کان میں کہا:
– خدا کے لیے چپ ہوجائیں۔
عبد ربہ نے رک رک کر کہا گویا انہیں بولنے میں پریشانی ہورہی تھی۔
-تم چاہتے ہو کہ مسجد میں یہ لوگ رکیں؟
مؤذن نے گڑ بڑاتے ہوئے کہا:
-ان کے پاس اس کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ بھول گئے آپ کہ محلہ پرانا ہے، گھروں پر مکےبھی برسادیں تو گر جائیں گے، بم کی بات ہی چھوڑ دیں ۔
امام نے اپنے ایک ہاتھ سے دوسری ہتھیلی پر مکا مارا اور کہا:
– میرا دل ان بدمعاشوں کے ساتھ ایک ہی جگہ اکٹھا ہونے پر مطمئن نہیں ہے۔ان کے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونے میں ضرور اللہ کا کوئی حکم پوشیدہ ہے۔
ایک بم اورپھٹا ، ان سب کو لگا کہ بم میدانِ خازندار میں پھٹا ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک بجلی چمکی جس کی روشنی میں لرزتے سائے دکھائی دئے، پھر تاریکی چھاگئی۔ حلق سے پریشان آوازیں نکلیں ۔ عورتوں نے ہاہا کار کی اور شیخ عبد ربہ کی بھی چیخ نکل گئی ۔ شیخ عبد ربہ سر اسیمہ ہوکر مسجد کے دروازہ کی جانب سرپٹ بھاگے۔ مسجد کا خادم ان کے پیچھے انہیں روکنے کے لیے دوڑا ، لیکن انہوں نے اسے پوری قوت کے ساتھ دھکیل دیا اور کہا:
– مرنے سے پہلے تم دونوں بھی میرے پیچھے ہو لو۔۔۔
وہ دروازے سے لرزتی ہوئی آواز میں یہ کہتے ہوئے نکل گئے:
-ان سب کے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونے میں ضرو ر اللہ کا کوئی حکم پوشیدہ ہے۔
اور دوڑتے ہوئے سخت تاریکی کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد بمباری دس منٹ تک جاری رہی اور اس دوران چار بم گرے ۔ شہر پر مزید پندرہ منٹ تک سکوت طاری رہا پھر بمباری بند ہونے کا الارم بجا۔
دھیرے دھیرے رات کی تاریکی چھٹتی گئی ۔۔۔ پھر صبح نجات کے آثار نمودار ہوئے۔
لیکن شیخ عبد ربہ کی لاش سورج نکلنے پر ہی مل پائی۔
٭ ٭ ٭

اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے نجیب محفوظ کی اس کہانی کا ترجمہ جناب شمس الرب نے عربی سے کیا ہے۔ جملہ حقوق بحقِ مترجم محفوظ ہیں
جناب شمس الرب شعبہ عربی ، مہاراشٹر کالج ، ممبئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے اردو چینل کے لیے فلسطینی افسانوں کا ترجمہ کیا تھا جو اردو دنیا میں بہت مقبول ہوا تھا۔ شمس الرب عربی ، اردو اور انگریزی زبان پر اچھی قدرت رکھتے ہیں۔