Selected Poetry of Akhtar Muslami

Articles

اختر مسلمی کا منتخبہ کلام

اختر مسلمی

اختر مسلمی کا نام عبید اللہ اور آبائی وطن پھریہا (اعظم گڈھ) تھا۔ یکم جنوری 1928 کو اعظم گڈھ کے مردم خیز گاﺅں مسلم پٹی میں آپ کی ولادت ہوئی اسی نسبت سے خود کو مسلمی لکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد حافظ عطاءاللہ صاحب سے حاصل کی، بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے انھوں نے 1938میں اپنے علاقہ کی مشہور دینی درسگاہ مدرسة الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڈھ میں داخلہ لیا اور 11 سال کی عمر میں حفظ قرآن مکمل کیا۔ اختر مسلمی کی شاعری کی ابتدا بہت کم عمر میں ہوگئی تھی. 12 برس کی عمر میں وہ باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے۔ مشاعروں میں اختر مسلمی کی شرکت، مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔ اختر مسلمی کے دو شعری مجموعے ”موجِ نسیم“ (1961) اور ”موجِ صبا“ (1981) ان کی زندگی میں شائع ہوگئے تھے جب کہ تیسرا شعری مجموعہ ”جام و سنداں“ ان کی وفات کے بعد ”کلیات اختر مسلمی“ میں شامل کردیا گیا ہے جس کا پہلا ایڈیشن 2013 میں شائع ہوا۔ کلیات اختر مسلمی کا دوسرا ایڈیشن بھی 2017 میں منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اختر مسلمی نے مادرِ علمی مدرسة الاصلاح کا ترانہ بھی لکھا جو کلیات اختر مسلمی میں اصلاحی ترانہ کے عنوان سے شامل ہے۔ 25 اپریل 1989ءکو یہ آفتاب علم و دانش ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔

 

٭٭٭

آلودہِ غبار ہے آئینہِ حیات
اے گردشِ زمانہ کوئی تازہ واردات

ذرّوں پہ خندہ زن ہو نہ خورشید کائنات
ہے اس کو کب ثبات جو ان کو نہیں ثبات

پی جاﺅ اس کو گھول کے جامِ شراب میں
حد سے گزر گئی ہو اگر تلخیِ حیات

گھبرا کے مر تو جائیں غمِ زندگی سے ہم
مر کر بھی زندگی سے نہ پائیں اگر نجات

انساں کے دل کا حال بھی کتنا عجیب ہے
مانے تو ایک بات نہ مانے تو لاکھ بات

رنگتے ہیں لوگ اس کو فسانہ کے رنگ میں
لاتا ہے کون لب پہ محبت کے واقعات

اختر زباں سے بھی نہ کرو اس سے عرضِ حال
چہرے سے جو سمجھ نہ سکے دل کی کیفیات

٭٭٭

اے دلِ بے خبر ابھی کیا ہے
جانتا بھی ہے عاشقی کیا ہے

سبب جورِ بے رُخی کیا ہے
کچھ کہو وجہِ برہمی کیا ہے

جانے والا چلا گیا اب تو
نگہِ شوق دیکھتی کیا ہے

یاد مونس ہے غم گُسار ہے دل
شامِ فرقت میں بے کسی کیا ہے

جی رہا ہوں ترے بغیر مگر
اِک مصیبت ہے زندگی کیا ہے

جُز ترے کیا طلب کروں تجھ سے
مجھ کو تیرے سوا کمی کیا ہے

پَرتوِ حُسن روئے دوست ہے یہ
ماہ و انجم میں روشنی کیا ہے

دوستی میرے بخت سے ہے تجھے
مجھ سے اے نیند دشمنی کیا ہے

اپنے بس ہی کی جب نہیں اختر
ہائے ایسی بھی زندگی کیا ہے

٭٭٭

ازل سے سر مشق جور پیہم خَدنگ آفات کا نشانہ
میں سر سے پا تک ہوں نالہِ غم سناﺅں کیا عیش کا ترانہ

سنا تو میں نے بھی ہے کہ دامِ قفس کو ٹوٹے ہوا زمانہ
تمیز لیکن نہ کرسکا میں کہ یہ قفس ہے کہ آشیانہ

عجیب الجھن میں تو نے ڈالا مجھے بھی اے گردشِ زمانہ
سکون ملتا نہیں قفس میں نہ راس آتا ہے آشیانہ

اگر ارادے میں پختگی ہے تو پھیر دوں گا رُخِ زمانہ
جہاں پہ یورش ہے بجلیوں کی وہیں بناﺅں گا آشیانہ

مصیبتوں کے گِلے عَبث ہیں فضول ہے شکوہِ زمانہ
جو مجھ سے پوچھو تو میں کہوں گا کہ ہے یہ عبرت کا تازیانہ

اسیر زنداں تھے جیسے پہلے وہی ہیں حالات اب بھی لیکن
ہے فرق اتنا کہ ہم سمجھنے لگے قفس ہی کو آشیانہ

نہ مجھ کو پروا خِزاں کی ہوتی نہ خوف صیّاد و برق ہوتا
بدل لے اے کاش کوئی اپنے قفس سے میرا یہ آشیانہ

وفا تو میری سرِشت میں ہے وفا پرستی شعار میرا
جفائیں تم اپنی دیکھو پہلے، وفائیں میری پھر آزمانہ

ہے میرا ذوق سجود اب بے نیاز دیر و حرم سے اختر
جبیں جہاں خم کروں گا ہوگا وہیں نمودار آستانہ

٭٭٭

کون ہے جو چمن میں پریشاں نہیں
باغباں پھر بھی خوش ہے پشیماں نہیں

دیکھتے ہو گلستاں میں جو روشنی
بجلیاں ہیں یہ شمعیں فروزاں نہیں

دیکھیے اس کی بے رَہ روی دیکھیے
جیسے کشتی کا کوئی نگہباں نہیں

ہم بنا کر نشیمن خطاوار ہیں!
پھونک کر گلستاں تم پشیماں نہیں

خوف طوفاں سے لرزاں ہو ساحل پہ تم
گھِر کے موجوں میں بھی میں ہراساں نہیں

جب گریباں تھا دستِ جنوں ہی نہ تھا
آج دستِ جنوں ہے گریباں نہیں

اس قدر بڑھ گئی ظلمتِ شامِ غم
آسماں پر ستارے درخشاں نہیں

کیسی اختر چمن میں بہار آگئی
بلبلیں نالہ زن ہیں غزل خواں نہیں

٭٭٭

 

آئینِ جفا ان کا سمجھے تھے نہ ہم پہلے
ہوتا ہے ستم پیچھے کرتے ہیں کرم پہلے

کیوں سیرِ گلستاں پر ہے چیں بجبیں کوئی
زنداں میں بھی رکّھا تھا میں نے ہی قدم پہلے

آباد رہیں دونوں بُت خانہ بھی کعبہ بھی
یہ بات نہ تھی تم میں اے شیخِ حرم پہلے

ہنستے ہیں گلستاں میں پھر جاکے کہیں غنچے
کرتی ہے دُعا شبنم بادیدہِ نم پہلے

ہوتی نہ اگر کُلفت کیا لطف تھا راحت میں
رہتی ہے مسرّت بھی منّت کشِ غم پہلے

کوشاں ہیں نکلنے کو یوں جاں بھی تمنّا بھی
وہ کہتی ہے ہم پہلے یہ کہتی ہے ہم پہلے

ہے نورِ حقیقت کا جویا تو مگر زاہد
اس راہ میں ملتے ہیں انوارِ صنم پہلے

برہم انھیں کرنے کی مجرم مری آنکھیں ہیں
کچھ کہہ نہ سکا اُن سے یہ ہوگئیں نم پہلے

بخشا ہے محبت نے کچھ رنگِ اثر شاید
تھا تم میں کہاں اختر یہ زورِ قلم پہلے

٭٭٭

لذّتِ درد ابھی تک دلِ نخچیر میں ہے!
ہائے کیا چیز نہاں تیرے سرِ تیر میں ہے

ناز ہے اپنی اسیری پہ دلِ ناداں کو!
جانے کیا بات تیری زلفِ گرہ گیر میں ہے

التفات آنکھوں میں چہرے پہ مروّت کی ضیا
تجھ میں وہ بات نہیں جو تری تصویر میں ہے

کیا کروں لے کے مسیحا نفسوں کے احساں
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے

جورِ اغیار نہیں اپنوں کی بیداد تو ہے
آج بھی پاﺅں مرا حلقہ¿ زنجیر میں ہے

دیکھ صیّاد ترا عیش نہ برہم ہو جائے
اتنی تاثیر ابھی نالہِ شب گیر میں ہے

دل لیا جان بھی لی اور بھی کچھ باقی ہے
کیوں ترا ہاتھ ابھی قبضہِ شمشیر میں ہے

ایک دھوکا ہے غمِ دل کا مداویٰ اختر
نا مرادی ہی ازل سے مری تقدیر میں ہے
٭٭٭

یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی یہ سکون بخش سائے
رہِ عشق کے مسافر تجھے نیند آ نہ جائے

یہ چمن، یہ تم، یہ موسم، یہ حسیں گُلوں کے سائے
میرا عہد پارسائی کہیں پھر نہ ٹوٹ جائے

جسے لذّتِ اسیری ہی ازل سے راس آئے
ترے دامِ زلف پُرخم سے کہاں نکل کے جائے

مرا دل پناہ دے گا مرے دل میں سر چھپائے
ترا تیر چشمِ ساقی جو کہیں اماں نہ پائے

یہ کرم نُما نگاہیں یہ وفا نُما تبسُّم!
کوئی جیسے ہلکے ہلکے مرے دل کو گد گدائے

مرے دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے دینے والے تسکیں
کہیں دل کی دھڑکنوں سے تجھے چوٹ آنہ جائے

یہ خلش، یہ سوزِ پنہاں، یہ جگر کے داغ تاباں
تمھیں منصفی سے کہہ دو کوئی کیسے مُسکرائے

شبِ غم نکل پڑا تھا مرے دل سے ایک نالہ
مجھے ڈر ہے ان کو یا رب کوئی آنچ آ نہ جائے

مری شاعری سے رغبت کبھی بے سبب نہیں ہے
اسے کیا پڑی ہے اختر مرا شعر گنگنائے
٭٭٭

لوگ یوں رازِ تعلق پاگئے
تذکرہ میرا تھا تم شرما گئے

پُرسشِ غم آپ یوں فرما گئے
جام میرے ضبط کا چھلکا گئے

کیا ستم ہے آئے بیٹھے چل دیے
تم تو آکر اور بھی تڑپا گئے

کیا خبر تھی سنگ دل نکلو گے تم
ہم تو اس صورت سے دھوکا کھا گئے

ان کی زلفیں ہی نہ سلجھیں اور ہم
داستانِ زندگی دہرا گئے

اس نے دیکھا مجھ کو اس انداز سے
کچھ جبینوں پر کئی بل آگئے

ہم کو سودا عشق کا مہنگا نہیں
کھوئے کچھ اس راہ میں کچھ پاگئے

٭٭٭

کہاں جائیں چھوڑ کے ہم اُسے کوئی اور اس کے سوا بھی ہے
وہی دردِ دل بھی ہے دوستو وہی دردِ دل کی دوا بھی ہے

مری کشتی لاکھ بھنور میں ہے نہ کروں گا میں تری منَّتیں
یہ پتا نہیں تجھے ناخدا میرے ساتھ میرا خدا بھی ہے

یہ ادا بھی اس کی عجیب ہے کہ بڑھا کے حوصلہ¿ نظر
مجھے اذنِ دید دیا بھی ہے مرے دیکھنے پہ خفا بھی ہے

مری سمت محفل غیر میں وہ ادائے ناز سے دیکھنا
جو خطائے عشق کی ہے سزا تو میری وفا کا صلہ بھی ہے

جو ہجومِ غم سے ہے آنکھ نم تو لبوں پہ نالے ہیں دم بدم
اسے کس طرح سے چھپائیں ہم کہیں رازِ عشق چھپا بھی ہے

یہ بجا کہ اخترِ مسلمی ہے زمانے بھر سے برا مگر
اسے دیکھیے جو خلوص سے تو بھلوں میں ایک بھلا بھی ہے

٭٭٭

گل ولالہ ہیں نہ طیور ہیں سبھی اس چمن سے چلے گئے
ہوئے کس عذاب میں مبتلا کہ یہ خود وطن سے چلے گئے

وہ نیاز ہے، نہ وہ ناز ہے، نہ وہ سوز ہے، نہ وہ ساز ہے
یہ بتا کہ اہلِ وفا کہاں تری انجمن سے چلے گئے

نہ جفا تھی میرے لیے جفا نہ ستم کو میں نے ستم کہا
جو گماں تھے تیری اداﺅں پر مرے حسنِ ظن سے چلے گئے

نہ وہ رنگ ہے، نہ وہ نور ہے، نہ وہ دل کشی کا سرور ہے
یہ نہ جانے کس لیے روٹھ کر گل و یاسمن سے چلے گئے

ترے غم کے ساتھ چلی گئی نہ رہی وہ رونقِ زندگی
سبھی عکس حسنِ خیال کے مرے فکر و فن سے چلے گئے

کہو اُس سے اخترِ مسلمی نہ رہے گی پھر یہ ہما ہمی
جو خدا نہ خواستہ ہم کبھی تری انجمن سے چلے گئے
٭٭٭

 

 

 

 

Critical Study of Sabrus

Articles

سب رس کا تنقیدی جائزہ

احسان الحق اختر

Yagana Changezi Life and Work

Articles

مرزا یاس یگانہ چنگیزی حیات و شخصیت

نجیب الدین جمال

Qissa E Mukhtasar…Quraish Nagar by Dr. Qasim Imam

Articles

قصہ مختصر ____قریش نگر

ڈاکٹر قاسم امام

 

قریش نگر ، بنٹر بھون میں منعقد ایک جلسے میں گذشتہ دنوں ایک صاحب نے ہر دلعزیز ایم۔ ایل ۔اے جناب نواب ملک کے سامنے قریش نگر کی محرومیوں کا ذکر کیا ، غالباً موصوف مقامی ایم۔ ایل۔ اے کے سامنے علاقے کے مسائل پیش کرنا چاہتے تھے۔ مجھے یہ شکوہ پسند نہ آیا، جوابِ شکوہ کے طور پر میں نے اپنی تقریر میں اداروں اور شخصیات کے حوالے سے قریش نگر کی اُن خوبیوں کا ذکر کیا جس سے نئی نسل واقف نہ تھی۔ جب میں نے قریش نگر کے جغرافیائی ، تاریخی، سیاسی ، سماجی اور ثقافتی پہلوﺅں کی طرف اشارہ کیا تو سامعین عش عش کر اٹھے۔ یہ کمالِ گفتار نہ تھا بلکہ بستی کا بلند کردار تھا اور پیار تھا اُن لوگوں کا جو اپنے اسلاف کا ذکر فخر سے کرتے اور سنتے ہیں۔ اب میرے سامنے نشان صدیقی کی تصویر ہے اور جب میں اس تصویر کے پس منظر میں قریش نگر کو دیکھ رہا ہوں تو کئی شخصیات اور واقعات میرے سامنے ایک فلمی سین کی طرح آرہے ہیں۔ آنکھیں بند کرتا ہوں تو ماضی نظر آتا ہے ، آنکھیں کھولتا ہوں تو حال۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ میری تربیت میں قریش نگر کی ادبی محفلوں اور فلاحی انجمنوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں آج بھی اپنے طلبہ کو فخر کے ساتھ اپنی رہائش قریش نگر بتاتا ہوں۔ میرے ڈھیر سارے خطوط آج بھی رعیسہ بائی چال ، نزد لال ٹانکی(ہِل) کے پتے پر ہی آتے ہیں۔ نقلِ مکانی کا دُکھ مجھے گوونڈی لے آیا وگرنہ میں آج بھی قریش نگر میں ہی ہوں ، قریش نگر کا ہی ہوں میرے طلبہ میں یہ احساسِ کمتری کے وہ پس ماندہ علاقے میں رہتے ہیں ، مجھے بے چین کیے رہتا ہے کیونکہ میں اس علاقے کو کبھی پچھڑا نہیں سمجھتا۔ بھلا بتائیے کہ جس علاقے کی اپنی منفرد ادبی اور ثقافتی پہچان ہو وہ پسماندہ کیسے کہلا سکتا ہے۔ جہاں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بیٹھ کر مرحوم شور نیازی نے شہرہ آفاق گیت”جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا“ ، عیش کنول نے ”چاند میرا بادلوں میںکھو گیا“ جیسا مشہور فلمی نغمہ تحریر کیا ۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار سلام بن رزاق نے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ”ننگی دوپہر کا سپاہی“ یہاں کی لمبی سیمنٹ چا ل میں رہ کر ترتیب دیا۔ عامر برقی اعظمی(خونِ تمنّا)، حمید ادیبی ناندروی(پھول کھلتے رہے) اور اثر ملکاپوری(نمرتا) نے ناول لکھے، جہاں مرحوم مرزا پارس ہنگلوی کے جنون نے اُن سے ”عالمِ انسانیت کا پلیٹ فارم“ جیسی کتاب لکھوائی۔ مشہور استاد پرنسپل قاسم رضا نے اسی بستی میں ریاضی کے موضوعات پر ڈھیرساری نصابی کتابیں ترتیب دیں۔ قریش نگر کے اسی پراگندہ ماحول میں اقبال نیازی نے اپنے دوست اسلم پرویز کے ساتھ مل کر ”جلیان والا باغ“ جیسا مشہور ڈرامہ لکھا۔ غرضیکہ ایک طویل فہرست ہے شعرا ، ادبا اور اساتذہ کی جنھوں نے اپنے ادبی و تعلیمی سفر کا آغاز قریش نگر سے کیا۔ یہاں آنے جانے والوں میں کئی مقتدر شعرا و ادبا کے نام شامل ہیں۔ محمود درانی، ندا فاضلی، تابش سلطان پوری، قیصر الجعفری، ظفرگورکھپوری، تاج دار تاج، ضمیر کاظمی، سردار پنچھی، شفیق عباس، شمیم عباس، عبد اللہ کمال، محبوب عالم غازی، احمد منظور، حامد اقبال صدیقی، شاہد لطیف، مرحوم تنویر عالم، عرفان جعفری، فاروق رحمن ، اسلم پرویز، اسلم خان اکثر یہاں کی ادبی محفلوں میں شریک رہے۔ رسالہ ”تکمیل کے مظہر سلیم اپنے بھائی اکبر عابد کے ساتھ برسوں تک اسی بستی میں رہے۔ قیوم اثر اور حفظ الکبیر پرواز ، مولانا منتظم الاسلام ندوی، پروفیسر بلال بھی دراصل قریش نگری ہی ہیں۔  م۔ ناگ، سعید راہی اور نظام الدین نظام کو اس علاقے نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنا داماد بنالیا۔ سلام بن رزاق سے ملاقات کی غرض سے آنے والے مشہور ادیبوں میںسریندر پرکاش، ساگر سرحدی، مرحوم انور خان، مشتاق مومن ،جاوید ناصر، انورقمر، رام پنڈت اور مقدر حمید وغیرہ شامل ہیں۔ نامور صحافی و افسانہ نگار ساجد رشید کے حلقہ انتخاب میں قریش نگر بھی شامل رہا۔ عوامی مقبولیت کے اعتبار سے وہ کامیاب بھی رہے لیکن بدقسمتی سے الیکشن ہار گئے۔ نشان صدیقی اور عیش کنول کے پیش رو اور معاصرین میں علامہ کلام اعظمی جنھیں بقول معراج صدیقی چینی زبان پر بھی عبور حاصل تھا، کے علاوہ قاضی خلیل صولتی، سرور بستوی، اثر فیض آبادی ، بندہ نواز منیری ، جھنجھٹ جھنجھانوی، شوکت لافانی ، تبسم مالیگانوی، غنی احمد غنی، سعید کنول، ساغر باورا، راقم لکھنوی ، اقبال مرشدی وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ بعد کے زمانے میں تسکین انصاری، عارف اچل پوری ، عرشی قریش نگری، عارف اعظمی، راشد کانپوری نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ غرضیکہ یہاں کی ادبی فضا میں کئی طوفان آئے گئے۔ ادبی ماحول میں دلچسپی قائم رکھنے کے لیے عیش کنول نے بڑے جتن کیے۔ آون جاون مشاعرے، ایک میان میں دو تلوار،استاد کون، دانش کدہ کے زیرِ اہتمام ہونے والے جنگی مشاعرے دراصل عیش کنول کی شوخی طبیعت کے چند نمونے ہیں ۔ جنھوں نے یہاں کے ادبی ماحول کو ہمیشہ گرم رکھا۔ طنز و مزاح کے لیے بھی یہ علاقہ کافی زرخیز رہا۔ بزمِ اقبال کے ثقافتی پروگرام، مزاحیہ مشاعرے اور ڈرامے نیز بعد کے زمانے میں حسینی گارڈن میں منعقد کوئز مقابلے وغیرہ اس کا بین ثبوت ہیں۔ مشہور مزاحیہ آرٹسٹ جانی لیور نے اپنے ابتدائی زمانے میں یہاں کئی پروگرام کیے ۔سیاسی جماعتوں کے علاہ یہاں فلاحی و ادبی تنظیموں بھی کا بول بالا رہا۔ دانش کدہ ، آئینہ ادب اور بزمِ اقبال کے ذریعے رسول خان، محمد خان ، رزاق کوکنی، شہاب الدین نانا، انیس تلہری، معراج صدیقی، سلیم قریشی، قادر لفافے والا، سبحان ، اقبال ، محمود وارثی،نیاز قریشی جیسے نوجوانوں نے ماحول بنائے رکھا۔ جبکہ جمعیت القریش ، نونہال کمیٹی، ینگ بوائز سرکل، بزمِ صداقت، بریلی جماعت خانہ، بزمِ روشن، بزمِ اتحاد، بزمِ رہنما جیسی تنظیموں نے یہاں کی سماجی اور ثقافتی تاریخ مرتب کرنے میں نمایاں رول انجام دیا۔ یہاں کی مقبول و معروف سماجی و ثقافتی شخصیات میں غفور قریشی (1985ءمیں سب سے پہلے کونسلر بنے)مجید قریشی، حاجی غرایب حسین، غلام رسول قریشی، یوسف ہارون، رئیس قریشی، یوسف چندو،سوناجی، رشید مومن، نور محمد، قادر بابا انڈے والے، اقبال مجید قریشی، مختار ماما، غنی ماما، ایڈوکیٹ سعید قریشی، جبارہیرو،فدا حسین آرٹسٹ،خواجہ گائے والا،مرحوم سرفراز قریشی جنھوں نے ”میداس“ کے ذریعہ علاقہ کے کئی نوجوانوں کو خلیجی ممالک میں برسرِ روزگار کیا۔شائقینِ ادب میں یسیٰن ماسٹر، طاہر ماسٹر، مرحوم رشیدنانا، مرحوم معید ماسٹر ، نظر قریشی ، مرحوم لطیف سر، بشیر احمد ملّا ، قاسم ملّا، حسن قریشی، بشر قریشی، نور محمد، سیف اللہ، نور محمد چھتری والا، ہلال قریشی ، محبوب شیخ ، زندہ ولی ، چکوا سیٹھ ،ابراہیم گائے والا، نوشاد قریشی وغیرہ کے نام ذہن میں محفوظ ہیں۔ سیاسی و سماجی منظر نامے کے چند اہم ناموں میں موہن کھانولکر، بابو اشرف، شیخ احمد کانچ والا، سابق چیف منسٹر بابا صاحب بھونسلے، غلام رسول قریشی ، ایکناتھ کوپرڈے ، الپنا تائی پینٹر، مرحوم عبد الرﺅف پٹیل، تصدق خان ہینگر والے ، بشیر خان ہاتھی والایاد ہیں جبکہ بعد کے زمانے میں جو نسل سماجی میدان میں سامنے آئی اس میں وجے تانڈیل، سراج دیشمکھ، سراج ریتی والا، زرینہ قریشی، رضیہ عطار، حنیف قریشی، بادشاہ کیبل والا، رﺅف قریشی ، ایڈوکیٹ کونین، مقصود مچھی والا، راشٹروادی کے سرگرم لیڈر جناب رﺅف جمن قریشی وغیرہ جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ رہتے ہوئے بھی علاقے کی فلاح و بہبود میں متحد ہوکر کوشاں ہیں۔ اسٹیج اور فلم کی دنیا میں طیب قریشی، ، اقبال قریشی ، معراج صدیقی، عنایت، شکیل ایس ٹی ڈی اور اقبال نیازی کے نام اہم ہےں۔ کھیل کے میدان میں بھی اس علاقے کی بہترین کارکردگی میں اخلاق ناردمنی، مشتاق قریشی ، مرحوم لیاقت قریشی، جاوید مولانا، اخلاق قریشی، الطاف قریشی ، مرحوم حشم الدین ضمیر قاضی وغیرہ اپنے زمانے کے بہترین کھلاڑی کہلائے۔ سیاسی اعتبار سے یہ علاقہ ہمیشہ کانگریس ، مسلم لیگ اور جنتادل کے پرچم تلے رہا۔نواب ملک کے ایم۔ ایل۔ اے بن جانے کے بعد سے آج تک یہاں راشٹر وادی کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئیں اور نواب ملک نے اس علاقے کی شکل و صورت ہی بدل دی۔  اخبار فروش رشید قریشی اور اشوک کھرات ، چندکانت کامبلے کافی مقبول تھے جبکہ نتھودودھ والا کو بھی کافی شہرت حاصل تھی۔ پہلے ڈاکٹر ہونے کااعزا ز اسحاق ٹرام پٹّے کے بیٹے عمر قریشی کو ملا مگر افسوس انھیں ڈاکٹری راس نہ آئی ۔ ان کے طبی مشوروں نے اچھے خاصوں کو بیمار کردیا۔ بعد کے زمانے میں سلیم صدیق ، اخلاق قریشی نے اس میدان میں خوب نام کمایا۔ ڈاکٹر سلیم تو ان دنوں فوزیہ نرسنگ ہوم کے مینجمنٹ میں شامل ہیں۔ علاقے کے پرانے ڈاکٹرس ڈاکٹر شالی ، ڈاکٹر شرما، ڈاکٹر حفیظ ، ڈاکٹر قریشی، ڈاکٹر نور محمد کے نام اہم ہیں۔ بعد کے دور میں ڈاکٹر ذکر اللہ اور ڈاکٹر مبین نے اقراءسوسائٹی کے ذریعہ قریش نگر کی علمی و تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ فلاحی خدمات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔یہاں کے مشہور علمی اور مذہبی شخصیتوں میں پیرسیّد عبد الرحیم حسینی قادری قبلہ بغدادی صاحب کا ذکر ضروری ہے ۔ جن کا تعلق حیدر آباد سے تھا اور جن مریدین و معتقدین کثیر تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں سیاسی اور سماجی سطح پر بصیرت بھی ہے اور مروت بھی۔ الیکش کے دن کو یہاں کے لوگ اپنے خلوص اور جوش سے عید کا دن بنادیتے ہیں۔ یہاں کے ووٹ ہمیشہ فیصلہ کن رہے ہیں۔ قریش نگر سے متصل ایک پہاڑ ہے جس کی اپنی الگ دنیا ہے۔ ایک طرف حضرت ثناءاللہ باباؒ کی مزار، درمیانی علاقے میں لال ٹانکی ۔ کسی زمانے میںسے یہاں سودیشی مل کو پانی سپلائی کیا جاتا تھا آج وہ خشک ہوکر عید گاہ بن گئی ہے۔ پہاڑی کے آخری سرا جہاں سے اتریں تو چونا بھٹّی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی سرحد ہے جہاں فساد کے زمانے میں تناﺅ رہتا ہےحالانکہ دوران فساد فساد قریش نگرایک محفوظ قلعہ تصور کیا جاتا ہے اور ان حالات میں ریلیف کیمپ کا کام انجام دیتا ہے۔  اس علاقے کو قریش برادری نے بسایا اسی لیے یہ علاقہ برسوں تک قصائی واڑہ کہا جاتا رہا۔ تہذیبی قدروں کے عروج نے اسے قریش نگر بنادیا۔ لیکن آج بھی یہاں سلاٹر ہاﺅس کا نشان ایک گوشت مارکیٹ کی شکل میں قائم ہے۔ جہاں گوشت فروخت نہیں ہوتا البتہ ٹیرس پر ایک جماعت خانہ قائم ہے جہاں روز چہل پہل رہتی ہے۔ جہاں پرانا سلاٹر ہاﺅس تھا وہاں اب میونسپل اسکول بن چکی ہے۔ قبرستان کے دروازے پر حافظ باباؒ کی درگاہ ہے قبرستان میں داخل ہوں تو ایک میونسپل اسکول کی پرانی عمارت جس کے پڑوس میں یوسف گورکن رہتا ہے پتہ نہیں وہ زندہ ہےیا اسے بھی کوئی گورکن مل گیا۔ البتہ اُس کے وہ پرانے برگے آج بھی یاد آتے ہیں جو پتہ نہیں وہ کہاں سے لایا کرتا تھا۔ ہم لوگ اکثر قبرستان میں پڑھائی کے لیے جایا کرتے تھے ہم نے چوری سے ایک مچان بنا رکھا تھا۔ اور ’مشتاق باس‘ نے چور کنکشن دلواکر لائٹ مہیا کرادی تھی۔ میرے ساتھیوں نے حنیف قریشی ، اقبال قریشی ، نعیم اور ڈاکٹر سلیم نے اس قبرستان میں ”اسٹڈی روم “ بنا رکھا تھا۔ کافے ملن ہوٹل کے اوپر میونسپل اسکول جہاں کا میں پسندیدہ طالب علم تھا اور اساتذہ روزآنہ قبرستان میونسپل اسکول میں لیڈیس ٹیچرس کے لیے میرے ہاتھ کتابیں بھجوایاکرتے تھے۔ کتابوں کے لین دین کا یہ راز بعد میں مجھ پر کھلا۔ جب میں نے بشیر بدر کا یہ شعر پڑھا:پڑھائی لکھائی کا موسم کہاں کتابوں میں خط آنے جانے لگے ہماری اسکول کے سامنے سراج ماموں کی لائبریری تھی، سٹیزن لائبریری ، جہاں صرف ابنِ صفی رہتے تھے۔بعد میں یہ لائبریری ہم نے خرید لی اور اس سے ہونے والی آمدنی سے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔ یہ لائبریری دراصل ایک ادبی اور سماجی نکڑ تھی جہاں مرحوم لیاقت قریشی ، جاوید مولانا ، طیب قریشی ، قادر بابا انڈے والے(جو اب لیپک نامی میڈیکل چلاتے ہیں) اخلاق قریشی، مشتاق نیگرو، نذر کاتب، چاند قریشی اکثر جمع رہتے۔ لائبریری چونکہ بہت پرانی تھی اس لیے اکثر ناول بوسیدہ حالت میں تھے۔ جب ناول کے ابتدائی اور آخری صفحات کتاب سے الگ ہوجاتے تو پہچاننا مشکل ہوجاتا کہ کتاب کا نام کیا ہے۔ اور مصنف ایسے میں خاص طور پر مقصود مچھلی والا آتے اور کتاب الٹ پلٹ کر فوراً بتادیتے کہ ابن صفی کی آخری شعلہ ہے۔ لائبریری کے بائیں جانب کاف ملن سے لگ کر بُک بائنڈر یوسف خیرو تھےجن کے ماتھے سے پسینہ کے ساتھ پریشانی اور جھنجھلاہٹ جھلکتی تھی۔ جسے مرحوم لیاقت قریشی ہمیشہ اپنی شرارت کا مرکز بناتے تھے۔ دائیں جانب ایک بریج تھا جو قریش نگر سے تکیہ واڑ کو جوڑتا تھا۔ بریج کے نیچے تنظیم القریش کی آفس تھی۔ نونہال کمیٹی کا اسٹڈی سینٹر اب وہاں لطیف کے کپڑوں کی دکان ہے۔ ڈاکٹر فاروق کا مشہور دوا خانہ لائبریری کے سامنے تھا۔ ایک مشہور ٹیلر تھے ہم نے ان کا نام Anytimeٹیلر رکھا تھا۔ کپڑا دیجئے، نہا دھوکر آئیے اور پہن لیجئے یہ ان کی خوبی تھی۔ قبرستان روڈ پر نذر قریشی کی الفتح بیف شاپ ، جہاں شاعروں اور ادیبوں کو خصوصی رعایت اور عمدہ گوشت کی سہولت تھی اس کے قریب ہی مرحوم بقا بھائی کی دکان تھی۔ بقا بھائی ڈیل ڈول کے اعتبار سے فلمی پہلوان شیٹی لگتے تھے، لیکن مزاج دلیپ کمار کا سا تھا۔ جن دنوں دلیپ کمار کی فلمیں ریلیز ہوتیں ، بقا بھائی سفید کپڑوں میں ملبوس اپنی دکان پر بڑی شائستگی سے بیٹھتے اور اسی شائستگی سے گاہکوں سے پیش آتے۔ ہم مانتے ہیں کہ اس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا بقا بھائی کا انداز ___لوگ گوشت خریدنے کم ، ان کی گلابی اردو سے محظوظ ہونے زیادہ آتے تھے۔ قریش نگر کے پکوان بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب یہاں دیونار تھا تو ہر گلی مسے ”چُری“ کی خوشبو بھری آوازیں آتی تھیں۔جلیل بھائی اور ابوبکر کے پان ، بریلی ہوٹل کا قیمہ گھٹالا، مرفی ہوٹل کی چائے، رمضان کے مہینے میں محلہ صبح تک جاگتا ہے۔ شام میں بھی فروٹ اور رگڑے بھجیئے کی دکانوں سے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ برف اور فالودے کی دکانیں جگہ جگہ روزہ داروں کا استقبال کرتی ہیں۔ بڑی راتوں میں قبرستان آنے والوں کا رش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ محرم کے دوران مجالس ، جلوس ،تعزیہ کا اہتمام یہاں کی خصوصیت ہے۔ خاص طور پر حسینی گارڈن میں جسے دیکھنے لوگ دور دور سے آتے۔ یہاں کے نوجوانوں میں مذہبی اور سماجی جذبہ کوٹ کوٹ بھرا ہو اہے۔ الیکشن کے دوران یہ جوش اور جذبہ اور بھی ابھر آتا ہے۔ سماجی و فلاحی اداروں کے قیام میں بھی یہ علاقہ دوسروں سے مختلف ہے۔ یہاں ہر گلی میں ایک ادارہ قائم ہے۔ اسلامی سینٹر کے قیام کے بعد یہاں کی دینی و مذہبی قدروں میں قابل ادر اضافہ ہوا۔ اسی سے جڑے نوجوانوں نے آج ”بیت المال“ بناکر ہزاروں ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کررہے ہیں۔ خاص طور پو اقبال قریشی ، طیب قریشی ، محمد عباس اور شکیل و دیگر رفقاءہرماہ یہ کام پابندی سے کررہے ہیں۔ مرکز کے ذمہ داروں ہی نے گرین ممبئی کے نام سے یہاں ایک اردو اسکول شروع کیا ہے جو آج سکنڈری اسکول تک پہنچ گیا ہے۔ پرنسپل صدیقی صاحب نے اس اسکول کے فروغ میں نمایاں حصّہ لیا۔ جبکہ یہ اسکول نور محمد، سیف اللہ ، شیخ محبوب ، ہلال قریشی، بشر قریشی اور آصف قریشی کی محنتوں کا ثمر ہے۔ انگریزی میڈیم کا وویک اسکول بھی یہاں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کررہا ہے ۔ اس اسکول کے قیام میں جناب بابو قریشی اور ان کے خاندان کا اہم رول رہا ہے ۔جہاں پہلے دیونار تھا ، وہاں اب میونسپل اسکول کی شاندار عمارت ہے۔ اس اسکول میں بھی کئی اہم شاعر و ادیب مدرس کے طور پر آئے گئے۔ خاص طور پر مرزا حفاظت بیگ ماہر، برسوں تک اس اسکول میں مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بنگڑی چال بھی منفرد خصوصیت کی حامل ہے۔ یہاں ایک زمانے تک خاندیش اور ودربھ کے لوگ آباد رہے۔ حمید ادیبی، تنویر عالم، قیوم اثر اور نہ جانے کتنے ادیب و شاعر کا ٹھکانہ یہیں رہا۔ گذشتہ دنوں بھساول کے ہمارے ایک پرانے دوست جناب قدیر احمد سے ملاقات ہوئی جو ریلوے کی سروس سے ریٹائر ہوئے ۔ وہ بھی ایک عرصہ تک بنگڑی والا چال میں رہے۔ انھوں نے جب قریش نگر کے لوگوں کو یاد کیا تو کئی چہرے میری آنکھوں میں ابھرے۔ جن کا ذکر اس مضمون میں میری کم علمی کے باعث نہ آسکا۔ بہرحال قریش نگر کی گوناگوں خصوصیات ہیں جن کے بیان کے لیے ایک کتاب درکار ہے۔ قریش نگر جہاں ختم ہوتا ہے ، اب وہاں بنٹر بھون قائم ہے۔ کشادہ و خوبصورت ہال جہاں اردو کے تہذیبی اور سیاسی پروگرام ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اقراءایجو کیشن کے سالانہ تقسیم انعامات کا جشن بڑے سلیقے سے منایا جاتا ہے ، جہاں قریش نگر کے کامیاب طلباءکی پذیرائی کی جاتی ہے۔ نواب ملک سے پہلے اور نواب ملک کے بعد قریش نگر کو ہم ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس درمیان قریش نگر میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ خاص طور پر قبرستان کی از سرِ نو تعمیر نے یہاں رہنے والوں کی تکالیف کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سڑکیں اب بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات نے بی ایس ٹی بس کو علاقے میں آنے نہیں دیا۔ گوشت کا کاروبار جو یہاں کی پہچان تھی اب رفتہ رفتہ ختم ہوچکا ہے۔ قریش برادری نے اپنی اپنی چالیوں میں بلڈنگیں بنالی ہیں۔ پانی کی نکاسی کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے گلیاں اب بھی تنگ و تاریک نظر آتی ہیں۔ باوجود ان مشکلات کے یہ علاقہ اب بھی دوست پرور ہے۔ فسادکے زمانے میں یہ ریلیف کیمپ بن جاتا ہے۔ قریش نگر سے لگ کر ایک بستی ہے عمر واڑی، اور کھاپر واڑی ۔ یہاں اب بلڈنگیں تعمیر ہوگئی ہیں۔ یہ دراصل قریش نگر کا سرحدی علاقہ ہے۔ درمیان میں ریل کی پٹری ہے، اُس طرف نہرو نگر ہے۔ فساد کے زمانے میں پٹریوں کے کنارے بچھے پتھر فسادیوں کے بہت کام آتے رہے۔ قریش نگر پر بزرگانِ دین کا بھی خاص کرم رہا ہے۔ حافظ بابا کی درگاہ سے شروع ہوکر چونا بھٹی کی درگاہ پر ختم ہونے والا یہ علاقہ جسے حضرت شفاءاللہ بابا کے پہاڑ نے اپنے دامن میں محفوظ کرلیا ہے، کئی علماءو مشائخ کی آماجگاہ رہا ہے۔ خاص طور سے حیدر آباد کے سیّد پیر بغدادی صاحب ایک عرصہ تک یہاں مقیم رہے اور ساکنان قریش نگر قلوب کو اپنی نورانی تعلیمات سے منور کرتے رہے۔ مولانا اسمعیل نے مذہبی محفلوں کو اجالا دیا۔ نوجواں نعت خواں کریم اللہ قادری کی آواز مائک پر گونجتی تو سماں بندھ جاتا ۔ ایک مدت تک عید میلاد النبی کے موقع پر خوش بیاں مقرر مولانا محترم ہاشمی میاں ، عبید اللہ خاں اعظمی اور اعجاز کامٹوی یہاں بیان فرماتے رہے۔ مرکز کی وجہ سے جماعت کے کاموں میں تیزی آئی بالخصوص میر خان اور ان کے ساتھیوں نے یہاں کے ماحول میں دینی اور مذہبی بیداری کو فروغ دیا۔ قریش نگر صرف ایک علاقہ نہیں بلکہ چھوٹی سی ایک دنیا ہے۔ الگ الگ خیالات کے ساتھ بھی یہاں کے لوگ متحد ہیں۔ غم اور خوشی میں یہ اتحاد ابھر کر سامنے آتا ہے۔ بہت سے لوگ نقل مکانی کا شکار ہوئے لیکن ان کا دل بھی قریش نگر کی گلیوں میں دھڑکتا ہے۔ شادی بیاہ یا موت مٹی کے موقع پر سارے قریش نگری ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے ہیں اور آئندہ پروگرام کی اطلاع اور دعوت دیتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں۔

٭٭٭

ڈاکٹر قاسم امام ایم شاعر ہونے کے علاوہ ایک عمدہ نثر نگار بھی ۔فی الحال ممبئی کے معروف کالج ’’برہانی کالج آف کامرس اینڈ آرٹس میں صدر شعبہ اردو ہیں۔

Duniya ke Azeem Mazahib

Articles

دنیا کے عظیم مذاہب

سید حسن ریاض

100 Famous City

Articles

دنیا کے سو مشہور شہر

محمدظفر اقبال

Russian Folk Tale

Articles

روسی لوک کہانی

سا شا کی بندوق

ساشا اپنی امی سے ضد کر رہا تھا کہ وہ اس کو پٹاخوں والی بندوق لے کر دیں۔
’’تمہیں وہ کس لئے چاہئے؟‘‘ اس کی امی نے پوچھا ’’وہ تو بڑی خطرناک ہوتی ہے۔‘‘
’’خطرناک کیسے ہوتی ہے؟‘‘ وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، اس میں سے صرف پٹاخہ چلتا ہے، گولی تو باہر نہیں آتی ہے، اس سے کوئی مر تو نہیں سکتا۔‘‘
’’تمہیں نہیں پتا کہ اس سے کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ اس کی امی نے جواب دیا ’’گولی اچھل کر باہر نکل سکتی ہے اور تمہاری آنکھ میں بھی لگ سکتی ہے۔‘‘
’’وہ نہیں لگے گی۔‘‘ ساشا نے کہا۔ ’’میں گولی چلاتے ہوئے اپنی آنکھیں کس کے بند کرلوں گا۔‘‘
’’نہیں، نہیں اس قسم کی بندوقوں سے کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔‘‘ ساشا کی امی نے کہا۔ ’’تم اگر اس سے کسی کو مار نہیں سکتے تو لوگوں کو خوف زدہ تو کرسکتے ہونا۔‘‘ خیر انہوں نے ساشا کو بندوق خرید کر نہ دی۔
ساشا کی دو بہنیں مرینہ اور عائرہ تھیں۔ وہ ان کے پاس گیا۔
’’پیاری بہنو! براہ مہربانی مجھے ایک بندوق خرید دو۔ مجھے اس کی بہت خواہش ہے۔ اگر تم نے وہ مجھے دلا دی تو میں ہمیشہ تم دونوں کا کہنا مانا کروں گا۔‘‘
’’ساشا تم واقعی بڑے چالاک ہو۔‘‘ مرینہ نے کہا۔ ’’جب تمہیں چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو تم چکنی چپڑی باتیں کرنے لگتے ہو اور ہمیں پیاری بہنو کہنے لگتے ہو۔ لیکن جب ذرا امی گھر پر نہیں ہوتیں تو تم اپنی ساری خوش مزاجی بدل لیتے ہو۔‘‘
’’نہیں میں ایسا نہیں کروں گا، ہرگز نہیں کروں گا، میں تمیز سے رہوں گا، آزما کر دیکھو، میں ایسا نہیں کروں۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ عائرہ نے کہا
’’میں اور مرینہ سوچیں گے۔ اگر تم اچھا لڑکا بننے کا وعدہ کرتے ہو تو ہم تمہیں بندوق خرید دیں گے۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں، میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ ساشا نے کہا۔
’’اگر تم دونوں مجھے بندوق خرید دوگی تو مجھ سے جو بھی کہو گی، میں کروں گا۔‘‘
اگلے دن اس کی بہنوں نے اسے بندوق اورپٹاخوں والی گولیوں کا ڈبہ تحفے میں دے دیا۔ بندوق بالکل نئی اور چمک دار تھی۔ اس کے ساتھ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پٹاخوں والی گولیاں بھی تھیں۔
وہ اپنی خوشی کیلئے انہیں چلا سکتا تھا۔ ساشا خوشی کے مارے کمرے میں اچھلا کودا۔ اس نے بندوق کو بڑا پیار کیا یہاں تک کہ اس نے ’’میری اچھی بہت ساری بندوق! مجھے تم سے بہت زیادہ محبت ہے۔‘‘ کہتے ہوئے اسے چوما بھی۔ اس کے بعد اس نے اس کے دستے پر کھرچ کر اپنا نام لکھا اور پھر فائر کرنا شروع کردیا۔ فوراً کمرے میں پٹاخوں کی بوپھیل گئی اور آدھے گھنٹے بعد کمرا دھوئیں سے بالکل نیلا ہوگیا۔
’’اب تک کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ آخر کار عائرہ نے کہا۔ ’’ہر بار جب بندوق چلتی ہے تو میں اچھل جاتی ہوں۔‘‘
’’بزدل کہیں کی‘‘ ساشا نے دندان شکن جواب دیا۔ ’’ساری لڑکیاں بزدل ہوتی ہیں۔‘‘
’’اچھا تو ٹھیک ہے۔ جب میں تم سے بندوق واپس لے لوں گی پھر تمہیں دکھاؤں گی کہ ہم کتنی بزدل ہیں۔‘‘ مرینہ نے کہا۔
’’میں باہر صحن میں جارہا ہوں۔‘‘ ساشا نے جواب دیا ’’بچوں کو اپنی بندوق سے خوف زدہ کرنے کیلئے۔‘‘ اور وہ باہر چلا گیا لیکن وہاں کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس لئے وہ گیٹ سے باہر نکل گیا اور یہیں سے اصل کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
اسی لمحے ایک بوڑھی عورت گلی میں سے گزر رہی تھی، ساشا نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ’’ٹھاہ‘‘ اس نے اس کے پیچھے چپکے سے بندوق چلا دی۔ ایک حیران کن چیخ کے ساتھ بوڑھی عورت وہیں رک گئی۔ پھر پیچھے مڑتے ہوئے وہ بولی: ’’اوہ! تم نے مجھے ڈرا ہی دیا۔ تم ہی تھے جس نے بندوق چلائی۔‘‘
’’نہیں تو۔۔۔‘‘ ساشا نے بندوق اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے کہا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھ سکتی؟‘‘ بوڑھی عورت نے کہا ’’اور تم مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے۔ میں سیدھا پولیس اسٹیشن جارہی ہوں۔‘‘ اپنی انگلی ہلاتے ہوئے اس نے سڑک پار کی اور ایک طرف گلی میں غائب ہوگئی۔
’’ایسا لگتا ہے سچ مچ پولیس کو بلانے چلی گئی ہے۔‘‘ وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ گھر بھاگ گیا۔ ’’تمہیں کیا ہوا ہے جو اتنے خوف زدہ لگ رہے ہو؟ جیسے بھیڑ یا تمہارا پیچھا کر رہا ہے۔‘‘ ساشا گھر میں داخل ہوا تو اس کی بہن عائرہ نے پوچھا۔ ’’بہتر یہی ہے کہ بتا دو یہ تو تمہارے چہرے پہ لکھا ہوا ہے کہ تم نے کچھ کیا ہے۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ ساشا کی سانس پھول گئی۔
’’صرف یہ ہوا کہ میں نے ایک بوڑھی عورت کو ڈرا دیا ہے۔‘‘
’’کیسی بوڑھی عورت؟‘‘
’’کیسی بوڑھی عورت سے تمہارا کیا مراد ہے؟‘‘ ساشا نے کہا ’’بس کوئی بوڑھی عورت تھی جو گلی میں سے گزر رہی تھی، مجھے نظر آگئی تو میں نے گولی چلا دی۔‘‘
’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ اس کی بہن نے پوچھا۔
’’مجھے خود نہیں پتا۔‘‘ ساشا نے کہا ’’وہ چل رہی تھی اور میں نے اپنے آپ سے کہا چلو بھئی اس کو گولی مار دو اور میں نے ایسا کردیا۔‘‘
’’پھر اس کا کیا بنا؟‘‘ عائرہ نے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں، وہ پولیس اسٹیشن چلی گئی ہے۔‘‘
’’دیکھانا‘‘ عائرہ نے کہا
’’تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ تمیز سے رہو گے اور اب دیکھو تم نے کیا کیا ہے۔‘‘
’’میرا کیا قصور ہے۔ بوڑھی عورت کی شکل ہی ڈراؤنی بلی جیسی تھی۔‘‘ ساشا نے بڑے غرور سے کہا۔
’’اب ایک پولیس والا آئے گا اور تمہیں خوب مزہ چکھائے گا۔‘‘ عائرہ نے بات جاری رکھی۔ ’’تب تمہیں پتا چلے گا کہ لوگوں کو ڈرانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔‘‘
’’وہ مجھے کیسے ڈھونڈے گا؟‘‘ ساشا نے پوچھا۔ ’’اسے کیا پتا کہ میں کہاں رہتا ہوں، وہ تو میرا نام تک نہیں جانتا۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو۔ وہ ڈھونڈ لے گا۔‘‘ عائرہ نے کہا ’’پولیس والوں کو سب پتا ہوتا ہے۔‘‘
پورا گھنٹہ ساشا عاجزی سے بیٹھا کھڑکی میں سے باہر دیکھتا رہا کہ کہیں سے کوئی پولیس والا تو نہیں آرہا ہے۔ لیکن کوئی بھی پولیس والا نظر نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پرسکون ہوا اور تھوڑا سا اکڑ کر بولا ’’یقیناًاس بڑھیا نے مجھے ڈرانے اور سبق سکھانے کیلئے ایسا کہا تھا۔‘‘
پھر اس نے اپنی پیاری بندوق کے ساتھ فائر کرنے کا سوچا اور اس کا ہاتھ اس کی جیب کی طرف گیا۔ اسے پٹاخوں والی ڈبیا مل گئی۔ اس کے بعد اس نے بندوق کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا لیکن بندوق نہ ملی۔ تب اس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کمرے میں تلاش شروع کردی۔ اس نے میز اور صوفے کے نیچے جھانکا بندوق اس طرح غائب تھی جیسے زمین نے نگل لی ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ’’مجھے اس سے کھیلنے کا ٹھیک وقت ہی نہیں ملا۔‘‘ اس نے سسکی لی۔ ’’وہ تھی بھی تو اتنی اچھی۔‘‘
’’کہیں تم نے وہ صحن میں تو نہیں گرادی؟‘‘ عائرہ نے پوچھا۔
’’ہوسکتا ہے وہ گیٹ سے باہر کہیں گر گئی ہو۔‘‘ ساشا نے اچانک پوچھا۔
اس نے دروازہ کھولا اور صحن میں سے دوڑتا ہوا باہر گلی میں آگیا لیکن وہاں بندوق کا نام ونشان تک نہ تھا۔
’’کسی نے اٹھا کر اپنے لئے رکھ لی ہوگی‘‘ اس نے دکھ سے سوچا۔ تب اچانک ایک پولیس والا ایک گلی سے نکل کر تیزی سے اسے اپنی جانب آتا ہوا نظر آیا۔ وہ سیدھا ساشا کے گھر کی طرف آرہا تھا۔ ’’وہ میری طرف آرہا ہے‘‘ ساشا نے سوچا۔ ’’اس بوڑھی عورت نے میرے بارے میں بتا دیا ہوگا؟‘‘
اور پھر وہ جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا، گھر کی طرف بھاگا۔
’’کیا بندوق مل گئی ہے؟‘‘ مرینہ اور عائرہ نے پوچھا۔
’’شش‘‘ ساشا نے سرگوشی کی۔ ’’پولیس والا آرہا ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’یہاں ہمارے گھر میں‘‘ ساشا بڑ بڑایا۔
’’تم نے اسے کہاں دیکھا ہے؟‘‘
’’گلی میں‘‘
مرینہ اور عائرہ نے اس پر ہنسنا شروع کردیا۔
’’تم کتنے بزدل ہو! پولیس والے پر ایک نظر پڑتے ہی تمہاری گھگھی بندھ ہوگئی ہے۔ وہ پولیس والا غالباً کہیں اور جارہا ہوگا یہاں نہیں آرہا ہوگا۔‘‘
’’میں اس سے نہیں ڈرتا‘‘ ساشا نے کہا۔
’’میرے آگے پولیس والا کیا چیز ہے؟‘‘
اسی لمحے دروازے پر بھاری قدموں کی آواز سنائی دی اور چانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ مرینہ اور عائرہ دروازہ کھولنے کیلئے بھاگیں۔ ساشا اپنا سر گھما کر ڈرائنگ روم کی طرف لپکا اور پھنکارا ’’اسے اندر نہ آنے دینا۔‘‘
لیکن مرینہ پہلے ہی دروازہ کھول چکی تھی اور وہاں ایک پولیس والا کھڑا تھا جس کے کوٹ پر چمک دار بٹن لگے ہوئے تھے۔ ساشا چاروں شانے چت لیٹ گیا اور رینگتا ہوا صوفے کے پیچھے چھپ گیا۔
’’تو بچیو! آپ مجھے یہ بتاؤ کہ فلیٹ نمبر6کہاں ہے؟‘‘
’’یہاں نہیں ہے‘‘ عائرہ نے کہا ’’یہ فلیٹ نمبر1ہے اگر آپ نے فلیٹ نمبر6ڈھونڈنا ہے تو چوک میں جائیے۔ فلیٹ نمبر6دائیں طرف کا پہلا دروازہ ہے۔‘‘
’’چوک میں جائیے دائیں طرف کا پہلا دروازہ ہے‘‘
پولیس والے نے آہستہ سے دہرایا۔
’’جی ہاں!‘‘ عائرہ نے کہا۔
ساشا کو پتا چل گیا کہ پولیس والا اسے پکڑنے نہیں آیا۔ وہ صوفے کے پیچھے سے رینگتا ہوا نکلنے ہی والا تھا کہ پولیس والے نے کہا ’’ویسے کیا یہاں ساشا نامی کوئی لڑکا نہیں رہتا؟‘‘
’’ہاں رہتا ہے!‘‘ عائرہ نے جواب دیا۔
’’اچھا یہ وہی لڑکا ہے جس کی مجھے تلاش ہے۔‘‘
پولیس والے نے کہا اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گیا پھر مرینہ اور عائرہ نے دیکھا کہ ساشا کہیں غائب ہوگیا ہے۔ مرینہ نے تو صوفے کے نیچے تک جھانکا، ساشا نے اسے دیکھا تو بھینچی ہوئی مٹھیوں کے ساتھ دھمکی دی کہ وہ اسے باہر نہ نکالے۔
’’اچھا تو ساشا کدھر ہے؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
لڑکیاں ساشا کیلئے ڈر رہی تھیں اور انہیں نہیں پتا تھا کہ جواب کیا دینا ہے۔ آخر مرینہ نے کہا ’’وہ اس وقت گھر پر نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ سیر کرنے نکلا ہے مگر آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’میں اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ہوں۔‘‘پولیس والے نے کہا ’’بس یہ جانتا ہوں کہ اس کا نام ساشا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے پاس بالکل نئی بندوق تھی جواب اس کے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’اس کو تو سب کچھ پتا ہے‘‘ ساشا نے سوچا۔ ڈر کے مارے اس کی ناک میں کھجلی شروع ہوگئی اور اچانک اسے چھینک آگئی۔ ’’آ آچھ‘‘
’’یہ کون ہے؟‘‘ پولیس والے نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہ ہمارا۔۔۔وہ ہمارا کتا ہے۔‘‘ مرینہ نے جھوٹ بولا۔
’’تو پھر وہ صوفے کے نیچے کیا کر رہا ہے؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’اوہ وہ ہمیشہ صوفے کے نیچے سوتا ہے۔‘‘ مرینہ نے جھوٹ جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’اوں۔۔۔ بوبی‘‘ مرینہ نے چقندر کی طرح سرخ پڑتے ہوئے کہا۔
’’بوبی بوبی باہر آجاؤ‘‘ پولیس والے نے پکارا اور اس نے کتے کیلئے سیٹی بجائی۔ ’’وہ باہر کیوں نہیں آنا چاہتا؟ آؤ بھئی آؤنا، کیا تم اچھے کتے نہیں ہو؟ کیا یہ اچھا کتا نہیں ہے؟ یہ کس نسل کا کتا ہے؟‘‘
’’اونہہ۔۔۔‘‘ مرینہ نے لفظ کھینچتے ہوئے مایوسی سے جواب دیا۔ اسے تو کچھ پتا نہیں تھا کہ کتوں کی کتنی قسمیں یا نسلیں ہوتی ہیں اور اس کی کیا نسل ہے؟ اس نے کہا ’’اچھا تو یہ کس نسل کا ہے؟ یہ اچھی نسل کا کتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ۔۔۔ اوہ ہاں یہ۔۔۔ لمبے بالوں والا لومڑی کی نسل کا کتا ہوتا ہے! یہ وہی ہے‘‘۔
’’اوہ کتنا زبردست کتا ہے‘‘ پولیس والے نے چہکتے ہوئے کہا ’’ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس کی پیاری سی نرم نرم بالوں والی ناک ہوتی ہے۔‘‘ اس نے جھک کر صوفے کے نیچے جھانکا۔
ساشا ایسے لیٹا ہوا تھا جیسے زندہ نہیں بلکہ مردہ ہو۔
اس نے اپنی پوری کھلی ہوئی آنکھوں سے پولیس والے کو دیکھا۔
’’اچھا تو یہ جو یہاں پڑا ہوا ہے یہ ہے لومڑی کی نسل کا کتا‘‘۔ پولیس والے نے کہا۔
’’اے تم صوفے کے نیچے کیا کر رہے ہو؟ لڑکے باہر نکلو۔ میں نے تمہیں ڈھونڈ لیا ہے‘‘ پولیس والا بولا۔
’’میں باہر نہیں نکلوں گا۔‘‘ ساشا نے واویلا مچاتے ہوئے کہا۔
’’کیوں بھئی‘‘ پولیس والے نے پوچھا۔
’’آپ مجھے پولیس اسٹیشن لے جائیں گے‘‘ ساشا نے کہا۔
’’کس وجہ سے؟‘‘
’’بوڑھی عورت کی وجہ سے‘‘ ساشا بولا ’’جس پر میں نے گولی چلائی تھی اور جوڈر گئی تھی‘‘۔
’’میں سمجھا نہیں کہ تم کس بوڑھی عورت کی بات کر رہے ہو؟‘‘ پولیس والے نے کہا۔
’’یہ باہر اپنی پٹاخوں والی بندوق سے گولی چلانے گیا تھا‘‘ عائرہ نے وضاحت کی، ’’کہ ایک بوڑھی عورت پاس سے گزری، پٹاخے کی آواز سن کر وہ ڈر گئی۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘ پولیس والے نے کہا ’’تو یہ اس کی بندوق ہے؟‘‘ اور اس نے اپنے کوٹ سے ایک نئی نویلی چمک دار بندوق نکالی۔
’’یہی ہے، یہی‘‘ عائرہ نے خوشی سے چلانا شروع کردیا۔ ’’میں نے اور مرینہ نے اسے خرید کر دی تھی اور اس نے گم کردی تھی۔ یہ آپ کو کہاں سے ملی ہے؟‘‘
’’آپ کے دروازے کے باہر سے‘‘ پولیس والے نے جواب دیا۔ ’’اچھا یہ لو اور بتاؤ کہ تم نے بوڑھی عورت کو کیوں ڈرایا تھا؟‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ ساشا نے صوفے کے نیچے سے کہا۔
’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ پولیس والے نے کہا۔
’’میں تمہاری آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں، مجھے سچ مچ بتا دو، میں تمہیں بندوق واپس کردوں گا۔‘‘
’’اگر میں نے سچ سچ بتا دیا تو میرے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘ ساشا نے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تمہیں تمہاری بندوق واپس مل جائے گی اور کیا ہوگا‘‘
’’تو آپ مجھے پولیس اسٹیشن تو نہیں لے جائیں گے نا؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’میرا مقصد بوڑھی عورت کو ڈرانا نہیں تھا۔‘‘ ساشا نے کہا۔
’’میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ گھبراتی ہے کہ نہیں؟‘‘
’’ یہ تو اچھی بات نہیں ہے ننھے دوست‘‘ پولیس والے نے کہا۔
’’اس کے لئے تو تمہیں پولیس اسٹیشن لے کر جانا ہی چاہیے تھا لیکن اب میں کیا کروں، میں نے تو کہہ دیا ہے کہ میں تمہیں پولیس اسٹیشن نہیں لے جاؤں گا اور وعدہ کی خلاف ورزی کرنا تو بہت بڑا جرم ہے۔ اس دفعہ میں نہیں لے کر جاؤں گا۔ لیکن اگر آئندہ میں نے تمہیں شرارتیں کرتے دیکھا تو پھر تمہیں تھانے لے جانا ہی پڑے گا۔ ٹھیک ہے اب باہر نکلو اور اپنی بندوق رکھ لو۔‘‘
’’نہیں میں بعد میں باہر نکلوں گا، جب آپ چلے جائیں گے‘‘ ساشا نے کہا۔
’’کتنا مزاحیہ ہے ننھا دوست،‘‘ پولیس والا ہنس دیا۔ اس نے بندوق صوفے پر رکھی اور چلا گیا۔ مرینہ تیزی سے پولیس والے کے ساتھ اسے فلیٹ نمبر6دکھانے کیلئے چلی گئی جب کہ ساشا صوفے کے نیچے سے رینگتا ہوا باہر نکلا اور بندوق پر نظریں گاڑ کر اونچی آواز میں بولا یہ ہے میری قیمتی بندوق جو ایک بار پھر میرے پاس آگئی ہے۔ اس نے بندوق پکڑی اور کہا ’’ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ پولیس والے کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’تم نے خود ہی تو اپنا نام بندوق پر لکھا تھا‘‘ عائرہ نے کہا۔
اسی لمحے مرینہ واپس آگئی اور اپنے بھائی پر پل پڑی۔
’تم نے کتنی فضول حرکت کی،‘‘ وہ چلائی ’’تمہاری وجہ سے مجھے پولیس والے سے کئی جھوٹ بولنے پڑے میں تو شرم سے مری جارہی تھی، اب ذرا کرنا ایسے تماشے!! پھر دیکھنا میں تمہاری ذرا بھی مدد نہیں کروں گا۔ یہ آخری مرتبہ تھا۔‘‘
میں اب کوئی تماشا، کوئی فضول حرکت نہیں کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ ساشا نے کہا ’’میں اب جان گیا ہوں کہ کسی کو یوں ڈرانا نہیں چاہئے۔‘‘
——————————————————————-

Cuddapah Mein Urdu by Rahi Fidai

Articles

کڈپہ میں اردو

راہی فدائی

Magic Binocular A Short Story by Ihsan Quddous

Articles

جادوئی دوربین

احسان عبد القدوس

تیس سال کی عمر ہونے سے پہلے مجھے کوئی مشکل لاحق نہیں تھی۔۔۔! میں ایک عام انسان تھا، بزنس میں ڈپلوما حاصل کیا، سرکاری نوکری مل گئی، تنخواہ بھی معقول ہوگئی، ماہانہ پچیس پاؤنڈ تنخواہ تھی۔ اسٹیشن گراؤنڈ میں واقع ایک بڑی عمارت کی اعلی ترین منزل پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں سکونت پذیر تھا۔ زندگی میں زیادہ خواہشات نہیں تھیں، نہ میں کسی کو تنگ کرتا تھا نہ کوئی مجھے، نہ مجھے کسی کا احساس تھا نہ کسی کو میرا۔ ہاں، شادی کرنے کی سوچ رہا تھا۔۔۔!!
پھر ایک دن میرا رفیقِ کار استاذ عبد العظیم ایک بہت بڑی بہت ہی بڑی دوربین لے کر آیا۔ یہ دوربین ویسی نہیں تھی جیسی کہ گھوڑسواری مقابلہ کے شائقین استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک جنگی دوربین تھی جس کا استعمال افسران میدانِ جنگ میں کرتے ہیں۔ دوربین نہیں بلکہ کوئی جنگی ہتھیار معلوم پڑ رہی تھی۔ دوربین میں ایک ہی آنکھ تھی۔ لینس کو چھوٹا بڑا کیا جا سکتا تھا۔ لینس کی سیٹینگ کے لئے مخصوص گنتیوں کا استعمال ہوتا تھا۔ دوربین نصب کرنے کے لئے ایک اسٹینڈ بھی تھا۔ پہلی ہی نظر میں یہ دوربین میرے حواس پر چھا گئی۔۔۔!
معلوم نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ جب دوربین کو پکڑا تو یوں لگا کہ جیسے میں اس دوربین کو پا کر دنیا کا سب سے خوش و خرم انسان بن سکتا ہوں۔۔۔!
استاذ عبد العظیم مجھے دوربین کے طریقہ استعمال کے بارے میں بتانے لگا پھر اسے کھڑکی کے سامنے نصب کر دیا، اس کا لینس سیٹ کیا اور اس میں دیکھ کر چلایا:
– آ، دیکھ اس پٹاخہ کو جو کھانا پکا رہی ہے۔۔۔!
میں نے اپنی آنکھ دوربین پر رکھی اور استاذ عبدالمقصود سے پوچھا:
– کہاں، کہاں ہے وہ پٹاخہ؟
جواب میں استاذ عبد العظیم نے ساحۃ اسٹریٹ پر واقع ایک دوردراز عمارت کی جانب اشارہ کیا اور بولا:
– اس عمارت میں۔۔۔!
مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔ہم وزارۃ کی کھڑکی سے لاظوغلی میدان کو دیکھ سکتے تھے۔ میرے اور اس کے درمیان ٹرام کے چار اسٹیشن واقع تھے، اس کے باوجود مجھے یہ لگ رہا تھا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھولوں گا۔۔۔!!
میں نے اپنی آنکھ پھر سے دوربین کے ساتھ لگادی۔۔۔وہ رہی اس کی اوڑھنی جس سے وہ اپنی زلفوں کو باندھے ہوئے ہے، پیلے رنگ کی اس کی گاؤن جو اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، اس کے پیروں کی جوتی بھی دکھائی دے رہی تھی، نہ صرف جوتی بلکہ اس کا رنگ بھی عیاں تھا، جوتی کا رنگ لال تھا۔۔۔مجھے وہ کھانا بھی دکھائی دے رہا تھا جسے وہ پکا رہی تھی۔۔۔بھنڈی پکا رہی تھی۔۔۔!
یاہو۔۔۔!
میں نے جب دوربین سے اپنی آنکھ ہٹائی تو میری سانسیں حیرت و استعجاب کے مارے اکھڑ رہی تھیں۔ میں نے استاذ عبد المقصود سے پھنسی پھنسی سی آواز میں پوچھا:
– بیچے گا؟
استاذ عبد المقصود سخت مٹی کا بنا ہوا تھا، نخرے دکھانے لگا، میں گزارش کرتا رہا بلکہ گڑگڑاتا رہا تب جا کر پگھلا۔ دس پاؤنڈ میں دوربین فروخت کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ طے یہ پایا کہ کل قیمت پانچ پانچ پاؤنڈ کے حساب سے دو قسطوں میں ادا کروں گا۔۔۔
میں نے دوربین یوں اٹھائی جیسے کہ میرا کل سرمایہ حیات ہو، اٹھا کر اسے اپنے گھر لایا اور بالکنی کی دیوار پر نصب کر دیا۔ دن کے بچے کھچے وقت میں اس کے لینس کو ہی سیٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔!!
اوہو۔۔۔!
اسٹیشن گراؤنڈ میں رہتے ہوئے 26 جولائی اسٹریٹ تک دیکھ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے کمروں کے اندر کیا چل رہا ہے یہ بھی دیکھ سکتا تھا۔ ریوولی سینما کے اوپر واقع نائٹ کلب کی شوخ سرگرمیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اور۔۔۔!
میں نے دوربین کا رخ اپنے اردگرد واقع گھروں کی جانب کر دیا، ان کی کھڑکیوں کے راستے!!
دوربین میں ایک جوان عورت دکھائی دی، اس کے پہلو میں ایک آدمی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، شاید اس کا شوہر تھا۔۔۔عورت مرد پر جھک جھک کر اس کے منہ میں نوالے ڈالتی، پھر اس کو بوسہ دیتی، مرد گھوم کر اسے اپنے بانہوں کے حصار میں لیتا اور بوسہ دیتا، پھر کھانا کھانے لگتا۔۔۔اور۔۔۔یہ کیا ہے؟!!!
ایک حسینہ اپنے کپڑے اتار رہی ہے، میری نظروں نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ کمرے سے غائب ہوگئی، شاید غسل خانہ میں چلی گئی تھی۔۔۔پھر آئی، شب بسری کا لباس زیب تن کیا اور بستر پر دراز ہوکر پڑھنے لگی۔۔۔کتاب کا ٹائٹل تھا: میرا اکلوتا پیار۔۔۔پھر لائٹ بجھ گئی۔۔۔!
اور۔۔۔
ایک بوڑھا آدمی تھا۔۔۔یونانی لگ رہا تھا۔۔۔زیتون کے تیل اور گوشت کے پارچہ سے تیار کردہ کھانا کھا رہا تھا، اس کے نزدیک اس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھی، اسی کی طرح عمردراز تھی، کھا نہیں رہی تھی، لیکن اس کی زبان چل رہی تھی۔۔۔بہت بولتی ہے یہ عورت۔۔۔!
میں چار بجے صبح تک دوربین سے اپنی آنکھ لگائے کھڑا رہا۔۔۔جب تمام روشنیاں بجھ گئیں اور دیکھنے کو کچھ نہ رہا۔۔۔تو میں بھی سو گیا۔۔۔
شاید میں سویا نہیں تھا۔۔۔میں نے صرف اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں تاکہ دیکھے ہوئے مناظر کو پھر اے دیکھ سکوں۔۔۔لوگوں کی نجی زندگی سے جڑے ہوئے مناظر باریک ترین تفاصیل کے ساتھ۔۔۔لوگ اپنی نجی زندگی میں نا، ایک عجیب و غریب اور دلچسپ مخلوق ہیں، گلیوں اور سڑکوں میں ملنے والے لوگوں سے بالکل مختلف۔۔۔!
میں نے سات بجے کراہتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اور دوڑتے بھاگتے بالکنی تک پہونچا اور پھر دوربین پر نگاہ جما دی۔۔۔لوگ اچھل کود رہے تھے، اپنے چہرے دھو رہے تھے، کچھ پژمردہ تھے تو کچھ ہشاش بشاش۔۔۔!
کیا جانتے ہو کہ سو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو ٹھیک اسی طرح بستر سے اترے جیسا کہ دوسرا اترتا ہے۔۔۔؟! کیا یہ بھی جانتے ہو کہ ایک بھی شوہر ایسا نہیں ہے جو صبح آنکھیں کھلنے پر اپنی بیوی کو بوسہ دیتا ہو۔۔۔؟! بلکہ سب سے پہلے وہ اپنا رخ اس کی جانب سے پھیرتا ہے۔۔۔! عجیب و دلچسپ زندگی ہے یہ لوگوں کی نجی زندگی بھی۔۔۔!! جب گھڑی کی سوئی آٹھ پر پہونچی تو میرے منہ سے ایک آہ نکلی۔۔۔آج کام پر پہونچنے میں تاخیر ہوگئی تھی۔۔۔اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں کام سے لیٹ ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے جلدی سے کپڑا پہنا اور وزارۃ کی جانب چل دیا۔۔۔خلاف عادت ساتھیوں سے بات تک نہ کی۔۔۔میں اسی زندگی میں گردش کرتا رہا جسے میں نے دوربین سے دیکھا تھا۔۔۔بلکہ اپنے سامنے ڈھیر کی صورت میں پڑی فائلوں میں سے ایک بھی فائل پر توجہ مرکوز نہ کر سکا۔۔۔میرا دل کام سے اچاٹ ہوگیا تھا۔۔۔یہی انتظار کرتا رہا کہ کب گھر واپس جانے کا وقت ہو۔۔۔وقت ہوتے ہی گھر کی طرف مجنونانہ انداز میں دوڑا اور بھاگ کر دوربین پر آنکھ ٹکا دی۔۔۔
دن گزرتے گئے۔۔۔
میری پوری زندگی اسی تنگ لینس میں محصور ہو کر رہ گئی تھی جس کے سہارے میں لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکتا تھا۔۔۔میں نے ان لوگوں کو اس طرح جان لیا تھا جس طرح انہیں کوئی اور نہیں جانتا تھا اور جس طرح وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں جانے۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ہی رہ رہا ہوں۔۔۔میں ان میں سے ہر ایک کے لوٹنے کا وقت جان گیا تھا، یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور ان کی الماری میں کتنے جوڑے یا سوٹ ہیں۔۔۔ہر ایک کے مزاج کو پہچان گیا تھا۔۔۔ہر ایک کی انفرادیت بھی مجھ پر منکشف ہوگئی تھی۔۔۔مجھے اس کا بھی علم ہوگیا تھا کہ۔۔۔
مجھے اس کا بھی علم ہو گیا تھا کہ۔۔۔۔آہ۔۔۔مجھے ان کے بارے میں جو معلوم ہے، وہ مجھے بھی پوری طرح ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔۔۔اگر ان لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ میں ان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہوں تو وہ مجھے جان سے مار ڈالنا چاہیں گے۔۔۔!
کبھی کبھی راستہ میں ان میں سے کسی کا سامنا ہو جاتا اور میں بے ساختہ ان سے مصافحہ کرنے کا ارادہ کرتا۔۔۔! مجھے لگتا کہ وہ میری زندگی کا حصہ ہے، میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح وہ خود کو نہیں دیکھ سکتا، بلکہ اس کی بیوی بھی اس کو اس طرح نہیں دیکھ سکتی۔۔۔کبھی کبھی کسی کو وقار و ہیبت کے ساتھ چلتا دیکھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی۔۔۔جی بھر کر ہنستا۔۔۔یہ وہی ہے جسے میں نے کل اس کی بیوی کے پیروں پر پڑا دیکھا تھا۔۔۔کسی حسینہ کو ناز و نخرہ اور رعب و داب کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر اپنی ہنسی روک نہیں پاتا۔۔۔یہ تو وہی ہے جس کو کل میں نے اس کے شوہر کے ساتھ دیکھا تھا، بے لگام و خونخوار جانور کی طرح تھا اس کا طرز ‘عمل’…!!!
دن گزرتے گئے۔۔۔!
میرے پاس دوربین کے سوا کچھ بھی نہ بچا۔۔۔نہ دوست، نہ رشتہ دار، نہ احساس، نہ مزاج۔۔۔ نہ یہ۔۔۔نہ وہ۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ہر چیز اسی دور بین میں مقید ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔!
پھر میں بیمار پڑگیا۔۔۔!
مجھے بستر سے اٹھ کر دوربین سے دیکھنے کی بھی تاب نہ رہی۔۔۔میرا وجود عذاب کی زد میں آ گیا۔۔۔مجھ پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگے، میری حالت منشیات کے عادی ایسے شخص کی طرح ہوگئی جس پر منشیات نہ ملنے کی وجہ سے ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔۔۔!
لیکن اگلے دن دورہ کی شدت میں کمی آگئی۔۔۔اس کی جگہ بیماری کے آلام نے لے لی۔۔۔! میں بیحد بیمار ہو چکا تھا۔۔۔میں اپنے کمرے میں تنہا تھا۔۔۔مجھے ایک بھولی بسری ہوئی چیز یاد آگئی۔۔۔مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔۔۔ایک چیز اور یاد آئی، مجھے یاد آیا کہ میں بھولے بسرے ہوئے ملازمین کے زمرہ میں آ چکا ہوں۔۔۔مجھے بیس سے بھی زیادہ سالوں سے نہ تو کوئی ترقی ملی تھی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی اضافہ۔۔۔ہاں۔۔۔!
میں خود کو بھول چکا تھا۔۔۔!
میں اپنی خود کی زندگی بھول چکا تھا۔۔۔اور لوگوں کی زندگیوں کا پیچھا کرتے کرتے اپنی زندگی کا ستیاناس کر چکا تھا!
وجہ۔۔۔؟!
وجہ یہ دوربین ہے۔۔۔!
میرے اندر دوربین کے خلاف غیظ و غضب کا طوفان امڈ پڑا۔۔۔میں اس سے چھٹکارا حاصل کرکے ہی رہوں گا۔۔۔میں اسے توڑ کر ہی رہوں گا۔۔۔مجھے اپنی زندگی جینی ہوگی، دیگر لوگوں کی نہیں۔۔۔میں خود پر ضبط کرتے ہوئے اور درد و الم سے لڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بالکنی کی جانب بڑھا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے دوربین اٹھائی تاکہ اسے سڑک پر پھینک کر چکناچور کر دوں۔۔۔
لیکن۔۔۔
دوربین کو اس کی جگہ سے نکالنے سے پہلے میں نے اپنی آنکھ چھوٹے لینس پر ٹکا دی۔۔۔اور پھر اس کو وہاں سے ہٹا نہیں پایا۔۔۔۔!!!


معروف مصری افسانہ نگار احسان عبد القدوس کے اس افسانے کا ترجمہ جناب شمس الرب نے براہ راست عربی سے کیا ہے۔ شمس الرب ممبئی کے مہاراشٹر کالج میں عربی کے استاذ ہیں اور ترجمے پر قابلِ قدر دسترس رکھتے ہیں۔

——————————————————-

Intekhab E Kalam E Meer

Articles

انتخاب کلام میر

مولوی عبد الحق