The Father A Short Story by Bjornstjerne Bjonson

Articles

والد

بیورنسِٹے بیورنسن

وہ اس علاقے کا سب سے زیادہ بااثر آدمی تھا۔ایک دن وہ درازقد آدمی پادری کی لائبریری میں بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا کہ اس کے یہاں لڑکا تولد ہوا ہے اور وہ اس کا بپتسمہ کروانا چاہتا ہے۔
’’اس کا نام کیا ہوگا؟‘‘پادری نے پوچھا۔’’فِنّا،میرے باپ کے نام پر۔‘‘
’’او رمذہب،والدین؟‘‘
’’ان کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔وہ ہمارے گائوں کے قابلِ احترام میاں بیوی ہیں۔ ان کا تعلق میرے خاندان سے ہے۔‘‘
’’کچھ اور؟‘‘پادری نے آنکھیں اٹھاکر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔کسان کچھ لمحے خاموش رہا اورپھربولا،’’میں اپنے بیٹے کا اپنی مرضی سے بپتسمہ کروانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس ہفتے میں کسی بھی دن؟‘‘
’’آئندہ سنیچر بارہ بجے۔‘‘
’’اور کچھ؟‘‘پادری نے پوچھا۔’’کچھ نہیں۔‘‘کسان نے اپنی ٹوپی ٹھیک کرلی۔اس سے ظاہر ہوا کہ وہ جانے والاہے۔اسی وقت پادری اٹھا۔’’بس!یہ کچھ۔‘‘کہتے ہوئے پادری تھورد کے پاس گیا۔اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے او راس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا،’’خدا کرے یہ بچہ تمہارے لیے خوش بخت ثابت ہو۔‘‘ٹھیک سولہ سال بعد تھورد پھر پادری کے کمرے میں موجود تھا۔’’تھورد،تم تو ویسے ہی ہشاش بشاش نظرآرہے ہو۔‘‘پادری نے کہا۔اسے تھورد میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔’’مجھے کسی بات کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیا۔
پادری خاموش رہا۔پھر چند لمحوں کے بعد پوچھا،’’آج اِدھر کیسے؟‘‘
’’آج میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ کل میرے لڑکے کا ’کنفرمیشن‘ہے۔‘‘
’’وہ ایک ہونہار لڑکا ہے۔‘‘
’’میں پادری کو اس وقت تک کچھ نہیں دینا چاہتا تھا ،جب تک کہ یہ پتہ نہ چلے کہ اسے رسم میں کون سا مقام ملا ہے؟‘‘
’’وہ اول مقام پر ہے!‘‘پادری نے کہا۔’’میں یہ جان کر بے حد خوش ہوں۔لیجیے یہ دس ڈالر پادری کے لیے ہیں۔‘‘
’’کیا اور کچھ؟‘‘پادری نے پوچھا۔اس کے بعد مزیدآٹھ سال بیت گئے۔ایک بار پھر پادری کے کمرے میں ہلچل ہوئی۔ اس مرتبہ تھورد کے ساتھ بہت سے لوگ آئے تھے۔پرلسٹ نے دیکھتے ہی اسے پہچان لیا۔’’آج تم بہت سے لوگوں کے ساتھ آئے ہو!‘‘
’’میں اپنے بیٹے کی شادی کا اعلان اس چرچ سے کروانا چاہتا ہوں۔ اسے گُڈ منڈ کی لڑکی کارین استور لبدن سے شادی کرنی ہے۔وہ بھی یہاں آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’اور وہ اس علاقے کی سب سے امیر لڑکی ہے۔‘‘پادری نے کہا۔
’’آپ کا کہنا درست ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیااور ایک ہاتھ سے اپنے بال ٹھیک کیے۔
پادری چند لمحوں تک خاموشی سے سوچتا رہا۔بولا کچھ نہیں۔اس نے ناموں کا اندراج کرلیا اور لوگوں کے دستخط کروالیے۔تھورد نے تین ڈالر میز پر رکھ دیے۔
’’میں صرف ایک ڈالر لوں گا۔‘‘پادری نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں،مگر میرا اکلوتا لڑکا ہے۔میں اس کے نام سے کچھ بھلائی کے کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘پادری نے تین ڈالر قبول کرلیے۔’’تھورد،تم اپنے لڑکے کے لیے یہاں تیسری بار آئے ہو۔‘‘
’’یہ آخری بار ہے۔‘‘تھورد نے کہا۔اس نے اپنی ڈائری بند کرکے اپنی جیب میں رکھ لی اور پادری سے اجازت لے کر چل پڑا۔دھیرے دھیرے لوگ بھی اس کے پیچھے ہولیے۔اس کے ٹھیک چودہ روز بعد باپ بیٹے،ایک سہانے دن،کشتی پر سوار ہوکر لبدن سے شادی کے متعلق بات چیت کرنے جارہے تھے۔’’میری سیٹ ہل رہی ہے۔‘‘کشتی میں بیٹھے بیٹھے بیٹے نے کہا اور کہتے ہی وہ سیٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے کھڑاہوا۔اس وقت لکڑی کا وہ تختہ پھسل گیا،جس پر وہ کھڑا تھا۔توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ پھیلائے،چیختے ہوئے وہ پانی میں جاگرا۔’’چپوئوں کو پکڑو!‘‘باپ چلایا۔اس نے کھڑے ہوکر جلدی چپوں نکالا۔لڑکا کچھ دور تک تیرتا رہا پھر بھنور میں پھنس گیا۔’’ٹھہرو!‘‘باپ پھر چلایا۔اس نے چپوئوں کوتیزتیز چلایا۔لڑکا پھر اپنی پیٹھ کے بل اوپر نیچے ہوا۔اپنے باپ کی جانب دیکھا اور پھر ڈوب گیا۔تھورد کو یقین نہیں آیا۔کشتی کو مضبوطی سے پکڑکر وہ اس جگہ کو اس امید سے گھورتا رہا کہ شاید اس کا لڑکا پھر سے اوپرآجائے!
مگر وہاں کچھ بلبلے اٹھے،پھر کچھ اور۔آخر میں ایک بڑا سا بلبلہ پھٹا اور بس!پانی پر سکوت طاری ہوگیا۔لوگوں نے دیکھا باپ تین دن اور تین راتیں بنا کچھ کھائے پیئے،بنا پلک جھپکائے اس جگہ لگاتار نائو چلاتا رہا،جہاں اس کا لڑکا ڈوباتھا۔اس نے تلاش جاری رکھی کہ شاید اس کا لڑکا اوپر آجائے۔ تیسرے دن کی صبح اس کا بیٹا مل گیا۔بیٹے کو اٹھائے وہ اس پہاڑی پرگیا جہاں اس کا گھر تھا۔
اس کے تقریباًڈیڑھ سال بعد پت جھڑکی ایک شام کو پادری نے اپنے دروازے پر دستک سنی۔باہر کوئی بڑی احتیاط سے کنڈی ٹٹول رہا تھا۔پادری نے دروازہ کھولا۔تو دیکھا کہ ایک دراز قد،کمزور، جھکی ہوئی کمر اور سفید بالوں والا انسان اندر داخل ہورہا ہے۔پادری کو اسے پہچاننے میں وقت لگا۔وہ تھوردہی تھا۔’’تم!اس وقت!‘‘پادری نے پوچھا اور پھر سامنے کھڑاہوگیا۔
’’او،ہاں۔اس وقت آنا پڑا۔‘‘تھورد نے جواب دیااور بیٹھ گیا۔پادری بھی وہیں بیٹھ گیا۔بڑی دیر تک خاموشی کی دبیز چادر تنی رہی۔پھر تھورد نے بتایا اس نے جو دولت کمائی ہے اسے وہ غریبوں میں تقسیم کردینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑاہوااور اس نے ڈھیر سارے روپے میز پر رکھ دیئے اور پھر بیٹھ گیا۔پادری نے روپے گنے۔’’یہ تو بہت بڑی رقم ہے!‘‘وہ بولا۔
’’میرا ایک فارم ہائوس تھا،جسے میں نے آج ہی فروخت کیا ہے۔‘‘تھورد نے بتایا۔ پادری بڑی دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔آخر خاموشی کو توڑتے ہوئے سوال کیا،’’اب کیا کروگے؟‘‘
’’اس سے کچھ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ دونوں بیٹھے رہے،تھورد زمین پر نظریں جھکائے اور پادری اس پر نظریں جمائے۔پھر آہستگی سے پادری نے کہا،’’تمہارا بیٹا تمہارے لیے آخرت کا ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیا۔’’ہاں،میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اوپر دیکھا اور غم کے آنسوئوں کے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

بیو رنسٹنے بیورنسن ۱۸۳۲ء میں ناورے میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۰ء میں انتقال فرماگئے۔انہوں نے نارویجین ادب کو نیا روپ عطا کیا۔وہ شاعر،ناول نگار،ناقد،ڈرامہ نگار کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف سیاسی رہنما بھی رہے۔انہیں شاعری کے لیے ۱۹۰۳ء میں نوبل سے نوازا گیا۔ ان کی تصانیف میں سنووے سولواکین،آرنے،اے ہیپی بوائے،بِروین دَ بیٹلز،دَ گریٹ ٹرولوجی،سیگرڈ دَ بیٹرڈ وغیرہ شامل ہیں۔

 

Intekhab E Kalam Ismaeel Merathi

Articles

انتخابِ کلام اسماعیل میرٹھی

اسماعیل میرٹھی

حمد

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

پاوں تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی
اور سر پہ لاجوردی اِک سائباں بنایا

مٹی سے بیل بوٹے کیا خوشنما اُگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا

خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اِس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا

میوے لگائے کیا کیا ، خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا

سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا

سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا

پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینہ کا نشاں بنایا

یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری اِن کو تسبیح خواں بنایا

تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا

اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا اِن کو روزی رساں بنایا

کیا دودھ دینے والی گائیں بنائی تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا

رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میّسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا

آبِ رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آبِ رواں بنایا

ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا
٭٭٭

ہماری گائے

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں

خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا

کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں

سبحان اللہ دودھ ہے کیساا
تازہ گرم سفید اور میٹھا

دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری

دودھ دہی اور مٹھگا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا

گائے کو دی کیا اچھی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت

دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر

کھا کر تنکے اور ٹھیڑے
دودھ دیتی ہے شام سویرے

کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری

سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے

پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے

پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر

دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچہ کو کس پیار سے چاٹا

گائے ہمارے حق میں ہے نعمت
دودھ دیتی ہے کھا کے بنسپت

بچھڑے اس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے

رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی
٭٭٭

صبح کی آمد

خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح دے رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نو لکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر ہیں
غرض میرے جلوے پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

میں تاروں کی چھاں آن پہنچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاو¿ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
مو¿ذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ اندھیرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آئے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خواب غفلت نہیں خواب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

لو ہشیار ہو جاو¿ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭

بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب مرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دیے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
٭٭٭

بارش کا پہلا قطرہ

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہوگا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھاو¿ں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیاناس
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرہ کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آو¿!
میرے پیچھے قدم بڑھاو¿
کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں جان
یارو! یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کرو گے جاں فشانی
میدان پہ پھیر دوگے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آو¿ لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
”دشوار ہے جی پہ کھیل جانا”
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جرات جو اس سکھی کی
دو چار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینہ سے ہوئی نہال خلقت
جرات قطرہ کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو! قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو
قطروں ہی سے ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہاری
٭٭٭

شفق

 

شفق پھولنے کی بھی دیکھو بہار
ہوا میں کھلا ہے عجب لالہ زار
ہوئی شام بادل بدلتے ہیں رنگ
جنہیں دیکھ کر عقل ہوتی ہے دنگ
نیا رنگ ہے اور نیا روپ ہے
ہر اک روپ میں یہ وہی دھوپ ہے
طبیعت ہے بادل کی رنگت پہ لوٹ
سنہری لگائی ہے قدرت نے گوٹ
ذرا دیر میں رنگ بدلے کئی
بنفشی و نارنجی و چمپئی
یہ کیا بھید ہے کیا کرامات ہے
ہر اک رنگ میں اک نئی بات ہے
یہ مغرب میں جو بادلوں کی ہے باڑ
بنے سونے چاندنی کے گویا پہاڑ
فلک نیلگوں اس میں سرخی کی لاگ
ہرے بن میں گویا لگا دی ہے آگ
اب آثار ظاہر ہوئے رات کے
کہ پردے چھٹے لال بانات کے
٭٭٭

رات

گیا دن ہوئی شام آئی ہے رات
خدا نے عجب شے بنائی ہے رات

نہ ہو رات تو دن کی پہچان کیا
اٹھائے مزہ دن کا انسان کیا

ہوئی رات خلقت چھٹی کام سے
خموشی سی چھائی سر شام سے

لگے ہونے اب ہاٹ بازار بند
زمانے کے سب کار بہوار بند

مسافر نے دن بھر کیا ہے سفر
سر شام منزل پہ کھولی کمر

درختوں کے پتے بھی چپ ہو گئے
ہوا تھم گئی پیڑ بھی سو گئے

اندھیرا اجالے پہ غالب ہوا
ہر اک شخص راحت کا طالب ہوا

ہوئے روشن آبادیوں میں چراغ
ہوا سب کو محنت سے حاصل فراغ

کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں چین سے شب بسر

تھپک کر سلایا اسے نیند نے
تردد بھلایا اسے نیند نے

غریب آدمی جو کہ مزدور ہیں
مشقت سے جن کے بدن چور ہیں

وہ دن بھر کی محنت کے مارے ہوئے
وہ ماندے تھکے اور ہارے ہوئے

نہایت خوشی سے گئے اپنے گھر
ہوئے بال بچے بھی خوش دیکھ کر

گئے بھول سب کام دھندے کا غم
سویرے کو اٹھیں گے اب تازہ دم

کہاں چین یہ بادشہ کو نصیب
کہ جس بے غمی سے ہیں سوتے غریب
٭٭٭

 

Old Waiter A Short Story by Ernest Hemingway

Articles

بوڑھا ویٹر

ارنسیٹ ہیمنگوے

رات کافی بیت چکی تھی اور سب لوگ کیفے سے چلے گئے تھے مگر وہ بوڑھا بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔دن میں وہ جگہ گردغبار سے اٹی رہتی تھی،مگر رات میں اوس گرنے کے سبب گروغبار بیٹھ جاتا تھا۔بوڑھے کو یہاں بیٹھنا پسند تھا،کیوں کہ وہ بہرہ تھا اور رات کے پرسکون سناٹے میں اسے یہاں کا ماحول اچھا لگتا تھا۔کیفے میں بیٹھے دونوں ویٹر جانتے تھے کہ بوڑھا ہلکے نشے میں ہے۔پھر بھی انھیں معلوم تھا کہ بوڑھا ایک اچھا گاہک ہے،مگر انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر اسے نشہ چڑھ گیاتو وہ پیسے ادا کیے بنا ہی چلاجائے گا۔اس لیے وہ اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
’’پچھلے ہفتے اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔‘‘ایک ویٹرنے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’وہ بے حد دکھی تھا۔‘‘
’’اس کے پاس بہت دولت ہے۔‘‘
وہ دونوں کیفے کے پاس والی دیوار سے لگی میز پر بیٹھے تھے اور چھجے کی طرف دیکھ رہے تھے، جہاں ایک کے علاوہ ساری میزیں خالی تھیں۔ہوا سے ہلتی ہوئی پتیوں کی چھائوں میں وہ بوڑھا اب بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔باہر گلی میں ایک سپاہی ایک لڑکی کے ساتھ جارہا تھا۔
’’اسے گارڈ پکڑلیں گے۔‘‘ایک ویٹر نے کہا۔
’’جو یہ چاہتا ہے،وہ مل جانے پر بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’اسے گلی میں سے چلے جانا چاہیے۔نہیں تو اسے گارڈ پکڑلیں گے۔ابھی پانچ منٹ قبل ہی وہ یہاں سے گئے ہیں۔‘‘پیڑکے نیچے بیٹھے بوڑھے نے اپنے گلاس سے پلیٹ کو بجاکر آواز کی۔ نوجوان ویٹر اس کے پاس گیا،’’کیا چاہیے؟‘‘
بوڑھے نے اس کی جانب دیکھا۔
’’ایک اور برانڈی!‘‘اس نے کہا۔
’’تم پر نشہ طاری ہوجائے گا۔‘‘ویٹر نے کہا۔
بوڑھے نے جواب نہیں دیااور اس کی جانب دیکھا۔
’’وہ آج ساری رات یہیں رہے گا۔‘‘اس نے اپنے ساتھی سے کہا۔
’’لیکن مجھے نیند آرہی ہے۔مجھے کبھی تین بجے سے قبل سونا نصیب نہیں ہوتا۔اسے پچھلے ہفتے خودکشی کرلینی چاہیے تھی۔‘‘ویٹر نے کائونٹر سے برانڈی کی بوتل اور ایک پلیٹ اٹھائی اور اس بوڑھے کی طرف چل دیا۔پلیٹ نیچے رکھ کر اس نے گلاس کو برانڈی سے بھردیا۔
’’تمہیں پچھلے ہفتے خودکشی کرلینی چاہیے تھی۔‘‘
بوڑھے نے اپنی انگلی ہلائی اور کہا،’’تھوڑی سی اور !‘‘ویٹر نے تھوڑی سی برانڈی انڈیلی۔ وہ بہہ کر نیچے والی پلیٹ میں گرنے لگی۔ویٹراپنے ساتھی کے ساتھ میز پر آبیٹھا۔
’’اب وہ نشے میں ہے۔‘‘اس نے کہا۔
’’یہ تو ہر رات نشے میں ہوتا ہے۔‘‘
’’خودکشی کیوں کرنا چاہتا ہے؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم؟‘‘
’’کیسی کوشش کی تھی اس نے؟‘‘
’’خود کو رسی سے لٹکالیاتھا۔‘‘
’’اس کی رسی کس نے کاٹی؟‘‘
’’اس کی بھانجی نے۔‘‘
’’مگر اس نے ایساکیوں کیا؟‘‘
’’شاید اپنی خود کشی کے ڈر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اس کے پاس کتنا پیسہ ہے؟‘‘
’’کافی ہے۔‘‘
’’وہ اسی سال کا تو ضرور ہوگا؟‘‘
’’میں چاہتاہوںکہ اب وہ گھر چلا جائے۔میں کبھی تین بجے سے قبل نہیں سوتا۔یہ بھی سونے کا وقت ہے۔‘‘
’’وہ بیٹھا رہتا ہے۔اسے یہ جگہ پسند ہے۔‘‘
’’وہ اکیلا ہے ۔مگر میں تو اکیلا نہیں ہوں۔میری بیوی انتظار کررہی ہے۔‘‘
’’اس کی بھی بیوی ہے؟‘‘
’’ہاں،مگراس کی بھانجی ہی اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں تم نے کہاتھا،اسی نے رسی کاٹی تھی۔میں کبھی اتنا بوڑھا نہیں ہونا چاہوں گا۔ بڑھاپا منحوس ہوتاہے۔‘‘
’’میں اسے نہیں دیکھنا چاہتا۔وہ گھر چلا جائے تو اچھا۔‘‘بوڑھے نے گلاس سے سر اٹھاکر پہلے باہر دیکھا،پھر ویٹروں کی طرف۔’’ایک اور برانڈی!‘‘اس نے گلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جس ویٹر کو جلدی تھی،وہ اس کے پاس آیا۔
’’ختم!‘‘اس نے مدہوشی کے عالم میں کہا۔
’’آج رات اور نہیں!اب بند۔‘‘
’’ایک اور!‘‘بوڑھے نے کہا۔
’’نہیں،ختم!‘‘ویٹر نے میز کاکونا صاف کرتے ہوئے کہا۔
دھیرے دھیرے پلیٹیں گنتے ہوئے بوڑھا اٹھ کھڑاہوا۔پھر اس نے پرس نکالا اورپیسے دے دیئے۔آدھا پیسہ ٹِپ چھوڑدی۔دیٹر نے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔بوڑھے کی چال غیر متوازن مگر رعب دار تھی۔
’’تم نے اسے بیٹھنے اور پینے کیوں نہیں دیا؟‘‘نوجوان ویٹر نے پوچھا،’’اسے جلدی نہیں تھی۔ابھی تو ڈھائی بھی نہیں بجے ہیں۔‘‘
’’میں سونے کے لے گھر جاتا ہوں۔‘‘
’’ایک گھنٹے سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’میرے لیے کافی فرق پڑتا ہے۔‘‘
’’مگر ایک گھنٹہ تو ایک گھنٹہ ہے۔‘‘
’’تم بذاتِ خود ایک بوڑھے کی طرح بات کررہے ہو۔وہ بوتل خرید کر گھر میں پی سکتا ہے۔‘‘
’’گھر میں پینے سے وہ مزہ نہیں آتا۔‘‘
’’ہاں،وہ مزہ نہیں آتا۔‘‘شادی شدہ ویٹر نے کہا۔
’’اور تم ؟تمہیں جلدی گھر جانے سے ڈر تو نہیں لگتا؟‘‘
’’تم میری بے عزتی کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں،میں تو مذاق کررہا تھا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘شٹر گراتے ہوئے اس ویٹر نے کہا،جسے جلدی تھی،پھر وہ اس سے بولا۔’’مجھے اپنے آپ پر بھروسہ ہے۔‘‘
’’تمہارے پاس سب کچھ ہے۔‘‘
’’تمہارے پاس کیا کمی ہے؟‘‘
’’نوکری کے علاوہ سبھی چیزوں کی۔‘‘
’’تمہارے پاس وہ سب کچھ ہے جو میرے پاس ہے۔‘‘
’’نہیں،اعتماد تو مجھ میں کبھی رہا نہیں اور اب تو میںجوان بھی نہیں ہوں۔‘‘
’’چھوڑو یہ بکواس۔لاک کرو۔‘‘
’’میں ان لوگوں میں سے ہوں،جو رات دیر تک کیفے میں رہنا چاہتے ہیں،ان سب لوگوں کے ساتھ،جنھیں رات میں روشنی درکار ہوتی ہے۔‘‘
’’میں توگھر جاکر سونا چاہتاہوں۔‘‘
’’ہر رات کو میں کیفے بند کرتے وقت ہچکچاتا ہوں،کیوں کہ شاید کوئی ایسا آدمی ہو، جسے اس کیفے کی ضرورت ہو۔‘‘
’’بہت سی شراب کی دکانیں رات بھر کھلی رہتی ہیں۔‘‘
’’تم نہیں سمجھتے ،یہ ایک صاف ستھرا کیفے ہے۔یہاں روشنی بھی مناسب ہے۔ساتھ ہی درختوں کے سایے بھی ہیں۔‘‘
وہ بتیاں بجھاتا رہااور خود سے ہی بات چیت کرتا رہا۔’’روشنی ضروری ہے۔مگر ساتھ ہی جگہ بھی صاف ستھری اور اچھی ہونا چاہیے۔موسیقی بے شک نہ ہو۔موسیقی کی ضرورت تو بالکل نہیں ہے اور بار کے سامنے تو کوئی بھی عزت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ رات کے ان اوقات میں یہاں بارکھلے ہوتے ہیں۔اسے ڈر کس بات کا تھا؟ یہ ڈرتو نہیں تھا۔یہ تو ایک خالی پن کاا حساس تھا، جسے وہ اچھی طرح محسوس کرسکتا تھا۔ضرورت صرف روشنی او رتھوڑی سی صفائی کی تھی۔ کچھ لوگ تو محسوس کیے بنا ہی خالی پن کے ساتھ زندگی جیتے ہیں،مگر اسے احساس تھا کہ یہ صرف خالی پن کی بنا پر ہے۔
ہمیں ہمارا خالی پن،ہر روز کا خالی پن دے دو! کیوں کہ ہم اپنے خالی پن کو محسوس کرتے ہیں۔مگر ہمیں اس خالی پن سے نجات دلادو ۔اے خالی پن،تمہارا خیر مقدم ہے،کیوں کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
ایک اُجلے سے کافی بار کے سامنے وہ کھڑا ہوگیا۔’’کیا چاہیے؟‘‘بار والے نے پوچھا۔
’’خالی پن!‘‘
’’ایک چھوٹا کپ،‘‘بار والے نے کہا۔
’’ایک چھوٹا کپ۔‘‘ویٹر نے کہا۔
’’روشنی تو چمکدار اور اچھی ہے،مگر بار صاف ستھرا نہیں ہے۔‘‘ویٹر نے کہا۔
’’تمہیں ایک اور کوپیرا چاہیے؟‘‘
’’نہیں،تھینک یو!‘‘ویٹر نے کہااور باہر چلاگیا۔اسے بار اور شراب خانوں سے نفرت تھی مگر ایک صاف ستھرے اور روشنی سے بھرپور کیفے کی بات ہی کچھ اور ہے۔اب وہ مزید کچھ سوچے بغیر اپنے گھر،اپنے روم میںچلا جائے گا۔اپنے بستر میں لیٹا رہے گا اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سوجائے گا۔یہ شاید نیند نہ آنے والی بیماری ہے۔بہت سے لوگ اس کا شکار ہوں گے،اس نے سوچا۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

ارنیسٹ ہیمنگوے ۱۸۹۹ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۱ء میں انتقال فرمایا۔انہیں ۱۹۵۴ء میں ’’دَ اولڈ مین اینڈ دَ سی‘‘ناول کے لیے نوبل انعام پیش کیا گیا۔انہوں نے عالمی ادب کو بے شمار بہترین کہانیاں اور ناول دیئے ہیں۔اپنی تخلیقات میں ہیمنگوے نے اپنی زندگی کے تجربات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔کچھ عرصے تک نامہ نگاری کے علاوہ ماہی گیری بھی کی اور ان سے حاصل کردہ تجربات کو انہوں نے نوبل انعام یافتہ ناول میں پھولوں کی طرح پرودیاہے۔ان کی تصانیف میں اِن آدر ٹائم،دَ سن آلسو رائزیز،مین ودائوٹ ویمن،اے فیئرویل ٹو آرمس،ڈیتھ اِن دَ آفٹرنون،وِنر ٹیک نتھنگ،گرین ہِلس آف افریقہ وغیرہ شامل ہیں۔