Adabi Tahqeeq Ke Taqaze by Shamsur Rahan Farooqui

Articles

ادبی تحقیق کے تقاضے

شمس الرحمن فاروقی

میرا  ہرگز یہ منصب نہیں کہ میں ادبی تحقیق کے موضوع پر لب کشائی کروں، اور وہ بھی محققین کے مجمعے میں، جو اس کام میں مصروف ہیں اور شاید پہلے بھی تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔  بیشک اہم اور بزرگ محققین کی کمی کے باعث قرعۂ فال مجھ دیوانے کے نام پڑ گیا ہے۔لہٰذا چند باتیں اپنی محدود استعداد کے مطابق عرض کرتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ اردو میں جو تحقیق آج کل ہورہی ہے، یا تحقیق کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ میں جس زمانے میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا، ادبیات اور دیگر انسانیاتی علوم (Humanities) کے شعبوں میں تحقیقی مقالہ نگاروں پر جو شرطیں پی ایچ ڈی کے لیے(یا الٰہ آباد یونیورسٹی میں، جہاں کا طالب علم میں تھا) ڈی فل کے لیے عائد کی جاتی تھیں،انھیں چند الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

  1. اپنے موضوع کے اعتبار سے نئے حقائق کی دریافت
  2. یا پھر اس موضوع کے بارے میں پہلے سے معلوم حقائق کی نئی تعبیر

میرا خیال ہے یہ باتیں اتنی واضح ہیں کہ ان کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں۔ لیکن مزید وضاحت کے لیے یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ ’نئے حقائق‘ سے مراد وہ حقائق ہیں جو مطبوعہ مآخذ میں نہ ملتے ہوں۔ وہ بات جو کسی مطبوعہ ماخذ میں ملتی ہو، خواہ وہ مطبوعہ ماخذ کتنا ہی کمیاب کیوں نہ ہو، اسے ڈھونڈ کر اس میں سے کوئی بات نکال لانا موجب تحسین تو ہو سکتا ہے لیکن اسے’نئے حقائق کی دریافت‘ کا درجہ نہیں دے سکتے۔اسی طرح،’پہلے سے معلوم حقائق کی نئی تعبیر‘کا مطلب یہ نہیں کہ کسی موضوع پر مختلف اقوال جمع کر دیے جائیں اور آخر میں خلاصۂ کلام کے طور کچھ اپنی بھی رائے دے دی جائے۔ ’نئی تعبیر‘کی کم سے کم شرط یہ ہے کہ وہ قابل قبول ہو، موجودہ تعبیروں کے مقابلے میں اقلیتی رائے کی حیثیت رکھتی ہو، یا پھر وہ موجود تعبیروں پر کوئی ایسا اضافہ کرتی ہو جس کی روشنی میں ان تعبیروں کی وقعت یا معنویت میں اضافہ ہو، یا پھر ان حقائق پر نئے طور سے سوچنے کی تحریک پیدا ہو۔
واضح رہے کہ ’تعبیر‘ سے مراد ایسی تعبیر ہے جو ان حقائق کا پورا احاطہ کرتی ہو جن کی تعبیر پیش کی جارہی ہے۔ اس کی سب سے مشہور اور بالکل سامنے کی مثال غالب کی غزل ہے۔

نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے

رہی    نہ  طرز   ستم  کوئی آسماں   کے لیے

اس غزل کا آٹھواں شعر ہے  ؎

بقدر   شوق   نہیں ظرف   تنگناے   غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

اس شعر کی یہ تعبیر ایک زمانے میں عام تھی اور اب بھی کچھ لوگ اس کے قائل نظر آتے ہیں کہ غالب نے اس شعر میں غزل کی تنگ دامانی کی شکایت کی ہے۔ یعنی غالب جیسے شخص کو بھی شکوہ ہے کہ غزل بہت تنگ اور محدود صنف سخن ہے یا یہ کہ اس میں کوئی خرابی ہے، کوئی کمی ہے جس کی بنا پر غزل میں شاعر کو اپنی بات پوری طرح پھیلا کر کہنے کی گنجائش نہیں ملتی۔

اس تعبیر کو درست ہونے کے لیے اولاً یہ ضروری ہے کہ یہ ان حقائق کا پورا احاطہ کرتی ہو جن کی تعبیر پیش کی گئی ہے۔ غزل کے اس شعر کی حد تک ’حقائق‘ کا پورا احاطہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ شعر کے تمام الفاظ کو مناسب اہمیت دی جائے اور ہر لفظ پر پورا غور کیا جائے اور اس کے ممکن معنی دریافت کیے جائیں۔ لہٰذا جس تعبیرکا ذکر میں نے ابھی کیا، یعنی یہ کہ اس شعر میں غالب نے غزل کی تنگ دامانی کا شکوہ کیا ہے، اس کی بنیاد اس بات پر ہونی چاہیے کہ شعر میں ’ظرف تنگناے غزل‘ کے لفظ آئے ہیں، اور یہ بھی ہے کہ اس ظرف کو شاعر یا متکلم کے ’شوق’ کے مقابلے میں کم لکھا گیا ہے۔ پھر دوسرے مصرعے میں شاعر یا متکلم تقاضا کرتا ہے کہ مجھے اپنے ’بیان‘ کے لیے ’کچھ اور وسعت‘ درکار ہے۔ ’شوق‘ سے مراد ہے، غزل کہنے یا غزل میں مضامین باندھنے کا شوق، اور ’بیان‘ سے مراد ہے مضامین غزل کا بیان، اور ’وسعت‘ سے مراد ہے کوئی ایسی صنف سخن جس میں اتنی وسعت ہو کہ شاعر یا متکلم اس میں اپنے ’شوق‘ کے مطابق خوب تفصیل سے اپنے مضامین بیان کر سکے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اس شعر میں شاعر یا متکلم غزل کی تنگ دامانی کا شکوہ کر رہا ہے۔

یہ سب کہہ کر ہم اپنے طور پرمطمئن ہو گئے کہ ہم نے شعر میں بیان کیے ہوئے حقائق کا مکمل احاطہ کر لیا ہے اوراس لیے ہماری تعبیر بالکل درست ہے۔ یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ غالب نے کہیں اور اس طرح کی بات کہی ہو کہ میں غزل کی تنگ دامانی کا شاکی ہوں، تو ہم مانیں کہ اس شعر میں غالب کا شکوہ عمومی شکوہ ہے، کسی مخصوص موقعے پر یہ مخصوص نکتہ غالب نے نہیں بیان کیا ہے۔اس کے جواب میں ہم کلامِ غالب سے مزید ثبوت کے طور پر یہ شعر لاتے ہیں ؎

نہ  بندھے تشنگیِ شوق   کے   مضموں   غالب

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

غالب کے کلام سے یہ سند لا کر ہم نے اپنا دوسرا ثبوت بھی بیان کر دیا کہ غالب کوغزل کی تنگ دامانی کا شکوہ تھا۔ شعر میں صاف کہا جا رہا ہے کہ تشنگیِ شوق کے مضمون نہ بندھ سکے، اگرچہ ہم نے مبالغے کی انتہا کر دی۔ لیکن اگر توجہ سے شعر کو پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اول تو یہ کہ شعر میں ’تشنگی شوق‘ کا ذکر ہے، محض شوق کا نہیں اور دوئم یہ کہ شعر میں غزل کے دامن کی تنگی کا کوئی ذکر نہیں۔ یہاں تو یہ کہا گیا ہے کہ ہماری’تشنگیِ شوق‘اس قدر بے حد و بے نہایت ہے کہ اغراق اور غلو کی تمام حدیں پار کرکے بھی ہم اسے بیان نہ کر سکے۔
یہ خیال رہے کہ ’شوق‘ عمومی لفظ ہے۔اس سے کوئی بھی شوق مراد لے سکتے ہیں: جان دینے کا شوق، معشوق سے ملاقات کا شوق، وصل کا شوق، کہیں جانے کا شوق، کوئی بات کہنے کا شوق، وغیرہ۔ اگرچہ لفظ ’شوق‘ کو اکثر عشقیہ ماحول یا سیاق و سباق میں برتا جاتا ہے، خاص کر شعر میں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ لفظ صرف عشق کے معاملات تک محدود ہو۔ لہٰذا ’تشنگی شوق‘ اور شے ہے اور صرف’شوق‘ اور شے۔ ’بقدر شوق نہیں‘ اور ’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘ سے بالکل ظاہر ہے کہ ’بیان‘ کے شوق کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی ایک تو یہ کہ کچھ بیان کرنے کا شوق بہت ہے اور دوسری بات یہ کہ اس بیان کے لیے وسعت بہت درکار ہے۔غزل کے مضامین کا یہاں کوئی ذکر نہیں۔ صرف ‘بیان’ سے یہ مراد لینا غلط ہوگا کہ غزل کے مضامین کا بیان مقصود ہے۔’مضمون‘ سے ’بیان‘ مراد لینے کا کوئی قرینہ شعر میں نہیں۔ تشنگیِ شوق والے شعر میں صاف صاف’مضمون‘ کا ذکر ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھ سے اور کوئی مضمون تو شاید، یا غالباً، بندھ سکتا ہو، لیکن تشنگیِ شوق کے مضامین بیان کرنے کی قوت مجھ میں نہیں ہے۔

اب شعرِ زیر بحث کو پھر دیکھیں؎

بقدر   شوق   نہیں   ظرف   تنگناے   غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
اب یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ شاعر یا متکلم کو کچھ کہنا مقصود ہے، یا یوں کہیں کہ اسے کسی بات کو کہنے کا شوق بہت ہے، لیکن وہ بات غزل میں بیان نہیں ہو سکتی۔ یعنی بات کسی خاص مضمون یا موضوع کی ہے کہ اس کے لیے یہ غزل کافی نہیں۔ یہاں غزل کی عمومی تنگی کی بات نہیں ہے، ایک مخصوص موقعے کی بات ہے۔
مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس شعر(’بقدر ظرف نہیں‘)کا ماحول کیا ہے۔ یعنی اگرچہ یہ بالکل لازم نہیں کہ غزل کے شعر باہم مربوط ہوں لیکن چوں کہ شعر میں جو بات کہی گئی ہے وہ کچھ معمّائی سی ہے، اس لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس شعر کے پہلے کیا ہے اور بعد میں کیا ہے۔ چناں چہ جب ہم زیر بحث شعر کے پہلے جو شعرگزرا ہے اس کو دیکھتے ہیں   ؎

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے

اٹھا  اور اٹھ کے قدم میں  نے  پاسباں  کے  لیے
ظاہر ہے کہ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے ’ظرف تنگناے غزل‘ سے متعلق کیا جا سکے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ اردو کیا، فارسی شاعری میں بھی نہیں باندھا گیا۔ غزل کے مخالفین کچھ بھی کہیں اور غزل میں انسان کی کم وقعتی پر کتنا ہی ماتم کریں، لیکن یہ مضمون اپنی جگہ پر بالکل نیا ہے اور ایسا کہ پہلے تو کبھی بندھا ہی نہ تھا، بعد میں بھی کسی سے نہ بندھ سکا۔
منقولہ بالا شعر کے بعد وسعتِ بیاں اور تنگناے غزل کا مضمون ہے جس کی تعبیر میں منقولہ بالا شعر سے ہمیں کوئی مدد نہیں ملتی۔اس لیے اس سے اگلا شعر دیکھتے ہیں   ؎

دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے

بنا  ہے  عیش  تجمل  حسین   خاں  کے  لیے

اب بات فوراًآئینہ ہو جاتی ہے۔ پچھلا شعر اس بات کی تمہید تھا کہ میں تجمل حسین خان کی مدح کا شوق بے حد رکھتا ہوں لیکن غزل کا دامن قصیدے کی طرح وسیع نہیں کہ اس میں مختلف طور اور قرینے سے مدح کے مضامین بیان ہو سکیں۔ یعنی یہاں غزل کے دامن کی تنگی کی بات نہیں ہو رہی ہے، غزل اورقصیدے کا فرق بیان ہو رہا ہے۔ غزل بنیادی طور پر عشقیہ مضامین کی شاعری ہے اوراس کی زبان بھی قصیدے کے پر شکوہ اور مغلق الفاظ سے بالعموم ابا کرتی ہے۔قصیدہ ہوتا تو میں طبیعت کی جولانی دکھاتا، غزل میں کہاں تک اور کس طرح بیان کروں۔ پھر بھی شوق سے مجبور ہو کر چند شعر موزوں کررہا ہوں۔
یہ بات خیال میں رکھنے کی ہے کہ غالب نے غزل کو تنگ یا قصیدہ یا مثنوی کو اس کے مقابلے میں فراخ نہیں کہا ہے۔ بات یہاں کمیت کی ہے، کیفیت کی نہیں۔ بات قصیدے میں کثرتِ اشعار اور غزل میں نسبةً قلت اشعار کی ہے۔ اس غزل میں بھی مدح کو ختم کرتے وقت غالب نے یہی کہا ہے کہ لکھنے کے لیے مزید جگہ نہیں مل رہی ہے، ورق ختم ہو گیا    ؎

ورق   تمام   ہوا   اور   مدح   باقی    ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے

لفظ ‘سفینہ’ بھی یہاں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ‘بحر بےکراں’ سےصرف مناسبت ہی نہیں رکھتا،  بلکہ اس کے ایک معنی ’مجموعہ‘ یا ’بیاض‘ بھی ہوتے ہیں۔’بہارِعجم‘ میں ہے کہ ’سفینہ‘ عرف عام میں اس بیاض کو کہتے ہیں جو لمبائی کی طرف سے کھلتی ہے اور جس کی شکل کشتی کی طرح ہوتی ہے۔ یہی معنی ’آنند راج‘ میں بھی درج ہیں، اس تفصیل کے ساتھ کہ عربی میں لفظ ’سفینہ‘کی بہت سی جمعیں ہیں اور لغت نگار نے وہ سب درج کر دی ہیں۔

غزل زیر بحث کا مقطع دیکھیے تو ہماری تعبیر بالکل مکمل ہوجاتی ہے  ؎

اداے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا

صلاے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

 

یہاں اگرچہ لفظ ‘نکتہ’ کی تکرار کچھ گراں گزرتی ہے، لیکن معنی بالکل واضح ہیں: غالب نے اس غزل میں کچھ نئے انداز سے نغمہ سنجی کی ہے، یعنی غزل میں قصیدے کے شعر ڈال دیے ہیں۔ اب جو لوگ نکتہ شناس ہیں وہ اس کی داد دیں اور اس طرح کہنے کی کوشش کریں۔
تو جب ایک شعر کی تعبیر میں اس قدر الجھن ہو سکتی ہے تو کسی وسیع الذیل حقیقت یا حقائق کی تعبیر میں کس قدر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں،اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔مزید وضاحت کے لیے تاریخِ ادب سے ایک مثال لیتے ہیں۔
جب تک میر اور قائم کے تذکرے چھپ کرعام نہیں ہوئے تھے، ولی کے بارے میں عام لوگوں کی معلومات کا ماخذ مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف’آبِ حیات‘ تک محدود تھا۔ مثلاً یہ بات مصدقہ طور پر معلوم نہ تھی کہ ولی کتنی بار دہلی آئے اور پہلی بار کب آئے۔ مولانا محمد حسین آزاد ’آبِ حیات‘ میں لکھتے ہیں:

’’ ولی احمدآباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہ الدین کے مشہور خاندان سے تھے۔ یہ اپنے وطن سے ابوالمعالی کے ساتھ دہلی میں آئے۔ یہاں شاہ سعد اللہ گلشن کے مرید ہوئے۔ شاید ان سے شعر میں اصلاح لی ہو۔مگر دیوان کی ترتیب فارسی کے طور پر یقیناً ان کے اشارے سے کی۔‘‘
اس آخری جملے پر آزاد کا حاشیہ ہے:’دیکھو تذکرۂ فائق کہ خاص شعراے دکن کے حال میں ہے اور وہیں تصنیف ہوا ہے۔‘لیکن مشکل یہ ہے تذکرۂ فائق نامی کسی کتاب سے کوئی واقف نہیں ہے۔ نگار پاکستان کے ’تذکروں کا تذکرہ‘ نمبرمطبوعہ 1964 میں فرمان فتح پوری نے تمام معلوم تذکروں کی فہرست دی ہے اور پھر ان کا حال لکھا ہے۔ صفحہ 4 پر کسی ’مخزنِ شعرا‘ مرقومہ 1297ھ بہ مطابق 1880کا ذکر ہے اور مصنف کا نام نورالدین خان فائق بتایا ہے۔ لیکن کتاب کے متن میں اس تذکرے کا کوئی حال نہیں۔ فہرست میں ’مخزن شعرا‘ کا اندراج بھی اپنی مناسب جگہ پر نہیں ہے، کیوں کہ اس کے بعد بھی کئی تذکرے ایسے درج ہیں جو 1880کے بہت پہلے لکھے گئے۔ 1880میں تحریر کردہ (یا شایع شدہ) تین تذکروں کے نام فہرست میں درج ہیں:’طورِ کلیم‘؛ ’بزمِ سخن‘ اور خود ’آبِ حیات‘۔ فائق کے تذکرے کا نام یہیں آنا چاہیے تھا لیکن وہ اپنی جگہ سے بہت پہلے آگیا ہے اور اس کے آگے کوئی صفحہ نمبر بھی نہیں ہے، صرف 20 لکھا ہے۔
محمد حسین آزاد پراسلم فرخی مرحوم کی مبسوط دو جلدی کتاب میں بھی نور الدین خان فائق یا ’مخزنِ شعرا‘ کا کوئی ذکر نہیں۔ نہ ہی مسعود حسن رضوی ادیب کی کتاب ’آبِ حیات کا تنقیدی مطالعہ‘ یا قاضی عبدالودود کی ’محمد حسین آزاد بحیثیت محقق‘ میں فائق کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ ہمارے یہاں جن لوگوں نے ولی پرتحقیقی نظر ڈالی ہے، انھوں نے اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں کی۔ ورنہ یہ تذکرہ (اگر واقعی ایسا کوئی تذکرہ ہے اور بقول آزاد وہ ’خاص شعراے دکن کے حال میں ہے‘) حاصل ہو سکتا توولی اور شاہ گلشن کی مبینہ ملاقات اور شاہ صاحب کے اس مشورے کے بارے میں کہ ولی اپنا دیوان ’فارسی کے طور پر‘ ترتیب دیں، کچھ زیادہ تفصیلی اور زیادہ معتبر بات معلوم ہو سکتی تھی۔
جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا،اس وقت تو ولی کی دہلی (پہلی اور اغلباً واحد) آمد کے بارے میں ہمارے پاس ‘آبِ حیات’ کے بعد جو دو اطلاعات ہیں وہ میر اور قائم کے تذکروں پر مبنی ہیں۔ میرکا بیان درج ذیل ہے۔ اس کے بعد میں قائم کا بیان نقل کروں گا:

’’ولی (محمد، ملک الشعرا) شاعر ریختہ (زبردست) (صاحب دیوان) از خاک اورنگ آباد است۔ می گویند کہ در شاہجہان آباد نیز آمدہ بود۔ بخدمت میاں(شاہ) گلشن صاحب رفت و از اشعار خود پارۂ خواند۔ میاں صاحب فرمود(ند کہ)ایں ہمہ مضامین فارسی کہ بیکار افتادہ اند، در ریختہ(ہاے)خود بکار ببر۔ از تو کہ محاسبہ خواہد گرفت۔‘‘(’نکات الشعرا‘ از میر محمد تقی میر، مرتبہ و مدونہ پروفیسر محمود الٰہی، ادارۂ تصنیف، دہلی 6، 1972، ص 91)

’’شاہ ولی اللہ، ولی تخلص، شاعرےست مشہور، مولدش گجرات است۔ گویند بہ نسبت فرزندی شاہ وجیہ الدین گجراتی، کہ از اولیاے مشاہیر است، افتخار ہاداشت۔ درسنہ چہل و چہار ازجلوس عالمگیر بادشاہ، ہمراہ میر ابوالمعالی، نام سید پسرے کہ دلش فریفتۂ او بود، بہ جہان آباد آمد۔ گاہ گاہ بزبان فارسی دو سہ بیت در وصف خط و خالش می گفت۔ چوں درآنجا ملازمت حضرت شیخ سعد اللہ گلشن قدس سرہٗ مستعد گردید، بگفتن شعر بزبان ریختہ امر فرمودند و ایں مطلع تعلیماً موزوں کردہ حوالۂ او نمودند

خوبی اعجاز حسن یار گر انشا کروں

بے تکلف صفحۂ کاغذ یدِبیضا کروں

(’مخزن نکات‘ از قائم چاندپوری، مرتبہ و مدوّنہ اقتدا حسن، لاہور، مجلس ترقیِ ادب، 1966، متن صفحہ 21 تا 22)

ان دو عبارتوں میں کئی تضاد اور کئی اختلافات ہیں۔ ان کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  1.   میر کا کہنا یہ ہے کہ ولی جب دلی آئے تو شاعر تھے۔ لیکن شاہ صاحب نے ان کے اشعار سن کر مشورہ دیا کہ فارسی میں مضامین بھرے پڑے ہیں، انھیں کیوں نہ استعمال کرو۔ میر کو یہ نہیں معلوم کہ ولی اور گلشن کی ملاقات دلی میں کب ہوئی۔
  2. قائم کہتے ہیں کہ ولی جب دہلی پہنچے تو وہ ریختہ کے شاعر ہی نہیں تھے، نہ ہی وہ باقاعدہ فارسی گو تھے۔ ہاں کبھی کبھی ایک دو بیت فارسی میں شاہ ابوالمعالی کی ثنا و صفت میں کہہ لیتے تھے۔ شاہ گلشن نے ’مضامین فارسی‘ کو بکار لانے کے باب میں ولی کوکچھ مشورہ نہ دیا، البتہ ایک مطلع بطورتعلیم موزوں کرکے ان کو عطا کیا۔
  3. ولی کے دہلی آنے کی تاریخ کے بارے میں میر کو کچھ نہیں معلوم۔ ان کا بیان ہے کہ ’لوگ کہتے ہیں‘ کہ وہ شاہجہان آباد دہلی بھی آئے تھے۔ اس کے برخلاف قائم نے پورے وثوق سے کہا ہے کہ ولی اورنگ زیب عالمگیر کے چوالیسویں سالہ جلوس میں دہلی آئے۔ معمولی گنتی کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سال 1112 ہجری اور 1700 حالی تھا۔چوں کہ ولی کے ورودِ دہلی کے بارے میں ہمیں کوئی اور قطعی اطلاع نہیں، اس لیے سب اسی تاریخ کو مانتے ہیں۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ ان تضادات کا کیا ہو؟ میر کہتے ہیں شاہ صاحب نے ولی سے کہا کہ فارسی کے مضامین کیوں نہیں لکھتے ہو؟ قائم کہتے ہیں کہ ولی اس وقت تک ریختہ گو تھے ہی نہیں، چہ جاے کہ شاہ صاحب ان کا کلام سنیں اور کوئی مشورہ دیں۔ لیکن یہ انھوں نے ضرور کہا کہ ریختہ کہو اوران کو تعلیماًایک مطلع بھی کہہ کر دیا۔
اس بات کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ دہلی والوں نے میر اور قائم کے بیانات کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا(اور یہ فیصلہ اب تک رائج ہے) کہ ولی کچھ نہ تھے اور کچھ نہ ہوتے اگر وہ دہلی نہ آئے ہوتے اور انھوں نے شاہ سعد اللہ گلشن سے فیض نہ حاصل کیا ہوتا۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے کسی محقق نے میر اور قائم کے تضادات اور اختلافات پر غور کیا ہو۔ محمد اکرام چغتائی، جو مورخ ہیں اور ادبی محقق کے زمرے میں نہیں آتے، انھوں نے ضرور لکھا ہے کہ 1112ھ میں شاہ گلشن صاحب دہلی میں تھے ہی نہیں، وہ دکن کی سیاحت کر رہے تھے۔ لہٰذا دہلی میں شاہ صاحب اور ولی کی 1112 میں ملاقات ممکن ہی نہیں ہے۔ اقتدا حسن نے چغتائی کے مضمون مطبوعہ ’اردو نامہ‘ بابت مارچ 1966 کا حوالہ اسی صفحے پر حاشیے میں دیا ہے جہاں سے میں نے قائم کا بیان نقل کیا۔دوسرے صاحب ڈاکٹر محمدصادق ہیں جنھیں ہم ان کی تاریخ ادب اردو بزبان انگریزی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ محقق انھیں کوئی نہیں مانتا۔ یوں بھی، وہ انگریزی کے پروفیسر تھے، اردو والے انھیں اپنا آدمی بھلا کب مان کے دیتے؟ لیکن ’تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند‘ جلد ششم، مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی،لاہور کے صفحہ530 اور پھر صفحہ 532پر صادق صاحب لکھتے ہیں:

’’تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ولی کا سفرِ دہلی، نہ صرف اس کی شاعری میں بلکہ اردو شاعری کی تاریخ میں بھی ایک حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہےمیری رائے میں [شاہ گلشن کی]یہ مفروضہ ہدایات اہالیان دہلی کی اختراعات ہیں۔ان کا منشا (غیر شعوری طور پر ہی سہی)یہ ہے کہ اردو شاعری کی اولیت کا سہرا دہلی ہی کے سر رہے۔‘‘
میں چودھری محمد نعیم کا ممنون ہوں(اگرچہ مستعمل معنی میں محقق وہ بھی نہیں ہیں) کہ انھوں نے ڈاکٹر صادق کی عبارت کی خبر مجھے دی۔ لیکن میں اردو کے محققین سے پوچھتا ہوں کہ انھوں نے ’آب حیات‘ اور ’نکات الشعرا‘ اور ’مخزن نکات‘ کے بیانات پر آنکھ بند کر کے کیوں یقین کر لیا؟ آزاد کا تعصب تو اس بات سے ظاہر ہے کہ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ولی نے ’دیوان کی ترتیب فارسی کے طور پر یقیناًان [شاہ سعد اللہ گلشن]کے اشارے سے کی‘ اور دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ولی نے یہ تو لکھا ہے کہ میں شاہ سعد اللہ گلشن کا شاگرد ہوں’ مگر یہ نہیں لکھا کہ کس امر میں۔‘اس صورت میں اس بات کا امکان کتنا رہ جاتا ہے کہ کوئی شخص، جو فن شعر میں کسی کا استاد نہ ہو، وہ اسے اتنا مہتم بالشان مشورہ دے ڈالے کہ فارسی میں مضامین پڑے ہیں انھیں بے تکلف لوٹو اور اپنا گلشن شاعری آراستہ کرو۔

قائم نے تو کہہ دیا کہ شاہ گلشن سے ملاقات کے پہلے ولی ریختہ کے شاعر ہی نہ تھے، لیکن آزاد خود کہہ رہے ہیں کہ ولی نے ایک شعر میں ناصر علی سرہندی کو کھل کر چنوتی دی ہے

 

اچھل کر جا پڑے جوں مصرع برق

اگر  مصرع   لکھوں  ناصر علی   کوں

’کلیات ولی‘مرتبہ نورالحسن ہاشمی مطبوعہ لاہور، 1996، صفحہ195 پر یہ شعر یوں درج ہے   ؎

 

پڑے سن کر اچھل جیوں مصرع برق

اگر   مصرع   لکھوں   ناصر علی   کوں

بے شک یہ شعر آزاد کے روایت کردہ شعر سے بہتر ہے، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ایسا شعر ناصر علی کے زمانۂ حیات ہی میں کہا گیا ہوگا۔ ناصر علی سرہندی کا سال وفات1696 ہے۔ اس طرح یہ بات بالکل صاف ہے کہ 1696تک (یعنی دہلی آنے سے کم از کم چار سال پہلے)ولی شعر گوئی میں اتنے مشاق اورمستحکم ہو چکے تھے کہ اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے فارسی استاد کو اس طرح للکار سکتے۔
مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ ’نئے حقائق کی دریافت‘ ہو، یا ’پہلے سے معلوم حقائق کی نئی تعبیر‘، ولی کے بارے میں ان دونوں شرائط کا حق ’آب حیات‘ اور ’نکات‘ اور ’مخزن‘میں درج کردہ بیانات کی تحقیق کی حد تک ہم سے ادا نہیں ہو سکا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے کھلے طور پر دہلی والوں کے تعصب کو اس کا ذمہ دار بتایا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ جو دہلی والے نہیں بھی ہیں  وہ بھی میر اور قائم کے اختراع کردہ افسانوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چناں چہ تبسم کاشمیری اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
’’شمال کے اس سفر کی داستان خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو،یہ بات ظاہر ہے کہ شمالی ہند کے ادبی ماحول، تہذیبی فضا اور شعری اسالیب سے ولی نے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔‘‘

یعنی اب بات ’تھا‘ سے ’ہوگا‘ تک آگئی، لیکن بات رہی وہی پہلے سی۔ لطف یہ ہے کہ اسی صفحے پر تبسم کاشمیری نے یہ بات کہی ہے کہ ’یہ ولی کا کمال تھا کہ اس نے شمالی ہند میں فارسی روایت کے مغرور علما اور شعرا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔‘
بھلا ’بہت کچھ سیکھنے‘ میں ’جھنجھوڑ کر رکھ دینے‘ کا عنصر کہاں رہا ہوگا؟ لیکن ظاہر ہے ولی رہے پھر بھی دہلی کے ممنون احسان کہ بقول ناصر نذیر فراق، ورود دہلی کے پہلے ولی شاعر ہی نہیں تھے، وہ جو کچھ ہیں انھیں دہلی نے بنایا۔ جمیل جالبی نے اپنی تاریخ میں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت زور لگایا ہے کہ ولی کا انتقال 1707/1708 کے بہت بعد ہوا ہوگا، کیونکہ اگر وہ دہلی پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد راہی ملک عدم ہوئے تو بھلا انھوں نے وہ سارا کلام کب کہا ہو گا جو کمیت میں خاصا ہے اور جس پر بقول جالبی صاحب، دہلی کا اثر صاف نظر آتا ہے؟ لیکن حقیقت بہ ہر حال یہی ہے کہ ولی کا مکمل ترین کلام جس مخطوطے میں ملتا ہے اس کی تاریخ کتابت 1709 ہے۔اس کے بعد اگر وہ جئے ہوتے اور انھوں نے کچھ کہا ہوتا تو وہ کہیں تو ملتا۔

فن تحقیق پر ہمارے یہاں کئی کتابیں اور کئی مضامین ہیں۔ تقریباً سب میں دیانت داری پر زور دیا گیا ہے لیکن مجرد دیانت داری کسی کام کی نہیں۔دیانت داری کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ پوری اور سخت چھان بین کے بغیر کسی ایسی بات کو، یا کسی ایسے نتیجے کو نہ قبول کر لیا جائے جو ہمارے دل کو بھاتا ہو بلکہ ایسے نتیجے کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے جو ہمارے حسب دلخواہ ہو۔ ہماری ادبی تحقیق کی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت ہیں کہ محقق نے پوری ایمان داری کے ساتھ کسی نتیجے کو اس لیے قبول کیا کہ وہ اس کے معتقدات کے موافق تھا، یعنی اس کا خیال تھا کہ اس چیز کو ایساہی ہونا چاہیے۔
داغ پر ہم لوگوں کی خامہ فرسائیاں اس کی مثال ہیں۔ انگریزی تاریخیں یا انگریزوں سے متاثر تاریخیں پڑھ پڑھ کرہم لوگوں نے یقین کر لیا کہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں لال قلعہ ہر طرح کی بداطواری اور تعیش پسندی اور ذہنی انحطاط کا صدر مقام تھا۔ پھر ہم لوگوں نے پڑھا کہ داغ کی ماں نے ایک شہزادے سے شادی کر لی اور قلعہ میں جا رہیں اور داغ بھی ان کے ساتھ تھے۔لہٰذا داغ کی نشوو نما لال قلعے میں ہوئی۔ داغ کے بارے میں یہ کہا گیا:

’’مغلیہ حکومت کا یہ آخری دور تھا۔ شمشیر و سناں سے گزر کر طاﺅس و رباب میں شاہی خاندان مصروف تھا۔ رقص و سرود کی محفلیں، قلعے کی بیگمات،خواصیں، چونچلے، رنگ رلیاں،اس ماحول میں شہزادوں کے ساتھ داغ نے بھی بارہ سال گزارے۔‘‘
ہم لوگوں کے خیال میں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ قلعے والوں کی تمام بری باتیں داغ کی طینت میں پیوست ہو جائیں۔ مندرجہ بالا رائے کا بلاواسطہ یا بالواسطہ پرتوداغ کے بارے میں ہرتحریر میں ملتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقتباس کی سب باتیں غلط ہیں سوا اس کے کہ داغ نے قلعے میں بارہ سال گزارے۔اگر ذرا سی بھی کاوش کی جاتی تو داغ کے بارے میں ہمارے نتائج بالکل مختلف ہو سکتے تھے۔ لیکن جو نتیجہ ہم نے نکالا وہ جذباتی طور پر ہمارے لیے قابل قبول تھا کہ داغ تو ہنسی ٹھٹھول کے شاعر تھے، ان کے کلام میں مضامین بلند نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ ارباب نشاط میں بہت مقبول تھے۔ مزید کاوش کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔داغ کا دیوان کھولنے کی زحمت کون کرتا۔
یہیں سے محقق کے منصب کے بارے میں دوسری اہم بات بھی سامنے آتی ہے: جو نتیجے اور فیصلے پہلے سے موجود ہیں یا ہم نے ورثے میں پائے ہیں،ان پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کر لینا چاہیے۔ کوئی روایت، خواہ وہ بظاہر کتنی ہی دلکش یا کتنی ہی مستند کیوں نہ ہو،اسے اسی وقت قبول کرنا چاہیے جب اپنی ذاتی تحقیق اس کی تصدیق کر دے۔ ہمارے یہاں کتاب پر اعتماد کی رسم بہت مستحکم ہے۔ کسی مبتدی طالب علم کے لیے تویہ طریق عمل بہت مناسب ہے، لیکن محقق کا یہ منصب نہیں۔ یہ بھی ہے کہ ادبی تہذیب میں بعض باتیں غیر معمولی شہرت حاصل کر لیتی ہیں، خواہ وہ کسی کتاب میں نہ ہوں۔انسان کا مزاج ایسا ہے کہ وہ مشہور باتوں پر،یا لکھی ہوئی باتوں پریقین کر لینے پر بہت مائل رہتا ہے، خاص کر اگر ایسی باتیں دلکش یا ڈرامائی انداز میں بیان کی گئی ہوں۔ محقق کواس کمزوری سے مبرا ہونا چاہیے۔
ہمارے جدید شعرا میں میراجی ایک ایسے ہیں جن کی شخصیت کی بارے میں خاکے کے نام پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور وہ کم و بیش سب کا سب حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ میراجی کا افسانہ پہلے بنا، خاکے بعد میں لکھے گئے۔ یعنی ان کی شخصیت میں کچھ ایسی بات تھی، اسے اسرار کہیے، کشش کہیے، یا توجہ انگیزی کہیے، لیکن کچھ ایسا ضرور تھا کہ لوگوں کو ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور کرنے میں مزہ آتا تھا۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر خاکہ ان کی زندگی کی کسی منزل پرلکھا گیا ہوگا، وہ ان کی پوری زندگی کو محیط نہیں ہو سکتا۔ لیکن اکثر لوگوں نے ہر خاکے کو میراجی کی پوری شخصیت کی تصویر سمجھ لیا ہے۔ ہر چند کہ میراجی کی تخلیقی شخصیت تو دور رہی، ان خاکوں سے ان کی پوری زندگی کی بھی فہم نہیں حاصل ہو سکتی۔ مثلاً کہا گیا کہ میراجی اپنی پتلون کی جیبیں کٹوا دیا کرتے تھے۔ممکن ہے ایسا ہو، لیکن کون سے میراجی؟ بمبئی کے میرا جی، یا دہلی کے میرا جی، یا حلقۂ ارباب ذوق کے میراجی، یا ’ادب لطیف‘ کے مدیر میراجی؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کی نظمیں مبہم ہوتی تھیں اور انھیں ابہام بہت پسند تھا۔وہ اپنی بات کو گھماپھرا کر کہنا پسند کرتے تھے۔لیکن ’مشرق و مغرب کے نغمے‘ میں جو میراجی ہیں وہ تو انتہائی شفاف نثر لکھتے ہیں۔ ایک صاحب نے ان کی کتاب ’اس نظم میں‘ کا صرف نام سن لیا، اور چوں کہ یہ مفروضہ بہت مشہور تھا کہ میراجی کا کلام مشکل اور مبہم ہوتا تھا، لہٰذا انھوں نے کتاب پڑھنے کی زحمت کیے بغیر لکھ دیا کہ میراجی کا کلام اس قدر مشکل تھا کہ انھوں نے مجبوراً خود ہی ’اس نظم میں‘ نامی ایک کتاب لکھی اور اس میں اپنی نظموں کے معنی بیان کیے۔
ہمارے یہاں پہلے زمانے کی ادبی تاریخ کے بارے میں اس طرح کی حکایتیں بہت مشہور ہیں کہ مثلاً انشا آخری عمر میں بالکل بدحال اور مجنون ہو گئے تھے، یا غالب نے آخیر آخیر میں طرز میر اختیار کیا، یا اردو ’لشکری زبان‘ ہے کیونکہ ’اردو‘کے معنی’لشکر‘ ہیں۔ محقق کو یہ اصول ہمیشہ مدِّنظر رکھنا چاہیے کہ جو بات جتنی ہی مشہور ہوگی، اتنا ہی قوی امکان اس بات کا ہوگا کہ وہ غلط ہوگی لیکن ہمارےمحققین نے اس اصول کو اکثر نظر انداز کر دیا ہے۔
آج ہماری زبان پر کڑا وقت پڑا ہے۔اور اس کی وجہ سیاسی یا سماجی نہیں بلکہ خود ہم لوگوں کی سہل انگاری اور ہم میں غور و تحقیق کی کمی ہے۔ آج اردو پڑھنے والے کم نہیں ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔اور یہ بھی غلط ہے کہ اردو پڑھے ہوئے شخص کو معاش نہیں ملتی۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اچھے پڑھانے والے نہیں ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کو جیسی بھی ہو، ٹوٹی پھوٹی ڈگری حاصل کر لینے اور پھر تلاش معاش کے لیے جوڑ توڑمیں لگ جانے کی جلدی ہے۔ آج کل ہماری یونیورسٹیوں میں جن موضوعات پر تحقیق ہو رہی ہے اور جس طرح کی تحقیق ہورہی اس میں بھاری اکثریت ’فلاں کی حیات اور کارنامے‘ قسم کی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اب کم حقیقت اور زندہ لوگوں کے ’کارناموں‘کے الگ الگ پہلوﺅں پر تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں۔مثلاً ’فلاں کی افسانہ نگاری‘،پھر اسی شخص کی شاعری، پھر اسی شخص کی تحقیق، وغیرہ الگ الگ موضوع بن گئے ہیں۔ زندوں بچاروں پر یوں لکھا جارہا ہے گویا اب انھوں نے اپنا کام پورا کر لیا اور اب ہم ان کے ’ کارناموں‘ کا مکمل احاطہ کر سکتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی موضوع پرایک ہی یونیورسٹی میں، یا مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیق کی داد دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں تحقیقی مقالوں میں نئی بات کیا، تنوع بھی نہ ہوگا۔’چبائے ہوئے نوالے‘، ’چچوڑی ہوئی ہڈیاں‘جیسے فقرے ایک زمانے میں ہماری شاعری کے بارے میں استعمال ہوتے تھے۔ اب یہی فقرے ہمارے تحقیقی مقالوں پر صادق آتے ہیں۔

Ghubar E Khatir ka Usloob by Abdulbari Qasmi

Articles

غبارخاطرکا اسلوب

عبدالباری قاسمی

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرتؔ میں کچھ مزا نہ رہا
اس شعر کو پڑھ کر ہی بیسویں صدی کے مایہ ناز انشاپرداز، صحافی اور سیاست داں ــــمحی الدین ابولکلام آزاد کے اسلوب تحریر اور طرز نگارش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔مولانا آزاد جہاں ہندوستا نی سیاست میں صف اول کے لوگوں میں قیادت کے منصب پر فاــئزتھے وہیں نثر نگاری ،خطابت اور انشاپردازی میں بھی اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ۔ نثر کے باب میں ان کی شناخت منفرد اسلوب اور طرز تحریر کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا رشید احمد صدیقی جیسے ادیب اور ناقد نے تحریر کیا ہے کہ
’’ مولانا کا اسلوب تحریر ان کی شخصیت تھی اوران کی شخصیت ان کا اسلوب دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا‘‘ (۱)
اس تبصرہ سے مولانا آزاد کے اسلوب اور زندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،ان کے اسلوب میں حکیمانہ لہجہ بھی ہے تو زعیمانہ انداز بھی اور ساتھ ساتھ ادیبانہ وجاہت بھی ،یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین نے ان کی نثر کو شعر منثور سے تعبیر کیا ہے ۔ وہ بیک وقت متعدداسالیب پر قدرت رکھتے تھے ۔ رشید احمد صدیقی نے ان کے انداز اور لب لہجہ کو قرآنی لہجہ سے تعبیر کیا ہے ’’مولانا نے لکھنے کا انداز، لب و لہجہ اور مواد کلام پاک سے لیا ہے
جو ان کے مزاج کے مطابق تھا مولانا پہلے اور آخری شخص ہیں جنہوں نے براہ راست قرآن کو اپنے اسلوب کا سر چشمہ بنایا‘‘(۲)
غبار خاطر جسے مولانا نے ’’خط غبارمن است این غبار خاطر‘‘کہہ کر پکارا ہے اس سے اس کی اہمیت و افادیت اور دیگر فنی محاسن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔مولانا کی یہ کتاب جسے مولانانے حبیب الرحمن خاں شیروانی کے نام لکھے گئے خطوط سے تعبیر کیا ہے۔ بعض حضرات نے اسے انشائیہ تو بعض نے افسانہ کہہ کر بھی پکار ہے، اس میں مولانا نے انشاپردازی ،زبان دانی ،فطری اسلوب ،طنزومزاح ،قلمی مصوری، مناظر فطرت کی عکاسی اور اشعار کا بر محل استعمال کر کے ایسی نقاشی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے کہ لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے پر مجبور ہوئے ، آزاد کا کمال ہے کہ کہیں تو بالکل سادگی پر اتر آتے ہیں تو کہیں عربی و فارسی اشعار اور تراکیب لا کر زبان دانی اور تبحر علمی کاا علی نمونہ پیش کرنے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے اور سب سے بڑی چیز فطری پن اور بہا ئوہے ۔جو انہیں دیگر انشاپردازوں سے ممتاز کرتی ہے اور انفرادیت کے مقام پر پہنچاتی ہے۔

غبار خاطر کی تصنیف :

غبار خاطر خطوط ہے یا انشائیہ یہ بھی موضوع بحث رہا ہے ،مگر مولانا نے خود اسے خطوط سے تعبیر کیا ہے ،یہ مولانا آزاد کی آخری تصنیف ہے ،جو 3اگست1942ء سے 3ستمبر 1945ء کے درمیانی وقفہ میں رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے،اس میں دو خط مولانا شیروانی کے بھی شامل ہیں مگر اتنی بات مسلم ہے کہ مولانا آزادکی شیروانی صاحب سے گہری دوستی تھی ،اس لیے ان کے نام منسوب کرکے یہ خطوط کی شکل میں مضمون لکھے ورنہ ایک بھی خط ارسال نہیں کیا گیا ،البتہ مولانانے خطوط کا پیرایہ اس لیے اختیار کیا کہ بہت سی باتیں جسے مضمون میں ظاہر نہیں کیا جاتا مگر خطوط میں بے تکلف لکھا جا سکتا ہے ۔

مولانا آز اد کے تصنیفی ادوار :

مولانا آزاد ایسے انشاپرداز ہیں جن کے یہاں ایک اسلوب پر اکتفا نظر نہیں آتا ۔بلکہ ان کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے ان کے تصنیفی ادوار کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ان کے تصنیفی ادوار کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ان کا پہلا دور گھن گرج والا دور ہے جس میں انہوں نے ’’ الہلال‘‘ اور’’ البلاغ‘‘ جاری کیااور اپنی سوانح عمری اور تذکرہ بھی ترتیب دیا ۔دوسرا دور وہ ہے جس میں انہوں نے قرآن پاک کے تراجم اور تفسیر وغیرہ لکھے ۔’’ ترجمان القر آن ‘‘اسی دور کی شاہکار ہے۔اس دور میں عالمانہ سنجیدگی اور علمی تبحرکا غلبہ نظر آتا ہے تیسرادور وہ ہے جس میں انہوں نے خط کی شکل میں انشائیوں کے اعلی نمونے پیش کیے غبار خاطر اسی دور کی تصنیف ہے اور چوتھا دور وہ ہے جس میں انہوں نے مختلف اور متعدد معرکتہ الآرا خطبے پیش کیے ’’ خطبات آزاد‘‘ اسی عہد کی باز گشت ہے ۔

مولانا آزاد کے متعدد اسالیب :

مولانا آزاد نے بنیادی طور پر تین اسالیب اختیار کیے ۔اطلاعی اسلوب یعنی کسی کو اطلاع دینا خواہ مثبت ہو یا منفی عام طور پر رپورٹنگ اسی اسلوب میں ہوتی ہے ۔الہلال ، البلاغ تذکرہ اور خطبات میں اسی اسلوب کو برتا گیا ہے ۔ہدایتی اسلوب سے مراد directive style ہوتا ہے یعنی حکم دینا یہ طریقہ ترجمان القرآن میں دکھائی دیتا ہے اور اظہاری اسلوب سے مراد expressive style ہوتا ہے اس اسلوب کو شاعری اور جذبات و احساسا ت کی ترجمانی کے لیے استعمال کیا جا تا ہے یہاں مواد اور معنی کی جگہ لفظ اور طرز بیان کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اسے’’ غبارخاطر ‘‘ میں محسوس کیا جا سکتا ہے ۔مرزا خلیل احمد بیگ نے ان کے اسلوب کے متعلق لکھا ہے کہ
’’ غبار خاطر کی نثر ادبی مرصع کاری اور رنگین عبارت کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ اس کے علاوہ لفظی رعایات و مناسبات فقروں کی صوتی دروبست جملوں کی متوازن ترکیب و ترتیب اظہار کے بدلے ہوئے پیرائے۔ نت نئے تلازمات اور نادر ترکیبات نے اس کی دل آویزی اور دل کشی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے‘‘(۴)۔

غبار خاطر کی زبان :

غبار خاطر میں مولانا آزاد نے بنیادی طور پر تین طرح کی زبان استعمال کی ہے ،ویسے ان کے اسلوب میں زعیمانہ ،حکیمانہ اورادیبانہ انداز ہے وہی زبان میں بھی ۔غبار خاطر میں سادہ اور عام فہم زبان کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ایک اقتباس چڑا چڑے کی کہانی سے :
’’ لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں میں لائیں ۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ یہاں سب سے بڑا کام خود زندگی ہے یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا یہاں اس سے زیادہ سہل کوئی کام نہیں ‘‘(۵)
غبار خاطر کی زبان شعریت سے متصف ہے یہ آزاد کی شعری آہنگ والی ایسی زبان ہے جس نے آزاد کو نثر نگار کی فہرست سے نکال کر شاعروں کے صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ اس انداز بیان کے نمونے غبار خاطر میں جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔
’’اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھول جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں ‘‘ (۶)
فارسی آمیز : غبار خاطر میں زبان کی تیسری قسم فارسی آمیز زبان کی ہے ، غبار خاطر میں مولانا آزاد نے شروع سے آخر تک جگہ جگہ فارسی اشعار الفاظ و تراکیب اور فارسی محاوروں کا استعمال کیا ہے ۔اس سے جہاں ایک طرف آزاد کی فارسی پر عبور اور گرفت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس بات کی بھی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کتاب کو کماحقہ سمجھنے کے لیے فارسی کی شد بد ضروری ہے ۔جیسے ایک خط کا عنوان انہوں نے’’ داستان بے ستوں و کوہ کن‘‘ رکھا ہے ۔

اشعار کا برمحل استعمال :

غبار خاطر اردو،فارسی اور عربی اشعار سے لبریز ہے،مولانا آزاد نے اشعار کوخوبصورتی اور چابکدستی سے استعمال کیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شعر خود انہیں کا ہے ، کہیں تو مکمل شعر نگینے کی طرح جڑ دیتے ہیں تو کہیں ایک مصرعہ کو ہی جملوں کے درمیان اس انداز سے فٹ کرتے ہیں کہ قاری مطلب بھی سمجھ لیتا ہے اور نثر ایک نئی خوبصورتی سے متصف بھی ہو جاتی ہے ۔
اردو شعر:

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
فارسی شعر:

ہزار قافلہ شوق می کشد شب گیر
کہ با رعیش کشاید بخطٔہ کشمیر
عربی شعر ـ:

قلیل منک یکفینی و لکن
قلیلک لا یقال لہ قلیل
اور کہیں کہیں پورے شعر کے مفہوم کو اپنی زبان میں بڑی خوبصورتی سے ڈھال لیتے ہیں ، جیسے میر دردؔ کے مشہور شعر ’’تر دامنی ‘‘ کو اپنی نثر میں بڑی خوش سلیقگی سے ڈھال کر نیا طرز ایجاد کیا ہے ۔

عربی الفاظ وتراکیب کی کثرت :

غبار خاطر میں عربی الفاظ و تراکیب کی بھی خوب کثرت ہے۔ جسے وہ درمیان میں کہیں بھی استعمال کر لیتے ہیں ۔عربی اشعار اور ضرب الامثال کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے الفاظ و تراکیب بھی استعمال کرتے ہیں کہ جسے ایک عربی جاننے والا شخص ہی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی نے عربی الفاظ و تراکیب کی کثرت کے متعلق لکھا ہے کہ
’’آزاد پہلے ایسے ادیب ہیں جنہوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی ہے ‘‘(۷)

فطری اسلوب :

شروع سے آخر تک غبار خاطر ٖفطری اسلوب سے لبریز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں آزاد کے اسلوب کا ایسا بہائو اور ایسی روانی نظر آتی ہے کہ اس کے بہائو کو کوئی بھی پل اور باندھ نہیں روک سکتا ۔رشید احمد صدیقی نے غبارخاطر کے اسلوب پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے کہ
’’غبار خاطر کا اسلوب اردو میں نا معلوم مدت تک زندہ رہے گا اکثر بے اختیار جی چاہنے لگ جاتا ہے کہ کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جیئے ہوتے ۔پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین و نسترن اپنی بہائو دکھاتے اورخود مولانا کے جذبئہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں‘‘(۸)
یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کی دلکشی کا راز اس کی طرز تحریر میں پنہاں ہے اور یہ شاہکار تخلیق اپنے اس عظیم حسن کی وجہ سے ہزاروں حسن پر ستوں کو فرحت و انبساط بخشنے کے ساتھ ساتھ شوق کا ہاتھ دراز کرنے پر مجبور کرے گا ۔

طنزو مزاح :

غبار خاطر میں بکثرت طنزومزاح کے نمونے بھی ملتے ہیں مولانا آازاد کا کمال ہے کہ انہوں نے خشک سے خشک موضوع کو بھی مضحکہ خیز انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری کا انگشت بدنداں ہونا فطری ہے ۔ایسی خوبصورتی سے طنزومزاح کا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ سامنے والے کو احساس بھی نہیں ہوتا اور سب کچھ کہہ جاتے ہیں انہوں نے اپنے ساتھ قلعہ احمد نگر میں اسیر ڈاکٹر سید محمود کے  بارے میں ’’فقیرانہ آئے صدا کر چلے ’’صلائے عام ہے یاراں نکتہ داں کے لئے ‘‘ بڑی خوبصورتی سے مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا ہے ۔

رومانیت :

غبارخاطر میں جہاں دیگر محاسن جا بجا نظر آتے ہیں وہیں رومانیت کی جھلکیا ں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ،بہت سے مقامات پر وہ ایسی پر لطف فضا اور ایسا ماحول تیار کرتے ہیں کہ رومانیت کی فضا تیار ہو جاتی ہے ،خاص طور پر اس موقع پر جب وہ اپنے متعلق اشارے کرتے ہیں تو بڑی خوبصورت رومانی فضا قائم ہو جاتی ہے ۔
قلمی مصوری :

غبار خاطر کے اسلوب کا ایک اہم حصہ مولانا آزاد کی قلمی مصوری اور نقش و نگاری بھی ہے جسے بآسانی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔کبھی ایک روحانی شخص کا نقشہ ، کبھی فلسفی کا ،کبھی مزاح نگار کاتو کبھی ایک غمگین شخص کا نہایت خوبصورت قلمی نقشہ بناتے نظر آتے ہیں
’’پھولوں نے زباں کھولی ،پتھروں نے اٹھ اٹھ کر اشارے کئے خاک پامال نے اڑ اڑ کر گہر افشانیاں کیں ‘‘
اس سے ان کی نقش و نگاری اور قلمی مصوری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔عام طور پر ایسے نمونے شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں ،مگر مولانا آزاد نے نثر میں اس کے نمونے پیش کیے ہیں۔

مناظر فطرت کی عکاسی :

مولانا آزاد نے غبار خاطر میں جس خوبصورتی سے پھلوں ،پھولوں ، پرندوں ،بیل ،بوٹوں اور دیگر مظاہر کائنات کی عکاسی کی ہے ۔ اس سے مولانا آزاد کے روحانی مزاج ،فطرت دوستی اور کائنات کے حسین مناظر کے مشاہدہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور بعض مقامات پر پھولوں کے ذریعے ایسی نقاشی پیش کرتے ہیں کہ جس سے ایرانی اور ہندوستانی دونوں پھولوں کی خوشبو مسکراتی نظر آتی ہے ۔
’’کوئی پھول یاقوت کا کٹورا تھا کوئی نیلم کی پیالی تھی ، کسی پر گنگا جمنا کی قلم کاری کی گئی تھی ‘‘(۱۰)

انانیتی انداز :

غبار خاطرمیں مولانا آزاد کا انانیتی انداز اور لہجہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس انداز سے شاعرانہ تعلی شاعروں کے یہاں ملتی ہے اسی انداز سے انانیتی نمونے ان کی نثر میں پائے جاتے ہیں خاص طور پر جب وہ اپنے متعلق لمبی باتیں کرتے ہیں تب یہ خصوصیت بہت واضح انداز میں نظر آتی ہے۔
خلاصہ کے طور پر مولانا عبدالماجددریا بادی کے اس قول کو پیش کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے ابوالکلام آزاد کے انداز تحریر اور طرز نگارش کے متعلق لکھا ہے کہ ’’وہ اپنے طرزو انشا کے جس طرح موجد ہیں اسی طرح اس کے خاتم بھی ہیں تقلید کی کوشش بہتوں نے کی ، پیروان غالب کی طرح سب ناکام رہے ،بہ حیثیت مجموعی ابوالکلام آزاد اپنی انشاپردازی میں اب تک بالکل منفردو یکتا ہیں بظاہراحوال یہی نظر آتا ہے کہ غالب کی طرح ان کی بھی یکتائی وقتی نہیں ،مستقل ہے ،حال ہی کے لیے نہیں مستقل کے لیے۔
٭٭٭

حوالہ جات :
(۱)کلیات رشید احمد صدیقی جلد سوم ص:۳۴۷۔(۲)ایضا ص:۳۴۷(۳) اردو کے نثری اسالیب ص:۱۶۱(۴) تنقید اور اسلوبیاتی تنقید ص: (۵)چڑا چڑے کی کہانی غبار خاطر ص: (۶) ایضا ص:۲۱۰(۷) ابولکلام کی اردو آب گم از مشتاق یوسفی (۸) کلیات رشید احمدصدیقی جلد سوم ص :۳۵۴ (۹)غبار خاطر کا تنقیدی مطالعہ ص: ۸۰(۱۰) غبار خاطر ص:۲۱۸۔
٭٭٭
مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
مضمون نگار سے رابطہ :

abariqasmi13@gmail.com
09871523432

 

Educational Thoughts of Maulana Abul Kalam Azad

Articles

مولانا ابو الکلام آزاد کے تعلیمی نظریات

ڈاکٹر قمر صدیقی

ہر دور میں وقت اور حالات کے مد نظر دانشورانہ فکر کے حامل افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی عمل ہے لہٰذا کسی بھی دور میں دانشورانہ فکر کے حامل افراد کا موجود ہونا اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ ان افراد کی سوسائٹی کے تئیں سپردگی اور وابستگی کا جذبہ۔مولانا ابو الکلام آزاد کی دانشورانہ فہم و فراست کی عظمت کا راز یہی ہے کہ ان کا سارا علم و تدبر سماج کے لیے وقف تھا۔
مولانا آزاد مکہ معظمہ کے محلہ دارالسلام میں 1888ء میں پیدا ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر میں ایک رسالہ ’لسان الصدق‘ نکالا۔ لسان الصدق کے مضامین سے لوگوں کو یہ اندازہ ہوتا تھاکہ یہ رسالہ نکالنے والا کوئی بہت ہی تجربہ کار اور معمر شخص ہے۔چنانچہ لاہور کے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں جب مولانا حالی اور مولانا وحیدالدین سلیم کی ملاقات مولانا ابوالکلام آزاد سے ہوئی تو ان حضرات کوبڑی حیرت ہوئی اور انھوں نے کئی بار دریافت کیا کہ لسان الصدق کے ایڈیٹر آپ ہی ہیں۔ اسی طرح جب مولانا ابوالکلام آزاد کی ملاقات مولانا شبلی نعمانی سے ہوئی تو مولانا شبلی کو بھی بہت حیرت ہوئی۔ اس سلسلے میں مولانا آزاد خود کہتے ہیں کہ ’’چلتے وقت انھوں نے مجھ سے کہا تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں! میں نے کہا نہیں میں خود ہوں‘‘۔ مولانا آزاد شروع سے سرسید احمد خاں سے متاثر رہے۔ کچھ عرصہ تک وہ جمال الدین افغانی اورپین اسلام ازم کے زیرِ اثر بھی رہے۔ ان کی میںاس کا عکس نظر آتا ہے۔تعلیم کے شعبے میں وہ سر سیّد کے نظریات کے حامی و ناشر تھے۔ سرسید چاہتے تھے کہ مسلمانان ہند جدید تعلیم سے آراستہ ہوں۔ وہ مسلمانوں کی نجات کے لیے جدید تعلیم کو ضروری تصور کرتے تھے۔ سرسید احمد خاں کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی بالخصوص رسم و رواج میں اصلاح ہو۔ لہٰذاوہ مسلمانوںکے لیے زندگی کے نئے تقاضوںکے تحت اجتہادو اصلاح کو ضروری سمجھتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے سرسید کے ان نظریات کا نہ صرف باریک بینی سے مشاہدہ کیابلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ مولانا آزاد، سرسید سے متاثر تھے اور تعلیمی اور سماجی اعتبار سے دونوں کے نظریات مسلمانوں کے متعلق ایک تھے تو غلط نہ ہوگا۔ ہاں! ان دونوں حضرات کے نظریات سیاسی میدان میں الگ ہیں۔ سرسید چاہتے تھے کہ مسلمان کچھ عرصے کے لیے سیاست سے دور رہ کر خود کو نئے حالات کے سانچوں میں ڈھال لیں۔ جبکہ اس تعلق سے مولانا کے سیاسی نظریات سے آپ سب بخوبی واقف ہیں۔
مولانا آزاد ایک خالص مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد نے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں مذہب کو مقدم رکھا۔ قرآن، حدیث، فقہ، اصول اور منطق وغیرہ کی خاص تعلیم کے ذریعہ جس فکری اساس کی بنیاد ان کے والد چاہتے تھے مولانا آزاد کی طبیعت اس سے میل نہ کھا سکی۔ چنانچہ جلد ہی انہوں نے فرسودہ روایات سے انحراف کر کے اپنی الگ راہ بنا لی۔ مولانا آزاد خود کہتے ہیں— ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے ابھی پندرہ برس سے زیادہ کی عمر نہیں ہوئی تھی کہ طبیعت کا سکون ہلنا شروع ہو گیا اور شک و شبہات کے کانٹے دل میں چبھنے لگے۔ یہاں تک کہ چند برسوں کے اندر عقائد و افکار کی وہ تمام بنیادیں جو خاندان، تعلیم اور گرد و پیش نے چنی تھیں بہ یک وقت متزلزل ہوگئیں اور پھر وہ وقت آیا جب اس ہلتی ہوئی دیوار کو خود ڈھا کر اس جگہ نئی دیواریں چننی پڑیں‘‘۔
مولانا نے مذہب، سیاست، معاشرت اور حب الوطنی غرضیکہ زندگی اور سماج کے تمام گوشوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں استدلال و اجتہاد کیا۔ مولانا مذہب میں اجتہاد اور تفہیمِ جدید کے علمبردار تھے۔
مسلم معاشرے کی اصلاح اور جہالت و تَوَہُمَات سے چھٹکارا پانے کے بارے میں مولانا آزاد ہمیشہ غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ مولانا آزاد کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے صرف ایک ہی راستہ نظر آتا تھا اور وہ راستہ تعلیم ہے۔ وہ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تعلیم کے قائل تھے جس سے مسلمانوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ مولانا آزاد کے مطابق تعلیم اسلام پر مبنی ہونی چاہئے ۔وہ جس طرز کی تعلیم کے حامی وناشر تھے اس کی بابت ایک تقریر میں انھوں نے کہا تھاکہ۔’’ انگریزی تعلیم کی ضرورت کا تو یہاں کسی کو وہم و گمان تک نہیں گزر سکتا لیکن کم از کم یہ تو ہو سکتا ہے کہ قدیم تعلیم کے مدرسوں میں سے کسی مدرسہ سے واسطہ پڑتا۔ مدرسے کی تعلیمی زندگی کفر کی چاردیواری کے گوشۂ تنگ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے اور طبیعت کو کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے‘‘۔
مولانا آزاد فن تعلیم و تربیت اور پورے تعلیمی نظام پر دانشورانہ نگاہ رکھتے تھے اور دینی اور دنیوی تعلیم کے خلا کو پر کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا انھوں تعلیمی نصاب کی بہتری اور ہمہ گیریت پر زور دیا۔خود انھوں نے ڈائریکٹر تعلیم بنگال کی درخواست پر مدرسہ عالیہ کلکتہ کا ایک جامع نصاب تیار کیا۔ مولانا کی خواہش تھی کہ صرف رانچی اور کلکتہ کے مدارس ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان اور مسلم معاشرہ اس سے مستفید ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا نصاب تیار کیا جائے جو تمام علاقے میں قابل قبول ہو۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا تصورِ تعلیم ماضی کا ادراک، حال کی بصیرت اور مستقبل کی آگہی پر مبنی ہے۔ مولانا نے ایسی تعلیم کی وکالت کی ہے جو سائنسی تحقیقات اور بھاری صنعتوں کے شایان شان ہو۔ساتھ ہی ساتھ مولانا سائنسی، تکنیکی اور مادی ترقی کو مذہبی اور اخلاقی اقدار کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ مولانا آزاد کی دور بین نگاہ قدیم نظامِ تعلیم سے نکل کر جدید طرز تعلیم سے حاصل ہونے والی تبدیلی پر تھی۔ انہوں نے دینی نظام تعلیم میں مضامین کے تنوع اور جدت کی ضرورت کومحسوس کیا۔انھوں نے قومی تعلیمی پروگرام میں مذہبی تعلیم کے تعلق سے 13 جنوری 1948کو نئی دہلی میں ایک پروگرام کے خطبۂ صدارت میں اپنے نظریہ تعلیم پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ مولانا کہتے ہیںکہ ’’ایک چیز آپ بھول گئے۔ وہ چیز ہے تعلیم اور وقت اور زندگی کی چال کے غیر متعلق کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تعلیم ایسی ہونی چاہئے کہ زمانہ کی جو چال ہے، اس کے ساتھ جڑ سکے۔ اگر آپ مذہب اور عصردونوں ٹکڑوں کو الگ رکھیں گے تو وہ تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آج جو تعلیم آپ ان مدرسوں میں دے رہے ہیں، آپ وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں۔ نہیں جوڑ سکتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ میں اور آپ میں ایک اونچی دیوار کھڑی ہے۔ آپ کی تعلیم زمانے کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھتی اور ز مانہ نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کر دیا ہے‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے آج سے برسوں پہلے مدارس کے نظام تعلیم کے جن بنیادی نقائص کا ذکر کیا تھا، آج تک ان کے تدارک پر کوئی خاص ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ آج بھی بہت سے بلکہ بیشتر مدارس کی تعلیم عصری زندگی سے دوری پر مبنی ہے۔سرسید اور آزاد کے تعلیمی نظریات ایک ہی زمین کی پیداوار ہیں۔ سرسید نے بھی مسلمانوں کے دائیں ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سائنس کا خواب دیکھا تھا ۔
مسلمان صرف جدیدیت کا حامل یا صرف مذاہب میں مستغرق رہا۔ ہاں! کچھ مدارس نے تطبیق کی ابتدائی کوشش کی۔ یعنی مذہبی علوم کے ساتھ چند جدید علوم کی طرف بھی توجہ کی ہے جس کی روشن مثال ندوۃ العلما، لکھنؤ ہے۔ مولانا نے طریقہ تدریس پر بہت زور دیا اور مشرق و مغرب کی مشترک آگہی اور فرد و سماج کے باہمی شے کو صحیح تعلیم سے تعبیر کیا ہے۔ تعلیم کا مقصد نہ تو مادیت کا حصول ہے اور نہ ہی روزی روٹی کمانے کا ذریعہ بلکہ تعلیم کا مقصد انسان کی تعمیر نو اورایک ایسی شخصیت کی نشو و نما ہے جس سے فرد اور سماج کے مابین ایک پرا من ، صالح اور خوشگوار رشتے کی بنیاد رکھی جاسکے۔ مولاناآزاد کے تعلیمی نظریے کا اولین مقصد بھی یہی تھا۔
٭٭٭

Shairi Ka Ibtadai Sabaq by S.R. Farooqui

Articles

شاعری کا ابتدائی سبق

شمس الرحمن فاروقی

شمس الرحمن فاروقی کے درج ذیل نتائج، افکار اور تجاویز نہ صرف شعرا کے لیے کیمیا اثر ہیں بلکہ شعر و ادب کے ہر سنجیدہ طالب عالم کے لیے بھی یہ رہنما اصول کا درجہ رکھتے ہیں۔ فاروقی صاحب کی یہ تحریر ان کی مشہور تصنیف “تنقیدی افکار” سے ماخوذ ہے۔ اگرچہ اصل فہرست طویل ہے جسے سلسلہ وار پڑھنے کی تلقین صاحب کتاب نے کی ہے لیکن تنگیِ صفحات اور طلبہ کی ضرورتوں کے مد نظر ، میں اس کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔
1۔ موزوں، ناموزوں سے بہتر ہے۔
(الف)چونکہ نثری نظم میں موزونیت ہوتی ہے، اس لیے نثری نظم، نثر سے بہتر ہوتی ہے۔
2۔ انشا، خبر سے بہتر ہے۔
3۔ کنایہ، تصریح سے بہتر ہے۔
4۔ ابہام، توضیح سے بہتر ہے۔
5۔ اجمال، تفصیل سے بہتر ہے۔
6۔ استعارہ، تشبیہ سے بہتر ہے۔
7۔ علامت، استعارے سے بہتر ہے۔
(الف) لیکن علامت چونکہ خال خال ہی ہاتھ لگتی ہے ، اس لیے استعارے کی تلاش بہتر ہے۔
8۔ تشبیہ، مجرد اور سادہ بیان سے بہتر ہے۔
9۔ پیکر، تشبیہ سے بہتر ہے۔
10۔ دو مصرعوں کے شعر کا حسن اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ دونوں مصرعوں میں ربط کتنا اور کیسا ہے؟
11۔ اس ربط کو قائم کرنے میں رعایت بہت کام آتی ہے۔
12۔ مبہم شعر، مشکل شعر سے بہتر ہوتا ہے۔
13۔ مشکل شعر، آسان شعر سے بہتر ہوسکتا ہے۔
14۔ شعر کا آسان یا سریع الفہم ہونا اس کی اصلی خوبی نہیں۔
15۔ مشکل سے مشکل شعر کے معنی بہرحال محدود ہوتے ہیں۔
16۔ مبہم شعر کے معنی بہرحال نسبتاً محدود ہوتے ہیں۔
17۔ شعر میں معنی آفرینی سے مراد یہ ہے کہ کلام ایسا بنایا جائے جس میں ایک سے زیادہ معنی نکل سکیں۔
18۔ چونکہ قافیہ بھی معنی میں معاون ہوتا ہے، اس لیے قافیہ پہلے سے سوچ کر شعر کہنا کوئی گناہ نہیں۔
19۔ شعر میں کوئی لفظ، بلکہ کوئی حرف، بے کار نہ ہونا چاہیے۔ لہٰذا، اگر قافیہ یا ردیف یا دونوں پوری طرح کارگر نہیں ہیں تو شعر کے معنی کو سخت صدمہ پہنچنا لازمی ہے۔
20۔ شعر میں کثیر معنی صاف نظر آئیں، یا کثیر معنی کا احتمال ہو، دونوں خوب ہیں۔
21۔ سہل ممتنع کو غیر ضروری اہمیت نہ دینا چاہیے۔
22۔ شعر میں آورد ہے کہ آمد، اس کا فیصلہ اس بات سے نہیں ہوسکتا کہ شعر بے ساختہ کہا گیا یا غور و فکر کے بعد۔ آورد اور آمد، شعر کی کیفیات ہیں، تخلیق شعر کی نہیں۔
23۔ بہت سے اچھے شعر بے معنی ہوسکتے ہیں لیکن بے معنی اور مہمل ایک ہی چیز نہیں۔ اچھا شعر اگر بے معنی ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ مہمل ہے۔
24۔ قافیہ خوش آہنگی کا ایک طریقہ ہے۔
25۔ ردیف، قافیے کو خوش آہنگ بناتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردف نظم، غیر مردف نظم سے بہتر ہے۔
26۔ لیکن ردیف میں یکسانیت کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے قافیے کی تازگی ضروری ہے تاکہ ردیف کی یکسانیت کا احساس کم ہوجائے۔
27۔ نیا قافیہ، پرانے قافیے سے بہتر ہے۔
28۔ لیکن نئے قافیے کو پرانے ڈھنگ سے استعمال کرنا بہتر نہیں، اس کے مقابلے میں پرانے قافیے کو نئے رنگ سے نظم کرنا بہتر ہے۔
29۔ قافیہ بدل دیا جائے تو پرانی ردیف بھی نئی معلوم ہونے لگتی ہے۔
30۔ قافیہ، معنی کی توسیع بھی کرتا ہے اور حد بندی بھی۔
31۔ ہر بحر مترنم ہوتی ہے۔
32۔ چونکہ شعر کے آہنگ بہت ہیں اور بحریں تعدا دمیں کم ہیں، اس لیے ثابت ہوا کہ شعر کا آہنگ بحر کا مکمل تابع نہیں ہوتا۔
33۔ نئی بحریں ایجاد کرنے سے بہتر ہے کہ پرانی بحروں میں جو آزادیاں جائز ہیں، ان کو دریافت اور اختیار کیا جائے۔
34۔ اگر نئی بحریں وضع کرنے سے مسائل حل ہوسکتے تو اب تک بہت سی بحریں ایجاد ہوچکی ہوتیں۔
35۔ آزاد نظم کو سب سے پہلے مصرع طرح کے آہنگ سے آزاد ہونا چاہیے۔
36۔ اگر مصرعے چھوٹے بڑے ہیں تو بہتر ہے کہ ہر مصرعے کے بعد وقفہ نہ ہو۔
37۔ نظم کا عنوان اس کے معنی کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے بلاعنوان نظم ، عنوان والی نظم کے مقابلے میں مشکل معلوم ہوتی ہے، بشرطیکہ شاعر نے گمراہ کن عنوان نہ رکھا ہو۔ لیکن عنوان اگر ہے تو نظم کی تشریح اس عنوان کے حوالے کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔
38۔شعرکی تعبیر عام طور پر ذاتی ہوتی ہے، لیکن وہ جیسی بھی ہو اسے شعر ہی سے بر آمد ہونا چاہیے۔
39۔ آزاد نظم کا ایک بڑا حسن یہ ہے کہ مصرعوں کو اس طرح توڑا جائے یا ختم کیا جائے کہ اس سے ڈرامائیت یا معنوی دھچکا حاصل ہو۔ معرا نظم میں بھی یہ حسن ایک حد تک ممکن ہے۔
40۔ ہماری آزاد نظم بحر سے آزاد نہیں ہوسکتی۔
41۔ آزاد اور نثری نظم کے شاعر کو ایک حد تک مصور بھی ہونا چاہیے۔ یعنی اس میں یہ صلاحیت ہونا چاہیے کہ وہ تصور کرسکے کہ اس کی نظم کتاب یا رسالے کے صفحے پر چھپ کر کیسی دکھائی دے گی۔
42۔ قواعد، روزمرہ ، محاورہ کی پابندی ضروری ہے۔
43۔ لیکن اگر ان کے خلاف ورزی کر کے معنی کا کوئی نیا پہلو یا مضمون کا کوئی نیا لطف ہاتھ آئے تو خلاف ورزی ضروری ہے۔
44۔ لیکن اس خلاف ورزی کا حق اسی شاعر کو پہنچتا ہے جو قواعد، روزمرہ ، محاورہ پر مکمل عبور حاصل اور ثابت کرچکا ہو۔
45۔ مرکب تشبیہ، یعنی وہ تشبیہ جس میں مشابہت کے کئی پہلو ہوں، مفرد تشبیہ سے بہتر ہے۔
46۔ جذباتیت، یعنی کسی جذبے کا اظہار کرنے کے لیے جتنے الفاظ کافی ہیں، یا جس طرح کے الفاظ کافی ہیں، ان سے زیادہ الفاظ، یا مناسب طرح کے الفاظ سے زیادہ شدید طرح کے الفاظ استعمال کرنا ، بیوقوفوں کا شیوہ ہے۔
47۔ استعارہ جذباتیت کی روک تھام کرتا ہے۔ اسی لیے کم زور شاعروں کے یہاں استعارہ کم اور جذباتیت زیادہ ہوتی ہے۔
48۔ الفاظ کی تکرار بہت خوب ہے، بشرطیکہ صرف وزن پورا کرنے کے لیے یا خیالات کی کمی پورا کرنے کے لیے نہ ہو۔
49۔ شاعری علم بھی ہے اور فن بھی۔
50۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ شاعر خدا کا شاگرد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر کو کسی علم کی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ شاعرانہ صلاحیت اکتسابی نہیں ہوتی۔
51۔ شاعرانہ صلاحیت سے موزوں طبعی مراد نہیں۔ اگرچہ موزوں طبعی بھی اکتسابی نہیں ہوتی ، اور تمام لوگ برابر کے موزوں طبع نہیں ہوتے اور موزوں طبعی کو بھی علم کی مدد سے چمکایا جاسکتا ہے لیکن ہر موزوں طبع شخص شاعر نہیں ہوتا۔
52۔ شاعرانہ صلاحیت سے مراد ہے، لفظوں کو اس طرح استعمال کرنے کی صلاحیت کہ ان میں نئے معنوی ابعاد پیدا ہوجائیں۔
53۔ نئے معنوی ابعاد سے مراد یہ ہے کہ شعر میں جس جذبہ، تجربہ، مشاہدہ، صورت حال، احساس یا خیال کو پیش کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہم کسی ایسے تاثر یا کیفیت یا علم سے دو چار ہوں جو پہلے ہماری دسترس میں نہ رہا ہو۔
54۔ شاعری مشق سے ترقی کرتی ہے اور نہیں بھی کرتی ہے۔ صرف مشق پر بھروسا کرنے والا شاعر ناکام ہوسکتا ہے لیکن مشق پر بھروسا کرنے والے شاعر کے یہاں ناکامی کا امکان، اس شاعر سے کم ہے جو مشق نہیں کرتا۔
55۔ مشق سے مراد صرف یہ نہیں کہ شاعر کثرت سے کہے، مشق سے مراد یہ بھی ہے کہ شاعر دوسروں (خاص کر اپنے ہم عصروں اور بعید پیش روؤں) کے شعر کثرت سے پڑھے اور ان پر غور کرے۔
56۔ کیوں کہ اگر دوسروں کی روش سے انحراف کرنا ہے تو ان کی روش جاننا بھی ضروری ہے۔ دوسروں کے اثر میں گرفتار ہو جانے کے امکان کا خوف اسی وقت دور ہوسکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ دوسروں نے کہا کیا ہے؟
57۔ تمام شاعری کسی نہ کسی معنی میں روایتی ہوتی ہے، اس لیے بہتر شاعر وہی ہے جو روایت سے پوری طرح باخبر ہو۔
58۔ تجربہ کرنے والا شاعر، چاہے وہ ناکام ہی کیوں نہ ہوجائے،محفوظ راہ اختیار کرنے والے شاعر سے عام طور پر بہتر ہوتا ہے۔
59۔ تجربے کے لیے بھی علم شرط ہے۔ پس علم سے کسی حال میں مفر نہیں۔
٭٭٭
مشمولہ سہ ماہی اثبات ،شمارہ ۲

 

Urdu Mein Ghair Zabanun ke Alfaz by S.R. Farooqui

Articles

اردو میں غیر زبانوں کے الفاظ

شمس الرحمن فاروقی

غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں ‘‘دخیل’’ کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی تقریباً ہمیشہ ہو ئی ہے۔ لیکن شاعری میں اکثر اس اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف و نحو کی کتابوں میں بھی بعض اوقات اس اصول کے خلاف قاعدے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط اور افسوسناک ہیں۔ نحوی کا کام یہ ہے کہ وہ رواج عام کی روشنی میں قاعدے مستنبط کرے، نہ کہ رواج عام پر اپنی ترجیحات جاری کرنا چاہے۔ شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان رواج عام کی پابندی کرتے ہوئے زبان کی توسیع کرے، اس میں لچک پیدا کرے نہ کہ وہ رواج عام کے خلاف جا کر خود کو غلط یا غیر ضروری اصولوں اور قاعدوں کا پابند بنائے۔اردو میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف کئی طرح کا ہو سکتا ہے۔

(1) غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

فارسی لفظ ‘‘رنگ’’ پر عربی کی تاے صفت لگا کر ‘‘رنگت’’ بنا لیا گیا۔
فارسی ‘‘نازک’’ پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر ‘‘نزاکت’’ بنا لیا گیا۔
عربی لفظ ‘‘طرفہ’’ پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر ‘‘طرفگی’’ بنایا گیا۔
فارسی لفظ ‘‘دہ /دیہہ’’ پر عربی جمع لگا کر ‘‘دیہات’’ بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔
عربی لفظ ‘‘شان’’ کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہِ کیفیت لگایا اور ‘‘شاندار’’ بنا لیا۔
عربی لفظ ‘‘نقش’’ پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر ‘‘نقشہ’’ بنا یا، اس کے معنی بدل دیے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر ‘‘نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/ نقشہ نویسی؛ نقشہ باز’’ وغیر بنا لیے۔
عربی لفظ ‘‘تابع’’ پر فارسی لاحقہ ‘‘دار’’ لگا لیا اور لطف یہ ہے معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ ‘‘تابع’’ اور ‘‘تابع دار’’ ہم معنی ہیں۔

(2) غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

عربی ‘‘حد’’ پر اپنا لفظ ‘‘چو’’ بمعنی ‘‘چار’’ اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر ‘‘چو حدی’’ بنا لیا۔
عربی لفظ ‘‘جعل’’ کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر ‘‘جعلیا’’ بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فارعلی لگا کر ‘‘جعل ساز’’ بھی بنا لیا گیا۔
عربی لفظ ‘‘دوا’’ کو ‘‘دوائی’’ میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے ‘‘دوائیاں’’ بنائی۔
فارسی لفظ ‘‘شرم’’ پر اپنا لاحقہِ صفت بڑھا کر ‘‘شرمیلا’’ بنا لیا۔
فارسی لفظ ‘‘بازار’’ پر اردو لفظ ‘‘بھاؤ’’ لگا کر اردو قاعدے کی اضافت بنا لی گئی؛ ‘‘بازار بھاؤ’’۔

(3) اپنی زبان کے لفظ پر غیر زبان کا قاعدہ جاری کر کے نیا لفظ بنا لینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

‘‘اپنا’’ میں عربی کی تاے مصدری اور اس پر ہمزہ لگا کر ‘‘اپنائیت’’ بنایا گیا۔ لکھنؤ میں ‘‘اپنایت’’ بولتے تھے لیکن بعد میں وہاں بھی ‘‘اپنائیت’’ رائج ہوگیا۔ ‘‘آصفیہ’’ میں ‘‘اپنائیت’’ ہی درج ہے۔
اردو کے لفظ پر ‘‘دار’’ کا فارسی لاحقہ لگا کر متعدد لفظ بنائے گئے؛ ‘‘سمجھ دار، چوکیدار، پہرے دار’’ وغیرہ۔
اردو کے لفظ ‘‘دان’’ کا لاحقہ لگا کر بہت سے لفظ بنا لیے گئے ، جیسے:’’ اگلدان، پیک دان، پان دان ’’ وغیرہ۔

(4) غیر زبان کے لفظ سے اپنے لفظ وضع کرلینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

مصدر ‘‘گرم’’ سے ‘‘گرمانا’’؛’’شرم’’ سے ‘‘شرمانا’’ وغیرہ۔
اسم ‘‘نالہ’’ سے ‘‘نالش’’؛ ‘‘چشم’’ سے ‘‘چشمہ(بمعنی عینک)’’ وغیرہ۔
صفت ‘‘خاک’’ سے ‘‘خاکی’’ (رنگ، انگریزی میں Khaki کا تلفظ ‘‘کھیکی’’)

(5) غیر زبان کے طرز پر نئے لفظ بنا لینا۔ مثلاً حسب ذیل لفظ فارسی / عربی میں نہیں ہیں، اردو والوں نے وضع کیے ہیں:

بکر قصاب؛ دل لگی؛ دیدہ دلیل؛ ظریف الطبع؛ قابو پرست؛ قصائی؛ ہر جانہ؛ یگانگت وغیرہ۔

(6) اپنا اور غیر زبان کا لفظ ملا کر، یا غیر زبان کے دو لفظ ملا کر اپنا لفظ بنا لینا، مثلاً:

آنسو گیس (اردو، انگریزی)؛ بھنڈی بازار (اردو، فارسی)؛ خود غرض (فارسی، عربی)؛ گربہ قدم (فارسی، عربی) وغیرہ
جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے، دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔ہمارے یہاں یہ طریقہ عام ہے کہ کسی لفظ یا ترکیب یا اس کے معنی کے لیے فارسی سے سند لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ فارسی میں ایسا ہے، اس لیے اردو میں بھی ٹھیک ہے۔ یہ طریقہ صرف اس حد تک درست ہے جب تک فارسی کی سند ہمارے روزمرہ یا ہمارے رواج عام کے خلاف نہ پڑتی ہو۔
‘‘فارسی میں صحیح ہے اس لیے اردو میں صحیح ہے’’، یہ اصول بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ اصول کہ ‘‘فارسی [یا عربی] میں غلط ہے، اس لیے اردو میں بھی غلط ہے۔’’
مثال کے طور پر ‘‘مضبوط’’ کو جدید فارسی میں ‘‘مخزون’’ کے معنی میں بولتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مثلاً ‘‘یہ کتاب نیشنل لائبریری میں مخزون ہے’’۔ یہاں فارسی والا ‘‘مضبوط’’ کہے گا۔ ظاہر ہے کہ فارسی کی یہ سند اردو کے لیے بے معنی ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اردو نے فارسی /عربی سے بے شمار الفاظ ، محاورات اور تراکیب حاصل کیے ہیں۔لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر اردو میں کسی عربی/فارسی لفظ کے بارے میں کوئی بحث ہو تو ہم عربی/فارسی کی سند لا کر جھگڑا فیصل کرلیں۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ عربی /فارسی کی سند ہمارے رواج عام یا روزمرہ کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً لفظ ‘‘کتاب’’ کی جنس کے بارے میں اختلاف ہو تو یہ سند فضول ہوگی کہ عربی میں ‘‘کتاب’’مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے۔ اسی طرح، اگر یہ سوال اٹھے کہ ‘‘طشت از بام ہونا’’ صحیح ہے کہ نہیں، تو یہ استدلال فضول ہوگا کہ فارسی میں ‘‘طشت از بام افتادن’’ ہے، لہٰذا اردو میں بھی ‘‘طشت از بام گر پڑنا’’ ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، ‘‘سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا’’، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ ‘‘طشت’’ کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:’’طشت از بام افتاد’’۔ ظاہر ہے کہ یہ ضد کرنا بھی غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے۔
یا مثلاً اردو میں ‘‘لطیفہ’’ کے معنی ہیں، ‘‘کوئی خندہ آور چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا’’۔ یہ معنی نہ فارسی میں ہیں نہ عربی میں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اردو میں رائج معنی کو اس بنا پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص ‘‘لطیفہ’’ کو اردو میں ‘‘سخن خوب و نیکو’’ ، یا ‘‘اچھی چیز، اچھائی’’ کے معنی میں استعمال کرے اور کہے کہ (مثلاً) ‘‘مقدمہ شعر و شاعری لطیفوں [یا لطائف] سے بھری ہوئی ہے’’ درست استعمال ہے ، کیوں کہ فارسی میں ‘‘لطیفہ’’بمعنی ‘‘سخن خوب’’ اور عربی میں بمعنی ‘‘اچھی چیز’’ وغیرہ ہے، تو اس کی بات قطعی غلط قرار دی جائے گی۔لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو پر غیر زبانوں، خاص کر عربی /فارسی کے قاعدے جاری کرنا درست نہیں ہے، اس لے کو جتنا دھیما کیا جائے ، اچھا ہے۔
٭٭٭
[بحوالہ : ‘‘لغات روزمرہ’’، تیسرا اضافہ و تصحیح شدہ ایڈیشن]

 

Chacha Chakkhan 2 BY Imtiyaz Ali Taj

Articles

چچاچھکن نے دھوبن کو کپڑے دیے

امتیاز علی تاج

چچی ایک دو بار نہیں بیسیوں مرتبہ چچا چھکن سے کہہ چکی ہیں کہ” باہر تمھارا جو جی چاہے کیا کرو مگر خدا کے لیے گھر کے کسی کام میں دخل نہ دیا کرو۔آپ بھی ہلکان ہوتے ہو ،دوسروں کو بھی ہلکان کرتے ہو۔سارے گھر میں ایک ہڑ بڑ ی سی پڑ جاتی ہے، میرا دم الجھنے لگتا ہے اور پھر تمھارے کام میں ،میں نے نقصان کے سوا کبھی فائدہ ہوتے بھی تو نہیں دیکھا۔تو ایسا ہاتھ بٹانا بھلا میرے کس کام کا؟“
چچا اس قدر ناشناسی سے کھج جاتے ہیں۔ چڑ کر کہتے بھی ہیں۔”بھلا صاحب کان ہوئے ،پھر کبھی آپ کے کام میں دخل دیا تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔“لیکن دخل در معقولات کا انھیں کچھ ایسا لا علاج مرض ہے کہ جہاں کوئی موقع ملا،پھر لنگوٹ کس کے تیار۔
آج ہی دوپہر کی سنیے۔ چچی کا جی اچھا نہ تھا ،گلا آگیا تھا۔اس کی وجہ سے ہلکی ہلکی حرارت بھی تھی منہ ،سر، لپیٹے دالان میں پڑی تھیں کہ دھوبن کپڑے لینے آگئی۔چچی نے کہا ”بریٹھن آج تو میرا جی اچھا نہیں کل پرسوں آجائیو تو میلے کپڑے دے دوں گی۔“
دھوبن بولی۔”بیوی جی !بریٹھا آج رات بھٹی چڑھا رہا تھا ،کپڑے مل جاتے تو آٹھویں دن میں دے جاتی نہیں تو وہی دس پندرہ دن لگ جائیں گے۔“
چچی نے کہا۔”اب جو ہو سو ہو ،مجھ میں تو اٹھ کر کپڑے دینے کی ہمت نہیں۔“
چچا چھکن پرلے دالان میں بیٹھے میاں مٹھوکو سبق پڑھا رہے تھے ،کہیں چچی کی بات سن پائی ،انھیں ایسے موقعے اللہ دے۔جھٹ ادھر آ پہنچے۔بولے۔ ” کیا بات ہے؟کپڑے دینے ہیں دھوبن کو؟ہم دے دیتے ہیں۔“
چچی بولیں۔”اے خدا کے لیے تم رہنے دینا۔ہلکم ڈالو گے۔ سارے گھر میں۔ پہلے ہی میرا جی اچھا نہیں ہے۔کل پرسوں اللہ چاہے تو میں آپ اٹھ کر دے دوں گی۔“
چچا کب رکنے والے ہیں بھلا۔اللہ جانے کام ہی کا جنون ہے،یا گھر کے کاموں سے طبیعت کو خاص مناسبت ہے،یا روک دیے جانے میں انھیں اپنے سلیقے اور سگھڑاپے کی توہین نظر آتی ہے ،بولے۔”واہ بھلا کوئی بات ہے۔یہ ایسا کام ہی کیا ہے ،ابھی نمٹائے دیتے ہیں۔“
چچی جانتی ہیں وقت پر چچا کب کسی کی سنتے ہیں ،وہ تو بڑ بڑاتی ہوئی کروٹ لے پڑرہیں اور چچا چلے دھوبن کو کپڑے دینے۔چچی ٹوک چکی تھیں ،اس لیے آپ نے نہ تو کسی ملازم کو آواز دی ،نہ کسی بچے کو بلایا ،نہ کسی سے یہ پوچھا کہ کس کے کپڑے کہاں پڑے ہیں ،خود ہی گھر کے جالے لینے شروع کر دیے۔جو کپڑا نظر آیا خود ہی آنکھوں کے سامنے تان کرپرکھا یا، نیچے پھیلا کر دیکھ لیا۔”کمبخت پتا بھی تو نہیں چلتا کہ پہننے کا کپڑا ہے یا جھاڑن بن چکا ہے۔چماروں کے بچے بھی تو اس سے اچھی طرح کپڑا پہنتے ہوں گے۔“کسی کپڑے کو چھوڑا ،کسی کو بغل میں دبایا ،کہیں جھک کر چار پائی کے نیچے جھانکا ،کہیں ایڑیاں اٹھا کر الماری کے اوپر نظر ڈالی۔ معلوم ہوتا تھاآج چچا نے قسم کھا لی ہے کہ جو کام ہوگا آپ ہی کریں گے۔لیکن آخر کب تک ؟چچا چھکن کے لیے تو اللہ میاں بہانے پیدا کر دیتے ہیں۔کپڑوں کی تلاش میں اسباب کی کوٹھری میں گئے تھے ،پانچ منٹ بعداندر سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔
لیجئے صاحب حسبِ معمول سارا گھر چچا میاں کے گرد جمع ہو گیا اور آپ نے سنانے شروع کر دیے اپنے احکام۔
”اب کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو ؟جمع کرو میلے کپڑے۔پر دیکھو رہ نا جائے کوئی۔ایک ایک کونا دیکھ لیجیو۔دالان میں ڈھیر لگا دو سب کا۔بندو تو ہمارے کمرے میں سے میلے کپڑے سمیٹ لا۔دو تین جوڑے تو چار پائی کے نیچے حفاظت سے لپٹے رکھے ہیں ،وہ لیتا آئیو۔ اور سننا، وہ چھٹن یا بنو کا ایک کرتا بانس پر لپٹا ہوا کونے میں رکھا ہے۔پرسوں کمرے کے جالے اتارے تھے ہم نے وہ بھی کھولتا لائیو۔اور دیکھ۔۔۔ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے کم بخت۔پوری بات ایک مرتبہ نہیں سن لیتا۔ایک بنیان ہمارا آتش دان میں رکھا ہے۔بوٹ پونچھے تھے اس سے۔وہ بھی لیتا آنا۔جا بھاگ کر جا۔امامی تو بچوں کے کپڑے جمع کر۔ہر کونے اور طاق کو دیکھ لیجیو۔یہ بد معاش کپڑے رکھنے کو نئی سے نئی جگہ نکالتے ہیں۔“
نوکر روانہ ہوئے تو بچوں کی باری آگئی۔”کہاں گئے یہ سب کے سب ؟او چھٹن!لیجئے ملاحظہ فرمائیے آپ کی صورت!ارے یہ کیا حال بنایا ہے ؟کوئلوں میں کہاں جا گھسا تھا ؟اتا ر اپنے کپڑے۔نئے کپڑے پھر ملیں گے۔پہلے میلے کپڑے یہاں لا کر رکھ۔ اور یہ بنو کدھر گئی ؟میں کہتا ہوں آخر یہ مرض کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو جہاں کام کی صورت دیکھی کھسک جانے کی ٹھہرا لی۔ چلو اندر ایک کاغذاور پنسل لا کر دو ہمیں۔آخر لکھے بھی جائیں گے کپڑے یا نہیں ؟للّو! تم بستروں میں سے میلی چادریں اور تکیوں کے غلاف نکال لاو¿۔“
غرض ایک پانچ منٹ میں گھر کی یہ حالت ہو گئی گویا آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے۔کوئی اِدھر بھاگ رہا ہے، کوئی ا±دھر۔ کوئی چار پائی کے نیچے سے نکل رہا ہے ،کوئی کونے جھانکتا پھر رہا ہے ،کسی نے لپٹے ہوئے بستر سے کشتی شروع کر رکھی ہے ،کوئی کپڑے اتار تولیہ لپیٹے بھاگا جا رہا ہے۔ساتھ ساتھ چچا کے نعرے بھی سننے میں آرہے ہیں۔”ارے آئے ؟ابے لائے؟سب کے ہاتھ پاو¿ں پھول رہے ہیں۔سٹی گم ہے۔ٹکریں لگ رہی ہیں۔
کوئی آدھ گھنٹے کی محنت سے سارے کپڑے دالان میں جمع ہوئے۔نوکر اور بچے کپڑوں کے ڈھیر کے گرددائرہ باندھے کھڑے ہیں۔صورتیں سب کی ایسی ہیں گویا سوانگ بھر رکھا ہے۔ کسی کے منہ پر مٹی پڑی ہے۔ کسی کے بال مٹیالے ہو رہے ہیں۔کسی کے کپڑوں پر جالے لگے ہوئے ہیں۔ چچا چار پائی پر بیٹھے ایک ایک کپڑے کا معائنہ فرما رہے ہیں۔ہر کپڑے کو انگلی کے سروں سے اٹھا کر دیکھتے ہیں۔کبھی بچوں کو کوستے ہیں کہ کم بختوں کو کپڑا پہننے کا سلیقہ نہیں آتا۔کبھی دھوبن کو ڈانٹتے ہیں ہیں کہ خبر دار جو ایک داغ بھی باقی رہا۔کہیں بیچ میں وہ بنیان بھی ہاتھ آگیا جس سے آپ نے بوٹ پونچھے تھے۔خیال نہ رہا کہ یہ اپنی ہی کاروائی ہے۔برس پڑے۔”اب دیکھوتو اس کی حالت۔ یہ انسانوں کا برتا ہوا معلوم ہوتا ہے؟اللہ جانے بدتہذیب کہاں کہاں۔۔۔“
داغ اچھی طرح دیکھنے سے چچا کو یاد آگیا کہ یہ بنیان ان کے اپنے کمرے کے آتشدان میں سے بر آمد ہوا ہوگا۔چنانچہ فوراًکپڑوں میں ملا دیا اور ارشاد ہوا۔”چلو اب جو ہے سو ہے۔لو اب کپڑوں کو الگ الگ کرو کہ کون سا کپڑا کس کا ہے ؟“
دس ہاتھ کپڑ ے الگ الگ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ہر ایک کو اپنی کارگزاری دکھانے کا خیال۔ دھوبن چیخ رہی ہے۔”اے میاں جانے دو۔ اے بھائی رہنے دو۔ میں ابھی آپ الگ الگ کر دوں گی۔“مگر بچے کہاں سنتے ہیں۔کوئی کہتا ہے”یہ میری قمیص ہے۔کوئی کہتا ہے ”تمھاری کہاں سے آئی۔ ”یہ تو میری ہے۔“ کسی کا کوٹ پر جھگڑا ہے۔ کسی کا واسکٹ پر۔کوئی کرتے کی ایک آستین کھینچ رہا ہے ،کوئی دوسری۔ کسی کی پاجامے کے پائنچوں پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔ کپڑے چر ر چرر پھٹ رہے ہیں۔چچا سب کے ناموں کی فہرست بنانے میں مشغول ہیں۔بیچ میں سر اٹھا اٹھاکر ڈانٹتے بھی جا رہے ہیں۔”پھاڑ دیا نا ؟ اب کے بنانے کو کہیو کوئی نیا کپڑا۔جو ٹاٹ کے کپڑے نہ بنا کر دیے ہوں۔ چلے جاو¿ سب یہاں سے۔ ہم اکیلے سب کام کر لیں گے۔“
بچوں اور نوکروں کا قافلہ رخصت ہوا اور دھوبن کے ساتھ مل کر فہرست بننی شروع ہوئی۔ اسے ہدایت دی گئیں کہ” دیکھ ہم پوری فہرست بنائیں گے کپڑوں کی۔سب کے کپڑے جدا جدا لکھوانے ہوں گے۔اور ساتھ ہی بتانا ہوگا کہ اتنے کپڑے گرم ہیں، اتنے ریشمی، اتنے سوتی۔“
دھوبن بولی۔”یوں ہی تو ہمیشہ لکھے جاتے ہیں۔“
چچا کو اپنی اس قابلِ قدر اور مہتمم بالشان تجویز کی داد نہ ملی تو آپ دھوبن سے چڑ گئے۔”پگلی کہیں کی۔ہر روز تو گھر میں ہلڑ مچا رہتا ہے کہ اس کی قمیص بدل گئی ،اس کا پاجامہ نہیں ملتا۔اور کہتی ہے کہ یوں ہی لکھے جاتے ہیں کپڑے۔یوں کسی کو لکھنا آتا تو یہ روز روز کی جھک جھک کیوں ہوا کرتی ؟“
دھوبن چپکی ہو رہی۔کپڑے گننے شروع کر دیے۔پر اب پہلے ہی کپڑے پر نئی بحث چھڑ گئی۔دھوبن کہے کہ یہ قمیص چھٹن میاں کی ہے ۔چچا مصر ہیں کہ نہیں بنو کی ہے۔ دھوبن کہتی ہے۔”میں کیا پہلی بار کپڑے لے جا رہی ہوں۔اتنی بھی پہچان نہیں مجھ کو؟“چچا کہتے ہیں۔” احمق کہیں کی۔کپڑا بازار سے لاتے ہیں ہم ،سلواتے ہیں ہم ،روز بچوں کو پہنے ہوئے دیکھتے ہیں ہم اور پہچان تجھے ہو گی ؟“شہادت کے لیے بندو کو بلوایا گیا۔چچا نے اس سے پوچھا۔یہ قمیص بنو ہی کی ہے نا؟بندو کی کیا مجال کہ میاں کی تردید کرے۔ڈرتا ڈرتا بولا۔”معلوم تو کچھ ان ہی کی سی ہوتی ہے۔پر وہ آپ ہی ٹھیک ٹھیک بتائیں گی۔“بنو کی طلبی ہوئی۔ وہ آتے ہی بولیں۔”واہ یہ پھٹی پرانی قمیص میری کیوں ہوتی، چھٹن ہی کی ہوگی۔“
دھوبن کو چچا کے مزاج کی کیفیت کیا معلوم، کہہ بیٹھی ’ ’میں نہ کہتی تھی۔“چچا کو آگ لگ گئی۔” اولیاکی بچی ہیں نہ یہ تو۔انہیں کیوں نہ معلوم ہوگا۔منہ پھٹ بدتمیز کہیں کی۔دوسرا دھوبی رکھ لوں گا میں۔“
کامل ایک گھنٹے کی محنت کے بعد کہیں فہرست بن کر تیار ہوئی کہ کون سا کپڑا کس کا ہے۔اور کس کے کپڑے کتنے ہیں۔اب جناب ادھر دھوبن سے کہا گیا کہ تو سب کے کپڑے گن ،ادھر اپنی فہرست کی میزان ملانی شروع کی۔دھوبن گنتی ہے تو ا نسٹھ عدد بنتے ہیں۔چچا اپنی میزان ملاتے ہیں تو اکسٹھ کپڑے ہوتے ہیں۔دھوبن باربار کہتی ہے۔”میاں ٹھیک طرح جوڑو انسٹھ ہی ہیں۔“پر چچا ہیں کہ بگڑے جا رہے ہیں۔”تیرا جوڑنا ٹھیک اور ہمارا جوڑنا غلط ہو گیا ؟جاہل کہیں کی۔اٹھ کر دیکھ نیچے دبائے بیٹھی ہو گی “۔دھوبن غریب ہر طرف دیکھتی ہے۔بار بار کپڑے گنتی ہے۔وہی انسٹھ نکلتے ہیں۔چچا کی نظروں کے سامنے بھی ایک مرتبہ گن دیے۔وہی انسٹھ ہی نکلے۔ آخر نئے سرے سے تمام کپڑوں کا مقابلہ کیا گیا۔کوئی گھنٹہ بھر کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دھوبن نے بتائے تھے دو جوڑی موزے اور چچا نے لکھے تھے چار۔دھوبن انھیں دو عدد گنتی تھی اور چچا چار عدد۔اس پر پھر بیچاری دھوبن کے لتے لیے گئے۔”جوڑی کیا معنی؟چار نہیں تھے موزے ؟یوں تو چارر و مالوں کو بھی دو جوڑی لکھوا دے تو یہ ہمارا قصور ہو گا؟لے کر اتنا وقت مفت میں ضائع کر وا دیا۔ساری عمر کپڑے دھوتے گزر گئی اور ابھی تک کپڑے گننے کا سلیقہ نہیں آیا۔“
بارہ بجے دھوبن آئی تھی ،چار بجے رخصت ہوئی۔چچا چھکن فراغت پانے کے بعد فہرست چچی کو دینے آئے۔بولے۔” نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو۔“
چچی جلی ہوئی تھیں ،بولیں۔”گھر پر قیامت بھی تو گزر گئی۔کوئی بچہ ننگ دھڑنگ پھر رہا ہے ،کوئی غسل خانے میں کپڑوں کے لیے غل مچا رہا ہے۔دھوبن دکھیا الگ کھسیانی ہو کر گئی ہے۔آدھا دن بر باد کر کے کس مزے سے کہتے ہیں کہ نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو۔“
چچا چڑ گئے۔”تمہیں کبھی پھوٹے منہ سے داد کے دو لفظ کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔“
چچا روٹھ کر چار پائی پر پڑ رہے۔
چچی نے پوچھا۔”پاجاموں میں سے ازار بند بھی نکال لیے تھے ؟“چچا کی آنکھیں کھلیں مگر جواب نہ دیا۔بڑے مناسب وقت پر روٹھ گئے تھے۔
اتنے میں فہرست دیکھ کر چچی بولیں۔”اور یہ میری ریشمی قمیص کون سی ؟ہلکے فیروزی رنگ کی ؟اے غضب خدا کا۔میں نے تو وہ استری کرنے کو الگ رکھی تھی۔کم بخت دو کوڑی کی کر لائے گی۔اور اس میں سے میرے سونے کے بٹن بھی اتار لیے تھے یا نہیں ؟“
اب تک تو چچا کی تیوری چڑھی ہوئی تھی ،سونے کے بٹن کا سنا تو ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔
”بٹن ؟سونے کے ؟تمھارے ؟تمہیں میری قسم !وہ تو نہیں اتارے ہم نے۔“
جوتی پہنتے ہوئے چچا باہر بھاگے۔”ارے بھئی چلی گئی دھوبن !او بندو چلی گئی دھوبن !ارے امامی کدھر گئی دھوبن ؟ارے دوڑیو،ارے بھئی جانا ،پکڑنا، لے کر آو¿ منہ کیا تکتے ہو، سونے کے بٹن لے گئی، اماں سونے کے بٹن، تمھاری چچی کے۔ اس کا گھر کدھر ہے ؟چوک سے مڑ کر کدھر کو ؟اماں خونچے والے !کسی دھوبن کو جاتے دیکھا ہے ؟ار بھئی ریوڑیوں والے ! کوئی دھوبن ادھر تو نہیں گئی ؟۔۔۔او بھائی گنڈیریوں والے !کوئی دھوبن ……دائیں ہاتھ کو ؟اس طرف کو؟۔۔۔؟۔۔۔ابھی تک چچا بٹن لے کر واپس نہیں آئے۔
٭٭٭

“In The Country of Butterflies” A Short Story by Pearl S. Buck

Articles

تتلیوں کے دیس میں

پرل۔ایس۔بک

مترجم قاسم ندیم

آج میں آپ کو اپنی ماں کے بارے میں بتاﺅں گا۔چین کی پرانی تہذیب نے ماں کو بڑی اہمیت دی ہے۔جب چین کے گاﺅں دیہاتوں سے فوج ،جوان لڑکوں کو زبردستی پکڑ کر لے جاتی تھی، تب وہ کسی اور کو نہیں، ماں کو پکارتے تھے۔یا نگسی ندی کے کنارے ہمارا گاﺅں تھا۔گھر ایسے تھے جیسے وہ بنائے نہ گئے ہوں صرف ان کاڈھیر لگادیا گیاہو۔ہمارا گھر جیسا بھی تھا گاﺅں کا سب سے اچھا گھر تھا۔کیوں کہ ہم کھاتے پیتے لوگ تھے۔ہمارے پاس کم ازکم بیس ایکڑ زمین تھی۔ میرے والد کی دھاک صرف زمین کی وجہ سے نہیں تھی،بلکہ ان کی بہت ہی خوبصورت داشتہ کے سبب بھی تھی، جو میری ماں تھی۔
میرا ایک بڑا بھائی بھی تھاجو پانچ سا ل کی عمر میں ہی مرگیاتھا۔میری پیدائش اس کے بعد ہوئی ۔مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ میری ماں مجھ سے زیادہ اسے پیار کرتی تھی۔شاید اس لیے کہ وہ بیٹا اس کی جوانی کا خواب تھا اور میری پیدائش کے وقت میری ماں کی عمر ڈھل چکی تھی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجھ سے بالکل بے خبر تھی،بلکہ وہ ہمیشہ میرے زمیندار باپ کو تاکید کرتی تھی وہ میرا بھی اتنا ہی خیال رکھے،جتنا کہ وہ اپنے قانونی بچوں کا رکھتا ہے۔اس لیے میں اپنی ماں کا احسان مند ہوں۔
پھر وقت نے کروٹ لی۔نئے خیالا ت کے لوگوں نے میرے باپ کو حراست میں لے لیا۔ صرف اس لیے کہ وہ زمیندار تھا۔ زمینداروں پر کسانوں نے الزامات لگائے تھے۔وہ بھول گئے تھے کہ میرا باپ ان کے آڑ ے وقتوں میں مدد کرتا تھا۔فصل کی کٹائی کے موقع پر وہ اپنا حصہ چھوڑدیتا تھا،ان کے لڑائی جھگڑے نپٹاتا تھا اور اپنی جیب سے بھی ان کی مدد کرتا تھا۔لیکن شاید ان کی زیادہ غلطی نہیں تھی،کیوں کہ اگر وہ الزام عائد نہ کرتے تو نئے خیالات کے لوگوں کے ہاتھوں سے خود سزاپاتے۔
سبھی زمینداروں کو مرجانا چاہیے تاکہ نئے سماج کی بنیاد مضبوط ہوسکے۔ہمارے اپنے باغیچے میں ہی ایک اونچے پیڑ کے ساتھ میرے والد کو الٹا باندھ دیاگیاتھااورا س کی جیتے جی کھال اتاری گئی تھی۔ہمیں زبردستی سامنے کھڑاکرکے سب دکھایا گیاتھا۔
پھر میری سوتیلی ماں اور اس کے بچوں کو کہاں روانہ کردیاگیا،مجھے پتہ نہیں چلا۔ میں، میری بیوی اور میری ماں ایک کمرے میں بند کردیئے گئے۔اس کمرے میں جہاں پہلے ہمارا چوکیدار رہتا تھا۔ مجھے ایک کوآپریٹیو دکان میں بہی کھاتا سنبھالنے کاکام دیاگیا ،کیوں کہ میں کچھ پڑھا لکھا تھا۔ اس کے علاوہ ندی کے کنارے بنیادوں کی کھدائی کے لیے بھی مجھے کئی گھنٹے کام کرناپڑتا تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ وہاں ایک پُل تعمیر ہوگا۔کنارے کی مٹی ایسی تھی کہ گرمی میں سوکھ کر پتھر بن گئی تھی۔ میری بیوی کو بھی اس کام کے لیے میرے ساتھ لگادیاگیاتھا۔ہم جب رات کوگھر لوٹتے تھے تو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی طاقت بھی ہمارے بدن میں نہ ہوتی۔
ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ روٹی کا تھا۔میری بوڑھی ماں سارا دن گھر میں رہتی۔ میرے باپ کی بھیانک موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس کا دماغی توازن بگڑگیاتھا۔اس لیے وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں تھی۔اسی لیے اسے راشن نہیں ملتا تھا۔میں اورمیری بیوی اپنا راشن اس کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
اس لیے تینوں ہی ہر روز بھوکے رہتے تھے۔یہ راشن کا بھیدصرف ہمیں ہی پتہ تھا۔مگر ماں ہر روز حیرت کرتی کہ گھر میں پیٹ بھر کھانے کو کیوں نہیں ملتا۔پہلے اس کے کھانے میں ہر روز سور کا گوشت اور مچھلی ہوتی تھی۔اب اسے حیرت تھی کہ ہم گوشت کیوں نہیں پکاتے۔راشن کے مطابق ہمیں ایک بار مہینے میں گوشت ملتا۔وہ بھی اتنا کم کہ صرف ایک انسان کھاسکے، اس لیے ہم ماں کو کھلادیتے۔
ہمیں پوری مزدوری کبھی نہیں ملتی تھی۔بتایا جاتا تھا کہ اس کا کچھ حصہ ہمارے نام جمع ہورہا ہے۔ مگر وہ حصہ کیوں اور کہاں جمع ہوتاتھا،ہمیں کچھ نہیں پتہ تھا۔ہم سب صرف یہ جانتے تھے کہ ہمیں انسان کے روپ میں نہیں بلکہ ایک عظیم ہجوم کے روپ میں زندہ رہنا ہے۔میں بہت چاق و چوبند رہتا تھا لیکن ماں کئی بار ہمیں مشکل میں ڈال دیتی تھی۔
ایک بار تو بہت بڑی مشکل کھڑی ہوگئی۔بات یہ ہوئی کہ میں اورمیری بیوی کام پر گئے ہوئے تھے ،ہماری غیر موجودگی میں ہمارے گھر کسی جاسوس کو بھیجا گیا۔بیچاری ماں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ بہت دنوں کے بعد کوئی گھر میں آیاتھا۔
ماں نے اپنی عادت کے مطابق اس کا خیرمقدم کیا۔اس کے لیے چائے بنائی تو پورے چار گرام چائے کی پتی خرچ کردی۔میری بیوی نے کچھ چاول سنبھال کررکھے تھے(ہماری پوری ایک دن کی خوراک)مگر ماں نے اس کا پلاﺅ بناکر مہمان کو کھلادیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پر جمع خوری کا الزام لگایاگیاکمیون کے کامگار آئے اور ہمارے برتن اٹھاکر لے گئے۔ہم سے کہاگیا کہ گھر میں کھانے کے بجائے ہم مشترکہ رسوئی گھر میں کھانا کھائیں۔ میری بیوی کو وہاں روٹی پکانے پر معمورکردیاگیا۔لیکن میری ماں چونکہ کوئی کام نہیں کرتی تھی، اس لیے اس کے کھانے کے لیے کوئی رسید نہیں ملی تھی۔
یہ بہت بڑامسئلہ تھا۔میں کمانڈر سے ملا۔لیکن اس نے کہا کہ میری ماں کو اس حالت میں کھانے کی اجازت نہیں مل سکتی۔میں نے اسے بتایا کہ میری ماں کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔اس لیے وہ کوئی کام نہیں کرسکتی۔
تب کمانڈر نے اسے بچوں کی ایک نرسری میں کچھ دیکھ بھال کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے ماں کواس کام پر بھیج دیا۔کھانے کی اجازت مل گئی۔لیکن عجیب مصیبتیں شروع ہوگئیں۔یہ شاید نہ ہوتیں، اگر وہ نرسری ہمارے ہی پرانے مکان میں نہ بنتی۔ماں کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پھر بھی بیٹھے بیٹھے اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نے یہ مکان کبھی نہ کبھی دیکھا ہے۔
مکان کی شکل بدل چکی تھی۔باغیچہ تباہ ہوچکاتھا۔پہلے اس میں پارٹی کا ہیڈکوارٹرتھا پھر ٹوکریوں کا کارخانہ شروع کردیا گیا۔فوجیوں کے بیرک بھی بنائے گئے تھے اور اب وہاں نرسری شروع کی گئی تھی۔ماں کی دماغی حالت نے،تصور میں اس کا نیا روپ اپنالیاتھا۔چوں کہ زمیندار کی بیوی ہونے کی بجائے وہ اس کی داشتہ تھی۔اس لیے اسے بہتر جگہ نہیں دی گئی تھی۔نرسری کے سارے بچے زمینداروں کے بچے تھے۔ایک دن اس نے نرسری کی دیکھ بھال کے لیے تعینات عورت سے کہہ دیا کہ اس کے ساتھ نوکروں جیسا برتاﺅ نہ کیا جائے۔وہ مالکن ہے اور وہ باہر باغیچے میں کرسی لگاکر بیٹھے گی۔
اس عورت کے مزاج میں پختگی نہیں تھی۔بات بہت آگے تک بڑھ جاتی،مگر میں نے کسی طرح اس کی منتیں کرکے اسے اطمینان دلایا۔بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن کچھ ہی دن بیتے تھے کہ نرسری میں پانچ سال کا ایک پیارا سا بچہ لایا گیا۔
میری ماں نے جیسے ہی اسے دیکھا،اسے لگاکہ یہ وہی بچہ ہے جو پانچ سال پہلے اس کے پاس سے  کھوگیاتھا۔میری ماں کو اس بچے سے پیار ہوگیا۔
وہ بہت بڑا جرم تھا،کیوں کہ ہمیں تعلیم دی گئی تھی کہ ہم بچوں سے پیارنہ کریں۔پیار ومحبت سے بچے کمزور ہوجاتے ہیں اور اس کے احساس میں وہ ایک انسان کا تصور کرتے ہیں جوا نہیں پیارکرتا ہے۔
انہیں کسی ایک انسان کے بارے میں نہیں بلکہ ایک ہجوم کے بارے میں سوچنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ چھوٹے بچے جب ماں کو بہت یاد کرتے تھے تو انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔اس کا ایک ہی علاج اپنایا جاتا کہ ان سے بہت زیادہ کام کروایا جائے۔جھاڑو لگانے کا،کوڑاکرکٹ پھینکنے کا،گھاس کھودنے کا مگر وہ بچہ بہت ہی کمزور تھا۔ہر وقت روتا رہتا۔ایسے بچوں کے لیے کام کا بوجھ بڑھایاجاتا تھا۔
جب اسے بھاری کام سے لگایا جاتا تو ماں سے دیکھا نہ جاتا۔ماں اس کے سارے کام کردیتی۔اس لیے ماں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اسے نرسری کے کام سے ہٹاکر کسی دوسرے مقام پر بھیج دیاجائے گا، لیکن ماں وہاں سے کہیں جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔وہ بچے کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کرسکتی تھی۔بہت سمجھانے پر وہ دن میں بچے سے دور رہتی،مگر رات ہوتے ہی بچے کو سینے سے لگالیتی۔ ماں نے بچے کو اپنا بیٹا سمجھ لیاتھا۔
ماں ایک دن فرش صاف کررہی تھی کہ اس کی یادداشت لوٹ آئی۔ زمینداری کے دنوں میں کچھ ہیرے اس کے پاس تھے،جو اس نے افراتفری کے دنوں میں ایک کمرے میں دبا دیئے تھے۔ اب اس کمرے کا فرش دھوتے ہوئے جیسے نیند میں چلتی ہوئی،وہ اس کونے کوکھودنے لگی جہاں ہیرے دبائے گئے تھے۔ہیروں کا کیا ہوا؟اس نے کہاں پھینکے ،مجھے کچھ پتہ نہیں۔ان میں ایک چاندی کی تتلی بھی تھی،جس پر مینا کاری کاکام کیا گیاتھا۔جس میں چھوٹے چھوٹے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔اس دن جب میری ماں کو عدالت میں پیش کیاگیا۔
شروع میں ماں نے اس تتلی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا،اسے کہیں چھپادیا ۔ اگلے دن ماں کے لاڈلے اس بچے کے ہاتھ میں چوٹ لگ گئی۔بچے کو گھاس کھودنے کے لیے ایک تیز کھرپی دی گئی تھی۔
وہی بچے کے ہاتھ میں لگ گئی تھی۔اسے ہسپتال لے جایاگیا تو ماں بھی کسی طرح وہاں پہنچ گئی۔ بچہ کسی بھی چیز سے بہل نہیں رہا تھا۔ماں نے اسے اٹھایااور ایک کونے میں لے گئی۔اسے بہلانے کے لیے اس نے وہ تتلی نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دی۔بچہ اس دن بہل گیا۔بعد میں وہ ماں سے تتلی مانگ لیتا اور کھیلتا رہتا۔
ایک دن بچے نے وہ تتلی اپنے ایک ہم عمر لڑکے کو دکھادی۔اس لڑکے نے نرسری کی آفیسر کو اس کی خبر دی۔
ایسی کوئی خبر دینے والے بچوں کو شکر کی ایک چٹکی انعام کے طور پر دی جاتی تھی۔ بات آگے تک پہنچ گئی۔ بچے کی بہت پٹائی ہوئی اوراسے بتایاگیا کہ کسی بچے کے پاس ایسی چیز کاہونا،جو سب کے پاس نہ ہو، جرم ہے۔
ماں کو گرفتار کرلیا گیا۔ایسے جرم کی سزا موت ہونی چاہیے تھی،مگر کمیون نے ترس کھاکر صرف یہ سزا سنائی کہ اگلے دن ماں کو سرعام بے عزت کیاجائے گا۔
اگلے دن بھیڑ میں میں بھی تھا۔مجھے ضرور ہونا چاہیے تھا۔ماں کو مجمع میں لایا گیا۔اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔پھر ہمیں حکم دیاگیا کہ وہ جس وقت ہمارے سامنے سے گزاری جائے،ہر ایک آدمی اسے تھپڑ مارے اور یہ کہے کہ وہ سب سے زیادہ خراب عورت ہے۔ ایک ساتھ مکے اور تھپڑ برس پڑے۔ماں زمین پر گرپڑی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب اسے لاتوں سے مارنے کا وقت آگیاتھا۔
میری باری بھی آئی میرے پیر کپکپانے یا نہ اٹھانے کا جرم کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے۔
میری بیوی اس گناہ سے یہ کہہ کربچ گئی کہ روٹی پکانے کے لیے اس کا اجتماعی رسوئی گھر میں رہنا ضروری تھا۔سب کو رات کا کھانا کھلا کر وہ چھپتی چھپاتی نرسری میں گئی تب تک ماں کو ادھ مری حالت میں پہنچا دیاگیاتھا۔اس دن اس بچے کو بھی مارمارکر انہوں نے زخمی کردیاتھا۔ماں نے وہاں پہنچتے ہی اس بچے کو آنچل میں بھرلیاپھر ایک چٹائی پر لیٹ کرکراہتے ہوئے بچے سے باتیں کرتی رہی۔
میری بیوی کے کانوں میں اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پڑتے رہے۔وہ بچے سے کہہ رہی تھی،”آج میں اپنے بیٹے کے لیے پرائی ہوگئی۔ماں کا رشتہ ختم ہوگیااس نے مجھے لات ماری تو چھوٹا ہے ،تو کچھ نہیں سمجھتاچل ہم کہیں دور چلیں یہاں سے!“
بچہ کراہتے ہوئے اس چاندی کی تتلی کے بارے میں پوچھتا تھا۔
ماں اس سے کہہ رہی تھی،”چل!ہم ندی کے کنارے کی طرف چلیں۔وہاں جنگل میں ہم تتلیاں تلاش کریں گے۔“
میری بیوی نے دیکھا کہ ماں بچے کو لے کر گرتی پڑتی چل دی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔اس نے دیکھا کہ بچہ میری ماں کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔
سامنے ندی تھی۔ماں چلتی جارہی تھی۔
پانی اس کے ٹخنوں تک گھٹنوں تک ہوتا ہوا اس کے کندھوں تک آگیا تھا اور پھر سر سے اونچاہوگیاتھا۔
میری بیوی دوڑکر اسے بچاسکتی تھی،لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔اس نے میرے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ جتنا میں سمجھتا ہوں اس سے کہیں زیادہ میری بیوی رحم دل ہے !!
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

————————————————————————————-
پرل ایس بک 1882ءمیں امریکہ میں پیدا ہوئیں اور 1973ءمیں انتقال فرمایا۔وہ امریکہ کی پہلی مصنفہ ہیں جنہیں”دَ گڈ ارتھ“کے لیے 1938ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بچپن سے ہی انہیں ادب سے لگاﺅ تھا۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ چین میں بیتاتھا۔کیوں کہ ان کے والدین مشنری سے وابستہ تھے اور چین میں رہتے تھے۔ان کی شادی جان لاسنگ بک سے ہوئی تھی۔ان کی تخلیقات میں چینی کسانوں کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ان کی تصانیف میں سنس،دَبنگ ریوولیو شنِسٹ،دَمدر،دِزپرائڈ ہرٹ،دَ پیئریاٹ،اَدر گاڈز وغیرہ شامل ہیں۔

 

“The Tailor” A Short Story by Hijab Imtiaz Ali

Articles

درزی

حجاب امتیاز علی

رات کے پون بجے جب شبی نے مجھے کسی درزی کی دکان پر چلنے پر اصرار کیا تو میں حیران ہو کر بولی ’’مگر اس وقت؟‘‘
’’ہاں ہاں اسی وقت روحی… عید کی مصروفیت کی وجہ سے آج کل دن کے وقت درزی نہیں ملتا۔ تم جلدی سے اپنی کار نکالو۔‘‘ شبی نے اصرار کیا۔
’’اچھا…‘‘ میں بادل نخواستہ مان گئی اور گیراج سے اپنی کار باہر نکال لائی۔
شبی گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں اپنے کپڑوں کا بنڈل ہاتھ میں لیے کار میں میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد کار چلاتے چلاتے میں نے پوچھا ’’میں اتنی رات گئے صرف تمہاری ضد پر نکلی ہوں۔ لاہور اتنا بھی محفوظ شہر نہیں ہے۔ تمہیں اپنے کپڑے لینے ہیں یا کسی درزی کی تلاش ہے؟‘‘
’’ارے بھئی درزی کی تلاش ہے۔ موزوں درزی نہیں مل رہا۔ عید کا زمانہ ہے، چلو جلدی چلو۔‘‘ اس نے کہا۔

جب ہم گھر سے نکلے تو باہر لوگوں کا ہجوم اُبلتے سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ عید کی خریداری کرنے لوگ یوں دیوانہ وار بازاروں کی طرف رواں دواں تھے جیسے عید پر پھر کبھی نہیں آئے گی۔ میں اور شبی درزی کی تلاش میں بڑی تیزی سے شہر کی طرف جا رہی تھیں۔ شاید کوئی ’خالی درزی‘ مل جائے تو شبی بھی اپنا لباس سلوا لے۔
شبی بڑبڑا رہی تھی ’’دیکھو تو روحی، آج کل انسان کس طرح انسان ہی کے درپے آزار ہے۔ گاہکوں کو درزی نہیں ملتے اور لباس پہننے کی تاریخ سر پر آ جاتی ہے۔‘‘
میں ہنس پڑی اور بولی ’’یہ دنیا کا کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں شبی۔ جب میں سوچتی ہوں تو انسان کے سبھی مسائل مجھے ادھورے ہی نظر آتے ہیں اور تم ایک درزی کے مسئلے کو اتنی اہمیت دے رہی ہو!‘‘
کپڑوں کی تھیلی پچھلی نشست پر پھینکتے ہوئے شبی کہنے لگی ’’ہر انسان کے لیے اپنا مسئلہ اہم ہوتا ہے روحی۔ تم جانتی ہو، دو دن سے میں درزیوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہوں کہ خدا کے لیے مرا لباس سی دو۔ مجھے پرسوں پہننا ہے مگر کسی نے ہامی نہ بھری۔ کہنے لگے، چھ چھ مہینوں سے عید کے کپڑے سل رہے ہیں، اب نیا کپڑا نہیں لیا جا سکتا۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک تو کہتے ہیں۔ دیکھو اب تو عید سر پر آ گئی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ لباس تو مجھے عید سے پہلے پہننا ہے۔‘‘
’’عید سے پہلے؟‘‘ میں نے ذرا تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں…‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ پاکستان میں عید کی تیاریاں تمام رات بلکہ سحر کی اذان تک ہوتی رہتی ہیں۔ درزی بے چارے نمازِ سحر کے وقت دو گھڑی کے لیے دکان بند کرتے اور پھر اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ اب تم عید کے بعد ہی اپنا جوڑا سلوانا۔‘‘
وہ بھونچکا ہو کر مجھے دیکھنے لگی ’’عجیب باتیں کرتی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر چپ ہوگئی۔ شہر کے درزیوں سے مایوس ہو کر اب ہم گلبرگ واپس جا رہی تھے۔ شہر کا یہ حصہ نسبتاً پرسکون تھا۔ رات کا سناٹا اور تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں کسی انجانے خوف اور شبی درزی نہ ملنے سے سہمی ہوئی گھر کی طرف لوٹ رہی تھیں۔

اچانک سڑک کنارے کھڑے ایک بڑے تناور درخت پر سے ہولناک ’قوقو‘ کی صدا بلند ہوئی۔ اسے سن کر اسٹیرنگ پر میرے ہاتھ کانپ گئے۔
شبی کو بھی اس کا احساس ہو گیا۔ پریشان ہو کر کہنے لگی ’’سنا تم نے؟ رات کا پرندہ اچانک چیخ اُٹھا۔ خدا کی پناہ۔‘‘
میں بے حد خوف ہو کر کہنے لگی ’’شکر ہے پرندہ تھا، انسان نہیں۔ میں انسانوں سے کتراتی ہوں، پرندوں سے نہیں کہ یہ ظالم نہیں ہوتے۔‘‘
شبی کہنے لگی ’’اس قسم کے پرندے تو ایشیائی گرم راتوں میں چیختے رہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے لرزاں آواز میں کہا ’’لیکن مجھ میں دوبارہ رات کے اس پرندے کی قوقو سننے کی ہمت نہیں۔ شبی! کچھ مخصوص سی آواز تھی۔‘‘
شبی کہنے لگی ’’روحی! کیا حرج ہے ذرا لبرٹی مارکیٹ کے درزیوں سے بھی پوچھ لیں۔‘‘
میں نے کار لبرٹی مارکیٹ کے آخری حصے کی طرف موڑ لی جہاں چند درزیوں کی دکانیں تھیں۔ جب کسی نے بھی ہامی نہ بھری تو ہم مایوس ہو کر لبرٹی مارکیٹ سے ملحق چھوٹے راستے سے گھر کی طرف چل پڑے۔ ہم ہسپتال کے سامنے سے گزر ہی رہی تھے کہ وہ مری کار کے آگے آ گیا۔ شاید وہ سڑک پار کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں بڑی ہوش مندی سے بریک نہ لگاتی تو اس کا قیمہ ہو جاتا، مجھے بےحد غصہ آیا۔ کار ٹھہراتے ہوئے میں نے چیخ کر کہا ’’تم ہوش میں ہو؟‘‘
آدمی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی بغل میں ایک پوٹلی تھی جس سے کچھ سفید رنگ کے کپڑے باہر لٹک رہے تھے۔
شبی چیخ پڑی۔ ’’ٹھہرو روحی، ٹھہرو۔ شاید درزی ہو، اس کی بغل میں کپڑے ہیں۔‘‘
میں نے پھر کار سے گردن باہر نکال کر پوچھا ’’تم درزی ہو؟‘‘
’’ہاں…‘‘ اس نے اقرار کیا۔ مگر اس کی آواز میں پھنکار سی تھی، جیسے کوئی گلے کا مریض آہ بھر رہا ہو۔
شبی بے حد خوش ہوگئی، کہنے لگی ’’میں تمہاری بغل میں کپڑوں کا بنڈل دیکھ کر سمجھ گئی تھی۔‘‘
اب میری نظر دوبارہ درزی کے ادھ کھلے بنڈل پڑی۔ کچھ کپڑے باہر لٹک رہے تھے، وہ سفید رنگ کے عجیب بے ڈھنگے سے لمبے لمبے کپڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے جھرجھری محسوس ہونے لگی۔
شبی درزی سے کہہ رہی تھی۔ ’’میرا ایک لباس سی دو گے؟‘‘
درزی نے پہلی دفعہ نظر اُٹھا کر ہم دونوں کو دیکھا۔ شاید سوچ رہا تھا کہ ضرورت مند کون ہے۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ درزی کا رنگ دودھ کی طرح سفید ہے۔ وہ میانہ قد اور ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ غور سے دیکھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ بھی سفید ہے، سیاہی کہیں نام کو نظر نہ آئی۔ یا شاید مدھم روشنی میں آنکھ کی سیاہی چھپ گئی۔
بہرحال مجھے وہ اپنی سفید رنگت اور سفید آنکھوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک لگا، لیکن میں شبی سے اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ اس وقت خلاف توقع درزی دستیاب ہونے پر بےحد خوش نظر آ رہی تھی۔ اس نے غالباً درزی کو غور سے دیکھا ہی نہیں۔ درزی کا لباس بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ اس نے سفید رنگ کی عبا پہن رکھی تھی جو رات کی پراسرار ہواؤں میں متحرک تھی۔
شبی کہنے لگی ’’مگر یہ مقام تو کپڑے دکھانے اور ناپ دینے کا نہیں، میرے گھر آ جاؤ۔‘‘
’’ہاں… مجھے آنا ہی پڑے گا۔‘‘ درزی نے اپنی پست آواز میں کہا۔
جانے کیوں مجھے اس کے یہ الفاظ اور آواز بھی مایوس اور ناگوار لگی۔ بھلا اسے کیا مجبوری تھی کہ اسے آنا ہی پڑے گا؟ یہ کوئی چور ڈاکو یا جاسوس تو نہیں؟ میں سوچنے لگی۔ لیکن شبی یہ ساری باتیں نظرانداز کر رہی تھی اور خوش تھی کیونکہ اسے بمشکل ایک درزی دستیاب ہوا تھا۔
’’گھر کا پتا لکھ دوں؟‘‘ وہ اپنا دستی بٹوا کھولنے لگی تاکہ کاغذ اور پنسل نکال سکے۔
’’اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ درزی کی آواز بہت مدھم پڑ گئی تھی۔ یہ جواب سن کر میں اور بھی بدگمان ہوگئی کہ ضرور یہ کوئی مشکوک آدمی ہے۔
شبی کو بھی شاید کچھ تعجب ہوا، پوچھنے لگی ’’تو پھر پہنچو گے کیسے؟‘‘
’’جہاں مجھے پہنچنا ہو، پہنچ جاتا ہوں۔‘‘ درزی کا یہ جواب بھی مجھے بڑا عجیب لگا۔ میرے شبہات یقین کے درجے پر جا پہنچے۔
’’کب آؤ گے؟‘‘ شبی نے سوال کیا۔
’’کل۔‘‘
’’کس وقت؟‘‘
’’اسی وقت۔‘‘
شبی حیران ہو کر کہنے لگی ’’اس وقت؟… مگر اس وقت تو رات کے دو بج رہے ہیں۔‘‘
’’اس سے پہلے مجھے فرصت نہیں اور یہی وقت ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ یو سی ایچ کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

میں پریشان ہو کر بولی ’’تم نے اچھا نہ کیا شبی، جانے یہ کون تھا!‘‘
’’درزی تھا اور کون ہوتا؟‘‘ شبی چیں بجیں ہو کر بولی۔ پھر کہنے لگی ’’اس کی بغل میں کپڑوں کی گٹھڑی دیکھتے ہی میں سمجھ گئی تھی کہ درزی ہے۔‘‘
’’لیکن تم نے وہ کپڑے بھی دیکھے جو گٹھڑی کے باہر لٹک رہے تھے؟‘‘ میں نے کار چلاتے چلاتے پوچھا۔
’’نہیں تو… کیوں ان میں کیا خاص بات تھی؟‘‘ وہ پوچھنے لگی۔
’’سفید رنگ کے لمبے لمبے سے تھے اور اندھیری رات میں مجھے سفید کپڑا برا لگتا ہے شبی۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ ذرا برا مان کر کہنے لگی ’’توبہ روحی، تمہاری نازک مزاجی نے آفت ڈھا رکھی ہے۔ تمہیں تو متاثر ہونے کا بہانہ چاہیے۔ موسیقی، شعر، رنگ کے سوا تمہیں کوئی چیز پسند نہیں آتی۔‘‘
’’اتنا مبالغہ نہ کرو شبی، مجھے اس کائنات کا سارا حسن پسند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں چپ ہو گئی۔
اچانک کسی درخت پر رات کا ایشیائی پرندہ بول پڑا۔ ’’قو۔قو۔قو۔‘‘ ساتھ ہی میں نے کار کی رفتار تیز کر دی۔ رات کے سناٹے میں میرے لیے اس کی نامانوس پکار ناقابل برداشت تھی۔

وہ بے حد ویران اور اندھیری رات تھی۔ اندرون شہر، آنے والی عید کی تیاریاں اور ہنگامے جاری تھے، مگر شہر سے باہر گلبرگ حسب معمول خاموش اور کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا۔ آسمان پر تارے بھی مجھے دم بخود معلوم ہو رہے تھے۔ ہوا بھی تھم کر چل رہی تھی۔ ہم گھر کی طرف رواں دواں تھیں۔ مجھے جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، بالکل خاموش تھی۔
’’اب اتنی چپ کیوں ہو گئی ہو روحی؟ تمہیں تو ہر موضوع پر بات کرنے یا کوئی شعر سنانے کا مرض ہے۔ خدا کے لیے کوئی بات کرو، ہول آ رہا ہے تمہاری خاموشی اور رات کے سناٹے سے!‘‘ شبی نے بیزار بلکہ قدرے خفا ہو کر کہا۔
میں بولی۔ ’’ایک بات کہوں شبی؟‘‘
’’کہو کہو۔‘‘ شبی نے کہا۔
’’جو تمہارا درزی تھا نا… اس کی آنکھیں دودھ کی طرح سفید تھیں۔ مجھے تو اس کی آنکھوں پر سیاہی کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ تمہارے کپڑے کیونکر سیے گا؟‘‘
شبی ذرا پریشان ہو گئی، کہنے لگی ’’کیا واقعی؟ میں نے غور ہی نہیں کیا۔ خیر کپڑے سینا اس کی ذمہ داری ہے۔‘‘
’’مگر اس کی آنکھیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
شبی اچانک خوفزدہ ہو کر کہنے لگی۔ ’’کیا واقعی اس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے تم کہہ رہی ہو؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے کہا ’’کم از کم میں نے سیاہی نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مجھ پر ذہنی انتشار طاری ہو گیا۔ ویسے بھی میں ایک بزدل عورت ہوں۔ جس چیز سے ڈرنا چاہیے، اس سے نہیں ڈرتی، جس سے نہیں ڈرنا چاہیے، اس سے خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔

گھر پہنچتے ہی میری بوڑھی حبشن خادمہ حسب عادت ناخوش لہجے میں بولی ’’رات گزر چکی ہے خاتون روحی، اور آپ دونوں درزی کی تلاش میں نکلی نکلی اب گھر پہنچی ہیں۔ کافی پئیں گی کہ چائے؟‘‘
’’کافی…‘‘ میں نے کہا
’’درزی مل گیا تھا خاتون شبی؟‘‘ خادمہ نے پوچھا۔
’’ہاں مل گیا تھا زوناش۔‘‘ شبی نے خوش ہو کر کہا۔ پھر کہنے لگی ’’دیکھو وہ کل رات دو بجے آئے گا‘ خیال رکھنا۔‘‘
زوناش یہ سن کر متوحش ہوگئی۔ ویسے بھی بات بات پر دعائیہ انداز میں آیات پڑھنا اس کی عادت تھی۔ ایک عربی دعا پڑھتے ہوئے وہ پوچھنے لگی:
’’دو بجے رات بی بی؟‘‘
’’ہاں ہاں کل دو بجے رات۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی دروازہ کھول دینا۔‘‘ شبی نے تاکید کی۔
زوناش خوف زدہ ہوگئی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
دوسرا دن نکل آیا اور اپنے وقت پر ختم ہو گیا۔ سورج حسب معمول اُفق تلے جا چھپا اور اندھیری رات بیتنے لگی۔
رات کے کوئی ڈیڑھ بجے شبی نے اچانک اپنی خواب گاہ کا دروازہ کھولا اور آواز دی:
’’زوناش زوناش! میرے سر میں درد ہو رہا ہے ’ایسپرو‘ کی گولی لے آؤ۔ پھر ذرا میرے پاس آ بیٹھو اور سر دبا دو۔‘‘
’’بہت اچھا بی بی۔‘‘ کہتے ہوئے خادمہ شبی کے کمرے میں چلی گئی۔ ذرا دیر بعد اس نے میری خواب گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بدحواس ہو رہی تھی۔ کہنے لگی ’’خاتون شبی کے سر میں شدید درد ہے۔ مجھے تو ان کی حالت…‘‘
گھڑیال ٹن ٹن دو بجانے لگا۔ اچانک باہر کے صدر دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے جا کر دروازہ کھول دیا۔ باہر سفید لباس میں ملبوس وہی پراسرار آدمی کھڑا تھا، مجھے دیکھتے ہی بول اُٹھا:
’’میں کفن سینے آ گیا ہوں۔

٭٭٭

بیسویں صدی کے اوائل میں اردو فکشن میں رومانیت ایک رجحان کے طو رپر ابھری جسے سرسید کے عقلیت پسند تحریک کی ضدماناجاتا ہے اس رومانی دورمیں کئی آفاق گیرادبی شخصیتیں منظرِعام پر آئیں۔جن میں ایک نمایا ں نام حجاب امتیاز کا ہے۔
مدراس کے ضلع آرکاٹ (وانم باڑی) میں 1907ءمیں پیدا ہوئیں ۔ والد محمد اسماعیل مدراس کے معزز و معروف شخصیتوں میں سے تھے۔ او روالدہ عباسی بیگم ایک ادیبہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر والد کی زیر نگرانی ہوئی اورحیدر آباد کے ایک مشن اسکول میں ا نگریزی کی تعلیم حاصل کی ۔والدہ چوں کہ اردوکی پر وردہ تھیں۔ اس لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔1930ءمیں اردوکے مشہور ڈرامہ نگارامتیاز علی تاج سے بلہاری میں شادی ہوئی جس کے بعد لاہور کو اپنا گھر بنایا ۔جہاں پر خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تہذیب نسواں کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھانے لگیں ۔
حجاب نے کافی کم عمری میں لکھنا شروع کیا ۔ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب ا نہوں نے اپنا پہلا افسانہ”میری ناتمام محبت“ تحریر کیا۔جو بعد میں نیر نگِ خیال میں شائع ہوا۔ نابالغ ذہن کے تراش شدہ اسی بت کی ساخت میں کئی جگہ بت تراش کی نوعمری او رجذ بات کی ولولہ انگریز ناہموار یاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن زبان وبیان ،فکر و فن ایک عمدہ افسانہ نگار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔
ان کا دوسرا افسانہ ” ظالم محبت “تھا جو 1940ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی افسانے اورناول لکھے۔ جیسے”صنوبر کے سائے“٬ ”نغمات محبت“ ٬ ”لاش‘‘وغیرہ جو اُن دنوں تہذیب نسواں، عالم گیر ، اور نیر نگِ خیال وغیرہ میں شائع ہوئے۔
حجاب نے زیادہ ترافسانے ہی لکھے ہیں ۔مگر اپنے کینو یس اورکردار وں کے دائرہ عمل کے اعتبار سے یہ افسانے ناول ناولٹ کے ذیل میں آتے ہیں ۔ہلکے پھلکے ان رومانی سماجی ناولوں کی بنیاد ان کے عہد کا معاشرہ او ر اس کے مسائل ہیں۔ جس میں محبت عام اخلاقی اصول و اقدار اور سماجی قوانین سے ٹکراتی ہے او ر اسی ٹکرا و میں محبت کی شکست ہو تی ہے ۔سجاد حیدر یلدرم کے زیر اثر انہو ں نے ایسی تخیلی دنیا آباد کی جو مشرق وسطیٰ او ریو رو پین طرز ِمعاشرت کا حسین امتزاج نظر آتی ہے جس میں امرا اور رؤسا ، جو اہرات اور موتیوں میں کھیلتے ہیں اور جن کی خدمت کے لئے بے شمار گل رخ کنینر یں ادھر اُدھر بھا گتی پھر تی ہیں ۔ پوری فضا داستانی رنگ لئے ہوئے ہے جس میں سب کچھ اتفاقی ہے یہا ں تک کہ مسرت اور غم بھی جو ”یاد “بن کر مسرت کا ہی منبع لگتا ہے۔
ان کی کردار نگار ی بھی تخیلی سطح پر کی گئی ہے شاعرانہ اندازمیں پیش کر دہ ان کے کردار اکثرتیسری نسل سے ہیں جن کا واسطہ ماضی کی دونسلوں سے ہے ۔ ان کے اعمال مشرقی معاشرہ کا حصّہ ہیں مگر مغربی تعلیم کے زیرِ اثریہ فرد پچھلی نسلوں سے خود کو علاحدہ کر نے کی جدوجہد کر تے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک قصہ کی تکنیک کا سوال ہے ان کی اکثر کہانیاں ”روحی “ بیان کر تی ہے جو کبھی کہانی کااہم کرداربن کرتوکبھی ثانوی کردار کی حیثیت سے دوسروں کی کہا نی پیش کرتی ہے مثلاً ’ ’ میری ناتمام محبت“ کے آغاز میں قبرستان کی پُر اسرار فضا میں” روحی“ اپنی ناکام محبت کو یاد کرکے اس کا افسانہ سنا تی ہے۔
زبان واسلوب کا انتخاب بھی حجاب نے موضوع کی مناسبت سے کیا ہے۔ حسن وعشق چوں کہ ان کا موضوع تھا اس لئے ان کی زبان نہایت لطیف وشیریں اور اسلوب شاعرانہ ہے۔ جہاں تک مکالموں کا تعلق ہے وہ نہایت ہی دلچسپ اور بر محل ہو تے ہیں۔جوکہانی کے ارتقامیں معاون ثابت ہو تے ہیں اور ساتھ ہی کردار وں کے مزاج او رکیفیات کی ترجمانی کر تے ہیں۔
تجزیۂ نفسی کی دلدادہ حجاب نے رومانی ناولوں کے علاوہ کئی نفسیا تی مضامین اور ناول بھی لکھے جو رسالہ ساقی ”میں شائع ہو ا کر تے تھے۔”اندھیرا خوب “ان کا مشہور نفسیاتی ناول ماناجاتا ہے اس کے علاوہ تہذیب نسواں میں” لیل ونہار “ کےعنوان سے انہوں نے روزنامچے بھی لکھے جوان کی ذاتی زندگی کی ترجمانی کرتے تھے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
”شام کو گھر پر رہی اور آسمان کو تکتی رہی، رات کو کھانے کے بعد سا ڑھے نو بجے ”ت“ اور مَیں گورنمنٹ کالج کے ڈرامہ میں چلے گئے ۔ یاسمین نے پہلی دفعہ اسٹیج دیکھا اورخوش ہوئی“….
اپنی ذاتی زندگی میں بے نیاز رہنے والی حجاب کسی اور دنیا کی مخلوق لگتی تھیں۔ ان کے جینے کا انداز اور طرزِ گفتگو وہی تھا جواُن کے افسانوں میں نظرآتا تھا ۔وہ اپنے افسانوں کا خود بھی ایک پیکر تھیں ۔ان کی مختصر دنیا میں صرف تین افراد تھے وہ ،ان کی بیٹی یاسمین،اوران کے رفیق حیات اورساتھ ہی کئی درجن بلیاں ،طوطےوغیرہ بھی ان کے عجائب خانہ کا حصّہ تھے۔
حجاب کو ہو ابازی کابھی شوق تھا۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا بازتھیں۔ انہوں نے1936ءمیں نارون لاہور فلائنگ کلب سے پائلٹ کا لائیسنس حاصل کیا تھا۔اپنے آخری ایام میں وہ ادبی دنیا سے علاحد گی اختیارکر کے اپنی فیملی کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی بسر کر نے لگیں۔ 1999ءکووہ اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئی اورلاہور میں مدفون ہوئیں۔
اُردو ادب میں انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے ان کی کئی تخلیقات کو شاہکار مانا جاتا ہے مگر جن مطبوعات کوغیر معمولی شہرت نصیب ہوئیں ان میں” لاش“، ”صنوبر کے سائے“، ” میری ناتمام محبت “، ”ظالم محبت “، ” الیاس کی موت “، ” موت کا راگ“، ”آپ بیتی۔تصویر بتاں“ وغیرہ شامل ہیں۔(حجاب امتیاز علی کا یہ تفصیلی تعارف اسما ارم کا تحریر کردہ ہے)

 

 

 

“The Wall” A Short Story by Jean Paul Sartre

Articles

دیوار

ژاں پال سارتر

انہوں نے ہمیں چونے سے پتے ایک سفید ہال میں دھکیل دیا۔میری آنکھیں چندھیانے لگیں۔وہاں کی تیز روشنی میں میری آنکھوں میں تکلیف شروع ہوگئی ۔تبھی میں نے ٹیبل کے نیچے چارسو یلین کو ایک کاغذ پرجھکا ہوا دیکھا۔انہوں نے پیچھے دوسرے قیدیوں کو ایک قطار میں کھڑاکررکھا تھا۔ ان کے پاس پہنچنے کے لیے ہمیں پورا ہال پار کرناپڑا۔قیدیوں میں سے میں کئی لوگوں کو جانتا تھا۔ ان میں کچھ غیر ملکی بھی تھے۔میرے سامنے کھڑے دونوں افسر گورے چٹے اور گول سر والے تھے۔میرے انداز سے وہ فرانسیسی ،ان میں ناٹے قد والا باربار اپنی پینٹ کو اوپر کھینچ کر اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔سنتری،قیدیوں کو یکے بعد دیگرے ٹیبل کے پاس لے جانے لگے۔افسروں نے ہر ایک سے ان کانام اور پتہ پوچھا۔زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کی۔زیادہ سے زیادہ اِدھراُدھر کا ایک آدھ سوال پوچھ لیا۔جواب وہ دھیان سے نہیں سن رہے تھے۔خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوئے کاغذات پر لکھنا شروع کردیتے تھے۔انہوں نے ٹام سے جاننا چاہا کہ کیا وہ انٹرنیشنل بریگیڈ کا ممبر ہے؟ ٹام اپنی جیب سے برآمد ہونے والے کاغذات کی وجہ سے انکار نہ کرسکا۔زوان سے انہوں نے کچھ نہیں پوچھا۔ صرف اس کا نام جاننے کے بعد دیر تک کاغذوں پر کچھ لکھتے رہے۔
’’میرا بھائی جوز باغی ہے۔‘‘زوان نے کہنا شروع کیا۔’’آپ جانتے ہیں کہ وہ یہاں سے فرار ہوچکا ہے؟میں کسی پارٹی کا ممبر نہیں ہوں نہ ہی سیاست سے کوئی تعلق رکھتا ہوں۔ میں کسی دوسرے کے کیے کی سزا بھگتنے کو تیار نہیں۔‘‘زوان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ایک سنتری اسے پکڑ کر باہر لے گیا۔ اس کے بعد میری باری تھی۔’’تمہارا نام پابلوا بیتیا؟‘‘ایک افسر نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
اس نے کاغذات دیکھ کر پوچھا۔’’رامن گریس کہاں ہے؟‘‘
’’مجھے پتہ نہیں۔‘‘وہ ایک منٹ تک کچھ لکھتا رہا۔اس کے بعد سنتری وہاں سے مجھے باہر لے آیا۔برآمدے میں ٹام اور زوان انتظار کررہے تھے۔
’’اس کا مطلب؟‘‘ٹا م نے ایک پہرے دار سے پوچھا۔
’’مطلب کا کیا مطلب؟‘‘پہرے دار نے جواب دینے کی بجائے سوال کیا۔
’’یہ جرح تھی یا سزا؟‘‘
’’سزا۔‘‘پہرے دار نے کہا۔’’وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟‘‘
’’تمہاری سزا تمہاری کوٹھری میں سنائی جائے گی۔‘‘ہماری کوٹھری ایک اسپتال کا تہہ خانہ تھی۔سیلن کی وجہ سے بے حد ٹھنڈی ۔ہم اس میں ساری رات کانپتے رہے۔
’’کیا ہم مارے جائیں گے؟‘‘ایک طویل خاموشی کے بعد ٹام نے کہا۔
’’میرا بھی ایسا ہی خیال ہے۔لیکن وہ لڑکے کو کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘
’’اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔یہ ایک فوجی کا بھائی ہے ،بس۔‘‘ٹام نے کہا۔
بس زوان کی جانب دیکھا۔مجھے لگا کہ وہ کچھ بھی نہیں سن رہا ہے۔’’تمہیں پتہ ہے یہ لوگ سرگوسا میں کون سا طریقہ اپناتے ہیں؟‘‘ٹام نے کہنا جاری رکھا،’’وہاں قیدیوں کو سڑک کے اوپر لٹاکر اوپر سے ٹرک دوڑاتے ہیں۔یہ اطلاع مجھے مراقش کے رہنے والے ایک شخص سے ملی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ گولیاں بچانے کے لیے یہ طریقہ اپناتے ہیں۔‘‘
’’اس سے گیس کی بچت تو ہوتی نہیں ہوگی؟‘‘میں نے طیش میں آکر کہا۔مجھے ٹام پر غصہ آرہا تھا۔اسے ایسی بات کہنا نہیں چاہیے تھی۔
ٹام پھر سے بتاتا گیا،’’پھر افسران وہاں ٹہلتے ہوئے آتے ہیں۔مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔تم کیا سوچتے ہو وہ قیدیوں کو ایک دم سے ختم کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں!وہ انہیں چیختے ہوئے چھوڑدیتے ہیں۔‘‘
’’میں یقین نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہوگا؟‘‘میں نے کہا۔چاروں دیواروں کے روشن دانوں اور چھت کے درمیان گول کٹائو سے ہوکر جس سے آسمان صاف دکھائی دیتا تھا نیا دن داخل ہورہا تھا۔میں ایک دم ’سُن‘ نہیں تھا۔پھر بھی اپنے کندھے اور بازوئوں کو محسوس نہیں کررہا تھا۔بیچ بیچ میں خیال آتا جیسے کوئی چیز کھوگئی ہو۔پھر اچانک یاد آیا انہوں نے میرا کوٹ تو واپس کیا ہی نہیں۔دن کیسے اور کب گزرگیا اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔رات میں آٹھ بجے دو پہرے داروں کے ساتھ ایک میجراندر آیا۔میجر کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔’’ان تینوں کے نام کیا ہیں؟‘‘اس نے پہرے دار سے دریافت کیا۔’’اسٹین واک،ابیتیااور مربل۔‘‘اس نے جواب دیا۔
میجر آنکھوں پر چشمہ چڑھا کر فہرست دیکھنے لگا۔اسٹین واک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسٹین واک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے۔تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے۔صبح تمہیں گولی سے اڑا دیا جائے گا۔‘‘
’’باقی لوگوں کو بھی؟‘‘ٹام نے پوچھا۔میجر نے اپنے کندھے ہلائے۔ٹام اور میری طرف مڑکر بولا،’’تم میں سے کوئی واسک ہے؟‘‘
’’ہم میں سے کوئی واسک نہیں۔‘‘ہمارے جواب سے میجر ناراض ہوگیا۔ مجھے بتایاگیاتھا کہ یہاں تین واسک ہیں؟لیکن میں ان کی کھوج میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔میں جانتا ہوں کہ تمہیں پادری کی ضرورت تونہیں ہوگی۔‘‘ہم نے کوئی جواب نہیں دیا۔’’ایک بیلجین ڈاکٹر یہاں جلد آئے گا۔‘‘میجر نے آگے کہا،’’اسے تم لوگوں کے ساتھ رات بتانے کو کہا گیا ہے۔‘‘اس کے ساتھ ہی فوجی سلام ٹھوک کر وہ باہر چلاگیا۔’’میں نے پہلے ہی کہا تھا۔ہم مار دیئے جائیں گے۔‘‘ٹام بولا۔
’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’اس لڑکے کے لیے بہت برا ہوا۔‘‘یہ بات میں نے ہمدردی جتانے کے لیے کہی تھی۔یوں تو میں زوان کو پسند نہیں کرتا تھا۔اس کا چہرہ پچکا ہوا تھا اور ذہنی تنائو کی وجہ سے اس کے سارے نقوش گھل مل کر بد صورتی میں بدل گئے تھے۔تین دن پہلے وہ ایک چست نوجوان تھا۔تب وہ زیادہ برادکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن اب وہ ایک بوڑھی عورت جیسا نظر آرہا تھا۔مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اگر وہ اسے چھوڑ بھی دیںتو وہ دوبارہ کبھی جوان نہیں ہوگا۔
میرے دل میں اس کے لیے رحم دلی ہونی چاہیے تھی۔لیکن اب رحم دلی سے مجھے چڑ بلکہ وحشت سی ہوتی تھی۔تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔روشن دان سے ہلکی سی روشنی چھن کر اڑرہی تھی۔کوئلے کا ڈھیر آسمان کے ٹکڑے کے نیچے ایک کالے دھبے کی طرح نظر آرہا تھا۔اچانک تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔دوپہرے داروں کے درمیان ایک گورے چٹے آدمی نے جو کتھئی وردی میں تھااندر داخل ہوا اس نے ہمیں سلام کیا اور بولا،’’میں ڈاکٹر ہوں۔مجھے ان تکلیف بھرے لمحات میں آپ کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘اس کی آواز وہاں کے لوگوں سے الگ اور پراعتماد لگ رہی تھی۔
’’تم یہاں کیا کرنا چاہوگے؟‘‘میں نے اس سے پوچھا۔’’میں آپ کی مرضی کے مطابق کام کروں گا۔آپ کے آخری لمحات کو آسان بنانے میں میں آپ کی مدد کروں گا۔‘‘
’’تم یہاں کیوں آئے؟جبکہ اور بھی بہت مجرم ہیں؟سارا اسپتال ان سے بھرا پڑا ہے۔‘‘
’’مجھے بطور خاص یہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘اس نے گول مول جواب دیا۔اس نے ہمیں انگلش سگریٹ دینے کی کوشش کی۔ہم نے انکار کردیا۔میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔وہ حیرت زدہ تھا۔’’تمہیں یہاں دیانت داری دکھانے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘میں نے کہا،’’اس کے علاوہ میں تمہیں جانتا ہوں۔اپنی گرفتاری کے دن میں نے تمہیں بیرکوں کے احاطے میں فاشسٹوں کے ساتھ دیکھا تھا۔‘‘میں نے اپنا بیان جاری رکھا۔مگر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا؟ڈاکٹر نے میری دلچسپی ایک دم ختم کردی ۔میں نے جسم کو ایک جھٹکا دیا اور اس طرف سے نظریں پھیرلیں۔
میں نے دونوں ساتھیوں کی جانب دیکھا۔ٹام نے ہتھیلیوں میں چہرہ چھپالیا تھا۔چھوٹے سے زوان کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔نتھنے کانپ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے قریب جاکر تسلی کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔لیکن زوان کی آنکھیں جذبات سے عاری تھیں۔دوغلا !ڈاکٹرکے بار ے میں میں نے غصے سے سوچا اگر یہ میرے پاس نبض دیکھنے آیا تو اس کا حلیہ بگاڑدوں گا۔وہ میرے پاس نہیں آیا۔لیکن وہ مجھے گھور رہا تھا۔میں نے سر اٹھاکر اسی کی طرف دیکھا۔ ’’تمہیں یہاں سردی نہیں لگتی؟‘‘اس نے اپنائیت سے پوچھا وہ خود بھی سردی کا مارا لگ رہا تھا۔
’’مجھے نہیں لگتی۔‘‘ میں نے کہا۔
اس نے پھر بھی اپنی نظریں میرے چہرے سے نہیں ہٹائیں۔میرے ہاتھ خود بہ خود اپنے چہرے پر چلے گئے۔میں پسینے میں شرابور تھا۔میں نے رومال سے اپنی گردن کو پوچھنا شروع کیا۔ رومال بھیگ گیا لیکن پسینہ نکلتا ہی جارہا تھا۔میری پینٹ بینچ سے چپک گئی تھی۔
اسی وقت زوان بولا،’’تم ڈاکٹر ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تکلیف ہوتی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کافی دیر تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہوں ! کب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ارے نہیں ، قطعی نہیں ۔ سب کچھ بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اس طرح کہاجیسے نقد سودا لینے والے کسی گاہک کو پھسلارہا ہو۔
’’لیکن وہ کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی انہیں دوبارہ گولی چلانا پڑتی ہے؟‘‘
’’کبھی کبھی۔‘‘ڈاکٹر نے اس بات کی حمایت میں سر ہلایا،’’ اس حالت میں جب گولی نازک حصے تک نہیں پہنچتی۔‘‘
’’تب انہیں پھر سے بندوق لوڈکرنا پڑتی ہوگی۔دوبارہ نشانہ لگانا پڑتا ہوگا؟‘‘ ایک لمحہ سوچنے کے بعد پھر گویا ہوااس میں وقت لگتا ہوگا!‘‘
اسے تکلیف سے ڈر لگتا تھا۔اپنی کم عمری کی وجہ سے وہ صرف اسی کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔میں نے تکلیف کے بارے میں نہیں سوچا۔پسینہ آنے کا یہ سبب نہیں تھا کہ میںڈرا ہوا تھا۔ میں اٹھااور ٹہلتا ہوا کوئلے کے ڈھیر تک جاپہنچا ۔ٹام اچک کر کھڑا ہوگیا اور مجھے نفرت سے دیکھنے لگا۔ میرے جوتوں کی آواز نے اسے ناراض کردیا تھا۔وہ دھیمی آواز میں بڑبڑانے لگا۔بنا بولے اُسے آرام نہیں آتا تھا۔
’’تم کچھ سمجھ رہے ہو؟میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘اس نے کہا۔
میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ڈاکٹر نے کہا۔
’’میرے ساتھ کچھ ہونے والا ہے؟جسے میں بالکل سمجھ نہیں پاتا۔‘‘ٹام نے کہا۔اس کے بدن سے عجیب طرح کی بو کا بھبھکااٹھ رہا تھا۔
’’کچھ دیر بعد تمہاری سمجھ میں سب کچھ آجائے گا۔‘‘میں نے دانت بھیجتے ہوئے کہا۔
مجھے محسوس ہوا کہ عام دنوں کی بہ نسبت میں اس وقت بو کو بہت زیادہ محسوس کررہا تھا۔ ’’بات واضح نہیں ہوئی۔‘‘اس نے ضد سے کہا۔’’میں نڈر ہونا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے ہر بات سمجھ لینا چاہتا ہوں۔سنو پہلے وہ ہمیں احاطے میں لے جائیں گے۔ٹھیک! ہمارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ان کی تعداد کتنی ہوگی؟‘‘
’’پتہ نہیں ۔پانچ یا آٹھ اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔وہ آٹھ ہوں گے۔کوئی چلاکر کہے گا۔نشانہ لگائواور میں اور بندقو ں کو اپنی طرف تنا ہوا دیکھوں گا۔تب شاید میں دیوار میں سماجانا چاہوں گامیں اپنی پیٹھ سے دیوار کو دھکا دوں گا۔ اپنی طاقت کی آخری بو ند سے۔لیکن دیوار اپنی جگہ رہے گی۔کسی بھیانک خواب کی طرح۔میں اس حالت کا تصور کرسکتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘میں نے کہا،’’میں بھی تصور کرسکتا ہوں۔ لیکن میں اس بات کو اہمیت نہیں دینا چاہتا۔‘‘
مجھ سے مایوس ہوکر ٹام اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔لگتا تھا ڈاکٹر کچھ نہیں سن رہا۔ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ہم کیا سوچتے ہیں۔وہ ہمارے جسموں کی نگرانی کرنے کے لیے آیا تھا۔ اجسام جو دھیر ے دھیرے مردہ ہوتے جارہے تھے۔
’’ایک بھیانک خواب کی طرح لگتا ہے۔‘‘ٹام کہہ رہا تھا،’’میں پاگل نہیں ہورہا ہوں لیکن کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔مجھے اپنی لاش دکھائی دیتی ہے۔‘‘وہ لفظوں کو چبا چباکر بول رہا تھا۔یقینی طور پر وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔اسی لیے اپنے آپ سے باتیں کررہاتھا اس سے بڑے ہوئے مریض جیسی بدبو اٹھ رہی تھی۔
’’سور،تو پینٹ میں پیشاب کررہا ہے۔‘‘میں نے کڑھ کر کہا۔
’’نہیں،نہیں!‘‘اس نے بے چین ہوکر کہا۔’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹرنے قریب آکر مصنوعی انداز میں اس سے پوچھا،’’کیا آپ بے چینی محسوس کررہے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں۔میں قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ قطعی خوف زدہ نہیں ہوں میں۔‘‘ٹام نے کہا ڈاکٹر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ٹام کونے میں پیشاب کرنے چلاگیا۔وہاں سے لوٹا اور خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔ہم تینوں بغور ڈاکٹر کو دیکھنے لگے کیوں کہ وہ زندہ آدمی کی طرح فکر مند لگ رہاتھا۔تہہ خانے کی سردی میں وہ اس طرح کانپ رہا تھاجیسے ایک زندہ آدمی کو کانپنا چاہیے۔ آخر میں وہ زوان کے پاس آیا۔وہ اس کی گردن کی جانچ کرنا چاہتاتھا۔زوان نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔لیکن اس کی آنکھیں ڈاکٹر پر مرکوز تھیں۔اس نے ہاتھ کو منہ سے کاٹنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور لڑکھڑاکر دیوار سے جاٹکرایا۔پل بھر وہ ہماری طرف گھبرائے ہوئے انداز میں دیکھنے لگا۔پھر اس کی سمجھ میں آگیا۔ہم اس کی طرح انسان نہیں رہ گئے تھے۔میں ہنسنے لگا۔ میں نے اپنے اندر ایک ساتھ راحت اور بے چینی محسوس کی۔میں صبح یا موت کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتاتھا۔ جیسے ہی میں کسی چیز کے بارے میں سوچنا شروع کرتا،مجھے اپنی طرف تنی ہوئی بندوق کی نالیاں دکھائی دینے لگتی تھیں۔میں اپنی زندگی کی ڈور کے آخری سرے پرتھا۔میں اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے بے کار گنوانا نہیں چاہتا تھا۔وہ صبح مجھے جگانے آئیں گے۔میں نیند کی کیفیت میں ا ن کے پیچھے اور بنا اُف کیے ختم ہوجائوں گا۔میں نے سوچا۔
میں ٹہلتا ہوابیتی زندگی کے بارے میں سوچنے لگا۔یادوں کی بے ترتیب بھیڑ ذہن میں داخل ہوگئی۔اچھی اور بری دونوں قسم کی یادیں میں نے ایک ناٹے قد والے آدمی کا چہرہ دیکھا ۔جسے مار ڈالا گیاتھا۔اپنے چاچا اور رامن گریس کا چہرہ دیکھا۔اپنی پوری زندگی دیکھی۔کس طرح میں تین مہینے بے روزگار رہا اور بھوک سے مرتے مرتے بچا۔مجھے گرینڈا میں ایک بینچ پر گزاری ہوئی ر ات کا خیال آیا۔تب میں تین دن کا بھوکا تھا۔میں غصے میں تھااور مرنے سے نفرت کرتا تھا۔اس رات کے خیال سے مجھے ہنسی آگئی۔کس پاگل پن کے ساتھ خوشی،عورتوں اور آزادی کے پیچھے دوڑتا رہا۔ کس لیے؟ میں اسپین کوآزاد کرانا چاہتا تھا۔میں مارگل کا معتقد تھا۔میں بغاوت میں شامل ہوا۔میں نے جلسوں میں تقاریر کیں۔میں نے ہر بات کوا یسی سنجیدگی سے لیاجیسے مجھے کبھی مرنا ہی نہ ہو۔
مجھے لگ رہا تھا جیسے میری پوری زندگی میرے سامنے کھڑی ہواور محسوس کیا کہ یہ ایک شرم ناک جھوٹ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں کیوں کہ اب یہ ختم ہونے والی ہے۔مجھے حیرت ہورہی تھی کہ میں کیسے لڑکیوں کے ساتھ ہنس بول لیتا تھا۔اگر مجھے پتہ ہوتا کہ مجھے اس طرح ختم ہونا ہے تو میں چھوٹی انگلی کے برابر بھی حرکت نہ کرپاتا۔میری زندگی ایک بند بورے کی طرح میرے روبرو تھی۔ ایک لمحہ پہلے میں نے اُسے پرکھنے کی کوشش کی تھی۔خود سے کہنا چاہتا تھا یہ ایک خوبصورت زندگی ہے؟ لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہ دے سکا۔یہ صرف ایک نقشہ تھا۔میں نے حیاتِ جاویداں کا سوانگ بھرتے ہوئے اپنا وقت خرچ کیا اور کچھ بھی حاصل نہ کرسکا۔میں بہت سی چیزوں کی قربانی دے سکتا تھا۔جسے مینگنل کا ذائقہ،شدید گرمی میں کیڈل کے پاس چھوٹے سے مجسمے میں غسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن موت نے سب بدذائقہ کردیا تھا۔
اچانک ڈاکٹر کے دماغ میں ایک نایاب خیال آیا۔اس نے کہا،’’دوستو،اگر فوجی حکومت نے اجازت دی تو میں آپ کے عزیز و اقارب کے پاس آپ کی خبر یا نشانی بھیجنے کا انتظام کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میرا تو کوئی نہیں!‘‘ٹام غرایا۔
میں چپ رہا ۔پل بھر انتظار کرنے کے بعد ٹام نے میری طرف حیرت سے دیکھا۔ ’’تمہیں کونچا کے پاس کوئی پیغام نہیں بھیجنا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘میں نے کہا۔
مجھے اس طرح کی جذباتی ہمدردیوں سے قربت تھی۔اس میں میری غلطی تھی۔پچھلی بار میں نے اس سے کونچا کا ذکر کیا تھا۔مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے تھا۔میں کونچا کے ساتھ ایک سال رہا۔لیکن اب اسے دیکھنے یا اس سے بات کرنے کی مجھے حسرت نہیں تھی۔یہاں تک کہ اسے اپنی بانہوں میں بھرنے کی آرزو بھی نہیں تھی۔میں جانتا تھا ،میرے مرنے کی خبر سن کر وہ چلاچلا کر روئے گی۔مہینوں تک اسے اپنی زندگی بے کار لگے گی۔لیکن اس کے باوجود مجھے مرنا تو تھا ہی۔
ٹام بھی بالکل تنہا تھا۔لیکن دوسری طرح سے۔وہ حیرت سے مسکراتا ہوا بینچ کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس نے احتیاط سے مکڑی کو چھوااور فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔جیسے صرف چھونے سے ہی وہ ٹوٹ جائے گی۔اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو بینچ چھونے کی حرکت نہ کرتا۔میں نے محسوس کیا کہ میری پینٹ گیلی ہورہی ہے میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ پیشاب ہے یا پسینہ۔پھر بھی احتیاط کے طور پر میں پیشاب کرنے کے لیے کوئلے کے ڈھیر کے پاس چلاگیا۔
تبھی بیلجین ڈاکٹر نے جیب گھڑی نکال کر دیکھی،بولا،’’ساڑھے تین بج گئے۔‘‘
’’دوغلا۔‘‘میں نے دل ہی دل میں کہا۔اس نے یہ بات ضرور کسی مقصد سے کہی تھی،ٹام اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ہم بھول چکے تھے کہ وقت گزر رہا ہے۔معصوم زوان چیخنے لگا۔’’میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘پھر پورے تہہ خانے میں ہوا میں ہاتھ گھماتاہوا دوڑنے لگا۔پھر روتا ہواچٹائی پر ڈھیر ہوگیا۔
ٹام اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے زوان کو حوصلہ دینے کی اس کے دل میں تمنا نہیں رہی۔شاید ایسی حالت میں ہمدردی بھی فضول ہوچکی تھی۔زوان رورہا تھااور اپنے اوپر ترس کھارہا تھاایک سیکنڈ،صرف ایک سیکنڈ کے لیے میرا بھی دل چاہا کہ رولوں۔دل نے چاہا کہ میں بھی اپنی حالت پر چیخوں چلائوں،لیکن ہوا الٹا۔جیسے ہی اس کے کانپتے ہوئے کمزورکندھوں پر میری نظر گئی میں نہ خود پر ترس کھاسکتا تھانہ دوسروں پر۔میں نے اپنے آپ دہرایا۔’’میں ایک صاف ستھری موت مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ٹام اٹھ بیٹھا اور چھت کے روشن دان کے نیچے کھڑا دن کی روشنی کا انتظار کرنے لگا۔میں نے صاف ستھری موت کا عہد کرلیا تھااور اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔لیکن اس پل سے جب ڈاکٹر نے گھڑی دیکھ کر وقت بتایا مجھے لگ رہا تھا جیسے وقت اڑا جارہا ہے۔بوند بوند کرکے تیزی کے ساتھ رس رہاہو۔اس وقت اندھیرا ہی تھاجب میں نے ٹام کی آواز سنی۔
’’تم نے وہ آہٹیں سنیں؟‘‘ٹام نے پوچھا۔
’’باہریارڈ میں کچھ لوگ مارچ کررہے تھے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ کیاکررہے ہوں گے۔وہ اندھیرے میں تو گولی چلا نہیں سکتے۔‘‘
تبھی وہ آہٹیں بند ہوگئیں۔
’’وہ پچھواڑے والے یارڈ میں ہوں گے۔‘‘میں نے کہا۔
ٹام نے ڈاکٹر سے ایک سگریٹ مانگی۔پھر مجھ سے پوچھا،’’تم کچھ اندازہ لگاسکتے ہو کہ باہر کیا ہورہا ہے؟‘‘وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتاتھاکہ دروازے پر آہٹ ہوئی۔اگلے ہی پل تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔ایک لفٹیننٹ دو سپاہیوں کے ساتھ اندر آیا۔ٹام کے ہاتھ سے سگریٹ چھوٹ گئی۔
’’اسٹین واک۔‘‘
ٹام نے کوئی جواب نہیں دیا۔لیکن پیڈرو نے اس کی جانب اشارہ کردیا۔
’’زوان ہربل۔‘‘
’’وہاں،چٹائی پر۔‘‘
زوان اپنی جگہ سے نہ ہلا۔دونوں سپاہیوں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑاکیا۔ جیسے ہی انہوں نے اسے چھوڑاوہ پھر گرپڑا۔سپاہی جھجکے۔’’یہ بیمار نہیں ہے اسے اٹھاکر لے چلو۔ وہیں دیکھیں گے۔‘‘کہتا ہوا لفٹیننٹ ٹام کی جانب مڑا،’’اسے لے چلو۔‘‘
ٹام سپاہیوں کے درمیان چل پڑا۔دونوں کندھوں پر زوان کو ٹانگے سپاہی چل پڑے۔ زوان کے ہوش و حواس گم نہیں ہوئے تھے۔اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے۔میں ان کے ساتھ چلنے کو ہوا تو لفٹیننٹ نے روک دیا۔’’تم ابیتیا ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’یہیں ٹھہرو۔تمہارے لیے بعد میں آئیں گے۔‘‘
وہ چلے گئے ،ڈاکٹر بھی۔میں تنہا رہ گیا۔میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ پھر بھی چاہ رہا تھا کہ جو بھی ہونا ہو،صحیح ڈھنگ سے ہوجائے ۔قریب قریب مجھے بندوقوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ہر آواز پر میں کانپ جاتا۔میں چیخ کر اپنے بال نوچنا چاہتا تھا۔میں نے دانت بھینچے اور دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیے۔میں ایک اچھی موت مرنا چاہتا تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ پھر آئے۔وہ مجھے پہلی منزل پر بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔جو بے حد گرم اور سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔دو افسر سگریٹ پیتے ہوئے آرام کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’تم ابیتیا ہو؟‘‘ایک نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’رامن گریس کہاں ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم؟‘‘
سوال کرنے والا افسر چھوٹے قد کااور موٹاتھا۔چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی اس کی آنکھیں بے حد ظالم لگ رہی تھیں۔اس نے حکم دیا،’’یہاں آئو۔‘‘
میں اس کے پاس پہنچا۔اس نے میرے کندھے پکڑلیے اور ایسے دیکھنے لگا جیسے میں زمین میں دھنس جائوں گا۔اس کے علاوہ میرے بازوئوں کو پوری قوت کے ساتھ بھینچنے لگا۔یہ کام مجھے تکلیف دینے کے لیے نہیں تھا ایک کھیل جیسا تھا۔وہ مجھے اپنی طاقت سے توڑنا چاہتے تھے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے لیے میرے چہرے پراپنی بدبودار سانسیں بھی چھوڑنی چاہیے۔ایک پل ہم دونوں اسی حالت میں کھڑے رہے۔میرا دل چاہا کہ میں ہنس دوں۔مرتے ہوئے آدمی کوڈرانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔اس کا طریقہ کامیاب نہیں ہوا۔مجھے زور کا دھکا دینے کے بعد وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’تمہاری یا اس کی زندگی میں سے کسی ایک کا سوال ہے۔تم ہمیںبتادو کہ وہ کہاں ہے؟ تو تمہاری زندگی بچ سکتی ہے۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور سوچنے لگا اپنی وردی میں چست درست یہ لوگ بھی کبھی نہ کبھی مریں گے۔چاہے کچھ وقت کے بعد۔میں نے اپنے آپ سے کہا،’’یہ لوگ مڑے ہوئے کاغذات میں ناموں کو تلاش کرتے ہیں۔لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں اور ظلم کرنے کے لیے بھاگتے ہیں۔ اسپین کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں یہ بھی کبھی نہ کبھی تومریں گے ہی۔‘‘
اب مجھے ان کی معمولی سے معمولی حرکتیں بھی ڈرامائی نظر آنے لگی۔مجھے اس پر کچھ افسوس ہوا۔مجھے لگا یہ لوگ خطرناک ہوچکے ہیں۔چھوٹے قد والا افسر ہاتھ کی چھڑی سے جوتوں کو ٹھونکتا ہوا اب مجھے گھور رہا تھا۔اس کا گھورنا کسی خونخوار جنگلی جانور جیسا اثر ڈالنے کے مترادف تھا۔
’’تو تمہاری سمجھ میں کچھ آیا؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ گریس کہاں ہے۔میرے خیال میں اسے میڈرڈ میں ہی کہیں ہونا چاہیے۔‘‘میں نے کہا۔
’’تمہیں غوروفکر کے لیے پندرہ منٹ دیئے جاتے ہیں۔‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔’’اسے لانڈری میں لے جائو۔پندرہ منٹ بعد واپس لے آنا۔اس کے بعد بھی اگر یہ انکار کرے تو اسے یہیں گولی سے اڑادیا جائے گا۔‘‘
انہیں پتہ تھا ۔وہ کیا کررہے ہیں۔میں نے ساری رات انتظار میں گزاری تھی۔آدھے گھنٹے سے کیا فرق پڑنے والا تھا۔
انہوں نے مجھے ایک گھنٹہ تہہ خانے میں رکھا تھا۔اس دوران ٹام اور زوان کو گولیوں سے اڑادیا گیاتھا اور اب وہ مجھے لانڈری میں لے جارہے تھے۔میں نے سوچا انہوں نے پچھلی رات ہی سب طے کرلیا ہوگا۔شاید انہیں اعتماد تھا کہ اس طرح آدمی ٹوٹ جاتا ہے۔اسی طریقے سے وہ مجھے بھی توڑنے کی کوشش میں تھے۔لیکن وہ غلط تھے۔لانڈری میں پہنچ کر میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔میں کافی کمزوری محسوس کررہا تھا۔مجھے پتہ تھا گریس شہر سے چارکلومیٹر کے فاصلے پر اپنے چچا زاد بھائیوں کے پاس روپوش ہے۔میں جانتا تھا کہ ایذا پہنچائے جانے کے بعد میں اس کا پتہ بتا دوں گا۔ مگر لگتا تھا وہ مجھے ایذا دینا نہیں چاہتے تھے۔ان کے سارے کام منصوبہ بند طریقے سے انجام پاتے تھے۔جس میں میری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اچانک میرے دل میں ایک خیال ابھرا کیا میں گریس کا پتہ بتانے کی بجائے مرنا پسند کروں ؟لیکن کس لیے؟طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی میرے دل میں سے اس کے لیے دوستی ختم ہوچکی تھی۔اس کے ساتھ ہی کونچا کے لیے پیار بھی۔صرف اتنا ہی نہیں۔خود کو زندہ رکھنے کی چاہت بھی ختم ہوگئی تھی۔ویسے تو گریس کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ تھا۔ وہ ایک مضبوط ارادے والا شخص تھا۔لیکن اب اس کی زندگی میرے لیے اپنی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں تھی۔ ان لوگوں کو کسی ایک آدمی کی ضرورت تھی جسے وہ دیوار سے لگاکرا س کی آخری سانس تک گولیاں چلاتے رہیں۔یا تو وہ گریس ہوسکتا ہے یا پھر میں!اس سے ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتاتھا۔مجھے احساس تھاکہ اسپین کو میرے مقابلے گریس کی زیادہ ضرورت ہے۔مگر میں اپنے خیالوں میں اسپین کی بغاوت کو بھی بھاڑ میں جھونکنے کو تیارتھا۔اس وقت میرے لیے دنیا کی ہر چیز واہیات ہوگئی تھی۔ پھر بھی یہ بات عجیب تھی کہ میں گریس کا پتہ نہ دے کر اپنی جان گنوانے جارہا تھا۔یہ بات مجھے دلچسپ لگی۔ میں نے سوچا اس وقت مجھے سخت ہونے کی ضرورت ہے۔
پندرہ منٹ بیت جانے کے بعد وہ پھر آئے اور مجھے دونوں افسروں کے سامنے لے گئے۔ میرے پائوں کے قریب سے ایک چوہا بھاگ نکلا۔یہ دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔میں نے مذاق سے ایک سپاہی سے پوچھا،’’کیا تم نے اس چوہے کو دیکھا۔‘‘اس نے جواب نہیں دیا۔اسی طرح سنجیدہ چہرہ بنائے رہا۔ میں نے زور سے ہنسنا چاہا،مگر اپنے آپ کو روک لیا۔میں جانتا تھا کہ ایک بار ہنسنا شروع کردوں گا تو روکنا مشکل ہوجائے گا۔میں نے سپاہی کی مونچھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’تمہیں اپنی مونچھیں منڈوالینی چاہیے۔‘‘مجھے یہ سوچ کر مزہ آرہا تھا کہ بنا مونچھ کے اس کا چہرہ کتنا عجیب لگے گا۔
’’اچھا ،تم نے اچھی طرح سوچ لیا؟‘‘موٹے افسر نے پوچھا۔
’’وہ قبرستان میں چھپاہے۔کسی قبر میں یا قبر کھودنے والے کی جھونپڑی میں۔‘‘میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں۔
لیکن یہ میر اوہم تھا۔میں انہیں فوراً کھڑا ہوتے ،بیلٹ کستے اور حکم دیتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا،یہی ہوا۔وہ اچھل کر کھڑے ہوگئے۔’’ہمیں چلنا چاہیے۔مولس تم پندرہ سپاہی لے کر جائو۔‘‘یہ کہنے کے بعد افسر مجھ سے مخاطب ہوا۔’’اگر تمہاری بات سچ ہے تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ لیکن اگر تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو تو اس کی بھرپور قیمت تمہیں چکانی پڑے گی۔‘‘وہ بڑبڑاتا ہوا نکل گیا۔ میں سپاہیوں کی نگرانی میں اطمینان سے انتطار کرنے لگا۔ان کی حالت کا تصور کرکے مجھے ہنسی آرہی تھی۔
تصور میں میں نے انہیں قبروں کے پتھر اٹھاتے اور ایک جھونپڑی کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا پھر میں نے دیکھا کہ بڑی مونچھوں اوروردی والے سپاہی مجھے پکڑنے کے لیے میرے پیچھے حکم دینے کے لیے آیا ہے۔آدھے گھنٹے بعد موٹا افسر واپس آیا۔مجھے لگا مجھے گولی مارنے کا حکم دینے آیا ہے۔ وہ بے حد چست دکھائی دے رہا تھا۔اس نے میری طرف دھیان سے دیکھا اور بولا،’’اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ یارڈ میں لے جائو۔فوجی کاروائی کے بعد عدالت فیصلہ کرے گی کہ اس کا کیا کیا جائے۔‘‘
’’تو مجھے گولی سے نہیں اڑایا جائے گا؟‘‘میں نے پوچھا۔
افسر نے کندھے اچکائے ،سپاہی مجھے باہر لے آئے۔یارڈ میں تقریباً چار سو قیدی تھے۔ ان میں عورتیں بچے ،بوڑھے سبھی تھے۔
دوپہر کو انہوں نے ہمیں میس کے ہال میں کھانا کھلایا۔دو تین لوگوں نے مجھ سے کچھ سوالات کیے۔جن کا میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔شام کے دھندلکے میںوہ مزید دس قیدیوں کو اندر دھکیل گئے۔ میں نے بسکٹ فروخت کرنے والی گارسیا کو پہچان لیا۔’’تمہاری قسمت اچھی ہے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ تمہیں زندہ دیکھوں گی۔‘‘اس نے کہا۔
’’مجھے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں؟‘‘
’’انہوں نے مجھے دو بجے گرفتار کیا؟‘‘گارسیا نے کہا۔
’’کس جرم میں؟‘‘
’’پتہ نہیں،وہ ہر اس آدمی کو گرفتار کرلیتے ہیں جو ان کی طرح نہیں سوچتا۔انہوں نے رامن گریس کو بھی گرفتار کرلیا۔‘‘
’’کب؟‘‘میں کانپنے لگا۔
’’آج صبح ،لیکن ساری غلطی گریس کی تھی۔ منگل کو اس نے چچا زاد بھائیوں کا گھرچھوڑ دیا۔ان سے کسی بات پر بحث ہوگئی تھی۔بہت سے لوگ ا س کی مدد کو تیار تھے۔لیکن اس نے کسی کا احسان لینا قبول نہیں کیا۔اس کا کہنا تھا کہ میں ابیتیا کے گھر چھپ سکتا تھا لیکن اسے پکڑ لیاگیا۔ اس لیے اب میں قبرستان میں جاکر چھپ جائوں گا۔‘‘
’’قبرستان میں؟‘‘
’’انہوں نے اسے قبرکھودنے والے کی جھونپڑی سے گرفتار کرلیا۔ گریس نے ان پر گولیاں چلائیں مگر وہ پکڑلیا گیا۔‘‘
مجھے اپنے آس پاس کی ہر چیز گھومتی ہوئی لگ رہی تھی۔میں زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر خود بہ خود قہقہہ لگانے لگا۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

ژاں پال سارتر ۱۹۰۵ء میں فرانس میں پیدا ہوئے اور ۱۹۸۰ء میں انتقال فرمایا۔ان کو ۱۹۶۴ء میں نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا مگر انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔سارتر کی تخلیقات کی اساس وجود ہے۔ سوئیڈش اکادمی نے انعام کا اعلان کرتے وقت کہا تھا، ’’سارتر کی فکر انگیز تخلیقات کے لیے،جنھوں نے اپنی آزادی کی لے اور حقیقی ہونے کے سبب عصرِ حاضر پر بے حد اثر ڈالا ہے۔‘‘سارتر نے انعام نہ قبول کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا،’’میں نے ہمیشہ سے ہی سرکاری اعزاز قبول نہیں کیا۔ادیب کو آزادرہنا چاہئے۔سرکاری اعزازسے اس کے فن پر اثر پڑتا ہے اور ذہنی انتشار بڑھتا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ان کی تصانیف میں سائیکولاجی اینڈ ایموزنیشن، ٹرانسنڈس آف دَ ایگو،بیئنگ اینڈ نتھنگ،نوسیا،دَ وال اینڈ اَدراسٹوریز،دَ ایج آف ریزن،دَ ریپریو وغیرہ شامل ہیں۔

 

“One Day” A short Story by Anatole France

Articles

ایک دن

اناتولے فرانسس


میں اندر داخل ہوا تو پائولن دے لوزیؔ نے ہاتھ ہلاکر میرا استقبال کیا۔پھر چند لمحات تک خاموشی طاری رہی۔ا سکارف اور تولیوں کا بنا ٹوپ آرام کرسی پر بے ترتیب پڑے تھے۔
’’مادام!‘‘میں نے اپنی بات ذرا کھل کر کہی،’’کیا آپ کو یاد ہے ٹھیک دو سال قبل،آج ہی کے دن ،پہاڑ کے دامن میں بہتی ندی کے کنارے،وہیں جہاں آپ کی آنکھیں اس وقت دیکھ رہی ہیں،آپ نے کیا کہا تھا؟کیا آپ کو یادہے کہ کسی فرشتے کی طرح اپناہاتھ ہلاتے ہوئے آپ میرے قریب آئی تھیں۔میرے عشق کے اقرار کو آپ نے میرے لبوں کے اندر ہی روک دیا تھا اور مجھے انصاف و آزادی کی خاطر جینے اور لڑنے کے لیے چھوڑدیا تھا۔مادام،آپ کے جس ہاتھ کو میں بوسہ دیتے ہوئے اپنے آنسوئوں سے بھگودینا چاہتاتھا،اسی سے آپ نے مجھے باہر کا راستہ دکھایا اور میں بنا کچھ کہے لوٹ گیا تھا۔میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔دو سال سے میں بے وقوف کنگالوں کے ساتھ رہتا آیا ہوں،جن کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عدم دلچسپی ہی ہوتی ہے۔ جو دکھاوے کی ہمدردی کے پر تشددمظاہروں سے لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور جو چڑھتے سورج کو ہی سلام کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اپنے ہاتھ کے ایک اشارے سے اس نے مجھے خاموش کردیااور پھر اشارہ کیا کہ اس کی بات سنوں۔پھر باغیچے سے اس خوشبودار کمرے میں پرندوں کی چہچہاہٹ کے درمیان دورسے چیخیں سنائی دیں۔’’مارو!ان شریف زادوں کو پھانسی پر چڑھادو۔ان کی گردنیں اتاردو۔‘‘
اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘میں نے کہا،’’کسی کمینے کو سبق سکھایا جارہا ہوگا۔یہ لوگ چوبیس گھنٹے پیرس میں گھرگھر جاکر گرفتاریاں کررہے ہیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ یہاں داخل ہوجائیں۔تب میں کچھ نہیں کرپائوں گا۔حالانکہ پھر بھی میں اب ایک خطرناک مہمان ہوتا جارہا ہوں۔‘‘
دوسری مرتبہ چیخوں نے شام کی خاموش ہوا کو چیرا۔پھر ایک چیخ ابھری،’’راستے بند کردو، وہ بدمعاش بھاگنے نہ پائے۔‘‘
خطرہ جس قدر قریب آگیاتھا،اس کا تصور کرکے مادام دے لوزی کچھ زیادہ ہی پرسکون دکھائی دے رہی تھی۔
’’آئو دوسرے منزلے پر چلتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔ڈرتے ہوئے ہم نے دروازہ کھولاتو سامنے سے ایک شخص نیم برہنہ حالت میں بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔اس کے چہرے پر دہشت بُری طرح پھیلی ہوئی تھی۔اس کے دانت بھنچے ہوئے تھے اور گھٹنے آپس میں ٹکرارہے تھے۔گھٹی گھٹی آواز میں وہ چیخ رہا تھا،’’مجھے بچالو!کہیں چھپالو!وہ وہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے میرا دروازہ توڑدیا ہے، باغیچہ اجاڑدیاہے۔اب وہ میرے پیچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مادام دے لوزی نے اس شخص کو پہچان لیاتھا۔وہ پلانچو ؔتھا،ایک بوڑھا شخص،جو پڑوس میں ہی رہتا تھا۔مادام نے سرگوشی والے اندازمیں کہا،’’کہیں میری نوکرانی کی نظر تم پر تونہیں پڑگئی؟ وہ بھی جیکو بِن ہے۔‘‘
’’نہیں،مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘
’’سب خدا کی مہربانی ہے۔‘‘
وہ اسے اپنے بیڈروم میں لے گئی۔میں ان دونوں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ صلاح مشورہ ضروری ہوگیاتھا۔چھپنے کی کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنی ہی پڑے گی،جہاں پلانچو کو کچھ دن نہیں تو کچھ گھنٹوں کے لیے ہی چھپایا جاسکے۔
انتظار کے لمحات میں وہ خود کو کھڑا نہ رکھ سکا۔دہشت سے اسے جیسے لقوہ مارگیاتھا۔
وہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس پر ماسیودے کجوتؔ کے ساتھ مل کر قانون کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام ہے۔ساتھ ہی دس اگست کو اس نے پادری اور بادشاہ کے دشمن کو بچانے کے لیے ایک تنظیم بنائی۔یہ سب الزامات سراسر غلط تھے۔سچائی یہ تھی کہ لیوبِنؔ اپنی منافرت کا اظہار کررہا تھا۔لیوبِن ایک قصائی تھا،جسے وہ ہمیشہ ٹھیک تولنے کے لیے کہتا رہا۔کل کاوہ دکاندار آج اس گروہ کا سربراہ ہے۔
اور تبھی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آوازیں آنے لگیں۔مادام دے لوزی نے جلدی سے چٹخنی چڑھائی اور اس بوڑھے کو پیچھے دھکیل دیا۔دروازے پر مسلسل دستک سے اور آواز سے پائولن نے پہچان لیا کہ وہ اس کی نوکرانی ہے،وہ دروازہ کھولنے کے لیے کہہ رہی تھی اور بتارہی تھی کہ باہر گیٹ پر بلدیہ کے افسران نیشنل گارڈس کے ساتھ آئے ہیںاور احاطے کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں۔
’’وہ کہتے ہیں۔‘‘وہ عورت بتارہی تھی،’’پلانچو اس گھر کے اندر ہے۔میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ یہاں نہیں ہے،میں جانتی ہوں کہ آپ ایسے بدمعاش کو پناہ نہیں دیں گی،مگر یہ لوگ میرا یقین نہیں کرتے۔‘‘
’’ٹھیک ہے،انھیں اندر آنے دو۔‘‘دروازہ کھولے بنامادام د ے لوزی نے کہا،’’اور گھر کا ایک ایک گوشہ دکھا دو۔‘‘
یہ بات سنتے ہی بزدل پلانچوپردے کے پیچھے ہی بے ہوش ہوکر گرپڑا۔اسے ہوش میں لانے میں کافی دقت ہوئی۔اس کے چہرے پر پانی چھڑکا،تب کہیں جاکر اس نے آنکھیں کھولیں۔
جب وہ ہوش میں آگیا تو وہ عورت اپنے بوڑھے پڑوسی کے کانوں میں سرگوشی والے انداز میں بولی،’’دوست مجھ پر بھروسہ رکھو،یہ مت بھولو کہ عورت بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہوتی ہے۔‘‘
پھر اس نے بڑے اطمینان سے جیسے وہ معمول کے مطابق گھر کا کام کررہی ہو، پلنگ کو تھوڑا سا کھسکایااور تین گادیوں کو اس طرح رکھاکہ بیچ میں ایک آدمی کی جگہ بن جائے۔
جب وہ یہ سارے انتظامات کررہی تھی،سیڑھیوں پر سے جوتوں اور بندونوں کی کھٹ کھٹ کی آوازیں سنائی دیں۔ہم تینوں کے لیے یہ خطرناک لمحات تھے۔اور پھر وہی شور اوپر چڑھتا ہوا ہلکا ہوگیا۔وہ اوپر کی منزل پر گئے تھے۔ہم جان گئے کہ جیکوبن نوکرانی کی رہنمائی سے پہلے ہی وہ اٹاری کو چھان ماریں گے۔چھت چرمرائی۔خوفناک قہقہے گونج اٹھے تھے،جوتوں اور سنگینوں کی ضرب کی آوازیں ہم تک آرہی تھیں۔ہم نے راحت کی سانس لی۔لیکن ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے ایک بھی لمحہ نہیں تھا۔میں نے پلانچو کو گادیوں کے درمیان خالی جگہ پر گھسنے میںمدد کی۔
ہمیں یہ کرتے دیکھ مادام دے لوزی نے انکارمیں سر ہلایا۔بستر اس طرح سے بے ترتیب ہوگیاتھا کہ کوئی بھی شک کرسکتا تھا۔اس نے خود جاکر ٹھیک کرنا چاہا مگر بے کار۔وہ فطری نہیں لگ رہا تھا۔’’مجھے خود ہی بستر پر لیٹنا پڑے گا۔‘‘اس نے کہا۔چند لمحات تک وہ سوچتی رہی پھر بڑے اطمینان سے اور شاہانہ لاپرواہی سے اس نے میرے سامنے ہی اپنے کپڑے اتارے اور بستر پر لیٹ گئی۔ پھر اس نے مجھ سے بھی اپنے جوتے اور ٹائی اتارنے کے لیے کہا۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے،بس تمہیں میرے عاشق کاکردار ادا کرنا ہوگا۔اس طرح ہم انھیں دھوکا دے سکتے ہیں۔‘‘ہمارا انتظام مکمل ہوگیا تھا اور ان لوگوں کے نیچے اترنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔وہ چیخ رہے تھے،’’ڈرپوک!چوہا!‘‘
بدقسمت پلانچو کو جیسے لقوا مارگیاہو۔وہ اس قدر بری طرح کانپ رہا تھا کہ پورا بستر ہل رہا تھا۔اس کی سانسیں اتنی زور سے چل رہی تھیں کہ باہر سے کوئی بھی آدمی سن سکتا تھا۔’’کتنی دکھ کی بات ہے۔‘‘مادام دے لوزی نے آہستگی سے کہا،’’اپنی تھوڑی سی چالاکی سے میں سمجھتی تھی کہ کام بن جائے گا۔پھر بھی کوئی بات نہیں۔ہمت تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔خدا ہماری حفاظت کرے۔‘‘
کسی نے دروازے پر زور سے گھونسا مارا۔
’’کون ہے؟‘‘پائولن نے پوچھا۔
’’اس ملک کے نمائندے۔‘‘
’’کیا کچھ دیر تک رک نہیں سکتے؟‘‘
’’جلدی کھولو۔نہیں تو ہم دروازہ توڑڈالیں گے۔‘‘
’’جائو دوست،دروازہ کھولو۔‘‘
اچانک ایک جادوسا ہوا۔پلانچو نے کانپنا اور لمبی سانسیں لینا بند کردیا۔
سب سے پہلے لیوبن اندرآیا۔وہ رومال باندھے ہوئے تھا۔اس کے پیچھے پیچھے تقریباً ایک درجن لوگ ہتھیار اور برچھے لیے اندر داخل ہوگئے۔پہلے مادام دے لوزی اور پھر مجھے گھورتے ہوئے وہ زور سے چیخے۔’’اُف!لگتا ہے ہم عاشقوں کی تنہائی میں مخل ہوگئے ہیں۔خوبصورت لڑکی ہمیں معاف کردینا۔‘‘پھر وہ بستر پر آکر بیٹھ گیااور پیار سے اس اونچی نسل کی عورت کا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے بولا،’’یہ تو صاف ظاہرہے کہ اتنا خوبصورت چہرہ رات دن خدا کی عبادت کے لیے نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا تو کس قدر دکھ کی بات ہوتی۔لیکن پہلے اپنے مادرِوطن کا کام،باقی کام بعد میں۔ابھی تو ہم وطن کے غدار پلانچو کو ڈھونڈ رہے ہیں۔وہ یہیں ہے،یہ میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں۔ میں اسے ڈھونڈ کر رہوں گا۔میں اسے پھانسی پرچڑھادوں گا۔ا س سے میری قسمت سنور جائے گی۔‘‘
’’تو پھراسے ڈھونڈو۔‘‘
انھوں نے میزوں اور کرسیوں کے نیچے جھانکا۔پلنگ کے نیچے اپنے برچھے چلائے اور گادیوں میں سنگینیں گھونپیں۔میں انھیں تہہ خانے میں لے گیا۔وہاں انھوں نے لکڑی کے ڈھیر کو بکھیر دیا اور شراب کی کئی خالی بوتلیں خالی کردیں۔کافی دیر تک شراب پیتے رہے اور اودھم مچاتے رہے۔جب وہ پیتے پیتے تھک گئے تو باقی بچی شراب کی بوتلوں کوبندوق کے دستوں سے توڑتے ہوئے لیوبن نے تہہ خانے میںشراب کی ندیاں بہادیں۔ان کے باہر نکلتے ہی میں نے لپک کر گیٹ بند کردیا۔پھر میںدوڑتا ہوا مادام دے لوزی کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ خطر ہ ٹل گیا ہے۔
یہ سنتے ہی اس نے گادی کو پلٹا اور پکارا،’’موسیو پلانچو،موسیوپلانچو!‘‘جواب میں ایک ہلکی سی سسکی سنائی دی۔’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘وہ چیخ اٹھی، ’’موسیوپلانچو،میں تو سمجھی کہ آپ مرگئے۔‘‘
پھر میری جانب مڑکر بولی۔’’دیکھو دوست،تم ہمیشہ یہ کہہ کر خوش ہوتے ہوکہ تمہیں مجھ سے محبت ہے،مگر آئندہ تم ایسا قطعی نہیں کہوگے۔‘‘
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

—————————————

اناتولے فرانس۱۸۴۴ء میں،فرانس کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۴ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’تھایا‘‘ناول کے لیے ۱۹۲۱ء میں نوبل سے نوازا گیاتھا۔انہوں نے اسی سالہ طویل زندگی میں ادب کو کئی بہترین تخلیقات سے مالا مال کیاہے۔انہوں نے ناول کے علاوہ سوانح حیات،مضامین،تاریخی کتب وغیرہ تخلیقات قلمبند کی ہیں۔ان کی تصانیف میں دی کرائم آف سِلویستر ونارڈ،دی گاڈس آر آتھرسٹ،لائف آف جان آرک وغیرہ شامل ہیں۔