Jackal and Bear A Nepali Folk Tale

Articles

گیدڑ اور بھالو

انگریزی سے ترجمہ: حیدر شمسی

 

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ اور بھالو کی ملاقات گائوں کے میلے میں آسمانی جھولے میں ہوئی ۔انھوں نے جھولے کا بھر پور مزہ لیا۔پوری رات انھوں نے شراب پینے ، قمار بازی اور لطیفہ گوئی میں صرف کر دی۔دوسرے دن صبح تک وہ دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب سے وہ دونوں ساتھ ساتھ رہین گے، ساتھ کمائیں گے اور ساتھ کھائیں گے ۔
گیدڑ نے کہا ’’میرے دوست ہم بھائی جیسے ہیں ہم الگ نہیں ہیں۔ ہم نے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کا فیصلہ کیاہے کیوں نہ ہم ساتھ مل کر کھیتی باڑی شروع کریں۔‘‘
بھالو نے سوچا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تب دونوں گھر کی تلاش میں نکلے۔ گائوں سے تھوڑے ہی دور جنگل میں جہاں لوگ لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے انھیں وہاں ایک چرواہے کا جھونپڑا نظر آیا جو کئی سالوں سے ویران تھا ۔انھوں نے بامبو سے چھت بنائی اور جھونپڑے کو اچھی طرح سے صاف کیا۔پھر انھوں نے جوئے میں جیتے ہوئے پیسوں سے ایک سانڈ خریدااور زمین جوتنا شروع کردی۔
بھالو کا سلوک گیدڑ کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ بہت محنتی بھی تھالیکن بے وقوف تھا ۔دوسری طرف گیدڑ بہت چالاک تھا لیکن اسے کام سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی۔انھوں نے مل کر اپنی پہلی بھنٹے کی فصل تیار کرلی ۔گیدڑ کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بھالو کے ساتھ زندگی بطور کسان نہیں گذار سکتا۔
دوسرے دن صبح گیڈر نے کہادوست میں کھیت میں کام کرتا ہوں اور تم جائو سانڈ کو چرا لائو۔اس طرح ہم باری باری کرینگے جس سے ہمارے کام کا بوجھ ہلکا ہو جائیگا ۔
یہ طریقہ بھالو کو بہت پسند آیا وہ روزانہ صبح اٹھتا ناشتہ کرتا اور سانڈ کو چرانے نکل جاتا اور سانڈ کو چرانے چھوڑ کر اونچی جگہ جا کر بیٹھ جاتا اور دن بھر اس پہ نظر رکھتا ۔اس طرح سانڈ گھم ہو جانے اور شیر کی خوراک بننے سے بچا رہتا۔اسی دوران گیدڑ کھیت میں درخت کے سائے میں دن بھر لیٹا رہتا اس طرح فصل بڑھتی گئی۔
جب فصل کی کٹائی کا وقت آیا تب گیدڑ نے کہا’’میرے دوست تم نے بہت محنت کی ہے اورکئی دنوں سے سانڈ کو چرا رہے ہو ۔ سانڈ بھی بہت صحت مند ہو گیا ہے ۔اب میری باری ہے اسے چرانے کی اب تم کھیت میں کام کرو۔
بھالو اپنی تعریف سنتے ہی راضی ہو گیا۔وہ فصل کی کٹائی کرنے لگااور گیدڑ سانڈ کو چرانے چلا گیا۔
بھالو مسلسل پورا دن کام کرتا رہتا ۔گیڈر کم محنتی تھا۔اسے گھنے جنگل میں اندر تک جانا بھی بھاری پڑتا تھا جہاں سانڈ کے لیے اچھی غذا تھی۔اسے اونچی جگہ پر چڑھنا اور سانڈ پہ نظر رکھنا بھی بھاری پڑتا تھا ۔ اور وہ دن بھر سانڈ کے ساتھ رہتا کہ کہیں گھم نہ جائے یا وہ شیر کی خوراک نہ بن جائے۔وہ میدانی علاقے میں سانڈ کو چرا تا رہتا یہ اس کے لیے آسان تھا اسے اس چیز کی پرواہ نہ تھی کہ وہاں چھوٹی چھوٹی گھاس ہے۔وہ بیری کے درخت کے نیچے لیٹا رہتا اور اسے دیکھتا رہتا۔اسے نہ ہی اٹھنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی سانڈ کے پیچھے پیچھے بھاگنے کی۔شام میں تاخیر سے وہ گھر جاتا تاکہ اسے بھالو کے ساتھ فصل کی کٹا ئی میں مدد نہ کرنا پڑے۔
چند دنوں بعد سانڈ دبلا پڑ گیا۔اگر چہ بھالو بے وقوف تھا مگر اندھا نہیں تھا۔
اس نے ایک شام کو گیدڑ سے کہا’’دوست ہمارا سانڈ اتنا دبلا کیوں ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
گیدڑ کے پاس جواب تیار تھا۔
’’ اس معاملہ میں ہم دونوں برابرنہیں ہیں دوست تم مجھ سے زیادہ اچھا چراتے ہو‘‘۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’جہاں کہیں میں اسے لے جا تا ہووہاں مجھ سے پہلے لوگ پہنچ جاتے ہیں اس لیے اسے کھانے کے لیے کم مل پاتا ہے۔لیکن آج میں نے ایک ایسی جگہ دریافت کرلی ہے جہاں گھاس سانڈ کے گھٹنوں تک اگی ہوئی ہے۔کل میں اسے وہاں لے جائوں گا اور اسے پیٹ بھر کھلائوں گا۔‘‘
بھالو کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ گیدڑ اچھا چرواہا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسرے دن صبح جب گیدڑ سانڈ کو لے جانے کے لیے اس کی رسی کھول رہا تھا تب اس نے دیکھا کہ فصل کی کٹائی تقریباََ ہو چکی ہے ۔ اسی دن کا اس کو انتظار تھا ۔وہ گیڈر کو جنگل میں لے گیا مگر اسے گھنی جھاڑی میں نہیں لے گیا بلکہ بنجر ٹیلہ پر لے گیا جہاں گھاس کا نام و نشان نہ تھا۔جب سانڈ نے چرنے کے لیے اپنے سر کو جھکایا تب گیڈر نے اسے دھکا دے دیا اور وہ ٹیلہ سے نیچے گر گیا۔پھر گیدڑ بھاگتا ہوا ٹیلے سے نیچے اترا اور سانڈ کے مردہ جسم کو کھسکا کرٹیلے کے سائے میں لے آیا تا کہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
صبح کا ناشتہ گیدڑ نے سانڈ کے گوشت سے کیا۔جب اس کا پیٹ بھر گیا تب اس نے سانڈ کے بچے ہوئے جسم کو پہاڑ کی غار میں چھپا دیا اور غار کے راستے کو پتھروں سے بند کردیا صرف اتنی جگہ چھوڑ دی کہ وہ خود اندر داخل ہو سکے اور سانڈ کی پونچھ سوراخ سے لٹکا کر باہر چھوڑ دی۔جب سب کام ختم ہو گیا تب اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر آرام کر لیا جائے ۔وہ گھر شام کو دیر سے جانا چاہتا تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ فصل کاٹنے میں آج بھالو کو دیر ہو جائے گی۔
گیدڑ کو دور سے اکیلا آتا دیکھ بھالو نے گیدڑ سے کہا’’سانڈ کہاں ہیں؟‘‘
گیدڑ روتے ہوئے کہنے لگا ’’ دوست آج بہت برا ہوا سانڈ غار کے دہانے میں پھنس گیا میں نے اسے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اسے نکال نہ سکا کیوں کہ میں بہت کمزرور تھا ۔میرے دوست تم بہت طاقتور ہو ۔ کل تم میرے ساتھ چلو مجھے یقین ہے کہ تم اسے نکال لو گے۔
بھا لو تعریف سن کر نرم پڑ گیااور وہ اپنے دوست کی بات ٹال نہ سکا۔
دوسرے دن صبح گیدڑ بھالو کو لے کر غار کے پاس پہنچا ۔گیدڑ نے بھالو سے کہا تم بہت موٹے ہو تم اندر نہیں جا سکتے میں اندر جاتا ہوں اور سانڈ کو ڈھکیلتا ہوں تم باہر رہو اورباہر کی طرف کھینچو۔لیکن جب تک مت کھینچنا جب تک میں نہ کہوں۔جب میں کہوںتب تم دونوں ہاتھوں سے پوری طاقت لگا کر کھینچنا ۔
بھالو راضی ہو گیا اور گیدڑ غار کے اندر چلا گیا۔اور اند رجا کر اس نے سانڈ کو باہر ڈھکیلنے کی پوری تیاری کرلی۔پھر آواز لگائی’’دوست کھینچو!‘‘
بھالو نے دونوں ہاتھوں سے پونچھ کو پکڑا اور اپنا پیر سہارے کے لیے غار پر رکھ کرپوری طاقت سے کھینچنے لگا۔جب گیدڑ کو لگا کے بھالو پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے تب اس نے سانڈ کو باہر کی طرف ڈھکیل دیا ۔بھالو سانڈ کے وزن کو سنبھا ل نہ سکا اور لڑکھڑا کر پہاڑسے نیچے ندی میں گر گیا۔
سانڈ ہاتھ مل کر مسکرانے لگا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔فصل پوری کٹ چکی تھی۔سانڈ کو بھی اب چرانے کی ضرورت نہیں تھی اور اب بھالو بھی نہیں تھا جو اسے غلط کام پر بولتا۔دھوکہ باز گیدڑ نے سوچا’’اب جیسا میں چاہوں ویسا کر سکتا ہوں کوئی بولنے والا نہیں ہے۔‘‘
وہ بھاگتا ہواگھر آیا ۔کلہاڑی اور باسکٹ لے کر پھر پہاڑی پر گیا تاکہ سانڈ کا بچا ہوا گوشت کھا سکے اورجو بچے اسے کاٹ کر گھر لا سکے۔گیدڑ نے گھر سے دلیابھی ساتھ لے لیا تا کہ دوپہر کا کھانا مکمل ہو جائے۔اور وہ یہ ساری چیزیں لے کر پہاڑی پر پہنچا ۔
پہنچتے ہی وہ ششدر رہ گیا۔ غار کے سامنے بھالوہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا۔
’’ ارے دوست ‘‘گیدڑ کو دیکھ کر بھالو نے کہا۔’’سانڈ کا کیا ہوا؟‘‘
’’تم نے زیادہ زور سے کھینچ دیا ‘‘ گیدڑ نے برجستہ جواب دیا۔’’ تمہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں رہا ۔ تمہارے ساتھ ہی سانڈ بھی دریا میں گر گیا اور ڈوب گیا۔وہ دریا میں بہت زور سے گرا تھا پانی بھی بہت اوپر تک اچھلا تھا۔‘‘
’’میرے پیارے دوست‘‘بھالوبڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا’’اب ہم اس سے کبھی نہیں مل سکتے ۔ اس کے ساتھ میری بھی زندگی ختم ہوگئی !‘‘ پھراس نے گیدڑ کی طرف دیکھ کر کہا’’تم کلہاڑی اور باسکٹ اپنے ساتھ کیوں لائے ہو؟‘‘
’’میں نے سوچا کہ میں جنگل میں جا کر کچھ لکڑیاں کاٹ لائوں گا۔مجھے معلوم تھا کہ تم دریا سے بچ کر نکل جائوں گے اور تمہیں سردی پکڑ لے گی اور تم کام نہیں کر پائوں گے۔میں تم سے کہنے ہی والا تھا کہ تم گھر جا کر تھوڑا آرام کرلو۔‘‘
تمہیں اپنے آپ پر رشک کرنا چاہئے کہ تمہارے بارے میں اتنا سوچنے والا تمہیں بھائی جیسادوست ملا۔پھر بھالو نے کھچڑی کی طرف دیکھ کر کہا ’’تم دلیا کیوں اپنے ساتھ لائے؟‘‘
’’میں نے سوچا کہ تم تیرتے تیرتے بہت تھک گئے ہوگے اور تمہیں بہت بھوک لگی ہو گی اس لیے میں گھر جاکر تمہارے لیے کھچڑی لے کر آیا۔‘‘
بھالو کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ خوش نظر آنے لگا۔
’’میرے دوست تم لاکھوں میں ایک ہو‘‘ اس نے چلا کر کہا اور گیدڑ کو گلے سے لگا لیا۔
گیڈر نے بھی ہنسنا شروع کر دیا ۔وہ دونوں ہنسی خوشی پہاڑ سے نیچے اتر گئے۔جب دونوں ہنستے ہنستے نڈھال ہوگئے تب انھوں نے ساتھ مل کردلیا کھایا۔پھر جنگل جاکر لکڑیاں کاٹ کر دونوں ساتھ لائے ۔
دونوں ایک دوسرے کے اب تک دوست تھے ۔حالانکہ کسی کوبھی یقین نہیں آتا تھا کہ بے وقوف ،سخت محنتی بھالو چالاک اور کام چور گیدڑ کا دوست کیسے ہے۔
٭٭٭
یہ نیپالی لوک کہانی اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے حیدر شمسی نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہے۔

Son of The Hunter A Greek Folk Tale

Articles

یونانی لوک کہانی [شکاری کا بیٹا]

یونانی لوک کہانی

برسوں پہلے یونان میں ایک شکاری رہتا تھا۔اس کا ایک بیٹا تھا۔جب شکاری مرنے لگا تو اس نے اپنی بیوی کو بلایااور کہاکہ’’ شکار بہت مشکل کام ہے،اس کام میں میری ساری عمر گزر گئی ہے۔میری زندگی بڑی تکلیفوں میں گزری ہے،تمہارے بیٹے کو شکار کا بہت شوق ہے،وہ میرے ساتھ کئی بار شکار پر گیا ہے اور شکار بھی کھیلا ہے، یہ چونکہ بہت مشکل کام ہے،اسی لئے اسے کسی اور کام کا شوق دلانا۔‘‘
چند روز بعد شکاری مر گیا۔وقت بہت تیزی کے ساتھ گزرتا رہا۔شکاری کا بیٹا اب جوان ہو گیاتھا۔ایک دن وہ اپنی ماں سے پوچھنے لگا’’ابا جان کی رائفل کہاں ہے؟‘‘
ماں نے جواب دیا’’تمہارے اباجان کی دلی آرزو تھی کہ تم شکاری نہ بنو،کوئی اور کام سیکھو۔شکاری کی جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے،میری مانو تو کوئی اچھا سا کام کر لو‘‘۔
لڑکے نے کہا’’اباجان شکاری کی زندگی سے خوش کیوں نہیں تھے۔مجھے تو شکار کھیلنے کا بہت شو ق ہے،اس میں آدمی بہادر بنتا ہے۔جان جوکھوں میں ڈال کر اپنا نام پیدا کرتا ہے۔اباجان نے بھی شکاری زندگی میں نام پیدا کیا ہے۔سب انکی بہادری کے گن گاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے انہیں خوفناک جانوروں کو ہلاک کرنے پر انعام بھی ملا تھا۔وہ بہت بہادر اور نڈر انسان تھے اور میں بھی ان کا بیٹا ہوں اور مجھے بھی شکار کا بہت شوق ہے۔اب میں کوئی بچہ نہیں ہوں،رائفل چلانا جانتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے باپ کی رائفل اٹھائی اور چپ چاپ جنگل کی طرف نکل پڑا۔جنگل میں دیر تک شکار ڈھونڈنے کے بعد ایک ہرن پر اس کی نظر پڑی۔اس نے رائفل سے ہرن کا شکار کیا اور اسے اپنے کاندھے پر ڈال کر بیچنے کے لئے شہر لے آیا۔وہ بازار میں بیچنے کے لئے بیٹھا تھا کہ اتنے میں بادشاہ کاایک وزیروہاںآ پہنچا اور اس نے پوچھا: ’’ یہ ہرن کتنے میں بیچو گے؟‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا: ’’آپ کیا دام دیں گے؟‘‘
’’بیس روپے وزیر نے کہا‘‘۔
’’یہ تو بہت کم ہیں میں نہیں بیچوں گا‘‘شکاری کے بیٹے نے کہا۔وزیر کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔وہ سیدھا بادشاہ کے پاس پہنچا اور بادشاہ سے کہا:’’حضور والا ایک شخص بازار میں بیٹھا ہرن بیچ رہا ہے،آپ ضرور خریدیں۔بہت اچھا گوشت ہے مگر دس روپے سے زیادہ قیمت نہ دیجئے۔‘‘
بادشاہ نے شکاری کے بیٹے کو بلوایا۔وہ ہرن لئے آپہنچا تو اس نے پوچھا’’کیا لوگے اس ہرن کا مناسب دام بتاؤ،ہم اسے خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’جناب آپ بہتر جانتے ہیں کہ اس کی قیمت کیا ہونی چاہیے‘‘۔
’’دس روپے کافی ہیں۔‘‘بادشاہ نے کہا۔
کسی کی مجال تھی کہ بادشاہ سے تکرار کرے۔وہ اپنے شکار کے بہت کم دام سن کر چپ ہو رہا۔بادشاہ سے بحث فضول تھی۔وہ انکار بھی تو نہیں کر رہاتھا۔غنیمت یہی تھا کہ جو کچھ بادشاہ ہرن کے دے رہا ہے،وہ قبول کر لے۔شکاری کا بیٹا دس روپے میں بادشاہ کوہرن دے کر گھر چلا گیا۔
دوسرے دن بادشاہ نے شکاری کے بیٹے کو بلوایا اور کہا:’’ہم اپنے لئے ہاتھی دانت کا ایک محل بنوانا چاہتے ہیں۔تم شکاری ہو اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ جنگل میں جا کر ہاتھیوں کا شکار کرو اور ان کے دانت جمع کر کے ہمارے لئے محل تیار کرو۔‘‘
شکاری کا بیٹا خاموش کھڑا رہا۔تھوڑی دیر بعد بادشاہ نے کہا’’چپ چاپ کیوں کھڑے ہو۔بتاؤ تم یہ کام کر سکتے ہو یا نہیں۔اور اگر تم ہاتھیوں کا شکار کرکے ہمارے لئے محل بنا دوتو جان کی سلامتی ہے ورنہ تمہیں جان سے ما ر دیا جائے گا۔‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’جناب یہ کام ضرور کروں گا‘‘یہ کہہ کر وہ گھر گیا۔گھر جا کر اس نے اپنی ماں سے کہا۔’’اب میرا زندہ رہنا واقعی بہت مشکل ہے۔ باد شاہ نے اپنے لئے ہاتھی دانت کا محل بنانے کا حکم دیا ہے۔یہ کام مجھ سے نہ ہو سکے گااور بادشاہ ضرور مجھے مار ڈالے گا۔مجھے ایک تھیلا اور تھوڑی سی روٹی دے دو،میں کہیں بھاگ نکلوں تاکہ بادشاہ کے آدمی مجھے گرفتار نہ کر سکیں۔‘‘
اس کی ماں نے کہا’’تمہارے ابا نے واقعی ٹھیک کہا تھاکہ بیٹے کوکسی اور کام کا شوق دلانا۔اب اپنے آپ کو مصیبت میں پھنسا لیا ہے توگھبراؤ مت۔بہادر بنو اور اپنے باپ کا نام روشن کرنے کی کوشش کرو۔تمہارے ابا کہا کرتے تھے’’بڑے پہاڑ پر جو پانی کا چشمہ ہے،وہاں بہت سے ہاتھی ہفتے میں ایک دن پانی پینے آتے ہیں۔اگر بادشاہ نے ہماری مدد کی تو ہم ان کے دانت نکال سکتے ہیں۔ہم چشمے کا پانی نکال کر اس میں شراب بھر دیں گے۔جب ہاتھی یہ شراب پئیں گے تو انہیں نشہ آجائے گا اور وہ سو جائیں گے،ہم آسانی سے ان کے دانت نکال لیں گے۔‘‘
یہ سن کر شکاری کا بیٹا بہت خوش ہوا۔دوسرے دن وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کی ’’جناب اگر مجھے شراب کے پچاس پیپے اور چند آدمی مل جائیں تو میں ہاتھی دانت جمع کرکے آپ کے لئے محل بنوا سکتاہوں۔
بادشاہ نے اسے پچاس پیپے شراب اور چند آدمی دے دیئے۔وہ سب چیزیں ساتھ لیکر بڑے پہاڑ پر پہنچا اور چشمے کا پانی نکال کر اس میں شراب بھر دی۔پھر وہ خود اور اس کے ساتھی جنگل میں چھپ گئے،ہاتھی آئے اواور پانی میں شراب ملی ہوئے پی کر لڑ کھڑا نے لگے اور سب کے سب وہیں گر کر بے ہوش ہو گئے۔شکاری کا بیٹا اور اس کے ساتھی جنگل سے نکلے اورآسانی سے انہوں نے ہاتھیوں کے دانت نکال لئے اور ہاتھی دانت لے کر انہوں نے بادشاہ کے لئے محل تیار کر دیا۔وزیر نے جو دیکھا کہ شکاری کا بیٹا اس میں بھی کامیاب رہا ہے تو جل گیا۔اب اس نے دل میں ٹھان لی کہ شکاری کے بیٹے کو مار کر ہی دم لوں گا۔
یہ سوچ کر وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہا ’’حضوراتر کی طرف پہاڑوں میں سات بھائی رہتے ہیں،ان کی ایک بہن ہے ، بڑی خوبصورت۔آپ اسے اپنی ملکہ بنائیں اور اپنے محل میں رکھیں تو آپ بہت خوش رہیں گے۔شکاری کے بیٹے کو بھیجئے،اس کو لے آئے گا۔‘‘بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔اس نے شکاری کے بیٹے کو بلایااور حکم دیا کہ جاؤ اور پہاڑ سے اس لڑکی کو لے آؤ۔
شکاری کے بیٹے کو یقین ہو گیا کہ یہ وہ کام وہ نہیں کر سکتا،گھر پہنچا ،کچھ روٹی اور تھیلا لیا اور شمال کی طرف چل دیا۔اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ پھر کبھی لوٹ کر آئے گا بھی یا نہیں ۔چلتے چلتے وہ ایک دن دریا کے کنارے پہنچا۔اس نے دیکھا کہ ایک آدمی وہاں بیٹھا پانی پی رہا تھا۔وہ آدمی پانی پیتا جاتا تھا اور کہتا جا رہا تھا’’اف میری پیاس ہی نہیں بجھی۔‘‘اور یہ کہتے کہتے اس نے اتنا پانی پیا کہ دریا سوکھ گیا۔شکاری کا بیٹا یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس نے آدمی سے پوچھا:
’’بھئی یہ کیسی پیاس ہے جو بجھتی ہی نہیں؟‘‘
اس آدمی نے کہا:’’ہاں میاں میری پیاس کبھی نہیں بجھتی اور پھر مصیبت یہ ہے کہ میں اکیلا ہوں۔اس سفر میں میرا کوئی ساتھی نہیں ہے۔‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’چلو میرے ساتھی بن جاؤ‘‘ اور پھر دونوں مل کے چلنے لگے۔تھوڑی دور گئے تو انہیں ایک آدمی ملا۔جس نے آگ جلا رکھی تھی۔وہ آگ تاپتا چلا جاتا تھا اورکہتا چلا جاتا تھا’’اف کتنی سردی ہے‘‘۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی اسی طرح ساتھ لے لیا۔اب تینوں مل کر چلنے لگے۔تھوڑی دور گئے تھے کہ ایک آدمی ملا جو کھانا کھا رہا تھا۔یہ آدمی سیروں کھانا چٹ کئے جاتا تھااور کہتا جاتا ’’اف پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی ساتھ لے لیا۔چاروں مل کر آگے بڑھے تو ان کو ایک آدمی اور ملا۔یہ آدمی زمین سے کان لگائے لیٹا تھا۔اس نے بتایا کہ وہ اس طرح زمین سے کان لگا کر ساری دنیا کی باتیں سن سکتا ہے۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی اپنا ساتھی بنا لیا۔پانچوں مل کر آگے بڑھے تو انہیں ایک آدمی اور ملا۔یہ آدمی لمبی لمبی چھلانگیں لگاتااور دونوں ہاتھوں میں دو بڑے بڑے پتھر اٹھا لیتا تھا۔انہیں زور سے پیچھے کی طرف پھینکتااور اسی زور سے آگے کی طرف چھلانگ لگاتا۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی اپنا ساتھی بنا لیا۔اب یہ چھ کے چھ ساتھی روانہ ہو گئے۔تھوڑی دور گئے تو انہیں ایک اور آدمی ملا۔یہ آدمی جب چاہتا تھا زمین کو ہلادیتا تھااور زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔یہ بھی شکاری کے بیٹے کے ساتھ ہو گیااور ساتوں مل کر آگے چلے۔چلتے چلتے یہ ساتوں اس بڑے پہاڑ پر پہنچے جہاں وہ سات بھائی اپنی بہن کے ساتھ رہتے تھے۔شکاری کے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر ساتوں بھائی نکلے کہ انہیں مار ڈالیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ساتوں بھی طاقت ور ہیں تو لڑائی کا ارادہ ترک کر دیااور ان سے پوچھا:’’تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’ہم تمہاری بہن کا پیام لیکر آئے ہیں۔ہمارا بادشاہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔بادشاہ تمہاری بہن کو ہاتھی دانت کے محل میں رکھے گا۔‘‘
ساتوں بھائی یہ سن کر گھر میں چلے گئے۔شکاری کے بیٹے نے اپنے اس ساتھی سے جو زمین سے کان لگا کر سب کچھ سن لیتا تھا کہا’’ذرا سنو تو کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘
اس آدمی نے زمین سے کان لگا کر سننے کے بعد کہا کہ پہلے وہ ہمیں کھانے سے بھرے ہوئے سات بڑے بڑے خوان دیں گے۔اگر ہم نے سارا کھانا کھا لیا تو وہ اپنی بہن کو ہمارے ساتھ بھیج دیں گے ورنہ نہیں۔
شکاری کا بیٹا یہ سن کر گھبرا گیا اور کہنے لگا مگر ہم اتنا کھانا کیسے کھائیں گے؟
اس کے ساتھ نے جو ہمیشہ بھوکا رہتا تھا’’میں جو ہوں تم گھبراتے کیوں ہو‘‘تھوڑی دیر بعد ساتوں بھائی گھر سے باہر آئے اور ان ساتوں کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔وہاں انہوں نے کھانے سے بھرے ہوئے سات خو ان ان کے سامنے رکھ دئیے۔ساتوں نے مل کرکھانا شروع کر دیا۔تھوڑی دیر میں چھ کا پیٹ بھر گیا اور وہ چپ چاپ بیٹھ گئے مگر ساتویں نے وہ سارا کھانا صاف کر دیا۔مگر اس پر بھی سات بھائی اپنی بہن کوان کے حوالے کرنے کو تیار نہ ہوئے۔انہوں نے اور ترکیبیں انہیں ہرانے کی نکالیں۔پانی کے سات بڑے بڑے مٹکے لے آئے اور کہا کہ یہ سارا پانی پی لوتوہم اپنی بہن تمہارے حوالے کر دیں گے۔شکاری کے بیٹے کے ساتھی نے جو ہمیشہ پیاسا رہتا تھا،ساتوں مٹکوں کا پانی پی لیااور پانی پی کر کہنے لگا ’’مجھے تھوڑا سا پانی اور پلاؤ،میں ابھی پیاسا ہوں‘‘ہماراایک گرم حمام ہے۔تم میں سے کوئی ایک اس کے اندر جا کرتھوڑی دیر بیٹھے تو ہم تمہاری بات مان لیں گے۔شکاری کے بیٹے کے اس ساتھی نے جسے ہمیشہ سردی لگتی رہتی تھی،کہا’’میں جاؤں گا اس حمام میں،میں تو سردی سے اکڑا جا رہا ہوں۔‘‘
لڑکی کے بھائیوں نے حمام کو اس قدر گرم کردیا تھا کہ کوئی بھی اس میں جاے تو جھلس کر مر جائے۔وہ آدمی اندر چلا گیا تو تھوڑی دیر تک سب اسکی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ نکلا،نہ اس کی آواز آئی۔انہوں نے حمام کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تووہ چلایا،دروازہ بند کرو مجھے سردی لگ جائے گی۔میرا پہلے ہی برا حال ہے۔
جب وہ باہر آیا تو لڑکی کے بھائیوں نے کہا کہ تم لوگوں نے ہماری ساری شرطیں پوری کر دیں مگر ابھی ایک شرط باقی ہے۔اگلے پہاڑ پر ایک چشمہ ہے۔تم میں سے کوئی شخص وہاں سے تھوڑا سا پانی لے آئے ہماری بہن بھی جا کر پانی لائے گی۔اگر تمہارا آدمی ہماری بہن سے پہلے پانی لے آیا تو ہم ہارے اور تم جیتے۔
شکارے کے بیٹے کا وہ ساتھی جو چھلانگیں لگاتا تھا،تیار ہو گیا۔اس نے دو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر نیچے کی طرف پھینکے اور ایک ہی چلانگ میں اس پہاڑ پر جا پہنچا۔چشمے سے پانی لے کر وہ معمولی چال سے واپس آنے لگا۔راستے میں اسے وہ لڑکی مل گئی۔وہ ابھی چشمے کی طرف جا رہی تھی۔اس آدمی نے لڑکی سے کہاہم جیت گئے اور تمہارے بھائی ہار گئے ہیں۔آؤ جانے سے پہلے تھوڑی دیر باتیں کر لیں۔لڑکی اس کے پاس بیٹھ گئی مگر اس آدمی کوباتیں کرتے کرتے نیند آگئی۔وہ سو گیا تو لڑکی نے اس کی بوتل کا پانی اپنی بوتل میں انڈیل لیا اور گھر کی طرف واپس ہونے لگی۔
جب اس کے ساتھی کو گئے ہوئے بہت دیر ہو گئی تو شکاری کے بیٹے کو فکر ہونے لگی۔اس نے اپنے ساتھی سے زمین پر کان لگا کر سننے کے لئے کہا۔اس نے کہا کہ’’ہمارا ساتھی تو سو رہا ہے،ہم ہار جائیں گے۔‘‘
شکاری کے بیٹے کا ساتھی جو زمیں ہلا سکتا تھا ، اس نے کہا کہ ’’ٹھہرو! میں زمین کو ہلاتا ہوں اور اسے جگاتاہوں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے زور سے زمین کو ہلایاتو وہ جاگ پڑا اوردیکھا کہ لڑکی اس کا پانی لے کے چلی گئی ہے۔اس نے وہیں سے ایک چھلانگ لگائی اور لڑکی کو راستے میں جا لیا۔اس نے پانی چھین کر پھر ایک چھلانگ لگائی اور اپنے ساتھیوں سے آملا۔
شکاری کا بیٹا اور اس کے ساتھی ساری شرطیں جیت چکے تھے۔اس لئے ساتوں بھائیوں نے اپنی بہن ان کے حوالے کر دی اور شکاری کا بیٹا اس لڑکی اور اپنے ساتھیوں کو لے کر بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔
باد شاہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا مگر وزیراور بھی جل گیا۔لڑکی نے پہلے بادشاہ کو پھر وزیر کواور پھر ہاتھی دانت کے محل کو غور سے دیکھا اور بادشاہ سے پوچھا:
’’اس محل کے لئے ہاتھی دانت کون لایا تھا؟‘‘
’’شکاری کا بیٹا‘‘بادشاہ نے کہا۔
’’اور محل کس نے بنایا؟‘‘لڑکی نے پوچھا۔
’’شکاری کے بیٹے نے ‘‘بادشاہ نے کہا۔
’’اور مجھے پہاڑوں سے اتنا لمبا سفر کرکے کون لایا؟‘‘لڑکی نے پوچھا۔
’’شکاری کا بیٹا‘‘بادشاہ نے کہا۔
لڑکی نے پوچھا:’’جب شکاری کے بیٹے نے سب کچھ کیا ہے تو میں تم سے شادی کیوں کروں؟‘‘اور پھر اس نے کہا ’’تمہارا وزیر بری عادت کی سزا میں چوہا بن جائے اور تم بلی بن کر اس کے پیچھے دوڑتے رہو۔‘‘لڑکی کا یہ کہنا تھا کہ وزیر چوہا بن گیا اور بادشاہ بلی بن کر اسے پکڑنے کے لئے دوڑنے لگا۔شہر کے لوگوں نے شکاری کے بیٹے کو اپنابادشاہ بنا لیا۔وہ بادشاہ سے پہلے بھی نالاں تھے اور وزیر انہیں تنگ کرتا رہتا تھا۔
شکاری کے بیٹے نے اس لڑکی سے شادی کر لی اور دونوں مل کر ہاتھی دانت کے محل میں خوشی خوشی رہنے لگے۔وہ اب اپنی ماں کو بھی محل میں لے آیا تھا۔ماں لڑکی سے مل کر بہت خوش ہوئی۔شکاری کا بیٹا ملک کا بادشاہ بن کر راج کرنے لگا.
———————————————————

“Katba” A Short Story by Ghulam Abbas

Articles

کتبہ

غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے جو دُور تک پھیلتا چلا گیا ہے ۔ عمارتوں میں کئی چھوٹے بڑے دفتر ہیں جن میں کم و بیش چار ہزار آدمی کام کرتے ہیں۔دن کے وقت اس علاقے کی چہل پہل اور گہما گہمی عموماً کمروں کی چار دیواریوں ہی میں محدود رہتی ہے۔ مگر صبح کو ساڑھے دس بجے سے پہلے اور سہ پہر کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ سیدھی اور چوڑی چکلی سڑک جو شہر کے بڑے دروازے سے اس علاقے تک جاتی ہے، ایک ایسے دریا کا روپ دھار لیتی ہے جو پہاڑوں پرسے آیا ہوا، اور اپنے ساتھ بہت ساخس و خاشاک بہا لا یا ہو۔

گرمی کا زمانہ، سہ پہر کا وقت ، سڑکوں پر درختوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے تھے مگر ابھی تک زمین کی تپش کا یہ حال تھا کہ جُوتوں کے اندر تلوے جُھلسے جاتے تھے۔ ابھی ابھی ایک چھڑکاؤ گاڑی گزری تھی۔ سڑک پر جہاں جہاں پانی پڑا تھا بخارات اُٹھ رہے تھے۔

شریف حسین کلرک درجہ دوم، معمول سے کچھ سویرے دفتر سے نکلا اور اس بڑے پھاٹک کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا جہاں سے تانگے والے شہر کی سواریاں لے جایا کرتے تھے۔

گھر لوٹتے ہوئے آدھے راستے تک تانگے میں سوار ہو کر جانا ایک ایسا لُطف تھا جو اسے مہینے کے شروع کے صرف چار پانچ روز ہی ملا کرتا تھا اور آج کا دن بھی انہی مبارک دنوں میں سے ایک تھا۔ آج خلافِ معمول تنخواہ کے آٹھ روز بعد اس کی جیب میں پانچ روپے کا نوٹ اور کچھ آنے پیسے پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی مہینے کے شروع ہی میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی تھی اور گھر میں وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دن میں دفتر کے حلوائی سے دو چار پوریاں لے کر کھا لی تھیں اور اوپر سے پانی پی کر پیٹ بھر لیا تھا۔ رات کو شہر کے کسی سستے سے ہوٹل میں جانے کی ٹھہرائی تھی۔ بس بے فکری ہی بے فکری تھی۔ گھر میں کچھ ایسا اثاثہ تھا نہیں جس کی رکھوالی کرنی پڑتی۔ اس لیے وہ آزاد تھا کہ جب چاہے گھر جائے اور چاہے تو ساری رات سڑکوں پر گھومتا رہے۔

تھوڑی دیر میں دفتروں سے کلرکوں کی ٹولیاں نکلنی شرو ع ہوئیں اور ان میں ٹائپسٹ ریکارڈ کیپر، ڈسپیچر، اکاؤنٹنٹ ، ہیڈ کلرک، سپرنٹنڈنٹ غرض ادنیٰ و اعلیٰ ہر درجہ اور حیثیت کے کلرک تھے اور اسی لحاظ سے ان کی وضع قطع بھی ایک دوسرے سے جُدا تھی۔ مگر بعض ٹائپ خاص طور پر نمایاں تھے۔ سائیکل سوار آدھی آستینوں کی قمیص ، خاکی زین کے نیکر اور چپل پہنے، سرپر سولا ہیٹ رکھے، کلائی پر گھڑی باندھے، رنگدار چشمہ لگائے، بڑی بڑی توندوں والے بابو چھاتا کھولے، منہ میں بیڑی، بغلوں میں فائلوں کے گٹھے دبائے۔ ان فائلوں کو وہ قریب قریب ہر روز اس امید میں ساتھ لے جاتے کہ جو گُتھیاں وہ دفتر کے غل غپاڑے میں نہیں سُلجھا سکے۔ ممکن ہے گھر کی یکسوئی میں ان کا کوئی حل سُوجھ جائے مگر گھر پہنچتے ہی وہ گرہستی کاموں میں ایسے الجھ جاتے کہ انہیں دیکھنے تک کا موقع نہ ملتا اور اگلے روز انہیں یہ مفت کا بوجھ جوں کا توں واپس لے آنا پڑتا۔

بعض منچلے تانگے، سائیکل اور چھاتے سے بے نیاز ، ٹوپی ہاتھ میں ، کوٹ کاندھے پر، گریبان کُھلا ہوا جسے بٹن ٹوٹ جانے پر انہوں نے سیفٹی پن سے بند کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کے نیچے سے چھاتی کے گھنے بال پسینے میں تتر بتر نظر آتے تھے۔ نئے رنگروٹ سستے، سلے سلائے ڈھیلے ڈھالے بد قطع سوٹ پہنے اس گرمی کے عالم میں واسکٹ اور نکٹائی کالر تک سے لیس ، کوٹ کی بالائی جیب میں دو دو تین تین فونٹین پن اور پنسلیں لگائے خراماں خراماں چلے آرہے تھے۔

گو ان میں سے زیادہ تر کلرکوں کی مادری زبان ایک ہی تھی مگر وہ لہجہ بگاڑ بگاڑ کر غیر زبان میں باتیں کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔اس کی وجہ و ہ طمانیت نہ تھی جو کسی غیر زبان پر قدرت حاصل ہونے پر اس میں باتیں کرنے پر اکساتی ہے بلکہ یہ کہ انہیں دفتر میں دن بھر اپنے افسروں سے اسی غیر زبان میں بولنا پڑتا تھا اور اس وقت وہ باہم بات چیت کر  کے اس کی مشق بہم پہنچا رہے تھے۔

ان کلرکوں میں ہر عمر کے لوگ تھے ۔ ایسے کم عمر بھولے بھالے نا تجربہ کار بھی جن کی ابھی مسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں اور جنہیں ابھی سکول سے نکلے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور ایسے عمر رسیدہ جہاں دیدہ گھاگ بھی جن کی ناک پر سالہا سال عینک کے استعمال کے باعث گہرا نشان پڑ گیا تھا اور جنہیں اس سڑک کے اتار چڑھاؤ دیکھتے دیکھتے پچیس پچیس ،تیس تیس برس ہو چکے تھے ۔ بیشتر کارکنوں کی پیٹھ میں گدّی میں ذرا نیچے خم سا آگیا تھا اور کُندا ُستروں سے متواتر داڑھی مونڈھتے رہنے کے باعث ان کے گالوں اور ٹھوڑی پر بالوں میں جڑیں پھوٹ نکلی تھیں جنہوں نے بے شمار ننھی پھنسیوں کی شکل اختیار کر لی تھی۔

پیدل چلنے والوں میں بہتیرے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ دفتر سے ان کے گھر کو جتنے راستے جاتے ہیں ان کا فاصلہ کتنے ہزار قدم ہے ۔ ہر شخص افسروں کو چڑچڑے پن یا ماتحتوں کی نالائقی پر نالاں نظر آتا تھا۔

ایک تانگے کی سواریوں میں ایک کی کمی دیکھ کر شریف حسین لپک کر اس میں سوار ہو گیا۔ تانگہ چلا اور تھوڑی دیر میں شہر کے دروازے کے قریب پہنچ کر رک گیا ۔ شریف حسین نے اکّنی نکال کر کوچوان کو دی اور گھر کے بجائے شہر کی جامع مسجد کی طرف چل پڑا، جس کی سیڑھیوں کے گردا گرد ہر روز شام کو کہنہ فروشوں اور سستا مال بیچنے والوں کی دکانیں سجا کر تی تھیں اور میلہ سالگا کرتا تھا ۔ دنیا بھر کی چیزیں اور ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ یہاں ملتے تھے ۔ اگر مقصد خرید و فروخت نہ ہو تو بھی یہاں اور لوگوں کو چیزیں خریدتے، مول تول کرتے دیکھنا بجائے خود ایک پُر لطف تماشا تھا۔

شریف حسین لیکچر باز حکیموں، سینا سیوں ، تعویذ گنڈے بیچنے والے سیانوں اور کھڑے کھڑے تصویر اتار دینے والے فوٹوگرافروں کے جمگھٹوں کے پاس ایک ایک دو دو منٹ رکتا، سیر دیکھتا اس طرف جا نکلا جہاں کباڑیوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں اسے مختلف قسم کی بے شمار چیزیں نظر آئیں۔ ان میں سے بعض ایسی تھیں جو اپنی اصلی حالت میں بلاشبہ صنعت کا اعلیٰ نمونہ ہوں گی مگر ان کباڑیوں کے ہاتھ پڑتے پڑتے یا تو ان کی صورت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ پہچانی ہی نہ جاتی تھی یا ان کا کوئی حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہوتا جس سے وہ بے کار ہو گئی تھیں۔ چینی کے ظروف اور گلدان، ٹیبل لیمپ، گھڑیاں ، جلی ہوئی بیٹریاں ، چوکٹھے ، گراموفون کے کل پُرزے ، جراحی کے آلات، ستار، بھس بھرا ہرن، پیتل کے لم ڈھینگ ، بدھ کا نیم قد مجسمہ……..

ایک دکان پر اس کی نظر سنگِ مر مر کے ایک ٹکڑے پر پڑی جو معلوم ہوتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے کسی مقبرے یا بارہ دری سے اکھاڑا گیا ہے ۔ اس کا طول کوئی سوا فٹ تھا اور عرض ایک فٹ ۔ شریف حسین نے اس ٹکڑے کو اُٹھا کر دیکھا۔ یہ ٹکڑا ایسی نفاست سے تراشا گیا تھا کہ اس نے محض یہ دیکھنے کے لیے بھلا کباڑی اس کے کیا دام بتائے گا، قیمت دریافت کی۔

” تین روپے !” کباڑی نے اس کے دام کچھ زیادہ نہیں بتائے تھے مگر آخر اسے اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس نے ٹکڑا رکھ دیا اور چلنے گا۔

” کیوں حضرت چل دیے؟ آپ بتائیے کیا دیجئے گا!”۔

وہ رُک گیا ۔ اسے یہ ظاہر کرتے ہوئے شرم سی آئی کہ اسے اس چیز کی ضرورت نہ تھی اور اس نے محض اپنے شوقِ تحقیق کو پورا کرنے کے لیے قیمت پوچھی تھی۔ اس نے سودا، دام اس قدر کم بتاؤ کہ جو کباڑی کو منظور نہ ہوں۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ تو نہ کہے کہ یہ کوئی کنگلا ہے جو دکانداروں کا وقت ضائع اور اپنی حرص پوری کرنے آیا ہے۔

” ہم تو ایک روپیہ دیں گے” ۔ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہو کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہو جائے مگر اُس نے اس کی مہلت ہی نہ دی۔

” اجی سنیے تو ، کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سو ا روپیہ بھی نہیں…….. اچھالے جائیے”۔

شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے۔ اب لوٹنے کے سوا کوئی چارہ ہی کیا تھا۔ قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے اس مرمریں ٹکڑے کو اُٹھا کر دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا کیوں بیچنا قبول کیا تھا۔

رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا تو اس سنگِ مر مر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا ۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے ۔ کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کر کے سپرنٹنڈنٹ بن جائے اور اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہو جائے…….. یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈ کلرک ہی سہی۔ پھر اسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے اور اس مرمریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر نصب کر دے۔

مستقبل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر کچھ اس طرح چھا گئی کہ یا تو وہ اس مرمریں ٹکڑے کو بالکل بے مصرف سمجھتا تھا یا اب اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا وہ ایک عرصے سے اس قسم کے ٹکڑے کی تلاش میں تھا اور اگر اسے نہ خریدتا تو بڑی بھُول ہوتی۔

شروع شروع میں جب وہ ملازم ہوا تھا تو اس کا کام کرنے کو جوش اور ترقی کا ولولہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ مگر دو سال کی سعی لا حاصل کے بعد رفتہ رفتہ اس کا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور مزاج میں سکون آ چلا تھا۔ مگر سنگِ مر مر کے ٹکڑے نے پھر اس کے خیالوں میں ہلچل ڈال دی۔مستقبل کے متعلق طرح طرح کے خوش آئندہ خیالات ہر روز اس کے دماغ میں چکر لگانے لگے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، دفتر جاتے ، دفتر سے آتے، کوٹھیوں کے باہر لوگوں کے نام کے بورڈ دیکھ کر ۔ یہاں تک کہ جب مہینہ ختم ہوا اور اسے تنخواہ ملی تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سنگِ مرمر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک مشہور سنگ تراش کے پاس لے گیا جس نے بہت چابکدستی سے اس پر اس کا نام کندہ کر کے کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوشنما بیلیں بنا دیں۔

اس سنگِ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کُھدا ہوا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا ہو۔

سنگ تراش کی دکان سے روانہ ہوا تو بازار میں کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کتبہ پر سے اس اخبار کو اتار ڈالے جس میں سنگ تراش نے اسے لپیٹ دیا تھا اور اس پر ایک نظر اور ڈال لے مگر ہر بار ایک نامعلوم حجاب جیسے اس کے ہاتھ پکڑ لیتا۔شاید وہ راہ چلتوں کی نگاہوں سے ڈرتا کہ کہیں وہ اس کتبہ کو دیکھ کر اس کے ان خیالات کو نہ بھانپ جائیں جو پچھلے کئی دنوں سے دماغ پر مسلط تھے۔

گھر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے اخبار اتار پھینکا اور نظریں کتبہ کی دلکش تحریر پر گاڑے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ بالائی منزل میں اپنے مکان کے دروازے کے سامنے پہنچ کر رُک گیا۔ جیب سے چابی نکالی، قفل کھولنے لگا۔ پچھلے دو برس میں آج پہلی مرتبہ اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کے مکان کے باہر ایسی کوئی جگہ ہی نہیں کہ اس پر کوئی بورڈ لگایا جا سکے۔ اگر جگہ ہوتی بھی تو اس قسم کے کتبے وہاں تھوڑا ہی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تو بڑا سامکان چاہیے جس کے پھاٹک کے باہر لگایا جائے تو آتے جاتے کی نظر بھی پڑے……..

قفل کھول کر مکان کے اندر پہنچا اور سوچنے لگا کہ فی الحال اس کتبہ کو کہاں رکھوں، اس کے ایک حصہ مَکان میں دو کوٹھریاں ، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ تھا۔ الماری صرف ایک ہی کوٹھڑی میں تھی مگر اس کے کواڑ نہیں تھے بالآخر اس نے کتبہ کو اس بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔

ہر روز شام کو جب وہ دفتر سے تھکا ہارا واپس آتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس کتبہ ہی پر پڑتی۔ امیدیں اسے سبز باغ دکھاتیں اور دفتر کی مشقت کی تکان کسی قدر کم ہو جاتی۔ دفتر میں جب کبھی اس کا کوئی ساتھی کسی معاملے میں اس کی رہنمائی کا جویا ہوتا تو اپنی برتری کے احساس سے اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں جب کبھی کسی ساتھی کی ترقی کی خبر سنتا، آرزوئیں اس کے سینے میں ہیجان پیدا کر دیتیں ۔ افسر کی ایک ایک نگاہ لطف و کرم کا نشہ اسے آٹھ آٹھ دن رہتا۔

جب تک اس کی بیوی بچے نہیں آئے وہ اپنے خیالوں ہی میں مگن رہا۔ نہ دوستوں سے ملتا نہ کھیل تماشوں میں حصہ لیتا، رات کو جلد ہی ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آ جاتا اور سونے سے پہلے گھنٹوں عجیب عجیب خیالی دنیاؤں میں رہتا، مگر ان کے آنے کی دیر تھی کہ نہ تو وہ فراغت ہی رہی اور نہ وہ سکون ہی ملا۔ ایک بار پھر گرہستی کے فکروں نے اسے ایسا گھیر لیا کہ مستقبل کی یہ سہانی تصویریں رفتہ رفتہ دھُندلی پڑ گئیں۔

کتبہ سال بھر تک اسی بے کواڑ کی الماری میں پڑا رہا۔ اس عرصے میں اس نے نہایت محنت سے کام کیا۔ اپنے افسروں کو خوش رکھنے کی انتہائی کوشش کی مگر اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔

اب اس کے بیٹے کی عمر چار برس کی ہو گئی تھی اور اس کا ہاتھ اس بے کواڑ کی الماری تک بخوبی پہنچ جاتا تھا۔ شریف حسین نے اس خیال سے کہ کہیں اس کا بیٹا کتبہ کو گرانہ دے اسے وہاں سے اٹھا لیا اور اپنے صندوق میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیا۔

ساری سردیاں یہ کتبہ اس صندوق ہی میں پڑا رہا۔ جب گرمی کا موسم آیا تو اس کی بیوی کو اس کے صندوق سے فالتو چیزوں کو نکالنا پڑا۔ چنانچہ دوسری چیزوں کے ساتھ بیوی نے کتبہ بھی نکال کر کاٹھ کے اس پرانے بکس میں ڈال دیا جس میں ٹوٹے ہوئے چوکھٹے بے بال کے برش، بیکار صابن دانیاں، ٹوٹے ہوئے کھلونے اور ایسی ہی اور دوسری چیزیں پڑی رہتی تھی۔

شریف حسین نے اپنے مستقبل کے متعلق زیادہ سوچنا شروع کر دیاتھا۔ دفتروں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ ترقی لطیفہ غیبی سے نصیب ہوتی ہے، کڑی محنت جھیلنے اور جان کھپانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اس کی تنخوا ہ میں ہر دوسرے برس تین روپے کا اضافہ ہو جاتا جس سے بچوں کی تعلیم وغیرہ کا خرچ نکل آتا اور اسے زیادہ تنگی نہ اٹھانی پڑتی، پے درپے مایوسیوں کے بعد جب اس کو ملازمت کرتے بارہ برس ہو چکے تھے اور اس کے دل سے رفتہ رفتہ ترقی کے تمام ولولے نکل چکے تھے اور کتبہ کی یاد تک ذہن سے محو ہو چکی تھی تو اس کے افسروں نے اس کی دیانت داری اور پرانی کار گزاری کا خیال کر کے اسے تین مہینے کے لیے عارضی طور پر درجہ اوّل کے ایک کلرک کی جگہ دے دی جوچھُٹی پر جانا چاہتا تھا۔

جس روز اسے یہ عہدہ ملا اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے تانگے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پیدل ہی بیوی کو یہ مژدہ سنانے چل دیا۔ شاید تانگہ اسے کچھ زیادہ جلدی گھر نہ پہنچا سکتا!

اگلے مہینے اس نے نیلام گھر سے ایک سستی سی لکھنے کی میز اور ایک گھومنے والی کرسی خریدی، میز کے آتے ہی اسے پھر کتبہ کی یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی سوئی ہوئی امنگیں جاگ اٹھیں ۔اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کاٹھ کی پیٹی میں سے کتبہ نکالا، صابن سے دھویا پونجھا اور دیوار کے سہارے میز پر ٹکا دیا۔

یہ زمانہ اس کے لیے بہت کٹھن تھا کیونکہ وہ اپنے افسروں کو اپنی برتر کار گزاری دکھانے کے لیے چُھٹی پر گئے ہوئے کلرک سے دُگنا کام کرتا۔اپنے ما تحتوں کو خوش رکھنے کے لیے بہت ساان کا کام بھی کر دیتا ۔گھر پر آدھی رات تک فائلوں میں غرق رہتا ۔پھر بھی وہ خوش تھا۔ ہاں جب کبھی اسے اس کلر ک کی واپسی کا خیال آتا تو اس کے دل بجھ سا جاتا کبھی کبھی وہ سوچتا، ممکن ہے وہ اپنی چُھٹی کی میعاد بڑھوا لے……..ممکن ہے وہ بیمار پڑ جائے…….. ممکن ہے وہ کبھی نہ آئے ……..

مگر جب تین مہینے گزرے تو نہ اس کلرک نے چُھٹی کی میعاد ہی بڑھوائی اور نہ بیماری پڑا ، البتہ شریف حسین کو اپنی جگہ پر آ جانا پڑا۔

اس کے بعد جو دن گزرے ،وہ اس کے لیے بڑی مایوسی اور افسردگی کے تھے۔ تھوڑی سی خوشحالی کی جھلک دیکھ لینے کے بعد اب اسے اپنی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر معلوم ہونے لگی تھی۔ ا س کا جی کام میں مطلق نہ لگتا تھا۔ مزاج میں آلکس اور حرکات میں سُستی سی پیدا ہونے لگی، ہر وقت بیزار بیزار سا رہتا۔ نہ کبھی ہنستا ، نہ کسی سے بولتا چالتا مگر یہ کیفیت چند دن سے زیادہ نہ رہی۔ افسروں کے تیور جلد ہی اسے راہِ راست پر لے آئے۔

اب اس کا بڑا لڑکا چھٹی میں پڑھتا تھا اور چھوٹا چوتھی میں اور منجھلی لڑکی ماں سے قرآن مجید پڑھتی، سینا پرونا سیکھتی اور گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ باپ کی میز کرسی پر بڑے لڑکے نے قبضہ جما لیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اسکول کا کام کیا کرتا۔ چونکہ میز کے ہلنے سے کتبہ گر جانے کا خدشہ رہتا تھا اور پھر اس نے میز کی بہت سی جگہ بھی گھیر رکھی تھی۔ اس لیے اس لڑکے نے اسے اٹھا کر پھر اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔

سال پر سال گزرتے گئے۔ اس عرصہ میں کتبہ نے کئی جگہیں بدلیں ، کبھی بے کواڑ کی الماری میں تو کبھی میز پر۔ کبھی صندوقوں کے اوپر تو کبھی چار پائی کے نیچے۔ کبھی بوری میں تو کبھی کاٹھ کے بکس میں۔ ایک دفعہ کسی نے اٹھا کر باورچی خانے کے اس بڑے طاق میں رکھ دیا جس میں روزمرہ کے استعمال کے برتن رکھے رہتے تھے۔ شریف حسین کی نظر پڑ گئی، دیکھا تو دھوئیں سے اس کا سفید رنگ پیلا پڑ جاتا تھا ، اٹھا کر دھویا پونچھا اور پھر بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا مگر چند ہی روز میں اسے پھر غائب کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہاں کاغذی پھولوں کے بڑے بڑے گملے رکھ دیے گئے جو شریف حسین کے بڑے بیٹے کے کسی دوست نے اسے تحفے میں دیے تھے۔رنگ پیلا پڑ جانے سے کتبہ الماری میں رکھا ہوا بدنما معلوم ہوتا تھا مگر اب کاغذی پھولوں کے سرخ سرخ رنگوں سے الماری میں جیسے جان پڑ گئی تھی اور ساری کوٹھڑی دہک اٹھی تھی۔

اب شریف حسین کو ملازم ہوئے پورے بیس سال گزر چکے تھے۔اس کے سر کے بال نصف سے زیادہ سفید ہو چکے تھے اور پیٹھ میں گدّی سے ذرا نیچے خم آگیا تھا ۔ اب بھی کبھی کبھی اس کے دماغ میں خوشحالی و فارغ البالی کے خیالات چکر لگاتے مگر اب ان کی کیفیت پہلے کی سی نہ تھی کہ خواہ وہ کوئی کام کر رہا ہو۔ تصورات کو اُڑا لے جاتی اور پھر بیٹی کی شادی، لڑکوں کی تعلیم، اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات ، پھر ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے نوکریوں کی تلاش ……..یہ ایسی فکریں نہ تھیں کہ پَل بھر کو بھی اس خیال کو کسی اور طرف بھٹکنے دیتیں۔

پچپن برس کی عمر میں اسے پنشن مل گئی۔ اب اس کا بیٹا ریل کے مال گودام میں کام کرتا تھا۔ چھوٹا کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھا اور اس سے چھوٹا انٹرنس میں پڑھتا تھا۔ اپنی پنشن اور لڑکوں کی تنخواہیں سب مل ملا کے کوئی ڈیڑھ سو روپے ماہوار کے لگ بھگ آمدنی ہو جاتی تھی جس میں بخوبی گزر ہونے لگی۔ علاوہ ازیں اس کا ارادہ کوئی چھوٹا موٹا بیوپار شروع کرنے کا بھی تھا مگر مندے کے ڈرسے ابھی پورا نہ ہو سکا تھا۔

اپنی کفایت شعاری اور بیوی کی سلیقہ مندی کی بدولت اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادیاں خاصی دھوم دھام سے کر دی تھیں۔ ان ضروری کاموں سے نمٹ کر اس کے جی میں آئی کہ حج کر آئے مگر اس کی توفیق نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ دنوں مسجدوں کی رونق خوب بڑھائی مگر پھر جلد ہی بڑھاپے کی کمزوریوں اور بیماریوں نے دبانا شروع کر دیا اور زیادہ تر چار پائی ہی پر پڑا رہنے لگا۔

جب اسے پنشن وصول کرتے تین سال گزر گئے تو جاڑے کی ایک رات کو وہ کسی کام سے بستر سے اٹھا۔ گرم گرم لحاف سے نکلا تھا۔ پچھلے پہر کی سردا ور تند ہوا تیر کی طرح اس کے سینے میں لگی اور اسے نمونیا ہو گیا۔ بیٹوں نے اس کے بہتیرے علاج معالجے کرائے۔ اس کی بیوی اور بہو دن رات اس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں مگر افاقہ نہ ہوا وہ کوئی چار دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد مر گیا۔

اس کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مکان کی صفائی کرا رہا تھا کہ پرانے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بوری میں اسے یہ کتبہ مل گیا ۔بیٹے کو باپ سے بے حد محبت تھی، کتبہ پر باپ کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر آئے اور وہ دیر تک ایک محویت کے عالم میں اس کی خطاطی اور نقش و نگار کو دیکھتا رہا۔ اچانک اسے ایک بات سوجھی جس نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دی۔

اگلے روز وہ کتبہ کو ایک سنگ تراش کے پاس لے گیا اور اس سے کتبہ کی عبارت میں تھوڑی سی ترمیم کرائی اور پھر اسی شام اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔

٭٭٭

“Marked by the Moon” A Persian Folk Tale

Articles

فارسی لوک کہانی ’’ نشانِ قمر‘‘

مترجم : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

ایک مرتبہ کا ذکر ہے۔ بہت پہلے، بہت بہت پہلے۔دنیا کے بالکل کنارے کسی ایسی جگہ پر جو نہ بہت دور اور نہ ہی بہت قریب تھی ایک لڑکی رہا کرتی تھی جس کا نام چاند پری تھا۔چاند پری بہت مددگار اور رحم دل تھی۔لیکن اس پر مایوسیوں اور اداسیوں کا بوجھ بھی تھا۔پوری دنیا میں اس کا اپنا گھر اور اس کے اپنے دوست نہیں تھے۔وہ بالکل اکیلی تھی۔وہ بی بی خانم کے یہاں رہا کرتی تھی۔بی بی خانم کی ایک لڑکی تھی جس کا نام گلاب تن تھا۔وہ بھی خوبصورت تھی لیکن رحمدل نہیں تھی۔وہ ہر ایک کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔اگرچہ چاند پری کے پاس نہ خوبصورت لباس تھے، نہ اس کا اپنا گھر یا خاندان تھااور نہ ہی اس کے اپنے دوست تھے، اس کے باوجود بھی گلاب تن اس سے حسد کیا کرتی تھی۔
گھر کا تمام کام چاندپری کو ہی کرنا پڑتا تھا۔وہ صبح صادق سے لے کر آدھی رات تک گھر کا کام کیا کرتی تھی۔مختلف کمروں میں جھاڑو دینا، کپڑے دھونا، کھانا بنانا، کپڑے سینا اور اسی طرح کے تمام چھوٹے بڑے کام چاند پری کے ذمّہ تھے۔چاند پری ان تمام کاموں سے بہت زیادہ تھک جاتی تھی۔اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اتنے زیادہ برتن اور کپڑے دھونے کی طاقت نہ تھی اور نہ ہی وہ تمام کمروں میں جھاڑو لگا سکتی تھی۔کبھی کبھی تنہائی اور اکیلے پن کے احساس سے اس کا دل بھر آتا تھا۔تب وہ گھر کے پیچھے جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر رویا کرتی تھی۔اسے روتے دیکھ کر تتلیاں اس کے اطراف میں منڈلاتیں اور اس کے سر پر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔پھول اپنا سر جھکا کر اپنی خوشبو اس پر چھڑکا کرتے تھے۔اگر رات کا وقت ہوتا تب ستارے رات بھر اس کے لیے جھلملایا کرتے تھے۔
ایک دن، گزرے ہوئے تمام دنوں کی طرح، ماضی کے تمام دنوں کی طرح چاند پری، بی بی خانم اور گلاب تن کے میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے باہر گئی۔گھر کے پیچھے دو کنویں تھے۔ایک کنواں بہت پہلے ہی سوکھ چکا تھا۔لیکن دوسرا کنواں پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔چاندپری ایک ایک بالٹی پانی نکال کر کپڑے دھوتی رہی۔ان تمام کپڑوں کو دھونا اس کے لیے بہت مشکل کام تھا۔اس کی انگلیاں زخمی ہو چکی تھیں۔پیٹھ میں درد شروع ہو چکا تھا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسے ابھی بہت سارے کپڑے دھونے تھے۔
اس نے تمام کپڑے دھو لیے ، انہیں سکھانے کے لیے ایک رسی پر پھیلادیااور ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئی۔اس کی آنکھ لگ گئی اور چاندپری کو بالکل احساس نہیں ہوپایا کہ وہ کتنی دیر سے سوتی رہی ہے۔ اچانک تیز آوازسے وہ چونک کر بیدار ہوگئی۔شدید آندھی چل رہی تھی۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو۔درخت جھومنے لگے ،خوفناک آوازیں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ آندھی ان تمام کپڑوں کو اڑالے گئی جسے چاندپری نے ابھی ابھی دھویا تھا۔چاندپری کپڑوں کو پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑتی رہی۔انہیں یکجا کرنے کے لیے وہ ادھر سے اُدھر دوڑتی رہی۔ پھر اس نے اپنے اطراف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ کچھ کپڑے کنویں کے کنارے پر پڑے ہوئے ہیں۔ جب اس نے انہیں جمع کرنا شروع کیا تب ایک کپڑا کنویں میں گر گیا۔ چاندپری بہت گھبرا گئی۔وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی،’’اگر بی بی خانم کو اس بات کا پتہ چل گیا تو میں مصیبت میں آجائوں گی۔ یقینا وہ مجھے ڈانٹے گی۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے، گھر سے ہی نکال دے۔‘‘
چاندپری آہستہ آہستہ پورے احتیاط سے کنویں میں اترنے لگی۔ اس نے سوچ لیا کہ چاہے جو ہوجائے وہ کپڑا باہر نکال کر ہی رہے گی۔ ابھی وہ زیادہ نیچے نہیں اتری تھی کہ اس کا پیر پھسل گیااور وہ نیچے گر گئی۔جب اسے ہوش آیا،اس نے اپنے اطراف دیکھا، بادل، زمین، آسمان،یہاں تک کہ درختوں اور پھولوں کے رنگ بھی مختلف تھے۔وہ بہت زیادہ خوبصورت اور دیدہ زیب تھے۔اس نے اپنی آنکھوں کو ملنا شروع کیا۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔چاندپری نے بی بی خانم کا لباس تلاش کرنا شروع کیا۔ اسے تھوڑے فاصلے پر ایک جھونپڑی نظر آئی۔خاموشی سے وہ جھونپڑی کے قریب پہنچی اور اس نے دروازے پر دستک دی۔ اسے اندر سے آواز آئی کہ تم جو بھی ہو، جہاں سے بھی آئی ہو اندر آجائو۔دروازہ کھلا ہوا ہے۔چاندپری دروازہ کھول کرآہستہ سے اندر داخل ہوگئی۔اسے جھونپڑی مکمل طور پر درھم برہم نظر آرہی تھی۔ ہر چیز ادھر اُدھر بکھری ہوئی تھی۔اس پریشانی میں چاندپری کسی کو دیکھ نہیں سکی۔اسی آواز نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’میں یہاں ہوں، کھڑکی کی طرف دیکھو، میں یہاں بیٹھی ہوں۔‘‘
چاند پری نے اپنا سر گھمایا اور دیکھا، وہ ڈر کر کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ایک چڑیل کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے چاند پری کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا:’’لوگ مجھے آنٹی گھولی کہتے ہیں۔تمہارا نام کیا ہے؟‘‘چاندپری نے اچھی طرح اس کی جانب دیکھا۔آنٹی گھولی کی مسکراہٹ خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھوں سے رحمدلی جھانک رہی تھی۔ان چیزوں کو دیکھ کر اس کا ڈر کچھ حد تک کم ہوگیا۔وہ اور قریب ہوگئی اور اپنا نام بتایا۔اسی لمحے اسے بی بی خانم کا لباس آنٹی گھولی کے ہاتھ میں نظر آیا۔چاندپری نے مسکراتے ہوئے کہا:’’یہ بی بی خانم کا ڈریس ہے اور میں اسے ہی تلاش کرتے ہوئے یہاں تک آئی ہوں۔‘‘
آنٹی گھولی نے لباس کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑلیا اور کہا،’’اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دوگی تب میں یہ لباس تمہیں لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر جانے کا راستہ بھی بتا دوں گی۔‘‘چاندپری ہنسنے لگی، وہ آنٹی گھولی کی بغل میں بیٹھ گئی،اس کے پیروں پر ہاتھ رکھا اور کہا،’’اپنے سوال پوچھو لیکن یہ بھی خیال رکھو کہ سوال زیادہ مشکل نہیں ہونے چاہیے۔‘‘
آنٹی گھولی نے اپنے خیالات یکجا کرتے ہوئے پوچھا،’’کیا میرا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے؟‘‘چاندپری نے اپنے اطراف دیکھا،ہرچیز بکھری پڑی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے آنٹی گھولی نے کئی سالوں سے اپنے کمرے کی صاف صفائی نہ کی ہو۔چاندپری نے اپنا سر ہلایا اور کہا،’’یہ گھر خوبصورت ہے لیکن بی بی خانم کا گھر اس سے زیادہ صاف ستھرا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چین محسوس ہونے لگی۔ممکن تھا کہ وہ رودیتی لیکن چاندپری نے اس سے کہا، ’’آئو ہم دونوں ایک ساتھ کمرے کی صفائی کرتے ہیں۔‘‘فوراً اس نے خود سے کام کرنا شروع کردیا،سب سے پہلے اس نے کھڑکیاں کھولیں،اس کے بعد کمرے میں جھاڑو لگایا،ہر چیز کو اپنی صحیح جگہ پر رکھا،جتنی چیزوں کو دھونا ضروری تھا اسے دھویا،آنٹی گھولی بھی کام میں اس کی مدد کرتی رہی۔کچھ ہی وقت میں کمرہ صاف و شفاف نظر آنے لگا۔کام ختم کرنے کے بعد چاند پری نے کہا،’’اب تمہارا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ صاف اور خوبصورت ہو گیا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کمرے کی طرف دیکھا،وہ خود بھی یقین نہیں کرسکی کہ کمرہ اتنا زیادہ صاف ہوگیا۔ وہ اتنی زیادہ خوش ہوئی کہ اسے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرنا ہے۔چاندپری بھی مسکرانے لگی۔ اسے یاد تھا کہ اسے یہاں سے جانا ہے اس لیے اس نے آنٹی گھولی سے کہا کہ وہ اب اپنا دوسرا سوال کرے۔آنٹی گھولی نے اپنا اسکارف درست کیا،اپنے ڈریس پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا،’’کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
چاندپری نے آنٹی گھولی کو بغور دیکھا،اس کا چہرہ انتہائی گندہ اور گرد آلود تھا،اس نے اچھی طرح سے اپنے ہاتھ اور منہ بھی نہیں دھویا تھا۔کافی عرصے سے بالوں میں کنگھی بھی نہیں کی تھی۔چاند پری نے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’مجھے آپ پر ترس آتا ہے، بی بی خانم آپ سے زیادہ خوبصورت اور نفاست پسند ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے دوبارہ بے چینی محسوس کی لیکن چاندپری نے کہا،’’آئو، کھڑے رہو اور پہلے اپنا ہاتھ منہ دھو لو۔‘‘چاندپری نے منہ ہاتھ دھونے میں آنٹی گھولی کی مدد کی۔اس کے بعد وہ نیچے بیٹھ گئی اور آنٹی گھولی کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔اس نے اس کے سر پر صاف اسکارف بھی رکھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’اب آپ زیادہ نفاست پسند اور پرکشش نظر آرہی ہیں۔‘‘آنٹی گھولی نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا،وہ اپنا سر ادھر اُدھراور اوپر نیچے کرنے لگی۔پھر وہ چاندپری کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جبکہ چاندپری کا چہرہ آنٹی گھولی کے شانوں پر تھا، آنٹی گھولی چاند پری کا سر سہلانے لگی۔چاند پری کو اپنی ماں یاد آگئی۔اس نے آنٹی گھولی سے کہا،’’آپ بہت مہربان ہیں، آپ میری ماں کی طرح ہے۔‘‘اتنا سنتے ہی آنٹی گھولی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔اس نے چاند پری کا چہرہ اوپر اٹھایا اور کہا،’’میری پیاری بیٹی، اب تم چلی جائو، کافی دیر ہو رہی ہے۔‘‘
چاند پری نے کہا، ’’کیا آپ بھول گئیں، آپ نے ابھی تیسرا سوال نہیں پوچھا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کہا ،’’تم نے خود ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔میں یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ ’’کون زیادہ مہربان ہے؟ میں یا بی بی خانم؟اور تم نے کہہ دیا کہ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں۔‘‘ آنٹی گھولی نے چاندپری کو لباس لوٹا دیا اور کہا،’’کاش کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکتیں!کاش کہ تم میری دوست اور ساتھی ہوتیں!لیکن تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’جھونپڑی کے پاس میں ایک ندی ہے، یہ دھنک ندی ہے،جب اس کا پانی نیلا ہوجائے تب تم اپنا چہرہ دھو لینا۔‘‘آنٹی گھولی نے اسے ایک پھول بھی دیااور کہا کہ ’’اسے’ گلِ آرزو ‘کہتے ہیں۔یہ تمہاری ایک خواہش پوری کرسکتاہے۔‘‘چاند پری بہت خوش ہوئی۔اس نے’ گلِ آرزو ‘اپنی جیب میں رکھا،آنٹی گھولی کا بوسہ لیا اور وہاں سے نکل پڑی۔جھونپڑی کے بازومیں اسے دھنک ندی دکھائی دی،اس نے پانی کا رنگ نیلا ہونے تک انتظار کیا،جس لمحے وہ ندی کے پانی میں اپنا چہرہ دھو رہی تھی تب اس پر مدہوشی طاری ہونے لگی،اسے محسوس ہورہا تھا جیسے دنیا اس کے سامنے گردش کر رہی ہے۔اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ بھی نہیں یاد رہا۔
جب چاندپری کی آنکھ کھلی تب اسے محسوس ہوا کہ وہ سوکھے ہوئے کنویں کے پاس پڑی ہے۔چاند پری نے اطراف میں دیکھا اور اپنے تمام کپڑے بالٹی میں یکجا کیے۔گھر جانے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ دھونا چاہتی تھی۔اس نے کنویں میں بالٹی ڈالی،تب اچانک اسے محسوس ہوا کہ کنویں میں کوئی چیز چمک رہی ہے۔چاندپری اسے بغور دیکھنے لگی۔ایسا لگتا تھا جیسے کنویں میں کوئی ستارہ اتر آیا ہو۔اسے بہت تعجب ہوا۔اس نے عجلت میں پانی کی بالٹی اوپر کھینچی۔چاند پری بہت گھبرا گئی تھی۔وہ فوراً اپنے ہاتھ دھو لینا چاہتی تھی۔لیکن اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ستارہ اس کی بالٹی میں چمک رہا ہو۔چاندپری نے اسے اور قریب سے دیکھا۔وہ چمک اس کے چہرے پر تھی۔وہ ہلالِ عید کی طرح اک چھوٹا اور خوبصورت چاند تھا جو چاندپری کی پیشانی پر جگمگارہا تھا۔
چاندپری نے اپنی پیشانی کو چھو کردیکھا،اس نے چاند نکالنے کی کوشش کی،لیکن کسی بھی طرح سے چاند اس کی پیشانی سے الگ نہیں ہوسکا۔اچانک نرم نازک ہو ا ا س کے چہرے کو چھو تے ہوئے گزرنے لگی۔پھول اسے دیکھ کر سر جھکانے لگے۔ پنکھڑیاں ٹوٹ کر اس کے پیروں پر گرنے لگی اور اسے چندا، چندا کہہ کر مخاطب کرنے لگیں۔تتلیاں اس کے اطراف منڈلاتے ہوئے اس کے کانوں کے قریب جاکر اسے چندا، چندا پکارتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ تم کتنی خوبصورت ہوگئی ہو!تتلیاں درخت اور ہوائیں اسے چاند پری کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔دھیرے دھیرے اس نے گھر کا رخ کیا۔ اس نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ لیا تاکہ بی بی خانم اس کی پیشانی پر وہ چاند نہ دیکھ سکے۔ لیکن بی بی خانم نے اسے دیکھ ہی لیا۔ حیرت کی وجہ سے وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر رہی۔ چاند پری کا چہرہ کسی چاند کی طرح روشن تھا۔ بی بی خانم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے گئی۔ اسے اوپر سے نیچے تک دیکھنے کے بعد سوال کیاکہ کیا ہوا؟ یہ چاند کہاں سے آیا؟اورتم نے کیا کیا؟
چاند پری بہت ڈر گئی اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔اس نے کہا ’’میں نہیں جانتی ، شاید آنٹی گھولی نے ایسا کیا ہو۔‘‘
بی بی خانم نے حیرت سے دریافت کیا،’’آنٹی گھولی ! یہ آنٹی گھولی کون ہے؟‘‘پھر اس نے چاند پری کے بال کھینچتے ہوئے کہا،’’تم مجھے ضرور بتائو گی کہ تم نے کیا کیا،تم کہاں گئی تھیں؟ اور تم گلاب تن کو بھی سکھائو گی کہ تم نے ایسا کس طرح کیا۔‘‘
چاند پری خوفزدہ ہوگئی اس نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا،’’ٹھیک ہے میں گلاب تن سے کہہ دوں گی کہ میں نے کیا کیا اور میں کہاں گئی تھی۔‘‘
اگلی صبح گلاب تن بھی بالٹی میں کپڑے بھر کر سوکھے کنویں کے قریب پہنچی،اس نے ایک لباس کنویں میں پھینک دیااور خود سے کنویں میں اترنے لگی،ابھی وہ تہہ تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ اس کا پیر پھسل گیا۔
جب گلاب تن کو ہوش آیا تووہ جلدی جلدی اس سمت دوڑنے لگی جس کا ذکرچاند پری نے کیا تھا۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے آنٹی گھولی کی جھونپڑی نظر آگئی۔دروازے پر دستک دیے بغیر وہ اندر داخل ہوگئی۔ اس نے سلام تک نہیں کیا۔وہ سیدھے اندر داخل ہوئی اور ایک کنارے پر جا کر بیٹھ گئی۔ آنٹی گھولی نے اسے دیکھا اور دریافت کیا،’’تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئی ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
گلاب تن نے نہ ہی اپنا نام بتایا اور نہ ہی یہ کہا کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔اس نے صرف اتنا کہا کہ میں نے اپنا لباس گم کردیا ہے، مجھے میرا لباس دے دو اور میری پیشانی پر نشانِ قمر بنا دو۔
آنٹی گھولی نے اس سے کہا میں تم سے تین سوالات پوچھوں گی، اگر تم نے ان کے جوابات دے دیئے تو میں تمہیں تمہارا ڈریس لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر کا راستہ بھی بتا دوں گی۔ اس نے اس کمرے کی طرف اشارہ کیا جسے چاند پری کی مدد سے اس نے صاف کیا تھا اور دریافت کیا کہ’’مجھے بتائو کیا میرا گھر بی۔بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے۔‘‘
اطراف میں دیکھے بغیر گلاب تن نے جواب دیا۔’’ تمہارا یہ گھر کسی اصطبل کی طرح بدنما ہے۔ ہمارا گھر اس سے زیادہ صاف و شفاف اور خوبصورت ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چینی محسوس کرنے لگی، اس نے سوچا شاید گلاب تن گھر کی صاف صفائی میں اس کی مدد کرے گی۔لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔
آنٹی گھولی نے دوسرا سوال کیا،’’مجھے بتائو کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
اس کے الفاظ سنتے ہی گلاب تن کھڑی ہو گئی اور کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ میری ماں زیادہ خوبصورت ہے۔میری یاداشت کے مطابق تم بد صورت ترین عورت ہو۔‘‘
آنٹی گھولی دوبارہ بے چینی محسوس کرنے لگی اور بہت اداس ہوگئی، اس نے سوچا شاید گلاب تن اسے خوبصورت بنانے میں مدد کرے گی۔ لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔لہٰذا آنٹی گھولی نے اس سے تیسرا سوال نہیں کیا۔ اس نے سمجھ لیاکہ گلاب تن کا دل تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آنٹی گھولی نے اسے گھر کا راستہ بتاتے ہوئے کہا،’’ندی کے کنارے سے جائو اور جب ندی کا پانی سفید ہوجائے تو اپنا چہرہ دھو لینا۔ ‘‘
آنٹی گھولی ندی کے سفید پانی سے گلاب تن کی تمام برائیاں دھونا چاہتی تھیں۔گلاب تن تیزی سے باہر نکلی اور ندی کے کنارے انتظار کرنے لگی۔ ندی مختلف رنگوں میں تبدیل ہوتی رہی، اس کے بعد ندی سفید ہوگئی لیکن گلاب تن نے اپنا چہرہ نہیں دھویا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا ’’سفید پانی اتنا خوبصورت نہیں ہے،مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ندی کو اور رنگوں میں تبدیل ہونے کا انتظار کیا،جب پانی سرخ ہوگیا تب گلاب تن بہت خوش ہوئی اور اس نے اپنا چہرہ دھولیا۔
جب گلاب تن نے اپنی آنکھیں کھولی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے بستر پر پڑی ہوئی ہے اور بی بی خانم اس کے بازو میں بیٹھی ہوئی ہے۔ گلاب تن اٹھ بیٹھی اور دریافت کیا’’کیا میری پیشانی پر بھی نشانِ قمر موجود ہے؟‘‘
بی بی خانم رونے لگی، گلاب تن نے قریب ہی موجود پانی سے بھرے ہوئے پیالے میں اپنا عکس دیکھا، چیختے ہوئے اس نے وہ پیالہ دور پھینک دیا۔ اس کی پیشانی پر ایک لال رنگ کا بڑا سا بدنماداغ ابھر آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے خون سے بھرا ہوا پھوڑا ابھر آیا ہو۔
گلاب تن خوفزدہ ہو کر چیخنے لگی، چاند پری دوڑتے ہوئے اس کے کمرے میں پہنچی، اس کے چہرے پر موجود چاند کی وجہ سے پورا کمرہ روشن ہوگیا۔وہ خاموشی سے گلاب تن کے قریب گئی اور اس بدنما داغ کو دیکھا۔
گلاب تن نے چاند پری کو تمام واقعات کی تفصیل بتائی، اور اس کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی۔ چونکہ گلاب پری خود بھی اپنی زندگی میں بہت رو چکی تھی لہٰذا کسی کو روتے دیکھنا چاند پری کو بالکل پسند نہیں تھا۔وہ گلاب تن کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
اچانک اسے ’گلِ آرزو‘یاد آگیا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے اسکرٹ کی جیب میں ڈالا۔ ’گلِ آرزو‘ اب بھی وہاں موجود تھا۔ اگرچہ کہ اس کی اپنی بہت ساری آرزوئیں اور خواہشات تھیں لیکن اس نے انہیں پرے رکھتے ہوئے ’گلِ آرزو‘کو باہر نکالا۔ چاند پری نے اس کی پنکھڑیوں کو رگڑتے ہوئے کہا، ’’اے ’گلِ آرزو‘ اس دنیا میں میری بھی بہت ساری آرزوئیں اور تمنائیں ہیں لیکن میں کسی کو اداس اور غمگین نہیں دیکھ سکتی۔ اگر تم واقعی ’گلِ آرزو‘ہو تو ایسا کچھ کرو کہ گلاب تن پھر کبھی رو نہ سکے۔‘‘
ابھی چاند پری کے الفاظ ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ گلاب تن کی پیشانی پر موجود لال بدنما داغ زائل ہونا شروع ہوااور پھر دھیرے دھیرے اس طرح سے غائب ہوگیا جیسے پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔ بی بی خانم اتنا خوش ہوئی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ گلاب تن بھی بہت خوش تھی۔ چاند پری ’گلِ آرزو‘ لے کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ صحن میں بیٹھ کر سوچنے لگی، اس نے سوچا کہ اگلے دن اسے بی بی خانم اور گلاب تن کے لیے بہت سارا کام کرنا پڑے گا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ بی بی خانم اور گلاب تن اب بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دھنک ندی کے سفید پانی نے ان لوگوں کے کالے دلوں کو دھو دیا ہو۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ’گلِ آرزو‘ نے بی بی خانم اور گلاب تن کی ساری برائیوں کو زائل کردیا ہو۔
٭٭٭
یہ لوک کہانی زارا ہوشمند نے فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے’اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے اسے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔

Intekhab E Kalam Akbar Allahabadi

Articles

انتخابِ کلام اکبر الہ آبادی

اکبر الہ آبادی

 

 

فرضی لطیفہ

خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس
یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں
نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس
سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے ایم اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس
کجا یہ فطرتی جوش طبیعت
کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس
بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پہ لادی جاتی ہے کہیں گھاس
یہ اچھی قدر دانی آپ نے کی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس
دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجود
نہیں منظور مغز سر کا آماس
یہی ٹھہری جو شرط وصل لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس

***

نئی تہذیب

یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے

نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی
نہ ایسا پیچ زلفوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے

نہ خاتونوں میں رہ جائے گی پردے کی یہ پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے

بدل جائے گا انداز طبائع دور گردوں سے
نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے

نہ پیدا ہوگی خط نسخ سے شان ادب آگیں
نہ نستعلیق حرف اس طور سے زیب رقم ہوں گے

خبر دیتی ہے تحریک ہوا تبدیل موسم کی
کھلیں گے اور ہی گل زمزمے بلبل کے کم ہوں گے

عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے

بہت ہوں گے مغنی نغمۂ تقلید یورپ کے
مگر بے جوڑ ہوں گے اس لیے بے تال و سم ہوں گے

ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہوگی
لغات مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے

بدل جائے گا معیار شرافت چشم دنیا میں
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے

گزشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے
کتابوں ہی میں دفن افسانۂ جاہ و حشم ہوں گے

کسی کو اس تغیر کا نہ حس ہوگا نہ غم ہوگا
ہوئے جس ساز سے پیدا اسی کے زیر و بم ہوں گے

تمہیں اس انقلاب دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہیں وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے

***

برق کلیسا

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار
زلف پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدر رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہ گار کریں
گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیار کریں
گرم تقریر جسے سننے کو شعلہ لپکے
دلکش آواز کہ سن کر جسے بلبل جھپکے
دل کشی چال میں ایسی کہ ستارے رک جائیں
سرکشی ناز میں ایسی کہ گورنر جھک جائیں
آتش حسن سے تقوے کو جلانے والی
بجلیاں لطف تبسم سے گرانے والی
پہلوئے حسن بیاں شوخیٔ تقریر میں غرق
ترکی و مصر و فلسطین کے حالات میں برق
پس گیا لوٹ گیا دل میں سکت ہی نہ رہی
سر تھے تمکین کے جس گت میں وہ گت ہی نہ رہی
ضبط کے عزم کا اس وقت اثر کچھ نہ ہوا
یا حفیظ کا کیا ورد مگر کچھ نہ ہوا
عرض کی میں نے کہ اے گلشن فطرت کی بہار
دولت و عزت و ایماں ترے قدموں پہ نثار
تو اگر عہد وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے مرے قلب کو سیری ہو جائے
شوق کے جوش میں میں نے جو زباں یوں کھولی
ناز و انداز سے تیور کو چڑھا کر بولی
غیرممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے
لن ترانی کی یہ لیتے ہیں نمازی بن کر
حملے سرحد پہ کیا کرتے ہیں غازی بن کر
کوئی بنتا ہے جو مہدی تو بگڑ جاتے ہیں
آگ میں کودتے ہیں توپ سے لڑ جاتے ہیں
گل کھلائے کوئی میداں میں تو اترا جائیں
پائیں سامان اقامت تو قیامت ڈھائیں
مطمئن ہو کوئی کیوں کر کہ یہ ہیں نیک نہاد
ہے ہنوز ان کی رگوں میں اثر حکم جہاد
دشمن صبر کی نظروں میں لگاوٹ آئی
کامیابی کی دل زار نے آہٹ پائی
عرض کی میں نے کہ اے لذت جاں راحت روح
اب زمانے پہ نہیں ہے اثر آدم و نوح
شجر طور کا اس باغ میں پودا ہی نہیں
گیسوئے حور کا اس دور میں سودا ہی نہیں
اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف
ہم میں باقی نہیں اب خالد جاں باز کا رنگ
دل پہ غالب ہے فقط حافظ شیراز کا رنگ
یاں نہ وہ نعرۂ تکبیر نہ وہ جوش سپاہ
سب کے سب آپ ہی پڑھتے رہیں سبحان اللہ
جوہر تیغ مجاہد ترے ابرو پہ نثار
نور ایماں کا ترے آئینۂ رو پہ نثار
اٹھ گئی صفحۂ خاطر سے وہ بحث بد و نیک
دو دلے ہو رہے ہیں کہتے ہیں اللہ کو ایک
موج کوثر کی کہاں اب ہے مرے باغ کے گرد
میں تو تہذیب میں ہوں پیر مغاں کا شاگرد
مجھ پہ کچھ وجہ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں
جب کہا صاف یہ میں نے کہ جو ہو صاحب فہم
تو نکالو دل نازک سے یہ شبہ یہ وہم
میرے اسلام کو اک قصۂ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو

***

 

اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
اخبار میں تو نام مرا چھاپ دیجئے

دیکھو جسے وہ پانیر آفس میں ہے ڈٹا
بہر خدا مجھے بھی کہیں چھاپ دیجئے

چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں
اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے

دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے

سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات
انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے

اس بت کے در پہ غیر سے اکبرؔ نے کہہ دیا
زر ہی میں دینے لایا ہوں جان آپ دیجئے

***

 

غزل

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

***

غزل

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے

اس مے سے نہیں مطلب دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے

اے شوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا
مہمان نظر اس دم ایک برق تجلی ہے

واں دل میں کہ صدمے دو یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے میرا بھی عجب جی ہے

ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے

سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے

تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے

سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم
ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے

***

غزل

آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے

خاطر سے تری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے
سچ ہے کہ ہمیں دل کو سنبھلنے نہیں دیتے

کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل
تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے

پروانوں نے فانوس کو دیکھا تو یہ بولے
کیوں ہم کو جلاتے ہو کہ جلنے نہیں دیتے

حیران ہوں کس طرح کروں عرض تمنا
دشمن کو تو پہلو سے وہ ٹلنے نہیں دیتے

دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے

گرمئ محبت میں وہ ہیں آہ سے مانع
پنکھا نفس سرد کا جھلنے نہیں دیتے

***

غزل

صدیوں فلاسفی کی چناں اور چنیں رہی
لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی

زور آزمائیاں ہوئیں سائنس کی بھی خوب
طاقت بڑھی کسی کی کسی میں نہیں رہی

دنیا کبھی نہ صلح پہ مائل ہوئی مگر
باہم ہمیشہ برسر پیکار و کیں رہی

پایا اگر فروغ تو صرف ان نفوس نے
جن کی کہ خضر راہ فقط شمع دیں رہی

اللہ ہی کی یاد بہرحال خلق میں
وجہ سکون خاطر اندوہ گیں رہی

***

 

Research makes the Evolution of Language and Literature

Articles

تحقیق زبان و ادب کے ارتقا کی راہ ہموار کرتی ہے

تصویر میں دائیں سے قاضی مشتاق احمد، پروفیسر نسیم احمد اور پروفیسر صاحب علی

ممبئی،۱۵؍نومبر: شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی کی اردو ریسرچ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ ادبی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے بنارس ہندو یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ ٔ اردو پروفیسر نسیم احمد نے کہا کہ تحقیق کا عمل گرچہ محنت طلب ہے لیکن زبان و ادب کے ارتقا کے لیے اس عمل سے گزرنا لازمی ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تحقیق کے ذریعہ ادب کے تخلیقی رجحانات و میلانات کے مابین امتیازات کی نشاندہی ہوتی ہے اور کسی ادیب و شاعر تخلیقی محرکات و فنی اوصاف دریافت کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔پروفیسر نسیم احمد نے شعبہ ٔ اردو ممبئی یونیورسٹی کی علمی وا دبی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ صدر شعبہ پروفیسر صاحب علی کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعہ نہ صرف تدریسی سطح پر اردو زبان وادب کی ترقی کی راہ ہموار ہوئی بلکہ شعبہ کی جانب سے منعقد ہونے والی علمی وادبی تقریبات نے اس زبان کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔انھوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحت ہونے والی تحقیق پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بہت کم یونیورسٹیوں میں ایسے وقیع اور اہم موضوعات پر تحقیقی کام ہورہا ہے جو زبان و ادب کے ارتقا میں معاون ہو سکے اور اس لحاظ سے ممبئی یونیورسٹی کا شعبہ ٔ اردو اپنی علاحدہ شناخت رکھتا ہے ۔
اس تقریب میں اردو کے معروف فکشن نگار قاضی مشتاق احمد نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو ریسرچ ایسوسی ایشن کے ذریعہ منعقد ہونے والی ادبی تقاریب طلبہ کے اندر ذوق علم کو بڑھاوا دیں گی اور ساتھ ہی ادب کی تفہیم کے عمل کو بھی ان کے لیے آسان بنائیں گی ۔انھوں نے ایسویسی ایشن کی فعالیت کے لیے پروفیسر صاحب علی اور شعبہ کے سبھی اساتذہ اور طلبہ کو مبارک باد دی اور کہا کہ اردو کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم علمی و عملی طور پر سرگرم رہیں اور اس زبان میں شائع ہونے والے اخبارات ، رسائل اور کتابوں کو خرید کر پڑھنے کا طریقہ اختیار کریں ۔تقریب کے آغاز میں پروفیسر صاحب علی نے مہمانان کا استقبال کیا اور ایسوسی ایشن کے قیام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد طلبہ کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جو ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشے اور ان کے اندر زبان و ادب کی تفہیم کے شعور کو پختگی عطا کر ے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ایسی ادبی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں پی ایچ ڈی یا ایم فل کا کوئی طالب علم زبان و ادب سے متعلق کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ پیش کرتا ہے اور تقریب کے شرکا اس پر اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایم فل کے طالب علم ندیم احمد انصاری نے پاکستان کی مشہور ادبی و مذہبی شخصیت تقی عثمانی کی نثری و شعری خدمات پر تحقیقی مقالہ پیش کیا ۔اس مقالے میں تقی عثمانی کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی شاعری اور سفرناموں پر خصوصی اظہار خیا ل کیا گیا تھا ۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر عبداللہ امتیاز نے شرکا اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور شعبہ کے اساتذہ ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر مزمل سرکھوت، محترمہ روشنی خان کے علاوہ ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا نے شرکت کی۔


 

The Great Lord Pabori

Articles

خدائے پابوری

مترجم : حیدر شمسی

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ کھانے کی تلاش میں شہر میں داخل ہوگیا۔ایک طرف سے آنے والی مرغیوں کی آوازکو اس نے سنا۔اندھیری رات میں آنے والی اس آواز کی طرف وہ بڑھتا چلا گیا اور اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی کتّا اسے دیکھ نہ لے۔اسی راستے میں ایک نیل سے بھرا دھوبی گھاٹ بھی تھا۔ مرغیوں کی آواز نے اسے اپنی گرفت میں لے رکھا تھاجس کی وجہ سے گیدڑ نے گھاٹ کو نہیں دیکھااور سر کے بل اس میں گرگیا۔
پانی کے چھینٹوں کی آوا ز سن کر کتّوں کے کا ن کھڑے ہوگئے۔لیکن جب تک وہ وہاں پہنچتے گیدڑ نے گڑھے سے باہر چھلانگ لگائی اور وہاں سے بھاگ نکلا ۔ اس نے اپنے پیروں پر خوب زور لگایا اور سیدھا جنگل کے کنارے جا کر رکا۔وہاں پہنچ کر اس نے چاروں طرف دیکھا اور اطمینان کی سانس لی کہ کوئی کتا وہاں پر نہیں ہے۔سکون پا لینے کے بعد اس نے اپنے بدن کو دیکھا جو پوری طرح نیلا ہو چکا تھا۔ تھوڑا سا سوچنے کے بعد اسے ایک خیال آیااور وہ جنگل میں چلا گیا۔
تھوڑی دیر یہاں وہاں گھومنے کے بعد اس نے شیر کے غار پر اپنی قسمت آزمانا چاہی۔وہ غار کے باہر جا کر بیٹھ گیا۔اس نے دیکھا کہ اندر شیرنی موجود ہے اسے دیکھ کرگیدڑنے اپنے بالوں کو کھڑا کرلیا اور زور دار آواز میں پوچھا ’’ تم کون ہو؟‘‘ شیرنی نے جواب دیا’’ہم شیر ہیں جنگل کے بادشاہ، تم کون ہو جو اپنی جان گنوا نے کے لیے ہماری غار کے پاس آکربیٹھے ہو؟ اگر تمھیں اپنی جان کی ذرا بھی فکر ہے تو یہاں سے چلے جائوورنہ میرے شوہر کے آنے کے بعد تم اس کے منہ کا نوالا بن جائو گے۔‘‘ گیدڑ نے ڈرائونی آواز میں کہا ’’ میں خدائے پابوری ہوں ،جس کی ایک وقت کی خوراک سات شیروں کابھونا ہوا گوشت ہے!‘‘ آنے دو تمہارے شوہر کو میں اسے بھی بہترین سبق سکھائوں گا!‘‘
ٍ یہ سنتے ہی شیرنی کے دل کی دھڑکن تھم گئی اور وہ ڈر کے مارے غار سے نکل کر گیدڑ سے تھوڑے فاصلے پر سر جھکا کر بیٹھ گئی۔اسی وقت شیر غار پر پہنچا۔شیر نے اپنی پونچھ کو زمین پرزور سے مارا اور گرج دار آواز میں دھاڑا۔ ظالم شیر کو دیکھ کر گیدڑ کی ساری ہمت ختم ہوگئی اور وہ بھاگنے لگا۔
گیدڑ کو بھاگتا ہوا دیکھ کر شیرنی نے کہا’’او ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدائے پابوری اتنی جلدی میں کہاں جارہے ہو۔ رکو ذرا ہماری مہمان نوازی کا مزہ بھی چکھتے جائو۔‘‘
گیدڑ کو بھاگتا دیکھ کر شیر اس کے تعاقب میں لگ گیا۔دونوں بھاگ رہے تھے ۔ گیدڑ آگے آگے اور شیر پیچھے پیچھے۔ شیر نے اپنی رفتار بڑھا دی ۔فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا یہ دیکھ کر گیدڑ نے ڈر سے راستہ چھوڑ کر جھاڑیوں کا رُخ کر لیا۔اس نے مورپنکھی کے درخت کے اوپر سے چھلانگ لگائی اور سیل ورٹ کی جھاڑیوں میں جاکرچھپ گیا۔ شیر مسلسل اس کے تعاقب میں لگا رہا۔شیر سے ڈر کر آخر کار گیدڑ نے بندر کی طرح ایک سوکھے ہوئے درخت پر چھلانگ لگائی اور اس کی سوکھی ہوئی ٹہنی پر جاکر بیٹھ گیا۔ شیراب تک اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ شیر نے اپنی جسامت کی پرواہ نہیں کی اور پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک نوکیلی شاخ کا سرا شیرکولگا جس سے اس کا پیٹ شق ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر گیدڑ بہت خوش ہوا۔وہ شیرنی کے پاس پہنچا اور کہا’’او ۔۔۔بیوہ شیرنی جائو اور جاکر دیکھو تمہارے شوہر کا کیا حال ہوا ہے۔تو مجھے چڑاتی تھی اور میرا مذاق اڑاتی تھی کہ’’خدائے پابوری، ہماری مہمان نوازی کا بھی مزہ چکھ کے جائو ۔آج سے میں تیرا شوہر ہوں اور تم میری بیوی ۔اگر تجھے کوئی اعتراض ہے تو تیرا و ہی حشر کروں گا جو تیرے شوہر کا کیا ہے۔‘‘ شیر کی موت کی خبر سن کر وہ بھاگتے ہوئے شیر کی لاش کے پاس پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ شیر پیڑ کی شاخ پر لٹکا ہوا ہے اورشیر کے خون سے سوکھا ہوادرخت مکمل لال ہوچکا ہے۔وہ یہ منظر دیکھ کر سہم گئی اور واپس لوٹ آئی اور گیدڑ کی بات کو مان لیا اور کہا ’’جناب ۔۔۔۔آج سے آپ میرے شوہر ہیں اور میں آپ کی بیوی ہوں۔آپ جہاں کہیں مجھے لے جانا پسند کریں گے میں وہاں چلوں گی۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا’’ ہم دونوں ایک ساتھ ایک ہی جگہ زندگی بسر نہیـں کرسکتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں خدائے پابوری ہوں تمام وحشی جانوروں کا خدا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مجھے شیر کا شکار کرنا بہت پسند ہے۔جدھر بھی مجھے شیر ملتا ہے میں اسے مار کر اپنے منھ کا نوالا بنا لیتا ہوں۔‘‘
شیرنی نے کہا’’او خدائے پابوری آپ مجھ سے جیسا کہو گے میں ویسا ہی کروں گی۔‘‘ لیکن یہ اچھا ہو گا کہ ہم اپنا گھر بسائیں اور ایک ساتھ زندگی بسر کریں۔تھوڑی سی بحث کے بعد گیدڑ نے شیرنی کی بات مان لی اور وہ راضی ہوگیا ۔ دونوں چلے گئے اور جنگل کے پاس انھوں نے ایک غار تلاش کیا اور اسے اپنا گھر بنا لیا۔پھر اس کے بعد گیڈر جب کبھی گھر سے باہر جاتا تو شیرنی کو بھی ساتھ لے جاتا تھا ۔شیرنی ہمیشہ شکار کرتی اور دونوں ساتھ مل کر اپنے شکار کو کھاتے۔
ایک دن شیرنی نے گیدڑ سے کہا ’’میری طبیعت آج ٹھیک نہیں ہے، آج تم اکیلے شکار کر کے لائو۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا’’ جیسی تمہاری مرضی!‘‘ اورسیدھا جنگل کی طرف چلاگیا۔ لیکن اس کا دل گھبرا رہا تھا کہ وہ کس طرح اکیلے شکار کرے۔ جس دوران وہ یہ سوچھ رہا تھا اسے اونٹنی کا ایک غول نظر آیا۔ جیسے ہی گیدڑ نے انھیں دیکھا اسے ایک ترکیب سوجھی اور وہ خوش ہوگیا۔نالے کے پاس جا کر اس نے پیشاب کردیااور اپنی پونچھ سے رگڑ کر وہاں کی زمین کو چکنا بنا دیا۔پھر اس کے بعد وہ اونٹنی کے غول کے پاس بھاگتا ہواگیا اور انھیں ڈرا دیا۔ تمام اونٹنیاں ڈر کے مارے نالے کے سمت بھاگنے لگیں۔ایک کو چھوڑ کرسبھوں نے نالے کو پار کرلیا۔ایک بوڑھی اونٹنی کا پیر چکنی زمین پر پڑا اور وہ سیدھا نالے میں گر گئی۔گیدڑ نے موقع کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے فوراََاس پر حملہ کیا اور اپنے دانتوں سے اس کا پیٹ شق کردیا۔اونٹنی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ گیدڑ اونٹنی کے پاس بیٹھ گیا اور سوچنے لگاکہ اتنی بڑھی اونٹنی کو میں کھینچ کر اپنے گھر کیسے لے جائوں۔
شیرنی غار میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس نے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا ’’کیا بات ہوئی ہوگی گیدڑ کے ساتھ جو بے وقوف ابھی تک نہیں آیا؟ــ‘‘ وہ بھی اس کی تلاش میں نکل پڑی اور نالے کے پاس پہنچ گئی۔اس نے دیکھا کہ گیدڑ مری ہوئی اونٹنی کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔یہ منظر دیکھ کر شیرنی نے سوچا واقعی گیدڑ بہت بڑا درندہ ہے جس نے اکیلے اتنے بڑے جانور کو مار گرایاہے۔
اس نے گیدڑ سے کہا’’ اب ہمیں اپنے شکار کو گھر لے جانا چاہے۔‘‘ گیدڑ نے کہا ’’بہت اچھا! اب تم آہی گئی ہو تو چلو اپنے شکارکو اٹھا کر گھرلے چلتے ہیں۔‘‘ شیرنی نے اونٹنی کو گھسیٹنا شروع کیا اور اس کے اندر کی انتڑیاں گیدڑ کو اٹھا نے کے لیے چھوڑ دیں۔شیرنی کے جانے کے بعد انتڑیاں اٹھا نے کی اس نے بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ جب وہ اسے کھینچنے اور اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا وہ تمام اس کے اوپر گر گئی اور وہ اس کے نیچے دب گیا۔
جب بہت وقت بیت گیا اور گیدڑ گھر نہیں پہنچا تو شیرنی واپس اسی جگہ آئی اور اس نے گیدڑ کو تلاش کیا مگر وہ نظر نہیں آیا۔اس کی نظر انتڑیوں پر پڑی اور اس نے اسے ہٹایا اوراس کے اندر سے گیدڑ کود کر باہرنکلااور غصّے سے بولا’’ او بے وقوف عورت کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں یہاں کوّں کا شکار کرنے کے لیے چھپ کر بیٹھا ہوا تھا؟ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم پرندوں کی دعوت کریں گے۔تم نے انھیں اڑا دیا، وہ ڈر گئے اور اب وہ نہیں آئیں گے ۔ لہٰذا سزا کہ طور پر تمھیں یہ انتڑیاں بھی گھر تک لے جانا ہوں گی۔ مجھے جب آنا ہوگا میں گھر آجائوں گا۔‘‘ شیرنی اسے بھی کھینچ کر گھر لے گئی اور فریبی گیدڑ یہاں وہاں گھومتا رہا اور اپنے وقت پر گھر پہنچا۔
ایک دن معمول کے مطابق شیرنی اور گیدڑ گھر سے جنگل کی طرف نکلے، انھوں نے شیروں کے دھاڑنے کی آواز سنی ۔شیرنی نے کہا’’ شیر جشن منارہے ہیں اور ناچ گا رہے ہیں۔‘‘
جب گیدڑ نے سنا تو خوف سے کپکپانے لگا ۔شیرنی نے اس سے پوچھا’’ خدائے پابوری کیا ہوا؟ تم کیوں کپکپا رہے ہو؟ گیدڑ نے یہ سن کرجواب دیاــ’’جب کبھی میں شیر کی دھاڑنے کی آواز سنتا ہوں یا کوئی شیر میرے قبضہ میں آجاتا ہے تو فوراَ َ میرا خون کھول جاتا ہے اورمیں کپکپانے لگتا ہوں۔ یہ تمہارے لیے اچھا ہوگا کہ تم آگے آگے چلواور یہ کہتی رہو۔
’’ تم ناچتے ہو تو تھوڑا فاصلہ برقرار رکھو۔
نہیں تو تم اس کے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
گیدڑ کے کہنے پر شیرنی آٹھ دس قدم آگے چلی گئی اور جیسا گیدڑ نے کہا تھا کہنے لگی۔جب وہ شیر کے سامنے آئی تب بھی وہ کہہ رہی تھی کہ:
’’ تم ناچتے ہو تو تھوڑا فاصلہ برقرار رکھو۔
نہیں تو تم اس کے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
شیر وں نے شیرنی سے کہا’’تم کون ہو محترمہ ،جو ہمارے جشن کے بیچ میں مداخلت کر رہی ہو۔‘‘
شیرنی نے کہا’’اپنی زبان کو لگام دو! اور دیکھو اس ٹیلے پر جو مخلوق بیٹھی ہے۔‘‘
شیروں نے پوچھا ’’کون ہے وہ؟‘‘
شیرنی نے جوب دیا’’ وہ جو بیٹھا ہے وہ خدائے پابوری ہے۔جس کا ایک وقت کا کھانا سات بھونے ہوئے شیر ہیں۔ میں تمھیں مشورہ دیتی ہوں کہ تم لوگ اپنی جان بچا کر بھاگو یہاں سے ورنہ وہ تم لوگوں کو وہ قتل کر کے پیڑ پر لٹکا دے گا۔اگرتمھیں یقین نہیں آتا تو چلو میرے ساتھ میں تمھیں دکھاتی ہوں۔ـ‘‘ وہ ان لوگوں کو مرے ہوئے شیر کی لاش کے پاس لے گئی۔تمام شیر اس منظر کو دیکھ کر ڈر گئے اور خدائے پابوری کا ڈر ان کے دل میں بیٹھ گیا۔
وہ لوگ گیدڑ سے محفوظ فاصلے پر آکر بیٹھ گئے او راپنے سروں کو جھکا لیااور کہا’’ او، خدائے پابوری ہمیں بخش دو ۔ ہم آپ کے بچوں جیسے ہیں ۔ ہم شادی کی تقریب کا جشن منا رہے تھے۔ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے اور ہمارے جشن میں شامل ہو جائیے ۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں بخش دیں گے اور اپنے بچوں کی طرف سے دی گئی دعوت کو قبول کریں گے ۔پھر اس کے بعدچاہے جو کرنا ہو آپ ہمارے ساتھ وہ کر سکتے ہیں۔سب کے دلوں کی دھڑکن تھم گئی۔ گیدڑ ساکت بیٹھا ہوا تھا اس نے شیر کی دعوت کو قبول کرلیا اور دوڑتا ہوا آیا اور شیر کے جھنڈ کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ تمام شیر خوف زدہ ہوگئے اوراپنے گھیرے کو اور وسیع کرلیا اس ڈر سے کہ گیدڑ انھیں مار نہ ڈالے۔
شیروں نے پوچھا’’او خدائے پابوری اگر آپ اجازت دیں توہم گانا بجانا واپس شروع کریں ۔‘‘
گیدڑ نے کہا’’ٹھیک ہے لیکن مجھ سے دور ہو کر ناچنا نہیں تو تم میرے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
شیروں نے ناچ دوبارہ شروع کر دیا شیرنی اور گیدڑ بیچ میں بیٹھے دیکھتے رہے۔
گیدڑ ڈرسے سانس بھی نہیں لے پا رہاتھا اور مسلسل چاروں طرف گھور رہا تھا کہ کہیں وہ شیروں کے پنجو ں کے نیچے نہ آجائے۔
ناچتے ناچتے سارے شیرتھک گئے تب انھوں نے گانا شروع کردیا۔ گانا ختم کرنے کے بعد سارے شیر گیدڑ کے پاس گئے اور انھوں نے کہا’’یہ ہمارا رواج ہے کہ ہم شادی کی تقریب میں اپنے مہمان کو بھی اپنے ساتھ ناچ گانے میں شامل کرتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے ساتھ تھوڑاسا ناچ گا لیجئے۔‘‘
گیدڑ نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا’’ اب تو میرا کھیل ختم ،جب میں گائوں گاتب دوسرے گیدڑ بھی میری آواز پر یہاں تک آجائیں گے اور میری شامت آجائے گی۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے شیروں سے کہا ’’ مجھے گاناگانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میری آواز میں اتنی شدّت اور طاقت ہے کہ یہ سارے درخت اور جھاڑیاں چھوٹے اور بڑے سب کپکپانے لگ جائیں گے اور جڑ سے اکھڑ جائیں گے۔میں مشورہ دوں گا کہ چلو کسی اونچی جگہ یاپہاڑ پر چلتے ہیں تاکہ میں تمہارے خواہش پر عمل کر سکوں۔‘‘
گیدڑ اور تمام شیر پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ گیدڑ نے تمام شیروں کو اپنے سے دور ایک جگہ کھڑے ہونے کوکہا اور خود اور اونچائی پر چلا گیا۔وہاں پہنچنے کے بعد اس نے شیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں اب گاناگانے جارہا ہوں۔ آپ سب لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیجئے اور درخت کے تنے کو پکڑ کر کھڑے ہو جایئے۔
جیسے ہی شیروں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور تنے کو پکڑ کر کھڑے ہوئے انھوں نے گیدڑ کی آواز سنی۔ان لوگوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اُس فریبی کو دیکھا واقعی وہ گیدڑ تھاجو پہاڑ کی اونچائی پر گا رہا تھا۔سب کو غصّہ آیا کہ ان کے ساتھ ایسا مذاق کیا گیا۔گیڈر نے ان کی خواہش کو پورا کیا اور وہاں سے بھاگ نکلا اور اس نے جھیل میں چھلانگ لگادی ۔اس نے اپنا نیلا رنگ صاف کیاپھر اس نے کبھی کوئی نئی ترکیب نہیں سوچی۔
٭٭٭

اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے اس سندھی لوک کہانی کا حیدر شمسی نے انگریزی سےترجمہ کیا ہے۔

Role of Literature and Media in Social Movements

Articles

سماجی تحرّکات ، میڈیا اور ادب کا کردار

قاسم یعقوب

ادب اور سماج کا رشتہ کاغذ کے دو رخوں کی طرح کہا جاتاہے۔ ادب کے اندر سماجی رویّے تو سماج کا عکس ہوتے ہی ہیں غیر سماجی روّیے بھی درحقیقت سماج ہی کے کسی عمل کا ردِّ عمل ہوتے ہیں۔ ادبی سماجیات کو عموماً دو الگ الگ faculties میں تقسیم کر کے ان کے ایک دوسرے پر اثرات کا نام دیا جاتا ہے۔ ادب کوئی faculty نہیں بلکہ تمام faculties میں موجود ایک رویّہ ہے جو چیزوں کو ان کے وجود سے الگ کر کے دیکھنے کی اہلیّت رکھتا ہے ادب اپنی domain میں اپنا صرف تجزیہ (جذباتی اخلاص) رکھتا ہے ورنہ اس کا خام مواد زندگی کی تمام faculties میں موجود ہوتا ہے۔ گویا ادب ایک ذات ہے جو سماج کے اندر اپنا تشخص تیّار کرتی ہے۔ ایک درخت کی طرح جس کے مختلف اعضاء،مختلف اشکال میں اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں اپنے out put میں بھی مختلف ہوتے ہیں مگر ان تمام میں ایک روح کا ادراک کیا جا سکتا ہے جو ذرا ہٹ کے پورے درخت کی نمائندہ ہوتی ہے۔ایک اَن دیکھی قوت کا احساس درخت کے ہر حصے میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اد ب اور سماج کے درمیان رشتے کو عموماً چار ذرائع سے تلاش کیا جاتا ہے:
۱۔ سماج کو ادبی نگارشات کی روشنی میں ڈھونڈا جائے۔
۲۔ ادب کے اندر سماجیات کے عناصر کو تلاش کیا جائے۔
۳۔ ایک سماج کو کتنا اور کس طرح اثر انداز کر تاہے۔
۴۔ سماج کی مقتدر طاقتوں (حکومتی ادارے، سیاسی ادارے، ترسیلی ادارے،نئی ایجادات، جغرافیائی حالات،ذرائع نقل و حرکت) کے ادب پر اثرات کا جائزہ۔
ادب کی درجہ بندی کرتے ہوئے اِس میں دو طرح کے رویّے نظر آتے ہیں:
ایک : ادب براہِ راست سماجی واقعات کا مرقّع ہو،
دوم: اد ب ذات کی جذباتی توڑ پھوڑ کے اظہار تک محدود ہو جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ادب دونوں صورتوں میں سماج ہی کی حرکت کا عکّاس ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں میر کا چاند میں محبوب کا چہرہ تلاشنا، نظیر اکبر آبادی کا ’’مجلس کی جوتیوں پہ بٹھاتی ہے مفلسی‘‘ کہنا اور میر درد کا ’’تصوف میں پناہ لینا اصل میں سماجی روّیے ہی ہیں۔ گویا ذات زندگی کی تمام faculties کا محور ہے بلکہ ایک روح کی طرح سماجیات کا حاصل بھی۔
ادب کی سماجیات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ادب اپنے made میں ’’تعمیر‘‘ کا عنصر رکھتا ہے۔ادب کا سچ ایک غیر مرئی احساس ہوتا ہے جو انسانی خمیر کی بُنت کا دھاگہ ہوتا ہے ادب کی قرأت اور تخلیق اپنی ’’تعمیر‘‘ میں اپنی فطری بہاؤ کی طرف سفر کرتی ہے۔ بالکل ڈھلوان کی سمت بہتے پانی کی طرح۔ جو واپس چڑھائی کی طرف بہہ ہی نہیں سکتا جیسے برف حدّت نہیں دے سکتی۔ جیسے آگ منجمد نہیں ہوسکتی۔ ادب کی بُنت میں بنیادی عنصرجذبے کی’’گدازی‘‘ ہے۔ جو اصناف کی تفریق کیے بغیراپنا اظہار کرتی ہے۔ جذبہ اپنی فطرت میں معصوم ہے کوئی جذبہ منفی نہیں ہوتا۔

جذبات کا منفی پن اپنے عمل کے ردّعمل میں منفی یا مثبت ہوتا ہے اپنی سرشت میں نہیں۔ ادب کی سماجیات اصل میں اِس ’’معصومیّت‘‘ کا ادراک ہے سماج کے اندر اسے ’’سچ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لفظ’’سچ‘‘ اپنے استعمال میں اتنا پامال ہو گیا ہے کہ اِس لفظ کی روح ہی مسخ ہو گئی ہے۔ سچ بھی وہ بنیادی رویّہ ہے جو اپنی اصل میں منفی نہیں ہو سکتاجو مختلف حالتوں میں بدلتا ضرور ہے مگر ختم نہیں ہو تا۔ سچ کے بھیس میں بہت سے منفی رویّے سچ بننے پر مُصر ہوتے ہیں مگر سچ درخت میں موجود روح کی طرح معاشرتی سطح پر اپنا اثبات کرواتا رہتا ہے۔ ادیب ادب کے اندر اِسی ’’سچ‘‘ کا سراغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر سطح کا ادیب اپناایک world view رکھتا ہے۔ یہی world view اس کا سچ ہو تا ہے۔ تخلیقی سطح پر کم درجے کے ادیب اس world viewکو اظہار میں نئی زبان میں نہ دے سکنے کی وجہ سے کم تر درجے پر ہی رہ جاتے ہیں یا پہلے سے موجودادبی میکانیات کا اِستعمال کرنے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کم درجے کے ادیب کے ہاں world view ہی بہت محدود پیمانے کا ہو جس کو کسی بڑے ادبی میکانیاتی نظام کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوتی ہو۔ ہمارے ہاں غزل کا شاعر عموماً محدود world view رکھتا ہے جس کی وجہ سے غزل کے پرانے سانچے ہی کافی چلے آ رہے ہیں۔ پرانے textsکی ہی نئی تشکیل (construction) سے اِس صنف کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔ حالاںکہ کوئی صنف اپنی حدود میں دائرے کے سفر پر نہیں رواں ہوتی بلکہ اس کے لکھنے والے اسے دائرے کا سفر عطا کرتے ہیں۔
ادیب کےworld view کو مندرجہ ذیل عناصرتشکیل دے سکتے ہیں :
۱۔ کسی سماج میں سرگرمِ عمل تہذیب کے اثرات۔ہمارے ہاں بہت سی تہذیبیں بیک وقت موجود ہیں۔اُردو ادیب کا world view ان تہذیبوں کے باہمی کلچر اور اثرات سے غیر شعوری پر متاثر ملے گا (یہاں کلچر کو تہذیب کی روح کے معنوں میں لیا جا رہا ہے)۔
۲۔ جغرافیائی یا نیچرل اثرات۔ بہ ظاہر اِن عوامل کا world view سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں لگتا مگر ایک ادیب کی نظری داخلیّت کے بہت سے تانے بانے اِسی قوت کی ہر وقت رواں رفتار سے بنتے بگڑتے ہیں۔مثلاً پہاڑوں کی درشتی اور ٹھنڈے علاقوں کی یخ بستگی چیزوں کے معروقی اثرات پر بھی اثر ڈالیں گے۔
۳۔ سیاسی حالات کی معاشرتی نفوذ پذیری۔سیاسی حالات میں دفاعی اورانتظامی نظم و ضبط،امن و امان،انصاف اور بنیادی حقوق کی فراہمی وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو ایک ادیب کی داخلیت پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔
۴۔ خیالات و واقعات کی ترسیل کی قوتیں بھی ادب پر غیر معمولی اثرات ڈالنے کا موجب بنتی ہیں۔ جن میں میڈیا کا کردار اِس دور کا سب سے جاندار حوالہ کہا جا سکتا ہے۔ اصل میں world view نام کی کوئی چیز اب معرضِ وجود میں آ ہی نہیں سکتی۔ میڈیا نے ادب،ادیب اور قاری کے رشتوں میں ایک ہائپر رئیلٹی کا روپ بھرلیا ہے۔معروض کا دھاگا اب ایک ایسی حقیقت کے بغیر اپنے وجود کی بنت میں ڈھل ہی نہیں سکتا جو خودبھی’’حقیقت‘‘ نہیں۔ میڈیا ایک ’’جنگشن‘‘بن کے سامنے آیا ہے جہاں حقیقتیں اتھل پتھل ہوتی اور نکھرتی ہیں (یہاں ’’حقیقت‘‘ واقعات کی براہِ راست ترسیل ہے) میڈیا ہر دور میں رہا ہے۔ کبھی ایک تہذیب کے کلچر کو بیج کی شکل میں کسی اور جگہ اگا آتا کبھی بادشاہوں کو فوجوں کی نقل و حرکت کی واقعاتی تصویر پیش کرتا رہا۔ ترسیلِ واقعات سے ترسیلِ حقیقت تک کا سفر میڈیا ہی کے مرہونِ منت رہا۔
یاد رہے کہ world viewمعروض کی ’’معروضیّت‘‘ کو جاننے کا نام نہیں بلکہ ’’پہچاننے‘‘ کا گہرا عمل ہے۔ اقبال نے انہی کیفیّوں کو دو لفظوں ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘ سے نشان زد کیا تھا۔ سماجی تحرکات محض واقعات کا وقوع پذیر ہونا نہیں رہا۔ واقعات تو تصویر کھینچتے ہوئے کیمرے کا بٹن دبانے کا عمل ہے، ورنہ اس تصویر سازی میں بہت سا مواد پہلے ہی جمع ہو چکا ہوتا ہے۔
یہ مضمون آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
ہمارے معاشرے میں سچ اور حقیقت دو الگ الگ معنوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہر حقیقت جو اپنا اثبات کروانا چاہتی ہے، سچ ہوتی ہے۔ اور ہر سچ ایک حقیقت کا روپ لینا چاہتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں حقیقتیں سچ نہیں ہیں اور سچ بے حقیقت ہیں۔ موزے تنگ نے کسی جگہ کہا تھا کہ:

“There are realities without names and names without realities.”

یعنی حقیقتوں کونام مل گیا کہ یہ سچ کی نمائندہ ہیں، مگر وہ نام سے آگے کچھ نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہزاروں سچ ایسے ہیں جو حقیقت کا لیبل نہیں بن سکے۔ وہ آوارہ اور پژمردہ حالت میں دربدر بھٹک رہے ہیں۔ جمہوریت، سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، قومیت، حب الوطنی، عوامی طاقت وغیرہ ایسی حقیقتیں رہ گئی ہیں جو اپنے نام کے اندر سچ سے خالی ہیں۔ جمہوریت عوام کی قوت کا نام ہے مگر ہماری جمہوریت مقتدر حلقے کی اقتدار تک حصولی کا عمل ہے۔ یہ نام اپنے معنی کے نام پر اپنی دکان چمکا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوامی کیبن سے اٹھتی ہیں مگر عوامی کیبن سے الگ ہو کے اپنی بقا ڈھونڈتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک عرصے سے اَن دیکھی قوتوں کے مفادات کے تحفظ میں عوام کو دھوکہ دیتی آ رہی ہیں مگر وہ عوامی کیبن کے آگے بھی مگرمچھ کے آنسو بہانے میں دیر نہیں لگاتیں، کیوں کہ انہیں بقا کی ضمانت بالآخر یہیں سے ملتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں مکمل تیاری کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ مخصوص طرز کے ووٹرز اور مخصوص قسم کی ڈپلومیسی سے سادہ لوح عوام اُن کے بقا کی ضمانت فراہم کر دیتے ہیں۔

حضور ﷺ نے کہا تھا کہ اگر تم قیامت کی پوری نشانیاں دیکھ لو اور یقین کر لو کہ اب قیامت بالکل آنے والی ہے تو اپنے ہاتھ میں پکڑے سبز ننھے پودے کو زمین میں دبانا نہ بھولنا۔ گویا اسلام ایک حقیقت بن کے سامنے موجود ہے، جس کی پُرامن اور گہری دانش ورانہ روایت (جو سچ ہے) اس نام لینے والی حقیقت سے دور ہو گئی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم میں ایک طرف مقتدر قوتیں معاشی غلبے کی جنگ لڑ رہی ہیں جب کہ دوسری طرف کی قوتیں اسے اپنے آئیڈیالوجیکل ایجنڈے کے خلاف سازش قرار دے رہی ہیں، حالاں کہ بڑی طاقتوں کو اِس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے محکوم کیا ورد کرتے ہیں اور کس کو ربِ کائنات مانتے ہیں۔ ہاں انہیں اس سے تکلیف ہے کہ ان کی راہ میں حائل انبوہ ان کے لیے معاشی رکاوٹ نہ بن جائیں۔ گویا مذہبی حلقہ اس ’’معصومانہ‘‘ خطرے کے آگے بند باندھنے کے لیے جان کی بازی بھی لگانے پر تلا بیٹھا ہے۔ حال ہی میں اٹھنے والی خودکش لہر نے کتنی مقتدر طاقتوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا؟ کیا اس لہر کے اٹھنے کا باعث بننے والی طاقتیں مذہبی تباہی کا ایجنڈا لے کر خطے میں آئی تھیں؟ اس صورتِ حال میں معصوم جانوں کا ضیاع سچ سے نابلدی نہیں تو اور کیا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ معاشرتی سرگرمیوں کے تحفظ کا ادارہ ہے جو جغرافیائی حدود کے اندر اور باہر قومی نظریے اور نظریے کے پاس داروں کی حفاظت کرتا ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی سچ کے عنصر سے خالی ہے۔ اس نام سے منسوب جتنی حقیقتیں ہیں وہ سب power discourse کا حصہ ہیں، اس سے وابستہ کر دی گئی ہیں، ہو نہیں سکتیں۔ اس ادارے نے ہمیشہ عوام کے خلاف ایک ’’پارٹی‘‘ کا رول ادا کیا۔ گویا بیرونی مقتدر طاقتوں اور عوام کے درمیان معاہدوں کی عملی اشکال اسی ادارے کی مرہونِ منت ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس حوالے سے دستِ کمال رکھتی ہیں کہ وہ عوامی حقیقت کے نام پر اس ادارے کے ساتھ مل کر چلتی ہیں۔ گویا سیاسی جماعتوں کا کردار ’’شفٹ‘‘ ہوتا ہے۔ الیکشن سے پہلے عوام کے کیبن سے اور الیکشن کے بعد مقتدر طاقتوں کے حلقوں کی جانب۔ قومیت، حب الوطنی اور دیگر جذباتی نعرے بھی اپنی ’’سچائی‘‘ کھو چکے ہیں۔ ہمارا پیارا ملک اپنی مٹی کے آنسوؤں سے لدا جا رہا ہے۔ ہم قومیت کا نعرہ تو لگا رہے ہیں مگر اس کے اندر وہ سچ نہیں جو ہماری روحوں کو ہلا دے۔ حب الوطنی برائے نام ہے۔
ادیب کا world view اس صورتِ حال میں اُس سچائی تک رسائی کا نام ہے جو ہمارے اردگرد کہیں کھو گئی ہے۔ یہ حقیقتیں جو برائے نام ہیں، ان کو سچائی کا لبادہ دوبارہ پہنانا اور جو سچ موجود ہیں ان کو حقیقتیں تسلیم کروانے میں ادیب کا کردار بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کیا ہمارا ادیب یہ بھول گیا ہے کہ ہمارے سچ تو بھوک، افلاس، تعلیمی انحطاط، معاشرتی توڑ پھوڑ، صوبائیت کا زہر، بیروزگاری، انصاف اور بنیادی ضروریاتِ زندگی ہیں۔ ہمارا ادیب کیوں خوف زدہ ہے کہ وہ مذکور حقیقتوں کو فاش کر دینے سے خوف ناک انجام سے دوچار ہو جائے گا جو صرف نام رکھتی ہیں سچ نہیں۔ یہی تو وہ سچ ہے جس کا پرچار آج ادیب کا منشور ہونا چاہیے۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا ہمارا ادیب اپنے world view میں اتنا میچور بھی ہے کہ اس کے تخلیقی حصہ میں اس طرح کی تجزیاتی سوچ سہارا بن کے آ سکے؟ یہ ضروری تونہیں کہ اس کا world view اس کے فن میں معروضی حیثیت سے ہی آئے۔ پھولوں کو ’’اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن‘‘ کہنے والا شاعر اپنے world view میں اس سچائی کا نقیب ہو سکتا ہے یا اُسے لازمی ہونا چاہیے۔ ایک افسانہ نگار جو کبھی بھی معاشرتی توڑ پھوڑ کو اپنا مواد نہیں بناتا، کیا معاشرتی سچائیوں سے نابلد رہ سکتا ہے؟
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا،ادیب کے world view کی تشکیل میں اب میڈیا کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اصل میں میڈیا ان واقعات کی ترسیل کا ذریعہ ہے جو معاشرتی سطح پر کہیں نہ کہیں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ میڈیا نے اس معاشرے میں دو بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں:
۱۔ دور دراز علاقوں میں محرومی کا خاتمہ، جسے regional disparity بھی کہتے ہے۔
۲۔ وہ تمام کردار جو حقیقتوں کی شکل میں سچ کی طاقت بنے ہوئے تھے، بُری طرح expose ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کردار ادارے اور اشخاص میں دونوں کی شکل میں موجود ہیں۔
میڈیا پر یہ الزام عاید کیا جا رہا ہے کہ اس کا کردار غیرمتوازن ہے، وہ حقائق کی پردہ پوش قوتوں کو غیر مہذب رویے سے سامنے لا رہا ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ ملک ’’عوام‘‘ اور ’’عوام مخالف‘‘ دو حلقوں میں تقسیم ہے۔ ملک ہمیشہ عوام کا ہوتا ہے۔ اقتدار کا منبع عوام ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر معاشرتی سرگرمی ہی سب سے بڑی حقیقت ہے جس میں عوام حصہ دار ہوتے ہیں عوامی قوت اپنی تنظیم کے لیے مقتدر طاقتیں پیدا کرتی ہے جو سیاسی قوتیں، اسٹیبلشمنٹ اور حکومتوں میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ عوامی طاقت کا پرمٹ استعمال کرنے والی غیر عوامی قوتیں ہمیشہ سے عوام کے خلاف ایک ’’پارٹی‘‘ بنی ہوئی ہیں۔ گویا ملک ’’عوام‘‘ اور ’’عوام مخالف‘‘ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ میڈیا نے ’’عوام مخالف‘‘ قوتوں کا پردہ چاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا بھی ایک ’’پارٹی‘‘ بن گیا ہے، مگر وہ ’’عوام حمایت‘‘ کردار میں سامنے ہے۔ آزاد طاقتیں ہمیشہ عوامی کیبن سے اپنا جھنڈا بلند کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی جب آزاد ہوتی ہیں، عوامی حلقوں سے حیاتِ تازہ لیتی ہیں اور حکومت میں مقتدر حلقوں کی اسیر بن کے ’’عوام مخالف‘‘ رویوں میں ڈھل جاتی ہیں۔
اس وقت میڈیا تجزیاتی سطح پر نہیں، expose کی سطح پر ہے۔ چیزیں تہہ در تہہ بند ہیں، جنہیں پیاز کے چھلکوں کی طرح اتارا جا رہا ہے۔ یہ عمل بے کار تو ہے مگر قصور کس کا ہے؟ پیاز کا یا اُس کا چھلکا اتارنے والے کا؟ ڈبوں کے اندر سے ڈبے نکلتے جا رہے ہیں مگر خزانے کا کہیں پتا نہیں۔ expose ہونے پر خطرہ کس کو ہے، ان کو جو عوام مخالف ’’پارٹی‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔ power discourse نے عوام کے اندر بھی اپنا نفوذ شروع کر رکھا ہے، لہٰذا یہاں سے میڈیا کے خلاف حمایت بھی سامنے آ رہی ہے۔

اس سارے عمل کے دوران سول سوسائٹی بھی عوام حمایت قوت بن کے سامنے آئی ہے۔ سول سوسائٹی عموماً غیرفعال ادارہ ہوتا ہے جو معاشرے میں متحرک چیزوں کا اعلی درجے کا ناظر کہلایا جا سکتا ہے، جس کا کام معاشرتی سرگرمی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ میڈیا کی حد درجہ مداخلت نے اس ادارے کو اپنا کردار ادا کرنے پر اُکسا دیا ہے۔ گویا یہ بے ضرر ادارہ اب اینٹی عوام قوتوں کے لیے ضرر رساں بن چکا ہے۔
یہ مضمون آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
ادیب کی سماجیات، سماجی تحرکات کی زَد میں ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادیب اپنے کردار سے آگاہ بھی ہے؟ اُردو ادیب کسی غزل کا پامال قافیہ ہے جو اپنے پہلے قافیے کے وجود میں آنے کے فوری بعد پہچانا جاتا ہے یا ایک آوارہ کاغذ کی طرح، ذرا ہوا چلی اُڑ کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔
ادب اور ادیب ہمیشہ سچ کی قوتوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ سچ کے نام پر فقط ’’حقیقتیں‘‘ رہ جانے والی قوتوں کو بے نقاب کرنا ادیب کا کام ہے۔ ایسے سچ جو برہنہ ہیں اُن کو وقار دینا بھی ادبی عمل کا حصہ ہے۔ نجانے وہ دن کب آئے گا جب ہمارے ہاں یہ برہنہ سچ حقیقت کا نام پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم ابھی اس کھیل میں اس درجہ بھی واقف نہیں کہ ہم کس ٹیم کی طرف ہیں اور ہمارے پاؤں سے لگے فٹ بال کا ہدف کس طرف ہے؟ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کھیل کون سا ہے۔ اس پہلی شناخت کے بعد اپنی شناخت کا مرحلہ ہے اور پھر کہیں اپنے مقاصد کی شناخت کا مرحلہ آتا ہے۔
انجم سلیمی نے کہا تھا ؂

ابھی یہ ظلم سہہ سکتے ہیں تو ہتھیار مٹ بانٹو
ابھی کچھ روز ان کو اور بھی مظلوم رہنے دو

IKntekhab E Kalam Manchanda Bani

Articles

انتخابِ کلام منچندہ بانی

منچندہ بانی

1
پیہم موجِ امکانی میں
اگلا پاؤں نئے پانی میں

صفِ شفق سے مرے بستر تک
ساتوں رنگ فراوانی میں

بدن، وصال آہنگ ہَوا سا
قبا، عجیب پریشانی میں

کیا سالم پہچان ہے اُس کی
وہ کہ نہیں اپنے ثانی میں

ٹوک کے جانے کیا کہتا وہ
اُس نے سُنا سب بے دھیانی میں

یاد تری، جیسے کہ سرِ شام
دُھند اُتر جائے پانی میں

خود سے کبھی مِل لیتا ہوں میں
سنّاٹے میں، ویرانی میں

آخر سوچا دیکھ ہی لیجے
کیا کرتا ہے وہ من مانی میں

ایک دِیا آکاش میں بانی
ایک چراغ سا پیشانی میں
***
2

کوئی بھوُلی ہوئی شے طاقِ ہر منظر پہ رکھّی تھی
ستارے چھت پہ رکھّے تھے شکن بستر پہ رکھّی تھی

لرزجاتا تھا باہر جھانکنے سے اُس کا تن سارا
سیاہی جانے کن راتوں کی اُس کے در پہ رکھّی تھی

وہ اپنے شہر کے مٹتے ہوئے کردار پر چپُ تھا
عجب اک لاپتہ ذات اُس کے اپنے سر پہ رکھّی تھی

کہاں کی سیرِ ہفت افلاک ، اوپر دیکھ لیتے تھے
حسیں اُجلی کپاسی برف بال وپر پہ رکھّی تھی

کوئی کیا جانتا کیا چیز کس پر بوجھ ہے بانیؔ
ذراسی اوس یوں تو سینۂ پتّھر پہ رکھّی تھی
***
3

علی بِن متّقی رویا
وہی چپ تھا، وہی رویا

عجب آشوبِ عرفاں میں
فضا گُم تھی، کہ جی رویا

یقیں مِسمار موسم کا
کھنڈر خود سے تہی رویا

اذاں زینہ اُتر آئی
سکُوتِ باطنی رویا

خلا ہر ذات کے اندر
سُنا جس نے وہی رویا

ندی پانی بہت روئی
عقیدہ روشنی رویا

سَحر دم کون روتا ہے
علی بِن متّقی رویا
***

4

صد سوغات، سکوں فردوس ستمبر آ
اے رنگوں کے موسم، منظر منظر آ

آدھے ادُھورے لمس نہ میرے ہاتھ پہ رکھ
کبھی سپُرد بدن سا مجھے میسر آ

کب تک پھیلائے گا دُھند مرے خوں میں
جھوٹی سچی نوا میں ڈھل کر لب پر آ

مجھے پتہ تھا اِک دن لوٹ کے آئے گا تُو
رُکا ہُوا دہلیز پہ کیوں ہے اندر آ

اے پیہم پرواز پرندے، دم لے لے
نہیں اُترتا آنگن میں تو چھت پر آ

اُس نے عجب کچھ پیار سے اب کے لکھا بانیؔ
بہت دنوں پھر گھوم لیا، واپس گھر آ
***

5

غائب ہر منظر میرا
ڈھونڈ پرندے گھر میرا

جنگل میں گُم فصل مِری
ندی میں گُم پتھر میرا

دُعا مِری گُم صر صر میں
بھنور میں گُم محور میرا

ناف میں گُم سب خواب مِرے
ریت میں گُم بِستر میرا

سب بے نور قیاس مِرے
گُم سارا دفتر میرا

کبھی کبھی سب کچھ غائب
نام، کہ گُم اکثر میرا

میں اپنے اندر کی بہار
بانیؔ کیا باہر میرا
***

6

ہری، سُنہری خاک اُڑانے والا مَیں
شفق شجر تصویر بنانے والا مَیں

خلا کے سارے رنگ سمیٹنے والی شام
شب کی مژہ پر خواب سجانے والا مَیں

فضا کا پہلا پھول کھلانے والی صبح
ہَوا کے سُر میں گیت ملانے والا مَیں

باہر بھیتر فصل اُگانے والا تُو
ترے خزانے سَدا لُٹانے والا مَیں

چھتوں پہ بارش، دُور پہاڑی، ہلکی دھوپ
بھیگنے والا، پنکھ سُکھانے والا مَیں

چار دشائیں جب آپس میں گھُل مل جائیں
سنّاٹے کو دُعا بنانے والا مَیں

گھنے بنوں میں، شنکھ بجانے والا تُو
تری طرف گھر چھوڑ کے آنے والا مَیں

***
7

سیاہ خانۂ اُمّیدِ رائگاں سے نکِل
کھُلی فضا میں ذرا آ ، غبارِ جاں سے نکِل

عجیب بھِیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نکِل،
کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نکِل

اِک اور راہ ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
یہ لوگ آتے رہیں گے ، تُو درمیاں سے نکِل

ذرا بڑھا تو سہی واقعات کو آگے
طلسم کارئ آغازِ داستاں سے نکِل

تُو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
توُاِک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکِل

یہیں کہیں تِرا دشمن چھپا ہے اے بانی
کوئی بہانہ بنا ، بزمِ دوستاں سے نکِل
***
8

تمام راستہ پھُولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دُعا مانگتا ہے میرے لیے

تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے
میں جانتا ہوں تِرا دَر کُھلا ہے میرے لیے

مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو
مگر سفر کا تقاضا جُدا ہے میرے لیے

وہ ایک عکس کہ پل بھر نظر میں ٹھہرا تھا
تمام عمر کا اب سلسلہ ہے میرے لیے

عجیب در گذری کا شِکار ہوں اب تک
کوئی کرم ہے نہ کوئی سزا ہے میرے لیے

گذر سکوں گا نہ اِس خواب خواب بستی سے
یہاں کی مٹّی بھی زنجیرِ پا ہے میرے لیے

اب آپ جاؤں تو جاکر اُسے سمیٹوں میں
تمام سِلسِلہ بِکھرا پڑا ہے میرے لیے

یہ حسنِ ختمِ سفر یہ طِلسم خانۂ رنگ
کہ آنکھ جھپکوں تو منظر نیا ہے میرے لیے

یہ کیسے کوہ کے اندر میں دفن تھا بانیؔ
وہ ابر بن کے برستا رہا ہے میرے لیے
***

 

Pandit Jawaharlal Nehru

Articles

پنڈت جواہر لال نہرو

ڈاکٹر محمد نسیم الدین ندوی

تاریخ کی اواراق گرداری کرنے پر ہندوستان کے تناظر میں بہت سی شخصیات ابھرتی ہیں جنھوں نے وطن مالوف کے لیے گراں قدر خدمات اور قربانیاں پیش کی ہیں جن کو نظرانداز و فراموش کردینا وطن عزیز کا بڑا خسارہ ہے۔ ان شخصیات میں بابائے قوم مہاتما گاندھی، اسیر مالٹا مولانا محمود حسن، اسیر کالا پانی علامہ فضل حق خیرآبادی، عظیم داعی مفکر و مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی، عظیم مجاہد آزادی بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی، مولانا حفظ الرحمن، مولانا محمد علی جوہر، سردار پٹیل، نیتاجی سبھاش چندر بوس ہیں۔ اور بھی شخصیات ہیں صفحات کی تنگ دامانی اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

ان میں بہت سے شخصیات ایسی ہیں جن کو ہندوستان میں بالکل نظرانداز اور فراموش کردیا گیا ہے۔ سرِدست آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہمہ جہت شخصیت پر خامہ فرسائی مقصود ہے۔ پنڈت نہرو مورخ، مصنف اور سیاست داں تھے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو 14 نومبر 1889ء کو الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے یوم پیدائش پر ہر سال یوم اطفال بڑی دھوم دھوم سے منایا جاتا ہے۔ ان کے والد موتی لعل نہرو معروف قانون داں تھے۔ ماں شریمتی سروپ رانی تعلیم یافتہ خوبصورت خاتون تھیں۔ یہ برہمن خاندان جنت نشاں وادی کشمیر سے آکر الہ آباد میں آباد ہوگیا تھا۔ الہ آباد ایک شہرت یافتہ تاریخی شہر ہے۔ یہاں عقیدت کی آئینہ دار تین دریاؤں کا سنگم ہے گنگا، جمنا اور سرسوتی کا خوبصورت ملن یہیں ہوتا ہے۔ سرسوتی یہاں سطح زمین کے اندر رہتی ہے۔ یہاں پورے ملک سے زائرین آتے ہیں۔ الہ آباد کئی سالوں تک متحدہ آگرہ و اودھ کا دارالسلطنت بھی رہا ہے۔ پنڈت نہرو کی تعلیم و تربیت کے لیے اول مرحلے میں گھر پر ہی انتظام کیا گیا۔ سنسکرت، ہندی پڑھانے کے لئے جہاں پنڈت رکھے گئے اردو فارسی پڑھانے کے لیے مولوی رکھے گئے۔ انگریزی پڑھانے کے لیے انگریز استاد رکھا گیا۔ جب پنڈت نہرو چودھ سال کے ہوئے تو ان کو انگلستان کے ہیرو کالج میں داخل کیا گیا۔ ابتدائی دنوں میں ان کی طبیعت گھبرائی لیکن پھر آہستہ آہستہ اسکول کی زندگی میں رچ بس گئے اور ہمہ وقت مطالعے میں مصروف رہنے لگے۔ وہ اپنے ہم جماعت طلبا سے زیادہ اخبارات و جرائد کا مطالعہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1905 کے اواخر میں انگلستان میں عام انتخابات ہوئے، لیبر پارٹی برسراقتدار آگئی، 1906 کے شروع میں پنڈت نہرو کے کلاس ٹیچر نے انتخابات اور برسراقتدار آئی پارٹی اور حکومت کے بارے میں سوالات کئے تو کلاس میں استاد حیران رہ گئے جب پورے کلاس میں جواہر لعل ہی ایسے طالب علم تھے جو سب سے زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ حکومت کے وزرا کے نام کی فہرست منہ زبانی یاد تھی۔ 1906 میں ہیرو کالج کے سالانہ امتحان میں جواہر لعل اول آئے۔ ہیرو کالج کے ہیڈماسٹر جواہر لعل کی کارکردگی سے پورے طور پر مطمئن تھے۔ انھوں نے موتی لعل نہرو کو جواہر لعل نہرو کی جو رپورٹ ارسال کی اس میں پورے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ جواہر آگے چل کر تاریخ رقم کرے گا۔ اکتوبر 1907 میں 18 سال کی عمر میں جواہر لعل نہرو کو کیمرج یونیورسٹی میں داخل کیا گیا۔ یہ دنیا کی مایہ ناز اور معروف یونیورسٹی ہے۔  پنڈت نہرو یونیورسٹی آکر بہت خوش تھے۔ انھوں نے کیمرج کی کھلی فضا میں خوب مطالبہ کیا اور وسیع تر معلومات حاصل کیں۔ علم کیمیا، علم ارضیات، علم اقتصادیات، علم نباتات، علم قدرتی سائنس، علم سیاسیات پر مختلف نظریات کا مطالعہ کیا۔ اسی دوران وہ سوشلسٹ خیالات سے واقف ہوئے۔ برناڈشا اور ٹرینڈرسل سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ اسی دوران ان کے دل میں جذبہ پیدا ہوا کہ بھارت کی آزادی کے لئے جد و جہد کرنا چاہئے۔ کیمرج یونیورسٹی میں مقیم ہندوستانیوں نے ایک سوسائٹی بنائی تھی جس کو مجلس کہا جاتا تھا۔ اس میں مختلف موضوعات پر بحث و تمحیص ہوتی تھی۔ ہندوستانی طلباء اپنی تہذیب و ثقافت کو انگریزوں کی تہذیب و ثقافت سے اعلیٰ و برتر سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ ہندوستانی تہذیب میں زیادہ کشادگی اور رواداری ہے۔ اس مجلس میں حقوق انسانی اور آزادی پر بھی بحث ہوتی تھی۔ پنڈت نہرو اس میں برابر شریک ہوتے تھے اور اپنی بات بڑے محتاط انداز میں رکھتے تھے۔ ان کو اس مجلس سے بڑی معلومات حاصل ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ آزادئ ہند کا جذبہ موجزن ہونے لگا۔ جواہر لعل نہرو کی عمر صرف 20 سال کی تھی جب 1910میں ڈگری حاصل کرلی۔ ان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں لیکن ان کے والد نے کہا کہ نہیں تم بیرسٹر بنو۔ اس کے مدنظر ان کو لندن کے مہشور قانون کے کالج انرٹیمپل میں داخل کیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1912ء میں امتیازی نمبرات سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
1912میں پنڈت بھارت واپس آگئے۔ ملک میں جنگ آزادی کی جد و جہد جاری تھی۔ پہلی عالمی جنگ کی آمد آمد تھی۔ اس وقت کانگریس دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک حصہ کی رائے تھی کہ ملک کی آزادی کا حصول گفت وشنید سے ہو جبکہ دوسرے حصہ کی رائے تھی کہ آزادی بزور شمشیر حاصل کی جائے۔ پنڈت نہرو کے والد موتی لعل اعتدال پسندی کے حامی تھے۔ ان کا مشورہ تھا کہ ملک کی آزادی انتہا پسندی سے نہیں بلکہ اعتدال پسندی سے ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اعتدال پسند تھے اور بات چیت اور امن و امان کی راہ پر چل کر بھارت کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔
1916ء میں لکھنؤ کے کانگریس اجلاس میں مہاتما گاندھی سے جواہر لعل نہرو کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت گاندھی کی شخصیت ایک عظیم داستان بن چکی تھی۔ گاندھی جی عدم تشدد کی راہ پر چل کر ملک کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔ جواہر لعل، گاندھی سے بہت متاثر ہوئے اور پھر کیا تھا بہت جلد وہ گاندھی کے شریک کار بن گئے۔ 1916میں ہی جواہر لعل نہرو کی شادی دہلی میں کملا کول سے ہوئی۔ 19نومبر1917 میں ان کے یہاں ایک بچی کا جنم ہوا جس کا نام اندرا پریہ درشنی رکھا گیا۔
پہلی عالمی جنگ نومبر 1918 میں ختم ہوئی۔ بھارت کے عوام برطانیہ کی زنجیر غلامی کو ہر حال میں توڑ پھینکنا چاہتے تھے اور بغاوت پر آمادہ تھے۔ انگریزوں سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وعدے کے مطابق بھارت کو آزاد کردیں لیکن انگریزوں نے اس کے برعکس قانون بنادیا کہ کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے جیل بھیجا جاسکتا تھا۔ گاندھی جی نے ستیہ گرہ شروع کردی۔ پرامن احتجاج اور گرفتاریاں دینا شروع کردی گئیں۔ دسمبر 1927 کے مدراس کے کانگریس اجلاس میں بھارت کی مکمل آزادی کی تجویز پیش کی گئی۔
جواہر لعل نہرو کی زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں کٹا۔ بریلی، دہرہ دون، الموڑہ، علی پور، کلکتہ اور احمد نگر کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ چونکہ پنڈت سیاسی قیدی تھے اور جیلوں کے افسران مہذب ہوتے تھے اس لیے ان کو اخبارات، کتابیں، رسائل پڑھنے کی اجازت تھی۔ وہ جیلوں میں خوش اخلاقی کے ساتھ رہتے تھے۔ جیلوں کے قوانین پر بہت سختی سے عمل کرتے تھے۔ جسمانی ورزش کے لیے باغبانی کیا کرتے تھے اور دماغی ورزش کے لیے پڑھتے لکھتے رہتے تھے۔ ’’تلاش ہند‘‘ جیل میں رہ کر ہی لکھی تھی۔ اپنی بیٹی اندرا پریہ درشنی کو خطوط لکھا کرتے تھے جو ’باپ کے خط بیٹی کے نام‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکے ہیں۔
8اگست 1942 میں ممبئی میں کانگریس کا اجلاس ہوا۔ بھارت چھوڑو تجویز منظور ہوئی اور آثار نمایاں ہونے لگے کہ اب بھارت آزاد ہوجائے گا۔ 1945 میں عالمی جنگ ختم ہوئی۔ انگلستان میں لیبر پارٹی برسراقتدار آئی۔ نئی پارٹی ایک بار پھر بھارت کی آزادی کے مطالبہ کو طے کرنا چاہتی تھی۔ آزادی کے لیے انگریزوں نے دو تجویزیں رکھیں۔ ایک قلیل مدتی اور ایک طویل مدتی۔ کانگریس نے قلیل مدتی تجویز کو مان لیا لیکن مسلم لیگ نے اس کو نامنظور کردیا اور الگ ملک کا مطالبہ تیز کردیا۔ گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم کے سخت مخالف تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل ان قومی لیڈروں کے ساتھ تھے لیکن مسلم لیگ کے جھگڑوں سے پریشان یہ فیصلہ کیا کہ تقسیم تسلیم کرلینے میں بھلائی ہے۔ دونوں لیڈران بابائے قوم مہاتما گاندھی کو منانے میں لگ گئے۔ آخرکار گاندھی جی نے ہتھیار ڈال دیئے اور ملک تقسیم ہوکر آزاد ہوگیا۔ گاندھی جی، سردار پٹیل، پنڈت جواہر لعل نہرو و دیگر کانگریسی لیڈران مولانا ابوالکلام آزاد کو منانے میں ناکام رہے۔ مولانا نے کہا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، ہم نے بھارت کی جنگ آزادی کی لڑائی تقسیم کے لیے نہیں لڑی تھی، تقسیم اس ملک کا بڑا خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے، اس کا خمیازہ سب سے زیادہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑے گا۔ مولانا کی مخالفت کو کانگریس نے درکنار کرتے ہوئے تقسیم ہند کو تسلیم کرلیا اور بھارت آزاد ہوگیا۔
15اگست 1947 کو آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے پنڈت جواہر لعل نہرو نے حلف لیا۔ وہ اس وقت اٹھاون سال کے تھے۔ وہ جوان، خوش اور صحت منطر نظر آتے تھے۔ انھوں نے مجلس آئین کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اب وقت آگیا ہے ہم اپنے ملک کی تقدیر سنوائیں اور ملک کا مستقبل روشن و تابناک بنانے کا عہد و پیمان کریں۔ چلاپتی راؤ رقم طراز ہیں:
’’جواہر لعل نہرو محض وزیراعظم ہی نہ تھے وہ قوم کے رہنما بھی تھے۔ وہ کانگریس کے جسم اور روح تھے، ساری دنیا کے سامنے وہی ہندوستان کی نمائندگی کرتے تھے، ہندوستان کا مطلب تھا جواہر لعل اور جواہر لعل کے معنی ہندوستان تھا‘‘
وہ بہت لگن اور دلچسپی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اپنی کاپی پر امریکی شاعر رابرٹ فروسٹ کی نظم کی مندرجہ ذیل سطریں درج کر رکھی تھیں:
اگرچہ جنگلات خوبصورت گھنے اور تاریک ہیں
مگر مجھے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے
سونے سے پہلے مجھے بہت دور جانا ہے
سونے سے پہلے مجھے بہت دور جانا ہے
پنڈت جواہر نہرو آخری دم ان سطور کا ورد کرتے رہے۔
جدید بھارت کا عظیم معمار 27مئی 1964 کو اپنے داربقا کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ پنڈت جی کو آج بھی دنیا ان کے عالمی امن و امان کے لیے کئے گئے کاموں کے لیے یاد کرتی ہے اور بھارت میں ان کے یوم ولادت کو یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے اور بچے آج بھی ان کو چچا نہرو کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
جواہر لعل کو کسی بھی یادگار کی ضرورت نہیں۔ پورا جدید ہندوستان ان کی یادگار ہے۔ یہ بہادر محنتی اور زندہ دل انسان کا قصہ ہے جو اپنے عوام کو اپنے دل و دماغ کی پوری قوت سے پیار کرتا رہا اور جس نے ان کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کام کیا اور ان کو ان کے مستقبل کے بارے میں پرامید بنایا۔ عوام جواہر لعل کو کبھی فراموش نہ کرسکیں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں جواہر لعل کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانا ہے۔


بشکریہ فکر و خبر ڈاٹ کام