A Norwegian Folktale “Scissors and Sickle”

Articles

نارویجین لوک کہانی ۔۔۔۔ قینچی اور درانتی

نارویجین لوک کہانی

بہت عرصے کی بات ہے۔ ایک گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ یوں تو وہ ہر لحاظ سے خوش حال رہتا تھا کیونکہ اس کا کھیت وسیع تھا اور فصل ہمیشہ عمدہ ہوتی تھی لیکن بیوی کی وجہ سے اس کا ناک میں دم رہتا تھا۔ وہ بہت ہی ضدی اور ہٹ دھرم تھی اور ہمیشہ الٹی بات سوچتی تھی۔ اسی لیے گائوں کے سب ملنے جلنے والوں نے اس کا نام ” الٹی کھوپڑی“ رکھ دیا تھا۔
جب وہ گھر سے باہر نکلتی تو بچے اسی نام سے پکار کر اسے پکارتے اور جب وہ مارنے کے لیے دوڑتی تو دور بھاگ جاتے تھے۔ وہ کھیت میں کام کرتی تو ایک جھاڑی سے آواز آتی ”ارے بہن الٹی کھوپڑی کیا کررہی ہو۔“ وہ جل کر اس جھاڑی کی طرف لپکتی تو فوراً دوسری جھاڑی سے ویسی ہی آواز آتی۔ وہ رک جاتی اور پلٹ کر دوسری طرف جاتی کہ اتنے میں ایک اور آواز تیسری جھاڑی سے آتی۔ یہ سب کچھ ہوتا لیکن وہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑتی تھی۔
پڑوس کی عورتیں بھی اس سے تنگ آگئی تھیں جب وہ بولتیں کہ کنویں پر چلیں، پانی لے آئیں تو وہ کہتی کہ نہیں پانی تو ندی سے لانا چاہیے۔ جب وہ کہتیں کہ آئواپلے پہاڑی پر تھاپ دیں تو وہ کہتی کہ نہیں پہاڑی کے دامن میں مناسب رہیں گے۔ جب مچھلی والا اس کے گھر کے قریب آواز لگاتا ”بام مچھلی لے لو، بام مچھلی۔“ تو وہ کہتی کہ تم سرمئی یا سنگھاڑا کیوں نہیں لائے اور جب سرمئی یا سنگھاڑا مچھلی ہوتی تو بام مانگتی۔ کسان کہتا کہ آج آلو پکا لو تو وہ کہتی کہ نہیں آج تو دال پکے گی۔ خاوند کہتا کہ میری قمیض پھٹ گئی ہے۔ ذرا اس کوسی دو، تو وہ کہتی کہ نہیں پاجامہ درست کرالو، حالاں کہ وہ پہلے ہی ٹھیک ہوتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کو سخت جاڑے میں ٹھنڈا شربت پلا کر بیمار کر دیتی اور کہتی کہ گرمی کے موسم میں صرف گرم چائے پی جاتی ہے۔ اسی لیے سب کو یقین تھا کہ اس کی کھوپڑی الٹی لگی ہوئی ہے۔
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
پڑوسی آکر کسان سے شکایت کرتے کہ تمہاری بیوی ہمیشہ ہم سے الجھتی رہتی ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کرکے کہتا ”بھائیو! اسے غنیمت سمجھو کہ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ وہ باہر نکل کر صرف چند لمحے کے لیے تم سے الجھتی ہے۔ میرا اس کا ہر وقت کا ساتھ ہے۔ وہ اپنی الٹی کھوپڑی سے میرا دماغ بھی الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ میں رات کو تھکا ہارا چت لیٹتا ہوں تو وہ ٹہوکا دے کر کہتی ہے کہ کروٹ سے کیوں نہیں لیٹتے۔ جب میں کام پر جلدی جانے کے خیال سے روٹی کے نوالے تیز تیز کھاتا ہوں، تو وہ روک کر کہتی ہے کہ اتنی جلدی کیوں ہے، ابھی بہت دقت ہے اور جب میں آہستہ آہستہ اطمینان سے روٹی کھاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ جلدی کرو، کام کاہرج ہو رہا ہے۔ کھانا ساتھ لے جائو۔ راستے میں چلتے چلتے کھا لینا، حالاں کہ اس روز کھیت پر جلدی جانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے بھائیو! میں تو خود بھی اس سے تنگ آگیا ہوں، بتائو تمہاری شکایات کس طرح دور کروں؟“
فصل پک جانے کا زمانہ تھا۔ ایک روز دونوں میاں بیوی صبح ہی صبح اپنے کھیت دیکھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ کسان نے خیال ظاہر کیا، ” منگل تک فصل کاٹنے کی نوبت آئے گی“ بیوی بولی ”نہیں بدھ سے پہلے یہ کام ہر گز شروع نہ کیا جائے۔“
خاوند نے کہا ” بہت اچھا ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنے دو بھائیوں کو بلوا لوں تاکہ وہ ہمارا ہاتھ بٹا سکیں۔“ بیوی بولی۔ ” نہیں میرے دو بھائیوں کو بلوائو، وہ زیادہ پھرتی سے کام کرتے ہیں۔“
خاوند نے یہ بات بھی مان لی اور کہا ” کل صبح سے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا تاکہ سورج ڈھلنے تک روزانہ بہت سا کام ہوجایا کرے۔“ بیوی نے کہا ” نہیں، چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دوپہر کو صرف آدھ گھنٹے آرام کیا کریں گے۔“ خاوند نے کہا ” چلو، یوں ہی سہی۔ موسم تو خوشگوار ہے۔ دوپہر کو آرام نہ بھی کیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔“ بیوی بولی۔
”موسم خوشگوار کب ہے۔ سخت گرمی ہے اور خاک بھی اڑاتی ہے آرام کرنا ضروری ہوگا۔“
خاوند نے بات مان لی اور کہا ” آج ہی درانتیاں تیز کرالینی چاہئیں، تاکہ فصل اچھی طرح کٹ سکے۔“ بیوی بولی ۔
” واہ کیا خوب! درانتیاں نہیں قینچیاں کہو۔ اس سال ہم درانتی کے بجائے قینچیاں استعمال کریں گے۔“
اب خاوند سے نہ رہا گیا۔ وہ جھلا کر بولا ” واقعی الٹی کھوپڑی کی عورت ہو تم۔ رائی کی فصل کہیں قینچی سے کٹتی ہے۔ تمہاری عقل تو خراب نہیں ہو گئی۔“
بیوی نے بگڑ کر کہا ” عقل خراب ہوگی تمہاری ۔ ہم تو فصل قینچی سے ہی کاٹیں گے۔“
خاوند بولا ” پاگل نہ بنو۔ میں قینچی کو قریب بھی لانے نہ دوں گا۔“
” اور میں درانتی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دوں گی۔“ بیوی نے تڑک کر کہا۔
”نہیں قینچی ہر گز نہیں۔“
”نہیں ، درانتی ہر گز نہیں۔“
” لوگ رائی کی فصل قینچی سے کاٹتے دیکھیں گے تو ہم پر ہنسیں گے۔“
” نہیں وہ درانتی دیکھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے۔“
”تم نہیں جانتیں ۔ اس موقع کے لیے درانتی ہی زیادہ مناسب ہے۔“
” کون کہتا ہے۔ قینچی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
” کچھ بھی ہو، میں کہتا ہوں کہ درانتی چلے گی۔“
” اور میں کہتی ہوں کہ قینچی چلے گی۔“
یہ بحث کرتے ہوئے دونوں میاں بیوی ندی پر بنی ہوئی پلیا پر سے گزررہے تھے۔ بیوی غصے سے اس درجہ بے تاب تھی کہ اسے یہ خیال بھی نہ رہا کہ پلیا کے دونوں طرف منڈیر نہیں ہے۔ آخری بار جو اس نے غصے میں پلٹ کر جواب دیا تو پائوں کنارے سے باہر جا پڑااور وہ سنبھل نہ سکی۔ دھڑام سے ندی میں گرگئی۔ پانی اس جگہ خاصا گہرا تھا اور اسے زیادہ تیرنا نہیں آتا تھا۔
وہ ڈبکیاں کھانے لگی ۔ پہلی ڈبکی پر جب وہ ابھری تو اس کا سانس چڑھا ہوا تھا۔ وہ مدد کے لیے نہیں چلائی بلکہ چیخ کر بولی ”قینچی، صرف قینچی۔“
کچھ خاوند کو بھی اس روز ضد ہو گئی تھی۔ اس نے فورا ً چلا کر کہا ”نہیں درانتی۔“ اور بیوی کو پانی سے باہر نکالنے کی ترکیب پر غور نہیں کیا۔
بیوی اپنے خاوند کا جواب سن نہیں سکی۔ وہ پھر پانی کے نیچے پہنچ چکی تھی اور جب وہ دوبارا ابھری تو پھر چیخ کر کہنے لگی۔ ” قینچی صرف قینچی“
اب اس کا سانس زیادہ اکھڑ چلا تھا۔ خاوند تنگ آگیااور اسے بیوی پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ اس نے فوراً کہا ”صرف درانتی۔“
اب بیوی نے جلدی جلدی غوطے کھانے شروع کر دیئے۔ لیکن وہ جتنی بار پانی سے ابھری، اس نے صرف ایک ہی لفظ کہا ”قینچی۔“ اور خاوند نے بھی جواب ہٹ دھرمی پر اتر آیا تھا ۔”درانتی“ کہنے کے سوا اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
پھر بہت دیر تک عورت پانی میں غائب رہی۔ آخری بار جب وہ ابھری تو نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی۔ اس کی زبان بند ہو چکی تھی کیونکہ بولنے کی قوت جواب دے گئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا ایک ہاتھ پانی کی سطح سے اونچا کیا اور قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں دو انگلیاں مٹکا کر گویا اشارے سے ظاہر کیا کہ فصل قینچی سے کٹے گی۔
مرد بھی اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ بھی اس طرح لہرایا جیسے فصل کاٹنے وقت درانتی گھمائی جاتی ہے۔
اس کے بعد عورت کا سر پانی کی سطح پر بالکل نظر نہیں آیا۔ خاوند کچھ دیر تک لہروں پر نظر جمائے گھورتا رہا۔ پھر اس نے چیخنا چلانا شروع کیا ” ارے لوگو! دوڑو۔ الٹی کھوپڑی پانی میں ڈوب گئی۔ اسے بچائو ، جلدی بچائو۔“
آس پاس کے سب کسان بھاگے آئے۔ تقریباً سبھی تیرنا جانتے تھے۔ انہوں نے لنگر لنگوٹے کس لیے اور فوراً ندی میں کود پڑے۔ وہ اسی جگہ پانی میں ڈبکیاں لگاتے چاروں طرف ہاتھ پائوں مارتے رہے۔ پھر پانی کے بہائو کی طرف چلنے لگے لیکن کسان نے فوراً للکار کر کہا ” نہیں بھائی نہیں، تم اس الٹی کھوپڑی والی عورت کو اچھی طرح جانتے ہو اور پھر بھی پانی کے بہائو کی طرف اسے ڈھونڈنا چاہتے ہو۔ وہ ضرور چڑھائو کی طرف گئی ہوگی۔“
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔ وہ کوشش کرکے چڑھائو کی طرف تیرنے لگے اور بہت جلد عورت پانی کے اندر اگنے والی ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی مل گئی۔ اس کے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں کھلی ہوئی تھیں حالانکہ وہ مر چکی تھی مگر اس طرح اپنا خاموش فیصلہ دے رہی تھی۔
کسان روتا دھوتا بیوی کا جنازہ اپنے گھر لے گیا۔ شام کو اس کی تجہیز و تکفین کر دی گئی اور خاوند نے یادگار کے طور پر اس کی قبر کے سرہانے ایک درانتی گاڑ دی۔جو آج تک گڑی ہوئی ہے۔
——————————————————

Sir Syed Shanasi by Mujahid Husain

Articles

سر سیّد شناسی : مبالغے اور مغالطے ۔۔۔ترتیب : مجاہد حسین

مجاہد حسین

Bengali Folk Tale

Articles

برہمن جو بھگوان کو نگل گیا

بنگلہ لوک کہانی

ایک بار بدھاتا نے جو ہر کسی کے ماتھے پر چاہے وہ بچہ ہو یا بچی ، پیدائش کے وقت اس کی قسمت لکھ دیتا ہے ، کسی غریب برہمن کی قسمت میں کچھ عجیب سی تباہی لکھ دی۔ کبھی جی بھر کے نہ کھانا اس کا مقدر بن گیا۔ جب بھی وہ اپنا آدھا بھات کھا چکتا تو ہمیشہ ایسی کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی کہ وہ اور نہ کھاپاتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ اس کے پاس راجہ کے گھر سے بلاوا آیا۔ وہ بہت ہی خو ش ہوا اور اپنی بیوی سے بولا۔’’ میں تو بس اپنا آدھا بھات ہی کھا سکتا ہوں۔ اپنی ساری زندگی میں ایک بار بھی تو میں اپنی بھوک پوری طرح نہ مٹاپایا۔ آج نہ جانے کیسے قسمت جاگی ہے کہ راجہ کے گھر جانے کا بلاوا آیا ہے، لیکن میں جائوں تو کیسے جائوں؟ میرے کپڑے پھٹے ہوئے اور گندے ہیں اور اگر میں اس طرح چلاگیا تو اندیشہ ہے کہ چوکیدار مجھے واپس لوٹا دے گا۔‘‘ اس کی بیوی بولی۔ ’’ ارے میں تمہارے کپڑے سی کر دھو دوں گی۔ تب تو تم جاسکتے ہو۔‘‘ اور بیوی نے اسے اچھے ڈھنگ کے کپڑے مہیا کردیئے اور وہ راجہ کے گھر روانہ ہوگیا۔
اگرچہ شام ہوچکی تھی اور وہ دیر سے وہاں پہنچا تھا، لیکن اس کا شاہانہ خیر مقدم ہوا۔ جب وہ اپنے آگے رکھے گئے طرح طرح کے کھانوں کا جائزہ لے رہاتھا تو بوڑھا برہمن بے حد خوش ہوا۔ اس نے سوچا۔’’ چاہے جو بھی ہو آج تو میں جی بھر کے کھائوں گا۔‘‘ اب ایسا ہوا کہ مٹّی کی ایک چھوٹی سی ہانڈی جو چھت کی شہتیر سے لٹک رہی تھی ، جیسے ہی برہمن کا کھانا آدھا ختم ہوا ٹوٹ گئی اور اس کے ٹکڑے برہمن کے کھانے میں جاگرے۔ اس نے فوراً ہاتھ روک لیا۔ کھانا ختم کرتے ہوئے اس نے پانی کا ایک گھونٹ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ منہ دھوکر راجہ کے پاس گیا۔ راجہ نے بڑی عزت سے اس کا سواگت کیا اور پوچھا۔ ’’ ٹھاکر! کیا آپ پوری طرح مطمئن ہیں؟‘‘ برہمن نے جواب دیا ۔ ’’ مہاراج آپ کے نوکروں نے میرے ساتھ بڑا اچھا برتائو کیا ، میں نے جو مانگا لاکر دیا۔ یہ میری اپنی قسمت کا پھیر ہے کہ میں پیٹ نہ بھر سکا‘‘۔ ’’کیوں؟‘‘ راجہ نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہوگئی؟‘‘ ۔’’مہاراج جب میں کھانا کھا رہا تھا تو مٹّی کی چھوٹی سی ہانڈی نے چھت سے گر کر میرا بھات خراب کردیا۔ ‘‘ جب راجہ نے یہ سنا تو بڑا ناراض ہوا اور اس نے نوکروں خوب ڈانٹا۔پھر اس نے برہمن سے کہا۔’’ٹھاکر! آج رات آپ میرے یہاں ٹھہرجایئے ۔ کل میں تازہ کھانا بنوا کر اپنے ہاتھوں سے آپ کے آگے پیش کروں گا۔ تو برہمن اس رات راجہ کے گھر ٹھہر گیا۔
اگلے دن ، راجہ نے کھانا پکتے ہوئے نگرانی کی۔ بلکہ ایک دو چیزیں خود اپنے ہاتھوں سے بنائیں اور برہمن کو کھانا پیش کیا۔ راجہ کی خاطر داری سے برہمن بڑا خوش تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا اور کھانے بیٹھ گیا۔ لیکن جب وہ آدھا کھانا کھاچکا تو بدھاتا نے دیکھا کہ اب اسے روکنا ہی پڑے گا، لیکن اسے اس کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا بس وہ خود ہی جلدی سے ایک سنہرے مینڈک میں تبدیل ہوگیا اور برہمن کے کیلے کے پتّے کے قریب پھدک کر آیا اور اس کے کھانے کے اندر لڑھک گیا۔
اس شام گھر لوٹتے ہوئے راستے میں جب وہ ایک جنگل سے گزر رہا تھا ۔اسے اچانک ایک آواز سنائی دی۔ ’’برہمن ، مجھے جانے دو! برہمن ، مجھے جانے دو!!‘‘ برہمن نے چاروں طرف نظر دوڑائی ، لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے پھر آواز سنی۔’’ برہمن مجھے جانے دو!‘‘ تب اُس نے کہا ۔’’ تم کون ہو؟‘‘ جواب ملا۔’’ میں بدھاتا ہوں!‘‘برہمن نے پوچھا۔’’ تم آخر ہو کہاں؟‘‘ بدھاتا نے جواب دیا ۔ ’’تمہارے پیٹ میں تم نے مجھے گھونٹ لیا ہے۔‘‘ ،’’ناممکن!‘‘ برہمن بولا ’’ہاں‘‘۔ بدھاتا نے کہا۔’’ میں ایک مینڈک بن کر تمھارے کھانے میں لڑھک گیا تھا اور تم مجھے کھا گئے‘‘۔’’ ارے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے! یہ تو بڑا ہی اچھا ہوا۔‘‘ برہمن نے جواب دیا۔ ’’ساری زندگی تم نے مجھے پریشان کیا ہے۔ بہتر ہوگا میں اپنی حلق بند کرلوں۔‘‘ برہمن جلدی جلدی گھر کی طرف چلا اور جب وہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’بیوی مجھے حقہ سلگا دے اور تو ہاتھ میں ایک ڈنڈا لے کر تیار ہوجا۔ ‘‘ اس کی بیوی نے فوراً اس کے کہنے پر عمل کیا اور برہمن بیٹھ کر حقہ پینے لگا۔ وہ بڑے آرام سے دیر تک حقہ گڑگڑاتا رہا اور اس بات کا پورا دھیان رکھا کہ کہیں بدھاتا آزاد نہ ہوجائے۔ دھوئیں سے بھگوان کا دم اور بھی زیادہ گھٹا، لیکن برہمن نے مدد کے لیے ان کے چلّانے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
اِس دوران تینوں دنیائوں میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ بغیربدھاتا کے ، معاملات کو نظام کے تحت نہ چلائے جانے سے دنیا تباہی کے دہانے پر تھی۔ چنانچہ سارے بھگوانوں کی کونسل بیٹھی اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو برہمن کے پاس بھیجنا ہوگا۔ لیکن کسے؟ سب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ دیوی لکشمی کا انتخاب سب سے ٹھیک رہے گا۔ وہ بولیں۔ ’’اگر میں اس برہمن کے پاس جائوں گی تو کبھی واپس نہ آسکوں گی۔‘‘ لیکن سبھی نے بہت خوشامد کی تو پھر وہ راضی ہوگئیں اور برہمن کے گھر گئیں۔ جب برہمن کو پتہ چلا کہ اس کے دروازے پر دولت اور خوش قسمتی کی دیوی لکشمی آئی ہیں تو اس نے اوپر کا اپنا کپڑا ان کی تعظیم کے طور پر اپنی گردن کے گرد لپیٹ لیا۔ انھیں بیٹھنے کی جگہ دی اور پوچھا کہ’’ آخر کون سی بات انھیں ایک غریب آدمی کے دروازے پر لائی ہے‘‘؟’’ ٹھاکر! ‘‘ دیوی نے کہا۔’’ آپ نے بدھاتا کو بندی بنا رکھا ہے۔ اس سے جانے دیجئے ، ورنہ دنیا برباد ہوجائے گی‘‘۔ ’’ ذرا مجھے ڈنڈا تو دے دینا۔‘‘ برہمن نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’اور میں تمھیں دکھائوں گا کہ خوش قسمتی اور دولت کی اس دیوی کے بارے میں میں کیا سوچتا ہوں۔ جس دن سے میں پیدا ہوا ہوں یہ مجھ سے کتراتی رہی ہے۔ میرے پا س بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں تھا اور اب وہ یہاں میرے گھر آئی ہے ۔ یہ لکشمی۔‘‘ جب دیوی نے یہ سنا تو خوف سے کانپنے لگی اور غائب ہوگئی۔ کسی نے اُس سے اس سے پہلے کسی زمانے میں بھی یوں بات نہ کی تھی۔ اس نے تمام بھگوانوں کو بتایا کہ کیا ہوا تھا اور دوسری بار سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد تمام بھگوانوں نے علم کی دیوی سرسوتی کو برہمن کے پاس بھیجا۔
جب دیوی سر سوتی اس کے گھر پہنچیں اور آواز لگائی کہ ’’ برہمن کیا تم اندر ہو؟‘‘ تو برہمن نے بڑی تعظیم کے ساتھ انھیں پرنام کیا اور بولا۔’’ ماتا، عظیم دیوی آپ ایک غریب آدمی کے گھر سے کیا چاہتی ہیں؟‘‘ ۔’’ ٹھاکر ! دنیا تیزی سے ٹکڑے ٹکڑے ہورہی ہے۔ بدھاتا کو جانے دیجئے‘‘۔ ’’ ارے ، بیوی ذرا ڈنڈا تو دینا ، میں اس علم کی دیوی کو ذرا سکھائوں ۔ اس نے مجھے حرفِ تہجی کے پہلے حرفوں تک کی بھی پہچان نہیں کرائی اور اب یہ میرے گھر آئی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی دیوی جلدی سے اٹھیں اور ٹھوکریں کھاتی ہوئی بھاگیں۔
آخر کار بھگوان شیو نے کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ یہ برہمن شیوجی کا زبردست بھگت۔ ایسا بھگت کہ شیو کی پوجا کے بغیر پانی تک نہیں چھوتا تھا۔ چنانچہ جوں ہی شیوجی وہاں پہنچے، برہمن اور اس کی بیوی نے انھیں پیر دھونے کے لیے پانی دیا اور بیل کی پتّیاں ، پوِتر گھاس ، پھول ، چاول اور صندل کی لکڑی پیش کی اور ان کی پوجا کی۔ تب شیوجی بیٹھ گئے اور انھوں نے برہمن سے کہا۔ ’’برہمن ! بدھاتا کو جانے دو۔‘‘ برہمن بولا۔’’ او، عظیم شیوجی چونکہ آپ خود آئے ہیں ، مجھے اسے جانے دینا چاہیے لیکن میں کروں تو کیا کروں؟ اس بدھاتا کی بدولت ہی تو میں جس دن سے پیدا ہوا مصیبتیں جھیل رہا ہوں۔ وہی اس کی جڑ ہے۔‘‘ تب بھوان شیونے کہا۔’’ تم پریشان مت ہو، میں تمھارے جسم اور روح دونوں کو سورگ میں لے جائوں گا۔‘‘ یہ سُن کر برہمن نے اپنی حلق کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور منہ کھول دیا۔ بس بدھاتا نکل بھاگے۔ شیوجی برہمن اور اس کی بیوی کو ساتھ لے کر اپنی خاص جنت میں چلے گئے۔
٭٭٭

 

Urdu Translation of Mahabharat

Articles

مہابھارت

جلال افسر سنبھلی

Matri ki Kahani A Persian Folk Tale

Articles

مٹری کی کہانی

ایرانی لوک کہانی

بہت پرانے وقتوں کی یہ بات ہے کہ ایک بہت شاداب سے گاؤں میں دو میاں بیوی رہتے تھے جن کا کوئی بچہ نہ تھا۔ وہ ہر وقت خدا سے یہی دعا کرتے رہتے کہ خدا انہیں اولاد دے۔
ایک دن کیا ہوا کہ وہ عورت شوربے کی پیالی ہاتھ میں لیے جا رہی تھی کہ پیالی میں سے مٹر کا ایک دانہ اچھلا اور تندور میں جا گرا۔ تندور میں گرتے ہی وہ مٹر کا دانہ ایک خوبصورت اور نٹ کھٹ سی بچی بن گیا۔
اسی اثنا میں اس کی ایک پڑوسن جو ہر وقت اس کا دماغ کھاتی رہتی تھی، اس نے دیوار سے سر اوپر کر کے کہا: “اری بہن! میری بیٹیاں جنگل میں پھل پھول چننے جانے لگی ہیں۔ اپنی بیٹی کو بھی ان کے ساتھ بھیج دو جنگل میں پھل پھول چننے”۔
 وہ اس بات پر بہت غمگین ہوئی اور ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے رونے لگی۔ مٹر نے رونے کی آواز سنی اور باتیں کرنے لگا، اس نے تندور کے اندر سے آواز سنی: “پیاری اماں! مجھے باہر نکالو اور ان لڑکیوں کے ساتھ جنگل بھیجو!”
عورت حیران اور پریشان سی ہو گئی اور سمجھی کہ وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی وقت اس کے کانوں پر آواز پڑی اور اسے اندازہ ہوا کہ آواز تندور سے ہی آ رہی ہے۔ وہ جلدی سے آگے بڑھی اور تندور کے اندر جھانکا اور ایک ننھی منی سی پیاری سی، بالکل ایک مٹر کے دانے جیسی چھوٹی سی بچی تندور میں پڑی ہے۔ وہ بہت خوش ہوئی اور اسے تندور سے باہر نکالا۔ اس نے اسے نہلایا دھلایا، اسے اچھے سے کپڑے پہنائے۔ اس کی بالوں میں مانگ کھینچی۔ اور اس کا نام رکھا مٹری۔ پھر اس نے پڑوسن کے بچوں کے ساتھ جنگل کی طرف بھیج دیا۔
مٹری پڑوسن کے بچوں کے ساتھ سورج ڈوبنے تک پھل پھول چنتی رہی۔ سورج پہاڑ کے پیچھے کہیں چھپ گیا اور سب بچوں نے کہا: “اب ہم گھر لوٹتے ہیں”۔
مٹری نے کہا: “ابھی بہت جلدی ہے۔ تھوڑی دیر اور چن لیں”۔
سب بچوں نے مٹری کی بات مان لی اور سبھی پھر سے جنگل میں پھل پھول چننے لگے۔ اندھیرے میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، اور سبھی بچے اپنا کام ختم کر کے اپنے گھروں کی طرف چل دیے۔ اچانک ایک دیو اندھیرے سے نکل کر باہر آ گیا۔
دیو نے کہا: “بچو بچو، چاند سے بچو! یہ راستہ کہاں اور تم کہاں! یہاں سے آگے جاؤ گے کہاں؟”
مٹری نے کہا: “ہم یہاں سے گھر کی طرف جا رہے ہیں”۔
دیو نے کہا: “چاروں طرف چھایا ہے اندھیرا۔۔ یہاں سے آگے ہے بھیڑیے کا ڈیرا۔۔ وہ آ نکلا بچے، تو کیا بنے گا تیرا!!۔۔ اگر تم مانو، ایک مشورہ ہے میرا۔۔”
بچوں نے پوچھا: “کہیے، ہم کیا کریں اب؟”
دیو نے کہا: ” گھروں کو نکلنا صبح سویرے۔۔ آج کی رات رہو گھر میرے۔۔”
مٹری نے کہا: “ٹھیک ہے، ہمیں قبول ہے”۔
اور وہ سبھی دیو کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ دیو نے انہیں سونے کے کپڑے پہنائے اور جونہی وہ سو گئے اس نے اپنے آپ سے کہا: “آہا! کیسا ان کو میں نے الو بنایا۔۔ بھیڑیے سے ڈرا کے گھر لے آیا۔۔ کچھ دن ان کو کھلاؤں گا، پلاؤں گا۔۔۔ ان کو خوب موٹا تازہ بناؤں گا۔۔ جب ٹھیک سے پل جائے گا ایک ایک بچہ۔۔ مزے سے ان کو چباؤں گا کچا۔۔”
تھوڑی دیر گزری تو دیو نے اونچے سے کہا: “کون کون سوتا ہے، کون کون جاگتا ہے؟”
مٹری نے جواب دیا: “میں جاگ رہی ہوں”۔
دیو نے پوچھا: “آدھی ہے رات ، سوتی ہے خدائی۔۔ پر تم کو نیند ابتک نہ آئی۔۔۔ کیوں بچے؟”
مٹری نے کہا: “مجھے اس طرح نیند نہیں آتی۔۔”
دیو نے کہا: “جھولا جھلاؤں کہ لوری سناؤں۔۔۔ بتاؤ بچی، تمہیں کیسے سلاؤں؟”
مٹری نے جواب دیا: “جب میں گھر میں ہوتی ہوں تو میری اماں سونے سے پہلے حلوا بناتی ہیں اور تلے ہوئے انڈے کے ساتھ مجھے کھلاتی ہیں۔
دیو گیا ، حلوہ اور تلا ہوا انڈہ بنا کر لایا اور لا کر مٹری کے آگے رکھ دیا۔ مٹری نے باقی سب لڑکیوں کو جگایا اور کہا: “اٹھو اور حلوہ اور تلا ہوا انڈہ کھاؤ”۔
سبھی لڑکیوں نے جی بھر کے حلوہ اور تلا ہوا انڈہ کھایا اور پھر جا کر سو گئیں۔
کچھ دیر گزری تو دیو نے اونچی آواز میں پوچھا: “کون کون سوتا ہے، کون کون جاگتا ہے؟”
مٹری نے جواب دیا: “سبھی سو رہے ہیں، صرف میں جاگ رہی ہوں”۔
دیو نے پوچھا: “تم کیوں جاگتی ہو؟”
مٹری نے کہا: “جب میں اپنے گھر میں ہوتی ہوں تو میری ماں ہمیشہ شام پڑنے کے بعد کوہ بلور کی طرف جاتی ہے اور چھلنی سے نُور نَدی کا پانی چھان کر لاتی ہے اور مجھے پلاتی ہے”۔
دیو ایک چھلنی ہاتھ میں لیے کوہ بلور اور نور ندی کی طرف چل دیا۔ وہ چلتا رہا، چلتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔مٹری اور باقی سبھی لڑکیاں نیند سے جاگیں اور انہوں نے دیو کے گھر سے جو چیز پسند آئی، اٹھا لی اور گھر کو چل دیں۔ وہ آدھے راستے تک پہنچی تھیں کہ مٹری کو یاد آیا کہ ایک بہت خوبصورت سونے کا چمچ دیو کے گھر پڑا رہ گیا ہے۔ وہ واپس پلٹ گئی کہ جا کر وہ چمچ اٹھا لے۔ جونہی وہ دیو کے گھر پہنچی، اس نے دیکھا کہ دیو گھر واپس آ گیا پہنچ آیا ہے۔ وہ اپنی جگہ لیٹ گئی اور سونے کا چمچ اٹھانے کے لیے  رینگنے لگی۔ اس کوشش میں برتنوں کے ٹکرانے سے کھٹ کھٹ کی آواز پیدا ہوئی جو دیو نے سن لی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مٹری کو پکڑ لیا۔ اس نے اسے پکڑ کر ایک بوری میں بند کر دیا اور بوری کے منہ کو باندھ دیا اور جنگل چلا گیا تاکہ مٹری کو پیٹنے کے لیے انار کی لکڑی سے ڈنڈا بنا لائے۔
مٹری نے جیسے تیسے، زور لگا کر بوری کی گرہ کھول لی اور باہر نکل آئی۔ اس نے دیو کے پالے ہوئے میمنے کو پکڑ کر بوری میں ڈال دیا اور گرہ دے کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑی ہو گئی۔
دیو بغل میں چھڑی دبائے واپس آیا اور اس کے ساتھ زور زور سے اپنے میمنے کو پیٹنے لگا۔ میمنا مارے درد کے زور سے ممیاتا اور چلاتا، اور دیو اسے اور زور سے مارتا جاتا اور کہتا: “پہلے مجھے الو بناتی ہو!۔۔ پھر میرے گھر کی سبھی چیزیں اٹھا لے جاتی ہو۔۔۔ اب میمنے کی طرح ممیاتی ہو!”
جب میمنے نے ممیانا اور تڑپنا بند کر دیا تو دیو نے بوری کو کھولا۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کا لاڈلا میمنا اسی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور دائیں بائیں سونگھنے لگا۔ گھر کے ہر کونے کھدرے سے ڈھونڈنے کے بعد آخر اس نے مٹری کو ڈھونڈ لیا اور اسے پکڑ کر اونچی آواز میں چلایا: “میں تیری تکا بوٹی نہیں بناؤں گا۔۔ میں تمہیں زندہ ہی کھاؤں گا۔۔۔اور تیری شرارتوں سے جان چھڑاؤں گا۔۔”
مٹری نے کہا: “اگر تو مجھے زندہ کھائے گا تو میں تیرے اندر جا کر تیرا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی اور باہر نکل آؤں گی”۔
دیو ڈر گیا اور سوچا کہ یہ سچ مچ میری انتڑیاں توڑ ڈالے گی اور میرا پیٹ پھاڑ دے گی۔ اس نے پوچھا: “تجھے ایسے نہ کھاؤں۔۔ تو پھر کیسے کھاؤں؟”
مٹری نے کہا: “پہلے روٹیاں پکاؤ۔ پھر میرے کباب بھوننا اور مجھے روٹی کے ساتھ مزے لے لے کر کھانا۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ روٹی اور کباب کیسے مزے کا کھانا ہے”۔
یہ بات سنتے ہیں دیو کے منہ میں پانی بھر آیا اور جھاگ بن کر اس کی باچھوں سے نکلنے لگا۔ اس کا دل گرما گرم کباب اور تازہ روٹی کے لیےبے چین ہو گیا۔ وہ تیزی سے تندور کی طرف گیا اور اس میں آگ جلائی۔ جونہی وہ روٹی پٹخنے کو تندور میں جھکا، مٹری اس کی بغل سے پیچھے کود گئی۔ اس نے دیو کو ایک زور دار دھکا دیا جس سے وہ جلتے ہوئے تندور کے اندر جا گرا۔ مٹری سونے کا چمچ اٹھا کر واپس اپنے گھر اپنے ماں باپ کے پاس جا پہنچی اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی۔
———————————————————————

Majalisun Nisa

Articles

مجالس النسا

مولانا خواجہ الطاف حسین حالی

Tauqeet E Sir Syed Ahmed Khan

Articles

توقیّت ِ سر سیّد احمد خاں

ڈاکٹر ذکیہ رانی

Masnavi Gulzar E Naseem

Articles

مثنوی گلزارِ نسیم

پنڈت دیا شنکر نسیم

Kuliyat E Akhtar Muslami 2nd Edition

Articles

کلیاتِ اختر مسلمی

اختر مسلمی

Urdu Fiction : Aik Mutala by Prof. Saheb Ali

Articles

اردو فکشن ایک مطالعہ : مصنف ، پروفیسر صاحب علی

پروفیسر صاحب علی