Second Life A Short Story by Searl. S. Buck

Articles

دوسری زندگی

پرل ایس بک

پیر کی صبح ڈریک فاریسٹر معمول سے بھی زیادہ بے دلی کے ساتھ سوکر اٹھا۔سنیچر اور اتوار کے روز اس کے ایجنٹ کا دفتر بند رہتا تھا،اس لیے دودنوں تک وہ نہ تو کوئی سوال کرسکا اور نہ ہی جواب سن سکا۔سوال ہمیشہ وہی رہتاور جواب بھی۔’’کچھ پتہ چلا نِک؟‘‘
’’نہیں ڈریک،سوری،اب تک تونہیں۔میں نے چارہ تو کئی جگہ رکھاہے،تمہیں بتایا ہی تھا، مگر کوئی مچھلی نہیں پھنسی۔‘‘
’’نہیں پھنسی؟‘‘اگلے دو جملے بھی ہمیشہ وہی رہے۔
’’شکریہ نِک۔اگر تھوڑی سی بھی امید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’مجھے پتہ ہے اولڈ مین۔میں پانچ منٹ میں تمہارے دروازے پر رہوں گا۔‘‘اگلے الفاظ جھجھکتے ہوئے بولے بھی جاسکتے تھے ،نہیں بھی۔’’کیا میں تمہیں بتادوں میں کہاں رہوں گا؟‘‘
’’نہیں،نہیں،ابھی ایسا موقع نہیں ملاہے اولڈمین۔‘‘وہ ایک تیسرے درجے کی عمارت میں اپنے ایک کمرے کے فلیٹ سے کہیں باہر نہیں جاتاتھا۔بس کبھی گھومنے یا کسی سستے سے ریستوراں میں کھانا کھانے باہر جاتا تھا۔وہ ختم ہوچکا تھا، بالکل ختم،شروعات کی امید بجھ چکی تھی۔وہ سارے کردار جو اس نے نبھائے تھے،آخری ڈرامے میں قریب قریب ہیروتک،اسے کہیں نہیں پہنچاسکے۔وہ ا بھی عمر دراز نہیں تھا۔مشکل سے پینتالیس کا، لیکن کامیابی کی سنہرا موقع کبھی نہیں آیا۔اسے جو مواقع ملے تھے اس نے اس سے فائدہ تو اٹھایا،مگر وہ بطورِ ہیرو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ ڈرامہ نگار اس کی عمر کے کرداروں میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ وہ جوان، مضبوط،طاقتور کرداروں کو لے کر ڈرامے قلمبندکررہے تھے۔وہ ایسا نہیں تھا اور ہوبھی نہیں سکتا تھا۔وہ اپنے وقت کے باہر پیداہوا تھا،اپنے وقت سے بہت پہلے یا بہت بعد میں۔پرانی دنیا کی تہذیب ختم ہوچکی تھی اور نئی امریکی تہذیب کی ابتداء نہیں ہوئی تھی۔وہ یہی سب کچھ سوچ کر خود کو بری کرتا تھا۔اس کے لے کوئی جگہ نہیں تھی۔
خوش قسمتی سے اس نے شادی نہیں کی تھی،وہ اور سارہ انتظار کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔ پھر سارہ نے کسی اور سے شادی کرلی جسے وہ نہیں جانتا تھا۔وہ اسے کوئی الزام نہیں دیتا۔پانچ سال بے حد طویل وقت ہوتا ہے اور اس کے بعدبھی سارہ کو کیا ملتا؟برسوں پہلے تھا یہ سب،بارہ برس، تین مہینے، دو دن پہلے۔اس نے سارہ کی تصویر بھی اخبارات میں نہیں دیکھی تھی،اس کے شوہر کے انتقال کے بعد، دوسال، چار مہینے،چھ دن۔اس نے اسے کوئی چٹھی بھی نہیں لکھی۔
وہ بے دلی سے اٹھااور اخبار لینے کے لیے دروازے تک آیا۔فی الوقت یہی لمحات اس کے لیے آرام کے ہوتے تھے جب وہ اخبار لے کراپنے گرم بستر میں گھس جاتا تھا۔آج اس کا بستر خاص آرام دہ تھا۔ٹھنڈی بسنتی ہوا آرہی تھی۔کھڑکی بند کرتے ہوئے اس نے دیکھا بارش ہورہی تھی۔ کم از کم اس کے پاس اس کمرے،اس بستر کاتوسہاراتھااور وہ اتنا ہوشیار توتھا کہ بھوکوں مرنے کی نوبت نہ آئے۔ایک وقت کھانا اور کرایہ طے تھا۔اس طرح احتیاط میں کوئی خوشی تو نہیں تھی مگر خراب موسم میں باہر نکلنے کی کوئی مجبوری بھی نہیں تھی۔اس نے بتی کی طرف والی دیوار کے پاس اخبار پھیلایااور تھیٹروالاصفحہ پلٹ کر اسے غور سے پڑھا۔کوئی خبر نہیں تھی۔اس موسم کے سبھی ناٹک جم چکے تھے اور اب گرمی کے تھیٹر میں ہی کچھ توقعات تھی۔اسے اس بارے میں نِک پرزور دے کر بات کرنا ہوگی۔نِک لاپرواہ ہوتا جارہا تھا، دوستی اور پرانی کامیابی کے روابط ڈھیلے پڑتے جارہے تھے۔پھربھی و ہ کسی اورایجنٹ کے پاس جانے کی ہمت نہیں جُٹا سکتاتھا،اگر کوئی اور اسے لے لیگاتب بھی۔نِک کم از کم اسے جانتا تو تھا۔اسے یہ نہیں بتانا پڑتا کہ وہ کیا کام کرسکتا ہے۔
اسی پل پلستر کی ہوئی دیوار پر پہلے سے بے ترتیب بتی گر پڑی۔اس نے غصے میں اخبار پھینک دیا اور پھر سمیٹنے اٹھاہی تھاکہ پھیلے ہوئے صفحات سے اسے اپنانام جھانکتا نظر آیا۔
’’ڈریک فاریسٹر اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔‘‘
یہ آخری صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی۔وہ اسے کھڑکی کے پاس لے گیا اور اپنی ہی موت کی خبر پڑھنے لگا۔’’ڈریک فاریسٹر،اداکار اپنے بستر پر مردہ پائے گئے۔انہیں لفٹ مین نے دیکھا جو اخبار پہنچانے آیا تھا۔مسٹر فاریسٹر نے ابتدا میں مشہور براڈوے ڈراموں میں کام کیاتھا۔ انہیں ہالی ووڈ سے بھی کئی باربلاوا آیا،مگر انہوں نے اسٹیج کوہی فوقیت دی اور ہالی ووڈ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔حالیہ برسوں میں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔‘‘اخبار اس کے ہاتھ سے گرپڑا۔وہ نِک کو فون کرنے دوڑا۔اس خبر کی تردید کرنا ضرور تھا۔ نِک کو پریس میں خبرکرنی ہوگی،وہ اخبار والے کو نوٹس بھیجے گا۔ادھر سے ہلکی سی آواز آئی،’’نکولس جین سین ایجنسی۔‘‘
’’اوہ،ہاں!‘‘اس نے ہمیشہ کی طرح پریشانی میں ہکلاتے ہوئے کہا،’’کیا مسٹر جین سن ہیں؟‘‘
’’مسٹر جین سن آج نہیں آئیں گے۔‘‘
’’اوہ،کیا آپ کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہوں گے؟‘‘
’’وہ یہاں نہیں ہیں۔وہ ایک اہم کلائنٹ کے ساتھ ویک اینڈ منانے گئے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ ہچکچایا۔اس ٹھنڈی آواز کے آگے کیا کہا جائے،یہ نہ سمجھ پاتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا۔ایک پل بعد وہ بستر میں تھااور اس نے آنکھوں تک چارد اوڑھ لی تھی۔ اخبار زمین پر گرپڑااور تنہائی میں ڈوب گیا۔کسے فکر تھی کہ یہ خبر سچ ہے یا نہیں؟طویل عرصے سے کسی نے اس کی کھوج خبر نہیں لی۔ اس کی بہن کی برسوں سے کوئی خبر نہیں تھی۔وہ شادی کے لیے ٹیکساس میں بس گئی تھی۔اس کے والدین بیس سال قبل ہی چل بسے تھے۔خدا کا شکر ہے تب یہ بھرم تھا کہ ان کا بیٹا بہت نامی گرامی انسان بننے والاہے۔تھیٹرسماجی زندگی تباہ کردیتا ہے۔اس کے باہر آپ کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے رشتہ دار، دوست احباب ایک ایک کرکے چھوٹ گئے۔وہ مر ہی تو گیا تھا۔
یہ مُردوں سی زندگی گزارنا بھی عجیب سا احساس پیدا کرتا تھا۔حالانکہ وہ اپنے کمرے میں زندہ تھا،سانس لے رہاتھا،مگر وہ مرچکا تھا۔اس کا ڈرامائی دماغ کام کررہا تھا۔اس نے کہانیاں پڑھی تھیں۔اس موضوع پر ایک ڈرامہ بھی دیکھا تھا جب ایک شخص کے مرنے کا اعلان کردیا گیا مگر اس نے ایک نئی اور مکمل آزادزندگی شروع کی تھی،سارے قرض معاف ہوگئے تھے۔ساری ناکامیاں دور ہوگئی تھیں۔وہ بھی چاہے تو اپنی آزادی کا خیر مقدم کرسکتا ہے،وہ بالکل نیا کچھ کرسکتا ہے۔نیا نام رکھ کر سب جان پہچان والوں سے دور جاسکتاہے۔اس نے خود کو دنیا بھر میں گھومتے دیکھا، ہر شہر میں ایک الگ انسان کی طرح،لندن،پیرس،وینس یا شکاگو اور سان فرانسسکو۔کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ وہ تھیٹر کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتاتھا۔چاہے وہ کچھ بھی کرے،خاتمہ یہی ہوگا،اکیلے کمرے میں، ایجنٹ کام کھوجنے کی کوشش میں لگا ہوا۔اور کیا کوئی ایجنٹ بنا کسی پہچان والے آدمی کے لیے کام تلاش کرے گا؟کم از کم ڈریک فاریسٹر کبھی کچھ تھاتو!ایک یاد توتھی۔طویل عرصے سے وہ رویا نہیں تھا مگر آج اسے رونا آگیا۔چند آنسوئوں کے قطرے گرے وہ بھی خود کے لیے نہیں بلکہ اس جیسے ہر کسی شخص کے لیے۔وہ اکیلاتو نہیں ایسی حالت میں۔خود کو بھرم میں رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔اس کے پاس تھوڑاسا ہنر تھا،تھوڑی سی صلاحیت،اچھا بدن اور خوبصورتی۔ہاں،وہ خوبصورت تھا،اب بھی ہے۔یہ سب چیزیں مل کر اسے اوسط سے کچھ اوپر لے آئے تھے۔مگر یہ کافی نہیں تھااور اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے اتناکافی نہیں ہوگا۔
بہتر ہے کہ مرہی جائوں؟یہ آسان ہوگا۔اس نے اس بارے میں سوچاتھا۔ایک اکیلے اور ناکام شخص کی طرح۔کبھی اس طرح کا قدم اٹھانے کے بارے میں طے نہیں کیاتھا۔ مگر پھر بھی امکان تھا۔روزانہ رات کو نیند کی گولیاں نگلتے وقت وہ سوچتا کہ موت اس کی ہتھیلیوں پر ہے۔سفید سفید چھوٹی گولیاں دیکھتے ہوئے وہ اپنی معمولی صلاحیت کے ساتھ سوچتا۔اگر وہ چاہے تو ایسا کرسکتا ہے۔
اب کسی اور نے اس کے لیے یہ سب کردیا تھا۔اس کے ہم نام شخص نے۔اس نے اخبار اٹھایا اور دوبارہ پڑھا۔اس کی موت کا کوئی سبب نہیں دیاگیاتھا۔بس خبر دی گئی تھی اس کی کچھ کامیابیوں اور آہستہ آہستہ اسٹیج سے دور ہونے کی وضاحت کی گئی تھی،یہ سب قابلِ افتخارلگ رہا تھا۔اگر ابھی وہ سچ مچ مرگیاتو اس کے اثرات ختم ہوجائیں گے۔یہ گندہ سا کمرہ،نِک کے پیچھے مسلسل لگے رہنا،پھٹی پرانی قمیض اور پاجامے،یہ سب چھوٹی چھوٹی اور بیکار باتیں جو وہ زندہ رہ کر تو چھپاسکتا تھا مگر موت کے بعد یہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا۔اسے تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ کوئی اس کی جگہ اتنی اچھی طرح مرگیا ہے۔ انہوں نے پتہ صحیح دیا تھا،یہی عمارت،یہی سڑک۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔اور اچانک اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ اٹھے گا، کافی اورٹوسٹ بنائے گااورنِک کو کبھی فون نہیں کرے گا۔وہ یہاں سے چلا جائے گا،کبھی مغربی سمت نکل جائے گا۔پھریوں ہی ہالی ووڈ میں کوئی کام تلاش کرلے گا،سیٹ کے آس پاس۔دیکھ بھال کرنے والے کا کام بھی۔کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔کیوں کہ اس کا نام مرچکاتھا۔
بستر کے پاس کی میز پر وہ کافی پی رہا تھا کہ فون بج اٹھا۔وہ اٹھا اور کریڈل کان سے لگایا۔ ایک اجنبی آواز،کسی خاتون نے کہا،’’کون بول رہا ہے،پلیز؟‘‘اپنانام اس کی زبان تک آیا،لیکن اس نے قدرے توقف کے بعد کہا،’’آپ کو کون چاہیے؟‘‘
’’میں نے ابھی ابھی اخبار میں دیکھا۔میں ڈریک فاریسٹر کو جانتی تھی،چند سال پہلے۔ ہم نے ایک ڈرامے میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔وہ بہترین اداکار تھا،میں اکثر سوچتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوراب وہ نہیں رہا۔‘‘وہ ہچکچایا اور پھر اسی بھاری آواز میں بول اٹھا،’’سوری میڈم،آپ کے پاس غلط نمبر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیااور بستر پر بیٹھ گیا۔لیکن یہ حیرت انگیز تھاواقعی۔وہ خالی دیوار کو گھورتا آواز کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوا بیٹھارہا۔لیکن آواز یاد نہیں کرپایا۔چلو کسی نے تو یاد رکھا۔اسے خوشی ہوئی اور اس نے بارش کا حال دیکھنے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھا۔موسم خوشگوار ہونے پر وہ گھومنے نکل جاتا۔مگر اب بھی بارش ہورہی تھی۔وہ واپس بستر میں داخل ہواہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ پھر اٹھااور دروازہ کھولا۔عمارت کا پہریدار پھولوں کا چھوٹا سا باکس لیے کھڑاتھا۔
’’اوہ،شکریہ۔‘‘ڈریک نے کہا۔’’ایک منٹ رکو۔‘‘اس نے کرسی پر رکھی پینٹ کی جیب سے ایک ڈائم نکالا اور اسے دیا۔’’شکریہ۔‘‘پہریدار نے کہا۔
دروازہ بند کرکے اس نے باکس کھولا۔سفید گلاب اور اسنیپ ڈریگن تھے، ہرے فرن کے ساتھ۔کارڈ پر تحریرتھا،بہترین وفات کی یاد میں،اور نیچے سات نام درج تھے۔اسے وہ لوگ یاد تھے۔ ’دریڈسرکل‘ڈرامے میں ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے کردار ادا کیے تھے۔اس سال یہ ڈرامہ ہٹ ثابت ہوا تھا۔یہ تھریلرتھااور وہ قتل کی گئی ہیروئن کاشوہر بنا تھا۔مگر اس ڈرامے کا ہیرو عاشق تھا،شوہر نہیں۔پھر بھی اچھا چلا تھاڈرامہ اور اس نے وہ پیسے سارہ سے شادی کرنے کے لیے جمع کیے تھے۔لیکن اسی سال سارہ نے ہیریسن بیچ سے شادی کرلی تھی۔اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر وہ کامیاب ہوتا تو اس نے بھی کسی سے شادی کرلی ہوتی۔
اس نے پھولوں کو ٹن کی ٹوکری میں ڈالا اور پانی بھرکر کھڑکی میں رکھ دیا۔اس نے پھر سونے کی بجائے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔یہ اپریل تھااور آسمان صاف ہورہا تھا۔اس نے شاور لیااور سلیقے سے کپڑے زیب تن کیے۔جب تک سڑک پر آیا بادل چھٹ رہے تھے اور نیلاآسمان بیچ بیچ سے جھانک رہا تھا۔وہ ہمیشہ کی طرح چھ بلاک گھومااور چونکہ کوئی اسے نام سے نہیں جانتا تھا،اس لیے کوئی حیرت زدہ بھی نہیں ہوا۔اس نے ایک ڈرامے سے متعلق میگزین خریدا۔اور سوچا کہ پارک میں بیٹھنے کے لیے موسم ٹھنڈا ہے یا نہیں۔اس نے محسوس کیا کہ موسم زیادہ سر دہے اس لیے وہ واپس کمرے میں چلا آیا۔نِک کوفون نہیں کرنے سے اس کے پاس کام نہیں تھا مگر اس نے فون نہ کرنے کا ارادہ کرلیا۔جب وقت آئے گا سوچا جائے گا کہ کہاں جاناہے،یا پھر وہ کہیں نہیں جائے گا۔جب وہ کمرے میں آیاتو دروازے میں ایک لفافہ اٹکاہواتھا۔یہ نِک کا تار تھا،’’خدا کے لیے مجھے فون کرو۔گھنٹوں سے تمہیں فون کررہا ہوں۔شہر کے لیے پہلی ہی ٹرین سے لوٹ آیا ہوں۔‘‘
وہ بیٹھ گیا۔ہیٹ اب بھی اس کے سر پر تھا۔اس کا کیا مطلب تھا،نِک کو اس کے مرنے کا یقین تھا یانہیں؟شاید اس نے خبر دیکھی ہواور بھروسہ نہ کیا ہو۔یا پھرنِک کو لگا کہ اس کے ساتھ کوئی رہتا ہوگا۔اس نے نِک کو کبھی اپنے رہنے کے ڈھنگ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔نِک کو لگتا تھا کہ اس کی کوئی محبوبہ اس کے ساتھ رہتی ہے۔اسی نے تار بغل میں پھولوں کے گلدان کے پاس رکھ دیااور باہر چلاگیا۔پارک کی بینچ پر اس نے پورا میگزین پڑھ ڈالا۔پھر وہ دوسرے لوگوں کو دیکھتا ،کچھ سوچتا بیٹھارہا۔کچھ لوگوں کو اس نے پہچانا۔اسے لگا کہ وہ لوگ بھی اسے پہچان رہے ہوں گے۔لیکن ان کی کبھی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔دوپہر کاوقت ہورہا تھااور اس نے کسی آٹومیٹ میںکھانا کھانے کا ارادہ کیا۔پھر واپس جاکر کمرے میں سونا۔وہ اپنے ہی احساسات کی بے ترتیبی سے تھک گیا تھا۔مرجانا بھی ایک قسم کا تجربہ ہے،وہ مسکرایا۔
پرانی عمارت میں داخل ہوتے وقت پہریدار باہر نکلا،’’آپ کی سالگرہ وغیرہ ہے کیا؟‘‘ اس نے کہا۔’’آپ باہر تھے تو دوگل دستے اورتین تارآئے ہیں۔‘‘
’’آج میری برسی ہے۔‘‘ڈریک نے کہااور دوسرا ڈائم نکال کر پہریدار کودیا۔گل دستے اٹھائے ہوئے اس نے تار جیب میں رکھے اور اوپر چڑھ گیا۔یہ سب عجیب ساہوتا جارہا تھا، اس کا کمرہ پھولوں سے بھرگیااور اتنے تار۔یہ تو واپس تھیٹرکے ڈریسنگ روم میں ہونے جیسا تھا۔موت کی خبر پڑھ کر وہ خوش ہی ہوا تھا۔اس نے خود کو پوری طرح بھلادیاگیاسمجھاتھا۔اسے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔اس نے پھولوں کو گلدان میں رکھ دیا۔پیلے گلاب اور سفیدا سائریا۔اس کے پہلے ڈرامے کے ہدایت کارکی طرف سے۔تار اس کے دوسرے ڈراموں کے اداکاروں نے روانہ کیے تھے اور ایک تار نِک کے آفس میں کام کرنے والی لڑکی کا تھا۔ڈریک کو معلوم تھا کہ وہ اس کے خواب دیکھتی ہے مگر اِن دنوں وہ سارہ کی بے وفائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔کارڈ ہاتھ سے لکھا تھا ،’پیاری و خوشنمایادیں‘لوئیس۔وہ اسے ہمیشہ مِس سلورسٹین پکارا کرتاتھا۔
کمرہ اچھا لگنے لگاتھا۔اس نے بستر نہیں بجھایا۔اکثر وہ اسے ایسے ہی چھوڑدیتا تھا اور واپس لیٹ جاتا تھا۔مگر آج اس نے اچھی طرح بستر سمیٹا۔ایک پرانے رومال سے میز،الماری اور کھڑکی جھاڑی۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے پیلے گلاب اور اسپائریانکال کر ایک دودھ کی بوتل میں الماری پر رکھ دیئے۔
پھر فون بجنے لگااور اتنا بجا کہ یا تو اسے باہر جانا پڑتا یا اٹھانا پڑتا۔اس نے اطمینان سے فون اٹھایاآواز بدل کربولا،’’ہیلو‘‘مگر یہ نِک نہیں تھا،یہ کسی خاتون کی آواز تھی جو بے حد نرم و سریلی تھی۔’’ہیلو،کیا ڈریک فاریسٹر یہیں رہتے تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘اس نے جواب دیا۔پھر اس نے آواز پہچان لی ۔اس کا دل بری طرح دھڑکا۔ یہ سارہ تھی۔اس کی آواز آج تک سنی ان سنی آوازو ں میں سب سے پیاری تھی۔
’’میں نے ابھی ابھی یہ دکھ بھری خبرپڑھی۔‘‘سریلی آواز آئی۔’’کیا آپ بتاسکتے ہیں اس کی سروسیس کہاں ہوں گی؟میں اسے برسوں پہلے جانتی تھی۔میں اسے بہت پیار کرتی تھی۔ اب بھی کرتی ہوں،مگر اب میں اسے کبھی نہیں بتاسکوں گی۔‘‘
وہ کچھ کہہ نہیں سکا۔کہتا بھی کیا؟پھر بے وقوفوں کی طرح چند الفاظ اس کے منہ سے نکلے، ’’آپ نے اسے بتایاکیوں نہیں؟‘‘
ادھر سارہ حیرت زدہ تھی،’’کیاآپ اس کے دوست ہیں؟‘‘
’’ایک طرح سے دوست ہی ہوں۔اس نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ،سچ مچ! تو وہ مجھے بھولا نہیں تھا؟‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
وہ ان واقعات سے حیرت زدہ تھا۔کیایہ نیا جال تھاجس میں وہ خود ہی پھنستا جارہا تھا۔
’’اوہ،کیا آپ آکر مجھے اس کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘اس نے درخواست کی۔
’’آپ کہاں ہیں؟‘‘
سارہ نے کافی دوردراز سڑک کا نمبر بتایا۔جہاں وہ تھا وہاں سے بڑی دوری پر۔’’مجھے پتہ نہیں کب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے شروع کیا۔
’’نہیں،آپ ابھی آئیے۔‘‘سارہ نے پھر درخواست کی،’’مجھے اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کا تجسس ہے۔تب میں آپ کو بتاسکوں گی کہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل میں نے اسے کھودیا۔جب میرے شوہر نہیں رہے تو مجھے پتہ نہیں چلا،میں اسے کہاں تلاش کروں؟اخباروں میں بھی اس کا نام نہیں آتاتھا۔آج میں نے خبر پڑھی تو مجھے لگا کہ میں ہمیشہ سے اسے تلاش کرنا چاہتی تھی۔مجھے لگتا ہے میں بس سوچتی رہ گئی۔‘‘
’’میں آئوں گا۔‘‘اس نے وعد ہ کیا۔اس نے فون رکھ دیا۔پتہ نہیں یہ وعدہ پورا کرے گا یا توڑدے گا۔مگر اسے اب سارہ کا ٹھکانہ مل گیا تھا تو آج نہیں توکل،اسے معلوم تھا کہ وہ اس کی دہلیز پر کھڑاہوگا۔گھنٹی بجاتے ہوئے،اپنی شناخت کا انتظار کرتے ہوئے۔وہ دوبارہ زندہ ہوگیاتھا۔
فون پھر بج اٹھااور پھر سے سارہ کے ہونے کی امید میں اس نے فون کا ریسیور اٹھالیا اور پکڑاگیا،’’ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے بڑی بے تابی سے کہا۔
یہ نِک تھا،حیران پریشان۔’’یہ کیا بے وقوفوں سی حرکت ہے۔کہاں ہو تم صبح سے؟ مجھے معلوم ہے تم زندہ ہو؟‘‘
’’تمہیں کیسے معلوم تھا؟‘‘اس نے جاننا چاہا۔اسے کچھ برا لگا۔کیانِک کو لگا کہ اس میں اتنی ہمت نہیں،’’تھوڑی دیر کے لیے مجھے لگایہ سب سچ ہے،جھوٹے کہیں کے!‘‘نِک نے کہا،’’پھر میں نے خبر دوبارہ پڑھی اور دیکھا کہ وہ تم نہیں ہو۔وہ تمہیں پینسٹھ سال کا بتا رہے تھے۔تم نے دیکھا نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ڈریک نے کہا۔
’’تمہیں کبھی تاریخیں یاد نہیں رہتیں۔‘‘نِک نے جلدی سے کہا،’’انہوں نے تمہاری تاریخ پیدائش ۱۸۸۷ء؁ لکھی ہے۔مجھے معلوم تھا کہ یہ سچ نہیں ہے۔میں نے تمہارے لیے اتنی تشہیر کا کام کیا ہے۔اخبار اسے کل درست کردے گا۔میں صبح سے ہی بے حدمصروف رہا ہوں۔لگتا ہے ورجینیا میں کوئی اور تمہارا ہم نام بھی تھا۔اخبار والوں نے سب خلط ملط کردیا ہے۔اس سے سب گڑ بڑ ہوگئی ہے۔خیر اس سے تمہیں فائدہ ہی ہوا ہے۔تمہیں ایک کردار مل گیا ہے۔‘‘
’’کردار؟‘‘
’’ہاں،اچھا خاصہ کردار۔ویسے کوئی اسٹار والا رول تو نہیں ہے مگر ڈرامہ اچھا ہے۔’سا ئوتھ سائڈ آف دمون‘پہلے گرمیوں میں پھر براڈوے۔پروڈیوسر نے کہا کہ وہ تمہیں جانتا تھا۔اس نے مجھے فون کیا تھا اور کہا کہ اگر اسے اتاپتہ معلوم ہوتا تو وہ تمہیں ضرور کام دیتا۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ وقت دو۔تم سیدھے یہاں چلے آئو،ڈریک!اور میں کنٹریکٹ تیار رکھوں گا۔ ہم سب کچھ درست کرلیں گے۔اب میں پھر چیزوں پر دھول جمنے نہیں دوں گا۔‘‘
ڈریک طے نہیں کرپارہا تھا۔وہ ایک ساتھ دو جگہوں پر نہیں جاسکتا تھا۔یا تو وہ پہلے سارہ کے پاس جاتا یا نِک کے پاس۔اس کاڈرامائی تخئیل پھر سے زندہ ہوگیاتھا۔اس نے خود کو سارہ کے ہال میں یا پھر دیوان خانے میں انتظار کرتے ہوئے دیکھا۔پھر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی سارہ، ہمیشہ سے ہی خوبصورت۔وہ بالکل خاموش کھڑارہے گا۔انتظار کرتے ہوئے،پھر وہ چلائے گی،’’اوہ، ڈریک ڈارلنگ۔لیکن یہ سب کیسے؟‘‘
’’کوئی اور مرا ہے سارہ،میں نہیں۔‘‘
اس نے بوسہ لینے کے لیے آنکھیں موندیں اور نازک لب یاد کیے۔سارہ بے حد نازک تھی۔ شہد بھرے لب تھے اس کے۔
’’اے،تم سوگئے ہوکیا؟‘‘نِک اس کے کان میں چلایا۔
’’میں ابھی نہیں آسکتا نِک۔مجھے بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘نِک نے چیختے ہوئے کہا۔’’کنٹریکٹ سے زیادہ کیا ضروری ہے؟‘‘
’’ہے کام،بے حد ضروری۔‘‘ڈریک نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا،’’لیکن کنٹریکٹ بنا کر رکھونِک۔میں وہاں آئوں گا کسی بھی وقت۔آج،کل یا کسی اور دن۔‘‘اس نے فون رکھ دیا اور کھویا سا کھڑارہا۔وہ آج وہاں جائے گا۔جب وہ اور سارہ صوفے پر بیٹھ جائیں گے اور ایک دوسر ے کا بوسہ لیں گے۔کھانا کھائیں گے اور ایک دوسرے کو جب ساری باتیں بتادیں گے تب وہ گھڑی کی جانب دیکھے گا اور چلائے گا۔
’’اوہ خدا،ڈارلنگ،مجھے آج کسی سے ملنا ہے۔میں بھول ہی گیاتھا۔ تمہاری وجہ سے میں سب کچھ بھول جائوں گا۔‘‘
’’کوئی ڈرامہ ہے ڈریک؟‘‘
’’ہاں،سائوتھ سائڈ آف دَ مون۔نیا ہے،اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’جلدی آنا۔‘‘وہ یہی کہے گی۔’’مجھے تم پر فخر ہے ڈریک۔‘‘یہی کہے گی وہ۔
’’میں جلدی آجائوں گا۔‘‘وہ وعدہ کرے گا۔’’ہم ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔اچھا؟ پھر ہم بیٹھ کر کچھ سوچیں گے۔‘‘
’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘یہی کہے گی وہ ،اپنی میٹھی آواز میں۔یہ آواز پہلے سے بھی زیادہ شہد بھری تھی۔وہ تیار ہونے کے لیے کمرے میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا۔اس کے پاس ایک نئی قمیض تھی۔وہ ہمیشہ ایک نئی قمیض رکھتا تھا۔کیا پتہ کسی ہدایت کار سے اسے ملاقات کرنی پڑے۔ پھراس نے شاور لیااور داڑھی بنائی۔پھر نئی قمیض اور اچھا سا سوٹ۔وہ ہمیشہ ایک اچھا سا سوٹ رکھتا تھا۔پھر اس نے کچھ سوچا۔اس کے لیے کچھ لے جانا چاہیے۔اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھا۔ شاید کوئی کام کی چیز ،کتاب یا کچھ اورتلاش کرنے لگا تاکہ بطورِ نشانی دی جاسکے۔پھر وہ چٹکی بجاتے ہوئے بولا، ’’ پھو ل اورکیا؟‘‘اس نے سارے پھول سمیٹے۔ایک باکس نکالا۔سارے پھول اس میں ڈالے اور بڑی احتیاط سے ڈوری باندھی۔پھر اس نے الماری کھولی اور گھڑی نکالی پتلی بید کی چھڑی جس کے اوپر نقلی ہاتھی دانت کی نقاشی تھی۔یہ چھڑی اس نے اس ڈرامے کے لیے خریدی تھی جس میں وہ شوہر بنا تھا۔
شیشے کے پاس رکتے ہوئے اس نے ایسا شخص دیکھا جسے اس نے ایک طویل عرصے سے نہیں دیکھاتھا،درازقد،دبلا پتلا شخص۔جس کا زرد چہرہ زندگی سے معمور تھا،چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔جس کی گہری آنکھیں چمک رہی تھیں۔معصوم سا شخص۔وہ اپنا عکس دیکھ کر مسکرایا۔اس دوسرے جنم پر بے حدخوش۔وہ جس قدر پہلے مرچکا تھا اس کے مقابلے یہ برا نہیں تھا۔’نیک خواہشات ‘ اس نے خوشی و انبساط سے دمکتے چہرے سے کہااور ہیٹ سر پر رکھتے ہوئے اسے ذرا ترچھا کیااور کمرے سے باہرنکل گیا۔
٭٭٭

پرل ایس بک 1882میں امریکہ میں پیدا ہوئیں اور1972میں انتقال فرمایا۔وہ امریکہ کی پہلی مصنفہ ہیں جنہیں’’دَ گڈ ارتھ‘‘کے لیے 1938میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بچپن سے ہی انہیں ادب سے لگائو تھا۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ چین میں بیتاتھا۔کیوں کہ ان کے والدین مشنری سے وابستہ تھے اور چین میں رہتے تھے۔ان کی شادی جان لاسنگ بک سے ہوئی تھی۔ان کی تخلیقات میں چینی کسانوں کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ان کی تصانیف میں سنس،دَبنگ ریوولیو شنِسٹ،دَمدر،دِزپرائڈ ہرٹ،دَ پیئریاٹ،اَدر گاڈز وغیرہ شامل ہیں۔

٭٭٭
پرل ایس بک کی اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
کاپی رائٹ بحقِ مترجم محفوظ ہیں

 

Khoya Hua Jazeerah by Qayyum Khalid

Articles

کھویا ہوا جزیرہ

Murderer A Short Story by Jean Paul Sartre

Articles

قاتل

ژاں پال سارتر

لندن کی عدالت میں کل ایک غیر معمولی مقدمہ پیش ہونے والا ہے۔ مجرم کے جرم کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور ساتھ ہی وہ مقدمہ جیت جائے گا، اس میں بھی شبہ نہیں۔ مختصراً یہ کہ اس غیر معمولی واردات کا خلاصہ اس طرح ہے۔
۲۰؍مئی کی بات ہے۔ لندن کے مشہور معروف ڈاکٹر ہیلیڈن جو کہ پھیپھڑوں کے ماہر ہیں۔کے دو بڑے ہال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر مریض کے ہاتھ میں ایک کارڈ ہے۔ جس پر نمبر لکھا ہوا ہے۔ بھیڑ تو ہر روز ایسی ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ سینکڑوں تپِ دق کے مریضوں کو اس مرض سے ڈاکٹر ہیلیڈن ہِل نے شفا یاب کیا ہے۔
ہال کے چاروں طرف شیشے کی کھڑکیوں اوردروازے پر چینی رشیم کا لہراتا ہوا پردہ ہے۔ اندرونی دیوار سے لگے ہوئے بڑے بڑے جاپانی گملے ہیں جن میں مختلف ممالک میں پیدا ہونے والے رنگ برنگی موسمی پھولوں کے بڑے بڑے پودے قرینے سے لگے ہوئے ہیں اور ان سب کے درمیان میں ایک بڑی سی میز کے سامنے ابھی ڈاکٹر ہیلیڈن ہل آکر بیٹھے ہیں۔ چہرہ اطمینان و سکون سے دمک رہا ہے۔ آنکھوں میں زندگی کی چمک ہے۔ سامنے ان کا اسسٹنٹ بیٹھا ہے۔ جو آنے والے مریضوں کا مختصر تعارف ڈاکٹر کے حکم کے مطابق شارٹ ہینڈ میں تحریر کردیتا ہے۔ داخلی دروازے پر ، زینے کے اوپر ، ڈاکٹر کا اردلی لال مخمل کی وردی زیب تن کیے ، چمکدار پٹہ، بلے والی ٹوپی اور دائیں ہاتھ کی دونوں انگلیوں میںسونے کی انگوٹھیاں پہنے کھڑا ہے۔ اس کی دونوں کلائیوں میں سے ایک میں عیسیٰ مسیح اور دوسری کلائی میں ایک برہنہ پری گدے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کے بولنے کے ساتھ ہی کمزور تپ دق کے مریضوں کو جن کا ٹیسٹ ہوچکا ہے۔ اپنے مضبوط وتوانا ہاتھوں کا سہارادے کر باہر لے جانااور وہاں سے ایک خاص قسم کی ریسٹ چیئر پر بٹھا کر لفٹ کی مدد سے انھیں نیچے پہنچا دینااس کی ڈیوٹی ہے۔
مریض آتے ہیں۔ کمزور ، لاغر ، خوفزدہ ، آنکھیں اور سینہ اندر کو دھنسا ہوا اور ایک ہاتھ میں اتارے ہوئے کپڑے لیے۔ ان کے آتے ہی ڈاکٹر ہِل ، پلے کی میٹر اور چھوٹی نلی کے ذریعے ان کی چھاتی اور پیٹھ کامعائنہ کرتے ہیں۔ ٹھک ، ٹھک ، ٹھک ۔۔۔۔۔سانس لیجئے ۔ ہاں ! ذرا اور زور سے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے دو سکنڈ بعد ہی نسخہ تحریر کرتے ہیں اور چند سکینڈ ہی میں لکھ لیتے ہیں۔ ہاں، اس کے بعد کس کا نمبر ہے؟ گذشتہ تین برسوں سے یہی عمل جاری ہے۔ اسی طرح ہر روز صبح نو بجے سے بارہ بجے تک تپِ دِق کے مریضوں کا قافلہ ایک ایک کرکے آتا ہے اور اپنی اپنی زندگی و موت کا نسخہ لیے لوٹ جاتا ہے ۔ پھر آتا ہے ، پھر لوٹ جاتا ہے۔
اس عمل کے چلتے ہوئے ایک روز بیس مئی کو ٹھیک نو بجے ایک مریض ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوا۔ دراز قد ، نیم برہنہ اور دیکھنے میں ہڈّیوں کا چلتا پھرتا ڈھانچہ۔ اس کی آنکھوں کی پُتلیاں بے جان سی نظر آرہی تھیں۔ گال دھنس کر اندر چلے گئے تھے اور سینہ کھلا ہوا تھا، جیسے چمڑے سے ڈھکا ہوا ہڈّیوں کا پنجر۔ گوشت سے عاری اس کے بائیں بازو کی چمڑی نیلی پڑگئی تھی۔ وہ لمبے لمبے پائوں سے کانپتے ہوئے آیا، گملے میں لگے ہوئے ایک جاپانی پھولدار پودے کی مضبوط شاخ کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔ کھانسنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا سینہ اٹھنے بیٹھنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب مرا یا تب مرا۔ کھانسی کا دورہ پل بھر کو رُکا تو اردلی نے اسے لاکر ڈاکٹر کے سامنے بٹھادیا۔
حسبِ معمول مختصراً جانچ کرکے ڈاکٹر نے ناامیدی کے لہجے میں کہا۔’’ نا ۔۔۔۔۔۔۔۔نا ! کوئی امید نہیں ہے۔ پورا بایاں پھیپھڑا بے کار ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور، دائیں کی بھی وہی حالت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مریض نے تشکیک اور خوفزدہ ہوکر لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ ڈاکٹر ، کوئی امید۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ اس کے لہجے سے لگ رہا تھا جیسے اسے اس دنیا میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور صرف زندہ رہنے سے ہی وہ ممکن ہے۔
ان کے بعد کس کا نمبر ہے؟ یہ سنتے ہی اردلی آکر مریض کو لے جانے والا ہی تھا کہ مریض کے خوفزدہ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ سے سہلایا ، پھر مٹھی بنا کر ٹھہوکا دیتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔’’ زندہ رہنے کی بڑی چاہ ہے۔۔۔۔۔۔ کیا آپ بہت دولت مند ہیں؟‘‘
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
مریض کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں کو بڑی کوشش کے بعد پھیلایا اور رُندھے ہوئے لہجے میں کہا’’ہاں ، ڈاکٹر میں کروڑ پتی ہوں۔ دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’تب تو آپ ایک کام کیجئے۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر نے کرسی سے ذرا اٹھنے کا تاثر دیتے ہوئے کہا۔’’ آپ اسی ایمبولینس گاڑی سے سیدھااسٹیشن چلے جائیے۔ وہاں سے گیارہ بجے والی ایکسپریس سے ’ڈوور‘جائیے اور وہاں سے بذریعہ جہاز ’کیلیس‘ پھر ’مارسائی‘۔ وہاں سے گرم سلیپنگ کار میں ’نائیس ‘جائیے ۔ بس وہیں آپ رہیے اور چھ مہینے تک روٹی، شراب ، گوشت وغیرہ کچھ نہیں صرف ’واٹر کریش‘ لیجئے۔ ایک دن کے گیپ سے چمچہ بھر برساتی پانی میں دوچار بوند آیوڈین ملاکر پیاکیجئے۔ دیکھئے واٹر کریش کے سوا کچھ نہیں۔ اچھی طرح سے اسے چھان کر۔۔۔۔۔ ہاں، میں آپ کو زیادہ پُرامید تو نہیں کرسکتا، صرف ایک موقع سمجھ لیجئے۔ اس مفروضی طریقۂ علاج کے بارے میں ، میں نے بہت سُنا ہے۔ مگر اس سے اچھا ہونا ، بیماری سے نجات پانا مجھے نا ممکن ہی لگتا ہے۔ پھر بھی آپ سے کہہ رہا ہوں، جاکر دیکھئے۔ آگے قسمت ، اگر اچھے ہوگئے تو ٹھیک ہے نہیں تو اور کیا۔۔۔۔۔۔۔ آزمائیے۔ دنیا میں کئی بار ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ اچھا ، اب دوسرا نمبر کس کا ہے؟ ‘‘
مریض کو امید کی کرن نظر آئی۔ ڈاکٹر کا بار بار شکریہ اداکرتے ہوئے وہ اردلی کے ساتھ باہر چلاگیا۔ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد دسمبر کی تیسری تاریخ کو ٹھیک نو بجے قیمتی فر کالباس زیب تن کیے ہوئے ایک قوی الحبثہ آدمی بنا نمبر کارڈ لیے سیدھے ڈاکٹر ہِل کے کمرے میں حاضر ہوا۔ بھرے بازو،بڑی بڑی بھوری آنکھیں، چوڑی چکلی چھاتی اور مضبوط قدم ۔ لگتا تھا، پریوں کی کہانیوں کا کوئی راکشش آپہنچا ہو۔
ڈاکٹر صاحب ابھی ابھی آکر کمرے میں بیٹھے تھے اور لبادہ نما کالا اونی کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ صبح کی ہلکی گلابی سردی سے ان کا بدن کپکپاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس دراز قد آدمی نے آتے ہی اپنی مضبوط بانہوں میں کسی بچّے کی طرح ڈاکٹر کو اٹھا لیااور بھیگی ہوئی پلکوں کے ساتھ بغل گیر ہوکر انھیں آرام کرسی پر بٹھادیا۔ ڈاکٹر ہِل کی حالت اس وقت بالکل عجیب سی ہورہی تھی۔ ایسا لگ رہاتھا کہ ان کی سانس ہی اُکھڑ جائے گی۔
اس دراز قد آدمی نے ڈاکٹر کو اپنی جانب حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اونچی آواز میں درخواست کی ۔’’ کتنا چاہیے آپ کو؟ بیس لاکھ ؟ تیس لاکھ؟‘‘
ڈاکٹر خاموش ہی رہے، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ آدمی کہتا رہا۔’’ میں آپ کی ہی وجہ سے آج سانس لے رہا ہوں۔ آج آپ ہی کی وجہ سے میں دوبارہ اس قابل ہوا ہوں کہ اس دنیا کی ساری خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹ سکوں۔ ڈاکٹر، میں اپنی زندگی کے لیے آپ کا قرض دار ہوں۔ آپ نے مجھے نئی زندگی عطاکی ہے۔۔۔۔۔کہئے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ بلا جھجھک مانگیئے ۔ میرے پاس دولت کی کمی نہیں۔۔۔۔۔۔ اپنا سب کچھ دے کر بھی میں آپ کا احسان نہیں چکا سکتا۔ پھر بھی جو ہوسکے، وہ کرنے کے لیے میرا دل بے چین ہے۔ ڈاکٹر حکم دیجئے۔ آپ جو بھی چاہیں؟‘‘
چند لمحوں کے بعد خود پر قابو پاتے پاتے ڈاکٹر نے اردلی کی جانب مخاطب ہوکر کہا۔’’ یہ کون پاگل آپہنچا ہے؟ اسے باہر نکالو۔‘‘
’’ارے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ، نہیں۔۔۔۔۔‘‘ کہہ کر اس آدمی نے کسی بے پناہ طاقتور آدمی کی طرح اس قدر زور سے میز پر مکّا مارا کہ اردلی اپنی جگہ پر ہی ٹھہر گیا اور خوفزدہ ہوکراسے دیکھنے لگا۔
اس نے پھر سے کہنا شروع کیا۔ ’’ڈاکٹر، آپ نے مجھے اب تک شاید پہچانا نہیں ہے؟ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ دراصل آپ میری زندگی کے محافظ ہیں۔ آپ ہی نے مجھے موت کے منہ سے باہر نکالا ہے۔ میں وہی آدمی ہوں، جسے آپ نے ’نائیس ‘بھیجا تھا اور صرف ’واٹر کریش‘ استعمال کرنے کا حکم دیاتھا۔ میں وہی بد قسمت ہڈّیوں کا ڈھانچا ہوں جسے آپ نے کہاتھا کہ دونوں پھیپھڑے بے کار ہوچکے ہیں۔ ’نائیس‘ میں واٹر کریش اور صرف واٹر کریش کے سہارے میںاتنے دن رہا ہوں۔ اسی کے سبب آج مجھے آپ اس روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب آپ کے سُجھائے ہوئے طریقۂ علاج کا اثر ہے اور یقین نہ ہوتو یہ دیکھئے۔
یہ کہہ کر اس نے اپنے سینے پر زور زور سے مکّے مارنا شروع کردیا۔ یقینی طور سے اِن مکّوں کی برسات سے کسی کی بھی حالت غیر ہوسکتی تھی، مگر اس کے چوڑے چکلے سینے پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ کچھ لمحوں تک ڈاکٹر حیرت سے دیکھتے رہے۔ پھر اس کی طرف دھیان سے دیکھ کر اچانک تعجب سے کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔’’ کیا آپ سچ مچ وہی کروڑ پتی ہیں، جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ، ڈاکٹر! میں وہی ۔۔۔۔۔۔ وہی ہوں۔‘‘ اس نے بلند آواز سے کہا۔ ’’ کل ہی میں جہاز سے اترا۔ اترتے ہی سب سے پہلے آپ کے ایک قدِّ آدم مجسمے کا آرڈر دے آیا اور اب ویسٹ مِنسٹر میں آپ کی قبر کا انتظام کررہا ہو۔‘‘
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
اتنا کہہ کر وہ تپاک سے ایک بڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے سے صوفے کے اسپرنگ چرمرائے کچھ منٹ تک ڈاکٹر اس کی طرف تحقیقی نقطۂ نظر سے دیکھ کر کچھ تلاش کرتے رہے، پھر سیکریٹری اور اردلی کو حکم دیا ۔ وہ دونوں باہر چلے گئے۔ ڈاکٹر اُس آدمی کی طرف اداس نظروں سے دیکھتے رہے اور فوراً سنجیدگی سے انھوں نے اپنی نظر گڑاتے ہوئے کہا۔’’آپ کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھی ہے، اسے اُڑادوں؟‘‘
اتنا کہہ کر ڈاکٹر جھکے اور اپنی جیب سے ریوالور نکالی اور مسلسل تین فائر کردیئے۔ لمحہ بھر میں ہی سر سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور وہ آدمی وہیں صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔ کچھ دیراُس نے ہاتھ پیر جھٹکے اور پھر ساکت ہوگیا۔ ڈاکٹر یہ سب بڑے تجسس سے دیکھتے رہے۔ ان کے چہرے پر کئی تاثرات ابھرے اور مٹ گئے۔ مگر تجسس قائم رہا۔ اس کے فوراً بعدانھوں نے اپنا سب سے تیز نشتر نکالا اور اس کا سینہ چیر ڈلا اور پھیپھڑے نکال کر اپنی میز پر رکھ کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد جب پولیس ، ڈاکٹر کو اپنے ساتھ چلنے کا وارنٹ لے کر آئی ، اُس وقت وہ اپنی تجربہ گاہ میں خون سے لتھڑے ہوئے پھیپھڑوں پر ’واٹر کریش‘ کے اثرات کا تجربہ کررہے تھے۔
پولیس انسپکٹر نے جب ان کے پاس جاکر اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی تو ڈاکٹر نے خاموشی سے اٹھ کر اسے دیکھا اور کہا ۔’’ میں نے اس آدمی کاقتل جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ بنا اس کا سینہ چیرکر دیکھے یہ جاننا ناممکن تھا کہ تپِ دِق جیسے مرض سے جو پھیپھڑے بالکل ناکارہ ہوگئے تھے وہ دوبارہ کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میں بلا خوف و خطر یہ اقرار کرتا ہوں کہ دنیا اور بنی نوع انسان کے مفاد کی خاطر ، ایک عظیم فرض کی ادائیگی کے لیے میں نے ایک معمولی انسانی جان کو قربان کرنا بہتر سمجھا ، اور اسے مارڈالا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ڈاکٹر ہِل ذاتی ضمانت پر حوالات سے رہائی حاصل کرچکے ہیں، کیونکہ ان کی رہائی انسانیت کے لیے سود مند ہے۔ اس مقدمے کی پیشی کل عدالت میں ہوگی۔ جلد ہی اس مقدمے کی دھوم یورپ اور ساری دنیا میں مچ جائے گی۔
جہاں تک ہمارا یقین ہے، اس چھوٹے سے جرم کے لیے اس انسانیت نواز عظیم ڈاکٹر ہِل کو نیوگیٹ کے پھانسی کے تختے پر چڑھنا نہیں ہوگا۔ آنے والے کل کی خاطر انسان سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اس کی خاطر آج ایک حقیر سے آدمی کا قتل کرنے والے ، ڈاکٹر ہِل کو زندہ رکھنے کے لیے اس دنیا کے عظیم سائنس داں اپنی جانب سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔

٭٭٭

ژاں پال سارتر : فرانسیسی ادب میں ژاں پال سارتر کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ نمائندہ فکشن اور ڈراما نگار مانے جاتے ہیں۔ 21؍ جون 1908ء کو پیرس میں پیدا ہوئے۔ ان کی تخلیقات کے اثرات بیسویں صدی کے ادب پر گہرے مرتب ہوئے۔ جب وہ ’سوربان‘ میں تحقیق کررہے تھے تب ان کا رابطہ سیمون دی بوار سے ہوا ۔ وہ دونوں تاحیات ہم سفر بن کرجیتے رہے۔
سارتر نے کئی ڈرامے تحریر کیے۔ جن کے دوررس اثرات سماج و معاشرے پر ہوئے۔ 1964ء میں سارتر کو نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔ مگر انھوں نے یہ کہہ کر اسے قبول کرنے سے انکار کردیا کہ اس کی قیمت ان کی نظر میں ایک بورا آلو سے زیادہ نہیں ہے۔ 15؍ اپریل 1980ء کو پیرس میں ہی سارتر کا انتقال ہوا۔

٭٭٭
سارتر کی اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
کاپی رائٹ بحقِ مترجم محفوظ ہیں

Aaj ka Qata

Articles

آج کا قطعہ

عبید اعظم اعظمی

نہ تو رنج ہے نہ امنگ ہے نہ سکون ہے نہ تناؤ ہے
یہ قیام کیسا قیام ہے یہ پڑاؤ کیسا پڑاؤ ہے
نئی صبح سے نئی رات سے مرا خواہشاتِ حیات سے
نہ بگاڑ جیسا بگاڑ ہے نہ بناؤ جیسا بناؤ ہے
عبید اعظم اعظمی

Three Dolls A Persian Folk Tale

Articles

فارسی لوک کہانی ’تین گڑیاں‘

انگریزی سے ترجمہ: حیدر شمسی

فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بجھانے اور معمّے حل کرنے کابھی شوق تھا ۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا ۔سلطان نے تحفے کو کھولا اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا ۔ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشاگیا تھا ۔اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاریگری کی خوب تعریف کی ۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج تھا ۔اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا ۔گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اوروہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھا یا ۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی ۔
پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں ۔لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بو یکساں نہ ہو۔چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھا ۔تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کے نتھنے معطّر ہوگئے۔صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔اس نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں ۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔سلطان نے دربار بلایا۔دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا ۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے ۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے ،جس نے اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ لائبریریوں میں صرف کیا ہووہ بھی آگے آئے۔
ایک اسکالر اور ایک قصّہ گوآگے آئے ۔سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔اس نے انھیں سونگھا ، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلا جلاکر دیکھا لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا ۔وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا ۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ہاں!ہاں ! تھوڑی دیر بعد وہ خود اپنے فعل سے اکتا گیااورانھیں میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا۔
بہر کیف اسکالر گڑیوں میں امتیاز نہ کر سکا ۔ اس نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’کیا تم گڑیوں کے درمیانی فرق کی شناخت کر سکتے ہو!‘‘
قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا ۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا ۔وہ بال گڑیاکے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا ۔قصّہ گو نے کہا’’ یہ گڑیا اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے ۔‘‘ اس سے پہلے کے سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کراس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا ۔اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کرحیران رہ گیا۔
’’کیوں‘‘ قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے ۔‘‘
اس سے پہلے کے سلطان اسے روک پاتا ۔اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔بال اندر چلا گیا ۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کہاں سے باہر آئے گا ۔ بال گڑیاکے منھ سے باہر آیا ۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔
’’کیوں‘‘قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے ۔وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے ۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کااپنا شاہکارلگے۔‘‘

Aaj ka Qata

Articles

آج کا قطعہ

ہوش نہیں ہے  ہوش کا ، ہوش سے پھر بھی کام لے
یا تو تجھے میں تھام لوں ، یا تو مجھے تُو تھام لے
رسمِ تعلقات کے دو ہی بڑے اصول ہیں
یا تو مجھے سلام کر یا تومرا سلام لے
عبید اعظم اعظمی

Aaj Ka Qata

Articles

آج کا قطعہ

عبید اعظم اعظمی

رسوائیوں کے ‘ان کی’ نہ امکاں ہوں پیش پیش
مسجد ہٹے تو صاحبِ ایماں ہوں پیش پیش
کوشش یہ کر رہے ہیں مسلسل ‘ذہین لوگ’
مندر بنے اور اس میں مسلماں ہوں پیش پیش

Sunboshi A japanse Folktale 

Articles

جاپانی لوک کہانی۔۔۔سن بوشی

جاپانی لوک کہانی

​جاپان میں کسی جگہ ایک میاں بیوی بڑی خوش حال زندگی بسر کررہے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ایک روز وہ عبادت گاہ میں گئے اور گڑگڑا کر دعا کی۔ ’’اے اللہ، اپنی رحمتوں سے ہمیں ایک بچہ عطا فرما، چاہیے انگلی کے ایک پور کے برابر ہو۔‘‘ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں ایک خوب صورت لڑکا پیدا ہوا۔ لیکن اس کا قد بالغ انسان کی اُنگلی سے بھی کم تھا، اس کے باوجود اس کے والدین نے اسے ناز و نعم سے پالا جیسے وہ ان کی آنکھ کا تارا ہو۔ لڑکا انتہائی ذہین اور اچھے اخلاق کا تھا… مگر اس کے قد میں اضافہ نہ ہوا۔ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس سے محبت پیار سے پیش آتے اور اُسے سن بوشی کے نام سے پکارتے ’’سن‘‘ ایک پیمانہ ہے تقریباً تین سینٹی میٹر کے برابر اور ’’بوشی‘‘ کے معنی پروہت کے ہیں۔ پُرانے زمانے میں بچوں کے سر پرہیتوں کے مانند منڈے ہوئے ہوتے تھے جنہیں ’’پروہت‘‘ کہا جاتا۔ آہستہ آہستہ یہ بچوں کا معروف نام بن گیا۔ ایک روز سن بوشی نے شاہی دارالحکومت کیا ٹو جانے کا ارادہ کیا تاکہ وہ زندگی میں کوئی اُونچا مقام حاصل کرسکے۔ اس نے والدین سے کہا ’’پیارے امی ابا، میں دارالحکومت جانا چاہتا ہوں۔ وہاں پڑھوں لکھوں گا اور بڑا آدمی بن جائوں گا۔ مجھے جانے کی اجازت دیجیے۔‘‘ پہلے تو والدین کسی قدر ہچکچائے لیکن انہیں اپنے بیٹے کی ذہانت پر اعتماد تھا، اس لیے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ انہوں نے ایک سوئی کی تلوار بنائی اور تنکے کی نیام میں ڈال کر سن بوشی کے پہلو میں لٹکادی۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ اور ہاتھی دانت سے تیار کردی تیلی بھی دی۔ سن بوشی نے ماں باپ کو خیر باد کہا اور سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ دارالحکومت کو ایک دریا جاتا تھا۔ اُس نے پیالے سے کشتی کا کام لیا اور ہاتھی دانت کی تیلی سے چپو کا، اور کئی دن تک دریا کے بہائو کے ساتھ ساتھ کشتی کھیلتا رہا، آخر کار دارالحکومت پہنچ گیا۔ شہر میں داخل ہوا، تو اسے ایک وسیع وعریض شان دار محل دکھائی دیا یہ ایک بااثر وزیر کی رہائش تھی۔ دروازے پر سن بوشی چلانے لگا: ہیلو، ہیلو…‘‘ اندر سے ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا، لیکن اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ آواز دوبارہ سنائی دی۔ اس نے غور سے دیکھا، تو دروازے کی اوٹ میں بونے سن بوشی پر نظر ڈالی۔ ’’میرانام سن بوشی ہے، میں یہاں پڑھنے کے لیے آیا ہو‘ مہربانی کرکے مجھے وزیر کے خادموں میں رکھ لو۔‘‘ نوکر نے اسے پکڑ کر ہتھیلی پر بٹھالیا اور وزیر کے سامنے لے گیا۔ سن بوشی نے احترام سے سرجھکا یا اور کورنش بجالایا۔ وزیر اور اس کے مصاحب بہت متاثر ہوئے، اسے محل میں ملازمت اور رہائش کی اجازت مل گئی۔ اگرچہ کوتاہ قد تھا۔ لیکن انتہائی ذہین ہونے کی بناء پر ہر کام بڑے سلیقے سے انجام دیتا۔ اُس کی سب سے اعلیٰ صفت یہ تھی کہ وہ ہر ایک کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتا ۔ اسی بناء پر لوگ اُسے بہت چاہتے۔ خصوصاً وزیر زادی کا دل اُس نے موہ لیا اور وہ ہر وقت اُسے ساتھ رکھتی۔ ایک روز وزیرزادی کینن (رحم کی دیوی) کی عبادت گاہ میں گئی۔ سن بوشی بھی ہم راہ تھا۔ واپسی پر دو چڑیلوں نے اچانک ان پر حملہ کردیا… اور وزیرزادی کو اُچک لے جانے کی کوشش کی۔ سن بوشی جو اُس کی آستین میں چھپا ہوا تھا، جست لگا کر باہر نکلا اور تلوار سونت کر کہنے لگا: ’’جانتی ہو میں کون ہوں؟ میں وزیر زادی کا محافظ ہوں۔‘‘ ایک چڑیل نے بڑے مزے سے اُسے نگل لیا۔ سن بوشی اس قدر چھوٹا تھا کہ آسانی سے چڑیل کے معدے میں چل پھر سکتا تھا۔ اُس نے اپنی تلوار سے معدے میں کچھوکے لگانے شروع کردیے۔ تنگ آکر چڑیل نے اُبکائی کے ذریعے اُسے باہر اُگل دیا۔ اس پر دوسری چڑیل سن بوشی کی طرف بڑھی، لیکن بونے نے اچھل کر تلوار کی نوک اُس کے آنکھ میں گھونپ دی۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ دوسری آنکھ بھی پھوڑ دی۔ درد سے کراہتی ہوئی دونوں چڑیلیں سر پٹ بھاگ کھڑی ہوئیں۔ جب وہ وزیر زادی کے ساتھ گھر کی طرف چلنے لگا، تو اس کی نگاہ ایک چھڑی پر پڑی جو چڑیلیں چھوڑ گئی تھیں۔ یہ چڑیلوں کا خزانہ یعنی جادو کی چھڑی تھی۔ اسے ہوا میں لہرانے سے ہر شے حاصل کی جاسکتی تھی۔ وزیر زادی چھڑی دیکھ کر بولی: ’’پیارے سن بوشی، یہ جادو کی چھڑی ہے، تم جو جی چاہے حاصل کرسکتے ہو۔‘‘ ’’نہ مجھے دولت کی ضرورت ہے نہ گندم اور چاول کی‘‘ سن بوشی نے کہا۔ ’’میری خواہش یہ ہے کہ میرا قد لمبا ہوجائے۔‘‘ وزیر زادی نے چھڑی ہوا میں لہراتے ہوئے کہا: ’’سن بوشی کا قد بڑھادے، بڑھادے۔‘‘ ساتھ ہی سن بوشی کا قد بڑھنے لگا یہاں تک کہ وہ ایک خوب صورت جوان بن گیا۔ اس کے بعد سن بوشی کی شادی وزیر زادی سے ہوگئی اور وہ اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔

Pique Between Qurratulain Hayder and Parveen Shakir

Articles

قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش

رئوف خیر

اردو ادب میں قلمکار خواتین کی پذیرائی جی کھول کر اور بانہیں پھیلا کر کی گئی ہے مگر اس کے لیے ان خواتین کا بے باک ہونا شرطِ اول ہے۔ عصمت لحاف سے باہر نکل کر ٹیڑھی لکیر پر چل پڑتی ہیں۔ رشید جہاں انگارے ہاتھوں میں لینے کا حوصلہ رکھتی ہیں وہیں انھی انگاروں سے فہمیدہ اور رضیہ سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ یکے از زیدیان اپنے سگریٹ سلگاتی ہیں اور ان کا ساتھ دینے میں تسلیمہ ’’لجا‘‘ محسوس نہیں کرتیں۔ کشور کشائی میں اک غیرت ناہید نے اپنی بری کتھا لکھنے میں کوئی عار نہیں سمجھا ، یا پھر کوئی بانو اپنے دستر خوان کے ذریعے مشہور و ممتاز سمجھے جانے والے ادیبوں ، شاعروں ، ناقدوں کو نان و نمک پیش کرکے ایوانِ ادب میں داخل ہوتی ہیں۔ مشاعرہ باز متشاعرات کا ذکر ہی یہاں مقصود نہیں کہ یہ زیریں لہر صرف منتظمین مشاعرہ اور عوام کو متاثر کرتی ہیں اور ان کی زلف سخن خاصان ’’نظم‘‘ کے شانوں پر اور عامیانِ غزل کی آنکھوں پر لہراتی ہے۔
مگر بعض ایسی قلمکار خواتین بھی ہیں جنھوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا ہے۔ انھی میں قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر بھی شامل ہیں۔ قرۃ العین حیدر 20؍ جنوری 1927ء کو علی گڑھ میں اپنے زمانے کے منفرد ادیب سجاد حیدر یلدرم کے گھر پیدا ہوئیں۔ (ان کی پیدائش کے سال میں اکثر رسائل نے اختلاف کا اظہار کیا ہے کہیں 1926ء تو کہیں 1928ء بھی چھپا ہے۔) روشن خیال آزادہ رو خاندان کی فرد ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کو شتر بے مہار ہونے نہیں دیا۔ مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود نہ وہ ’’واہ امریکہ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ کہتی ہیں نہ اپنی عنبریں کی نتھ اترواتی ہیں، نہ کسی کردار کو اترن پہنا کر لطیفے کو کہانی بناتی ہیں۔ ان کی چاندنی بیگم چائے کے باغ کے کنارے ہائوسنگ سوسائٹی میں گردشِ رنگِ چمن پر گہری نظر ڈالتی ہیں تو کبھی ستمبر کے چاند کا لطف لینے کے لیے سفینۂ غمِ دل میں بیٹھ کر آخرِ شب کے ہم سفر کے ساتھ آگ کا دریا پار کرنے کی کوشش کرتی ہوئی جہانِ دیگر پہنچتی ہیں۔
اردو ادب میں علامہ اقبال سے زیادہ پڑھا لکھا شاعر نہ پیدا ہوا ہے ، نہ ہوگا اسی طرح قرۃ العین حیدر سے بڑی ادیبہ نہ ہوئی ہے نہ ہوگی۔
قرۃ العین حیدر کی علمیت کا اعتراف نہ کرنا اپنی لاعلمیت کا ثبوت دینا ہے۔ ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمبرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصّہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری Dogmatismتھی۔
بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہوجاتی تھیں۔ انٹرویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’آج کل‘ (دہلی) کے دفتر میں وہ محو گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ ’’پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سا لگ گیا اور سخت ناراضگی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں، جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رُخِ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ سٹک بھی لگائی تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:’’ اب تصویر کھینچئے۔‘‘(ماہنامہ ’ایوانِ اردو، جنوری 2008ء)
اپنے آپ سے پیار کسے نہیں ہوتا ہے۔ منظر میں رہنا ہر شخص چاہتا ہے۔ فن کارتو ہوتا ہی منظر کے لیے ہے۔ بلکہ بعض نام نہاد فن کاروں اور متشاعروں کے پس منظر میں بھی فن کار ہی ہوتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر اپنی شرطوں پر جینے کی عادی تھیں۔ وہ اپنی بات منوا کر رہتی تھیں۔ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (ممبئی)جنوری 2008ء میں افتخار امام صدیقی نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ قرۃ العین حیدر کی زندگی میں وہ ان پر فضیل جعفری اور سلمیٰ صدیقی سے مضامین لکھوا رہے تھے۔
’’ میں نے اپنی پریشانیوں کا آغاز کیا کہ عینی آپا کو بتا دیا کہ فضیل جعفری اور سلمیٰ صدیقی صاحبہ نے اپنے اپنے مقالے لکھ کر اشاعت کے لیے دیئے ہیں۔ اب عینی آپا بضد کہ پہلے وہ دونوں مضامین پڑھیں گی اس کے بعد ہی وہ شائع ہوں گے۔ مذکورہ دونوں قلم کاروں کا اصرار کہ ہمارے مضامین عینی آپا کو دکھائے بغیر ہی شائع کئے جائیں۔ عینی کی دھمکیاں شروع ہوگئیں کہ پریس اور ’’شاعر‘‘ دونوں کو بند کروا دوں گی ، میرے پڑھے بغیر مضامین کی اشاعت ہرگز نہ کرو۔‘‘
’’شاہد احمد دہلوی ۔۔۔۔۔۔۔ پکچر گیلری کی ایک تصویر‘‘ کے عنوان سے لکھے ہوئے خاکے میں قرۃ العین حیدر نے خود ہی بیان کیا کہ:
’’میرے بھانجے عاصم زیدی نے ایک روز مجھے بتایا کہ آپ کے متعلق ایک نہایت بے ہودہ مضمون ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ کسی نے لوسی فر کے فرضی نام سے لکھا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مضمون میں آج پڑھتی تو بے حد ہنسی آتی لیکن اس وقت شدید غصّہ آیا۔ اس وقت تک شاہد صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے انھیں ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ جیسے مہذب انسان سے یہ توقع نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ انھوں نے بھی کافی سختی سے جواب دیا۔ میں نے کہا بالکل بلاوجہ آپ میرے خلاف اس قسم کا بے بنیاد مضمون کیوں چھاپ رہے ہیں۔ پھر میں نے کہا’’ساقی‘‘ یہاں مالی مشکلات کاسامنا کررہا ہے اور شاید آپ کا خیال ہے کہ اس طرح سنسنی خیز مضامین سے پرچہ بک جائے گا۔ مگر مجھ غریب کو بے قصور نشانہ کیوں بنائیے؟(شاہد احمد) کہنے لگے اچھا کل آپ ریڈیو اسٹیشن آئیے۔ وہاں وہ مجھ سے پھر الجھ گئے اور کہنے لگے اچھا اب ہماری آپ کی ملاقات عدالت میں ہوگی۔ میں حیران پریشان ۔ دوسرے روز وہ مضمون کا پروف لے کر آئے۔ مگر پروف شاہد صاحب نے اسی وقت پھاڑدیئے۔‘‘ (سہ ماہی ’’سفیر اردو‘‘لندن اکتالسواں شمارہ جولائی، ستمبر 2007ء )
یہ وہی شاہد احمد دہلوی ہیں جن کے بارے میں قرۃ العین نے اپنے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا :’’ بہت ممکن تھا کہ Teenage Hobbyکی حیثیت سے تھوڑے بہت افسانے لکھ کر چھوڑ دیتی مگر شاہد احمد صاحب کی مسلسل فرمائش اور اصرار سے بڑی سخت ہمت افزائی ہوئی ۔ میرے پہلے افسانے کا تذکرہ انھوں نے اپنے ایڈیٹوریل میں کیا۔‘‘
پروین شاکر 1952ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں یعنی قرۃ العین حیدر سے عمر میں تقریباً 25برس چھوٹی تھیں۔
ایک کرم فرما جناب تفنن مجازی سے (تفنن مزاجی بھی کہا جاسکتا ہے) پروین شاکر کو عورتوں کی اختر شیرانی تک کہتے ہیں مگر وہ اپنے خیال سے رجوع کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو پروین شاکر کی طرح شعر کہنے کا سلیقہ بہت ہی کم شاعرات اور بہت کم شاعروں کو ملا ہے۔ کچھ تو اللہ نے انھیں صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا اور کچھ انھیں گاڈ فادر بھی اچھے مل گئے ، وہ چل نکلیں۔ کم عمری میں انھیں کئی تجربات سے گزرنا پڑا۔ کئی اعزازات بھی ملے۔ اس ماہِ تمام کی رویتِ ہلال 1977ء میں ’’خوشبو‘‘ سے ہوئی۔ پھر تو یہ گلِ صد برگ اپنی بہار دکھانے لگا۔ ایم ۔اے (انگریزی لسانیات) کرنے کے بعد وہ انگریزی کی لیکچرر ہوگیں۔ 1982ء میں پاکستان سِول سروس کا امتحان کامیاب کرکے حکومت کے اس اہم شعبے میں آگئیں۔ پاکستان ٹی وی کے لیے انھوں نے کئی مشاہیر کے انٹرویو لیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1976ء میں اُن کی شادی اُن کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ پروین 1979ء میں ایک بیٹے کی ماں بنیں اب وہ بیٹا تیس سال کا ہوچکا ہے ۔ وہ بامُراد پتہ نہیں اپنی ماں پر شاکر ہے یا اپنے باپ کی نصرت کررہا ہے۔ نہ جانے کیا بات ہوئی کہ صرف دس گیارہ سال تک ہی پروین شاکر اور نصیر ساتھ ساتھ نباہ کرسکے۔ 1987ء میں دونوں میں طلاق ہوگئی۔ اس ’’کفِ آئینہ‘‘ کے پیچھے ’’انکار‘‘ و اثبات کے زنگار سے فی الحال ہمیں کوئی علاقہ نہیں کہ ہم تو اس ’’ماہِ تمام‘‘ کے مہتابِ سخن کی ’’خوش کلامی‘‘ کے گرویدہ ہیں۔ پروین شاکر نے عورت کی نفسیات اور ماقبل و مابعد بلوغت کے احساسات کو جس بلاغت سے پیش کیا ہے وہ کسی اور شاعر کے پاس ایسے تہذیبی پیرایۂ اظہار میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ پروین شاکر کے لب و لہجہ میں حسن کی تہذیب بھی ہے اور تہذیب کا حسن بھی ہے۔
فکش میں قرۃ العین حیدر جتنی مقبول و ممتاز ہیں ، شعر و ادب میں پروین شاکر بھی اتنی ہی مقبول ہیں ۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ بہت ممکن تھا کہ وہ کئی او ر شاہکار اردو ادب کو دے جاتیں۔ 26؍ دسمبر 1994کو کار کے ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہوگئیں ۔ گویا صرف 42بہاریں ہی وہ دیکھ پائیں مگر شہرت ان کے قدم چومتی تھی۔
اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ 1978کے اواخر میں وہ ہندوستان آئی تھیں۔ واپس جاکر انھوں نے اپنے سفر کی یادگار کے طور پر کئی نظمیں لکھیں جن میں تین نظمیں بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاج محل، فراق گورکھپوری اور قرۃ العین حیدر پر لکھی ہوئی وہ نظمیں ’’سیپ‘‘ کراچی ۔شمارہ 38(اکتوبر ؍نومبر1978ء) میں شائع ہوئی تھیں۔’’سیپ‘‘ کا یہ شمارہ جب قرۃ العین حیدر تک پہنچا تو انھوں نے اپنے اوپر لکھی گئی نظم کے ردِّ عمل کے طور پر مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی اور پروین شاکر کے نام الگ الگ دو خطوط ارسال کیے۔ پروین شاکر کے نام خط یوں تھا:
ممبئی۔۔۔۔۔۔3 ؍ جنوری 1979؁ء
محترمہ پروین شاکر صاحبہ
’سیپ‘ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔میں آپ سے بہت خلوص و اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ،آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آ پ کو میں کس طور پر ایسی Figure of the tragedy & frustationنظر آئی یا اس قسم کی Sickنظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ آپ شاید بھولتی ہیں اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔ میں ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جارہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر لکھی یا آپ کی واقعی اتنی Sickذہنیت ہے کہ آپ میری شخصیت کواس طرح مسخ کرکے پیش کریں۔ نہ میری آپ سے پرانی دوستی ہے نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔ آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرز زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کرکے یہ ظاہر کیا ہے کیا آپ بمبئی آکر بوکھلا گئی تھیں۔or you must be light out of your mind
قرۃ العین حیدر
دوسرا خط مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی کے نام یوں تھا:
جناب مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی صاحب ، تسلیم!
آپ کے رسالے میں پروین شاکر صاحبہ کی نظم دیکھ کر افسوس ہوا اور تعجب بھی۔ ادیبوں کی شخصیت کو بلا وجہ اور بلا جواز Unprovokedمسخ کرکے پیش کرنا یا اُن پر کیچڑ اچھالنا ہمارے اردو رسالوں کا وطیرہ بن گیا ہے اور یہ وبا عام ہوچکی ہے۔ اس قسم کی Viciousnessکی وجہ کیا ہے۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ امید ہے آپ مجھے بتائیں گے۔ والسلام
پتہ دیا تھا: معرفت مسٹر ایم آئی قدوائی ، وائس چانسلر ہائوس ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پی۔او ۔ جامعہ نگر ، اوکھلا۔ نئی دہلی۔۲۵
قرۃ العین حیدر کا خط پاکر پروین شاکر حیران ہوئیں کہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی ہوئی نظم کا یہ الٹا اثر ہوا۔ انھوں نے تمام تر احترام ملحوظ رکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کو جواب دیا اور اس کی ایک نقل مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی کو بھی بھیج دی۔ نسیم درانی نے مدیرانہ ذمہ داری اور مدیرانہ تہذیب کے پیش نظر وہ خطوط اُس وقت شائع نہیں کیے مگر ’سیپ‘ کی ایک خاص اشاعت شمارہ 75 ، 2006ء میں دونوں قلم کارخواتین کے خطوط شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا:
’’ادارے نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اِن خطوط کو اس وقت اس لیے شائع نہیں کیا کہ اردو کی سب سے عظیم نثر نگار اور ایک حساس شاعرہ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش ایک مستقل نزاع کی صورت نہ اختیار کرلے۔‘‘
اب جبکہ نہ پروین شاکر ہی سلامت ہیں اور نہ قرۃ العین حیدر ، یہ خطوط ان کے مزاج کوسمجھنے کی دستاویز ہوکر رہ گئے ہیں۔ پروین شاکر کا خط پڑھنے سے پہلے آئیے اک نظر اُس نظم پر ڈال لیں جس کا قرۃ العین نے منفی تاثر قبول کیا۔ نظم کا عنوان ہے:
قرۃ العین حیدر
جیون زہر کو متھ پر امرت نکالنے والی موہنی
بھرا پیالہ ہاتھوں میں لیے پیاسی بیٹھی ہے
وقت کا راہو گھونٹ پہ گھونٹ بھرے جاتا ہے
دیوی بے بس دیکھ رہی ہے
پیاس سے بے کل ۔۔۔۔۔۔۔اور چپ ہے
ایسی پیاس کہ جیسے
اس کے ساتوں جنم کی جیبھ پہ کانٹے گڑے رہے ہوں
ساگر اس کا جنم بھون
اور جل کو اس سے بیر
ریت پہ چلتے چلتے اب تو جلنے لگے ہیں پیر
ریت بھی ایسی جس کی چمک سے آنکھیں جھلس گئی ہیں
آبِ زر سے نام لکھے جانے کی تمنا پوری ہوئی پر
پیاسی آتما سونا کیسے پی لے؟
اک سنسار کو روشنی بانٹنے والا سورج
اپنے بُرج کی تاریکی کو کس ناخن سے چھیلے
شام آتے آتے کالی دیوار پھر اونچی ہوجاتی ہے (’سیپ‘ ، شمارہ 38، اکتوبر ؍ نومبر 1978ء)
اس نظم کے ردِّعمل کے طور پر 3، جنوری 1979ء جو خط قرۃ العین حیدر نے پروین شاکر کو لکھا تھا اس جواب 8فروری 1979ء کو پروین شاکر نے دے دیا تھا۔ چونکہ انھیں خط مدیر ’سیپ‘ نسیم درانی کی معرفت ملاتھا ، انھوں نے اس خط کی ایک نقل مدیر ’سیپ‘ کو بھی بھیجی تھی۔ پروین شاکر کا یہ خط بجائے خون اُن کی خوش سخنی و خوش کرداری کا غماز ہے:
عینی آپا ۔ آداب
معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔ یقین کیجئے میرا ہرگز یہ منشا نہیں تھا۔ نہ نظم میں نے آپ کو خوش کرنے کے لیے لکھی تھی ، نہ ناراض کرنے کے لیے۔ یوں جان لیں کہ یہ ایک تاثراتی قسم کی چیز تھی۔ آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔ آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں ، بڑا کرم کیا۔ یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا ، میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اٹھتا ہے) آپ تو مجھے بہت پیاری ، بہت گہری خاتون لگی تھیں۔ Frustratedاور Sick-Figuresلوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ ہاں جہاں تک Tragedyکا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔ دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں ، آنسو کو موتی بنادیتے ہیں، ہماری طرح سے اسے رزقِ خاک نہیں ہوتے دیتے۔ لیکن آپ اگر اس بات سے انکاری ہیں تو چلئے یہی سہی۔ آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سوا دعا ہے بھی کیا؟
نہیں عینی آپا جسارت کررہی ہوں مگر غلط فہمی ہوگی اگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔ شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے، کسی نام کی زکوٰۃ نہیں(مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئیڈیل نہیں رہے!)
آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بدنفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں‘‘۔ مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔
چونکہ آپ نے سوال اٹھایا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہوگی لہٰذا یہ وضاحت مجھ پر لازمی ہوگئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔ ہندوستان سے واپسی کے بعد جب ذہن سے سفر کی گرد اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔ تاج محل، گنگا سے، اے جگ کے رنگ ریز(امیر خسرو) بوے یاسمین باقسیت، قرۃ العین حیدر اور سلمیٰ کرشن۔ یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔ رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ کوئی سائیکا ٹرسٹ ہی کرسکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجیے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی۔
اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی……تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ ہم عمر ہونے میں تاریخی اور طبی عوامل بھی حائل ہیں! وہ ملاقاتیں یقینا سرسری ہی تھیں اور آپ کے طرزِ زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ صادر کرنے کا حق نہیں رکھتے!
Out of Mindہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے ہاتھ میں دے چکی ہوں البتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جاکر بوکھلا جائے۔ خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے۔ کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں؟
نظم کی ناپسندیدگی پرشرمندہ ہوں اور درگزر کی خواستگار !
میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کو دینے کی قائل نہیں ہوں مگر چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر ’’سیپ ‘‘ کو بھیجی جارہی ہے لہٰذا میں نے بھی مجبوراً یہی قدم اٹھا یا ہے لیکن اتنا اطمینان رکھیں کہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہوگا۔ کہیے کیا حکم ہے؟
ہاں یاد آیا ۔ یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کی رائلٹی یہاں پاکستان میں آپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے؟
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے
’’برا ئے سیپ‘‘
نیاز مند
پروین شاکر
پتہ نہیں پروین شاکر کا یہ خط پڑھ کر قرۃ العین حیدر پر کیا گزری تھی۔
٭٭٭

یہ مضمون رسالہ اردو چینل کے شمارہ 27  جلد بارہ ، شمارہ 1 تا 2 ، بابت اپریل 2010سے ماخوذ ہے۔
مضمون نگار جناب رئوف خیر اردو کے معروف شاعر ہیں ۔ حیدر آباد ، تلنگانہ ، ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

Allama Iqbal by Qazi Jamal Husain

Articles

علامہ اقبال مغرب کے نہیں مادہ پرستی کے مخالف تھے

پروفیسر قاضی جمال حسین

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئ دہلی میں حکیم عبدالحمید یاد گاری لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر پروفیسر قاضی جمال حسین نے اقبال اور دانش مغرب کے عنوان سے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ آج دنیا مادہ پرستی میں گرفتار ہے ۔علامہ اقبال کا پورازور مادہ پرستی کے خلاف ہے ۔علامہ اقبال کی ساری کوشش اسی کے لیے ہے کہ کس طریقہ سے مادہ پرستی کو زر پرستی کو کیسے روکا جائے ۔وہ یوروپ گئے وہاں زندگی گزاری وہاں کے رنگ ڈھنگ کو دیکھا وہاں کے مفکرین سے ملے وہاں کی اچھائیوں کے ساتھ وہاں کی برائیوں پر بھی نظر ڈالی ۔علامہ اقبال کا کائناتی وژن تھا۔وہ مغربی تعلیم کے خلاف نہیں تھے لارڈ میکالے کے نظریۂ تعلیم کے خلاف تھے ۔تعلیم کا مقصد حصولِ زر نہیں تسکینِ روح ہونا چاہیے ۔آج تعلیم کے لئے ان مضامین کا انتخاب کیا جاتا ہے جن سے زیادہ پیسہ حاصل کیا جا سکے۔علامہ اقبال ترقی کے خلاف نہیں تھے۔مغرب کی شاطرانہ چالوں کے خلاف تھے ۔انہوں نے کہا کہ اقبال انسان کے اندر پیاس پیدا کرنا چاہتے تھے۔کھوئ ہوئ چیزوں کی یاد دلانا چاہتے تھے۔آرزو پیدا کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے مغرب ساتھ ہی ساتھ مشرق کی بھی مخالفت کی ۔وہ رجعت پسندی کے خلاف تھے تن آسانی کے خلاف تھے۔ان کی شاعری انسان کو متحرک کرتی ہے ۔پروفیسر قاضی جمال نے اقبال کی فارسی اور اردو نظموں اور غزلوں کے حوالے بھی پیشِ کئے ۔انھوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری کی معنویت ہے اس لیے ان کی ضرورت ہمیشہ رہےگی ۔ان کی شاعری ہمت طاقت پیدا کرنے کی شاعری ہے ۔ان کی شاعری کی بنیاد نفس کی پاکیزگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری اور حکیم عبدالحمید کی شخصیت کا مشترک پہلو متحرک ہونا ہے ۔
اس موقع پر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب کے کام جو دہلی میں ہیں وہ سب کے سامنے ہیں دہلی سے باہر برہان پور میں بھی طبیہ کالج اور اسپتال قائم کیا ۔پروفیسرشمیم حنفی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہاکہ مغرب کا مسئلہ بہت الجھا ہوا ہے بہت سی چیزوں کو ذہن سے نکالنے کا جی چاہتا ہے مغرب کا سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ہمیں اپنا محاسبہ کرنےکی ضرورت ہے اقبال کے یہاں مشرق سے و مغرب کا امتزاج ہے ۔ آخر میں عقیل احمد نے شکریہ ادا کیا ۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں اساتذہ ،طلباء اور شائقینِ علم و ادب موجود تھے جن میں پروفیسر وہاج الدين علوی،پروفیسر جینا بڑے ،جی آر کنول ،حناآفرین،حکیم خالد صدیقی،انورخاں غوری،سہیل انور،ظہیربرنی،نگار عظیم ،چشمہ فاروقی،جاوید نسیم،پروفیسر معظم ،محمد خلیل کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔
—————————————————-