سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ
2
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے
3
جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے
میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے
تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے
مجھے رشک حور اک پری سوجھتی ہے
یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے
تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے
جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھیں ملاؤ
وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے
یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا
وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے
جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے
تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے
امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں
نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے
دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟
درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے
حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول
آدمی کو صبر تھوڑا چاہئے
ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
کچھ مزا اس کا بھی چکھا چاہئے
ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!
ضبطِ اظہارِ تمنا چاہئے
یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں
حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں
الٰہی ہے دل جائے آرام غم
نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں
کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا
کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں
وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں
زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر
ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں
6
کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں
گردن میں طوق بھی تو لڑکپن کے یار ہیں
سینہ ہو کشتگان محبت کا یا گلا
دونوں یہ تیرے خنجر آہن کے یار ہیں
خاطر ہماری کرتا ہے دیر و حرم میں کون
ہم تو نہ شیخ کے نہ برہمن کے یار ہیں
کیا پوچھتا ہے مجھ سے نشاں سیل و برق کا
دونوں قدیم سے مرے خرمن کے یار ہیں
کیا گرم ہیں کہ کہتے ہیں خوبان لکھنؤ
لندن کو جائیں وہ جو فرنگن کے یار ہیں
وہ دشمنی کریں تو کریں اختیار ہے
ہم تو عدو کے دوست ہیں دشمن کے یار ہیں
کچھ اس چمن میں سبزۂ بیگانہ ہم نہیں
نرگس کے دوست لالہ و سوسن کے یار ہیں
کانٹے ہیں جتنے وادئ غربت کے اے جنوں
سب آستیں کے جیب کے دامن کے یار ہیں
گم گشتگی میں راہ بتاتا ہے ہم کو کون
ہے خضر جن کا نام وہ رہزن کے یار ہیں
چلتے ہیں شوق برق تجلی میں کیا ہے خوف
چیتے تمام وادیٔ ایمن کے یار ہیں
پیری مجھے چھڑاتی ہے احباب سے امیرؔ
دنداں نہیں یہ میرے لڑکپن کے یار ہیں