Intekhab E Kalam Ameer Minai

Articles

انتخابِ کلام امیر مینائی

امیر مینائی


سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ

حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ

شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو

کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

سوال وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا

دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ

وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے

حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ


2

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے

ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے

ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے


3

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے

میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے

 

تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے

مجھے رشک حور اک پری سوجھتی ہے

 

یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے

تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے

 

جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھیں ملاؤ

وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے

 

یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا

وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے

 

جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے

تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے

 

امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں

نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے

———————————————
4

دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟

درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے

 

حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول

آدمی کو صبر تھوڑا چاہئے

 

ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم

کچھ مزا اس کا بھی چکھا چاہئے

 

ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!

ضبطِ اظہارِ تمنا چاہئے

———————————————
5

یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں

خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں

جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم

ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں

حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں

مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں

الٰہی ہے دل جائے آرام غم

نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں

کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا

کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں

وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں

الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں

زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر

ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں​


6

کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں

گردن میں طوق بھی تو لڑکپن کے یار ہیں

سینہ ہو کشتگان محبت کا یا گلا

دونوں یہ تیرے خنجر آہن کے یار ہیں

خاطر ہماری کرتا ہے دیر و حرم میں کون

ہم تو نہ شیخ کے نہ برہمن کے یار ہیں

کیا پوچھتا ہے مجھ سے نشاں سیل و برق کا

دونوں قدیم سے مرے خرمن کے یار ہیں

کیا گرم ہیں کہ کہتے ہیں خوبان لکھنؤ

لندن کو جائیں وہ جو فرنگن کے یار ہیں

وہ دشمنی کریں تو کریں اختیار ہے

ہم تو عدو کے دوست ہیں دشمن کے یار ہیں

کچھ اس چمن میں سبزۂ بیگانہ ہم نہیں

نرگس کے دوست لالہ و سوسن کے یار ہیں

کانٹے ہیں جتنے وادئ غربت کے اے جنوں

سب آستیں کے جیب کے دامن کے یار ہیں

گم گشتگی میں راہ بتاتا ہے ہم کو کون

ہے خضر جن کا نام وہ رہزن کے یار ہیں

چلتے ہیں شوق برق تجلی میں کیا ہے خوف

چیتے تمام وادیٔ ایمن کے یار ہیں

پیری مجھے چھڑاتی ہے احباب سے امیرؔ

دنداں نہیں یہ میرے لڑکپن کے یار ہیں

Intekhab E Kalam Kaleem Aajiz

Articles

انتخابِ کلام کلیم عاجز कलीम आजिज़

کلیم عاجز

 

میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن ایک ستم ,ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام

پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو

ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے

ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو

یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو

جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے

دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو

मेरे ही लहू पर गुज़र-औक़ात करो हो

मुझ से ही अमीरों की तरह बात करो हो

दिन एक सितम , एक सितम रात करो हो

वो दोस्त हो दुश्मन को भी तुम मात करो हो

हम ख़ाक-नशीं तुम सुख़न-आरा-ए-सर-ए-बाम

पास के मिलो दूर से क्या बात करो हो

हम को जो मिला है वो तुम्हीं से तो मिला है

हम और भुला दें तुम्हें क्या बात करो हो

यूँ तो कभी मुँह फेर के देखो भी नहीं हो

जब वक़्त पड़े है तो मुदारात करो हो

दामन पे कोई छींट ख़ंजर पे कोई दाग़

तुम क़त्ल करो हो कि करामात करो हो

बकने भी दो ‘आजिज़’ को जो बोले है बके है

दीवाना है दीवाने से क्या बात करो हो


2

مری صبح غم بلا سے کبھی شام تک نہ پہنچے

مجھے ڈر یہ ہے برائی ترے نام تک نہ پہنچے

مرے پاس کیا وہ آتے مرا درد کیا مٹاتے

مرا حال دیکھنے کو لب بام تک نہ پہنچے

ہو کسی کا مجھ پہ احساں یہ نہیں پسند مجھ کو

تری صبح کی تجلی مری شام تک نہ پہنچے

تری بے رخی پہ ظالم مرا جی یہ چاہتا ہے

کہ وفا کا میرے لب پر کبھی نام تک نہ پہنچے

میں فغان بے اثر کا کبھی معترف نہیں ہوں

وہ صدا ہی کیا جو ان کے در و بام تک نہ پہنچے

وہ صنم بگڑ کے مجھ سے مرا کیا بگاڑ لے گا

کبھی راز کھول دوں میں تو سلام تک نہ پہنچے

مجھے لذت اسیری کا سبق پڑھا رہے ہیں

جو نکل کے آشیاں سے کبھی دام تک نہ پہنچے

انہیں مہرباں سمجھ لیں مجھے کیا غرض پڑی ہے

وہ کرم کا ہاتھ ہی کیا جو عوام تک نہ پہنچے

ہوئے فیض مے کدہ سے سبھی فیضیاب لیکن

جو غریب تشنہ لب تھے وہی جام تک نہ پہنچے

جسے میں نے جگمگایا اسی انجمن میں ساقی

مرا ذکر تک نہ آئے مرا نام تک نہ پہنچے

تمہیں یاد ہی نہ آؤں یہ ہے اور بات ورنہ

میں نہیں ہوں دور اتنا کہ سلام تک نہ پہنچے

मिरी सुब्ह-ए-ग़म बला से कभी शाम तक पहुँचे

मुझे डर ये है बुराई तिरे नाम तक पहुँचे

मिरे पास क्या वो आते मिरा दर्द क्या मिटाते

मिरा हाल देखने को लब-ए-बाम तक पहुँचे

हो किसी का मुझ पे एहसाँ ये नहीं पसंद मुझ को

तिरी सुब्ह की तजल्ली मिरी शाम तक पहुँचे

तिरी बे-रुख़ी पे ज़ालिम मिरा जी ये चाहता है

कि वफ़ा का मेरे लब पर कभी नाम तक पहुँचे

मैं फ़ुग़ान-ए-बे-असर का कभी मो’तरिफ़ नहीं हूँ

वो सदा ही क्या जो उन के दर-ओ-बाम तक पहुँचे

वो सनम बिगड़ के मुझ से मिरा क्या बिगाड़ लेगा

कभी राज़ खोल दूँ मैं तो सलाम तक पहुँचे

मुझे लज़्ज़त-ए-असीरी का सबक़ पढ़ा रहे हैं

जो निकल के आशियाँ से कभी दाम तक पहुँचे

उन्हें मेहरबाँ समझ लें मुझे क्या ग़रज़ पड़ी है

वो करम का हाथ ही क्या जो अवाम तक पहुँचे

हुए फ़ैज़-ए-मय-कदा से सभी फ़ैज़याब लेकिन

जो ग़रीब तिश्ना-लब थे वही जाम तक पहुँचे

जिसे मैं ने जगमगाया उसी अंजुमन में साक़ी

मिरा ज़िक्र तक आए मिरा नाम तक पहुँचे

तुम्हें याद ही आऊँ ये है और बात वर्ना

मैं नहीं हूँ दूर इतना कि सलाम तक पहुँचे


3

یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے

مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے

نہ پوچھو زخم ہائے دل کا عالم

چمن میں ایسی گل کاری نہیں ہے

بہت دشوار سمجھانا ہے غم کا

سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے

غزل ہی گنگنانے دو کہ مجھ کو

مزاج تلخ گفتاری نہیں ہے

چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر

یہ آئین وفاداری نہیں ہے

وہ آئیں قتل کو جس روز چاہیں

یہاں کس روز تیاری نہیں ہے

ये आँसू बे-सबब जारी नहीं है

मुझे रोने की बीमारी नहीं है

पूछो ज़ख़्म-हा-ए-दिल का आलम

चमन में ऐसी गुल-कारी नहीं है

बहुत दुश्वार समझाना है ग़म का

समझ लेने में दुश्वारी नहीं है

ग़ज़ल ही गुनगुनाने दो कि मुझ को

मिज़ाज-ए-तल्ख़-गुफ़्तारी नहीं है

चमन में क्यूँ चलूँ काँटों से बच कर

ये आईन-ए-वफ़ादारी नहीं है

वो आएँ क़त्ल को जिस रोज़ चाहें

यहाँ किस रोज़ तय्यारी नहीं है


4

سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے

اے حسن تیرے چاہنے والے کہاں گئے

خلوت میں روشنی ہے نہ محفل میں روشنی

اہل وفا چراغ وفا لے کہاں گئے

بت خانے میں بھی ڈھیر ہیں ٹکڑے حرم میں بھی

جام و سبو کہاں تھے اچھالے کہاں گئے

آنکھوں سے آنسوؤں کو ملی خاک میں جگہ

پالے کہاں گئے تھے نکالے کہاں گئے

برباد روزگار ہمارا ہی نام ہے

آئیں تماشا دیکھنے والے کہاں گئے

چھپتے گئے دلوں میں وہ بن کر غزل کے بول

میں ڈھونڈھتا رہا مرے نالے کہاں گئے

اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیمؔ

گرتے ہوئے غریب سنبھالے کہاں گئے

सीने के ज़ख़्म पाँव के छाले कहाँ गए

हुस्न तेरे चाहने वाले कहाँ गए

ख़ल्वत में रौशनी है महफ़िल में रौशनी

अहल-ए-वफ़ा चराग़-ए-वफ़ा ले कहाँ गए

बुत-ख़ाने में भी ढेर हैं टुकड़े हरम में भी

जाम-ओ-सुबू कहाँ थे उछाले कहाँ गए

आँखों से आँसुओं को मिली ख़ाक में जगह

पाले कहाँ गए थे निकाले कहाँ गए

बर्बाद-ए-रोज़गार हमारा ही नाम है

आएँ तमाशा देखने वाले कहाँ गए

छुपते गए दिलों में वो बन कर ग़ज़ल के बोल

मैं ढूँढता रहा मिरे नाले कहाँ गए

उठते होऊँ को सब ने सहारा दिया ‘कलीम’

गिरते हुए ग़रीब सँभाले कहाँ गए


Last Interview of Nida Fazli

Articles

ندا فاضلی کا آخری انٹرویو

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکرؔ

ذاکر:نِدا صاحب کشمیر کے ساتھ آپ کے بڑے دیرینہ مراسم رہے ہیں، آپ شاید فاضلی سادات میں سے ہیں اور وہ بھی کشمیری فاضلی،آپ کو شاید علم ہوگا کہ برج ناراین چکبستؔ،اقبالؔ، منٹوؔ،کرشن چندر، مہندر ناتھ ، سہگل،ملکہ پکھراج، اُستاد بسم اﷲ خان، راما نند ساگر، جیون ، راج کمار بھی ایسے ہی کسی خاموش تعلق سے کشمیری رہے ہیں،بہرحال آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟
ندا فاضلی:کچھ سال قبل ایک سیرئیل آیا تھا جس کا نام سیلاب تھا اور اُس کے ڈائریکٹر روی رائے تھے۔اُس میں ایک ٹائٹل گیت بھی تھا جس کا ایک شعر یوں تھا کہ
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
آدمی اور مٹی کا رشتہ صدیوں پرانا ہے، اس رشتے کو میں علاقہ، مذہب اور زبان سے جوڑنا نہیں چاہتا ہوں میرا آئیڈیل وہ انسان ہے جسے غالب ؔ نے ا نسان کے روپ میں گڑھا تھا۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا
میرے خیال سے ادیب، شاعر،نقّاد،سوچنے والا ذہن ماں کی کوکھ سے پیدا ہوجاتا ہے۔لیکن وہ زندگی بھر وراثت کے بوجھ کو گدھے کی طرح لادے ہوئے نہیں چل سکتا۔وہ اپنی وراثت میں کچھ چھوڑتا جاتا ہے اور کچھ جوڑتا جاتا ہے۔ اور اس طرح سے وہ اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔ غالب کے انسان کا رشتہ کشمیر سے بھی ہے، ایران سے بھی ہے، پاکستان سے بھی ہے،امریکہ سے بھی ہے،انگلینڈ سے بھی ہے ۔میرے والد کے پاس ایک شجرہ تھااُس شجرے کی ابتدا ایک فاضل نام کے شخص سے ہوئی تھی۔ممکن ہے کہ فاضل صاحب کشمیر سے آئے ہوں۔نہرو نے بھی ڈسکوری آف انڈیا میں کہا ہے کہ میں پیدا ہوا ایک گھر میں ہندوستانی بن کر اور وہ اتفاق تھا چند مثالوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ علاقائیت یا لسانیت یا مذہبیت ہی منزل کا راستہ ہے۔
ذاکر:نِدا صاحب آپ نے بار بار اس بات کا اعتراف کِیا ہے کہ آپ کی زندگی اور شاعری کا خمیرسورداس، میرا، کبیر ، نانک، جایسی، خسرو، رس خان، غالب، میر، ولی۔۔۔۔جیسے گنگا جمنی تہذیب کے میناروں سے اُٹھا ہے کشمیر میں بھی اسی تسلسل میں للیشوری، حبہ خاتون، نُند رِشی، شاہ ہمدان، مہجور، غنی کاشمیری،شیخ نورالدین نورانی،روپا بھوانی، رسول میر،کی صوفی روایت کا مستند حوالہ ملتا ہے۔آپ نے ان صوفی سنتوں کو کتنا پڑھا ہے ۔
ندا فاضلیؔ:حقیقتاً آدمی کی نشو نماخود اُس کے عمل سے شروع ہوتی ہے۔اور عمل سے ہی آگے بڑھتی ہے۔آپ جیسے جیسے زندگی کے راستے میں آگے بڑھتے میں آپ کی وراثت میں بہت کچھ شامل ہوتا جاتا ہے۔آپ نے جو نام لیے ہیں وہ صحیح بھی ہیں اُن میں بے شمار پنجاب کے صوفی بھی ہیں،بے شمار مختلف ممالک کے لوگ بھی ہیں اور اُن ہی میں انگریزی کے وہیٹ من بھی ہیں،روس کے پشکِن بھی ہیں،جیکوف بھی ہیں،شیکسپیئر بھی ہیں،اس طرح سے آپ جیسے جیسے زندگی کا سفر کرتے رہتے ہیں آپ کی ذہنی وسعت کے ساتھ ساتھ آپ کی وارثت کا دائرہ بھی پھیلتا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ آپ کا ویژن بھی بڑھتا جاتا ہے۔حقیقت میں آپ جس علاقے میں رہتے ہیں لسانی طور پر اُس علاقے سے وابستہ ہوتے جاتے ہیں۔
ذاکر:نِدا صاحب آپ سیاست پر بھی قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں،لیکن کشمیرکو لے کر آپ نے کم و بیش ہمیشہ بات کرنے سے احترازکیا ہے، ایسا کیوں؟
ندا فاضلی:یہ آپ کو کیسے پتہ کہ میں نے کشمیر کے تعلق سے کبھی بات نہیں کی ۔میرا ایک شعر ہے کہ۔۔۔۔ یہاں تو برف گرا کرتی ہے پہاڑوں سے۔۔۔ تمھارے شہر کا موسم دھواں دھواں کیوں ہے
ذاکر:ندا صاحب
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچّے کو ہنسایا جائے
یا
بچہ بولا دیکھ کے مسجد عالیشان
اﷲ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
یہ کون سا منتھن ہے۔ جو بار بار آپ کے یہاں ایک معصوم ترین بچہ آ دھمکتا ہے، آخر یہ کیا ہے؟جو ﷲ/مسجداورمذہب۔ ایک معصوم بچے کے مقابلے کھڑے کر دئے جاتے ہیں۔
ندا فاضلیؔ:پچھلے دنوں گورنمنٹ میرے تعلق سے ایک ڈاکیومنٹری بنارہی تھی تب میں غالبؔ کے مزار پر گیا تھا۔اور میں نے دعا مانگی تھی کہ غالب ؔ اچھا ہوا کہ تم بہت جلدی مر گئے۔اچھا ہوا کہ تم ابھی زندہ نہیں ہو،اگر تم اس وقت زندہ ہوتے تو تم پر سینکڑوں اعتراضات پیدا ہوجاتے۔اور مختلف جماعت والے آپ کو جینے نہیں دیتے۔ندا فاضلیؔ سے یہ شعر کوٹ کر کے سوال پوچھنے والوں سے میں سے میں پوچھنا چاہوں گا کہ یہ کیا ہے مثلاً
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
یا
اپنوں سے بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
ذاکر:نِدا صاحب ادب میں ساٹھ ستر کے جدیدیت کے ہنگام کے دنوں میں،آپ نے، عادل منصوری نے، بشیر بدر نے، زیب غوری ، ظفر اقبال نے عجیب سے تجریدی، تجرباتی اور لایعنی اشعار کامحشر بپا کیا تھا،مثلاً
سورج کو چونچ میں لئے مرغا کھڑا رہا
کھڑی کے پردے کھینچ دئے رات ہو گئی
آخریہ سب کیا تھا؟
ندا فاضلی:مجھے افسوس ہوتا ہے اعترض کرنے والوں پر۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اجمیر شریف کی دیگ سے ایک چاول نکال کر دیکھا جائے کہ پوری دیگ پک گئی ہے یا نہیں ۔ آپ بھی چند برے اشعار کو یاد کرکے کسی کی پوری شاعری پر فیصلہ نہیں کر سکتے۔آپ کو پوری شاعری کا مطالعہ کرنا چاہیے۔آپ کو ہر عہد کے شاعر کے یہاں اس طرح کے اشعار ملیں گے۔میرؔ کے چھ دیوان ہیں لیکن ان کا یہ مصرعہ کہ “اسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں”ان کی شعری عظمت کے شایانِ شان نہیں ہے۔داغ کے چار دیوان ہیں اُس میں اچھے اشعار بھی ہیں اور برے اشعار بھی ہیں ۔
ذاکر:اب ایک آدھ بات فلم کے حوالے سے،
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے
یا
ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے
جیسے گیت لکھنے والا نِدا فاضلی آج کہاں ہے؟آپ اچانک آہستہ آہستہ منظر سے ہٹتے چلے گئے،
ندا فاضلی:بات دراصل یہ ہے کہ مجھے کافی دنوں کے بعد احساس ہوا کہ معجزوں میں تو بیک وقت کئی گھوڑوں کی سواری ممکن ہے لیکن حقیقتاً ایک سوار ایک ہی گھوڑے پر سواری کر سکتا ہے۔ساحر لدھیانوی کامیاب فلمی نغمہ نگار رہے ہیں لیکن دو مجموعوں کے علاوہ تیسرا مجموعہ نہیں آسکا،مجروح سلطانپوری کامیاب نغمہ نگار رہے ہیں لیکن ایک مجموعے کے علاوہ دوسرا مجموعہ نہیں آسکا۔ناکام رہنے والوں میں جانثار اختر بھی ہیں جن کی کلّیات اِن دونوں حضرات سے دوگنی یا تگنی ہے۔ندا فاضلی کی کتابوں کی اگر گنتی کی جائے تو ان کی گنتی ہی سے شاید اس سوال کا جواب ممکن ہوجو آپ پوچھنا چاہتے ہیں۔ندا فاضلی ؔنے کئی سمتوں میں سفر کیا ہے ہے اُس نے فلمی گانے بھی لکھے ہیں، ڈائیلاگ بھی لکھے ہیں اور بی بی سی کے لیے کالمس بھی لکھے ہیں۔اس نے کتابیں بھی لکھی ہیں اور مختلف اصناف میں کام بھی کیا ہے۔
ذاکر:نِدا صاحب اردو زبان اور اردو ادب کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ اردو کی بہتری کے امکانات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ندا فاضلیؔ:دیکھئے اردو جو ہے وہ سیاسی نزلے میں آ گئی ہے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پاکستان میں بھی۔ہمارے یہاں colonial hangover ہے۔ اس سے ہم لوگ ابھی تک باہر نہیں آئے۔ انگریزی کیریئر کی زبان بن چکی ہے۔دوسری بات یہ کہ ہندوستان میں اردو کے ساتھ ایک مسئلہ آگیا ہے مذہب کا ، جہاں تک رسم الخط کا سوال ہے دنیا کی کئی بڑی زبانیں ایک ہی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔اور وہ ہے رومن رسم الخط ہے۔وہ رشین ہو جرمن ہو میکسیکن ہوامریکن ہوبرٹش ہویا کوئی اور۔لیکن اس کے باوجود ہر زبان کا اپنا ایک لسانی کیریکٹر ہے مثلاً اٹالین جو ہے وہ جرمن سے الگ ہے،جرمن میکسیکن سے الگ ہے،میکسیکن رشین سے الگ ہے۔لیکن مسئلہ اردو کا عجیب ہے۔اردو کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو جاننے والا ہی اردو پڑھ سکتا ہے۔آپ اعراب کا استعمال نہیں کرتے مثلاً ایک لفظ ہے دَانِشوَر اسے کئی طرح پڑھا جا سکتا ہے۔ اسے دانشُور بھی پڑھ سکتے ہیں دانِشور بھی پڑھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کہ ہمارا سرمایا اردو میں ہے۔لیکن میں کہتا ہوں کہ ہمارا سرمایا عربی میں بھی ہے فارسی میں بھی ہے۔جہاں تک املا کی اصلاح کا سوال ہے رشید حسن خاں نے یہ کام شروع کیا تھا۔خواجہ حسن نظامی نے یہ کام شروع کیا تھا۔لیکن لوگوں نے توجہ نہیں دی آج بھی ہم بین الاقوامی لکھتے ہیں۔آج بھی فارغ الاصلاح عربی انداز میں لکھتے ہیں۔ہمارے یہاں اس زبان کو عوامی بنایا ہی نہیں جا رہا ہے۔یا بنایا نہیں گیا۔اور یہ مسئلہ بہت ہی لجھا ہوا ہے کہ جو موجود ہ سیاست ہندوستان کی ہے کہ ہندو،ہندی، ہندوستان۔بیوقوفوں کو یہ نہیں معلوم کہ ہندی اردو کا ہی ایک نام ہے۔غالب نے اپنے کلام کو کلامِ ہندی کہا ہے۔امیر خسرو کی زبان کا رسم الخط فارسی رسم الخط تھا۔مثلاً
خسرو رین سہاگ کی جاگی پی کے سنگ ۔۔۔۔ تن میرا من پیو کا دونوں بہے ایک رنگ۔۔۔۔۔ اس میں تن، من، رین ،خسرو ،سہاگ ،یہ زبان ہندوستانی ہے۔یہ وہی زبان ہے جو آگے چل کر ہندی اور اردو کے روپ میں سامنے آئی۔دیکھئے جب تک زبان کا تعلق روزگار سے نہیں جڑے گا تب تک زبان کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔آپ یہ دیکھئے امارت کی جو فلائٹس ہوتی ہیں۔دبئی کی جو فلائٹس ہوتی ہیں۔اس میں اردو اخبار نہیں ہوتا ،تمل ہوتا ہے کنّڑ ہوتا ہے۔انگریزی ہوتا ہے،کیونکہ وہ کاروباری طور پر ان لوگوں سے وابستہ ہیں جو ان تمام زبانوں کو جانتے ہیں۔اردو سب کی زبان ہے اتفاق سے اردو کا علاقہ بھی وہی ہے جو ہندی کا علاقہ ہے۔بنگال میں اردو بنگالی کی زبان نہیں، گجرات میں اردو گجراتی کی زبان نہیں ہے۔کنّڑ میں اردو کنّڑ کی زبان نہیں ہے۔یوپی، بہار، راجستھان، ایم پی یہی ہندی کے بھی گھر ہیں اور یہی اردو کے بھی گھر ہیں۔یہیں خسرو ہیں یہیں غالب ہیں۔یہیں میرا ہیں یہیں کبیر ہیں۔۔۔۔

شکریہ ندا فاضلی ؔصاحب آپ نے ہمیں اپنے قیمتی وقت سے نوازا۔

Intekhab E Kalam Nida Fazli

Articles

निदा फ़ाज़ली انتخابِ کلام ندا فاضلی

ندا فاضلی

 

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو

جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں

چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا

یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں

زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا

چراغ جلتے ہیں بینائی بجھنے لگتی ہے

خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا

कभी किसी को मुकम्मल जहाँ नहीं मिलता

कहीं ज़मीन कहीं आसमाँ नहीं मिलता

तमाम शहर में ऐसा नहीं ख़ुलूस हो

जहाँ उमीद हो इस की वहाँ नहीं मिलता

कहाँ चराग़ जलाएँ कहाँ गुलाब रखें

छतें तो मिलती हैं लेकिन मकाँ नहीं मिलता

ये क्या अज़ाब है सब अपने आप में गुम हैं

ज़बाँ मिली है मगर हम-ज़बाँ नहीं मिलता

चराग़ जलते हैं बीनाई बुझने लगती है

ख़ुद अपने घर में ही घर का निशाँ नहीं मिलता


2

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم

ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے

برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے

کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے

ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے

غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں

پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے

آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو

آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے

दुनिया जिसे कहते हैं जादू का खिलौना है

मिल जाए तो मिट्टी है खो जाए तो सोना है

अच्छा सा कोई मौसम तन्हा सा कोई आलम

हर वक़्त का रोना तो बे-कार का रोना है

बरसात का बादल तो दीवाना है क्या जाने

किस राह से बचना है किस छत को भिगोना है

ये वक़्त जो तेरा है ये वक़्त जो मेरा है

हर गाम पे पहरा है फिर भी इसे खोना है

ग़म हो कि ख़ुशी दोनों कुछ दूर के साथी हैं

फिर रस्ता ही रस्ता है हँसना है रोना है

आवारा-मिज़ाजी ने फैला दिया आँगन को

आकाश की चादर है धरती का बिछौना है


3

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں

تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا

خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو

یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں

انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

सफ़र में धूप तो होगी जो चल सको तो चलो

सभी हैं भीड़ में तुम भी निकल सको तो चलो

किसी के वास्ते राहें कहाँ बदलती हैं

तुम अपने आप को ख़ुद ही बदल सको तो चलो

यहाँ किसी को कोई रास्ता नहीं देता

मुझे गिरा के अगर तुम सँभल सको तो चलो

कहीं नहीं कोई सूरज धुआँ धुआँ है फ़ज़ा

ख़ुद अपने आप से बाहर निकल सको तो चलो

यही है ज़िंदगी कुछ ख़्वाब चंद उम्मीदें

इन्हीं खिलौनों से तुम भी बहल सको तो चलो


4

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں

پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے

کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب

سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں

ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار

اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں

گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم

ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں

अपनी मर्ज़ी से कहाँ अपने सफ़र के हम हैं

रुख़ हवाओं का जिधर का है उधर के हम हैं

पहले हर चीज़ थी अपनी मगर अब लगता है

अपने ही घर में किसी दूसरे घर के हम हैं

वक़्त के साथ है मिटी का सफ़र सदियों से

किस को मालूम कहाँ के हैं किधर के हम हैं

चलते रहते हैं कि चलना है मुसाफ़िर का नसीब

सोचते रहते हैं किस राहगुज़र के हम हैं

हम वहाँ हैं जहाँ कुछ भी नहीं रस्ता दयार

अपने ही खोए हुए शाम सहर के हम हैं

गिनतियों में ही गिने जाते हैं हर दौर में हम

हर क़लमकार की बे-नाम ख़बर के हम हैं


5

جتنی بری کہی جاتی ہے اتنی بری نہیں ہے دنیا

بچوں کے اسکول میں شاید تم سے ملی نہیں ہے دنیا

چار گھروں کے ایک محلے کے باہر بھی ہے آبادی

جیسی تمہیں دکھائی دی ہے سب کی وہی نہیں ہے دنیا

گھر میں ہی مت اسے سجاؤ ادھر ادھر بھی لے کے جاؤ

یوں لگتا ہے جیسے تم سے اب تک کھلی نہیں ہے دنیا

بھاگ رہی ہے گیند کے پیچھے جاگ رہی ہے چاند کے نیچے

شور بھرے کالے نعروں سے اب تک ڈری نہیں ہے دنیا

जितनी बुरी कही जाती है उतनी बुरी नहीं है दुनिया

बच्चों के स्कूल में शायद तुम से मिली नहीं है दुनिया

चार घरों के एक मोहल्ले के बाहर भी है आबादी

जैसी तुम्हें दिखाई दी है सब की वही नहीं है दुनिया

घर में ही मत उसे सजाओ इधर उधर भी ले के जाओ

यूँ लगता है जैसे तुम से अब तक खुली नहीं है दुनिया

भाग रही है गेंद के पीछे जाग रही है चाँद के नीचे

शोर भरे काले नारों से अब तक डरी नहीं है दुनिया


Global Village and Society

Articles

عالمی بستی اور سماج

پروفیسر طفیل ڈھانہ

 

ہم عالمی بستی کے لوگ ہیں۔ گلوبل ولیج بن گئی ہے دنیا ہماری۔ بڑی بحث تھی اس موضوع پر ، بڑا شور تھا گلوبلائزیشن پر ، مگر اب نہیں ہے۔ اب ہم گلوبلائزیشن کے ساتھ جینا سیکھ رہے ہیں۔ پہلے ڈر رہے تھے ، اب تربیت لے رہے ہیں۔ گلوبلائزیشن والے کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ دنیا سب کے لیے ایک جیسی ہوگئی ہے۔ تبدیلی ٹیکنالوجی کے ساتھ آئی ہے، معاشی بھی اور اخلاقی بھی۔ کلوننگ، کمپیوٹر، سیٹیلائٹ اور بہت سی ٹیکنالوجی لے کے آئی ہے مابعد جدیدیت ۔ گلوبلائزیشن بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھ کر ہم کسی سے بھی رابطہ اور بات چیت کرسکتے ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہیں درمیان میں۔ یہ ہے گلوبل وِلیج ۔ جو جغرافیائی سرحدیں نیشنل ازم نے بنائی تھیں وہ اب برائے نام رہ گئی ہیں۔
پہلے بس ایک سرکاری چینل تھالیکن اب سینکڑوں چینلس ہیں۔ خبر پر سرکار جو پابندی لگاتی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے۔ گلوبل وِلیج میں کہاں کیا ہوا ، اب ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اچھا ہے میڈیا آزاد ہوا کیو نکہ ہم دنیا سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ مگر میڈیا کی آزادی عالمی کارپوریشنوں کا بھی مطالبہ تھا۔ لہٰذا قومی خبروں کا زمانہ گیا۔ عالمی خبروں کا عہد آگیا ہے۔ اس میں بزنس ہے۔ میڈیا والے اطلاعات بیچتے ہیں، ہم خریدار ہیں۔ قومی میڈیا قومی اطلاعات دیتا تھا ، عالمی میڈیا عالمی اطلاعات لے کے آگیا ہے۔ عالمی میڈیا عالمی کارپوریشن لے کے آئی ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ خبروں کے درمیان ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کا اشتہار آجاتا ہے۔ اس لیے ، کیونکہ آزاد میڈیا کارپوریشنوں کا نوکر ہے۔ ہرچینل پر کارپوریشنوں کے اشتہار چلتے ہیں کیونکہ وہ پیسہ دیتے ہیںچینل والوں کو۔ اس بزنس میں کمائی اچھی ہے۔ ساری خبریں، سارے پروگرام عالمی کارپوریشنوں کے پیسوں سے چلتے ہیں۔ خدمت نہیں ، یہ بزنس ہے۔ عالمی کارپوریشن جو دکھائے گی، ہم دیکھیں گے۔ جو بیچے گی ہم خریدیں گے۔ ٹیکنالوجی ملٹی نیشنل کارپوریشن کے پاس ہے۔ چینل والے ٹیکنالوجی خریدنے والے ہیں۔ کارپوریشن نے میڈیا ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے تو اسے فروخت بھی کرنا ہے۔ لہٰذا میڈیا کو آزادی دلائی کارپوریشن والوں نے۔ ہم بھی خوش اور وہ بھی خوش۔
رابطوں کے لیے موبائل فون بنادیا ۔ کمپنیوں نے ہمارے لیے انٹرنیٹ چلا دیا۔ ہم رابطہ کرسکتے ہیں مگر قیمت ادا کرتے ہیں کمپنی والوں کو۔ ہماری ضرورت کا سارا سامان ہے ان کے پاس ۔ لہٰذا وہ بیچے گیں اور ہم خریدیں گے۔ اس لیے کارپوریشن والے گلوبلائزیشن لے کے آئے ہیں۔ زراعت ، صنعت ، تعلیم ، تجارت ، ٹرانسپورٹ میں کارپوریشن آگئی ہے۔ موٹر وے بنایا، بسیں چلا رہے ہیں۔ ریلوے وزیر نہیں چلا سکتے مگر ملٹی نیشنل والے چلا لیں گے۔ بجلی کمپنیاں بنارہی ہیں، گیس ، تیل کمپنیاں نکالتی ہیں۔ ڈیم کمپنیاں بنادیں گی۔ کیونکہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہے نہ سرمایہ۔ علم و دانش اور سائنس سبھی کچھ کمپنیوں کے دستِ نگر ہے۔ شہر میں ڈپارٹمنٹل اسٹور کھلے ہیں، گورمے اور میکڈونلڈ۔ یہاں بھی کمپنیوں کی فروخت ہوتی ہے۔ کمپنی کے مقابلے میں ہماری دکان نہیں چل سکتی۔ عالمی بستی میں ہم پرچون فروش ہیں۔ ہمارے کاروباری اشرافیہ کی اس سے بڑی حیثیت نہیں ہے عالمی معاشی نظام میں۔
مجھے لالہ لال دین یاد آتا ہے۔ لال دین پھیری والا، کپڑا بیچتا تھا۔ شہر سے کپڑا لاکے گاﺅں میں بیچتا تھا لال دین سائیکل پر۔ کبھی سائیکل خراب، کبھی طبیعت خراب۔ پھر یوں ہوا کہ کپڑے کی ایک بڑی دکان کھل گئی گاﺅں میں۔شہر سے آیا ہوا یک بڑا سودا گر تھا وہ دکان کھولنے والا۔ لالہ لال دین بوڑھا ہوگیا تھا، تھک گیا تھا۔ اس نے بڑی دکان پر نوکری کرلی۔ وہ دکان کھولتا، جھاڑو دیتااور مالک کی خدمت کرتا تھا۔اچھا شریف آدمی تھا ، لال دین پھیری والا۔ کاروبار میں کامیابی کادرس دیتا تھا بستی کے نوجوانوں کو۔
عالمی بستی میں ، میونسپل کمیٹی سے بڑی حیثیت نہیں ہے حکومت کی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے حکومت کو جو کام دیا ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا کہ ایک میونسل کمیٹی کے پاس ہوتا ہے۔ امن قائم کرو تاکہ ملک میں کاروبار چلے۔ شہروں کی صفائی کرو، ٹریفک کنٹرول کرو۔کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہنر مند تیار کرو۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہماری حکومت اتنا کرلے تو اچھا ہے۔ نہیں تو یہ لوگ حکومتوں کا سودا کرنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔
پچھلی صدی میں حملہ کیا تھا امریکہ نے عراق پر۔ بغداد قدیم تہذیب کی بنیاد والا کلاسیکل شہر تھا۔ برباد کیا نیٹو والوں نے۔ نیٹو فوجی کارپوریشن ہے۔ عراق تنہا تھا ، مگر صدام تنہا نہ تھا۔ کتنے لوگ عراق والوں کے ساتھ تھے، صدام کے ساتھ تھے۔ مگر احتجاج کام نہ آیا۔ کتنے بڑے بڑے جھوٹ بولے تھے بش نے عراق پر حملہ کرنے کے لیے۔
صدام نے اجازت نہ دی تھی کارپوریشن والوں کو عراق میں داخل ہونے کی۔ بس اتنی لڑائی تھی۔ عراق قومی ریاست تھی۔ لوگ خوشحال تھے، اچھا معاشرہ تھا، کارپوریشنوں والے عراق والوںکو لوٹنے آئے تھے۔صدام نے انکار کیا اور دروازے بند کردیئے تھے کارپوریشن والوں کے لیے۔ مگر اندر سے کچھ سیاست پیشہ مل گئے امریکہ والوں کو۔ وہ کارپوریشن والوں کے ساتھ بزنس چاہتے تھے اس لیے اُن کے ساتھ مل گئے۔ عراق کی حکومت میں جو لوگ تھے سارے قتل کیے گئے۔ صدام کو سولی پرچڑھایا گیا۔ کیا جج تھا ، عدالت لگانے والا؟ کیا حکومت تھی عراق میں؟ پارلیمنٹ کی حیثیت میونسپل کمیٹی سے زیادہ نہ تھی اُس وقت عراق میں۔ جمہوریت تو امریکہ میں نہیں، یورپ میں بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں بھی کارپوریشن کی سلطانی ہے۔ قذافی کو مار کے صحرا میں دفن کیا۔ شام اور یمن میں خانہ جنگی کا دور دورہ ہے۔ کہانی بس اتنی ہے کہ دیواریں گرا رہے ہیں گلوبلائزیشن والے ، اپنی دنیا بنانے کے لیے۔
٭٭٭
مشمولہ سہ ماہی ” ارد چینل“ شمارہ نمبر 34 صفحہ نمر 58تا 60

Mumbai ki Baz’m AaraiyaN

Articles

بمبئی کی بزم آرائیاں

رفعت سروش

بمبئی بچپن سے میرے خوابوں میں بسا ہوا تھا۔ یہ خواب میرے ساتھ جوان ہوا اور میں نگینہ سے نکل کر اور دو سال دہلی کے دفتروں کی خاک چھان کر بالآخر اپنے بچپن کے خوابوں کے شہر بمبئی پہنچ گیا۔
اسٹیشن کی بھیڑ کو چیرتا ہوا جب میں باہر نکلا تو بوری بندر پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔میں نے جیب سے پتے کا پرچہ نکال کر وکٹوریہ والے سے کہا کہ کھڑک پر زینب چیمبرس چلو ۔ وکٹوریہ میں بیٹھتے ہی دہلی اور بمبئی کا فرق واضح ہوگیا۔ وکٹوریہ کرافورڈ مارکیٹ اور پھر محمد علی روڈ ہوتی ہوئی ، مینارہ مسجد سے کھڑک کی طرف مڑی اور آگے چل کر ایک گندی سی سڑک پر ایک پرانی بلڈنگ کے سامنے رکی۔ یہی میری منزلِ مقصود تھی۔
ذریعہ معاش اور ادبی مشاغل کو میں نے دہلی میں بھی الگ الگ رکھا تھا اور بمبئی میں یہی روش اختیار کی ایک حیثیت سے میری شخصیت کے یہ دو متوازی روپ تھے۔دہلی میں سرکاری دفتروں میں نوکری کرتا تھا اور ادیبوں اور انقلابی دوستوں کے ساتھ شامیں گزارتا تھا۔ مجاز ؔان میں سے ایک تھا۔ دہلی سے چلتے وقت مجھے مجاز نے سردار جعفری کے نام ایک تعارفی پرچہ دیاتھا اور ان الفاظ میں سردار کا غائبانہ تعارف کرایاتھا کہ سردار جعفری ترقی پسندوں کا ظفر علی خاں ہے۔بمبئی پہنچنے کے چند روز بعد جب اس ہنگامہ خیز شہر کی سڑکوں اور راستوں سے کسی قدر واقف ہوگیا تو کھیت واڑی پر کمیونسٹ پارٹی آفس پہنچا۔ میں بلڈنگ کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک دُبلا پتلا پھرتیلا نوجوان بلڈنگ کے چوڑے زینے کی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔ میں نے اسے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے سردار جعفری سے ملنا ہے۔اس نے کہا،فرمائیے میرا نام علی سردار جعفری ہے۔ میرے ذہن میں علی سردار جعفری نام تھا کسی بھاری بھرکم شخصیت کا ۔
مگر میرے سامنے ایک نوجوان تھا میرے ہی جیسے قد و قامت کا ، کھادی کے کرتہ پاجامہ میں ملبوس اور لمبے بالوں کو انگلیوں سے سنوارتا ہوا ، عمر میں کچھ مجھ سے بڑا ۔خیر میں نے اپنا تعارف کرایا اور مجاز کا پرچہ دیا۔سردار بہت اخلاق سے ملے اور مجھے اپنے ساتھ ’’قومی جنگ‘‘ کے دفتر لے گئے ۔ ’’قومی جنگ‘‘ کا دفتر کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں ہی تھا اس لیے وہاں اس وقت کے دانشور ، ادیب اور شاعر موجود تھے اور وہیں سے ’’نیا ادب‘‘ نکلتا تھا۔
سب سے پہلے سردار نے مجھے کیفی اعظمی سے ملایا ۔ میں نے کیفی کی ایک نظم ’’عورت‘‘ پڑھی تھی اور اس کی وہ نظم ’’اب تم آغوش تصور میں نہ آیا کرو‘‘ حال ہی میں چھپی تھی۔ کیفی کی شخصیت پر ایک گو نہ بے خودی سی طاری تھی۔ لہجے میں گہرائی اور ٹھہرائو، آنکھوں میں خلوص ، چہرے پر سکون ۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ پر سکون شخص جب انقلابی نظم پڑھتا ہے تو آواز اور انداز بیان سے الفاظ اور معنی کو مجسم کردیتا ہے اور مجمع پرپہلے تو استعجاب و تحسین کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور پھر وہ بے اختیار ہوجاتا ہے۔
یہ سبطِ حسن ہیں ۔چھریرے بدن،سبک نقوش پہ سوچتی ہوئی آنکھیں، دھیما لہجہ ۔تو یہ ہیں ’’نیا ادب‘‘ کے ایڈیٹر اور مجاز کے پرانے ساتھی۔
یہ ہیں ڈاکٹر کنور محمد اشرف۔ڈاکٹر اشرف کو میں نے بہت پہلے ۱۹۳۵ء یا ۳۶ء میں موانہ ضلع میرٹھ میں دیکھا تھا ۔ کانگریس کے ایک جلسے میں پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں اپنی جگہ جلسے کی صدارت کرنے بھیج دیا تھا۔ ڈاکٹر اشرف کی تقریر کا لطف میرے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ تھا۔ میں نے بڑی عقیدت سے انھیں آداب کیا اور ان کے پروقار مگر بے تکلف انداز گفتگو نے مجھے مسحور کرلیا۔
بنے بھائی ، سیّد سجاد ظہیر _____’’لندن کی ایک رات ‘‘ اور ’’انگارے‘‘ والے سجاد ظہیر سے ملاقات ہوئی ۔کیا متبسم اور پاکیزہ شخصیت ہے اور کیا اپنا پن ہے ان کی باتوں میں ۔ان کی شخصیت کا جادو دل پر چل گیا اور ایسا کہ اب تکاثر باقی ہے۔
’’قومی جنگ‘‘ کے دفتر کی ایک میز پر محمد علی بیٹھے اور دوسری میز پر علی اشرف ۔ یہ صحافی برادری کے آدمی تھے ، کم سخن لیکن پر خلوص ۔
ان سب لوگوں سے مل کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے گمشدہ کنبے میں آگیا ہوں۔ اتنی اپنائیت مجھے مجاز کے علاوہ اور کسی سے نہیں ملی تھی۔ میں نے ایک دو نظمیں سنائیں جنھیں سبھی نے پسند کیا اور خاص طور پر سردار جعفری نے بہت ہمت افزائی کی۔ پھر تو میرا معمول ہوگیا کہ دوسرے تیسرے دن جب موقع ملتا پارٹی آفس چلا جاتا اور کچھ نہ کچھ اپنے دامن میں لے کر واپس آتا۔
کمیونسٹ پارٹی کے ان لوگوں نے مجھے ان کی علمی اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ جس چیز نے خاص طور پر متاثر کیا وہ تھا ان کا خلوص اور بے غرض کام کرنے کا جذبہ۔اکثر لوگ کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے مگر بڑے پیمانے پر انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور جبر و استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرنے کی لگن انھیں ہندوستان کے گوشے گوشے سے اس کمیون میں کھینچ لائی تھی جہاں ایک سخت انتظام کے تحت راہبانہ زندگی گزارتے تھے۔ سادہ کھاتے تھے اور موٹا چھوٹا پہنتے تھے ، علمی اور سیاسی مشاغل پر زندگی گزارتے تھے۔ جد و جہد کرتے تھے اور محض اپنے لیے نہیں، ملک اور انسانیت کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے تھے ۔ ان کی ادائیگی فرض کا اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’قومی جنگ‘‘ کے ایڈیٹران سردار جعفری اور کیفی اعظمی وغیرہ پھیری والے کی طرح بھنڈی بازار اور دیگر علاقوں میں اپنا اخبار بیچنے میں گریز نہیں کرتے تھے۔
ہفتہ وار ’’نظام‘‘ کا دفتر ہم چند ادیبوں کا اڈہ تھا۔ قدوس صہبائی تو اڈیٹر تھے ہی ، بہت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ۔ بھوپال سے آئے تھے اور وہاں بائیں بازو کی سیاست سے ان کا تعلق تھا، اس لیے ان کے پرچے کی پالیسی بھی یہی تھی۔ ’’نظام‘‘ کسی پارٹی کا آرگن نہ ہوتے ہوئے بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کا آرگن بن گیا تھا اور اس کی ہفتہ وار میٹنگوں کی تفصیلی رپورٹیں باقاعدگی سے اس میں چھپتی تھیں۔ اس کے علاوہ ہم سب ترقی پسند ادیب اپنی منظومات اور افسانے قدوس صہبائی کو فراخ دلی سے ’’نظام‘‘ کے لیے دیتے تھے اور وہ بہت نمایاں انداز میں چھاپتے تھے۔ اکثر کسی نہ کسی ادیب کا فوٹو ’’نظام‘‘ کے سرورق پر ہوتا اور ایک نظم ____یہ پرچہ کئی سال تک بڑے کر و فر سے چلا۔ آج اگر اس کے فائل کسی کے پاس ہوں تو اس زمانے کی ادبی تاریخ مرتب کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک یادگار دور کی سرگرمیوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
’’نظام‘‘ کے دفتر میں روز شام کو آنے والوں میں تھے ساحرؔ لدھیانوی ، حمید اختر ، ابراہیم جلیس ____ساحرؔ ’’ادب لطیف‘‘ چھوڑ کر لاہور سے اپنی قسمت آزمانے ایک نئی فلم کمپنی میں آگئے تھے (کچھ کلا مندر قسم کا نام تھا اس کا) اوران کے ساتھ حمید اختر آئے تھے جو ساحرؔ کے جگری دوست اور افسانہ نگار تھے ۔ حیدر آباد سے ابراہیم جلیس آگئے تھے۔ ان کا بھی اس فلم کمپنی سے تعلق تھا۔ ابراہیم جلیس بھی بڑے زندہ دل آدمی تھے ۔ ہم لوگوں میں بے تکلف دوستی تھی۔ تقریباً سب ہم عمر تھے اکثر یوں ہوتا کہ ہم لوگ ’’نظام‘‘ کے دفتر میں شام کو ملتے۔ چائے پیتے اور پھر جے جے اسپتال سے پلے ہائوس ہوتے ہوئے بازار حسن سے بے تعلق گزرتے ہوئے بلاسس روڈ آجاتے اور ناگ پاڑے سے اپنی اپنی بس پکڑ کر ادھر ادھر ہوجاتے_____راستے میں دلچسپ فقرے بازی اور لطیفے ہوتے اور پتہ بھی نہ چلتا کہ یہ کئی میل لمبا رستہ کیسے کٹ گیا _____ہم لوگوں کی اس دلچسپ حرکت پر قدوس صہبائی نے ’’نظام‘‘ کے مزاحیہ کالم ’رنگ ترنگ‘ میں چار اونٹ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا _____ انھیں دنوں ابراہیم جلیس نے بمبئی پر ایک رپورتاژ لکھا تھا ’’شہر‘‘ ۔ یہ رپورتاژ بھی ’’نظام‘‘ میں چھپا تھا۔
’’نظام‘‘ کے دفتر میں ہی اسمعیٰل یوسف کالج کے ایک ہونہار طالب علم عالی جعفری سے ملاقات ہوئی تھی ۔ ان کا گھر دفتر کے بالکل قریب تھا اس زمانے میں انھوں نے غالباً کچھ چینی کہانیوں کے ترجمے ’’نظام‘‘ میں چھپوائے تھے _____بعد میں عالی جعفری نے شاعری اور افسانہ نگاری تو برائے نام ہی کی مگر وہ ایک اچھے معلم ثابت ہوئے اور اب وہ بمبئی کے علمی حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ۔
قدوس صہبائی کے دفتر میں ہی بھوپال کے نوجوان جرنلسٹ احمد علی سے ملاقات ہوئی بہت ہی سنجیدہ طبع نوجوان _____اوراب ۱۹۸۲ء میں ان سے کراچی میں ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر ہیں اور ہاجرہ مسرور کے شوہر۔
انجمن ترقی پسند مصنفین پر شباب آگیا تھا اور اس کی ہفتہ وار نشستیں بنے بھائی کے مکان ۹۶؍ والکیشور روڈ پر نہایت پابندی اور باقاعدگی سے منعقد ہونے لگی تھی۔
اتوار کو دوپہر بعد ہر ادیب و شاعر کا راستہ بنے بھائی کے گھر کی طرف جاتا تھا کوئی باقاعدہ عہدوں کی تقسیم نہیں تھی، سب ممبر تھے۔ حمید اختر نے سکریٹری کاکام سنبھال لیا تھا اور باقاعدہ سچی سچی اور دلچسپ رپورٹ لکھتے تھے ____ ’’قومی جنگ‘‘ کے ادارہ میں ایک کبھی نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا تھا اور ایک خوشگوار اضافہ بھی ہوگیا تھا۔ خلا تھا سیّد سبطِ حسن کے ذاتی سلسلے میں امریکہ چلے جانے کی وجہ سے اور خوشگوار اضافہ تھا ،ظ۔ انصاری کی آمد سے۔ دلّی کے پارٹی آفس سے سبطِ حسن کی جگہ ظ۔ انصاری بمبئی لائے گئے تھے_____ظ۔ انصاری ان دنوں انجمن کے جلسوں میں رونق اور تفریح کا سامان بنے تھے ______ظ۔ انصاری (ظل حسین انصاری) میرٹھ کی شیعہ درس گاہ منصبیہ کالج کے پڑھے ہوئے تھے اور کچھ عرصہ پہلے روزنامہ ’’انصاری‘‘ دہلی میں کام کرتے تھے۔ صحافی بھی تھے اور شاعر بھی۔ہماری انجمن کی میٹنگ میں عام طور پر ایک نظم پڑھی جاتی ، ایک افسانہ اور ایک آدھ مقالہ اور کھل کر بحث ہوتی _____بحث کا ایک پیٹرن بن گیا تھا۔ عام طور پر سب سے پہلے ظ۔ انصاری مکتبی قسم کا اعتراض کرتے۔ اس کی ’’ہ‘‘گری ہے ، اس کا ’’الف‘‘ زیادہ ہے، یہ مصرعہ یوں نہیں یوں ہونا چاہیے یا ٹکنیک کمزور ہے اور بحث شروع ہوجاتی۔ جب دوچار آدمی بول چکتے تو سردار جعفری اپنے فیصلہ کن انداز میں مختصر تقریر کرتے _____اور موضوع اور اس کی اہمیت پر زیادہ زور دیتے اور محفل کو اپنا ہم نوا بنالیتے _____لیکن ظ۔ انصاری آخر میں کہتے ’’ مگر میرا اعتراض باقی ہے‘‘۔ ایک میٹنگ کی بات یاد آئی _____ساحرؔ لدھیانوی نے اپنی تازہ نظم ’’جہانگیر ‘‘ سنائی اس کا ایک مصرع تھا :
’’ہم کوئی بھی جہاں نورو جہانگیر نہیں‘‘
مگر ظ۔ انصاری نے کہا ____جہاں نور غلط ہے ۔ مصرع یوں ہونا چاہیے:
’’یاں کوئی نور جہاں اور جہانگیر نہیں‘‘
سردار نے اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ مصرع خوبصورت اور رواں دواں ہے اور ’’جہاں نور‘‘ کہنے میں ایک خاص معنویت ہے۔ مگر سب کی سننے کے بعد وہ یہی بولے _____’’میرا عتراض باقی ہے۔‘‘
ان کا اعتراض باقی رہتا اور صاحب صدر میٹنگ کی کاروائی آگے بڑھانے ا شارہ کرتے۔
جب بات زیادہ الجھ جاتی تو بنے بھائی بولتے تھے ۔ جن کا سب لوگ احترام کرتے تھے۔ اصل میں بنے بھائی کی وجہ سے ایک توازن قائم تھا۔ انھوں نے انجمن کے دروازے کسی پر بند نہیں کیے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سکّہ بند ترقی پسندوں کے علاوہ وہ ادیب اور شاعر بھی ان میٹنگوں میں آئیں جن کا براہ راست تحریک سے تعلق نہیں ہے۔ کاروائی میں حصہ لیں، بحث و مباحثہ ہو اور ذہنوں میں زیادہ کشادگی پیدا ہو، اورحلقۂ ادب اور وسیع ہو۔
یہ ان کی وسیع النظری کا ہی نتیجہ تھا کہ ان جلسوں میں جگرؔ صاحب بھی شریک ہوتے اور یگانہ چنگیزی بھی ، ذوالفقار بخاری اور پطرس بخاری بھی ۔جن کا بائیں بازوں کی سیاست یا ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا ان لوگوں کے کلام اور خیالات کو نہایت احترام سے سناگیا۔ جس میٹنگ میں پطرس بخاری کو خصوسی طور پر بلایا گیا تھا وہ بہت دلچسپ تھی۔ پطرس سے مختلف باتوں کے علاوہ علامہ اقبال کے بارے میں پوچھا گیا _____انھوں نے کئی دلچسپ باتیں بتلائیں۔ مثلاً یہ کہ اقبال کو کسی خاص سیاسی مسلک سے کٹر پن کی حد تک وابستگی نہیں تھی۔ وہ تو شاعر تھے جو کچھ سامنے آیا اس پر نظم لکھ دی۔ کارل مارکس یا لینن کے متعلق ان کی نظمیں پڑھ کر یہ سمجھنا کہ وہ کمیونسٹ تھے غلط ہوگا۔ کہنے لگے ، ایک بار مجھ سے کسی بات پر گفتگو ہورہی تھی جس نے بحث کی شکل اختیار کرلی۔ اگلے دن جو میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو کہنے لگے میں نے تمہارے بارے میں ایک نظم لکھی ہے اور وہ نظم سنائی ۔ ’’فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘۔
بنے بھائی کے گھر کبھی کبھی بہت دلچسپ میٹنگیں ہوتی تھیں۔ جوشؔ صاحب مستقل طور پر تو پونہ رہتے تھے مگر کبھی کبھی بمبئی آتے اور اتوار ہوتا تو پی ڈبلیو اے کی میٹنگ میں ضرور آتے۔ چنانچہ ایک میٹنگ میں آئے تو اپنی برقعہ پوش محبوبہ کو بھی ساتھ لائے اور پورے موڈ میں اپنا کلام سنایا۔ محبوبہ کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیا۔ ان سے چہرے سے نقاب اٹھانے کو کہا _____اور خوبصورت تشبیہوں اور استعاروں سے بھر پور اپنی وہ حسین نظم سنائی۔
’’برقعہ برفگن‘‘ ____یہ نظم ان کے کسی مجموعہ کلام میں چھپی ہے اور کالے برقعہ میں ملبوس بے نقاب مگر محبوب حسن پر کئی معرکتہ الآرا رباعیاں بھی ہیں ____یہ کلام اسی برقعہ پوس حسینہ کارہینِ منت ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کی میٹنگوں کی اہمیت اور افادیت مسلم تھی۔ بمبئی کے سب ادیب نہایت سنجیدگی اور پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ کرشن چندر ، خواجہ احمد عباس، بلراج ساہنی ، رامانند ساگر، اختر الایمان ، نیاز حیدر ، مجروح سلطان پوری، قدوس صہبائی، وشوا متر عادل، پریم دھون اور وہ سب جن کا ذکر گزشتہ صفحات میں آچکا ہے انجمن کے روح رواں تھے ۔
اس زمانے میں ہم لوگوں کی نظمیں انجمن کی میٹنگوں سے چھن کر ہی رسائل میں چھپتی تھیں۔ معقول اور تعمیری تنقید کی روشنی میں نظر ثانی کی جاتی تھی ____ نظریاتی بحث پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین بمبئی کا خوشگوار دور اس وقت تک جاری رہا جب تک بنے بھائی بمبئی رہے۔ ان کے ترکِ وطن کرنے کے بعد انجمن کے جلسوں کی جگہ اور نوعیت بھی بدل گئی اور وہ وقت کے سخت تھپیڑے کھانے لگی۔
بمبئی جد و جہد آزادی کا اہم مرکز تھا۔ اس شہر نے خلافت کا شباب دیکھا۔ یہیں انڈین نیشنل کانگریس کے بہت سے اہم جلاس ہوئے _____خاص طور پر ۱۹۴۲ء کا وہ اجلاس جس میں ’’ہندوستان چھوڑو دو‘‘ ریزولیشن پاس ہوا اور جس کے نتیجے میں پورا ملک انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا اور انگریزی سامراج کو پسینے آگئے_____۱۹۴۶ء میں ملاحوں کی ہڑتال کا مرکز یہی شہر تھا جس نے برٹش حکومت کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز یہی شہر تھا جس کی سرگرمیوں کی وجہ سے آخر کا ر ملک تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔
بھلا اس شہر میں جشن آزادی نہ منایا جاتا تو کہاں منایا جاتا _____تین دن اور تین رات یہ شہر مسلسل جاگتا رہا اور لوگوں نے جھوم جھوم کر جشن آزادی منایا۔ بسوں اور ٹراموں میں وہ بھیڑ کہ خدا کی پناہ ،راتیں دن کو شرماتی تھیں اور پورا شہر بقعۂ نور بنا ہوا تھا ______ادیبوں اور شاعروں اور فنکاروں نے کھل کر آزادی کے گیت گائے _____سردار جعفری نے اپنی توانا آواز اور نظم آزاد کے لہجے میں پکارا:
ناگہاں شور ہوا
لو شبِ تار غلامی کی سحر آپہنچی
اور مطرب کی ہتھیلی سے شعائیں پھوٹیں
ان دنوں پریم دھون کا ایک گیت جسے اپٹا کے کلاکاروں نے پریم دھون کے ساتھ گایا تھا _____بہت مقبول ہوا اور بچے بچے کی زبان پر تھا :
ناچو آج ، گائو آج ، گائو خوشی کے گیت
اندھیارے کی ہار ہوئی ہے اجیارے کی جیت
(کچھ عرصے بعد مجروح سلطان پوری نے اس مکھڑے کو پریم دھون کی اجازت سے ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ایک فلم کے گیت کا مکھڑا بنا دیا۔ جس میں دوسرا مصرع بدل دیا گیا تھا۔
’’آج کسی کی ہار ہوئی ہے آج کسی کی جیت‘‘
یہ گیت مکیش نے گایا تھا۔
آزادی آئی لیکن لہو لہان ______
بہت جلد یہ خوشی ماتمی دھن میں بدل گئی جب پنجاب اور دہلی کے قتل و غارت کی خبروں نے فیضؔ کے ان مصرعوں کی تفسیر پیش کردی:
یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
تو بنے بھائی کا گھر ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور آزادی کے بعد انجمن کے جلسوں میں نیا جوش و خروش آگیا تھا _____کچھ ادیب چلے گئے تھے اور بہت سے ادیب ادھر ادھر سے بمبئی آگئے تھے۔ لکھنؤ سے ممتاز حسین ایک خوشگوار اضافہ تھے، جن کی تنقید بہت گاڑھی اور ادق ہوتی تھی۔بنے بھائی اپنے مخصوص متبسم انداز میں کہا کرتے تھے کہ ممتاز حسین ترقی پسندوں کا محمد حسن عسکری ہے۔ ساحرؔ اور حمید اختر اور ابراہیم جلیس چلے گئے تھے۔ (ساحرؔ کچھ عرصہ بعد پھر بمبئی واپس آئے) اور اب انجمن کے جلسے کی رپورٹیں مہندر ناتھ لکھتے تھے۔ مہندر ناتھ بھی مشہور افسانہ نگار تھے۔ اس لیے حمید اختر کی طرح ان کی رپورٹوں میں بھی ادبی چاشنی ہوتی تھی _____ اور ’’نظام‘‘ ویکلی کے بند ہونے کے کچھ دن بعد ’’شاہد‘‘ ویکلی نکلا تھا جس کے مالک سلطان صاحب تھے اور ایڈیٹر عادل رشید۔ یہ ویکلی رسالہ جب تک چلا ترقی پسند مصنفین کا غیر سرکاری آرگن بنا رہا۔
پنجاب سے کئی ادیب آگئے تھے جن کی آمد سے بمبئی کی ادبی فضا میں اور گیرائی پیدا ہوگئی تھی _____رامانند ساگر آئے اپنے ناول ’’اور انسان مر گیا ‘‘ کے ساتھ۔ انھوں نے اس ناول کی کئی قسطیں انجمن کے جلسوں میں پڑھیں۔ یہ ناول فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ اس پر بہت بحثیں ہوئیں اور رامانند ساگر کے قنوطی نقطۂ نظر سے کھل کر اختلاف کیا گیا اور کہا گیا کہ انسان اس قتل و غارت کے باوجود زندہ ہے _____بلراج ساہنی کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی بھی بمبئی آگئے۔ وہ ہندی ادیب ہیں اور اب ایک عرصہ سے دلی رہتے ہیں۔ ذاکر حسین کالج میں پڑھاتے ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین اور آفرویشیائی رائٹرس کانفرنس کے سرگرم رکن ہیں _____مگر وہ بمبئی میں اتنے نمایاں نہیں ہوسکے تھے۔
آزادی کے کچھ سال قبل پونہ اردو ادیبوں اور شاعروں کا مرکز تھا۔ ڈبلو زیڈ احمد نے شالیمار فلم کمپنی بنائی تھی جس کی مشہور فلمیں تھیں ’’ من کی جیت‘‘ اور ’’غلامی‘‘ ۔ اس فلم کمپنی میں جوش ملیح آبادی ، ساغر نظامی، کرشن چندر، اختر الایمان ، مسعود پرویز ، بھرت ویاس اور اردو ہندی کے کئی ادیب اور شاعر تھے _____ مگر اس کمپنی کا شیرازہ آہستہ آہستہ بکھرا تھا اور ایک ایک کرکے سبھی ادیب اور شاعر بمبئی آگئے تھے۔تقسیم وطن سے کچھ دن پہلے ،جاز بھی کچھ عرصے کے لیے بمبئی آئے تھے اور کھیت واڑی کمیون ہی میں ٹھہرے تھے۔
۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء _____بمبئی کی ایک نہایت خوشگوار اور پربہار شام ۔ ریڈفلیگ ہال میں ایک ایسی مبارک تقریب ہے جس میں کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کے علاوہ اردو کے بیشتر ادیب و شاعر جمع ہیں۔ عورتوں نے بالخصوص زرق برق لباس پہنے ہیں۔ آج علی سردار جعفری اور سلطانہ بیگم کی شادی ہے _____ پارٹی کی رسم کے مطابق دو کمیونسٹ ممبران کی شادی ____ہال کھچاجھچ بھرا ہوا ہے _____رسم تو پوری ہوچکی ہے۔اب احباب مبارکباد دے رہے ہیں۔ نئے جوڑے کو تحائف پیش کررہے ہیں۔ میراجی نے ایک نظم پڑھتے ہوئے نئے جوڑے کو ایک دلچسپ تحفہ دیا ہے _____بک شلف ، لکڑی کے دو خوبصورت مینڈھے ۔ آمنے سامنے ۔ ممتاز بہن اور ملک نورانی نے بجلی کی کیتلی دی ہے تاکہ چائے فوراً تیار ہوسکے _____(یہ دونوں میاں بیوی ہم سب لوگوں کے بہت پیارے دوست تھے۔ اب بھی ہیں مگر کراچی میں) کیفی اعظمی نے اس موقع پر چھوٹی سی خوبصورت تقریر کی ہے کہ میں نے سردار جعفری سے بہت کچھ سیکھا مگر ایک چیز میں نے ان کو سکھائی ____شادی کرنا _____اور کیفی نے ایک خوبصورت نظم پڑھی :
یہ خوبصورت تقریب اختتام کے قریب تھی کہ ریڈیو پر شام کے چھ بج کر دس منٹ کی خبریں سنتے ہی ہندی کے مشہور ادیب رمیش سنہا مائک پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ گاندھی جی کی پرارتھنا سبھا میں انھیں کسی نے گولی ماردی _____مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے اور ماحول یکسر بدل جاتا ہے۔ اس زمانے کی فضا کو دیکھتے ہوئے یہی خیال ہوتا ہے کہ کسی مسلمان نے گولی ماردی ہوگی۔ اور اس خیال کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ فساد کی آگ یک لخت بھڑک جانے کا اندیشہ ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگتے ہیں۔ گاندھی جی کی موت کی خبر آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل جاتی ہے _____بسیں اور ٹرامیں بند ہیں۔ شہر میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ ہوگیا ہے۔ جہاں یہ خوبصورت تقریب منائی جارہی تھی ، کھیت واڑی پر ہے۔ ذرا دو قدم پر گولی پیٹھا ____پھر بھنڈی بازار۔ ساغر صاحب نے زوردار شیروانی پہن رکھی ہے اور ذکیہ بھابی نے غرارہ۔ میرے بھائی امتیاز بھی شیروانی میں ملبوس ہیں۔ ظاہر ہے ایسے موقعوں پر آدمی اپنے لباس سے فوراً پہچانا جاتا ہے۔ ہم لوگ گلی گلی ہوتے ہوئے کسی طرح اپنے گھر کھڑک پہنچتے ہیں ، سب دم بخود ہیں کہ دیکھئے اب کیا ہونے والا ہے۔ اس وقت ریڈیو اتنا عام نہیں تھا کہ گھر گھر سٹ یا ٹرانزسٹر ہوں۔ ہمارے پڑوس میں ریڈیو بج رہا تھا اور سب لوگ اس کی آواز پر کان لگائے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی آواز آئی کہ ایک پاگل نے باپو کو گولی ماردی _____ اس کا نام ناتھو رام گوڈسے بتایا گیا تو سب کی جان میں جان آئی اور اس فساد کا خطرہ ٹلا جو ہمارے ذہنوں پر منڈلا رہا تھا۔
بنے بھائی کے بمبئی سے چلے جانے کے بعد بمبئی کی ادبی فضا تیزی سے بدلی۔ اگرچہ انجمن ترقی پسند مصنفین میں نام نہاد عہدوں کی تقسیم نہیں تھی اور اپنی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق سبھی خلوص دل سے کام کرتے تھے۔مگر ظاہر ہے سربراہی کا سہرا سجاد ظہیر ہی کے سر تھا۔ ان کے چلے جانے کے بعد یہ ذمہ داری علی سردار جعفری کے سر آگئی _____ان دونوں شخصیات میں بہت بڑا فرق تھا۔ میرے نزدیک بنیادی بات یہ تھی کہ بنے بھائی کو اپنے ادبی کیریئر کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کا ایک مقام متعین تھا جو صرف ان کے لیے مخصوص تھا (اور اسی لیے ان کی جگہ آج تک خالی ہے) وہ اپنی ذات سے بے نیاز ہوکر ادب ، ادیب اور معاشرے کی بہبودی کے لیے کام کرتے تھے۔ مگر سردار جعفری کی شخصیت زیرِ تشکیل تھی۔ بے شک وہ ترقی پسند مصنفین کے بہترین وکیل تھے اور ان کے زورِ خطابت کے آگے اچھے اچھوں کی دلیلیں بے وزن ثابت ہوجاتی تھیں۔ مگر ان کی مشکل یہ تھی کہ بحیثیت شاعر وہ اپنی شخصیت منوانے میں منہمک تھے اور اس وقت شعرا کی صفوں میں ان سے کہیں زیادہ مقبول شعرا موجود تھے۔ مخدومؔ محی الدین ، فیضؔ، جذبیؔ، جاں نثار اخترؔ، اختر الایمان _____اور ذرا ادھر دیکھئے تو ن۔ م۔ راشد اور میراجی _____یہ سب کم و بیش سردار جعفری کے ہم عصر تھے۔ مگر اس وقت کے تنقیدی شعور نے ان شعرا کو قابل توجہ تسلیم کرلیا تھا اور ادبی رسائل ان کے ذکر سے بھرے رہتے تھے۔ ان سب نے شاعری کی نئی جہتیں تلاش کی تھیں، جبکہ سردار جعفری کا کوئی خاص تذکرہ نہیں کیا جاتا تھا اور نہ سردار کا کوئی قابل ذکر کارنامہ سامنے آیا تھا۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’پرواز‘‘ شاید ۱۹۴۵ء میں چھپا تھا جس کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ سردار جعفری کی جس کتاب نے ایک گروہ (یعنی ترقی پسند) کے ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ ان کی طویل نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ ہے جس میں سردار نے روایتی شاعری کی ڈگر سے ہٹ کر آزاد نظم کی تکنیک کو برتا۔ اگرچہ ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ کی آزاد شاعری میں راشد کی شاعری جیسا سحر انگیز آہنگ اور تہہ داری تو نہیں ہے مگر ایک شکوہ ہے اور مکالماتی قوت ہے جو سردار کے شعری آہنگ کو ممیز کرتی ہے _____مگر ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ غالباً اوائل ۱۹۴۷ء میں چھپی ہے اور اردو میں کسی کتاب کو مقبول ہوتے ہوتے دو تین سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔
غرض سردار کے ہاتھ میں انجمن کے زمام آتے ہی اس کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے اور آہستہ آہستہ وسیع النظری اور ادبی رواداری میں کمی آنی شروع ہوئی۔ مگر اس کا احساس شروع شروع میں اس لیے نہیں ہوا کہ ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور بین الاقوامی تبدیلیوں کا دبائو بھی انجمن کی کارکردگی پر پڑنا لازمی تھا۔ اب مقصدیت کی سلپ ہر تخلیق کے ماتھے پر چپکائی جانے لگی اور ادبی محاسن کو طاق میں رکھنے کا چلن شروع ہوگیا اور سردار جعفری کی شہرت نے فراٹے بھرنے شروع کیے۔ ان کے نثری مضامین ان کی پشت پناہی کا فرض انجام دینے لگے اور انھوں نے فیضؔ کی :
’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘
والی نظم کو رجعت پرستانہ قرار دیا اور دلیل دی کہ آزادی کے اجالے کو داغ داغ تو مسلم لیگ بھی کہتی ہے اور آر ایس ایس بھی _____چونکہ یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ تاثر ’’عوام‘‘ کا ہے اور نظم واضح نہیں ہے۔ اس لیے ترقی پسند نہیں ہے (اس وقت میرے سامنے وہ مضمون نہیں ہے مگر سردار کے اس مضمون سے سب اہل نظر واقف ہیں) سردار کے ان ترقی پسندانہ تجزیوں نے ان کے لیے ایک نئی راہ کھول دی اور انھوں نے ’’نیا ادب‘‘ میں ’’دار و رسن‘‘ کے عنوان سے جارحانہ مضامین کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس میں شعرا کی تخلیقات کا جائزہ لے کر انھیں دار و رسن پر چڑھایا جاتا تھا اور سادہ لوح قارئین سے کہا جاتا تھا کہ ان کی شاعری زہرناک ہے۔ مضامین اٹھا کر دیکھئے ، کون کون سولی پر نہ چڑھا یا گیا۔ حیدر آباد میں مخدومؔ کو چھوڑ کر باقی سب شاعر ، پنجاب میں احمد ندیم قاسمی کو بھی نہیں بخشا گیا ، بمبئی میں ساغر نظامی کو بھی در پر کھینچ دیا _____اور سردار کے ان کارناموں کی اتنی واہ واہ ہوئی کہ اس وقت کے نئے شاعروں اور ادیبوں کی عاقبت خراب ہوئی سو ہوئی ، اچھے خاصے مقبول شاعر اور ادیب بھی اپنی اپنی روش سے بہک گئے:
رقص کرنا ہے تو پھر پائوں کی زنجیر نہ دیکھ
جیسی مرصع شاعری کرنے والے شاعر نے مطلع نکالا:
امن کا جھنڈا اس دھرتی پر کس نے کہا لہرانے نہ پائے
ہے یہ کوئی ہٹلر کا چیلا ، مار لے ساتھی جانے نہ پائے
اس دور کا ایک مشہور شعر ملاحظہ ہو ، غزل کا شعر:
اس طرف روس، ادھر چین ، ملایا ، برما
اب اجالے مری دیوار تک آپہنچے ہیں
تو میں عرض کر رہا تھا کہ آزادی کے کچھ ماہ بعد علی سردار جعفری انجمن کے سربراہ بن گئے جسے انھوں نے شخصیت سازی کے لیے استعمال کیا _____کچھ عرصہ بعد بمبئی کی ادبی محفل میں کچھ اور لوگ بھی آگئے _____راجندر سنگھ بیدی آئے مگر وہ جلسوں میں آتے تو تھے ، نئے افسانے نہیں پڑھتے تھے۔ انھوں نے کہیں لکھا ہے کہ وہ ایک عرصہ تک خاموش رہے اور اس نئے ماحول میں نیا پیرایۂ بیان تلاش کررہے تھے۔ بیدی بھی فلم انڈسٹری میں آئے اور کرشن چندر کے برعکس ان کی فلمی زندگی کامیاب رہی۔ ساحر لدھیانوی لاہور سے ’’نیا سویرا‘‘ اور دہلی سے ’’شاہراہ‘‘ جیسے معیاری ادبی پرچے نکالنے کے بعد واپس بمبئی آگئے ____اور جدو جہد کی دلدل میں پھنس گئے _____جب یک مضبوط جگہ کھڑے ہوگئے تو پھر ادب کی طرف مائل ہوئے _____ بھوپال سے جاں نثار اختر ، کالج کی نوکری چھوڑ کر بمبئی آئے۔ جاں نثار اختر بھی ’’مقصدیت زدہ ‘‘ ادب کا شکار ہوئے اور بہت دن تک ایسی سپاٹ نظمیں کہتے رہے جو ان کے اپنے رنگ و آہنگ سے مطابقت نہ رکھتی تھیں اور جن پر وہ ’’راہ راست‘‘ پر آنے کے بعد شرماتے ضرور ہوں گے۔ کیونکہ صفیہ کے انتقال کے بعد جاں نثار اختر کی شاعری کا نیا جنم ہوا اور ان کی دل میں اتر جانے والی نظمیں اور غزلیں ’’خاک دل‘‘ اور ’’پچھلا پہر‘‘ میں شائع ہوئیں جن کے ذریعے جاں نثار اختر نے اپنی بازیافت کی ______ورنہ پہلے مجموعہ کلام ’’سلاسل‘‘ کے بعد ان کا مجموعہ ’’جاوداں‘‘ بہت کمزور اور وقتی قسم کی نظموں پر مشتمل ہے۔ یادش بخیر جاں نثار اختر بہت مخلص آدمی تھے۔ نہایت شریف اور دلچسپ اور خوددار انسان۔ جانے کیسے کیسے سہانے خواب دیکھ کر بھوپال سے بمبئی آئے تھے مگر یہاں انھیں ٹھکانہ ملا تو جے جے اسپتال پر آرکیڈیا بلنڈنگ کے ایک کمرہ میں جو ایک دھان پان سے بزرگ خلیل صاحب کا کمرہ تھا ۔ جاں نثار مدتوں وہیں رہے۔ اسی کمرے میں انھوں نے صفیہ کے محبت بھرے خط پڑھے۔ بستر مرگ سے اپنی چہیتی بیگم کے خط ، جن میں تقاضا ہوتا تھا ، التجا ہوتی تھی کہ تم آجائو اور مجھے موت کے منہ سے نکال لو۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ____اسی کمرے میں جاں نثار اختر نے صفیہ کی موت کے بعد ان خطوط کو ترتیب دے کر ’’زیرِ لب‘‘ چھاپی ____پھر کچھ عرصہ بعد اسی کمرے میں گوالیار سے نئی محبوبہ خدیجہ کو بیاہ کر لائے _____جاں نثار اختر مدتوں ساحر لدھیانوی کی پرچھائیں بنے رہے۔ یہ عالم ہوگیا تھا کہ اگر کوئی ان سے کہتا کہ جاں نثار کچھ سنائو ____تو وہ جواب میں کہتے تھے _____’’ ہاں پہلے ساحرؔ سے ان کی تازہ نظم سنو‘‘ ____ جاں نثار نے فلمی گانے بھی لکھے ۔ بہو بیگم فلم بھی بنائی ____مگر دولت مند کبھی نہ بن سکے ___ بس اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔ ترقی کرکے آرکیڈیا بلڈنگ کے کمرے سے باندرہ کرایے کے فلیٹ میں چلے گئے تھے اور بس ‘ ہاں آخری عمر میں ان کی شاعری پر جوانی آگئی تھی اور انھوں نے وہ قرض چکا دیا جو اردو شاعری کا ان کے سر تھا۔
ذکر تھا انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کا اور درمیان میں آگئے کچھاحباب ۔ اب انجمن کے جلسوں کی مستقل جگہ ۹۶؍ والکیشور روڈ ختم ہوگئی تھی اور کچھ دن ہمارے جلسے اوپیرا ہائوس پر دیودھر اسکول آف میوزک کے ہال میں ہوئے۔ ملک کے حالات کروٹیں بدل رہے تھے اور حکومت وقت کی تنقید ترقی پسندی کا منصب قرار پایا تھا اور اسی مناسبت سے ترقی پسند ادیبوں پر حکومت کی کڑی نظر تھی۔ نشستوں میں اور پبلک جلسوں اور مشاعروں میں گرم نظمیں اور دھواں دھار تقریریں ہونے لگیں اور نوبت سربرآوردہ ادیبوں کی گرفتاریوں تک پہنچی۔ بلاسس روڈ پر پروفیسر سامری کے مشاعرے میں لائوڈ اسپیکر کے اوقات کے خلاف ورزی کرنے کے جرم میں نیاز حیدر اور مجروح سلطان پوری کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوگئے۔ نیاز تو جلد ہی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے مگر مجروح سات آٹھ ماہ تک روپوش رہے۔ لیکن ایک دن مستان تالاب کے مشاعرے میں مجروح شریک ہوئے ۔ مطلع پڑھا:
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
ترا ہتھ ہاتھ میں آگیا تو چراغ راہ میں جل گئے
اور جب مشاعرہ ختم ہوا تو خفیہ پولیس کے انسپکٹر نے مجروح کا ہاتھ پکڑ کر کہا:
ترا ہاتھ ہاتھ میں آگیا تو چراغ راہ میں جل گئے
مجروح کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور اس وقت وہ مالی دشواریوں کا شکار تھے ۔اس نازک وقت میں راجندر سنگھ بیدی نے مجروح سے حق دوستی نبھایا اور سات آٹھ مہینے ، جتنے دن مجروح جیل میں رہے بیدی نے کفالت کی۔
تھوڑے دن بعد سردار جعفری کو پولیس ان کے گھر سے پکڑ لے گئی اور وہ کئی ماہ آرتھر روڈ جیل میں رہے۔ سردار نے پتھر کی دیوار والی اکثر نظمیں اسی جیل میں لکھی ہیں جن میں ذاتی غم اور یادوں کی چاشنی ہے۔
ظ۔ انصاری اور بلراج ساہنی بھی گرفتار ہوگئے مگر کچھ دن بعد سنا کہ یہ دونوں انقلابی جیل میں جاکر اس قدر صلح پسند ہوگئے کہ ’’مشروط‘‘ طور پر رہا کردیے گئے۔ مگر رہائی کے بعد ان دونوں کے رخ بدل گئے۔ بلراج ساہنی نے تو ’’اپٹا‘‘ کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کرکے فلمی لائن اختیار کرلی۔ فلم ’’ہم لوگ‘‘ میں بہت عمدہ رول ادا کیا اور اداکاری کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب انھوں نے تھیٹر کا شوق پورا کرنے کے لیے اپنے مکان پر ہی ’’جوہو آرٹ تھیٹر‘‘ بنیاد ڈالی جو شاید اب تک چلتا ہے۔
ظ۔ انصاری جو کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ممبر تھے ، اب پارٹی کی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں بھی ان کا گزر نہیں تھا۔ اب وہ ’’انقلاب‘‘ اخبار کے ادارہ سے وابستہ ہوگئے اور کچھ ادھر ادھر کے کام کرتے نظر آئے جیسے کسی سرمایہ دار کو ٹیوشن پڑھانا وغیرہ وغیرہ۔
ظ۔ انصاری نے ادھر ادھر پیر مارنے شروع کیے۔انھیںدنوں ان کے انشائیوں کی کتاب چھپی ’’ورق ورق‘‘ وہ شمع والے حافظ محمد یوسف کے ہفتہ وار اخبار ’’آئینہ‘‘ کی ادارت کرنے دلی آگئے۔ اور وہاں سے ماسکو پرواز کی۔ بہر حال بمبئی ان سے اور وہ بمبئی سے چھوٹ گئے، ایک لمبے عرصے کے لیے ۔اب تو ظ۔ انصاری پھر بمبئی آگئے مگر ان کے مشاغل اب دوسرے ہیں۔ اب تو وہ خیر سے پروفیسر ظ۔ انصاری ہیں اور بمبئی یونیورسٹی کے قابل ذکر استاد۔
ادیبوں اور شاعروں کی گرفتاریوں سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا تھا اور عوام میں جوش و خروش کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی تھی۔ اس امر کا سب سے شاندار مظاہرہ سردار جعفری کی گرفتاری کے موقع پر ہوا۔ انجمن کی ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ رمیش سنہا نے کہا کہ ’’ سردار جعفری رہائی تحریک ‘‘ چلائی جائے۔ شاہد لطیف نے ایک چھوٹا سا تاثراتی مضمون پڑھا جس کا ایک جملہ اب تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ آج ایسا لگتا ہے کہ کرشن چندر سردار جعفری کے بغیر یتیم ہوگئے ہیں۔ دراصل اس زمانے میں ہم لوگ خوش فہمی کے شکار تھے کہ انقلاب اب آیا ۔ سب یہی سوچتے تھے کہ :
اب اجالے مری دیوار تک آپہنچے ہیں
سردار کی غیر موجودگی میں انجمن کی کمان کیفی اعظمی نے سنبھالی۔ پہلے وہ صرف نظمیں پڑھتے تھے۔ اب جلسوں میں تقریر کرنے لگے۔ کیفی کی مقبولیت اتنی بڑھ گئی کہ جب سردار جعفری جیل سے چھوٹ کر آئے تو انھیں دوبارہ اپنے مقام پر کھڑے ہونے میں جد و جہد کرنی پڑی
انجمن کے دیودھر اسکول کے جلسوں میں میراجی بھی اکثر آتے تھے۔ وشوا متر عادل جو لاہور، اور اس کے بعد میراجی کے نقش قدم پر چلنے والے شاعروں میں سے تھے اب یکسر بدل گئے تھے اور اچھی خاصی علامتی شاعری کو چھوڑ کر دو اور دو چار کی شاعری کرنے لگے تھے اور وقتی واہ واہ کے پیچھے بھاگنے لگے تھے۔ ان کی اس ’’تالیف قلب‘‘ میں اپٹا کی ایک کلاکار سے دوستی کا بھی ہاتھ تھا اور سننے میں آیاتھا کہ در اصل میراجی اور وشوا متر عادل میں معاصرانہ نہیں ، رقیبانہ چشمک شروع ہوگئی تھی۔ بہر حال حقیقت کچھ ہو، عادل گھٹیا شاعری کرنے لگے اور آہستہ آہستہ شاعری کے اسٹیج سے دور چلے گئے۔
دیودھر ہال میں ہی وہ جلسہ ہوا جس میں عصمت چغتائی نے قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا خاکہ اڑایا تھا اور ’’پوم پوم ڈارلنگ‘‘ کے عنوان سے عینی کے فن اور ان کی افسانہ نگاری کو نشانۂ ملامت بنایا تھا اور سب ترقی پسندوں نے بغلیں بجائی تھیں۔ عصمت کے اس مضمون کی بہت دنوں تک دھوم رہی تھی۔
دیودھر ہال میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کا وہ جلسہ جس میں خواجہ احمد عباس کی خبر لی گئی ، انھیں رجعت پسند کہا گیا تھا اور جب سب کی سننے کے بعد خواجہ صاحب نے جوابی تقریر میں کہا تھا : ’’ ساتھیو ! اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھو کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو ٹھیک ہے۔‘‘تو گیت کار شیلندر نے کہا تھا کہ ضمیر کو دیکھنے کے لیے کون سی سرچ لائٹ ہوتی ہے، ہمیں نہیں معلوم اور رمیش سنہا نے کہا تھا کہ جب عباس ہمیں ’’ساتھیو !‘‘ کہہ کر خطاب کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس ریاست کا وزیر اعلیٰ ہم سے مخاطب ہے۔ (یعنی ہم عباس کو اپنا ساتھی ماننے کو تیار نہیں ہیں)۔
دیودھر اسکول کے بعد صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ میں ، جی پی او کے سامنے کوٹھاری مینشن میں اور آخر آخر میں کمیونسٹ پارٹی کے کمیون کے ہال میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہفتہ وار جلسے ہوتے رہے۔ حاضری کبھی کم ہوتی تھی ، کبھی زیادہ۔ بعض بعض ہفتے چار پانچ آدمی ہی آئے مگر جلسہ ضرور ہوا۔ لیکن اس باقاعدگی کے باوجود انجمن دن بہ دن بے روح ہوتی جارہی تھی۔ تازہ تخلیقات پر تنقید میں وہ ادبی دیانت داری اور مخلصانہ رویہ مفقود ہوتا جارہا تھا جو کبھی انجمن کا طرۂ امتیاز تھا۔ اب یا تو نظرانداز کرنے کی توہین آمیز پالیسی پر عمل کیا جاتا، یا لٹھ مار تنقید کی جاتی تھی۔ کچھ جلسے بڑے معرکتہ الآرا ہوئے جن کی تلخ و شیریں یادیں اور تاثرات ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔
اختر الایمان ، میراجی ، مدھو سودن اور ظ۔ انصاری ، ان چار ادیبوں کی ادارت میں ایک ماہانہ رسالہ ’’خیال‘‘ نکلا۔ خالص ادبی اور معیاری رسالہ ادھر ’’نیاادب‘‘ نکل رہا تھا جس پر کمیونسٹ پارٹی کے نظریات کا غلبہ تھا اور معیاری اور دار و رسن کا بازار گرم تھا۔ جس پرچے کے ایڈیٹر میراجی ؔ ہوں اس میں جنسیات زدہ ادب کا نہ چھپنا تعجبات میں سے ہے ۔’’خیال‘‘ ہمہ رنگ ادبی رسالہ تھا۔ اور اس میں سیاسیات کا گزر نہیں تھا۔ پرچے کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی جو ’’نیاادب‘‘ کی ساکھ پر اثر انداز ہوسکتی تھی چنانچہ دار و رسن والے خدائی فوجدار بن کر میدان میں نکل آئے۔ بمبئی جیسے لاکھوں کی آبادی والے شہر میں مٹھی بھر اردو کے ادیب و شاعر تھے۔ صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں حشر برپا ہوا اور سب اپنے اپنے اعمال نامے لے کر حاضر ہوگئے۔ جلسہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا ۔ صدارت علی سردار جعفری کی ، مدعی بھی وہی ۔ سردار نے حوالے کے لیے میز پر کتابوں اور رسالوں کا ڈھیر رکھا اور مجھے پرانے زمانے کے مذہبی مناظروں کا منظر یاد آگیا۔ اور بجائے اس کے کہ صدر آخر میں بولے ، صدر صاحب بحیثیت علی سردار جعفری کے شروع ہی میں شعلہ زن ہوگئے اور حسب معمول دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ ’’خیال‘‘ ترقی پسند نظریات کا حامل نہیں ہے اور کہا کہ کسی بھی ترقی پسند ادیب کو ’’خیال‘‘ میں نہیں لکھنا چاہیے۔ اہل محفل کا خیال تھا کہ سردار کی تقریر حرفِ آخر ہے۔ اب کون بول سکتا ہے اس شعلہ بیان کے آگے۔ مگر ایک صاحب ہیں جو طالب علمی کے زمانے سے ہی سردار کے مقابلے میں اسٹیج پر بولتے رہے ہیں اور سردار کی طرح ان کی گاڑی سیدھی سپاٹ ایک رفتار سے نہیں چلتی ، بلکہ وہ اپنی تقریر میں زیر و بم اور مد و جزر کی کیفیت پیدا کرنے پر قادر ہیں اور سامعین کواپنے ساتھ بہا لے جانا اس مقرر کی خصوصیت ہے اور وہ صاحب ہیں اختر الایمان ۔ اختر نے نرم لہجے میں تقریر شروع کی۔ ’’ صاحب صدر بڑی تیزی میں گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ اور اختر نے جملہ اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ادب پر پارٹی ڈسپلن عاید ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ ایک ہی ایسی بات ہے جس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے منشور میں بھی کہیں نہیں ہے کہ انجمن کمیونسٹ پارٹی کے مقرر کردہ اصولوں پر چلے گی۔ بلکہ لفظی طور پر اس مفروضے کی نفی کی جاتی رہی ہے۔ یہ ادیب کاذاتی معاملہ ہے کہ وہ کیا سیاسی خیالات رکھتا ہے چونکہ خواجہ احمد عباس پہلے بھگت چکے تھے اس لیے آج وہ اختر الایمان کے ساتھ تھے ۔ انھوں نے بھی عمدہ تقریر کی اور کچھ لوگ ادھر ادھر سے بولے۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔ کرسی صدارت کے فیصلے کے مطابق تمام ہندوستان میں انجمن کی شاخوں کو سرکلر بھیج دیے گئے تھے کہ’’ خیال‘‘ کے لیے کوئی نہ لکھے اور اختر الایمان نے اس کے بعد بہت دلچسپ بات کہی کہ میں آج سے اپنا نام اختر الایمان رجعت پرست لکھا کروں گا۔ دیکھیں میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اختر نے تو یہ بات محض تفریحاً کہی تھی مگر واقعہ یہ ہے کہ وقت نے ثابت کردیا کہ یوں عدالتیں قائم کرکے ادب نہیں پیدا کیا جاسکتا اور ادب اور ادیب پر آسانی سے لیبل لگانا اپنی کور ذوقی کا مظاہرہ ہے۔ ڈنڈے کے زور سے نہ کبھی ادب تخلیق ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ اختر الایمان میں غضب کی خود اعتمادی ہے ۔ وہ کسی بھی جعفریانہ پروپیگنڈے سے مرعوب نہیں ہوئے اور اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں لکھتے رہے اور بیرونی اثرات کے باعث اپنا شعری رویہ نہیں بدلا۔ اور ان کا ادبی مرتبہ وقت کے ساتھ بلند ہوتا گیا۔
کوٹھاری مینشن میں بھی بعض یادگاری نشستیں ہوئیں۔ دو نشستوں کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں اور انجمن کے مخصوص ماحول کو سمجھنے کے لیے یہ ذکر ضروری بھی ہے۔
ساحر لدھیانوی ویسے بے پروا اور بے نیاز قسم کے انسان نظر آتے ہیں ، مگر اپنے معاملات میں وہ بہت محتاط اور سنجیدہ تھے اور جب کوئی پروگرام ترتیب دیتے تھے تو اس کی کامیابی کے لیے جملہ پہلوئوں پر غور کرتے تھے اور ضروری ہوا تو ہر طرح کی پیش بندی کرتے تھے۔ میرے خیال میں ان کی اسی خصوصیت نے انھیں فلموں میں بھی اس قدر کامیاب کیا۔ ساحر اور کیفی اعظمی میں بہت پرانی دوستی تھی۔ اس قدر کہ حیدر آباد کانفرنس سے لوٹنے کے بعد ساحر نے اپنی ایک نظم کیفی اعظمی کے نام منسوب کی تھی ۔اس نظم کا پہلا مصرع ہے:
اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی
ان دونوں دوستوں میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا۔ کوئی ادبی مسئلہ نہ تھا بلکہ قطعاً ذاتی اور رومانی قسم کی بات تھی مگر ایسا اکثر ہوا ہے کہ یارلوگوں نے ذاتی رنجشوں کو ادب کے اسٹیج پر لاکر زور آزمائی کی اور نتیجہ کے طور پر ادبی تحریک پر منفی اثر پڑا۔ چنانچہ اس موقع پر بھی ساحر لدھیانوی بے حد جذباتی ہوگئے اور نھوں نے منصوبہ بند طریقے سے نجی محفلوں میں کیفی کی شاعری کی برائی کرنی شروع کی اور اس کے خلاف لابی تیار کی۔ اور جب فضا سازگار ہوگئی تو ساحر نے کیفی اعظمی کی شاعری پر ایک مضمون انجمن کے جلسے میں پڑھا جس کا پروپیگنڈا شد و مد سے کیا گیا تھا اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سردار جعفری جلسے کی صدارت کررہے تھے۔ کیفی اور ان کی بیگم بھی جلسے میں موجود تھے۔ ساحر نے مضمون پڑھا جس میں کیفی کی شاعری کے معائب ہی کو اجاگر کیا گیا تھا، اور ہرزاویے سے نقائص ہی نقائص تلاش کیے گئے تھے اور نفسِ مضمون یہ تھا کہ اول تو کیفی شاعر ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو گھٹیا درجے کا۔ ساحر مع اپنے مخصوص احباب کے جلسے میں تشریف لائے تھے اس لیے اہل محفل نے مجموعی طور پر مضمون پر واہ واہ کی۔ کچھ بحث ہوئی مگر مجمع کا موڈ ہی کچھ اور تھا۔ آج سب کو کیفی کی شاعری میں صرف خامیاں ہی خامیاں نظر آرہی تھیں۔ صاحبِ صدر نے حسب معمول جوشیلی تقریر کی مگر وہ بھی ساحر کے مضمون کا طلسم پوری طرح نہ توڑ سکے۔ سردار نے جب ادب لطیف اور سویرا کی ان تحریروں کا حوالہ دیا جس میں ساحر نے بحیثیت ایڈیٹر کے کیفی کی تعریف میں اپنا زور قلم صرف کیا تھا تو ساحر نے برجستہ کہا کہ وہ میرے کمرشیل نوٹ تھے، ناقدانہ رائے نہیں تھی۔ غرض ساحر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ کیفی جلسے کے آخر تک موجود رہے مگر انھوں نے ایک لفظ بھی اپنی صفائی میں نہیں کہا۔ ان کی گمبھیر خاموشی کا مطلب تھا : ’’بکتے رہو ، میرا کیا بگاڑ سکتے ہو؟‘‘
سردار جعفری بہت بھنّائے اور انھوں نے پی ڈبلو اے کی اگلی میٹنگ میں ایک جوابی مضمون ساحر لدھیانوی کی شاعری کے بارے میں پڑھا۔ اس میں بھی یک رخا پن تھا ۔ سردار نے ساحر کی مشہور نظم ’’تاج محل‘‘ پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس نظم میں ہندوستان کے تہذیبی ورثے اور تاریخی عظمت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور یہ رویہ نہایت رجعت پرستانہ ہے اور یہ نظم نہایت کمتر درجے کی ہے۔ ساحر کی اور نظموں کی بھی اسی طرح درگت بنائی ۔
جب مضمون ختم ہوگیا تو ساحر لدھیانوی بہت اطمیان سے اپنی جگہ سے اٹھے اور پورے قد کے ساتھ اٹھ کر کہا :’’ اس مضمون سے آپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساحر لدھیانوی گھٹیا شاعر ہے ، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ کیفی اعظمی اچھا شاعر ہے۔‘‘
ساحر کے اس ایک ہی جملے نے سردار کے مضمون کا اثر زائل کردیا اور سردار کی بدنیت کو واضح کردیا۔
بمبئی صفِ اول کے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کا مرکز تھا مگر ان سربرآوردہ ادیبوں کی اس طرح کی چشمکوں نے انجمن کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا اور آہستہ آہستہ عوام کے دلوں میں اس کی وقعت کم ہونے لگی، کیونکہ انجمن کوئی جامد شے نہیں ہے بلکہ افراد کے اجتماع اور ان کے عمل کا نام ہے۔ مختلف ادیبوں کی شعوری ہم آہنگی سے انجمن کو فروغ حاصل ہوا تھا اور اس کے فقدان سے انجمن ترقی پسند مصنفین کا شیرازہ بکھرنے لگا ۔ جس انجمن کے پلیٹ فارم سے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے بھرپور جد و جہد کی گئی تھی اور ’’پانی کا درخت‘‘ اور ’’کالو بھنگی‘‘ جیسے افسانے اور ’’نیلا پرچم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ جیسی نظمیں اردو کو دی تھیں اس کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا تو سب اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ گانے بجانے لگے۔ جس کا جدھر منہ اٹھا چل دیا اور اپنا اپنا کیریئر تلاش کرنے کوئی فلم کی طرف گیا ، کوئی روس اڑا ، کوئی چین:
کھاکے لندن کی ہوا عیش وطن بھول گئے
٭٭٭

مشمولہ : ’’ترقی پسند تحریک اور ممبئی‘‘ از: پروفیسر صاحب علی ۔۔۔۔۔ تلخیص : ڈاکٹر قمر صدیقی

Khwaja Ahmad Abbas: YadeN Aur Tassurat

Articles

خواجہ احمد عباس : یادیں اور تاثرات

ڈاکٹر غلام حسین

 

میں ضلع بستی کے ایک دور افتادہ گائوں میں ، جو میرا مولد و مسکن بھی ہے، گرمی کی چھٹیاں گزار رہا تھا۔۔۔۔۔چھٹیاں کیا گزار رہا تھا اپنے مستقبل کے عنوانات طے کر رہا تھا کہ یکایک پہلی اپریل کو محلے کا ایک طالب علم دوڑتا ہوا آیا اور اس نے ریڈیو کی وہ خبر دہرائی جو خواجہ صاحب کی شدید علالت سے متعلق تھی ۔ میں ابھی چند ماہ پہلے تک خواجہ صاحب کے ساتھ ممبئی میں رہ چکا تھا، جب خواجہ صاحب کے عزم اور ان کی قوت ارادی کا تصور کیا تو خبر کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوئی لیکن جب ان کے سن و سال اور ان کی حرکت و عمل کی درماندگی کا جائزہ لیتا تھا تو یہ خبر اندیشہ ہاے دور و دراز میں مبتلا کر دیتی تھی۔ میں متصادم خیالات کی یورش سے گھبرا گیا اور گورکھپور چلا آیا۔ پھر اخبارات سے خواجہ صاحب کا حال معلوم ہوتا رہا اور وہ اس حد تک اچھے ہو گئے تھے کہ بلٹز نے ’’ آزاد قلم‘‘ کے سلسلے کو جلد ہی دوبارہ جاری کر نے کی یقین دہانی کرائی۔ اسی دوران میں نے خواجہ صاحب کو خیریت معلوم کرنے کے لیے خط لکھا جس کا جواب آیا: ’’میرے جاننے پہچاننے والے ہی میری اصل دولت ہیں‘‘۔میں عید کے مبارک موقع پر گائوں چلا گیا جہاں وہ خبر سنی جس کا صدمہ الفاظ میں منتقل نہیں ہو سکتا۔
ویسے تو میں خواجہ صاحب کے ’’آزاد قلم‘‘ کا برسوں سے قاری رہا ہوں لیکن ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’نئی دھرتی نئے انسان‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے خواجہ صاحب کی تخلیقات سے والہانہ لگائو ہو گیا تھا۔ جب میں نے گورکھپور یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم۔اے۔ کر لیا تو میں نے اپنے مشفق استاد سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ’’خواجہ احمد عباس کی حیات اور کارنامے کے موضوع پر پی ۔ایچ۔ ڈی۔ کے لیے مقالہ لکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے بڑی خوشی سے یہ موضوع منظور کر لیا۔ اور میں نے ان کی نگرانی میں کام شروع کر دیا۔
بہت پہلے ’’آزاد قلم‘‘ اور ’’نئی دھرتی نئے انسان‘‘ کے افسانوں سے متاثر ہو چکا تھا۔ اب خواجہ صاحب کی اور تخلیقات پڑھنے کا موقعہ ملا۔ جوں جوں خواجہ صاحب کی تحریروں کا مطالعہ بڑھتا گیا، ان کی عظیم شخصیت میرے دل میں گھر کرتی چلی گئی۔ ابھی تک توخواجہ صاحب سے ملاقات ان کی تحریروں کے زریعہ ہوتی تھی لیکن اب یہ خواہش ہوئی کہ ان سے براہ راست ملاقات کی جائے میں نے اپنے نگراں سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ابھی ان کی تحریروں کا عمیق مطالعہ جاری رکھو۔
اتفاق ہی کہئے کہ اسی دوران یعنی ۱۹۸۳ء کے اوائل میں جب سردی کی شدت ختم ہو رہی تھی ، بستی والوں نے ایک فلمی فنکشن منعقد کیا جس کی صدارت خواجہ احمد عباس صاحب نے کی۔ فنکشن کے دوسرے دن اپنے نگراں کے حکم کے مطا بق خواجہ صاحب سے ملاقات کے لیے بستی پہنچا۔ اس وقت وہ بستی کے ڈاک بنگلے میں قیام پزیر تھے۔ تقریباً صبح کے ۸ بج چکے تھے ڈاک بنگلے کے برآمدے میں دھوپ پھیل چکی تھی۔ ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا اس میں میرا ایک اور اضافہ ہو گیا۔ ملاقات کرنے والے حضرات برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے میں بھی وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد خواجہ صاحب ایک آدمی کا ہاتھ پکڑے اور اپنی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ باہر نکلے۔ بظاہر ان کی صحت اچھی تھی لیکن پیر سے معذور تھے۔ برآمدے میں ایک آدمی کے سہارے کھڑے ہو گئے اور سب سے مصافحہ کیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ مجھ سے مخاطب ہوئے تو میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور جتنی ان کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھی تھیں ان کی فہرست پیش کی تو انھوں نے اپنی باقی تصنیفات کا اضافہ اپنے قلم سے کر دیا۔ چونکہ اس دن خواجہ صاحب کے پروگرام میں لمبنی کا سفر بھی شامل تھا جو گوتم بدھ کی جائے پیدائش ہے ۔ اس لیے مفصل بات چیت نہیں ہو سکی۔
خواجہ صاحب بمبئی جیسے دور دراز شہر سے شمالی مشرقی علاقے میں آئے تھے اس لیے یہاں کے اہم مقدس مقامات کو دیکھنا چاہتے تھے ۔ لمبنی کے علاوہ وہ کبیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے مگہر بھی تشریف لے گئے۔
گورکھپور یونیورسٹی میں خواجہ صاحب نے لکچر دیا جس میں قومی ایکتا کو مزید مستحکم بنانے کے لیے کبیر کے اصولوں پر چلنے کی ہدایت کی گورکھپور ریڈیو اسٹیشن نے خواجہ صاحب کی آمد پر اپنے یہاں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو میں پروفیسر محمود الٰہی صاحب نے ان سے ایسے ایسے سوالات کئے کہ ان کی زندگی کے سارے گوشے اجاگر ہو گئے۔ خواجہ صاحب جب بستی جانے لگے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ بستی کے لوگوں نے خواجہ صاحب کا بڑا خیر مقدم کیا۔ ہنومان پرشاد جگرؔ صاحب نے ان کی بڑی ضیافت کی اور انھیں اپنے دولت خانے پر لے جانا باعثِ فخر سمجھا۔ بستی انفارمیشن دفتر کی طرف سے ناوابستہ تحریک پر ایک پروگرام منعقد ہواجس میں خواجہ صاحب نے ناوابستہ تحریک کی غرض و غایت پر پُر مغز تقریرکی۔ لوگوں کی فرمائش پر اپنی ایک کہانی ’’تین مائیں ایک بچہ‘‘ بڑے ہی دلچسپ انداز میں سنائی۔ بستی میں تقریباً ایک ہفتے کے قیام کے بعد خواجہ صاحب بمبئی واپس ہوئے اور جب وہ بمبئی پہنچے تو بستی کے متعلق ’’آزاد قلم‘‘ میں اپنے خیال کا اظہار کیا۔
اب تو خواجہ صاحب سے خط و کتابت کا بے تکلف سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر کوئی کتاب نایاب ہوتی اور ان کے پاس ہوتی تو لکھنے پر فوراً ارسا ل فرماتے۔ مقالے کے متعلق خط کا جواب ضرور دیتے ۔ دورانِ تحقیق ایک منزل ایسی آئی کہ خواجہ صاحب سے براہ راست ملاقات کی ضرورت پڑی۔ میں نے ان کے پاس خط لکھا تو انھوں نے فوراً جواب دیا کہ جب آپ کی مرضی ہو آسکتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء کے اواخر میں میں نے بمبئی کا سفر کیا تو خواجہ صاحب نے مواد کی فراہمی میں میری مدد کی لیکن ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مصنف کے پاس اس کی لکھی ہوئی زیادہ تر کتابیں نہیں تھیں۔ بہر حال بمبئی کی دوسری لائبریریوں اور بلٹز کے دفتر سے میرے مسائل حل ہو گئے۔ بمبئی میں تقریباً ایک مہینے کا قیام رہا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ خواجہ صاحب بالکل تھک چکے ہیں۔ ایک ملاقات میں انھوں نے خود کہا کہ اب میں سوچتا ہوں کہ آرام کروں۔ تب میں نے کہا نہیں جناب آدمی کی زندگی کام کرتے رہنے سے عبارت ہے، اگرآپ لکھنا پڑھنا بند کردیں گے تو اور بوریت ہوگی۔ جینے کے لیے مصروفیت کی ضرورت ہے ۔ اس پر خواجہ صاحب بہت خوش ہوئے ۔ جب میں ان کے پاس سے گورکھپور آنے لگا تو انھوں نے کہا ، گورکھپور پہنچتے ہی خط لکھنا۔ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا یاتو بڑے ہی مایوسانہ انداز میں ہاتھ ملاتے ہوئے کہا معاف کرنا بھائی ،یہ لنگڑا آدمی آپ کو دروازے تک بھی نہیں چھوڑ سکتا۔
خیر میں بمبئی سے گورکھپور آگیا اور اپنا کام مکمل کرنے میں مصروف ہو گیا۔ مقالہ جمع کرنے کے بعد خواجہ صاحب کے پاس خط لکھا جس میں تعلیم کے میدان کی حقیقت حال اور اپنے معیار زندگی کے متعلق لکھا تو انھوں نے بڑی اچھی رائے دی کہ آپ جیسا معیار زندگی والے لوگوں کو اونچی تعلیم نہیں حاصل کرنی چاہیے بلکہ ہائی اسکول یا انٹر کے بعد کوئی ہنر سیکھنا چاہیے لیکن آپ دل برداشتہ نہ ہوں محنت کبھی کسی کی رائگاں نہیں جاتی۔
پی ۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری ایوارڈ ہونے کے بعد جب میں نے خواجہ صاحب کو خط لکھا تو انھوں نے مبارکباد کا خط لکھا اور بطور انعام سو روپیہ کا منی آرڈر بھی بھیجا۔
ڈگری ملنے کے بعد ہاسٹل خالی کرنا پڑا تو شہر میں رہنے کا پیچیدہ مسئلہ پیش ہوا۔ اسی پریشانی کے عالم میں خواجہ صاحب کو ایک جذباتی خط لکھ دیا۔ خواجہ صاحب پر اس خط کا بڑا اثر ہوا۔ انھوں نے میرا ذکر اپنے مختلف ملنے والوں سے کیا اور میرے لیے اپنے ایک فلمی ساتھی جے۔کے۔صاحب کے یہاں گنجائش پیدا کرلی۔ رہنے کی جگہ اور پانچ سو روپیہ ماہانہ پر بات طے ہوئی۔ خواجہ صاحب نے فوراً میرے پاس خط لکھا کہ میں کرایہ بھیج رہا ہوں اور آپ بمبئی چلے آئیے۔ میں نے شکریہ کے ساتھ بمبئی پہنچنے کا خط لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ آپ نے بمبئی جیسے شہر میں قیام و طعام کا انتظام کر دیا یہی کیا کم ہے۔ اور جناب میں عمر کے اس دور سے گذر رہا ہوں کہ مجھے آپ جیسے بزرگوں کی خودخدمت کرنی چاہیے۔ اس لیے کرایہ بھیجنے کی زحمت نہ کیجئے گا ۔ میں جلد ہی بمبئی پہنچ رہا ہوں۔ پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ میں بمبئی پہنچ گیا۔ خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آداب کیا ۔ اس وقت وہ بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے ۔ فوراً مجھ سے پوچھا چائے پیئں گے یا کافی! میں نے کہا چائے۔
تھوڑی دیر میں چائے آگئی۔ جب میں چائے پی رہا تھا تبھی میرے لیے جے۔کے۔صاحب کے پاس خط لکھا اور جب میں چائے پی چکا تو فوراً ایک کاغذ پر منزل پر پہنچنے کا نقشہ بنا دیا ۔ نقشے کے سہارے میں جے۔کے۔صاحب کے فلیٹ پر پہنچ گیا۔ اتفاق سے اس دن ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ دوسرے دن ذرا دیر سے خواجہ صاحب کے پاس پہنچاتو لگے ڈانٹنے ۔ میرا تو برا حال تھا اور خواجہ صاحب ڈانٹے چلے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’بمبئی تیز رفتا شہر ہے ۔ آپ اپنی دیہاتی معصومیت چھوڑدیجئے ورنہ بھوں کوں مرجائو گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں لنگڑا او اندھا آدمی آج ہوں کل نہیں۔ میرا کیا بھروسہ‘‘۔ میں فوراً وہاں سے اٹھ کر جے۔کے۔صاحب کے پاس گیا اور اس دن ملاقات ہوگئی۔ جے۔کے۔صاحب بڑے ہی خوش اخلاقی سے پیش آئے لیکن بعض وجوہ سے انھوں نے میرے متعلق خواجہ صاحب سے جو وعدہ کیا تھا اس کے ایفا سے معذور تھے۔ اس سے خواجہ صاحب بہت فکر مند ہوئے۔ دو ہفتہ بعد خود انھوں نے اپنے فلم پروڈکشن میں میرے لیے کانٹی نیوٹی لکھنے کی جگہ نکال لی۔
اب میں خواجہ صاحب سے اور قریب ہو گیا ۔ مہینے میں چار پانچ دن شوٹنگ کا کام ہوتا جس میں کانٹی نیوٹی لکھنا ہوتا تھا۔ باقی اور دنوں میں خواجہ صاحب یا تو کسی فلم کا مکالمہ ڈکٹیٹ کرتے یا اپنی فلم ’’ایک آدمی ‘‘ کے مکالمہ کی کئی کاپیاں نقل کرواتے۔ دوپہر کے کھانا کے بعد جب خواجہ صاحب آرام کرنے کے لیے لیٹتے تو مجھ سے کہتے بھئی آپ نے مجھ پہ مقالہ لکھا ہے وہ پڑھ کر سنائیے ، میری بینائی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ میں پڑھ نہیں سکتا ۔ لہٰذا میں خواجہ صاحب کو مقالہ پڑھ کر سناتا۔ جب کئی دن میں مقالہ پورا سنا دیا تو بہت خوش ہوئے۔ اٹھ بیٹھے اور مجھ سے ہاتھ ملایا ۔ اور مزید یہ بھی کہا کہ میں اس مقالے کو اپنے ٹرسٹ سے چھپوائوں گا۔
شوٹنگ کے دن خواجہ صاحب اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے جب تک شوٹنگ ختم نہیں ہو جاتی ۔ اور یونٹ کا ہر فرد کھانے سے فارغ نہیں ہو جاتا ۔ اگر شوٹنگ دن بھر چلتی تو وہ دن بھر کھانا نہیں کھاتے ۔ بس کافی پیا کرتے تھے۔ رات کی شوٹنگ میں وہ رات کی رات جاگتے۔ ہاں میں نے ان کے اندر یہ سب سے بڑی خوبی دیکھی کہ ہر فرد کا برابر خیال کرتے تھے۔ اداکار سے لیکر کیمرہ مین ، کلیپ مین اور میک اپ کرنے والے ان کی نگاہ میں برابر تھے۔ سب خواجہ صاحب سے ہاتھ ملاتے اور بے تکلف باتیں کرتے۔ جیسے شوٹنگ ختم ہوتی اپنے سیکریٹری سے سب کو فوراً کھانا کھانے کا پیسہ دلواتے، اس لیے ہر آدمی خواجہ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مندرہتا تھا۔
خواجہ صاحب میں کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی ۔ ضعیفی اور معذوری کے باوجود جتنا وہ لکھ پڑھ لیتے تھے اتنا کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ طلوع آفتاب سے پہلے بیدار ہو تے تھے اور اپنے نوکر کے سہارے صبح ٹہلتے تھے۔ بعد میں انگریزی اردو کے اخبارات پڑھتے۔ ان کے بستر پر اتنے اخبار و رسائل ہوتے تھے کہ مشکل سے بیڈ شیٹ دکھائی دیتی تھی اور خواجہ صاحب ان اخباروں اور رسالوں کے بیچ بیٹھتے ، لکھتے اور سوتے تھے۔ بلٹز کا آزاد قلم اورآخری صفحہ بلا ناغہ لکھتے ، اس کے لیے ہفتہ میں ایک دن مقرر تھا۔ بصارت اتنی کمزور ہو چکی تھی کی کبھی کبھار تو ایک ہی لائن پر دو مرتبہ لکھ دیتے تھے اور اگر کبھی قلم کی سیاہی ختم ہو جاتی تو اس کا بھی احساس نہیں ہوتا لیکن مشق و بصیرت سے ان کا قلم چلتا رہتا ۔ یہ اور بات تھی کہ جو ان کی تحریر نقل کرتا تھا اس کی شامت آجاتی تھی ۔ وحیدا نور صاحب ڈانٹ کی زد میں آجاتے تھے اور اگر وہ موجود نہ ہوتے تو وہ سب مجھے جھیلنا پڑتا۔ جب ان کی تحریر پڑھنے میں ہچکچاہٹ ہوتی تو ڈانٹتے اور زور سے کہتے پڑھو۔ ایک پی۔ایچ ۔ڈی کی طرح پڑھو۔ پی۔ایچ۔ڈی بے چارہ کیا خاک پڑھے جب حروف روشنائی سے بے نیاز ہوں ۔ خواجہ صاحب آزاد قلم کبھی ڈِکٹیٹ کرواتے اور کبھی نقل کرنے کے بعد پڑھواتے۔ اگر روانی کے ساتھ پڑھتا اور کہیں غلطی نہیں ہوتی توبہت خوش ہوتے ۔ جیب سے بیس روپیہ نکال کر دیتے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ پیسے کی جب بھی ضرورت ہو بغیر کسی تکلف کے لے لینا۔ بلٹز ان کا مقصدِ حیات تھا۔ بغیر بلٹز لکھے انھیں چین نہیں آتا تھا۔ بلٹز بمبئی میں جمعرات ہی کو مل جاتا ہے۔ جمعرات کے دن خواجہ صاحب بلٹز کے منتظر رہتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بلٹز دفتر سے جو ملازم آتا تھا وہ اس کے گھنٹی بجانے کی اسٹائل سے آشنا تھے ۔ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ بلٹز دفتر سے آیا ہوا ملازم باہر گھنٹی بجاتا ہے اور اندر سے خواجہ صاحب نے یہ کہہ دیا کہ بلٹز آگیا۔ گھنٹی بجانے کی اسٹائل سے وہ ملاقات کرنے والے لوگوں کی دل کی بات اور مقصد گھنٹی کی آواز ہی میں پہچان جاتے تھے۔
مجھ سے اکثر خواجہ صاحب کہتے تھے کہ جب تک آنکھ چشمے سے بے نیاز ہے تب تک خوب پڑھ لو۔ خاص طور سے پنڈت جواہر لال نہرو کی کتاب ’’گلمپز آف دی ورلڈ ہسٹری ‘‘پڑھنے کی ہدایت کی۔ روزانہ وہ جانچ بھی کرتے کہ کتنے صفحات کا مطالعہ ہوا اور کون کون سی چیز معلوم ہوئیں۔ خواجہ صاحب نہرو جی کے طرز تحریر کے گرویدہ تھے۔
خواجہ صاحب ایک سیکولر مزاج کے آدمی تھے۔ عید اور بقرعید کے دن اپنے دوست و احباب کو سیوئیاں کھلاتے اور رکشا بندھن کے دن ان کی بہنیں ان کے ہاتھوں میں راکھی باندھتیں اور لڈو کھلاتیں۔خواجہ صاحب رکشابندھن کا لڈو اسی رغبت سے کھاتے تھے جس رغبت سے سیوئیاں ۔ وہ مذہبی بحث مباحثہ میں کبھی نہیں پڑتے تھے۔ جس مسلم تہذیب میں ان کی پرورش ہوئی تھی وہ تہذیب آخری وقت تک ان میں برقرار تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مذہب کے مقلد نہیں تھے انھیں خدا کے وجود میں یقین تھا۔ ایک روز میں حیرت میں پڑگیا جب انھوں نے جون کے مہینہ میں ۷۳برس کی عمر میں روزہ رکھا۔
مجھے خواجہ صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے ان کی تخلیقات کے مطالعے سے ان کا جو پیکر تیار کیا تھا ہو بہو اس کا عکس ان کے اخلاق و عادات و اطوار اور معمولات زندگی میں دیکھا۔
خواجہ صاحب کے نزدیک اپنے اور پرائے کا تصور نہیں تھا۔ جوبھی ان کے قریب ہوتا تھا وہی ان کا اپنا ہوتا ۔ میں بھی خواجہ صاحب کی شفقت کا مقروض ہوں ۔ میرے لیے انھوں نے بہت کچھ کیا اپنے فلم پروڈکشن میں مجھے کام دیا اور ہر چھوٹی بڑی بات کا باپ کی طرح خیال کیا۔ برسات ہونے لگی تو فوراً چھتری کا انتظام کیا عید کے موقع پر کپڑے کا خیال کیا۔ اپنے دست شفقت سے مجھے عیدی دی ۔ پڑھنے لکھنے کے لیے مختلف لائبریریوں سے رابطہ قائم کروایا۔
خواجہ صاحب مساوات اور انسانیت کے جتنے بڑے پجاری اپنی تحریروں میں تھے ویسے ہی وہ مجھے اپنے کردار اور گفتار میں نظر آئے۔ ان کا دسترخوان وسیع تھا ۔ کھانے کے وقت جو بھی موجود ہوتا بغیر کسی تکلف کے دستر خوان پر بیٹھ جاتا ۔ خواجہ صاحب اس چیز کو بہت پسند کرتے تھے۔ جو بلانے پر جاتا یا کھانا کھا کر اٹھ جاتا اسے ڈانٹتے بھی۔ کھانا کھاتے وقت اپنے باورچی کو ساتھ میں بٹھا کر کھلاتے ۔ اگر وہ اکیلے کھانا کھا لیتے تو انھیں ہضم ہی نہیں ہوتا۔ اس کا مجھے اس وقت احساس ہوا کہ آدمی جتنا ہی عظیم ہوتا ہے اتنا ہی اس کے دل میں ہر آدمی کے لیے جگہ ہوتی ہے۔
خواجہ صاحب کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا اور مشکل سے دو پھلکے کھاتے تھے اور اگر یہ کہا جاتا کہ اور کھائیے تو کہتے بھائی بہت کام کرنا ہے زیادہ کھانے سے نیند آجائے گی۔ ۷۳ برس کی عمر میں کام کا اتنا خیال تھا ۔ کام کرنا ہی ان کا مقصد حیات تھا۔ اگر کوئی کام کر رہے ہیں اور چائے آگئی ہے تو ٹھنڈی ہو رہی ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ کام میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اکثر وہ ٹھنڈی چائے پیتے۔
خواجہ صاحب اپنے ذاتی کام کے لیے کبھی حکم نہیں صادر کرتے تھے۔ آخری وقت میں جب کہ بڑی حد تک وہ آنکھ اور پائوں سے معذور ہو چکے تھے اپنا کام خود کرنا پسند کرتے تھے۔ مثلاً اگر دروازہ بند ہوتا تو وہ کسی کو دروازہ کھولنے کا حکم صادر نہیں کرتے بلکہ آہستہ آہستہ اٹھتے، اپنی چھڑی ٹٹولتے اور چھڑی سے دروازہ کھولنے کی ناکام کوشش کرتے ۔ قریب جو بھی ہوتا اس جد وجہد کو دیکھ کر دروازہ کھول دیتا۔ خواجہ صاحب اسے شکر گزار آنکھوں سے دیکھنے لگتے ۔ اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہیں تھی مگر قوت ارادی اتنی مضبوط تھی کہ اپنی کوشش سے اٹھ کھڑے ہوتے اور چھڑی کے سہارے چلنے لگتے۔ جو بھی قریب ہوتا بڑھ کر اپنا کندھا پیش کر دیتا اور خواجہ صاحب بخوشی کندھے کا سہارا قبول کر لیتے اور اس کے سہارے سے ڈائننگ ٹیبل اور ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ جاتے ۔ میں نے بھی اپنے کندھے کا سہارا دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ خواجہ صاحب کے جنازے کو میں کاندھا نہ دے سکا۔
بڑے آدمی ہر ایک کے ساتھ یکساں حسن سلوک کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔مگر ہر ایک کو ہمیشہ یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ جناب کی نگاہ کرم مجھ پر سب سے زیادہ ہے ، یہی بات خواجہ صاحب میں میں نے دیکھی ۔ جو بھی ان سے زیادہ قریب رہے ان کو یہی گمان رہا کہ محترم سب سے زیادہ مجھے چاہتے ہیں اور خواجہ صاحب کا یہ عالم تھا کہ وہ سب کو برابر چاہتے تھے ۔ ہر کسی کی یہ خواہش تھی کہ خواجہ صاحب ابھی اور جیتے لیکن مشیت ایزوی کا علم کسے ہے؟
خواجہ صاحب جسمانی طورپر آج ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی ساری روح ان کی تخلیقات میں سمٹ آئی ہے۔ ان کی عہد ساز تخلیقات انسان کے شعور کو بیدار کرتی رہیں گی۔ ایسے لوگ صدیوں میں کہیں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی ہستیوں کے متعلق کہا گیا ہے ؎

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

Khuda Hafiz Zubair Saheb

Articles

زبیرصاحب ، خدا حافظ

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

 

زبیر رضوی جیسی متنوع شخصیت ذرا کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جدید شعرا کی جھرمٹ کا روشن ترین ستارہ، ہندوستانی ڈراما کا ایک مستند نقاد اور محقق، اردو کی ادبی صحافت کا ایک رجحان ساز مدیر، فائن آرٹ کا مبصر اور اسپورٹس کامینٹیٹروغیرہ وغیرہ گویا ان کی شخصیت رنگوں کا ایک کولاژ تھی کہ جس کا ہر رنگ اپنی جگہ مجلا اور مکمل تھا۔ میر کے لفظوں میں کہیں تو :ــ’’پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ‘‘ زبیر صاحب کی طبیعت کا یہ تنوع جب ایک نکتے پر مرکوز ہوتا تو ’’ذہنِ جدید‘‘بن جاتا تھا۔ اس رسالے کا ہر شمارہ اُن کی ہمہ جہتی کا تعارف بن کر ابھرتا ۔ اداریہ کی بے باکی سے لے کر فلم ، موسیقی، ڈراما، پینٹنگ کی تجزیاتی رپورٹنگ تک ہر ہر صفحے پر ان کے باریک بیں مزاج کا نقش صاف جھلکتا ۔ادبی صحافت میں ہم بلا تکلف نیاز فتح پوری، محمد طفیل ، محمود ایاز ،شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کے ساتھ ان کا نام لے سکتے ہیں۔ذہنِ جدید کا ہرشمارہ خاص ہوتا تھا۔ خاص اس لیے کہ اس میں ادب کے معاصر رویے اور رجحانات کے علاوہ لگ بھگ سو صفحات عالمی ادب ، تھیٹر، مصوری، سنگیت، فلم ، کارٹون اور فوٹو گرافی وغیرہ کے لیے مخصوص ہوتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان موضوعات پر بیشتر بلکہ کبھی کبھی تمام تحریریں زبیر صاحب کے زورخیز قلم کا نتیجہ ہوتی تھیں۔ خیر عالمی ادب کے نمائندہ تخلیق کاروں کا تعارف و تبصرہ کچھ ایسا مشکل کام نہیں تاہم موسیقی ، مصوری، فلم ،کارٹون اور فوٹو گرافی پر تواتر سے لکھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ زبیر صاحب کی فنونِ لطیفہ سے والہانہ دلچسپی ہی تھی جو ان سے اس نوع کا مشکل کام کروا لیا کرتی تھی۔
بطور شاعرزبیر رضوی نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ وہ ان چند ایک جدید شعرا میں تھے جن کی مقبولیت علمی اور ادبی حلقے کے علاوہ عوامی مشاعروں میں بھی خوب تھی۔ ’ یہ ہے میرا ہندوستان‘ جیسی مقبول نظم کے خالق زبیر رضوی کی جب ’پرانی بات ہے‘ سیریز کی نظمیں شائع ہوئیں تو ان نظموں کو جدید شاعری میں ایک اضافہ تسلیم کیا گیا۔یہ نظمیں اپنے داستانوی اسلوب اور ہند+اسلامی تہذیب کے پس منظر کی وجہ سے خاصی مقبول بھی ہوئیں۔نظموں کی زبان غیر آرائشی ہے اور ان نظموں کی ایک خاصیت پیکر تراشی بھی ہے۔ پیکر تراشی کا عمل نظموں کے آغاز سے ہی جاری ہوجاتا ہے اور اختتام تک پہنچے پہنچتے بعض پیکر علامت اور بعض استعاروں میں ڈھل جاتے ہیں۔ لہٰذا جب نظم ختم ہوتی ہے تو قاری ایک مانوس دنیا میں رہتے ہوئے بھی حیرت انگیز احساس سے دوچار ہوتا ہے۔ ’پرانی بات ہے‘سیریز کی نظموں کے تعلق سے خود زبیر رضوی نے ایک بار کہا تھا کہ :’’میں شاعری کو ایک ایسا جھوٹ سمجھتا ہوں جس کے توسط سے سچ کو پایا جاتا ہے۔ میں نے ایسا کرتے ہوئے اس سارے سچ کو بھی اپنا ورثہ سمجھا جو مجھ سے پہلے کی گئی شاعری میں دمکتا چمکتا رہا تھا۔ میرے نزدیک اس کرۂ ارض پر انسان کا وجود سب سے بڑا عجوبہ اور کرشمہ ہے اس لیے میرا تعلق انسان کی جہاں بانی اور جہاں سازی اس کی آفاقیت اور بے پناہی ، اس کی سرشت اور رشتوں کی پیچیدگی کے عمل سے بڑا گہرا ہے۔ میں امروہے جیسے ایک قصبے سے سفر کرتا ہوا نوابی شہر حیدر آباد تک پہنچا تھا اور پھر دلّی میرے قیام کا آخری پڑاؤ بن گئی اور یوں شہر اور مدنیت کے تضاد، ٹکراؤ، انسان کا مشینی عمل اس کی مادیت پرستی اور زندگی کی آسائشوں کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کو استعمال کرنے کی قوت کو میری تخلیقی فکر میں ایک بیکرانی ملی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ مجھ میں وہ قدیم بھی کنڈلی مار کے بیٹھا رہا تھا جس کی جڑیں ہزاروں برسوں کی تاریخ و تہذیب میں پیوست تھیں۔ میرا یہ قدیم، ظلمت پسند نہیں تھا اس میں انسان کے لیے ایسی ہی برکتیں ، نعمتیں تھیں جو خود انسان نے اپنی گمراہیوں سے گنوا دیں۔ یہ تاریخی اور تہذیبی ملال میری نظموں کے سلسلے ’ پرانی بات ہے ‘ میں ایک حکائی شعری لہجہ بن کر ابھرا ہے ، مدنیت کے سلسلے میں میرے رویے کی بڑی واضح مثالیں میرے چوتھے شعری مجموعے ’دھوپ کا سائبان ‘ میں شامل ہیں۔ یہ میری آہنگ سے آزاد نظموں کا مجموعہ ہے اور اس وقت یہ ساری نظمیں کاغذ پر منتقل ہوتی چلی گئی تھیں جب ’ پرانی بات ہے ‘ جیسی پابند نظمیں لکھنے کے بعد مجھے لگا تھا کہ اب جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ آہنگ سے ماورا اپنا تخلیقی اظہار چاہتا ہے۔ اس لیے ان نظموں کی ہیئت میرے ارادے سے کہیں زیادہ اپنے شعری اظہار کا تقاضا تھا۔ ‘‘
زبیر رضوی کی غزلوں میں ایک نوع کی تحیر خیزی نظر آتی ہے۔ بالکل سامنے کی باتوں کو غزل کا موضوع بنانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ جدید شعرا میں یہ وصف محمد علوی کا اختصاص ہے تاہم علوی کے شعروں میں موضوع کو برتتے ہوئے ایک طرح کی بذلہ سنجی (wit) نظر آتی ہے جبکہ زبیر صاحب کے یہاں witکے بجائے باوقار سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے
تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں
پہلے مصرعے میں راشتہ اور دامن ، پھر الجھنے اور ٹوٹنے کی اور دوسرے مصرعے میں نکلنے اور بازار کی مناسبتوں کے لطف سے قطع نظر ایک کہنہ مضمون میں واقعہ نگاری کے اسلوب نے گویا جان ڈل دی ہے۔ یہ زبیر رضوی کا خاص رنگ ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تمام راستہ پھولوں بھرا تمہارا تھا
ہماری راہ میں بس نقش پا ہمارا تھا
پھر اس کے بعد نگاہوں نے کچھ نہیں دیکھا
نہ جانے کون تھا جو سامنے سے گزرا تھا
میں اس محفل کی روشن ساعتوں کو چھوڑ کر گم ہوں
اب اتنی رات کو دروازہ اپنا کون کھولے گا
ادھر کھلی کوئی کھڑکی نہ کو ئی دروازہ
جہاں سے آگ کا منظر دکھائی دیتا ہے
فلابئیر نے کہا تھا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے ، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘ تخلیقی آزادی کی اساس یہی ہے کہ تخلیق کار شہرت و دولت کوموخر جانے اور سرشاری و حسن آفرینی کو مقدم۔ زبیر صاحب نے ہمیشہ تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دی اور ادب میں تنقید کی بالادستی ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ ظاہر ہے بغیر کسی جذباتی رشوت، سمجھوتے اور لالچ کے انھوں نے نہ صرف اپنا ادبی سفر جاری رکھا بلکہ کامیاب بھی ہوئے۔
آج زبیر رضوی کاہمارے در میان سے جانا اردو شاعری کے علاوہ اردو کی مجلاتی صحافت کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ یہ سوچ کر ہی دل سی پارہ ہورہا ہے کہ بڑی زبان کا زندہ رسالہ ’’ذہنِ جدید‘‘ اب پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ خیر زبیر صاحب ، خدا حافظ۔

—————————————————————-

Majrooh Sultanpuri ke Muntakhab Ashaar

Articles

مجروح سلطان پوری کے منتخب اشعار

مجروح سلطان پوری

مجروح سلطانپوری(مرحوم) نے پروفیسر مغنی تبسم صاحب (مدیر شعروحکمت) کے اصرار پر اپنے پچاس اشعار منتخب کئے تھے ۔جو کسی وجہ سے شعرو حکمت میں شائع نہیں ہو پائے۔ہم قارئین ِ اردوچینل کی خدمت وہ انتخاب پیش کررہے ہیں۔ ادارہ

1

جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد وگیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے

2

ختم شورِ طوفاں تھا دور تھی سیاہی بھی
دم کے دم میں افسانہ تھی مری تباہی بھی

3

شمع بھی اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا
میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی راہی بھی

4

کہاں وہ شب کہ ترے گیسوﺅں کے سائے میں
خیا لِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے

5

بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے

6

کہیں ظلمتوں میں گھر کر ،ہے تلاشِ دستِ رہبر
کہیں جگمگا اٹھی ہیں مرے نقش ِ پا سے راہیں

7

کبھی جادئہ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں باہیں

8

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاﺅں کی زنجیر نہ دیکھ

9

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

10

یہ آگ اور نہیں ، دل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو، جل بجھیں گے پروانے

11

دستِ منعم مری محنت کا خریدار سہی
کوئی دن اور میں رسوا سرِ بازار سہی

12

اہل ِ تقدیر ! یہ ہے معجز ئہ دستِ عمل
جو خزف میں نے اٹھایا وہ گہر ہے کہ نہیں

13

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ، ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

14

سر پر ہوائے ظلم چلے ، سو جتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

15

سر خیِ مے کم تھی میں نے چھو لئے ساقی کے ہونٹ
سر جھکا ہے ، جو بھی اب اربابِ میخانہ کہیں

16

اے فصلِ جنوں ہم کو پئے شغلِ گریباں
پیوند ہی کافی ہے اگر جامہ گراں ہے

17

میں ہزار شکل بدل چکا، چمن ِ جہاں میں سن اے صبا
کہ جو پھول ہے ترے ہاتھ میں، یہ مرا ہی لختِ جگر نہ ہو

18

شبِ ظلم نرغہ  راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فرازِ دار سے دیکھ لوں کہیں کاروانِ سحر نہ ہو

19

سرشک ، رنگ نہ بخشے تو کیوں ہو بارِ مژہ
لہو حنا نہیں بنتا تو کیوں بدن میں رہے

20

بے تیشہ  نظر نہ چلو راہِ رفتگاں
ہر نقشِ پا بلند ہے دیوار کی طرح

21

سوئے مقتل کہ پئے سیرِ چمن جاتے ہیں
اہلِ دل جام بکف سر بہ کفن جاتے ہیں

22

جو ٹھہرتی تو ذرا چلتے صبا کے ہمراہ
یوں بھی ہم روز کہاں سوئے چمن جاتے ہیں

23

روک سکتا ہمیں زندانِ بلا کیا مجروح
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں

24

سیلِ رنگ آہی رہے گا ، مگر اے کشتِ چمن
ضربِ موسم توپڑی بندِ بہاراں تو کھلا

25

ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دیکھا دور سے لیکن
یہ نہ سمجھنا ہم کو ہوا ہے ،جان کا نقصاں تم سے زیادہ

26

اسیرِ بندِ زمانہ ہوں صاحبانِ چمن
مری طرف سے گلوں کو بہت دعا کہئے

27

یہی ہے جی میں کہ وہ رفتہ تغافل وناز
کہیں ملے تو وہی قصہ  وفا کہئے

28

رہے نہ آنکھ تو کیوں دیکھئے ستم کی طرف
کٹے زبان تو کیوں حرفِ نا سزا کہئے

29

ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیا ہ رات چلے

30

پھر آئی فصل کہ مانندِ برگِ آوارہ
ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے

31

بلا ہی بیٹھے جب اہلِ حرم تو اے مجروح
بغل میں ہم بھی لئے اک صنم کاہات چلے

32

مانا شبِ غم ، صبح کی محرم تو نہیں ہے
سورج سے ترا رنگِ حنا کم تونہیں ہے

33

چاہے وہ کسی کا ہو لہو دامنِ گل پر
صیاد یہ کل رات کی شبنم تو نہیں ہے

34

اب کا رگہِ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے

35

کرو مجروح تب دار و ر سن کے تذ کرے ہم سے
جب اس قامت کے سائے میں تمہیں جینے کا ڈھنگ آئے

36

اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہانہ جائے
جب تک کسی ثمر کو مر ا دل کہا نہ جائے

37

میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیرِ بام ودر
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے

38

برقِ تپیدہ بادِ صبا ، شعلہ اور ہم
ہیں کیسے کیسے اس کے گرفتار دیکھئے

39

ساز میں یہ شورشِ غم لائے مطرب کس طرح
اُس کی دھن پابندِ نے نغمہ ہمارا نے شکن

40

دیکھئے کب تک بلائے جاں رہے اک حرفِ شوق
دل حریصِ گفتگو اور چشمِ خوباں کم سخن

41

مصلوب ہوا کوئی سرِ راہ تمنا
آوازِ جرس پچھلے پہر تیز بہت ہے

42

میں ہم آغوشِ صنم تھا مگر اے پیرِ حرم
یہ شکن کیسے پڑی آپ کے پیراہن میں

43

مجھ سے کہا جبریلِ جنوں نے یہ بھی وحیِ الٰہی ہے
مذہب تو بس مذہبِ دل ہے باقی سب گمراہی ہے

44

سنگ تو کوئی بڑھ کے اٹھاﺅ شاخِ ثمر کچھ دور نہیں
جسکو بلندی سمجھے ہو ان ہاتھوں کی کوتاہی ہے

45

ہم ہیں کعبہ، ہم ہیں بتخانہ، ہمی ہیں کائنات
ہوسکے تو خود کو بھی اک بار سجد ا کیجئے

46

پاکبازی میں ہیں نورِ عارض لالہ رخاں
ہیں سیہ کاری میں کحلِ نرگسِ مستانہ ہم

47

شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا

48

ہٹ کے روئے یار سے تزیینِ عالم کر گئیں
وہ نگاہیں جن کو اب تک رائگاں سمجھا تھا میں

49

نظارہ ہائے دہر بہت خوب ہےں مگر
اپنا لہو بھی سرخیِ شام وسحر میں ہے

50

وہ بعدِ عرضِ مطلب ،ہائے رے شوقِ جواب اپنا
کہ خاموش تھے اور کتنی آوازیں سنیں میں نے
٭٭٭

بحوالہ : ”اردو چینل“ (مجروح سلطان پوری نمبر) جلد 4، شمارہ ستمبر 2001

Intekhab E Kalam Shakeeb Jalali

Articles

انتخابِ کلام شکیب جلالی

شکیب جلالی

 

 

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی

آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط

یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے

کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی

کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے

دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں

مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان

ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے

کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر

آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے

دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے


2

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا

انہیں تو دن کا بھی سایا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اب تو

وہ دور کوئی جزیرہ دکھائی دیتا ہے

وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں

پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی

کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے

سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قد بھی

زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے

کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ

ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے


3

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہوجائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جائوں جنگلوں میں شام ہوجائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہوجائے

مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہوجائے

شکیب اپنے تعارف کے لیے بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے


 

4

 

ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر

آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ

دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر

یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں

سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر

کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے

کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی

پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک

بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر

حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ

چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر


5

کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے

کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی

یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی

درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ

کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی

چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند

کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی

یہ آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے

کہ دشت شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی

مکان اور نہیں ہے بدل گیا ہے مکیں

افق وہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر

دیار چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی


شکیب جلالی

 

اردو شاعر۔ اصل نام۔ سید حسن رضوی۔ یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ لیکن والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ شکیب جلالی بن گئے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی جو لو دیتی تھی جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔ شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انہوں نے ایک رسالہ ” جاوید “ نکالا۔ لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر ”مغربی پاکستان“ نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے۔ مغربی پاکستان چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے۔
خودکشی
تعلقاتِ عامہ کے محکمے میں بھی انہیں ایک ذمہ دارانہ ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ ان سب چیزوں سے مطمئن نہیں تھے۔ ان کی شاعری ویسے ہی شعلہ فشانی کرتی رہی اور پھر احساسات کی اس تپش کے آگے انہوں نے سپر ڈال دی اور محض 32 سال کی عمر میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل کے سامنے کود کر خودکشی کر لی اور اس طرح شعلوں سے لہلہاتے ہوئے ایک شاعر کا خاتمہ ہو گیا۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہیں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ