Phool Aur Bachche

Articles

پھول اور بچے

پروفیسر صاحب علی

Kawwon ka School

Articles

کووں کا اسکول

پروفیسر صاحب علی

“Death of A Dream” Short Story by Sigrid Undset

Articles

ایک خواب کی موت

سیگرواُنڈسیت


گرجا گھر کے دروازے پر ہاتھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں لے کر راہبائیں آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔خوف نے کرستین کے پورے ہوش و حواس کو اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔اسے لگا جیسے چلتے ہوئے وہ کچھ تو اپنے آپ کو ڈھورہی ہے اور کچھ دوسروں کے سہارے بڑھ رہی ہے۔دروازے سے گزر کر وہ سفید دیواروں والے کمرے میں داخل ہوگئے،جہاں موم بتیاں اور سرخ دیودار کی مشعل کی ملی جلی پیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور قدموں کی آہٹ سمند رکی لہر وں جیسی آوازیں پیداکررہی تھیں۔اس قریب المرگ عورت کو محسوس ہورہا تھا جیسے اس روشنی کی ہی طرح اس کی زندگی کی لو بھی بس اب بجھنے والی ہے اور ان قدموں کی آواز کے ساتھ ہی جیسے موت اس کے قریب آتی جارہی ہے۔
موم بتی کی روشنی پھر کھلے میں پھیل گئی تھی۔اب وہ برآمدے میں آگئے تھے۔چرچ کی بھورے پتھروں کی دیواروں اور اونچی اونچی کھڑکیوں سے اب موم بتی کی روشنی کھیلنے لگی تھی۔ اس وقت وہ کسی کی بانہوں کے سہارے تھی۔یہ سہارا ولفؔ ہی کا تھا۔مگر اس وقت تو وہ ان سبھی لوگوں جیسا دکھائی دے رہا تھا،جو اسے سہارا دیتے آئے ہیں۔ جب کرستین نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں حائل کردیں اور اپنا گال اس کی گردن سے لگالیا تو لگا جسیے وہ پھر سے بچی بن گئی ہے اور اپنے والد کے ساتھ ہے۔ساتھ ہی اسے ایسا بھی لگا،جیسے وہ کسی بچے کو اپنے سینے سے لگارہی ہے۔ اس کے کالے سر کے پیچھے سے لال روشنی دکھائی دے رہی تھی،ایسے لگ رہا تھا جیسے اک آگ کی لپٹ ہو جوہر طرح کے پیار کے لیے ضروری ہو۔
تھوڑی دیربعد اس نے آنکھیں کھولیں۔اب اس کے ذہن میں انتشار نہیں تھا۔اب وہ ایک کمرے میں اپنے بستر پر تکیے کے سہارے بیٹھی تھی۔ایک راہبہ کپڑے کی پٹی لیے اس پر جھکی ہوئی تھی۔اس میں سے سِرکے کی بو آرہی تھی۔وہ سِسٹر ایگنیس تھی۔کرستین نے اسے اس کی آنکھیں اور ماتھے کے لال مسّے سے پہچان لیا تھا۔دن اوپر چڑھ آیا تھا اور کھڑکی کے چھوٹے سے کانچ میں سے چھن کر پوری روشنی کمر ے میں آرہی تھی۔
وہ بھیانک درداب نہیں تھا،مگر وہ پسینے سے پوری طرح بھیگی ہوئی تھی۔سانس لیتے ہوئے اس کی چھاتی بہت زور سے آگے پیچھے ہورہی تھی۔جو دواسِسٹرایگنیس نے اس کے منہ ڈالی اس نے چپ چاپ نگل لی۔اس کا بدن بالکل ٹھنڈا تھا۔
کرستین نے اپنی پشت تکیے سے لگالی۔اب اسے یاد آیا کہ پچھلی رات کو کیاکیا وقوع پذیر ہوا تھا۔وہ مایاجال سے بھرا بُرا خواب بیت گیا ہے،لیکن وہ حیران بھی تھی۔پھر بھی یہ ٹھیک ہی ہوا کہ کام ہوگیا کہ اس نے بچے کو بچالیا اور ان بے چارے لوگوں کی روحوں کو اس نفرت انگیز کام سے دور ہی رکھا۔وہ سمجھتی تھی کہ اس کی وجہ سے اسے خوش ہونا چاہیے،کیوں کہ مرنے سے قبل اسے یہ اچھا کام کرنے کا موقع نہیں ملاتھا۔دن بھر کے کام کرنے کے بعد شام کو یورنؔ گارد کے گھر میں،اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے اسے جتنی طمانیت کا احساس ہوتاتھا،اس وقت اس سے زیادہ طمانیت کا احساس ہورہا تھا۔ اس کے لیے اسے ولفؔ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔جب وہ ولف کا نام لے رہی تھی تو شاید وہ دروازے کے پاس ہی کہیں بیٹھا تھا،کیوں کہ اسی وقت وہ اندر آیا اور بستر کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔کرستین نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھادیا۔اس نے ہاتھ اسی وقت اپنے ہاتھ میں لیااور مضبوطی سے تھام لیا۔
اچانک بستر مرگ پر پڑی کرستین بے چین ہوگئی اور اس کے ہاتھ اپنے گلے پر بندھی پٹی سے الجھ گئے۔
’’کیا ہوا کرستین؟‘‘ولف نے پوچھا۔
’’یہ کراس۔‘‘اس نے سرگوشی میں کہا اور نہایت تکلیف کے ساتھ اپنے والد کا سونے کا پانی چڑھا کراس کھینچ کر باہر نکال دیا۔تبھی اسے یاد آیا کہ اس نے کل بے چاری استینن کی روح کو سکون حاصل ہونے کے لیے کوئی تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔تب اسے کہاں پتہ تھا کہ دنیا میں اس کے لیے اب زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا ہے۔اس کے پاس دینے کے لیے اب کچھ نہیں بچا تھا،سوائے اس کراس کے، جو اس کے والد کا تھا اور اس کی شادی کی انگوٹھی کے جواب بھی اس کی انگلی میں پڑی تھی۔ اس نے انگوٹھی کو انگلی سے باہر نکالا اور اسے غور سے دیکھنے لگی۔اس کے کمزور ہاتھوں کو یہ کافی بھاری لگ رہی تھی،کیوں کہ یہ خالص سونے کی تھی اور بڑا سا لال پتھر اس پر جڑا ہواتھا۔ بہتر ہوگا کہ اسے بھی وہ کسی کو دے دے۔دینا تو چاہیے ،مگر کسے؟ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور انگوٹھی ولف کی جانب بڑھادی۔
’’تم یہ کسے دینا چاہتی ہو؟‘‘اس نے پوچھا اور جب کرستین نے کوئی جواب نہیں دیا تو خود ہی کہنے لگا،’’تمہارا مطلب ہے کہ میں اسے،کُلے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کرستین نے نفی میں سرہلایا اور پھر آنکھیں مضبوطی سے بند کرلیں۔
’’استینن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لیے کچھ دوں گی۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اس انگوٹھی کو اپنی نظروں سے تلاش کرنے لگی،جو ولف کی بھاری بھرکم ہتھیلی پر رکھی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گی۔اسے محسوس ہوا،جیسے وہ پہلی بار اس علامت کا مفہوم سمجھی ہو۔جو ازدواجی زندگی اس انگوٹھی نے اسے دی،جس کے خلاف اُسے اتنی شکایتیں رہی ہیں،جس کے خلاف وہ ہر دم سر گوشیاں کرتی رہی،جس پر اسے اتناغصہ رہا ہے اور جس کی وہ مخالفت کرتی رہی ہے۔باوجود ان سب کے جسے اس نے پیارکیا ہے،جس سے اس نے حِظ اٹھایا ہے چاہے وہ سکھ کے دن رہے ہوں یا دکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولف اور راہبہ نے کچھ بات کی،جسے وہ سن نہ سکی اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔کرستین نے چاہا کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھاکر اپنی آنکھیں پونچھ لے مگر وہ ایسا نہ کرسکی اورہاتھ اس کے سینے پر ہی پڑا رہا۔ اندرونی کرب نے اس کے ہاتھ کو اتنا بھاری بنادیا تھا،جیسے لگتا تھا کہ وہ انگوٹھی ابھی اس کی انگلی میں ہی ہے۔ا س کا دماغ پھر دھندلانے لگا۔اسے یہ جانناہی چاہیے کہ انگوٹھی واقعی چلی گئی ہے اور اس کاجانا اس نے خواب میں دیکھاہے۔اب سب کچھ غیر متوقع سا لگ رہا تھا۔کل رات بھی جو کچھ واقع ہوا،اس کے بارے میں بھی توقع نہیں تھی کہ واقعی کچھ ہوجائے گا۔یا پھر اس نے صرف خواب دیکھا تھا۔اپنی آنکھیں کھولنے کی طاقت بھی اس میں باقی نہیں تھی۔
’’سِسٹر!‘‘راہبہ نے اس سے کہا،’’اب آپ کو سونا نہیں چاہیے۔ولف آپ کے لیے پادری کو بلانے گیا ہے۔‘‘
ایک جھرجھری لے کرکرستین پوری طرح جاگ گئی۔اب وہ مطمئن تھی کہ سونے کی انگوٹھی جاچکی تھی اور اس کے بیچ والی انگلی پرا نگوٹھی پہننے کی جگہ پر سفید نشان بن گیا تھا۔
اس کے دماغ میں ایک اور واضح خیال گردش کررہا تھاکہ اس نشان کے مٹنے سے قبل اسے مرجانا چاہیے۔اس خیال سے وہ خوش تھی۔اسے محسوس ہواکہ یہ اس کے لیے ایک ایسا معمہ ہے جس کی گہرائی وہ جان نہیں پائی ہے،لیکن وہ یقینی طور سے جانتی تھی کہ خدا اس کے اوپر محبتوں کی بارش کرتا ہوا، اس کی جانکاری کے بناہی اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے اس کی آرزوئوں کے خلاف، اسے جلد ہی اپنے پاس بلارہا ہے۔وہ خدا کی بندگی تو کرتی رہی مگر ضدی اور آزاد طبع بھی تھی۔جس کے دل میں کوئی اعتقاد نہیں تھا،کاہل اور بے پرواہ،اپنے کام میں من نہ لگائے رکھنے والی۔پھر بھی خدا نے اسے اپنی بندگی سے الگ نہیں کیااور چمکدار سونے کی انگوٹھی کے نیچے اپنا پاکیزہ نشان بنائے رکھا۔یہی نشان تو ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی،ساری دنیا کے پروردگار کی باندی رہی ہے اور وہی خدا اب پادری کے پاکیزہ ہاتھوں کے روپ میں آرہا ہے تاکہ اسے نجات ملے۔
پادری سراایلیوؔ کے ہاتھوں سے تیل کاجلتا ہوا دیالینے کے تھوڑی دیر بعد کرستین پھر بے ہوش ہوگئی۔خون کی الٹیوں کے دوروں اور تیز بخار نے اسے بے ہوش کردیاتھا۔ اس کے پاس کھڑے پادری نے راہبائوں کو بتایا کہ وہ جلد ہی اس جہاں سے کوچ کرنے والی ہے۔
بستر مرگ پر پڑی اس عورت کو ایک دوبار ہلکا ساہوش آیااور اس نے ایک دوچہروں کی اور دیکھا۔اس نے سِرا ایلیو کو پہچاناپھر ولف کو بھی پہچان لیا۔اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ پہچان رہی ہے۔اور اس کے پاس آنے اور اس کے لیے دعا کرنے کے لیے وہ ان سب کی شکر گزار ہے۔مگر جو لوگ آس پاس کھڑے تھے،انھیں لگ رہا تھا جیسے موت کی سختی سے وہ اپنا ہاتھ چھٹپٹانا چاہتی ہے۔
ایک بار اسے اَدھ کھلے دروازے میں سے جھانکتا اپنے چھوٹے بیٹے موننؔ کا چہرہ دکھائی دیا پھر اس نے اپنا چہرہ پیچھے کرلیا۔اور ماں خالی دروازے کو گھورتی رہ گئی۔اس امید پر کہ لڑکا پھر سے وہاں دکھائی دے گا۔مگر اس کے بدلے ایک راہبہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک گیلے کپڑے سے اس کا چہرہ پونچھنے لگی۔یہ بھی اسے اچھا لگا۔پھر سب چیزیں کالے لال کہرے میں کھوگئیں۔اور ایک غراہٹ پہلے بڑے ڈرائونے ڈھنگ سے شروع ہوئی اور مدھم پڑتی چلی گئی۔ لال کہرا بھی ہلکا ہوتا چلاگیا اور آخر میں وہ طلوع آفتاب سے قبل ہلکے کہرے میں بدل گیا۔ساری آوازیں بند ہوگئیں اور وہ جان گئی کہ وہ مررہی ہے۔
سراابلیو اور ولف اس موت والے کمرے سے ساتھ ساتھ باہر نکل آئے۔تھوڑی دیر کے لیے وہ گرجا گھر کے دروازے پررکے۔برف باری ہوچکی تھی۔جس وقت وہ عورت موت کے ساتھ نبرد آزما تھی،اس کے آس پاس کھڑے ہوئے لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ برف باری ہورہی ہے۔ چرچ کی ڈھلوان چھت سے آنے والی سفید چمک سے چندھیاتے دو لوگ۔ہلکے بھورے رنگ کے آسمان کے بیچ میں چرچ کا بڑا سا برج چمک رہا تھا۔کھڑکیوں کے چھجوں پرسے مہین برف پڑی تھی۔لگتا تھا جیسے وہ دونوں اس لیے رک گئے ہیں کیوں کہ وہ نئی پڑی ہوئی برف کی چادر کو اپنے قدموں کے نشانات سے بگاڑنا نہیں چاہتے ہوں۔
انھوں نے ہوا میں گہری سانس لی۔کسی بھی بیمار کے کمرے میں بھری رہنے والی بدبودار ہوا کی بہ نسبت یہ ہوا ٹھنڈی اور میٹھی تھی۔
برج کا گھنٹہ پھر سے بجنے لگا تھا۔دونوں نے اوپر دیکھا ۔ہلتے ہوئے گھنٹے پر سے برف کے ذرات نیچے گرتے ہوئے ننھے ننھے قطروں میں تبدیل ہورہے تھے اور گول چکر کاٹتے ہوئے نیچے آرہے تھے۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

—————————————————-

سیگروانڈسیت ۱۸۸۲ء میں ناروے میں پیدا ہوئیںاور ۱۹۴۰ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’کرسٹن لورانسٹر‘‘کے لیے ۱۹۲۸ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے تقریباً دس برس تک ایک دفتر میں کام کیا تھا۔اس لیے دفتر میں کام کرنے والی خواتین کے موضوع کو انہوں نے اپنی تخلیقات میں بہتر انداز سے پیش کیا۔ان کے دکھ ،سکھ کو فطری انداز میں پیش کرنے کا سہرا سیگروانڈسیت کے سر جاتا ہے۔ان کی تصانیف میں ماسٹر آف ہیٹ ویکین،جینی،گنارس،ڈاٹر،دَبرننگ بُش،امیجینران اے مِرر،دَوائلڈ آرچڈ،اِڈا ایلیزبیتھ وغیرہ شامل ہیں۔

 

Burhanpur by Shabana Nikhat Ansari

Articles

بابِ دکن برہان پور ایک سیاسی ،سماجی ، ثقافتی اور ادبی بازیافت

شبانہ نکہت انصاری

Torn Shoes A Short Story by Grazia Deledda

Articles

پھٹے ہوئے جوتے

گریزیا ڈیلیڈا

ایلیا کچہری میں بے کار سا رہتا تھا۔ان دنوں لوگ کچہری سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ بڑے سے بڑے وکیل بھی چھوٹے چھوٹے مقدمے لینے پر مجبور تھے۔ایلیا کے پاس تو کوئی بھی مقدمہ نہ آتا،پھر بھی وہ کچہری میں جاتا اور وہاں تنہائی میں بیٹھ کر اپنی بیوی کے لیے شعر کہتا۔ایک دن راستے میں ایک شناساگاڑی بان نے ایلیا کو روکتے ہوئے کہا،’’میں ابھی ابھی تیرسنوا سے آرہا ہوں،وہاں میں تمہارے چاچا سے ملا تھا۔وہ سخت بیمار ہیں۔‘‘
ایلیا گھر لوٹاتو اس کی بیوی گھر کے سامنے دھوپ میں کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔ ایلیا نے چاچا کی بیماری کی خبر اسے سنائی تو اس کے فکر مند چہرے پر بے چینی کی بجائے معنی خیزمسکراہٹ ابھر آئی۔اسے دیکھ کر ایلیا بھی مسکرادیا۔
’’تو پھر میں جاتا ہوں۔‘‘ایلیانے کہا۔آگے وہ کچھ نہ بولا۔بیوی اس کے دل کا حال جان گئی تھی۔چاچا انتقال کے بعد ساری دولت اسے ہی دینے والے تھے۔تبھی اس نے اپنے شوہر کے پھٹے ہوئے جوتے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،’’سفر کے اخراجات کے بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘‘
’’اس کی فکر مت کرو۔میرے پاس کچھ پیسے ہیں۔‘‘ایلیا اپنے چاچا سے ملنے کے لیے روانہ ہوگیا۔راستے میں وہ تیزتیز قدم چلتا ہوا،اپنے پھٹے ہوئے جوتے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ اسے کسی نہ کسی چاچا کے گھر تک پہنچا دے تو بہت اچھاہو۔
رات ہوئی ہوا میں خنکی بڑھنے لگی۔ایلیا کو لگا اس کے پائوں برف پرپڑرہے ہوں۔اس نے اپنے خستہ جوتے کی طرف دیکھا،جواب مرمت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گیا تھا۔اسے پہن کرچلنے میں بڑی تکلیف ہورہی تھی۔پھر یہ خیال بھی تکلیف دے رہا تھا کہ ایسا جوتا پہن کر چاچاکے گھر جانا بے عزتی والی بات ہوگی،لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔تب وہ جوتے کی طرف سے دھیان ہٹاکر چاچا کی دولت حاصل کرنے اور مستقبل میں بہترین زندگی گزارنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ایک گائوں آنے پر وہ را ت بتانے کے لیے ایک مسافر خانہ میں ٹھہرا۔کم کرایے کی وجہ سے اسے ایک گندہ چھوٹا سا کمرہ ملا۔وہاں دو لوگ پہلے سے موجود تھے۔وہ دونوں ہی سوئے ہوئے تھے۔
ایلیااپنے انھیں کپڑوں میں لیٹ گیا،لیکن نیند نہ آئی۔اس نے اپنے خیالوں میں دنیا کی سبھی سڑکوں پر اور سبھی گھروں میں بے شمار جوتے دیکھے،پھرتو جیسے اسے ہر جگہ جوتے ہی جوتے دکھائی دینے لگے۔آخر اسے لگا کہ جیسے اس کمرے میں بھی جوتے بکھرے پڑے ہوں۔ تبھی وہ اچانک اٹھ بیٹھا۔اور سردی سے کانپتا ننگے پائوں چلتا ہوا،آہستگی سے اپنے قریب ہی سوئے ہوئے مسافر کی کھاٹ کے پاس گیا۔اس کا ایک جوتا اس نے پہنا ہی تھا کہ اس کے تپتے ہوئے پائوں میں کوئی چیز چبھی۔اس نے جوتا اتاردیا،تبھی کمرے کے باہر اسے کچھ آہٹ سی سنائی دی تو ڈرکے مارے اس کے پائوں جہاں تھے وہیں جم گئے۔اور اسی وقت اس نے اپنے ضمیر کی پھٹکار سنی کہ وہ گناہ کے راستے پر جارہا ہے۔باہر کی آہٹ جب بند ہوگئی تو وہ کمرے سے نکلا۔وہاں کوئی نہیں تھا۔ایک طرف لٹکی ہوئی لالٹین مدھم سی روشنی بکھیر رہی تھی۔ایلیانے اِدھر اُدھر دیکھاتو پاس ہی ایک جوتے کا جوڑ دکھائی دیا۔ اسی وقت اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے جوتوں کو اٹھاکر اپنے کوٹ میں چھپالیا۔پھر ایک نظر وہاں سوئے ہوئے چوکیدار کی طرف دیکھا اور چپکے سے پھاٹک کھول کر وہ باہر نکل گیا۔
تقریباً آدھا گھنٹہ ننگے پائوں چلنے کے بعد اسے جوتے پہننے کا خیال آیا۔ایک پتھر پر بیٹھ کر وہ چند لمحات تک جوتوں دیکھتا رہا۔آخر جب وہ جوتے پہن کر کھڑاہوا تو اس کے اندر سے آواز آئی، ’’گناہ،عظیم گناہ‘‘لیکن آواز کی ذرا بھی پرواہ کیے بنا وہ چل پڑا،اب وہ پہلے کی طرح تیزتیزقدم نہیں اٹھا رہا تھا۔اب اس کے قدم لڑکھڑارہے تھے۔اور وہ باربار پیچھے مڑکر دیکھتا تھا کہ کوئی اس کا پیچھا تو نہیں کررہاہے۔صبح کا اجالا پھیلنے لگاتھا تب ایلیا کاڈر اور بڑھ گیا۔اس کے دماغ میں مختلف خیالات نے ہلچل مچادی تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ راہ چلتے لوگ اس کی چوری کو بھانپ لیں گے اور پھر اس کے چور ہونے کی خبر چاروں جانب پھیل جائے گی۔آخر پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے پھر اپنا جوتا پہن لیااورچرایا ہوا جوتا سڑک کی ایک جانب اچھال دیا۔تب بھی اس کا دل مطمئن نہیں ہوا۔رات کا وہ واقعہ رہ رہ کر اس کے سامنے آنے لگا۔اسے باربار محسوس ہورہا تھا کہ اس کمرے کے دونوں مسافر اس کے پیچھے آرہے ہوںگے۔پھر اس خیال سے اس کا دل کانپ اٹھاکہ اس کے چور ہونے کی خبر اس کی بیوی تک پہنچ گئی تو غضب ہوجائے گا۔دولت حاصل کرنے سے قبل ہی وہ کس گناہوں کے دلدل میں دھنس گیا ہے۔
چلتے چلتے وہ رک گیا اور پھر لوٹ پڑا۔اس کا پھینکا ہوا جوتا وہیں پڑاتھا۔اُسے دیکھتے ہوئے اس کے دل میں عجیب سی ہلچل ہونے لگی۔اگر وہ اسے چھپادے یا زمین میں گاڑدے تب بھی وہ چوری اس کے ضمیر پر بوجھ بنی رہے گی ور وہ چوری اس کی پوری زندگی پر کلنک بن کر چھائی رہے گی۔
اچانک اس نے جوتے اٹھائے اور مسافر خانے کی طرف چل پڑا۔وہ دھیرے دھیرے چل رہا تھاتاکہ اندھیرا ہونے پر مسافر خانہ پہنچے۔دن بھر اس نے کچھ نہیں کھایاتھااور بے حد تھکان محسوس کررہا تھا۔اس کے قدم ڈگمگارہے تھے۔
مسافر خانے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اس نے رات گزارنے کے لیے جگہ لی۔ پھر موقع پاکر اس نے وہ جوتے اسی جگہ رکھ دیئے،جہاں سے اٹھائے تھے۔اور اپنی کھاٹ پر جاکر لیٹ گیا۔بستر پر لیٹتے ہی وہ نیند کی آغوش میں سماگیا۔صبح جاگنے کے بعد اس نے بچے کھچے پیسوں سے ایک ڈبل روٹی خریدی اور وہاں سے چل دیا۔
بڑا سہانا موسم تھا۔ایلیا اپنے پھٹے ہوئے جوتے پہن کر بڑے اطمینان سے چلاجارہا تھا۔ آخر جب وہ اپنے چاچا کے گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ کچھ ہی گھنٹے قبل ان کا انتقال ہوگیاہے۔ نوکرانی نے اسے بتایا کہ،’’مالک نے آپ کا راستہ دیکھا۔کافی دیر تک انتظارکیا۔تین دن قبل انھوں نے آپ کو تاربھی بھیجا تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ آپ اکیلے ہی ان کے وارث ہیں،لیکن آپ نے انھیں بھلادیا ہے۔ وہ آپ سے بہت ناراض تھے۔جب آج صبح بھی آپ نہیں آئے تو انھوں نے اپنی ساری دولت مچھیروں کے یتیم بچوں کے نام کردی۔‘‘
ایلیا لوٹ کر اپنے گھر آیا۔اس کی بیوی نے سارا ماجرہ سن کر کہا،’’اچھا ہی ہوا، دولت ہمیں نہیں ملی۔جس دولت کے ملنے سے پہلے ہی آدمی اپنی ایمانداری کھوبیٹھے،اس کا نہ ملنا ہی اچھا ہے۔‘‘
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

————————–

گریز یاڈیلیڈا ۱۸۷۵ء میں اٹلی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئیں اور ۱۹۳۶ ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’ایڈز اِن دَ وِنڈ‘‘پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں دکھ اور پریشانیوں کا سامنا کیا تھا اس لیے ان کی تخلیقات میں اس کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔انہوں نے جو کچھ تحریر کیااپنے دل کی طمانیت کے لیے تحریر کیا۔انہیں ۱۹۲۶ء میں نوبل انعام تقویض کیا گیا۔ان کی اہم کتابیں آفر دَ ڈائیورس اور دَ مدرہیں۔

 

Masnavi Gulzar E Naseem

Articles

مثنوی گلزارِ نسیم

مثنوی گلزارِ نسیم

Albert Camus

Articles

البرٹ کامو

البرٹ کامو

Goodby Mom A short Story by Albert Camus

Articles

الوداع ماں

البیئر کامو

ماں کا آج انتقال ہوگیا یا شاید کل ہواہو،کہہ نہیں سکتا۔اولڈایج ہوم سے ٹیلی گرام آیا اس میں لکھا تھا ،”آپ کی والدہ چل بسیں،آخری رسومات کل ادا کی جائیں گی۔اس دکھ کی گھڑی میں آپ سے گہری ہمدردی ہے۔“اس سے کچھ پتہ نہیں چلتا ،ہوسکتا ہے یہ کل ہواہو۔
اولڈ ایج ہوم مورنگو میں ہے۔الجیئرس سے تقریباً پچاس میل دور،دو بجے کی بس سے میں رات سے قبل پہنچ جاﺅں گا،پھر رات وہاں گزارسکتاہوں۔تابوت کے پاس رَت جگے کی رسم کے لیےپھر کل شام تک واپس،میں نے اپنے مالک سے دو دن کی چھٹی کی بات کرلی ہے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ منع نہیں کرسکتاتھا۔پھر بھی مجھے محسوس ہوا کہ وہ غصے میں ہے۔میں نے بنا سوچے ہی کہہ دےا،”سوری سر،آپ جانتے ہیں،اس میں میرا قصورنہیں ہے۔“
مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ایسا کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔معافی مانگنے کی توکوئی وجہ ہی نہ تھی۔دراصل اسے مجھ سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیے تھا،پرسوں جب میں سیاہ لباس میں دفتر جاﺅں گا تو شاید وہ ایسا کرے گا۔ابھی تک تو خود مجھے ہی نہیں لگ رہا ہے کہ ماں واقعی نہیں رہی۔شاید آخری رسومات کے بعد یقین ہوجائے گا۔
میں نے دو بجے کی بس پکڑی ۔چلچلاتی دوپہرتھی۔ہمیشہ کی طرح میں سیلسئے کے ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے اترا۔سبھی محبت سے پیش آئے۔سیلسئے نے مجھ سے کہا،”ماں جیسی کوئی امانت نہیں۔“جب میں وہاں سے چلا تو وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے۔میں جلدبازی میں چل پڑاتھا، اس لیے مجھے اپنے دوست ایمبنوئل سے اس کی کالی ٹائی اور ماتم کے وقت باندھی جانے والی کالی پٹی مانگ کر لانی پڑی۔کچھ ماہ پہلے ہی اس کے چاچا چل بسے تھے۔
میں نے قریب قریب دوڑکر بس پکڑی۔اس بھاگ دوڑ ،چلچلاتی دھوپ اور گیسولین کی بدبو نے مجھے بیچین کردیا تھا۔راستہ بھر میں سوتا رہا۔جب اٹھا تو دیکھا میں ایک فوجی پر لڑھکا پڑا تھا۔ اس نے معلوم کرنا چاہا کہ کیا میں کسی لمبے سفر سے آرہا ہوں؟میں نے صرف گردن ہلائی، تاکہ بات چیت آگے نہ بڑھے۔میں باتیں کرنے کے موڈ میں قطعی نہیں تھا۔
گاﺅں سے اولڈ ایج ہوم میل بھر دور ہے،میں پیدل ہی چل پڑا۔وہاں پہنچتے ہی میں نے ماں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔مگر دربان نے پہلے وارڈن سے ملنے کےلیے کہا۔وہ مصروف تھے۔ مجھے کچھ دیر تک انتظارکرنا پڑا۔
اس دوران دربان میرے ساتھ گپ شپ کرتا رہا،پھر دفتر لے گیا،وارڈن چھوٹے قد ، بھورے بالوں والا آدمی تھا۔اپنی گیلی نیلی آنکھوں سے اس نے مجھے بڑی دیر تک دیکھا۔پھر ہاتھ ملایا اور میرا ہاتھ اتنی دیر تک پکڑے رکھا کہ میں اچھی خاصی الجھن محسوس کرنے لگا۔اس کے بعد ایک رجسٹر میں تحقیقات کی اور بولا،”مادام میئر سالٹ تین برس قبل اس ہوم میں آئی تھیں،ان کی اپنی کوئی آمدنی نہیں تھی اور وہ پوری طرح تم پر منحصر تھیں۔“
مجھے لگا وہ مجھے ملزم ٹھہرا رہا ہے۔اس لیے میں صفائی دینے لگا۔مگر اس نے میری بات کاٹ دی۔
”ارے بیٹے،صفائی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں نے ریکارڈ دیکھا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تم ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔انہیں پورے وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی اور تمہاری طرح کی نوکری میں نوجوانوں کو بہت زیادہ تنخواہ نہیں ملتی۔ دراصل وہ یہاں کافی خوش تھیں۔“
”ہاں سر، مجھے پورا یقین ہے۔“میں نے کہا۔
وہ پھر بتانے لگا،”جانتے ہو،یہاں ان کے کئی اچھے دوست بن گئے تھے۔ سبھی ان کی عمر کے ہیں۔ویسے بھی ہم عمر لوگوں کے ساتھ زندگی اچھی گزرتی ہے۔تم عمر میں چھوٹے ہو، اس لیے ان کے دوست تو نہیں بن سکتے تھے۔“
یہ حقیقت تھی۔کیونکہ جب ہم ساتھ رہتے تھے تو ماں مجھے دیکھتی رہتی۔ مگر ہم شاید ہی کوئی بات چیت کرتے۔اولڈایج ہوم کے ابتدائی دنوں میں وہ خوب رویا کرتی تھی۔مگر یہ حالت کچھ دنوں تک ہی رہی۔اس کے بعد یہاں اس کا دل لگ گیا۔ایک آدھ مہینے بعد تو اگر اسے اولڈایج ہوم چھوڑنے کے لیے کہا جاتا تو وہ یقینا رونے لگتی،کیونکہ یہاں سے بچھڑنے کاا سے دکھ ہوتا۔ اس لیے پچھلے سال میں شاید ہی اس سے کبھی ملنے آیا۔ملنے آنا یعنی پورا اتوار کھپادینا۔بس سے سفر کرنا،ٹکٹ کٹوانا اور آنے جانے میں دو دو گھنٹے گنوانے کی تکلیف سو الگ۔
وارڈن بولتا ہی چلاگیاپھر اس کے پیچھے چل دیا،جب ہم سیڑھیوں سے اترنے لگے تو اس نے کہا،”میں نے ان کے جسد خاکی کو یہاں کے چھوٹے مردہ خانے میں رکھوادیا ہے۔ تاکہ دوسرے بوڑھے لوگ دُکھی نہ ہوں،تم سمجھ سکتے ہونا؟یہاں جب بھی کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو دو چار دنوں تک یہ سبھی غمزدہ و بے چین رہتے ہیں۔ظاہر ہے اس سے ہمارے اسٹاف کاکام بے حد بڑھ جاتاہے، اور دیگر پریشانیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔“
ہم نے برآمدہ پارکیا،جہاں کئی بوڑھے چھوٹے چھوٹے گروپ میں کھڑے ہوکر باتیں کررہے تھے۔ہم ان کے قریب پہنچے تو وہ خاموش ہوگئے۔جوں ہی ہم آگے بڑھے ان کی باتیں شروع ہوگئیں۔ان کی سرگوشیاں سن کر اچانک مجھے پنجرے میں بند طوطوں کی یاد آگئی۔ ان کی آوازیں ضرور اتنی تیکھی اور اونچی نہیں تھیں۔ایک چھوٹی،کم اونچی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر پہنچ کر وارڈن رک گیا۔
”جناب میئر سالٹ،یہاں میں تم سے اجازت لیتاہوں۔اگر کوئی کام ہو تو میں اپنے دفتر میں ملوں گا۔کل صبح ماں کی آخری رسومات اداکرنا ہے۔اس سے تم اپنی ماں کے تابوت کے پاس رات گزار سکو گے اوریقینا تم ایسا کر نا چاہوگے۔ایک آخری بات ،تمہاری ماں کے ایک دوست سے مجھے پتہ چلا کہ ان کی خواہش تھی کہ انہیں چرچ کے رسم و رواج کے مطابق دفنایا جائے۔ یوں تو میں نے سارے انتظامات کرلیے ہیں،پھر بھی تمہیں بتانا مناسب سمجھا۔“
میں نے وارڈن کا شکریہ ادا کیا،جہاں تک میں ماں کوجانتا تھا،حالانکہ وہ لامذہبی خیالات کی نہیں تھی۔مگر اس نے زندگی میں مذہب وغیرہ کو کبھی ترجیح نہیں دی تھی۔
میں مردہ خانے میں داخل ہوا،یہ پُتی ہوئی دیواروں اور کھلے روشن دان والا صاف ستھرا چمکدارکمرہ تھا۔فرنیچر کے نام پر یہاں کچھ کریاں اور صوفے رکھے تھے۔کمرے کے درمیان میں دو اسٹولوں پر تابوت کو رکھ دیاگیاتھا۔تابوت کا ڈھکن بند تھا۔مگر اسکرو کو بغیر پورا کَسے ہی چھوڑدیا گیاتھا۔ جس سے وہ لکڑی پر ابھرے ہوئے تھے۔
ایک عربی خاتون جو شاید نرس تھی،تابوت کے قریب بیٹھی تھی۔ اس نے نیلا کرتا پہن رکھاتھااور ایک بھڑکیلا سا اسکارف سر پر باندھ رکھا تھا، اسی پل میرے پیچھے ہانپتا ہوا دربان آپہنچا۔ ظاہر تھا کہ وہ بھاگتا ہوا آیا تھا۔
”ہم نے ڈھکن لگادیاتھا۔مگر مجھے ہدایت دی گئی تھی کہ آپ کے آنے کے بعد میں اسے کھول دوں، جس سے آپ ان کا دیدارکرسکیں۔“یہ کہہ کر وہ تابوت کھولنے کے لیے آگے بڑھا لیکن میں نے اسے منع کردیا۔
”کیا آپ نہیں چاہتے کہ“
”نہیں۔“میں نے کہا۔
اس نے اسکرو ڈرائیور جیب میں رکھا اور مجھے گھورنے لگا۔تب مجھے احساس ہوا کہ منع نہیں کرنا چاہیے تھا۔میں شرم محسوس کرنے لگاتھا،کچھ لمحات تک مجھے گھورنے کے بعداس نے پوچھا، ”کیوں نہیں؟“مگر اس کے لہجے میں حیرت نہیں تھی۔وہ بس یوں ہی جاننا چاہتا تھا۔
”دراصل میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔“میں نے کہا۔
وہ اپنی سفید مونچھوں کو ایٹھنے لگا،پھر میری جانب دیکھے بنا آہستگی سے بول اٹھا،”میں سمجھ سکتا ہوں۔“
وہ نیلی آنکھوں والا بھلا سا ہنس مکھ آدمی تھا،اس نے تابو ت کے نزدیک میرے لیے ایک کرسی سرکائی اور میرے قریب ہی پیچھے بیٹھ گیا۔نرس اٹھی اور دروزے کی جانب چل دی۔ جب وہ جانے لگی تو دربان میرے کان میں بُدبُدایا،”بے چاری کو ٹیومر ہے!“
میں نے اسے غور سے دیکھا،تب پتہ چلا کہ آنکھوں کے ٹھیک نیچے سر پر پٹی بندھی تھی، جس سے اس کا تھوڑا سا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔
اس کے جاتے ہی دربان بھی کھڑا ہوگیا،”اب میں آپ کو اکیلاچھوڑدیتا ہوں۔“
میں نہیں جانتا کہ میں نے کوئی حرکت کی یا نہیں،مگر جانے کے بجائے وہ کرسی کے پیچھے ہی کھڑارہا۔پیٹھ پیچھے کسی کی موجودگی سے میں بڑی بے چینی محسوس کررہا تھا۔سورج ڈھلنے لگاتھا اور کمرہ خوشنما روشنی سے بھراٹھاتھا۔نیند سے میری آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔دیکھے بغیر میں نے دربان سے یوں ہی پوچھاکہ وہ کتنے برسوں سے یہاں کام کررہا ہے۔
”پانچ برسوں سے۔“اس نے فوراً جواب دیا،جیسے وہ سوال کا ہی منتظر تھا۔
بس پھر وہ شروع ہوگیا اور باتیں کرنے لگا،دس برس پہلے اگر کسی نے اس سے کہاہوتا کہ وہ اپنی زندگی مورےگو کے اولڈ ایج ہوم میں گزارے گا تو اسے یقین نہ ہوتا۔وہ چونسٹھ سال کا تھا اور پیرس کا رہنے والا تھا۔
”اوہ!تو تم یہاں کے نہیں ہو؟“میں نے یوں ہی کہہ دیا۔
تب مجھے یاد آیا کہ وارڈن کے پاس جانے سے پہلے اس نے ماں کے بارے میں کچھ کہا تھا کہ انہیں دفنانے کی رسم جلد سے جلد پوری کرنی ہوگی،کیونکہ اس حصے میں خاص طور پر میدانی علاقے میں اچھی خاصی گرمی رہتی ہے۔
”پیرس میں جسد خاکی کو تین دن ،کبھی کبھار چاردن بھی رکھا جاتا ہے۔“
اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ایک طویل عرصہ پیرس میں گزاراہے اور وہ دن اس کے زندگی کے بہترین دن تھے۔ جنہیں وہ کبھی بھلا نہیں سکتا،یہاں سب کچھ جلدی سے نبٹایا جاتاہے۔
”آپ اپنے عزیز کی موت کو پوری طرح قبول بھی نہیں کرپاتے کہ آخری رسومات کی جانب آپ کو بڑھادیا جاتا ہے۔“
اسی پل اس کی بیوی نے اسے ٹوکا ،”بس بھی کرو۔“
وہ بوڑھا گھبراکر معافی مانگنے لگا۔دراصل وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، وہ مجھے اچھا لگ رہا تھا،میں نے پہلے ان باتوں پر غور نہیں کیاتھا۔
پھر وہ بتانے لگا کہ کیسے ایک عام انسان کی طرح وہ بھی اولڈ ایج ہوم آیا تھا۔ تب وہ کافی صحت مند تھااور تندرست بھی۔اس لیے جب دربان کی جگہ خالی ہوئی تو اس نے یہ نوکری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
جب میں نے اس سے کہا کہ اوروں کی طرح وہ بھی یہاں کا ایک ’باسی‘ہے تو اسے یہ با ت ناگوار لگی۔وہ ایک خاص عہدے پر تھا۔میرے دھیان میں آیا کہ وہ لگاتار انہیں’وہ اور بوڑھے لوگ‘ کہہ کر مخاطب کررہا تھا،حالانکہ وہ خود ان سے کم بوڑھا نہ تھا۔پھر بھی اس کی بات میں دم تھا۔ایک دربان کے روپ میں اس کی حیثیت تھی،دوسروں سے اوپر اس کے حقوق تھے۔
اسی وقت نرس لوٹ آئی۔رات بہت جلد اتر آئی تھی۔اچانک محسوس ہوا جیسے آسمان پر اندھیرا چھاگیا ہے۔دربان نے بتیاں روشن کردیں۔ روشنی سے آنکھیں چکاچوند ہوگئیں۔
اس نے مشورہ دیا کہ مجھے باورچی خانہ جاکر کھانا کھالینا چاہیے۔مگر مجھے بھوک نہیں تھی۔ اس نے کافی پینے کی پیش کش کی ۔چونکہ مجھے کافی پسند تھی،میں نے شکریہ کہہ کر حامی بھری اور چند ہی منٹوں میں وہ ٹرے لے کر آیا۔میں نے کافی پی،پھر مجھے سگریٹ کی طلب ستانے لگی۔
لیکن کیا ان حالات میں سگریٹ پینامناسب ہوگا؟ماں کے تابوت کے پاس؟دراصل اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا،یہ سوچ کر میں نے دربان کی طرف بھی ایک سگریٹ بڑھائی اور ہم دونوں سگریٹ پینے لگے۔اس نے پھر باتیں شروع کردیں۔
”جانتے ہو،جلد ہی تمہاری ماں کے دوست آئیں گے، تمہارے ساتھ تابوت کے پاس رت جگا کرنے کے لیے۔جب بھی کوئی مرجاتا ہے تو ہم سبھی اسی طرح رت جگا کرتے ہیں۔میں جاکر کچھ کرسیاں اور کالی کافی کا جگ بھرکر لے آﺅں۔“
سفید دیواروں کی وجہ سے تیز روشنی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی میں نے دربان سے ایک دو بتیاں بجھانے کے لیے کہا،”ایسا کچھ نہیں کرسکتے،انھیں ایسا لگایا گیا ہے کہ سبھی ایک ساتھ جلتی ہیں اور ایک ساتھ بجھتی ہیں۔“اس کے بعدمیں نے روشنی کی طرف دھیان دینا چھوڑدیا۔ وہ باہرجاکر کرسیاں لے آیا اور تابوت کے چاروں اور لگادیں۔ایک پر اُس نے کافی کا جگ اور دس بارہ پیالے رکھ دیئے۔ پھر ٹھیک میرے سامنے تابوت کی دوسری جانب بیٹھ گیا۔
نرس کمرے کے دوسرے سرے پر تھی۔میری جانب اس کی پیٹھ تھی،میں نہیں جانتا،وہ کیا کررہی تھی،مگر اس کے ہاتھ ہل رہے تھے اس سے میں نے اندازہ لگاےیا کہ وہ کچھ بُن رہی تھی۔میں اب مطمئن تھا،کافی نے میرے اندر تازگی بھر دی تھی کھلے دروزے سے پھولوں کی خوشبو اور ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا۔
کانوں میں عجیب سی سرسراہٹ سے میں جاگ اٹھا۔کچھ دیر تک آنکھیں بند تھیں۔اس لیے روشنی پہلے سے بھی زیادہ تیز لگنے لگی۔کہیں بھی اوٹ نہیں تھی،اس لیے ہر ایک چیز پوری شدومد کے ساتھ واضح ہورہی تھی۔ماں کے بوڑھے دوست آگئے تھے۔میں نے ان کی گنتی کی،کل دس تھے۔ کوئی آہٹ کیے بنا میں نے کسی کو اس قدر قریب سے نہیں دیکھا تھا،ایک ایک عضو،ہاﺅ بھاﺅ،نین نقش، لباس وغیرہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھے۔پھر بھی میں انہیں سن نہیں پارہا تھا۔وہ واقعی موجود ہیں، اس بات کا یقین کرنا مشکل تھا۔
تقریباً سبھی خواتین نے ایپرن پہن رکھاتھا،جس کی ڈوری کمر پر کس کر بندھی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے پیٹ اور بھی باہر اُبھر آئے تھے۔میں نے اب تک غور نہیں کیا تھا کہ اکثر بوڑھی خواتین کے پیٹ کافی بڑے ہوتے ہیں۔اس کے بر خلاف سبھی بوڑھے دُبلے پتلے تھے اور چھڑی لیے ہوئے تھے۔
ان کے چہروں کی جس بات نے سب سے زیادہ متوجہ کیا،وہ ان کی آنکھیں تھیں، جو بالکل ندارد تھیں، جھریوں کے درمیان بس ہلکی سی،دھندلی سی چمک بھر تھیں۔
بیٹھتے وقت سبھی نے مجھے دیکھا اورعجیب ڈھنگ سے سرہلایا۔ان کے ہونٹ دانتوں کے بغیر مسوڑھوں کے بیچ چُسکی کی حالت میں بھینچے ہوئے تھے۔میں طے نہیں کرپارہا تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی جتارہے ہیں یا کچھ کہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ ان کے بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔بعد میں میں نے مان لیا کہ شاید کسی رواج کے مطابق وہ میرا خیر مقدم کررہے ہیں۔دربان کے اِردگرد بیٹھے سبھی بوڑھوں کو پر تجسس نگاہوں سے مجھے دیکھنا اور سرہلانا واقعی عجیب لگ رہا تھا۔پل بھر میں مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے کٹ گھر ے میں کھڑاکرنے آئے ہوں۔
کچھ دےیر بعد ایک عورت رونے لگی۔وہ دوسری قطار میں تھی اور اس کے آگے ایک عورت بیٹھی تھی،اس لیے میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پارہا تھا۔تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کا گلا رُندھ جاتا اور لگتا کہ وہ کبھی رونابند نہیں کرے گی۔کوئی اور اس پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔سبھی خاموش بیٹھے تھے۔ اپنی اپنی کرسیوں میں دھنسے وہ کبھی تابوت کو تو کبھی اپنی گھڑی یا کسی دوسری چیز کو گھورنے لگتے اورپھر ان کی نظریں وہیں جم جاتیں۔
وہ عورت اب بھی سسکیاں بھررہی تھی۔مجھے واقعی حیرت ہورہی تھی،کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھی؟میں چاہتا تھا کہ وہ رونا بند کردے،مگر اس سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔کچھ دیر بعد دربان اس کی جانب جھکا اور کان میں کچھ سرگوشی کی ۔اس نے محض سرہلایا۔ دھیمے سے کچھ کہا،جو میں سن نہ سکا اور پھر وہ اسی طرح رونے لگی۔
دربان اٹھا اور میرے پاس کرسی سرکاکر بیٹھ گیا،کچھ دیر خاموش رہا،پھر میری جانب دیکھے بغیر سمجھانے لگا،”وہ تمہاری ماں سے بےحد قریب تھی،وہ کہتی ہے،اس دنیا میں ماں کے سوا اس کا کوئی نہیں ،وہ اب اکیلی رہ گئی ہے۔“
میں بھلا کیا کہتا۔کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔اس خاتون کی سسکیاں اب کچھ کم ہونے لگیں۔پھر ناک صاف کرنے کے بعد کچھ دیر وہ ہچکیاں لیتی رہی،پھر خاموش ہوگئی۔
حالانکہ میری نیند اڑچکی تھی،مگر میں بے حد تھکان محسوس کررہاتھا۔پیر بری طرح کھینچے جارہے تھے۔ماحول میں ایک عجیب سی آواز تھی،جو کبھی کبھارسنائی دے جاتی،میں پہلے تو کافی الجھن محسوس کررہا تھامگر غور سے سننے کے بعد سمجھ گیا کہ ماجرا کیا ہے؟دراصل بوڑھے اپنے گالوں کے اندر چسکی لے رہے تھے،جس سے سُڑ سُڑ کی عجیب سی آواز پیدا ہورہی تھی۔وہ اپنے خیالوں میں اس قدر مگن تھے کہ انھیں کسی بات کا ہوش نہیں تھا۔یکبارگی مجھے لگا کہ ان کے بیچ رکھی یہ بے جان لاش کوئی معنی نہیں رکھتی مگر یہاں میں شاید غلط تھا۔
ہم سبھی نے کافی پی جو دربان لایا تھا۔اس کے بعد مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں۔رات کسی طرح کٹ گئی۔مجھے بس وہ ایک پل یاد ہے،جب اچانک میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا ایک بوڑھے کو چھوڑکر سبھی اپنی اپنی کرسیوں پر جھکے اونگھ رہے تھے۔اپنی چھڑی پر دونوں ہاتھ باندھے،تھوڑی ٹکائے وہ بوڑھا مجھے دیکھ رہا تھا۔جیسے میرے جاگنے کا منتظر ہو۔میں پھر سوگیا۔تھوڑی دیر بعد دونوں پیروں میں بے انتہا درد کی وجہ سے میں جاگ پڑا۔
روشن دان سے صبح کی لالی چمکنے لگی تھی،پل بھر کے بعد ہی ایک بوڑھا جاگ کر کھانسنے لگا، وہ بڑے سے رومال میں تھوکتااور ہر بار اُبکائی جیسی آواز آتی۔آواز سن کروہ سب جاگ اٹھے تھے۔ دربان نے انہیں بتایا کہ چلنے کا وقت ہوگیاہے۔وہ ایک ساتھ کھڑے ہوئے۔اس طویل رات کے بعد ان کے چہرے مرجھاگئے تھے۔مجھے واقعی حیرت ہوئی۔جب ہر ایک نے مجھ سے ہاتھ ملایا، جیسے ساتھ گزاری ہوئی ایک رات سے ہی ہم نے آپس میں ایک رشتہ قائم کرلیا ہو۔حالانکہ ایک دوسرے سے ہم نے ایک لفظ نہیں بولاتھا۔
میں کافی بجھ سا گیا تھا۔دربان مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔میں نے خود کو ٹھیک ٹھاک کیا۔اس نے مجھے تھوڑی اور سفید کافی دی۔جس سے میں تازگی محسوس کرنے لگا۔جب میں باہر نکلا، سورج چڑھ چکا تھا اور مورےنگو اور سمندر کے درمیان پہاڑیوں کے اوپر آسمان سرخی مائل ہورہا تھا۔صبح کی خنک ہوا چل رہی تھی،جس میں خوشنما نمکین مہک تھی،جو ایک خوشگواری کا احساس دلارہی تھی۔ ایک طویل عرصے سے میں دیہات میں نہیں آیا تھا۔دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اگر ماں کا مسئلہ نہیں ہوتا تو کتنی بہترین تفریح ہوسکتی تھی۔
میں آنگن میں ایک پیڑ کے نیچے انتظار کرنے لگا۔مٹی کی مہک میرے اندر بھرنے لگی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اب مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔پھر میں دفتر کے دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا۔اس وقت وہ لوگ دفتر جانے کی تیاری کررہے ہوں گے۔دن کا یہ وقت مجھے سب سے بے کار لگتا۔تقریباً دس منٹ میں انہیں خیالوں میں گم رہا۔
اچانک عمارت کے اندر سے گھنٹی کی آواز آنے لگی اس کے سبب میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹا۔کھڑکیوں کے پیچھے کچھ ہلچل دکھائی دی۔پھر سب خاموش ۔سورج چڑھ آیا تھا۔تلوﺅں میں جلن محسوس ہورہی تھی۔دربان نے مجھے بتایا کہ وارڈن مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں ان کے دفتر گیا۔اس نے چند کاغذات پر دستخط کروائے۔وہ کالی پوشاک زیب تن کیے ہوئے تھا۔ریسیور اٹھاکر میری جانب دیکھنے لگا۔
”آخری رسومات کا انتظام کرنے والے کچھ دیر قبل یہاں آئے تھے۔وہ لوگ وہاں جاکر تابوت کے اِسکرو کس دیں گے۔کیا میں انہیں رُکنے کے لیے کہوں؟تاکہ تم اپنی ماں کا آخری دےدار کرسکو؟“
”نہیں۔“میں نے کہا۔
”اس نے دھیمی آواز سے ریسیورمیں کہا،”ٹھیک ہے،فیگی ایف،اپنے آدمیوں کو ابھی بھیج دو۔“
پھر اس نے بتایا وہ بھی ساتھ چل رہا ہے۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ڈیوٹی پر جو نرس ہے اس کے علاوہ صرف ہم دو ہی آخری رسومات میں شریک ہوں گے۔یہاں کا قاعدہ ہے کہ یہاں رہنے والے آخری رسوما ت میں شامل نہیں ہوسکتے۔حالانکہ رات میں تابوت کے پاس بیٹھنے سے کسی کو روکا نہیں جاتا۔
”ایسا ان کی بھلائی کے لیے ہی کیاجاتاہے۔“اس نے واضح کیا،”تاکہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو،مگر اس مرتبہ میں نے تمہاری ماں کے ایک پرانے دوست کو ساتھ آنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کا نام ہے تھامس پریز۔“وارڈن مسکرایا۔”اصل میں یہ ایک چھوٹی سی دل کو چھولےنے والی کہانی ہے۔تمہاری ماں اور اس کے درمیان بڑی اپنائیت تھی۔یہاں تک کہ سبھی بوڑھے پریز کو اکثر چھیڑا کرتے تھے کہ وہ اس کی منگیتر ہے،وہ اس سے اکثر پوچھتے کہ تم اس سے شادی کب کررہے ہو؟ وہ ہنس کر ٹال دیتا ،ظاہر ہے ماں کی موت کے بعد اسے بے حد تکلیف پہنچی ہے،اس لیے آخری رسومات میں شامل ہونے سے میں انکار نہ کرسکا۔حالانکہ ڈاکٹر کے مشورے پر اسے پچھلی رات تابوت کے پاس بیٹھنے سے روک دیاتھا۔“
کچھ دیر ہم یوں ہی خاموش بیٹھے رہے۔پھر وارڈن کھڑکی کے پاس جاکر کھڑاہوگیا، اچانک بولا،”ارے مورےنگوکے پادری وقت کے بڑے پابند ہیں۔“
انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ گاﺅں میں موجود گرجا گھر تک پیدل پہنچنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوگا۔ہم سیڑھیاں اترنے لگے۔قبرستان کے قریب ہی پادری انتظار کررہے تھے۔ان کے ساتھ دو لوگ تھے ایک کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھیں۔پادری جھک کر چاندی کی زنجیر کی لمبائی کو ٹھیک کررہے تھے۔ہمیں دیکھتے ہی وہ سیدھے کھڑے ہوگئے اور میرے ساتھ کچھ باتیں کی۔مجھے وہ بیٹا کہہ کر مخاطب کررہے تھے،پھر ہمیں وہ قبر کی اور لے جانے لگے۔
پل بھر میں میں نے دیکھا کہ تابوت کے پیچھے سیاہ لباس پہنے چار لوگ کھڑے تھے۔ اسی پل وارڈن نے بتایا کہ جنازہ پہنچ چکا ہے۔پادری نے عبادت شروع کردی۔سیاہ کپڑے کی پٹی پکڑے چار لوگ تابوت کے قریب پہنچے جبکہ پادری ،لڑکے اور میں قطار میں چلنے لگے۔ایک عورت جسے میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا دروازے پر کھڑی تھی۔وارڈن نے اس سے میرا تعارف کروایا۔ میں اس کانام تو سمجھ نہیں سکا مگر یہ جان گیا کہ وہ اولڈ ایج ہوم کی نرس ہے۔میرا تعارف سن کر اس نے سرکوجھکاکر میراخیر مقدم کیا،مگر اس کے لمبے دبلے پتلے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نہیں تھی۔ ہم ایک گلیارے سے ہوتے ہوئے صدر دروازے تک آئے۔جہاں تابوت کو رکھا گیا تھا۔مستطیل نما ،چمکیلے کالے رنگ کے تابوت کو دیکھ کر مجھے اچانک آفس میں رکھے کالے پین اسٹینڈ کی یاد آگئی۔
تابوت کے پاس انوکھی سج دھج کے ساتھ ایک چھوٹے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اس کا کام آخری رسومات کے وقت پورے انتظام کی دیکھ بھال کرنا ہے۔بالکل ماسٹر آف سیری منی کی طرح۔اس کے قریب خوفزدہ سا مسٹر پریز کھڑاتھا،ماں کا خاص دوست۔اس نے ہلکے رنگ کی چوڑے کنارے والی گول ٹوپی پہن رکھی تھی۔جب درواز ے سے تابوت لے جایا جانے لگاتو اس نے بڑی پھرتی سے ٹوپی کو اوپر اٹھایا۔پینٹ جوتوں سے کافی اوپر تھی اوراونچے کالر والی سفید شرٹ پر بندھی کالی ٹائی ضرورت سے زیادہ چھوٹی تھی۔اس کی موٹی چوڑی ناک کے نیچے ہونٹ لرزرہے تھے۔ مگر جس چیز نے مجھے  متوجہ کیا وہ تھے اس کے کان۔سرخی مائل،پنڈولم نما اس کے کان جو زرد سے رخساروں پر مہر بند کرنے کے لاکھ کے لال گولے  کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔جیسے ریشمی سفید بادلوں کے درمیان انھیں گاڑدیا گیا ہو۔
منتظم کے ذریعے ہر کام کے لیے رکھے ہوئے ایک نوکر نے ہمیں اپنی اپنی جگہوں پر کھڑاکیا۔تابوت کے آگے پادری ،تابوت کے دونوں طرف کالے کپڑے پہنے ہوئے چار آدمی۔ ان کے پیچھے وارڈن ،میں اور ہمارے پیچھے پریز اور نرس۔
آسمان پر سورج دہکنے لگاتھا۔ہوا میں تپش بڑھ گئی تھی۔پیٹھ پر آگ کے تھپیڑے محسوس ہونے لگے تھے۔اس پر گہرے رنگ کی پوشاک نے میری حالت بدتر کردی تھی۔ نہ جانے کیوں ہم اتنی دیر رکے ہوئے تھے؟ بوڑھے پریز نے ٹوپی دوبارہ اتارلی۔میں ترچھا ہوکر اسے دیکھ رہاتھا،تبھی دربان مجھے اس کے بارے میں مزید باتیں بتانے لگا۔مجھے یاد ہے دربان نے مجھے بتایا کہ بوڑھا پریزاور میری ماں شام میں اکثر دوردورتک سیر کرنے جایا کرتے تھے۔کبھی کبھی چلتے چلتے وہ گاﺅں کے قریب پہنچ جاتے۔مگر ہاں،ان کے ساتھ نرس بھی رہتی تھی۔
میں نے اس دیہاتی علاقے،دورافق اور پہاڑیوں کی ڈھلوان پر سرو کے درختوں کی طویل قطاروں،چمکیلے ہرے رنگ سے رنگی اس زمین اور سورج کی روشنی میں نہائے ایک اکیلے مکان پر بھرپور نظر ڈالی۔میں نے جان لیا،ماں کیا محسوس کرتی ہوگی؟اس علاقے میں شام کا وقت سچ مچ کس قدر اداس اور بے چین کردیتاہوگا۔صبح سورج کی اس چلچلاتی دھوپ میں،جب سب کچھ تپش کی شدت میں لپ لپارہا تھا،تو کہیں کچھ ایساتھا،جو اس فطری نظام کے بیچ میں بھی غیر انسانی اور مایوس کردینے والا تھا۔
آخر ہم نے چلنا شروع کردیا،تبھی میں نے دیکھا کہ پریز ہلکا سا لنگڑاکر چل رہاتھا۔ جوں جوں تابوت تیزی سے آگے بڑھنے لگتا،وہ بوڑھاپچھڑتاچلاگیا۔مجھے واقعی حیرت ہوئی کہ سورج کتنی تیزی سے آسمان پر چڑھتا جارہا ہے۔اسی پل مجھے سوجھا کہ کیڑے مکوڑے کی گونج اور گرم گھاس کی سرسراہٹ کافی دیر سے ہوا میں ایک دھمک پیداکررہی ہے۔میرے چہرے سے بے حساب پسینہ ٹپک رہا تھا۔میرے پاس ٹوپی نہیں تھی،اس لیے میں رومال سے ہی چہرے پر ہواکرنے لگا۔منتظم کے آدمی نے پلٹ کر کچھ کہا،جو میں سمجھ نہ سکا۔اسی وقت اس نے اپنے سر کے کراﺅن کوبھی رومال سے پونچھا، جو اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑرکھاتھا،اس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا۔
”آج بے حد گرمی ہے،ہے نا؟“
”ہاں۔“میں نے کہا۔
کچھ دیر بعداس نے پوچھا،”وہ آپ کی ماں ہیں،جنہیں ہم دفنانے جارہے ہیں؟کیا عمر تھی ان کی ؟“”وہ بالکل تندرست تھی۔“میں نے کہا،”دراصل میں خود بھی ان کی صحیح عمر کے بارے میں نہیں جانتاتھا۔“
اس کے بعد وہ خاموش ہوگیا،جب میں مڑا تو دیکھا کہ پریز تقریباً پچا س گز کے فاصلے پر لنگڑاتا چلاآرہا تھا۔تیز چلنے کی وجہ سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹوپی بری طرح سے ہل رہی تھی۔ میں نے وارڈن پر بھی ایک نظر ڈالی،وہ نپے تلے قدموں سے متوازن ہاﺅبھاﺅ کے ساتھ چل رہا تھا،ماتھے پر پسینے کی بوندیں تھیں،جو اس نے پونچھی نہیں تھیں۔مجھے لگاکہ جنازے کے ساتھ چلنے والے کچھ زیادہ ہی تیزچلنے لگے ہیں۔جہاں کہیں بھی نگاہ ڈالی،ہر طرف وہی سورج سے نہایا ہوا دیہاتی علاقہ دکھائی دیا۔سورج اس قدر چمکدار تھا کہ میں آنکھیں اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا تھا۔پاﺅں چلچلاتی گرمی میں ہر قدم کے ساتھ زمین پر دھنس جاتے اور پیچھے ایک چمکدار کالا نشان چھوڑدیتے۔آگے کوچوان کی چمکیلی کالی ٹوپی تابوت کے اوپر رکھے اسی طرح کے لیس دار مادے کے لوندے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔یہ ایک حیرت انگیز خواب کا احساس تھا۔اوپر نیلی سفید چکاچوند اور چاروں جانب یہ گہرا سیاہ پن،چمکدار کالا تابوت ،لوگوں کی کالی پوشاک او رسڑک پر سنہرے،کالے گڑھے اور دھوئیں کے ساتھ ماحول میں گھلی ملی گرم مکڑے اور گھوڑے کی لید کی بو؟ان سب کی وجہ سے،اور رات کو نہ سونے کی بنا پر میری آنکھیں اور خیال دھندلے پڑتے جارہے تھے۔
میں نے دوبارہ پیچھے مڑکر دیکھا،پریز بہت پیچھے رہ گیاتھا۔اس تپتی دھند میں تقریباً اوجھل ہی ہوگیاتھا۔کچھ پل اسی ادھیڑ بن میں رہنے کے بعد میں نے یوں ہی اندازہ لگایاکہ وہ سڑک چھوڑکر کھیتوں سے آرہا ہوگا۔تبھی میں نے دیکھا،آگے سڑک پر ایک موڑ تھا۔ظاہر ہے پریز نے،جو اس علاقے کو بخوبی جانتا تھا،ایک پگڈنڈی پر چل رہا تھا۔ہم جیسے ہی سڑک کے موڑ پر پہنچے،وہ ہمارے ساتھ شامل ہوگیا۔لیکن کچھ دیر بعد پھر پچھڑنے لگا۔اس نے پھر شارٹ کٹ لیا اور پھر ہم میں شامل ہوگیا۔دراصل اگلے آدھے گھنٹے تک ایسا کئی بار ہوا۔پھر جلد ہی اس میں میری جودلچسپی تھی وہ جاتی رہی۔میراسر پھٹاجارہا تھا۔میں بہ مشکل خود کو گھسیٹ رہا تھا۔
اس کے بعد بہت کچھ جلدبازی میں کیا گیا کہ مجھے کچھ یاد نہیں۔ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ جب ہم گاﺅں کی سرحد پر تھے تو نرس کچھ بولی تھی،اس کی آواز سے میں بری طرح چونک پڑاتھا۔ کیوں کہ اس کی آواز اس کے چہرے سے قطعی میل نہیں کھاتی تھی۔اس کی آواز میں موسیقی اور کپکپاہٹ تھی۔اس نے جو کچھ کہاتھا وہ کچھ اس طرح تھا،”اگر آپ اس قدر آہستہ آہستہ چلیں گے تو لو لگنے کا ڈر ہے، مگر تیز چلیں گے تو پسینہ آئے گااور چرچ کی سرد ہوا سے آپ کو زکام ہوجائے گا۔“اس کی بات میں دم تھا۔نقصان ہر طرح سے طے تھا۔تابوت کے ساتھ چلتے ہوئے کچھ یادیں میرے ذہن میں چسپاں ہوگئی ہیں۔مثلاً اس بوڑھے پریز کا چہرہ جو گاﺅں کی سرحد پر ہی آخری بار ہم سے آملا تھا،اس کی آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو جو تھکان کی وجہ سے تھے یا غم کے سبب،یا پھر دونوں کی وجہ سے۔مگر جھریوں کی وجہ سے نیچے ٹپک نہیں پارہے تھے۔آڑے ترچھے ہوکر کان تک پھیل گئے تھے اور اس بوڑھے ،تھکے چہرے کو ایک پیاری سی چمک سے بھردیاتھا۔
مجھے یاد ہے وہ گرجا گھر،سڑکوں سے گزرتے دیہاتی،قبروں پر کھلے لال رنگ کے پھول، پریز پر بے ہوشی کا دورہ،چیتھڑوں سے بنی کسی گڑیاکی مانند اس کا سکڑجانا۔ماں کے تابوت پر سنہری بھوری مٹی کا ٹپ ٹپ گرنا،لوگ بے شمار لوگ،آوازیں،کافی،رےستوراں کے باہر انتظار، ریل انجن کی گڑگڑاہٹ،روشنی سے نہائی الجیئرس کی سڑکیں اور ان پر قدم رکھتے ہی میرا خوشی سے بھرجانا اور پھر تخیل میں ہی سیدھے بستر پر جاکر نڈھال ہوجانا،لگاتار بارہ گھنٹے بے ہوشی کی نیند!
مجھے یہ سب یاد ہے !
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

البیئرکامو1913میں فرانس میں پیدا ہوئے اور1960میں انتقال فرمایا۔انہیں ”پلیگ“ ناول کے لیے 1957 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔کامو نے اپنی 47 برس کی مختصر زندگی میں نہ صرف اپنے ملک اور یورپ میں بلکہ عالمی ادب میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے مضامین،ناول،ڈرامے اور دیگر اصناف سے عالمی ادب میں اضافہ کیا۔ان کی تخلیقات میں کئی خوبیاں ہیں مگر سب سے اہم خوبی انسان کی تنہائی ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں موت،تکالیف،لامذہبیت اور ارتداد کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی تصانیف میں لاپسیٹ،لاشوٹ،لے جسٹس،لاہوم ریولئے وغیرہ اہم کتابیں شامل ہیں۔

Condolence A Short Story by William Faulkner

Articles

تعزیت

ولیم فاکنر

مس ایمیلی گریرسن کی آخری رسومات کے موقع پر شہر کے تقریباً سبھی لوگ آئے ۔مرد حضرات فوت ہونے والی ایمیلی کا آخری دیدار کرنے کی غرض سے اور خواتین اس کے مکان کو اندر سے دیکھنے کا تجسس لے کر۔دس برس سے مکان کی دیکھ بھال کرنے والا صرف ایک نوکرتھا۔وہ مالی کا کام بھی کرتا اور باورچی کا بھی۔
وہ ایک بڑا ساچوکون مکان تھا،جس پر ایک بار رنگ وروغن چڑھایاگیاتھا۔ساتویں دہائی میں سب سے بہترین ڈیزائن کا انتخاب کرکے اسے تعمیر کیا گیاتھا۔اس پر ایک بڑا سا گنبد ،پچی کاری اور منقش بالکونیاں تھیں۔وہ مکان ساتویں دہائی میں شہر کی سب سے عمدہ سڑک پر تعمیر ہواتھا۔اس کے پڑوس میں باعزت لوگوں کے مکانوں کی جگہ اب گیریج،اور سوت کتائی کی صنعتیں تھیں۔صرف مس ایمبلی کا اکلوتا مکان رہ گیا تھا۔مس ایمیلی کے مزاج کے سامنے کاٹن ویگنوں اور گیسولین پمپوں کی ایک نہ چلی۔وہ مکان بھی سب کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔اور اب مس ایمیلی بھی ان باعزت لوگوں کے درمیان پہنچ گئی تھی جن کی قبریں جیفرسن کی جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی نظربند اور گمنام قبروں کے درمیان ہی تھیں۔وہ قبریں دیودار کے اونچے درختوں سے ڈھکی تھیں۔
مس ایمیلی کی زندگی صدیوں سے جاری رسم،فرض اوراحتیاط کی بہترین مثال تھی۔اس کی زندگی کی اہمیت ۱۸۹۴ء میں اس روز سے بڑھ گئی تھی جس روز شہر کے میئر کرنل سارتورس نے اس کے تمام ٹیکس معاف کردیے تھے۔یہ کرنل سارتورس وہی تھے جنھوں نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ کوئی نیگرو عورت بغیر اسکارف کے سڑک پر دکھائی نہیں دینی چاہئے۔ٹیکس معافی کا حکم اس کے والد کے انتقال کے بعد بھی قائم رہا۔مس ایمیلی کو اگر یہ احساس ہوجاتا کہ اس پر رحم کیا گیا ہے تو وہ اسے کبھی منظور نہیں کرتی۔کرنل سارتورس نے اس کے لیے ایک کہانی گھڑی تھی۔ان کے مطابق مس ایمیلی کے والد نے شہر کی انتظامیہ کو قرض دیا تھا،جسے شہری انتظامیہ لوٹانے کا خواہش مند تھا۔
اس قسم کی کہانی گھڑنا کرنل سارتورس کی پیڑھی اوراعلیٰ دماغ رکھنے والے شخص کے ہی بس کی بات تھی اور کوئی عورت ہی اس طرح کی بات پر یقین کرسکتی تھی۔جب اگلی پیڑھی کے لوگ جدید خیالات لے کر میئر اور مجسٹریٹ بنے،تو انتظامیہ میں کچھ بد گمانی پیداہوئی۔نئے سال کی پہلی تاریخ کو انھوں نے اسے ایک نوٹس بھیجا۔جس میں ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔فروری کا مہینہ آگیا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔انھوں نے اسے اپنے ذاتی خرچ پر شیرف کے دفتر پہنچنے سے متعلق ایک رسمی پیغام ارسال کیا۔اگلے ہفتے میئر نے بذات خود ایک چٹھی لکھی کہ وہ آئے یا پھر اسے لینے کے لیے وہ اپنی کار روانہ کرسکتا ہے۔جواب میں اسے ایک بوسیدہ کاغذ پر پھیکی سیاہی سے مگر خوشخط تحریر میں ایک رقعہ موصول ہوا،جس میں تحریرتھا کہ وہ اب زیادہ تر باہر نہیں نکلتی۔کسی نوٹ کے بنا نوٹس بھی اس کے ساتھ نتھی تھا۔
مجسٹریٹ نے ایک مخصوص میٹنگ طلب کی۔مس ایمیلی کے لیے مقررہ ایک ڈیپوٹیشن نے جاکر دروازے پر دستک دی۔آٹھ دس سال قبل اس نے چینی پینٹنگ کلاس لیناچھوڑدیاتھا۔ تب سے اس مکان میں کوئی مہمان نہیں آیا تھا۔بوڑھا نیگرو انھیں اندھیرے ہال میں لے آیا۔جس میں سے سیڑھیاں اوپری منزل تک جاتی تھیں۔سیڑھیوں پر بھی اندھیرے کی دبیز چادر تنی ہوئی تھی۔ وہاں گردوغبار اورعجیب سی بو قوتِ سامہ سے ٹکرارہی تھی۔نیگرو انھیں’پارلر‘میں لے گیا۔جہاں بھاری بھر کم فرنیچر موجود تھا اور اس پر چمڑا مڑھا ہواتھا۔نیگرو نے کھڑکی کا پردہ سرکادیا۔اب وہ دیکھ سکتے تھے کہ چمڑا پھٹاہوا ہے۔وہ بیٹھ گئے۔اندر داخل ہوتی ہوئی روشنی کی لکیر میں گرد کے ذرات تیررہے تھے۔ فرنیچر پر جمی ہوئی گرد بھی اس میں شامل ہوکر ان کی جانگھوں کے نزدیک آہستگی سے داخل ہوگئی تھی۔آتش دان کے قریب ایک اسٹینڈ رکھا ہواتھا جس پر سونے کا ملمع چڑھا ہوا تھا۔لیکن اس کی چمک ماند پڑگئی تھی۔اس اسٹینڈ پرمس ایمیلی کے والد کی رنگین تصویر رکھی ہوئی تھی۔
مس ایمیلی کے آتے ہی وہ کھڑے ہوگئے۔وہ ایک کالی ،چھوٹے قد کی موٹی عورت تھی۔ اس کے گلے میں سونے کی ایک پتلی زنجیر تھی۔جو کمر تک لمبی تھی اور بیلٹ میں دھنسی ہوئی تھی۔اس کا ماتھا ماندپڑے ہوئے سونے کی طرح تھا۔وہ آبنوس کی چھڑی پر جھکی ہوئی تھی۔ اس کا قد چھوٹا سا تھا لیکن اس میں کچھ خاص بات تھی۔شاید بات یہی تھی کہ کسی دوسرے کا ایسابدن ہوتا تو وہ صرف موٹاپا کہلاتا۔اس کے بدن میں ٹھہرائو تھا۔وہ پھولی ہوئی دکھائی دیتی تھی جیسے کوئی ساکت پانی میں کافی دیر تک ڈوبا ہواہو۔اس کے بدن میں پیلا پن تھا۔
آنے والوں نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔اس دوران اس کی آنکھیں ان کے چہروں پر گھومتی رہیں۔چربی زدہ چہرے پر اس کی آنکھیں کوئلے کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی طرح لگ رہی تھیں۔جیسے وہ ٹکڑے گندھے ہوئے آٹے کے ڈھیر میں دھنسے ہوئے ہوں۔اس نے انھیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔وہ دروازے میں کھڑے کھڑے سنتی رہی۔جو شخص بول رہا تھا پھر وہ لڑکھڑاکر چپ ہوگیا۔انھیں گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دی جو سونے کی زنجیر کی کنارے جڑی ہوئی تھی اور نظر نہیں آرہی تھی۔مس ایمیلی نے سرد اور روکھے لہجے میں کہا،’’جیفرسن میں مجھ پرکوئی ٹیکس نہیں ہے۔کرنل سارتورس مجھے سمجھاچکے ہیں۔تم میں سے اگر کوئی چاہے تو وہ شہری انتظامیہ کے ریکارڈ کودیکھ کر معلوم کرسکتا ہے۔اس طرح تمھیں اطمینان ہوجائے گا۔‘‘
’’ہم ریکارڈ دیکھ چکے ہیں۔ہم شہر کے افسران ہیں،مس ایمیلی!آپ کو شیریف کا دستخط شدہ نوٹس موصول ہواہوگا؟‘‘
’’ہاں،مجھے ایک کاغذ ملا تھا۔‘‘مس ایمیلی نے کہا۔’’شاید وہ سمجھتا ہو اپنے آپ کو شریف ، جیفرسن لیکن مجھے کوئی ٹیکس ادا کرنا نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن دیکھیے اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ہمیں اپنا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کرنل سارتورس سے ملیے۔مجھے جیفرسن میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا ہے۔‘‘
’’لیکن ،مس ایمیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کرنل سارتورس سے ملیے۔(کرنل سارتورس کو فوت ہوئے تقریباًدس برس ہوچکے تھے) مجھے جیفرسن کوکوئی ٹیکس نہیں دینا ہے،ٹاب!‘‘نیگروحاضر ہوا۔
’’ان شریف لوگوں کو باہر کا راستہ دکھائو۔‘‘
اس طرح اس نے انھیں شکست دے دی۔بالکل اسی طرح جیسے بووالے واقعہ سے پہلے وہ تیس برس تک ان کے والدین کو شکست دیتی آئی تھی۔اس کے والد کے انتقال کے دو سال بعد اس کے عاشق کے اسے چھوڑکر چلے جانے کے فوراً بعد کا یہ واقعہ ہے۔اس کے عاشق کے بارے میں ہمیں اعتماد تھا کہ وہ اس سے شادی کرلے گا۔اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ باہر بہت کم جاتی تھی۔عاشق کے چلے جانے کے بعد تو لوگوں نے اسے باہر نکلتے ہی نہیں دیکھا تھا۔کچھ خواتین نے اس کے قریب جانے کی ہمت جٹائی لیکن وہ ان سے ملی نہیں۔اس مکان میں زندگی کی علامت اکلوتا نیگروتھا۔وہ اس وقت خاصا جوان تھا اور بازار کی ٹوکری لیے آتے جاتے دکھائی دیتا تھا۔
’’آخر کیسے ایک آدمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی آدمی باورچی خانہ کی دیکھ بھال کرسکتا ہے؟‘‘ خواتین کہتیں۔اس لیے انھیں کوئی حیرت نہیں ہوئی جب بو تیز ہوگئی۔گھنی آبادی والے علاقے اور قدآور ،طاقت ور گریرسنوں کے درمیان وہ بو ایک دوسری کڑی بن گئی تھی۔
ایک پڑوسی عورت نے اسی سالہ میئر جج اسٹیونس کے حضور شکایت درج کی۔‘‘
’’لیکن اس سلسے میں میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
’’کیوں؟آپ اس سے کہہ نہیں سکتے کہ یہ سب بند کرے۔‘‘اس عورت نے کہا،’’کیا کوئی قانون نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘میئر نے جواب دیا۔
’’ممکن ہے کہ اس کے نیگرو نوکر نے احاطے میں کوئی سانپ یاچوہا ماردیا ہو۔میں اس بارے میں اس سے بات کروں گا۔‘‘اگلے روز اس کے پاس دو مزید شکایتیں درج ہوئیں۔ایک آدمی نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کا اظہار یوں کیا،’’ہمیں در حقیقت اس بارے میں کچھ کرنا ہوگا،’’میئر صاحب!میں مس ایمیلی کو پریشان کرنا نہیں چاہتا۔ہمارے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘
اس رات ججوں کی میٹنگ ہوئی۔وہ چار لوگ تھے،تین بوڑھے اور ایک نوجوان،جو نئی پیڑھی کا نمائندہ تھا۔
’’سیدھی سی بات ہے۔‘‘اس نے کہا،’’مس ایمیلی کو پیغام بھیجیں کہ وہ اپنی جگہ صاف کرادے۔ اس کام کے لیے وقت کا تعین کردیا جائے اور اگر اس دوران یہ کام نہیں کرواتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا بکواس کررہے ہیں جناب!‘‘جج اسٹیونس نے کہا،’’کیا تم عورت کی یہ کہہ کر بے عزتی کروگے کہ اس کے چہرے سے بدبو آتی ہے۔‘‘
اس لیے اگلی رات،آدھی رات کے بعد چار آدمی دبے پائوں مس ایمیلی کے لان میں داخل ہوئے۔دیواروں کے نیچے اور تہہ خانے کے دروازوں کو سونگھتے ہوئے انھوں نے چکر لگایا۔ اس دوران ان میں سے ایک آدمی اپنے کندھے پر لٹکے ہوئے جھولے سے فرش پر کوئی چیز چھڑکتا جارہا تھا جیسے کھیت میں بیج بورہا ہو۔انھوں نے تہہ خانوں کے دروازے کھولے اور اندر چونا چھڑک دیا۔ مکان کے چاروں طرف انھوں نے یہی کیا۔لوٹتے وقت جب وہ لان کو پار کررہے تھے،ہمیشہ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی کھڑکی پراجالا ہوا۔مس ایمیلی وہاں تن کر بیٹھی تھی۔پیچھے سے آرہے اجالے میں اس کا بدن بت کی طرح ساکت لگ رہا تھا۔وہ لوگ چپ چاپ لان پر رینگتے ہوئے باہر سڑک پر نکل آئے۔جہاں اڑتی ہوئی ٹڈیوں کا سایہ ان پر پڑرہاتھا۔دوتین روز کے بعد بوآنا بند ہوگئی تھی۔اس واقعے کے بعد لوگ اس کے حالات سن کر دکھی ہوئے۔ہمارے شہر کے لوگ یاد کرتے تھے کہ کیسے اس کی عظیم چاچی بوڑھی ویاٹ اپنی زندگی کے آخری ایا م میں پوری طرح پاگل ہوگئی تھی۔ان کا ماننا تھا کہ گریرمنوں نے کبھی بھی اپنا قد نیچا نہیں کیااور وہ اس عظمت کے مستحق بھی تھے۔کوئی بھی جوان آدمی مس ایمیلی کے قابل نہیں تھااور ہوتا بھی کیسے؟
ہم کئی بار ایک تخئیلی منظر کو یاد کرتے۔جیسے وہ ’ئیبے لیوں‘ہو۔پسِ منظر میں سفید لباس میں لپٹی ایک نازک سی مس ایمیلی ہے،آگے اس کے والد کھڑے ہیں،اندھیرے میں ایک کرخت شکل ابھررہی ہے۔ان کی پیٹھ مس ایمیلی کی طرف ہے اور ان کے ہاتھوں میں چابک ہے۔وہ دونوں پیچھے کی جانب کھلنے والے دروازے کی درمیان جیسے فریم ہوگئے ہوں۔اس لیے تیس سال کی عمر ہونے کے بعد بھی اس کی تنہائی سے ہم سب اداس رہتے تھے۔اور کچھ کرنا چاہتے تھے۔اپنی چاچی کے پاگل پن کی وجہ سے وہ بہترین موقع گنوانہیں سکتی تھی۔لیکن ایسے مواقع آئے ہی نہیں۔
سننے میںآیا کہ اس کے والد کی موت کے بعد مکان اسی حالت میں مل گیا ہے۔اس سے لوگوں کو خوشی ہوئی۔آخر کار وہ مس ایمیلی کے لیے ہمدردی تو جتاسکتے تھے۔اب وہ اکیلی ہی اس حقیقی دنیا میں رہ گئی تھی۔اس کے والد کے انتقال سے ایک روز بعد سبھی عورتیں اس کے پاس گئیں اور اس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔اور اس کی مدد کی جیسا کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔مس ایمیلی ان سے دروازے پر ملی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے وہی کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔چہرہ غم اور افسوس سے عاری تھا۔اس نے بتایا کہ اس کے والد مرے نہیں ہیں۔تین دنوں تک وہ اسی بات پر اڑی رہی۔ اس دوران وزیروں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی اور ڈاکٹروں نے اسے لاش کی جانچ کرنے کے لیے کہا۔قانون اور طاقت کا استعمال ہونے سے قبل ہی وہ مان گئی اور انھوں نے اس کے والد کوجس قدر ممکن تھا دفن کردیا۔
ہم یہ تونہیں کہتے کہ اس وقت وہ پاگل تھی۔ہم جانتے تھے کہ ایسی حرکت تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ہمیں وہ سارے جوان یادآئے جنھیں اس کے والد نے بھگادیاتھا۔ایسی حالت میں جب کچھ بھی نہیں بچا تھا،اسے اپنے والد سے وفاداری کا اظہار تو کرنا ہی تھا جس نے اس کے ساتھ دھوکہ دیا تھا اور لوگ چاہتے بھی یہی تھے۔
وہ طویل عرصے تک بیمار رہی۔ہم نے اسے دوبارہ دیکھا،اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔وہ کسی دوشیزہ سی لگ رہی تھی۔ایک نظر میں وہ چرچ کی رنگین کھڑکیوں میں جڑی پریوں کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔
شہر میں فٹ پاتھوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے دیے جاچکے تھے۔اور گرمیوں میں اس کے والد کی موت کے بعد کام شروع ہوگیاتھا۔تعمیراتی کمپنی،نیگروں،خچروں اورمشینوں کے ساتھ وارد ہوگئی تھی۔ اس میں امریکہ کا رہنے والا فورمین ہومر بیٹن بھی تھا۔وہ سیاہ فام اور چست آدمی تھا۔اس کی آواز اونچی اور آنکھیں چہرے سے زیادہ ہلکی تھیں۔چھوٹے بچوں کی ایک ٹولی اس بھیڑ کے آگے پیچھے چلتی ۔ وہ ان گالیوں کو سنتے جو فورمین نیگروں کو دیتا تھا۔وہ پھاوڑے ،کدال چلاتے نیگروں کا گیت بھی سنتے۔ جلد ہی فورمین ہومر بیٹن کی سب سے پہچان ہوگئی۔کسی چوراہے میں کھڑے لوگوں کی قہقہے کی آوازیں گونجتیں۔اس سے پتہ چل جاتا کہ وہاں فورمین موجود ہوگا۔حال ہی کی بات تھی۔ہم نے دیکھا کہ وہ اور مس ایمیلی پیلے رنگ کی پہیوں والی بگھی میں بیٹھ کر اتوار کی دوپہر میں گھومنے نکلتے۔بگھی میں جتے ہوئے دونوں گھوڑوں کا رنگ لال بھورا تھا۔دونوں گھوڑے کافی چست تھے۔
پہلے ہم خوش ہوئے کہ چلو اب مس ایمیلی کا دل بہل جائے گا۔کیوں کہ سبھی عورتیں کہتیں، ’’گریرسن کی یقینی طور پر شامی علاقے کے رہنے والے ایک مزدور سے دوستی اچھی رہے گی۔‘‘لیکن اور بھی تو لوگ تھے،جیسے بوڑھے۔وہ کہتے کہ ایک خاندانی عورت کے لیے غم اتنی بڑی وجہ نہیں کہ وہ اپنی تہذیب کو بھول جائے۔حالانکہ یہ بات انھوں نے لفظـ’تہذیب‘کے بنا ادا کی تھی۔انھوں نے صرف یہی کہا،’’بیچاری ایمیلی‘‘اس کے رشتہ داروں کو یہاں آنا چاہئے۔‘‘
البامہ میں اس کی کوئی رشتہ دار تھی،لیکن برسوں پہلے پاگل اور بوڑھی ویاٹ کی جائیداد کے معاملے میں ان بن ہوگئی تھی۔اور دو خاندانوں کے درمیان تب سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔اس خاندان سے آخری رسومات کی ادائیگی کے وقت کوئی شریک بھی نہیں ہوا تھا،اور جیسے ہی بوڑھے لوگوں نے کہا،بے چاری ایمیلی ،کانا پھوسی شروع ہوگئی۔’’کیا تمہارے خیال میں یہی حقیقت ہے؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے کہتے تھے،’’یقینی طور پر ایسا ہی ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘اتوار کی دوپہر کی دھوپ کی وجہ سے کھڑکیوں پر پردے ڈالے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ریشم اور ساٹن کا کپڑالے کر بیٹھے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کپڑوں کی سرسراہٹ سنی جاسکتی تھی۔سڑک پر بگھی کی آواز اور گھوڑوں کے دلکی چال کی آواز گونجتی تھی۔’’بے چاری ایمیلی!‘‘
مس ایمیلی اپنی گردن کو تان کر چلتی تھی۔اس وقت بھی ہم سوچتے تھے کہ اسے محبت ہوگئی ہے۔جیسا کہ وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ قابل احترام بننا چاہ رہی ہو۔یاپھر وہ اس بارے میں یہ ظاہر کرنا چاہتی ہوکہ اسے سمجھنا بے حد مشکل ہے۔جیسا کہ وہ ایک مرتبہ آرسینک خرید لائی جو چوہوں کا زہر ہوتا ہے۔لوگوں کے’’بے چاری ایمیلی‘‘کہنے کے ایک سال سے اوپر ہوجانے کے بعد کا یہ واقعہ تھا۔اسی دوران اس کی دو رشتہ دار آئی ہوئی تھیں۔
’’میں کوئی زہر چاہتی ہوں۔‘‘اس نے کیمسٹ سے کہا۔تب وہ تیس سال کے آس پاس کی ایک کمزور عورت تھی۔پہلے سے بھی زیادہ دبلی۔اس کی آنکھیں کالی اورسرد ہوگئی تھیں۔چہرے کی چربی کانوں کے اوپری کناروں اور آنکھوں کے گڑھوں تک کھنچ آئی تھی۔لائٹ ہائوس کی دیکھ ریکھ کرنے والے کا چہرہ جیسے ہوسکتا ہے،ویسا ہی مس ایمیلی کا چہرہ تھا۔
’’میں کوئی زہر چاہتی ہوں۔‘‘اس نے کیمسٹ سے دوبارہ کہا۔
’’ضرور مس ایمیلی،کیا چاہئے؟چوہوں کا یا کوئی اور؟میں چاہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تمہارے پاس جو سب سے بہتر ہو۔وہ دے دو۔اس کے اقسام کی میں پرواہ نہیں کرتی۔‘‘
کیمسٹ نے بہت سے نام گنوائے۔’’وہ کسی بھی چیز کو ختم کرسکتا ہے،یہاں تک کہ ہاتھی کو بھی ۔لیکن آپ کو جوچاہئے،اس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آرسینک،‘‘مس ایمیلی نے کہا،’’کیا یہ بہتر ہے؟‘‘
’’کیا،آرسینک ؟جی ہاں میڈم!لیکن آپ کو جو چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مجھے آرسینک ہی چاہئے۔‘‘
کیمسٹ نے اسے سرتاپیر دیکھا۔اس نے بھی اسے پلٹ کردیکھا۔وہ بالکل مطمئن کھڑی تھی۔اس کا چہرہ تنے ہوئے جھنڈے کی طرح لگتا تھا۔’’کیوں،آخر کیوں؟‘‘کیمسٹ نے کہا۔’’مانا کہ آپ کو یہی چاہئے،لیکن قانون کے لحاظ سے آپ کو بتانا پڑے گا کہ اس کا استعمال آپ کس طرح کریں گی؟‘‘
مس ایمیلی اسے بس گھورتی رہی۔اس کا سر تھوڑا سا پیچھے جھک گیا۔تاکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔وہ دوسری طرف دیکھنے لگا اور مڑا۔اس نے آرسینک نکالا اور پیک کردیا۔کائونٹر پر سامان رکھنے والے نیگرولڑکے نے یہ پیکٹ لاکر دیا۔کیمسٹ لوٹ کر نہیں آیا۔گھر پر مس ایمیلی نے پیکٹ کھولا۔ڈبے پر ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کی تصویر کے نیچے لکھا تھا،’’چوہوں کے لیے۔‘‘
اس لیے اگلے روز ہم سب نے کہا،’’وہ خود کو ختم کرلے گی۔‘‘اور پھر ہم نے سوچا کہ یہی سب سے اچھا رہے گا۔ ہومر بیٹن کے ساتھ جب وہ پہلے پہل دیکھی گئی تھی۔ہم نے کہا،’’وہ اس سے شادی کرلے گی‘‘۔پھر ہم نے کہا،’’وہ ابھی اسے اور بھی پریشان کرے گی۔‘‘کیوں کہ ہومر نے خود کہا تھا کہ وہ آدمیوں کو پسند کرتا ہے۔اور سب کو پتہ تھا کہ اس نے ایلکو کے کلب میں لڑکوں کے ساتھ شراب پی تھی۔شاید نشے کی حالت میں وہ کہہ گیا تھا،کہ وہ شادی کرنے والاآدمی نہیں ہے۔
بعد میں اتوار کی دوپہر میں چمکتی ہوئی بگھی میں بیٹھ کر سڑک سے گزرتے ہوئے ہم سب نے پردوں کے پیچھے سے دیکھا اور کہا،’’بے چاری ایمیلی۔‘‘مس ایمیلی کا سر اونچا اور تنا ہوا تھا اور ہومر بیٹن اپنی کلغی والی ٹوپی پہنے ،دانتوں میں سگار ،پیلے دستانے ،ہاتھوں میں لگام اور چابک دبائے ہوئے۔
تب کچھ کچھ عورتوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ شہر والوں کی بے عزتی کا معاملہ ہے اور نوجوانوں پر اس کا برا اثر پڑے گا۔آدمی اس معاملے میں دخل اندازی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن عورتوں نے بیسپٹ منسٹر(ایمیلی کے لوگ ایپس کوپال تھے)کو مس ایمیلی سے بات کرنے کے لیے مجبور کیا۔اس بات چیت کے دوران کیا کچھ ہوا یہ راز اس منسٹر نے کبھی نہیں کھولا۔لیکن اس نے وہاں دوبارہ جانے سے انکار کردیاتھا۔اگلے اتوار کو مس ایمیلی اور ہومر بیٹن پھر سڑک پر دکھائی دیئے اور اس کے اگلے روز منسٹر کی بیوی نے البامہ میں مس ایمیلی کے رشتہ داروں کو خط روانہ کیا۔
اس طرح اس کے رشتے کی بہنیں پھر ایک بار پہنچ گئیں اور ہم انتظار کرنے لگے کہ اب آگے کیا ہوتا ہے؟پہلے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔تب ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ شادی کرنے والے ہیں۔ہمیں پتہ چلا کہ مس ایمیلی جوہری کی دکان میں گئی تھی اور اس نے سنگھار کے لیے چاندی کا سیٹ خریدا تھا جس کی ہر چیز پر اس نے ایچ بی کھدوایا۔دو دن بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ ان سب کپڑوں کو خرید لائی جو آدمی پہنتے ہیں۔ان میں نائٹ شرٹ بھی تھا۔اور ہم نے کہا،’’وہ شادی کرچکے ہیں۔‘‘ہمیں خوشی ہوئی تھی۔کیوں کہ رشتے کی دونوں بہنیں مس ایمیلی سے کچھ زیادہ ہی گریرسن ثابت ہوئی تھی۔
اس لیے ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔جب ہومر بیٹن سڑکیں بن جانے کے بعد چلا گیا تھا۔ ہمیں ذرا سی مایوسی ہوئی۔لیکن کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ہم نے سوچا شاید وہ مس ایمیلی کو وہاں لے جانے کی تیاری کے لیے پہلے خود چلاگیا ہوگا۔یا پھر رشتے کی بہنوں نے اسے چھٹکاراپانے کا ایک موقع دیا ہوگا۔(اس کے بعد لوگوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔جس میں ان بہنوں کو گھیرنے کا منصوبہ بنایا گیا جیسا کہ ہم سب مس ایمیلی کے خیرخواہ تھے)وہ دونوں ایک ہفتے بعد لوٹ گئیں۔جو کہ طے شدہ تھا۔ اور جیسا کہ ہم اندازہ لگا رہے تھے،ہومر بیٹن شہر واپس آگیا۔ایک پڑوسی نے شام کے دھندلکے میں نیگرو کو اس کے لیے باورچی خانے کا دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا۔
اور اس طرح ہم نے اس وقت آخری بار مس ایمیلی اور ہومر بیٹن کو دیکھا۔نیگروبازار کی ٹوکری لیے آتا جاتا،لیکن اصل دروازہ بند ہی رہتا۔کبھی کبھار چند لمحوں کے لیے ایمیلی کو ہم کھڑکی کے پاس دیکھ لیتے۔جس طرح سے کہ وہ تب دکھائی دی تھی جب چوناچھڑکنے کے لیے وہاں کچھ لوگ گئے تھے۔تقریباً چھ مہینوں تک وہ سڑک پر دکھائی نہیں دی۔پھر ہمیں محسوس ہوا کہ یہ بھی تو فطری بات تھی، اس کے والد کی وجہ سے اس کی زندگی میں کئی بار روڑے اٹکائے گئے اور وہ اس طرح بھیانک تھے کہ موت بھی آنے سے کتراتی تھی۔
اگلی بار جب مس ایمیلی دکھائی دی تو وہ موٹی ہوگئی تھی۔اور اس کے بال پک گئے تھے۔ آگے کچھ سالوں کے بعد بال پک کر سلیٹی ہوگئے تھے اور مڑنے لگے تھے۔آخر میں جب وہ مڑنا بند ہوگئے تو ان کا رنگ جگہ جگہ گہرا سلیٹی ہوگیا۔چوہتر برس کی عمر میں جب اس کی موت ہوئی تب بھی وہ بال کسی زندہ انسان کے بالوں کی طرح گہرے سلیٹی ہی تھے۔
تب سے اس کے گھر کا دروازہ بند رہا۔ان چھ سات برس کو چھوڑکر جس وقت وہ چالیس کے آس پاس تھی اور چینی پینٹنگ کی کلاس لیتی تھی۔نیچے کے کمروں میں سے ایک کو اس نے اسٹوڈیو میں تبدیل کرلیا تھا۔کرنل سارتورس کے ہم عصروں کی بیٹیاں اور پوتیاں پابندی کے ساتھ اس کی کلاس میں روانہ کی جاتیں۔اسی دوران اس کے سارے ٹیکس معاف کردیے گئے تھے۔
پھر نئی پیڑھی نے شہر کا انتظام سنبھالا۔اس وقت تک یہ نسل پینٹنگ سے دور ہوچکی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچوں کو رنگ ڈبوں اور اکتادینے والے برشوں سے دور کردیا۔اور اس کے پاس بھیجنا بند کردیا۔تب سے سامنے کا دروازہ بند تھا،اور بند ہی رہا۔جب شہر میں مفت ڈاک تقسیم کرنے کا نظام رائج ہوا تب اکیلے مس ایمیلی نے اپنے دروازے پر دھات کے بنے باکس لگانے سے منع کردیا۔وہ کسی کی بات سنتی ہی نہیں تھی۔
دن بدن،ماہ در ماہ،سال در سال ہم نے نیگرو کو بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھا اور خمیدہ کمر دیکھتے رہے۔ وہ بازار کی ٹوکری لیے آتا جاتا۔ہر دسمبر کو ہم مس ایمیلی کے نام ٹیکس کا نوٹس روانہ کرتے جو ڈاک کے ذریعے واپس آجاتا۔کبھی کبھار ہم اسے زینے کی کھڑکیوں میں دیکھ لیتے وہ کسی مجسمے کی طرح نظر آتی۔ایسا لگتا کہ وہ ہماری طرف دیکھ رہی ہے یا نہیں بھی۔طے کرنا مشکل تھا۔اس نے مکان کی اوپری منزل پر کنڈی چڑھا دی تھی۔اس طرح نسل در نسل سب کے ساتھ چلتی رہی۔ پیاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت کرنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ضدی۔
اور اس طرح اس کی موت ہوگئی۔پرچھائیوں اور گرد سے اٹے مکان میں وہ بیمار پڑی ۔ اسے دیکھنے والااکلوتا شخص لزرتا کانپتا نیگرو تھا۔ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ بیمار تھی۔ہم نے نیگرو سے معلومات حاصل کرنا بہت دنوں سے چھوڑدیاتھا۔وہ بھی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ممکن ہے مس ایمیلی سے بھی نہیں۔کیوں کہ اس کی آواز کرخت ہوگئی تھی اور زنگ آلود ہوگئی تھی۔جیسا کہ اس کا غلط استعمال ہواہو۔
مس ایمیلی نے نیچے کے ایک کمرے میں رکھے اخروٹ کی لکڑی کے بھاری پلنگ پر آخری سانس لی۔اس پلنگ پر پردے لگے ہوئے تھے۔اس کا سلیٹی سر اس تکیے پرپڑا تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ اور سورج کی مناسب روشنی نہ ملنے کے سبب پیلا اور گندا ہوگیا تھا۔
وہاں سب سے پہلے پہنچنے والی عورتوں کو نیگرو سامنے والے دروازے پر ملا۔ اس نے انھیں اندر آنے دیا۔ان کی آوازیں گھٹی گھٹی نکل رہی تھیں۔وہ جلدی جلدی اور تجسس سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔انھیں اندر پہنچانے کے بعد نیگرو غائب ہوگیا۔وہ سیدھا مکان کے اندر گیا اور پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔دوبارہ وہ دکھائی نہیں دیا۔
رشتے کی دونوں بہنیں جلد ہی پہنچ گئیں۔انھوں نے دوسرے روز آخری رسومات ادا کیں۔ پھولوں کے ڈھیر کے نیچے پڑی مس ایمیلی کو دیکھنے سارا شہر امڈ پڑاتھا۔تابوت کے پاس اسٹینڈ پر اس کے والد کا رنگین چہرہ فکر میں ڈوبا ہوا نظرا آرہا تھا۔عورتیں ماتم کررہی تھیں اور وہ عجیب لگ رہی تھیں۔کچھ بے حد بوڑھے لوگ پورچ اور برآمدے میں کھڑے تھے۔ان میں سے کئی اپنا ماتمی لباس پہنے ہوئے تھے۔وہ مس ایمیلی کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔جیسے وہ ان کی ہم عصر رہی ہو۔وہ اس طرح ظاہر کررہے تھے جیسے انھوں نے اس کے ساتھ رقص کیا ہو یا پھر اس سے شادی کی پیشکش کی ہو۔وہ وقت کے احتساب میں کئی غلطیاں کررہے تھے جیسا کہ اکثر بوڑھے کرتے ہیں۔ جن کے لیے ماضی کوئی ختم ہو نے والی سڑک نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھاس کا میدان ہے جسے سردی کبھی چھوبھی نہ پائے۔اس ماضی سے انھیں الگ کرکے رکھ دیا گیاتھا۔
ہمیں پہلے سے ہی علم تھا کہ سیڑھیوں کے اوپر وہاں ایک کمرہ ہے جسے چالیس برس سے کوئی نہیں دیکھ پایا تھا اور جسے اب کھلنا ہی تھا۔لوگوں نے اسے کمرے سے پہلے مس ایمیلی کی تدفین تک انتظار کیا۔
دروازہ توڑنے سے شوروغوغہ ہورہا تھا۔اسے توڑنے کی وجہ سے کمرے میں گرد و غبار اڑنے لگاتھا۔گرد کی ایک مہین تہہ جیسا کہ کسی مزار پر پڑی ہوتی ہے اس کمرے کی ہر ایک چیزپر جمی ہوئی تھی۔یہ کمرہ اس طرح سجا دھجا تھا جیسے کوئی شادی کا جشن ہو۔چاروں طرف دھول کی حکمرانی تھی۔ گلاب کی اڑی ہوئی رنگت والے جھالر دار پردوں پر،اسی رنگت کی روشنی پر،سنگھار دان پر، کرسٹل کے مجسمے پر اور چاندی کے زیورات پر،جن کی پالش ماند پڑچکی تھی۔یہاں تک کہ چاندی کا مونوگرام بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ان چیزوںکے درمیان ایک کالر اور ٹائی بھی پڑی ہوئی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ انھیں تھوڑی ہی دیر قبل ہٹایا گیا ہے۔ انھیں جب اٹھایا گیا تو اس جگہ جمی ہوئی گرد سے آدھے چاند کی تصویر بن گئی تھی۔کرسی پر سوٹ لٹکا ہوا تھا،اچھی طرح تہہ کیاہوا۔ کرسی کے نیچے ایک جوڑی ہلکے جوتے اور الگ پڑے ہوئے موزے تھے۔
آدمی خود بستر پر لیٹا تھا۔
کافی دیر تک ہم حواس باختہ کھڑے رہے۔انتہائی گہری اور زندگی سے معمور مسکان پر نظر گڑائے۔یہ بات طے تھی کہ وہ کسی کو بانہوں میں بھرنے والی حالت میں پڑاتھا۔لیکن اب اسے ابدی نیند نے جالیا تھا۔جو محبت سے بھی زیادہ ثبات رکھتی تھی اور اس کے انکار کو بھی پیچھے چھوڑسکتی تھی۔ جو کچھ بھی اس کے ختم ہوچکے بدن اور گائون میں بچا تھا وہ اس بستر سے بری طرح چپک گیا تھا جس پر وہ لیٹا تھااور اس کے اوپر اور اس کی بغل میں پڑے تکیے کے اوپر انتظارکے گرد وغبار کی دبیز تہہ جم گئی تھی۔پھر ہماری نظر دوسرے تکیے پر کسی کے سر رکھنے سے بنے گڑھے پر پڑی۔ہم میں سے کسی نے اس تکیے سے کچھ اٹھایا اور ہم سب آگے بڑھ کر اسے دیکھنے کے لیے جھکے۔وہ ایک لمبا،گہرے سلیٹی رنگ کا بال تھا جو بے جان تھا اور دھول سے اٹا ہوا۔اس سے تیز بو آرہی تھی۔
٭٭٭

ولیم فاکنر ۱۸۹۷ء میں مسیسیپی ،امریکہ میںپیدا ہوئے اور ۱۹۶۱ء میں انتقال فرمایا۔ انہیں ۱۹۴۹ء میں نوبل انعام دیا گیا۔انھوں نے زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا تھا۔وہ مختلف کاموں سے وابستہ رہے۔فوجی بنے،کتابوں کی دکان میں نوکری کی،پوسٹ ماسٹر رہے ساتھ ہی بڑھئی کا کام بھی کیا۔گھروں میں رنگ و روغن کرتے رہے۔کچھ عرصے تک ہالی ووڈ کی فلموں کے اسکرپٹ بھی قلمبند کرتے رہے۔ ’’سینکچوری‘‘ناول پر انہیں نوبل سے نوازا گیا۔ان کی تصانیف میں دَ ماربل فان،سولجرس پے،مسکیو روز، دَ سائونڈاینڈ فیوری،سارٹریج،ایچ آئی لے ڈائنگ،لائن اِن اگست،دَ آن وین کوشڈ وغیرہ ہیں۔

 

Cobbler a Short Story by John Galsworthy

Articles

موچی

جان گالزوردی

میں اسے تب سے جانتا تھا،جب میں بہت چھوٹا تھا۔وہ میرے ابو کے جوتے بناتا تھا۔ چھوٹی سی ایک گلی میں دو دکانیں ملاکر انھیں ایک دکان میں کردیا گیا تھا۔مگر اب وہ دکان نہیں رہی،اس کی جگہ ایک بے حد جدید طرز کی دکان تیار ہوگئی ہے۔
اس کی کاریگری میں کچھ خاص بات تھی۔شاہی خاندان کے لیے تیار کیے گئے کسی بھی جوتے کی جوڑی پر کوئی نشان نہیں ہوتاتھاسوائے ان کے اپنے جرمن نام کے’’گیسلربردرس‘‘ اور کھڑکی پر جوتوں کی صرف چند جوڑیاں رکھی رہتیں۔مجھے یاد ہے کھڑکی پر ایک ہی طرح کی جوڑیوں کو باربار دیکھنا مجھے کھَلتا تھا،کیوں کہ وہ آرڈر کے مطابق ہی جوتے بناتاتھا۔نہ کم نہ زیادہ۔اس کے تیار کیے ہوئے جوتوں کے بارے میں یہ سوچنا غیر تصوراتی تھا کہ وہ پائوں میں ٹھیک سے نہیں آئیں گے؟ تو کیا کھڑکی پر رکھے جوتے اس نے خریدے تھے۔یہ سوچنا بھی تصور سے دور تھا۔وہ اپنے گھر میں ایسا کوئی چمڑا رکھنا برداشت نہیں کرتا تھا جس پر وہ بذاتِ خود کام نہ کرے۔اس کے علاوہ پمپ شو کا وہ جوڑا بے حد خوبصورت تھا،اتنا شاندار کہ بیان کرنا مشکل تھا۔وہ اصل چمڑے کا تھا جس کی اوپری تہہ کپڑے کی تھی۔انھیں دیکھ کر ہی جی للچانے لگتا تھا۔اونچے اونچے بھورے چمکدار جوتے،حالانکہ نئے تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں برسوں سے پہنے جارہے ہوں۔واقعی جوتوں کا وہ جوڑا ایک مثالی نمونہ تھا۔جیسے تمام جوتوں کی روح اس میں منتقل ہوگئی ہو۔
دراصل یہ سارے خیالات میرے ذہن پر بعد میں ابھرے۔حالانکہ جب میں صرف چودہ برس کاتھا،تب سے اسے جانتا تھا اور اسی وقت سے میرے دل میں اس کے اور اس کے بھائی کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوچکا تھا۔ایسے جوتے بنانا جیسے وہ بناتا تھا تب بھی اور اب بھی میرے لیے ایک عجوبہ یا حیرت انگیز بات تھی۔
مجھے بخوبی یاد ہے،ایک دن میں نے اپنا چھوٹا سا پیر آگے بڑھاکر شرماتے ہوئے اس سے پوچھا تھا،’’مسٹر !کیا یہ بہت مشکل کام نہیں ہے؟‘‘
جواب دیتے وقت سرخی مائل داڑھی سے ایک مسکان ابھر آئی تھی،’’ہاں، یہ مشکل کام ہے۔‘‘
چھوٹے قد کا وہ آدمی جیسے بذات خود چمڑے سے بنایا گیا ہو،اس کا زرد چہرہ جھریوں بھرا چہرہ اور سرخی مائل گھنگھرالے بال اور داڑھی،رخساروں سے اس کے منہ تک دائروی شکل میں ابھری چہرے کی لکیریں،گلے سے نکلی ہوئی بھاری بھرکم آواز۔چمڑہ ایک نافرمان چیز ہے۔سخت اور آہستہ آہستہ آکار لینے والی چیز۔اس کے چہرے کی بھی یہی خاصیت تھی۔اپنے آدرش کو اپنے اندر پوشیدہ رکھے ہوئے،محض اس کی آنکھیں اس سے عاری تھیں۔جو بھوری نیلی تھیں اور جن میں ایک سادگی بھری گہرائی تھی۔
اس کا بڑا بھائی بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا،بلکہ اس کا رنگ کچھ زیادہ زردی مائل تھا۔ شروعات میں میرے لیے دونوں میں فرق کرپانا دشوار مرحلہ تھا۔پھرمیری سمجھ میں آگیا۔جب کبھی میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا،ایسا نہیں کہا جاتا تو میں جان لیتا تھا کہ یہ وہی ہے اور یہ الفاظ دہرائے جاتے تو یقیناً وہ اس کا بڑا بھائی ہوتا۔
کئی بار برسوں بیت جاتے اور بل میں اضافہ ہوتا جاتا،مگر گیسلر بھائیوں کی رقم کوئی بقایا نہیں رکھتا تھا۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس نیلے فریم کے چشمے والے جوتاساز کا کسی پر دو جوڑیو ں سے زیادہ رقم باقی ہو۔اس کے پاس جانا ہی طمانیت کا احساس جگا دیتا تھا کہ ہم بھی اس کے گاہک ہیں۔
اس کے پاس باربار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی،کیوں کہ اس کے بنائے جوتے بہت مضبوط ہوتے تھے،ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔وہ جوتے ایسے ہوتے جیسے جوتوں کی روح ان کے اندرسِل دی گئی ہو۔
وہاں جانا کسی عام دکان پر خریداری کرنے کے مترادف نہیں تھا۔ایسا قطعی نہیں تھا کہ آپ دکان میں داخل ہوئے اور بس کہنے لگیں کہ،’’ذرا مجھے یہ دکھائو‘‘ یا ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر اٹھے اور چل دیئے۔یہاں پورے اطمینان کے ساتھ جانا پڑتا تھا،بالکل اسی طرح جیسے کسی گرجا گھر میں داخل ہواجاتا ہے۔پھر اس کی اکلوتی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کریں،کیوں کہ اس وقت وہاں کوئی نہیں ہوتا۔جلدی ہی چمڑے کی بھینی بھینی بو اور تاریکی سے بھری اوپر کی کنوئیں نما کوٹھری سے اس کا یا اس کے بڑے بھائی کا چہرا نیچے جھانکتا ہوا نظر آتا۔ایک بھاری بھر کم آواز اور لکڑی کی تنگ سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔پھر وہ آپ کے سامنے کھڑاہوتا،بنا کوٹ کے تھوڑا جھکا جھکا سا،چمڑے کا ایپرن پہنے ،آستین اوپر چڑھائے،آنکھیں اور پلکیں جھپکاتے ہوئے جیسے اسے جوتوں کے خوبصورت خواب سے جگایا گیا ہو یا جیسے وہ الّو کی طرح دن کی روشنی سے حیرت زدہ اور خواب میں خلل کی وجہ سے جھنجھلایا ہوا ہو۔
میں اس سے پوچھتا،ــ  کیسے ہو بھائی گیسلر؟کیا تم میرے لیے روسی چمڑے سے ایک جوڑی جوتے بنا دوگے؟‘‘
بنا کچھ کہے وہ دکان کے اندر چلا جاتا اور میں اسی لکڑی کی کرسی پر آرام سے بیٹھ کر اس کے پیشے کی بو اپنی سانسوں میں اتارتارہتا۔کچھ ہی دیر بعد وہ لوٹتا ۔اس کے کمزور اور اُبھری ہوئی نسوں والے ہاتھوں میں گہرے بھورے رنگ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا۔اس کی آنکھیں اس پر گڑی رہتیں اور وہ کہتا،’’کتنا خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘جب میں بھی اس کی تعریف کردیتا تو وہ سوال کرتا، آپ کو جوتے کب تک چاہیے؟‘‘اور میں کہتا،’’اوہ،بنا کسی دقت کے جتنی جلد ممکن ہوسکے بنا کردے دو۔‘‘ اور پھر وہ سوالیہ انداز میں کہتا،’’کل دوپہر؟‘‘یا اگر اس کا بڑا بھائی ہوتا تو وہ کہتا،’’میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا۔‘‘
پھر میں آہستہ سے کہتا ،’’شکریہ مسٹر گیسلر،اب اجازت ،خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ!‘‘وہ کہتا۔مگر اس کی نگاہ ہاتھ تھامے ہوئے چمڑے پر ہی ٹکی رہتیں۔میں دروازے کی جانب مڑتا۔مجھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی۔ جو اسے جوتوں کی اسی خوابوں بھری دنیا میں لے جاتی۔مگر ایسا کوئی نیا جوتا بنوانا ہو،جو اس نے ابھی تک میرے لیے نہ بنایا ہو تو وہ جیسے مخمصے میں پڑجاتا۔مجھے میرے جوتے سے آزاد کرکے دیر تک ہاتھ میں لے کر اس جوتے کو دیکھتا رہتا۔مسلسل شفقت بھری پارکھی نظروں سے نہارتا رہتا۔جیسے اس گھڑی کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو جب بڑے جتن سے انھیں بنایا گیا تھا۔اس کے ہائو بھائو میں کرب جھلکتا تھا کہ آخر کس نے اس قدر عمدہ نمونے کو اس حال میں پہنچایا ہے۔پھر کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میرا پیر رکھ کر وہ پینسل سے دوتین بار پیر کے گھیرے کانشان بناتا،اس کی حرکت کرنے والی انگلیاں میرے انگوٹھے اور پیروں کو چھوتی رہتیں،جیسے میں نے یوں ہی اس سے کہہ دیا،’’بھائی گیسلر،آپ کو پتہ ہے، آپ نے جو پچھلا جوتا بناکر دیا تھا،وہ چرمراتاہے۔‘‘
کچھ کہے بغیر اس نے پل بھر میری طرف دیکھا،جیسے امید کررہا ہو کہ یاتو میں اپنا جملہ واپس لے لوں یا اپنی بات کا ثبوت پیش کروں۔
’’ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘وہ بولا۔
’’ہاں مگر ایسا ہواہے۔‘‘
’’کیا تم نے انھیں بھگویا تھا؟‘‘
’’میرے خیال سے تو نہیں۔‘‘
یہ سن کر اس نے اپنی نظریں جھکالیں۔جیسے وہ ان جوتوں کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو، مجھے بے حد افسوس ہواکہ میں نے یہ بات کیوں کہہ دی۔
’’جوتے واپس بھیج دو۔میں دیکھوں گا۔‘‘وہ بولا۔
اپنے چرمراتے ہوئے جوتوں کے بارے میں میرے اندر رحم دلی کے جذبات ابھر آئے۔ میں بخوبی تصور کرسکتا تھا کہ دکھ بھری طویل بے چینی کے ساتھ نہ جانے کتنی دیر تک وہ ان کی مرمت کرے گا؟
’’کچھ جوتے۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’پیدائشی خراب ہوتے ہیں،اگرانھیں درست نہ کرسکا تو آپ کے بل میں اس کے پیسے نہیں جوڑو ں گا۔‘‘
اک بار ،محض ایک ایک بار میں اس کی دکان میں بے خیالی سے ایسے جوتے پہن کر چلاگیا جو جلد بازی کی وجہ سے کسی مشہور دکان سے خرید لیے تھے۔اس نے بنا کوئی چمڑا دکھائے میرا آرڈر لے لیا۔میرے جوتوں کی گھٹیا بناوٹ پر اس کی آنکھیں ٹکی ہوئی تھیں۔میں اس بات کو محسوس کررہا تھا۔آخر اس سے رہا نہ گیا اور وہ بول اٹھا،’’یہ میرے بنائے ہوئے جوتے تو نہیں ہیں؟‘‘
اس کے لہجے میں نہ غصہ تھا نہ دکھ کا اظہار نہ نفرت کے جذبات۔مگر کچھ ایسا ضرور تھا، جو لہو کو سرد کردے۔اس نے ہاتھ اندر ڈال کر انگلی سے بائیں جوتے کو دبایا،جہاں جوتے کو فیشن ایبل بنانے کے لیے غیر ضروری کاریگری کی گئی تھی۔مگر وہاں وہ جوتا کاٹتا تھا۔
’’یہاں،یہ آپ کو کاٹتا ہے نا؟‘‘اس نے پوچھا،’’یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں انھیں عزت کا پاس نہیں ہوتا۔‘‘پھر جیسے اس کے دماغ میں کچھ بیٹھ گیا ہو،وہ زورزور سے کڑواہٹ بھرے لہجے میں بولنے لگا۔یہ پہلی مرتبہ تھا،جب میں نے اسے اپنے پیشے سے پیدا ہونے والے نا گفتہ با حالات اور دقتوں کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا۔’’انھیں سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘اس نے کہا،’’ وہ کام کے بوتے پر نہیں،بلکہ اشتہار کے بوتے پر سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں۔وہ ہمارے گاہک چھین لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج میرے پاس کام نہیں ہے۔‘‘اس کی جھریوں سے بھرے چہرے پر میں نے وہ سب دیکھا جو کبھی نہیں دیکھا تھا۔بے انتہا تکلیف،کڑواہٹ اور جدوجہد۔اچانک اس کی سرخ مائل داڑھی میں سفیدی لہرانے لگی تھی۔
اپنی جانب سے میں اتناکرسکتا تھا کہ اسے حالات روشناس کراتا۔جس کی بنا پر میں اس گھٹیا جوتوں کو خریدنے پر مجبور ہوگیاتھا۔مگر ان چند لمحات میں اس کے چہرے اور آواز نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے کئی جوڑی جوتوں کے بنانے کا آرڈر دے دیا اور اس کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ جوتے گھسنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔تقریباً دو برس تک میں وہاں نہ جاسکا۔
آخر جب میں گیا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس کی دکان کی دو چھوٹی کھڑکیوں میں سے ایک کھڑکی کے باہر کسی دوسرے کے نام کا بورڈ آویزاں ہوگیا تھا۔وہ بھی جوتے بنانے والا ہی تھا۔ شاہی خاندان کے جوتے۔اب صرف ایک کھڑکی پر وہی جانے پہچانے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ وہ الگ سے نہیں لگ رہے تھے۔اندر بھی،دکان کی وہ کنوئیں نما کوٹھری پہلے کی بہ نسبت زیادہ تاریک اور بو سے اٹی ہوئی لگ رہی تھی۔اس بار ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔کافی دیر بعد وہی چہرہ نیچے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔پھر چپلوں اور قدموں کی آواز گونجنے لگی۔آخر وہ میرے روبرو تھا، زنگ آلود ٹوٹے پرانے چشمے میں سے جھانکتا ہوا۔اس نے پوچھا،ــ’’آپ مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں نا؟‘‘
’’ہاں مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا،’’کیا بتلائوں،آپ کے جوتے اتنے اچھے ہیں کہ گھستے ہی نہیں۔دیکھیے یہ جوتے بھی ابھی تک چل رہے ہیں۔‘‘اور میں نے اپنا پیر آگے بڑھادیا۔اس نے انھیں دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘وہ بول اٹھا۔’’مگر لگتا ہے لوگوں کو اب مضبوط جوتوں کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘
اس کی طنز بھری نظروں اور آواز سے نجات پانے کے لیے میں نے فوراً کہا،’’یہ تم نے اپنی دکان کو کیا کر ڈالا ہے؟‘‘۔اس نے اطمینان سے کہا،’’بہت مہنگا پڑرہا تھا۔کیا آپ کو جوتے چاہیے؟‘‘
میں نے تین جوڑی جوتوں کا آرڈر دیا۔حالانکہ مجھے ضرورت صرف دو جوڑی جوتوں کی ہی تھی اور جلدی سے میں وہاں سے باہر نکل آیا۔نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ اس کے ذہن میں کہیں یہ بات ہے کہ اسے یا سچ کہیں تو اس کے جوتوں سے متعلق جو سازش رچی جارہی ہے اس میں میں بھی شامل ہوں۔یوں بھی کوئی ان چیزوں کی اتنی پروا نہیں کرتا۔مگر پھر ایسا ہوا کہ میں کئی مہینوں تک وہاں نہیں گیا۔جب میں وہاں گیا تو میرے ذہن میں بس یہی خیال تھا،اوہ!میں بھلااس بوڑھے کو کیسے چھوڑسکتا ہوں۔شاید اس بار اس کے بڑے بھائی سے سامنا ہوجائے۔
میں جانتا تھا کہ اس کا بڑا بھائی تیکھے لہجے میں یا نفرت آمیز لہجے میں بات نہیں کرسکتا۔
واقعی دکان میں جب مجھے بڑے بھائی کی شبیہہ دکھائی دی تو میں نے راحت محسوس کی۔ وہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر کام کررہا تھا۔
’’ہیلو مسٹر گیسلر کیسے ہیں آپ؟‘‘میں نے پوچھا۔وہ اٹھا اور غور سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’مگر میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا۔‘‘
تب میں نے دیکھا کہ یہ تو وہ خود تھا۔کتنا بوڑھا اور کمزور ہوگیا تھا۔اس سے پہلے میں نے کبھی اسے اپنے بڑے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔مجھے بڑا دکھ ہوا۔میں نے آہستہ سے کہا، ’’یہ تو بہت ہی برا ہوا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا،’’وہ نیک دل انسان تھا،اچھے جوتے بناتا تھا،مگر اب وہ نہیں رہا۔‘‘پھر اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا،جہاں سے اچانک اس کے بہت زیادہ بال جھڑگئے تھے۔اس کے بدقسمت بھائی کی طرح۔مجھے محسوس ہوا شاید وہ اس طرح اپنے بھائی کی موت کا سبب بتارہا تھا۔ ’’بھائی اس دوسری دکان کو کھودینے کا غم برداشت نہیں کرپایا۔خیر،کیا آپ کو جوتے چاہیے؟‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمڑہ اٹھاکر دکھایا۔’’یہ بہت خوبصورت ٹکڑاہے!‘‘
میں نے کئی جوتوں کاآرڈر دیا۔بہت دنوں بعد مجھے وہ جوتے ملے جو بے حد شاندار تھے۔ انھیں بڑے سلیقے سے پہنا جاسکتا تھا۔اس کے بعد میں بیرون ملک چلا گیا۔
لوٹ کر لندن آنے میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت گزرگیا۔لوٹنے کے بعد سب سے پہلے میں اپنے اسی بوڑھے دوست کی دکان پر گیا۔میں جب گیا تھا وہ ساٹھ برس کا تھا۔اب جسے میں دیکھ رہا تھا وہ پچھہتر سے بھی زیادہ کا دکھائی دے رہا تھا۔بھوک سے بے حال،تھکا ماندا،خوفزدہ اور اس بار واقعی اس نے مجھے نہیں پہچانا۔
’’اور مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کہا۔دل ہی دل میں دکھی تھا،’’تمھارے جوتے تو واقعی کمال کے ہیں!دیکھو ،میں بیرونِ ملک یہی جوتے پہنتا رہا اور اب بھی یہ اچھی حالت میں ہیں۔ ذرا بھی خراب نہیں ہوئے ہیں،ہیں نا؟‘‘
بڑی دیر تک وہ جوتوں کو دیکھتا رہا۔روسی چمڑے سے بنے ہوئے جوتے۔اس کے چہرے پر ایک چمک سی لوٹ آئی۔اپنا ہاتھ جوتے کے اوپری حصے میں ڈالتے ہوئے وہ بولا۔’’کیا یہاں سے کاٹتے ہیں؟مجھے یاد ہے ان جوتوں کو بنا نے میں مجھے کافی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘
میں نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہر طرح سے بہترین ہیں۔ذرا بھی تکلیف نہیں دیتے۔
’’کیا آپ کو جوتے بنوانے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا،میں جلد ہی بناکر دوں گا،یوں بھی مندی کا دور چل رہا ہے۔‘‘
’’میں بالکل نئے ماڈل کے جوتے بنائوں گا۔آپ کے پیر تھوڑے بڑے ہوگئے۔‘‘ اور آہستگی سے اس نے میرے پائوں کو ٹٹولا اور انگوٹھے کو محسوس کیا۔اس دوران صرف ایک بار اوپر دیکھ کر وہ بولا،’’کیا میں نے آپ کو بتایا کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘
اسے دیکھنا بڑا تکلیف دہ تھا،وہ بہت کمزور ہوگیا تھا،باہر آکر میں نے راحت محسوس کی۔
میں ان جوتوں کی بات بھول ہی چکا تھا کہ ایک شام اچانک وہ آپہنچے۔جب میں نے پارسل کھولا تو ایک کے بعد ایک چار جوڑی جوتے نکلے۔بناوٹ،آکار،چمڑے کی کوالیٹی اور فٹنگ ہر لحاظ سے اب تک بنائے گئے جوتوں سے بہتر اور لاجواب۔عام موقع پر پہنے جانے والے جوتے میں مجھے اس کا بل ملا۔اس نے ہمیشہ کی طرح ہی دام لگایا تھا۔مگر مجھے تھوڑادھکالگا۔کیوں کہ وہ کبھی تین ماہ کی آخری تاریخ سے قبل بل نہیں بھیجتا تھا۔میں دوڑتے ہوئے نیچے گیا،چیک بنایا اور فوراً پوسٹ کردیا۔
ایک ہفتے بعد میں اس راستے سے گزر رہا تھا تو سوچا کہ اسے جاکر بتائوں کہ اس کے جوتے کتنے شاندار اور بہترین ناپ کے بنے ہیں۔مگر جب میں وہاں پہنچا جہاں اس کی دکان تھی تو اس کا نام غائب تھا۔کھڑکی پر اب بھی وہی سلیقہ دار پمپ شو رکھے ہوئے تھے۔اصل چمڑے کے اور کپڑے کی اوپری تہہ والے۔
بے چین ہوکر میں اندر گیا،دونوں دکانوں کو ملاکر دوبارہ ایک دکان کردی گئی تھی۔ایک انگریز نوجوان ملا۔’’مسٹر گیسلر اندر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔
’’نہیں سر۔‘‘وہ بولا،’’نہیں،مسٹر گیسلر نہیں ہیں۔مگر ہم ہر طرح سے آپ کی خدمت کرسکتے ہیں،یہ دکان ہم نے خریدلی ہے،آپ نے باہر ہمارا بورڈدیکھا ہوگا۔ہم نامی گرامی لوگوں کے لیے جوتے بناتے ہیں۔‘‘
’’ہاں،ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’مگر مسٹرگیسلر؟‘‘
’’اوہ!‘‘وہ بولا،’’ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘
’’کیا ،انتقال ہوگیا؟مگر انھوں نے مجھے پچھلے ہفتے ہی تو یہ جوتے بھیجے تھے۔‘‘
’’اوہ!بے چارہ بوڑھا،بھوک سے ہی مرگیا۔‘‘اس نے کہا۔’’بھوک سے آہستہ آہستہ موت،ڈاکٹر یہی کہتے ہیں!آپ جانتے ہیں وہ دن رات بھوکا رہتا تھا اور کام کرتا تھا۔اپنے علاوہ کسی کو بھی جوتوں پر ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔جب اسے آرڈر ملتا تو اسے پورا کرنے میں رات دن ایک کردیتا۔اب لوگ بھلا کیوں انتظار کرنے لگے۔اس کے سبھی گاہک چھوٹ گئے تھے۔وہ وہاں بیٹھا لگاتار کام کرتا رہتا۔وہ کہتا کہ پورے لندن میں اس سے بہتر جوتے کوئی نہیں بناتا۔ اس کے پاس بہترین چمڑا تھا مگر وہ اکیلا ہی سارا کام کرتا تھا۔خیر!چھوڑیئے اس طرح کے آدرش میں کیا رکھا ہے۔‘‘
’’مگر بھوک سے مرجانا؟‘‘
’’یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر میں جانتا ہوں دن رات اپنی آخری سانس تک وہ جوتوں پر لگا رہا۔انھیں دیکھتا رہتا۔اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ سب کچھ گروی رکھ دیا تھا۔مگر اس نے چمڑا نہیں چھوڑا۔نہ جانے کس طرح وہ اتنے دن زندہ رہا۔وہ مسلسل فاقے کرتا رہا۔وہ ایک عجیب انسان تھا، مگر ہاں،وہ جوتے بہت عمد ہ بناتا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’وہ عمدہ جوتے بناتا تھا۔‘‘

٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

جان گالزوردی ۱۹۶۷ء میں انگلینڈ کے شہر کِنگسٹن میں پیدا ہوئے اور ۱۹۳۳ء میں انتقال کرگئے۔انہیں’’دَفورسائٹ ساگا‘‘کے لیے نوبل سے نوازا گیا۔ان کے سترہ ناول،چھبیس ڈرامے اور افسانے بارہ جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔انہوں نے نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔لیکن وہ ناولوں کے لیے مشہور ہیں۔ان کی تصانیف میں دَ آئی لینڈ فیری سیز،دَ مین آف پراپرٹی،دَ ڈارک فلور،اِن چانسری، ٹولیٹ،لائلٹیز،دَ وہائٹ سنکی،دَ سلور باکس وغیرہ ہیں۔