The Role of Literature in Current World Scenario

Articles

موجودہ عالمی صورتِ حال میں ادب کے تقاضے

ڈاکٹر سیّد جعفر احمد

 

اکیسویں صدی کے عصری منظر نامے کی تفہیم اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے اقتصادی محرکات اور عوامل کا بھی شعور حاصل نہ کرلیا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارا آج کا سیاسی منظر نامہ ہمارے اقتصادی منظر نامے سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ اس وقت ہر طرف گلوبلائزیشن کا دور دورہ ہے اور یہ اصطلاح سکہ¿ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ غور سے دیکھیں تو گلوبلائزیشن بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ دنیا نے جب سے سرمایہ دارانہ نظام کا تجربہ کیا ہے یہ گلوبلائزیشن ہمیشہ ہی افق پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح موجود رہی ہے۔ سرمائے کی سرشت میں ہے کہ وہ پھیلتا ہے۔ اس کی طبع میں ہے کہ یہ’ رُکتی ہے تو ہوتی ہے رواں اور ‘۔ اس کے آگے بند باندھنا مشکل ہوتا ہے۔ سو گزشتہ تین چار سو سال سے سرمایہ Globalizeہونے ہی کی طرف مائل تھا اور آج اس کی بن آئی ہے، چنانچہ ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا پر اپنے پھریرے لہراتی پھر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں ایسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کے بجٹ تیسری دنیا کے کئی کئی ملکوں کے بجٹوں سے زیادہ ہیں۔ یہ حکومتوں کو بنواتی ہیں اور گراتی ہیں، آبادیوں کو تہہ تیغ کرتی ہیں، لاکھوں نفوس ان کی مصنوعات کی تجربہ گاہ بنتے ہیں۔ یہ عالمی مالیاتی نظام اور عالمی تجارت پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انھوں نے اطلاع کو ایک صنعت بناکر اس کو بھی اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔ پھر ان کثیر القومی کمپنیوں میں امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت ہے۔یہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چیرہ دستیاں ہیں جن سے آج کا نیا عالمی نظام اپنی شناخت پاتا ہے۔
اس نئے عالمی نظام اور گلوبلائزیشن کے نتیجے میں دنیا میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ امیر اور غریب ملکوں کے درمیان تفاوت بڑھا ہے۔ چھوٹے ملکوں کی مختاری اور آزادی جو پہلے ہی بہت محدود تھی اب تقریباً معدوم ہوچکی ہے۔ غریب ملکوں کے بالا دست طبقات تو نئے نظام کا دُم چھلا بن کر اپنی مطلب براری کرلیتے ہیں لیکن زیر دست طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں۔ خود امیر ملکوں میں امیر اور غریب کا تضاد روز افزوں ہے۔ معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مقامی آبادی اور تارکینِ وطن کے درمیان خلیج بڑھتی جاتی ہے جس کا مظہر آئے دن کے فرقہ وارانہ اور نسلی ہنگامے ہیں۔
گلوبلائزیشن کے سماجی اثرات سے مربوط اس کے تہذیبی اثرات ہیں۔ گلوبلائزیشن نے چھوٹی ریاستوں اور ان کے تشخص کو ہی پامال نہیں کیا ہے بلکہ اس نے چھوٹے ملکوں اور چھوٹی آبادیوں کی ثقافتوں کو بھی حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی ہے۔ گلوبلائزیشن کے زیرِ اثر وہی زبان یا زبانیں برقرار رہنے کا پروانہ حاصل کرپاتی ہیں جو بڑی منڈیوں کی زبانیں ہیں۔ جو زبان بازار میں نہیں بولی جاتی یا بازار میں جس کے لیے مناسب جگہ نہیں بن سکی ، اس کا مستقبل تاریک ہوتا جاتا ہے۔ بیسیوں زبانیں پچھلے چند برسوں میں لسانی منظر نامے سے غائب ہوچکی ہیں اور بہت سی زبانیں ممکنہ مخدوش مستقبل سے دوچار ہیں۔ زبانوں کا معدوم ہوجانا شاید مملکتوں اور ریاستوں کے معدوم ہوجانے سے بھی زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ زبانیں تہذیب کی امانت دار ہوتی ہیں۔ وہ ہمارے ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ ان میں ہمارے پُرکھوں کے خواب محفوظ ہوتے ہیں، وہ ہمارے خیالات میں ارتفاع پیدا کرتی ہیں، ان کے وسیلے سے ہم اپنی اُمنگوں کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتے ہیں۔ ایک زبان کا مَر جانا بہت سے خوابوں ، ان گنت خیالوں اور بہت سی قدروں کا مَر جانا ہوتا ہے۔ گلوبلائزیشن سے آج یہی خواب ، خیال اور قدریں مَر رہی ہیں۔ ہماری تہذیب کا ایک بہت درخشاں حصہ خزاں کے پت چھڑ کی طرح شاخوں سے ٹوٹ کر ختم ہورہا ہے۔
نئے عالمی نظام اور گلوبلائزیشن نے تہذیب کی سطح پر جو دوسرا بڑا وار کیا ہے وہ ثقافتوں اور زبانوں پر حملے سے بھی سنگین ہے اور وہ ہے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کا وار۔ بظاہر اس وقت دنیا میں ایک نام نہاد اطلاعات کا انقلاب آیا ہوا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے معلومات کے ذخیرے کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے۔ کمپیوٹر نے انسان کے ذخیرہ¿ معلومات میں جس رفتار سے اضافہ کیا ہے خود اس رفتار کو ناپنا بھی اب کمپیوٹر کے بغیر ناممکن ہوچکا ہے۔ سیٹیلائٹس نے انسان کی رسائی ہزاروں چینلز تک کردی ہے اور خبریں جو کبھی ڈھونڈنے سے ملا کرتی تھیں اب سیلاب کی شکل میں ہمارے وجود کو غرق کرنے پر تلی نظر آتی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کس خبر کو درست سمجھا جائے اور کس کو غلط، یا درست اور غلط کے درمیان جو ہزاروں رنگ ہیں ان میں سے کس رنگ پر اعتبار کیا جائے ۔میڈیا نے گلوبلائزیشن کی محرک قوتوں کے اور نئے عالمی نظام کی قیادت پر فائز حکومتوں کے ہاتھ میں ذہنوں کو کنٹرول کرنے کا ایسا آلہ فراہم کردیا ہے جس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو کیا رائے قائم کرنی چاہیے، ان کو کس چیز کو منتخب اور کس کو رَد کرنا چاہیے، ان کو اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے کس قسم کے فیصلے کرنے چاہیے ، ان کو کیا پینا چاہیے ، کیا کھانا چاہیے ، کیا سوچنا چاہیے اور کون سے خواب دیکھنے چاہیے ، آج یہ سب کچھ انسان کے اپنے اختیار سے نکل کر میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔ مغربی جمہوریتوں میں شہریوں کے سوچنے اور سمجھنے پر میڈیا کے ذریعے کنٹرول کا حربہ وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر اور ریاست کا اب تک کا سب سے کارآمد حربہ ہے۔ نام چومسکی اس صورتِ حال کو Necessary Illussionsسے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ Water Lippmann کے اتّباع میں مغربی جمہوریت کو ’تماش بینوں‘ کی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ Lippmannکے خیال میں یہ ایسی جمہوریتیں ہیں جہاں بھٹکے ہوئے ہجوم رہنمائی کے طالب تو ہوتے ہیں، با اختیار ہونے کا حق نہیں رکھتے۔ چومسکی کا کہنا ہے کہ ’پروپیگنڈہ مغربی جمہوریت میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو ایک آمرانہ ریاست میں ڈنڈے کو حاصل ہوتی ہے۔ دونوں کا کام لوگوں کو ہانکنا اور ان کو ایک خاص سمت میں لے جانا ہوتا ہے۔‘اپنی کتاب ’ذرائع ابلاغ کا کنٹرول‘ (Media Control) میں چومسکی نے بتایا ہے کہ کس طرح ووڈرو ولسن (Woodrow Wilson) کے زمانے میں صرف چھ ماہ میں ایک خاموش طبع آبادی کو ایک ہیجان اور جنگی جنون میں سرشار آبادی میں ڈھال دیا گیا اور کس طرح بش سینئر کے زمانے میں قوم کو میڈیا کے ذریعے اور پبلک ریلیشننگ کی صنعت کے ذریعے جنگ بازی کے لیے تیار کرلیا گیا۔ چومسکی اور ان جیسے دانشور غلط نہیں ہیں۔ ہم خود بھی دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ کی ہولناک جنگی کاروائیوں ، عراق میں اس کی انسانیت کش سرگرمیوں اور افغانستان اور دنیا کے دوسرے خطوں میں اس کی بربریت کی تہہ در تہہ تفصیلات کے منظرِ عام پر آنے کے باوجود امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی اپنی حکومت کے قبضہ¿ قدرت میں ہے۔
گلوبلائزیشن کا تیسرا بڑا حملہ جو بہت خاموشی اور غیر محسوس طریقے سے ہوا ہے ، وہ ہماری زبان ، ہمارے لغت بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ہماری ترقی پسند زبان اور لغت کے اغوا کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ آج ہماری اصطلاحیں ، ہمارے نعرے، ہمارے استعارے اُن انسان دشمن اور تہذیب ناشناس قوتوں کے تصرف میں ہیں جن کے خلاف ہم جد و جہد کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔ چنانچہ صدر بس اور ٹونی بلیئر عراق کو ’آزاد‘ کرواتے ہیں۔ امریکہ عراق اور افغانستان میں ’جمہوری آزادیاں‘ لے کر آرہا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ’حقوقِ انسانی‘ کا شور مچاتی نظر آتی ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو ’بچوں کی محنت‘ شاق گزرتی ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کو بنیاد پرستی بُری لگنے لگی ہے اور وہ ’مذہبی ہم آہنگی‘ اور ’رواداری‘ کے علمبردار بن چکے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کے کاسہ لیس حکمراں اپنے اپنے ملکوں میں ’جمہوریت کو نچلی سے نچلی سطح‘ تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور فوجی آمریتیں ‘میانہ رَوئی اور روشن خیالی‘ کی علمبردار نظر آتی ہیں۔ الفاظ و اصطلاحات ، زبان و لغت کے اس اغوا کے بعد ہم جیسے لوگوں کے لیے اب ایک اضافی آزمائش یہ بھی قرار پاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنی زبان اور اپنے لفظیات کی بازیافت کرتے ہیں۔
٭٭٭

Coffee by Mushtaq Ahmad Yusufi

Articles

کافی

مشتاق احمد یوسفی

 

میں‌نے سوال کیا “آپ کافی کیوں ‌پیتے ہیں؟“
انھوں نے جواب دیا “آپ کیوں‌ نہیں پیتے؟“
“مجھے اس میں‌ سگار کی سی بو آتی ہے۔“
“اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتٍ شامہ کی کوتاہی ہے۔“
گو کہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا، تاہم رفعٍ شر کی خاطر میں‌نے کہا
“تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل لی جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کافی کا عطر کیوں نہ کشید کیا جائے تاکہ ادبی محفلوں میں ایک دوسرے کے لگایا کریں۔“
تڑپ کر بولے “صاحب! میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو—–کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دُھنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔“
میں نے معذرت کی “کُھرچن اور دُھنگار دونوں‌ سے مجھے متلی ہوتی ہے۔“
فرمایا “تعجب ہے! یوپی میں تو شرفا بڑی رغبت سے کھاتے ہیں“۔
“میں نے اسی بنا پر ہندوستان چھوڑا۔“
چراندے ہو کر کہنے لگے “ آپ قائل ہو جاتے ہیں تو کج بحثی کرنے لگتے ہیں۔“
جواباً عرض کیا “گرم ممالک میں بحث کا آغاز صحیح معنوں میں‌قائل ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ دانستہ دل آزاری ہمارے مشرب میں گناہ ہے۔ لہٰذا ہم اپنی اصل رائے کا اظہار صرف نشہ اور غصہ کے عالم میں‌کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا، لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کافی خوش ذائقہ ہوتی ہے تو کسی بچے کو پلا کر اس کی صورت دیکھ لیجئے۔“
جھلا کر بولے “ آپ بحث میں معصوم بچوں کو کیوں گھسیٹتے ہیں؟“
میں بھی الجھ گیا “آپ ہمیشہ ‘بچوں‘ سے پہلے لفظ ‘معصوم‘ کیوں‌ لگاتے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کچھ بچے گناہ گار بھی ہوتے ہیں؟ خیر، آپ کو بچوں‌ پر اعتراض ہے تو بلی کو لیجئے۔“
“بلی ہی کیوں؟ بکری کیوں‌ نہیں؟“ وہ سچ مُچ مچلنے لگے۔
میں نے سمجھایا “بلی اس لئے کہ جہاں تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، بچے اور بلیاں بُرے بھلے کی کہیں بہتر تمیز رکھتے ہیں۔“
ارشاد ہوا “کل کو آپ یہ کہیں‌گے کہ چونکہ بچوں اور بلیوں کو پکے گانے پسند نہیں‌ آسکتے اس لیے وہ بھی لغو ہیں۔“
میں نے انہیں یقین دلایا “میں‌ ہرگز یہ نہیں کہ سکتا۔پکے راگ انھیں‌کی ایجاد ہیں۔ آپ نے بچوں کا رونا اور بلیوں کا لڑنا۔۔۔۔۔“
بات کاٹ کر بولے “بہرحال ثقافتی مسائل کے حل کا نتیجہ ہم بچوں اور بلیوں ‌پر نہیں چھوڑ سکتے۔“
آپ کو یقین آئے یا نہ آئے، مگر یہ واقعہ ہے کہ جب بھی میں نے کافی کے بارے میں استصوابٍ رائے کیا اس کا انجام اسی قسم کا ہوا۔ شائقین میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اُلٹی جرح کرنے لگتے ہیں۔ اب میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں‌کہ کافی اور کلاسیکی موسیقی کے بارے میں استفسارٍ رائے عامہ کرنا بڑی ناعاقبت اندیشی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بدمذاقی ہے جیسے کسی نیک مرف کی آمدنی یا خوب صورت عورت کی عمر دریافت کرنا (اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیک مرد کی عمر اور خوب صورت عورت کی آمدنی دریافت کرنا خطرے سے خالی ہے)۔ زندگی میں صرف ایک شخص ملا جو واقعی کافی سے بیزار تھا۔ لیکن اس کی رائے اس لحاظ سے زیادہ قابلٍ التفات نہیں کہ وہ ایک مشہور کافی ہاؤس کا مالک نکلا۔
ایک صاح تو اپنی پسند کے جواز میں‌صرف یہ کہ کر چپ ہو گئے کہ
چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافی لگی ہوئی
میں‌نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے “دراصل یہ عادت کی بات ہے۔ یہ کم بخت کافی بھی روایتی چنے اور ڈومنی کی طرح‌ایک دفعہ منہ سے لگنے کے بعد چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ہے ناں؟“
اس مقام پر مجھے اپنی معذوری کا اعتراف کرنا پڑا کہ بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی۔ اس لئے ان دونوں‌خوب صورت بلاؤں سے محفوظ رہا۔
بعض احباب تو اس سوال سے چراغ پا یر کر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ میں‌ یہ نہیں‌ کہتا کہ وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ ایمان کی بات ہے کہ چھوٹے الزام کو سمجھ دار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس ضمن میں جو متضاد باتیں سننا پڑتی ہیں، ان کی دو مثالیں‌ پیش کرتا ہوں۔
ایک کرم فرما نے میری بیزاری کو محرومی پر محمول کرتے ہوئے فرمایا:
‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ہائے ‌کم‌بخت تو نے پی ہی نہیں
ان کی خدمت میں‌ حلفیہ عرض کیا کہ دراصل بیسیوں گیلن پینے کے بعد ہی یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ دوسرے صاحب نے ذرا کھل کر پوچھا کہ کافی سے چٍڑ کی اصل وجہ معدے کے وہ داغ (Ulcers) تو نہیں جن کو میں ‌دو سال سے لیے پھررہا ہوں اور جو کافی کی تیزابیت سے جل اٹھے ہیں۔
اور اس کے بعد وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظروں سے گھورنے لگے۔
استصوابٍ رائے عامہ کا حشر تو آپ دیکھ چکے۔ اب مجھے اپنے تاثرات پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔ میرا ایمان ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی شئے بےکار نہیں۔ انسان غوروفکر کی عادت ڈالے (یا محض عادت ہی ڈال لے) تو ہر بری چیز میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور نکل آتی ہے۔ مثال کے طور پر حقہ ہی کو لیجئے۔ معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں‌ تو یہ عرض‌ کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں‌ پھٹکتا۔ اب دیگر ملکی اشیائے خوردونوش پر نظر ڈالیے۔ مرچیں کھانے کا ایک آسانی سے سمجھ آجانے والا فائدہ یہ ہے کہ ان سے ہمارے مشرقی کھانوں کا اصل رنگ اور مزہ دب جاتا ہے۔ خمیرہ گاؤ زبان اس لیے کھاتے ہیں کہ بغیر راشن کارڈ کے شکر حاصل کرنے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ جوشاندہ اس لیے گوارا ہے کہ اس کے نہ صرف ایک ملکی صنعت کو فروغ ہوتا ہے بلکہ نفسٍ امارہ کو مارنے میں ‌بھی مدد ملتی ہے۔ شلغم اس لیے زہر مار کرتے ہیں کہ ان میں وٹامن ہوتا ہے۔ لیکن جدید طبی ریسرچ نے ثابت کردیا ہے کہ کافی میں سوائے کافی کے کچھ نہیں ہوتا۔ اہل ذوق کے نزدیک یہی اس کی خوبی ہے۔
معلوم نہیں کہ کافی کیوں، کب اور کس مردم آزار نے دریافت کی۔ لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہو‌ں کہ یونانیوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ اگر انھیں ذرا بھی علم ہوتا تو چرائتہ کی طرح یہ بھی یونانی طب کا جزوٍاعظم ہوتی۔ اس قیاس کو اس امر سے مزید تقویت پہنچتی ہے کہ قصبوں میں کافی کی بڑھتی ہوئی کھپت کی غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عطائیوں نے “اللہ شافی اللہ کافی“ کہ کر مؤخرالذکر کا سفوف اپنے نسخوں میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس قسم کی جڑی بوٹیوں کا استعمال عداوت اور عقدٍثانی کے لیے مخصوص تھا۔ چونکہ آج کل ان دونوں باتوں کو معیوب خیال کیا جاتا ہے، اس لیے صرف اظہارٍ خلوصٍ باہمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سنا ہے کہ چائے کے باغات بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ بات یوں بھی سچ معلوم ہوتی ہے کہ چائے اگر کھیتوں میں‌ پیدا ہوتی تو ایشیائی ممالک میں اتنی افراط سے نہیں ملتی بلکہ غلہ کی طرح غیر ممالک سے درآمد کی جاتی۔ میری معلوماتٍ عامہ محدود ہیں مگر قیاس یہی کہتا ہے کہ کافی بھی زمین ہی سے اگتی ہوگی۔ کیونکہ اس کا شمار ان نعمتوں میں نہیں جو اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں پر آسمان سے براہٍ راست نازل کرتا ہے۔ تاہم میری چشمٍ تخیل کو کسی طور یہ باور نہیں آتا کہ کافی باغوں کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ اور اگر کسی ملک کے باغوں‌ میں یہ چیز پیدا ہوتی ہے تو اللہ جانے وہاں کے جنگلوں میں‌کیا اُگتا ہوگا؟ ایسے اربابٍ ذوق کی کمی نہیں جنھیں کافی اس وجہ سے عزیز ہے کہ یہ ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتی۔ مجھ سے پوچھئے تو مجھے اپنا ملک اسی لیے اور بھی عزیز ہے کہ یہاں کافی پیدا نہیں ہوتی۔
میں مشروبات کا پارکھ نہیں ہوں۔ لہٰذا مشروب کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ ان اثرات سے لگاتا ہوں جو اسے پینے کے بعد رونما ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے کافی کو شراب سے بدرجہا بدتر پایا۔ میں نے دیکھا ہے کہ شراب پی کر سنجیدہ حضرات بے حد غیر سنجیدہ گفتگو کرنے لگتے ہیں جو بے حد جاندار ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کافی پی کر غیر سنجیدہ لوگ انتہائی سنجیدہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے سنجیدگی سے چڑ نہیں بلکہ عشق ہے۔ اسی لیے میں‌سنجیدہ آدمی کی مسخرگی برداشت کر لیتا ہوں، مگر مسخرے کی سنجیدگی کا روادارن ہیں۔ شراب کے نشے میں لوگ بلا وجہ جھوٹ نہیں بولتے۔ کافی پی کر لوگ بلا وجہ سچ نہیں بولتے۔ شراب پی کر آدمی اپنا غم اوروں کو دے دیتا ہے مگر کافی پینے والے اوروں کے فرضی غم اپنا لیتے ہیں۔ کافی پی کر حلیف بھی حریف بن جاتے ہیں۔
یہاں ‌مجھے کافی سے اپنی بیزاری کا اظہار مقصود ہے۔ لیکن اگر کسی صاحب کو یہ سطور شراب کا اشتہار معلوم ہوں تو اسے زبان و بیان کا عجز تصور فرمائیں۔ کافی کے طرفدار اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ بے نشے کی پیالی ہے۔ بالفرضٍ محال یہ گزارشٍ احوال واقعی یا دعویٰ ہے تو مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر اتنے کم داموں میں آخر وہ اور کیا چاہتے ہیں؟
کافی ہاؤس کی شام کا کیا کہنا! فضا میں ہر طرف ذہنی کہرا چھایا ہوا ہے۔ جس کو سرمایہ دار طبقہ اور طلبا سرخ سویرا سمجھ کر ڈرتے اور ڈراتے ہیں۔ شوروشغب کا یہ عالم کہ اپنی آواز تک نہیں سنائی دیتی اور بار بار دوسروں سے پوچھنا پڑتا ہے کہ میں نے کیا کہا۔ ہر میز پر تشنگانٍ علم کافی پی رہے ہیں۔ اور غروبٍ آفتاب سے غرارے تک، یا عوام اور آم کے خواص پر بقراطی لہجے میں بحث کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کافی اپنا رنگ لاتی ہے اور تمام بنی نوعٍ انسان کو ایک برادری سمجھنے والے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کی ولدیت کے بارے میں‌اپنے شکوک کا سلیس اردو میں اظہار کرنے لگتے ہیں، جس سے بیروں کو کلیتہً اتفاق ہوتا ہے۔ لوگ روٹھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں‌ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کافی پی پی کر سماج کو کوسنے والے ایک اٹلیکچوئل نے مجھے بتایا کہ کافی سے دل کا کنول کھل جاتا ہے اور آدمی چہکنے لگتا ہے۔ میں‌بھی اس رائے سے متفق ہوں۔ کوئی معقول آدمی یہ سیال پی کر اپنا منہ نہیں‌بند رکھ سکتا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی غلط نہیں‌معلوم ہوتا کہ کافی پینے سے بدن میں‌ چستی آتی ہے۔ جبھی تو لوگ دوڑ دوڑ کر کافی ہاؤس جاتے ہیں اور گھنٹوں وہیں‌ بیٹھے رہتے ہیں۔
بہت دیر تک وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کافی نہایت مفرح ہے اور دماغ کو روشن کرتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں‌نے یہ مثال دی کہ “ابھی کل ہی کا واقعہ ہے۔ میں دفترسے گھر بے حد نڈھال پہنچا۔ بیگم بڑی مزاج ہیں۔ فوراً کافی کا TEA POT لا کر سامنے رکھ دیا۔“
میں ذرا چکرایا “پھر کیا ہوا؟“ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
“میں‌ نے دودھ دان سے کریم نکالی“ انھوں‌ نے جواب دیا۔
میں نے پوچھا “شکر دان سے کیا نکلا؟“
فرمایا “شکر نکلی، اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے؟“
مجھے غصہ تو بہت آیا مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا۔
عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں۔ یہ اس لیے کہ رہا ہوں‌کہ دونوں‌کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوص نسخہ ہوتاہے جو سینہ بہ سینہ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے۔ مشرقی افریقہ کے اس انگریز افسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی کافی کی سارے ضلعے میں دھوم تھی۔ ایک دن اس نے ایک نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش ذائقہ کافی بنائی۔ انگریز نے بہ نظر حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں‌کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب دریافت پوچھی۔
حبشی نے جواب دیا “بہت ہی سہل طریقہ ہے۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں۔ پھر اس میں‌کافی ملا کر دم کرتا ہوں۔“
“لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو۔ بہت مہین چھنی ہوتی ہے۔“
“حضورکے موزے میں چھانتا ہوں۔“
“کیا مطلب؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو؟“ آقا نے غضب‌ ناک ہو کر پوچھا۔
خانساماں‌سہم گیا “نہیں سرکار! میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا۔“
سچ عرض کرتا ہوں‌کہ میں کافی کی تندی اور تلخی سے ذرا نہیں گھبراتا۔ بچپن ہی سے یونانی دواؤں کا عادی رہا ہوں اور قوتٍ برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کڑوی سے کڑوی
گولیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!
لیکن کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش سے جو معتدل قوام بنتا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے۔ میری انتہا پسند طبیعیت اس میٹھے زہر کی تاب نہیں لا سکتی۔ لیکن دقت یہ آن پڑتی ہے کہ میں میزبان کے اصرار کو عداوت اور وہ میرے انکار کو تکلف پر محمول کرتے ہیں۔
لہٰذا جب وہ میرے کپ میں شکر ڈالتے وقت اخلاقاً پوچھتے ہیں:
“ایک چمچہ(یہ ایک لفظ نہیں‌ پڑھا جارہا)؟
تو مجبوراً یہی گزارش کرتاہوں‌کہ میرے لیے شکر دان میں کافی کے دو چمچ ڈال دیجئے۔
صاف ہی کیوں‌ نہ کہ دوں کہ جہاں‌تک اشیائے خوردونوش کا تعلق ہے، میں‌تہذیب حواس کا قائل نہیں۔ میں‌یہ فوری فیصلہ ذہن کی بجائے زبان پر چھوڑنا پسند کرتا ہوں۔ پہلی نظر میں جو محبت ہو جاتی ہے، اس میں بالعموم نیت کا فتور کارفرما ہوتا ہے۔ لیکن کھانے پینے کے معاملے میں‌میرا یہ نظریہ ہے کہ پہلا ہی لقمہ یا گھونٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بدذائقہ کھانے کی عادت کو ذوق میں تبدیل کرنے کے لیے بڑا پٍتا مارنا پڑتا ہے۔ مگر میں اس سلسلہ میں برسوں‌تلخیٍ کام و دہن گوارا کرنے کا حامی نہیں، تاوقیکہ اس میں‌ بیوی کا اصرار یا گرہستی کی مجبوریاں شامل نہ ہوں۔ بنا بریں، میں‌ ہر کافی پینے والے کو جنتی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو لوگ عمر بھی ہنسی خوشی یہ عذاب جھیلتے رہے، ان پر دوزخ اور حمیم حرام ہیں۔
کافی امریکہ کا قومی مشروب ہے۔ میں اب بحث میں‌ نہیں الجھنا چاہتا کہ امریکی کلچر کافی کے زور سے پھیلا، یا کافی کلچر کے زور سے رائج ہوئی۔ یہ بعینہ ایسا سوال ہے جیسے کوئی بے ادب یہ پوچھ بیٹھے کہ “غبارٍ خاطر“ چائے کی وجہ سے مقبول ہوئی یا چائے “غبارٍ خاطر“ کے باعث؟ ایک صاحب نے مجھے لاجواب کرنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی امریکہ میں تو کافی اس قدر عام ہے کہ جیل میں‌بھی پلائی جاتی ہے۔ عرض کیا کہ جب خود قیدی اس پر احتجاج نہیں کرتے تو ہمیں‌کیا پڑی کہ وکالت کریں۔ پاکستانی جیلوں‌میں‌بھی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو انسدادٍ جرائم میں کافی مدد ملے گی۔ پھر انھوں‌ نے بتایا کہ وہاں لا علاج مریضوں کو بشاش رکھنے کی غرض سے کافی پلائی جاتی ہے۔ کافی کے سریع التاثیر ہونے میں کیا کلام ہے۔ میرا خیال ہے کہ دمٍ نزع حلق میں پانی چوانے کی بجائے کافی کے دو چار قطرے ٹپکا دیے جائیں تو مریض کا دم آسانی سے نکل جائے۔ بخدا، مجھے تو اس تجویز پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ گناہ گاروں کی فاتحہ کافی پر دلائی جائے۔
سنا ہے کہ بعض روادار افریقی قبائل کھانے کے معاملے میں جانور اور انسان کے گوشت کو مساوی درجہ دیتے تھے۔ لیکن جہاں‌تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، ہم نے ان کے بارے میں کوئی بری بات نہیں‌سنی۔ مگر ہم تو چینیوں کی رچی ہوئی، حسٍ شامہ کی داد دیتے ہیں کہ نہ منگول حکمرانوں کا جبروتشدد انہیں پنیر کھانے پر مجبور کر سکا کہ امریکہ انہیں کافی پینے پر آمادہ کر سکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان کی نفاست نے سخت قحط کے زمانے میں‌بھی فاقے اور اپنے فلسفےکو پنیر اور کافی پر ترجیح‌دی۔
ہمارا منشا امریکی یا چینی عادات پر نکتہ چینی نہیں۔ ہر آزاد قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے منہ اور معدے کے ساتھ جیساسلوک چاہے، بے روک ٹوک کرے۔ اس کے علاوہ جب دوسری قومیں ہماری رساول، نہاری اور فالودے کا مذاق نہیں اڑاتیں تو ہم دخل در ماکولات کرنے والے کون؟ بات دراصل یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں‌پیاس بجھانے کے لیے پانی کے علاوہ ہر رقیق شئے استعمال ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ جرمنی (جہاں‌ قومی مشروب بیئر ہے) ڈاکٹر بدرجہء مجبوری بہت ہی تندرست و توانا افراد کو خالص پانی پینے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن جن کو آب نوشی کا چسکا لگ جاتا ہے، وہ راتوں‌کو چھپ چھپ کر پانی پیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیرس کے کیفوں‌میں‌رنگین مزاج فن کار بورژوا طبقہ کو چڑانے کی غرض‌سے کھلم کھلا پانی پیا کرتے تھے۔
مشرقی اور مغربی مشروبات کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی اصول ذہن نشین کر لینا ازبس ضروری ہے کہ ہمارے یہاں‌پینے کی چیزوں میں کھانے کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اپنے قدیم مشروبات مثلاً یخنی، ستو اور فالودے پر نظر ڈالئے تو یہ فرق واضح‌ہو جاتا ہے۔ ستو اور فالودے کو خالصتاً لغوی معنوں ‌میں ‌آپ نہ کھا سکتے ہیں اور نہ پی سکتے ہیں۔ بلکہ اگر دنیا میں‌کوئی ایسی شئے ہے جسے آپ بامحاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان ناقابلٍ بیان سمجھوتہ ہے، لیکن آج کل ان مشروبات کا استعمال خاص خاص تقریبوں میں ‌ہی کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب ہم نے عداوت نکالنے کا ایک اور مہذب طریقہ اختیار کیا ہے۔
آپ کے ذہن میں‌خدانخواستہ یہ شبہ نہ پیدا ہو گیا ہو کہ راقم السطور کافی کے مقابلے میں‌ چائے کا طرف دار ہے تو مضمون ختم کرنے سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا از بس ضروری سمجھتا ہوں‌۔ میں‌کافی سے اس لیے بیزار نہیں ہوں‌کہ مجھے چائے عزیز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافی کا جلا چائے بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں‌کہ جنہیں‌چائے کے ارماں‌ہوں‌گے

Chaarpai aur culture by Mushtaq Ahmad Yusufi

Articles

چارپائی اورکلچر

مشتاق احمد یوسفی

ایک فرانسیسی مفکرّکہتاہےکہ موسیقی میں مجھےجوبات پسندہےوہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جواپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پرٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں ۔ یہ قول میں نےاپنی بریّت میں اس لیےنقل نہیں کیاکہ میں جوقوّالی سےبیزارہوں تواس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جومحفلِ سماع کورونق بخشتےہیں۔اورنہ میرایہ دعویٰ کہ میں نےپیانواورپلنگ کےدرمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کرلیاہے۔ حالانکہ میں جانتاہوں کہ پہلی باربان کی کھّری چارپائی کی چرچراہٹ اورادوان کاتناؤ دیکھ کربعض نوواردسیّاح اسےسارنگی کےقبیل کاایشیائی سازسمجھتےہیں۔ کہنایہ تھاکہ میرےنزدیک چارپائی کی دِلکشی کاسبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پراُٹھتےبیٹھتےاورلیٹتےہیں۔اس کےمطالعہ سےشخصی اورقومی مزاج کےپرکھنےمیں مددملتی ہے۔ اس لیےکہ کسی شخص کی شائستگی وشرافت کااندازہ آپ صر ف سےلگاسکتےہیں کہ وہ فرصت کےلمحات میں کیاکرتاہےاوررات کوکِس قِسم کےخواب دیکھتاہے۔
چارپائی ایک ایسی خودکفیل تہذیب کی آخری نشانی ہےجونئےتقاضوں اورضرورتوں سےعہدہ برا ہونےکےلیےنِت نئی چیزیں ایجادکرنےکی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسےنازک مواقع پرپُرانی میں نئی خوبیاں دریافت کرکےمسکرادیتی تھی۔ اس عہدکی رنگارنگ مجلسی زندگی کاتصّورچارپائی کےبغیر ممکن نہیں۔اس کاخیال آتےہی ذہن کےافق پرپہت سےسہانےمنظراُبھر آتے ہیں-اُجلی اُجلی ٹھنڈی چادریں،خس کےپنکھی، کچّی مٹّی کی سن سن کرتی کوری صُراحیاں، چھڑکاؤ سےبھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کےلدےپھندےدرخت جن میں آموں کےبجائےلڑکےلٹکےرہتےہیں-اوراُن کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پردِن بھرشطرنج کی بساط یارمی کی پھڑجمی اورجوشام کودسترخوان بچھاکرکھانےکی میزبنالی گئی۔ ذراغورسےدیکھئےتویہ وہی چارپائی ہےجس کی سیڑھی بناکرسُگھڑبیویاں مکڑی کےجالےاورچلنلےلڑکےچڑیوں کےگھونسلےاتارتےہیں۔ اسی چارپائی کووقتِ ضرورت پٹیوں سےبانس باندھ کراسٹیریچربنالیتےہیں اوربجوگ پڑجائےتوانھیں بانسوں سےایک دُوسرےکواسٹیریچرکےقابل بنایاجاسکتاہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ  سےلگ جائےتوتیماردارمؤخرالذِکرکےوسط میں بڑاساسوراخ کرکےاوّل الذِکرکی مشکل آسان کردیتےہیں۔ اورجب ساون میں اُودی اُودی گھٹائیں اُٹھتی ہیں توادوان کھول کرلڑکیاں دروازےکی چوکھٹ اوروالدین چارپائیوں میں جُھولتےہیں۔اسی پربیٹھ کرمولوی صاحب قمچی کےذریعہ اخلاقیات کےبنیادی اُصول ذہن نشین کراتےہیں۔ اسی پرنومولودبچّےغاؤں غاؤں کرتی، چُندھیائی ہُوئی آنکھیں کھول کراپنےوالدین کودیکھتےہیں اور روتے ہیں اوراسی پردیکھتےہی دیکھتےاپنےپیاروں کی آنکھیں بندہوجاتی ہیں۔
اگر یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ بعض حضرات اس مضمون کوچارپائی کاپرچہ ترکیب ِ استعمال سمجھ لیں گےتواس ضمن میں کچھ اورتفصیلات پیش کرتا۔ لیکن جیسا کہ پہلےاشارہ کرچکاہُوں، یہ مضمون اس تہذیبی علاقت کاقصیدہ نہیں، مرثیہ ہے۔ تاہم بہ نظرِاحتیاط اِتنی وضاحت ضروری ہےکہ:
ہم اس نعمت کےمُنکرہیں نہ عادی
نام کی مناسبت سےپائےاگرچارہوں تومناسب ہےورنہ اس سےکم ہوں، تب بھی خلقِ خداکےکام بندنہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کےحجم اورشکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنےرکھ کرآپ غبی سےغبی لڑکےکواقلیدس کی تمام شکلیں سمجھا سکتے ہیں۔ اوراس مہم کوسرکرنےکےبعدآپ کواحساس ہوگاکہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کاصرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصّوری میں بھی کوئی ذکرنہیں۔ دیہات میں ایسےپائےبہت عام ہیں جو آدھے پٹُیوں سےنیچےاورآدھےاُوپرنِکلےہوتےہیں۔ ایسی چارپائی کااُلٹاسیدھادریافت کرنےکی آسان ترکیب یہ ہےکہ جس طرف بان صاف ہووہ ہمیشہ ”اُلٹا“ ہوگا۔راقم الحروف نےایسےان گھڑپائےدیکھےہین جن کی ساخت میں بڑھئی نےمحض یہ اصول مدنظررکھاہوگاکہ بسولہ چلائےبغیرپیڑکواپنی قدرتی حالت میں جوں کاتوں پٹیوں سےوصل کردیاجائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سےخرادکےبنےایسےسڈول پائےبھی گزرےہیں جنھیں چوڑی دارپاجامہ پہنانےکوجی چاہتاہی۔اس قسم کےپایوں سےنٹومرحوم کوجووالہانہ عشق رہاہوگااس کااظہارانھوں نےاپنےایک دوست سےایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کراپنےمخصوص اندازمیں کیا۔کہنےلگے:
”اگرمجھےایسی چارٹانگیں مل جائیں توانھیں کٹواکراپنےپلنگ کےپائےبنوالوں۔“
غورکیجئےتومباحثےاورمناظرےکےلیےچارپائی سےبہترکوئی جگہ نہیں۔ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہےکہ فریقین آمنےسامنےنہیں بلکہ عموماً اپنے حریف کی پیٹھ کا سہارا لےکرآرام سےبیٹھتےہیں۔ اوربحث وتکرارکےلیےاس سےبہترطرزِنشست ممکن نہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہےکہ فریقین کوایک دوسرےکی صورت نظرنہ آئے توکبھی آپےسےباہرنہیں ہوتے۔ اسی بناپرمیراعرصےسےیہ خیال ہےکہ اگربین الاقوامی مذکرات گول میز پرنہ ہوئےہوتےتولاکھوں جانیں تلف ہونےسےبچ جاتیں۔ آپ نےخودیکھاہوگاکہ لدی پھندی چارپائیوں پرلوگ پیٹ بھرکےاپنوں کےغیبت کرتےہیں مگردل برےنہیں ہوتے۔ اس لیےکہ سبھی جانتےہیں کہ غیبت اسی کی ہوتی ہےجسےاپناسمجھتےہیں۔ اورکچھ یوں بھی ہےکہ ہمارےہاں غیبت سےمقصودقطع محبت ہےنہ گزارش احوال واقعہ بلکہ محفل میں
لہوگرم رکھنےکاہےاِک بہانہ
لوگ گھنٹوں چارپائی پرکسمساتےرہتےہیں مگرکوئی اٹھنےکانام نہیں لیتا۔ اس لیےکہ ہرشخص اپنی جگہ بخوبی جانتاہےکہ اگروہ چلاگیاتوفوراًاس کی غیبت شروع ہوجائےگی۔ چنانچہ پچھلےپہرتک مردایک دوسرےکی گردن میں ہاتھ ڈالےبحث کرتےہیں اورعورتیں گال سےگال بھڑائےکچرکچرلڑتی رہتی ہیں۔فرق اتناہےکہ مردپہلےبحث کرتےہیں ، پھرلڑتےہیں۔ عورتیں پہلےلڑتی ہیں اوربعدمیں بحث کرتی ہیں ۔ مجھےثانی الذکرطریقہ زیادہ معقول نظرآتاہے، اس لیےکہ اس میں آئندہ سمجھوتےاورمیل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
رہایہ سوال کہ ایک چارپائی پربیک وقت کتنےآدمی بیٹھ سکتے ہیں توگزارش ہےکہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نےکسی کوکھڑانہیں دیکھا۔ لیکن اس نوع کےنظریاتی مسائل میں اعدادوشمارپربےجازوردینےسےبعض اوقات عجیب وغریب نتائج برآمدہوئےہیں۔آپ نےضرورسناہوگاکہ جس وقت مسلمانوں نےاندلس فتح کیاتووہاں کےبڑےگرجامیں چوٹی کےمسیحی علماوفقہااس مسئلہ پرکمال سنجیدگی سےبحث کررہےتھےکہ سوئی کی نوک پرکتنےفرشتےبیٹھ سکتےہیں۔
ہم تواتناجانتےہیں کہ تنگ سےتنگ چارپائی پربھی لوگ ایک دوسرےکی طرف پاؤں کیےاًاٍکی شکل میں سوتےرہتےہیں ۔چنچل ناری کاچیتےجیسااجیت بدن ہویاکسی عمررسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر- یہ اپنےآپ کو ہرقالب کےمطابق ڈھال لیتی ہے۔ اورنہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہےبلکہ اتنی لچک بھی ہےکہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اورلیٹ جائیں۔ بڑی بات یہ ہےکہ بیٹھنےاورلیٹنےکی درمیانی صورتیں ہمارےہاں صدیوں سےرائج ہیں ان کےلیےیہ خاص طورپرموزوں ہے۔یورپین فرنیچرسےمجھےکوئی چڑنہیں،لیکن اس کوکیاکیجئےکہ ایشیائی مزاج نیم درازی کےجن زاویوں اورآسائشوں کاعادی ہوچکا ہے، وہ اس میں میسرنہیں آتیں۔مثال کےطورپرصوفےپرہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔کوچ پردسترخوان نہیں بچھاسکتے۔اسٹول پرقیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر،بقول اخلاق  احمد، اردو نہیں بیٹھ سکتے۔
ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔چائےاور چارپائی! اوران میں یہ خاصیت  مشترک ہےکہ دونوں سردیوں میں گرمی اورگرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ اگرگرمی میں لوگ کھری چارپائی پرسواررہتےہیں توبرسات میں یہ لوگوں پرسواررہتی ہےاورکھلےمیں سونےکےرسیااسےاندھیری راتوں میں برآمدےسےصحن اورصحن سےبرآمدےمیں سرپراٹھائےپھرتےہیں۔ پھرمہاوٹ میں سردی اوربان سےبچاؤکےلیےلحاف اورتوشک نکالتےہیں۔ مثل مشہور ہے کہ سردی رُوئی سےجاتی ہےیادُوئی سی۔لیکن اگریہ اسباب ناپیدہوں اورسردی زیادہ اورلحاف پتلاہوتوغریب غربامحض منٹوکےافسانےپڑھ کرسورہتےہیں۔
عربی میں اونٹ کےاتنےنام ہیں کہ دوراندیش مولوی اپنےہونہارشاگردوں کوپاس ہونےکایہ گُربتاتےہیں کہ اگرکسی مشکل یاکڈھب لفظ کےمعنی معلوم نہ ہوں توسمجھ لوکہ اس سےاُونٹ مرادہے۔ اسی طرح اُردومیں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اورکسی ترقی یافتہ زبان میں شایدہی مل سکیں:-
کھاٹ، کھٹا، کھٹیا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹولی، کھٹ ،چھپرکھٹ، کھرّا، کھری، جِھلگا،  پلنگ ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔
یہ نامکمل سی فہرست صرف اردوکی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پردال ہےاورہمارےتمّدن میں اس کامقام ومرتبہ متّعین کرتی ہے۔
لیکن چارپائی کی سب سےخطرناک قسم وہ ہےجس کےبچےکھچےاورٹوٹےادھڑےبانوں میں اللہ کےبرگزیدہ بندےمحض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔ اس قسم کےجھلنگےکوبچےبطورجھولااوربڑےبوڑھےآلہ تزکیہ نفس کی طرح استعمال کرتےہیں۔ اونچےگھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کوغریب رشتےداروں کی طرح کونوں کھدروں میں آڑےوقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔خودمجھےمرزاعبدالودودبیگ کےہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پرگزارنےکااتفاق ہواجس پرلیٹتےہی اچھابھلاآدمی نون غنہ (ں)بن جاتاہے۔
اس میں داخل ہوکرمیں ابھی اپنےاعمال کاجائزہ ہی لےرہاتھاکہ یکایک اندھیراہوگیا،جس کیوجہ غالباًیہ ہوگی ایک دوسراملازم اوپرایک دری اوربچھاگیا۔اس خوف سےکہ دوسری منزل پرکوئی اورسواری نہ آجائے،میں نےسرسےدری پھینک کراُٹھنےکی کوشش کی توگھٹنےبڑھ کےپیشانی کی بلائیں لینےلگی۔کھڑبڑسن کرمرزاخودآئےاورچیخ کرپوچھنےلگےبھائی آپ ہیں کہاں؟میں نےمختصراًاپنےمحل وقوع سےآگاہ کیاتوانھوں نےہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچا۔ انھیں کافی زورلگاناپڑااس اس لیےکہ میراسراورپاؤں بانوں میں بری طرح الجھےہوئےتھےاوربان سرسےزیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔بمشکل تمام انھوں نے مجھے کھڑاکیا۔
اورمیرےساتھ ہی،مجھ سےکچھ پہلی،چارپائی بھی کھڑی ہوگئی!
کہنےلگی” کیابات ہے؟ آپ کچھ بےقرارسےہیں۔ معدے کا فعل درست نہیں معلوم ہوتا۔“
میرےجواب کاانتظارکیےبغیروہ دوڑکراپناتیارکردہ چُورن لےآئےاوراپنےاوراپنےہاتھ سےمیرےمنہ میں ڈالا۔پھنکی منہ میں بھرکرشکریہ کےدوچارلفظ ہی کہنے پایا ہوں گاکہ معاًنظران کےمظلوم منہ پرپڑگئی جوحیرت سےکھلاہواتھا۔میں بہت نادم ہوا۔لیکن قبل اس کےکہ کچھ اورکہوں انھوں نےاپناہاتھ میرےمنہ پررکھ دیا۔پھرمجھےآرام کرنےکی تلقین کرکےمنہ دھونےچلےگئے۔
میں یہ چارپائی اوڑھےلیٹاتھاکہ ان کی منجھلی بچی آنکلی ۔تتلاکرپوچھنےلگی:
”چچاجان!اکڑوں کیوں بیٹھےہیں؟“
بعدازاں سب بچےمل کراندھابھینساکھیلنےلگے۔بالاخران کی امی کومداخلت کرناپڑی۔
”کم بختو!اب توچپ ہوجاؤ!کیاگھرکوبھی اسکول سمجھ رکھاہے؟“
چندمنٹ بعدکسی شیرخوارکےدہاڑنےکی آوازآئی مگرجلدہی یہ چیخیں مرزاکی لوریوں میں دب گئیں جن میں ڈانٹ ڈانٹ کرنیندکوآنےکی دعوت دے رہے تھے۔چندلمحوں بعدمرزااپنےنقش فریادی کوسینہ سےچمٹائےمیرےپاس آئےاورانتہائی لجاجت آمیزلہجےمیں بولے:
”معاف کیجئے! آپ کوتکلیف توہوگی۔مگرمنّومیاں آپ کی چارپائی کےلیےضدکررہےہیں۔انھیں دوسری چارپائی پرنیندنہیں آتی۔آپ میری چارپائی پر سو جائیے،میں اپنی فولڈنگ چارپائی پرپڑرہوں گا۔“
میں نےبخوشی منومیاں کاحق منومیاں کوسونپ دیااورجب اس میں جھولتےجھولتےان کی آنکھ لگ گئی توان کےوالدبزرگوارکوزبان تالوسےلگی۔
اب سنئےمجھ پرکیاگزری۔مرزاخودتوفولڈنگ چارپائی پرچلےگئےمگرجس چارپائی پرمجھ خاص منتقل کیاگیا۔اس کانقشہ یہ تھاکہ مجھےاپنےہاتھ اورٹانگیں احتیاط سےتہ کرکےبالترتیب سینہ اورپیٹ پررکھنی پڑیں۔اس شب تنہائی میں کچھ دیرپہلےنیندسےیوں دوچشمی ھ بنا، یونانی پروقراط کےبارےمیں سوچتا رہا۔اس کےپاس دوچارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اوردوسری چھوٹی۔ٹھنگنےمہمان کووہ لمبی چارپائی پرسلاتااورکھینچ تان کراس کاجسم چارپائی کے برابر کردیتا۔اس کےبرعکس لمبے آدمی کووہ چھوٹی چارپائی دیتااورجسم کےزائدحصوں کوکانٹ چھانٹ کرابدی نیندسلادیتا۔
اس کےحدوداربعہ کےمتعلق اتناعرض کردیناکافی ہوگاکہ انگڑائی لینےکےلیےمجھےتین چارمرتبہ نیچےکودناپڑا۔کودنےکی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس کی اونچائی”درمیانہ“تھی۔ یہاں درمیانہ سےہماری مرادوہ پست بلندی یاموزوں سطح مرتفع ہی، جس کو دیکھ کریہ خیال پیداہوکہ:
نہ توزمیں کےلیےہےنہ آسماں کےلیے
گوکہ ظاہربین نگاہ کویہ متوازی الاضلاغ نظرآتی تھی مگرمرزانےمجھےپہلےہی آگاہ کردیاتھاکہ بارش سےپیشتریہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جوکان آگئی تھی،اس سےمجھےکوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔اس لیےکہ مرزانےازراہ تکلف ایک پائےکےنیچےڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتارکھ کرسطح درست کردی تھی۔ میراخیال ہےکہ تہذیب کےجس نازک دورمیں غیورمردچارپائی پردم توڑنےکی بجائےجنگ میں دشمن کےہاتھوں بےگوروکفن مرناپسندکرتےتھے، اسی قسم کی مردم آزارچارپائیوں کارواج ہوگا۔لیکن اب جب دشمن سیانےاورچارپائیاں زیادہ آرام دہ ہوگئے ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اورباعزت طریقےدریافت ہوگئےہیں۔
ایک محتاط اندازےکےمطابق ہمارےہاں ایک اوسط درجہ کےآدمی کی دوتہائی زندگی چارپائی پرگزرتی ہے۔اوربقیہ اس کی آرزومیں!بالخصوص عورتوں کی زندگی اسی محورکےگردگھومتی ہےجوبساطِ محفل بھی ہےاورمونسِ تنہائی بھی۔اس کےسہارےوہ تمام مصائب انگیزکرلیتی ہیں۔خیرمصائب تومردبھی جیسےتیسےبرداشت کرلیتے ہیں مگرعورتیں اس لحاظ سےقابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کےعلاوہ مردوں کوبھی برداشت کرناپڑتاہی۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ مئی جون کی جھلسادینےوالی دوپہرمیں کنواریاں بالیاں چارپائی کےنیچےہنڈیاکلہیاپکاتی ہیں اوراوپربڑی بوڑھیاں بیتےہوئےدونوں کو یاد کر کے ایک دوسرےکالہوگرماتی رہتی ہیں(قاعدہ ہےکہ جیسےجیسےحافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اوربھی سہانامعلوم ہوتاہے!)اسی پربوڑھی ساس تسبیح کےدانوں پرصبح وشام اپنےپوتوں اورنواسوں کوگنتی رہتی ہےاورگڑگڑاگڑگڑاکردعامانگتی ہےکہ خدااس کاسایہ بہوکےسرپررہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیرسےبہری بھی ہے۔ اس لیےبہواگرسانس لینےکےلیےبھی منہ کھولےتوگمان ہوتاہےکہ مجھےکوس رہی ہوگی۔قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کاتکیہ بنائےاٹواٹی کھٹواٹی لےکرپڑتی تھی اورآج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سےہاتھ نکال کرپانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اورگشتی نجومیوں کوہاتھ دکھاکراپنےبچوں اورسوکنوں کی تعدادپوچھتی ہیں۔لیکن جن بھاگوانوں کی گودبھری ہو،ان کے بھرے پرےگھرمیں آپ کوچارپائی پرپوتڑےاورسویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظرآئیں گی۔ گھٹنیوں چلتےبچےاسی کی پٹی پکڑکرمیوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اوررات برات پائینتی سےمدمچوں کاکام لیتےہیں۔لیکن جب ذراسمجھ آجاتی ہےتواسی چارپائی پرصاف ستھرےتکیوں سےلڑتےہیں۔نامورپہلوانوں کےبچپن کی چھان بین کی جائےتوپتہ چلےگاکہ انھوں نےقینچی اوردھوبی پاٹ جیسےخطرناک داؤاسی محفوظ اکھاڑےمیں سیکھے۔
جس زمانےمیں وزن کرنےکی مشین ایجادنہیں ہوئی تھی توشائستہ عورتیں چوڑیوں کےتنگ ہونےاورمردچارپائی کےبان کےدباؤسےدوسرےکےوزن کاتخمینہ کرتےتھے۔اس زمانےمیں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیاراعمال بھی تھی۔نتیجہ یہ کہ جنازےکوکندھادینےوالےچارپائی کےوزن کی بناپرمرحوم کےجنتی یااس کےبرعکس ہونےکااعلان کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارےہاں دبلےآدمی کی دنیااورموٹےکی عقبےعام طورخراب ہوتی ہے۔
برصغیرمیں چندعلاقےایسےبھی ہیں جہاں اگرچارپائی کوآسمان کی طرف پائینتی کرکےکھڑاکردیاجائےتوہمسائےتعزیت کوآنےلگتےہیں۔سوگ کی یہ علامت بہت پرانی ہےگوکہ دیگرعلاقوں میں یہ عمودی(١)نہیں،افقی(-)ہوتی ہے۔اب بھی گنجان محلوںمیں عورتوں اسی عام فہم استعارے کا سہارا لے کر کوستی سنائی دیں گی۔”الٰہی!تن تن کوڑھ ٹپکے۔ مچمچاتی ہوئی کھاٹ نکلے!“ دوسرابھرپورجملہ بددعاہی نہیں بلکہ وقت ضرورت نہایت جامع ومانع سوانح عمری کاکام بھی دےسکتاہےکیونکہ اس میں مرحومہ کی عمر،نامرادی،وزن اورڈیل ڈول کےمتعلق نہایت بلیغ اشارےملتےہیں۔نیزاس بات کی سندملتی ہےکہ راہی ملک عدم نےوہی کم خرچ بالانشین وسیلہ نقل وحمل اختیارکیاجس کی جانب میراشارہ کرچکےہیں:
تیری گلی سدااےکشندہ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں
قدرت نےاپنی رحمت سےصفائی کاکچھ ایساانتظام رکھاہےکہ ہرایک چارپائی کوسال میں کم ازکم دومرتبہ کھولتےپانی سےدھارنےکی ضرورت پیش آتی ہی۔جونفاست پسندحضرات جان لینےکایہ طریقہ جائزنہیں سمجھتےوہ چارپائی کوالٹاکرکےچلچلاتی دھوپ میں ڈال دیتےہیں۔پھردن بھرگھروالےکھٹمل اورمحلےوالےعبرت پکڑتےہیں۔اہل نظرچارپائی کوچولوں میں رہنےوالی مخلوق کی جسامت اوررنگت پرہی سونےوالوں کی صحت اورحسب نسب کاقیاس کرتےہیں(واضح رہےکہ یورپ میں گھوڑوں اورکتوں کےسوا،کوئی کسی کاحسب نسب نہیں پوچھتا) الٹی چارپائی کوقرنطینہ کی علامت جان کر راہ گیرراستہ بدل دیں دیں توتعجب نہیں۔حدیہ کہ فقیربھی ایسےگھروں کےسامنےصدالگانابندکردیتےہیں۔
چارپائی سےپراسرارآوازیں نکلتی ہیں،ان کامرکزدریافت کرنااتناہی دشوارہےجتناکہ برسات کی اندھیری رات میں کھوج لگاناکہ مینڈک کےٹرانےکی آواز کدھر سےآئی یاکہ یہ تشخیص کرناکہ آدھی رات کوبلبلاتےہوئےشیرخواربچےکےدردکہاں اٹھ رہاہے۔چرچراتی ہوئی چارپائی کومیں نہ گل نغمہ سمجھتاہوں،نہ پردہ ساز،اورنہ اپنی شکست کی آواز! درحقیقت یہ آوازچارپائی کااعلان صحت ہےکیونکہ اس کےٹوٹتےہی یہ بندہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک خودکارالام کی حیثیت سےیہ شب بیداری اورسحرخیزی میں مدددیتی ہے۔ بعض چارپائیاں اس قدرچغل خورہوتی ہیں کہ ذراکروٹ بدلیں تودوسری چارپائی والاکلمہ پڑھتاہواہربڑاکراٹھ بیٹھتا ہے۔اگرپاؤں بھی سکیڑیں توکتےاتنےزورسےبھونکتےہیں کہ چوکیدارتک جاگ اٹھتےہیں۔ اس یہ فائدہ ضرورہوتاہےکہ لوگ رات بھر نہ صرف ایکدوسرےکی جان ومال بلکہ چال چلن کی بھی چوکیداری کرتےرہتےہیں۔ اگرایسانہیں ہےتو پھرآپ ہی بتائیےکہ رات کوآنکھ کھلتےہی نظرسب سے پہلے پاس والی چارپائی پر کیوں جاتی ہے

———————————

San by Mustaq Ahmad Yusufi

Articles

سن

مشتاق احمد یوسفی

 

اوروں کا حال معلوم نہیں، لیکن اپنا تو یہ نقشہ رہا کہ کھیلنےکھانےکےدن پانی پت کی لڑائیوں کے سن یاد کرنے، اور جوانی دیوانی نیپولین کی جنگوں کی تاریخیں رٹنے میں کٹی۔ اس کا قلق تمام عمر رہے گا کہ جو راتیں سکھوں کی لڑائیوں کے سن حفظ کرنے میں گزریں،وہ ان کےلطیفوں کی نذر ہو جاتیں تو زندگی سنور جاتی۔ محمود غزنوی لائق صد احترام سہی، لیکن ایک زمانے میں ہمیں اس سے بھی یہ شکایت رہی کہ سترہ حملوں کی بجائےاگر وہ جی کڑا کر کے ایک ہی بھرپور حملہ کر دیتا تو آنے والی نسلوں کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیےکہ وہ پیدا ہی نہ ہوتیں (ہمارا اشارہ مشکلات کی طرف ہے)۔
اولاد آدم کے سر پر جوگزری ہے، اس کی ذمہ داری مشاہیر عالم پرعائدہوتی ہے۔ یہ نری تہمت طرازی نہیں بلکہ فلسفہ تاریخ ہے، جس سےاس وقت ہمیں کوئی سروکارنہیں۔ہم تواتناجانتےہیں کہ بنی نوع آدم کوتواریخ نےاتنانقصان نہیں پہنچایاجتنامورخین نے۔ انھوں نےاس کی سادہ اورمختصرسی داستان کو یادگار تاریخوں کاایک ایساکیلنڈربنادیاجس کےسبھی ہندسےسرخ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ طلبابوجوہ معقول ان کےحق میں دعائےمغفرت نہیں کر سکتے اور اب ذہن بھی ان تعینات زمانی کااس حد تک خوگرہوچکاہےکہ ہم وجودانسانی کاتصوربلاقیدسن دسمبت کرہی نہیں سکتے:
“جوسن نہ ہوتےتوہم نہ ہوتے، جو ہم نہ ہوتےتوغم نہ ہوتا“ معلوم ایسا ہوتاہےکہ مورخین سن کوایک طلسمی طوطاسمجھتےہیںجس میں وقت کےظالم دیو کی روح مقید ہے۔ کچھ اسی قسم کے عقیدے پر میل بورن کےخضرصورت آرچ بشوپ مانکس نےتین سال پہلےطنزکیاتھاکہ جب ان کی ٣٩ویں سالگرہ پر ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنی نوٹ بک نکالتے ہوئے بڑے گمبھیر لہجے میں دریافت کیا:
”آپ کےنزدیک ٣٩کی عمرتک پہنچنےکی اصل وجہ کیاہے؟“
”برخودار! اس کی اصل وجہ یہ ہےکہ میں1845 میں میٹرک کےامتحان سےکچھ دن قبل مرزاعبدالودودبیگ نےاس رازکوفاش کیا(ہرچندکہ طلبااس کھولانہیں کرتے)کہ شقی القلب ممتحن بھی سن ہی سےقابومیں آتے ہیں۔ چنانچہ زیرک طالب علم ہر جواب کی ابتداکسی نہ کسی سن سےکرتےہیں۔خواہ سوال سے اس کادورکاتعلق بھی نہ ہو۔ذاتی مشاہدےکی بناپرعرض کرتاہوں کہ ایسےایسےغبی لڑکےجونادرشاہ درانی اوراحمدشاہ ابدالی میں کبھی تمیزنہ کرسکے، آج تک چنگیزخاں کومسلمان سمجھتےہیں، محض اس وجہ سےفرسٹ کلاس آئےکہ انھیں قتل عام کی صحیح تاریخ اورپانی پت کی حافظہ شکن جنگوں کےسن ازبر تھی۔ خود مرزا، جو میٹرک میں بس اس وجہ سےاول آگئےکہ انھیں مرہٹوں کی تمام لڑائیوں کی تاریخیں یادتھیں، پرسوں تک اہلیہ بائی کوشیواجی کی رانی سمجھےبیٹھےتھے۔ میں نےٹوکاتوچمک کربولے:
”یعنی کمال کرتےہیں آپ بھی!اگرشیواجی نےشادی نہیں کی تونانافرنویس کس کالڑکاتھا؟“
ترقی یافتہ ممالک میں مارچ کامہینہ بےحدبہارآفرین ہوتا ہے۔ یہ وہ رت ہےجس میں سبزہ اوس کھاکھاکرہراہوتاہےاورایک طرف دامن صحراموتیوں سےبھر جاتاہےتودوسری طرف

موجہ گل سےچراغاں ہےگزرگاہ خیال

اس تمہیددل پذیرسےمیرایہ مطلب نہیں کہ اس کےبرعکس پس ماندہ ممالک میں اس مست مہینےمیں پت جھڑہوتاہےاور

بجائےگل چمنوں میں کمرکمرہےکھاد

توجہ صرف اس امرکی جانب دلاناچاہتاہوں کہ برصغیرمیں یہ فصل گل آبادی کےسب سےمتصوم اوربےگناہ طبقےکےلیےہرسال ایک نئےذہنی کرب کاپیغام لاتی ہے، جس میں چارسال سےلےکرچوبیس سال کی عمرتک کےسبھی مبتلانظرآتےہیں۔ہمارےہاں یہ سالانہ امتحانوں کاموسم ہوتاہے۔ خداجانےمحکمہ تعلیم نےاس زمانےمیں امتحانات رکھنےمیں کونسی ایسی مصلحت دیکھی،ورنہ عاجزکی رائےمیں اس ذہنی عذاب کےلیےجنوری اورجون کےمہینےنہایت مناسب رہیں گے۔ یہ اس لیےعرض کررہاہوں کہ کلاسیکی ٹریجڈی کےلیےخراب موسم انتہائی ضروری تصورکیاگیاہے۔
بات سےبات نکل آئی،ورنہ کہنایہ چاہتاتھاکہ اب جوپیچھےمڑکےدیکھتاہوںتویک گونہ افسوس ہوتاہےکہ عمرعزیزکی پندرہ سولہ بہاریں اورمیوہ ہائےباغ جوانی اسی سالانہ جانکنی کی نذرہوگئی۔ یادش بخیر!وہ سلوناموسم جس کواگلےوقتوں کی زبان میں ’جوانی کی راتیں،مرادوں کےدن،کہتےہیں،شاہ جہان کےچاروں بیٹوں کی لڑائیاں اورفرانس کےتلےاوپراٹھارہ لوئیوں کےسن ولادت ووفات یادکرنےمیں بسر ہوااورتنہافرانس کاسفرکیامذکور۔برطانیہ کی تاریخ میں بھی چھ عددجارج اور آٹھ آٹھ ایڈورڈاورہنری گزرےہیں،جن کی پیدائش اورتخت نشینی کی تاریخیں یادکرتےکرتےزبان پرکانٹےاورحافظےمیںنیل پڑگئے تھے۔ ان میں ہنری ہشتم سب سےکٹھن اورکٹھورنکلا۔اس لیےکہ اس کی اپنی تخت نشینی کےعلاوہ ان خواتین کی تاریخ وفات بھی یادکرناپڑی جن کو اس نےاپنےاوپرحلال کررکھاتھااورجنھیں باری باری تختہ نصیب ہوا۔
قیاس کہتاہےکہ تاریخی نام رکھنےاورتاریخ وفات کہنےکارواج اسی مشکل کوحل کرنےکی غرض سےپھیلاہوگا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی مدد سے حافظے کوایسی تاریخیں یادرکھنےمیں آسانی ہوتی ہے، جن کابھول جاناہی بہترہوتا۔بعض شعراءبہ نظراحتیاط ہرسال اپنا قطعہ تاریخ وفات کہہ کررکھ لیتے ہیں تاکہ مرنےکی سندرہےاوروقت ضرورت پس ماندگان کےکام آئے۔کون واقف نہیں کہ مرزاغالب نےجو مرنےکی آرزومیں مرتےتھے، متعددباراپنی تاریخ رحلت کہہ کرشاگردوں اوقرض خواہوں کوخوامخواہ ہراساں کیاہوگا۔لیکن جب قدرت نےان کومرنےکاایک سنہری موقع فراہم کیاتو یہ کہہ کرصاف ٹال گئےکہ وبائےعام میں مرناہماری کسرشان ہے۔
مارچ 1942 کاذکرہے۔ بی ،اےکےامتحان میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔ میں روہیلوں کی لڑائیوں سےفارغ ہوکرمرزاعبدالودودبیگ کےپاس پہنچاتودیکھاکہ وہ جھوم جھوم کرکچھ رٹ رہےہیں۔پوچھا”خیام پڑھ رہےہو؟“
کہنےلگی”نہیں تو!ہسٹری ہے۔“
”مگرآثارتوہسٹیریاکےہیں!“
اپنی اپنی جگہ دونوں سچےتھے۔ انھوں نےغلط نہیں کہا،اگرچہ میرا خیال بھی صحیح نکلاکہ وہ شعرسےشغل فرمارہےہیں۔البتہ شعرپڑھتےوقت چہرے پر مرگی کی سی کیفیت میں نےقوالوں کےسواکسی اورکےچہرےپراس سےپہلےنہیں دیکھے تھے۔ پھرخودہی کہنےلگے ”چلوہسٹری کی طرف تواب بےفکری ہوگئی۔قبلہ ناناجان نےپچاس مشاہیرکی تاریخ ولادت ووفات کےقطعےکہہ کرمیرےحوالےکردئےہیں۔جن میں سے آدھےحفظ کرچکاہوں۔“اس کےبعد انھوں نےتیمورلنگ کی پیدائش اوررنجیت سنگھ کی رحلت کےقطعات بطورنمونہ گاکرسنائے۔
گھرپہنچ کرتخمینہ لگایاتواس نتیجہ پرپہنچاکہ فی کس دوقطعات کےحساب سےاس شاہنامہ ہندکےچارسومصرعےہوئےاوراس میں وہ ذیلی قطعات شامل نہیں جن کاتعلق دیگرواقعات وموضوعات(مثلاًجاناپرتھوی راج کاسوئمبرمیں بھیس بدل کراورلےبھاگناسنجوگتاکوگھوڑےپر۔آنا نادر شاہ کاہندوستان میں واسطےلینےکوہ نورہیرابرابرانڈےمرغابی کے۔ داخل ہوناواجدعلی شاہ کاپہلےپہل مٹیابرج میں معہ چھ بیگمات کےاوریادکرنابقیہ بیگمات کو)یاتاریخی چھٹ بھیوں(ثانوی ہیرو)مثلاً راناسانگا،ہیموں بقال،نظام سقہ وغیرہ سےتھا۔ایک قطعہ میں توضلع جگت پراترآئےتھے۔ یہ اس نیم تاریخی حادثےسےمتعلق تھا،جب نورجہاں کےہاتھ سےکبوتر اڑگیااورجہانگیرنےاس کو(یعنی نورجہان کو)پہلی بار”خصم گیں“ نگاہوں سےدیکھا۔
حالانکہ دماغی طورپرمیں پانی پت کی لڑائیوں میں بری طرح زخمی ہوچکاتھا،لیکن آخری قطعہ کوسن کر میں نےاسی وقت دل میں فیصلہ کرلیا کہ امتحان میں باعزت طریقےسےفیل ہونااس اوچھےہتھیار سےہزار درجہ بہترہوگا۔بہرحال مرزانےایک ہفتےبعداس کلیدکامیابی کوامتحان میں بےدریغ استعمال کیا،جس میں انھیں دودشواریوں کاسامناکرناپڑا۔بڑی دشواری تویہ کاپی میں قطعات اورحروف ابجدکاحساب دیکھ کرکمرہ امتحان کانگراں،جوایک مدراسی کرسچین تھا،بارباران کےپاس لپک کرآتااورسمجھاتا کہ اردوکاپرچہ کل ہے۔مرزاجھنجھلاکرجواب دیتےکہ یہ ہمیں بھی معلوم ہےتووہ نرمی سے پوچھتا کہ پھریہ تعویزکیوں لکھ رہےہو؟پایان کارمرزانےوہیں کھڑے کھڑے اس کوفن تاریخ گوئی اوراستخراج سنین کےرموزونکات سےغلط انگریزی میں آگاہ کیا۔حیرت سےاس کا منہ ٧ کےہندسہ کی ماندپھٹاکاپھٹارہ گیا۔حروف واعدادکوبہکی بہکی نظروں سےدیکھ کرکہنےلگا:
”تعجب ہےکہ تم لوگ ماضی کےواقعات کاپتہ بھی علم نجوم سےلگالیتےہو!“
اس مجسم دشواری کےعلاوہ دوسری دقت یہ ہوئی کہ ابھی پانچوں سوالات کےجملہ بادشاہوں ،راجاؤں اورمتعلقہ جنگو ں کےعدداورسن بہ سہولت تمام نکلےبھی نہ تھےکہ وقت ختم ہوگیااورنگراں نےکاپی چھین لی۔بڑی منت وسماجت کےبعدمرزاکوکاپی پراپنارول نمبرلکھنےکی اجازت ملی۔
جیساکہ عرض کرچکاہوں،مجھےسن یادنہیں رہتااورمرزاکووہ واقعہ یادنہیں رہتاجواس سن سےمتعلق ہو۔فرض کیجئے۔ مجھےکچھ کچھ یادپڑتاہےکہ فرانسیسی انقلابیوں نےکسی صدی کےآخرمیں قلعہ باستیل کامحاصرہ کیاتھا۔ لیکن سن یادنہیں آتا۔اب مرزاکویقینا اتنایادہوگاکہ 1799 میں کچھ گڑبڑ ضرورہوئی تھی۔ لیکن کہاں ہوئی اوراورکیوں ہوئی-یہ وہ بغیراستخارہ کیےنہیں بتاسکتے۔ چنانچہ مارچ 1924 ہی کاذکرہے۔ہم دونوں ایک دوسرےکی کمزوری پرافسوس کررہےتھےاورلقمہ دیتےجاتےتھے۔ وہ اس طرح کہ وہ مجھےروس کہ بیوہ ملکہ کیتھرین اعظم کاسن ولادت اورتاریخ تاج پوشی وغیرہ بتارہےتھےاورمیں ان کواس کےمنہ بولےشوہروں کےنام رٹوارہاتھا۔اچانک مرزابولےیار!
یہ بڑےمرکےبھی چین سےنہیں بیٹھنےدیتی۔
مرنےوالےمرتےہیں لیکن فناہوتےنہیں
میں نےکہا”کارلائل کاقول ہےکہ تاریخ مشاہیرکی سوانح عمری ہے۔“
کہنےلگے ”سچ تو کہتا ہے بچارا! تاریخ بڑے آدمیوں کااعمال نامہ ہےجوغلطی سےہمارےہاتھ تھمادیاگیا۔اب یہ نہ پوچھوکس نےکیاکیا،کیسےکیااورکیوں کیا۔بس یہ دیکھوکہ کب کیا۔“
عرض کیا”دیکھوتم پھرسن اورسمبت کےپھیر میں پڑگئے۔ایک مفکر کہتا ہے٠٠٠٠“
بات کاٹ کر بولے” بھئی تم اپنےاچھےبھلےخیالات بڑے آدمیوں سےکیوں منسوب کردیتےہو؟لوگ غورسےنہیں سنتے۔“
مکررعرض کیا”واقعی ایک مفکرکہتاہےکہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔تم دیکھوگےزبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبےپاؤں آتی ہیں۔تاریخی کیلنڈرمیں ان کاکہیں ذکرنہیں۔سب جانتےہیں کہ سکندرنےکس سن میں کون ساملک فتح کیا۔لیکن یہ کوئی نہیں بتاسکتاکہ بن مانس کون سےسن میں انسان بنا۔اتناتواسکول کےبچےبھی بتادیں گےکہ سیفوکب پیداہوئی اورسقراط نےکب زہرکاپیالہ اپنےہونٹوں سےلگایالیکن آج تک کوئی مورخ یہ نہیں بتاسکاکہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا۔لڑکی کس ساعت نایاب میں عورت بنی۔جوانی کس رات ڈھلی۔ادھیڑپن کب ختم ہوااوربڑھاپاکس گھڑی شروع ہوا۔“
کہنےلگے”برادر!ان سوالات کاتعلق تاریخ یونان سےنہیں،طب یونانی سے ہے۔“
سنہ عیسوی سےکہیں زیادہ مشکل ان تاریخوں کایادرکھناہےجن کےبعدمیں ”قبل مسیح “ آتاہے۔اس لیےکہ یہاں مورخیں گردش ایام کوپیچھےکی طرف دوڑاتےہیں۔ان کوسمجھنےاورسمجھانےکےذہنی شیس آسن کرناپڑتاہےجواتنادشوارہےجتناالٹےپہاڑےسنانا۔اس کوطالب علم کی خوشی قسمتی کہیےکہ تاریخ قبل میلادمسیح نسبتاً مختصراورادھوری ہے۔ اگرچہ مورخیںکوشاں ہیں کہ جدیدتحقیق سےبےزبان بچوں کی مشکلات میں اضافہ کردیں۔بھولےبھالےبچوں کوجب یہ بتایاجاتاہےکہ روم کی داغ بیل ٣٥٧ قبل مسیح میں پڑی توننھےمنےہاتھ اٹھاکریہ سوال کرتےہیں کہ اس زمانہ کےلوگوں کویہ پتہ کیسےچل گیاہےکہ حضرت عیسیٰ کےپیداہونےمیں ابھی ٣٥٧ سال باقی ہیں۔ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ٣٥٧ ق۔م کوساتویں صدی شمارکریں یا آٹھویں ۔عقل منداستادان جاہلانہ سوالات کاجواب عموماً خاموشی سےدیتےہیں۔ آگےچل کہ جب یہی بچےپڑھتےہیں کہ سکندر٦٥٣ق۔م میں پیداہوااور٣٢٣ق ۔م میں فوت ہواتووہ اسےکتابت کہ غلطی سمجھتےہوئےاستادسےپوچھتےہیں کہ یہ بادشاہ پیداہونےسےپہلےکس طرح مرا؟ استادجواب دیتاہےکہ پیارےبچو!اگلےوقتوں میں ظالم بادشاہ اسی طرح مراکرتےتھے۔
کلاسیکی شاعراورانشاپروازکچھ سوچ کرچپ ہوجانےکہ نازک فن سےآشنا ہے۔بالخصوص ان مقامات پرجہاں لطف گویائی کولذت خموشی پرقربان کردینا چاہیے۔ وہ اس ”جادواں ،پیہم دواں،ہردم جواں“ زندگی کووقت کےپیمانوں سےنہیں ناپتااورسن وسال کی الجھنوں میں نہیں پڑتا۔چنانچہ وہ یہ صراحت نہیں کرتاکہ جب مصرکوانطونی نےاورانطونی کوقلوپطرہ نےتسخیرکیاتواس گرم وسیزرچشیدہ ملکہ کی کیاعمرتھی۔شیکسپیئر محض یہ کہہ کرآگےبڑھ جاتاہےکہ وقت اس کےلازوال حسن کےسامنے ٹھہر جاتا ہے، اورعمراس کاروپ اوررس نہیں چراسکتی۔اس کےبرخلاف مورخیں نےدفترکےدفتراس لایعنی تحقیق میں سیاہ کرڈالےہیں کہ اپنےصندلی ہاتھوں کی نیلی نیلی رگوں پراترانےوالی اس عورت کی اس وقت کیاعمرہوگی۔اب ان سےکوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جب خودانطونی نےامورسلطنت اورسن ولادت کےبارےمیں تجاہل عارفانہ سےکام لیاتو آپ کیوں اپنےکو اس غم میں خواہ مخواہ ہلکان کیے جارہے ہیں؟ اسی طرح جس وقت ہماراانشاپروازاس جنسی جھٹ پٹےکی طرف اشارہ کرناچاہتاہےجب دھوپ ڈھل جاتی ہےمگردھرتی بھیترہی بھیترمیٹھی میٹھی آنچ میں تپتی رہتی ہے، تواپنی پسندکےجوازمیں بس اتناکہہ کرآنکھوں ہی آنکھوں مسکرادیتاہےکہ”چھڑھتی دوپہرسےڈھلتی چھاؤں زیادہ خوش گوارہوتی ہے۔“
اس اعتبارسےان خواتیں کاکلاسیکی طرزعمل لائق تحسین وتقلیدہی،جواپنی پیدائش کی تاریخ اورمہینہ ہمیشہ یادرکھتی ہیں۔لیکن سن بھول جاتی ہیں۔
اوریہ واقعہ ہےکہ حافظہ خراب ہوتوآدمی زیادہ عرصہ تک جوان رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہےکہ وقت احساس بذات خودایک آزارہے، جس کواصلاحاً بڑھاپا کہتےہیں۔ڈاکٹرجانسن نےغلط نہیں کہا”یوں تومجھےدو بیماریاں ہیں- دمہ اورجلندھر۔لیکن تیسری بیماری لاعلاج ہےاوروہ ہےعمرطبعی!“ لیکن غور کیجئے تو عمربھی ضیمراورجوتےکی مانندہے،جن کی موجودگی کااحساس اس وقت تک نہیں ہوتاجب تک وہ تکلیف نہ دینےلگیں۔ میں یہ ثابت کرنےکی کوشش نہیں کررہاکہ اگرسن پیدائش یادرکھنےکارواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے، توبال سفیدہونےبندہوجائیں گے۔یااگرکیلنڈرایجادنہ ہواہوتاتوکسی کےدانت نہ گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نےبھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کوپہلی بارسکینڈ،سال اورصدی میں تقسیم کیا،اس نے انسان کوصحیح معنوں میں پیری اورموت کاذائقہ چکھایا۔وقت کوانسان جتنی بارتقسیم کرےگا،زندگی کی رفتاراتنی ہی تیزاورنتیجہ موت اتنی ہی قریب ہوتی جائےگی۔اب جب کہ زندگی اپنےآپ کوکافی کےچمچوں اورگھڑی کی ٹک ٹک سےناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کرنہ آنےوالےنیم روشن عہد کی طرف پیچھےمڑمڑکردیکھتاہے، جب وہ وقت کاشماردل کی دھڑکنوں سےکرتاتھااورعروس نورات ڈھلنےکااندازہ کانوں کےموتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کےجھلملانےسےلگاتے تھے :
نہ گھڑی ہےواں نہ گھنٹہ نہ شماروقت وساعت
———————-

Intekhab E Kalam Saleem Ahmad

Articles

انتخابِ کلام سلیم احمد

سلیم احمد

 

دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں

جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں

غنیم وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں

پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں

یہ دھرتی میری ماں ہے اس کی عزت مجھ کو پیاری ہے
میں اِس کا سر چھپانے کے لیے چادر بناتا ہوں

یہ سوچا ہے کہ اب خانہ بدوشی کر کے دیکھوں گا
کوئی آفت ہی آ تی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں

میرے خوابوں پے جب تِیرہ شبی یلغار کرتی ہے
میں کِرنیں گوندھ کر چاند سے پیکر بناتا ہوں


2

جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے

ہم سے وہ یارِطرحدار نہ سمجھا جائے

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے

تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ

شوق کو درخورِ اظہار نہ سمجھا جائے

نالہ بلبل کا جو سنتا ہے تو کھل اُٹھتا ہے گل

عشق کو مفت کی بیگار نہ سمجھا جائے

عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے

حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے

بڑھ چلا آج بہت حد سے جنونِ گستاخ

اب کہیں اس سے سرِ دار نہ سمجھا جائے

دل کے لینے سے سلیمؔ اُس کو نہیں ہے انکار

لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے

—————-
3

ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی

یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی

دل تھا اُداس عالمِ غربت کی شام تھی

کیا وقت تھا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی

رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے

جب مل گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی

خو بُو رہی سہی تھی جو تجھ میں خلوص کی

اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی

وہ دشتِ ہول خیز وہ منزل کی دھن وہ شوق

یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی

کیوں اضطراب دل پہ تجھے آ گیا یقیں

اے بدگمانِ شوق یہ کیا بات ہو گئی

دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر

اب سو بھی جا کہ یار بہت رات ہو گئی

——————————-
4

ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں

وہ حال کون سا ہے جو تونے سنا نہیں

ایسا بھی اب نہیں ہے کہ نازِ صبا اُٹھائیں

محفل میں دیکھتا ہے تو پہچانتا نہیں

یوں بھی ہزار روگ ہیں دل کو لگے ہوئے

پھر اس پہ یہ ملال کہ وہ پوچھتا نہیں

کتنا دیارِ درد کا موسم بدل گیا

تجھ کو نگاہِ ناز ابھی کچھ پتہ نہیں

تو بدگماں سہی پہ کبھی مل سلیمؔ سے

یہ امرِ واقعہ ہے کہ دل کا بُرا نہیں

———————————
5

جنابِ دل کی بھی خوش فہمیاں بلا کی ہیں

اسی سے داد کے طالب ہیں جس سے شاکی ہیں

جو چپ رہے ہیں کبھی لب بنازِ خوش گوئی

تو اس نگاہ نے ہزار ہا باتیں کی ہیں

خبر تو زُلف کی کچھ دے تری گلی کی ہوا

کہ الجھنیں تو وہی جانِ مبتلا کی ہیں

تمہارے حسن کی باتیں بھی لغزشیں ٹھہریں

تو لغزشیں یہ محبت میں با رہا کی ہیں

Telegram by Jogindar Paul

Articles

ٹیلی گرام

جوگندر پال

 

جوگندر پال 5 ستمبر 1925ء کو سیالکوٹ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے وقت بھارت آگئے۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی تاہم ان کی ابتدائی اور وسطانوی تعلیم اردو ذریعہ تعلیم سے مکمل ہوئی اور یہی ان کے ادبی اظہار خیال کی زبان بنی۔

جوگندر نے ایم اے انگریزی ادب میں کیے اور پیشہ درس وتدریس سے جڑگئے۔ وہ مہاراشٹر کے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل کے طور پر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔

جوگندر کی تخلیقات میں دھرتی کا کال (1961ءمیں کیوں سقیم؟ (1962ءکھودو بابا کا مقبرہ (1994ءپرندے (2000ء) (سبھی افسانے)، نہیں رحمان بابو (افسانوں کا مجموعہ جس میں کچھ دوسطری تھے)، آمدورفت (1975ءبیانات (1975ء) (دو مختصر ناول)، بے محاورہ (1978ءبے ارادہ (1981ءنادید (1983ءخواب رو (1991ء) (دونوں ناول) زیادہ مشہور ہوئے تھے۔

22 اپریل ، 2016ء کو جوگندر پال کا انتقال ہوگیا۔

—————————————————-

ٹیلی گرام

 

پچھلے بارہ برس سے شیام بابو تار گھر میں کام کر رہا ہے، لیکن ابھی تک یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ بے حساب الفاظ برقی تاروں میں اپنی اپنی پوزیشن میں جوں کے توں کیوں کر بھاگتے رہتے ہیں، کبھی بدحواس ہو کر ٹکرا کیوں نہیں جاتے؟ ٹکرا جائیں تو لاکھوں کروڑوں ٹکراتے ہی دم توڑ دیں اور باقی کے لاکھوں کروڑوں کی قطاریں ٹوٹ جائیں تو وہ اپنی سمجھ بوجھ سے نئے رشتوں میں منسلک ہو کر کچھ اس حالت میں ری سیونگ سٹیشنوں پر پہنچیں “بیٹے نے ماں کو جنم دیا ہے سٹاپ مبارک باد!” یا “چوروں نے قانون کو گرفتار کر لیا ہے۔” یا “افسوس کہ زندہ بچہ پیدا ہوا ہے۔”یا ہاں اس میں کیا مضائقہ ہے؟ شیام بابو مشین کی طرح بے لاگ ہو کر میکانکی انداز میں برقی پیغامات کے کوڈ کو رومن حروف میں لکھتا جا رہا ہے لیکن اس مشین کے اندر ہی اندر ان بوکھلائی ہوئی انسانی سوچوں کا تالاب بھر رہا ہے کیا مضائقہ ہے؟ جیسی زندگی، ویسے پیغام “کرتا ہوں سٹاپ کشور ” اس نے کسی کشور کے تار کے کوڈ کے آخری الفاظ کاغذ پر اتار لئے ہیں اور وہ اس بات سے برآمد ہوتے ہوئے ایک ایک لفظ کو قلم بند کرتا جائے۔ سوچنا سمجھنا اس کا کام ہے جس کے نام پیغام موصول ہوا جب دھیرج کو کوئی پکارے تو آواز کو تو سارا ہجوم سن لیتا ہے لیکن صرف دھیرج ہی مڑ کر دیکھتا ہے کہ کیا ہے خلاف معمول نہ معلوم کیا سوچ کر شیام بابو تار کا مضمون پڑھنے لگا ہے “شادی روک لو سٹاپ۔ میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں سٹاپ کشور ۔” وہ ہنس پڑا ہے وہ دوسرے ہنگامے میں۔ بے چارہ تھوڑی سی محبت کر کے باقی محبت کرنا بھول گیا ہو گا، مگر اب کوئی راہ نہیں سوجھ رہی ہے تو باقی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محبت ہی محبت کئے جانے کا اعلان کر رہا ہے۔ محبت ہی محبت کرنے سے کیا ہوتا ہے بے بی؟ طلاق، ڈارلنگ! طلاق ہو جائے مگر محبت قائم رہے۔
اور۔شیام بابو ایک اور تار کا یہ مضمون پڑھنے لگا ہے آپ کی باپ کی موت کی خبر پا کر مجھے بے حد دکھ ہوا ہے شیام بابو پھر ہنس دیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اپنے باپ کی موت پر مجھے اتنا افسوس ہوا ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
تو کیوں کر رہے ہو بھائی؟”\ تاکہ میرا رونا نکل آئے۔ آیئے، آپ بھی میرے ساتھ رویئے۔
سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ بندروں کو چپ کیسے کرایا جائے۔ سب کے سب روتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ارے بھائی، کیوں رو رہے ہو؟
مجھے کیا پتہ؟ اس سے پوچھو۔
تم ہی بتا دو بھائی، کیوں رو رہے ہو؟
مجھے کیا پتہ؟ اس سے پوچھو۔
تم؟” مجھے کیا پتہ؟
تم تو آخری بندر ہو بھائی بتاؤ، کیوں رو رہے ہو؟”\ بس یوں ہی سوچا کہ ذرا فرصت میسر آئی ہے تو ایک بار جی جان سے رولوں۔ میرا ایک کام کیجئے۔ آپ کو زحمت تو ہو گی، مگر میرے رونے کو کسی تگڑی سی الم ناک خبر میں پیش کرنے کے لئے ایک ارجنٹ ٹیلی گرام کا ڈرافٹ تیار کر دیجئے۔ لکھئے میری ماں مر گئی ہے ٹھہریئے، وہ تو غریب اسی روز مر گئی تھی جب بیوہ ہوئی تھی۔ اس دن سے ہم نے اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا لکھئے! میرا بھائی مرگیا ہے ہاں، یہی لکھئے مگر نہیں، سب کو معلوم ہے کہ ہماری آپس میں بالکل نہیں بنتی میری بہن نہیں، وہ تو پہلے ہی مر چکی ہے میں ارے ہاں! یہی لکھئے، میں ہی مرگیا ہوں۔ مجھے سب کو فوری طور پر خبر کرنا ہے کہ میں ہی مرگیا ہوں۔
مبارک باد پیش کرتا ہوں سٹاپ شیام بابو کے خود کار قلم نے جلدی جلدی لکھا اور وہ اپنی تحریر سے بے خبر سا سوچ رہا ہے، مجھے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں زندہ ہوں تو یہ میز بھی زندہ ہے جس پر جھک کر میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں۔ چونکہ یہ میز کھائے پئے سوئے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔ اس لئے اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ہمارے دفتر کے اس کمرے میں چوبیس گھنٹے خدمت بجا لانے کے لئے اپنی چاروں ٹانگوں پر کھڑی رہے اور مجھے چونکہ اپنی مشین کی ٹک ٹک کو بھی چلائے رکھنا ہوتا ہے اس لئے میرے لئے یہ آرڈر ہے کہ آٹھ گھنٹے یہاں ڈٹ کرکام کرو او ر باقی وقت میں اپنی مشین کی دیکھ بھال کے سارے دھندے سنبھالو ہاں، یہی تو ہے۔ میں جیتا کہاں ہوں؟ دفتر میں تو صرف پروڈیکشن کا کام ہے۔ مشین چلنا بند ہو جائے تو پروڈیکشن پر برا اثڑ پڑے گا۔ اس لئے سارے دفتری ٹائم میں تو مشین یہاں چلتی رہتی ہے اور اس کے بعد مجھے ہر روز ساری مشین کو کھول کر صاف کرنا پڑتا ہے، اس کی آئیلنگ گریزنگ کرنا پڑتی ہے، اس کے ایک ایک ڈھیلے پرزے کو کسنا پڑتا ہے۔۔اور یہ سارا کام بھی مجھے اکیلے ہی انجام دینا ہوتا ہے۔
پچھلے ساڑھے سات برس سے، جب سے شیا م بابو کی شادی ہوئی ہے، اس کی بیوی وہیں اپنے ماں باپ کے گاؤں میں ان ہی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ شادی کے موقع پر وہ اس کی ڈولی اٹھوا کر گاؤں سے باہر تولے آیا، لیکن پھر جب سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کہاں لے جائے تو ڈولی کا مونسہ واپس گاؤں کی طرف مڑوا لیا یہ تم نے بہت اچھا کیا بیٹا اس کی ساس نے کہا تھا کہ ایک بار ہماری بیٹی کو گاؤں سے باہر لے گئے۔ کم سے کم رسم تو پوری ہو گئی۔ اب چاہو تو بے شک ساری عمر یہیں رہے۔ یہ گھر بھی تو اسی کا ہے لیکن اس کا کوئی اپنا گھر کیوں نہیں جہاں اسے وہ لے آتا تو اس میں بوئی ہوئی انسانیت کی آبیاری ہوتی رہتی۔
شروع شروع میں تو شیام با بو کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ سوتے میں بھی بیوی کے گاؤں کا رخ کئے ہوتا تم گھبراؤ نہیں سنیہ دتی۔ میں دن رات کرائے پر کوئی اچھا سا کمرہ لینے کی مہم میں جٹا ہوا ہوں۔ جیسے ہی کوئی مل گیا، تمہیں اسی دم یہاں لے آؤں گا مگر برا ہو اس بڑے شہر کا، جو اپنے چھوٹے دل میں ایک کے اوپر ایک کئی کمرے بنائے ہوئے ہے مگر اتنی اونچائی پر رہائش کے کرائے کے خیال سے اسے یہاں رہنے کی بجائے یہاں سے لڑھک کر خود کشی کی سوجھتی ہے۔ پورے ساڑھے سات برس اسی طرح گزر گئے ہیں۔ وہ میاں اور بیوی ساڑھے پانچ سو میل کے فاصلے پر وہاں۔ شیام بابو تین سو پینسٹھ دن تک اپنی بیس دن کی ارنڈ لیو کا انتظار کرتا رہتا اور وقت آنے پر گاڑیوں، بسوں اور تانگوں کو بدل بدل کر وہ گویا اپنے دو پیروں سے سرپٹ بھاگتے ہوئے وہاں جا پہنچتا اور اس کی خواہش اتنی شدید ہوتی کہ اپنی تیار بیٹھی ہوئی بیوی پر وہ بے اختیار کسی درندے کی طرح ٹوٹ پڑتا۔ ایک دو تین سال تک تو وہ ہر سال گیا، لیکن چوتھے سال عین چھٹی کے دنوں میں وہ بیمار ہو گیا، پھر پانچویں سال جو جانا ہوا تو اس کے بعد ڈھائی سال میں ایک بار بھی نہیں جا سکا۔ جو پیسے وہاں جانے میں ضائع ہوں گے۔ ان میں سے آدھے بھی منی آرڈر کرا دوں گا تو بیسیوں کام نکال لے گی ہاں، اس کا ایک دو سالہ لڑکا بھی ہے جس کے بارے میں اس کی بیوی نے اسے لکھا تھا کہ وہ اسے اپنی پانچویں سال کی چھٹی پر اس کی کوکھ میں ڈال آیا تھا ؒ لیکن شیام بابو اپنا حساب کتاب کر کے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس کا بیٹا اس کا بیٹا نہیں۔ شاید اسی وجہ سے ڈھائی سال کے اس عرصے میں وہ ایک بار بھی اس کے پاس نہیں گیا تھا لیکن اس سلسلے میں اس نے بیوی کو کبھی کچھ نہیں لکھاجو ہے سو ٹھیک ہےوہ بھی کیا کرے؟ اور میں بھی کیا کروں؟کبھی اچھے دن آ گئے تو سب اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے اور اس کے ہمارے بچے کو اس کا ہوا تو ہم دونوں کا ہی ہوا یہیں اپنے پاس لے آؤں گا اور پھر ہم چین سے رہیں گے، بڑے چین سے رہیں گے۔
اس کے دفتر کا کوئی ساتھی اس کا کندھا جھٹک رہا ہے۔ مشین میں شاید کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ رکی پڑی ہے شیام بابو!
آں ں! شیام بابو نے ہڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھول لی ہیں۔
طبیعت خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔
کون سا گھر؟ نہیں ٹھیک ہوں، یوں ہی ذرا اونگھنے لگا تھا ٹک ٹک ٹک ٹک!مشین پھر چلنے لگی ہے۔ تمہارے لئے پانی منگواؤں؟”
ارے بھائی، کہہ دیا نا، ٹھیک ہوں۔
اس کے ساتھی نے تعجب سے اس کے کام پر جھکے ہوئے سر کی طرف دیکھا ہے اور اپنے کام میں الجھ گیا ہے۔
شیام بابو کو اپنا جی اچانک بھر ابھرا سا لگنے لگا ہے۔ عام طور پر تو یہی ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوشی کی خبر ہوتی ہے نہ اداسی کی۔ اسے بس جو بھی ہوتا ہے بے خبری میں ہی ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور یوں ہی سب کچھ بخوبی ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ بے خبر سا اپنے آپ دفتر میں آ پہنچتا ہے اور اسی حالت میں سارے دن قلم چلا چلا کر اپنے ٹھکانے پر لوٹ آتا ہے اور پھر دوسرے دن صبح کو عین ویسے کا ویسا ڈیوٹی پر آ بیٹھتا ہے۔ یعنی معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے، کیوں ہے، کیا ہے؟ کوئی ہو تو معلوم بھی ہو اس دن تو حد ہو گئی؛ وہ یہاں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہے اور اس کا باس یہاں اس کے قریب ہی کھڑا پوچھ رہا ہے، بھئی، شیام بابو آج کہاں ہے؟”\شیام بابو شیام بابو!شیام بابو یقینی طور پر اس کی آواز سن رہا ہے، مگر سن رہا ہے تو فوراً، جواب کیوں نہیں ہیں دیتا۔س سر!ایسے بھولے بھٹکے چہرے شاید ہماری آنکھوں میں ٹھہرنے کی بجائے روحوں میں لڑھک جاتے ہیں۔ ان سے مخاطب ہونا ہو تو اپنے ہی اندر ہولو، اپنی ہی تھوڑی سے جان سے انہیں زندہ کرلو، ورنہ یہ تو جیسے ہیں ویسے ہی ہیں۔
گوشت کو رگوں میں خون دوڑنے کی اطلاع ملتی رہے تو یہ زندہ رہتا ہے، ورنہ بے خبری میں مٹی ہو جاتا ہے۔ جب شیام بابو کی اپنی زندگی بے پیغام ہے تو اسے کیسے محسوس ہو کہ ٹیلی گراموں کے ٹیکسٹ برقی کوڈ کی اوٹ میں کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں، یا دھاڑیں مار مارکر رو رہے ہیں، یا تجسس سے اکڑے پڑے ہیں۔ سوکھی مٹی کے دل پر آپ کچھ بھی لکھ دیجئے، اسے اس سے کیا؟ شیام بابو کو اس سے کیا، کہ کوئی کسے کیا پیغام بھیج رہا ہے؟ اس کی قسمت میں تو کسی کا پیغام نہیں، محبت کا یا نفرت، خوشی یا غم کا اسے کیا؟ ٹیلی گراموں کے گرم گرم ٹیکسٹ کا کوڈ اس کے ٹھنڈے قلم سولی سے لٹک کر سپاٹ سی صورت لئے کاغذ پر ڈھیر ہوتا رہتا ہے یہ لو، الفاظ تو نرے الفاظ ہیں، بس الفاظ ہیں، الفاظ کیوں ہنسیں یا روئیں گے؟ ان کو پڑھ کے ہنسو، روؤ، یا جو بھی کرو، تم ہی کرو یہ لو!
لیکن اس وقت یہ ہے کہ شیام بابو کو اپنا جی یک بارگی بہت بھرا بھرا لگنے لگا ہے۔ سوچوں کا تالاب شاید بھر بھر کے اس کے دل تک آپہنچا ہے اور وہ انجانے میں تیرنے لگا ہے اور سوکھی مٹی میں جان پڑنے لگی ہے۔
سٹاپ میں بدیس سے لوٹ آیا ہوں سٹاپ اور عین اس وقت صاحب کے چپراسی نے اس کی آنکھوں کے نیچے ہیڈ آفس کا ایک لیٹر رکھ دیا ہے۔ اس نے لیٹر پر نظر ڈالی ہے اور پھر چونک کر خوشی سے کانپتے ہوئے اسے دوبارہ پڑھنے لگا ہے۔ اسے سرکاری طور پر اطلاع دی گئی ہے کہ تمہارے نام دو کمروں کا کوارٹر منظور ہو گیا ہے!
کیدار بابو جمیلکشن!ادھر دیکھو دوستو۔ دیکھو، میرا کیا لیٹر آیا ہے؟”
کیا کیا ہے؟
میرا کوارٹر منظور ہو گیا ہے!
تو کیا ہوا؟ہائیں، کیا کہا کوارٹر منظور ہو گیا ہے؟!ہاں!
بہت اچھا!بہت اچھا! سب کے لئے چائے ہو جائے شیام بابو!
ارے چائے ہی کیا، کچھ ادھارے دے سکتے ہو تو جو چاہو منگوا لو۔
ہاں، تم فکر نہ کرو۔ میں سارا بندوبست کئے دیتا ہوں یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا شیا م بابو!راموادھر آؤ رامو، جاؤ ہوٹل والے کو بلا لاؤ جاؤاب بھابی کو کب لا رہے ہو شیام بابو؟
آج چھٹی کی درخواست دے کر ہی جاؤں گا کیدار بابو! شیا م بابو قصور میں اپنے کوارٹر میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے اور اس کے کندھوں پر اس کا لڑکا کھیل رہا ہے کیا نام ہے اس کا؟دیکھو نا، دماغ پر زور ڈالے بغیر اپنے اکلوتے بچے کا اپنا ہی تو ہے نام بھی یاد نہیں آتا۔ کوئی بات نہیں شکر اور دودھ کھلتے ملتے ہی گاڑھے اور میٹھے ہو جاتے ہیں اری سن رہی ہو بھلی لوگ؟ اگلی چپاتی کب بھیج وگی؟ دفتر کے لئے دیر ہو رہی ہے۔
لو، شیام بابو، ہوٹل والا تو آگیا ہے بس ایک ایک چاٹ، ایک ایک گلاب جامن اور کیا؟ ایک ایک سموسہ چلے گا نا شیام بابو؟لکھو ہمارا آرڈر بھائی پر نانند!
شیام بابو کو پتہ ہی نہیں چلا ہے کہ دفتر میں باقی سارا وقت کیسے بیت گیا ہے۔ وہاں سے اٹھنے سے پہلے اس نے سب ساتھیوں سے وعدہ کیا ہے کہ کل سویرے وہ ان سب کو ان کی بھابی کی تصویر دکھائے گا۔
اتنی بھولی ہے کہ ڈرتا ہوں اس شہر میں کیسے رہے گی۔
ڈرو مت شیام بابو۔ بھابی کو لانا ہے تو اب شیرببر بن جاؤ۔
دفتر سے نکل کر تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے شیام بابو چوراہے پر آگیا ہے اور پان اور سگریٹ لینے کے لئے رک گیا ہے اور پھر تمباکو والے پان کا لعاب حلق سے اتارتے ہوئے نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں بکھیرتے ہوئے ہلکی ہلکی سردی میں حدت محسوس کرتے وہ بڑے اطمینان سے اپنے رہائش کے اڈے کی طرف ہولیا ایک چھوٹی سی کھولی جس میں مشکل سے ایک چارپائی آتی ہے۔ ابھی پچھلے ہی مہینے خان سیٹھ نے اسے دھمکی دی تھی۔ بھاڑے کے دس روپے بڑھاؤ، نہیں تو چلتے بنو ہاں!
چوہے کے اس بل کا کرایہ پہلے ہی پچاس روپے وصول کرتے ہو خان سیٹھ۔ اپنے خدا سے ڈرو!
لیکن خان سیٹھ نے اپنے خدا کو ڈرانے کے لئے ایک بھیانک قہقہہ لگایا بلی شریف نہ ہوتی بابو، تو بولو، کیا ہو جاتا؟ ساٹھ روپے، نہیں تو خالی کرو ہاں!
اسی مہینے خالی کر دوں گا اور سیٹھ سے کہوں گا، لو سنبھالو اپنی کھولی خان سیٹھ۔ تمہاری قبر کی پورے سائز کی ہے لو!نہیں جھگڑے وگڑے کا کیا فائدہ؟ چپکے سے اس کی کھولی اس کے حوالے کر کے اپنی راہ لوں گا۔
بس سٹاپ آگیا ہے اور بس بھی کھڑی ہے، لیکن بہت بھری ہوئی ہے۔ شیام بابو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پیدل ہی جائے گا۔ یہاں سے تھوڑا ہی فاصلہ تو ہے اس کا سگریٹ جل جل کر انگلیوں تک آ پہنچا ہے، لیکن ابھی اس کی خواہش نہیں مٹی ہے۔ اس نے ہاتھ کا ٹکڑا پھینک کر ایک اور سگریٹ سلگا لیا ہے ساوتری کو میری سگریٹ پینا بالکل پسند نہیں پیسے بھی جلاتے ہو اور پھیپھڑے بھی۔ اس سے تو اچھا ہے میرا ہی ایک سرا جلا کر دوسرے کو ہونٹوں میں دبا لو اور دھواں چھوڑتے جاؤ! میرا مزہ کیا سگریٹ سے کم ہے؟ اری بھلی لوگ، ایک تمہارا ہی مزہ تو ہے۔ سگریٹ وگریٹ کی لت کو گولی مارو آؤ!اس نے خیال ہی خیال میں بیوی کو سینے سے لگا لیا ہے اور مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک عورت سے ٹکرا گیا ہے، گویا اس کی ساوتری نے اس سے الگ ہونے کے لئے اپنے آپ کو جھٹکا ہوارے! اس نے اندھے پن میں اپنا ہاتھ اس عورت کی طرف پھیلا دیا ہے ایڈی اٹ! وہ عورت غصے سے پھنکارتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہے اور شیام بابو شرمندہ ہو جانے کے باوجود خوش خوش ہے اور عورت کی پیٹھ کی طرف مونہہ لٹکا کر اس نے بہ آواز بلند کہا ہے۔ آئی ایم ساری میڈم لیکن اس عورت کی پھنکار پھر اس کے بند کانوں کے باہر ٹکرائی ہے۔ ایڈی اٹ!
شیام بابو اپنے ذہن کو جھاڑ رہا ہے اور اڑتی ہوئی گرد میں اس کی بیوی زور زور سے ہنس رہی ہے اور ٹکراؤ پرائی عورتوں سے! ایک میں ہوں جو بلا روک ٹوک ساری دراز دستیاں سہہ لیتی ہوں۔ میں اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر دیکھوں کسی اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر تو دیکھوںکسی اور کی طرف دیکھنے کی مجھے ضرورت ہی کیا ہے؟ میرے لئے تو بس جو بھی ہو تم ہو شیام بابو نے اپنے آپ کو ڈانٹ کر کہا ہے نیں، تم نے اپنی بیوی کے ماتھے پر خواہ مخواہ کلنک کا ٹیکہ لگا رکھا ہے۔ تمہارا بچہ تمہارا ہی ہےاور اگر مان بھی لیں کہ وہ تمہارا نہیں، تو اس میں ساوتری کا کیا دوش؟ اس کا سارا سال تمہاری ارنڈ لیو کے دس بیس روز کا تو نہیں چل سب ٹھیک ہے، میرا بچہ میرا ہی ہے ہمارے نیٹو کی آنکھیں اس کی طرح چھوٹی چھوٹی ہیں۔ ماتھ مجھ پرگیا ہے، مگر ناک میں بھی کیسا باپ ہوں کہ دو سال اوپر کا ہولیا ہے مگر میں نے ابھی تک اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ پچھلے سال مجھے ایک چکر کاٹ آنا چاہئے تھا آج چھٹی کی درخواست دینا بھی بھول گیا ہوں۔ اب کل پہلا کام یہی کروں گا اور اس ہفتے کے آخر میں یہاں سے نکل جاؤں گا ساوتری کو چٹھی بھی نہ لکھوں گا اور اچانک اس کے سامنے جاکھڑا ہوں گا ساوتری!اور وہ آنکھیں مل مل کر میری طرف دیکھتی رہ جائے گی ساوتری وہ رو دے گی یہ مجھے کس کی آواز سنائی دی ہے۔ہائے اب تو اٹھتے بیٹھتے تمہاری ہی صورت دکھائی دیتی ہے نیٹو کے باپو۔ اب تو آ جاؤ!میں آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لوں گا اور وہ میرے بازوؤں میں بے ہوش ہو جائے گی۔ ساوتری! ساتری!اپنی کھولی کے سامنے پہنچ کر اس نے بے اختیار اپنی بیوی کا نام پکارا ہے لیکن وہاں اس کے تارگھر کے رامو نے آگے بڑھ کر اسے جواب دیا ہے بابوجی؟”
ارے رامو، تم!کیسے آئے؟شیام بابو اپنے حواس درست کر رہا ہے۔ بابوجی!رامو کی آواز بھاری ہے اور وہ بولتے ہوئے تامل برت رہا ہے۔
اتنے اکھڑے اکھڑے کیوں ہو؟بولو نا!
آپ کا تار لایا ہوں۔
میرا تار؟” ہاں بابوجی، یہ تار آپ کے ہاتھ سے ہی لکھا ہوا ہے، مگر آپ کا دھیان ہی نہیں گیا کہ آپ کا ہے۔ تار کا لفافہ ایک طرف سے کھلا ہے لیکن شیام بابو اسے دوسری طرف سے چاک کر رہا ہے۔ ڈسپیچ والے کشن سنگھ کو بھی خیال نہ آیا شیام بابو، کہ یہ تار آپ کا ہے۔
شیام بابو نے تار کا فارم کھول کر دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کے سامنے فٹ کر لیا ہے۔
مجھے بھی آدھا راستہ طے کر کے اچانک خیال آیا بابوجی، ارے، یہ تار تو اپنے بابوجی کا ہے میں اسے پڑھ چکا ہوں۔ بہت افسوس ہے کہ ساوتری نے خودکشی کر لی ہے سٹاپ