Intekhab E Kalam Nooh Naarvi

Articles

انتخابِ کلام نوح ناروی

نوح ناروی

 

نوح ناروی : (18 ستمبر، 1879ء – 10 اکتوبر، 1962ء ) –  مشہور کہنہ مشق شاعر، داغ دہلوی کے جانشین تھے۔ ان کی ولادت  ریاست اترپردیش ، رائے بریلی ضلع، سلون تحصیل کے بھوانی پور گاؤں میں ہوئی، جو ان کا نانہال تھا۔

نانا کا نام شیخ علم الہدیٰ صاحب تھا اور آپ یہیں پیدا ہوئے۔ تعلیم مختلف حضرات سے پائی جن میں اہم نام حافظ قدرت علی صاحب و مولوی یوسف علی صاحب ۔ بعد ازاں حاجی عبدالرحمن صاحب جائسی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ فارسی اور عربی تعلیم کے لئے میر نجف علی صاحب استاذ رہے۔ آپ کو انگریزی پڑھنے کا موقع بھی ملا۔

شعر و سخن کا شوق میر نجف علی صاحب کی صحبت مکی وجہ سے پیدا ہوا۔ آپ ابتداء میں شرف تلمذانہیں سے کیا کرتے تھے۔ پھر آپ جناب امیر مینائی سے کلام کا اصلاح لیا کرتے تھے۔ جناب جلال لکھنوی سے بھی شرف تلمذ رہا ۔ اور آخر میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ 1903ء کو حیدرآباد تشریف لے گئے۔

کلاسیکی غزل کی آبیاری کرنے والوں میں نوح ناروی صاحب نام بھی شامل ہے، جنہوں نے نہایت ہی عمدہ اور خوبصورت شعر تخلیق کئے۔

ان کی مشہور غزل جس کو پنکج ادھاس نے گایا اور غزل گائکی دنیامیں اپنا مقام دائم کرلیا۔

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں
جب طبیعت کسی پہ آتی ہے
موت کے دن قریب ہوتے ہیں۔

نوح ناروی بلاشبہ اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر تھے۔ جس کا اعتراف جدید نسل بھی بڑے ہی شان سے کرتی ہے۔


1

شکوؤں پہ ستم آہوں پہ جفا سو بار ہوئی سو بار ہوا

ہر بات مجھے ہر کام مجھے دشوار ہوئی دشوار ہوا

ساقی کی نشیلی آنکھوں سے ساری دنیا سارا عالم

بدمست ہوئی بدمست ہوا سرشار ہوئی سرشار ہوا

ہے نام دل مضطر جس کا کہتے ہیں جسے سب جان حزیں

مرنے کے لئے مٹنے کے لئے تیار ہوئی تیار ہوا

اظہار محبت بھی ہے غضب اظہار محبت کون کرے

حجت ان سے جھگڑا مجھ سے ہر بار ہوئی ہر بار ہوا

دنیا میں بہار اب آ پہنچی مے خانے کا در بھی کھل جائے

ایک ایک گلی ایک ایک مکاں گل زار ہوئی گل زار ہوا

کیوں رحم وہ ظالم کرنے لگا کیوں موت یہاں تک آنے لگی

الفت سے مری صورت سے مری بیزار ہوئی بیزار ہوا

حسرت اپنی ارماں اپنا آزار اپنا تکلیف اپنی

ہم درد بنی ہم درد بنا غم خوار ہوئی غم خوار ہوا

ملنے سے تنفر تھا جس کو آغوش میں اب وہ سوتا ہے

تقدیر مری اقبال مرا بیدار ہوئی بیدار ہوا

مقتل میں جفائیں ڈھانے پر مقتل میں جفائیں سہنے پر

قاتل کی نظر بسمل کا جگر تیار ہوئی تیار ہوا

اے نوحؔ یہ کیا سوجھی تم کو طوفان اٹھایا کیوں تم نے

ساری دنیا سارا عالم بیزار ہوئی بیزار ہوا


2

ہر طلب گار کو محنت کا صلہ ملتا ہے

بت ہیں کیا چیز کہ ڈھونڈھے سے خدا ملتا ہے

وقت پر کام نہ آیا دل ناشاد کبھی

ٹوٹ کر یہ بھی اسی شوخ سے جا ملتا ہے

وہ جو انکار بھی کرتے ہیں تو کس ناز کے ساتھ

مجھ کو ملنے میں نہ ملنے کا مزا ملتا ہے

یہ کدورت یہ عداوت یہ جفا خوب نہیں

مجھ کو مٹی میں ملا کر تمہیں کیا ملتا ہے

نوحؔ ہم کو نظر آیا نہ یہاں بت بھی کوئی

لوگ کہتے تھے کہ کعبہ میں خدا ملتا ہے


3

کیوں آپ کو خلوت میں لڑائی کی پڑی ہے

ملنے کی گھڑی ہے کہ یہ لڑنے کی گھڑی ہے

کیا چشم عنایت کا تری مجھ کو بھروسہ

لڑ لڑ کے ملی ہے کبھی مل مل کے لڑی ہے

کیا جانئے کیا حال ہمارا ہو شب ہجر

اللہ ابھی چار پہر رات پڑی ہے

تلوار لیے وہ نہیں مقتل میں کھڑے ہیں

اس وقت مرے آگے مری موت کھڑی ہے

جینے نہیں دیتے ہیں وہ مرنے نہیں دیتے

اے نوحؔ مری جان کشاکش میں پڑی ہے


4

کوچۂ یار میں کچھ دور چلے جاتے ہیں

ہم طبیعت سے ہیں مجبور چلے جاتے ہیں

ہم کہاں جاتے ہیں یہ بھی ہمیں معلوم نہیں

بادۂ عشق سے مخمور چلے جاتے ہیں

گرچہ آپس میں وہ اب رسم محبت نہ رہی

توڑ جوڑ ان کے بدستور چلے جاتے ہیں

بیٹھے بیٹھے جو دل اپنا کبھی گھبراتا ہے

سیر کرنے کو سر طور چلے جاتے ہیں

قیس و فرہاد کے مرنے کا زمانہ گزرا

آج تک عشق کے مذکور چلے جاتے ہیں


5

آپ جن کے قریب ہوتے ہیں
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

جب طبیعت کسی پر آتی ہے

موت کے دن قریب ہوتے ہیں

مجھ سے ملنا پھر آپ کا ملنا

آپ کس کو نصیب ہوتے ہیں

ظلم سہہ کر جو اف نہیں کرتے

ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں

عشق میں اور کچھ نہیں ملتا

سیکڑوں غم نصیب ہوتے ہیں

نوحؔ کی قدر کوئی کیا جانے
کہیں ایسے ادیب ہوتے ہیں

Kalimuddin Ahmad ka Tasuwwar e shair

Articles

کلیم الدین احمدکا تصور نقد اور نقد شعر

شاکرعلی صدیقی

کلیم الدین احمد(1907ئ-1983ئ)کی تنقیدی تحریر کا باضابطہ آغاز1939ء میں گل نغمہ کے مقدمہ سے ہوا۔اسی مقدمہ میں ان کی زبان قلم سے رسوائے زمانہ جملہ غزل نیم وحشی صنف شاعری ہے  منظر عام پر آیا۔ اس بیان کی کلیدی وجہ یہ بتائی گئی کہ غزل میں ربط،اتفاق اورتکمیل کا فقدان ہے ،جس کے باعث تہذیب یافتہ ذہن کو لطف اور نہ تربیت یافتہ تخیل کو سرور حاصل ہے ۔ گل نغمہ کے تقریباً ایک سال بعد ان کی دوسری مشہور کتاباردو شاعری پر ایک نظر1940ء میں مشتہر ہوئی۔یہ کتاب در اصل شاعری کے مختلف اصناف کی تنقید پر مبنی ہے ۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ان کی تیسری کتاباردو تنقید پر ایک نظر1942ء میں شیوع ہوکر متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی۔ اس کتاب سے ادبی دنیا میں ایک طرح کی کھلبلی مچ گئی۔جس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ اردو کے پورے تنقیدی سرمائے تذکروں سے آب حیات اور حالی سے ان کے معاصر ین تک کی،تنقیدی کاوشوں کو یکسر رد کیا گیا اور یہاں تک کہ اردو تنقید کے وجود کو محض فرضی،اقلیدس کے خیالی نقطے اور معشوق کی موہوم کمر سے تعبیر کیا گیا۔جس پر ناقدین ادب نے مختلف نوعیت کے شدید تر رد عمل کیے ۔مثلاً پروفیسر نثار احمد فاروقی لطیف طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

پرو فیسر کلیم الدین احمد تو اردو میں تنقید کے وجود سے ہی منکر ہیں اور اسے معشوق کی موہوم کمر کہتے ہیں ، مگر اس(کا کیا کیا جائے ؟کہ)انکار میں اقرار بھی پوشیدہ ہے اس لیے کہ معشوق کی کمر(تو) ہوتی ہے ،بس وہ شاعر کو نظر نہیں آتی۔کلیم الدین صاحب تنقید کو کوئی فتویٰ یا حتمی فیصلہ قرار دینا چاہتے ہیں۔

سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ کلیم الدین نے اردو شعر و ادب کی اصنافی خصوصیات /امتیازات اور اس کی تنقید کو از راہ نظر یکسر رد کیا ہے یا پھر کسی ذاتی منصوبہ بند سازش کے تحت۔کیوں کہ اس سے قبل بھی مشرقی علوم و فنون پرانگشت نمائی کی جاتی رہی ہیں،کبھی مرعوبیت کی شکل میں اور کبھی حکمرانی کے رو سے ۔لہٰذا یہ نکتہ غورطلب ہے کہ آیا مشرقی(بالخصوص عربی ،فارسی اور اردو) ادب اتناہی گرا ہوا/پست قد ہے کہ اس کی تہذیبی،ثقافتی ،لسانی اور فنی قدروں کی یکسر تردید کی جائے ،تو پھر دوسری طرف ان مشرقی علوم کی رہزنی کیوں؟ یا پھر ان شہ پاروں کی تحقیق کیوں؟ اور مزید جدید ادبی تھیوریز (جن کو ہم مغرب کی دین کہتے ہیں)کی اساس کیا مشرقی تصور ادب کے ذیلی مباحث کے تحریف شدہ نظریات پر مبنی نہیں؟۔بہرحال یہ مسئلہ ہنوز تحقیق اورغور طلب ہے۔

کلیم الدین احمد کے پورے تنقیدی سرمائے کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے تنقیدی شعور و آگہی کا اطلاق ایک مخصوص نقطئہ نظر کے تحت کیا ہے ۔اس لیے ان کا تمام تنقیدی کارنامہ تین شقوں پر قائم ہے ۔ اول تو انہوں نے سب سے پہلے فن تنقید کے بنیادی مسائل اٹھائے ہیں اور پھر اصول تنقید کو مرتب کیا ہے ۔ دوم انہوں نے اپنے وضع کیے ہوئے اصولوں کا انطباق شعر و ادب پر کیا ہے ۔ سوم انہوں نے تمام شعری اصناف کا عمیق تجزیاتی مطالعہ کرکے قدر و قیمت کا تعین کیا ہے ۔ان کے اہم ادبی تصورات کو سمجھنے کے لیے مندرج ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں:

ادب کی دنیا ایک ہے ، اس میں الگ الگ چھو ٹی چھوٹی دنیائیں نہیں ، خود مختار حکومتیں نہیں۔ شاعری کا مدعا اآج بھی وہی ہے جو دو ہزار برس پہلے تھا اور فنون لطیفہ کے بنیادی قوانین شاعری کی اصولی باتیں ساری دنیا میں ایک ہیں۔

ادب دماغ انسانی کی کاوشوں کا ایک آیئنہ ہے ، انسانی فطرت ہر قوم ، ہر ملک ، ہر زمانہ میں یکساں نظر آتی ہیں ۔ سطحی اختلافات تو ضرور ہیں اور ہوتے رہتے ہیں ؛لیکن حقیقت نہیں بدلتی ۔… ادب بنی نوع کی زندگی اور اس کے شعور سے وابستہ ہے ۔ نوع انسانی کی زندگی مسلسل ہے ۔ افراد فنا ہوجائیں؛ لیکن نوع کی فنا نہیں ۔ اس میں تغیر تو ضرور ہوتا ہے ۔ لیکن یہ تغیر ارتقا ئی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے ۔ اسی طرح ادب میں بھی اس تسلسل کا وجود لازمی ہے ۔ “

مذکورہ اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد کا ادب کے متعلق ایک مخصوص نظریہ ہے ۔ وہ تمام ادبوں کی دنیا کو ایک تصور کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کے ادبی تصور میں علاقایئت کے بجائے عالمیت کا غالب رحجان پایا جاتا ہے ۔ ان کے نزدیک ادب انسانی تجربات کا اظہار ہے ۔ ان تجربات میں جذبات اور خیالات دونوں شامل ہیں ۔ ان کا موقف یہ بھی ہے کہ کہ تجربہ میں محض زندگی کے روزمرہ حقائق داخل نہیں بلکہ اس میں احساسات بھی دخل ہیں ۔ان میں ایک قسم کی عالم گیری اوار ابدیت ہوتی ہے ۔ ادب، پائدار ادب اسی قسم کے بنیادی تجربات سے سروکار رکھتا ہے ۔ اس لیے ایک دور کا ادب کسی دوسرے دور میں بیکار ،مہمل ، فرسودہ ، ازکار رفتہ نہیں ہوجاتا بلکہ جہاں تک بنیادی اور پائدار تجربات کا سوال ہے ۔اپنی قدرو قیمت پر قائم رہتا ہے ۔  نیز ادب نام ہے تجربات کے اظہار کا ۔ یہ تجربات ایک حد تک انسان کے ماحول سے وابستہ ہیں یہ ماحول کائنات کی ہر چیز کی طرح بدلتا رہتا ہے ۔ اس لیے لازمی طور پر انسانی تجربات میں بھی تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے ۔ ماحول کا وہ سماج ہو یا خارجی ماحول ہو ،اثر کسی دور کے ادب پر ہوتا ہے اور کسی دور کے ادب کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے اس ماحول کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔  کلیم الدین کے شعور ادب میں تجربہ خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ جس کا براہ راست تعلق انسانی ماحول سے ہے ۔ جس میں تغیر بھی ہے اور تبدل بھی ، اس لیے ان کے نزدیک شعرو ادب کی تفہیم میں ماحول کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔

کلیم الدین کے نزدیک شاعری بیش قیمتی تجربات کا موزوں ترین اظہار ہے ۔ اس اظہار میں تین بنیادی شرائط ہیں اس میں سچائی ہو، خلوص ہو اور گہرائی ہو ۔ انہوں نے اپنی کتاباردو شاعری پر ایک نظرمیں شاعری کے متعلق بہت سے بنیادی نکات اٹھائے ہیں ۔ وہ شاعری کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :

شاعری اچھے اور بیش قیمت تجربوں کا حسین ، مکمل اور موزوں بیان ہے ۔

شاعری کی جو تعریف انہوں نے بیان کی ہے وہ مشرقی اصول شعر سے عبارت ہے ۔ عربی اور فارسی کے ناقدین نے انسانی تجربوں کے موزوں بیان کوہی شاعری تسلیم کیا ہے ؛ لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے کہ انہوں نے اس میں مکملکی شرط لگا کر اپنے مخصوص زاویئہ نظر کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ حالاں کہ شاعری اشارات و کنایات میں اپنی بات پیش کرتی ہے ، جس کو قاری اپنے تربیت یافتہ ذہن کے ذریعہ مکمل کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مشرقی شاعری میں ربط یا تسلسل نام کی کوئی ظاہری چیز نہیں پائی جاتی اور نہ ہی انگریزی شاعری کی طرح اس میں ابتدا ، وسط اور انتہا کا التزام ہوتا ہے ۔ کلیم الدین احمد آگے چل کر اسی نقطہ پر ٹھہر جاتے ہیں اور میر کے دو شعر کا موازنہ سلی پردوم کی ایک نیم مختصر  نظم سے کرکے یہ نتیجہ بر آمد کرتے ہیں کہ :

 میں صرف ایک بات اور کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس نظم کے مختلف اجزا میں ربط و تسلسل ہے اور صرف یہی نہیں اس نظم میں خیالات و جذبات کی ابتدا ، ترقی اور انتہا ہوتی ہے اور یہاں یہ تینوں حصے بہت صاف صاف دکھائی دیتے ہیں ۔

کلیم الدین احمد کے نزدیک شاعری انسانی کامرانی کی معراج اور انسانی تہذیب و تمدن کے سر کا تاج ہے ۔وہ اسے انسان کی زندگی کی تکمیل کا بنیادی وسیلہ تصور کرتے ہیں ان کا خیا ل ہے کہ شاعری وہ طاقت ور صنف ہے جس میں انسان کی تمام تر قوتیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں ۔ اسی وجہ سے شاعری انسان کو کامل سکون عطاکرتی ہے ۔ ان کے یہاں شاعری کی ماہیت اور انسان کی زندگی میں شاعری کی قدرو قیمت کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ بہرکیف شاعری سے متعلق ان کے تمام تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ :

  1. شاعری میں پیش کردہ تجربات یا خیالاتقیمتی ہوں ۔
  2. خیال میں انفرادیت اور تازگی ہو ۔ نیز وہ نئے جذبات و احساسات سے پر ہوں ۔
  3. شاعری میں حسن بیان ہو ۔ ان کا موقف ہے کہ شاعری کا بنیادی تعلق آسودگء روح ہے ۔ اس لیے جن الفاظ کا پیکر اسے عطا کیا جائے وہ بھی حسین ہونے چاہیے ۔
  4. اچھی شاعری کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ مکمل بیان ہوایسا نہ ہو کہ الفاظ کے پردے سے معنی دھندلے ہوجائیں۔
  5. شاعری میں پیش کردہ تجربات کے لیے مناسب الفاظ استعمال کیے جائیں تاکہ مفہوم پوری طرح ادا ہوجائے ۔
  6. شاعری میں موزونیت ، نغمگی اور تناسب کا ہونا بھی ضرور ی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ شاعری میں عمدہ اور بے بہا تجربات ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس کی صورت گری تین عناصر ” نقوش، الفاظ ، وزن / آہنگ ” کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ یہ عناصر استعارات کی شکل میں ہوتے ہیں ۔ جو لازم جزو شاعری ہے ۔

شاعری کی عملی تنقید کے حوالے سے ان کی دو کتابیںاردو شاعری پر ایک نظراورعملی تنقید قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی شاعری کی عملی بحثیں ملتی ہیں؛لیکن اول الذکر دونوں کتابیں شاعری تنقید میں کلیدی درجہ رکھتی ہیں۔ان کی عملی تنقید میں غزل تنقید کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ حالی کے بعد ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے غزل کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کے خدو خال کا تعین کیا ۔ اگرچہ ان کو غزل کی ہیت ، ریزہ خیالی اور موضوعات کے تکرار سے اتفاق نہیں تھا جس کی وجہ سے “غزل کو نیم وحشی صنف سخن ” قرار دیا ؛ لیکن انہیں غزل کی مستحکم روایت اور نزاکت کا پورا پورا احساس تھا ۔ غزل تنقید کے متعلق ان کا پہلا مضمون ” نگار ” لکھنو ، جنوری تا فروری 1942ء میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد انہوں نے  اردو شاعری پر ایک نظر اور  عملی تنقید جلد اول میں صنف غزل پر عملی بحث کی ۔  نگار کے مضمون میں انہوں نے غزل کے متعلق جو آرا پیش کی تھیں انہیں کو مربوط شکل میں اپنی مشہور کتاباردو شاعری پر ایک نظر میں پیش کیا ہے ۔ اور پھر اسی روشنی میں غزل ، قطعہ ، قصیدہ اور مرثیہ جیسی معروف صنف سخن کو زیر تجزیہ لائے اور انہیں اصناف کے تحت نمائندہ شعرا مثلاً میر  ، درر ، سودا ، ذوق ، غالب ، مومن  ، میر حسن  ، نسیم  ، شوق ، انیس  اور دبیر  وغیرہ کے فن پاروں کو موضوع بحث بنایا ۔ مثلاََ:

غالب کی ایک مشہور غزل جو سات اشعار پر مشتمل ہے ،جس کا مطلع غیرلیں محفل میں بو سے جام کے ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے اورمقطع  عشق نے غالب نکما کردیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے  اس پوری غزل کو نقل کرکے وہ لکھتے ہیں :

 اس غزل پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شعروں میں مشابہت اور مناسبت ہے ۔ سب ہم وزن ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں ۔ ایک شعر کے سوا سب شعر عشق اور عشق کے لوازمات سے وابستہ ہیں ۔ اس ظاہری مطابقت کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ باطنی مطابقت بھی ہوگی اور ان شعروں میں معنی کے لحاظ سے ربط و تسلسل اور ارتقائے خیال بھی ہوگا؛ لیکن یہ خیال غلط ہے ۔ مختلف شعروں میں شعور ی اور غیرشعوری کوئی ربط نہیں ۔ پڑھنے والے کے ذہن میں مکمل تجربے کی تصویر اجاگر نہیں ہوتی بلکہ چند پراگندہ خیالات اور نقوش جم جاتے ہیں ۔ رقیبوں کی کامیاب قسمت ، شاعری کی خستگی ، خط لکھنے کا ارادہ ، زمزم پر مے کشی ، دل کا آنکھوں میں جاپھنسنا ، شاہ کے غسل صحت کی خبر ، شاعر کا نکما ہونا ان باتوں میں کوئی معقول مناسبت نہیں ۔ ان میں ربط و تسلسل ، وہ ارتقائے خیال نہیں جو سلی پرودوم کی نظم کے مختلف بندوں میں ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ غزل میں تسلسل بیان نہیں ہوتا ، ہر شعر جداگانہ مفاہیم کا حامل ہوتا ہے ۔ اسی طرح غزل کا ہر شعر اپنے میں مکمل اور معنی میں خود مکتفی ہوتا ہے ۔ ظاہری تسلسل کے لحاظ سے غزل کے اشعار ایک دوسرے سے متفرق ہوتے ہیں ؛ لیکن ربط باہمی سے پیوست ہوتے ہیں ۔ مثلاً غزل کے اشعار میں بحور قوافی کی جھنکار اور ردیف کی تکرار باہمی ربط کی عمدہ دلیل ہے ۔ جس کی شناخت صاحب فہم یا غزل شناس ہی کرسکتا ہے ۔

غزل کے تاریخی ، تہذیبی اور صنفی خصوصیات و امتیازات سے چشم پوشی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ کلیم الدین سلی پرودوم کے نظم کی خصوصیات و امتیازات کوغالب کی غزل میں تلاش کرتے ہیں ۔ یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک مرتبہ ایک ضعیفہ اپنے گھر کے باہر سرکاری بلب کی روشنی میں کچھ تلاش کر رہی تھی ۔ایک راہ گیر نے پوچھا بڑی بی کیا تلاش کر رہی ہو ؟ بھیا ! سوئی تلاش کر رہی ہوں۔ پھر اس نے پوچھا کہاں گری تھی ؟ ضعیفہ نے کہا وہ تو اندر کوٹھری میں گری تھی ۔ پھر یہاں کیوں تلاش کر رہی ہو ؟ وہاں اندھیرے کی وجہ سے سوجھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اس لیے سوچا یہاں روشنی میں تلاش کرلوں ! یہی واقعہ کلیم الدین احمد کے ساتھ بھی پیش آیا کہ انگریزی شاعری کی خصوصیات و امتیازات کو اردو شاعری میں تلاش کر رہے تھے ۔ جس کے باعث اردو شاعری ان کے معیار و میزان پر پوری نہیں اتری ۔

شاعری کے عملی مباحث میں کلیم الدین احمد کی عملی تنقید سر فہرست ہے ۔ اس میں ان کا طریق نقد بالعموم یہ رہا ہے کہ شعرو ادب کے جائزے سے قبل متعلقہ جائزے کے کچھ بنیادی اصول وضع کیے ہیں ۔ بالفاظ دیگر فن پارے کی عملی تنقید سے پہلے اپنی نظری تنقید کو مستحکم کیا ہے ۔ فن پارے کو پرکھنے کے لیے انہوں نے جن نکات کی نشاندہی کی ہے یہاں ان کا ذکر ناگزیر معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے اہم نکات کا خلاصہ آپ کے پیش نظر ہے :

اول شعر کی تفہیم کے لیے ان کے نزدیک دو شرطیں ہیں کیا اور کیسے ؟ ان کے نزدیک کیا سے مراد مضمون ہے اور کیسے سے مراد الفاظ ہیں ۔ یعنی ان کی عملی تنقید موضوع اور ہیت کے مطالعات پر مبنی ہیں ۔ وہ اس ضمن میں رقمطراز ہیں :

……..شعر کو سمجھنے ، پورے طور پر سمجھنے ، ان کی خصوصیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کا تجزیہ ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کیا اور کیسے کی بات اٹھائی جاتی ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر مقصد میں کامیابی بھی ممکن نہیں ؛اس لیے یہ تجزیہ ضروری ہے ، کیا اور کیسے کی بات ضروری ہے ۔

ہیئت / فارم کے مطالعے کے لیے ان کے یہاں چار چیزیں ہیں : اول نقوش، دوم الفاظ ، سوئم آہنگ یا وزن،چہارم لب و لہجہ ۔ ان کا موقف ہے کہ شعر کی تشکیل الفاظ کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ یعنی شاعرخیال ، ذہنی نقش یا تاثر کی شکل میں کچھ کہتا ہے ۔ اگر یہ خیال یا ذہنی نقوش اعلیٰ درجہ کے ہیں اور اس میں تجربے کی باریکی ، تازگی اور گہرائی موجود ہے تو یہ شاعری اعلیٰ درجہ کی ہوگی۔

شعر کے مطالعہ کادوسرا نکتہ الفاظ کی پیش کش ہے ۔ وہ لفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آئی اے رچرڈز کے نظریہ سے استفادہ کرتے ہوئے یہ حوالہ دیتے ہیں کہ ہر لفظ کا ایک پیکر ہوتا ہے ، اسے بولتے ہیں تو اس کی ساخت ہم منہ میں محسوس کرتے ہیں ، سنتے ہیں تو ایک خاص صوتی پیکر کا احساس ہوتا ہے ،سوچتے ہیں تو آنکھوں کو ، اندرونی آنکھوں کو اس کا صوری پیکر نظر آتا ہے ۔  ان کا خیال ہے کہ شعر مخصوص لفظوں کا مجموعہ ہوتا ہے ؛لیکن لفظوں کا ہر مجموعہ شعر نہیں ہوتا ہے ۔

کلیم الدین کے عملی تنقید کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ تجربات و الفاظ میں ناگزیر ربط تلاش کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ شاعر تجربات کی پیش کش کے لیے غیر شعوری طور پر بہترین الفاظ تلاش کرتا ہے اور پھر وہ انہیں عمدہ ترتیب اور مناسبت سے آراستہ کرتا ہے ۔ اس لیے ناقد کے لیے ضروری ہے کہ معنی اور جذبات سے علاحدہ ہوکر پہلے الفاظ کی طرف متوجہ ہو ؛ کیونکہ الفاظ ہی ناقد کی رہنمائی اور منزل مقصود تک لے جاتے ہیں ۔ یعنی شعر کے محاسن و معائب سے آگاہ کرتے ہیں ۔ اگر چہ انہوں نے موضوعات کے حوالے سے بھی متعدد شعرا کے کلام کا جائزہ لیاہے ؛لیکن ان کی عملی تنقید کا بیشتر حصہ ہیتی مطالعات پر مبنی ہے ۔مثلاََ:

سودا کا مشہور قصیدہ جس کا مطلع  ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی  نہ ٹوٹی شیخ سے زنارتسبیح سلیمانی کی تشبیبکے متعلق وہ لکھتے ہیں :

ان شعروں میں چند اخلاقی خیالات کا بیان ہے ۔ ان میں کوئی ناگزیر ربط و تسلسل نہیں ، کوئی خاص ارتقائے خیال نہیں ۔ ان کا بیان نثر میں بھی ممکن تھا لیکن سودا نے انہیں شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے ۔ نثر میں یہ باتیں سیدھے سادے طریقے سے ہوتیں، شعر میں انہیں نقوش کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں کوئی تشبیہ یا استعارہ ہے ۔ اور یہ تشبیہ یا استعارہ صرف ایک زیور نہیں بلکہ جز وخیال ہے ۔اس کی وجہ سے خیالات کا مطلب وسیع اور پر اثر ہوجاتا ہے ۔ ہر خیال گویا ایک حسین تصویر ہے ۔ جذبات کی گرمی ، تخیل کی رنگینی ہر شعر میں موجود ہے ۔

کلیم الدین فن پارے کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کے لیے فارم / ہیئت کا سہارا لیتے ہیں ۔ اگرو ہ کسی فن پارے کے خیالات کا ہی تجزیہ کیوں نہ کرتے ہوں ؛ لیکن ان کے یہاں ہیتی مطالعہ غالب رہتا ہے ۔ دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ اردو شاعری پر ایک نظرمیں عملی تنقید کی جو مثالیں ملتی ہیں ان میں استخراج نتائج کے باعث متن کی تفہیم میں تشنہ لبی کا احساس ہوتا ہے ۔نیزاپنے مخصوص نکتہ نظر کے تحت فن پارے کے معائب کی جستجو متن کی توضیح میں حائل رہتی ہے ۔جبکہ بعد کی تحریروں میں مثلاً  سخن ہائے گفتنی ، عملی تنقید اور اقبال ایک مطالعہ  میں شاعری کی عملی تنقید پر مبنی تمام مثالیں انکشاف متن کے لحاظ سے عمدہ اور پختہ ثبوت فراہم کرتی ہیں ۔

اسی طرح کلیم الدین نے اپنے طریقئہ نقد میں تقابل اور توازن کو ایک خاص اہمیت دی ہے ۔ ان کا بیشتر تنقیدی سرمایہ موازنہ پر مبنی ہے ۔ کبھی تو وہ موازنہ کے ذریعہ استنباط نتائج کو مستحکم کرتے ہیں اور کبھی فن پارے کے تجزیاتی مطالعہ کی اساس تقابل پر قائم کرتے ہیں۔ایک مثال سودا اور محسن کاکوری کے مشہور قصیدے کے مطلع سے ملاحظہ ہو ۔ انہوں نے ان دونوں شعرا کی تشبیب کا موازنہ موضوع کے پیش نظر جزوی طور پر پیش کیا ہے ۔ سودا کا مطلع دیکھیے :

اٹھ گیا بہمن و دے کا چمنستان سے عمل

تیغ اردی نے کیا ملک خزاں مستاصل

محسن کاکوری کا مطلع :

سمت کاشی سے چلا جانب متھر بادل

برق کے کاندھے پہ لائی صبا گنگا جل

کا تقابل کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں :

سودا بہار کا نقشہ پیش کرتے ہیں ، محسن کاکوری برسات کا ۔ سودا کی تشبیب سے کم سے کم بہار کی رنگینی و فراوانی کا اندازہ ملتا ہے ۔ محسن کاکوری کے اشعار سے پراگندگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور کوئی صاف مکمل نقشہ مرتب نہیں ہوتا۔ سودا میں ایک زور ہے جس نے آورد کو آمد میں تبدیل کر دیا ہے ۔ محسن کاکوری میں یہ زور موجود نہیں ۔

ان کی عملی تنقید میں موازنہ کا طریقہ ایک مخصوص حیثیت کا حامل ہے ۔ کبھی تو انہوں نے فن پارے کی توضیحی اساس تقابل پر منضبط کی ہے اور کبھی استخراجی نتائج کی تائید و تردید کے لیے تقابل کا سہارا لیا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کی عملی تنقید کا بیش تر حصہ موازنہ سے عبارت ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں شاعری تنقید میں کسی فن پارے کا کلی طور پر تقابلی مطالعہ نہیں ملتا،بلکہ جزوی طور پر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ غالباً یہ ہوتی ہے کہ وہ جس متن کو اپنے تجزیاتی مراحل سے گزراتے ہیں اس کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ مقاصد کی تکمیل جزوی تقابل سے پوری ہوجاتی ہے ۔ بعض مواقع میں کلیم الدین کا تقابلی مطالعہ ناقص رہتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے وضع کردہ اصولوں کے انطباق میں نفس مضمون اور عندیہ متن کی تحریف کا لحاظ کیے بغیر فن پارے سے استدلال کرتے ہیں ۔ بہر کیف اس کے باوجوبھی ان کا تقابلی طریق نقد ، متون کی توضیح ، استنباط نتائج اور تعین قدر کے اعتبار سے صحت مند ہے ۔

بحیثیت مجموعی کلیم الدین کی عملی تنقید شعرو ادب کے متن کو بنیادی حیثیت عطا کرتی ہے ۔ ان کی تنقید کی اساس فن پارے پر مرتکز رہتی ہے ۔ وہ فن پارے کے مختلف انسلاکات اور معروضی لوازمات سے قطع نظر فنی تخلیق پر اپنی پوری توجہ صرف کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ فن کارکی قدر سنجی کے لیے اس کے معاشرتی پس منظر کا بھی مطالعہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے فن پارے کی عملی تنقید کرتے وقت متن کے مرکزی خیال اور موضوع کی نشاندہی کرکے اسے کے حسن و قبح پر زیادہ تر بحث کی ہے ۔ انہوں نے موضوع اور ہیت کو منفرد اکائی کے طور پر پرکھنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح انہوں نے شاعری تنقید میں بعض موقعوں پر معروضی اور تجزیاتی انداز نقد سے انحراف کرتے ہوئے محض تاثراتی انداز نقد سے بھی کام لیا ہے ۔ بالفاظ دیگر ان کی عملی تنقید متن کے مخصوص معنیاتی نظام کا عمیق مطالعہ کرتی ہے ۔ کلیم الدین احمد کی عملی تنقید کا پہلا حصہ تجزیاتی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ یہاں انہوں نے وضاحت ، استدلال اور تقابل کے ذریعہ متن کی مختلف جہتوں تک رسائی حاصل کی ہیں ۔ بعض موقعوں پر زیر تجزیہ متن کے جزیاتی نکتوں کو اس قدر کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ فن پارے کی تمام تفہیمی پرتیں وا ہوگئی ہیں ۔ مثلاً جب وہ کسی غزل یا نظم کے مصرعوں کو آگے پیچھے کر کے دکھاتے ہیں یا چند مصرعوں کو حذف کر کے دکھاتے ہیں کہ یہ ضروری ہیں اور یہ غیر ضروری ! فن پارے میں الفاظ کی تکرار پر گرفت کرتے ہیں تو وہ ہیتی طریق نقد کے اعلیٰ رمز شناس معلوم ہوتے ہیں ۔

٭٭٭

Qaisarul Jafri ka Muntakhab kalam

Articles

قیصر الجعفری کا منتخب کلام

قیصر الجعفری

 

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

کانٹوں پہ چلے لیکن ہونے نہ دیا ظاہر

تلووں کا لہو دھویا چھپ چھپ کے اکیلے میں

اے داور محشر لے دیکھ آئے تری دنیا

ہم خود کو بھی کھو بیٹھے وہ بھیڑ تھی میلے میں

خوشبو کی تجارت نے دیوار کھڑی کر دی

آنگن کی چنبیلی میں بازار کے بیلے میں


2

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے

تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو

کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے

وہ پھول جو مرے دامن سے ہو گئے منسوب

خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے

نہ جانے کیا ہے کسی کی اداس آنکھوں میں

وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے

تو اس طرح سے مرے ساتھ بے وفائی کر

کہ تیرے بعد مجھے کوئی بے وفا نہ لگے

تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصرؔ

کہ ایک گھونٹ میں ممکن ہے بد مزہ نہ لگے


3

پھر مرے سر پہ کڑی دھوپ کی بوچھار گری

میں جہاں جا کے چھپا تھا وہیں دیوار گری

لوگ قسطوں میں مجھے قتل کریں گے شاید

سب سے پہلے مری آواز پہ تلوار گری

اور کچھ دیر مری آس نہ ٹوٹی ہوتی

آخری موج تھی جب ہاتھ سے پتوار گری

اگلے وقتوں میں سنیں گے در و دیوار مجھے

میری ہر چیخ مرے عہد کے اس پار گری

خود کو اب گرد کے طوفاں سے بچاؤ قیصرؔ

تم بہت خوش تھے کہ ہمسائے کی دیوار گری


4

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو

شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن

آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا

جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں

شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے

شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے


5

تری گلی میں تماشا کیے زمانہ ہوا

پھر اس کے بعد نہ آنا ہوا نہ جانا ہوا

کچھ اتنا ٹوٹ کے چاہا تھا میرے دل نے اسے

وہ شخص میری مروت میں بے وفا نہ ہوا

ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی

ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا

مرے خلوص کی صیقل گری بھی ہار گئی

وہ جانے کون سا پتھر تھا آئینہ نہ ہوا

میں زہر پیتا رہا زندگی کے ہاتھوں سے

یہ اور بات ہے میرا بدن ہرا نہ ہوا

شعور چاہئے ترتیب خار و خس کے لیے

قفس کو توڑ کے رکھا تو آشیانہ ہوا

ہمارے گاؤں کی مٹی ہی ریت جیسی تھی

یہ ایک رات کا سیلاب تو بہانہ ہوا

کسی کے ساتھ گئیں دل کی دھڑکنیں قیصرؔ

پھر اس کے بعد محبت کا حادثہ نہ ہوا

Intekhab E Kalam Fani Badauni

Articles

انتخابِ کلام فانی بدایونی

فانی بدایونی

 

1

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا

ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری

ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں

آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں

راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے

ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ

آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی

یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں

سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا

ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں

لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق

دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا

چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ

دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں

کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا

ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں

کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں

دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ

آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا


2

اے اجل اے جان فانیؔ تو نے یہ کیا کر دیا

مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا

جب ترا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے

وہ چھپایا راز دل ہم نے کہ افشا کر دیا

کس قدر بے زار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر

جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا

یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے

بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا

دردمندان ازل پر عشق کا احساں نہیں

درد یاں دل سے گیا کب تھا کہ پیدا کر دیا

دل کو پہلو سے نکل جانے کی پھر رٹ لگ گئی

پھر کسی نے آنکھوں آنکھوں میں تقاضا کر دیا

رنج پایا دل دیا سچ ہے مگر یہ تو کہو

کیا کسی نے دے کے پایا کس نے کیا پا کر دیا

بچ رہا تھا ایک آنسودار و گیر ضبط سے

جوشش غم نے پھر اس قطرے کو دریا کر دیا

فانیؔ مہجور تھا آج آرزو مند اجل

آپ نے آ کر پشیمان تمنا کر دیا


3

لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا

اب یہ بھی زندگی کا سہارا نہیں رہا

تم مجھ سے کیا پھرے کہ قیامت سی آ گئی

یہ کیا ہوا کہ کوئی کسی کا نہیں رہا

کیا کیا گلے نہ تھے کہ ادھر دیکھتے نہیں

دیکھا تو کوئی دیکھنے والا نہیں رہا

آہیں ہجوم یاس میں کچھ ایسی کھو گئیں

دل آشنائے درد ہی گویا نہیں رہا

اللہ رے چشم ہوش کی کثرت پرستیاں

ذرے ہی رہ گئے کوئی صحرا نہیں رہا

دے ان پہ جان جس کو غرض ہو کہ دل کے بعد

ان کی نگاہ کا وہ تقاضا نہیں رہا

تم دو گھڑی کو آئے نہ بیمار کے قریب

بیمار دو گھڑی کو بھی اچھا نہیں رہا

فانیؔ بس اب خدا کے لیے ذکر دل نہ چھیڑ

جانے بھی دے بلا سے رہا یا نہیں رہا


4

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے

خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام

نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے

اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں

ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے

اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ

ابھی ابھی مری میت اٹھائی جاتی ہے

مرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر

مرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے


5

ہر گھڑی انقلاب میں گزری

زندگی کس عذاب میں گزری

شوق تھا مانع تجلی دوست

ان کی شوخی حجاب میں گزری

کرم بے حساب چاہا تھا

ستم بے حساب میں گزری

ورنہ دشوار تھا سکون حیات

خیر سے اضطراب میں گزری

راز ہستی کی جستجو میں رہے

رات تعبیر خواب میں گزری

کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر

کچھ امید جواب میں گزری

کس خرابی سے زندگی فانیؔ

اس جہان خراب میں گزری

Intekhab E Kalam Raes Amrohvai

Articles

رئیس امروہوی کا منتخب کلام

رئیس امروہوی

 

ستمبر 1914ء اردو کے نامور اور منفرد لب ولہجہ کے شاعرو ادیب رئیس امروہوی صاحب کی تاریخ پیدائش ہے۔
رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور وہ امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔
رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔
22 ستمبر 1988ء کو رئیس امروہوی ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔رئیس امروہوی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

 

رئیس امروہوی کا منتخب کلام

 

میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا

ایک سایہ مرے عقب میں چلا

صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی

میں اکیلا سوادِ شب میں چلا

جب گھنے جنگلوں کی صف آئی

ایک تارا مرے عقب میں چلا

آگے آگے کوئی بگولا سا

عالمِ مستی و طرب میں چلا

میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا

اور کبھی شدتِ غضب میں چلا

نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں

اور کس شخص کی طلب میں چلا

ایک انجان ذات کی جانب

الغرض میں بڑے تعب میں چلا

———————————

2

صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے

اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے

میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی

تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے

آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات

ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے

عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی

امتحاں اور محبت کے مری جاں ہوں گے

قلب پاکیزہ نہاد و دلِ صافی دے کر

آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے

صدقۂ تیرگیِ شب سے گلہ سنج نہ ہو

کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے

آج ہے جبر و تشدد کی حکومت ہم پر

کل ہمیں بیخ کنِ قیصر و خاقاں ہوں گے

وہ کہ اوہام و خرافات کے ہیں صیدِ زبوں

آخر اس دامِ غلامی سے گریزاں ہوں گے

صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی

نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے

صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ

بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے


 

3

سیاہ ہے دلِ گیتی سیاہ تر ہو جائے

خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے

کچھ اس روش سے چلے بادِ برگ ریز خزاں

کہ دور تک صفِ اشجار بے ثمر ہو جائے

بجائے رنگ رگِ غنچہ سے لہو ٹپکے

کھلے جو پھول تو ہر برگِ گل شرر ہو جائے

زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو

خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے

کوئی قدم نہ اٹھے سوئے منزل مقصود

دعا کرو کہ ہر اک راہ پُر خطر ہو جائے

یہ لوگ رہگزرِ زیست سے بھٹک جائیں

اجل قوافلِ ہستی کی ہم سفر ہو جائے

بہ قدرِ یک دو نفس بھی گراں ہے زحمتِ زیست

حیاتِ نوعِ بشر اور مختصر ہو جائے


 

4

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے

صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر

درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

ہر چند نازِ حسن پہ غالب نہ آ سکے

کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم

صبحِ ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن

یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ

تخلیقِ کائناتِ دگر کر رہے ہم

اے عرصۂ طلب کے سبک سیر قافلو

ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم

لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایاتِ زندگی

آرائشِ کتابِ بشر کر رہے ہیں ہم

تخمینۂ حوادثِ طوفاں کے ساتھ ساتھ

بطنِ صدف میں وزنِ گہر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ

یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم


 

5

چل اے دل!سوئے شہرِ جانانہ چل

بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل

یہی ہے تمنائے خواب و خمار

سوئے ارضِ افسون و افسانہ چل

یہی ہے تقاضائے شعر و شباب

سوئے شہرِ مہتاب و مے خانہ چل

بہ تعمیلِ منشورِ مے خانہ اُٹھ

بہ تجدیدِ پیمان و پیمانہ چل

مبارز طلب ہیں حوادث تو کیا؟

رجز پڑھ کے تُو رزم خواہانہ چل

مصائب ہیں ہنگامہ آرا تو ہوں

عَلَم کھول کر فتح مندانہ چل

جو مقصودِ خاطر ہے تنہا روی

تو آزاد و تنہا و یگانہ چل

جو تنہا روی کا سلیقہ نہ ہو

تو انجان راہوں میں تنہا نہ چل

اُٹھا دلق و کشکول و کاسہ اُٹھا

قلندر صفت چَل فقیرانہ چل

دف و چنگ و طاؤس و طنبور و نَے

بہ قانونِ شہرود و شاہانہ چل

شُتر بانِ لیلیٰ کو زحمت نہ دے

رہِ شوق میں بے حجابانہ چل

ابھی منزلیں منزلوں تک نہیں

ابھی دُور ہے شہرِ جانانہ چل

ابھی حُسن کی خیمہ گاہیں کہاں ؟

ابھی اور ویرانہ ویرانہ چل

ابھی شہرِ جاناں کی راہیں کہاں

ابھی اور بیگانہ بیگانہ چل

جَبل در جَبل دَشت در دَشت ابھی

جواں مردِ کہسار! مردانہ چل

وہ بنتِ قبیلہ نہ ہو منتظر

ذرا تیز اے عزمِ مستانہ چل

وہ سلمائے صحرا نہ ہو مضطرب

رَہِ دوست میں عذر خواہانہ چل

حریفوں کی چالوں سے غافل نہ ہو

کٹھن وادیوں میں حریفانہ چل

غزالوں کی آبادیاں ہیں قریب

غزل خوانیاں کر غزالانہ چل

بہت اجنبیت ہے اس شہر میں

چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل

——————————-

Literary & Linguistic Relation Between Arabic & Urdu

Articles

عربی اور اردو کے لسانی و ادبی روابط

پروفیسر یونس اگاسکر

 

بر صغیر کے اردو بولنے ، پڑھنے او ر لکھنے والوں کی اکثریت کی اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے وابستگی کے سبب عربی زبان ان کے دلوں میں الفت و احترام کے جذبات کو موجزن کر دیتی ہے مگر اسے سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کر لینے کے لیے جن عملی و ذہنی رکاوٹوں سے دو چار ہو نا پڑتا ہے ان کی وجہ سے اردو والے عموماً عربی سے پناہ مانگتے ہیں ۔ عربی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں کہہ سکتا ہوں کہ عربی کے لیے طلبہ کے دلوں میں استکراہ پیدا کرنے میں اس زبان کا اردو سے مختلف گرامر اور خصوصاً اس کی تدریس کا روایتی بلکہ دقیانوسی طریقہ ایک بڑا سبب بنتا ہے ۔ طالب علم کو گردانیں اور صیغے ذہن نشین کرانے میں اساتذہ جو سختی کرتے ہیں ، وہ طلبہ کے چمن ذہن و قلب آبیاری کی کرنے کے بہ جائے اس میں بادِ سموم پھیلانے کا کام کرتی ہے ۔ لیکن بے چارے اساتذہ بھی کیا کریں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ Shereiz no royal road in arobicاس کے باوجود جب ہم اردو زبان کے لسانی رگ و ریشے او رادبی و روپ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں عربی زبان ، اردو کے خون میں گردش کرتی نظر آتی ہے اور جس طرح انسان اپنے اند رخون کی گردش کو محسوس نہیں کر سکتا، اسی طرح ایک عام اردو والااپنی زبان میں شامل عربی کے الفاظ کو نہیں پکڑ سکتا جب تک کہ وہ اچھی نبض شناسی نہ سیکھ لے ۔
اردو زبان میں روز مرہ بات چیت ہو کہ علمی گفتگو ، سائنسی و تکنیکی تحقیق و تدقیق ہو کہ ادبی و شعری تنقید و تخلیق ، تذکر ہ ہو یا تجزیہ ، تعارف ہو یا تبصرہ عربی سے استعانت کے بغیرنوالہ توڑنا مشکل ہو تا ہے ۔ اردو تحریرو تقریر میں عربی کی مانوس اصطلاحات و تعبیرات یا معروف تراکیب کو تو ہم ان کی خصوصی و امتیازی حیثیت کے سبب بڑی آسانی سے پہچان لیتے ہیں ، لیکن بہت سے لفاظ و تراکیب اتنی خاموشی سے ہماری زبان میں سرایت کر گئی ہیں کہ ان کی نشان دہی کرنا بھی آسان نہیں ہو تا ۔
مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی جھجھک نہیں محسوس ہوتی کہ ہندی کے مقابلے میں اگر اردو کی الگ شناخت فارسی سے زیادہ عربی عناصر کے سبب قایم ہوتی ہے ۔ عربی کے لسانی عناصر سے مملو تحریر کو خواہ اردو رسمِ خط میں لکھا جائے خواہ دیو ناگری لپی میں ، وہ فوراً بول پڑے گی کہ میں اردو ہوں ۔ خیر اردو ہندی کا ٹنٹا کھڑا کیے بغیر میں اس وقت ایسی تین مثالیں دینا چاہوں گا جن سے بآسانی پتا چل سکے گا کہ تمام پڑھے لکھے اردو دانوں کی تحریر و تقریر خواہ وہ عمومی ہو یا اختصاصی ، عربی کے لسانی و ادبی عناصر سے مملو ہوتی ہے ۔ یاد رہے یہ مثالیں منفرد نہیں ہیں اور اس طرح کی مثالیں کسی بھی اخبار یا رسالے سے اخذ کی جا سکتی ہیں ۔ میں نے یہ مثالیں ممبئی سے شایع ہونے والے ایک رسالے ’ اردو چینل کے تازہ شمارے سے اخذ کی ہیں جو دو روز قبل ہی مجھے موصول ہوا ہے ۔ سب سے پہلے میں مرحوم رشید حسن خاں کے ایک انٹرویو کے چند جملے پیش کروں گا ۔ ملاحظہ فرمائیں :
” ہمارے ہاں شرح نگاری کی جو قدیم روایت تھی ، اس میں کسی بھی شرح نگار نے یہ نہیں کہا کہ ایک شعر کا ایک ہی مفہوم ہوتا ہے ۔ ہمیشہ مانا گیا ایک شعر کے متعدد مفاہیم ہو سکتے ہیں لیکن وہ مفاہیم بر آمدانھیں الفاظ سے ہوں گے ، خارج سے نہیں آئیں گے اور الفاظ جن مفاہیم سے مناسبت نہ رکھتے ہوں ان کو شاعر سے منسوب نہیں کیا جا سکتااور نہ شعر سے “
اس ٹکڑے میں ’ شرح نگاری‘ کی ترکیب میں فارسی شامل ہے اور دو لفظ فارسی کے آزادانہ طور پر استعمال ہوئے ہیں ’ ہمیشہ ‘ اور ’ بر آمد‘ ۔ ان کے علاوہ باقی سارے الفاظ ( ہندی کے افعال و حروف سے قطع نظر) عربی کے ہیں ۔اب ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس مین قاضی محمد عدیل عباسی کے بارے میں صرف یہ اطلاع دی گئی ہے کہ انھوں نے دور طالبعلمی ہی سے تحریک آزاد ی میں حصہ لینا شروع کردیا تھا ۔
1920ءمیں بی اے پاس کیا ۔ پھر قانون کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے ا لٰہ آباد گئے ۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے اسکول آف لا میں داخلہ لیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ترک موالات کی تحریک زوروں پر تھی ۔ قاضی صاحب اس تحریک سے بہت متاثر ہوئے اور جلد ہی یونی ورسٹی کو خیر آباد کہہ کر تحریک آزادی سے جڑ گئے ۔ تحریک ترکِ موالات کی حمایت میں ملک کے مختلف حصوں میں جلسے ہوتے ۔ ان جلسوں میں قاضی صاحب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور تقریریں کرتے تھے ۔“
اس تحریر میں بھی صرف دو لفظوں میں فارسی کا اثر ملتا ہے ” زوروں “ اور ” خیر آباد “۔ باقی سارے الفاظ ( ہندی کے افعال و حروف سے قطع نظر ) عربی کے ہیں ۔ یعنی ایک سیدھی سادی معلوماتی تحریر میں بھی بنیادی الفاظ عربی سے ماخوذ ہیں جن کی مدد کے بغیر مصنف کا قلم آگے نہیں بڑھ سکتا ۔
اب میں تیسری مثال ایک ایسی تحریر کی دینا چاہوں گا جس میں ادب میں مستعمل اصطلاحات کی مدد سے ایک ادبی تھیوری سے متعلق کسی اردو ناقد کی پیش کردہ وضاحت کا تعارف پیش کیا گیا ہے :
” مصنف کا موقف بھی یہی ہے کہ ساسیور اور دریدا کی اس لسانی تھیوری کا نہ صرف تفصیلی مطالعہ کیا جائے بلکہ توضیحات او ر دلائل کے ساتھ اردو ادب کے تخلیقی متون پر بھی اس کا اطلاق کیا جائے جن کی نشانیاں ہمیں بڑے ناقد کے یہاں ملنے لگی تھیں ۔ ان مباحث سے پرے کی مذکورہ محتویات دیگر نظریہ ساز قبول کریں گے بھی یا نہیں ، ان کا سراغ لگانا اور صراحت کے ساتھ بیان کرنا،ایک دقت طلب مرحلہ تھا ۔“
اس اقتباس میں بھی ” نشانیاں “ ’ سراغ“ اور ” نظریہ ساز“ ان تینوں لفظوں اور ہندی کے افعال و حروف سے صرف نظر کریں تو تقریباً بیس لفظ یا ترکیبیں عربی سے ماخوذ ہیں ۔
ان تین مثالوں کا مزید تجزیہ کیے بغیر بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اردو سے عربی کا لسانی و ادبی رشتہ بہت گہرا اور قریبی ہے اور اس پر گفتگو کے لیے ایک سیمنار کا انعقاد نہایت موزوں اقدام ہے ۔ یہاں البتہ ایک خطرے کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ عربی دنیا کی عظیم ترین زبانوں میں سے ایک ہونے او ر اردو پر اسے کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہونے کے سبب شرکائے مذاکرہ مرعوبیت کا شکارہ نہ ہو جائیں اور اردو کو ایک آزاد اور خود مختار زبان سمجھنے کے بہ جائے اسے عربی کی دست نگر اور خوشہ چیں کے طور پر نہ پیش کرنے لگیں ۔ ان کو ایسے میں انشاءاللہ خاں انشاکی یہ با ت یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی لفظ خواہ عربی کا ہو، فارسی کا ہو یا ترکی کا، جب اردو میں آگیا تو اردو کا ہو گیا ۔ اب تلفظ ،معنی اور محل استعمال کے اعتبار سے وہ اردو کے چلن اور قاعدے کا پابند ہو گا ۔ انشا کے اس قول میں صرف لفظ املا کا اضافہ کر دیا جائے تو بات اور بھی مکمل ہو جائے گی ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ عربی کے علماو اساتذہ اردو والوں کے تلفظات ، عربی الفاظ کے معانی و محلّ ِاستعمال اور ان کے املا پر تضحیک آمیز انداز میں اعتراض کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ انھیں جاہل ٹھہرانے میں بھی کمی نہیں کرتے ۔ ایسے ہی دو تین عربی داں علما نے ’ قاموس الاغلاط“ کے نام سے ایک چھوٹی سی فرہنگ مرتب کی تھی اور اردو کے بیش تر اہل ِ قلم کی تحریروں سے مثالیں دے کر الفاظ کو ان کے اصلی عربی معنی ، محاورے اور تلفظ کے مطابق استعمال نہ کرنے پر انھیں اعتراض بلکہ استہزا کا نشانہ بنایا تھا ۔ ایسا ہی ایک لفظ ” مشکور “ ہے ۔ جسے شاکر یا متشکر سے بدلنے کا مشورہ اردو والوں کو گذشتہ ایک صدی سے دیا جا رہا ہے جب کہ یہ لفظ شبلی اور حالی تک کی تحریروں میں ’شکر گذار ‘کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور مولانا سید سلیمان ندوی جیسے عربی کے جید عالم نے ’ مقالاتِ سلیمانی‘ میں مشکور کی جگہ شاکر یا متشکر بولنے اور لکھنے کا مشورہ دینے والوں کے سلسلے میں اردو والوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ شکریے کے ساتھ یہ مشورہ انھیں کو لوٹا دیں ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی صاحب اپنے مقالے میں اردو میں مستعمل ایسے تمام نہیں تو بیش تر الفاظ کو جو ’ معنی ، ’ تلفظ‘ املا اور محلِّ استعمال کے اعتبار سے قطعاً اردو کے ہو گئے ہیں ، زیر بحث لائیں اور معترضین کے ساتھ اردو کے عام قارئین کے ذہنی جالوں کو بھی صاف کریں ۔
بر صغیر میں اسلامی و مشرقی علوم و فنون خصوصاً تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، طب یونانی کے علاوہ فن تعمیر ، علم ہندسہ ، نقاشی،خطّاطی وغیرہ سے اردو والوں کو خاص جڑاو¿ اور لگاو¿رہا ہے ۔ چنانچہ ان شعبوں سے متعلق وہ تمام اصطلاحات و اظہارات جو عربی سے ماخوذ ہیں ، اردو میں بھی مستعمل ہیں ۔ ان مستعار عناصر کے سبب اردو کا رشتہ عربی سے کتنا گہرا اور پر معنی ہو گیا ہے ، اس پرتحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالنا بھی مفید ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ شرکائے مذاکرہ میں سے کسی نہ کسی نے اس پر توجہ کی ہو گی ۔
اردو اور عربی کے درمیان لسانی و ادبی رشتے کی جڑوں کے تلاش میں تراجم کا جائزہ لینا بھی کار آمد ہو سکتا ہے ۔ صرف قرآن کے ہی تراجم کا لسانی و ادبی تجزیہ کیا جائے تو اردو کے اسلوبیاتی ارتقا کی تاریخ کا ایک مختلف باب وا ہوسکتا ہے۔ قرآن کے متعدد تراجم کا تقابلی جائزہ بھی نہایت سنجیدگی اور ارتکاز کا تقاضا کرتا ہے اور اس سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے اردو کے ساتھ عربی پر بھی غیر معمولی عبور کی ضرور ت ہے ۔ ممکن ہے اس مجلس میں موجود علما میں کوئی عربی داں صاحب نظر اسکالر اس پہلو کو بھی لائق توجہ سمجھیں اور سیمنار کے بنیادی مو ضوع کی تکمیل میں معاون ثابت ہوں ۔
عربی سے اردو تراجم کی دنیا تو اتنی وسیع ہے کہ صرف اسی موضوع پر ایک سہ روزہ سیمنار منعقد ہو سکتا ہے اور اس کے بعد بھی شاید تشنگی باقی رہے ۔معزز سامعین ! میں نے قصداًاپنی تقریر میں محض بنیادی موضوع کے بعض پہلوو¿ں کی نشان دہی کو ملحوظ رکھا ہے۔ ممکن ہے اس سے آپ کی تشنگی رفع نہ ہوئی ہو اور آپ نے مجھ سے جو توقع وابستہ کی ہو وہ بھی پوری نہ ہوئی ہو ۔ لیکن آپ خاطر جمع رکھیں ۔ میرے بعد صدر محترم کے خطبہ¿ صدارت اور سیمنار میں شریک اہل علم کے مقالات سے آپ کے ذوق و جستجو کی سیرابی یقینا ہوگی اور آپ کے ساتھ یہ ناقص العلم بھی یہاں سے فیض یاب ہو کے چلے گا ۔
٭٭٭

Mushaira, Urdu Department, Mumbai University

Articles

مشاعرہ ، شعبہ اردو ، ممبئی یونیورسٹی

Mumtaz shiireen

Articles

ممتاز شیریں: شخصیت اور فن (خطوط کے آئینے میں)

ڈاکٹر تنظیم الفردوس

ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کوہندو پور، آندھرا پردیش ، ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ ممتاز شیریں کے نانا ٹیپو قاسم خان نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی خاطر اپنے پاس میسور بلا لیا ۔اس طرح وہ بچپن ہی میں اپنے ننھیال میں رہنے لگیں۔ ممتاز شیریں کے نانا اور نانی نے اپنی اس ہو نہار نواسی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ وہ خود بھی تعلیم یافتہ تھے اور گھر میں علمی و ادبی ماحول بھی میسر تھا ۔ممتاز شیریں ایک فطین طالبہ تھیں انھوں نے تیرہ (13)برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے ۔1941ء میں ممتاز شیریں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی اے کا امتحان پاس کیا ۔1942ء میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ممتاز شیریں نے 1944ء میں اپنے شوہر صمد شاہین سے مل کر بنگلور سے ایک ادبی مجلے “نیا دور” کی اشاعت کا آغاز کیا۔اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسائل ادب اور تخلیقی محرکات کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے لانے کی سعی کی گئی ۔صمد شاہین پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے ۔انھوں نے وکالت کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ حکومت پاکستان میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے بیورو آف ریفرنس اینڈ ریسرچ میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے۔ ممتاز شیریں نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ۔ان کی سنجیدگی ،فہم و فراست ،تدبر و بصیرت اور وسیع مطالعہ نے انھیں سب کی منظور نظر بنا دیا۔ ہر جماعت میں وہ اول آتیں اور ہر مضمون میں امتحان میں وہ سر فہرست رہتیں۔ ملک کی تقسیم کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کر کے کراچی پہنچا۔ کراچی آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے نیا دور کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کاآغاز ہو گیا لیکن 1952ء میں ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی۔ ادبی مجلہ نیادور ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ ممتاز شیریں نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد وہ برطانیہ چلی گئیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیااور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کیا۔ ممتاز شیریں کی دلی تمنا تھی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کی تعلیم جاری رہے اور وہ اس عظیم جامعہ سے ڈاکٹریٹ (ڈی فل ) کریں لیکن بعض ناگزیر حالات اور خاندانی مسائل کے باعث وہ اپنا نصب العین حاصل نہ کر سکیں اور انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے پاکستان وا پس آنا پڑا۔ اس کا انھیں عمر بھر قلق رہا۔

ممتاز شیریں نے 1942ء میں تخلیق ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ان کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلہ ساقی دہلی میں 1944ء میں شائع ہو ا تو ادبی حلقوں میں اسے زبردست پذیرائی ملی ۔اس افسانے میں ممتاز شیریں نے فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو جس مو ثر انداز میں پیش نظر رکھا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ افسانہ کیا ہے عبرت کا ایک تازیانہ ہے ۔ایک لڑکی بچپن میں اپنی ہی جنس کی ایک دوسری عورت سے پیمان وفا باندھ لیتی ہے۔ جب وہ بھر پور شباب کی منزل کو پہنچتی ہے تو اس کے مزاج اور جذبات میں جو مد و جزر پیدا ہوتا ہے وہ اسے مخالف جنس کی جانب کشش پر مجبور کر دیتا ہے۔ جذبات کی یہ کروٹ اور محبت کی یہ انگڑائی نفسیاتی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل ہے ۔بچپن کی نا پختہ باتیں جوانی میں جس طرح بدل جاتی ہیں، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس ا فسانے کا اہم موضوع ہے۔ مشہور افسانہ انگڑائی ممتاز شیریں کے پہلے افسانوی مجموعے اپنی نگریا میں شامل ہے ۔وقت کے ساتھ خیالات میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے ۔یہ تجربہ جہاں جذباتی اور نفسیاتی اضطراب کا مظہر ہے وہاں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منابع کا سراغ بھی ملتاہے ۔ وہ ایک مستعد اور فعال تخلیق کار تھیں ۔ان کے اسلوب کوعلمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

اردو ادب میں حریت فکر کی روایت کوپروان چڑھانے میں ممتاز شیریں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔وہ عجز و انکسار اور خلوص کا پیکر تھیں ۔ظلمت نیم روز ہو یا منٹو نوری نہ ناری ہر جگہ اسلوبیاتی تنوع کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اور محمود ہاشمی کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔قدرت اللہ شہاب کی تصنیف “یا خدا” اور محمود ہاشمی کی تصنیف “کشمیر اداس ہے” کا پیرایۂ آغاز جس خلوص کے ساتھ ممتاز شیریں نے لکھا ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کے ارفع معیار کی دلیل ہے ۔وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت ان کے قلب ،جسم اور روح سے عبارت تھی ابتدا میں اگرچہ وہ کرشن چندر کے فن افسانہ نگاری کی مداح رہیں مگر جب کرشن چندر نے پاکستان کی آزادی اور تقسیم ہند کے موضوع پر افسانوں میں کانگریسی سوچ کی ترجمانی کی تو ممتاز شیریں نے اس انداز فکر پر نہ صرف گرفت کی بلکہ اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے کرشن چندر کے بارے میں اپنے خیالات سے رجوع کر لیااور تقسیم ہند کے واقعات اور ان کے اثرات کے بارے میں کرشن چندر کی رائے سے اختلاف کیا۔ممتاز شیریں نے اردو ادب میں منٹو اور عصمت چغتائی پر جنس کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے ان کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ممتاز شیریں کا تنقیدی مسلک کئی اعتبار سے محمد حسن عسکری کے قریب تر دکھائی دیتا ہے۔ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز ان کا سلوک ان کی شخصیت کاامتیاز ی وصف تھا ۔ان کے اسلوب کی بے ساختگی اور بے تکلفی اپنی مثال آپ ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اسلوب کی ندرت کے اعجاز سے انھوں نے ادب ،فن اور زندگی کو نئے آفاق سے آشنا کیا ۔ان کے ہاں فن کار کی انا، سلیقہ اور علم و ادب کے ساتھ قلبی لگاﺅ، وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ وابستگی کی جو کیفیت ہے وہ انھیں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے ۔ادب کو انسانیت کے وقاراور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے کی وہ زبردست حامی تھیں ۔انھوں نے داخلی اور خارجی احساسات کو جس مہارت سے پیرایہ ءاظہار عطا کیا ہے وہ قابل غور ہے ۔

ممتاز شیریں کو انگریزی ، اردو ،عربی، فارسی اور پاکستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس حاصل تھی ۔عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا۔ زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیں اور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی سے اس کے نہاں خانہ دل میں جا گزیں تھا ۔اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے ۔ ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں۔ تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں، نئے امکانات، نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں ۔ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو تنقید پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد دکھائی نہیں دیتی ۔ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کردیا ۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے تاریخ ادب میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لا ئق صد رشک و تحسین کا م اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔

1954ء میں ہالینڈ کے دار الحکومت ہیگ میں ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ا س عالمی ادبی کانفرنس میں عالمی ادب اور انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں وقیع مقالات پیش کیے گئے ۔ممتاز شیریں کو اس عالمی ادبی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔اس عالمی ادبی کانفرنس میں ممتاز شیریں نے دنیا کے نامور ادیبوں سے ملاقات کی اور عالمی ادب کے تناظر میں عصری آگہی کے موضوع پر ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ادب کو وہ زندگی کی تنقید اور درپیش صورت حال کی اصلاح کے لیے بہت اہم سمجھتی تھیں ۔

اپنی تخلیقی کامرانیوں سے ممتاز شیریں نے اردو دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ۔رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے ان کے توانا اور ابد آشنا اسلوب میں سمٹ آئے تھے۔ ان کی تمام تحریریں قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثرآفرینی سے لبریز تھیں۔ ممتاز شیریں کی درج ذیل تصانیف انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز کریں گی ۔

افسانوی مجموعے

  • اپنی نگریا
  • حدیث دیگراں
  • میگھ ملہار
  • ظلمت نیم روز (فسادات کے افسانے) ترتیب: ڈاکٹر آصف فرخی

تنقید

  • معیار
  • منٹو، نوری نہ ناری

مدیر

  • نیا دور (ادبی جریدہ)

تراجم

  • درشہوار (جان اسٹین بیک کا ناول دی پرل کا ترجمہ)
  • پاپ کی زندگی ( امریکی افسانوں کا مجموعہ)

ممتاز شیریں پر کتب

ملازمت

ممتاز شیریں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات پر مامور تھیں ۔

وفات

ممتاز شیریں کو 1972ء میں پیٹ کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا ۔مرض میں اس قدر شدت آگئی کہ 11 مارچ 1973ء کو پولی کلینک اسلام آباد میں وہ انتقال کر گئیں ۔ تانیثیت (Feminism) کی علم بردار حرف صداقت لکھنے والی اس با کمال ،پر عزم ،فطین اور جری تخلیق کار کی الم ناک موت نے اردو ادب کو نا قابل اندمال صدمات سے دوچار کر دیا۔


 

ممتاز شیریں: شخصیت اور فن

(خطوط کے آئینے میں)

ڈاکٹر تنظیم الفردوس

اُردو ادب میں ممتاز شیرین چند نہایت عالمانہ بصیرت کی حامل مصنفوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ وہ اُردو کے تین بہترین افسانہ نگاروں میں بے شک شامل نہ کی جائیں لیکن اس فن میں ان کی ہنرمندی، ادبی شعور، تخلیقی حساسیات اور ذہانت نے شامل ہوکر اُردو افسانے اور اس کی تنقید کو بہت کچھ دیا ہے۔ فنِ تنقید کے عمومی موضوعات کے حوالے سے بھی شیرین نے ستھرا اور اعلٰی درجے کا کام کیا اور عملی تنقید کے بہترین نمونے بھی فراہم کیے۔ ایک صحافی اور اپنے وقت کے اہم ادبی رسالے کی مدیرہ و منتظمہ کی حیثیت سے بھی انہوں نے نمایاں شناخت حاصل کی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے عالمی افسانوی ادب کے تراجم کا سلسلہ بھی شروع کیا جو ان کی ادبی تنوع پسندی کی ایک انفرادی جہت ہے۔
اسی طرح مشاہیر، ہمعصر ادیبوں اور دوستوں کے نام اُن کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت کے مختلف النوع پہلووں کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اپنے عصر کے حالات، ادبی تاریخ، رُجحانات، مسائل اور سرگرمیوں کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ اِن خطوط سے ممتاز شیریں کی زندگی کے اُن گوشوں کی نقاب کشائی بھی ہوتی ہے جن کی مدد سے ان کی رواداری اور متواضع شخصیت کا علم ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے جتنے خط منظرِ عام پر آنے چاہئے تھے وہ نہ آسکے جب کہ وہ برسوں ایک اہم رسالے کی ادارت کرتی رہیں۔ محض اس ایک ذمہ داری کی وجہ سے اپنے عہد کے بے شمار مشاہیرکو انھوں نے خطوط تحریر کیے ہوں گے۔ اگر وہ تمام خط سامنے آسکیں تو یقیناً ادبی دُنیا کو اُن کے افکار و تصورات کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوسکیں گی۔
ہر لکھنے والے کے لیے خط تحریر کرتے ہوئے نہ کوئی محّرک  ضرور ہوتا ہے اور اسی محّرک کی بنا پر مکتوب نگار اپنی حد تک مکتوب نویسی کا کوئی نہ کوئی ضابط متعین کر لیتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مکتوب نگار کی آواز سو فیصد ذاتی ہوتی ہے۔ حالاں کہ اپنی عملی زندگی میں وہی مکتوب نگار اپنی ایک منفرد سماجی آواز بھی رکھتا ہے اور اس کی ادبی تخلیقات میں بھی اس کی ایک علیحدہ آواز گونجتی ہے۔ لیکن خطوط میں مکتوب نگار کی آواز ایک ایسے انسان کی آواز “ایک ایسے انسان دوست کی ہوتی ہے جو عظیم فنکار ہوتے ہوئے بھی ایک عام انسان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو خلوت کدے میں اپنے چہرے اور تہہ دار تہہ شخصیت سے تمام پردے ہٹا دیتا ہے۔”۱
بے شک ایک اچھے خط کو ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب مکاتیب کی تحریر کے وقت اس کی اشاعت کا کوئی منصوبہ ذہن میں نہ ہو۔ ہمارے مشہور مکتوب نگاروں کے مجموعہ مکاتیب کے حوالے سے یہ دونوں صورتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کسی بھی صورت میں اگر اسلوب میں روانی، بیان میں پختگی اور ہمعصر رجحانات پر گہری نظر مکاتیب کا خاصہ ہو تو ان کی ادبی حیثیت مسلمہ ہے۔
ممتاز شیرین نے رشتہ داروں، دوستوں ہم عصروں اور ادبی دُنیا کے نامور مدیروں کو بے شمار خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ان کے ذاتی معاملات کا بیان بھی ہے، ادبی مباحثوں پر تبصرے بھی ہیں، ادبی دُنیا کی بے مہری کے تذکرے بھی ملتے ہیں اور اپنی تصانیف پر بے لاگ تنقید کا انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ افسانہ نگاری اور افسانہ نگاری کی تنقید کے حوالے سے بہت سے خطوط میں وہ اپنے ادبی موقف کا اظہار کرتی ہیں۔ یہ خطوط  زیادہ خالص اور حقیقی جذبات کی موثر نشاندہی کرتے ہیں۔
ابوبکر عباد اپنی کتاب میں ممتاز شیرین کے خطوط کو بلحاظِ موضوع چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔
۱۔        اپنے اور اپنے فن کے بارے میں
۲۔        دوسرے افراد اور ان کے رویوں سے متعلق
۳۔        ذاتی نوعیت کے
۴۔        سیاحت کے احوال و واقعات پر مشتمل۔ ۲
پہلے دو اقسام کے خطوط اکثر ادبی دوستوں، رسالوں کے مدیروں اور اپنے فن کے کھرے نقادوں کو لکھے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ انہی میں کچھ افراد سے نجی مراسم بھی گہرے تھے۔ لٰہذا انھیں اور بعض عزیزوں کو ذاتی حالات و معاملات پر مبنی خطوط بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ چوتھی قسم کے خطوط میں اہم ترین خط وہ ہیں جو انھوں نے مختلف ممالک میں قیام کے دوران صمد شاہین کی بھانجی اور اپنی عزیز دوست زینت جہاں کو لکھے تھے۔ تاج سعید نے ان کے انتقال کے بعد جب “قند” کا “ممتاز شیرین نمبر” نکالنے کا منصوبہ بنایا تو صمد شاہین کی وساطت سے انھین انگریزی میں لکھے گئے ان خطوط کا اسی (۸۰) سے زائد صفحات پر مشتمل مسودہ موصول ہوا۔ جن میں سے انتخاب کے بعد ان میں کچھ کا ترجمہ کرواکے مذکورہ نمبر میں شامل کر لیا گیا۔
ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے اہم خطوط میں محمد سلیم الرحمٰن کے نام خطوط مشمولہ “قومی زبان” ۱۹۹۰ء ونیز “سوغات” (بنگلور( شمارہ نمبر۳، ستمبر ۱۹۹۲ء ضمیر الدین احمد کے نام مشمولہ “سوغات” (کراچی) شمارہ نمبر ۶، مارچ ۱۹۹۴ء۔ شاہد حمید کے نام مشمولہ “صحرابیں” (لاہور) ۱۹۹۲ء۔ محمود ایاز کے نام مشمولہ “سوغات” (بنگلور)، شمارہ نمبر ۳، ستمبر ۱۹۹۲ء۔ اوپندر ناتھ اشک کے نام۔ ۳ بنام نظیر صدیقی مشمولہ “نامے میرے نام آئے” کے علاوہ مدیر نقوش محمد طفیل کے نام ۴۲ خطوط “تحقیق نامہ” : جی سی یونیورسٹی، ۲۰۰۶ میں صفحہ نمرب ۳۴۵ تا ۳۸۶ میں شائع ہوئے۔ /لاہور کے خصوصی شمارہ ۲۰۰۵
اپنے افسانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بسا اوقات مبصرین کی رائے سے اتفاق کرتی ہیں، کھبی وضاحتی انداز اختیار کرتی ہیں اور کھبی ناقدین کی رائے سے قطعی عدم اتفاق کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مثلاً محمد سلیم الرحمٰن نے ان کے مجموعے “میگھ ملہار” پرپاکستان ٹائمز میں تبصرہ کیا تھا جس کا لہجہ بے حد سخت تھا۔ ۱۹۶۳ء میں سلیم الرحمٰن کی ممتاز شیرین سے براہِ راست خط و کتابت جاری تھی تو شاید کسی موقع پر سلیم الرحمٰن نے ندامت ظاہر کی ہوگی۔ اس کے جواب میں وہ لکھتی ہیں:
“نادم ہونے کی بھی آپ نے ایک کہی۔ جب آپ نے یہ سب کچھ سچائی سے محسوس کرکے
لکھا ہے تو اس میں نادم ہونے کی کیا بات ہے۔ ویسے بھی میں ان زود حِس قسم کے ادیبوں
میں سے نہیں ہوں جو ذراسی بھی تنقید کا برامان جاتے ہیں جب میں خود نقاد ہوں تو اپنی
تحریروں پر دوسروں کی تنقید کو بھی برداشت کرسکتی ہوں۔” ۴
لیکن شاہد حمید کے نام ۱۶ ستمبر ۱۹۵۰ء کے خط میں وہ شاہد حمید کی اپنے افسانوں سے متعلق رائے کو بالکل مسترد کردیتی ہیں۔ الگ الگ افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان افسانوں سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا حوالہ دیتی ہیں اور اپنے افسانے “آئینہ” کو وقیع اور بلند قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں:
“دوسروں کے افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے اگر میں معروضیت برت سکتی ہوں تو اپنے متعلق بھی مرا رویہ مختلف نہیں ہوتا۔ اور اپنے افسانوں کے بارے میں اگر میں بہت زیادہ خوش فہم نہیں (کیوں کہ برائے ادب کا مجھے کچھ اندازہ ہے) تو بدظن بھی نہیں ہوں۔ اتنی خود اعتمادی مجھ میں ہے”۔۵
اسی خود اعتمادی کا مظاہرہ وہ ضمیر الدین احمد کے نام اپنے خط میں اس انداز میں کرتی ہیں:
“آپ کو اس کی شکایت ہے کہ وقار عظیم صاحب نے “ساقی” میں میرے بارے میں مضمون میں آپ کو یونہی ذکر کردیا ہے۔ اب اسے کیا کہیے گا کہ عبادت بریلوی نے “ساقی” میں پچیس سالہ تنقید پر مضمون میں میرا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ حالاں کہ بعض اونچے ادبی حلقوں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دو ہی وقیع نقاد ہیں۔ ایک عسکری صاحب ایک میں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جان بوجھ کر مجھے نظراندازکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی وجہ کا بھی اندازہ ہے کہ کیوں؟ میں لحاظ سے داد نہیں چاہتی کہ عورتوں میں میں ایک ہی نقاد ہوں۔ ادب میں عورت مرد کی تفریق کیوں لایا جائے۔ دونوں کی ادبی حیثیت ساتھ ساتھ متعین کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک ایسے مضمون میں جس میں ان تک کا ذکر ہو جنھوں نے صرف ایک ایک تنقیدی مضامین لکھے ہیں، میرا نام تک نہ لیا جائے تعجب خیز ہے۔” ۶
اس طرح اپنے تراجم کے سلسلے میں کئی خطوط میں تذکرہ کرتی ہیں۔ کامیوں کے ناول “اجنبی” کے ترجمے کے حوالے سے ۲۹ جنوری ۱۹۶۳ء نظیر صدیقی کو لکھتی ہیں:
“اس وقت میں کاموکی کتاب کا ترجمہ کر رہی ہوں۔ یہ ابھی ممکن نہیں ہوا ہے۔ مکتبہ جدید کا تقاضا ہے کہ جلد از جلد مکمل کرلوں۔ ترجمے کے علاوہ دیباچہ کے طور پر ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سیر حاصل مضمون بھی چاہتے ہیں۔ اسی کام میں لگی ہوئی ہوں۔” ۷
لیکن محمد سلیم الرحمٰن کے نام اپنے خط میں لکھتی ہیں کہ:
“اجنبی” کا یا کسی اور کتاب کا ترجمہ نہیں کررہی۔ جن دنوں میں “اجنبی” کا ترجمہ کر رہی تھی مجھے معلوم ہوا کہ ایک اور مکتبے والے کسی اور صاحب سے اس کا ترجمہ پہلے ہی کراچکے ہیں۔” ۸
اس خط کے حاشیے میں سلیم الرحمٰن  لکھتے ہیں کہ:
“ترجمہ “بشیر چشتی” نے کیا تھا۔ ممتاز شیرین ترجمہ کرتیں تو خوب ہوتا۔ نامکمل ترجمے کا مسودہ شاید ان کاغذات میں موجود ہو۔” ۹
محمد سلیم الرحمٰن ہی کے نام ایک اور خط میں وہ “میگھ ملہار” پر ان کے کیے ہوئے تبصرے کو سراہتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
“آپ نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ “میگھ ملہار” میں میرے فن کی سب سے نمائندہ، بہترین اور اصل تخلیق “کفارہ” ہی ہے۔ “کفارہ” میگھ ملہار” کی طرح صرف ادبی تجربہ نہیں ہے بلکہ ایک سچا تجربہ ہے۔ ایک روح کا   نہیں لکھا۔ میں نے اسے بھی ایک کیفColdbloodeallyاور Calculatinglyتجربہ۔ ویسے “میگھ ملہار” بھی نے
اور Learningاور سرشاری میں ڈوب کر لکھا تھا۔ البتہ اس افسانے میں آگے چل کر جیسا کہ آپ نے لکھا ہے،
میں توازن قائم کرنا مشکل ہوگیا۔”۱۰Creativity
اسی افسانے کے بارے میں محمود ایاز کو لکھتی ہیں:
ہو رہی ہے۔ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ مظفر علی سید کے اس  Controversial          “آج کل یہ کتاب خوب
مضمون کے علاوہ ڈاکٹر احسن فاروقی نے “سات رنگ” کے سالنامے کے لیے بہت تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ “نیا  رہی اور یہ تو آپ کوRunner Upدور” میں سلیم احمد طویل مضمون لکھ رہے ہیں۔ آدم جی پرائیز کے لیے یہ کتاب
معلوم ہی ہوگا کہ بہترین افسانے کا انعام “کفارہ” کو ملا۔” ۱۱
“سوغات” (بنگلور) میں شیرین کے ایک خط کے حاشیے میں محمود ایاز نے لکھا ہے:
“مرحومہ کی خواہش پر اس کا انگریزی سے ترجمہ میں نے کیا تھا”۱۲
اگرچہ ممتاز شیرین نے اپنی بہت سی تحریروں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ “کفارہ” بنیادی طور پرکے نام سے تحریر کیا گیا تھا۔ مگر اتفاق سے کسی مقام پر بھی انھوں نے“The Atonement”انگریزی میں
“کفارہ” کے مترجم کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے کئی افسانوں اور مضامین کے ترجمے لوگوں نے کیے۔ بلکہ ایک خط میں محمود ایاز ہی کو ۹ مئی ۱۹۶۳ء کو لکھتی ہیں:
“اگر اب بھی گنجائش ہو تو ایک چیز بھیج رہی ہوں۔ ایک مختصر سا انگریزی مضمون جو مجھ سے پطرس بخاری نے لکھوایا تھا۔ وہ ایک کتاب مرتب کر رہے تھے جس کے لیے انھوں نے دنیا بھر کے فلسفیوں، سائنس دانوں اور ادیبوں وغیرہ سے اس طرح کے تاثرات طلب کیے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مجھے بھی لکھا تھا۔ پھر نہیں معلوم اس کتاب کا کیا ہوا۔ شاید کتاب مرتب ہونے سے پہلے ہی پطرس بخاری صاحب وفات پاگئے۔ میں جانتی ہوں آپ بے حد مصروف ہیں لیکن مضمون چھوٹا سا ہے اگر مریم زمانی ایز ترجمے کے لیے تھوڑا سا وقت نکال سکتی ہوں تو پھر ان کے سپرد کر دیجیے۔” ۱۳
گویا محمود ایاز اور ان کی بیگم سے ترجمے کے سلسلے میں ان کی مراسلت رہا کرتی تھی۔ لیکن زینت جہاں کو کراچی سے خط میں تحریر کرتی ہیں کہ:
“تمھیں میرا افسانہ “کفارہ” پڑھنے کی بڑی خواہش تھی۔ حقیقت میں یہ افسانہ میں نے انگریزی زبان میں ۔۔۔ تخلیق کیا تھا اور اس کا ترجمہ اُردو میں “کفارہ” کی سرخی کے ساتھ کیا، انگریزی افسانہ نسبتاً زیادہ موثر ہے۔” ۱۴
مذکورہ بالا جملہ اس قدر صریح معنویت کا حامل ہے کہ اس کے سامنے “محمود ایز” صاحب کے محولہ بالا جملے کا استناد محلِ نظر معلوم ہوتا ہے۔
ان کے چند اہم خطوط میں سے ایک “اوپندرناتھ اشک” کے نام لکھا گیا ہے۔ جس کا طویل اقتباس ابوبکر عباد نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اس خط سے نیا دور اور ترقی پسندوں کے مناقشے کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ “نظام” میں ترقی پسند تحریک کے اجلاس کی روداد چھپی تھی جس سے معلوم ہوا کہ “قدوس صہبائی” نے “نیا دور” سمیت رجعت پسند رسائل پر پابندی کی تحریک پیش کی تھی۔ قدوس صہبائی کی ناراضگی کی وجہ بھی بیان کرتی ہیں کہ ممتاز شیریں نے صہبائی کے افسانوں پر سخت تنقید کی تھی اور “نیا دور” میں ان کے غیر معیاری افسانے کی اشاعت سے انکار کردیا تھا۔ لہٰذا قدوس صہبائی سخت ناراض ہوگئے اور ممتاز شیرین اور “نیا دور” کی مخالفت پر اتر گئے۔ راقم الحروف نے ممتاز شیرین کے کاغذات کے درمیان قدوس صہبائی کا ایک خط دیکھا ہے۔ جو درشت لہجے میں ہے۔ شیرین، اشک کے خط میں قدوس صہبائی کے بارے میں لکھتی ہیں:
“جو کچھ ہم نے محسوس کیا لکھا اور وہ برامان گئے اور اس وقت سے ہم پر بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اگر “نظام” کے ہرایڈیٹوریل میں اور ان کی بائیکاٹ والی تحریک میں “نیا دور” رجعت پسند رسالوں کے لیے سرِ فہرست پیش کیا گیا تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا۔ البتہ جناب سجاد ظہیر کو “نیا دور” میں کون سی چیز کھٹکی ہے، نہیں معلوم۔ ” ۱۵
مدیر نقوش محمد طفیل کے نام “تحقیق نامہ” کے خصوصی شمارے میں شامل صفحہ نمبر ۳۴۵۔۳۸۶ پر ۴۲خطوط ۱۹۴۶ء سے ۱۹۶۴ء عرصے میں لکھے گئے ہیں۔ “نیا دور” کی اشاعت کے عرصے کے دوران اِن خطوط میں مضامین، افسانے، تراجم اور تصویر کے تبادلے کے موضوعات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ممتاز شیرین کی ادبی و ضعداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے “نیا دور” کے لیے مخصوص کیا ہوا اپنا مضمون “کشمیر اداس ہے” کا دیباچہ نقوش میں اشاعت کے لیے بھجوادیا ہے۔ کیوں کہ طفیل صاحب کو انکار کرنا مناسب نہ تھا۔ ۱۶۔
اسی طرح سے احمد علی صاحب کا بڑی محنت سے تیار کیا ہوا ایک مضمون و قار عظیم صاحب کے پاس ترجمے کے لیے گیا۔ اطلاع ملی کہ گم ہوگیا ہے۔ کیوں کہ مضمون شیرین کے توسط سے گیا تھا لہٰذا وہ بڑی بے چینی سے مضمون کی تلاش پر اصرار کرتی ہیں۔ ۱۷
۲۳اکتوبر ۱۹۵۱ء کے خط سے بات پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ محمد طفیل صاحب نے نقوش کا “الوداعی نمبر” نکالنے کے فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد والے خط میں قدرے تفصیل سے ان مسائل اور معاملات پر اظہارِ خیال کرتی ہیں جو اچھے ادبی رسائل کے اجرا اور تسلسل کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ اسی خط میں وہ انھیں ایک مخلصانہ مشورہ دیتی ہیں:
“آپ اسے ماہانہ کی بجائے سہہ ماہی بنادیں یوں مضامین کی فراہمی میں اتنی دشواری محسوس نہ ہوگی اور پھر اچھے مضامین جمع ہوسکیں گے اور پرچہ کا معیار برقرار رہے گا۔۔۔۔۔۔ آپ “نقوش” کو سہہ ماہی بنائیں تو      پر چہ خاصا ضخیم ہوگا اور ہر پرچہ ایک “خاص نمبر” کی حیثیت رکھے گا۔ آپ کسی نہ کسی خصوصیت کے ساتھ ہر پرچہ کو خاص نمبر ہی کی طرح شائع کریں تو بہتر رہے گا۔” ۱۸
اس خط میں وہ طفیل صاحب کے استفسار پر یہ بھی بتاتی ہیں کہ میں “نقوش” کے لیے سال بھر میں کتنا لکھ سکتی ہوں اس سلسلے میں کوئی قطعی بات نہیں کہہ سکتی کیوں کہ ایک تو میں بہت کم لکھتی ہوں اور دوسرے یہ کہ “نیا دور” ہی کی ضروریات پوری ہو جائے تو کافی ہے۔۔۔۔۔ آگے چل کر خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ “نقوش” کی اشاعت تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور رسالے نے اپنا معیار خوبی سے برقرار رکھا ہے۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ طفیل صاحب سے شیرین اور صمد شاہین کے بے تکلفی پر مبنی مراسم تھے۔ اسی لیے وہ نجی احوال اور صمد شاہین کی منصبی مصروفیات کو بھی اکثر بیان کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی دیگر مصروفیات مثلاً سیر وسیاحت وغیرہ سے، بچوں کے تعلیمی مدارج سے بھی طفیل کو آگاہ کرتی رہتی ہیں۔
۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۵ء میں تحریر کیے گئے چند خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ “نقوش” کے شخصیات نمبر کے منصوبے سے شیرین کو دلچسپی رہی۔ طفیل صاحب چاہتے تھے کہ کوئی صاحبِ علم شیرین کی شخصیت پر جامع مضمون لکھ دے۔ انھوں نے خود شیرین سے ایسے کسی لکھاری کا نام تجویز کرنے کی فرمائش کی۔ انھوں نے کچھ نام اور ان کے پتے طفیل صاحب کو بھجوادیے۔ لیکن وہ خود اس مقصد کے لیے کسی سے فرمائش کرنے پر آمادہ نہ ہوئیں۔ کیوں کہ یہ ان کے خیال میں مناسب بات نہیں تھی۔ شخصیت پر مضمون لکھنے کے لیے وہ سر سری اور عمومی مراسم کو کافی نہیں سمجھتی تھیں۔ اسی لیے احمد علی پر مضمون لکھنے سے معذرت کر لیتی ہیں۔ اسی طرح اپنے حوالے سے بھی بعض اشخاص کی معذرت (مثلاً کشفی صاحب کی) کو بجا اور روا سمجھتی ہیں۔ “نقوش” شخصیات نمبر (ا) میں ممتاز شیرین پر مضمون نہ آسکا۔ ۱۹
انہی خطوط میں منٹو میموریل کمیٹی کے حوالے سے اپنی مصروفیات کا بیان کرتی ہیں اس کمیٹی میں لاہور سے نمائندگی کے لیے طفیل صاحب کے نام کی تجویز کی اطلاع بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ منٹو کے بہترین افسانوں کا اعلٰی درجہ کا انتخاب اور فن و شخصیت پر مبنی مضامین سے سجی کتاب اہلِ ادب کی جانب سے منٹو کی ادبی خدمات کے خراجِ تحسین کے لیے آنی چاہیے۔ ۲۰
انہی دنون وہ تیزی سے منٹو پر کتاب بھی مکمل کرنا چاہتی ہیں۔ ایک خط میں طفیل صاحب کو اطلاع دیتی ہیں۔ کہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ہو رہا ہے اور انگریزی و اُردو میں یہ کتاب ایک ساتھ چھپے گی۔ ۲۱
معلوم نہیں بعد میں انگریزی کتاب کا ترجمہ کہاں تک پہنچا۔ اُردو میں یہ نامکمل کتاب تو شائع ہو گئی ۲۲ اکتوبر ۱۵۵۶ء کے ایک خط میں “نقوش” شخصیات نمبر ۲ کی اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں فرمائش کرکے اپنے اوپر مضمون نہیں لکھوا سکتی تھی البتہ اپنے دیور کے ایک مضمون کا تذکرہ کرتی ہیں۔ جنھوں نے عصمت چغتائی پر ان کے دیور کا مضمون دیکھ کر اپنی بھاوج یعنی ممتاز شیرین پر بڑی محنت سے مضمون لکھا تھا۔ لیکن بیجھنے سے پہلے ہی رسالہ چھپ گیا۔ لہٰذہ مضمون نگار کو افسوس ہوا۔ اپنے بارے میں لکھتی ہیں کہ “اب کے تو میں نے محسوس بھی نہیں کیا۔” ۲۲
۲۳ اپریل ۱۹۵۷ء کے خط میں اپنے افسانوں کے فرانسیسی تراجم کا احوال بیان کرتے ہوئے ایملی برو نٹے کے ناول “وُدِرنگ ہائٹس” کے ترجمے کا ذکر کرتی ہیں۔ یہ ذمہ داری مکتبہ جدید والوں نے ان کے سپرد کی تھی۔ ۲۳ چند خط بنکاک میں قیام کے دوران لکھے گئے۔ جن میں “نقوش” کے “طنز و مزاح” نمبر کے لیے ستائش کے ساتھ ساتھ رفیق حسین کی افسانہ نگاری کو بھی بڑے جچے تلے انداز میں سراہا گیا ہے۔ ۲۴  ۱۶ اگست ۱۹۶۲ء کے خط میں “میگھ ملہار” کی اشاعت کی اطلاع دیتی ہیں۔ اور اپنے حالیہ افسانے “کفارہ” کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
“اسے آپ ضرور پڑھیں۔ اس میں میں نے ان لمحات کو فنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ جب موت مجھ سے بہت قریب تھی۔ مجروح مامتا کے ذاتی المیے کو یہاں آفاتی حیثیت دی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے آپ یہ افسانہ کرسکیں گے۔” ۲۵Appreciateواقع
چند خطوط میں ناسازی طبع کا احوال اور مضمون کی ترسیل میں تاخیر پر معذرت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چند خطوط صمد شاہین کی ڈھاکہ پوسٹنگ کے دوران لکھے گئے ہیں۔
جون ۱۹۴۳ء کے چند خطوط سے “نقوش” کے آپ بیتی نمبر کی تیاری کے سلسلے میں استفسار ہے۔ اور اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنی خود نوشت “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے” کے لیے تحریک اس نمبر کی بنا پر ہوئی تھی۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۴ء کو انقرہ سے لکھے گئے خط میں تحریر کرتی ہیں:
“اب یہاں انقرہ پہنچتے ہی میں نے پہلا کام یہی کیا کہ پھر سے آپ بیتی لکھنی شروع کی۔۔۔۔۔۔ بہر حال مکمل کرلے ہے۔ اگر اب بھی “آپ بیتی نمبر” میں گنجائش ہے تو از راہِ کرم فوراً مطلع فرمائیں، بھیج دوں گی۔” ۲۶
بعض دیگر احباب، مدیر ان اور صاحبانِ علم کو لکھے گئے خطوط کے مقابلے پر محمد طفیل کے نام ان خطوط میں بے تکلف مراسم کی جھلک نمایاں ہے۔ اس بے تکلفی کی وجہ سے خطوط کا اسلوب رواں اور شگفتہ ہے۔ اور اس قسم کی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی جیسی کہ پر تکلف اور رسمی خطوط کے اسلوب میں نمایاں ہوکر ممتاز شیریں کی تحریر کے حسن کو متاثر کرتی ہے۔
ان کے خطوط کے معلوم اور مطبوعہ حصے میں سے زینت جہاں کے نام لکھے گئے بے حد اہمیت کے حامل خط انقرہ اور اسلام آباد میں آخری قیام تک کے عرصے میں ضبطِ تحریر میں لائے گئے۔ انقرہ سے لکھے گئے ان کے خطوط سوانحی بھی ہیں اور سیاحتی بھی۔ یوں تو ممتاز شیرین بنگلور سے کراچی کے سفر ہجرت کو اپنے لیے سب سے اہم سفر قراردیتی ہیں لیکن دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں کی سیر کے دوران ان کے اندر چھپا ہوا دلنشین اسلوب کا انشائیہ نگار نمایاں ہو جاتا ہے اور اسی نمائندگی کی بناء پر زینت جہاں کے نام لکھے گئے ان خطوط کے اکثر حصے مختلف ممالک کے جغرافیائی، تہذیبی اور سماجی سفر نامے یا سیاحت نامے بن گئے ہیں۔ اگر انھوں نے محض خارجی مناظر کے بیان پر زور دیا ہوتا تو شاید یہ محض جغرافیائی منظر نامے ہوتے لیکن ممتاز شیرین نے جغرافیائی تفصیلات کی فراہمی میں محسوسات کی شمولیت کے ذریعے ایک اچھوتا، منفرد اور اپنے گزشتہ اسالیب کے مقابلے پر زندہ تر اسلوب کا سراغ پالیا ہے۔ ان خطوط میں ہندوستان، روم، ترکی اور پاکستان کے مختلف شہروں کے بارے میں تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ ان کے یہ مکاتیب صرف مکتوب ہی نہیں رہتے بلکہ ان میں مضمون یا انشائیے کی خصوصیات بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ ۲۷
جب وہ ہندوستان کی سیر کرتی ہیں تو ایک جانب لکھنو اور جے پور کی دید سے محرومی کا دکھ بیان کرتی ہیں، دوسری جانب دہلی، آگرہ، علی گڑھ ، چندی گڑھ اور امرتسر کے علاوہ بہت سے دوسرے شہروں کی سیر کا لطف بیان کرتے ہوئے اس گہرے اور ابدی تاثر کا بینا کرتی ہیں جو تاج محل کے صاف، شفاف اور لطیف حسن نے ان کے ذہن پر چھوڑا اور اس کے بعد “ہمالیہ کے شاندار جاہ و جلال نے بھی مجھے بڑا متاثر کیا۔ جس کی تحیر انگیز عظمت و رفعت خدائے بزرگ وبر ترکی شانِ کبریائی کی شہادت دیتی ہے۔ اور ہم وہاں اسے بہت قریب محسوس کرتے ہیں۔” ۲۸
پہاڑوں کی یہ ہیبت و عظمت ترکی کے رفیع الشان پہاڑوں کی سیاحت کے دوران بھی قائم رہتی ہے لیکن یہاں اس عظمت میں ان پہاڑوں کے تاریخی پس منظر اور دیو مالائی مقبولیت کی شمولیت دکھائی دیتی ہے اور تفصیل بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔
پہاڑ کی سیر کو گئے۔ یہ پہاڑ یونانیPagasns          “اولمپس یونانی دیوتاوں کا استھان ہے۔ ازمیر کے مقام پر ہم
رہتا تھا اور یہیں اس پہاڑ پر اس نے عظیم رزمیہ Homerدیو مالا میں شاعری کی علامت ہے۔ ازمیر میں ہومر
تخلیق کی تھی۔ سکندر نے یہاں جو قلعہ تعمیر کیا تھا وہ ابھی تک اچھی حالت میں موجود ہے۔Illiad and Odessy
ہے۔ ٹرائے آف ہیلن ازمیرHellenic Worldتمہیں معلوم ہوگا کہ جسے اب مغربی ترکی کہتے ہیں وہ عہد سلف کی
کے بالکل قریب ہے۔ اور یہاں پہنچ کر یونانی تاریخ، یونانی دیو مالا اور یونانی ادب ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔  ازمیر سے چند میل دور ہے۔ یہاں ہم نے یونانی اور باز نطینی تہذیب کے عظیم الشان کھنڈراتEuphesusیوفیسس
کے معبد اور اپالو کے مجسمہ کے خرابے موجود ہیں۔ میرے Diana میں Pergamumدیکھے۔ یوفیسس اور پرگیمم
کو دوبارہ زندہIpheginiaاس خط کے لفافہ پر اپالو ہی کے مجسمہ کی تصویر ہے۔ یہیں پر قربانی کی بھینٹ چڑھی
کو شہر افسوس کہا جاتا ہے۔ یہی وہ شہرِ گناہ ہے جہاں Euphesusکرکے اسے پجارن اور پروہت بنایا گیا۔۔۔۔۔۔
اصحابِ کہف نے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی تھی۔ شہر سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر وہ غار ہے جہاں Mount of اصحابِ کہف (قرآن شریف کے مطابق) تین سو نوسال تک سوتے رہے۔ اس سے آگے کوہ عنادل
ہے۔ ترکی میں اب اسے بلبل ڈاگ کہا جاتا ہے۔ اس کی چوٹی پر دوشیزہ مریم نے اپنی زندگی کے Nightingales
آخری سال بسر کیے تھے۔ حضرت عیسّی کے مصلوب ہونے کے بعد سینٹ جان نامی مبلغ انجیل مریم کو ایشیائے کوچک لے آئے تھے اور مریم کا قیام وہیں رہا ہم نے دوشیزہ مریم کی مقدس قیام گاہ کی بھی زیارت کی۔” ۲۹
ایک اور خط میں ترکی کی ثقافت، رہن سہن اور لوگوں کے عمومی رجحانات مثلاً گفتگو کے آداب، اخلاقی حیثیت، خوراک اور رہائش کے طرز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنی ایک ترکی سہیلی کے خاندان اور ان کے رکھ رکھاو کا تعارف پیش کرتی ہیں۔ قدیم و جدید کے امتزاج سے نشونما پانے والی لڑکیوں اور بے ریا، زمانہ سازی سے دور نئی نسل کے ترک انھیں بڑے “بامروت، مخلص اور خوش اخلاق” نظر آتے ہیں۔ ۳۰۔
جب روم اور اٹلی کے سیر کا احوال بیان کرتی ہیں تو ان تمام تاریخی، روایتی اور اساطیری واقعات و مقامات کا تذکرہ کرتی ہیں جنھوں نے مغرب و ایشیا کے بہت سے ادبی تصورات کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اُردو ادب کو بھی وسعت بخشی ہے۔ وسعت کی نئی شکلوں کو ہم نئے نئے رموزوں اور اساطیری اشاروں کی صورت میں اپنے ادب کی مختلف ہئیتوں میں جلوہ گر ہوتا دیکھ سکتے ہیں، زینت جہاں کو ایک خط میں روم اور نیپلز کے بارے میں اپنے ادب کی مختلف ہئیتوں میں جلوہ گر ہوتا دیکھ سکتے ہیں، زینت جہاں کو ایک خط میں روم اور نیپلز کے بارے میں تحریر کرتی ہیں:
“اٹلی کے شہر روم اور نیپلز ہم نے بارہ سال قبل بھی دیکھے تھے لیکن اس مرتبہ روم نئے روپ میں تھا۔ اس شاندار اور عظیم تاریخی شہر نے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔ روم کا ذرہ ذرہ اس کی گزشتہ عظمت کے گن کاتا ہے۔
سے اور جولیس سیزر، آگسٹس اور طورجان کے فورم کے کھنڈرات سے اب بھی ماضی کیCollosseumنیرو کے
شان و شوکت جھلکتی ہے اور ان جگہوں کو دیکھے ہی ذہن ایک دم کسی داستان میں کھو جاتا ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں انٹونی نے سیزر کی میت پر اپنی مشہور عالم تقریر کی تھی۔ ” ۳۱
ایک اور خط میں شیرین یوں رقم طراز ہیں:
“انطالیہ کی سیر نے بڑا لطف دیا۔ اس کا قدرتی حسن لاجواب اور سکون بخش ہے۔ بحرِ روم کے نیلگوں پانی کا نظارہ قابل دید ہے کو کناروں کے پاس فیروزی، پھر آگے ہلکا نیلا اور رفتہ رفتہ بیچ سمندر میں گہرا نیلا   کاپہاڑی سلسلہ ہے جو ایک عجیب رنگ بخشتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے “Tourus”دکھائی دیتا ہے۔ پس منظر میں
جیسے یہ پہاڑ سراسر سمندرہی سے اٹھے ہوں۔ ہم نے بہت سے تاریخی مقامات اور کھنڈرات بھی دیکھے۔ مثلاً
۔۔۔۔۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے قلو پطرہ غروب آفتاب کا نظارہ کیا کرتی تھی۔” ۳۲As Pendos
سفر کے ان مراحل میں انھوں نے مختلف ممالک کی سیر کی۔ نئے نئے انداز کے لوگ دیکھے۔ جدید سے جدید شہر کے حسنِ تعمیرکو سراہا لیکن جس شہر نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس بارے میں وہ اپنے محسوسات کا آغاز ان الفاظ میں کرتی ہیں:
دنیا کے ایک قدیم ترین اور عظیم ترین اور عظیم الشان دارالحکومت استنبول کا کوئی جواب نہیں۔ اس شہر کے مختلف نام رہے ہیں۔ بازنطینہ، نیا روم، قسطنطنیہ، استنبول وغیرہ۔ اسے مہا آنند (روحانی مسرت) کا استھان کہنا چاہیے۔” ۳۳
قیام انقرہ کے دوران مختصر مدت کے لیے پاکستان جانا ہوا تو کئی شہر کی سیر کی اس کی روداد بھی زینت جہاں کے ایک خط میں کچھ یوں ہے:
“ہم مری، ایبٹ آباد، ٹیکسلہ کے علاوہ اسلام آباد کی سیر کو بھی گئے جو پاکستان کا نیا دارلخلافہ ہے اور راولپنڈی سے صرف چند میل کے فاصلے پر ہے۔ راولپنڈی میں ہم ایک بڑے بنگلے میں مقیم تھے جس کے پائیں باغ میں سرو، سورج مکھی اور رنگا رنگ گلابوں کے جھرمٹ تھے۔ چاندنی میں وہاں کے کھلے سبزہ زاروں میں بیٹھ کر سبز چائے پینے میں کیا لطف آتا تھا؟ ۔۔۔۔ میں پشاور میں تقریباً تین چار روز مشکور بھائی اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ رہی اور وہاں تقریباً تمام قابلِ دید مقامات کی سیر کی۔ یونیورسٹی کا شاندار کمیپس، وارسک ڈیم، لنڈی کوتل، تاریخی درہ خیبر اور افغانستان کی سرحد تورخم، کیا تھا جو نہیں دیکھا۔” ۳۴
مختلف ممالک کی سیر، ملازمت کی زنجیر سے کھنچتی  ہوئی انھیں اسلام آباد لے آئی۔ یہ ایک تو آباد شہر ہے شیرین کے خیال میں تین سال کے اندر بیابان میں مکمل شہر بسا دینا کسی کمال سے کم نہیں۔۔۔۔ ان کے خیال میں:
“اسلام آباد کی خاص کشش اس کی تازہ ہوا، سبزہ اور دیہی علاقے کا فطری حسن ہے جس کے ساتھ اسے ایک جدید شہر کی تمام سہولتیں بھی مل گئی ہیں۔ فطرت یہاں اچھوتے حسن کے ساتھ موجود ہے۔ ہر طرف سے مری کی خاکستری رنگ کی پہاڑیوں سے گھرا ہوا اسلام آباد نہایت خوش کن منظر ہے۔ چناں چہ اس کے مختلف حصوں کو بھی رومانی اور اشاریاتی قسم کے نام دیے گئے ہیں۔ مثلاً روپ، پھلواری، گلشن، سنبل، کہسار، آب پارہ۔”۳۵
اس شہر میں انھیں سب سے خوبصورت آواز سنبل والی مسجد سے آنے والی اذان کی آواز محسوس ہوتی تھی۔ اگرچہ دفتری اور سرکاری ضابط بندی نے یہاں ماحول میں یکسانیت پیدا کردی تھی لیکن ان کے خیال میں “یہ  بہت پیارا شہر ہے۔ شیشے کی طرح صاف، وسیع میدانوں، سبزہ زاروں، ہواوں اور سکون کا گہوارہ۔” ۳۶
زینت جہاں کے نام انہی خطوط سے ہمیں ممتاز شیرین کے مرض الموت کے آغاز کا علم ہوتا ہے۔ جو ۱۹۷۰ء سے ہوا اور مارچ ۱۹۷۳ء میں وہ اس مرض سے ہار مان گئیں ۔۔۔۔ اسی عرصے میں ان کے اوپر ذہنی سکوت کا وہ حملہ ہوا جس نے ان کی تخلیقی صلاحتوں کو بے طرح متاثر کیا۔ ۲۳ اگست ۱۹۷۱ء کے ایک خط میں جب بیرونِ ملک صمد شاہین کی پھر سے تقرری کا امکان ہوا تو زینت جہاں کو لکھتی ہیں:
” کچھ عرصہ پہلے مجھے ایسا لگتا تھا جیسے لکھنے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ معلوم ہوتا تھا کہ زندگی بالکل ہی رک گئی ہے۔ کوئی چونکا دینے والی یا خاص خبر باقی نہیں رہی تھی، مستقبل کے لیے کوئی خاص منصوبے نہیں تھے۔” ۳۷
لیکن اسلام آباد سے ترکِ سکونت سے قبل وہ قرب و جوار کی مکمل سیاحت کرلینا چہتی تھی اسی لیے سوات کی سیر بھی کی اور پہاڑوں کے درمیان دم بخود کردینے والے مناظر سے خوب حظ اٹھایا۔ ۳۸
دنیا ک اہم ترین مقامات کی سیر کے دوران ممتاز شیریں نے محض کھلی آنکھوں سے خارج کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ باطنی نگاہوں کی گہرائی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عظمتِ رفتہ کا مشاہدہ بھی کیا تھا۔ جس عظمت کی نشانی وہ شخصیات تھی جنھوں نے حیاتِ ابدی حاصل کرلی ہے۔ دنیا بھر کی چیدہ چیدہ جاویداں شخصیات، جو ہمارے ادب میں بھی علامت بن کر اس کی نئی معنویت کی صورت گری کر رہے ہیں۔ ادبی شخصیات کو لکھے گئے شیریں کے خطوط میں لہجے کی سنجیدگی اور بیان کی علمیت کی وجہ سے
“زبان کو اظہار کی پوری قوت رکھنے کے باوجود بہت زیادہ صحیح اور ستھری نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے مقابلے میں زینت جہاں کے نام جو خطوط ہیں ان میں زبان و بیان کی کمزوریاں نہیں ہیں۔ اندازِ بیان نہایت شگفتہ اور تاثیر ہے۔ ان خطوط کی نثر نپی تلی ہے۔ اظہارمیں ایک روانی بھی ہے اور بیان میں ایک قوت بھی۔” ۳۹
اظہار کی یہ روانی اور بیان کی یہ قوت کسی مربوط اور منضبطہ سفر نامے کی متقاضی تھیں، اس قسم کا سفرنامہ یا انشائیہ تحریر کرنے کی خواہش کا اظہار خود شیرین نے زینت جہاں سے ایک خط میں کیا تھا۔ ۳۹  لبنٰی شاہین کے تصرف میں ممتاز شیرین کے مسودات کی چھان پھٹک کے دوران ایک نامکمل سفری انشائیہ “مشرق و مغرب کے درمیان” ملا۔ اس انشائیے میں اسی اسلوب اور قوت اظہار کا تسلسل ملے گا جو مذکورہ خطوط میں دکھائی دیتا ہے۔ ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں:
“رات گہری ہوچلی تھی،
فضا میں ایک بھاری سی سیٹی کی آواز گونج اٹھی۔ ساکت جہاز میں ایک حرکت، ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہوئی اور یہ مرمریں، شفاف، حسین اطالوی جہاز بحیرہ روم کے گہرے نیلے پانیوں کو کاٹتا ہوا نکل گیا۔
جہاز اس سرزمین کو چھوڑ رہا تھا جسے “مغرب” کہتے ہیں اور “سوئے مشرق” روانہ ہو رہا تھا۔ “مشرق” اور “مغرب”، یہ دو الفاظ سمت کا اشارہ کرنے کے علاوہ اور کتنے مہینوں کے حامل بن گئے ہیں۔ تہذیب و تمدن کا امتیاز، رنگ و نسل کا امتیاز ۔۔۔۔۔ صدیوں کی آقائی اور غلامی۔۔۔۔۔
لیکن یہ اطلالیہ تھا، اطالیہ جو یوں مغرب کا دوروزہ ہے، لیکن مشرق سے کہیں زیادہ قریب۔ اطالیہ جہاں مغربی ممالک میں گھوم پھر کر آئیں تو اچانک یوں محسوس ہوتا ہے ہم پھر مشرق میں آگئے ہیں۔
ہم سب عرشے پر کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر گویا نیپلز کو الودع کہہ رہے تھے۔” ۴۰
اسلوب کے اس تسلسل کو ہم کچھ اور پہلے ان کی نامکمل خودنوشت “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے” میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ رواں، پُر جوش اور اظہار کی قوت سے لبریز یہ اسلوب بیان جیسے جیسے بڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے ان کے طبعی اور جسمانی نظام میں درد کا جال پھیلتا جا رہا تھا۔ موت وہ اٹل، حتمی اور یقینی قوت تھی Fascinateجو ساٹھویں دہائی کے آخری چند برسوں میں ان کی تحریروں کے ساتھ ساتھ ان کے محسوسات کی بھی
کر رہی تھی۔
سب سے پہلے ۲۴ مئی ۱۹۵۷ء کو محمد طفیل مدیر نقوش کو لکھے گئے ایک خط سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں “باشو بھائی کی نانی اماں بستر مرگ پر تھیں۔ دو ہفتے ان کی حالت بہت خراب رہی۔ آخر چند دن ہوئے انتقال فرما گئیں۔ “انا اللہ و انا الیہ راجعون” وہ میرے لئے بالکل “آئینہ” کی نانی بی کی طرح یوں ان کی موت سے “آئینہ” کی کہانی پھر سے دہرائی گئی!
موت سے کچھ اتنی بڑی حقیقت ہے اور فنا اور اہدیت کا ایسا احساس قائم کرتی ہے کہ عام دُنیوی وقت کا احساس بھلا دیتی ہے۔ گھنٹے،دن ماہ و سال کے لیے بیرونی وقت بے حقیقت بن جاتا ہے۔” ۴۱
ان کی خود نوشت میں موت کے بیان کا یہ اسلوب دیکھیے۔
“عائشہ خانم جنھیں ہم عاشو پھوپھی بلایا کرتے تھے۔ وہ اکثر ہمیں ۔۔۔۔۔ قیامت کے آثار اور روزِ حشر کے قصے سنایا کرتی تھیں کچھ ان کی باتیں ذہن میں رہ گئی تھیں اور قرآن شریف کے وہ حصے پڑھ کر جن میں قیامت  خواب دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ خوف کی کپکپی طاری ہے اورNightmarishکا ذکر ہے، میں مسلسل کئی دن تک قیامت کے
میں سجدہ ریزہ ہوگئی ہوں، عجب خدا ترسی کا عالم تھا۔ پھر اچانک یہ سب کچھ نظروں سے غائب ہوگیا اور ہر طرف نور ہی نور چھا گیا۔ مجھے احساس ہوا یہ نور الٰہی ہے۔ جو خیرہ کن ہونے کے باوجود انتہائی طمانیت بخش ہے۔ پھر برسوں بعد آج سے تین سال پہلے جب حقیقت میں میں نے موت کے اپنے بہت قریب محسوس کیا تھا۔ مجھے اس طمانیت بخش نور کی، اس نفسِ مطمئنہ کی جستجو تھی۔” ۴۲
اور زینت جہاں کے خطوط میں ۱۹۷۱ء کے بعد کے خطوط کے وہ حصے جب وہ اپنی بیماری، عزیزوں
سے دوری اور اپنی تنہائی کا ذکر کرتی ہیں تب بھی نفسِ مطمئنہ کی یہ جستجو ان کے اسلوب کا نمایاں حصہ ہی رہتی ہے۔ جس نے ان کے فن کو ایک مخصوص انفرادیت بخشی تھی۔ یہی انفرادیت ممتاز شیرین کی خطوط میں بھی نظر آتی ہے۔
حوالہ جات
۱۔         خطوطِ غالب، حصہ اول، مرتبہ خلیق انجم، نجمن ترقی اردو پاکستان ۱۹۹۲ء ص ۱۲۶، ۱۲۷
۲۔        ابوبکر عباد، “ممتاز شیرین ناقد، کہانی کار”، دہلی، ۲۰۰۶ء ص ۲۸۶
۳۔        ایضاً، ص ۲۹۱
۴۔        ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحٰمن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء مشمولہ “قومی زبان”، کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء
ص ۱۹
۵۔        ممتاز شیرین بنام شاہد حمید مورخہ ۱۶ ستمبر ۱۹۵۰ء مشمولہ “محرابیں”، لاہور ۱۹۹۲ء ص ۱۵
۶۔        ممتاز شیرین بنام ضمیر الدین احمد بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۷
۷۔        متاز شیرین بنام نظیر صدیقی مورخہ ۲۹ جنوری ۱۹۶۳ء مشمولہ “نامے جو میرے نام آئے”، مرتبہ مصطفٰی
راہی، اشاعتِ ادب، روال پنڈی، ۱۹۸۴ء ص ۲۱۳
۸۔        ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء “مشمولہ “قومی زبان”، کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء
ص ۱۹
۹۔       ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۹
۱۰۔      ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء “مشمولہ قومی زبان”، اکتوبر ۱۹۹۲ء ص ۱۸
۱۱۔      ممتاز شیرین بنام محمود ایز بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۹
۱۲۔      ممتاز شیرین بنام محمود ایز بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۸۹
۱۳۔      ممتاز شیرین بنام محمود ایاز مورخہ ۹ مئی ۱۹۶۳ء مشمون “سوغات”، بنگلور، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۹۲ء ص
۳۱۹
۱۴۔      ممتاز شیرین بنام زینت جہاں مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۶۳ء مشمولہ “قند” مردان، ممتاز شیریں نمبر، ستمبر،
اکتوبر ۱۹۷۳ء ص ۱۱۳
۱۵۔      ممتاز شیرین بنام اوپندرناتھ اشک، بحوالہ ابوبکر عباد، ص ۲۹۱
۱۶۔      ممتاز شیرین بنام محمد طفیل مورخہ ۱۲ اپریل ۱۹۵۰، مشمولہ “تحقیق نام” شعبہ اردو، جی،سی یونیورسٹی،
لاہور شمارہ ۲۰۰۵ء ۲۰۰۶ ء ص ۳۴۸
۱۷۔      ایضاً، مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء ص ۳۵۰
۱۸۔      ایضاً، مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۵۲ء ص ۳۵۲
۱۹۔      ایضاً، مورخہ فروری ۱۹۵۵ء ص ۳۵۹
۲۰۔      ایضاً، ص ۳۶۰
۲۱۔      ایضاً، مورخہ ۲۰ مارچ ۱۹۵۵ء ص ۳۶۴
۲۲۔      ایضاً، مورخہ ۲۲ اکتوبر ۱۹۵۶ء ص ۳۶۴
۲۳۔      ایضاً مورخہ ۲۳ اپریل ۱۹۵۷ء ص ۳۶۸
۲۴۔      ایضاً مورخہ ۱۰ جون ۱۹۵۹ء ص ۳۷۳
۲۵۔      ایضاً مورخہ ۱۶ اگست ۱۹۶۲ء ص ۳۷۵، ۳۷۶
۲۶۔      ایضاً مورخہ ۱۸ جنوری ۱۹۶۴ء ص ۳۸۴
۲۷۔      ابوبکر عباد، ص ۲۹۱
۲۸۔      ممتاز شیرین بنام زینت جہاں مورخہ ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۳ء مشمولہ “قند” ، ممتاز شیرین نمبر، ص ۱۱۴
۲۹۔      ایضاً، مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۶۴ء ص ۱۱۴، ۱۱۵
۳۰۔      ایضاً، س ں، ص ۱۱۸
۳۱۔      ایضاً
۳۲۔      ایضاً مورخہ ۷ مارچ ۱۹۶۵ء ص ۱۱۷
۳۳۔      ایضاً مورخہ ۸ اکتوبر ۱۹۶۶ء ۱۱۹
۳۴۔      ایضاً مورخہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۳ء ۱۱۴
۳۵۔      ایضاً مورخہ ۷ اپریل ۱۹۶۷ء ص ۱۲۱
۳۶۔      ایضاً مورخہ ۱۹ اپریل ۱۹۶۹ء ص ۱۲۳
۳۷۔      ایضاً مورخہ ۲۳ اگست ۱۹۷۱ء ص ۱۲۷
۳۸۔      ایضاً
۳۹۔      ابوبکر عباد، ص ۲۹۵
۴۰۔      ممتاز شیرین، “مشرق و مغرب کے درمیان” (غیر مطبوعہ)، مخزونہ ذاتی کاغزات
۴۱۔      ممتازشیرین رین بنام محمد طفیل مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۵۷ء، مشمولہ “تحقیق نامہ”، ص ۳۷۰
۴۲۔      ممتاز شیرین “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے”، مشمولہ “قند”، ممتاز شیرین نمبر، ص ۱۰۶
کتابیات
۱۔        ابوبکر عباد،:ممتاز شیرین ناقد، کہانی کار” دہلی، ۲۰۰۶ء
۲۔        غالب، “خطوطِ غالب”، حصہ اول، مرتبہ خلیق انجم، نجمن رقی اُردو پاکستان، ۱۹۹۲ء
۳۔        نظیر صدیقی، “نامے جو میرے نام آئے”، مرتبہ مصطفٰی راہی، اشاعتِ ادب، راول پنڈی، ۱۹۸۴ء
۴۔        ممتاز شیرین، “مشرق و مغرب کے درمیان” (غیر مطبوعہ)، مخزونہ لبنٰی شاہین صاحبہ کراچی
۵۔        ممتاز شیرین، “ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے”، مشمولہ “قند”، ممتاز شیرین نمبر ستمبر، اکگوبر ۱۹۷۳ء
۶۔        ممتاز شیرین بنام محمد سلیم الرحمٰن مورخہ ۶ جون ۱۹۶۳ء، مشمولہ “قومی زبان”، کراچی، اکتوبر ۱۹۹۲ء
۷۔        ممتاز شیرین بنام شاہد حمید مورخہ ۱۶ ستمبر ۱۹۵۰ء مشمولہ “سوغات”، بنگلور، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۹۲ء
۸۔        ممتاز شیرین بنام محمود ایاز مورخہ ۹ مئی ۱۹۶۳ء مشمولہ “سوغات”، بنگلور،شمارہ نمبر ۳، ۱۹۹۲ء۔ؤ
۹۔       ممتاز شیرین بنام زینت جہاں (مکاتیب) مشمولہ “قند” مردان، ممتاز شیرین نمبر، ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء
۱۰۔      ممتاز شیرین بنام محمد طفیل (مکاتیب) مشمولہ “تحقیق نامہ”، شعبہ اُردو، ج۔ سی یونیورسٹی، لاہور، شمارہ            ۲۰۰۵ء ۲۰۰۶ء

 

Intekhab E Kalam Jigar Muradabadi

Articles

انتخابِ کلام جگر مراد آبادی

جگر مراد آبادی

1

نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم اُن میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
شروعِ راہِ محبت، ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں، مسکرائے جاتے ہیں
مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں، دامن چھڑائے جاتے ہیں
جو دل سے اُٹھتے ہیں شعلے وہ رنگ بن بن کر
تمام منظر فطرت پہ چھائے جاتے ہیں
میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں
رواں رواں لئے جاتی ہے آرزوئے وصال
کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں
کہاں منازلِ ہستی، کہاں ہم اہلِ فنا
ابھی کچھ اور یہ تہمت اُٹھائے جاتے ہیں
مری طلب بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اُٹھتے نہیں ہیں اُٹھائے جاتے ہیں
الہٰی ترکِ محبت بھی کیا محبت ہے
بھلاتے ہیں انہیں، وہ یاد آئے جاتے ہیں
سنائے تھے لب ِ نے سے کسی نے جو نغمے
لبِ جگر سے مکرر سنائے جاتے ہیں


 

2

 

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد


 

3

یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پئے سرشار ہو جائے
دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہو جائے
ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہو جائے
جنوں کی رُوحِ خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اُسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے ، نہ توہین جمالِ یار ہو جائے
حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو ؟
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے ؟
معاذ اللہ ، اس کی وارداتِ غم ، معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو ، اور چمن بیزار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اُٹھے
نظر تلوار بن جائے ، نفس جھنکار ہو جائے
یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے


 

4

 

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرا کے پی گیا
زاہد، یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم، بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا


 

5

 

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے، آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت؟
اپنے ہی جلوے، اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت
روح اگر تسکین نہ پائے
کارِ زمانہ جتنا جتنا
بنتا جائے، بگڑتا جائے
ضبط محبت، شرطِ محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے
راہِ جنوں آسان ہوئی ہے
زلف و مژہ کے سائے سائے


 

6

 

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنوارتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے


 

7

 

دل میں کِسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کِتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں
دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں
صرفِ نگاہ و آہ کیے جا رہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جا رہا ہوں میں
ایسی بھی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عِشق کی عظمت کو چار چاند
خود حُسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنیِ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں ، جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغِ راہ کیے جا رہا ہوں میں
معصومیِ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
تنقیدِ حسنِ مصلحت ِ خاصِ عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے رو برو
نادیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گُلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نِباہ کیے جا رہا ہوں میں
یُوں زندگی گزار رہا ہوں میں تیرے بغیر!
جیسے کوئی گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے اَدا ہوا ہے جگر جستجو کا حق
ہر ذرّے کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں


 

8

 

ہم کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں ، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی ، میری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے ، لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں، کوئی نقشِ قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم، روزگار میں! !
تیرا کرم بھی خود جو شریک ِ سفر نہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں


 

9

 

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح زمانہ
یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خُسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے؟
مرا عشق بھی کہانی، ترا حسن بھی فسانہ
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہئیے بہانہ
ترے عشق کی کرامت، یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ
تری دُوری و حضوری کا عجیب ہے یہ عالم
ابھی زندگی حقیقت، ابھی زندگی فسانہ
مرے ہم صفیر بلبل، مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیرِ دشت و دریا، تو اسیرِ آشیانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں ، ہے جو فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا ، مرا غم غمِ زمانہ
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا!
تجھے اے جگر! مبارک یہ شکستِ فاتحانہ


 

10

 

لالہ و گل کو دیکھتے کیا یہ بہار دیکھ کر
رہ گئے بےخودی میں ہم صورتِ یار دیکھ کر
ہائے، وہ جوش ربط و ضبط، ہائے، یہ لاتعلقی!
اشک بھر آئے آنکھ میں کوچۂ یار دیکھ کر
یاد کسی کی آہ، کیا کہہ گئی آ کے کان میں
زورِ جنوں سوا ہوا جوشِ بہار دیکھ کر
شوق نے چٹکیاں سی لیں،حسرتِ دل مچل گئی
میری طرف بڑھا ہوا دامنِ یار دیکھ کر
ان سے بھی ہو سکا نہ ضبط، ان کو بھی رحم آ گیا
پائے برہنہ دیکھ کر، جسمِ فگار دیکھ کر
تھی یہ ہوس کہ دیکھتے خال و خط بہارِ حسن
آنکھیں ہی چوندھیا گئیں جلوۂ یار دیکھ کر

————————

problems of Urdu teaching at University Level

Articles

یونیورسٹی سطح پر اردو تدریس کے مسائل

سیّد اقبال

 

ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہماری زندگی اپنی پچھلی نسل سے قدرے بہتر ہے۔ ہم بہتر گھروں میں رہتے ہیں، اُن سے بہتر کھانا ہمیں نصیب ہے، اُن سے بہتر کپڑے میّسر ہیں اور ہماری تنخواہیں بھی اُن کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے مقابلے میں تعلیم آج کہیں زیادہ عام ہے۔حکمت کا نظام بھی قدرے بہتر ہوچلا ہے اور ہم اپنے پرکھوں کے مقابلے میں دس پندرہ سال زیادہ جی رہے ہیں،مواصلاتی نظام تو اِس قدر ترقی کرگیا ہے کہ گھر بیٹھے ہم جس سے چاہیں اور جب چاہیں منٹوں میں گفتگو کر سکتے ہیں، انٹرنیٹ نے دنیا ہماری گود میں ڈال دی ہے اور سارے عالم کی ہر طرح کی معلومات صرف ایک بٹن دباتے ہی اسکرین پر نمودار ہو جاتی ہے۔ یہی نہیں ہم اتنے پُرامن حالات میں جی رہے ہیں کہ ہمیں آزادی¿ تحریر اور آزادی¿ تقریر کا احساس تک نہیں ہوا۔اس کے باوجود ہم نہایت بدنصیب بھی ہیں کہ اب ہمیں ایک ایسے دور میں جینا پڑ رہا ہے جہاں معیشت کی حکمرانی ہے اور بازار ہماری زندگی کی کہانی لکھتے ہیں ۔سیاسی خداﺅں نے ٹکنالوجی کی مدد سے ہماری ذاتی زندگی کو ریکارڈ کرنا شروع کردیا ہے۔ لہذا کسی حکومت کے لیے صرف ایک بٹن دبا کر اس کے شہری کی پوری زندگی ، اس کی مالی حالت، اس کا بینک اکاﺅنٹ، اُس کے تعلقات، اُس کی ذاتی اہلیت، اُس کی پسندنا پسند ، یہاں تک کہ اُس کی بیماریاں اور ماضی میں کئے گئے سارے انکار کی تفصیل رکھنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔ایک طرف مشینوں نے ہمیں فارغ اوقات کی نعمتوں سے نوازا ہے،دوسری طرف جرائم اور خودکشی کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ انسانی تعلقات میں اتنی دراڑیں پیدا ہوگئی ہیں کہ پچاس سال میں اُن کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ خاندانی نظام تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہی تھا، ملٹی نیشنل کارپوریشن نے ہماری روایتی ہنر مندی اور چھوٹے چھوٹے فنکاروں کی روزی پر بھی قدغن لگادی ہے۔تعلیم کا حصول بھی عام ہوا ہے اور نت نئے کورسیس بھی متعارف ہوئے ہیں۔ مگر اِن تعلیمی اداروں سے علم اور ذوق و شوق غائب ہوگئے ہیں ۔ طلباءکو ڈگریاں تو درکار ہیں مگر اُس کے لئے جو محنت اور عرق ریزی درکار ہے آج مفقود ہے۔علم فن کا عروج کیا ہوتا ہے اور اُسے حاصل کرنے کے لئے کتنی تگ ودو کرنی ہوتی ہے اُس سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ۔ آج اخلاقیات باقی ہے نہ خیر خواہی، باقی ہے تو صرف مادی ترقی مادی ترقی کی زبردست خواہش ، اور جوابدہی کے تصور سے عاری ایک ایسی زندگی جہاں ایک فرد کی اپنی حیثیت اہم ہے نہ کہ معاشرے کی اہمیت اور ترقی ۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بازار اہم ہو چکے ہوں ، وہاں اخلاقیات، فلسفہ ، سماجی علوم اور زبان و ادب کی اہمیت کیا ہوگی۔اس لئے ہمیں زبان و ادب کی تدریس کے مسائل پر اگر بحث کرنی بھی ہے تو موجودہ معاشرے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا، جہاں نصاب سے لیکر اساتذہ کا تقرر اور تحقیق کا کام، طلباءکی ذہنی صلاحیتیں ، معاشرے کے انھیں عوامل سے جڑی ہوئی ہیں۔وہ عوامل جو ہمارے لئے آئیڈیل یا کتابی نہیں رہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے کالیجز اور یونیورسٹیوں میں ان موضوعات پر سمینار اور ورکشاپ ہوتے رہیں گے(اور ہم اُن کے حل تلاش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے) شاید اس لئے کہ ان عنوانات پر سمینار اور ورکشاپ منعقد کرنا صدر شعبہ کی محض ذمّہ داری ہے اور مجھ ایسے کم علم کو اور نا اہل  کو اُن عنوانات پر بولنے کی دعوت دینا ، اُن کی مجبوری ۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں بھی کچھ نہ کچھ بولنے کی عادت ہو چلی ہے ہاں یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ “کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی”
جہاں تک نصاب کا تعلق ہے اُس کی تیاری ایک بورڈ یا کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس میں اکثر و بیشتر وہی اساتذہ ہوتے ہیں جو برسہا برس سے کالجوں یا یونیورسٹیوں میں اردو پڑھا رہے ہیں ۔انھیں خوب اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے نصاب میں کیا کمی تھی جو اِس بار انھیں دور کرنی چاہئے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پچھلا نصاب پڑھاتے وقت طلباءکا رسپانس(response) کیا تھا۔اور خود انھیں کتنی پریشانیاں اٹھانی پڑی تھیں۔لہذا ایک خاموش سمجھوتے کے تحت بورڈ کے ممبران عموماً ایسا نصاب تیار کرتے ہیں جس کو پڑھانے میں انھیں زیادہ دشواری نہ ہواور اُن عنوانات پر ایک یا دو کتابیں بآسانی دستیاب ہوں۔ غرض نصاب بنانے میں فوکس(focus) استاد ہوتا ہے، نہ طالبِ علم۔ بالفاظ دیگر اپنی تساہلی اور مواد کی دستیابی ایسے نصاب کی سب سے اہم ترجیح ہوا کرتی ہے۔اور یہ تیاری بھی اتنی رواروی میں کی جاتی ہے کہ لگتا ہے موصوف نے میٹنگ سے ایک دن قبل ہی اس کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔اور کالج یا یونیورسٹی کی لائبریری سے مطلوبہ کتابیں حاصل کر کے اُن  کی فہرست سے نصاب کے لئے عنوانات تجویز کر لئے تھے ۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ سارے کالجوں اور شعبہ کے سارے اساتذہ کے مشورے سے نصاب تیار کیا جائے۔اور یہ تو بہت کم ہوتا ہے کہ ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے نصاب کو سامنے رکھ کر اپنا نصاب تیار کیا جائے۔ نتیجتاً نثر و نظم پڑھانے کے نام پر کسی شاعر اور ایک ناول نگار کو منتخب کرلیا اور شاعر کی دس بیس نظمیں اور ناول نگار کا ایک یا دو مشہور ناول تجویز کردیا۔ یہی حال کلاسیکی ادب کا ہوتا ہے۔ایک کلاسیکی شاعر اور کلاسیکی نثر و نگار غرض نصاب اس قدر مختصر ہوتا ہے کہ اگر کوئی سنجیدہ ، ایماندار اور صاحبِ علم استاد اُس ایک پرچے کو پڑھانا چاہے تو بڑی آسانی سے اُسے تین ماہ میں ختم کر سکتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنی سہولت کی خاطر طلباءکو ادب کے ایک بڑے حصّہ سے محروم کردیتے ہیں ۔ وہ اگر غالب کا مطالعہ کرتے ہیں تو میر اور اقبال  سے محروم ہوجاتے ہیں اور سردار جعفری کو پڑھ لیں تو فیض اور فراق سے متعارف نہیں ہو پاتے۔نظیر اوراکبر کا ذکر کیا کریں اسی طرح طلباءکی کثیرتعدادمنٹو، عصمت ،بیدی اور قرة العین حیدر کے نام تو جانتی ہی ہے ، مگر ان کی ادبی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہو پاتی ۔ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ آج ایسے اساتذہ کا فقدان ہے جو کسی ایک ادیب کو پڑھانے سے قبل اردو فکشن کا احاطہ کرتے ہوئے سارے اہم ادیبوں سے طلباءکو متعارف کراتے ہیں۔ نہ ہی ایسے پڑھے لکھے اساتذہ نظر آتے ہیں جنھوں نے اردو شاعری کا عمیق مطالعہ کیا ہو۔ لکھنﺅ اور دہلی اسکول کی خوبیوں کے ساتھ ترقی پسند اور جدید شعراءکی منظومات سے بھی طلباءکو متعارف کراسکیں۔ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی نے بڑی خاموشی سے اپنے نصاب سے علامہ اقبال کو حذف کردیا ہے کہ اُن کے کلام کو پڑھانے والے اساتذہ مل نہیں پائے۔ شاید آپ اِس پر بھی یقین نہ کریں مگر اب شاید ہی کسی یونیورسٹی کے نصاب میں قصیدہ شامل ہو۔یہ اور بات ہے کہ اردو والے اپنے آقاﺅں کی قصیدہ خوانی میں دن رات لگے رہتے ہیں۔
اِس ضمن میں ایک اور بات قابلِ غور ہے ، ہم اردو طالبِ علموں کی محدود سوچ کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے محبوب دائروں سے باہر نہیں نکل پاتے، کبھی غزلیں پکڑ لیتی ہیں تو کبھی کوئی خوبصورت کہانی پیروں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہیں ۔ جبکہ عالم کاری کے اِس زمانے میں ضرورت ہے کہ ہم دیگر علوم کے سے بھی کما حقہ واقفیت حاصل کریں ۔ ہندوستان کی مختلف IIT میں انجنیئرنگ کے کورسیز کے ساتھ Humanities کا کورس بھی پڑھایا جانا چا ہیے تا کہ ایک انجنیئرکو یہ علم ہوسکے کہ انسانی سماج کیسے بنتے بگڑتے ہیں اور عالمی سیاسی بساط پر کیا کچھ ہو رہا ہے۔کیا ہم یونیورسٹی کی سطح پر اپنے نصاب میں سماجی علوم کا ایک پرچہ رکھ کر اپنے طلباءکے ذہنی افق کو وا نہیں کر سکتے؟اسی طرح ہم اردو کے قواعد اور مضمون نویسی کے پرچے میں ترجمے کا چاہے وہ دس بیس نمبر کا ہی ہو ایک سوال ضرور رکھتے ہیں ۔ وہ اساتذہ جو انگریزی میں مہارت رکھتے ہیں وہ ترجمے کے فن سے طلباءکو کو متعارف بھی کراتے ہیں ۔مگر کیا ایک یا دو سوالوں کا حل کردینا بچوں کو انگریزی زبان سے واقف کرا پاتا ہے۔کیوں نہ ہم یونیورسٹی کی سطح پر طلباءکو انگریزی کا ایک باقاعدہ نصاب پڑھائیں یا انھیں انگریزی زبان کے ساتھ ادب کے اہم شہ پاروں کے متعارف کرائیں تا کہ جب یہ ڈگریاں لیکر نکلیں تو آج طاقت کی سب سے بڑی زبان سے اُن کی شناسائی تو ہو۔جواہر لال یونیورسٹی کے ڈاکٹر نامور سنگھ نے اپنی نوعیت کا ایک انوکھا تجربہ کیا تھا۔انھوں نے پوسٹ گریجویشن کی سطح پر ہندی کے طلباءکواردو اور اردو طلباءکو ہندی کے ایک ایک پرچے سے متعارف کرایا تھا تاکہ اِس بہانے وہ ایکدوسرے کے ادب سے واقف ہوں اور یوں زبان کی سطح پر سہی دو مختلف زبان کے طلباءکی دوریاں کچھ کم ہو سکیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ آپ چاہے کتنا ہی اعلیٰ اور معیاری نصاب بنالیں مگر اُسے پڑھانے والا اچھا استاد میسّر نہ ہو، تو پھر بھی وہ نصاب نرا نصاب ہی رہ جاتا ہے۔ بلکہ اکثر صورتوں میں ایک غیر معیاری ا ستاد اُس کاناس مار دیتا ہے ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک اچھے استاد نے ایک معمولی نصاب کو اتنا دلچسپ بنا کر پڑھایا کہ طلباءکی دلچسپی کورس کے خاتمے تک باقی رہی۔ غرض زبان و ادب کے پڑھانے کے لئے ایک اچھا استاد بے حد ضروری ہے کیوں کہ وہ صرف نصاب ہی نہیں پڑھاتا زبان کی باریکیوں سے روشناس کراتا ہے اور اپنے طلباءکو ذوقِ سلیم کی اس دولت سے نوازتا ہے جس کے سہارے وہ زندگی بھر دنیائے ادب کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ان کی تدریسی صلاحیتیں ہمارے لئے مسئلہ بنی ہوئی ہےتو ہمیں تھوڑی دیر رک کر اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہئے کہ آخر ان کم نصیبوں کو کس نے پڑھایا تھا۔ کیا ان کے اساتذہ واقعی قد آور اساتذہ تھے ۔ کیا وہ علم و ادب سکھانے کے جنون میں مبتلا تھے؟ کیا ادب ان کا اوڑھنا بچھونا تھا؟کیا اپنے طلبا کی تربیت میں وہ دل و جان سے مصروف تھے؟ اگر اُن کے اساتذہ بھی معمولی صلاحیتوں کے افراد تھے تو پھر اُن کی اہلیت کا شکوہ کیوں کریں۔ در اصل آج اساتذہ کی وہ کھیپ ناپید ہے جن کے لئے زبان و ادب پڑھانا زندگی کا واحد مقصد ہوا کرتا تھا۔جو اپنی ساری زندگی ادب کے مطالعہ، علمی تحقیقی کام اور اپنے شاگردوں کی تربیت میں صرف کردیتے تھے۔ یہ اساتذہ اُن گھرانوں سے آئے تھے جہاں تہذیبی قدریں زندہ تھیں جہاں مادی آسائشوں اور نام و نمود کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔اِس لئے ساٹھ اور ستر کی دہائی تک آپ کو اردو کے ایسے اساتذہ کے نام سنائی پڑتے ہیں جو اپنے شعبوں کی شناخت تھے۔ علی گڑھ میں رشید احمد صدیقی ، خورشیدالاسلام، مسعود حسین خان، دہلی میں خواجہ احمد فاروقی، الہ باد میں اعجاز حسین ، احتشام حسین، ممبئی میں نجیب اشرف ندوی ظہیرالدین مدنی، عالی جعفری وغیرہ۔پھر زمانے نے کروٹ بدلی اور علم و تعلیم کا زوال شروع ہوا، اداروں کو گُھن لگنے لگی اور تہذیبی قدریں مدھم پڑتی گئیں ۔ لہذا بعد کی کھیپ جو آئی وہ پچھلی کھیپ سے کمتر نکلی ۔ پھر تو جو سلسلہ شروع ہوا تو علم تعلیم کے زوال کے ساتھ ساتھ دانشوری کی روایت بھی زوال پذیر ہوئی اور اساتذہ کی تقرری میں وہ سارے عوامل کام کرنے لگے جن کا تعلق کسی طورعلم و تعلیم سے نہیں تھا۔ کہیں سفارش کا سکّہ چلا تو کہیں کسی سیاسی قائد کا دباﺅ بڑھا، کہیں کسی شاگرد کو وفاداری کا صلہ دیا گیا۔تو کہیں علاقائیت کو مستحکم کیا گیا۔in-breeding کی اصلاح کا ذکر کیا کریں اقرباءپروری اور دوست نوازی نے بھی اردو کے شعبوں کو نہیں بخشا۔غرض حال یہ ہوا کہ تقرر کرنے والا تو پستہ قد تھا ہی ،جس کا تقرر کیا گیا وہ اُس سے بھی کوتاہ قد تھا۔ہارورڈ یونیورسٹی میں آج بھی جب کوئی اسامی خالی ہوتی ہے اُس کے لئے عالمی سطح پر تلاش شروع کردیتے ہیں ۔ کنیڈا کی ایک یونیورسٹی میں لکچرر شپ کے لئے وہاں کے صدر شعبہ نے ممبئی کے ایک پی۔ایچ۔ڈی کے طالبِ علم کو دعوت دی تھی۔صرف اس لئے کہ اس طالبِ علم کی پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ صدر موصوف نے پڑھا تھااور حیران تھے کہ اِس صاحبزادے نے اتنا معیاری مقالہ کیسے لکھ لیا۔ہمارے یہاں جب آپ شعبہ میں ایک بار داخل ہو جائیں تو پھر آپ ہر طرح کے امتحان سے بری ہو جاتے ہیں جبکہ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں آج بھی اساتذہ کو صرف ایک سال کا کنٹریکٹ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی صلاحیتوں کا باقاعدہ تجزیہ کرکے جس میں صدر شعبہ کی رائے، رفقائے کار کی رائے اور طلبا کی آراءاور پھر استاد کے علمی کاموں کی جانچ کے بعد ہی استاد محترم کو ان کے منصب پر باقی رکھا جاتا ہے۔ہم اِس طرح کا کوئی اصول بنائیں تو اساتذہ کی یونین ایک ہنگامہ کھڑا کردے گی۔ لہذا نا اہل سے نا اہل امیدوار بھی کالج یا یونیورسٹی کی لکچرر شپ کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے کیوں کہ اسے پتہ ہے،ایک بار اُسے تقرری کا پروانہ مل گیا پھر دنیا کی کوئی طاقت اُسے مات نہیں دے سکتی۔اب وہ سماج میں اونچے منصب پر فائز ہوگا اور چھٹے پے کمیشن کے حساب سے اچھی خاصی تنخواہ پائے گا۔ رہا پڑھنا پڑھانا ، تو نصاب ہی تو پڑھانا ہے کچھ نوٹس بنا لیں گے اور کچھ سابق طالبِ علموں سے لے لیں گے کچھ نہیں بن پڑا تو پوری کتاب زیروکس کرالیں گے۔اس دوران صدر شعبہ یا پرنسپال صاحب سے پینگیں بڑھنے لگیں تب تو سارے کام آسان ہو جائیں گے، اور کسی سے مقابلہ تو کرنا ہے نہیں ، خود کو بہتر کرنے کا جذبہ بھی عرصہ پہلے سرد ہوچکا ہے، ہاں اپنے jobکو permanent کرنے کے لئے جو لازمی قابلیت درکار ہوتی ہے جیسے orientation کورسیز اور ریفریشر کورسیز وغیرہ وہ بھی اب routine بن چکا ہے۔ اور ہر لیکچرر دیر سویر مکمل کرہی لیتا ہے۔رہی سمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت ، تو یہ آپ حضرات سے کہنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مرحلے بھی بڑی آسانی سے طے ہوجاتے ہیں
ہوتے نہ لیکچرر تو کئی لوگ جعفری
ساحل پہ بیچتے کہیں چھولے دہی بڑے
رہے ہمارے اساتذہ کے تحقیقی کام تو اس پر کچھ کہتے شرم آتی ہے۔کالج ہوں یا یونیورسٹی ،اردو کے شعبوں کی پی۔ایچ۔ڈی کی علمی دنیا میں کوئی وقت نہیں رہی پچھلے بیس پچیس برسوں میں اکادکا کوئی تحقیقی کام ہوگا جس نے اردو دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہوں۔ورنہ یہ ایسی مشق ہو چکی ہے کہ آپ کا گائڈ آپ کے مقالے کو یہاں وہاں سے دیکھ کر یونیورسٹی میں پیش کردیتا ہے اور اپنے دوست ممتحن کو مطلع کردیتا ہے کہ بھائی مع اہل و عیال ہمارے شہر تشریف لے آئیے میرا شاگرد آپ کی مہمان نوازی کے لئے بے تاب ہے۔اب یہ لیکچرر صاحب کی ذمہ داری ہے کہ ممتحن صاحب کی آﺅ بھگت کریں ، اُن کے آرام کا خیال رکھیں انھیں اسٹیشن یا ائیرپورٹ لینے اور چھوڑنے جائیں اور انھیں یہ باور کرادیں کہ ان سے زیادہ پڑھا لکھا شخص اس قطعہءارض پر ابھی تک پیدا نہیں ہوا، مزید یہ کہ آپ نے ان کی ساری کتابیں اور مقالے پڑھ رکھے ہیں اور اپنے لکچرس میں صرف اُن سے ہی استفادہ کرتے ہیں۔ غرض یہ ڈرامہ اتنی پابندی اور اس مہارت سے کھیلا جاتا ہے کہ اب ہر مقالہ نگار کو پتہ ہے کہ اُسے اپنے گائڈ اور مہمان ممتحن کو ان کی محنت کا کتنا صلہ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اساتذہ کے مقالے یونیورسٹی لائبریریوں کے کسی کونے میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور وہ خود بھی کالج یا یونیورسٹی کے رجسٹرار کو اُس کی رسید دے کر بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے بھی کبھی کوئی علمی کارنامہ انجام دیا تھا۔ہاں اب یہ بات بھی کوئی راز نہیں رہ گئی کہ ایسے Ghost رائٹر بھی موجود ہیں جو مناسب حقِ محنت پر آپ کو مقالہ لکھ کر دیں گے۔ ظاہر ہے جب یونیورسٹی کا سارا نظام کرپٹ ہوچکا ہو وہاں شاطر قسم کے افراد کے لئے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کا حصول کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا۔ چونکہ اردو والوں کے ہاں ایسا کوئی میکانزم بھی نہیں ہے جو آزادانہ طور پر ان مقالوں کی علمی حثیت جانچ سکے۔اس لئے ان مقالوں کی اکثریت صرف پی۔ایچ۔ڈی کی لازمی قابلیت کی خانہ پُری کے کام آتی ہے جس سے تنخواہ میں اضافہ مقصود ہوتا ہے اور بس۔
مختصراً یہ کہ اردو اساتذہ میں علم کے حصول کی خواہش نہیں رہ گئی ہے اور اب وہ بھی خود کو ڈگری تفویض کرنے کی فیکٹری کا ایک فرد سمجھنے لگے ہیں ۔ انھیں اب اپنے increment کی فکر رہتی ہے۔اور اُن کی ساری سہولتوں کی جس کا وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں۔انھیں اس بات کی فکر نہیں کہ اردو کے طالبِ علموں کی تعداد دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔ انھیں اس بات کا بھی دکھ نہیں کہ شہر کے مختلف کالجوں میں اردو کے شعبے بند ہونے لگے ہیں۔ یہ تو مہاراشٹرا آندھرا پردیش ایسی ریاستیں ہیں جہاں آج بھی اردو اسکول جاری ہیںاور کالجوں اور یونیورسٹیوں کو اردو کے طلباءمل جاتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ہماری اسکولی تعلیم کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔بلکہ اسکولوں میں اردو کا معیار اس قدر ناقص ہوچلا ہے کہ اردو میں بی۔اے کرنے والے طلباءبھی ڈھنگ کا مضمون نہیں لکھ پاتے، اُن کا اِملا درست ہوتا ہے نہ تلفّظ، ادب سے شناسائی تو دور کی بات رہی، وہ تو صرف اِس لئے شعبہءاردو کا رخ کرتے ہیں کے ان کے نمبرات اتنے خراب ہوتے ہیں کہ وہ کسی اور شعبہ میں داخل ہو کر کامیاب ہو ہی نہیں سکتے۔ویسے بھی آرٹس فیکلٹی آج سارے ملک میں بحران کا شکار ہے اور ایک سروے کے مطابق آرٹس کے صرف دس فیصد طلباءہی عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں۔(اردو والے تو شاید اس صد فیصد میں نظر بھی نہ آئیں)
بہر حال اگر ہمیں اردو کی تدریس کی بہتری کی طرف قدم بڑھانا ہے تو سب سے پہلے اسکول میں اردو کی تدریس پر دھیان دینا ہوگا۔ اپنے شعبوں میں ایسے افرادکا تقرر کرنا ہوگا جو اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کو اپنی زندگی کی اہم ترجیحات سمجھتے ہوں وہ ایسے افراد ہوں جو نہ صرف خود مطالعہ کا شوق رکھتے ہوں بلکہ طلباءکو مطالعہ پر مائل کر سکتے ہوں۔جو اپنی کلاسوں میں طلبا کو صرف ادب کی اعلیٰ قدروں سے متعارف کرانے کا ہنر ہی نہ جانتے ہوں بلکہ اپنے حسن سلوک اور کردار سے انھیں متاثر بھی کریں۔ وہ طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور انھیں تخلیقی سوچ اور تجزیہ کرنے پر بھی مائل کر سکیں اور تحریر و تقریر کے رموز و آداب سے بھی روشناس کراسکیں ۔ گو ایک مخصوص مدت میں نصاب کی تکمیل ایک استاد کی محض ذمہ داری قرار دی گئی ہے، مگر وہ چاہے تو اپنے اسی محدود وقت میں طلباءکو نصاب سے کچھ زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے ایک کھلا ذہن اور غیر جانب دارانہ اندازِ تدریس درکار ہے، جو ایک اچھا استاد چاہے تو تھوڑی سی محنت سے یقیناً حاصل کر سکتا ہے۔ ہمارے اساتذہ اسی محنت کو اپنا شعار بنالیں اور اپنے کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنے لگیں تو اردو کی بے رنگ اور بے کیف تدریس میں انقلاب آسکتا ہے۔ اردو تدریس کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے نکل کر دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں سے رابطہ رکھیں ،جو تحقیقی کاموں میں شراکت کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔اور اساتذہ اور طلباءکے Excange پروگراموں کے انعقاد میں بھی۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ ہم ایک لگے بندھے ڈھرے سے ہٹ کر صرف اور صرف اردو زبان و ادب کی محبت میں انتھک محنت پر راضی ہیں؟ یہ نہ بھولئے کہ کسی شعبہ کی شناخت اس کا معیار اور اُس کی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ اس شعبہ نے کتنے ذہین اور با ذوق طلباءکو اپنی طرف مائل کیا ، وہاں کے اساتذہ کتنے معیاری، کتنے محنتی،کتنے جنونی اور کتنے عالم ہیں، اور وہاں کس معیار کے علمی کام ہو رہے ہیں۔
٭٭٭