Life of Shamsur Rahman Farooqui

Articles

شمس الرحمن فاروقی کے سوانحی حالات

ڈاکٹر رشید اشرف خان

خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنے یادگار’’مرثیۂ دہلی مرحوم‘‘ لکھتے وقت کہا تھا:
چپّے چپّے پہ ہے یاں ، گوہریکتا تہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں ، اتنا خزانہ ہرگز
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک نا بغۂ روزگار یا Geniusہیں۔یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ عبقری ، نابغے اور جینیئس بنا نہیں کرتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ کام دستِ مشیّت میں ہوتا ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ قسمت ، حالات ، ماحول اور ذاتی کوشش کو بھی بڑی حد تک اس میں دخل ہے۔
موضع کوریا پار ، ضلع اعظم گڑھ ( موجودہ ضلع مئو) کا نام روشن کرنے والے ادیب، شاعر، دانشور،معلم ، ناقد، مترجم اور صحافی شمس الرحمن فاروقی اسی کوریا پار کے رہنے والے ہیں۔کوریا پار کی تاریخ فاروقی کے والدمحترم کے ان جملوں سے واضح ہوجا تی ہے:
’’کوریا پار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بزرگ جن کانام ’’ کوڑیا شاہ ‘‘ تھا انھیں کے نام سے یہ موضع کوڑیا پار کے نام سے مشہور ہوا۔ ان بزرگ کے بارے میں ایک تاریخی اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ چودھویں صدی کے آخر میں ۱۳۸۸ء میں جب فیروز شاہ تغلق کا انتقال ہواتو دہلی کی بد امنی اور طوائف الملوکی سے عاجز آکر وہاں کے مشائخ اور علما دہلی چھوڑ کر ملک کے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ چنانچہ ابراہیم لودھی کی تخت نشینی ہوئی تو بزرگ کوڑیا شاہ ، اعظم گڑھ پہنچے اور کوڑیا پار میں آباد ہوگئے ‘‘۱؎
شمس الرحمن فاروقی کے آبا واجداد ہندوستان میں فاروقی شیوخ شیخ عبداللہ ابن حضرت عمر فاروق ابن خطّاب کی نسل سے ہیں ۔وہ سب کے سب امر با المعروف اور نہی عن المنکر کے اصول پر تا حیات سختی سے قائم رہے۔ ان کے اکابر حضرت شاہ مولانا اشرف علی تھانوی اور بعد میں ان کے خلیفۂ رشید حضرت شاہ مولانا وصی اللہ کے باقاعدہ مریدین میں سے تھے۔ تذکرہ علماے اعظم گڑھ (مولفہ مولانا حبیب الرحمان قاسمی) میں شمس الرحمن فاروقی کے دادا حکیم مولوی محمد اصغر صاحب کا ذکر خیر بڑے اچھے الفاظ میں ملتا ہے۔ دادیہالی بزرگوں میں مذہبی کٹّر پن تھا اور اس میں کسی قسم کا جھوٹ یا مصالحت کی کوئی گنجائش قطعی نہیں تھی۔اس کے برعکس نانہال میں مذہبی رواداری بھی تھی۔نانا مرحوم بھی پابند صوم وصلوۃ تھے لیکن میلاد کی محفلیںبڑے ذوق وشوق سے منعقد کراتے اور نذر و نیاز میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔فاروقی صاحب کی نانی ضلع بلیا کے ایک معروف گاؤں قاضی پور کی رہنے والی تھیں۔ اس پورے قاضی خاندان میں علوم دینیہ کی شان دار روایت برسوں سے چلی آرہی تھی۔ اپنے دادیہال اور نانیہال کا تعارف پیش کرتے ہوئے فاروقی لکھتے ہیں:
’’ میری نانی حضرت چراغ دہلوی کے خاندان کی تھیں اور ان کے گھر میں بھی علم کے ساتھ ساتھ مذہب کا چرچاتھا ۔ میرے دادا کا گھرانا حضرت مولانا تھانوی کا مرید تھا ۔ میرا نا نیہال تقریباََ سب کا سب حضرت مولانا احمد رضاخاں بریلوی کے حلقۂ ارادت میں تھا۔‘‘۲؎
فاروقی کے والد کانام مولوی خلیل الرحمن فاروقی تھا۔ وہ ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے اپنے سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ انہوں نے عربی فارسی پڑھی ، بی۔اے کیا، ایم۔اے سال اوّل کا امتحان دیا جس میں فیل ہوگئے۔ اس کے بعد ایل ۔ٹی کیا۔ ۱۹۳۹ء میں محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے اور سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ڈپٹی انسپکٹر مدارس اسلامیہ بنادیے گئے جہاں سے ۱۹۷۰ء میں وظیفہ یاب ہوئے۔ انگریزی بہت اچھی جانتے تھے اور بے تکان لکھتے تھے لیکن انگریزی بولتے نہیں تھے۔ عام طور پر ان کالباس پتلون پر شیروانی یا کڑاکے کی سردیوں میں پتلون اور شیروانی پر بڑا کوٹ زیب تن کرتے تھے۔
ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد مولوی خلیل الرحمن فاروقی نے الہ آباد کے محلہ راجہ پور میں ایک عمارت ’’دارالسلام‘‘ کے نام سے بنوائی ۔ عبادت وریا ضت اور تبلیغ دین کے لیے خود کو وقف کردیا ۔اپنی سوانح عمری (خود نوشت) ’’ قصص الجمیل فی سوانح الخلیل ‘‘ مرتب کی لیکن یہ کتاب شمس الرحمن فاروقی نے ۱۹۷۳ء میں چھپوائی کیو نکہ ۱۳فروری ۱۹۷۲ء کو ۶۲ سال کی عمر میں خلیل الرحمن فاروقی صاحب اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
۳۰ستمبر ۱۹۳۵ء کو کالا کانکر ہاؤس ، پرتاپ گڑھ (یوپی) میں شمس الرحمن فاروقی کی ولادت ہوئی جہاں ان کے نانا خان بہادر محمد نظیر صاحب اسپیشل منیجر کورٹ آف وارڈس تھے اور جس مکان میںان کا قیام تھا وہ مہاراجہ پرتاپ گڑھ کی کوٹھی تھی۔ان کی ولادت سے سارے خاندان میں بہت خوشی ہوئی۔ اس لیے کہ وہ دو لڑکیوں یعنی دوبہنوں کے بعد پیدا ہوئے تھے۔شمس الرحمن فاروقی کے کل سات بھائی اور دو بہنیں ہیں جن میں فاروقی بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔
غیر ضروری نہ ہوگا اگر ہم اس موقع پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ شمس الرحمن فاروقی کے نام کے سلسلے میں کیسے کیسے تماشے ہوئے ۔ دراصل فاروقی کے بڑے والد محمد عبداللہ فاروقی کے بڑے صاحب زادے شمس الہدیٰ المتخلص بہ قیسیؔ الفاروقی اس تماشے کا سبب تھے۔ فاروقی لکھتے ہیں:
’’ مجھے قیسیؔ الفاروقی میں الف لام کا دم چھلّا غیر ضروری اور بے جا تصنع لگتا تھا ۔لیکن قیسی ؔ الفاروقی نے میری ادبی زندگی کو بہر حال متا ثر کیا ۔ میں نے اپنا قلمی نام ’’ شمسی رحمانی اعظمی‘‘ اختیار کیا اس لیے کہ خلیل الرحمن اعظمی میرے ممتاز ہم وطن تھے ۔اور ’’ رحمانی‘‘ اس لیے کہ ان دنوں ’’ رحمانی ‘‘ نام والے کئی لکھنے والے معروف تھے۔اور ’’ شمسی ‘‘ اس لیے کہ یہ سب ملا کر ’’شمس الرحمن ‘‘کالازمی نتیجہ تھا ۔( میرے خیال میں) قیسی ؔ صاحب نے مجھے اعظمی ترک کرنے کی صلاح دی جو میں نے قبول کرلی۔ کچھ دن میرا نام ’’شمسی رحمانی ‘‘ ہی رہا ۔ پھر مجھے یہ مقفّیٰ نام اور لفظ’’ رحمن ‘‘ کا بگاڑ بہت برا لگنے لگا اور میں سیدھا سادہ شمس الرحمن فاروقی بن گیا۔‘‘۱؎
شمس الر حمن فاروقی نے اپنی تعلیم کی ابتدا روایت کے مطابق عربی وفارسی سے کی تھی۔ انھیں کوریا پار میں مولوی محمد شریف صاحب نے پڑھایا تھا۔اس کے بعد آپ اعظم گڑھ کے ایک مکتب میں داخل کردیے گئے اس مکتب کانا م باغ پر پیٹو تھا۔ یہاں انھیں دینی تعلیم دی گئی۔ نانیہالی رسم کے مطابق فاروقی کی تسمیہ خوانی ( رسم بسم اللہ) چار برس چار مہینے کی عمر میں ہوئی تھی اور دوسال بعد ناظرہ قرآن پاک ختم کر لیا تھا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد فاروقی کا داخلہ ویسلی ہائی اسکول اعظم گڑھ میں درجہ پنجم میںکرایا گیاجہا ں سے انھوں نے درجہ نہم تک کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء میں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول گورکھپور میں داخل ہوئے اور۱۹۴۹ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے میاں صاحب جارج اسلامیہ انٹر کالج گورکھپور میں داخل ہوئے۔ یہاں خوش قسمتی سے انھیں بڑے لائق و فائق اور شفیق اساتذہ سے سابقہ ہوا۔ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ استادغلام مصطفٰے خاں صاحب رشیدی مرحوم تھے جن کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ انگریزی کے استادغلام مصطفٰے خاں صاحب رشیدی مرحوم نے اپنی طلاقت لسانی اور تبحّر علمی اور پھر اچھے طالب علموں سے ان کی دلچسپی اور ان کی مسلسل ہمت افزائی کے ذریعے چند ہی دنوں میں سارے فرسٹ ایئر کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ مجھے اس بات کا فخر رہے گا کہ رشیدی صاحب مجھے اچھے طالب علموں میں شمار کرتے تھے اور میرے اردو ادبی ذوق کو بھی انہوں نے ہمیشہ تحسین کی نگا ہوں سے دیکھا ۔ اپنی اردو تحریریں کبھی کبھی ان کو دکھاتا ۔ ان کے مشورے نہایت ہمدردانہ لیکن باریک بینی سے مملوہوتے تھے اور میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا‘‘۱؎
فاروقی کے دیگر اساتذہ میں مسٹر پی ، آئی کورئین( انگریزی) پرنسپل حامد علی خاں (انگریزی صرف و نحو کے استاد) اردو کے استاد منظور علی صاحب اور شمس الآفاق صاحب تھے۔
انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد فاروقی نے مہارانا پر تاپ کالج گورکھپور میں بی۔اے میں داخلہ لیاجہاں انہوں نے جغرافیہ، اقتصادیات اور مغربی فلسفے کی تاریخ پڑھی۔ کانٹ ، ہیگل اور افلاطون نیز فرائڈ وغیرہ سے واقفیت حاصل کی۔ ۱۹۵۳ء میں بی۔اے کرنے کے بعد فاروقی انگریزی ادب میں ایم۔ اے کرنے کی غرض سے الہ آباد پہنچے۔ ۱۹۵۵ء کا سال فاروقی کے لیے انتہائی مبارک ثابت ہوا۔انھوں نے نہ صرف فرسٹ ڈیویژن میں ایم۔اے کا امتحان پاس کیا بلکہ پوری یونی ورسٹی میں اول مقام کے حق دار پائے گئے اور بطور اعزاز انہیں دو گولڈ میڈل بھی ملے۔
الہ آباد میں فاروقی کے سب سے محبوب استاد پروفیسر ایس۔سی ۔دیب صاحب تھے (جو احتشام حسین ، محمد حسن عسکری اور سید اعجاز حسین کے بھی محبوب استاد رہے ہیں)جن کے بارے میں فاروقی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ دیب صاحب سے میںنے بہت کچھ سیکھا۔علی الخصوص یونانی المیہ نگاروں کی عظمت و وقعت اور کولرج کی باریک بینیاں مجھ پر دیب صاحب کے ذریعے منکشف ہوئیں ۔دیب صاحب کی تعلیم خاصی قدامت پرستا نہ تھی لیکن وہ بر انگیخت(Provoke (بہت کرتے تھے اس واسطے ان کے کلاس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات سننے کو مل جاتی تھی جو بعد میں ایک پورے نظام فکرمیںDevelopہوسکتی تھی‘‘ ۱؎
دیب صاحب کے علاوہ فاروقی کے بالواسطہ خاص استاد میں پروفیسر پی۔ ای دستور ، ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن ، پروفیسر پی ۔سی گپت، پروفیسر وائی سہائے اور پروفیسر فراقؔ تھے۔فاروقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں ڈاکٹر سید اعجاز حسین ،پروفیسر سید احتشام حسین اور ڈاکٹر سید مسیح الزماں کو بھی اپنا استاد سمجھتا ہوں البتہ محمد حسن عسکری کو فاروقی بطور خاص عزیز رکھتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں فاروقی نے لکھا ہے :
’’ عسکری کو پڑھ کر میرے تو چھکے چھوٹ جاتے تھے کہ میں تو اتنا علم رکھتا ہی نہیں ہوں اور نہ اس طرح لکھ سکتا ہوںتو پھر میں تنقید کیا کرسکوں گا ؟ تو میں اس وقت سے عسکری صاحب کا قائل اور مداح ہوں ۔ ان کا عقیدت مند رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں ہر جگہ ان سے متفق نہیں ہوں مگر ان کا حلقہ بگوش تو یقینا ہوں۔‘‘۲؎
مذکورۂ بالا عظیم ہستیوں کے علاوہ جن کو فاروقی نے اپنا ذہنی رہنما مان لیا تھایا جن سے لاشعوری طور پر ان کی ادبی تخلیق و تحقیق کی راہیں روشن ہوئیں،میری مراد ان مفکرین و مصنفین سے ہے جن سے اوائل عمر ہی سے فاروقی نے استفادہ کیا ۔ کہیں براہ راست اس استفادے کا اعلان کیا اور کہیں ان کے خیا لات و نظریات کو اپنے دل ودماغ میں جذب کرکے ان کی وضاحت یا تنقید وتردید کی مثلاََ
1-Thomas Hardy, 2-Bertrand Russell, 3-A.C. Ward, 4-Andre Gid, 5-William Shakespeare,
تھامس ہارڈی (Thomas Hardy)کے بارے میں فاروقی لکھتے ہیں:
’’ بی۔ اے میں نام لکھایا ہی تھا کہ ہارڈی کے ناولوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ ہارڈی کے نام سے تو میں مجنوں صاحب کے مختصر ناولوں(یا ہندوستانی رنگ اور اردو زبان میں ہارڈی کے بعض ناولوں کی تلخیص) کے ذریعہ آشنا ہوچکا تھا لیکن انگریزی میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی ۔ انگریزی میں اس کا ایک ناول پڑھا تھاکہ مجھ پر یہ بات بالکل عیاں ہوگئی کہ ہارڈی کے ناولوں کی تشکیک ،محزونی، دنیا میں انصاف اور نیکی کے فقدان کا احساس ، انسانی زندگی کے المیاتی ابعاد ۔ غرض کہ ہارڈی تھا کہ مجھے اپنی دنیا میں کھینچے لیے جارہا تھا‘‘ ۱؎
فاروقی اپنی افتاد مزاج اور کچھ اہل خانہ کی عملی تربیت کی بنا پر بہت ہی متین ، سنجیدہ اور بردبار انسان ثابت ہوئے ہیں۔ بچوں کے کھیل کود سے انھیں زیادہ دلچسپی نہیں بلکہ صاف ستھری اورپُر سکون زندگی زیادہ پسند ہے۔ وہ انتہائی با اصول ،پابند وقت اور وسیع المطالعہ شخص رہے ہیں۔مختلف موضوعات پر کتا بیں حاصل کرناانھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی ہے۔
جن لوگوں نے شمس الرحمن فاروقی کو قریب سے دیکھا ہے یا جنھیں فاروقی سے مختلف حیثیتوں سے ملنے جلنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ باوجود خاموش طبع ، کم آمیز اور گوشہ نشین رہنے کے وہ بڑے زندہ دل ، ملنسار اور خوش مزاج انسان ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع اور متنوع ہے ۔ ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت ،شب خون کی اشاعت ،اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں ، تقریروں ، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل ملاقات کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبان ذوق ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کچھ حضرات ان کے نظریات یا ذاتی اسباب کی بنا پر ان کے مخالف بھی ہیں لیکن اپنے تئیں مصلحتاََ یا مجبوراََ ان کے دوست کہلانا پسند کرتے ہیں۔
راقم الحروف اس بات کا دعوے دار نہیںہے کہ وہ فاروقی کے سبھی دیرینہ اور موجودہ احباب سے واقف ہے کہ وہ ہر دوست کی کیفیت ِ مزاج اور مو صوف سے قربت کی نوعیت کا کما حقہ جائزہ لے سکے۔ ان کے بعض قریبی اعزہ کی زبانی نیز ان کی تصانیف اور رسائل کی مدد سے جو معلومات حاصل ہوسکی صرف ربط بیان کے لیے ان کا انتہائی اختصار کے ساتھ تذکرہ کرتا ہے۔اس ضمن میں لا شعوری طور پر اگر کوئی فروگذاشت واقع ہو تو ازراہ کرم آپ اسے راقم کی کم علمی پر محمول فرمائیں یا پھر اس امر کو ’’ دروغ برگردنِ راوی‘‘ کے خانے میں ڈال دیں۔
جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر ہوچکا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے انگریزی ادب کا عمیق مطالعہ کرکے ۱۹۵۵ء میں الہ آباد یونی ورسٹی سے ایم۔ اے کا امتحان دیا۔ اس امتحان میں نہ صرف یہ کہ کامیابی حاصل کی بلکہ ان کا نام Toppersمیں تھا ۔ اس یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی کی غیر تحریری روایت رہی ہے کہ فرسٹ کلاس طالب علموں میں سب سے زیادہ نمبر لانے والے امید وار کو شعبہ میں از خود لکچرشپ مل جایا کرتی تھی کیوں کہ اسے شعبہ کے لیے ایک طرۂ امتیاز سمجھاجاتا تھا ، لیکن برا ہو تنگ نظری ، عصبیت اور دھاندلی کا کہ اتنی شاندار لیاقت رکھنے اور میرٹ لسٹ میں آنے کے باوجود اس قاعدے قانون کو فراموش کرکے ساتویں اور آٹھویں پائیدان تک آنے والوں کو لکچر شپ دے دی گئی۔ ظاہر ہے کہ ارباب اقتدار کی اس حرکت مذبوحی کو دیکھ کر فاروقی کو سخت کوفت ہوئی لیکن وہ ایک با حوصلہ نوجوان تھے لہٰذا ہمت نہیں ہارے ۔ انہیں یہ حکیمانہ قول یا د تھا کہ’’ اگر کوئی تمھیں لیموں دے تو اسے فوراََ لیموں کے شربت میں بدل دو‘‘ ۔ان کا اسی سال ستیش چندرڈگری کالج یوپی میں بحیثیت لکچرر تقر ر ہوگیالیکن جب انھیں شبلی کالج ، اعظم گڑھ نے دعوت دی تو موصوف علامہ شبلی نعمانی سے منسوب اس کالج کی طرف بصد شوق مڑ گئے اور ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک وہاں انگریزی پڑھاتے رہے۔
۱۹۵۸ء ہی کی بات ہے کہ فاروقی نے ہندوستان کے سب سے باوقار پیشے کے لیے مقابلہ جاتی امتحان آئی ۔اے۔ ایس) (I.A.S. میں شرکت کی اور خوش قسمتی سے پہلی کوشش میں کامیاب ہوگئے۔انٹر ویو میں کامیابی کے بعد انھوں نے انڈین پوسٹل سروس جوائن کیا۔ ملازمت کے دوران وہ حکومت ہند کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ۔مثلاََ:
۱۔ چیف پوسٹ ماسٹر جنرل ، بہار (پٹنہ) ۲۔ چیف پوسٹ ماسٹر جنرل ، اترپردیش (لکھنؤ) ۳۔ ڈپٹی ڈائرکٹر پوسٹل مٹیریلس ، پی اینڈ بورڈ (نئی دہلی)۴۔ جوائنٹ سکریٹری ، ڈیپارٹمنٹ آف نان کنونشل انرجی سورسس ہند (نئی دہلی)
اپنی عمر عزیز کے ۳۶ سال بلا تفریق مذہب وملت کمال فرض شناسی ودیانت داری کے ساتھ ملازمت سے ۳۱ جنوری ۱۹۹۴ء کو سبک دوش ہوئے۔جس زمانے میں فاروقی ملازمت میں تھے، ان کے مخلص دوست ڈاکٹر نیر مسعود لکھتے ہیں :
’’فاروقی کانپور میں تعینا ت تھے ایک دن لکھنؤ آئے کسی سخت الجھن میں مبتلا تھے کہنے لگے میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ملازمت سے استعفٰی دے دوں۔ ان سے جب اس فیصلے کا سبب پوچھا تو بتایا کہ ان کے پی ۔ایم۔ جی صاحب ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔انہیں یہ خیال ہونے لگا ہے کہ فاروقی، محکمے میں مسلمانوں کو زیادہ بھرتی کر رہے ہیں۔میںنے پوچھا کیا یہ حقیقت ہے؟ ’’ہاں کسی حد تک‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ میرے کاموں میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ بالکل مجھ سے کلر کوں والا برتاؤ کرتے ہیں۔ دیر تک دل کا بخار نکالنے کے بعد واپس چلے گئے۔ اگلی بار آئے تو بہت خوش تھے۔ کہنے لگے۔ اس نے مجھے کلرک سمجھ لیا تھا تو میں نے بھی کلرکوں والی حرکتیں شروع کردیں ۔ اس کے ہر آرڈر میں طرح طرح کی قانونی قباحتیں نکال دیتا تھا اور باربار آرڈر میں تبدیلیاں کراتا تھا۔ عاجز آکر اس نے کہہ دیا ۔ مسٹر فاروقی ، آپ جو مناسب سمجھئے وہ کیجیے۔‘‘۱؎
۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ء کوشمس الرحمن فاروقی کی شادی ضلع الہ آبا کے قصبہ پھول پور کے ایک زمیندار گھرانے میں سید عبد القادر کی بڑی لڑکی جمیلہ خاتون سے ہوئی ۔جمیلہ خاتون الہ آباد یونی ورسٹی کی ایک ہونہاراورذہین طالبہ تھیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ایک باحوصلہ، ذمہ داراور خوش اخلاق خاتون بھی تھیں۔ وہ الہ آبا د کے حمیدیہ اور قدوائی گرلزکالج جیسے مؤقر ادارے کی پرنسپل بھی رہی ہیں۔فاروقی کی دو لڑکیاں ہیں۔۱۔مہر افشاں، ۲۔ باراں رحمن
(۱) مہر افشاں (پیدائش ۱۹۵۷) ایم۔اے (تاریخ) ڈی فل ( تاریخ) اردو فارسی سے واقف ہیں ۔اردو فارسی سے انگریزی میں اور انگریزی سے اردو میں کئی تراجم کیے ہیں۔ پنسلوانیا یونی ورسٹی میں مہمان پروفیسر رہ چکی ہیں۔ ابتدائی تعلیم کونونٹ میں حاصل کی۔ پرائمری درجات سے ایم ۔اے تک اول درجے سے کامیابی حاصل کی۔ فی الحال امریکہ کی ورجینیا یونیورسٹی میں درس وتدریس کا کام انجام دے رہی ہیں۔
(۲) باراں رحمن ( پیدائش ۱۹۶۵ء) بی۔ایس سی ، ایم۔اے پی ایچ ڈی (انگریزی) اوراردو فارسی سے واقف ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں انگریزی کی پروفیسر ہیں۔
فاروقی کی شریک حیات محترمہ جمیلہ فاروقی جو حقیقی معنوں میں ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ اور ((Morale-Boosterدل بڑھانے والی خاتون تھیں ،اس دنیاے آب وگل میں تقریباََ ۵۲ برس تک ان کے ساتھ رہیں۔جمیلہ فاروقی اچانک بیمارپڑ گئیں۔خیال تھا کہ الہ آباد کے ڈاکٹر انھیںسنبھال لیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ انھیںدہلی کے مشہور بترا ہسپتال میں داخل کیا گیا،کئی ڈاکٹر شب وروز ان کی نگہداشت میں جی توڑ کوشش کر رہے تھے لیکن علالت ایسی تھی کہ کسی طرح افاقہ ممکن نہ تھا۔آخر طے پایا کہ بیگم فاروقی کو الہ آباد لایا جائے۔ مشیت ایزدی میں کیا چارہ ہے ۔آخر کار دہلی سے الہ آبا واپس لائی گئیں جہاں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۰۷ء (بروز جمعہ) کو تمام اہل خانہ کو وہ داغِ مفارقت دے گئیں،جس کا اندازہ فاروقی کے ان اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

اس کو وداع کرکے ، میں بے قرار رویا
مانند ابر تیرہ ، زار و قطار رویا
طاقت کسی میں غم کے ، سہنے کی اب نہیں ہے
اک دل فگار اٹھا ، اک دل فگار رویا
اک گھر تمام گلشن ، پھر خاک کا بچھونا
میں گور سے لپٹ کر دیوانہ وار رویا
تجھ سے بچھڑ کے میں بھی اب خاک ہوگیا ہوں
تربت پہ تیری آکر ، میرا غبار رویا
٭٭٭
شمس الرحمن فاروقی کو ان کے چالیس سے زائد اردو انگریزی تصانیف اور کارناموں پر ہندوستان کی کم وبیش سبھی اکیڈمیوں اور ادبی اداروں نے انعامات سے سرفراز کیاہے۔علاوہ ازیں ان کی ادبی قدر قیمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بر صغیر کا سب سے بڑاادبی ایوارڈ’’سرسوتی سمان‘‘جو مالیت کے لحاظ سے بھی سب سے بڑاہے، شمس الرحمن فاروقی کو ’شعر شور انگیز‘‘ کے لیے ملا۔فاروقی اردو کے پہلے ادیب ہیں جنھیں سرسوتی سمان سے نوازا گیا۔
شمس الرحمن فاروقی بنیادی طور پر ایک دانشور ہیں ۔ان کی عالمانہ تصانیف کو پڑھ کر نیز’’شب خون‘‘ جیسے معیاری رسالے کی ترتیب و تزئین کو دیکھ کر ہر کس وناکس اردو اور فارسی ادبیات پر ان کی گرفت کی تعریف کرتا ہے۔رسالہ’’شب خون ‘‘ جون ۲۰۰۵ء تک یعنی کم وبیش چالیس سال تک شائع ہوتا رہا۔اگرچہ اس میں بحیثیت مدیر ،پرنٹر اور پبلشر عقیلہ شاہین کا نام درج ہوتا تھا ، لیکن ترتیب و تہذیب کے ذمہ دار فاروقی تھے اور وہی دراصل پورے رسالے کی نگرانی کرتے تھے۔ ملازمت سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد وہ از اول تا آخر اسے سجاتے سنوارتے تھے۔ تقریباََ ۸۰ صفحات پر مشتمل اس رسالے میںاعلیٰ درجہ کے طبع زاد نثری مضامین کے علاوہ مختلف زبانوں کے تراجم اور ادبی مباحث بھی ہوتے تھے۔ منظومات کے علاوہ چند مستقل عنوانات مثلاََ ’’سوانحی گوشے ‘‘،’’ کہتی ہے خدا خلق‘‘ا ور ابتدائیہ میں ادب عالیہ کا کوئی تعارفی مضمون ضرور ہوتا تھا۔ اس رسالے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ نہ تو کوئی مضمون قسطوں میں چھپتاتھا اور نہ مختلف الگ الگ صفحات پر ۔ صحت کی خرابی اور دوسرے نا گزیر اسباب کی بنا پر فاروقی نے جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء میں دوجلدوں پر مشتمل آخری شمارہ نکال کر’’شب خون‘‘ بند کردیا۔
یہ بات تو اپنی جگہ بالکل طے ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک پیدائشی فنکار ہیں لہٰذا یہ ایک بدیہی امر ہے کہ مطالعۂ کتب ، مشاہدۂ کائنات،خامہ فرسائی ، علمی وادبی مباحث، نزدیک و دور کے اسفار،خطابت اور صحافت ہی ان کے میدان عمل یا کارگاہِ غور وفکر ہیں۔
شعر گوئی اور سخن فہمی فاروقی کو وراثتاََ اپنے بزرگوں سے ملی ہے۔لیکن ان کا کلام سنجیدہ مزاج اور فلسفیانہ خیالات رکھنے والے عالم ودانا سامعین و ناظرین میں نسبتاََ زیادہ مقبول ہے جس کا احساس خود فاروقی کو بھی ہے۔چنانچہ اپنے ایک شعری مجموعہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’انگریزی زبان کے ایک معروف شاعر ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے ایک دوست نے ان سے کہا کہ تمھاری شاعری اتنی مشکل ہے کہ اسے مشکل سے دولوگ سمجھ سکتے ہیں۔ ایلیٹ نے جواب دیا کہ میں انھیں دو لوگوں کے لیے لکھتا ہوں۔‘‘۱؎
شمس الرحمن فاروقی اردو زبان کے ایک سچے عاشق بھی ہیں اور وکیل بھی۔اکثر اردو کے نادان دوست یا مخالفین مخلص یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اردو رسم الخط بدل دیا جائے تو یہ زبان اور ہردلعزیز ہو جائے گی ۔ فاروقی اس تجویز کے سخت خلاف ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ہماری زبان کی بدنصیبی ہی کہی جائے گی کہ اس کا رسم الخط بدلنے کی تجویزیں با ر با ر اٹھتی ہیں ، گویا رسم الخط نہ ہوا کوئی ایسا داغ بدنامی ہوا کہ اس سے جلد از جلد چھٹکارا پانابہت ضروری ہو۔کبھی اس کے لیے رومن رسم خط تجویز ہوتا ہے ، کبھی دیونا گری ۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ رسم خط میں تبدیلی کی بات کہنے والے اکثر خود اہل اردو ہی ہوتے ہیںجس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے ۲۰۰۵ء میں پروفیسر گیان چند جین کی بدنام زمانہ کتاب ’’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ ،دو ادب ‘‘ کے عنوان سے شائع کی تھی ۔ ۳۰۰ صفحات سے کچھ اوپر ضخامت رکھنے والی اس کتاب میں جملہ ۱۴ ابواب ہیں ۔ فاروقی نے اس کتاب کے ایک ایک جزو پر خالص عالمانہ بحث کی ہے اور آنجہانی ڈاکٹر جین کے ایک ایک معاندانہ دعوے کی تردید کی ہے۔فاروقی کا یہ محاکمہ خالص منطقی استدلال پر مبنی ہے ورنہ موصوف یہ نہ لکھتے کہ:
ــ’’ یہ کتاب اردو ہندی تنازع پر نہیں ،بلکہ ہندو مسلم تنازع پر لکھی گئی ہے بلکہ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے اور ابناے وطن کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لیے لکھی ہے۔‘‘۱؎
پوری کتاب کا حرف بہ حرف تجزیہ کرنے کے بعد فاروقی نے اپنے تبصرے کا اختتام یوں کیا ہے:
’’ یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کی ہے۔ یہ ادارہ اردو اشاعت کا ایک معتبر ادارہ ہے۔ اس کے مالک جمیل جالبی کے بھائی ہیں۔ وہی مشہور محقق اور ادبی مؤرخ جمیل جالبی جن کے معتقد ہمارے فاضل مصنف بھی ہیں اور جن کو انھوں نے اپنی کتاب ’’ اردو کی ادبی تاریخیں ‘‘ لکھ کر معنون کی ہے کہ جمیل جالبی ’’ادبی تاریخ کے سب سے اچھے اہل قلم ‘‘ ہیں ۔ حیرت ہے کہ اردوکے صریحاََ خلاف جھوٹ اور اغلاط اور تعصب سے بھری ہوئی یہ کتاب ایک اردو ادارہ سے کیسے اور کیوں شائع ہوئی‘‘ ۲؎
فاروقی کی ایک حیثیت مورخ اردو زبان وادب کی بھی ہے ۔ اس کا بین ثبوت ان کی تحریر کردہ کتاب ’’ اردو کا ابتدائی زمانہ، ادبی تہذیب وتاریخ کے پہلو‘‘ہے یہ کتاب جو دو سو صفحات پر مشتمل ہے اس کا پہلا ایڈیشن اجمل کمال نے ۱۹۹۹ء میں ’’آج کی کتابیں‘‘ نامی ادارہ واقع صدر ، کراچی پاکستان سے شائع کیا تھا ۔ یہی کتاب بہ زبان انگریزی آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس سے چھپ چکی ہے وہاں اس کی سرخی ہے:
Establishing New Facts about Urdu Language & Literature
Shamsur Rahman Faruqi’s
EARLY URDU LITERARY CULTURE AND HISTORY
Published by Oxford University Press
شمس الرحمن فاروقی نے اندرون ملک اور بیرون ملک کی متعددیونی ورسٹیوں اور جلسوںمیںشرکت کی جہاں انہوں نے مختلف ادبی موضوعات پرعالمانہ لکچر دیے اور جلسوں سے بھی خطاب کیا۔طوالت کی خاطر میں صرف بیرون ممالک کے اسفا ر کا سرسری جائزہ پیش کروںگا۔ شمس الرحمن فاروقی نے پہلی بار ۱۹۸۷ء میں برطانیہ اور امریکا کا دورہ کیا جہاں انہوںنے وسکالنسن یونی ورسٹی میں بین الاقوامی ادبی کانفرس میں شرکت کی اور شکاگو یونی ورسٹی میں لکچر دیے۔۱۹۸۰ء میں پاکستان کے شہر لاہور اور کراچی کے ادبی جلسوںسے خطاب کیا ۔۱۹۸۴ء میں امریکا اور کناڈا کا سفرکیا اورٹو رنٹو میں بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد برٹش کولمبیا یونی ورسٹی (وین کور) کیلی فورنیا یونی ورسٹی(برکلے) اور وسکالنسن یونی ورسٹی میں جلسوں سے خطاب کیا۔۱۹۸۴ء ہی میں تھائی لینڈ کے شہر بنکاک کے SAARCکانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔۱۹۸۵ء میں سوویت یونین ماسکو میں ہندوستانی سائنس نمائش میں ہندوستانی وفد کی قیادت کی۔۱۹۸۶ء میں دوبارہ پاکستان کا سفر کیا اور اسلام آباد میں SAARC(دیہی توانائی) میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔۱۹۸۶ء میں امریکا اور کناڈا کا دورہ کیا جہاں انہوں نے چھ امریکی شہروں میں ہندوستانی شاعری میلہ اور ادبی جلسوں سے خطاب کیا۔۱۹۸۷ء میں خلیجی ممالک دوحہ، قطر میں ہند پاک جلسوں میں شرکت کی۔۱۹۸۸ء میں برطانیہ اور امریکا گئے جہاں لندن کے ایک ادبی جلسے سے خطاب کیا علاوہ ازیں پنسلوانیا ، فلاڈلفیا اور کولمبیا یونی ورسٹی نیو یارک میں لکچر دیے۔۱۹۸۹ء میں خلیجی ممالک دوحہ ،قطرہندپاک جلسوں میںشرکت کی،واپسی میں کراچی کے ادبی جلسوں سے خطاب کیا۔۱۹۸۹ء میں پنسلوانیا یونی ورسٹی امریکا میں اردو ادب پر تقاریر کیں۔ ۱۹۹۰ء میں جدید اردو کلاسیکی ادب پر شکاگو میں لکچر دیے۔۱۹۹۳ء میں پنسلوانیا ، شکاگو اور کولمبیا یونی ورسٹیوں میں اپنے خطبات پیش کیے۔۱۹۹۳ء میں مغربی یورپ بلجیم اور ہالینڈ کا سفر کیا۔۱۹۹۳ء میں بنکاک،نیوزی لینڈ اور سنگاپور کا سفر کیا جہاں انہوں نے پوسٹل انتظامیہ کی دولت مشترکہ کانفرنس منعقدہ نیوزی لینڈ میں ہندوستانی نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی اور ’’ آب ِحیات‘‘ کے انگریزی ترجمے میں بحیثیت مشیر ۱۹۹۳ء میں کولمبیا میں کام کیا اور کناڈا کے شہر ٹورنٹو میں ادبی جلسوں کو خطاب کیا۔۱۹۹۵ء انگریزی ترجمے کے ماہر مشیرکی حیثیت سے کولمبیا میں کام کیا اور کیلیفورنیا ،برکلے اور کنکورڈیا کی یونی ورسٹیوں میں ادبی جلسوں میں خطاب کیا۔۱۹۹۵ء میں لندن اور بریڈ فورڈ میں ادبی جلسوں کو خطاب کیا اور آکسفورڈ لائبریری میں نایاب کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ۱۹۹۶ء میں عبرانی یونی ورسٹی یروشلم میں تین لکچر کلاسیکل اردو غزل کی شعریات پر دیے۔نومبر ۱۹۹۶ء میں فاروقی کو ہیبرو یونیورسٹی اسرائیل نے ’’ہندوستانی شعریات ‘‘ کے موضوع پر لکچر کی دعوت دی جس کا معاوضہ کافی خطیرتھا پھربھی فاروقی نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا ۔ فاروقی نے اسرائیلی دعوت نامے کومسترد کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ انسان دوستی کو نام ونمود اور اعزازات پر مقدم سمجھتے ہیں۔انہوں نے اس عمل سے فلسطین کے ان مظلوموں اور ناداروں کی ایک طرح سے حمایت بھی کی جو صیہونی ظلم واستبداد کا آئے دن نشانہ بنتے ہیں۔
چونکہ اس تصنیف کا مقصد شمس الرحمن فاروقی کی فکشن نگاری عموماََ اور ان کے مشہور ناول ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ کا مطالعہ خصوصاََ پیش کرنا ہے۔لہٰذا گزشتہ چند صفحات میں ان کے سوانحی حالات اختصار کے ساتھ پیش کیے گئے ہیںتاہم اس نکتہ کو پیش نظررکھا گیا ہے کہ فاروقی کی پیدائش سے اب تک کی زندگی کا محاکمہ اس ترتیب سے کیا جائے کہ ان کی گھریلو ، علمی اور عملی زندگی کے وہ اہم واقعات وحالات ضبط تحریر میں آجائیںجو کہ ان کی پرورش و پرداخت اور ذہنی نشو ونمامیں اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی شخصیت کے مطالعے کے بعد یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود انھوں نے اردوزبان و ادب پر جو اختصاص حاصل کیا ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو سکا۔صرف اردو ہی نہیں بلکہ دنیا کی دیگر اہم زبانوں اور ان کے ادب سے کما حقہ واقفیت فاروقی کو عبقری شخصیت کا درجہ عطا کرتی ہے۔ انھیں ابتداے عمر ہی سے مطالعے کا شوق تھا۔رفتہ رفتہ یہ شوق ان کے مزاج اور شخصیت کا ایک دائمی جز بن گیا۔ انھوں نے زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کیا وہ اپنی محنت وریا ضت کے دم پر کیا ۔ادب میں تحقیق، تنقید اور تخلیق غرض کہ ہر شعبے میں انہوں نے اہم خدمات انجام دی ہیں۔
٭ ٭ ٭

 

Kai Chand They Sar E Aasman

Articles

ناول کئی چاند تھے سرِآسماں کا خلاصہ

ڈاکٹر رشید اشرف خان

 

ناول کی کہانی مخصوص اللہ نامی ایک شخص سے شروع ہوتی ہے جوایک ماہر مصور اور شبیہ ساز(۱) تھا ۔آگے چل کر وہ نقاش(۲) اور قالین باف(۳) بھی بن گیا۔ اس کا قیام آج سے برسوں پہلے کشن گڑھ(راجپوتانہ ۔موجودہ راجستھان) کے ایک گاؤں ’’ہندل پروا‘‘ میں تھا ۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے مخصوص اللہ نے ایک لڑکی کی خیالی تصویر بنائی۔ اس تصویر میں حسن وجمال کا کوئی پہلو ایسانہ تھا جومخصوص اللہ نے باقی رکھا ہو۔تصویر تھی گویا ابھی بول پڑے گی۔ گاؤں اور آس پاس کے علا قوں کے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آئے۔تصویر مخصوص اللہ کے حجرے کے باہری طاق میں رکھی تھی۔جس نے بھی دیکھا وہ اس کی تعریف کیے بغیرنہ رہ سکا۔کسی نے کہا کہ ارے یہ ’’بنی ٹھنی ‘‘ہے۔دوسرے نے کہا کہ یہ ’’رادھا دیوی‘‘ ہیں۔تیسرا بولا ارے یہ تو ’’اصلی‘‘ ہے ۔مگر حد تو تب ہوئی جب ایک شرابی نے کہاکہ یہ والاجاہ کی بیٹی’’ من موہنی‘‘ ہے۔ اس زمانے کا معاشرہ ایسا تھا کہ ہرمذہب میں پردے کا اہتمام لازم تھا۔جیسے ہی گجندر پتی مرزا کو خبر ملی کہ اس کی بیٹی من موہنی کی شبیہ بنائی گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔بیٹی اور کچھ گھوڑ سواروں کے ساتھ مخصوص اللہ کے گھر پہنچا ۔وہ وہاںموجود نہ تھا ۔سارے گاؤں والوں کے سامنے اپنی بیٹی کوقتل کر ڈالا، نیزے کی نوک سے طاق پر رکھی شبیہ پھاڑ ڈالی اورچیخ کر کہا کل تک سارا گاؤں خالی کردیا جائے ورنہ میں کسی کی بھی جان ومال کا ذمہ دار نہیں رہوں گا۔اس حکم سے گاؤں والے لرز اٹھے اور دوسری صبح جس کے جدھر سینگ سمائے اُدھر جان بچا کر بھاگ نکلا ۔ مہاجرین کے قافلے میں مخصوص اللہ بھی شامل ہوگیا ۔اس نے بارہ مولہ (کشمیر) میں سکونت اختیار کی۔کچھ دنوں بعد ایک کشمیری لڑکی سے مخصوص اللہ نے شادی کرلی۔اس سے ایک سیاہ فام لڑکا پیدا ہوا۔اپنے بیٹے کو دیکھ کر مخصو ص اللہ بہت خوش ہوا اور اس کا نام محمد یحییٰ رکھا۔ ایک دن پھراسے جانے کیا سوجھی، اپنے بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کیا اورکسی کو بتائے بغیرکہیں چلا گیا۔ کافی تلاش کے بعد جنگل میں برف سے ڈھکی اس کی لاش ملی ۔کشمیر کے سرد موسم میں تیزی سے گرتی ہوئی برف میں مخصوص اللہ اکٹر کر مر گیا۔اس کے دائیں ہاتھ میں ہاتھی دانت جیسا ایک پتلامٹرا تڑاکاغذ تھا جسے بہ احتیاط نکالا گیا توپتہ چلا کہ اس پر ایک بے حد خوبصورت لڑکی کی شبیہ تھی۔ وہ دراصل بنی ٹھنی تھی۔کشمیری اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور انھوں نے تصویر کو مصور کی قبر کے پاس ہی برف میں دبا دیا۔ سلیمہ کو یہ غم تھا کہ آخر وہ اپنے شوہر کی افتاد طبع کو سمجھ کیوں نہ سکی؟ وہ بارہ مولہ چھوڑ کراپنے مائکے بڈگام میںجا کر آباد ہوگئی۔چار برس چار ماہ کی عمر میں محمد یحییٰ کی رسم بسم اللہ ہوئی۔سلیمہ قصہ کہانی کی شکل میں اپنے بیٹے کو اس کے مرحوم باپ کی زندگی کے حالات سنا تی رہتی ۔اس نے بیٹے سے کئی بار کہا کہ تیرے باپ تو یہاں کے نہیں تھے ۔کیا تیرا جی نہیں چاہتا کہ اپنے ماں باپ کے اصلی وطن کودیکھے؟۔بہرحال محمد یحییٰ بڈگام سے کہیں اور جانے پر راضی نہ ہوا۔
محمد یحییٰ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو اس کی شادی ایک کشمیری لڑکی بشیرالنسا سے کردی گئی جس سے شادی کے دوسرے سال جڑواں لڑکے پیدا ہوئے،بڑے کا نام محمد داؤد اور چھوٹے کا نام محمد یعقوب رکھا گیا۔دونوں ریشم ، زعفران اور شہد کی تجارت کرنے لگے۔لوگ انھیں داؤد بڈگامی اور یعقوب بڈگامی کہنے لگے۔ان دونوں بھائیوں نے اپنے باپ کی طرح نہ تو تعلیم نویسی سیکھی ، نہ نقاشی ،نہ چوب تراشی(۴) اور نہ قالین بافی۔البتہ ان کے گلے اچھے تھے۔دونوں مل کر طرح طرح کے اردو، فارسی اور کشمیری کلام سناتے ۔دنیا والوں سے داد بھی پاتے اور انعام و اکرام بھی۔
یحییٰ بڈگامی کی موت کے تین مہینے بعد بشیرالنسا بھی اس دنیا سے چل بسی۔ اب داؤد اور یعقوب کا جی کشمیر سے اچاٹ ہوگیا ۔دونوں نے یہ طے کیا کہ اب اپنے ددھیال کشن گڑھ کی طرف چلیں ۔کافی مسافت طے کرکے دونوں بھائی جے پور پہنچے ۔وہاں سے آگے بڑھے تو دھوپ بہت تیز ہو چکی تھی ان کا اور ان کے گھوڑوں کا بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ خدا خدا کرکے شام ہوئی ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس پہنچ گئے ۔ تھوڑی دورپر کنواں تھا۔پانی بھرنے والی زیادہ تر عورتیں تھیں۔انھیں میں حبیبہ اور جمیلہ نام کی دو لڑکیاں تھیں۔ سوتیلے باپ کے ظلم سے یہ دونوں داؤد اور یعقوب کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں۔یہاں سے یہ لوگ ’’باندی کوئی ‘‘نامی علاقے میں پہنچے جہاں داؤد نے حبیبہ سے اور یعقوب نے جمیلہ سے نکاح کر لیااور دودن قیام کے بعد فرخ آباد کوچ کر گئے۔ اس واقعے کے گیارہ مہینے بعد یعقوب بڈگامی اور بی بی جمیلہ کے یہاں ۱۷۹۳ء میں یوسف بڈگامی کی ولادت ہوئی۔چھوٹے بھا ئی داؤد بڈگامی لا ولد تھے مگر دونوں بھا ئی ایک دوسرے پر قربان تھے۔فرخ آباد کا قیام دونوں بھائیوں کو بہت پسند تھا ۔ان دونوں بھائیوں نے پرانے پیشے کو ترک کرکے نیا پیشہ سادہ کاری(۵) اختیار کرلیا۔اس فن میںوہ طاق ہوگئے۔مقامی خواتین اور فرنگی عورتیں کپڑے پر قلم کاری کروانے کے لیے انھیں پیشگی کلدار اشرفیاں(۶) یا شاہ عالمی اشرفیاں(۷) دے دیا کرتی تھیں۔لیکن گردش ایام نے پھر اپنا رنگ دکھایا۔ کمپنی کا عمل دخل کوئی دس سال ہوئے ہر طرف نظر آنے لگا۔
یوسف بڈگامی کا واقعہ بھی اپنی جگہ پر بڑا دلچسپ لیکن لرزہ خیز تھا ۔ حقیقت حال یہ تھی کہ ابھی یوسف کی عمر کم ہی تھی جب انگریزوں اور مرہٹوں میں جم کر لڑائی ہوئی۔انگریزوں کے عملے میں یوسف اور اس کے خاندان کے ساتھ فرخ آباد کی مشہور ڈیرے دارنی ، اکبری بائی کا ساز وسامان اور عملہ تھا جس سے یوسف اور اس کے اہل خاندان کی گاڑھی چھننے لگی۔یہ خاندان شہری تھا اور اس کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔ انگریزوں اور مراٹھوں کی اس رستا خیز میں مراٹھا فوج کی طرف سے پھینکے گئے گولوں کے نتیجے میں یوسف کے والدین، چچا، خالہ ، شاگرد پیشہ(۸) سب ہلاک ہوگئے۔صرف یوسف بچ گیا ۔اکبری بائی کا اپنا خیمہ بھی محفوظ رہا ۔ اکبری بائی اور ان کی ننھی بیٹی اصغری ایک دو اصیلیں(۹) ماما (۱۰)چھو چھو(۱۱) جو ابھی کچھ دور بیل گاڑی میں تھیں۔اس وقت یوسف کی عمر مشکل سے دس برس کی تھی لیکن وہ کافی عقل مند تھا ۔دشمن کے گولوں سے بچنے کے لیے وہ بے تحاشہ ہنڈن ندی کی طرف دوڑنے لگا تاکہ اس میں کود پڑے،لیکن اکبری بائی کی اصیل نے اسے دوڑ کر پکڑ لیا۔ہزار چیخنے پیٹنے کے باوجود اس وقت تک اپنے سینے سے لپٹائے رہی جب تک وہ نیم بے ہوش ہوکر سو نہ گیا۔جب اس کی آنکھ کھلی تو شام ہورہی تھی اور وہ اکبری بائی کے ساتھ بیل گاڑی میں تھا۔
خدا خدا کرکے یہ لٹا ہو ا قافلہ دلی پہنچا ۔اکبری بائی نے چاوڑی بازار میں اپنی ایک رشتے کی بہن کے یہاں قیام کیا ۔کچھ دنوں کے بعد ان کی بہن نے کوچۂ پنڈت کے نکڑ پر اکبری بائی کو رہنے کے لیے مکان کابندوبست کردیا ۔
یوسف ، زندگی بھر اکبری بائی کاشرمندۂ احسان رہا کیونکہ انھوں نے اسے اپنے سگے بیٹے کی طرح پالا۔ اجمیری دروازے پر مدرسۂ غازی الدین خاں میں عربی وفارسی پڑھوانے کے علاوہ انھوں نے اسے ساز وسنگیت کی بھی تعلیم دلوائی۔وہ بہت جلد میاں نور العین واقفؔ، میاں ناصر علی، رائے آنند رام مخلصؔاور مرزا عبدالقادر بیدلؔ کے ساتھ ساتھ جگت استاد شاہ حاتمؔ، میرزا محمد رفیع سوداؔ، میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ اوران کے بھائی میراثرؔ کے کمالِ فن سے بڑی حد تک متعارف ہوگیا۔جب محمد یوسف کی عمر پندرہ برس اور اصغری کی عمر تیرہ برس کی تھی تو اکبری بائی نے دونوں کا نکاح کرادیا اور کوچۂ رائے مان میں ایک مکان بھی خرید کر دے دیا۔
شادی کے دو برس بعد یوسف اور اصغری کے پہلی بیٹی پیدا ہوئی اس کانام انوری خانم عرف بڑی بیگم رکھا اس کے بعد بہت کم وقفہ میں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ایک کا نام عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور دوسری کا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم ۔یہی وزیر خانم مذکورہ ناول’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘کی مرکزی کردار بنی۔یوسف سادہ کار کی تین بیٹیاں ، تین رنگ کی تھیں ۔پہلی دو بیٹیوں میں سانولا پن اور خوش شکلی کی صفت مشترکہ تھی البتہ وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم رنگ کے سوا ہربات میں کشمیرن لگتی تھی۔بڑی بیگم کو اللہ رسول سے بے حد لگاؤ تھا ،یوسف نے بارہ برس کی عمر میں اس کی شادی میاں مولوی شیخ محمدنظیر صاحب سے کردی ۔منجھلی بیگم کو ماں باپ کی رضامندی کے بغیراکبری بائی نے نواب سید یوسف علی خاں ابن نواب سید محمد سعید خاں والیِ رام پور کے متوسلین میں شامل کردیا۔
چھوٹی بیگم یعنی وزیر خانم کے مزاج میں بچپن ہی سے ڈومنی پن(۱۲) نکلتا تھا ۔ نانی کے یہاں اس کی اصل تعلیم ان امور میں ہوئی جن کوسیکھ سمجھ کر عورت ذات مردوں پر راج کرتی ہے۔وہ شعر بھی کہتی تھی اور میاں شاہ نصیر ؔ کی شاگرد ہ تھی۔استاد نے اسے زہرہؔ تخلص عطا کیا تھا۔وزیر خانم ابھی پندرھویں سال میں تھی کہ یوسف کی بیوی اصغری اچانک بیمار پڑ ی اور چار دن بیمار رہ کر چل بسی۔
ماں کے مرنے کے بعد محمد یوسف اور اس کی بڑی اور منجھلی بیٹی نے اپنے تئیں بھر پور کوشش کی ،کہ چھوٹی بیگم (وزیر خانم) کو شادی کے لیے راضی کرلیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی ۔وزیر خانم کو شادی نہیں کرنی تھی اور نہ کی۔
وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کا ابتدائی حال ہمیں اس حاضر راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے جسے ناول میں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی ، ماہر امراض چشم کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول میںدعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر خلیل مستقل تاریخی اور تہذیبی یاد داشتیں لکھا کرتے تھے۔ ناول میں وہ خودلکھتے ہیں:
’’ گزشتہ سال ایک شادی کے سلسلے میں مجھے لندن جانے کا موقع ملا۔ اپنے بارے میں کچھ زیادہ کہنے میں مجھے تکلف ہے اور جو داستان اگلے صفحات پر مرتسم ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ لہٰذا اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض چشم ہوں ۔ شعر وشاعری کا شوق بھی رکھتا ہوں لیکن اگرمیں زمانۂ قدیم میں ہوتا تو مجھے ’’نساب‘‘ کہا جاتا۔اس معنی میںمجھے خاندانوں کے حالات معلوم کرنے ،ان کے شجرے بنانے اور دور دور کے گھرانوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا بے حد شوق ہے اور اب اگر میری عمر بہت زیادہ نہیں ہے،میں نے طب کا مشغلہ ترک کردیاہے۔میرا زیادہ تر وقت شجرے بنانے اور بنائے ہوئے شجروں کو مزید وسیع اور پے چیدہ بنانے میں گزرتا ہے‘‘۱؎
وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کی پیدائش غالباََ ۱۸۱۱ء میں ہو چکی تھی۔ اس کی زندگی میں پہلا مرد ایڈورڈ مارسٹن بلیک (Edward Marston Blake) تھا ۔ ان دونوں کی ملاقات بھی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔اس سلسلہ میں اگرچہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ،لیکن خاندانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ وزیر خانم اپنے باپ محمدیوسف سادہ کار کے ساتھ مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ سے بذریعہ بہلی(۱۳) واپس آرہی تھی۔ رات کا وقت تھا ۔سب مسافروں کو واپسی کی جلدی تھی کیوں کہ حوض شمسی کے کھنڈر میں ان دنوں بعض پنڈاروں(۱۴) نے چپکے چپکے اپنے اڈے بنا لیے تھے جہاں چھپ کر وہ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔وزیر خانم کی بہلی کا ایک دھرا گھستے گھستے کمزور پڑگیا تھا ۔ ڈر تھا کہ اگر بیلوں کو ذرا بھی تیز دوڑایا گیا تو دھرا ٹوٹ سکتا ہے لہٰذا ان کی بہلی چیونٹی کی چال چل کر آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔اچانک بہلی اڑتی ہوئی لال مٹی اور ریت کے بڑے بڑے ذروں سے بھر گئی ۔ بیلوں کی بڑی بڑی آنکھیں دہشت اور چبھن کے باعث بند ہوگئیں۔ آندھی کے جھکڑ اور تیز ہوا کے جھونکوں سے بہلی کے سبھی پردے اڑ گئے اور دھرا ٹوٹ جانے سے دھماکہ ہوا ۔بہلی پر سوار سبھی لوگ گر پڑے ۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دہلی کی طرف سے کچھ انگریز اور دیسی سوار آتے دکھائی دیے جن کا سردار ایک انگریز مارسٹن بلیک تھاجو اپنی معشوقہ کے ساتھ رات گزارنے عرب سرائے (۱۵)جا رہا تھا۔وزیر خانم کے سر کی چادر ہوا سے اڑ گئی ۔ مارسٹن بلیک اور وزیر خانم کی آنکھیں دفعتاََ چار ہوئیںاور کیوپڈ(Cupid) (۱۶)اپنا کام کرگیا۔
وزیر خانم بخیریت تمام دہلی پہنچ گئی ۔ مارسٹن بلیک تحفے تحائف لے کے ہر دوسرے تیسرے دن یوسف کے گھر آنے لگا۔ چند مہینوں کے بعد مارسٹن بلیک نے آکر خبر دی کہ میں اسسٹنٹ پو لیٹیکل ایجنٹ کی اسامی پر متعین ہو کر جے پور جا رہا ہوں۔ تقریباََ سوا مہینے کے بعد مارسٹن بلیک جے پور سے دہلی آیا ۔ محمد یوسف سے اکیلے میں کچھ سر گوشیاں کیں ۔ چھوٹی بیگم کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتہ کے بعد مارسٹن بلیک کے قافلہ میں ، جو عازم ِ جے پور تھا ، پھولوں اور گجروں سے سجایا ہوا ایک رتھ بھی تھا ۔وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زرق برق پوشاک میںسجی بنی اس میں سوار تھیں۔
جے پور پہنچ کر وزیر خانم کی دنیا ہی بدل گئی ۔ نوکروں کی ریل پیل ہوئی ۔ مارسٹن بلیک اس کی شمع زندگی کا پروانہ تھا ۔وہ اس سے کہتا تھا تم وزیر نہیں بلکہ اس گھر کی ملکہ ہو۔وقت گزرتا رہا۔وزیر خانم کے دو اولادیں ہوئیں ۔لڑکے کا مارٹن بلیک اور لڑکی کا نام سوفیہ رکھا۔لیکن وزیر خانم نے لڑ لڑا کر دونوں کے ہندوستانی نام امیر میرزا اور بادشاہ بیگم رکھے۔ مارسٹن بلیک کا پھوپھی زاد بھائی ولیم کاٹرل ٹنڈل(William Cotterill Tyndale) اور اس کی بہن ایبیگیل ٹنڈل(Abigail Tyndale) جو پہلے میسور میںرہتے تھے ،جے پور آگئے۔ دسمبر۔ جنوری ۱۸۳۰ء کرنل ایلویس جو پولیٹیکل ایجنٹ برائے راجپوتانہ تھے چھ ہفتے کی رخصت پر کلکتہ چلے گئے اور مارسٹن بلیک کو جے پور کی ریزیڈنسی کا مختار بنا گئے۔راجپوتانے میں سازشیں بڑھ گئیں ۔دیسی لوگوں نے مارسٹن بلیک پر حملہ کرکے اسے مندر کے اندر مارڈالا۔مارسٹن بلیک کے پھوپھی زاد بھائی نے مارسٹن بلیک کی جائداد پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بچوں کو بھی چھین لیااور چھوٹی بیگم جے پور سے دہلی واپس لوٹ آئی۔
چھوٹی بیگم چونکہ باپ کو ناراض کرکے مارسٹن بلیک کے ساتھ بغیر نکاح کے چلی گئی تھی اس لیے محمد یوسف نے سرسری سی رسمی تعزیت کی اور بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی نہ ہوا۔ منجھلی بیگم سے کہہ کر چھوٹی بیگم نے ایک مکان سِرکی والان میں لے لیااور اس میں رہنے لگی۔یہ مارچ ۱۸۳۰ء کی بات ہے ۔وزیر خانم نے اپنی بہن عمدہ خانم (منجھلی بیگم)کے توسط سے نواب یوسف علی خاں کے گھر میں رسائی حاصل کی ،لیکن گھریلو انداز میں ۔ایک دن نواب صاحب نے چھوٹی بیگم کے احوال پوچھتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ میرے ملاقاتی کچھ عمائد شہر اور شرفا تک تمھاری شہرت پہنچ چکی ہے ۔وہ لوگ تم سے تمنائے ملاقات رکھتے ہیں۔وزیر خانم نے نواب کے حکم کی تعمیل کی اور تین سلام کرکے الٹے پاؤں دیوان خانے سے حویلی کے اندر داخل ہوگئی۔
نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کے آٹھویں یا دسویں دن بعد ایک سونٹا بردار نواب یوسف علی خاں کا رقعہ اور روپیوں کے دس توڑے لے کر وزیر خانم کے دروازے پر حاضر ہو ۔ نواب صاحب نے رقعہ فارسی میں تحریر کیا تھا جس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’ بعد دعاے افزونی ِدولتِ حسن و دام ِ اقبال،وزیر خانم سلمہا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اگلے پنچشنبہ کی شام کو بعد مغرب،نواب ولیم فریزر صاحب ریزیڈنٹ دولت کمپنی بہادر کی ڈیوڑھی عالیہ واقع پہاڑی(موجودہ علاقہ RIDGE) شہر دہلی میں ایک محفل شعر سخن قرار دی گئی ہے۔نواب مرزا اسداللہ خاں صاحب المتخلص بہ غالبؔ والملقب بہ میرزا نوشہ تازہ کلام سے سرفراز فرمائیں گے۔حضرت دہلی کے چنیدہ عمائد واساطین بھی رونق افروز بزم ہوں گے۔ آں عزیزہ اگر اپنے قدوم میمنت لزوم کو زحمت نہضت عطا کریں تو عین باعث لطف ہوگا‘‘ ۱؎
روز موعودہ یعنی پنچشنبہ کو ولیم فریز کے گھر پر وزیر خانم ، دلاورالملک نواب شمس الدین احمدخاں ، مرزا غالب ؔ ،فینی پارکس اور دہلی کی کئی مشہور ہستیاں جمع ہوئیں۔ولیم فریزر نے سب کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ۔غالبؔ کو دیکھ کر فریزر نے کہا:
’’ مرزا نوشہ ہم نے آپ کے لیے فرنچ لیکور (French Liquer) کا انتظام کر رکھا ہے لیکن شرط نئی غزل کی ہے‘‘۲؎
رات گئے محفل شعر و سخن چلتی رہی ۔محفل کے بعد جب سواریاں ولیم فریزر کی کوٹھی سے نکلیں ۔نواب شمس الدین احمد خاں اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے اور وزیر خانم رتھ میں بیٹھ کر سرکی والان کی طرف مڑ گئی۔نواب شمس الدین احمدخاں کا ایک سوار گھوڑے سے اتر کر وزیر کے پیچھے پیچھے آیا اور دروازے پر دستک دی ۔وزیر خانم سے دروازے پر کھڑے کھڑے سلام کیا اور کہا کہ سرکار نواب دلاورالملک کسی مناسب وقت پر ملاقات کے خواہاں ہیں ۔وزیر خانم نے جواب دیا کہ کل شام کو تشریف لا سکتے ہیں ۔میں منتظر رہوں گی۔
دوسرے دن وزیر خانم اور اس کے ملازمین گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مشغول ہوگئے ۔ بعد نماز عصر نواب شمس الدین احمد خاں بڑے تزک و احتشام سے وزیر خانم کے گھر پہنچے ۔وزیر خانم نے بڑے پُرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا ۔رات گئے تک وزیرخانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کے درمیان رازونیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔اشعار اور گیت بھی سنائے گئے ۔کھانا کھا کر نواب صاحب اپنے گھر کی طرف مراجعت کر گئے۔
نواب شمس الدین احمد خاں کی تفصیلی بے تکلف گفتگو اور ان کے جھکاؤ کو دیکھ کر وزیرخانم بہت متاثر ہوئی اور یہ خواب دیکھنے لگی کہ اگر نواب صاحب اس سے نکاح کرلیں تو کتنا اچھا ہے۔ دوسرے دن نواب صاحب کے یہاں سے نہایت عمدہ اور قیمتی تحفہ آیا تو وزیرخانم فرط جذبات سے تڑپ گئی۔
رات بھر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ پہلے منجھلی بیگم اور ان کے شوہر نواب یوسف علی خاں سے اس ضمن میں مشورہ کرلینا بہتر ہے۔چنانچہ اسی شام ماما کو اپنی بہن منجھلی بیگم کے یہاں بھیج کر نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کی اجازت مانگی۔اجازت ملتے ہی دوسرے دن تراہا بیرم خاں پر واقع نواب یوسف علی خاں کے یہاں پہنچ گئی ۔اپنی بہن عمدہ خانم کو تمام باتوں سے با خبر کرکے وزیر خانم نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہوئی،انھیں اپنا پوراماجرا سناکر مشورے کی طالب ہوئی ۔نواب صاحب نے فرمایا ۔اچھا برا سوچ سمجھ لو اور پھر نواب شمس الدین صاحب کو اپنی شرائط سے آگاہ کردو اسی وقت تمھارا اقدام مناسب ہوگا۔وزیر خانم اپنے بہنوئی کا شکریہ ادا کر کے اپنے گھر واپس آگئی۔گھر پہنچنے کے بعد وزیر خانم ایک بار پھر شش وپنچ میں پڑگئی ۔وہ کبھی سوچتی کہ نواب شمس الدین صاحب مجھ سے نکاح کریں گے بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے نکاح نہ کریں صرف پابند بنا کر رکھیں ۔پھر میرے دونوں بچوں امیر میرزا اور سوفیہ کا کیا ہوگا ۔ کیا میں انھیں اپنے ساتھ رکھ سکوں گی۔ بہرحال یہی سب خیالات وزیر خانم کو رہ رہ کر پریشان کر رہے تھے کہ استخارہ دکھلائے یا کسی رمّال سے فال کھلوائے ۔تب اسے پنڈت نند کشور کا خیال آیا جو اس کی نانی اکبری بائی کے گھرکبھی کبھار آیا جایا کرتے تھے۔
اگلے دن صبح صبح چھوٹی بیگم اپنی نانی کے یہاں جا پہنچی۔نانی نے نوکر کوبھیج کر پنڈت نند کشور کو یہ سندیسہ بھیجا کہ وہ کسی طرح وقت نکال کر چھوٹی بیگم کے مکان پر تشریف لے آئیں۔بڑا کرم ہوگا۔لہٰذا دوسرے دن فجر کی نماز کے فوراََ بعد پنڈت نند کشور چھوٹی بیگم کے گھر آگئے۔چھوٹی بیگم نے انتہائی محبت و عقیدت سے ان کا خیر مقدم کیا۔ پنڈت نند کشور ایک سچے اور دھارمک ہندو ہونے کے باوجود وہ ایک وسیع النظر ،آزاد خیال اور سیکولر مزاج وضع دار بزرگ تھے۔سنسکرت اور ہندی کے علاوہ وہ اردو ،فارسی اور علم نجوم ورمل کے زبردست عالم بھی تھے۔انھوں نے نہایت ہم دردی اور سنجیدگی کے ساتھ چھوٹی بیگم کے مسائل کوسنا اور لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھول کر چھوٹی بیگم کے دل کو گویا ہرا کردیا۔نذرانے کے طور پر کچھ بھی قبول نہ کیا ۔چھوٹی بیگم کے اصرار پر صرف عطر کی ایک چھوٹی سی شیشی قبول کی اور ہزاروں دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔
فال میں اشارہ یہ تھا کہ وزیر خانم ،نواب شمس الدین احمد خاں سے رشتۂ انسلاک استوار کرے۔یہ اس کے حق میں مناسب ومفید ہے۔حافظ شیرازی کا شعر یوں تھا:
اے پیک راستاں ، خبرِ سرو ما بگو
احوال گل ، بہ بلبل دستاں سرابگو
پنڈت نند کشور کے جانے کے بعد ، چھوٹی بیگم پر عجب کیفیت طاری تھی۔ وہ نواب شمس الدین احمد خاں کو خط لکھنا چاہتی تھی مگر رہ رہ کر سوچتی تھی کیا لکھے اور کیسے لکھے۔اتفاق سے میرحسن کے ایک شعر نے اس کی ہمت افزائی کی۔وہ شعراس طرح تھا:
ذوق تنہائی میں خلل ڈالا
آکے مجھ پاس دو گھڑی تو نیں
درج بالا شعرپر وزیر خانم نے تین مصرعے بطور تضمین لگا کر ایک با معنی مخمس کی شکل دی۔اس کے بعد مینا بازار سے نئے نیزے منگا کر اسے تراشا ۔محلے کے مولوی صاحب کے پاس دو روپے نذرانے کے ساتھ بھیج کران قلموں پر شگاف اور قط لگوائے،پھر اس مخمس کو افشانی کاغذ پر خوش خط لکھ کر خریطہ میں بند کیااور لیچی کے نایاب شہد کے ساتھ نواب شمس الدین خاں کی خدمت میں بھیجا۔نواب شمس الدین احمد خاں نے خط پڑھا اور بہت سے تحائف کے ساتھ خط کا جواب بھی دیاجس میں میر اثرؔ کی غزل بھی نقل کی تھی۔جس کا مطلع اس طرح تھا:
تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں
پر ہمیں آہ کچھ خبر ہی نہیں
نواب صاحب نے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ’’کل شام کفش خانے پر ماحضر تناول فرمائیں‘‘۔
دوسرے دن نواب یوسف علی خاں کی بگھی میں بیٹھ کر وزیر خانم نواب شمس الدین احمد خاں کے مکان واقع دریا گنج جا پہنچی۔نواب صاحب کی کوٹھی انگریزی وضع کی تھی۔ برآمدے میں نواب صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔کوٹھی پر ایک طرح کا سناٹا چھایا ہواتھا کہ اب کیا ظہور میں آتا ہے۔
استقبال کے بعد بہت دیر تک وزیرخانم اور نواب شمس الدین خاں آپس میں التیام ہوتے رہے ۔وزیر کا اشارہ یہ تھا کہ نکاح ہوجائے لیکن نواب صاحب بات کو ٹال رہے تھے۔آخر کار بات کا رخ بدلنے کے لیے انھوں نے کہا’’آئیے کھانا کھائیں‘‘ کھانے کے دوران ہی وزیرخانم نے نواب شمس الدین احمد خاں کا عندیہ سمجھ لیا تھا اس لیے اس نے اس تصور سے اپنے دل کو ڈھارس دی کہ نواب کے لگاؤ کی سنہری لیکن عارضی چھاؤں بہر حال تنہا عمر رسیدگی اور بے یاری کی لمبی پر چھائیوں سے بہترہے۔نواب صاحب سے رخصت ہوکر وزیر ان کی کوٹھی سے ملحق مہمان خانے میں جا پہنچی۔ وہاں کی خادمہ حبیب النسا عرف حبیبہ اور ان کی بیٹی راحت افزا وزیر کے لیے پیش پیش تھیں۔نواب صاحب ، بغیر وزیر سے ملے اندھیرے منھ اپنے علاقہ پہاسوچلے گئے چونکہ وہاں ڈاکوؤں نے مال واسباب کے ساتھ ساتھ ایک لڑکی کابھی اغوا کرلیاتھا۔ راحت افزا نے اخروٹ کا بنا ہوا ایک خوبصورت سا صندوقچہ وزیر خانم کودیا اور کہا کہ نواب صاحب نے آپ کو یہ تحفہ دیا ہے۔وزیرخانم نے صندوقچہ کو کھولا تو اس میں ایک نہایت قیمتی انگوٹھی تھی اور آبی رنگ کے کاغذ پر سنہری زعفرانی روشنائی میں صرف ایک شعر لکھا تھا:
شب کہ عریاں بہ برآں شوخ قدح نوشم بود
یک بغل نور چو فانوس درآغوشم بود
نواب یوسف علی خاں آف رام پور اس بات پر خوش تھے کہ چھوٹی بیگم نواب شمس الدین احمد خاں کے متوسلین میں شامل ہورہی ہے اب اس کی زندگی قدرے محفوظ اور پرسکون ہوگی لیکن ولیم فریزر کی چھاتی پر سانپ لوٹ رہا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ اور بہت سی دیسی عورتوں کی طرح وزیر خانم بھی اس کی رکھیل بن جائے لہٰذا ولیم فریزر نے ایک نہایت گندی اور خطرناک چال چلی۔
وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد کی ملاقات کے تیسرے دن ولیم فریزر کو پتہ چلا کہ پرگنہ پہاسوکے ڈاکو پکڑے گئے لوٹ کی رقم اورقاضی کی دختر بر آمد ہوئی نیز دو ڈاکو سرداروں کو سرِعام پھانسی دے کرنواب شمس الدین نے اپنی مستعدی اور با تدبیری کا ثبوت دیا۔اس کے باوجود بھی ولیم فریزر نواب شمس الدین سے کینہ رکھتا تھا۔اس نے سب سے پہلے نواب گورنر جنرل بہادر کلکتہ کولکھا کہ شمس الدین خاں ایک کمزور اور نکمے والیِ سلطنت ہیں لہٰذالوہارو کا علاقہ ان سے چھین کر ان کے سوتیلے بھائیوں امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کو دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کی پرورش کرسکیں۔اس کے بعد فریزر نے ایک ترکیب اور سوچی ۔اس نے حکم دیا کہ حکیم احسن اللہ خاں کو ریزیڈنسی میں طلب کیا جائے۔ حکیم احسن اللہ خاں ایک خاندانی حکیم تھے ان کا شمار دہلی کے شرفا وعمائدین میں ہوتا تھا۔انھیں اکبر شاہ ثانی کے دربار سے عمدۃ الملک، حاذق الزماں کے خطابات ملے تھے۔وہ بہادر شاہ ثانی کے معالجِ خاص تھے اور بادشاہ نے احترام الدولہ ، عمدۃ الحکما، معتمدالملک ثابت جنگ کے خطابات سے نوازا تھا۔وہ حکیم مومن خان مومن ؔکے ماموں زاد بھائی تھے۔
حکیم احسن اللہ خاں بعد نماز ظہر ریزیڈنسی میں حاضر ہوئے۔فریزر نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ شمس الدین احمد کو یہ خبر کردیں کہ وزیر خانم کسی اور کی نظر چڑھ چکی ہے اور اپنے دل سے اس کا خیال نکال دیں۔فریزر کی بات سنتے ہی حکیم صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ شمس الدین پر نہ کوئی میرا رعب ودبدبہ ہے اور نہ یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کا پیغام نواب تک پہنچاؤں؟بغیر اجازت حکیم صاحب نے فریزر سے آداب کیا اور رخصت ہو گئے۔ فریزر کی اس ذلیل حرکت سے بہادر شاہ ظفر اور نواب شمس الدین کو آگاہ بھی کردیا۔
حکیم احسن اللہ خاں کے اس رویے پرفریزر آپے سے باہر ہوگیااور اس نے یہ طے کیا وہ بذات خود وزیر خانم سے مل کرسارے معاملات طے کرے گا۔دماغ میں خناس لیے حسب معمول وہ ہاتھی پر سوار ہو کر سیر کے لیے نکلااورجان بوجھ کر اپنی سواری سرکی والان کے پھاٹک پر لے گیا۔وزیر کے گھر پر اطلاع دی کہ ریزڈنٹ بہادر وزیر سے شرف ملاقات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔فریزر کا اچانک اس طرح آنا وزیر کو برا تو ضرور لگا لیکن وقت کا تقاضہ تھا کہ فریزر کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔لہٰذا وزیر نے فریزر کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا اور چائے پیش کی۔اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فریزر نے کہا ’’میں ارادے اور نتیجہ کی وحدت کا قائل ہوں‘‘ یہ سنتے ہی وزیر نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کہا کہ ’’آپ وحدت کے اس قدر قائل ہیں تو آئینہ میں منھ نہ دیکھتے ہوں گے۔دیکھ لیتے تو بہتر تھا‘‘ وزیر کی اس بات فریزر اکڑکر کھڑا ہوگیا اور بولا چھوٹی بیگم ! یہ سودا تمھیں مہنگا پڑے گا۔
ولیم فریزر اب نواب شمس الدین کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے نت نئی سازشیں کرنے لگا۔وہ بار بار کلکتہ میں بیٹھے ہوئے گورنر جنرل کو اکساتا کہ وہ شمس الدین کو ان کی موروثی جائداد سے بے دخل کردے۔دوسری طرف فریزر نے شہرمیںیہ افواہ پھیلادی کہ اگرنواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم سے ہمارا نکاح ہوجائے تو کمپنی بہادر مقدمۂ وراثت میں نواب شمس الدین احمد کے دعوے پر ہمدردی کرسکتی ہے۔
کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین اپنے علاقہ فیروز پور جھرکہ لوٹ جاتے ہیں۔۲۵؍مئی ۱۸۳۱ء کو بروز چہار شنبہ بوقت دو بجے دن وزیر خانم کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام نواب مرزا رکھا گیا۔یہی بچہ آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزاخاں داغ ؔ دہلوی کے نام سے جگت استاد بنا۔
نواب شمس الدین خاں اور وزیر بیگم کی قسمت میں ابھی بہت سے اتار چڑھاؤ لکھے تھے ۔ خوشیاں تیزی سے غموں میں بدلتی جارہی تھیں۔حوادث کے سیاہ بادل بڑھے چلے آرہے تھے۔
یہ جولائی ۱۸۳۴ء کی بات ہے۔بارش خوب ہوئی تھی موسم بڑا سہانا تھا۔ولیم فریزر ہوا خوری کے لیے جان بوجھ کر حویلی حسام الدین حیدر کے پھاٹک تک پہنچا۔اس وقت نواب شمس الدین اپنے دوست مظفرالدولہ ناصر الملک میرزا سیف الدین حیدر خاں سیف جنگ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے حویلی کے پھاٹک سے نکل رہے تھے۔فریزر نے ہاتھی رکوایا اور مصنوعی شگفتگی سے بولا۔مظفرالدولہ۔دلاورلملک ۔ تسلیمات عرض کرتا ہوں۔اس کے بعد فریزر نے کہا ۔ دلاورالملک ! جہانگیرہ بیگم کیسی ہیں ؟ سنا ہے نصیب دشمناں ان کا مزاج ناساز ہے ۔جی چاہے تو نور باغ میں جھولے ڈلوادیے جائیں وہاں تشریف لے آئیں ۔ دل بہل جائے گا۔یہ سنتے ہی شمس الدین کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔دراصل ان کی سوتیلی ماں مبارک النسا نے یہ باغ اختر لونی(انگریز) کے ہاتھ بیچ ڈالا تھااور اب وہ باغ فریزر کے رشتے کے بھائی سائمن فریزر کی ملکیت تھی۔سائمن فریزر ، ولیم فریزر کی کوششوںسے دلی کا سٹی مجسٹریٹ اور فریزر کا خاص آدمی تھا۔ان حقائق کی روشنی میں نواب کا غصہ بجا تھا۔
اس کے بعد نواب شمس الدین بلی ماراں سے چاندنی چوک چلے گئے ۔وزیر خانم نے سب باتیں سنیں۔انھیں سمجھایا بجھایا۔شربت وغیرہ پلایا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر تیزی سے باہر چلے گئے۔وزیر خانم پکارتی اور قسمیں دیتی ہی رہ گئی۔نواب صاحب اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر ریزیڈنسی پہنچے ۔وہاں فریزر کے سپاہیوں اور نواب میں خوب ہاتھا پائی ہوئی۔فریزر کے آدمیوں نے نواب صاحب کو نہتا کرکے کوٹھی کے باہر پھینک دیا ۔ان کے کپڑے پھٹ گئے اور جوتیاں غائب ہوگئیں۔نواب کے ملازموں نے انھیںبہ ہزار خرابی چاندنی چوک تک پہنچایا۔وہاں ایک کہرام مچ گیا۔وزیر خانم اور سبھی ماما اصیلوں نے تیمارداری شروع کردی۔دوسری طرف وزیر کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہورہے تھے کہ سوتیلی ماں نے جادو ٹونا نہ کیا ہو، کہیں انگریز ان کی جان کے دشمن نہ بن جائیں۔
دوسرے دن نواب شمس الدین احمدخاں بے دار ہوئے تو کافی تازہ دم تھے۔وزیر سے باتیں کیں ۔ نواب مرزا کو بلا کر خوب پیار کیا ۔نہائے دھوئے اور ناشتہ کیا۔ اپنی بہن جہانگیرہ کی شادی کی غرض سے فیروز پور جھرکہ روانہ ہوگئے۔تین دن کا سفر طے کرنے کے بعد نواب صاحب فیروز پور جھرکہ پہنچے ۔۱۲؍ستمبر ۱۸۳۴ء کو اپنی بہن جہانگیرہ بیگم کا نکاح میرزا اعظم علی اکبرآبادی سے کردیا۔
حسب ِ معمول نواب شمس الدین دوپہر کا کھانا کھا نے کے لیے زنانہ حویلی کی طرف جارہے تھے کہ دلی کا ایک سانڈنی سوار(۱۷) عالی جاہ کے مختار کار بہادر کا عریضہ لے کر نواب کی خدمت میں حاضر ہواجس کا نام انیا میواتی تھا جو نواب شمس الدین کا نوکر تھا ۔ تیزرفتاری ، جفا کشی اور سفر کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے اس کے شہرے دوردور تک تھے۔سات تسلیمیں کرنے کے بعد انیا میواتی نے اپنی پگڑی سے ایک ریشمی تھیلی نکال کردونوں ہاتھوں پر رکھی اور ایک قدم آگے بڑھ کر سر جھکائے ہوئے اپنے ہاتھ نواب شمس الدین احمد خاں کی طرف بڑھا دیے ۔
نواب شمس الدین نے خط کو بغور پڑھا انا للہ وانا الیہ راجعون نواب کے منھ سے نکلا۔خط کا اصل مضمون فارسی میں تھا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:
اعلیٰ حضرت ولیِ نعمت سلامت
’’بعد تسلیمات کے معروض ہے ۔ خبر ملی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر کے آستانۂ عالیہ سے در باب مقدمۂ حضور فیصلہ صادر ہوچکا ہے اور نقل اس فیصلے کی آج صبح ریزیڈنسی پہنچ گئی ہے۔ توقع اور اندیشہ ہے کہ اندر دو تین روزوں کے ریزیڈنٹ بہادر برائے عمل در آمد فیصلہ مزید احکامات جاری فرماویں گے۔یہ تحریر کرتے ہوئے بندے کو نہایت قلق ہے کہ فیصلہ بندہ پرور سلامت کے حسب منشا نہیں ہے۔حکم نواب گورنر جنرل بہادر ہے کہ علاقہ لوہارو کا اور اس کے ماتحت پرگنہ جات تحویل سے اعلیٰ حضرت کے لے لیے جاویں اور ولایت اس خطہ ٔ ملک کی امین الدین احمد بہادر کے سپرد کی جاوے‘‘
خط کو کئی بار پڑھنے کے بعد نواب شمس الدین کے دل میں بیک وقت غصہ ،فکر ، مایوسی اور غم کے بادل چھاگئے۔وہ بالکل سکتے کے عالم میںتھے اور کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے انھیں اب کیا کرنا چاہئے۔ ہاں اس تصور کے نتیجہ میں ان کی مٹھیاں ضرور بھنچ گئی تھیں کہ یہ سب کچھ فریزر کا کیا دھرا ہے۔اسی لمحے ان کا جان نثار اوربچپن کا ساتھی کریم خاں آگیا۔ کریم خاںایک ماہر نشانہ بازتھا اس لیے لوگ اسے ’’بھرمارو‘‘ کہتے تھے۔کریم خاں نے نواب کو حوصلہ دلایا اور وہاں سے غائب ہوگیا۔ ۷؍اکتوبر ۱۸۳۴ء بروز سہ شنبہ کریم خاں اور انیا میواتی گڑ گاؤ ں ہوتے ہوئے دوسرے دن دہلی پہنچے۔کریم خاں کے جاسوس فریزر کے نقل و حرکت کی خبریں کریم خاں تک پہنچانا شروع کرنے لگے۔اسی طرح تین مہینے گزر گئے۔ایک دن خبر ملی کہ فریزر کرسمس منانے دہلی آرہا ہے ۔ابھی وہ دہلی تک نہیں پہنچا تھا کہ نواب شمس الدین کا ایک رقعہ کریم خاں کوملا جس میں اسے فوری طور پر قلعۂ فیروز طلب کیاگیا لیکن اس رقعے پرنہ تو نواب کے دستخط تھے اور نہ مہر تھی۔کاغذ بھی وہ نہ تھا جو دیوان ریاست میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن کریم خاں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ روبکارو(۱۸) خود نواب کی تحریر کردہ نہیںتھی۔اگلے دن صبح کریم خاںنے فیروز پور کے لیے رخت سفر باندھا۔ روانہ ہونے سے قبل اسے یہ خیال آیا کہ رقعے کو حویلی میں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے اور اپنے پاس بھی رکھنا اسے خلاف مصلحت سمجھا۔ نواب کی تحریر کو پرزے کرنا یا نذر آتش کرنا کریم خاں کو گوارا نہ ہوا لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر وہ رقعہ دریا گنج کی حویلی کے سامنے والے کنویں میں ڈال دیا۔دوسرے دن عصر کے وقت کریم خاںقلعۂ فیروز پور جھرکہ پرحاضر ہوگیا۔
دوشنبہ کا دن تھا اور تین مارچ کی تاریخ ،جب کریم خاں اور انیا میواتی دوبارہ دہلی پہنچے۔ان دونوں نے فریزر کے روزانہ پروگراموں پر نظر رکھی ۔اپنے جاسوس بھی اس کام پر لگادیے۔۲۲؍مارچ ۸۳۵ا ء کو رات کاوقت تھا ۔فریزر کی بند بگھی جب کشن گنج سے چلی تو تقریباََ گیارہ بجے کاعمل تھا۔ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا تھا کہ فریزر اتنی رات کو گھر سے باہر وہ بھی نسبتاََ کھلی جگہ پرتھا ۔ اسی شام وہ کشن گڑھ (ہریانہ) کے راجا کلیان سنگھ کے یہاں کھانے پر مدعو تھا۔ کھانے کے بعد رقص وشراب کی محفل دیر تک چلی اور فریزر نے معمول سے بہت زیادہ پی لی تھی۔کلیا ن سنگھ کے ملازموں اور فریزر کے محافظوں نے اسے کسی طرح اٹھا کر بگھی میں ڈال دیا تھا ۔ بگھی کے ساتھ ایک مشکی سوار(۱۹) بھی تھا جسے لوگوں نے اندھیرے میں محافظ سمجھا۔مشکی سوار نے بندوق سے فریزرکے جسم کو چھلنی کردیا اور بھاگ نکلا۔سارے شہر میں فریزر کی موت سے کہرام مچ گیا ۔
دوسرے دن فریزر کی تعزیت کو آنے والوںمیں مرزا غالبؔ اور فتح اللہ بیگ خاں بھی تھے۔کسی زمانے میںفتح اللہ بیگ خاں اور نواب شمس الدین خاں آپس میں رشتے دار اور دوست تھے لیکن آگے چل کر کٹر دشمن بن گئے۔فتح اللہ بیگ فریزر کی لاش کو دیکھ کر اس پر گر پڑے اور کہا کہ ’’ہائے شمس الدین نے تجھے نہ چھوڑا‘‘ یہ جملہ سنتے ہی انگریزوں کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ شمس الدین اور ان کے ملازموں کے پیچھے لگ گئے۔
سائمن فریزر نے دلی کے تمام دروازے بند کرادیے اور ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا دیا لیکن انیا میواتی اتنا شاطر تھا کہ انگریزوں کو چکما دے کر ۲۴؍مارچ ۱۸۳۵ء کو وہ فیروزپور قلعہ کے صدر دروازے پر تھا۔نواب شمس الدین کا سامنا ہوتے ہی سلام کیا اور کہا کہ ’’سرکار کے اقبال سے کام ہوگیا ۔دشمن راستے سے ہٹادیا گیا‘‘ ۔ نواب صاحب انیا میواتی سے خوش ہوکر دس اشرفیاں دلوائیںاور کہا کہ تم فیروز پورمیں ہی ٹھہرو۔انیا میواتی کی چھٹی حس نے اسے ہوشیار کردیا کہ نواب صاحب کا اتنا گہرا راز تمھارے دل میں دفن ہے وہ یقینا تمھیں مروا ڈالیں گے۔یہی سوچ کر انیا اپنے بھا ئی سے ملا اور اسے اپنا رازدار بنا کر فیروز پور سے رفو چکر ہوگیا۔دوسری طرف کریم خاں گرفتا ر ہوکر انگریزوں سے پٹنے لگا۔بہر حال نواب شمس الدین احمد خاں کو فیروز پور جھرکہ سے دہلی آنے کا حکم دیا گیا۔یہ خبر سنتے ہی پنجاب کے راجا مہاراج دھیراج کے سفیر اجاگر سنگھ نے نواب کی خدمت میں حاضر ہوکر پرزور درخواست کی کہ آپ بھیس بدل کر پنجاب بھاگ چلیں لیکن نواب صاحب نے اسے بزدلی سے تعبیر کیا۔دوپہر کے کھانے کے بعدنواب شمس الدین نے فرداََ فرداََ سب سے ملاقات کی۔ بیویوں کو ان مہر کی رقم دی اور دہلی کے لیے رخصت ہوگئے۔شام تک فیروز پور جھرکہ کے بازار بند ہوگئے ایسا لگتا تھا کہ ساری آبادی نے بن باس لے لیا ہے۔
جیسے ہی خبر ملی نواب شمس الدین قلعۂ پالم تک پہنچ چکے ہیں سائمن فریزر اپنے پچاس مسلح سپاہیوں کے ساتھ قلعۂ پالم پہنچ کر انھیں گرفتا ر کرلیا۔کافی قانونی کاروائیوں کے بعد(جوسب کی سب یکطرفہ تھیں)۸؍اگست۱۸۳۵ء بروز سہ شنبہ Alexander John نے یہ فیصلہ کیا کہ نواب شمس الدین اورکریم خاں کو مجمع عام میں پھانسی دے دی جائے۔
۲۶؍اگست ۱۸۳۵ء کی دوپہر کو جامع مسجد فتح پوری چاندنی چوک میں کریم خاں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور ۸؍اکتوبر ۱۸۳۵ ء بروز پنچ شنبہ ۸ بجے دن نواب شمس الدین خاں کو کشمیری دروازے کے باہر کھلی ہوا میں پھانسی دے دی گئی۔آٹھ ہزار کے مجمع نے نواب شمس الدین کو قدم شریف میں دفن کردیا۔
وقت گزرتا رہا ۔مرزا داغ ؔ اپنی خالہ کے ساتھ رام پور چلے گئے اور وزیر خانم کا غم بھی آہستہ آہستہ کم ہوا۔تقریباََ سات سال بعد ۱۱؍اگست ۱۸۴۲ء بروز جمعرات، وزیر خانم کا نکاح نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم کے جیٹھ آغا مرزا تراب علی سے دو طریقوںسے ،پہلے بطریق اہل سنت اور پھر بطریق اثنا عشریہ ہوا۔ وزیر خانم کو مدتوں بعد محسوس ہوا کہ امن وامان اور سلامتی کے چاند اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے ہیںاور خارجی دنیا کی کریہہ ظلمت اب اسے اور اس کے بیٹے نواب مرزا کو بھی نہ چھو سکے گی۔جون ۱۸۴۳ء کو وزیر خانم کو ایک بیٹا پید اہوا جس کا نام شاہ محمد آغا مرز ارکھا گیا ۔ آگے چل کر وہ شائق ؔ اور شاغل ؔ کے نام سے مشہور ہوا۔
نومبر ۱۸۴۳ء کا آغاز تھا جب آغا مرزا تراب علی نے ہاتھیوں اور گھوڑو ں کی خریداری کے لیے سون پور (بہار) جانے کا قصد کیا۔ہندوستان میں جانوروں کا سب سے بڑا میلہ وہاں ہر سال پُوس کی تیسری تاریخ سے لے کر وسط ماگھ یعنی مکر شنکرانتی کے دن(۱۴ جنوری تک) دریائے گنڈک کے کنارے ایک وسیع میدان میں لگتا تھا۔۱۵؍اگہن مطابق ۹؍دسمبر ۱۸۴۳ء کو مرزا آغانے اپنے قافلے کے ساتھ سون پور کے لیے کوچ کیا۔خشکی اور پانی کا سفر کرتے ہو ئے بیس دن کے بعد ۲۹؍دسمبر کو دن چڑھے ان کا قافلہ بخیر وعافیت سون پور پہنچ گیا۔ وہاں مرزا تراب علی کا کاروبار بہت تیز اور منافع بخش رہا۔
سون پور سے واپسی مانک پور روڈ سے ہوئی ۔تراب علی کا ایک تجربہ کار سائیس منیر خاں نے متنبہ کیا کہ یہ راستہ پر خطر ہے یہاں ٹھگ راہ گیروں کو لوٹ کر مار ڈالتے ہیںلیکن آغا مرزا تراب علی نے سائیس کی بات یہ کہہ کر ٹال دی کہ انگریز اس قوم کا قلع قمع کر چکے ہیں۔منیر خاں کی بات سچ ثابت ہوئی جب یہ قافلہ فتح پور ہسوہ سے آگے بڑھا تو درجنوں ٹھگوں نے مکاری سے قافلہ لوٹ لیا۔ مرزا آغا اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور وہیں ایک بڑے گڑھے میں مردوں کو دفن کردیا۔
مرزا تراب علی نے اپنے ساتھیوں کا ایک قافلہ بذریعہ کشتی بھی روانہ کیا تھا۔قافلے کا سردار داروغہ شاہنواز خاں اور منیرخاں نے کاٹھیاواڑ کے حبشی النسل سیدیوں کی مدد سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں ٹھگوں نے لاشوں کو دفن کیا تھا ۔ان لاشوں کو وہاں سے نکال کر قائم گنج میں دوبارہ دفن کیا گیا۔پانچویں دن کی شام کو سوگواروں کا یہ قافلہ رام پور پہنچا۔وزیر خانم نے جب یہ بری خبر سنی تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔
نوٹ: اس موقع پر ’’زخمی سانپ ‘‘ اور ’’کسّی‘‘ کی ذیلی سرخیاں قائم کرکے فاروقی نے ٹھگوں کی مختصر مگر کار آمد تاریخ بیان کی ہے خاص طورپر اس قابل نفریں گروہ کی پیشہ وارانہ اصطلاحات کا ذکر کرکے قارئین کے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔چونکہ مرزا کے قاتل ٹھگ تھے اس لیے ناول کا یہ حصہ قطعاََغیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ مہا کالی کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیںان کا ٹھگی سے گہرا رشتہ ہے اس لیے یہ بات افسانہ ہو کر بھی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔اسی لیے ہم غیر ضروری سمجھ کر بھی اس سے صَرف نظر نہیں کرسکتے۔
مرزا تراب علی کی بے وقت اور اندوہناک موت کے بعد ایک بار پھر وزیر خانم پر پیغمبری وقت آن پڑا۔مرزا آغا کے قریبی اعزہ میں ایک بیوہ بہن نور فاطمہ اور بوڑھی بیوہ پھوپھی امیر النسا تھیں۔ وزیر خانم اپنا بچہ لے کر مرحوم آغا کے پرانے مکان میں منتقل ہوگئی اور نواب مرزا کو ان کی منجھلی خالہ کے پاس بھیج دیا۔حبیبہ اور راحت افزا وزیر خانم کے ساتھ رہیں۔ ایک طرف راحت افزا کی شادی کی فکر وزیر خانم کو ستائے جارہی تھی تو دوسری طرف سسرال کی بیوہ نند اور پھوپھیا ساس ہروقت وزیر کو طعنے مارتیں کی اس نے جس کا بھی ہاتھ پکڑا وہ چل بسا۔کچھ دنوں کے بعد نواب یوسف علی خاں کے والد نواب محمد سعید خاں والیِ رام پورنے وزیر خانم کو اپنے پاس بلا لیااور راحت افزا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرائی۔
دلی میں بہادر شاہ ثانی کا عہد حکومت کافی پرسکون اور پر شکوہ تھا لیکن وزیر خانم کا دل رنج وغم سے بھرا ہواتھا۔وہ اپنی بہن منجھلی بیگم پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی تھی لہٰذا رام پور سے شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو لے کر دلی چلی آئی لیکن دلی شہر اور شاہ جہاں آباد اسے کاٹے کھا تا تھا۔نواب مرزا کی تعلیم البتہ اب رک گئی تھی۔ ملا غیاث رام پوری کی عمدہ تعلیم اور انتھک محنت کی بدولت وہ فارسی اور تاریخ و فلسفہ میں اپنے ہم عمروں میں بڑھ کر تھا۔اسے یقین تھا کہ ایک دن وہ بہت اچھا شاعر اور استاد بن جائے گا۔ حافظہ اتنا اچھا تھا کہ فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔وہ زود گوئی میں بھی کمال رکھتا تھا۔بہت جلدہی نواب مرزا کانام زبانوں پر چڑھ کر سارے شہر میں مشہور ہوچکا تھا خود مرزا غالب ؔ جیسے شاعر کو فکر تھی کہ اس ہونہار لڑکے کو بلوا کر اس کی ہمت افزائی کریں اور ایسا کیا بھی۔
انھیں دنوں خواجہ حیدر علی آتش کی ایک تازہ غزل لکھنؤ سے دہلی آئی جس کا مطلع تھا:
مگر اس کو فریب نرگسِ مستانہ آتا ہے
اُلٹتی ہیں صفیں ، گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
مصر ع اول کو طرح بنا کر بہت سے شعراے دہلی نے غزل کہی ۔جس میں نواب مرزا کے اشعار یوں تھے:
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتاہے
دغا شوخی شرارت بے حیائی فتنہ پردازی
تجھے کچھ اور بھی اے نرگسِ مستانہ آتا ہے
ایک دن نواب مرزاقدم شریف میں اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ کرواپس ہورہا تھا کہ صدر دروازے پر ایک خوبرو اور وجیہہ شخص ہوادار (۲۰)میںبیٹھا تھا ۔وہ شخص مرزا فتح الملک بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزا فخرو اور ہونے والے ولی عہد تھے۔نواب مرزا نے پاس پہنچ کر کورنش(۲۱) بجالائی اور درگاہ سے نکلنے ہی والاتھا کہ ایک چوبدار (۲۲)نے نواب مرزا سے کہا کہ صاحب عالم و عالمیان یاد فرماتے ہیں۔نواب مرزا کے سامنے آتے ہی صاحب عالم نے کہا :
جیتے رہو، ہمیں تمھاری مؤذب کورنش پسند آئی۔کیا نام ہے تمھارا ۔کس کے بیٹے ہو؟ س۔۔۔سرکار م۔۔۔میں نواب شم۔۔۔۔۔شمس الدین احمد خاں کا بیٹا ہوں، نواب مرزا مجھے کہتے ہیں۔
اچھا ۔شمس الدین احمد والیِ فیروز پور جھرکہ و لوہارو کے فرزند ہو؟
سرکار نے درست فرمایا۔
بھئی سبحان اللہ رئیسانہ سبھاؤ کے شخص تھے، یہیں مدفون ہیںاور تم لوگ اب ۔۔۔۔؟
وہ۔۔۔۔تمھاری والی۔۔۔۔اتنا کہہ کر شہزادے نے توقف کیا ۔اسے شاید خیال آگیا کہ مستورات کے بارے میں کچھ پوچھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ اچھا ہمارا سلام کہنا۔
نواب مرزا کو شہزادے کے بارے میں کچھ زیادہ معلو م نہ تھا ۔اِدھر اُدھر سے پتہ لگایا توصرف اتنا معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہیں ۔رمزؔ تخلص کرتے ہیں اور استاد ذوقؔ کے شاگرد ہیں۔
نواب مرزا نے گھر آکر اپنی ماں کو شہزادے سے ملاقات کا ذکر کیا ۔وزیرچپ چاپ سنتی رہی ۔ بعد میں وزیر خانم اپنی خادمہ حبیب النسا سے میرزا فتح الملک کے بارے میںمختلف سوالات پوچھتی رہی۔حبیبہ نے شہزادے کے بارے میں بڑی امید افزا باتیں بتائیں۔ آخر میں یہ تجویز رکھی کہ چلئے بائی جی سے پوچھ لیں۔
دوسرے دن حبیبہ اور وزیر خانم بائی جی کے یہاں پہنچیں۔کوڑیاں گن کر بائی جی نے کہا کہ تمھیں نواب شمس الدین کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ قلعے کی بیگمات کھلے عام مزاروں پر نہیں جاتی ہیں۔وہاں پردے کا بڑا اہتمام ہے۔
تو بائی جی کا حکم ہے کہ میں قلعے کا پیغام قبول کرلوں؟
ہمارا کچھ حکم نہیں بابا۔۔یہ امور ہونے والے ہیں!
اور اس کے بعد میرے دکھ دور ہوجائیں گے بائی جی صاحب ؟
دکھ ،سکھ تو دھوپ چھاؤں کی طرح ہیں۔ہر چیز تغیر پذیر ہے ،قلعے کی بادشاہت کے بھی دن کبھی پورے ہوں گے۔
مولانا امام بخش صہبائی اور حکیم احسن اللہ کی مدد سے ۲۴؍ جنوری ۱۸۴۵ء کو وزیر خانم کا نکاح بعد نماز مغرب فتح الملک مرزا فخرو کے ساتھ بہت دھوم دھام سے ہوگیا۔قلعہ معلی میں بہ طور خاص مبارک سلامت کی بارش ہورہی تھی۔وزیر خانم کو ’’شوکت محل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔نواب مرزا اور شاہ محمد آغا کی پرورش کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا۔کئی ہفتوں تک دعوتوں اور ضیافتوں کا دور چلتا رہا۔گویا وزیر خانم کی زندگی میں ایک نیا سورج طلوع ہوا۔شادی کے بعد اِدھر تو وزیر خانم بادشاہ وقت کی بہو بنیں اور اُدھر نواب مرز اکی شادی فاطمہ رفاعی کے ساتھ ہوگئی۔وزیر خانم اپنی خوش نصیبی پر نازاں تھی مگر تقدیر دور کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہر کمالے را زوال کے مصداق وزیر کے آفتاب مسرت کو بھی گہن لگنے والا تھا۔وزیرخانم کو مرزا فخرو سے ایک بیٹا(خورشید مرزا) پیدا ہوا۔دوبارہ محل میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاںتقسیم ہوئیں۔لیکن افسوس کہ وہ منحوس گھڑی آکر رہی جس سے وزیر ہمیشہ ڈرا کرتی تھی۔
۱۰؍جولائی ۱۸۶۵ء کو مرزا فخرو نے بعارضۂ ہیضہ انتقال کیا ۔وزیر خانم نے اپنا منھ پیٹ لیا ۔بجائے اس کے کہ وزیر خانم کی ساس زینت محل اس بیوہ غمزدہ پر رحم کرتیںاسے نہایت بے رحمی سے محل سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔وزیر خانم ان سے خوب لفظی جنگ کی لیکن آخر نتیجہ صرف اتنا رہا کہ ع
’’شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے‘‘ (ناصرکاظمی)
’’ اگلے دن مغرب کے بعد قلعۂ مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا ۔ایک پالکی میں وزیر ۔ایک بہل پر اس کا اثاث البیت اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا اور خورشید مرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی ۔محافظ خانے
والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونّیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سر اٹھا ئے ہوئے نکل گئے۔ان کے چہرے ہر طرح کے تاثر سے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادرمیں لپٹی اور سرجھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظر نہ آتا تھا‘‘۱؎
درج بالا اقتباس ناول کا اختتامیہ ہے ۔تقدیر ایک مرتبہ پھر وزیر خانم کو وقت کے بھنور میں ڈھکیل دیتی ہے۔ناول نگار نے وزیر خانم کے کردار کے حوالے سے انیسویں صدی کے مرد مرکوز معاشرہ میں ایک عورت کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کرنے کی جدو جہد کو موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔اس جدو جہد کے دوران اس کی زندگی میں جو مختلف موڑ آتے ہیں اور ان مراحل میںوہ جن اشخاص کے رابطے میں آتی ہے وہ اس عہد میں ہندوستان کی سیاسی اور ادبی تاریخ میں قابل ذکر اور اہم مقام کے حامل ہیں ۔ناول نگار نے ناول کے مرکزی کردار کے حوالے سے اس پورے عہد کی تاریخ کو زندہ کردیا ہے۔
آٹھ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل اس ضخیم ناول کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے جیسا عمل ہے ۔اس مشکل کے باوصف یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلاصہ پیش کرتے وقت ان اہم نکات کو بیان کردیا جائے جو ناول کے تخلیقی منظر نامہ کو نمایا ں کردیں۔
٭٭٭

فرہنگ
شبیہ ساز : مشابہ تصویر بنانے والا(Portrait Painter)
(۲) نقّاش : نقش ونگار بنانے والا، مصور۔
(۳) قالین باف : غالیچہ ،قالین بُننے والا
(۴) چوب تراشی : لکڑی پر نقش ونگار بنانا۔
(۵) سادہ کاری : سونے کے تار سے کپڑوں پر بیل بوٹے کاڑھنا۔
(۶) کلدار اشرفیاں : قدیم مقامی سکہ۔
(۷) شاہ عالم اشرفیاں: قدیم بین الاقوامی سکہ۔
(۸) شاگرد پیشہ : نوکر چاکر،ملازموں کے رہنے کے لیے وہ کمرہ جو محل سے قریب ہو
(۹) اصیلیں : باندی ،کنیز، لونڈی۔
(۱۰) ماما : وہ دائی یاخادمہ جو کھانا بناتی ہو۔
(۱۱) چھو چھو : دایہ ، وہ عورت جو لڑکیوںکی خدمت کے لیے مقرر ہوتی ہے۔
(۱۲) ڈومنی پن : گانے بجانے کاشوق، طوائف پن۔
(۱۳) بہلی : چھوٹی بیل گاڑی جو سواری کے کام آتی ہے۔
(۱۴) پنڈاروں : ایک قسم کا آوارہ گرد گروہ، قبیلہ۔
(۱۵) عرب سرائے : قدیم دہلی کا طوائفوں کا ایک علاقہ۔
(۱۶) کیوپڈ : رومیوں کا عشق کا دیوتا۔
(۱۷) سانڈنی سوار : تیز رفتار اونٹنی کی سواری کرنے والا۔
(۱۸)روبکارو : نوابوں کاوہ تحریر نامہ جس میں کوئی حکم صادر کیا گیا ہو۔ایسے
حکم نامہ کو لانے اور لے جانے والے کو ’’روبکارو ‘‘ کہتے ہیں۔
(۱۹) مشکی سوار : سیاہ رنگ کے گھوڑے کی سواری کرنے والا۔
(۲۰) ہوادار : ایک قسم کی ڈولی جو چاروں طرف سے کھلی ہوتی ہے۔
(۲۱) کورنش : درباری سلام کرنے کا طریقہ۔
(۲۲) چوبدار : لاٹھی لے کر نوابوں کے آگے چلنے والا نوکر۔
٭٭٭

 

Novel Kai Chand They Sa’ar E Asman

Articles

ناول کئی چاند تھے سرِ آسماں کے تشکیلی عناصر

ڈاکٹر رشید اشرف خان

’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ شمس الرحمن فاروقی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ناول نگار نے ہزاروں دریا سمو دیے ہیں ۔ اس شاہکار ادب پارے کو پڑھ کر اردو کے مشہور و معروف ادیب انتظار حسین نے فاروقی سے کہا تھا کہ’’ آپ آدمی ہیں کہ جن؟‘‘
یقینا مؤکل ، شمس الرحمن فاروقی کے تابع ہیں جن سے وہ جب چاہیں ، جیسا چاہیں کام لے لیتے ہیں۔ویسے تو اس ناول کی کہانی کو دراز تر کرنے میں درجنوں کردار ، مقامات ، واقعات اور حادثات سبھی شریک ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں رول ، جگت استاد ، فصیح الملک نواب میرزا خاں داغ دہلوی کی والدۂ گرامی، وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زہرہؔ دہلوی کا ہے۔ وزیر خانم کا نام زبان پر آتے ہی اردوکے معروف استاد شاعر ثمرؔ ہلّوری کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
ازل سے تا ابد ، نا محرمِ انجام ہے شاید
محبت ، اک مسلسل ابتدا کا نام ہے شاید
غیر ضروری نہ ہوگا کہ اگران عناصر پر بھی گفتگو کی جائے جن کے اشتراک سے ایک ناول کی تشکیل عمل میں آتی ہے ۔اسی مقصد کے تحت ذیل کی سطو ر میں ناول کے چند تخلیقی عناصر پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
زبانی بیانیہ
بیانیہ یاNarration ایک مخصوص انداز ہے جس سے اردو ادب کی نظم ونثر کی قرأت اور بلند خوانی دونوں میں مدد لی جاتی ہے:
’’ بیانیہ سے مراد صرف ناول یا وہ فکشن نہیں جس کے بنیادی نمونے ہنری فیلڈنگ اٹھارویں صدی اور ہنری جیمس نے انیسویں صدی میں قائم کیے۔ ناول یا فکشن ایک طرح کا بیانیہ ہے ،لیکن ناول کو بیانیہ کا واحد معیار یا واحد اصول ساز نہیں کہہ سکتے ۔ دوسرے الفاظ میں ، ہر بیانیہ کو ناول ،فکشن کے چوکھٹے میں رکھ کر نہیں دیکھنا چاہیے‘‘۱؎
بیانیہ اور زبانی بیانیہ میں فرق ہے۔داستان میں ناول کے بر خلاف الگ ضوابط اور رسومیات ہوتے ہیں۔یعنی داستان کا مطالعہ آزادعلومیہFree disciplineکی حیثیت سے کیا جاتا ہے ۔شاید اس مخصوص disciplin کا نتیجہ تھا کہ جس زمانے میں ہمارے وطن اور بیرون وطن میں ناول کا بول بالا تھاتو ادب کے ماہرین نے بالاتفاق یہ مان لیا تھا کہ ناول کے ہوتے ہوئے کسی اور نثری بیانیہ کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے۔بہت سے اہل علم آج بھی داستان کو ناول کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔منظوم شکل میں جو داستا نیں لکھی گئیں یا قصہ خوانی کے دوران جو مثنویاں جوڑ دی گئیں انھیں ترنم سے یا گا کر پڑھا جاتا ہے اس کے برعکس ناول میں اگر اشعار نقل بھی کیے جاتے ہیںتو انھیں گاکر نہیں پڑھا جاتا۔جیسا کہ ’’کئی چاند تھے سرِآسماں ‘‘ میں اکثر مقامات پر ایسے ٹکڑے ملتے ہیں جو زبانی بیانیہ کے ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاََ جب ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں نواب شمس الدین احمد خاں پر فردجرم عائد کرکے انگریزوں نے انھیں پھانسی دے دی تو وزیر خانم کی دنیا ہی اجڑ گئی ۔ وہ چپکے چپکے روتی اور دل ہی دل میں نوحے کے انداز میں یہ اشعار پڑھتی تھی:
شربتے از لب لعلش نہ چشیدیم و برفت
روئے مہ پیکراو سیر نہ دیدم و برفت
گوئی از صحبت مانیک بتنگ آمدہ بود
بار بربست و بہ گردش نہ رسیدیم و برفت
اسی طرح ایک مقام پر جب کریم خاں کی گرفتاری کے بعد دلا ورلملک نواب شمس الدین احمد خاں کو کمپنی بہادر کے افسران ،فیروزپور جھرکہ سے دہلی طلب کرنے کے لیے ایک خط روانہ کرتے ہیں۔خط کو پڑھ کر نواب شمس الدین خاں کی زندگی میں طوفان آجاتا ہے ۔وہ اندرون خانہ جاکر اپنی بیگمات اور بچوں سے ملتے ہیں ۔انھیں دلاسہ دیتے ہیں اور بادل ناخواستہ ایک ایک سے رخصت ہوتے ہیں۔شہر فیروز پور کے سبھی عوام وخواص گریہ وزاری کرکے انھیں الوداع کہتے ہیں اور روضہ خوان سیدنا امام حسن کے شہید فرزند حضرت قاسم کا یہ نوحہ پڑھتے ہیں:
آں دم عروس ہے ہے ، رو رو کہے زناں سوں
جاتے ہیں واہ ویلا تنہا ستم گراں سوں
ملنا جو پھر کہاں ہے ، وا حسرتا جہاں سوں
کرکے چلے اندھارا ، دن کو چو شام قاسم
مذکورۂ بالا نمونوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ضروری نہیں کہ اشعار گاکرہی پڑھے جائیںاگرچہ بعض حالات میں وہ ترنم سے خواندگی کے متقاضی محسوس ہوتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک بات اور بھی قابل وضاحت ہے:
’’طویل یا مختصر بیانیہ نظموں کو گاکر یا پڑھ کر سنانے کا رواج مغرب میں بھی اتنا ہی مقبول اور اتنا ہی قدیم ہے ،جتنا مشرق میں۔ اور مغرب کی بعض عظیم ترین نظموں کی تنقید اسی وقت بامعنی قرار دی جاسکی جب اس نکتہ کو ملحوظ رکھا گیا۔ مثلاََ ہومرؔ کی ایلیڈ اور اوڈیسی اور ان کی طرح مشرقی نظموں مثلاََ مثنوی کے بھی عناصر یہی دو ہیں یعنی رزم اور بزم‘‘۱؎
داستان کو بیانیہ اس لیے سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اس کے سننے والے سامعین ہواکرتے ہیں۔اب تو خیر داستا نیں ، کتابی شکل میں یا فلم کے پردے پر آنے لگیں لیکن دور قدیم میںیہ سننے ہی کی چیز تھی البتہ ناول نویس سنانے کے لیے نہیں بلکہ پڑھوانے کے لیے لکھتا ہے۔دور حاضر میں بھلا کس میں اتنی صلاحیت ہے کہ فاروقی کے مذکورہ ناول کو حرف بہ حرف ازبر کرکے عوام کے مجمع میں سنا سکے۔یہ اور بات ہے کہ ناول نویس کے ذہن میں کچھ مفروضہ سامعین ہوں ،پر ضروری نہیں کہ وہ سامنے موجود ہوں۔
داستانی عناصر
ناول کے مصنف شمس الرحمن فاروقی ،قاری یا ناقد کوئی بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ یہ تصنیف کسی حیثیت سے داستان کے زمرے میں آتی ہے۔لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کردیا جائے کہ اس میں ’’داستانی عناصر‘‘ کا شائبہ بھی نہیں ہے۔فن داستان گوئی ، افسانہ نگاری اور ناول نویسی کے اختصاصی مبصر وقار عظیم کا یہ محاکمہ توجہ طلب ہے:
’’چھوٹی بڑی، سب داستانوں میں دلچسپی پیدا کرنے کاایک طریقہ تو یہ ہے کہ قصے کو جہاں تک ممکن ہو طول دیا جائے تاکہ پڑھنے والا زیادہ سے زیادہ عرصے تک حقیقت کی دنیا بھول کر ، رومان اور تخیل کی دنیا کی سیر کرے ۔کہانی کو طویل بنانے کے لیے ہمارے داستان نویسوں نے عموماََ یہ انداز اختیار کیا ہے کہ وہ اصل قصے کے ساتھ’’ ضمنی قصے‘‘ بڑھا کر پڑھنے والے کی توجہ اور انہماک کے لیے نئی نئی باتیں نکالتے رہتے ہیں‘‘۱؎
اس بیان کی روشنی میں اگر ہم جائزہ لیں تو کہانی کا مرکزی کردار الملقب بہ شوکت محل کی داستان حیات بیان کرتے وقت بنی ٹھنی، وسیم جعفر، تعلیم،مہاداجی سندھیا،مہاکالی وغیرہ کو اگرچہ اصل قصے میں انتہائی ہنر مندی سے جوڑ دیا گیا ہے لیکن بغور دیکھئے تو یہ سب چیزیں اضافی نظر آتی ہیں۔بنی ٹھنی کے حسن وجمال، اس کے اعضا وجوارح کی متناسب بناوٹ اور مہا راول گجندر پتی سنگھ مرزاکی چھوٹی جوان بیٹی من موہنی، عرف رادھا ،عرف بنی ٹھنی کی تصویر کشی فاروقی نے بہت تفصیل سے کی ہے۔
’’بنی ٹھنی‘‘ کی اس تفصیل کا داستانی عنصر یہ تھا کہ راجپوتانے کے علاقہ کشن گڑھ میں واقع گاؤں ’’ہندل پروا ‘‘ کے باشندے میاں مخصوص اللہ ایک شبیہ ساز تھے۔نہ جانے کس طرح انھیں یہ توفیق ہوئی کہ بے خیالی میں انھوں نے ’’بنی ٹھنی‘‘ کی شبیہ بنادی۔ مخصوص اللہ اور ان کے گاؤں والوں کی شامت ہی تھی کہ بنی ٹھنی کے خد وخال مہاراول گجندر پتی مرزا کی چھوٹی بیٹی من موہنی سے بالکل مل گئے۔مہاراول یہ سوچ کر آپے سے باہر ہوگیا کہ میری بیٹی کو کسی نا محرم نے دیکھ لیا اور اب میری جگ ہنسائی ہوگی ۔چنانچہ اس نے اپنی بیٹی کو نہایت سفاکی سے قتل کردیا ۔مگر قدرت کے کھیل نیارے ہوتے ہیں ۔ مخصوص اللہ کے پرپوتے یوسف سادہ کار کے گھر میں وزیر خانم پیدا ہوگئی جو شکل وصورت میں بنی ٹھی کی ہم شکل یاTru-copy تھی۔اس قسم کے آوا گون۔دوسرے جنم یاRe-incarnation کے فارمولے کیا اس ناول کے داستانی عنصر کی غمازی نہیں کرتے؟داستانی عنصر کی ایک اور مثال بڑی دلچسپ ہے:
’’یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر بیانیہ ماضی یا حال یا مستقبل میں واقع ہوتا ہے لیکن داستان کی صفت یہ ہے کہ اس میں مستقبل کی باتیں بسا اوقات پہلے ہی منکشف کردی جاتی ہیں۔مختصراََ یا مطولاََ ۔۔۔اور پھر سارے واقعات اپنے وقت پر دوبارہ بیان ہوتے ہیں۔تجسس کی وہ نوعیت باقی نہیں رہتی جو عام ناولاتی فکشن میں نظر آتی ہے‘‘۱؎
ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘کی ابتدا ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی، ماہر امراض چشم کی یاد داشتوں سے ہوتی ہے لیکن ایک مضحکہ خیز پہلو اس حوالے میں یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا وجود محض خیالی ہے۔ان کانام بھی مستعار ہے یعنی شمس الرحمن فاروقی کے والد مرحوم مولوی خلیل الرحمن اور دادا حکیم مولوی اصغر فاروقی کے ناموں کا مرکب ہے۔یہ التزام شاید فاروقی نے بڑی دوراندیشی سے کیا ہے اس سے موصوف کی ذہنی اپج اور درّاکی کا نمونہ سامنے آتا ہے۔
ڈرامائی پہلو
ڈراما ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں منظر بدل جاتے ہیں ،مکالموں پر توجہ دی جاتی ہے، روشنی اور آواز کے اتار چڑھاؤ پر دھیان دیا جاتا ہے۔جذبات نگاری اور موسیقی کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔اگر موضوع تاریخی یا سماجی ہے تو زمان ومکاں اور ماحول، زبان، لہجہ ،کردار اور آغاز و اختتام پیش نظر رہتا ہے ۔اکثر خود کلامی ،طنز ومزاح یا لکچر بازی کا بھی التزام رہتا ہے۔
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ بنیادی طور پر ایک ناول ہے جس میں بیک وقت داستان، ڈراما اور ناول سبھی رنگ نظر آتے ہیں۔ناول کے مطالعہ کے دوران ہمیں ڈرامائی پہلوؤ ں سے بھی سابقہ پڑتا ہے۔پہلا ڈرامائی پہلو وہاں نظر آتا ہے جب لندن میں ڈاکٹر وسیم جعفر اور ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کی پہلی تفصیلی ملاقات ہوتی ہے۔دونوں دریائے ٹمیز کے کنارے اتوار کو اس مقام پر ملتے ہیں جہاں پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔اسی طرح ناول کی ابتدا میں جب مخصو ص اللہ کی شبیہ سازی کی وجہ سے پورے گاؤ ں والوںکے سرپر موت کے بادل منڈلانے لگتے ہیںاوروہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ایک اور درد انگیز ڈرامائی موقع وہ بھی ہے جب صاحب عالم مرزا فتح الملک بہادر عرف مرز افخرو، ولی عہد سوم ایک مختصر سی علالت کے بعد انتقال کرجاتے ہیںاور چھوٹی بیگم (وزیر خانم) جنھیں مرزا فخرو کی بیگم بننے کے بعد شوکت محل کا خطاب ملا تھا بیوہ ہوجاتی ہیں تو مرزا فخرو کے چہلم کے تیسرے دن بعد ان کی سوتیلی ماں اور بہادر شاہ ظفر کی منظور نظر زینت محل وزیر خانم کو بلواکر کہتی ہیں:
’’ چھوٹی بیگم ،ہمیں تمھاری بیوگی پر بہت افسوس ہے لیکن تم تو ایسے سانحوں کی عادی ہوچکی ہو ۔ اسے بھی سہ جاؤگی‘‘۱؎
کافی دیر تک دونوں کی تلخ وتند گفتگو کے بعد زینت محل نے بڑی بے رحمی سے وزیر خانم کو قلعہ سے نکل جانے کا حکم صادر کردیا۔
تاریخی پس منظر
شمس الرحمن فاروقی نے ناول کے آخر میں یہ اعلان کیا ہے کہ:
’’یہ بات واضح کردوں کہ اگرچہ میں نے اس کتاب میں مندرج تمام اہم تاریخی واقعات کی صحت کاحتی الامکان مکمل اہتمام کیا ہے لیکن یہ تاریخی ناول نہیں ہے۔ اسے اٹھا رویں ، انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب ، انسانی اور تہذیبی وادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا‘‘۲؎
فاروقی کے اس اعلان کی تائید کرتے ہوئے اگر مان بھی لیتے ہیںکہ یہ ناول بنیادی طور پرتاریخی نہیںہے۔اس زاویہ نظر سے ہم اس کتاب سے چند نمایاںمثالیں پیش کر سکتے ہیں۔جس طرح تاریخ لکھتے وقت مورخ قدیم تاریخی ماخذسے استفادہ کرتا ہے اور ہرپیچیدہ مسئلے کو دروغ بر گردن راوی کے فارمولے کے ذریعے قابل اعتماد ویقین بنا دیتاہے۔ اس طرح اگرچہ فاروقی نے اپنی کتاب پر تاریخیت کی مہر ثبت نہیں کی لیکن کتابیات کی سرخی کے تحت قریب قریب سبھی ایسی کتابوں کے حوالے دیے ہیں جن کے استناد میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ناول میں گزشتہ اٹھا رویں اور انیسویں صدی کے واقعات کو زیادہ سے زیادہ جاندار اور پراثر بنانے کے لیے فاروقی نے روسی ناول کی تکنیک Docu-Fictionکا استعمال کیا ہے۔اس ضمن میںانھوں نے نہایت باریک بینی کے ساتھ انگریز افسران کی ذاتی ڈائریوں ، روزنامچوں اور خطوط کا بغور مطالعہ بھی کیا ہے:
’’یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محقق فاروقی ، ناول نگار فاروقی کو پوری طرح کمک پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا اس میں ہم تاریخ کو تخلیقی طور پر فکشن کے روپ میں ڈھلتے دیکھتے ہیں‘‘۱؎
اس ناول کا اطلاق اگرچہ سو فیصد تاریخیت پر نہیں ہوتا لیکن اسی عنصر تاریخیت نے ناول میں دلکشی اور سنجیدگی پیدا کردی ہے ۔شاید اسی لیے مظہر جمیل نے لکھا ہے :
’’ناول میں جو تاریخی و نیم تاریخی مواد استعمال ہواہے اس کی حیثیت خواہ تحقیق کی رو سے بہت زیادہ مستند نہ ٹھہرتی ہولیکن طریق اظہار کے ذریعہ بیانیہ اپنا اعتماد قائم کرنے میں کا میاب رہا ہے کیونکہ اس سے ایک مانوس فضا اور التباس حقیقت کا مضبوط تاثر قائم ہوا ہے‘‘۲؎
کئی چاند تھے سرِآسماں کی ورق گردانی کرتے وقت کئی ایسی باتیں سامنے آتی ہیںجن کا تعلق اٹھا رویں اور انیسویں صدی کی تاریخ سے ہے اور جن کی صحت کا آسانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔مثلاََحسیب اللہ قریشی عرف سلیم جعفر سچ مچ ایک مشہور ومعروف ادیب، نقاد اور عروضی تھے ۔انھوں نے نظیر اکبرآبادی کا ایک مبسوط انتخاب ’’گلزار نظیر‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔اسی سلسلے میں لاہور میں ۳۰؍جون ۱۷۹۲ء کو دو ہفتوں کے لیے مینا بازار لگا ۔مخصوص اللہ شبیہ ساز کے بیٹے یحییٰ بڈگامی کو اسی مینا بازار میں بصد اعزاز بلایا گیا تھا ،یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔اس ضمن میں یہ تاریخی واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد سے ایک بیٹا تھا جو آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزاخاںداغؔ دہلوی کے نام سے مشہور ہوا ۔
مذہبی حوالے
جس طرح شاعری کی صنف مثنوی میں عمومی طورپر دو طرح کی مثنویاں ہوتی ہیں۔ رزمیہ اور بزمیہ۔ پھر آگے چل کر شاعراپنی شعوری جدت طرازیوں اور اختراع پردازیوںکے جوہر دکھانے کی کوشش کرتا ہے توکبھی مثنوی درس اخلاق کا صحیفہ بن جاتی ہے اور کبھی حسن وجمال کا مرقع ، کبھی سوانح اور آپ بیتی کا دفتر بن جاتی ہے اور کبھی داستانوں کا افسوں۔اکثر نمائش علم کا میدان قرار پاتی ہے اور کبھی عرفانیت اور روحانیت کی مبلغ۔ داستانوں میں با لخصوص مذہبی حوالوں اور تعلیمات کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں،جب کہ افسانہ اور ناولوں میں ان حوالوں کی گنجائش کم سے کم رہتی ہے۔قاری ذہنی تفریح اور جذباتی لطف کے لیے ناول پڑھتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ ناول نگار کے انداز نگارش کا مزہ لینے کے لیے،عمدہ جاسوسی ناول علمی ترقی ، زبان وبیان کی چاشنی یا جذبۂ تحیر وتجسس کی تسکین کے لیے ایسے ناولوں کا مطالعہ کرتا ہے۔وقت گزاری اور منھ کا مزا بدلنے کے لیے بھی ناول پڑھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ امر بڑا حیرت افزا ہے کہ فاروقی کا ناول گاگر میں ساگرAll in one کی بہترین مثال ہے۔اس میں تاریخ بھی ہے، تہذیبی پس منظر بھی ہے،مکالمے بھی ہیں،محبت بھی ہے نفرت بھی ہے، مکاریاں بھی ہیں ،شرافت و وضع داری بھی ہے، جنسیت بھی ہے نفسیاتی کیفیات بھی ہیں۔شاعری بھی اور فنون لطیفہ کی لطافت بھی ہے اوران سب سے بڑھ کر مذہبی حوالے بھی ہیں۔فاروقی لکھتے ہیں کہ:
’’ بڑی بیگم کو ایام صبا ہی سے اللہ رسول سے بے حد لگاؤ تھا۔ سات برس کے سن سے اس کی نماز قضا نہ ہوئی ،نو سال کی ہوئی توپابندی سے روزے رکھنے لگی ۔ کلام مجید کی کئی سورتیں، بہت سی حدیث پاک، قصص الا نبیا کے کتنے ہی اجزا ،سب اسے ازبر تھے۔پردے کی سخت پابند، کھیل تماشوں سے اسے کچھ لگاؤ نہ تھایہاں تک کہ بسنت کی بہار بھی نہ دیکھتی‘‘۱؎
جب ناول کے اسٹیج پر وزیر خانم نمودار ہوتی ہے تو بزرگوں کی روایت کے مطابق اسے اپنے والد محمد یوسف سادہ کار کے ہمراہ عرس مبارک کے ایام میں مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ فلک بارگاہ سے واپس آتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ محمدیوسف سادہ کار اور اس کے اہل خاندان مذہبی خیالات رکھتے تھے۔
فاروقی نے شعوری طور پر اس ناول میں مذہبی حوالوں کا التزام رکھا ہے۔فاروقیوں کا حوالہ بڑی چابکدستی سے داکٹر خلیل اصغر فاروقی کی زبانی دیا ہے اس سے وہ قارئین پر یہ راز آشکار کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ اعظم گڑھ(یا مئو) میں رہنے والے فاروقی (جس میں موصوف بھی حسن اتفاق شامل ہیں) ممکن ہے کہ ان کے آبا واجداد برہان پوری فاروقیوں سے تعلق رکھتے ہوں۔
جب ۸؍اکتوبر ۱۸۳۵ ء بروز پنچ شنبہ ۸ بجے دن نواب شمس الدین خاں کوپھانسی دینے کے لیے لے جایا جاتا ہے۔اس وقت کا ایک اندوہ گیں لیکن عجیب وغریب منظر دیکھئے:
’’تختۂ دار پر چڑھنے سے پہلے شمس الدین احمد نے کلمۂ توحید اور پھر کلمۂ شہادت پڑھا ۔انھوں نے جلادوں سے ان کی سرگوشی کے لہجہ میں ان کی ذات اور مذہب پوچھا۔جواب سن کر جو اسی طرح زیر لب دیا گیا تھا، نواب شمس الدین احمد نے آہستہ سے خود کلامی کے لہجہ میں کہا ۔اللہ جانے میرے ڈھیر کو مسلمان کے ہاتھ کی مٹی نصیب ہوگی کہ نہیں ۔اس لیے میں خود ہی اپنی مٹی کی دعا پڑھ لوں‘‘۱؎
اسی طرح آغا مرزا تراب علی رفاعی جب ہاتھیوں اور گھوڑوں کی خریداری کے لیے رام پور سے کافی دور سون پور (بہار)جاتے ہیں۔تب وزیر خانم اور راحت افزا دونوں باری باری آغا مرزا کو امام ضامن باندھتی ہیں۔آغا مرزا بھی اپنے بچوں کو دعائیں اورانھیں ’’اللہ کی امان‘‘ میں دے کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔
اسی ناول میں ٹھگوں کے حوالے سے دیوی بھوانی ،کسّی اور بہت سے ایسے الفاظ و مصطلحات کا ذکر کیا گیا ہے جو ان ٹھگوں کے نزدیک ایک سخت ظالمانہ عقیدہ اور مذہب ہے۔
سیاسی حالات
فاروقی کا تحریر کردہ ’’کئی چاندتھے سرِآسماں‘‘ ایک ایسا وسیع وعریض ناول ہے جو دیگر باتوں کے علاوہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان میں کار فرما سیاسی حالات کابھی بطور خاص احاطہ کرتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی منظم ملک کی زندگی میں جہاں اور بہت سے عوامل کام کرتے ہیں وہاں سیاسی حالات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سات سمندر پار سے آئے ہوئے افرنگیوںنے کس طرح ہندوستان کو رفتہ رفتہ اپنا غلام بنا لیا۔’’سیاست افرنگ ‘‘کے عنوان سے علامہ اقبال نے محض چار مصرعوں میںبہت پتے کی بات کہی ہے:
تری حریف ہے یارب ، سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس۱؎
مذکورہ ناول ۱۸۵۶ء تک کے زمانے کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔اپنی مقصد بر آوری کے لیے سب سے پہلے انگریز وں نے ہندوستان کی مختلف زبانیں سیکھیں۔عوام تو عوام،افسران بالا مثلاََگورنر جنرل، ریزیڈنٹ اور سفرا ،انگریز ہونے کے باوجود عمدہ ادبی فارسی میں گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اشعار پڑھتے اور خطابت بھی کرتے تھے۔مثال کے طور پر جب جنرل لارڈ لیک نواب احمد بخش خاں شاہ عالم کی فوج میں شامل ہوئے تو ان کی قیمتی خدمات کے صلہ میں فیروز پور جھرکہ اور الور کے علاقے انھیں بطور انعام ملے تھے ۔ انھیں کی میواتی بیگم سے نواب شمس الدین احمد خاں تھے۔انگریزوں نے فارسی واردو میں خصوصی طور پر ایسا درک حاصل کرلیا تھا کہ غیر ملکی لہجہ ہونے کے باوجود وہ ان زبانوں سے بڑی حد تک بے تکلف ہوگئے تھے۔یہ مشق وہ کسی ادبی معیار کو قائم کرنے کے لیے کم اور سیاسی مقاصدکے حصول کے تحت زیادہ کرتے تھے۔مثال کے طور پرجب نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور کی دعوت پر وزیر خانم انگریز ریزیڈنٹ ،ولیم فریزر کی کو ٹھی پر پہنچی اور دربان نے پکار کر وزیر خانم کی آمد کی خبر دی تو ولیم فریزر باہر آیا اور بولا:
’’ اہلاََ و سہلاََ۔ اے آمدنت باعث دل شادی ما۔
حضور نواب صاحب کلاں بہادر ، کنیزک شما و دعاگوئے شما
دیدہ ودل فرش راہ ، اندر تشریف لے چلیں‘‘
انگریزوں کی زبان دانی کی ایک بہترین مثال اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب فریزر کی کوٹھی پر شعری نشست کے دوران فریزرنے مرزا غالبؔ سے کہا :
’’کہ میں نے فرنچ لیکور کا انتظام کیا لیکن شرط نئی غزل کی ہے ۔مرزا صاحب نے مسکراتے ہوئے بوتل کھولی اور کہا منھ میں تو پانی بھر اآرہا ہے لیکن اسے چندے کھلا چھوڑتا ہوں کہ ہوا خوردہ ہوجائے لیکن یہ شرابیں ایسی ہیں کہ سانس لینے کا تقاضا کرتی ہیں۔وللہ مرزا نوشہ ۔آپ کی انھیں باتوں پر تو ہم فدا ہیں۔ولیم فریزر ہنس کر بولا۔آداب مَے نوشی کوئی آپ سے سیکھے‘‘۱؎
ہندوستان میں اپنی ناپاک سیاسی تماشوں کی بساط بچھانے والے انگریز وںکی ایک مثال مرزا فخرو (جن کا پورا نام میرزا محمد سلطان فتح الملک شاہ بہادر عرف مرزا غلام فخرالدین عرف مرزا فخرو تھا)کے ساتھ تاریخی ساز باز ہے۔مرزا فخرو اور انگریز کے مابین یہ طے ہوا کہ اگر مرزا فخرو اپنے والد کے بعد حسب ذیل شرائط پوری کرتے ہیں تو انھیں ولی عہد نامزد کیا جائے گا:
’’ ۱۔ مرزا فخرو جب بھی گورنر سے ملیں تو برابری کے رشتے سے ملیں۔
۲۔ شاہی زمینوں کا بندوبست حکومت بر طانیہ کے ہاتھوں میں ہوگا۔
۳۔ سلاطین مغلیہ کو قلعۂ معلی میں رہنے کا حق نہ ہوگا۔
۴۔ ولی عہد بہادر کے لیے دوامی حکم ہے کہ وہ لال قلعہ خالی کرکے
قطب صاحب چلے جائیں۔‘‘۲؎
مرزا اسدللہ خاں غالب بھی اسی عہد کے ایک نمائندہ شاعر وادیب تھے۔وہ ایک بیدار مغز اور فیصلہ کن ذہن کے دور اندیش بھی تھے لیکن انسانی کمزوریاں اور کمیاں ان میں بھی تھیں۔وہ صرف خیالی دنیا میں رہنے والے محض شاعر بھی نہ تھے۔جیسا کہ خواجہ احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ:
’’غالب ؔ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اب بچی کھچی فصل طاقت کا خاتمہ بہت قریب ہے۔چنانچہ غالبؔ نے اپنے مستقبل کو قلعۂ معلی کے نئے حکمرانوں سے وابستہ کرنے کی کوشش تیز کردی اور ملکۂ وکٹوریہ کی تعریف میں ایک قصیدہ فارسی میں لکھ کر لارڈ ایلن کے ذریعہ انگلینڈ روانہ کیا‘‘۱؎
اسی طرح ناول میں بھی انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور ملکی نظام میں ان کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو مختلف کرداروں کو عمل اور رد عمل کے سبب پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔اس ناول کا بنیادی مقصد گرچہ ہندوستانی معاشرہ میں مقبول ہنداسلامی تہذیب کے گونا گوںمظاہر کو نمایاں کرنا ہے لیکن جس عہد کے واقعات کو ناول نگار نے اس مقصد کے لیے منتخب کیا ہے ان میں ملک کی ہر لحظہ تبدیل ہوتی سیاسی بساط کی جھلکیاںبھی واضح نظر آتی ہیں۔اس طرح یہ ناول شمس الرحمن فاروقی کے پختہ سیاسی شعور اور سیاست وسماج کی وابستگی میں پوشیدہ اسرار جاننے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہندوستانی معاشرے کی جزئیات
تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ با مزہ و بے مزہ لذتوں کی ایسی حکایت بے پایاں ہے جس کی درازی کا کوئی اُور چھور نہیںہے۔جب بھی ایک قوم دوسری قوم سے ٹکراتی ہے تو دونوں اقوام میں شعوری و لا شعوری طور پر کچھ لین دین ہوتاہے۔اس لین دین کی نوعیتیں جدا گانہ ہو سکتی ہیںلیکن بہر صورت اس کے نتائج بڑے دور رس اور مستحکم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ زبان ، لباس ، روز مرہ کا رہن سہن ، معاش ،تعلیم،تجارت،ثقافت، سیاست اور تہذیب و تمدن میں واقع ہوتی ہے۔
فاروقی نے کسی نہ کسی حیثیت سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے حوالے سے آخری دور مغلیہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور عروج کی جزئیات کو بخوبی پیش کیا ہے :
’’تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ مغلوں کے زوال آمادہ دور میں اور اس کے بعد بھی اکبری بائی ایسی پیشہ وروں کی کیسی قدر ومنزلت تھی۔امیر وامرا اپنے بچوں کی تربیت دلانے کے لیے ان خواتین کے پاس بھیجا کرتے،یہ بچے یہاں آداب واخلاق سیکھتے ۔ملنے ملانے کے طور طریقوں کے علاوہ علم وادب میں بھی ہنر مندی پیدا کرتے،وزیر خانم کے بچپن کا ایک حصہ اپنی نانی کی رفاقت میں گزراتھا‘‘۱؎
اگرچہ انگریز ،صاحبان عالی شان بن کر انگلستان سے ہندوستان آئے تھے لیکن اپنی عیاریوں ، مکاریوں اور ہندوستانیوں کی فطری بزدلی ،آرام طلبی ،عیاشی ،آپسی رنجش اور بغض و حسد سے فائدہ اٹھا کر وہی غیر ملکی مداخلت کاررفتہ رفتہ ہمارے حاکم اور تقدیر ساز بن گئے۔بہ ظاہر اپنی حکمت عملی اور چالبازیوں سے کام لیتے ہوئے وہ ہمارے برسوں پرانے اور تاریخی سماج میں درانداز ہوگئے لیکن ان کے احساس برتری اور ہندوستانیوں کو ہر لحاظ سے کمتر اور بے وقوف سمجھنے کی فطرت میں قطعاََ فرق نہ آیا۔ہمارے ناول کی ہیروئن وزیر خانم اپنی ضد ، ناعاقبت اندیشی اور غلط جوش جوانی میں ایک انگریز افسر مارسٹن بلیک کے دام محبت میں گرفتا ر ہوگئی۔اہل خاندان کے سمجھانے بجھانے کے باوجود بغیر نکاح کیے اس انگریزسے منسلک ہوکر دہلی کو چھوڑ کر جے پو ر (راجپوتانہ) چلی گئی۔وہاں دونوں ’’زن و شو‘‘ کی طرح رہنے لگے۔ایک بیٹے اوربیٹی کی ماں بھی بن گئی۔لیکن مارسٹن بلیک کی انگریزیت میں ذرہ برابر فرق نہ آیا:
’’وزیر تو یہ دیکھتی تھی کہ مارسٹن بلیک کے گھر میںچوریاں بہت ہوتی تھیں۔مارسٹن بلیک ان چھوٹی موٹی چوریوں سے کسی بڑے مالی نقصان میںتو نہ آتالیکن الجھتا اور جھنجھلاتا بہت تھا۔وہ کبھی کبھی چڑ چڑا کے وزیر سے یہ بھی کہہ گزرتا تم ہندوستانی ہوتے بڑے چور اور بے ایمان ہو‘‘ ۱؎
جب انگریز ریزیڈنٹ دہلی،ولیم فریزر نے ایک مرتبہ اپنی کوٹھی میں ایک شعری نشست رکھی تھی اور نشست کا صدر نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالبؔعرف مرزا نوشہ کو بنایاتو ان کے پہلو میں مظفرالدولہ ناصر الملک مرزا سیف الدین حیدرخاں بہادر کو بٹھایا۔ناصر الملک ، مبارز الدولہ مختارالملک نواب حسام الدین حیدر خاں بہادر کے بڑے بیٹے تھے۔مالک رام( ماہرِغالبیات) لکھتے ہیں:
’’ یہ بھی معلوم ہے کہ میرزا غالبؔ کے تعلقات نواب حسام الدین حیدر خاں کے خاندان سے نہایت ابتدائی زمانے سے تھے اور ان کے صاحب زادے ناظر حسین مرزا ان کے بچپن کے ہمجولی تھے اور یہ خاندان بھی کٹر شیعہ تھا۔اس لیے عین ممکن ہے کہ ان کے اثرات نے مجموعی طور پر مل کر میرزا کو بھی شیعیت کی طرف مائل کردیا ہو‘‘۲؎
فاروقی نے ناظر حسین مرزا کا نام نہیں لکھا لیکن بہر حال ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’میرزا غالب کو تشیع کی طرف مائل کرنے میں لڑکپن کی اس دوستی کو بہت دخل تھا‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ وزیر خانم کے کردار میں بچپن ہی سے ایک قسم کا باغیانہ پن تھا۔یہ باغیانہ پن علامت ہے اس بات کی کہ اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی سے ہی ہندوستانی عورت میں یہ خصوصیت پیدا ہونی شروع ہو چکی تھی کہ وہ آزاد خیال ہو ،اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے اور اپنی تقدیر کو بنائے یا بگاڑے۔ ہوسکتا ہے یہ اثرانگریزی تعلیم اور انگریزوں کی صحبت کا بھی تھا۔دراصل اس کی سوچ میں تہذیبی بغاوت تھی۔وزیر خانم تو خیر اس ناول کا مرکزی کردار ہے لیکن اس سے منسلک دوسرے کرداروں کے آئینے میں بھی ہم اس عہد کے تہذیبی اور معاشرتی رویوں کو بہ آسانی سمجھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کے معاشرہ میں عورت کا کیا مقام تھا۔
جزئیات نگاری کا ایک نمونہ اس وقت سامنے آتا ہے جب صاحب عالم و عالمیان مرزا فخرو بہادر ولی عہد سوم نے وزیر خانم کی تصویر دیکھ لی اور ان پر فریفتہ ہوکر انھوں نے سوچا کہ اپنے معزز دوست اور مشہور عالم شیخ امام بخش صہبائی کو بلا کر اس معاملہ میں پیغام رسانی کا وسیلہ بنائیں۔لہٰذا:
’’اگلی صبح کو مولوی صہبائی ابھی چاشت کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ صاحب عالم و عالمیان کا ایک چوبدار ایک کوزے میں ٹھنڈا دودھ اورایک کوری ہانڈی میں گرم گلاب جامنیںاور دوسری ہانڈی میںمال پُوے لے کر مولوی صاحب کے دروازے پر پہنچاکہ صاحب عالم نے ناشتہ بھجوایا ہے اور ارشاد فرمایاہے کہ مولانا صاحب حویلیِ مبارک میں صاحب عالم و عالمیان کے ایوان خاص میں تشریف لے آویں‘‘۱؎
زیر نظر ناول کے چند ابتدائی صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس مقام پر پہنچتے ہیں جب بنی ٹھنی کی تصویر بنانے والا مخصو ص اللہ اپنے آبائی وطن سے شہر بدر ہونے کے بعد جب بارہ مولہ(کشمیر) پہنچتا ہے ۔وہ وہاں کی جنت نظیر وادیوں کو دیکھ کر ایک بار پھر اپنے آبائی پیشہ شبیہ سازی کا ڈول ڈالنا چاہتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہـ:
’’وہ کشن گڑھ قلم کی مصوری کے لیے رنگ بنانا بھول گیا تھا۔اور کیسے نہ بھولتا ،ان اطراف میں نہ تو وہ جڑی بوٹیاں تھیں ، نہ وہ پتھر اور پانی ،نہ وہ کیڑے مکوڑے،اور سب سے بڑھ کر نہ وہ دیویوںجیسی قد آور اور سنہرے تامڑے رنگ کے ہاتھ پاؤں والی حسین لڑکیاںجن کے ہتھوڑے کی ایک ضرب سے لاجَورد یا زبرجَد کا بظاہرمٹ میلا ،ڈلا تین ٹکڑے ہوجاتا ۔ پھر بڑے پتھر کو وہ آہستہ آہستہ ہلکے پانی میں دیر تک اس طرح سے گھستی رہتیں کہ ان کا سقیم و عقیم حصہ گھس کر زائل ہوجاتا اور نیلے نافرمان والے رنگوں جیسی تتلی یا مصری اسکیرب جیسے فیروزی کیڑے کا رنگ نمایاں ہوجاتا۔کشمیر کی نازک انگلیوں اور لچک دار کلائیوں میں وہ صلابت نہ تھی ۔مخصوص اللہ نے کچھ دن لکڑی پر نقش ونگار بنانے کا کام کیا۔ اور حق یہ ہے کہ خوب کیا‘‘۱؎
ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ناول نگاری کا ایک خاص اسلوب جزئیات کا حوالہ بھی ہوتا ہے ۔جزئیات کی مدد سے مصنف اپنے مافی الضمیر کو بھی بخوبی واضح کرسکتا ہے بلکہ وہ اسی کے ساتھ پلاٹ اور کرداروں کی اثر انگیزی میں خاطر خواہ اضافے کرسکتا ہے۔
سماجی اقدار اور دہلوی کلچر
ہر ملک ،ہر زمانہ اور ہر حالت کے مطابق ہی سماجی قدریں بنتی ہیں۔ضروری نہیں کہ ہزار برس پہلے تشکیل شدہ سماجی قدریں آج بھی جوں کی توں برقرار رہیں۔مثال کے طور پر اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران ہندوستان میں ہزاروں سماجی قدریں تھیں ان کے چند نمونے ہم کو زیر مطالعہ ناول میں جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔ہوسکتا ہے یہ قدریں اس زمانے میں سکۂ رائج الوقت ہو ں لیکن آج قابل مذمت یا قابل اعتنا نہ ہوں۔
جس زمانے کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں اسی زمانے میں نوابین اور رؤساایک آدھ شادی اپنے ’’کفو‘‘ یا خاندان میں کرتے تھے اور بہت سی عورتوں کو بے نکاحی یا خانگی بنا کر رکھتے تھے۔اس زمانے میں یہ کوئی عیب نہ تھا۔شرفا اور امرا اپنے بچوں کو طوائفوں کے کوٹھے پر بھیجتے تھے تاکہ وہاں ادب ،تہذیب اور شائستگی کا سبق لیں۔
سماجی اقدار کی ایک بہترین مثال ہندو مسلم اتحاد تھا۔دیکھئے کہ پنڈت نند کشور کس طرح مسلمانوں میں شیر وشکرہیں ۔طہارت اور پاکیزگی کا کس قدر خیال کرتے ہیں۔زبان کا کوئی مذہب نہ تھا ۔مسلمان عربی فارسی کے ساتھ ساتھ سنسکرت ،ہندی،علم نجوم اور عربی بھی سیکھتے تھے۔شیعہ سنی میں شادیاں ہوتی تھیں اور میاں بیوی اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے۔مرزا غالبؔ کی بیگم (امراو ٔ بیگم) سنی تھیںاور وزیر خانم کے شوہر آغامرزا تراب علی رفاعی نے شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے اپنا نکاح پڑھوایا تھا۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دہلوی کلچر کی چند مثالیں یہ ہیں کہ ہر ڈیوڑھی پر چوبدار ، لٹھیت ،برچھیت اور دربان ملازم ہوتے تھے۔ جب بھی کوئی ملنے آتا تو وہ آنے والے کو روک کر آواز لگاتے ۔تب اسے اندر جانے کی اجازت ملتی تھی۔ہر گھر میں مامائیں، اصیلیں ،کنیزیں، باندیاں اور مختلف کاموں کے لیے ملازمائیں رکھی جاتی تھیں۔خصوصیت کے ساتھ یہ سب اہتمام رئیسوں اور افسران کے گھروں میں ہوتے تھے۔
ملازم اپنے آقا ، خاتون خانہ اور مہمانوں کو بات بات میں تین سلام اور سات سلام کرتے اورخاص مہمانوں کو وہی جوتیاں پہناتے تھے۔مہانوں کی تواضع شربت ،پان ، عطر، گلاب اور بھنڈے(حقے) سے کی جاتی تھی۔جب کہیں سے کوئی ہرکارہ یا پیغامبر آتا تھا تو اسے انعام دیے بغیر واپس کرنا معیوب سمجھاجاتا تھا۔شب میں مالک یا مالکن سے شب بخیر اور صبح کو ’صبا حکم‘ خیر کہا جاتا تھا۔ خواتین بگھی یا نالکی میں آتی جاتی تھیں۔لیکن اب امرا و رؤسا کے یہاں بھی ایسا اہتمام نہیں کیا جاتا۔یہ تبدیلی بلا شبہ بدلتے وقت کا نا گزیر تقاضا ہے جسے نظر انداز کرکے یا اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پرانے طور طریقوں کے مطابق ہی زندگی بسر کرنے کو عقل مندی بہر حال نہیں کہا جاسکتا ۔لیکن یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گزرے وقتوں کے طرز معاشرت سے مکمل طور پر عملی نہ سہی لیکن ذہنی وابستگی عصر حاضر کے سماجی ارتقا کی سچی تصویر مرتب کرنے میں معاون ہوتی ہے۔رسم ورواج میں تبدیلی ،انسانی روابط کی بدلتی نوعیت اور وسیع تناظر میں آداب معاشرت کا اختلاف اُسی طور پر بہتر سمجھا جاتا ہے جب تبدیلی کے با وصف انسانی قدروں کے تحفظ کو ترجیح دی گئی ہو۔
یہ ناول جس عہد کے سماج کو پیش کرتا ہے اس میں اور موجودہ معاشرہ کی اقدار کا موازنہ مقصود نہیں لیکن فاروقی نے ناول میں بیان کردہ زمانے کی سماجی اقدار اور کلچر کی جزئیات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد عہد حاضر کے سماج کی خوبیاں اور خامیاں از خود نمایاں ہوجاتی ہیں۔
فنون لطیفہ کے حوالے
فن لطیف یاFine Art اس ہنر مندی یا لیاقت خصوصی کو کہتے ہیںجس کا تعلق ہمارے نازک ترین احساسات اور شدید جذبات سے ہو ۔اس فن کی تشکیل میں ندرت، حیرت افروزی ، جمال آفرینی ، اکملیّت اور سکون دل ودماغ کی شمولیت لازمی اجزائے ترکیبی ہیں۔جہاں تک مجھے ذاتی طور پرعلم ہے کہ فاروقی ایک مستند اور صاحب دیوان شاعر ہیں۔ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کرچکے ہیں۔ممکن ہے کہ ان میں ’’لے‘‘ کا مادہ بھی ہولیکن موصوف اپنا کلام ترنم سے کبھی نہیں پڑھتے ۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حسِ موسیقی یاMusic Sense سے بڑی حد تک متصف ہیں۔
کئی چاند تھے سرِ آسماں کے متن کو ذہن میں رکھیں تو شمس الرحمن فاروقی ایک حقیقی عالم نظر آتے ہیں ۔قبائے دانشوری ان کے جسم پر پوری طرح جامہ زیبی کی قسم کھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔جہاں تک فنون لطیفہ کا تعلق ہے وہ کم وبیش سبھی سے گہری دلچسپی رکھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ان کا علم سرسری نہیں بلکہ گہرا ہے۔اس اجمالی بیان کی تفصیل یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ ناول کے آغاز ہی سے ان کے علوم کے نمونے سامنے آنے لگتے ہیں۔
اصل کہانی کے مقدمہ کے طور سب سے پہلے ہماری نظر مخصو ص اللہ کی طرف جاتی ہے جو مفلوک الحال انسان تھے لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ اس کے ہاتھوں میں قوسِ قزحRainbowاور انگلیوں میں صبح اور چاندنی کی روشنیاں، بادلوں اور دھندلکوں کی سیا ہیاں ہیں۔مخصو ص اللہ جیسا کوئی لاجواب شبیہ ساز نہ تھا۔مگر جو کہتے ہیں نہ کہ’’ اے روشنیِ طبع تو بَرمَن بلا شدی! ‘‘یہی شبیہ سازی ،صرف مخصو ص اللہ کو کیا،پورے ہند ل پروا گاؤں کو لے ڈوبی۔
ہندل پروا سے ہجرت کرنے کے بعد مخصو ص اللہ بڈگام(کشمیر) میں سکونت اختیار کرتا ہے ۔ایک دن اچانک یا شیخ العالم ! کا نعرہ لگا کر وہ گھر سے غائب ہوجاتاہے۔ اس کی ملاقات بڈگام کی بڑی مسجد میں ایک ایسے خدا ترس ، رحم دل اور ماہر فن بزرگ سے ہوتی ہے جو قالین بافی(Carpet Weaving) کے استاد ہیں۔اس فن کو وہ تعلیم کے نام سے پکارتے ہیں۔آٹھ سال کی مدت میں شدید محنت و ریا ضت کے نتیجہ میں مخصو ص اللہ کشمیر کا سب سے بڑا تعلیم نگار مان لیا جاتا ہے۔اس وقت اس کی فن کاری کے نمونے ہندوستان کے علاوہ ایران و کاشان تک پہنچ چکے تھے۔
مخصو ص اللہ کے دونوں پوتے داؤد اور یعقوب بھی فن موسیقی میں کامل دستگاہ رکھتے تھے۔ایک مشہور صاحب ثروت تاجر حبیب اللہ بٹ نے اپنے گھر میں منعقد ہونے والی محفل موسیقی میں شرکت کے لیے دونوں بھائیوں کو بحیثیت فن کار خصوصی طور پر مدعو کیا ۔محفل موسیقی کے آغاز کا نقشہ فاروقی نے کس طرح کھینچا ہے:
’’دونوں بھائیوں کے ہاتھ میں طاؤس، ایک ایک سنتور نواز،اور دف نواز دائیں اور بائیں۔ تین نوجوان سمر قندی سہ تار لیے ہوئے پیچھے کچھ الگ کھڑے ہوئے تھے۔سنتور نواز کے پیچھے ایک سنتور،اور ایک بزرگ نَے نواز نے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی نے ،لیکن بید کی نہیں پیتل کی۔طاؤس اور سہ تار کو ہم آہنگ کرنے کی مشقیں جاری تھیں ۔ دف نواز اور سنتورنواز ابھی خاموش تھے۔حبیب اللہ بٹ نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ۔ حکم ہو تو محفل کا آغاز کیا جائے۔درایں اثنا سہ تاروں کی صدا میں سنتور کی گنگناہٹ شامل ہوکر بلند ہوئی۔ محمد داؤد نے راگ چاندنی کدارا میں الاپ شروع کیا۔یعقوب نے انترے سے استھائی میں قدم رکھا‘‘۱؎
مذکورۂ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخصو ص اللہ ،اس کا بیٹا محمد یحییٰ بڈگامی ، اور اس کے دونوں سپوت ہنر وارانہ ذہن اور جمالیاتی احساس رکھتے تھے۔شبیہ سازی ، قالین بافی اور علم موسیقی سے فطری رغبت میرے اس دعوے کی دلیل ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس ناول کا بالا ستیعاب مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں فنون لطیفہ سے دلچسپی اور اس میں مہارت ِ تامّہ اس خاندان کے قریب قریب ہر فرد کی موروثی شناخت تھی۔آگے چل کر ہم دیکھتے ہیں کہ محمد یوسف جو یعقوب بڈگامی اور جمیلہ کا بیٹا تھا وہ بڑا ہوکر سادہ کار یعنی کپڑوں پر بیل بوٹے اور رنگ برنگے ڈیزائن بنانے والے ایک فن کار کے روپ میں دنیا کے سامنے آتا ہے۔ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ یوسف سادہ کار تک صرف مرد ہی اس خاندان میں فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھتے تھے لیکن یوسف کی تینوں بیٹیاں (انوری خانم، عمدہ خانم اور وزیر خانم) بھی کسی حد تک آر ٹسٹک ذہن کی مالک تھیں یعنی اس شجرہ کی عورتوں میں بھی یہ اثر نفوذکرگیا۔بہت ممکن ہے کہ اپنی نانی ڈیرہ دارنی اکبری بائی فرخ آبادی کی تربیت اور ان کے گھریلوماحول کے زیر اثر یہ جمالیاتی احساس اور فنون لطیفہ کی طرف رجحان کارفرما ہوگیا ہو۔ عمدہ خانم ( منجھلی بیگم) طبیعت کی متین تھی ۔اکبری بائی کی صحبت میں رہ کر اسے نستعلیق گفتگو،بذلہ سنجی ، بات بات پر شعر خوانی ، بیگماتی رکھ رکھاؤ خوب آگئے تھے۔موزوں طبع تھی۔ خود شعر کہتی تھی ۔ ماہؔ تخلص تھا۔زمانے کے نئے سنگیت کی طرزوں ، خیال اور دادرا سے بھی خوب واقف تھی۔پیشے کے طور پر نہیں بلکہ شوق پورا کرنے کے لیے اس فن کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔وزیر خانم (چھوٹی بیگم) بچپن ہی سے نانی کے عشرت کدہ میں گھسی رہتی تھی۔ وہاں اس نے تھوڑا بہت گانا بجانا بھی ضرور سیکھ لیا تھا۔ گلا اس کا شروع ہی سے اچھا تھا۔ نانی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اسے بعض معمولی راگ راگنیاں بھی بخوبی یاد ہوگئی تھیں ۔یمن ، بسنت ، بہار ، باگیسری پھر بہت کچھ دادرا۔ کھتریوں اور چرواہوں کی دھنیں جیسے چیتی ، بنارسی ، ٹھمری وغیرہ۔
فنون لطیفہ کا ایک نادرو نایاب نمونہ اس وقت سامنے آتاہے جب ڈاکٹر وسیم جعفر نے اپنے انتقال سے پہلے ایک لفافہ اور کوئی پچاس اوراق پر مشتمل ایک کتاب ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی کے لیے چھوڑی تھی ۔کتاب کوئی جنّاتی کارخانہ معلوم ہوتی تھی۔ اس میں سے طرح طرح کی آوازیں آرہی تھیں۔
پلاٹ
پلاٹ کو ترتیب ماجرا بھی کہتے ہیں۔قصہ گوئی میں خواہ وہ افسانہ ہو یا ناول ، پلاٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔پلاٹ کی عدم موجودگی میں افسانے یا ناول کی تخلیق کرنے کا امر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔عہد حاضر میں بہت سے افسانہ نویسوں اور ناول نگاروںنے محض جدت اور ذہانت کے زعم میں بغیر پلاٹ کے بھی کہا نیاں لکھی ہیںاور داد وتحسین بھی حاصل کی ہے لیکن سچ پوچھئے تو یہ صرف جدت برائے جدت اور داد برائے داد ہے،نہ تو ہر کس وناکس بغیر پلاٹ کے کہانی لکھ سکتا ہے اور نہ ہی ہر شخص کی سمجھ میں یہ کہانی آسکتی ہے۔پروفیسر وقار عظیم نے لکھا ہے کہ:
’’ پلاٹ، واقعات یا تاثرات کو ایک فنی ترتیب دیتا ہے۔اسی فنی ترتیب میںقصہ کی ابتدااور انجام کے درمیان ایک منطقی ربط کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ قصہ میں وحدت تا ثر قائم رہے‘‘۱؎
سب سے پہلے پلاٹ کی تعریف اور وضاحت کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسے پہلے پہل زمانۂ قدیم میں یونانیوں نے اتنی اہمیت دی تھی چنانچہ ارسطو نے اپنی عالم گیر شہرت یافتہ کتاب بو طیقا میں ڈراما کے اہم ترین اجزائے ترکیبی میں شمار کیا تھا ،اس کے نزدیک پلاٹ المیہ ڈرامے کی جان تھا ۔آگے چل کر یہ طے پایا گیا کہ کم ازکم ناول میں ضروری نہیں کہ مکھی پر مکھی بٹھا دی جائے یا ٹی وی سیریل کی طرح کڑی سے کڑی ملائی جائے۔اس اصول کے تحت جب آپ’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کا فنی مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ ناول کا مقصد نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کو مستقل طور پر محل اصلی یاFocusمیں رکھنا ہے اس کے باوجودناول میں تجارتی وقفے نہ سہی ادبی وقفے ضرور موجود ہیں اس سے یک رنگی ویک نوائی (Monotony) سے قاری کو بڑی حد تک نجات حاصل ہوتی ہے ۔یہ زمانۂ موجودہ میں ریڈیو اور ٹی وی کی جدید ترین تکنیک ہے۔
مثال کے طور پر پہلے تو ہم ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی ماہر امراض چشم سے ملاقات کرتے ہیں۔موصوف کے لندن میں ڈاکٹر وسیم جعفر ،پی،ایچ ڈی ۔ ایف آر ایچ ایس وغیرہ سے مل کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے کسی آنے والے ڈرامے کا کتنا شاندار ابتدائیہ کیا ہے۔ہمارا تجسس وہیں سے شروع ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر وسیم جعفر کی پردادی، وزیرخانم کون تھیں اور کیسی تھیں؟
اصل کہانی کا آغاز محمد یوسف سادہ کار کے بیان سے ہوتا ہے۔وہ اپنے اصل وطن اور بزرگوں کا مختصراََ تعارف کراتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے آبا واجداد کس لیے وطن سے ہجرت کرکے راجپوتانے سے بارہ مولہ (کشمیر) جابسے؟ اس بیان کے بعد یکے بعد دیگرے متعدد اور متفرق واقعات سامنے آتے ہیں جن کا بظاہر ایک دوسرے سے کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا لیکن دو باتیں ایسی ہیں جو ہمارے تجسس اور دلچسپی کو برقرار رکھتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ہر واقعہ اپنے مقام پر مکمل ہے دوسرے وزیر خانم ایک زیریں لہر کی طرح اس دریا ئے واقعات میں ہر جگہ موجود ہے۔بالآخر ہم مارسٹن بلیک تک پہنچتے ہیں جہاں سے قصہ بڑی حد تک سلسلہ وار بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پنڈت نند کشور، راحت افزا،بھرمارو،کسّی،مہاکالی وغیرہ کہانی کاجز ہوتے ہوئے بھی کہانی سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔
تکنیکی زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول کا پلاٹ سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی لیکن غیر منظم ہرگز نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس میں یقینی طور پر وحدت تاثر کی کیفیت پائی جاتی ہے جو بہرحال ایک نیم تہذیبی، نیم تاریخی اور رومانی ناول کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
کردار نگاری
پلاٹ کی تعمیر میں کردار کا بہت اہم رول ہوتا ہے ۔کرداروں کاتعارف قرین مصلحت ہم آپ سے اس مقالے کے آغاز میں کراچکے ہیںجہاں موجودہ ناول میں بکھرے ہوئے متعدد افراد کے جغرافیائی وجود کو پیش کرتے ہوئے ان کی اہم حرکات و سکنات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔لیکن ناول کے تشکیلی عناصر پر گفتگو کے دوران مناسب ہے کہ کردار نگاری پر بھی مختصراََ اظہار خیال کیا جائے۔اس ضمن میں جو سب سے اہم اور بنیادی بات ہے وہ یہ کہ ناول نگار نے گو کہ بیشتر کردار ایسے منتخب کیے ہیں جو کہ ہندوستان کی سیاسی، ادبی اور ثقافتی تاریخ میں ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں لیکن شمس الرحمن فاروقی نے ان کی پیش کش میں ناول نگاری کے فن کو ملحوظ رکھا ہے۔ناول کے مرکزی اور ضمنی کرداروں کی نفسیاتی کشمکش اور ذہنی و جذباتی رویہ کی عکاسی اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ کسی ضابطہ بند ارتقائی عمل سے نہ گزرتے ہوئے اپنے عہد اور زمانے سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنی ذات سے اپنے عہد کے سماج کو متاثربھی کرتے ہیں۔بلاشبہ وزیر خانم کا کردار ایسا کردار ہے جسے اردو ناول نگاری کی تاریخ کے چند اہم کرداروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ناول کے اس مرکزی کردار کے علاوہ دیگر کردار بھی اپنے عہد کی تہذیب و معاشرت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا منظر نامہ مرتب کرتے ہیں جو ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم دور تسلیم کیا جاتا ہے۔
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ میں فاروقی نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی دہلی کی تہذیبی ، معاشرتی اور انسانی زندگی کے ہر پہلوکو اس کے تما م تر جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے اس کی سب بڑی مثال وزیر خانم کا جیتا جاگتا کردار ہے۔وزیر خانم کا کردار ناول نگا ر کی حقیقت پسندی اور آزمودہ کار ہونے کی بھر پور دلالت کرتا ہے۔وزیر خانم کے اندر بچپن ہی سے مذہبی بغاوت کا جذبہ تھا۔ علم وآگہی کے ساتھ ساتھ سلجھاہوا ادبی ذوق بھی رکھتی تھی۔اس کے باوجود بھی اس کے مزاج میں شو خی اوربے باکی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔غالباََ اس کی وجہ اس کی نانی اکبری بائی کی صحبت کا اثر تھا ۔یوں سمجھئے کہ وہ انیسویں صدی کی ترقی پسند تھی۔ بالآخر یہی ترقی پسندی ، شوخی اور بے باکی اس کی زندگی کی تباہی کا سبب تھی۔
مارسٹن بلیک، بھلے ہی وزیر خانم کی رضامندی سے اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا اور وہ اس کے ساتھ جے پور میں بڑی شادمانی سے اپنی زندگی گزار رہی تھی۔مارسٹن بلیک کوایک ہندوستانی بیوی سے دوبچے بھی پیدا ہوئے اس کے باوجودبھی اس کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں ہندوستانیوں کے خلاف نفرت کی جگہ تھی اور یہ نفرت کسی حد تک وزیرخانم کے لیے بھی تھی۔
انگریز ریزیڈنٹ ولیم فریزر کا کردا ر یک رخا کردار ہے ۔وہ اپنی مطلق العنانیت اور بربریت کے لیے مشہور تھا۔دیگر ہندوستانی عورتوں کی طرح وزیر خانم کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ فریزر کی کوٹھی پر شعر ی نشست کے دوران عورت ذات کی چھٹی حس نے وزیرخانم کو اشارہ دے دیا تھا کہ ولیم فریزر محض اپنی بدنظری اور بد چلنی کی خاطر وزیر خانم پر بری نگاہ ڈال چکا تھاتو دوسری طرف نواب شمس الدین احمد خاں جن کے چہرے سے امارت کی رعونت اور تجربے کی پختگی کے آثار نمایاں تھے ،وزیر خانم کے حسن وجمال پر فریفتہ ہو گئے۔ خود وزیر خانم بھی نواب شمس الدین کو اپنے دل میں بسانے کا خواب دیکھنے لگی۔
مذکورہ ناول میں نواب شمس الدین احمد خاں والیِ فیروز پور جھرکہ اور لوہارو کاکردار خودداری،نیکی،شرافت ، انسانیت اور ہندوستانی تہذیب کی خاطر خواہ نمائندگی کرتاہے علاوہ ازیںبائی جی، پنڈت نند کشور،مرزاغالبؔ،امام بخش صہبائی،ذوق ؔ دہلوی ،حکیم احسن اللہ خاں ،مرزا داغؔ،کریم خاں ، انیامیواتی،حبیبہ اور راحت افزاکا شمار گرچہ ثانوی،ضمنی اور اضافی کرداروں میں ہوتا ہے لیکن ان کرداروں کی پیش کش کوفاروقی نے نہایت چابکدستی سے برتاہے کہ یہ ناول کا اہم حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ڈاکٹر محمد یٰسین لکھتے ہیں:
’’ناول نگاری میں واقعات اور کرداروں کو نمایاں کرنے کے لیے،واقعیت کے ساتھ حسین دروغ گوئی کا بھی سہارا لیا جاتاہے‘‘۱؎
شمس الرحمن فاروقی نے اس شاہکار ناول میں شاید ہی کہیں ’حسین دروغ گوئی‘ کے حربے سے کام لیاہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فاروقی نے زیب داستاں کے لیے ابتدا میں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی (ماہر امراض چشم)کی نام نہاد یاد داشتوں کا سہارا لے کر انھوں نے خود اس غائب راوی اور وسیم جعفر کی تشریح کردی ہے۔رہ گیا اس ناول کا اصل متن تو بلاخوف وتردید کہا جاسکتا ہے کہ اس میں تاریخی حقائق کم سے کم ہیں تو حسین دروغ گوئی کی آمیزش بھی خال خال ہے۔اس ناول کو جہاں تک میں نے سمجھا ہے اور بہت حد تک ممکن ہے کہ اس میں منظر کشی اور مبالغہ آرائی کی بہتات ہے مگر کسی بھی طرح ناول یا اس کے فن پر گراں نہیں گزرتا۔
جان دار منظر نگاری
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو جام ِ جہاں نما کی طرح ہر قسم کی معلومات سے لبریز ہے ۔اسے کثیر الابعاد شیشے Prismکی طرح جیسے جیسے گھماتے جاؤ نئی نئی شکلیں نظر آئیں گی۔ناول کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس ناول کے خالق شمس الرحمن فاروقی محض ایک فکشن نگار ہی نہیں بلکہ وہ عالم گیر شہرت کے مالک ایک شاعر ، صحافی،ادبی نقاد اور دانشور بھی ہیں۔موصوف نے حقیقی معنوں میں دنیا دیکھی ہے شاید یہی سبب ہے کہ فاروقی کو ہر قسم کی منظر نگاری میں ید طولیٰ حاصل ہے۔پہلے ہم نے ان کے مختصرافسانوں میں لاجواب منظر نگاری کے خوبصورت نمونے دیکھے اور اب یہ ضخیم لیکن دلچسپ ناول ایک بڑا کینوس لے کر سامنے آتا ہے۔طوالت کی خاطر جاندار منظر نگاری کی صرف دومثالیں پیش کی جاتی ہیں۔پہلی مثال یہ ہے کہ جب کشن گڑھ (راجپوتانہ) کے گاؤں’’ ہندل پروا‘‘ کے مشہور شبیہ ساز مخصوص اللہ نے ’’بنی ٹھنی ‘‘ کی تصویر بنائی تھی جس کی وجہ سے پورے گاؤں پر مہاراول گجندر پتی سنگھ مرزا کا قہر نازل ہوا ۔ بہر حال فاروقی نے ’’بنی ٹھنی‘‘ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:
’’چودہ ۔پندرہ برس کی لڑکی ۔سنگ سیاہ کی ایک شکستہ سی چوکی پر یوں بیٹھی ہوئی گویا اب اٹھے گی تو پوری جوان ہی اٹھے گی۔بھر پور جوانی اس کے عضو عضو پر دستک دے رہی تھی۔لہنگا ذرا ڈھیلا اور لمبا،لیکن گلاب کی کلی سے نازک تر ٹخنے اور گلاب کی پنکھڑی سے بھی لطیف ،گلابی لیکن زندہ پھڑکتے ہوئے رنگ کے پاؤں تھوڑے تھوڑے جھلک رہے تھے۔ایک تلوے پر ہلکا سا داغ۔ خدا معلوم تل تھا یا باغ کی کوئی پتی پاؤں کے صدقے ہوکر رہ گئی تھی۔گردن اسی طرح ایک طرف خم ۔صورت ویسی ہی نیم رخ ،لباس شوخ او ر بھڑ کیلانہیں بلکہ سفید اور گلابی اور زعفرانی،لیکن تینوں رنگ اس طرح سے بول رہے تھے کہ تصویر تھر تھراتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔گردن میں صرف ایک سادہ سونے کا ہارجس میں گوریا کے انڈے کے برابرایک انتہائی صفائی سے بیضوی کاٹے ہوئے یاقوت انجم کا آویز،کلائیوں میں صرف ایک ایک گھڑیالی کڑا۔ٹھنڈی پہاڑی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں خوش مزاجی اور الھڑپن اور نخوت کاامتزاج۔چہرے پرواضح مسکراہٹ نہیں توکوئی تشویس بھی نہیں،ایک خاموش تمکنت،خود پر کامل اعتماداور دنیا کے ہر خوف سے بیگانہ،مطمئن انداز نشست۔‘‘۱؎
فاروقی کی لاجواب منظر نگاری کا دوسرا نمونہ اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کی صدارت میں ولیم فریزر کی کوٹھی پرشعری نشست کے بعد نواب شمس الدین احمد خاں نے وزیر خانم سے ملنے کی پیش کش کی جسے وزیر خانم نے دل وجان سے قبول کیا۔اس کے کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین کی دعوت پر وزیر خانم خود ان کے گھر تشریف لے جاتی ہیں ۔وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کی غالباََ یہ تیسری ملاقات تھی۔اس دن وزیرخانم پوری تیاری کے ساتھ نواب شمس الدین احمد کے یہاں جاتی ہیں:
’’وزیر خانم نے اس دن ترکی وضع کے کپڑے پہنے تھے۔پاؤں میں آسماں رنگ کاشانی مخمل اور پوست آہو کی نکے دار شیرازی جوتیاں ، بہت پتلی ایڑی اور لمبی ڈور ، دیوار بالکل نہ تھی ،ایڑیاں کھلی ہوئی تھیں ۔ جوتیوں کی نوکیں بھی شکر خورے کی چونچ کی طرح بہت لمبی اور اوپر اٹھی ہوئی تھیں اور ان کے سرے پر جنگلی مرغے کے سرخ بیر بہوٹی جیسے پَر کے طرّے تھے۔جوتیوں کے حاشیوں پر باریک بیل تھی جس میں سفید اور سنہرے پکھراج ٹکے ہوئے تھے۔آدمی جوتیوں کی چھب دیکھے تو دیکھتا رہ جائے لیکن اس کے آگے کا منظر دیکھنے کے لیے شیر کا کلیجہ اور تندوے کی بے حیائی درکار تھی‘‘۲؎
درج بالا دونوں اقتباس سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ناول نگار شمس الرحمن فاروقی ہر قسم کی منظر کشی کے فن میںمعراج کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔
ناول کی زبان
زبان کی تشکیل میں بدلتے ہوئے ماحول ، موضوع گفتگو،وقت ،علاقائیت اور تہذیب وتمدن کا بڑا ہاتھ ہوتاہے۔اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کا احاطہ کیے ہوئے فاروقی کا یہ ناول اس پہلو پر کافی روشنی ڈالتا ہے کہ اس کی زبان کیسی ہے ؟ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں خصو صیت کے ساتھ دہلی اور اس کے قرب وجوار میں فارسی بولنے اور لکھنے کاچلن عام تھا ۔ناول کو پڑھنا شروع کیجیے تو وہیں یا تو فارسی تراکیب سے گراں بار اردوملتی ہے یا فارسی کے بر محل کلاسیکی اشعار۔مثال کے طور پرجب مرزا غالبؔ، داغؔ دہلوی سے پہلی بار ملے تو کہا کہ پوری دلّی میں تمھاری شہرت پر لگا کر اڑ رہی ہے اورتمھیںصرف مجھی سے ملنا نہیں ہورہاہے۔پھر انھوں نے یہ شعر پڑھا:
اے آتش فراقت ، دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
صاحبزادے ! ہم آج تم سے وہی غزل سنیں گے۔اے سبحان اللہ،یہ عمر اور یہ مضمون یا بیاں؟ سچ ہے صاحب ،خدا جس کو دے۔
اسی طرح جب وزیر خانم سے ملاقات کرنے کے لیے نواب شمس الدین احمد خاںنے چوبدار کے ذریعے ملاقات کاوقت مانگا تووزیر خانم (چھوٹی بیگم) نے تڑپ کر کہا:
دیدہ و دل فرش راہ!
جس عہد کی ہم بات کررہے ہیں اس عہد کی باتوں میں علاقائی محاسن ،وہاں کی سرزمین، لوگوں کی روزمرہ زندگی،مشاغل ،مذہبی رسوم،شادی بیاہ کی رنگ رلیوں اور حسن فطرت کے حوالے کبھی براہ راست اور کبھی با لواسطہ ملتے ہیں۔مثلاََ :
۱)جی ۔جی ۔ ہاں مسافر ہی کہہ لیجیے۔یہاں غریب الدیارہوں۔
۲) بولنے والے کی آواز میں بادشاہوں جیسا اعتماد اور اولیا اللہ جیسی گیرائی تھی۔
۳) واہ بھئی سلیمہ بی بی، اتنے اچھے ہاتھ پاؤں کا بچہ اور اتنا کالا رنگ؟ گویا نشاط باغ کا کالا گلاب۔واہ جی واہ سبحان اللہ۔
’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ موضوع کے علاوہ زبان وبیان کے اعتبار سے بھی اردو کے چند اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔فاروقی نے ناول میں جو زبان استعمال کی ہے وہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی زبان سے بھی ان کی کما حقہ واقفیت کی دلالت ہے۔اس ناول کی زبان وہ کلاسیکی اردو ہے جس کے نشان اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔آج کے اردو قاری کے لیے یہ زبان بھلے تھوڑی مشکل ہو لیکن اس کا اعتراف بہر حال کرنا پڑے گا کہ شمس الرحمن فاروقی نے قدیم اردو لغات اور محاورات سے عصر حاضر کے اردو قاری کو متعارف کرانے کا ایک بڑا ادبی فریضہ انجام دیا ہے۔ناول کی زبان، ناول کے بنیادی موضوع کے ارتقائی عمل میں معاون دیگر واقعات اور حالات کو تمام لوازم اور جزئیات کو کامیابی کے ساتھ منعکس کرتی ہے۔ناول کی زبان اس قدر شستہ اور رواں ہے کہ بیان کردہ واقعات کی تفہیم میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
یہ ناول فاروقی کی ہمہ جہت شخصیت اور مختلف النوع علوم وفنون اورکئی زبانوں پردسترس رکھنے کا تاریخی دستا ویز ہے ۔اس کا اندازہ ناول کے مطالعے سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ ناول نگار دہلی اور اس کے اطراف واکناف میں بسنے والے فرقے ،ان کے مذہب کی تہذیب وتمدن اور معاشرت سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔
فاروقی کی تحریریں اس لیے بھی پُر کشش ہوتی ہیں کہ وہ ہر قسم کے بیانیہ میں شاید غیر ارادی طور پر یا عادتاََایسے عبارتی ٹکڑے رکھ دیتے ہیں کہ ایک طرف تو ان کا مافی الضمیر پوری طرح ان کے حسب منشا واضح ہوجاتا ہے اور دوسری طرف وہ ٹکڑاقاری کی مذاق سازی کا کام بھی کرتا ہے۔مختصر یہ کی ناول’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی زبان، مصنف کے حاکمانہ اقتدار پر دلالت کرتی ہے۔یہ اس دور کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے اگر چہ کہیں کہیں لغت اور اس دور کے شعرا کی مدد بھی لینی پڑتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول میں نہ صرف اس عہد کی زبان کا خاص خیال رکھا ہے بلکہ ایک ماہر سماجیات کی طرح معاشرہ کے ہر اتار چڑھاؤ پر نظر بھی رکھی اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اسباب وعلل کو جاننے کی کوشش بھی کی ہے۔ان کی یہ معروضیت ناول کو اس قدر حقیقت سے قریب تر کردیتی ہے کہ اس میں بیان کیے گیے تمام واقعات کے حقیقی ہونے کا گمان گزرتا ہے گوکہ ان میںسے بیشترفاروقی کی قوت متخیلہ کی ایجاد ہیں۔
٭٭٭

Anjuman E Islam

Articles

انجمن اسلام بین المدارس مقابلے برائے اساتذہ

ادارہ

انجمن اسلام بین المدارس مقابلے برائے اساتذہ

انجمن اسلام انتظامیہ کے زیرِ سرپرستی پری پرائمری، پرائمری، سکنڈری اسکولوں اور جونیئر کالجوں کے اساتذہ میں تخلیقی و تدریسی صلاحیتوں اور خود اعتمادی کے فروغ کے لیے انجمن اسلام بین المدارس مقابلے برائے اساتذہ منعقد کیے گئے۔ یہ مقابلے انجمن اسلام اور بدر الدین طیب جی سیکنڈری اسکول کے احاطے میں بیک وقت منعقد کیے گئے۔ اردو، انگریزی، مراٹھی اور ہندی زبانوں میں خوش خطی و مضمون نویسی کے علاوہ مباحثہ، تدریسی لوازمات اور الفاظ کی تشکیل کے مقابلے ہوئے۔ ان مقابلوں میں سیکنڈری اسکولوں اور جونیئر کالجوں کے تقریباً تین سو جبکہ پری پرائمری اور پرائمری کے تقریباً دو سو اساتذہ نے حصہ لیا۔انجمن اسلام گرلز بورڈ کی چیئرپرسن بیگم ریحانہ احمد، نائب صدر محمد حسین پٹیل اور سی ای او شبیہہ احمد نے مقابلوں کا مشاہدہ کیااور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی۔
بعد ازاں کریمی لائبریری میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب کی صدارت ، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے فرمائی جبکہ انجمن اسلام کے نائب صدر ڈاکٹر شیخ عبد اللہ، سیکریٹری معین الحق چودھری، بوائز بورڈ کے چیئر مین اظہار قاضی اور کلچرل بورڈ کے چیئر مین اختر رنگون والا بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
ڈاکٹر ظہیر قاضی نے اپنے صدارتی خطبہ میں اساتذہ کی کاوشوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان مقابلوں کا مقصد اپنے اساتذہ کو تدریس کی نئی جہتوں کی طرف راغب کے کرنے علاوہ انھیں اس لائق بنانا بھی ہے کہ وہ قومی سطح کے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے حقدار بن سکیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ نئے زمانے کے لحاظ سے تدریس لازمی ہے ۔ہمارے انداز فکر میں تبدیلی نہ آئی تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
اسی تقریب میں اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن واشی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر قمر سلیم کی تصنیف Nurturing Learner Autonomyکا اجرا صدر انجمن کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن سلمیٰ لوکھنڈ والانے تعارف پیش کیا اور ہیڈ مسٹریس شرمین سیّد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ خدیجہ شیخ، پرنسپل شبیہ زویری اور جملہ اسٹاف نے تمام انتظامات بحسن خوبی انجام دیئے۔

Feminism in Urdu Literature

Articles

ادب کی ثروت مندی میں خواتین کی خدمات کا اعتراف ناگزیر ہے

اردو ادب میں خواتین کا حصہ

 

ادب کی ثروت مندی میں خواتین کی خدمات کا اعتراف ناگزیر ہے: پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی

ممبئی،۲۱؍ستمبر: شعبۂ اردو ،ممبئی یونیورسٹی اور مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کے باہمی اشتراک سے ’اردو ادب میں خواتین کا حصہ‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک روزہ قومی سمینار میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو کی معروف اسکالر اور شاعرہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے کہا کہ اردو ادب کو وقیع اور ثروت مند بنانے میں خواتین کی خدمات دو صورتوں میں نظر آتی ہیں ایک تو یہ کہ بحیثیت تخلیق کار انھوں نے نظم و نثر کے مختلف اصناف کو نئی تخلیقی جہتوں سے روشناس کیا اور دوسرے یہ کہ شعر و ادب میں ان کے مسائل و معاملات کو موضوع بنا کر ایسے ادب پارے تخلیق کیے گیے جن میں خواتین کی خانگی نیز سماجی زندگی کا عکس تہذیبی روایت، معاشی مسائل اور جذباتی تصادم کے آئینہ میں نظر آتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تخلیقیت کو کسی صنفی دائرے میں محدود نہیں کیا جا سکتا یہی سبب ہے کہ عہد قدیم سے ہی اردو ادب میں شاعرات اور نثر نگار خواتین کی روایت نظر آتی ہے جنھوں نے اپنے معاصر حالات کے تناظر میں طبقۂ نسواں سے وابستہ مسائل کی ترجمانی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں اس کی لے کچھ زیادہ تیز رہی ہے جس میں کچھ تو ترقی پسند تحریک کے اثرات شامل رہے اور کچھ سماجی و معاشی سطح پر حقوق نسواں کے لیے چلائی جانے والی عالمگیرتحریکوں کا اثر بھی رہا۔پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے کہا کہ عورت کے بغیر ادب کی تخلیق کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتااور اس اعتبار سے خواتین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر شعبہ ٔ اردو ،ممبئی یونیورسٹی کی جانب سے قومی سمینار کا انعقاد ایک بہترین اور کار آمد ادبی پہل ہے۔تھیئٹر اور فلموں کی دنیا کی معروف و ممتاز شخصیت نادرہ ظہیر ببر نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمانہ سماج میں حقوق نسواں کے تحفظ اور سماجی و تہذیبی سطح پر ان کی خدمات کے اعتراف کا زمانہ ہے اور یہ سمینار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ا نھوں نے کہا کہ گر چہ عالمی سطح پرعورت آج بھی بعض ان مسائل کا شکا ر ہے جو ان کے شخصیت کے ارتقا کے لیے مضر ہیں لیکن اس صنف نازک کے اندر اتنی جرات بہر حال پیدا ہو گئی ہے کہ وہ حق و صداقت کی حمایت اور اپنے مسائل کے تصفیہ کے لیے مردوں کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہے۔نادرہ ببر نے کہا کہ خواتین کو یہ حوصلہ عطا کرنے میں ان ادبی تخلیقات کا اہم رول ہے جن میں ان کے مسائل کی ترجمانی کی گئی ہے ۔نادرہ ببر نے کہا کہ اس مرد اساس معاشرہ میں بیجا ظلم و جور کے خلاف احتجاج اور بغاوت کا جذبہ پیدا کرنے میں اردو کی خواتین قلمکاروں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے اپنے والدین سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر سے وابستہ یادوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ سماج میں مساوات اور اتحاد کا مقصد اس مشن میں عورت کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا اور مجھے امید ہے کہ سمینار کے مختلف اجلاس میں مقالے پڑھے جائیں گے ان میں ان نکات پر بھی گفتگو ہو گی۔
افتتاحی اجلاس کا آغاز پروفیسر صاحب علی کے استقبالیہ کلمات کے ساتھ ہوا۔انھوں نے اس قومی سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرز کے پروگرام تحقیق و تنقید میں نئے مباحث قایم کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔انھوں نے انیسویں صدی سے لے کر عصر حاضر تک خواتین قلمکاروں کامختصر مگر معلوماتی تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاعری، فکشن، نان فکشن، تحقیق و تنقید کے شعبوں میں خواتین قلمکاروں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیںاور ان خدمات کی پذیرائی بھی ہوتی رہی ہے تاہم بعض خواتین قلمکاروں کی کاوشیں پردۂ خفا میں ہیں جن کو سامنے لانا ایک اہم ادبی کام ہوگا۔پروفیسر صاحب علی نے زیب النسا، مہ لقا بائی چندا،نذر سجاد حیدر،رشیدۃالنسا، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، صفیہ اختر، صالحہ عابد حسین،ممتاز شیریں، پروفیسر سیدہ جعفر، زاہدہ زیدی، پروین شاکر، رفیعہ شبنم عابدی، زاہدہ حنا، کشور ناہید ، ترنم ریاض اور دیگر کئی خواتین قلمکاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا اردو کا تخلیقی اور غیر تخلیقی ادبی سرمایہ خواتین کی خدمات کے اعتراف کے بغیر ناقص ٹھہرتا ہے۔انھوں نے شہر اور بیرون شہر سے تشریف لانے والی خواتین مقالہ نگاروں، معزز مہمانان اور سامعین کا شکریہ اد ا کرتے ہوئے کہا کہ اس سمینار کی کامیابی کا تصور ان تمام کی شراکت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔اعظم کیمپس پونہ کے روح رواں اور مسلمانوں  کی تعلیمی اور تہذیبی بہبودی کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والے منور پیر بھائی نے بھی اس اجلاس میں اپنے خیالات کااظہار کیا اور کہا کہ دنیا کی ہر بڑی زبان کے ادب میں خواتین کی خدمات کے نقوش ونشان نظر آتے ہیں اور اردو ادب بھی اس سے الگ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ممبئی یونیورسٹی کا شعبہ ٔ اردو اپنی علمی و ادبی فعالیت کے لیے بین الاقوامی شناخت حاصل کر چکا ہے اور اس کے لیے پروفیسر صاحب علی اور ان کے رفقائے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
افتتاحی اجلاس کے بعد پر تکلف ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا جس کے بعد مقالہ خوانی کے تین اجلاس ہوئے جن کی صدارت بالترتیب پروفیسر رفعت النسا بیگم (میسور)، ڈاکٹر افسر فاروقی اور ڈاکٹر مسرت صاحب علی ( ممبئی) نے کی ۔ ان اجلاس میں محترمہ ڈاکٹرممتاز منور پیر بھائی(پونہ)، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر (کھپولی)،ڈاکٹر شرف النہار ( اورنگ آباد)،ڈاکٹر ناظمہ انصاری ( احمد آباد) ڈاکٹر انیسہ چوراڈ والا(پونہ)،سمیہ باغبان(سولا پور) محترمہ رونق رئیس( بھیونڈی) اور ممبئی سے ڈاکٹر شاداب سید(رضوی کالج) ، ڈاکٹر سکینہ خان( صدر شعبہ ٔ فارسی ، ممبئی یونیورسٹی)نے سیمنار کے مرکزی موضوع کے حوالے سے اردو ادب میں خواتین کی خدمات پر مختلف عنوانات کے تحت مقالے پیش کیے۔اس سمینارکو کامیاب بنانے میں مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے اراکین فرید خان، فاروق سید، رفیق شیخ ،قمر النسا سعیدنےمخلصانہ تعاون پیش کیا۔ شہر کی مقتدر ادبی شخصیات ڈاکٹر ریحانہ احمد، فیروزہ بانو، اسلم پرویز، شاہد ندیم، فیروز اشرف،ڈاکٹر جمشید احمد ندوی (صدر شعبۂ عربی، ممبئی یونیورسٹی)جناب عبید اعظم اعظمی، جناب اظفر خان، ریاض رحیم ،ڈاکٹر ذاکر خان کے علاوہ شعبہ ٔ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر عبداللہ امیتاز، ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر مزمل سرکھوت، ڈاکٹر رشید اشرف خان اور شعبہ ٔ اردو کے طلبا نے کثیر تعداد میں شرکت کر سمینار کو کامیاب بنایا۔

Intekhab E Kalam Balraj Komal

Articles

انتخابِ کلام بلراج کومل

بلراج کومل

 

صبا کے ہاتھ پیلے ہوگئے

 

صبا کے ہاتھ پیلے ہوگئے

میں ساعت سرشار میں

لاکھوں دعائیں

خوبصورت آرزوئیں

پیش کرتا ہوں

صبا ممنون ہے

لیکن زباں ہے

کچھ نہیں کہتی

صبا اب روز و شب

دیوار و در تن پر سجاتی ہے

اب آنچل چھت کا سر پر اوڑھتی ہے

لمس فرش مرمریں سے

پاؤں کی تزئین کرتی ہے

وہ کہساروں شگفتہ وادیوں جھرنوں

چمکتے نیلگوں آکاش کے

نغمے نہیں گاتی

صبا اب لالہ و گل کی طرف شاید نہیں آتی

صبا شبنم ادا تصویر پا بستہ

در روزن میں آویزاں

حسیں نازک بدن

روشن منور ساحلوں پر اب نہیں بہتی

صبا لب کھولتی ہے مسکراتی ہے

صبا سرگوشیوں میں

اب کسی سے کچھ نہیں کہتی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گریہ سگاں

جب کتے رات کو روتے ہیں

تو اکثر لوگ سمجھتے ہیں

کچھ ایسا ہونے والا ہے

جو ہم نے اب تک سوچا تھا نہ ہی سمجھا تھا

جو ہونا تھا وہ کب کا لیکن ہو بھی چکا

یہ شہر جلا

اس شہر میں روشن ہنستے بستے گھر تھے کئی

سب راکھ ہوئے

اور ان کے مکیں

کچھ قتل ہوئے

کچھ جان بچا کر بھاگ گئے

جو با عصمت تھیں

رسوائی کی خاک اوڑھ کے راہ گزر پر بیٹھی ہیں

کچھ بیوہ ہیں

کچھ پابستہ رشتوں کی وحشت سہتی ہیں

کچھ ادھ ننگے بھوکے بچے

دن بھر آوارہ پھرتے ہیں

ہر جانب مجرم ہی مجرم

ان میں سے کچھ ہیں پیشہ ور

کچھ سیکھ رہے ہیں جرم کے فن کے راز نئے اسرار نئے

جو ہونا تھا یہ سچ ہے اس میں سے تو بہت کچھ ہو بھی چکا

لیکن شاید کچھ اور بھی ہونے والا ہے

کتے تو آخر کتے ہیں

دن بھر کچرے کے ڈھیروں پر

وہ مارے مارے پھرتے ہیں

جب رات اترنے لگتی ہیں

آنے والے دشمن موسم کی دہشت سے

سب مل کر رونے لگتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزلیں

دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا

اب کے برس بھی رات کا منظر وہی رہا

نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے

وہ صید انتقام تھا در پر وہی رہا

سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب

یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا

یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ

مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا

سب کو حروف التجا ہم نذر کر چکے

دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا


2

کھویا کھویا اداس سا ہوگا

تم سے وہ شخص جب ملا ہوگا

قرب کا ذکر جب چلا ہوگا

درمیاں کوئی فاصلہ ہوگا

روح سے روح ہو چکی بد ظن

جسم سے جسم کب جدا ہوگا

پھر بلایا ہے اس نے خط لکھ کر

سامنے کوئی مسئلہ ہوگا

ہر حماقت پہ سوچتے تھے ہم

عقل کا اور مرحلہ ہوگا

گھر میں سب لوگ سو رہے ہوں گے

پھول آنگن میں جل چکا ہوگا

کل کی باتیں کرو گے جب لوگو

خوف سا دل میں رونما ہوگا


Nepali Folk Tale

Articles

گیدڑ اور بھالو

نیپالی لوک ادب

 

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ اور بھالو کی ملاقات گاﺅں کے میلے میںآسمانی جھولے میںہوئی ۔انھوں نے جھولے کا بھر پور مزہ لیا۔پوری رات انھوں نے شراب پینے ، قمار بازی اور لطیفہ گوئی میں صرف کر دی۔دوسرے دن صبح تک وہ دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب سے وہ دونوں ساتھ ساتھ رہینگے، ساتھ کمائینگے اور ساتھ کھائینگے ۔
گیدڑ نے کہا ”میرے دوست ہم بھائی جیسے ہیں ہم الگ نہیں ہیں۔ ہم نے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کا فیصلہ کیاہے کیوں نہ ہم ساتھ مل کر کھیتی باڑی شروع کریں۔“
بھالو نے سوچا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تب دونوں گھر کی تلاش میں نکلے۔ گاﺅں سے تھوڑے ہی دور جنگل میں جہاں لوگ لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے انھیں وہاں ایک چرواہے کا جھونپڑا نظر آیا جو کئی سالوں سے ویران تھا ۔انھوں نے بامبو سے چھت بنائی اور جھونپڑے کو اچھی طرح سے صاف کیا۔پھر انھوں نے جوئے میں جیتے ہوئے پیسوں سے ایک سانڈ خریدااور زمین جوتنا شروع کردی۔
بھالو کا سلوک گیدڑ کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ بہت محنتی بھی تھالیکن بے وقوف تھا ۔دوسری طرف گیدڑ بہت چالاک تھا لیکن اسے کام سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی۔انھوں نے مل کر اپنی پہلی بھنٹے کی فصل تیار کرلی ۔گیدڑ کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بھالو کے ساتھ زندگی بطور کسان نہیں گذار سکتا۔
دوسرے دن صبح گیڈر نے کہادوست میںکھیت میں کام کرتا ہوں اور تم جاﺅ سانڈ کو چرا لاﺅ۔اس طرح ہم باری باری کرینگے جس سے ہمارے کام کا بوجھ ہلکا ہو جائیگا ۔
یہ طریقہ بھالو کو بہت پسند آیا وہ روزانہ صبح اٹھتا ناشتہ کرتا اور سانڈ کو چرانے نکل جاتا اور سانڈ کو چرانے چھوڑ کر اونچی جگہ جا کر بیٹھ جاتا اور دن بھر اس پہ نظر رکھتا ۔اس طرح سانڈ گھم ہو جانے اور شیر کی خوراک بننے سے بچا رہتا۔اسی دوران گیدڑ کھیت میں درخت کے سائے میں دن بھر لیٹا رہتا اس طرح فصل بڑھتی گئی۔
جب فصل کی کٹائی کا وقت آیا تب گیدڑ نے کہا”میرے دوست تم نے بہت محنت کی ہے اورکئی دنوں سے سانڈ کو چرا رہے ہو ۔ سانڈ بھی بہت صحت مند ہو گیا ہے ۔اب میری باری ہے اسے چرانے کی اب تم کھیت میں کام کرو۔
بھالو اپنی تعریف سنتے ہی راضی ہو گیا۔وہ فصل کی کٹائی کرنے لگااور گیدڑ سانڈ کو چرانے چلا گیا۔
بھالو مسلسل پورا دن کام کرتا رہتا ۔گیڈر کم محنتی تھا۔اسے گھنے جنگل میں اندر تک جانا بھی بھاری پڑتا تھا جہاں سانڈ کے لیے اچھی غذا تھی۔اسے اونچی جگہ پر چڑھنا اور سانڈ پہ نظر رکھنا بھی بھاری پڑتا تھا ۔ اور وہ دن بھر سانڈ کے ساتھ رہتا کہ کہیں گھم نہ جائے یا وہ شیر کی خوراک نہ بن جائے۔وہ میدانی علاقے میں سانڈ کو چرا تا رہتا یہ اس کے لیے آسان تھا اسے اس چیز کی پرواہ نہ تھی کہ وہاں چھوٹی چھوٹی گھاس ہے۔وہ بیری کے درخت کے نیچے لیٹا رہتا اور اسے دیکھتا رہتا۔اسے نہ ہی اٹھنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی سانڈ کے پیچھے پیچھے بھاگنے کی۔شام میں تاخیر سے وہ گھر جاتا تاکہ اسے بھالو کے ساتھ فصل کی کٹا ئی میں مدد نہ کرنا پڑے۔
چند دنوں بعد سانڈ دبلا پڑ گیا۔اگر چہ بھالو بے وقوف تھا مگر اندھا نہیں تھا۔
اس نے ایک شام کو گیدڑ سے کہا”دوست ہمارا سانڈ اتنا دبلا کیوں ہوتا جا رہا ہے۔“
گیدڑ کے پاس جواب تیار تھا۔
” اس معاملہ میں ہم دونوں برابرنہیں ہیں دوست تم مجھ سے زیادہ اچھا چراتے ہو“۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا”جہاں کہیں میں اسے لے جا تا ہووہاں مجھ سے پہلے لوگ پہنچ جاتے ہیں اس لیے اسے کھانے کے لیے کم مل پاتا ہے۔لیکن آج میں نے ایک ایسی جگہ دریافت کرلیہے جہاں گھاس سانڈ کے گھٹنوں تک اگی ہوئی ہے۔کل میں اسے وہاں لے جاﺅں گا اور اسے پیٹ بھر کھلاﺅں گا۔“
بھالو کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ گیدڑ اچھا چرواہا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسرے دن صبح جب گیدڑ سانڈ کو لے جانے کے لیے اس کی رسی کھول رہا تھا تب اس نے دیکھا کہ فصل کی کٹائی تقریباََ ہو چکی ہے ۔ اسی دن کا اس کو انتظار تھا ۔وہ گیڈر کو جنگل میں لے گیا مگر اسے گھنی جھاڑی میں نہیں لے گیا بلکہ بنجر ٹیلہ پر لے گیا جہاں گھاس کا نام و نشان نہ تھا۔جب سانڈ نے چرنے کے لیے اپنے سر کو جھکایا تب گیڈر نے اسے دھکا دے دیا اور وہ ٹیلہ سے نیچے گر گیا۔پھر گیدڑ بھاگتا ہوا ٹیلے سے نیچے اترا اور سانڈ کے مردہ جسم کو کھسکا کرٹیلے کے سائے میں لے آیا تا کہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
صبح کا ناشتہ گیدڑ نے سانڈ کے گوشت سے کیا۔جب اس کا پیٹ بھر گیا تب اس نے سانڈ کے بچے ہوئے جسم کو پہاڑ کی غار میں چھپا دیا اور غار کے راستے کو پتھروں سے بند کردیا صرف اتنی جگہ چھوڑ دی کہ وہ خود اندر داخل ہو سکے اور سانڈ کی پونچھ سوراخ سے لٹکا کر باہر چھوڑ دی۔جب سب کام ختم ہو گیا تب اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر آرام کر لیا جائے ۔وہ گھر شام کو دیر سے جانا چاہتا تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ فصل کاٹنے میں آج بھالو کو دیر ہو جائے گی۔
گیدڑ کو دور سے اکیلا آتا دیکھ بھالو نے گیدڑ سے کہا”سانڈ کہاں ہیں؟“
گیدڑ روتے ہوئے کہنے لگا ” دوست آج بہت برا ہوا سانڈ غار کے دہانے میں پھنس گیا میں نے اسے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اسے نکال نہ سکا کیوں کہ میں بہت کمزرور تھا ۔میرے دوست تم بہت طاقتور ہو ۔ کل تم میرے ساتھ چلو مجھے یقین ہے کہ تم اسے نکال لو گے۔
بھا لو تعریف سن کر نرم پڑ گیااور وہ اپنے دوست کی بات ٹال نہ سکا۔
دوسرے دن صبح گیدڑ بھالو کو لے کر غار کے پاس پہنچا ۔گیدڑ نے بھالو سے کہا تم بہت موٹے ہو تم اندر نہیں جا سکتے میں اندر جاتا ہوں اور سانڈ کو ڈھکیلتا ہوںتم باہر رہو اورباہر کی طرف کھینچو۔لیکن جب تک مت کھینچنا جب تک میں نہ کہوں۔جب میں کہوںتب تم دونوں ہاتھوں سے پوری طاقت لگا کر کھینچنا ۔
بھالو راضی ہو گیا اور گیدڑ غار کے اندر چلا گیا۔اور اند رجا کر اس نے سانڈ کو باہر ڈھکیلنے کی پوری تیاری کرلی۔پھر آواز لگائی”دوست کھینچو!“
بھالو نے دونوں ہاتھوں سے پونچھ کو پکڑا اور اپنا پیر سہارے کے لیے غار پر رکھ کرپوری طاقت سے کھینچنے لگا۔جب گیدڑ کو لگا کے بھالو پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے تب اس نے سانڈ کو باہر کی طرف ڈھکیل دیا ۔بھالو سانڈ کے وزن کو سنبھا ل نہ سکا اور لڑکھڑا کر پہاڑسے نیچے ندی میںگر گیا۔
سانڈ ہاتھ مل کر مسکرانے لگا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔فصل پوری کٹ چکی تھی۔سانڈ کو بھی اب چرانے کی ضرورت نہیں تھی اور اب بھالو بھی نہیں تھا جو اسے غلط کام پر بولتا۔دھوکہ باز گیدڑ نے سوچا”اب جیسا میں چاہوں ویسا کر سکتا ہوں کوئی بولنے والا نہیں ہے۔“
وہ بھاگتا ہواگھر آیا ۔کلہاڑی اور باسکٹ لے کر پھر پہاڑی پر گیا تاکہ سانڈ کا بچا ہوا گوشت کھا سکے اورجو بچے اسے کاٹ کر گھر لا سکے۔گیدڑ نے گھر سے دلیابھی ساتھ لے لیا تا کہ دوپہر کا کھانا مکمل ہو جائے۔اور وہ یہ ساری چیزیں لے کر پہاڑی پر پہنچا ۔
پہنچتے ہی وہ ششدر رہ گیا۔ غار کے سامنے بھالوہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا۔
” ارے دوست “گیدڑ کو دیکھ کر بھالو نے کہا۔”سانڈ کا کیا ہوا؟“
”تم نے زیادہ زور سے کھینچ دیا “ گیدڑ نے برجستہ جواب دیا۔” تمہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں رہا ۔ تمہارے ساتھ ہی سانڈ بھی دریا میں گر گیا اور ڈوب گیا۔وہ دریا میں بہت زور سے گرا تھا پانی بھی بہت اوپر تک اچھلا تھا۔“
”میرے پیارے دوست“بھالوبڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا”اب ہم اس سے کبھی نہیں مل سکتے ۔ اس کے ساتھ میری بھی زندگی ختم ہوگئی !“ پھراس نے گیدڑ کی طرف دیکھ کر کہا”تم کلہاڑی اور باسکٹ اپنے ساتھ کیوں لائے ہو؟“
”میں نے سوچا کہ میں جنگل میں جا کر کچھ لکڑیاں کاٹ لاﺅں گا۔مجھے معلوم تھا کہ تم دریا سے بچ کر نکل جاﺅں گے اور تمہیں سردی پکڑ لے گی اور تم کام نہیں کر پاﺅں گے۔میں تم سے کہنے ہی والا تھا کہ تم گھر جا کر تھوڑا آرام کرلو۔“
تمہیں اپنے آپ پر رشک کرنا چاہئے کہ تمہارے بارے میں اتنا سوچنے والا تمہیں بھائی جیسادوست ملا۔پھر بھالو نے کھچڑی کی طرف دیکھ کر کہا ”تم دلیا کیوںاپنے ساتھ لائے؟“
”میں نے سوچا کہ تم تیرتے تیرتے بہت تھک گئے ہوگے اور تمہیں بہت بھوک لگی ہو گی اس لیے میں گھر جاکر تمہارے لیے کھچڑی لے کر آیا۔“
بھالو کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ خوش نظر آنے لگا۔
”میرے دوست تم لاکھوں میں ایک ہو“ اس نے چلا کر کہا اور گیدڑ کو گلے سے لگا لیا۔
گیڈر نے بھی ہنسنا شروع کر دیا ۔وہ دونوں ہنسی خوشی پہاڑ سے نیچے اتر گئے۔جب دونوں ہنستے ہنستے نڈھال ہوگئے تب انھوں نے ساتھ مل کردلیا کھایا۔پھر جنگل جاکر لکڑیاں کاٹ کر دونوں ساتھ لائے ۔
دونوں ایک دوسرے کے اب تک دوست تھے ۔حالانکہ کسی کوبھی یقین نہیں آتا تھا کہ بے وقوف ،سخت محنتی بھالو چالاک اور کام چور گیدڑ کا دوست کیسے ہے۔

 


انگریزی سے ترجمہ:حیدر شمسی

Nepali Folk tale

Articles

چالاک نائی

نیپالی لوک ادب

ٰٓ ایک شہزادے کو اپنے نائی کی باتیں بہت پسند تھیں۔ہر صبح نائی اس کی داڑھی بنانے آیا کرتا تھااور داڑھی بناتے وقت وہ مختلف قسم کی باتیں کرتا تھا۔ جو کچھ وہ شہر والوں کے منہ سے سنتا آکر کہہ دیتا ۔
لیکن نائی کو شاہی پادری بالکل بھی پسند نہیں تھا جسے دربار کا ہر شخص عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔یہ بات نائی کو بہت نا خوشگوار گزرتی تھی جسے وہ برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔لہٰذا  اس نے پادری سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک منصوبہ بنایا ۔
ایک دن صبح جب وہ شہزادے کی داڑھی بنانے آیا تب اس نے معمول کے مطابق کوئی بات نہیں کی۔ ”تمہیں کیا ہوا ہے آج؟ تم بولتے کیوں نہیں؟“ شہزادے نے نائی سے پوچھا ۔
آخر کار اس کے منھ سے چند جملے نکلے” گذشتہ رات میں نے ایک خواب دیکھاکہ میں جنت میں ہوں جہاں میری ملاقات آپ کے والد بزرگوار اور عزت مآب والدہ سے ہوئی۔ لیکن وہ دونوں بہت پریشان تھے ۔
”کیوں ؟ انھیں کیا پریشانی ہے؟“ شہزادے نے پوچھا۔
چالاک نائی نے صورت بنا کر کہا ” انھیں پادری کی اشد ضرورت ہے جو ان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرسکیں ۔ انھوں نے کہا ہے کہ میں آپ سے اس بات کا تذکرہ کروں اگر آپ شاہی پادری کو ان کی خدمت میں بھیج سکیں توفوراََ جنت میں بھیج دیں ۔
”لیکن کیسے؟“
” اس کام میں کسی قسم کی کوئی مشکل در پیش نہیں آئے گی “ نائی نے جواب دیا۔” بس کفن پہنانا پڑے گا اور قبر میں لٹا نا ہوگا ۔ پھرپادری کی آنکھ سیدھا جنت میں کھلے گی۔“
” اچھا میں سمجھ گیا ۔ میں ایسا ہی کروں گا ۔“
نائی اور شہزادے کے درمیان جو باتیں ہوئیں اور جوفیصلہ کیا گیا یہ باتیں پادری کو معلوم پڑیں ۔لیکن وہ بھی بہت ہوشیاراور چالاک تھا۔اس نے شہزادہ سے درخواست کی کہ ایک مہینہ کی مہلت دی جائے تاکہ جنت کے سفر کے لئے مکمل تیاری کر لے۔
اس نے اپنی قبر کے لئے اپنے ہی باغ میں ایک جگہ منتخب کی۔اور ایک درجن مزدوروں کو تہہ خانہ بنوانے کے لئے لگا دیاجس کا راستہ سیدھا اس جگہ سے اس کے گھر کو نکلے۔پھر قبر میں اس نے ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں ، گھاس اور پیڑ کے سوکھے ہوئے پتے سے تہہ خانہ کے دہانے کو چھپا دیا ۔
البتہ وہ مقدس دن آگیا جب پادری کو کفن پہنا کر قبر میں لٹانا تھا جس کی تیاری میں وہ پچھلے ایک مہینے سے لگا ہوا تھا۔پادری کو کفن پہنا کرقبر میں لٹا دیا گیا اورمٹی ڈا ل دی گئی اس طرح تدفین ہوگئی ۔ پادری نے کفن کھولا اور تہہ خانہ کے راستے اپنے گھر پہنچ گیا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا ۔اس دوران پادری نے اپنے بال، داڑھی اور ناخن نہیں کاٹے اور انھیں بڑھنے دیا ۔ایک دن اچانک وہ گھر سے نکل کر شہزادہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔دربار میں حاضر ہوتے ہی سب کے ہوش اڑ گئے اور سب حیرانی سے پادری کو دیکھنے لگے۔
”تم جنت سے کب واپس آئے؟ شہزادے نے پوچھا ۔  ” اور تم نے اپنی صورت کیا بنا رکھی ہے۔ تمہارے بال ، داڑھی اور ناخن اس قدر بڑھے ہوئے کیوں ہیں؟ “
” اسی لیے تو میں آج یہاں آیا ہوں۔“ پادری نے جواب دیا۔ ”کون بے وقوف ہے جو جنت کا آرام چھوڑ کر یہاں زمین پر آئے گا ۔اگر یہ خاص مقصد نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کو معلوم ہے تقریباََایک سال ہوگئے۔ آپ کے والد کے پاس ایک استاد نائی تھا جسے کسی وجہ سے پچھلے چند مہینوں سے جنت سے باہر کسی کام کے لیے بھیج دیا گیا ہے ۔ اس کی جگہ کوئی دوسرا نائی اب تک جنت میں نہیں آیا ۔آپ کے والد بزرگوار نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے پاس جاﺅں اور آپ سے کہوں کہ آپ فوراََ کوئی نائی بھیج دیں تاکہ ان کی ضرورت پوری ہوجائے۔“
شہزادے نے نائی کو حکم دیا کے وہ جنت میں چلا جائے۔
نائی بہت زیادہ ڈر گیا کیوں کہ اس کی بازی الٹ گئی تھی ۔وہ بہت دیر تک خاموش رہا کیوں کہ وہ شہزادے کے حکم کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔شہزادے کے حکم دیتے ہی سپاہیوں نے قبر کھودناشروع کردی۔بیچارے نائی کو کفن پہنا کر زندہ درگور کر دیا گیا۔

سبق: جیسا بوئوگے ویسا ہی کاٹو گے۔

 


انگریزی سے ترجمہ:حیدر شمسی

Nepali Folk Tale

Articles

کل سب بدل جائے گا

نیپالی لوک کہانیاں

 

ایک مرتبہ کی بات ہے ایک آدمی کا گزر پٹن سلطنت (موجودہ للت پور)سے ہوا۔ وہاں وہ رگھو نام کے آدمی کو دیکھ کر بہت حیران ہو اجو تیل نکالنے والی میل میں جانوروں کی طرح پہئے کو گول گول گھما رہا تھا۔
مسافر نے پوچھا ” تم کب تک اسے یوں ہی گھماتے رہو گے؟“ رگھو نے جواب دیا ۔” فکر مت کرومیر ے دوست کل سب بدل جائے گا!“
کچھ دنوں بعد مسافرکا دوبارہ اسی جگہ سے گزر ہوا۔اس بار وہ پہلے سے اور زیادہ حیران ہوگیا وہی رگھو جسے تیل کی میل میں جانوروں کی طرح کام کرتے دیکھا تھا اب وہ میل کا مالک بن چکا تھا ۔مسافر نے اسے اس ترقی پر مبارک باد پیش کی ۔رگھو نے شکریہ ادا کیا اور کہا” میرے دوست کل سب بدل جائے گا۔“
اگلی مرتبہ اسی شہر سے جب مسافر کا گذر ہوا ۔اس بار حیرت کی انتہانہ رہی ۔رگھو پٹن سلطنت کا راجا بن چکا تھا ۔ ” یہ کیسے ہوا میرے دوست؟“ مسافر نے پوچھا۔ رگھو نے بتایا کہ جو اس سے پہلے راجاتھا اس کا انتقال ہو گیا اور علاقائی دستور کے مطابق راجا وہی شخص بنتا ہے جسے شاہی ہاتھی پھولوں کا ہار پہنائے۔ شہرکے سب لوگ جمع ہوئے شاہی ہاتھی میرے قریب آیا اورمجھے ہار پہنا دیا۔
”مجھے سن کربہت خوشی ہوئی رگھو ۔بہت بہت مبارک ہو!“
رگھو مسافر سے بغل گیر ہوگیا اور معمول کے مطابق کہا” فکر مت کروکل سب بدل جائے گا !“
کچھ دنوں بعد پھر مسافر کا گزر اسی جگہ سے ہو ا۔اس بار وہ اور زیادہ حیران ہواکیوں کہ اسے وہاں اینٹ اور پتھروں کا ڈھیر اور منہدم عمارتیںنظر آئےں۔وہاں محل ،شہر اور رگھو کا نام و نشان نہ تھا ۔مسافر کو بے حد تکلیف ہوئی جب اسے کسی سے پتہ چلا کہ زلزلے میں پورا شہر برباد ہو گیا۔
پھر مسافر کو رگھو کی وہ بات یاد آئی جو وہ بار بار کہتا تھا کہ کل سب بدل جائے گا ۔ مسافر نے اپنے آپ سے کہا واقعی کل سب بدل جائے گا!“
سبق : ہر چیز فانی ہے/کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لئے باقی نہیں رہتی۔


 

انگریزی سے ترجمہ : حیدر شمسی

Intekhab E Kalam Khumar Barabankvi

Articles

انتخابِ کلام خمار بارہ بنکوی

خمار بارہ بنکوی

اصلی نام محمد حیدر خان تھا اورتخلص خمار۔ 19 ستمبر 1919 کو بارہ بنکی (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ نام کے ساتھ بارہ بنکوی اسی مناسبت سے تھا۔ 19 فروری 1999 کو بارہ بنکی میں انتقال کر گئے۔

1

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے

ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو

خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے

مرے راہبر مجھ کو گمرہ نہ کر دے

سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

خمارؔ بلا نوش کہ تو اور توبہ

تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے


2

مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا

تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا

کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر

کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا

واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں

فردوس گم شدہ کا پتا یاد آ گیا

برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی

اک بے وفا کا عہد وفا یاد آ گیا

مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم

لیکن جو وہ بوقت دعا یاد آ گیا

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا


3

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں

محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں

تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو

یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

ہوائیں چلیں اور نہ موجیں ہی اٹھیں

اب ایسے بھی طوفان آنے لگے ہیں

قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے

خمارؔ اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں


4

ہنسنے والے اب ایک کام کریں

جشن گریہ کا اہتمام کریں

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں

پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

مجھ کو محرومیٔ نظارہ قبول

آپ جلوے نہ اپنے عام کریں

اک گزارش ہے حضرت ناصح

آپ اب اور کوئی کام کریں

آ چلیں اس کے در پہ اب اے دل

زندگی کا سفر تمام کریں

ہاتھ اٹھتا نہیں ہے دل سے خمارؔ

ہم انہیں کس طرح سلام کریں


5

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی

ضعف قویٰ نے آمد پیری کی دی نوید

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی

سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا

دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی

کمزوریٔ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا

جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے

دامان یار سے کوئی نسبت نہیں رہی

پیہم طواف کوچۂ جاناں کے دن گئے

پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنا دیا

آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمارؔ

اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی