GADARIYA BY ASHFAQ AHMAD

Articles

گڈریا

اشفاق احمد

گڈریا

اشفاق احمد

یہ سردیوں کی ایک یخ بستہ اور طویل رات کی بات ہے۔ میں اپنے گرم گرم بستر میں سر ڈھانپے گہری نیند سو رہا تھا کہ کسی نے زور سے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔

“کون ہے۔”میں نے چیخ کر پوچھا اور اس کے جواب میں ایک بڑا سا ہاتھ میرے سر سے ٹکرایا اور گھپ اندھیرے سے آواز آئی “تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کر لیا۔”

“کیا؟” میں لرزتے ہوئے ہاتھ کو پرے دھکیلنا چاہا۔ “کیا ہے؟”

اور تاریکی کا بھوت بولا “تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کر لیااس کا فارسی میں ترجمہ کرو۔”

“داؤ جی کے بچے” میں نے اونگھتے ہوئے کہا “آدھی آدھی رات کو تنگ کرتے ہودفع ہو جاؤ میں نہیں میں نہیں آپ کے گھر رہتا۔ میں نہیں پڑھتا داؤ جی کے بچےکتے!” اور میں رونے لگا۔

داؤ جی نے چمکار کر کہا “اگر پڑھے گا نہیں تو پاس کیسے ہو گا! پاس نہیں ہو گا تو بڑا آدمی نہ بن سکے گا، پھر لوگ تیرے داؤ کو کیسے جانیں گے؟”

“اللہ کرے سب مر جائیں۔ آپ بھی آپ کو جاننے والے بھیاور میں بھی میں بھی”

اپنی جواں مرگی پر ایسا رویا کہ دو ہی لمحوں میں گھگھی بندھ گئی۔

داؤ جی بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور کہہ رہے تھے “بس اب چپ کر شاباشمیرا اچھا بیٹا۔ اس وقت یہ ترجمہ کر دے، پھر نہیں جگاؤں گا۔”

آنسوؤں کا تار ٹوٹتا جا رہا تھا۔ میں نے جل کر کہا “آج حرامزادے رانو کو پکڑ کر لے گئے کل کسی اور کو پکڑ لیں گے۔ آپ کا ترجمہ تو”

“نہیں نہیں” انہوں نے بات کاٹ کر کہا “میرا تیرا وعدہ رہا آج کے بعد رات کو جگا کر کچھ نہ پوچھوں گاشاباش اب بتا “تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کر لیا۔” میں نے روٹھ کر کہا “مجھے نہیں آتا۔”

“فوراً نہیں کہہ دیتا ہے” انہوں نے سر سے ہاتھ اٹھا کر کہا “کوشش تو کرو۔” “نہیں کرتا!” میں نے جل کر جواب دیا۔

اس پر وہ ذرا ہنسے اور بولے “کارکنانِ گزمہ خانہ رانو را توقیف کردندکارکنانِ گزمہ خانہ، تھانے والے۔ بھولنا نہیں نیا لفظ ہے۔ نئی ترکیب ہے، دس مرتبہ کہو۔”

مجھے پتہ تھا کہ یہ بلا ٹلنے والی نہیں، نا چار گزمہ خانہ والوں کا پہاڑہ شروع کر دیا، جب دس مرتبہ کہہ چکا تو داؤ جی نے بڑی لجاجت سے کہا اب سارا فقرہ پانچ بار کہو۔ جب پنجگانہ مصیبت بھی ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے آرام سے بسترمیں لٹاتے ہوئے اور رضائی اوڑھاتے ہوئے کہا۔ “بھولنا نہیں! صبح اٹھتے ہی پوچھوں گا۔” پھر وہ جدھر سے آئے تھے ادھر لوٹ گئے۔

شام کو جب میں ملا جی سے سیپارے کا سبق لے کر لوٹتا تو خراسیوں والی گلی سے ہو کر اپنے گھر جایا کرتا۔ اس گلی میں طرح طرح کے لوگ بستے تھے۔ مگر میں صرف موٹے ماشکی سے واقف تھا جس کو ہم سب “کدو کریلا ڈھائی آنے” کہتے تھے۔

ماشکی کے گھر کے ساتھ بکریوں کا ایک باڑہ تھا جس کے تین طرف کچے پکے مکانوں کی دیواریں اور سامنے آڑی ترچھی لکڑیوں اور خار دار جھاڑیوں کا اونچا اونچا جنگلا تھا۔ اس کے بعد ایک چوکور میدان آتا تھا، پھر لنگڑے کمہار کی کوٹھڑی اور اس کے ساتھ گیرو رنگی کھڑکیوں اور پیتل کی کیلوں والے دروازوں کا ایک چھوٹا سا پکا مکان۔ اس کے بعد گلی میں ذرا سا خم پیدا ہوتا اور قدرے تنگ ہو جاتی پھر جوں جوں اس کی لمبائی بڑھتی توں توں اس کے دونوں بازو بھی ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے۔ شاید وہ ہمارے قصبے کی سب سے لمبی گلی تھی اور حد سے زیادہ سنسان! اس میں اکیلے چلتے ہوئے مجھے ہمیشہ یوں لگتا تھا جیسے میں بندوق کی نالی میں چلا جا رہا ہوں اور جونہی میں اس کے دہانے سے باہر نکلوں گا زور سے “ٹھائیں” ہو گا اور میں مر جاؤں گا۔ مگر شام کے وقت کوئی نہ کوئی راہگیر اس گلی میں ضرور مل جاتا اور میری جان بچ جاتی۔ ان آنے جانے والوں میں کبھی کبھار ایک سفید سی مونچھوں والا لمبا سا آدمی ہوتا جس کی شکل بارہ ماہ والے ملکھی سے بہت ملتی تھی۔ سر پر ململ کی بڑی سی پگڑی۔ ذرا سی خمیدہ کمر پر خاکی رنگ کا ڈھیلا اور لمبا کوٹ۔ کھدر کا تنگ پائجامہ اور پاؤں میں فلیٹ بوٹ۔ اکثر اس کے ساتھ میری ہی عمر کا ایک لڑکا بھی ہوتا جس نے عین اسی طرح کے کپڑے پہنے ہوتے اور وہ آدمی سر جھکائے اور اپنے کوٹ کی جیبوں کی ہاتھ ڈالے آہستہ آہستہ اس سے باتیں کیا کرتا۔ جب وہ میرے برابر آتے تو لڑکا میری طرف دیکھتا تھا اور میں اس کی طرف اور پھر ایک ثانیہ ٹھٹھکے بغیر گردنوں کو ذرا ذرا موڑتے ہم اپنی اپنی راہ پر چلتے جاتے۔

ایک دن میں اور میرا بھائی ٹھٹھیاں کے جوہڑ سے مچھلیاں پکڑنے کی ناکام کوشش کے بعد قصبہ کو واپس آ رہے تھے تو نہر کے پل پر یہی آدمی اپنی پگڑی گود میں ڈالے بیٹھا تھا اور اس کی سفید چٹیا میری مرغی کے پر کی طرح اس کے سر سے چپکی ہوئی تھی۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے میرے بھائی نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے سلام کیا۔”داؤ جی سلام” اور داؤ جی نے سر ہلا کر جواب دیا۔ “جیتے رہو۔”

یہ جان کر کہ میرا بھائی اس سے واقف ہے میں بے حد خوش ہوا اور تھوڑی دیر بعد اپنی منمنی آواز میں چلایا۔ “داؤ جی سلام۔”

“جیتے رہو۔ جیتے رہو!!” انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا اور میرے بھائی نے پٹاخ سے میرے زناٹے کا ایک تھپڑ دیا۔

“شیخی خورے، کتے” وہ چیخا۔ جب میں نے سلام کر دیا تو تیری کیا ضرورت رہ گئی تھی؟ ہر بات میں اپنی ٹانگ پھنساتا ہے کمینہ”بھلا کون ہے وہ؟”

“داؤ جی” میں نے بسور کر کہا۔

“کون داؤ جی” میرے بھائی نے تنک کر پوچھا۔

“وہ جو بیٹھے ہیں” میں نے آنسو پی کر کہا۔

“بکواس نہ کر” میرا بھائی چڑ گیا اور آنکھیں نکال کر بولا۔ ہر بات میں میری نقل کرتا ہے کتاشیخی خورا۔”

میں نہیں بولا اور اپنی خاموشی کے ساتھ راہ چلتا رہا۔ دراصل مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ داؤ جی سے تعارف ہو گیا۔ اس کا رنج نہ تھا کہ بھائی نے میرے تھپڑ کیوں مارا۔ وہ تو اس کی عادت تھی۔ بڑا تھا نا اس لئے ہر بات میں اپنی شیخی بگھارتا تھا۔

داؤ جی سے علیک سلیک تو ہو ہی گئی تھی اس لئے میں کوشش کر کے گلی میں سے اس وقت گزرنے لگا جب وہ آ جا رہے ہوں۔ انہیں سلام کر کے بڑا مزا آتا تھا اور جواب پا کر اس سے بھی زیادہ اس سے بھی زیادہ۔ جیتے رہو کچھ ایسی محبت سے کہتے کہ زندگی دو چند ہو سی جاتی اور آدمی زمین سے ذرا اوپر اٹھ کر ہوا میں چلنے لگتاسلام کا یہ سلسلہ کوئی سال بھر یونہی چلتا رہا اور اس اثناء میں مجھے اس قدر معلوم ہو سکا کہ داؤ جی گیرو رنگی کھڑکیوں والے مکان میں رہتے ہیں اور چھوٹا سا لڑکا ان کا بیٹا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے ان کے متعلق کچھ اور بھی پوچھنا چاہا مگر وہ بڑا سخت آدمی تھا اورمیری چھوٹی بات پر چڑ جاتا تھا۔ میرے ہر سوال کے جواب میں ا س کے پاس گھڑے گھڑائے دو فقرے ہوتے تھے۔ “تجھے کیا” اور “بکواس نہ کر” مگر خدا کا شکر ہے میرے تجسس کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چلا۔ اسلامیہ پرا ئمری سکول سے چوتھی پاس کر کے میں ایم۔ بی ہائی سکول کی پانچویں جماعت میں داخل ہوا تو وہی داؤ جی کا لڑکا میرا ہم جماعت نکلا۔ اس کی مدد سے اور اپنے بھائی کا احسان اٹھائے بغیر میں یہ جان گیا کہ داؤ جی کھتری تھے اور قصبہ کی منصفی میں عرضی نویسی کا کام کرتے تھے۔ لڑکے کا نام امی چند تھا اور وہ جماعت میں سب سے زیادہ ہشیار تھا۔ اس کی پگڑی کلاس بھر میں سب سے بڑی تھی اور چہرہ بلی کی طرح چھوٹا۔ چند لڑکے اسے میاؤں کہتے تھے اور باقی نیولا کہہ کر پکارتے تھے مگر میں داؤ جی کی وجہ سے اس کے اصلی نام ہی سے پکارتا تھا۔ اس لئے وہ میرا دوست بن گیا اور ہم نے ایک دوسرے کو نشانیاں دے کر پکے یار بننے کا وعدہ کر لیا تھا۔


گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے میں کوئی ایک ہفتہ ہو گا جب میں امی چند کے ساتھ پہلی مرتبہ اس کے گھر گیا۔ وہ گرمیوں کی ایک جھلسا دینے والی دوپہر تھی لیکن شیخ چلی کی کہانیاں حاصل کرنے کا شوق مجھ پر بھوت بن کر سوار تھا اور میں بھوک اور دھوپ دونوں سے بے پرواہ ہو کر سکول سے سیدھا اس کے ساتھ چل دیا۔

امی چند کا گھر چھوٹا سا تھا لیکن بہت ہی صاف ستھرا اور روشن۔ پیتل کی کیلوں والے دروازے کے بعد ذرا سی ڈیوڑھی تھی۔ آگے مستطیل صحن، سامنے سرخ رنگ کا برآمدہ اور اس کے پیچھے اتنا ہی بڑا کمرہ۔ صحن میں ایک طرف انار کا پیڑ۔ عقیق کے چند پودے اور دھنیا کی ایک چھوٹی سی کیار ی تھی۔ دوسری طرف چوڑی سیڑھیوں کا ایک زینہ جس کی محراب تلے مختصر سی رسوئی تھی۔ گیرو رنگی کھڑکیاں ڈیوڑھی سے ملحقہ بیٹھک میں کھلتی تھیں اور بیٹھک کا دروازہ نیلے رنگ کا تھا۔ جب ہم ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو امی چند نے چلا کر “بے بے نمستے!” کہا اور مجھے صحن کے بیچوں بیچ چھوڑ کر بیٹھک میں گھس گیا۔ برآمدے میں بوریا بچھائے بے بے مشین چلا رہی تھی اور اس کے پاس ہی ایک لڑکی بڑی سی قینچی سے کپڑے قطع کر رہی تھی۔ بے بے نے منہ ہی منہ میں کچھ جواب دیا اور ویسے ہی مشین چلا تی رہی۔ لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور گردن موڑ کر کہا۔ “بے بے شاید ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے۔”

مشین رک گئی۔

“ہاں ہاں” بے بے نے مسکرا کر کہا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا۔ میں اپنے جز دان کی رسی مروڑتا اور ٹیڑھے ٹیڑھے پاؤں دھرتا برآمدے کے ستون کے ساتھ آ لگا۔

“کیا نام ہے تمہارا” بے بے نے چمکار کر پوچھا اور میں نے نگاہیں جھکا کر آہستہ سے اپنا نام بتا دیا۔ “آفتاب سے بہت شکل ملتی ہے۔” اس لڑکی نے قینچی زمین پر رکھ کر کہا۔ “ہے نا بے بے ؟”

“کیوں نہیں بھائی جو ہوا۔”

“آفتاب کیا؟” اندر سے آواز آئی، آفتاب کیا بیٹا؟”

“آفتاب کا بھائی ہے داؤ جی” لڑکی نے رکتے ہوئے کہا۔ “امی چند کے ساتھ آیا ہے۔”

اندر سے داؤ جی برآمد ہوئے۔ انہوں نے گھٹنوں تک اپنا پائجامہ چڑھا رکھا اور کرتہ اتارا ہوا تھا۔ مگر سر پر پگڑی بدستور تھی۔ پانی کی ہلکی سی بالٹی اٹھا وہ برآمدے میں آ گئے اور میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ “ہاں بہت شکل ملتی ہے مگر میرا آفتاب بہت دبلا ہے اور یہ گولو مولو سا ہے۔” پھر بالٹی فرش پر رکھ کے انہوں نے میرے سر ہاتھ پھیرا اور پاس کا ٹھ کا ایک اسٹول کھینچ کر اس پر بیٹھ گئے۔ زمین سے پاؤں اٹھا کر انہوں نے آہستہ سے انہیں جھاڑا اور پھر بالٹی میں ڈال دئے۔ “آفتاب کا خط آتا ہے؟” انہوں نے بالٹی سے پانی کے چلو بھر بھر کر ٹانگوں پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔ “آتا ہے جی” میں نے ہولے سے کہا۔ “پرسوں آیا تھا۔”

“کیا لکھتا ہے؟”۔

“پتا نہیں جی، ابا جی کو پتہ ہے۔”

“اچھا” انہوں نے سر ہلا کر کہا۔ “تو ابا جی سے پوچھا کرنا! جو پوچھتا نہیں اسے کسی بھی بات کا علم نہیں ہوتا۔”

میں چپ رہا۔

تھوڑی دیر انہوں نے ویسے ہی چلو ڈالتے ہوئے پوچھا۔ “کونسا سیپارہ پڑھ رہے ہو؟”

“چوتھا” میں نے وثوق سے جواب دیا۔

“کیا نام ہے تیسرے سیپارے کا؟” انہوں نے پوچھا۔

“جی نہیں پتہ۔ “میری آواز پھر ڈوب گئی۔

“تلک الرسل” انہوں نے پانی سے ہاتھ باہر نکال کر کہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ جھٹکتے اور ہوا میں لہراتے رہے۔ بے بے مشین چلاتی رہی۔ وہ لڑکی نعمت خانے سے روٹی نکال کر برآمدے کی چوکی پر لگانے لگی اور میں جزدان کی ڈوری کو کھولتا لپیٹتا رہا۔ امی چند ابھی تک بیٹھک کے اندر ہی تھا اور میں ستون کے ساتھ ساتھ جھینپ کی عمیق گہرائیوں میں اترتا جا رہا تھا، معاً داؤ جی نے نگاہیں میری طرف پھیر کر کہا

“سورة فاتحہ سناؤ۔”

“مجھے نہیں آتی جی” میں نے شرمندہ ہو کر کہا۔

انہوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا “الحمدللہ بھی نہیں جانتے؟”

“الحمدللہ تو میں جانتا ہوں جی” میں نے جلدی سے کہا۔

وہ ذرا مسکرائے اور گویا اپنے آپ سے کہنے لگے۔ “ایک ہی بات ہے! ایک ہی بات ہے!!” پھر انہوں نے سر کے اشارے سے کہا سناؤ۔ جب میں سنانے لگا تو انہوں نے اپنا پائجامہ گھٹنوں سے نیچے کر لیا اور پگڑی کا شملہ چوڑا کر کے کندھوں پر ڈال دیا اور جب میں نے وَلَا الضَّالِّیْنَ کہا تو میر ے ساتھ ہی انہوں نے بھی آمین کہا۔ مجھے خیال ہوا کہ وہ ابھی اٹھ کر مجھے کچھ انعام دیں گے کیونکہ پہلی مرتبہ جب میں نے اپنے تایا جی کو الحمدللہ سنائی تھی تو انہوں نے بھی ایسے ہی آمین کہا تھا اور ساتھ ہی ایک روپیہ مجھے انعام بھی دیا تھا۔ مگر داؤ جی اسی طرح بیٹھے رہے بلکہ اور بھی پتھر ہو گئے۔ اتنے میں امی چند کتاب تلاش کر کے لے آیا اور جب میں چلنے لگا تو میں نے عادت کے خلاف آہستہ سے کہا “داؤ جی سلام” اور انہوں نے ویسے ہی ڈوبے ڈوبے ہولے سے جواب دیا۔ “جیتے رہو۔”

بے بے نے مشین روک کر کہا “کبھی کبھی امی چند کے ساتھ کھیلنے آ جایا کرو۔”

“ہاں ہاں آ جایا کر” داؤ جی چونک کر بولے۔ “آفتاب بھی آیا کرتا تھا” پھر انہوں نے بالٹی پر جھکتے ہوئے کہا “ہمارا آفتاب تو ہم سے بہت دور ہو گیا اور فارسی کا شعر سا پڑھنے لگے۔

یہ داؤ جی سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی اور اس ملاقات سے میں یہ نتائج اخذ کر کے چلا کہ داؤ جی بڑے کنجوس ہیں۔ حد سے زیادہ چپ ہیں اور کچھ بہرے سے ہیں۔ اسی دن شام کو میں نے اپنی اماں کو بتایا کہ میں داؤ جی کے گھر گیا تھا اور وہ آفتاب بھائی کو یاد کر رہے تھے۔

اماں نے قدرے تلخی سے کہا “تو مجھ سے پوچھ تو لیتا۔ بے شک آفتاب ان سے پڑھتا رہا ہے اور ان کی بہت عزت کرتا ہے مگر تیرے اباجی ان سے بولتے نہیں ہیں۔ کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تھا سو اب تک ناراضگی چلی آتی ہے۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ تو ان کے ہاں گیا تھا تو وہ خفا ہوں گے، پھر اماں نے ہمدرد بن کر کہا “اپنے ابا سے اس کا ذکر نہ کرنا۔”

میں ابا جی سے بھلا اس کا ذکر کیوں کرتا، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ میں داؤ جی کے ہاں جاتا رہا اور خوب خوب ان سے معتبری کی باتیں کرتا رہا۔


وہ چٹائی بچھائے کوئی کتا ب پڑھ رہے ہوتے۔ میں آہستہ سے ان کے پیچھے جا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ کتاب بند کر کے کہتے “گول آ گیا” پھر میری طرف مڑتے اور ہنس کر کہتے “کوئی گپ سنا” اور میں اپنی بساط کے اور سمجھ کے مطابق ڈھونڈ ڈھانڈ کے کوئی بات سناتا تو وہ خوب ہنستے۔ بس یونہی میرے لئے ہنستے حالانکہ مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی دلچسپ باتیں بھی نہ ہوتی تھیں، پھر وہ اپنے رجسٹر سے کوئی کاغذ نکال کر کہتے لے ایک سوال نکال۔ اس سے میری جان جاتی تھی لیکن ان کا وعدہ بڑا رسیلا ہوتا تھا کہ ایک سوال اور پندرہ منٹ باتیں۔ اس کے بعد ایک اور سوال اور پھر پندرہ منٹ گپیں۔ چنانچہ میں مان جاتا اور کاغذ لے کر بیٹھ جاتا لیکن ان کے خود ساختہ سوال کچھ ایسے الجھے ہوتے کہ اگلی باتوں اور اگلے سوالوں کا وقت بھی نکل جاتا۔ اگر خوش قسمی سے سوال جلد حل ہو جاتا تو وہ چٹائی کو ہاتھ لگا کر پوچھتے یہ کیا ہے؟ “چٹائی” میں منہ پھاڑ کر جواب دیتا “اوں ہوں” وہ سر ہلا کر کہتے “فارسی میں بتاؤ” تو میں تنک کر جواب دیتا “لو جی ہمیں کوئی فارسی پڑھائی جاتی ہے” اس پر وہ چمکار کر کہتے “میں جو پڑھاتا ہوں گولومیں جو سکھاتا ہوںسنو! فارسی میں بوریا، عربی میں حصیر” میں شرارت سے ہاتھ جوڑ کر کہتا “بخشو جی بخشو، فارسی بھی اور عربی بھی میں نہیں پڑھتا مجھے معاف کرو” مگر وہ سنی ان سنی ایک کر کے کہے جاتے فارسی بوریا، عربی حصیر۔ اور پھر کوئی چاہے اپنے کانوں میں سیسہ بھر لیتا۔ داؤ جی کے الفاظ گھستے چلے جاتے تھےامی چند کتابوں کا کیڑا تھا۔ سارا دن بیٹھک میں بیٹھا لکھتا پڑھتا رہتا۔ داؤ جی اس کے اوقات میں مخل نہ ہوتے تھے، لیکن ان کے داؤ امی چند پر بھی برابر ہوتے تھے، وہ اپنی نشست سے اٹھ کر گھڑے سے پانی پینے آیا، داؤ جی نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر پوچھا۔ “بیٹا؟؟؟؟ کیا ہے۔ اس نے گلاس کے ساتھ منہ لگائے لگائے “ڈیڈ” کہا اور پھر گلاس گھڑونچی تلے پھینک کر اپنے کمرے میں آگیا۔ داؤ جی پھر پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ گھر میں ان کو اپنی بیٹی سے بڑا پیار تھا۔ ہم سب اسے بی بی کہہ کر پکارتے تھے۔ اکیلے داؤ جی نے اس کا نام قرة رکھا ہوا تھا۔ اکثر بیٹھے بیٹھے ہانک لگا کر کہتے “قرة بیٹی یہ قینچی تجھ سے کب چھوٹے گی؟” اور وہ اس کے جواب میں مسکرا کر خاموش ہو جاتی۔ بے بے کو اس نام سے بڑی چڑ تھی۔ وہ چیخ کر جواب دیتی۔ “تم نے اس کا نام قرۃ رکھ کر اس کے بھاگ میں کرتے سینے لکھوا دئے ہیں۔ منہ اچھا نہ ہو تو شبد تو اچھے نکالنے چاہئیں” اور داؤ جی ایک لمبی سانس لے کر کہتے “جاہل اس کا مطلب کیا جانیں” اس پر بے بے کا غصہ چمک اٹھتا اور اس کے منہ میں جو کچھ آتا کہتی چلی جاتی۔ پہلے کوسنے، پھر بد دعائیں اور آخر میں گالیوں پر اتر آتی۔ بی بی رکتی تو داؤ جی کہتے “ہوائیں چلنے کو ہوتی ہیں بیٹا اور گالیاں برسنے کو، تم انہیں روکو مت، انہیں ٹوکو مت۔ پھر وہ اپنی کتابیں سمیٹتے اور اپنا محبوب حصیر اٹھا کر چپکے سے سیڑھیوں پر چڑھ جاتے۔

نویں جماعت کے شروع میں مجھے ایک بری عادت پڑ گئی اور اس بری عادت نے عجیب گل کھلائے۔ حکیم علی احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ایک ہی حکیم تھے۔ علاج معالجہ سے ان کو کچھ ایسی دلچسپی نہ تھی لیکن باتیں بڑی مزیدار سناتے تھے۔ اولیاؤں کے تذکرے، جنوں بھوتوں کی کہانیاں اور حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کی گھریلو زندگی کی داستانیں ان کے تیر بہدف ٹوٹکے تھے۔ ان کے تنگ و تاریک مطب میں معجون کے چند ڈبوں، شربت کی دس پندرہ بوتلوں اور دو آتشی شیشیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ دواؤں کے علاوہ وہ اپنی طلسماتی تقریر اور حضرت سلیمانؑ کے خاص صدری تعویذوں سے مریض کا علاج کیا کرتے تھے۔ انہی باتوں کے لئے دور دراز گاؤں کے مریض ان کے پاس کھنچے چلے آتے اور فیض یاب ہو کر جاتے۔ ہفتہ دو ہفتہ کی صحبت میں میرا ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہو گیا، میں اپنے ہسپتال سے ان کے لئے خالی بوتلیں اور شیشیاں چرا کے لاتا اور اس کے بدلے وہ مجھے داستانِ امیر حمزہ کی جلدیں پڑھنے کے لئے دیا کرتے۔

یہ کتابیں کچھ ایسی دلچسپ تھیں کہ میں رات رات بھر اپنے بستر میں دبک کر انہیں پڑھا کرتا اور صبح دیر تک سویا رہتا، اماں میرے اس رویے سے سخت نالاں تھیں، ابا جی کو میری صحت برباد ہونے کا خطرہ لاحق تھا لیکن میں نے ان کو بتا دیا تھا کہ چاہے جان چلی جائے اب کے دسویں میں وظیفہ ضرور حاصل کروں گا۔ رات طلسم ہوشربا کے ایوانوں میں بسر ہوتی اور دن بینچ پر کھڑے ہو کر، سہ ماہی امتحان میں فیل ہوتے ہوتے بچا۔ ششماہی میں بیمار پڑ گیا اور سالانہ امتحان کے موقع پر حکیم جی کی مدد سے ماسٹروں سے مل ملا کر پاس ہو گیا۔

دسویں میں صندلی نامہ، فسانۂ آزاد اور الف لیلیٰ ساتھ ساتھ چلتے تھے، فسانۂ آزاد اور صندلی نامہ گھر پر رکھے تھے، لیکن الف لیلیٰ سکول کے ڈیسک میں بند رہتی۔ آخری بینچ پر جغرافیہ کی کتاب تلے سند باد جہازی کے ساتھ ساتھ چلتا اور اس طرح دنیا کی سیر کرتابائیس مئی کا واقعہ ہے کہ صبح دس بجے یونیورسٹی سے نتیجہ کی کتاب ایم۔ بی ہائی سکول پہنچی۔ امی چند نہ صرف سکول میں بلکہ ضلع بھر میں اول آیا تھا۔ چھ لڑکے فیل تھے اور بائیس پاس۔ حکیم جی کا جادو یونیورسٹی پر نہ چل سکا اور پنجاب کی جابر دانش گاہ نے میرا نام بھی ان چھ لڑکوں میں شامل کر دیا۔ اسی شام قبلہ گاہی نے بید سے میری پٹائی کی اور گھر سے باہر نکال دیا۔ میں ہسپتال کے رہٹ کی گدی پر آ بیٹھا اور رات گئے تک سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا چاہئے اور اب کدھر جانا چاہئے۔ خدا کا ملک تنگ نہیں تھا اور میں عمرو عیار کے ہتھکنڈوں اور سند باد جہازی کے تمام طریقوں سے واقف تھا مگر پھر بھی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ کوئی دو تین گھنٹے اسی طرح ساکت و جامد اس گدی پر بیٹھا زیست کرنے کی راہیں سوچتا رہا۔ اتنے میں اماں سفید چادر اوڑھے مجھے ڈھونڈتی ڈھونڈتی ادھر آ گئیں اور اباجی سے معافی لے دینے کا وعدہ کر کے مجھے پھر گھر لے گئیں۔ مجھے معافی وافی سے کوئی دلچسپی نہ تھی، مجھے تو بس ایک رات ا ور ان کے یہاں گزارنی تھی اور صبح سویرے اپنے سفر پر روانہ ہونا تھا، چنانچہ میں آرام سے ان کے ساتھ جا کر حسب معمول اپنے بستر پر دراز ہو گیا۔

اگلے دن میرے فیل ہونے والے ساتھیوں میں سے خوشیا کوڈو اور دیسو یب یب مسجد کے پچھواڑے ٹال کے پاس بیٹھے مل گئے۔ وہ لاہور جا کر بزنس کرنے کا پرو گرام بنا رہے تھے۔ دیسو یب یب نے مجھے بتایا کہ لاہور میں بڑا بزنس ہے کیونکہ اس کے بھایا جی اکثر اپنے دوست فتح چند کے ٹھیکوں کا ذکر کیا کرتے تھے جس نے سال کے اندر اندر دو کاریں خرید لی تھیں۔ میں نے ان سے بزنس کی نوعیت کے بارے میں پوچھا تو یب یب نے کہا لاہور میں ہر طرح کا بزنس مل جاتا ہے۔ بس ایک دفتر ہونا چاہئے اور اس کے سامنے بڑا سا سائن بورڈ۔ سائن بورڈ دیکھ کر لوگ خود ہی بزنس دے جاتے ہیں۔ اس وقت بزنس سے مراد وہ کرنسی نوٹ لے رہا تھا۔

میں نے ایک مرتبہ پھر وضاحت چاہی تو کوڈو چمک کر بولا “یار دیسو سب جانتا ہے۔ یہ بتا، تو تیار ہے یا نہیں؟”

پھر اس نے پلٹ کر دیسو سے پوچھا “انار کلی میں دفتر بنائیں گے نا؟”

دیسو نے ذرا سوچ کر کہا “انار کلی میں یا شاہ عالمی کے باہر دونوں ہی جگہیں ایک سی ہیں۔”

میں نے کہا انار کلی زیادہ مناسب ہے کیونکہ وہی زیادہ مشہور جگہ ہے اور اخباروں میں جتنے بھی اشتہار نکلتے ہیں ان میں انار کلی لاہور لکھا ہوتا ہے۔”

چنانچہ یہ طے پایا کہ اگلے دن دو بجے کی گاڑی سے ہم لاہور روانہ ہو جائیں!

گھر پہنچ کر میں سفر کی تیاری کرنے لگا۔ بوٹ پالش کر رہا تھا کہ نوکر نے آ کر شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا “چلو جی ڈاکٹر صاحب بلاتے ہیں۔”

“کہاں ہیں؟” میں نے برش زمین پر رکھ دیا اور کھڑا ہو گیا۔

“ہسپتال میں ” وہ بدستور مسکرا رہا تھا کیونکہ میری پٹائی کے روز حاضرین میں وہ بھی شامل تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھا۔ پھر آہستہ سے جالی والا دروازہ کھول کر اباجی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہا ں ان کے علاوہ داؤ جی بھی بیٹھے تھے۔ میں نے سہمے سہمے داؤ جی کو سلام کیا اور اس کے جواب میں بڑی دیر کے بعد جیتے رہو کی مانوس دعا سنی۔

“ان کو پہچانتے ہو؟” اباجی نے سختی سے پوچھا۔

“بے شک” میں نے ایک مہذب سیلزمین کی طرح کہا۔

“بے شک کے بچے، حرامزادے، میں تیری یہ سب۔”

“نہ نہ ڈاکٹر صاحب” داؤ جی نے ہاتھ اوپر اٹھا کر کہا “یہ تو بہت ہی اچھا بچہ ہے اس کو تو”

اور ڈاکٹر صاحب نے بات کاٹ کر تلخی سے کہا “آپ نہیں جانتے منشی جی اس کمینے نے میری عزت خاک میں ملا دی۔”


“اب فکر نہ کریں ” داؤ جی نے سر جھکائے کہا۔ “یہ ہمارے آفتاب سے بھی ذہین ہے اور ایک دن”

اب کے ڈاکٹر صاحب کو غصہ آگیا اور انہوں نے میز پر ہاتھ مار کر کہا “کیسی بات کرتے ہو منشی جی! یہ آفتاب کے جوتے کی برابری نہیں کر سکتا۔”

“کرے گا، کرے گاڈاکٹر صاحب” داؤ جی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا “آپ خاطر جمع رکھیں۔”

پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے “میں سیر کو چلتا ہوں، تم بھی میرے ساتھ آؤ، راستے میں باتیں کریں گے۔”

اباجی اسی طرح کرسی پر بیٹھے غصے کے عالم میں اپنا رجسٹر الٹ پلٹ کرتے اور بڑبڑاتے رہے۔ میں نے آہستہ آہستہ چل کر جالی والا دروازہ کھولا تو داؤ جی نے پیچھے مڑ کر کہا۔

“ڈاکٹر صاحب بھول نہ جائیے ابھی بھجوا دیجئے گا۔”

داؤ جی نے مجھے ادھر ادھر گھماتے اور مختلف درختوں کے نام فارسی میں بتاتے نہر کے اسی پل پر لے گئے جہاں پہلے پہل میرا ان سے تعارف ہوا تھا۔ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ کر انہوں نے پگڑی اتار کر گود میں ڈال لی سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور کہا “آج سے میں تمہیں پڑھاؤں گا اور اگر جماعت میں اول نہ لا سکا تو فرسٹ ڈویژن ضرور دلوا دوں گا۔ میرے ہر ارادے میں خداوند تعالیٰ کی مدد شامل ہوتی ہے اور اس ہستی نے مجھے اپنی رحمت سے کبھی مایوس نہیں کیا”

“مجھ سے پڑھائی نہ ہو گی” میں نے گستاخی سے بات کاٹی۔

“تو اور کیا ہو گا گولو؟” انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔

میں نے کہا “میں بزنس کروں گا، روپیہ کماؤں گا اور اپنی کار لے کر یہاں ضرور آؤں گا، پھر دیکھنا” اب کے داؤ جی نے میری بات کاٹی اور بڑی محبت سے کہا “خدا ایک چھوڑ تجھے دس کاریں دے لیکن ایک ان پڑھ کی کار میں نہ میں بیٹھوں گا نہ ڈاکٹر صاحب۔”

میں نے جل کر کہا “مجھے کسی کی پرواہ نہیں ڈاکٹر صاحب اپنے گھر راضی، میں اپنے یہاں خوش۔”

انہوں نے حیران ہو کر پوچھا “میری بھی پرواہ نہیں؟” میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ دکھی سے ہو گئے اور بار بار پوچھنے لگے۔

“میری بھی پرواہ نہیں؟”

“او گولو میری بھی پرواہ نہیں؟”

مجھے ان کے لہجے پر ترس آنے لگا اور میں نے آہستہ سے کہا۔ آپ کی تو ہے مگر” مگر انہوں نے میری بات نہ سنی اور کہنے لگے اگر اپنے حضرت کے سامنے میرے منہ سے ایسی بات نکل جاتی؟ اگر میں یہ کفر کا کلمہ کہہ جاتا تو تو ” انہوں نے فورا پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لی اور ہاتھ جوڑ کہنے لگے۔ “میں حضور کے دربار کا ایک ادنیٰ کتا۔ میں حضرت مولانا کی خاک پا سے بد تر بندہ ہو کر آقا سے یہ کہتا۔ لعنت کا طوق نہ پہنتا؟ خاندانِ ابو جہل کا خانوادہ اور آقا کی ایک نظر کرم۔ حضرت کا ایک اشارہ۔ حضور نے چنتو کو منشی رام بنا دیا۔ لوگ کہتے ہیں منشی جی، میں کہتا ہوں رحمۃ اللہ علیہ کا کفش بردارلوگ سمجھتے ہیں” داؤ جی کبھی ہاتھ جوڑتے، کبھی سر جھکاتے کبھی انگلیاں چوم کر آنکھوں کو لگاتے اور بیچ بیچ میں فارسی کے اشعار پڑھتے جاتے۔ میں کچھ پریشان سا پشیمان سا، ان کا زانو چھو کر آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا “داؤ جی! داؤ جی” اور داؤ جی “میرے آقا، میرے مولانا، میرے مرشد” کا وظیفہ کئے جاتے۔

جب جذب کا یہ عالم دور ہوا تو نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے “کیا اچھا موسم ہے دن بھر دھوپ پڑتی ہے تو خوشگوار شاموں کا نزول ہوتا ہے ” پھر وہ پل کی دیوار سے اٹھے اور بولے “چلو اب چلیں بازار سے تھوڑا سودا خریدنا ہے۔” میں جیسا سرکش و بد مزاج بن کر ان کے ساتھ آیا تھا، اس سے کہیں زیادہ منفعل اور خجل ان کے ساتھ لوٹا۔ گھمسے پنساری یعنی دیسو یب یب کے باپ کی دکان سے انہوں نے گھریلو ضرورت کی چند چیزیں خریدیں اور لفافے گود میں اٹھا کر چل دئے، میں بار بار ان سے لفافے لینے کی کوشش کرتا مگر ہمت نہ پڑتی۔ ایک عجیب سی شرم ایک انوکھی سی ہچکچاہٹ مانع تھی اور اسی تامل اور جھجک میں ڈوبتا ابھرتا میں ان کے گھر پہنچ گیا۔

وہاں پہنچ کر یہ بھید کھلا کہ اب میں انہی کے ہاں سویا کرو ں گا اور وہیں پڑھا کروں گا۔ کیونکہ میرا بستر مجھ سے بھی پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا اور اس کے پاس ہی ہمارے یہاں سے بھیجی ہوئی ایک ہری کین لالٹین بھی رکھی تھی۔ بزنس مین بننا اور پاں پاں کرتی پیکارڈ اڑائے پھرنا میرے مقدر میں نہ تھا۔ گو میرے ساتھیوں کی روانگی کے تیسرے ہی روز بعد ان کے والدین بھی انہیں لاہور سے پکڑ لائے لیکن اگر میں ان کے ساتھ ہوتا تو شاید اس وقت انار کلی میں ہمارا دفتر، پتہ نہیں ترقی کے کون سے شاندار سال میں داخل ہو چکا ہوتا۔

داؤ جی نے میری زندگی اجیرن کر دی، مجھے تباہ کر دیا، مجھ پر جینا حرام کر دیا، سارا دن سکول کی بکواس میں گزرتا اور رات، گرمیوں کی مختصر رات، ان کے سوالات کا جواب دینے، کوٹھے پر ان کی کھاٹ میرے بستر کے ساتھ لگی ہے اور وہ مونگ، رسول اور مرالہ کی نہروں کے بابت پوچھ رہے ہیں، میں نے بالکل ٹھیک بتا دیا ہے، وہ پھر اسی سوال کو دہرا رہے ہیں، میں نے پھر ٹھیک بتا دیا ہے اور انہوں نے پھر انہی نہروں کو آگے لا کھڑا کیا ہے، میں جل جاتا اور جھڑک کر کہتا “مجھے نہیں پتہ میں نہیں بتاتا” تو وہ خاموش ہو جاتے اور دم سادھ لیتے، میں آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرتا تو وہ شرمندگی کنکر بن کر پتلیوں میں اتر جاتی۔

میں آہستہ سے کہتا “داؤ جی۔”

“ہوں” ایک گھمبیر سی آواز آتی۔

’دداؤ جی کچھ اور پوچھو۔”

داؤ جی نے کہا “بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ اس کی ترکیب نحوی کرو۔”

میں نے سعادت مندی کے ساتھ کہا “جی یہ تو بہت لمبا فقرہ ہے صبح لکھ کر بتا دوں گا کوئی اور پوچھئے۔”

انہوں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائے کہا “میرا گولو بہت اچھا ہے۔”

میں نے ذرا سوچ کر کہنا شروع کیا بہت اچھا صفت ہے، حرف ربط مل کر بنا مسند اور داؤ جی اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئے۔ ہاتھ اٹھا کر بولے جانِ پدر، تجھے پہلے بھی کہا ہے مسند الیہ پہلے بنایا ہے۔

میں نے ترکیبِ نحوی سے جان چھڑانے کے لئے پوچھا “آپ مجھے جانِ پدر کیوں کہتے ہیں جانِ داؤ کیوں نہیں کہتے؟”

“شاباش” وہ خوش ہو کر کہتے “ایسی باتیں پوچھنے کی ہوتی ہیں۔ جان لفظ فارسی کا ہے اور داؤ بھاشا کا۔ ان کے درمیان فارسی اضافت نہیں لگ سکتی۔ جو لوگ دن بدن لکھتے یا بولتے ہیں سخت غلطی کرتے ہیں، روز بروز کہو یا دن پر دن اسی طرح سے”


اور جب میں سوچتا کہ یہ تو ترکیبِ نحوی سے بھی زیادہ خطرناک معاملے میں الجھ گیا ہوں تو جمائی لے کر پیار سے کہا “داؤ جی اب تو نیند آ رہی ہے!”

“اور وہ ترکیب نحوی؟” وہ جھٹ سے پوچھتے۔۔

اس کے بعد چاہے میں لاکھ بہانے کرتا ادھر ادھر کی ہزار باتیں کرتا، مگر وہ اپنی کھاٹ پر ایسے بیٹھے رہتے، بلکہ اگر ذرا سی دیر ہو جاتی تو کرسی پر رکھی ہوئی پگڑی اٹھا کر سر پر دھر لیتے۔ چنانچہ کچھ بھی ہوتا۔ ان کے ہر سوال کا خاطر خواہ جواب دینا پڑتا۔

امی چند کالج چلا گیا تو اس کی بیٹھک مجھے مل گئی اور داؤ جی کے دل میں اس کی محبت پر بھی میں نے قبضہ کر لیا۔ اب مجھے داؤ جی بہت اچھے لگنے لگے تھے لیکن ان کی باتیں جو اس وقت مجھے بری لگتی تھیں۔ وہ اب بھی بری لگتی ہیں بلکہ اب پہلے سے بھی کسی قدر زیادہ، شاید اس لئے کہ میں نفسیات کا ایک ہونہار طالب علم ہوں اور داؤ جی پرانے مُلّائی مکتب کے پروردہ تھے۔ سب سے بری عادت ان کی اٹھتے بیٹھتے سوال پوچھتے رہنے کی تھی اور دوسری کھیل کود سے منع کرنے کی۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ آدمی پڑھتا رہے پڑھتا رہے اور جب اس مدقوق کی موت کا دن قریب آئے تو کتابوں کے ڈھیر پر جان دے دے۔ صحتِ جسمانی قائم رکھنے کے لئے ان کے پاس بس ایک ہی نسخہ تھا، لمبی سیر اور وہ بھی صبح کی۔ تقریباً سورج نکلنے سے دو گھنٹے پیشتر وہ مجھے بیٹھک میں جگانے آتے اور کندھا ہلا کر کہتے “اٹھو گولو موٹا ہو گیا بیٹا” دنیا جہاں کے والدین صبح جگانے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ اٹھو بیٹا صبح ہو گئی یا سورج نکل آیا مگر وہ “موٹا ہو گیا” کہہ کر میری تذلیل کیا کرتے، میں منمناتا تو چمکار کر کہتے “بھدا ہو جائے گا بیٹا تو، گھوڑے پر ضلع کا دورہ کیسا کرے گا!” اور میں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑ کر کہتا

“داؤ جی خدا کے لئے مجھے صبح نہ جگاؤ، چاہے مجھے قتل کر دو، جان سے مار ڈالو۔”

یہ فقرہ ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی وہ فوراً میرے سر پر لحاف ڈال دیتے اور باہر نکل جاتے۔ بے بے کو ان داؤ جی سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور داؤ جی ان سے بہت ڈرتے تھے، وہ سارا دن محلے والیوں کے کپڑے سیا کرتیں اور داؤ جی کو کوسنے دئے جاتیں۔ ان کی اس زبان درازی پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا مگر دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہ ہو سکتا تھا۔ کبھی کبھار جب وہ ناگفتنی گالیوں پر اتر آتیں تو داؤ جی میری بیٹھک میں آ جاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے۔ تھوڑی دیر بعد کہتے “غیبت کرنا بڑا گناہ ہے لیکن میرا خدا مجھے معاف کرے تیری بے بے بھٹیارن ہے اور اس کی سرائے میں، میں، میری قرة العین اور تھوڑا تھوڑا، تو بھی، ہم تینوں بڑے عاجز مسافر ہیں۔ ” اور واقعی بے بے بھٹیارن سی تھی۔ ان کا رنگ سخت کالا تھا اور دانت بے حد سفید، ماتھا محراب دار اور آنکھیں چنیاں سی۔ چلتی تو ایسی گربہ پائی کے ساتھ جیسے (خدا مجھے معاف کرے) کٹنی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے۔ بچاری بی بی کو ایسی ایسی بری باتیں کہتی کہ وہ دو دو دن رو رو کر ہلکان ہوا کرتی۔ ایک امی چند کے ساتھ اس کی بنتی تھی شاید اس وجہ سے کہ ہم دونوں ہم شکل تھے یا شاید اس وجہ سے کہ اس کو بی بی کی طرح اپنے داؤ جی سے پیار نہ تھا۔ یوں تو بی بی بے چاری بہت اچھی لگتی تھی مگر اس سے میری بھی نہ بنتی۔ میں کوٹھے پر بیٹھا سوال نکال رہا ہوں، داؤ جی نیچے بیٹھے ہیں اور بی بی اوپر برساتی سے ایندھن لینے آئی تو ذرا رک کر مجھے دیکھا پھر منڈیر سے جھانک کر بولی، داؤ جی! پڑھ تو نہیں رہا، تنکوں کی طرح چارپائیاں بنا رہا ہے۔”

میں غصیل بچے کی طرح منہ چڑا کر کہتا “تجھے کیا، نہیں پڑھتا، تو کیوں بڑ بڑ کرتی ہےآئی بڑی تھانیدارنی۔”

اور داؤ جی نیچے سے ہانک لگا کر کہتے “نہ گولو مولو بہنوں سے جھگڑا نہیں کرتے۔”

اور میں زور سے چلاتا “پڑھ رہا ہوں جی، جھوٹ بولتی ہے۔”

داؤ جی آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاتے اور کاپیوں کے نیچے نیم پوشیدہ چارپائیاں دیکھ کر کہتے “قرة بیٹا تو اس کو چڑایا نہ کر۔ یہ جن بڑی مشکل سے قابو کیا ہے۔ اگر ایک بار بگڑ گیا تو مشکل سے سنبھلے گا۔”

بی بی کہتی “کاپی اٹھا کر دیکھ لو داؤ جی اس کے نیچے ہے وہ چارپائی جس سے کھیل رہا تھا۔”

میں قہر آلود نگاہوں سے بی بی کو دیکھتا اور وہ لکڑیاں اٹھا کر نیچے اتر جاتی۔ پھر داؤ جی سمجھاتے کہ بی بی یہ کچھ تیرے فائدے کے لئے کہتی ہے ورنہ اسے کیا پڑی ہے کہ مجھے بتاتی پھرے۔ فیل ہویا پاس اس کی بلا سے! مگر وہ تیری بھلائی چاہتی ہے، تیری بہتری چاہتی ہے اور داؤ جی کی یہ بات ہر گز سمجھ میں نہ آتی تھی۔ میری شکایتیں کرنے والی میری بھلائی کیونکر چاہ سکتی تھی!۔

ان دنوں معمول یہ تھا کہ صبح دس بجے سے پہلے داؤ جی کے ہاں سے چل دیتا۔ گھر جا کر ناشتہ کرتا اور پھر سکول پہنچ جاتا۔ آدھی چھٹی پر میرا کھانا سکول بھیج دیا جاتا اور شام کو سکول بند ہونے پر گھر آ کے لالٹین تیل سے بھرتا اور داؤ جی کے یہاں آ جاتا۔ پھر رات کا کھانا بھی مجھے داؤ جی کے گھر ہی بھجوا دیا جاتا۔ جن ایام میں منصفی بند ہوتی، داؤ جی سکول کی گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ جاتے اور میرا انتظار کرنے لگتے۔ وہاں سے گھر تک سوالات کی بوچھاڑ رہتی۔ سکول میں جو کچھ پڑھایا گیا ہوتا اس کی تفصیل پوچھتے، پھر مجھے گھر تک چھوڑ کر خود سیر کو چلے جاتے۔ ہمارے قصبہ میں منصفی کا کام مہینے میں دس دن ہوتا تھا اور بیس دن منصف صاحب بہادر کی کچہری ضلع میں رہتی تھی۔ یہ دس دن داؤ جی باقاعدہ کچہری میں گزارتے تھے۔ ایک آدھ عرضی آ جاتی تو دو چار روپے کما لیتے ورنہ فارغ اوقات میں وہاں بھی مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھتے۔ بے بے کا کام اچھا تھا۔ اس کی کتر بیونت اور محلے والوں سے جوڑ توڑ اچھے مالی نتائج پیدا کرتی تھی۔ چونکہ پچھلے چند سالوں سے گھر کا بیشتر خرچ اس کی سلائی سے چلتا تھا، اس لئے وہ داؤ جی پر اور بھی حاوی ہو گئی تھی۔ ایک دن خلاف معمول داؤ جی کو لینے میں منصفی چلا گیا۔ اس وقت کچہری بند ہو گئی تھی اور داؤ جی نانبائی کے چھپر تلے ایک بینچ پر بیٹھے گڑ کی چائے پی رہے تھے۔ میں نے ہولے سے جا کر ان کا بستہ اٹھا لیا اور ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا “چلئے، آج میں آپ کو لینے آیا ہوں” انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر چائے کے بڑے بڑے گھونٹ بھرے، ایک آنہ جیب سے نکال کر نانبائی کے حوالے کیا اور چپ چاپ میرے ساتھ چل دئے۔

میں نے شرارت سے ناچ کر کہا “گھر چلئے، بے بے کو بتاؤں گا کہ آپ چوری چوری یہاں چائے پیتے ہیں۔”

داؤ جی جیسے شرمندگی ٹالنے کو مسکرائے اور بولے “اس کی چائے بہت اچھی ہوتی ہے اور گڑ کی چائے سے تھکن بھی دور ہو جاتی ہے پھر یہ ایک آنہ میں گلاس بھر کے دیتا ہے۔ تم اپنی بے بے سے نہ کہنا، خواہ مخواہ ہنگامہ کھڑا کر دے گی۔ پھر انہوں نے خوفزدہ ہو کر کچھ مایوس ہو کر کہا “اس کی تو فطرت ہی ایسی ہے۔” اس دن مجھے داؤ جی پر رحم آیا۔ میرا جی ان کے لئے بہت کچھ کرنے کو چاہنے لگا مگر اس میں میں نے بے بے سے نہ کہنے کا ہی وعدہ کر کے ان کے کے لئے بہت کچھ کیا۔ جب اس واقعہ کا ذکر میں نے اماں سے کیا تو وہ بھی کبھی میرے ہاتھ اور کبھی نوکر کی معرفت داؤ جی کے ہاں دودھ، پھل اور چینی وغیرہ بھیجنے لگیں مگر اس رسد سے داؤ جی کو کبھی بھی کچھ نصیب نہ ہوا۔ ہاں بے بے کی نگاہوں میں میری قدر بڑھ گئی اور اس نے کسی حد تک مجھ سے رعایتی برتاؤ شروع کر دیا۔”

مجھے یاد ہے، ایک صبح میں دودھ سے بھرا تاملوٹ ان کے یہاں لے کر آیا تھا اور بے بے گھر نہ تھی۔ وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ بابا ساون کے جوہڑ میں اشنان کرنے گئی تھی اور گھر میں صرف داؤ جی اور بی بی تھے۔ دودھ دیکھ کر داؤ جی نے کہا “چلو آج تینو ں چائے پئیں گے۔ میں دکان سے گڑ لے کر آتا ہوں، تم پانی چولہے پر رکھو۔” بی بی نے جلدی سے چولہا سلگایا۔ میں پتیلی میں پانی ڈال کر لایا اور پھر ہم دونوں وہیں چوکے پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ داؤ جی گڑ لے کر آ گئے تو انہوں نے کہا “تم دونوں اپنے اپنے کام پر بیٹھو چائے میں بناتا ہوں۔”چنانچہ بی بی مشین چلانے لگی اور میں ڈائریکٹ اِن ڈائریکٹ کی مشقیں لکھنے لگا۔ داؤ جی چولہا بھی جھونکتے جاتے تھے اور عادت کے مطابق مجھے بھی اونچے اونچے بتاتے جاتے تھے۔

گلیلیو نے کہا “زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔” گلیلیو نے دریافت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ نہ لکھ دینا کہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ پانی ابل رہا تھا داؤ جی خوش ہو رہے تھے۔ اسی خوشی میں جھوم جھوم کر وہ اپنا تازہ بنایا ہوا گیت گا رہے تھے۔ او گولو! او گولو! گلیلیو کی بات مت بھولنا، گلیلیو کی بات مت بھولنا۔ انہوں نے چائے کی پتی کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دی۔ برتن ابھی تک چولہے پر ہی تھا اور داؤ جی ایک چھوٹے سے بچے کی طرح پانی کی گلب گل بل کے ساتھ گولو گلیلیو! گولو گلیلیو کئے جا رہے تھے، میں ہنس رہا تھا اور اپنا کام کئے جا رہا تھا، بی بی مسکرا رہی تھی اور مشین چلائے جاتی تھی اور ہم تینوں اپنے چھوٹے سے گھر میں بڑے ہی خوش تھے گویا سارے محلے بلکہ سارے قصبہ کی خوشیاں بڑے بڑے رنگین پروں والی پریوں کی طرح ہمارے گھر میں اتر آئی ہوں۔۔

اتنے میں دروازہ کھلا اور بے بے اندر داخل ہوئی۔ داؤ جی نے دروازہ کھلنے کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور ان کا رنگ فق ہو گیا۔ چمکتی ہوئی پتیلی سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کے اندر چائے کے چھوٹے چھوٹے چھلاوے ایک دوسرے کے پیچھے شور مچاتے پھرتے تھے اور ممنوعہ کھیل رچانے والا بڈھا موقع پر پگڑا گیا۔ بے بے نے آگے بڑھ کر چولہے کی طرف دیکھا اور داؤ جی نے چوکے سے اٹھتے ہوئے معذرت بھرے لہجے میں کہا “چائے ہے!”


بے بے نے ایک دو ہتڑ داؤ جی کی کمر پر مارا اور کہا “بڈھے بروہا تجھے لاج نہیں آتی۔ تجھ پر بہار پھرے، تجھے یم سمیٹے، یہ تیرے چائے پینے کے دن ہیں۔ میں بیوہ گھر میں نہ تھی تو تجھے کسی کا ڈر نہ رہا۔ تیرے بھانویں میں کل کی مرتی آج مروں تیرا من راضی ہو۔ تیری آسیں پوری ہوں۔ کس مرن جوگی نے جنا اور کس لیکھ کی ریکھا نے میرے پلے باندھ دیاتجھے موت نہیں آتیاوں ہوں تجھے کیوں آئے گی” اس فقرے کی گردان کرتے ہوئے بے بے بھیڑنی کی طرح چوکے پر چڑھی کپڑے سے پتیلی پکڑ کر چولہے سے اٹھائی اور زمین پر دے ماری۔ گرم گرم چائے کے چھپاکے داؤ جی کی پنڈلیوں اور پاؤں پر گرے اور وہ “اوہ تیرا بھلا ہو جائے! او تیرا بھلا ہو جائے” کہتے وہاں سے ایک بچے کی طرح بھاگے اور بیٹھک میں گھس گئے۔ ان کے اس فرار بلکہ اندازِ فرار کو دیکھ کر میں اور بی بی ہنسے بنا نہ رہ سکے اور ہماری ہنسی کی آواز ایک ثانیہ کے لئے چاروں دیواروں سے ٹکرائی۔ میں تو خیر بچ گیا لیکن بے بے نے سیدھے جا کر بی بی کو بالوں سے پکڑ لیا اور چیخ کر بولی “میری سوت بڈھے سے تیرا کیا ناطہ ہے، بتا نہیں تو اپنی پران لیتی ہوں۔ تو نے اس کو چائے کی کنجی کیوں دی؟” بی بی بیچاری پھس پھس رونے لگی تو میں بھی اندر بیٹھک میں کھسک آیا۔ داؤ جی اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھے تھے اور اپنے پاؤں سہلا رہے تھے۔ پتہ نہیں انہیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے پھر کیوں گدگدی ہوئی کہ میں الماری کے اندر منہ کر کے ہنسنے لگا، انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے پاس بلایا اور بولے “شکرِ کردگار کنم کہ گرفتارم بہ مصیبتے نہ کہ معصیتے۔

تھوڑی دیر رک کر پھر کہا “میں اس کے کتوں کا بھی کتا ہوں جس کے سرِ مُطہّر پر مکے کی ایک کم نصیب بڑھیا غلاظت پھینکا کرتی تھی۔”

میں نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے “آقائے نامدار کا ایک ادنیٰ حلقہ بگوش، گرم پانی کے چند چھینٹے پڑنے پر نالہ شیون کرے تو لعنت ہے اس کی زندگی پر۔ وہ اپنے محبوب کے طفیل نارِ جہنم سے بچائے۔ خدائے ابراہیمؑ مجھے جرأت عطا کرے، مولائے ایوبؑ مجھے صبر کی نعمت دے۔”

میں نے کہا “داؤ جی آقائے نامدار کون؟”

تو داؤ جی کو یہ سن کر ذرا تکلیف ہوئی۔ انہوں نے شفقت سے کہا “جان پدر یوں نہ پوچھا کر۔ میرے استاد، میرے حضرت کی روح کو مجھ سے بیزار نہ کر، وہ میرے آقا بھی تھے، میرے باپ بھی اور میرے استاد بھی، وہ تیرے دادا استاد ہیںدادا استاد” اور انہوں نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لئے۔ آقائے نامدار کا لفظ اور کوتاہ و قسمتِ مجوزہ کی ترکیب میں نے پہلی بار داؤ جی سے سنی۔ یہ واقعہ سنانے میں انہوں نے کنتی ہی دیر لگا دی کیونکہ ایک ایک فقرے کے بعد فارسی کے بیشمار نعتیہ اشعار پڑھتے تھے اور بار بار اپنے استاد کی روح کو ثواب پہنچاتے تھے۔”

جب وہ یہ واقعہ بیان کر چکے تو میں نے بڑے ادب سے پوچھا “داؤ جی آپ کو اپنے استاد صاحب اس قدر اچھے کیوں لگتے تھے اور آپ ان کا نام لے کر ہاتھ کیوں جوڑتے ہیں اپنے آپ کو ان کا نوکر کیوں کہتے ہیں؟”

داؤ جی نے مسکرا کر کہا “جو طویلے کے ایک خر کو ایسا بنا دے کہ لوگ کہیں یہ منشی چنت رام جی ہیں۔ وہ مسیحا نہ ہو، آقا نہ ہو تو پھر کیا ہو؟”

میں چارپائی کے کونے سے آہستہ آہستہ پھسل کر بستر میں پہنچ گیا اور چاروں طرف رضائی لپیٹ کر داؤ جی کی طرف دیکھنے لگا جو سر جھکا کر کبھی اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی پنڈلیاں سہلاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے وقفوں کے بعد ذرا سا ہنستے اور پھر خاموش ہو جاتے۔

کہنے لگے “میں تمہارا کیا تھا اور کیا ہو گیاحضرت مولانا کی پہلی آواز کیا تھی! میری طرف سر مبارک اٹھا کر فرمایا، چوپال زادے ہمارے پاس آؤ، میں لاٹھی ٹیکتا ان کے پاس جا کھڑا ہوا۔ چھتہ پٹھار اور دیگر دیہات کے لڑکے نیم دائرہ بنائے ان کے سامنے بیٹھے سبق یاد کر رہے تھے۔ ایک دربار لگا تھا اور کسی کو آنکھ اوپر اٹھانے کی ہمت نہ تھیمیں حضور کے قریب گیا تو فرمایا، بھئی ہم تم کو روز یہاں بکریاں چراتے دیکھتے ہیں۔ انہیں چرنے چگنے کے لئے چھوڑ کر ہمارے پاس آ جایا کرو اور کچھ پڑھ لیا کروپھر حضور نے میری عرض سنے بغیر پوچھا کہ کیا نام ہے تمہارا؟” میں نے گنواروں کی طرح کہا چنتومسکرائےتھوڑا سا ہنسے بھی فرمانے لگے پورا نام کیا ہے؟ پھر خود ہی بولے چنتو رام ہو گامیں نے سر ہلا دیاحضور کے شاگرد کتاب سے نظریں چرا کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میرے گلے میں کھدر کا لمبا سا کرتہ تھا۔ پائجامہ کی بجائے صرف لنگوٹ بندھا تھا۔ پاؤں میں ادھوڑی کے موٹے جوتے اور سر پر سرخ رنگ کا جانگیہ لپیٹا ہوا تھا۔ بکریاں میری”

میں نے بات کاٹ کر پوچھا “آپ بکریاں چراتے تھے داؤ جی؟”

“ہاں ہاں ” وہ فخر سے بولے “میں گڈریا تھا اور میرے باپ کی بارہ بکریاں تھیں۔”

حیرانی سے میرا منہ کھلا رہ گیا اور میں نے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے جلدی سے پوچھا۔ “اور آپ سکول کے پاس بکریاں چرایا کرتے تھے۔”داؤ جی نے کرسی چارپائی کے قریب کھینچ لی اور اپنے پاؤں پائے پر رکھ کر بولے “جان پدر اس زمانے میں تو شہروں میں بھی سکول نہیں ہوتے تھے، میں گاؤں کی بات کر رہا ہوں۔ آج سے چوہتر برس پہلے کوئی تمہارے ایم بی ہائی سکول کا نام بھی جانتا تھا؟ وہ تو میرے آقا کو پڑھانے کا شوق تھا۔ ارد گرد کے لوگ اپنے لڑکے چار حرف پڑھنے کو ان کے پاس بھیج دیتےان کا سارا خاندان زیورِ تعلیم سے آراستہ اور دینی اور دنیوی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ والد ان کے ضلع بھر کے ایک ہی حکیم اور چوٹی کے مبلغ تھے۔ جدِ امجد مہاراجہ کشمیر کے میر منشی۔ گھر میں علم کے دریا بہتے تھے، فارسی، عربی، جبر و مقابلہ، اقلیدس، حکمت اور علم ہیئت ان کے گھر کی لونڈیاں تھیں۔ حضور کے والد کو دیکھنا مجھے نصیب نہیں ہوا لیکن آپ کی زبانی ان کے تبحرِ علمی کی سب داستانیں سنیں، شیفتہ اور حکیم مومن خاں مومن سے ان کے بڑے مراسم تھے اور خود مولانا کی تعلیم دلی میں مفتی آزردہ مرحوم کی نگرانی میں ہوئی تھی”

مجھے داؤجی کے موضوع سے بھٹک جانے کا ڈر تھا اس لئے میں نے جلدی سے پوچھا۔ “پھر آپ نے حضرت مولانا کے پاس پڑھنا شروع کر دیا۔” “ہاں” داؤ جی اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے، “ان کی باتیں ہی ایسی تھیں۔ ان کی نگاہیں ہی ایسی تھیں جس کی طرف توجہ فرماتے تھے، بندے سے مولا کر دیتے تھے۔ مٹی کے ذرے کو اکسیر کی خاصیت دے دیتے تھےمیں تو ا پنی لاٹھی زمین پر ڈال کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ فرمایا، اپنے بھائیوں کے بوریے پر بیٹھو۔ میں نے کہا جی اٹھارہ برس دھرتی پر بیٹھے گزر گئے اب کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر مسکرا دئے اپنے چوبی صندوقچے سے حروف ابجد کا ایک مقوا نکالا اور بولے الف۔ بے۔ بے۔ تےسبحان اللہ کیا آواز تھی۔ کس شفقت سے بو لے تھے، کس لہجہ میں فرما رہے تھے الف، بے، پے، ت ” اور جی داؤ جی ان حرفوں کا ورد کرتے ہوئے اپنے ماضی میں کھو گئے۔

تھوڑی دیر بعد انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر کہا۔ “ادھر رہٹ تھا اور اس کے ساتھ مچھلیوں کا حوض۔” پھر انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ ہوا میں لہرا کر کہا “اور اس طرف مزارعین کے کوٹھے، دونوں کے درمیان حضور کا باغیچہ تھا اور سامنے ان کی عظیم الشان حویلی۔ اسی باغیچے میں ان کا مکتب تھا۔ درِ فیض کھلا تھا جس کا جی چاہے آئے، نہ مذہب کی قید نہ ملک کی پابندی”

میں نے کافی دیر سوچنے کے بعد با ادب با ملاحظہ قسم کا فقرہ تیار کر کے پوچھا “حضرت مولانا کا اسم گرامی شریف کیا تھا؟” تو پہلے انہوں نے میرا فقرہ ٹھیک کیا اور پھر بولے۔ “حضرت اسماعیل چشتی فرماتے تھے کہ ان کے والد ہمیشہ انہیں جانِ جاناں کہہ کر پکارتے تھے۔ کبھی جانِ جاناں کی رعایت سے مظہر جانِ جاناں بھی کہہ دیتے تھے۔

میں ایسی دلچسپ کہانی سننے کا ابھی اور خواہش مند تھا کہ داؤ جی اچانک رک گئے اور بولے۔ سب سڈی ایری سسٹم کیا تھا؟ ان انگریزوں کا برا ہو یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں آئے یا ملکہ وکٹوریہ کا فرمان لے، سارے معاملے میں کھنڈت ڈال دیتے ہیں۔ سوا کے پہاڑے کی طرح میں نے سب سڈی ایری سسٹم کا ڈھانچہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ پھر انہوں نے میز سے گرائمر کی کتاب اٹھائی اور بولے “باہر جا کر دیکھ کے آ کہ تیری بے بے کا غصہ کم ہوا یا نہیں۔” میں دوات میں پانی ڈالنے کے بہانے باہر گیا تو بے بے کو مشین چلاتے اور بی بی کو چکوا صاف کرتے پایا۔”

داؤ جی کی زندگی میں بے بے والا پہلو بڑا ہی کمزور تھا۔ جب وہ دیکھتے کہ گھر میں مطلع صاف ہے اور بے بے کے چہرے پر کوئی شکن نہیں ہے، تو وہ پکار کر کہتے “سب ایک ایک شعر سناؤ” پہلے مجھی سے تقاضا ہوتا اور میں چھوٹتے ہی کہتا:

لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور


اس پر وہ تالی بجاتے اور کہتے “اولین شعر نہ سنوں گا، اردو کا کم سنوں گا اور مسلسل نظم کا ہر گز نہ سنوں گا۔”

بی بی بھی میر ی طرح اکثر اس شعر سے شروع کرتی۔

شنیدم کہ شاپور دم در کشید
چو خسرو بر آتش قلم در کشید

اس پر داؤ جی ایک مرتبہ پھر آرڈر آرڈر پکارتے

بی بی قینچی رکھ کر کہتی:

شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشوریم
دیدیم کہ باقی ست شبِ فتنہ غنودیم

داؤ جی شاباش تو ضرور کہہ دیتے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے “بیٹا یہ شعر تُو کئی مرتبہ سنا چکی ہے۔”

پھر وہ بے بے کی طرف دیکھ کر کہتے۔ “بھئی آج تمہاری بے بے بھی ایک سنائے گی” مگر بے بے روکھا سا جواب دیتی “مجھے نہیں آتے شیر، کبت۔”

اس پر داؤ جی کہتے۔ “گھوڑیاں ہی سنا دے۔ اپنے بیٹوں کے بیاہ کی گھوڑیاں ہی گا دے۔

اس پر بے بے کے ہونٹ مسکرانے کو کرتے لیکن وہ مسکرا نہ سکتی اور داؤ جی عین عورتوں کی طرح گھوڑیاں گانے لگتے۔ ان کے درمیان کبھی امی چند اور کبھی میرا نام ٹانک دیتے۔ پھر کہتے “میں اپنے اس گولو مولو کی شادی پر سرخ پگڑی باندھوں گا۔ برات میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ چلوں گا اور نکاح نامے میں شہادت کے دستخط کروں گا۔ میں دستور کے مطابق شرما کر نگاہیں نیچی کر لیتا تو وہ کہتے۔ “پتہ نہیں اس ملک کے کسی شہر میں میری چھوٹی بہو پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھ رہی ہو گی، ہفتہ میں ایک دن لڑکیوں کی خانہ داری ہوتی ہے۔ اس نے تو بہت سی چیزیں پکانی سیکھ لی ہو گی۔ پڑھنے میں بھی ہوشیار ہو گی۔ اس بدھو کو تو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ مادیاں گھوڑیاں ہوتی ہے یا مرغی۔ وہ تو فر فر سب کچھ سناتی ہو گی۔ میں تو اس کو فارسی پڑھاؤں گا پہلے اس کو خطاطی کی تعلیم دوں گا پھر خطِ شکستہ سکھاؤں گا۔ مستورات کو خطِ شکستہ نہیں آتا۔ میں اپنی بہو کو سکھا دوں گاسن گولو! پھر میں تیرے پاس ہی رہو گا۔ میں اور میری بہو فارسی میں باتیں کریں گے۔ وہ بات بات پر بفرمائید بفرمائید کہے گی اور تو احمقوں کی طرح منہ دیکھا کرے گا۔ پھر وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے “خیلے خوب خیلے خوب” کہتے۔ جانِ پدر چرا ایں قدر زحمت می کشیخوبیاد دارماور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہتے۔ بچارے داؤ جی! چٹائی پر اپنی چھوٹی سی دنیا بسا کر اس میں فارسی کے فرمان جاری کئے جاتے

ایک دن جب چھت پر دھوپ پر بیٹھے ہوئے وہ ایسی ہی دنیا بسا چکے تھے تو ہولے سے مجھے کہنے لگے۔ “جس طرح خدا نے تجھے ایک نیک سیرت بیوی اور مجھے سعادت مند بہو عطا کی ہے ویسے ہی وہ اپنے فضل سے میرے امی چند کو بھی دے۔”

اس کے خیالات مجھے کچھ اچھے نہیں لگتے، یہ سوانگ یہ مسلم لیگ یہ بیلچہ پارٹیاں مجھے پسند نہیں اور امی چند لاٹھی چلانا گٹکا کھیلنا سیکھ رہا ہے میری تو وہ کب مانے گا، ہاں خدائے بزرگ و برتر اس کو ایک نیک مومن سی بیوی دلا دے تو وہ اسے راہِ راست پر لے آئے گی۔

اس مومن کے لفظ پر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور میں چپ سا ہو گیا۔ چپ محض اس لئے ہوا تھا کہ اگر میں نے منہ کھولا تو یقیناً ایسی بات نکلے گی جس سے داؤ جی کو بڑا دکھ ہو گامیری اور امی چند کی تو خیر باتیں ہی تھیں، لیکن بارہ جنوری کو بی بی کی برات سچ مچ آ گئی۔ جیجا جی رام پرتاب کے بارے میں داؤ جی مجھے بہت کچھ بتا چکے تھے کہ وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور اس شادی کے بارے میں انہوں نے جو استخارہ کیا تھا اس پر وہ پورا اترتا ہے۔ سب سے زیادہ خوشی داؤ جی کو اس بات کی تھی کہ ان کے سمدھی فارسی کے استاد تھے اور کبیر پنتھی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ بارہ تاریخ کی شام کو بی بی وداع ہونے لگی تو گھر بھرمیں کہرام مچ گیا، بے بے زار و قطار رو رہی ہے امی چند آنسو بہا رہا ہے اور محلے کی عورتیں پھس پھس کر رہی ہیں۔ میں دیوار کے ساتھ لگا کھڑا ہوں اور داؤ جی میرے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں آج زمین کچھ میرے پاؤ ں نہیں پکڑتی۔ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ جیجا جی کے باپ بولے۔ “منشی جی اب ہمیں اجازت دیجئے” تو بی بی پچھاڑ کر گر پڑی۔ اسے چارپائی پر ڈالا، عورتیں ہوا کرنے لگیں اور داؤ جی میرا سہارا لے کر اس کی چارپائی کی طرف چلے۔ انہوں نے بی بی کو کندھے سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا “یہ کیا ہوا بیٹا۔ اٹھو! یہ تو تمہاری نئی اور خود مختار زندگی کی پہلی گھڑی ہے۔ اسے یوں منحوس نہ بناؤ۔ بی بی اس طرح دھاڑیں مارتے ہوئے داؤ جی سے لپٹ گئی، انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا “قرة العین میں تیرا گنہگار ہوں کہ تجھے پڑھا نہ سکا۔ تیرے سامنے شرمندہ ہوں کہ تجھے علم کا جہیز نہ دے سکا۔ تو مجھے معاف کر دے گی اور شاید برخوردار رام پرتاب بھی لیکن میں اپنے کو معاف نہ کر سکوں گا۔ میں خطا کار ہوں اور میرا خجل سر تیرے سامنے خم ہے۔” یہ سن کر بی بی اور بھی زور زور سے رونے لگی اور داؤ جی کی آنکھوں سے کتنے سارے موٹے موٹے آنسوؤں کے قطرے ٹوٹ کر زمین پر گرے۔ ان کے سمدھی نے آگے بڑھ کر کہا۔ “منشی جی آپ فکر نہ کریں میں بیٹی کو کریما پڑھا دوں گا” داؤ جی ادھر پلٹے اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔ “کریما تو یہ پڑھ چکی ہے، گلستان بوستان بھی ختم کر چکا ہوں، لیکن میری حسرت پوری نہیں ہوئی۔” اس پر وہ ہنس کر بولے۔ “ساری گلستان تو میں نے بھی نہیں پڑھی، جہاں عربی آتی تھی، آگے گزر جاتا تھا’داؤ جی اسی طرح ہاتھ جوڑے کتنی دیر خاموش کھڑے رہے، بی بی نے گوٹہ لگی سرخ رنگ کی ریشمی چادر سے ہاتھ نکال کر پہلے امی چند اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور سکھیوں کے بازوؤں میں ڈیوڑھی کی طرف چل دی۔ داؤ جی میرا سہارا لے کر چلے تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ زور سے بھینچ کر کہا۔ “یہ لو یہ بھی رو رہا ہے۔ دیکھو ہمارا سہارا بنا پھرتا ہے۔ او گولواو مردم دیدہتجھے کیا ہو گیاجانِ پدر تو کیوں”

اس پر ان کا گلا رندھ گیا اور میرے آنسو بھی تیز ہو گئے۔ برات والے تانگوں اور اکوں پر سوار تھے۔ بی بی رتھ میں جا رہی تھی اور اس کے پیچھے امی چند اور میں اور ہمارے درمیان میں دا ؤ جی پیدل چل رہے تھے۔ اگر بی بی کی چیخ ذرا زور سے نکل جاتی تو داؤ جی آگے بڑھ کر رتھ کا پردہ اٹھا تے او ر کہتے۔ “لا حول پڑھو بیٹا، لاحول پڑھو۔”اور خود آنکھوں پر رکھے رکھے ان کی پگڑی کا شملہ بھیگ گیا تھا۔

رانو ہمارے محلے کا کثیف سا انسان تھا، بدی اور کینہ پروری اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھر ی تھی۔ وہ باڑہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اسی کا تھا۔ اس میں بیس تیس بکریاں اور گائیں تھیں جن کا دودھ صبح و شام رانو گلی کے بغلی میدان میں بیٹھ کر بیچا کرتا تھا۔ تقریباً سارے محلے والے اسی سے دودھ لیتے تھے اور اس کی شرارتوں کی وجہ سے دبتے بھی تھے۔ ہمارے گھر کے آگے سے گزرتے ہوئے وہ یونہی شوقیہ لاٹھی زمین پر بجا کر داؤ جی کو “پنڈتا جے رام جی کی “کہہ کر سلام کیا کرتا۔


داؤ جی نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا بھی کہ وہ پنڈت نہیں ہیں معمولی آدمی ہیں کیونکہ پنڈت ان کے نزدیک بڑے پڑھے لکھے اور فاضل آدمی کو کہا جا سکتا تھا لیکن رانو نہیں مانتا تھا وہ اپنی مونچھ کو چبا کر کہتا۔ “ارے بھئی جس کے سر پر بودی (چٹیا) ہو وہی پنڈت ہوتا ہے” چوروں یاروں سے اس کی آشنائی تھی شام کو اس کے باڑے میں جوا بھی ہوتا اور گندی اور فحش بولیوں کا مشاعرہ۔ بی بی کے جانے کے ایک دن بعد جب میں اس سے دودھ لینے گیا تو اس نے شرارت سے آنکھ میچ کر کہا۔ “مورنی تو چلی گئی بابو اب تو اس گھر میں رہ کر کیا لے گا۔” میں چپ رہا تو اس نے جھاگ والے دودھ میں ڈبہ پھیرتے ہوئے کہا۔ “گھر میں گنگا بہتی تھی سچ بتا کہ غوطہ لگایا کہ نہیں۔” مجھے اس بات پر غصہ آگیا اور میں نے تاملوٹ گھما کر اس کے سر پر دے مارا۔ اس ضربِ شدید سے خون وغیرہ تو برآمد نہ ہوا لیکن وہ چکرا کر تخت پر گرپڑا اور میں بھاگ گیا۔ داؤ جی کو سارا واقعہ سنا کر میں دوڑا دوڑا اپنے گھر گیا اور ابا جی سے ساری حکایت بیان کی۔ ان کی بدولت رانو کی تھانہ میں طلبی ہوئی اور حوالدار صاحب نے ہلکی سی گو شمالی کے بعد اسے سخت تنبیہ کر کے چھوڑ دیا۔ اس دن کے بعد رانو دا ؤ جی پر آتے جاتے طرح طرح کے فقرے کسنے لگا۔ وہ سب سے زیادہ مذاق ان کی بودی کا اڑایا کرتا تھا اور واقعی داؤ جی کے فاضل سر پر وہ چپٹی سی بودی ذرا اچھی نہ لگتی تھی۔ مگر وہ کہتے تھے۔ “یہ میری مرحوم ماں کی نشانی ہے اور مجھے اپنی زندگی کی طرح عزیز ہے۔ وہ اپنی آغوش میں میرا سر رکھ کر اسے دہی سے دھوتی تھی اور کڑوا تیل لگا کر چمکاتی تھی۔ گو میں نے حضرت مولانا کے سامنے کبھی بھی پگڑی اتارنے کی جسارت نہیں کی، لیکن وہ جانتے تھے اور جب میں دیال سنگھ میموریل ہائی سکول سے ایک سال کی ملازمت کے بعد چھٹیوں میں گاؤں آیا تو حضور نے پوچھا “شہر جا کر چوٹی تو نہیں کٹوا دی؟” تو میں نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا تم سا سعادت مند بیٹا کم ماؤں کو نصیب ہوتا ہے اور ہم سا خوش قسمت استاد بھی خال خال ہو گا جسے تم ایسے شاگردوں کو پڑھانے کا فخر حاصل ہوا ہو، میں نے ان کے پاؤں چھو کر کہا حضور آپ مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ سب آپ کے قدموں کی برکت ہے، ہنس کر فرمانے لگے چنت رام ہمارے پاؤں نہ چھوا کرو بھلا ایسے لمس کا کیا فائدہ جس کا ہمیں احساس نہ ہو۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کہا اگر کوئی مجھے بتا دے تو سمندر پھاڑ کر بھی آپ کے لئے دوائی نکال لاؤں۔ میں اپنی زندگی کی حرارت حضور کی ٹانگوں کے لئے نذر کر دوں لیکن میرا بس نہیں چلتاخاموش ہو گئے اور نگاہیں اوپر اٹھا کر بولے خدا کو یہی منظور ہے تو ایسے ہی سہی۔ تم سلامت رہو کہ تمہارے کندھوں پر میں نے کوئی دس سال بعد سارا گاؤں دیکھ لیا ہے” داؤ جی گزرے ایام کی تہہ میں اترتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

“میں صبح سویرے حویلی کی ڈیوڑھی میں جا کر آواز دیتا “خادم آ گیا” مستورات ایک طرف ہو جاتیں تو حضور صحن سے آواز دے کر مجھے بلاتے اور میں اپنی قسمت کو سراہتا ہاتھ جوڑے جوڑے ان کی طرف بڑھتا۔ پاؤں چھوتا اور پھر حکم کا انتظار کرنے لگتا، وہ دعا دیتے میرے والدین کی خیریت پوچھتے، گاؤں کا حال دریافت فرماتے اور پھر کہتے “لو بھئی چنت رام ان گناہوں کی گٹھڑی کو اٹھا لو” میں سبدِ گل کی طرح انہیں اٹھاتا اور کمر پر لاد کر حویلی سے باہر آ جاتا۔ کبھی فرماتے، ہمیں باغ کا چکر دو کبھی حکم ہوتا سیدھے رہٹ کے پاس لے چلو اور کبھی کبھار بڑی نرمی سے کہتے چنت رام تھک نہ جاؤ تو ہمیں مسجد تک لے چلو۔ میں نے کئی بار عرض کیا کہ حضور ہر روز مسجد لے جایا کروں گا مگر نہیں مانے یہی فرماتے رہے کہ کبھی جی چاہتا ہے تو تم سے کہہ دیتا ہوں۔ میں وضو کرنے والے چبوترے پر بٹھا کر ان کے ہلکے ہلکے جوتے اتارتا اور انہیں جھولی میں رکھ کر دیوار سے لگ کر بیٹھ جاتا۔ چبوترے سے حضور خود گھسٹ کر صف کی جانب جاتے تھے۔ میں نے صرف ایک مرتبہ انہیں اس طرح جاتے دیکھا تھا اس کے بعد جرأت نہ ہوئی۔ ان کے جوتے اتارنے کے بعد دامن میں منہ چھپا لیتا اور پھر اسی وقت سر اٹھاتا جب وہ میرا نام لے کر یاد فرماتے۔ واپسی پر میں قصبے کی لمبی لمبی گلیوں کا چکر کاٹ کر حویلی کو لوٹتا۔ تو فرماتے ہم جانتے ہیں چنت رام تم ہماری خوشنودی کے لئے قصبہ کی سیر کراتے ہو لیکن ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ایک تو تم پر لدا لدا پھرتا ہوں اور مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہما ہے دوسرے تمہارا وقت ضائع کرتا ہوں۔ اور حضور سے کون کہہ سکتا کہ آقا یہ وقت ہی میری زندگی کا نقطۂ عروج ہے اور یہ تکلیف ہی میری حیات کا مرکز ہے۔

اور حضور سے کون کہہ سکتا کہ آقا یہ وقت ہی ایک ہما ہے جس نے اپنا سایہ محض میرے لئے وقف کر دیا ہےجس دن میں نے سکندر نامہ زبانی یاد کر کے انہیں سنایا۔ اس قدر خوش ہوئے گویا ہفت اقلیم کی بادشاہی نصیب ہو گئی۔ دین و دنیا کی ہر دعا سے مجھے مالا مال کیا۔ دستِ شفقت میرے سر پر پھیرا اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر انعام دیا۔ میں نے اسے حجرِ اسود جان کر بوسہ دیا۔ آنکھوں سے لگایا اور سکندر کا افسر سمجھ کر پگڑی میں رکھ لیا۔ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر دعائیں دے رہے تھے اور فرما رہے تھے جو کام ہم سے نہ ہو سکا وہ تو نے کر دکھایا۔ تو نیک ہے خدا نے تجھے یہ سعادت نصیب کی۔ چنت رام تیرا مویشی چرانا پیشہ ہے تُو شاہ بطحا کا پیرو ہے اس لئے خدائے عز و جل تجھے برکت دیتا ہے وہ تجھے اور بھی برکت دے گا۔ تجھے اور کشائش میسر آئے گی”

داؤ جی یہ باتیں کرتے کرتے گھٹنوں پر سر رکھ کر خاموش ہو گئے۔

میرا امتحان قریب آ رہا تھا اور داؤ جی سخت ہوتے جا رہے تھے۔ انہوں نے میرے ہر فارغ وقت پر کوئی نہ کوئی کام پھیلا دیا تھا۔ ایک مضمون سے عہدہ برا ہوتا تو دوسرے کی کتابیں نکال کر سر پر سوار ہو جاتے تھے۔ پانی پینے اٹھتا تو سایہ کی طرح ساتھ ساتھ چلے آتے اور نہیں تو تاریخ کے سن ہی پوچھتے جاتے۔ شام کے وقت سکول پہنچنے کا انہوں نے وطیرہ بنا لیا تھا۔ ایک دن میں سکول کے بڑے دروازے سے نکلنے کی بجائے بورڈنگ کی راہ پر کھسک لیا تو انہوں نے جماعت کے کمرے کے سامنے آ کر بیٹھنا شروع کر دیا۔ میں چڑچڑا اور ضدی ہونے کے علاوہ بد زبان بھی ہو گیا تھا۔ داؤ جی کے بچے، گویا میرا تکیہ کلام بن گیا تھا اور کبھی کبھی جب ان کی یا ان کے سوالات کی سختی بڑھ جاتی تو میں انہیں کتے کہنے سے بھی نہ چوکتا۔ ناراض ہو جاتے تو بس اس قدر کہتے “دیکھ لے ڈومنی تو کیسی باتیں کر رہا ہے۔ تیری بیوی بیاہ کر لاؤں گا تو پہلے اسے یہی بتاؤں گا کہ جانِ پدر یہ تیرے باپ کو کتا کہتا تھا۔ ” میری گالیوں کے بدلے وہ مجھے ڈومنی کہا کرتے تھے۔ اگر انہیں زیادہ دکھ ہوتا تو منہ چڑی ڈومنی کہتے۔ اس سے زیادہ نہ انہیں غصہ آتا تھا نہ دکھ ہوتا تھا۔ میرے اصلی نام سے انہوں نے کبھی نہیں پکارا میرے بڑے بھائی کا ذکر آتا تو بیٹا آفتاب، برخوردار آفتاب کہہ کر انہیں یاد کرتے تھے لیکن میرے ہر روز نئے نئے نام رکھتے تھے۔ جن میں گولو انہیں بہت مرغوب تھا۔ طنبورا دوسرے درجہ پر مسٹر ہونق اور اخفش اسکوائر ان سب کے بعد آتے تھے اور ڈومنی صرف غصہ کی حالت میں۔ کبھی کبھی میں ان کو بہت دق کرتا۔ وہ اپنی چٹائی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے ہیں، مجھے الجبرے کا ایک سوال دے رکھا ہے اور میں سارے جہان کی ابجد کو ضرب دے دے کر تنگ آ چکا ہوں تو میں کاپیوں اور کتابوں کے ڈھیر کو پاؤں سے پرے دھکیل کر اونچے اونچے گانے لگتا۔

تیرے سامنے بیٹھ کے رونا تے دکھ تینوں نیو دسنا

دا ؤ جی حیرانی سے میری طرف دیکھتے تو میں تالیاں بجانے لگتا اور قوالی شروع کر دیتا۔ نیوں نیوں نیوں دسنا۔ تے دکھ تینوں نیوں دسنادسنا دسنا دسناتینوں تینوں تینوں۔ سارے گاما رونا رونا سارے گاما رونا روناتے دیکھ تینوں نیوں دسنا۔ وہ عینک کے اوپر سے مسکراتے۔ میرے پاس آ کر کاپی اٹھاتے، صفحہ نکالتے اور تالیوں کے درمیان اپنا بڑا سا ہاتھ کھڑا کر دیتے۔

“سن بیٹا” وہ بڑی محبت سے کہتے “یہ کوئی مشکل سوال ہے! ” جونہی وہ سوال سمجھانے کے لئے ہاتھ نیچے کرتے میں پھر تالیاں بجانے لگتا۔ “دیکھ پھر، میں تیرا داؤ نہیں ہو؟” وہ بڑے مان سے پوچھتے۔

“نہیں” میں منہ پھاڑ کر کہتا۔

“تو اور کون ہے ؟” وہ مایوس سے ہو جاتے۔

“وہ سچی سرکار” میں انگلی آسمان کی طرف کر کے شرارت سے کہتا۔ وہ سچی سرکار، وہ سب کا پالنے والابول بکرے سب کا والی کون؟”

وہ میرے پاس سے اٹھ کر جانے لگتے تو میں ان کی کمر میں ہاتھ ڈال دیتا “داؤ جی خفا ہو گئے کیا۔” وہ مسکرانے لگتے۔ “چھوڑ طنبورے! چھوڑ بیٹا! میں تو پانی پینے جا رہا تھامجھے پانی تو پی آنے دے۔

میں جھوٹ موٹ برامان کر کہتا۔ “لوجی جب مجھے سوال سمجھنا ہوا داؤ جی کو پانی یاد آگیا۔”

وہ آرام سے بیٹھ جاتے اور کاپی کھول کر کہتے۔ “اخفش اسکوائر جب تجھے چار ایکس کا مربع نظر آ رہا تھا تو تو نے تیسرا فارمولا کیوں نہ لگایا اور اگر ایسا نہ بھی کرتا تو”اور اس کے بعد پتہ نہیں داؤ جی کتنے دن پانی نہ پیتے۔


فروری کے دوسرے ہفتہ کی بات ہے۔ امتحان میں کل ڈیڑھ مہینہ رہ گیا تھا اور مجھ پر آنے والے خطرناک وقت کا خوف بھوت بن کر سوار ہو گیا تھا۔ میں نے خود اپنی پڑھائی پہلے سے تیز کر دی تھی اور کافی سنجیدہ ہو گیا تھا لیکن جیومیٹری کے مسائل میری سمجھ میں نہ آتے تھے۔ داؤ جی نے بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ آخر ایک دن انہوں نے کہا کُل باون پراپوزیشنیں ہیں زبانی یاد کر لے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ میں انہیں رٹنے میں مصروف ہو گیا لیکن جو پراپوزیشن رات کو یاد کرتا صبح کو بھول جاتا۔ میں دل برداشتہ ہو کر ہمت چھوڑ سی بیٹھا۔ ایک رات داؤ جی مجھ سے جیومیٹری کی شکلیں بنوا کر اور مشقیں سن کر اٹھے تو وہ بھی کچھ پریشان سے ہو گئے تھے۔ میں بار بار اٹکا تھا اور انہیں بہت کوفت ہوئی تھی۔ مجھے سونے کی تاکید کر کے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تو میں کاپی پینسل لے کر پھر بیٹھ گیا اور رات کے ڈیڑھ بجے تک لکھ لکھ کر رٹا لگاتا رہا مگر جب کتاب بند کر کے لکھنے لگتا تو چند فقروں کے بعد اٹک جاتا۔ مجھے داؤ جی کا مایوس چہرہ یاد کر کے اور اپنی حالت کا اندازہ کر کے رونا آگیا اور میں باہر صحن میں آ کر سیڑھیوں پر بیٹھ کے سچ مچ رونے لگا، گھٹنوں پر سر رکھے رو رہا تھا اور سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تو میں نے داؤ جی کی عزت بچانے کے لئے یہی ترکیب سوچی کہ ڈیوڑھی کا دروازہ کھول کر چپکے سے نکال جاؤں اور پھر واپس نہ آؤں۔ جب یہ فیصلہ کر چکا اور عملی قدم آگے بڑھانے کے لئے سر اوپر اٹھایا تو داؤ جی کمبل اوڑھے میرے پاس کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگایا تو سسکیوں کا لامتناہی سلسلہ صحن میں پھیل گیا۔ داؤ جی نے میرا سر چوم کر کہا۔ “لے بھئی طنبورے میں تو یوں نہ سمجھتا تھا تو تو بہت ہی کم ہمت نکلا۔” پھر انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کمبل میں لپیٹ لیا اور بیٹھک میں لے آئے۔ بستر میں بٹھا کر انہوں نے میرے چاروں طرف رضائی لپیٹی اور خود پاؤں اوپر کر کے کرسی پر بیٹھ گئے۔

انہوں نے کہا “اقلیدس چیز ہی ایسی ہے۔ تو اس کے ہاتھوں یوں نالا ں ہے، میں اس سے اور طرح تنگ ہوا تھا۔ حضرت مولانا کے پاس جبر و مقابلہ اور اقلیدس کی جس قدر کتابیں تھیں انہیں میں اچھی طرح پڑھ کر اپنی کاپیوں پر اتار چکا تھا۔ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے الجھن ہوتی۔ میں نے یہ جانا کہ ریاضی کا ماہر ہو گیا ہوں لیکن ایک رات میں اپنی کھاٹ پر پڑا متساوی الساقلین کے ایک مسئلہ پر غور کر رہا تھا کہ بات الجھ گئی۔ میں نے دیا جلا کر شکل بنائی اور اس پر غور کرنے لگا۔ جبر و مقابلہ کی رو سے اس کا جواب ٹھیک آتا تھا لیکن علمِ ہندسہ سے پایۂ ثبوت کو نہ پہنچتا تھا۔ میں ساری رات کاغذ سیاہ کرتا رہا لیکن تیری طرح سے رویا نہیں۔ علی الصبح میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اپنے دستِ مبارک سے کاغذ پر شکل کھینچ کر سمجھانا شروع کیا لیکن جہاں مجھے الجھن ہوئی تھی وہیں حضرت مولانا کی طبعِ رسا کو بھی کوفت ہوئی۔ فرمانے لگے۔ “چنت رام اب ہم تم کو نہیں پڑھا سکتے۔ جب استاد اور شاگرد کا علم ایک سا ہو جائے تو شاگرد کو کسی اور معلم کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ” میں نے جرأت کر کے کہہ دیا کہ حضور اگر کوئی اور یہ جملہ کہتا تو میں اسے کفر کے مترادف سمجھتا لیکن آپ کا ہر حرف اور ہر شوشہ میرے لئے حکمِ ربانی سے کم نہیں۔ اس لئے خاموش ہو ں۔ بھلا آقائے غزنوی کے سامنے ایاز کی مجال! لیکن حضور مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ فرمانے لگے “تم بے حد جذباتی آدمی ہو۔ بات تو سن لی ہوتی، میں نے سر جھکا کر کہا ارشاد! فرمایا “دلی میں حکیم ناصر علی سیستانی علمِ ہندسہ کے بڑے ماہر ہیں اگر تم کو اس کا ایسا ہی شوق ہے تو ان کے پاس چلے جاؤ اور اکتسابِ علم کرو۔ ہم ان کے نام رقعہ لکھ دیں گے۔ میں نے رضا مندی ظاہر کی تو فرمایا اپنی والدہ سے پوچھ لینا اگر وہ رضامند ہوں تو ہمارے پاس آناوالدہ مرحومہ سے پوچھا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق جواب پانا انہونی بات تھی۔ چنانچہ میں نے ان سے نہیں پوچھا۔

حضور پوچھتے تو میں دروغ بیانی سے کام لیتا کہ گھر کی لپائی تپائی کر رہا ہوں جب فارغ ہوں گا تو والدہ سے عرض کروں گا۔”

چند ایام بڑے اضطرار کی حالت میں گزرے۔ میں دن رات اس شکل کو حل کرنے کی کوشش کرتا مگر صحیح جواب برآمد نہ ہوتا۔ اس لا ینحل مسئلہ سے طبیعت میں اور انتشار پیدا ہوا۔ میں دلی جانا چاہتا تھا لیکن حضور سے اجازت مل سکتی تھی نہ رقعہ، وہ والدہ کی رضامندی کے بغیر اجازت دینے والے نہ تھے اور والدہ اس بڑھاپا میں کیسے آمادہ ہو سکتی تھیںایک رات جب سارا گاؤں سو رہا تھا اور میں تیری طرح پریشان تھا تو میں نے اپنی والدہ کی پٹاری سے اس کی کل پونجی دو روپے چرائے اور نصف اس کے لئے چھوڑ کر گاؤں سے نکل گیا۔ خدا مجھے معاف کرے اور میرے دونوں بزرگوں کی روحوں کو مجھ پر مہربان رکھے! واقعی میں نے بڑا گناہ کیا اور ابد تک میرا سر ان دونوں کرم فرماؤں کے سامنے ندامت سے جھکا رہے گاگاؤں سے نکل کر میں حضور کی حویلی کے پیچھے ان کی مسند کے پاس پہنچا جہاں بیٹھ کر آپ پڑھاتے تھے۔ گھٹنوں کے بل ہو کر میں نے زمین کو بوسہ دیا اور دل میں کہا۔ “بد قسمت ہوں، بے اجازت جا رہا ہوں لیکن آپ کی دعاؤں کا عمر بھر محتاج رہوں گا۔ میرا قصور معاف نہ کیا تو آ کے قدموں میں جان دے دوں گا۔ اتنا کہہ کر اٹھا اور لاٹھی کندھے پر رکھ کر میں وہاں سے چل دیاسن رہا ہے؟” داؤ جی نے میری طرف غور سے دیکھ کر پوچھا۔

رضائی کے بیچ خارپشت بنے، میں نے آنکھیں جھپکائیں اور ہولے سے کہا۔ “جی؟”

داؤ جی نے پھر کہنا شروع کیا “قدرت نے میری کمال مدد کی۔ ان دنوں جاکھل جنید سرسہ حصار والی پٹڑی بن رہی تھی۔ یہی راستہ سیدھا دلی کو جاتا تھا اور یہیں مزدوری ملتی تھی۔ ایک دن میں مزدوری کرتا اور ایک دن چلتا، اس طرح تائیدِ غیبی کے سہارے سولہ دن میں دلی پہنچ گیا۔ منزل مقصود تو ہاتھ آ گئی تھی لیکن گوہرِ مقصود کا سراغ نہ ملتا تھا۔ جس کسی سے پوچھتا حکیم ناصر علی سیستانی کا دولت خانہ کہاں ہے، نفی میں جواب ملتا۔ دو دن ان کی تلاش جاری رہی لیکن پتہ نہ پا سکا۔ قسمت یاور تھی صحت اچھی تھی۔ انگریزوں کے لئے نئی کوٹھیاں بن رہی تھیں۔ وہاں کام پر جانے لگا۔ شام کو فارغ ہو کر حکیم صاحب کا پتہ معلوم کرتا اور رات کے وقت ایک دھرم شالہ میں کھیس پھینک کر گہری نیند سو جاتا۔ مثل مشہور ہے جوئندہ یابندہ! آخر ایک دن مجھے حکیم صاحب کی جائے رہائش معلوم ہو گئی، وہ پتھر پھوڑوں کے محلہ کی ایک تیرہ و تاریک گلی میں رہتے تھے شام کے وقت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں فروکش تھے اور چند دوستوں سے اونچے اونچے گفتگو ہو رہی تھی۔ میں جوتے اتار کر دہلیز کے اندر کھڑا ہو گیا۔ ایک صاحب نے پوچھا۔”کون ہے؟” میں نے سلام کر کے کہا۔ “حکیم صاحب سے ملنا ہے۔” حکیم صاحب دوستوں کے حلقہ میں سر جھکائے بیٹھے تھے اور ان کی پشت میری طرف تھی۔ اسی طرح بیٹھے بولے “اسم گرامی” میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ “پنجاب سے آیا ہوں اور ” میں بات پوری بھی نہ کرپا یا تھا کہ زور سے بولے “اوہو! چنت رام ہو؟” میں کچھ جواب نہ دے سکا۔ فرمانے لگے۔ “مجھے اسماعیل کا خط ملا ہے لکھتا ہے شاید چنت رام تمہارے پاس آئے۔ ہمیں بتائے بغیر گھر سے فرار ہو گیا ہے اس کی مدد کرنا۔ ” میں اسی طرح خاموش کھڑا رہا تو پاٹ دار آواز میں بولے “میاں اندر آ جاؤ کیا چپ کا روزہ رکھا ہے؟” میں ذرا آگے بڑھا تو بھی میری طرف نہ دیکھا اور ویسے ہی عروسِ نو کی طرح بیٹھے رہے۔ پھر قدرے تحکمانہ انداز میں کہا۔ “برخوردار بیٹھ جاؤ۔ میں وہیں بیٹھ گیا تو اپنے دوستوں سے فرمایا، بھئی ذرا ٹھہرو مجھے اس سے دو دو ہاتھ کر لینے دو۔ پھر حکم ہوا بتاؤ ہندسہ کا کونسا مسئلہ تمہاری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا تو انہوں نے اسی طرح کندھوں کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور آہستہ آہستہ کُرتا یوں اوپر کھینچ لیا کہ ان کی کمر برہنہ ہو گئی۔ پھر فرمایا۔ “بناؤ اپنی انگلی سے میری کمر پر ایک متساوی الساقین۔” مجھ پر سکتہ کا عالم طاری تھا۔ نہ آگے بڑھنے کی ہمت تھی نہ پیچھے ہٹنے کی طاقت۔ ایک لمحہ کے بعد بولے، میاں جلدی کرو۔ نابینا ہوں۔ کاغذ قلم کچھ نہیں سمجھتا۔ میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا اور ان کی چوڑی چکلی کمر پر ہانپتی ہوئی انگلیوں سے متساوی الساقین بنانے لگا۔ جب وہ غیر مرئی شکل بن چکی تو بولے اب اس نقطہ”س” سے خط “ب ج” پر عمود گراؤ۔ ایک تو میں گھبرایا ہوا تھا دوسرے وہاں کچھ نہ آتا تھا۔ یونہی اٹکل سے میں نے ایک مقام پر انگلی رکھ کر عمود گرانا چاہا تو تیزی سے بولے ہے ہے کیا کرتے ہو یہ نقطہ ہے کیا؟

پھر خود ہی بولے آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گے۔ وہ بول رہے تھے اور میں مبہوت بیٹھا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ابھی ان کے آخری جملے کے ساتھ نور کی لکیر متساوی الساقین بن کر ان کی کمر پر ابھر آئیں گی۔” پھر داؤ جی دلی کے دنوں میں ڈوب گئے۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں وہ میری طرف دیکھ رہے تھے لیکن مجھے نہیں دیکھ رہے تھے۔ میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔ “پھر کیا ہوا داؤ جی؟”انہوں نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا “رات بہت گزر چکی ہے اب تو سو جا پھر بتاؤں گا۔” میں ضدی بچے کی طرح ان کے پیچھے پڑ گیا تو انہوں نے کہا۔ “پہلے وعدہ کر کہ آئندہ مایوس نہیں ہو گا اور ان چھوٹی چھوٹی پراپوزیشنوں کو پتاشے سمجھے گا” میں نے جواب دیا۔ “حلوہ سمجھوں گا آپ فکر نہ کریں” انہوں نے کھڑے کھڑے کمبل لپیٹتے ہوئے کہا۔ “بس مختصر یہ کہ میں ایک سال حکیم صاحب کی حضوری میں رہا اور اس بحرِ علم سے چند قطرے حاصل کر کے اپنی کور آنکھوں کو دھویا۔ واپسی پر میں سیدھا اپنے آقا کی خدمت میں پہنچا اور ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ فرمانے لگے چنت رام اگر ہم میں قوت ہو تو ان پاؤں کو کھینچ لیں۔ اس پر میں رو دیا تو دستِ مبارک محبت سے میرے سر پر پھیر کر کہنے لگے، ہم تم سے ناراض نہیں ہیں لیکن ایک سال کی فرقت بہت طویل ہے۔ آئندہ کہیں جانا ہو تو ہمیں بھی ساتھ لے جانا، یہ کہتے ہوئے داؤ جی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ مجھے اسی طرح گم سم چھوڑ کر بیٹھک میں چلے گئے۔”


امتحان کی قربت سے میرا خون خشک ہو رہا تھا لیکن جسم پھول رہا تھا۔ داؤ جی کو میرے موٹاپے کی فکر رہنے لگی۔ اکثر میرے تھن متھنے ہاتھ پکڑ کر کہتے۔ “اسپِ تازی بن طویلہ خر نہ بن۔” مجھے ان کا یہ فقرہ بہت ناگوار گزرتا اور میں احتجاجاً ان سے کلام بند کر دیتا۔ میرے مسلسل مرن برت نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا اور ان کی فکر، اندیشہ کی حد تک بڑھ گئی۔ ایک صبح سیر کو جانے سے پہلے انہوں نے مجھے آ جگایا اور میری منتوں، خوشامدوں، گالیوں اور جھڑکیوں کے باوجود بستر سے اٹھا کوٹ پہنا کر کھڑا کر دیا۔ پھر وہ مجھے بازو سے پکڑ کر گویا گھسیٹتے ہوئے باہر گئے۔ سردیوں کی صبح کوئی چار بجے کا عمل۔ گلی میں آدم نہ آدم زاد، تاریکی سے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا اور داؤ جی مجھے اسی طرح سیر کو لے جا رہے تھے۔ میں کچھ بک رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے ابھی گراں خوابی دور نہیں ہوئی ابھی طنبورا بڑبڑا رہا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کہتے کوئی سر نکال طنبورے کی آہنگ پر بجا یہ کیا کر رہا ہے! جب ہم بستی سے دور نکل گئے اور صبح کی یخ ہوا نے میری آنکھوں کو زبردستی کھول دیا تو داؤ جی نے میرا بازو چھوڑ دیا۔ سرداروں کا رہٹ آیا اور نکل گیا۔ ندی آئی اور پیچھے رہ گئی۔ قبرستان گزر گیا مگر داؤ جی تھے کہ کچھ آیتیں ہی پڑھتے چلے جا رہے تھے۔ جب تھبہ پر پہنچے تو میری روح فنا ہو گئی۔ یہاں سے لوگ دوپہر کے وقت بھی نہ گزرتے تھے کیونکہ پرانے زمانے میں یہاں ایک شہر غرق ہو ا تھا۔ مرنے والوں کی روحیں اسی ٹیلے پر رہتی تھیں اور آنے جانے والوں کا کلیجہ چبا جاتی تھیں۔ میں خوف سے کانپنے لگا تو داؤ جی نے میرے گلے کے گرد مفلر اچھی طرح لپیٹ کر کہا۔

سامنے ان دو کیکروں کے درمیان اپنی پوری رفتار سے دس چکر لگاؤ، پھر سو لمبی سانسیں کھینچو اور چھوڑ دو، تب میرے پاس آؤ، میں یہاں بیٹھتا ہوں، میں تھبہ سے جان بچانے کے لئے سیدھا ان کیکروں کی طرف روانہ ہو گیا۔ پہلے ایک بڑے سے ڈھیلے پر بیٹھ کر آرام کیا اور ساتھ ہی حساب لگایا کہ چھ چکروں گا وقت گزر چکا ہو گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ اونٹ کی طرح کیکروں کے درمیان دوڑنے لگا اور جب دس یعنی چار چکر پورے ہو گئے تو پھر اسی ڈھیلے پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں کھینچنے لگا۔ ایک تو درخت پر عجیب و غریب قسم کے جانور بولنے لگے تھے دوسرے میری پسلی میں بلا کا درد شروع ہو گیا تھا۔ یہی مناسب سمجھا کہ تھبہ پر جا کر داؤ جی کو سوئے ہوئے اٹھاؤں اور گھر لے جا کر خوب خاطر کروں؟ غصہ سے بھرا اور دہشت سے لرزتا میں ٹیلے کے پاس پہنچا۔ داؤ جی تھبہ کی ٹھیکریوں پر گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیوانوں کی طرح سر مار رہے تھے اور اونچے اونچے اپنا محبوب شعر گار ہے تھے۔

جفا کم کن کہ فردا روزِ محشر
بہ پیشِ عاشقاں شرمندہ باشی!

کبھی دونوں ہتھیلیاں زور سے زمین پر مارتے اور سر اوپر اٹھا کر انگشتِ شہادت فضا میں یوں ہلاتے۔ جیسے کوئی ان کے سامنے کھڑا ہو اور اس سے کہہ رہے ہو دیکھ لو، سوچ لو میں تمہیںمیں تمہیں بتا رہا ہوں سنا رہا ہوںایک دھمکی دئے جاتے تھے۔ پھر تڑپ کر ٹھیکریوں پر گرتے اور جفا کم کن جفا کم کن کہتے ہوئے رونے لگتے۔ تھوڑی دیر میں ساکت و جامد کھڑا رہا اور پھر زور سے چیخ مار کر بجائے قصبہ کی طرف بھاگنے کے پھر کیکروں کی طرف دوڑ گیا۔ داؤ جی ضرور اسمِ اعظم جانتے تھے اور وہ جن قابو کر رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک جن ان کے سامنے کھڑا دیکھا تھا۔ بالکل الف لیلیٰ با تصویر والا جن تھا۔ جب داؤ جی کا طلسم اس پر نہ چل سکا تو اس نے انہیں نیچے گرا لیا تھا۔ وہ چیخ رہے تھے جفا کم کن جفا کم کن مگر وہ چھوڑتا نہیں تھا۔ میں اسی ڈھیلے پر بیٹھ کر رونے لگاتھوڑی دیر بعد داؤ جی آئے انہوں نے پہلے جیسا چہرہ بنا کر کہا۔ “چل طنبورے” اور میں ڈرتا ڈرتا ان کے پیچھے ہو لیا۔ راستہ میں انہوں نے گلے میں لٹکتی ہوئی کھلی پگڑی کے دونوں کونے ہاتھ میں پکڑ لئے اور جھوم جھوم کر گانے لگے۔

تیرے لمے لمے وال فریدا ٹریا جا!

اس جادو گر کے پیچھے چلتے ہوئے میں نے ان آنکھوں سے واقعی ان آنکھوں سے دیکھا کہ ان کا سر تبدیل ہو گیا۔ ان کی لمبی لمبی زلفیں کندھوں پر جھولنے لگیں اور ان کا سارا وجود جٹا دھاری ہو گیااس کے بعد چاہے کوئی میری بوٹی بوٹی اڑا دیتا، میں ان کے ساتھ سیر کو ہر گز نہ جاتا!

اس واقعہ کے چند ہی دن بعد کا قصہ ہے کہ ہمارے گھر میں مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اور اینٹوں کے ٹکڑے آ کر گرنے لگے۔ بے بے نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ کتیا کی بچوں کی طرح داؤ جی سے چمٹ گئی۔ سچ مچ ان سے لپٹ کر گئی اور انہیں دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ وہ چلا رہی تھی۔ “بڈھے ٹوٹکی یہ سب تیرے منتر ہیں۔ یہ سب تیری خارسی ہے۔ تیرا کالا علم ہے جو الٹا ہمارے سر پر آگیا ہے۔ تیرے پریت میرے گھر میں اینٹیں پھینکتے ہیں۔ اجاڑ مانگتے ہیں۔ موت چاہتے ہیں۔” پھر وہ زور زور سے چیخنے لگی “میں مر گئی، میں جل گئی، لوگوں اس بڈھے نے میرے امی چند کی جان لینے کا سمبندھ کیا ہے۔ مجھ پر جادو کیا ہے اور میرا انگ انگ توڑ دیا ہے۔” امی چند تو داؤ جی کو اپنی زندگی کی طرح عزیز تھا اور اس کی جان کے دشمن بھلا وہ کیونکر ہو سکتے تھے لیکن جنوں کی خشت باری انہیں کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ جب میں نے بھی بے بے کی تائید کی تو داؤ جی نے زندگی میں پہلی بار مجھے جھڑک کر کہا “تو احمق ہے اور تیری بے بے ام الجاہلینمیری ایک سال کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ تو جنوں بھوتوں میں اعتقاد کرنے لگا۔ افسوس تو نے مجھے مایوس کر دیا، اے وائے کہ تو شعور کی بجائے عورتوں کے اعتقاد کا غلام نکلا۔ افسوس صد افسوس” بے بے کو اسی طرح چلاتے اور داؤ جی کو یوں کراہتے چھوڑ کر میں اوپر کوٹھے پر دھوپ میں جا بیٹھا اسی دن شام کو جب میں اپنے گھر جا رہا تھا تو راستے میں رانو نے اپنے مخصوص انداز میں آنکھ کانی کر کے پوچھا “بابو تیرے کوئی اینٹ ڈھیلا تو نہیں لگا؟ سنا ہے تمہارے پنڈت کے گھر میں روڑے گرتے ہیں۔”

میں نے اس کمینہ کے منہ لگنا پسند نہ کیا اور چپ چاپ ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔ رات کے وقت داؤ جی مجھ سے جیومیٹری کی پراپوزیشن سنتے ہوئے پوچھنے لگے “بیٹا کیا تم سچ مچ جن، بھوت یا پری چڑیل کو کوئی مخلوق سمجھتے ہو؟” میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ ہنس پڑے اور بولے واقعی تو بہت بھولا ہے اور میں نے خواہ مخواہ جھڑ ک دیا۔ بھلا تو نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا کہ جن ہوتے ہیں اور اس طرح سے اینٹیں پھینک سکتے ہیں۔ ہم نے جو دلی اور پھتے مزدور کو بلا کر برساتی بنوائی ہے، وہ تیرے کسی جن کو کہہ کر بنوا لیتے لیکن یہ تو بتا کہ جن صرف اینٹیں پھینکنے کا کام ہی کرتے ہیں کہ چنائی بھی کر لیتے ہیں۔” میں نے جل کر کہا “جتنے مذاق چاہو کر لو مگر جس دن سر پھٹے گا اس دن پتہ چلے گا داؤ۔” داؤ جی نے کہا “تیرے جن کی پھینکی ہوئی اینٹ سے تو تا قیامت سر نہیں پھٹ سکتا اس لئے کہ وہ نہ ہے نہ اس سے اینٹ اٹھائی جا سکے گی اور نہ میرے تیرے یا تیری بے بے کے سر میں لگے گی۔”

پھر بولے۔ “سن! علمِ طبعی کا موٹا اصول ہے کہ کوئی مادی شے کسی غیر مادی وجود سے حرکت میں نہیں لائی جا سکتی سمجھ گیا۔”

“سمجھ گیا” میں نے چڑ کر کہا۔

ہمارے قصبہ میں ہائی سکول ضرور تھا لیکن میٹرک کا امتحان کا سنٹر نہ تھا۔ امتحان دینے کے لئے ہمیں ضلع جانا ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ صبح آ گئی جس دن ہماری جماعت امتحان دینے کے لئے ضلع جا رہی تھی اور لاری کے ارد گرد والدین قسم کے لوگوں کا ہجوم تھا اور اس ہجوم میں داؤ جی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ اور سب لڑکوں کے گھر والے انہیں خیر و برکت کی دعاؤ ں سے نواز رہے تھے اور داؤ جی سارے سال کی پڑھائی کا خلاصہ تیار کر کے جلدی جلدی سوال پوچھ رہے تھے اور میرے ساتھ ساتھ خود ہی جواب دیتے جاتے تھے۔ اکبر کی اصطلاحات سے اچھل کر موسم کے تغیر و تبدل پر پہنچ جاتے وہاں سے پلٹتے تو “اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا کہ اپنی وضع سے ہندو معلوم ہوتا تھا۔ وہ نشہ میں چور تھا ایک صاحبِ جمال اس کا ہاتھ پکڑ کر لے آئی تھی اور جدھر چاہتی تھی پھراتی تھی ” کہہ کر پوچھتے تھے یہ کون تھا؟

“جہانگیر ” میں نے جواب دیا۔ اور وہ عورت۔ “نور جہان” ہم دونوں ایک ساتھ بولے”صفتِ مشبہ اور اسم فاعل میں فرق؟” میں نے دونوں کی تعریفیں بیان کیں۔ بولے مثالیں؟ میں نے مثالیں دیں۔ سب لڑکے لاری میں بیٹھ گئے اور میں ان سے جان چھڑا کر جلدی سے داخل ہوا تو گھوم کر کھڑکی کے پاس آ گئے اور پوچھنے لگے بریک ان اور بیک ان ٹو کو فقروں میں استعمال کرو۔ ان کا استعمال بھی ہو گیا اور موٹر سٹارٹ ہو چلی تو اس کے ساتھ قدم اٹھا کر بولے طنبورے مادیاں گھوڑیاں ماکیاں مرغیمادیاں گھوڑیاںماکیاںایک سال بعد خدا خدا کر کے یہ آواز دور ہوئی اور میں نے آزادی کا سانس لیا!

پہلے دن تاریخ کا پرچہ بہت اچھا ہوا۔ دوسرے دن جغرافیہ کا اس بھی بڑھ کر، تیسرے دن اتوار تھا اور اس کے بعد حساب کی باری تھی۔ اتوار کی صبح کو داؤ جی کا کوئی بیس صفحہ لمبا خط ملا جس میں الجبرے کے فارمولوں اور حساب کے قاعدوں کے علاوہ اور اور کوئی بات نہ تھی۔


حساب کا پرچہ کرنے کے بعد برآمدے میں میں نے لڑکوں سے جوابات ملائے تو سو میں سے اسی نمبر کا پرچہ ٹھیک تھا۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا۔ زمین پر پاؤں نہ پڑتا تھا اور میرے منہ سے مسرت کے نعرے نکل رہے تھے۔ جونہی میں نے برآمدے سے پاؤں باہر رکھا۔ داؤ جی کھیس کندھے پر ڈالے ایک لڑکے کا پرچہ دیکھ رہے تھے۔ میں چیخ مار کر ان سے لپٹ گیا۔ اور اسی نمبر!! اسی نمبر” کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ انہوں نے پرچہ میرے ہاتھ سے چھین کر تلخی سے پوچھا “کون سا سوال غلط ہو گیا؟” میں نے جھوم کر کہا “چار دیواری والا ” جھلا کر بولے “تو نے کھڑکیاں اور دروازے منفی نہ کئے ہوں گے” میں نے ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیڑ کی طرح جھلاتے ہوئے کہا “ہاں ہاں جی گولی مارو کھڑکیوں کو ” داؤ جی ڈوبی ہوئی آواز میں بولے “تو نے مجھے برباد کر دیا طنبورے سال کے تین سو پینسٹھ دن میں پکار پکار کر کہتا رہا سطحات کا سوال آنکھیں کھول کر حل کرنا مگر تو نے میری بات نہ مانی۔ بیس نمبر ضائع کئےپورے بیس نمبر۔”

اور داؤ جی کا چہرہ دیکھ کر میری اسی فیصد کامیابی بیس فیصد ناکامی کے نیچے یوں دب گئی گویا اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ راستہ بھر وہ اپنے آپ سے کہتے رہے۔ “اگر ممتحن اچھے دل کا ہوا تو دو ایک نمبر تو ضرور دے گا، تیرا باقی حل تو ٹھیک ہے۔” اس پرچے کے بعد داؤ جی امتحان کے آخری دن تک میرے ساتھ رہے۔ وہ رات کے بارہ بجے تک مجھے اس سرائے میں بیٹھ کر پڑھاتے جہاں کلاس مقیم تھی اور اس کے بعد بقول ان کے اپنے ایک دوست کے ہاں چلے جاتے۔ صبح آٹھ بجے پھر آ جاتے اور کمرہ امتحان تک میرے ساتھ چلتے۔

امتحان ختم ہوتے ہی میں نے داؤ جی کو یوں چھوڑ دیا گویا میری ان سے جان پہچان نہ تھی۔ سارا دن دوستوں یاروں کے ساتھ گھومتا اور شام کو ناولیں پڑھا کرتا۔ اس دوران میں اگر کبھی فرصت ملتی تو داؤ جی کو سلام کرنے بھی چلا جاتا۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ میں ہر روز کم از کم ایک گھنٹہ ان کے ساتھ گزاروں تاکہ وہ مجھے کالج کی پڑھائی کے لئے بھی تیار کریں لیکن میں ان کے پھندے میں آنے والا نہ تھا۔ مجھے کالج میں سو بار فیل ہونا گوارا تھا اور ہے لیکن داؤ جی سے پڑھنا منظور نہیں۔ پڑھنے کو چھوڑیئے ان سے باتیں کر نا بھی مشکل تھا۔ میں نے کچھ پوچھا۔ انہوں نے کہا اس کا فارسی میں ترجمہ کرو، میں نے کچھ جواب دیا فرمایا اس کی ترکیب نحوی کرو۔ حوالداروں کی گائے اندر گھس آئی میں اسے لکڑی سے باہر نکال رہا ہوں اور داؤ جی پوچھ رہے ہیں cow ناؤن ہے یا ورب۔ اب ہر عقل کا اندھا پانچویں جماعت پڑھا جانتا ہے کہ گائے اسم ہے مگر داؤ جی فرما رہے ہیں کہ اسم بھی ہے اور فعل بھی۔۔

cow to کا مطلب ہے ڈرانا، دھمکی دینا۔ اور یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب میں امتحان سے فارغ ہو کر نتیجہ کا انتظار کر رہا تھاپھر ایک دن وہ بھی آیا جب ہم چند دوست شکار کھیلنے کے لئے نکلے تو میں نے ان سے درخواست کی کہ منصفی کے آگے سے نہ جائیں کیونکہ وہاں داؤ جی ہوں گے اور مجھے روک کر شکار، بندوق اور کارتوسوں کے محاورے پوچھنے لگیں گے۔ بازار میں دکھائی دیتے تو میں کسی بغلی گلی میں گھس جاتا۔ گھر پر رسماً ملنے جاتا تو بے بے سے زیادہ اور داؤ جی سے کم باتیں کرتا۔ اکثر کہا کرتے۔ افسوس آفتاب کی طرح تو بھی ہمیں فراموش کر رہا ہے۔ میں شرارتاً خیلے خوب خیلے خوب کہہ کر ہنسنے لگتا۔

جس دن نتیجہ نکلا اور ابا جی لڈوؤں کی چھوٹی سی ٹوکری لے کر ان کے گھر گئے۔ داؤ جی سر جھکائے اپنے حصیر میں بیٹھے تھے۔ ابا جی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اندر سے کرسی اٹھا لائے اور اپنے بوریے کے پاس ڈال کر بولے “ڈاکٹر صاحب آپ کے سامنے شرمندہ ہوں، لیکن اسے بھی مقسوم کی خوبی سمجھئے، میرا خیال تھا کہ اس کی فرسٹ ڈویژن آ جائے گی لیکن اس کی بنیاد کمزور تھی”

“ایک ہی تو نمبر کم ہے۔” میں نے چمک کر بات کاٹی۔ اور وہ میری طرف دیکھ کر بولے “تو نہیں جانتا اس ایک نمبر سے میرا دل دو نیم ہو گیا ہے۔ خیر میں اسے منجانب اللہ خیال کرتا ہوں۔ پھر اباجی اور وہ باتیں کرنے لگے اور میں بے بے کے ساتھ گپیں لڑانے میں مشغول ہو گیا۔

اول اول کالج سے میں داؤ جی کے خطوں کا باقاعدہ جواب دیتا رہا۔ اس کے بعد بے قاعدگی سے لکھنے لگا اور آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ چھٹیوں میں جب گھر آتا تو جیسے سکول کے دیگر ماسٹروں سے ملتا ویسے ہی داؤ جی کو بھی سلام کر آتا۔ اب وہ مجھ سے سوال وغیرہ نہ پوچھتے تھے۔ کوٹ، پتلون اور ٹائی دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ چارپائی پر بیٹھنے نہ دیتے۔ “اگر مجھے اٹھنے نہیں دیتا تو خود کرسی لے لے” اور میں کرسی کھینچ کر ان کے پاس ڈٹ جاتا۔ کالج لائبریری سے میں جو کتابیں ساتھ لایا کرتا انہیں دیکھنے کی تمنا ضرور کرتے اور میرے وعدے کے باوجود اگلے دن خود ہمارے گھر آ کر کتابیں دیکھ جاتے۔ امی چند بوجوہ کالج چھوڑ کر بنک میں ملازم ہو گیا تھا اور دلی چلا گیا تھا۔ بے بے کی سلائی کا کام بدستور تھا۔ داؤ جی منصفی جاتے تھے لیکن کچھ نہ لاتے تھے۔ بی بی کے خط آتے تھے وہ اپنے گھر میں خوش تھی کالج کی ایک سال کی زندگی نے مجھے داؤ جی سے بہت دور کھینچ لیا۔ وہ لڑکیاں جو دو سال پہلے ہمارے ساتھ آپو ٹاپو کھیلا کرتی تھیں بنت عم بنت بن گئی تھیں۔ سیکنڈ ائیر کے زمانے کی ہر چھٹی میں آپو ٹاپو میں گزارنے کی کوشش کرتا اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا۔ گھر کی مختصر مسافت کے سامنے ایبٹ آباد کا طویل سفر زیادہ تسکین دہ اور سہانا بن گیا۔

انہی ایام میں میں نے پہلی مرتبہ ایک خوبصورت گلابی پیڈ اور ایسے ہی لفافوں کا ایک پیکٹ خریدا تھا اور ان پر نہ ابا جی کو خط لکھے جا سکتے تھے اور نہ ہی داؤ جی کو۔ نہ دسہرے کی چھٹیوں میں داؤ جی سے ملاقات ہو سکی تھی نہ کرسمس کی تعطیلات میں۔ ایسے ہی ایسٹر گزر گیا اور یوں ہی ایام گزرتے رہےملک کو آزادی ملنے لگی تو کچھ بلوے ہوئے پھر لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ ہر طرف سے فسادات کی خبریں آنے لگیں اور اماں نے ہم سب کو گھر بلوا لیا۔ ہمارے لئے یہ بہت محفوظ جگہ تھی۔ بنئے ساہو کار گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے تھے لیکن دوسرے لوگ خاموش تھے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہی لوگ یہ خبر لائے کہ آزادی مل گئی! ایک دن ہمارے قصبے میں بھی چند گھروں کو آگ لگی اور دو ناکوں پر سخت لڑائی ہوئی۔ تھانے والے اور ملٹری کے سپاہیوں نے کرفیو لگا دیا اور جب کرفیو ختم ہوا تو سب ہندو سکھ قصبہ چھوڑ کر چل دئے، دوپہر کو اماں جی نے مجھے دا ؤ جی کی خبر لینے بھیجا تو اس جانی پہنچانی گلی میں عجیب و غریب صورتیں نظر آئیں۔ ہمارے گھر یعنی داؤ جی کے گھر کی ڈیوڑھی میں ایک بیل بندھا تھا اور اس کے پیچھے بوری کا پردہ لٹک رہا تھا۔ میں نے گھر آ کر بتایا کہ داؤ جی اور بے بے اپنا گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور یہ کہتے ہوئے میرا گلا رندھ گیا۔ اس دن مجھے یوں لگا جیسے داؤ جی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہیں اور لوٹ کر نہ آئیں گے۔ داؤ جی ایسے بے وفا تھے!

کوئی تیسرے روز غروب آفتاب کے بعد جب میں مسجد میں نئے پنا ہ گزینوں کے نام نوٹ کر کے اور کمبل بھجوانے کا وعدہ کر کے اس گلی سے گزرا تو کھلے میدان میں سو دو سو آدمیوں کی بھیڑ جمع دیکھی، مہاجر لڑکے لاٹھیاں پکڑے نعرے لگا رہے تھے اور گالیاں دے رہے تھے۔ میں نے تماشائیوں کو پھاڑ کر مرکز میں گھسنے کی کوشش کی مگر مہاجرین کی خونخوار آنکھیں دیکھ کر سہم گیا۔ ایک لڑکا کسی بزرگ سے کہہ رہا تھا۔

“ساتھ والے گاؤں گیا ہوا تھا جب لوٹا تو اپنے گھر میں گھستا چلا گیا۔”

“کون سے گھر میں؟” بزرگ نے پوچھا۔

“رہتکی مہاجروں کے گھر میں” لڑکے نے کہا۔

“پھر کیا انہوں نے پکڑ لیا۔ دیکھا تو ہندو نکلا۔”

اتنے میں بھیڑ میں سے کسی نے چلا کر کہا۔ “اوئے رانو جلد آ اوئے جلدی آتیری سامیپنڈتتیری سامی۔” رانو بکریوں کا ریوڑ باڑے کی طرف لے جا رہا تھا۔ انہیں روک کر اور ایک لاٹھی والے لڑکے کو ان کے آگے کھڑا کر کے وہ بھیڑ میں گھس گیا۔ میرے دل کو ایک دھکا سا لگا جیسے انہوں نے داؤ جی کو پکڑ لیا ہو۔ میں نے ملزم کو دیکھے بغیر اپنے قریبی لوگوں سے کہا۔

“یہ بڑا اچھا آدمی ہے بڑا نیک آدمی ہےاسے کچھ مت کہویہ تویہ تو” خون میں نہائی ہوئی چند آنکھوں نے میری طرف دیکھا اور ایک نوجوان گنڈاسی تول کر بولا۔

“بتاؤں تجھے بھی آگیا بڑا حمایتی بن کرتیرے ساتھ کچھ ہوا نہیں نا” اور لوگوں نے گالیاں بک کر کہا۔ “انصار ہو گا شاید۔”

میں ڈر کر دوسری جانب بھیڑ میں گھس گیا۔ رانو کی قیادت میں اس کے دوست داؤ جی کو گھیرے کھڑے تھے اور رانو داؤ جی کی ٹھوڑی پکڑ کر ہلا رہا تھا اور پوچھ رہا تھا۔ اب بول بیٹا، اب بول” اور داؤ جی خاموش کھڑے تھے، ایک لڑکے نے پگڑی اتار کر کہا۔ “پہلے بودی کاٹو بودی” اور رانو نے مسواکیں کاٹنے والی درانتی سے داؤ جی کی بودی کاٹ دی۔ وہی لڑکا پھر بولا “بلا دیں جے؟” اور رانو ں نے کہا۔”جانے دو بڈھا ہے، میرے ساتھ بکریاں چرایا کرے گا۔” پھر اس نے داؤ جی کی ٹھوڑی اوپر اٹھاتے ہوئے کہا “کلمہ پڑھ پنڈتا” اور داؤ جی آہستہ سے بولے:

“کون سا؟”

رانو نے ان کے ننگے سر پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ گرتے گرتے بچے اور بولا “سالے کلمے بھی کوئی پانچ سات ہیں!”

جب وہ کلمہ پڑھ چکے تو رانو نے اپنی لاٹھی ان کے ہاتھ میں تھما کر کہا۔”چل بکریاں تیرا انتظار کرتی ہیں۔”

اور ننگے سر داؤ جی بکریوں کے پیچھے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے لمبے بالوں والا فریدا چل رہا ہو!۔

EID GAH BY MUNSHI PREEMCHAND

Articles

عید گاہ

منشی پریم چند

عید گاہ

منشی پریم چند

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح پر تبسم درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کے لئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے مہاجن چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں، ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دُنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب خوب صورت بچہ ہے، جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان بڑی دُور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لئے خاموش ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں۔ دُنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔

حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، “تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟

مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہمین کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کُل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔

سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے، چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آ کر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔

اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آ کر انہیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔

نوری نے تصحیح کی، “یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا، ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔

حامد نے تعجب سے پوچھا، “یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتا نہیں؟ ” نوری نے اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھا کر کہا، “ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔”

بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمعے نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اُڑتی تھی۔

دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔

وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پُر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔

نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں۔

یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اُونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔”


ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لئے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صَرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گایا ہے۔ حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔ سب لو گ چرخی سے اُترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورتبولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسند آیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دہانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے، کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لئے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دُھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟

محسن کہتا ہے، “میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔”

نوری بولی، “اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا”

حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لئے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں، ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگتا ہے، لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔

کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔

محسن نے کہا، “حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔”

حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت کہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔

“اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاؤ۔ اللہ قسم۔”

حامد نے کہا، “رکھیے رکھیےکیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟”

سمیع بولا، “تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لو گے؟”

محمود بولا، “تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو”

حامد: “مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔”

محسن: لیکن جی میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟” محمود: اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔

حلوائیوں کی دُکانوں کے آگے کچھ دُکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لئے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی، گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مُفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اُٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اُتار لو، چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔ اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا، کھائیں مٹھائیآپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہو گی۔ اس نے پھر سوچا، اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹا اپنی ماں کے لئے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دُعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دُعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا اور کتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔ دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دُکاندار سے پوچھا، “یہ دست پناہ بیچو گے؟”

دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا، وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔

“بکاؤ ہے یا نہیں؟”

“بکاؤ ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں”

“تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟”

“چھ پیسے لگے لگا”

حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دُکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دُکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لئے۔ حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔ محسن نے ہنستے ہوئے کہا، “یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟”

حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا، “ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی”


محمود: “تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟”

حامد: “کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا” ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔”

سمیع متاثر ہو کر بدلا، “میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے”

حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا، “میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔ میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف، حامد یکہ و تنہا دوسری طرف۔ سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔ مناظرہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحادِ ثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہو رہا ہے۔ ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ روئیں تن ہے صف شکن ہے اگر کہیں شیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں، منہ میں چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر بہادر یہ رُستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔

محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا، “اچھا تمہارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔ حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔

محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی، “بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولئے جناب”

حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا، “اسے پکڑنے کون آئے گا؟”

محمود نے کہا، “یہ سپاہی بندوق والا”

حامد نے منھ چڑا کر کہا یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی، پکڑیں گے کیا بے چارے”

محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا، “تمہارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔” حامد کے پاس جواب تیار تھا، “آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رُستم ہی کر سکتا ہے۔”

نوری نے انتہائی جدت سے کام لیا، “تمہارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مُردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔”بے شک بڑے معرکے کی بات کہی، دست پناہ باورچی خانہ میں پڑا رہے گا”

حامد نے دھاندلی کی، میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔

اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو ثلاثہ کے پاس ابھی گیند سیٹی اور بت ریزرو تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔ دست پناہ رستمِ ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔”

فاتح کو مفتوحوں سے خوشامد کا مزاج ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کئے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیا اعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حامد کا دست پناہ تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔

محسن نے کہا، “ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تو دیکھیں۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد! ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔ مگر ان کھلونوں کے لئے انہیں دُعا کون دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہو گا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے۔ پھر اب دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔ اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لئے، حامد کو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔

گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور عالمِ جاودانی کو سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کئے۔ میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہو گا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پڑا رکھا گیا۔ پڑے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو منزلۂ قالین کا تھا۔ وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دُنیائے فانی میں آ رہے۔ اور ان کی مجسمۂ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی تاکہ بے کار نہ جا کر زاغ و زغن کے کام آ جائے۔

اب رہے میاں محمود کے سپاہی۔ وہ محترم اور ذی رُعب ہستی ہے اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہا تھا اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے “تھونے والے داگتے لہو” پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لئے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ د ے گا۔ صرف گولر کا دودھ چاہئے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ عملِ جراحی ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔

اب میاں حامد کا قصہ سنئے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔

“یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا؟”

“میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔”

امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ “یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔”

حامد نے خطاوارانہ انداز سے کہا، “تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟”

امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ دردِ التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اُف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لئے کتنا ضبط کیا۔ جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کا دل کتنا لہراتا ہو گا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دُنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔

اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھیا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دُعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔


Intekhab e Kalam Ahmad Mushtaq

Articles

انتخابِ کلام احمد مشتاق

احمد مشتاق

احمد مشتاق

غزلیں

وہ لڑکپن کے دن وہ پیار کی دھوپ
چھائوں لگتی تھی رہگذار کی دھوپ

وہ کھلی کھڑکیاں مکانوں کی
دو پہر میں وہ کوے یار کی دھوپ

کنج سورج مکھی کے پھولوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ سبزہ زار کی دھوپ

یہ بھی اک منظر زمینی ہے
خوف کے سائے گیر و دار کی دھوپ

برف چاروں طرف ہے اور دل میں
گل آئندہ اور بہار کی دھوپ

————–

شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں

دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گذری تھی
کب دھندلکا ہوا کب شام ڈھلی یاد نہیں

ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں

ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی ہے
کیسے کھلتی تھی محبت کی کلی یاد نہیں

جسم و جاں ڈوب گئے خواب فراموشی میں
اب کوئی بات بری ہو کہ بھلی یاد نہیں

———————

دہلیز پہ چاندنی کھڑی ہے
یہ رات کی کونسی گھڑی ہے

جگ بیت گئے مگر وہی شام
اب تک مری یاد میں گڑی ہے

کچھ بھی نہ ستم گروں نے چھوڑا
ہر چیز ملی دلی پڑی ہے

اس زلف سے سلسلہ ہمارا
زنجیر کی آخری کڑی ہے

میں گاوِ زمانہ و زمیں ہوں
دنیا مرے سینگ پر کھڑی ہے

XXX

اسی جزیرۂ جنت نشان ہی میں رہے
ہم اس جہان کے تھے اس جہان ہی میں رہے

زمینیوں کے تھے اپنے مہہ و نجوم بہت
جو آسمان کے تھے آسمان ہی میں رہے

نئی جگہ میں تو سب کچھ سما نہ سکتا تھا
وہ صبح و شام پرانے مکان ہی میں رہے

نہ جانے کون کشش تھی ہوا کی گلیوں میں
کہ نو نیاز پرندے اُڑان ہی میں رہے

جو چار حرف بمشکل زباں تک آئے تھے
تمام عمر امید بیان ہی میں رہے

XXX

بدن نزار ہوا دل ہوا نڈھال مرا
اس آرزو نے تو بھر کس دیا نکال مرا

پلٹ کے بھی نہیں دیکھا پکار بھی نہ سنی
رہا جواب سے محروم ہر سوال مرا

جہاں اٹھانے ہیں سو رنج ایک یہ بھی سہی
سنبھال خود کو مرے دل نہ کر خیال مرا

وہ زلف باد صبا بھی تھی جس کی باج گزار
اسی کے قرض میں جکڑا ہے بال بال مرا

خزاں میں بھی وہی رونق ہے جو بہار میں تھی
نہیں نشاط سے کم مرتبہ ملال مرا

XXX

منہ سوئے فلک ہے بھونکتا ہوں
آوازِ سگانِ بے نوا ہوں

یاروں کو ضیافتیں مبارک
میں ایسی غذا پہ تھوکتا ہوں

پروانہ بھی آپ شمع بھی آپ
اور بزم سے دور جل رہا ہوں

مجھ سے نہ الجھ ہوائے دنیا
میں دل کی زمین سے اُگا ہوں

دنیا سے بھی ہے دلی تعلق
دل کا بھی مزاج آشنا ہوں

ہاتھوں پہ اٹھائے چاند کی لاش
تاروں کے غروب تک گیا ہوں

ہیں ابروِ ہوا گواہ میرے
سورج کے پڑوس میں رہا ہوں

صحرائے طلب کے ساربانو
خوابوں سے لدا ہوا کھڑا ہوں

بس موجِ خیال یار تھم جا
ساحل کے قریب آگیا ہوں

XXX

لفظوں کے سراب سے نکل جا
کاغذ کے عذاب سے نکل جا

افسانۂ حسن ختم پر ہے
افسونِ شباب سے نکل جا

میں دل کی طرف پلٹ رہا ہوں
دنیا مرے خواب سے نکل جا

مت ریجھ فریب کار دل پر
اس شہرِ خراب سے نکل جا

اے رمز شناس مہر و مہتاب
اس آب و تراب کے نکل جا

XXX

دل میں کہیں سراغِ نشاط و الم نہیں
گو شور بھی بہت ہے خموشی بھی کم نہیں

جو اک سوال تھا مرے لب پر کہاں گیا
مجھ کو تر ے جواب نہ دینے کا غم نہیں

اپنائیت تو وہ کہ محبت بھی ہو نثار
بے گانگی تو یہ کہ مروّت بہم نہیں
میلے لگے ہوئے تھے اسی دل کے آس پاس
اب دور دور تک کوئی نقش قدم نہیں

XXX

مرے اندر کوئی شئے مائل فریاد رہتی ہے
مقیّد ہے مگر ہر بند سے آزاد رہتی ہے

جہاں دل تھا کبھی سایا نظر آتا ہے اب دل کا
جہاں آنسو رہے اب آنسووں کی یاد رہتی ہے

مرے نا کام دل اک عمر ہوتی ہے تمنا کی
نہ پھر وہ شوق رہتا ہے نہ استعداد رہتی ہے

XXX

کیا شب ہجر تھی سویر لگی
چاند کو ڈوبنے میں دیر لگی

XXX

 

Story of Pen by Achariya Atre

Articles

قلم کی لکھی کہانی

اچاریہ اَترے

قلم کی لکھی کہانی

مصنف: اچاریہ اَترے
مراٹھی سے ترجمہ : پروفیسر صاحب علی

میز پر چاندی کے شمع دان میں ایک موم بتی رکھی ہوئی تھی۔بہت خوبصورت موم بتی تھی وہ۔ اس کا رنگ گلابی تھا، اس کا قد لمبا اور نازک تھا۔ اس کے گاو دم  پرکجلائی ہوئی سیاہ بتی خوب زیب دیتی تھی۔
اسے لگتا تھا سارے کمرے میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں۔
سامنے دیوار پر لگے ہوئے آئینے میں اسے اپنا چہرہ دکھائی دیتا۔ گھنٹوں وہ اپنا روپ نہارتی رہتی۔
اس کے قریب ہی کانچ کی ایک خوبصورت سی دوات اور ایک منقش قلم رکھا ہوا تھا۔ لیکن ان سے وہ موم بتی کبھی بات تک نہ کرتی۔ سارا وقت اپنی اکڑ میں رہتی۔ قریب کی کھڑکی سے دھوپ کمرے میں آتی۔ دھوپ کو دیکھ کر
کانچ کی دوات اور چاندی کے قلم کو بڑی خوشی ہوتی۔ ان کے چہرے خوشی

سے چمکنے لگتے۔ اس بات پر موم بتی کو اُن پر بہت غصہ آتا۔ ’’سورج کو دیکھ کر تمھیں اتنی خوشی کیوں ہوتی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
ایک بار اس نے چڑ کر کہا۔ ’’ایسا کون سا بڑا راجا ہے وہ!‘‘ کہے بغیر اس سے رہا نہ جاتا۔

’’راجا ہی ہے وہ‘‘ دوات بولتی۔ ’’اس کے جتنا بڑا راجا دنیا میں کوئی دوسرا
ہے ہی کون؟‘‘
’’واہ رے راجا‘‘ موم بتی نے کہا ’’ایک چھوٹا سا بادل بھی اسے ڈھانک سکتاہے۔ کبھی آرام نہیں کرسکتا، کبھی دیر سے نہیں آسکتا۔ ایک نوکر کی طرح
سارے کام مقررہ وقت پر ہی کرنے پڑتے ہیں اسے۔ اور رات میں منہ کالا
کرکے رفو چکّر ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا کام مجھے کرنا پڑتا ہے۔ میں ایک دن
اسے اپنے آگے گردن جھکانے پر مجبور کردوں گی۔‘‘دوات اور قلم نے کچھ نہیں کہا۔ اور وہ جواب دیتے بھی تو کیا دیتے؟ ایک دن نوکر کمرہ صاف کرنے آیا تو اس نے میز کو اٹھا کر کھڑکی کے قریب رکھ دیا۔ اس وجہ سے باہر سے آنے والی سورج کی دھوپ پوری میز پر چھا گئی۔ موم بتی کا دھوپ میں بیٹھنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا۔
تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اسے کچھ عجیب سا لگنے لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ
اسے چکر سا آرہا ہے۔
قریب ہی دوات اور قلم خوشی سے چمک رہے تھے۔
موم بتی کا سرخ چہرہ دیکھ کر دوات نے کہا ’ ’کیوں بھئی؟ تمھارا چہرہ ایسا
کیوں نظر آرہا ہے؟ لگتا ہے تمھیں گرمی لگ رہی ہے۔ ذرا ٹھہرو، ابھی کوئی
بادل آکر سورج کو ڈھانک لے گا اور تھوڑی ٹھنڈک محسوس ہوگی۔‘‘’’تم سے کسی نے کچھ پوچھا؟‘‘ موم بتی نے کہا ’’بی اماں میں اتنی نازک نہیں۔ پوچھ رہی ہو گرمی تو نہیں ہورہی؟ مجھے کچھ نہیں ہورہا ہے۔ سورج میرا کیا بگاڑ لے گا؟‘‘دھوپ تیز ہونے لگی۔ اب موم بتی سے اس کی تپش سہن نہیں ہورہی تھی۔ اسے سچ مچ چکر آنے لگا اور ایک لخت اس نے اپنی گردن نیچے ڈال دی۔
دوات کو ٹھونگا لگاتے ہوئے قلم نے کہا ’’یہ دیکھو!  موم بتی کو کیا
ہوگیاہے؟‘‘ ’’ہاں سچ مچ! یا خدا اس کی کیا حالت ہوگئی ہے، مجھے لگ ہی رہا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔‘‘ ’’ایسا لگ رہا ہے سورج کو نمسکار کر رہی ہے۔‘‘ قلم من ہی من ہنس کر بُدبُدایا۔
تھوڑی ہی دیر میں نوکر اندر آیا۔ اس نے ایک نظر ڈال کر موم بتی کو دیکھا اور
اسے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
’’ختم ہوگئی بے چاری کی زندگی‘‘ دوات نے کہا۔
’’اب میں اس پر کہانی لکھوں گا‘‘ قلم نے بڑھ کر کہا
قلم نے کہانی لکھی
وہی کہانی ہے یہ۔

Urdu Nazm and Zafar Gorakhpuri by K.H. Aqib

Articles

جدید اردو نظم میں ظفر ؔ گورکھپوری کا مقام

خان حسنین عاقبؔ

جدید اردو نظم میں ظفر ؔ گورکھپوری کا مقام

 

ما قبل ِ آزادی نیز ما بعد ِ آزادی ، دونوں ادوار میں شمالی ہند نے اردو ادب و شعر کی سر پرستی کی ہے۔ ما قبل ِ آزادی شمالی ہند میں سیاسی استحکام اور حکمرانوں کا ادبی ذوق اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ما بعد ِ آزادی ، دو تین دہا ئیوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک اور حسبِ سابق رہا لیکن گذشتہ تین چار دہا ئیوں سے ریاستی حکومتوں کی دورُخی پا لیسیوں نے اکثر جگہوں سے اردو کو عملاً ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن اردو شعر و ادب اپنی رفتار سے ترقی کر تا رہا۔ خصوصا ً غزل نے نت نئے گوشوں کو تلاش کیا۔ لیکن آج مجھے بات نظم پر کرنی ہے اسلئے غزل کا ذکر نہیں کروں گا۔ اگر میں براہ ِ راست بات کروں اور کسی رسمی تمہید سے کام نہ لوں تومجھے کہنا یہ ہے کہ اردو نظم نے اپنی ابتدا سے لے کر اب تک جتنا بھی فاصلہ طے کیا ہے، اور یہ آج جہاں آکر کھڑی ہے، اس مقام سے آگے بھی کئی مقام آ نے ابھی باقی ہیں کہ زمانہ تغیرات سے عبارت ہے۔ لیکن آج تک یہ جہاں آن کھڑی ہوئی ہے، اس میں جن جن شعرا نے اپنا الگ راستہ بنا یا ہے ان میں ظفر ؔ گورکھپوری کا نام ابتدائی فہرست میں رکھا جائے گا۔ ظفر گورکھپوری، زبیرؔ رضوی، محمد علوی، ندا فاضلی وغیرہم ہمارے عہد کے ایسے نمائندہ بزرگ شعراء ہیں )جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے )جو اردو شعر و ادب میں نظم کی نئی روشوں (جدتوں) اور تازہ کار لہجوں کے امین ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے جدید اردو نظم کی دلداری کی اور اس کی عکا سی بھی کی ہے۔
اگر ادب و شعر کو مقصدیت سے نتھی کر دیا جائے تو بقول ِ افلا طون، ’’ادب برائے زندگی اور جمالیات خاص طور پر اخلاقیات اور فلسفہ کے ماتحت ہے۔‘‘ اسی بات کو مغربی نقاد وِنٹرس (Winters) نے کہا تھا۔ “poetry is a statement in words about a human experience.” یعنی شاعری نام ہے انسانی تجربات کو الفاظ میں بیان کر نے کا۔ غالب ؔ بھی کہا ں پیچھے رہنے والے ہیں ۔ انہوں نے کہا ؎
ما نہ بودیم بدیں مر تبہ راضی غالبؔ
شعر خود خواہش ِ آں کرد کہ گر دد فنِ ما۔
ظفرؔ کی شاعری مندرجہ بالا ضابطوں کی پابند شاعری ہے۔ نئے عہد نے زندگی کو جتنے پہلوؤں سے بر تا ہے، ان سے کئی گنا زیادہ موضوعات شاعری کے دامن میں آن گرے ہیں۔ اکثر شعراء نے موضوعات پر ہاتھ ڈالا ہے لیکن ظفر ؔ نے جس خوش سلیقگی سے ان مو ضوعات کے جدید نظم کے حوالوں کے ساتھ اپنی فکر اور اظہار کا محور بنایا ہے، وہ بے مثل ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کا تنوع اور اسلو بیاتی اور محاکاتی رنگا رنگی اپنی ضو فشانی اور اپنا وجود منوانے پر تُلی نظر آتی ہیں۔ ظفرؔ کی نظم گوئی کا آغاز ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند نظم کے زیر ِ اثر ہوا لیکن انہوں نے میرا جی اور ن۔م۔راشد جیسے نظم گویوں کے قبیلے کی رکنیت سے از خود انکار کیااور صرف ’خود کے لئے کہی گئی ‘ مبہم اور ادق الفہم نظموں کی تقلید سے پر ہیز کیا۔ انہوں نے اصطلاحی جماعت بندیوں اور جدیدیت اور ما بعد ِ جدیدیت وغیرہ جیسے از کار رفتہ مفروضات سے بھی دانستہ اجتناب برتتے ہوئے زمانے کو اپنے شعور اور احساس کی آنکھوں سے دیکھا اور پرکھا ہے۔اسلام میں عقیدتاً اور رسما ً ، بہ ہر دو طور، ہر کام اللہ کی حمد و ثناء اور دعا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ظفر ؔ اپنے انفرادی لہجے میں دعا کر تے ہیں جو ان کی ایک نظم کا عنوان ہے۔
خدائے بر تر و بالا
ترا ممنون ہوں۔ کیا کیا عطا کیں نعمتیں تونے
مری اوقات سے بھی کچھ زیادہ دے دیا مجھ کو
مگر
میں ایسا خود غرض ،نا شکر و نا فرماں
کہ سب کچھ پاکے بھی نا مطمئن ٹہرا
مرے لالچ نے
مٹی ، دھوپ، پانی
ثمر، دریا، ہوائیں، پیڑ
سب کو قتل کر ڈالا۔
شاعر کا لہجہ اسے کہاں لے جارہا ہے۔ اس کا تخاطب تو لازماً خدا ہے، لیکن شاعر اپنی بات ، اپنے ذاتی مفاد کی بات نہیں کر رہا ہے، بلکہ وہ سماجی سروکار کی بات کر رہا ہے جو ایک شاعر کا سب سے مقدس فریضہ ہوتا ہے۔بنی نوع انسان کی نمائندگی کر تے ہوئے شاعر اعتراف کر رہا ہے کہ وہ اس ماحولیاتی عدم توازن کا مجرم ہے جسے اس کی غرض مندی نے بگاڑدیا ہے۔ وہ توضیح کر تا ہے۔
مرے الفاظ مصنوعی ہیں سارے
میں ہر پہچان اپنی کھو چکا ہوں
نہ چہرہ ہے، نہ آنکھیں
دماغ اکثر یہ مجھ سے پوچھتا ہے
کیا حقیقت میں وہی ہوں میں؟
فرشتوں نے جسے سجدے کئے تھے
نہیں۔۔ میں وہ نہیں ہوں۔
اور پھر آخر ِ میں وہ اللہ سے دعا مانگتا ہے۔
خدائے بر تر و بالا
مرے تاریک ۔ خالی۔۔ خود گزیدہ
سرد سینے کو
عطا کر آگ
اس کو درد کی خوشبو سے بھر دے
مجھے پھر اشرف المخلوق کر دے۔
یہی شاعر کی فکری جہت ہوتی ہے جسے وہ اپنے عقیدے تک بھی کھینچ لاتا ہے۔ یہ اس کا عالمی کر ب ہے جو دعا کے توسط سے اس کے قلم سے نکل کر کاغذ پر بہہ نکلتا ہے۔ اور پھر شاعر اپنے لئے کیا مانگ رہا ہے؟ کچھ نہیں۔اگر کچھ مانگ رہا ہے تو انسان کا انسان ہونا۔ جو مشکل ہے۔ آج ایک جانور کا انسان ہونا آسان نظر آتا ہے لیکن ایک انسان کا انسان ہونا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ یہی کرب ظفر ؔ سے یہ دعا کر واتا ہے جس پر تمام علم کے انسان آمین کہنے سے نہیں ہچلچائیں گے۔ یہی ایک جدید طرزِ اظہار کا خاصہ ہو تا ہے۔ ظفر ؔ کا دکھ بھی کو ئی انفرادی اور ذاتی دکھ نہیں ہے۔ اس کا تصور اسے کہاں کہاں کی سیر کرواتا ہے۔ ایک نظم ’’ تری بے چین آنکھوں کے پرے‘‘ کا یہ حصہ دیکھئے۔
’’دکانیں ، لال ٹینیں، اونگھتے سائے، ڈبل روٹی
سلگتے گوشت کی خوشبو
دھنسا ہوا چہرہ، مہینے بھر کی داڑھی
پھٹی جیبوں کی میلی سی قمیصیں
سنیما گھر کے آگے پوسٹر پر قہقہوں کی
دھول بر ساتا ہوا پاگل
کنارِ آب ننھی مچھلیاں کھاتا ہوا بگلا
محاذ ِ جنگ پر مارے گئے فوجی کی محبوبہ
میں کیا بتلاؤں، تیری گول سی سپنوں بھری
بے چین آنکھوں کے پرے
کیا کیا دیکھتا ہوں۔‘‘
یہ ایسی شاعری ہے جو کسی طور اپنے ماحول، اپنے اِرد گِرد سے بے خبر نہیں رہتی۔ شاعر جب اپنے مخاطب کی بے چین آنکھوں کے پرے جھانکتا ہے تو اسے اپنے تجربات یاد آجاتے ہیں۔ اسے اپنے مشاہدات کے درشن ہوتے ہیں۔ وہ اُن بے چین آنکھوں کی جمالیاتی تشریح کر نے کے بجائے ان کے پرے نکل جاتا ہے، اور اسے اپنا دکانوں کے سامنے سے گزرنا یاد آجاتاہے جہاں اس نے لال ٹینوں کی روشنی میں کچھ اونگھتے سائے دیکھے تھے۔ سلگتے گوشت کی خوشبو، دھنسا ہوا چہرہ اور مہینے بھر کی داڑھی، یہ علامات معاشی احتیاج کی نشاندہی کر تی ہیں۔ کنار ِ آب ننھی مچھلیاں، اور ان مچھلیوں کو اپنی غذا بناتا ہوا ایک بگلا، یہ محض ایک خوبصورت فطری منظر نہیں ہے بلکہ سر مایہ دارانہ نظام کا اعلامیہ ہے۔یہاں اس بات کا اعادہ غیر ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ جدید اردو نظم کی ہیئت اور اسلوب مغرب سے بر آمد کر دہ ہیں۔ اس لئے اردومیں اسے لسانی تاثر کی originalityکے ساتھ برتنا کمال ہے۔ ظفر ؔ کی شاعری کا اختصاص یہی ہے کہ وہ ظاہری محاکات کے حوالوں سے اپنے ما فی الضمیر کی ادائیگی پر قادر ہیں۔ ’اسٹیٹس سمبل‘ ظفر ؔ کی ایسی ہی نظم ہے جو معاشرتی منافقت hypocricy کی عمدہ عکاسی کر تی ہے۔ اس نظم کا اختتامیہ بے حد چونکا دینے والا ہے۔
’’کلب، ڈنر اور ڈانس کی رسیا
صارف کلچر کی مخلوق
ننھی شبنم، ننھے بیج سے
اک بار یہ پوچھے
سر کیسے اونچا ہوتا ہے
عزت کیسے ملتی ہے
کیا شئے ہے اسٹیٹس سمبل؟
اب کوئی بتا ئے کہ یہ ننھی شبنم ، ننھے بیج کے استعارے کس کے لئے استعمال ہوئے ہیں اور شاعر ان استعاروں کے ذریعے کس سے مخاطب ہو رہا ہے اور وہ کن معاشرتی اکا ئیوں پر طنز کر رہا ہے۔ یہی ظفرؔ کی نظموں کا خاصہ ہے۔ ان کے تخیل نے یک لخت شہری زندگی کی منافقانہ رَوِشوں کی جانب سے اپنی فکر کے عدسہ Lenseکا رُخ فطرت کی طرف موڑتے ہوئے ننھی شبنم اور ننھے بیج کی جانب کر دیا اور نئے سر مایہ دارانہ رویوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ بقول فریدوں مشیریؔ ؎
در کجای ٔ ایں فضائے تنگ ، بے آواز من کبوتر ہائے شعرم را دہم پر واز
ظفر کی شاعری اس لحاظ سے بھی منفرد کہلائے جانے کی مستحق ہے کہ یہ اپنے فوری ماحول سے متاثر ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ چاہے وہ ماحول مکانی لحاظ سے قریب ہو یا بعید۔ یعنی مقامی ہو یا عالمی۔ اور کمال تو یہ ہے کہ ہر صورت میں شاعر اس ماحول کے خلاف مزاحمت کر تا دکھائی دیتا ہے، وہ بھی ایسی مزاحمت جیسی فلسطینی لوگ اسرائیلی غاصبوں کے خلاف کر تے ہیں۔ اور شاعر اسے اپنا فرض تصور کر تا ہے۔ ظفر ؔ کی نظم ’ٹکراؤ‘ کا اختتامیہ دیکھئے۔
’’ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
پھر لڑیں گے
تو جگ مگ شہر
میں سادہ سا شہری۔۔ دیہاتی سا کچھ
اگر مجھ کو ہرا پائے ، ہرا دینا
ابھی تک تو ہرا پایا نہیں ہے
مجھے اپنا بنا پایا نہیں ہے۔ ‘‘
نظم کا یہ حصہ صاف بتاتا ہے کہ شاعر بہ آسانی ’ سَرِ تسلیم خم ‘کرنے کا یعنی submission کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ ایک عظییم آبادی والے ، چو بیس گھنٹے مصروف رہنے والے شہر کا حصہ بن تو گیا ہے لیکن واقعتا وہ ایسے ہی علیحدہ ہے جیسے ہندوستان کے جغرافیائی نقشے میں سری لنکا۔ لیکن اسے فخر ہے کہ وہ اپنی جڑوں اور اپنی اقدار سے اب بھی مر بوط ہے۔ مزاحمتی رویے کی ایک اور مثال ، ایک اور منظر ، نظم ’بہت کمزور ہو تم‘ میں دکھائی دیتا ہے۔
میں بارش ہوں
مری بوندیں خدا کی پھیلی پھیلی اس زمیں پر
کہیں بھی ٹوٹ سکتی ہیں
تمہارا کیا ہے؟
تم کون ہو؟
ہوا کو ، پانیوں کو کاٹنے والے
زمین و آسماں کو بانٹنے والے
مجھے زنجیر پہناؤ گے
مجھ کو روک پاؤ گے؟
بہت کمزور ہو تم
ہار جاؤ گے!
ایسے احتجاجی اور مزاحمتی رویوں کا آغازشعر و ادب میں ، نیز خصو صا ً جدید نظم میں مغرب کے زیر ِ اثر ہوا۔ گو ، ان رویوں کا آغاز ترقی یافتہ ممالک سے ہوا لیکن ترقی پذیر مما لک میں کو ئی ملک ایسا نہیں رہا جو ان رویوں سے براہِ راست متا ثر نہ ہوا ہو۔ چاہے وہ افریقہ کی aparthied تحریک ہو یا ایشیاء میں ترقی پسند تحریک۔ کلاسیکیت کی دیوانی فارسی شاعری بھی اس سے دامن نہ بچاسکی۔ احمد شاملو کی جدید نظم کے تئیں وابستگی ملا حظے کی شئے ہے۔
’’درخت ِ تناور
امسال
چہ میوہ خواہد داد
تا پرندگاں را
بہ قفس نیاز نہ ماند؟؟
(نظم ، ’’تا بستان‘‘ مجموعہ ۔ ابراہیم و آتش۔ احمد شاملو)
ظفر ؔ نے اپنی مندرجہ بالا نظم ’بہت کمزور ہو تم‘ میں شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے خود کو بارش کے استعارے کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن مقصدیت کے لحاظ سے آخر ِ کار، ما حول میں موجود انسانی وسائل کی کِرم خوردہ ذہنیت کے خلاف اس کے احتجاج اور مزاحمت کا عندیہ بہت واضح ہے۔ان کے یہاں معاشرتی عدم توازن، مزاحمت اور احتجاج کی لے َ تیز ضرور ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ظفر ؔ کی شاعری میں زمانی اعتبار سے حال کا بیان زیادہ ہے اور ان کی تمثیلات، استعارے اور محاکات نسبتا ً وا ضح ہیں۔ مثلاً ان کی نظم ’بے حا صل‘ کا یہ ٹکڑا دیکھئے۔
’’۔۔۔
بھول بھال کر گلی تمہاری
کانکریٹ کی پکی اور
تپتی سڑک پر ہانپ رہا ہوں
اور ابھی کتنا چلنا ہے؟
اِدھر اُدھر سے دھوپ اُٹھاکر
اپنے سفر کی لمبائی میں ناپ رہا ہوں
وقت کے ساتھ سفر کا شوق!‘‘
ظفر ؔ کے یہاں نئی تہذیب کی عیاریاں ان کے جمالیاتی شعور romantic sense کا پیچھا نہیں چھو ڑ تیں۔اس نظم میں وہ معشوق کی گلی بھول کر اپنے سفر کو نئی تہذیب اور نئی ضروریات سے ہم آہنگ کر تے ہیںاور عشق کے کیف آور تصور سے نکل کر موجودہ زمانے کی تلخ سچائیوں کی رزم گاہ میں آن پہنچتے ہیںاور پھر کانکریٹ کی پکی اور تپتی ہوئی سڑک ، دھوپ کی شدت اور سفر کی مسافت کا توشہ دان ساتھ رکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ظفر ؔ کو ایک جانب شہری زندگی کی ہماہمی سے شکایت ہے وہیں وہ پرانی صحت مند اقدار کی گم گشتگی کا نوحہ بھی کر رہے ہیں۔جب ہم ان کی شاعری کے دروازے پر اس حوالے سے دستک دیتے ہیں تو ان کی واقعاتی اور موضوعاتی نظمیں بے حد خوش سلیقگی سے ہمارا استقبال کر تی ہیں۔ اس خصوص میں ان کی نظم ’مرے چراغوں کو دفن کردو‘ ایسے قبیل کی نظم ہے جو ماضی اور حال دونوں زمانوں کی اقدار کا تقابل کر تی ہے۔
’’ اصول ، اونچے وِچار
حق گوئی
اور دیانت
چراغ کیا کیا
دئے تھے دادا نے باپ کو
باپ نے یہ ورثہ مجھے تھمایا
اور اب بڑھاپے میں، میں نے چاہا
کہ سارا وِرثہ ، چراغ سارے میں
اپنے بچوں کو سونپ دوں
مر سکوں، سُکوں سے ۔۔۔۔‘‘
یہاں تک شاعر کا ایقان اپنی اگلی نسل پر قائم نظر آتا ہے لیکن جیسے جیسے نظم proceed کر تی ہے، یہ ایقان ، کامل بے اعتباری اور حسرت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
’’بہت چالاک ہیں میرے بچے
وہ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں’ڈیڈی‘
یہ ساری چیزیں، یہ ٹمٹماتے چراغ سارے
بہت پرانے ہیں
اب ان سے کیا روشنی ملے گی؟
۔۔۔۔۔
کچھ اور ہے آج کی یہ دنیا
یہ وہ نہیں ہے کہ جس میں کھولی تھیں تم نے آنکھیں۔۔۔‘‘
یہ نظم نہیں ہے ، ظفرؔ کا شخصی کرب ہے۔ یہ ایسی کوفت کا اظہار ہے جو شاعر کو مسلسل اضطراب میں رکھتی ہے اور اس کرب و گھٹن سے تنگ آکر آخر ِ کار ’ سرِ تسلیم خم ہے‘ کی بے چارگی بھری و مصلحت آمیز کیفیت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ وہ اپنے ایقان کو submit کر دیتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے کہ
’تو میرے بچو !
نئے زمانے میں جینے والو!
بلند دیواروں ، اونچی چھتوں کے نیچے، نئے کھلونوں کے ساتھ
مصنوعی زندگی راس آئے تم کو
مرے چراغوں کو میرے ہمراہ دفن کردو
اندھیری دنیا تمہیں مبارک !!!
ہر شاعر کے نزدیک ماضی کی ایک الگ اہمیت اور افادیت ہوتی ہے۔ اس ماضی کو انگریزی میں nostalgia کہتے ہیں جو شاعر کا سر مایۂ شعر ہوتا ہے۔ پھر یہ ظفر ؔ کا ساتھ کیسے چھوڑ دیتا؟ ان کی نظم ’چھوٹا ہوا ہاتھ‘ ملا حظہ کیجئے۔
’’تمہارا ہاتھ تھا بابا !
تھی میرے ہاتھ میں انگلی تمہاری
تمہارے اونچے کاندھوں سے ڈھلک کر
تمہاری صاف ستھری بے شکن چادر کا کونا
مجھے رہ رہ کے چھوتا تھا
کہ مجھ سے راستے کی گرد نہ آکر لپٹ جائے
تمہارا ساتھ تھا با با !
خدا منھ سے تمہارے بولتا تھا
سچ بولو
کہ سچ سورج ہے باطن کا
محبت ایک دولت ہے۔ ۔۔‘‘
اور اکثر شاعروں کے ساتھ مصیبت یہ ہوتی ہے کہ شام ہوتے ہی یا پھر تنہائی کی چادر پھیلتے ہی ان کا یہ nostalgia عود کر آتا ہے اور انہیں ماضی کے گلیاروں کی سیر کر واتا ہے جِسے وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنی شاعری میں نظم کر تے ہیں۔بقول فِراقؔ ؎
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
میں نے اوپر جس نظم کا حوالہ درج کیا ہے ، اس میںظفر ؔ کو کسی محبوبہ یا اپنی محبت کے بجائے ایک مشفق اور مربی کر دار کی یاد آتی ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب شاعر کا خیال ، اس کا تخیل محترم ہوجاتا ہے اور اس کی ہر بات شخصِ مذکور کی کر دار سازی کر رہی ہوتی ہے۔اپنے بچپن کا بیان، بابا کا والہانہ ذکر اور پھر ان کی اعلی اقدار پر مبنی نصیحت ، اس نظم کے مبادیاتی اجزاء ہیں۔
یو ں کہا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ ظفر ؔ زندگی کی صدا قتوں کی شاعر ہیں؟ وہ بے معنی زندگی کے قائل نہیں ہیں۔ اپنی اسی عنوان کی نظم ’زندگی با معنی ہے‘ میں وہ یہی پیغام دیتے ہیں۔
’ہاتھ نہ آئے ستارہ
ہاتھ نہ آئے جزیرہ
لیکن ان کے پانے ، ان کو چھونے ، ان کے پاس جانے کا
جو اک سنگھرش ہے
وہ زندہ رہنا چاہئے
اک اسی سنگھرش سے
زندگی میں کچھ نہ کچھ مفہوم ہے
زندگی با معنی ہے۔‘
ظفر ؔ کی نظم بے سمت اور بے رُخ خیالات اور موضوعات کے ہمراہ نہیں چلتی۔ وہ بڑی دیدہ ریزی کے ساتھ اپنے خیالات کو خلق کر تے ہیں۔اور پھر انہی خیالات کے آٹے سے شعر کی روٹی تیار کر تے ہیں۔ ہم نے اکیسویں صدی میں داخل ہونے کو اپنا بڑا کار نامہ سمجھ لیا ہے۔ لیکن ظفرؔ اس اکیسویں صدی کی حقیقت سے خوب واقف ہیں۔ اس لئے وہ اس اکیسویں صدی سے مخا طب ہو کر کہہ اٹھتے ہیں۔
میں نہیں کہتا تو مری خاطر
آسماں اک نیا فراہم کر
جی سکوں میں زمیں پہ عزت سے
ایسی آب و ہو ا فراہم کر
یعنی شاعر کا ادراک اس واقعے سے اچھی طرح واقف ہے کہ اکیسویں صدی میں کو ئی اگر ایسی ہوا ، ایسا ماحول ہی فراہم کر دے کہ انسان، بلکہ بنی نوع انسان عزت سے اپنی بچی کھچی سانسیں لے کر اپنا رخت ِ سفر باندھ سکے، تو یہی غنیمت ہے۔ لیکن وقت جیسے جیسے آگے بڑھتا جارہا ہے ، یہ امید ، نا امیدی میں بدلتی جارہی ہے۔
ظفر ؔ کی نظموں میں طرزِ اظہار کی خوبصورتی ، ترسیل و ابلاغ کی منزلوں سے گزرتے ہوئے محاکات کی جدت و ندرت کے نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔ میں ان کی نظموں سے کچھ حوالے دے رہا ہوں۔ آپ مکمل نظمیں پڑھے بغیر بھی ان کا مزہ تو لے سکیں گے لیکن اگر مکمل متن پڑھیں گے تو یہ سہ آتشہ ہو جائے گا۔
’ میں اپنی سرخ صبحوں
سبز شاموں
سانولی راتوں کی لاشوں پر کھڑا ہوں
۔۔۔۔۔
ہنسے کوئی تو اس کے شوخ غنچے میرے ہونٹوں میں
چمک اٹھیں
۔۔۔
سرد سینے کو عطا کر آگ
اس کو درد سے بھر دے
مجھے پھر اشرف المخلوق کردے
( نظم : دُعا)
تو میرے ساتھ ہے لیکن
میں تیرے پاس ابھی آیا نہیں ہوں
میں زندہ ذہن ہوں
سایہ نہیں ہوں
( نظم : تری بے چین آنکھوں کے پرے)
کہ یہ دھیان کی سیڑھیاں ٹوٹ جائیں گی سب
چاندنی آگ کی جھیل بن جائے گی
اور میں۔۔۔۔کرب کی کالی دیوار میں
چُن دیا جاؤں گا
(نظم : کرب کی کالی دیوار)
پُل ، مینار، سفینہ، پانی
سب ڈوبیں گے ساتھ
کاش کہ لمبے ہو جاتے
تیری یادوں کے ہاتھ۔۔۔
(نظم : غر قابی سے پہلے)
وہ آس کے پاؤں میں بجلی کی جو پازیب تھی
گھٹا کا آنکھ میں جو سُر مہ تھا
ماتھے پر تھا جھومر چاند کا
کہاں کھو آئی دنیا؟
یہ دنیا خوبصورت تھی
یہ بد صورت ہوئی کیسے، خدایا؟
(نظم : یہ دنیا خوبصورت تھی)
ہوا سا وقت اُڑا جارہا تھا اور منظر
دُھنی کپاس کی مانند ٹوٹ کر بکھرا
(نظم : دوڑ)
وہ دیواریںجو آندھی اور بارش سے کبھی محفوظ رہنے کے لئے
میں نے بنائی تھیں
انہیں خود توڑ دیتا ہوں
کسی ویرانے میں
اپنے خدا کو میں اکیلا چھوڑ دیتا ہوں۔
(نظم : جب کوئی نیا موسم)
غرض ظفر ؔ کی نظموں میں لفظیات، علامات، لہجہ اور جدید تشبیہات و استعارات کی تناظر میں بھی تنوع اور وارفتگی پائی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

memories of Shamsur Rahman Farooqi

Articles

میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور کی کچھ یادیں

شمس الرحمن فاروقی

 

میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور کی کچھ یادیں

مجھے میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور کی بہت سی باتیں یاد ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں اس وقت وہاں پڑھنے گیا تھا جب میری عمر کم تھی، اور اس عمر کی باتیں انسان اکثر یاد رکھتا ہے۔ میں ویزلی ہائی اسکول (Wesley High School)اعظم گڑھ (اب انٹر کالج) میں پڑھنے گیا تھا (1943ئ) تو اس وقت میری عمر اور بھی کم تھی ، یعنی اس وقت میں صرف آٹھ سال کا تھا ۔ لیکن وہاں کی باتیں مجھے اتنی یاد نہیں جتنی جارج اسلامیہ کی باتیں۔ لہٰذا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جارج اسلامیہ کے اساتذہ اور طلبہ میں متعدد ایسے تھے جنھیں آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا۔
میں نے ۹۴۹۱ءمیں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول (اب انٹر کالج) گورکھپور سے ہائی اسکول پاس کیا اور نیا تعلیمی سال شروع ہوتے ہی میرانام میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج کے گیارہویں درجے میں لکھوادیا گیا۔ لیکن یہ میری اور جارج اسلامیہ کالج کی پہلی ملاقات نہ تھی ۔ گذشتہ سال جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا ، میں نے جارج اسلامیہ کالج میں مضمون نویسی اور فی البدیہ تقریر کے مقابلوں میں تیسرا انعام ( مضمون نویسی) اور خاص انعام ( فی البدیہ تقریر) حاصل کیا تھا۔ مجھے دو کتابیں انعام میں ملیں۔ ایک تو جوش صاحب کا چھوٹا سا ، لیکن مجلد مجموعہ ”شاعر کی راتیں“ تھا اور دوسرا تیغ الہٰ آبادی ( بعد میں مصطفی زیدی) کا اتنا ہی چھوٹا سا غیرمجلد مجموعہ تھا ”روشنی“ ۔ تیغ صاحب کا مجموعہ مجھے اس زمانے میں بھی بہت چھچھلا معلوم ہوا ، بلکہ خدا اور مذہب پر ان کے حملے چھچھورپن اور رکاکت سے مملو معلوم ہوئے ۔ مجھے اس مجموعے کے بہت سے شعر یاد ہیں، اور ان کے بارے میں میری اب بھی یہی رائے ہے۔ جوش صاحب کی کتاب مجھے نسبتاً زیادہ ”شاعرانہ“ معلوم ہوئی اور اس کے بھی بہت سے شعر مجھے اب تک یاد ہیں ۔ تیغ صاحب کی کتاب اب میرے پاس نہیں، لیکن ”شاعر کی راتیں“ خوش قسمتی سے محفوظ ہے۔ اس پر 6 فروری ، 1949ءکی تاریخ پڑی ہے، اور یہ بھی درج ہے کہ میں نے اسے دوسرے دن ختم کرلیا تھا۔
کالج میں جو مضامین مجھے پڑھنے پڑے ان میں انگریزی چھوڑ کرکسی سے بھی مجھے کچھ لگاﺅ نہ تھا۔ انگریزی کے استاد جناب غلام مصطفی خاں رشیدی مرحوم نے اپنی طلاقت لسانی ، تبحر علمی ، پھر اچھے طالب علموں سے دلچسپی اور مسلسل ہمت افزائی کے ذریعہ چند ہی دنوں میں سارے فرسٹ ایر کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ مجھے اس بات کا فخر رہے گا کہ رشیدی صاحب مجھے اچھے طالب علموں میں شمار کرتے تھے اور میرے اردو ادبی ذوق کوبھی انھوں نے ہمیشہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا۔ میں اپنی اردو تحریریں کبھی کبھی ان کو دکھاتا تھا۔ ان کے مشورے نہایت ہمدردانہ اور باریک بینی سے مملو ہوتے تھے اور میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ رشیدی صاحب بہت عمدہ شاعر بھی تھے اور یہاں بھی ان کی مثال میرے لیے رہنمائی کاکام کرتی تھی۔
رشیدی صاحب کے بہت سے شعر مجھے یاد ہیں۔وہ غزل اور نظم دونوں کہتے تھے،اور نظموں میں ان کی طویل نظم ”سراپا“کے بہت چرچے تھے،لیکن وہ طالب علموں کے سامنے ،یاعام محفلوں میں یہ نظم نہ سناتے تھے کہ اس میں کئی شعروں میں تکلف اور احتیاط کا دامن چھوڑ کر معشوق کے بدن کا بیان اور اس کے حسن کی ثنا کی گئی تھی۔میری زندگی کے یادگار دنوں میں ایک دن وہ ہے جب مسعود اختر جمال کسی مشاعرے میں گورکھپور آئے تھے۔ان سے میری اور میرے ایک دوست کی کچھ ملاقات تھی۔ہم لوگ انھیں راضی کرکے اپنے یہاں لے آئے اور جمال صاحب کے وعدے کا سہارا لے کر رشیدی صاحب کو اور گورکھپور کے مشہور شاعر ہندی گورکھپوری کو بھی بلا لائے۔یہ ان بزرگوں کی طالب علم نوازی اور ادب دوستی تھی کہ تینوں بے حیل وحجت تشریف لے آئے اور ہم لوگوں نے دیر تک ان کا کلام سنا ۔ ہندی صاحب نے کیا سنایا،افسوس کہ یہ مجھے یاد نہیں،لیکن جمال صاحب نے میری درخواست پر اپنی مشہور طویل نظم ”صبح بنارس“ بڑے دلنشیں دھیمے ترنم سے سنائی تھی۔مجھے کچھ شعر پہلے سے یاد تھے اور اب بھی یاد ہیں۔نظم شروع ہوتی تھی ،ع
صبح بنارس گنگا کنارے
ایک بند تھا
دلکش منظر حد نظر تک
حد نظر تک دلکش منظر
جنبش لہروں میں ہلکی سی
جیسے فسوں بر لب ہو فسوں گر
رشیدی صاحب نے ہم لوگوں کی درخواست پر ”سراپا“سنائی،لیکن اکثر شعرپھر بھی چھوڑ دئیے ،اور مزاج کی شائستگی دیکھئے کہ انھوں نے کبھی ہم لوگوں سے مخاطب ہو کر نہ کہا،بلکہ ہمیشہ جمال صاحب یا ہندی صاحب سے کہتے، ”یہاں بہت سے شعر چھوٹتے ہیں۔“جو شعر انھوں نے سنائے ان میں سے کچھ مجھے یاد رہ گئے مندرجہ ذیل شعر کے روشن اور لطیف جنسی پیکر مجھے اب بھی بے نظیر لگتے ہیں
سینے سے ہے کلائی روشن وادی شانہ شانے سے
گورے سے گورے عضو بدن میں صبح کف پا عام نہیں
نظم کئی بحروں میں تھی ،اور ہر بند میں کئی شعر تھے۔ایک یہ شعر بھی اب تک میرے دل میں سنسنی پیدا کردیتا ہے ۔
آکاش سے تارے چن لاﺅں لمحوں کو ابد میں ضم کردوں
تم اپنی زباں سے کہہ تو دو پھر کوشش آدم کیا کہئے
افسوس کے اب وہ تینوں اللہ کو پیارے ہوچکے۔ان جیسے شرافت کے پتلے ،حسن خلق اور خوش لباسی کے مجسمے اب کہاں دیکھنے کو ملیں گے۔تینوں شیروانی اور چوڑی مہری کے پاجاموں میں ملبوس ،تینوں کے ہونٹوں پر پان کی سرخی، چہرے پر متین تبسم کی جھلک ۔رشیدی صاحب چھوٹے قد کے اور گورے تھے،ہندی صاحب بھی پستہ قد لیکن سونولے تھے اور تاریک شیشوں کی عینک لگاتے تھے۔مسعود اختر جمال اچھے ہاتھ پاﺅں کے اور گندم گوں تھے۔تینوں کی پیشانیاں شرافت کے نور سے روشن تھیں۔رشیدی صاحب نے شادی نہیں کی تھی۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ رنگین مزاج اور حسن پرست ہیں،لیکن مدت مدید کے نیاز مندانہ اور شاگردانہ مراسم میں مجھے ان کی کوئی بات شرافت اور متانت سے سر مو متجاوز نہیں دکھائی دی۔
رشدی صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کے مجرد رہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عشق میں ناکام رہے تھے۔ممکن ہے ایسا ہی ہو،لیکن ان کے کلام میں عشق کی سچی گرمی تھی اور مضامین کی کیفیت عشق میں ناکامی سے زیادہ محبوب کی بے وفائی کا پتہ دیتی تھی ۔وہ میرا لڑکپن تھا،مطالعہ اور فہم دونوں ہی محدود تھے اور عمر بھی ایسی کہ ہر دلکش کلام فوراً متاثر کرتا تھا۔یہ وہ دن تھے جب جدید شعرا میں مجھے جذبی اور ساحر کا تقریباًسارا کلام ،اور حفیظ جالندھری اور مجاز کا بہت سا کلام یاد تھا۔لہٰذا اس زمانے میں رشیدی صاحب کے کلام سے متاثر ہونا کوئی خاص بات نہ تھی ۔لیکن آج بھی،نصف صدی سے کچھ زیادہ مدت گذر جانے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ عشق کی گرمی اور معشوق کی بے وفائی کا تجربہ رشیدی صاحب کی غزل میں بے نظیر بانکپن اورمحزونی کے ساتھ ادا ہوا۔
یہی بہت کہ میں غائبانہ جبین عجز بچھا سکوں
تراسنگ در تو مرا نہیں کہ وہیں پہ سر کو جھکا سکوں
ہے ملاحتوں کا وہ حال جس پہ صباحتیں بھی نثار ہیں
میں تجھے بھی اپنی نگاہوں سے ترا حسن کاش دکھا سکوں
یہی آرزو ہے رشید یا کہ میں خاک ہونے سے پہلے اب
وہی زندگی وہی صحبتیں کبھی ایک بار تو پاسکوں
٪٪٪٪٪
انداز و اشارات و کنایات نہیں ہیں
آنکھوں کے سوالات و جوابات نہیں ہیں
نظریں ہیں ابھی تک وہی پیمانہ¿ رقصاں
پر پینے پلانے کے اشارات نہیں ہیں
اب تک اسی خاموشی ناطق کے ہیں جلوے
اس نطق میں لیکن وہ خیالات نہیں ہیں
جھک جاتی ہیں اب بھی کبھی ملنے پہ نگاہیں
لیکن وہ محبت کے حجابات نہیں ہیں
٪٪٪٪٪
نگاہیں کہہ رہی تھیں کچھ یکایک خامشی کیوں ہے
یہ دامان نوازش میں شکن آلودگی کیوں ہے
شکایت ہو کہ نفرت ہو کوئی انداز ہو لیکن
تمھیں ترک تعلق پر بھی یہ وابستگی کیوں ہے
٪٪٪٪٪
پیمانہ ¿رقصاں ،پینے پلانے کے اشارات،خاموشی ناطق،دامان نوازش میں شکن آلودگی ،بھلا مجاز اور اختر شیرانی اس سے بہتر کیا کہتے ؟اور تمام اشعار ،خاص کر پہلی غزل کی روانی اور کیفیت ،اور اس کے ساتھ دوسرے شعر کا مضمون،اعلیٰ درجے کی شاعری ضمانت ہیں۔رشیدی صاحب کو چھپنے چھپانے یا مشاعرہ پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسلامیہ کالج کے مشاعروں اور سالانہ میگزین میں وہ ضرور نظر آتے تھے۔کاش کوئی اللہ کا بندہ ان کا کلام وہاں سے جمع کرکے شائع کردیتا۔
انگریزی کے دوسرے استاد ایک مدراسی (غالباً تامل بولنے والے)عیسائی مسٹرپی۔آئی۔کورئین(P.I. Kurien)تھے کورئین صاحب مدراسی لہجے میں انگریزی بولتے تھے جو ہم لوگوں کے لئے انوکھا اور ساتھ ہی ساتھ مرعوب کن تھا،کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ان کا لہجہ اہلِ زبان جیسا ہے۔ اس زمانے میں مدراس (آج کے چنئی) میں انگریزی اس کثرت سے بولی جاتی تھی کہ ہم سب اسے وہاں کی دوسری زبان سمجھتے تھے، اور یہ غلط نہ تھا ۔ یہ اور بات کہ مدراسیوں کا انگریزی لہجہ اہلِ زبان کی طرح بالکل نہ تھا، لیکن یہ بات ہم لوگ اس وقت کہاں سمجھ سکتے تھے۔ بہرحال ، کورئین صاحب چند مہینے بعد سینٹ اینڈروز کالج (St. Andrew’s College) چلے گئے۔ وہاں ایم۔اے ۔ تک پڑھائی ہوتی تھی اور وہ گورکھپور کا نہایت قدیمی اور مہتم بالشان کالج تھا۔ مجنوں صاحب بھی وہیں اردو اور انگریزی پڑھاتے تھے۔ ہم لوگ کورئین صاحب سے اس بناپر بھی مرعوب ہوئے کہ انھیں بی۔اے۔ پڑھانے کے لائق سمجھا گیا، لیکن رشیدی صاحب کی بات ہی اور تھی۔
ہمارے پرنسپل حامد علی خاں صاحب دبلے پتلے نہایت کم سخن تھے اور دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے لیکن ناراض ہوجائیں تو ڈانٹ بھی دیا کرتے ۔ انھوں نے کچھ دن ہم لوگوں کو الگ سے انگریزی صرف و نحو وغیرہ پڑھائی۔
اردو کے اساتذہ میں منظور علی صاحب کی نستعلیق صورت ، عمدہ شیروانی، منجھی ہوئی آواز اور باوقار رکھ رکھاﺅ سے لگتا تھا کہ وہ کسی بڑی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ شمس الآفاق صاحب شمس اردو کے دوسرے استاد تھے ۔ وہ منظور صاحب کے مقابلے ذرا کم بارعب شخصیت کے مالک تھے ۔ شیروانی اور بڑے پائینچوں کا پاجامہ وہ بھی پہنتے تھے۔ یہ لباس ان پر بھلا لگتا تھا۔ دیگر استادوں کی طرح شمس الآفاق صاحب بھی مجھ پر مہربان تھے۔ ایک بار میرے ایک افسانے کی انھوں نے بہت تعریف کی تھی۔
سائنس سے مجھے کوئی لگاﺅ نہ تھا لیکن کیمسٹری کی لیبوریٹری سے اٹھنے والی پراسرار بدبوئیں مجھے ہمیشہ ان تقریباً مخبوط الحواس سائنس دانوں(Mad Scientists)کی یاد لائی تھیں جواس زمانے میں کئی انگریزی اور ایک آدھ اردو افسانوں میں نظر آتے تھے۔لطف یہ کہ کیمسٹری کے لکچرر صاحب(وہ بھی شاید کوئی مدراسی تھے،لیکن ہندو)کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بڑے سائنٹسٹ ہوتے لیکن ایک بار بڑے حادثے کا شکار ہوگئے۔کہا جاتا تھا کہ وہ کیمسٹری کا کوئی بہت مشکل اور عالمانہ تجربہ کررہے تھے جس میں طرح طرح کی گیسیں بروئے کار لائی جاتی تھیں۔ان گیسوں میں کچھ ایسی بھی تھیں جنھوں نے ان کے دماغ پر اثر ڈالا اور وہ نیم مخبوط الحواس ہوگئے۔یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بہت بڑی یونیورسٹی میں ہونے کے بجائے گورکھپور کے ایک چھوٹے سے انٹر کالج ہی میں لکچرر ہوسکے تھے۔حقیقت کیا تھی ،یہ تو خدا ہی جانے لیکن ایک بار ان کا غصہ میں نے بھی دیکھا تھا۔وہ سب لڑکوں کو بھگاتے ہوئے لیبوریٹری کے باہر تک لے آئے تھے اور چیخ رہے تھے:
Get out! You are not fit to study!
ظاہر ہے کہ قصور لڑکوں ہی کا رہا ہوگا۔ہم لوگ ان کی لیبوریٹری کے سامنے سے چپ چاپ گذرتے ،شور ہر گز نہ مچاتے تھے۔افسوس کہ ان کا نام بھول گیا ہوں لیکن ان کی شکل ٹھیک سے یاد ہے،پکا سانولا رنگ،موٹے موٹے ہونٹ ،ماتھے پر شکن اور ناک پر عینک ہمیشہ رہتی۔
اقتصادیات کے استادانتظار حسین صاحب مجھے اس لیے یاد ہیں کہ وہ کرکٹ کے عمدہ کھلاڑی تھے اور بریلی ضلع کی ٹیم میں مشہور زمانہ تیز گیند انداز اور ٹسٹ کھلاڑی محمد نثار صاحب کی گیندوں پر وکٹ کیپری کرچکے تھے۔کلاس میں وہ اقتصادیات کی اصطلاحات کے سوا ایک بھی لفظ انگریزی کا نہ بولتے تھے۔نہایت خوش مزاج اور خوش لباس شخص تھے۔ ہائی اسکول کے درجے پڑھانے والوں میں ایک استاد شیخ جگو المتخلص بہ مائل تھے۔ان کا اصل نام ہی ”جگو“ تھا،جس طرح موجودہ پرنسپل صاحب کے پیش رو پرنسپل صاحب کا نام چھوٹے خاں تھا۔وہ بھی بڑے دبدبے کے پرنسپل تھے،انگریز نے انہیں ”خان صاحب“کا خطاب بھی دیا تھا۔شیخ جگو صاحب کی لیاقت کا عالم تھا کہ اگرچہ و ہ سائنس کے طالب علم کبھی نہ رہے تھے لیکن انھوں نے الہٰ آباد یونیورسٹی کے نامور پرفیسر گورکھ پرشاد کی کتاب ،جو فلکیات اور علم ہیئت پر تھی،اس کا ترجمہ اردو میں کیا تھا۔یہ ترجمہ اعلیٰ درجے کے کاغذ پر ٹائپ کے حروف میں ہندوستانی اکیڈمی الہٰ آباد سے چھپا تھا۔پھر انگریزی گرامر اور ریاضی کے ماہر بابو گجا دھر پرشاد تھے۔سارا کالج ان کا ادب کرتا تھا۔جغرافیہ کے لکچر ر منیر صاحب تھے ، نہایت نیک نفیس اور کم گو۔وہ شاعر بھی تھے۔ہم لوگ ان کی خدمت میں تھوڑے بہت گستاخ تھے۔ہندی کے استاد کا نام بھول گیاہوں،بہت سیدھے سادھے بھلے آدمی تھے۔ایک بار ان کی چھتری کلاس میں چھوٹ گئی تھی۔میں اسے اٹھائے اٹھائے ان کے پیچھے بھاگ کر گیااور چھتری ان کی خدمت میں حاضر کردی۔انھوں نے گرم جوشی سے”دھنیہ واد“ کہا۔مجھے یہ بات ان کے لہجے کی گرم جوشی کے باعث ،اور اس سبب سے یاد رہ گئی کہ اب تک مجھے کسی نے ”دھنیہ واد“نہ کہا تھا۔میرے کان Thank Youاور ”شکریہ“کے آشنا تھے۔
میں اردو کا طالب علم نہ تھا(ہندی البتہ میں نے پڑھی،اس زمانے میں انٹر اور بی۔اے۔دونوں میں غیر ہندی داں طالب علموں کو”ابتدائی ہندی“پڑھائی جاتی تھی۔انٹر میں ہم لوگوں نے ہندی کی ایک درسی کتاب”ہندی ہلور“نام کی پڑھی تھی۔ہم لوگ مدتوں اس نام سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔اس زمانے میں ہندی کی نثر بہت غیر ترقی یافتہ تھی۔لیکن آج تو ہندی خوب اچھی لکھی جارہی ہے اور اہل اردو پچھڑے جارہے ہیں۔)ادب سے میرے شغف کی بدولت منظور صاحب نے مجھے بزم ادب کا معتمد بنادیا تھا۔اس کے پچھلے سال منظور صاحب کی نگرانی میں انشا کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں انتہائی دلچسپ اور پر اثر ڈراما کالج میں ہوا تھا۔انشا،سعادت علی خاں،اور جرا¿ت کے کردار جن لڑکوں نے ادا کئے تھے ان کے نام بھول گیا ہوں ،لیکن ان کے ادا کئے ہوئے مکالمے ،ان کا طرز گفتار ورفتار ، اب بھی مجھے یاد ہیں۔میں بے کھٹکے کہتا ہوں کہ اتنے عمدہ ڈرامے میں نے کم دیکھے ہیں ۔اس سال ایک بڑا مشاعرہ بھی ہوا تھا جس کے شعرا میں سید حامد اور ان کے شعر مجھے خوب یاد ہیں۔سید حامد ان دنوں آئی۔اے۔ایس۔میں کامیاب ہو کر گورکھپور میں ریجنل فوڈ کنٹر ولر کے عہدے پر تھے اور ہمارے لئے ہیرو کا مرتبہ رکھتے تھے۔
منظور صاحب نے مجھے معتمد بزم ادب بنا تو دیا تھا لیکن جلد ہی انھیں اور مجھے معلوم ہوا کہ اس کام کے لئے جتنے محنت،ذمہ داری ،اور طالب علموں سے ملتے جلتے رہنے کی ضرورت ہے،وہ میری بساط کے باہر ہے۔لہٰذا میں نے استعفیٰ دے دیا جو بخوشی قبول کرلیا گیا۔
اردو کے ایک استاد مولوی صدیقی صاحب تھے،منظور صاحب اور شمس الآ فاق صاحب کے مقابلے میں وہ بالکل مولوی لگتے تھے،شاید جماعت اسلامی سے بھی منسلک تھے۔میں بزعم خوداردو میں مہارت رکھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ اردو کا کوئی شعر یا کلام ایسا نہیں جسے میں نہ سمجھ سکوں۔پھر ایک دن اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا۔ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ مجھے سودا کا قصیدہ پڑھادو،ع
سنگ کو اتنے لئے کرتا ہے پانی آسماں
میں نے کہا ،لاﺅ جھٹ پڑھادیں گے۔لیکن جب کتاب کھلی تو میری زبان بند ہوگئی ۔بھلا ایک شعر تو سمجھ میں آیا ہو۔میں کوئی بہانہ کرکے بھاگا بھاگ مولوی صدیق صاحب کے یہاں گیا۔وہ فرشتہ صفت شاید کسی کام میں مصروف رہے ہوں،لیکن انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے،اور مزے لے لے کر وہ قصیدہ مجھے پڑھایا۔میں اس وقت ان کا شکر گذار ہوا ،اور ہمیشہ کے لئے احسان مند بھی ہوں کہ ان کی پڑھائی سے مجھے معلوم ہوا کہ کلاسیکی ادب کی کیا خوبصورتیاں ہیں،اور یہ کہ یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا میں سمجھ رہاتھا۔
جارج اسلامیہ کی لائبریری اس زمانے میں اعلیٰ درجے کی انگریزی کتابوں،خاص کر یورپی فکشن کے انگریزی تراجم پر مبنی موٹی موٹی جلدوں سے بھری ہوئی تھی۔میں نے کئی کتابیں وہاں نکال کر پڑھیں،گھر لے جانے کی اجازت نہ تھی ۔موجودہ زمانے کا حال نہیں کہہ سکتا،لیکن اس زمانے میں کالج لائبریری کا دارالمطالعہ تقریباً ہمیشہ لڑکوں سے بھرا رہتا تھا۔غلام مصطفیٰ صاحب اور شمس الآ فاق صاحب بھی اکثر وہاں بیٹھتے تھے۔کیا مجال کہ کسی طالب علم یا استاد کی آواز بلند ہوجائے،یا کرسی ہی کھینچنے کی آواز اونچی سنائی دے۔میں فرسٹ ایر میں تھا تو سکنڈ ایر کے ایک مقبول اور اچھے طالب علم نے (افسوس کہ ان کا نام اب یاد نہیں)میری طرف اشارہ کرکے شاید کورئین صاحب سے،یا کسی اور سے ، مسکراتے ہوئے مجھےThis little chapکہا۔میری عمر کم تو تھی ہی،لیکن میں کچھ دبلا پتلا اور متوسط قد بھی تھا ،اور وہ صاحب تنو مند اور بلند و بالا تھے۔مجھے یاد ہے کہ This little chapکا خطاب مجھے کچھ برا نہ لگا ،بلکہ اچھا ہی لگا کہ ان کی انگریزی با محاورہ تھی۔اس وقت تک میری انگریزی کے چرچے بہت نہ تھے،لیکن واقف کار لوگ جانتے تھے ۔فرسٹ ایر کے شش ماہی امتحان میں انگریزی کے کسی پرچے میں ہمیں ”کتب بینی “پر مضمون لکھنا تھا۔میں لکھنے میں منہمک تھا اور ایک استاد سید تسنیم احمد میری پشت پر کھڑے دیکھ رہے تھے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔معاً ان کے منھ سے نکلا ،”اجی تم تو بہت اچھی انگریزی لکھتے ہو!“پندرہ بیس لڑکے رہے ہو ں گے ،لیکن کوئی متوجہ نہ ہوا ،کیوں کہ اس وقت میرے ساتھی سبھی جان گئے تھے کہ میری انگریزی بہت اچھی ہے۔
شہر میں ایک اور لائبریری سے میرا رابطہ مدتوں رہا۔یہ واحد لائبریری تھی ،اور اس کے کرتا دھرتا ، مالک،منیجر،سب کچھ واحد بھائی(واحد علی ہاشمی)تھے۔اللہ بخشے واحد بھائی مرحوم سے میری اچھی نہ بنتی تھی،کیونکہ میں الماری سے بے تکلف کتاب نکال لینے کا عادی تھا،لیکن لائبریری کا ممبر نہ تھا۔میری مالی حالت ہی ایسی نہ تھی کہ لائبریری کی بہت حقیر فیس ادا کر سکتا، اور واحد بھائی کا خیال تھا کہ دارالمطالعہ میں بیٹھ کر پڑھنے کا استحقاق بھی انھیں کو ہے جو باضابطہ رکن کتب ہوں۔ دوسری بات یہ کہ طالب علم کی حیثیت سے میری سنجیدگی شاید واحد بھائی کی نظر میں بہت مشکوک تھی ، کیونکہ میں افسانے ، ناول ،اور خاص کر جاسوسی ناول بہت پڑھتا تھا ۔ ایک بار جب میں نے ان سے اختر حسین رائے پوری کی مترجمہ قاضی نذر الاسلام کی نظموں کے مجموعے ”پیغامِ شباب“ کی فرمائش کی تو انھوں نے سمجھا کہ میں عنوان سے دھوکا کھاکر اسے کوئی عشقیہ ناول سمجھا ہوں۔ انھوں نے کتاب مجھے دے تو دی لیکن کئی بار کہا کہ یہ آپ کے مطلب کی نہیں ہے۔
میں نے واحد بھائی جیسا فنافی الکتاب شخص نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنا تن من دھن سب لائبریری میں لگا دیا۔ خدا جانے ان کی روٹی کس طرح چلتی تھی اور کتابیں وہ کہاں سے خریدتے تھے۔ افسوس کہ وہ بھی راہی ملک عدم ہوئے اور ان کی لائبریری سب بکھر گئی۔
مجھ سے اوپر کے طالب علموں میں نجات اللہ صدیقی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہ مجھ سے دوسال آگے تھے لہٰذا جب میں پہنچا تو وہ کالج چھوڑ چکے تھے۔ لیکن تمام کالج میں ان کی شہرت بہت تھی، اور ہم لوگوں سے کچھ ان کی عزیز داری بھی تھی۔ انھوں نے انٹر میڈیٹ میں سارے یو۔پی ۔ میں نواں مقام حاصل کیا تھا۔ یہ آج بھی بہت بڑی بات ہے، اور اس زمانے میں تو اور بھی بڑی بات تھی، کہ اس زمانے میں طالب علم نسبتہً کم تھے لیکن امتحان بہت سخت ہوتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ میں فرسٹ کلاس لانا گویا چاند پر اترنا تھا۔ سیکنڈ کلاس بھی بہت باعزت نتیجہ تھا۔ اکثریت تھرڈ کلاس والوں کی ہوتی تھی۔ پھر نجات اللہ صاحب نے نویں پوزیشن اس وقت حاصل کی تھی جب سارے ملک میں مسلمانوں کے دل مایوسی سے بھرے ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ ایمان دارانہ سلوک بہت کم ہوتا تھا ، بلکہ اکثر حالات میں تو ہوتا ہی نہ تھا۔ نجات اللہ صاحب کی شاندار کامیابی سے کچھ ہی کم بڑی بات یہ تھی کہ انھوں نے انگریزی تعلیم جاری رکھنے کے بجاے رام پور میں جماعت اسلامی کے مدرسہ¿ عالیہ میں اسلام اور عربی پڑھنے کا فیصلہ کیا۔
نجات اللہ صاحب ایک بار مجھے اسلامیہ کالج میں پرنسپل صاحب کے دفتر کے سامنے ملے تو میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے ، تو انھوں نے اپنے ہاتھ میں ایک کاغذ کی طرف اشارہ کرکے جواب دیا:
” پرنسپل صاحب سے اپنے بارے میں ایک Testimonial(تصدیق نامہ) لینا ہے ، اسی کا ڈرافٹ لایا ہوں۔ “
میں اس وقت لفظ ” ڈرافٹ “ سے ناواقف تھا، کچھ غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ اس طرح کے مسودے کو ، جس پر کسی اور کی منظوری یا دستخط ہونے ہوں ، انگریزی میں ڈرافٹ کہتے ہیں۔ اور یہ بات بھی مجھے متاثر کن لگی کہ اپنے تصدیق نامے کا مسودہ نجات اللہ صاحب خود لائے تھے ، یعنی انھیں اپنے اوپر اس قدر اعتماد ہے اور پرنسپل صاحب بھی ان پر اس قدر اعتبار کرتے ہیں کہ انھیں سے ان کا تصدیق نامہ لکھواتے ہیں۔ چونکہ یہ لفظ ” ڈرافٹ“ میں نے ان سے گویا حاصل کیا تھا اس لیے میں انھیں اپنا استاد سمجھتا ہوں۔ نجات اللہ صاحب موٹے شیشوں کی نیلگونی عینک لگاتے تھے ، اس کا بھی ہم لوگوں پر بڑا رعب تھا۔ بعد میں جب میں جماعت اسلامی سے متاثر ہوا اور نجات اللہ صاحب کبھی کبھی رام پور سے آتے تو ہم لوگوں کا محاسبہ کرتے کہ جماعت کی کتابیں ہم نے کتنی پڑھیں اور ان پر کس حد عمل پیرا ہوئے ۔ یہ سلسلہ جلد ہی ختم ہوگیا۔
میرے ساتھیوں میں سب سے تیز اور لائق لڑکا اظہار عثمانی تھا۔ افسوس کہ وہ پاکستان چلاگیا۔ پاکستان سے اس کے خط کبھی کبھی آئے ، پھر بند ہوگئے۔ اس کا ایک خط واحد بھائی کے پاس آیا تھا جس میں میری بڑی تعریف تھی کہ ان کا مطالعہ ”وسیع اور ہمہ گیر“ ہے۔ واحد بھائی کی رائے میرے بارے میں ایسی نہ تھی اس لیے انھیں یقین کرنے میں مشکل ہورہی تھی کہ اظہار کی مراد مجھی سے ہے۔ انھوں نے اس کا خط مجھے دکھایا اور پوچھا، یہ کون صاحب ہیں جن کا ذکر اظہار صاحب نے کیا ہے۔ پاکستان جانے کے بعد اظہار نے کچھ بہت زیادہ ترقی نہ کی ۔ شاید وہ کسی کالج میں لیکچرر ہوگیا اور پھر بہت جلد اللہ کو پیارا ہوگیا۔ میرا اس کا رابطہ اس وقت سے بالکل ٹوٹ گیا تھا جب میں نے گورکھپور چھوڑا (1953) اس کے مرنے کی خبر مجھے بہت بعد میں ملی۔ پھر اس کے بعد اظہار کا ذکر میں نے پاکستان میں تب سنا جب مظفر علی سیّد سے میری ملاقات ہوئی ۔ دریغا کہ اب مظفر علی سیّد بھی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ انھوں نے میرا مضمون ”غبارکارواں“ پڑھا تھا جس میں اظہار کا ذکر تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اظہار سے ان کی اچھی ملاقات تھی اور اس کی موت کار حادثے میں ہوئی تھی۔
اظہار کے ساتھ میرے دوسرے لائق دوست عبدالحی¿ خاں، یامین اور ابرار حسین خاں تھے ۔ عبدالحی¿ خاں ڈاکٹر بنے اور تھوڑا بہت تصنیف و تالیف کا شوق انھوں نے کالج کے بعد برقرار رکھا لیکن موت نے انھیں بھی بہت جلد تاک لیا۔ یامین کو شعر گوئی کا ذوق تھا ، ترنم بھی اس کا اچھا تھا۔ بھاری بھرکم ، بذلہ سنج ، کم جاننے والا لیکن زیادہ مرعوب کرنے والا، وہ بھی پاکستان چلا گیا۔ خدا جانے اس پر کیا بیتی۔ ابرار حسین خاں خود کو بہت لیے دیئے رہنے والے ، نہایت ذہین اور شعر فہم ، لیکن بہت جلد پریشان ہوجانے والے ، میرے قریب ترین دوست تھے۔ وہ گورکھپور سے علی گڑھ گئے ، پھر انھوں نے تعلیمات میں پی۔ایچ۔ڈی ۔ کی ڈگری لی ، شاعری میں ابرار اعظمی کے نام سے نام کمایا ۔ اب وظیفہ یاب ہوکر اپنے گاﺅں خالص پور ، ضلع اعظم گڑھ میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماراگھر کا سا آناجانا اب بھی ہے۔
اقبال انصاری ہم لوگوں سے ایک سال پیچھے تھے لیکن ذہانت اور خوش مزاجی او ر خوش صورتی کے سبب سے ہم لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ انھوں نے بنارس میں انجینئرنگ میں داخلہ لیا، لیکن پھر انگریزی میں آگئے اور اقبال اے۔انصای کے نام سے علی گڑھ میں انگریزی کے سربرآوردہ پروفیسر بنے۔ اب بھی وہ علی گڑھ میں ہیں اور اقلیتوں اور انسانی حقوق کے لیے نبرد آزما کئی اداروں سے منسلک یا ان کے سربراہ ہیں۔
ہم سب پر جماعت اسلامی کا تھوڑا ، یا بہت اثر پڑا ۔ اظہار تو بہت جلد کمیونزم کی طرف مائل ہوگیا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں مارکس اور لینن کی تصنیفات پڑھ ڈالی تھیں۔ لیکن اس میں کٹر پن کا شائبہ نہ تھا، بڑا عالی دماغ شخص تھا ۔ عبدالحی¿ خاں بھی اشتراکیت کی طرف جھکے ہوئے تھے، لیکن ان کا رنگ ہلکا تھا۔ ابرار اعظمی اور اقبال انصاری دیر تک جماعت کی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ دونوں کی مذہبیت اب بھی باقی ہے۔ لیکن جماعت سے وہ تعلق شاید اب نہیں رہ گیا، جماعت کے بارے میں خوش عقیدگی ابرار اعظمی میں بے شک اب تک ہے۔ بی۔اے کا دوسرا سال ختم ہوتے ہوتے (1953) میں جماعت اسلامی سے منحرف ، اور پھر بہت جلد متنفر ہوگیا۔ جماعت سے لگاﺅ کے ساتھ ساتھ ، یا اس کے باوجود ، میں گورکھپور کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی جلسوں میں شریک ہوتا تھا۔ وہاں ،اور بعض دوسرے جلسوں میں فراق صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقع کئی بار ملا ۔نامی گرامی ترقی پسندوں کا مداح ہونے کے باوجود مجھے ترقی پسندی کو گلے سے اتارنے (ےا کم از کم گلے سے لگالےنے)کی توفیق کبھی نہ ہوئی۔اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی روس،اور پھر سویت یونین نے وسط ایشیاکے مسلمان ممالک پر جو ظلم کیے تھے اور جس طرح اسلامی تہذیب کی بیخ کنی کی تھی ،اس سے میں واقف تھا ۔انسانی حقوق کے احترا م کے سلسلے میں بھی مجھے اسٹالن کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہ تھی ۔
ممکن ہے امتداد زمانہ کے سبب پرانی کہانیاں اب زیادہ رنگین نہ معلوم ہوتی ہوں،مجھے تو یہی لگتا ہے کہ میری طالب علمی کے سب سے اچھے دن وہی تھے جومیں نے میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور میں گذارے۔انھیں کو یاد کرکے خوش ہو لیتا ہوں ،ظفر خاں احسن کیا خوب کہہ گئے
زبہر مستیم کے کاربا جام و شراب افتد
مرا از گفتگو ے بادہ سر خوش مہ تواں کردن
٪٪٪٪٪