Zauq ki Kuch GhazleN

Articles

انتخابِ کلام ذوق

شیخ محمد ابراہیم ذوق

کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا​​

جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا​

نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا ​

اگر پارے کو اے اکسیر گر ! مارا تو کیا مار ​

بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا ​

نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا​

خطا تو دل کی تھی قابل ، بہت سی مار کھانے کی ​

تری زلفوں نے مشکیں باندھ کر مارا تو کیا مارا​

نہیں وہ قول کا سچا ، ہمیشہ قول دے دے کر​

جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا مارا​

تفنگ و تیر تو ظاہر نہ تھے کچھ پاس قاتل کے ​

الٰہی اس نے دل کو تاک کر مارا تو کیا مارا​

ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا​

کسی نے قہقہہ ،اے بے خبر مارا تو کیا مارا​

مرے آنسو ہمیشہ ہیں برنگ لعل غرق خوں​

جو غوطہ آب میں تو نے گہر مارا تو کیا مارا

جگر دل دونوں پہلو میں ہیں زخمی اس نے کیا جانے​

اِدھر مارا تو کیا مارا ا دھر مارا تو کیا مارا​

گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں​

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا​

دل سنگینِ خسرو پر بھی ضرب اے کوہکن پہنچی​

اگر تیشہ سرِ کہسار مارا تو کیا مارا​

دل بد خواہ میں تھا مارنا یا چشم ِ بد بیں میں​

فلک پر ذوق تیر ِ آہ گر مارا تو کیا مارا​

……………………………….

لائی حيات آئے ، قضا لے چلي چلے
اپني خوشي نہ آئے نہ اپني خوشي چلے

ہم عمر خضر بھي تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کيا رھے يہاں ابھي آئے ابھي چلے

ہم سے بھي اس بساط پہ کم ہوں گے بد وقمار
جو چال ہم چلے سو نہايت بري چلے

ليلي کا ناقہ دشت ميں تاثير عشق سے
سن کر فغانِ قيس بجائے حدي چلے

نازاں نہ ہو خرد پہ جوہونا ھے ہو وہي
دانش تيري نہ کچھ مري دانش وري چلے

دنيا نے کس کا راہ ميں ديا ہے ساتھ
تم بھي چلے چلو يونہي جب تک چلي چلے

—————————-

 

معلوم جو ہوتا ہميں انجامِ محبت
ليتے نہ کبھي بھول کے ہم نامِ محبت

مانند کباب آگ پہ گرتے ہيں ہميشہ
دل سوز ترے بستر آرامِ محبت

کي جس سے رہ و سم محبت اسے مارا
پيغام قضا ہے ترا پيغامِ محبت

نے زہد سے ھے کام نہ زاہد سے کہ ہم تو
ہيں بادہ کش عشق و مئے جام محبت

ايمان کو غرورکہ کے نہ يوں کفر کو لے مول
کافر نہو گرويدہ اسلام محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کي سناں کو
چڑھ سر کے بل سے زينے پہ تا بام محبت

——————————

اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے
مر کے بھي چين نہ پايا تو کدھر جائيں گے

تم نے ٹھرائي اگر غير کے گہر جانے کي
تو ارادے يہاں کچھ اور ٹھر جائيں گے

خالي اے چارہ گر ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہيں ايسے کہ بھر جائيں گے

پہنچيں گے رہ گزر يار تلک کيوں کر ہم
پہلے جب تک دو عالم سے گزر جائيں گے

ہم ہيں وہ جو کريں خون کا دعوي تجھ پر
بلکہ پوچہے گا خدا بھي تو مکر جائيں گے

آگ دوزخ کي بھي ہو جائے گي پاني پاني
جب يہ عاصي عرق شرم سے تر جائيں گے

ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہيں ملا
ان کو مے خانے ميں لے آئو سنور جائيں گے​​​

lehaf by Ismat Chughtai

Articles

لحاف

عصمت چغتائی

 

عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انھوں نے اردو میں ایک بے باک تانیثی رویے اور رجحان کا آغاز کیا اور اسے فروغ بھی دیا۔ عصمت۲۱؍ اگست۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہربدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ لہٰذا ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اسی سبب سے ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایوں کی ایک گرلس کالج میں ملازمت اختیارکی۔ وہ ۱۹۴۲ء میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے بمبئی پہنچیں۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ فلم، صحافت اور ادب ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محورہیں۔ ان کا انتقال ممبئی میں ۲۴؍ اکتوبر۱۹۹۱ء کو ہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے چندن واڑی سری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔
عصمت چغتائی بڑی آزاد خیال اور عجیب و غریب خاتون تھیں۔اُن کی شخصیت اور انسانی رشتوں اور ان رشتوں کے ساتھ عصمت کے رویے اور تعلق کو درشانے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ مختصر واقعات نقل کیے جائیں جنھوں نے عصمت کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ مثال کے طور پر مشہور افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک اپنے ایک مضمون میں ساحر لدھیانوی کے گھر فراق کے اعزاز میں دئے گئے ایک ڈنر جس میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف بھی تھے کا ذکر کرتے ہوئے عصمت کے کردار کی یہ تصویر کھینچتے ہیں:
’’سبھی مرد عورتیں پی رہے تھے۔ عصمت نے ایک آدھ پیگ پینے کے بعد ہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے بہ آواز بلند کہا۔۔۔ ’’میر اجی چاہتا ہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں ، لیکن شاہد زہر کھا لے گا‘‘۔۔۔ مجھے اس ریمارک سے خاصہ دھکا لگا تھا۔ کوئی عورت پی کر بھی ایسا ریمارک نہیں کس سکتی۔ جب تک کہ اپنے شوہر کی بے راہ روی یا کمزوری سے اس کے دماغ میں یہ خیال نہ پیدا ہوا ہو یا پھر شوہر کے علاوہ وہ کسی اور مرد کونہ چاہتی ہو۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: اوپیندر ناتھ اشک۔ ص: ۲۲۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
عصمت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والوں میں قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ انھوں نے عصمت کی وفات سے متاثر ہو کر لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا تھا اس میں عصمت کی آزاد خیالی کو اس واقعے کی روشنی میں پیش کیا :
’’ان کی بڑی بیٹی نے بنگلور میں سول میریج کر لی اور اطلاع دی کہ اس کی ساس سسر مذہبی رسوم کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں آپ بھی آ جائیے۔ بنگلور سے واپس آکے عصمت آپا نے اپنے خاص انداز میں نہایت محظوظ ہوتے ہوئے سنایا کہ صبح صبح میں اٹھ گئی۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ ان کا پنڈت آگیا۔ اب وہ بے چارہ ایک کمرے میں پریشان بیٹھا تھا۔ کہنے لگا مہورت نکلی جا رہی ہے اور یہاں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں پوجا کیسے شروع کروں۔ میں نے کہا اے پنڈت جی آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ میں پوجا شروع کروائے دیتی ہوں۔ بس میں بیٹھ گئی اور میں نے پوجا شروع کروا دی۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا بھلا اپ نے پوجا کس طرح کروائی۔ کہنے لگیں۔ اے اس میں کیا تھا۔ پنڈت نے کہا۔ میں منتر پڑھتا ہوں آگ میں تھوڑے تھوڑے چاول پھینکتے جائیے۔ میں چاول پھینکتی گئی۔ اتنے میں گھر کے اور لوگ بھی آ گئے۔ بس۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: قرۃ العین حیدر۔ ص:۳۷۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
یہ ہے عصمت چغتائی کی سیرت وشخصیت ،کردار اور ان کی فکر کا محور۔ وہ بہت آزاد خیال تھیں۔ وہ تاش دلچسپی سے کھیلتیں اور لگاتار سگریٹ پیتی تھیں۔ انھیں مے نوشی کا بھی شوق تھا۔ ان کے سینے میں مردوں یا اپنے حریفوں سے انتقام کی آگ ہمیشہ جلتی رہی۔ جس سے نفرت ہوئی اس کو کبھی معاف نہیں کیا۔ دراصل انھوں نے اپنے بچپن ہی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ اچھی سے اچھی بیٹی نالائق سے نالائق بیٹے سے کم ترہی سمجھی جاتی ہے چنانچہ ان کی اپنے کسی بھائی سے کبھی نہیں نبھی۔ ہر بھائی سے لڑائی جھگڑے میں ہی ان کا بچپن گزرا۔ بچپن کا یہ نقش ان کے بڑھاپے تک پتھر کی لکیر بنا رہا اور مردوں سے بیر رکھنا ان کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ وہ انتقام کی اسی آگ میں ہمیشہ جلتی رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد خود جل کر راکھ ہو گئیں۔ عصمت چغتائی کی سوچ کا تانا بانا انھیں حادثات و واقعات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں قلم سنبھالا اور اپنے باغی لب و لہجے سے مردوں کی صفوں میں ہل چل مچا دی ۔ساتھ ہی یہ یقین دلانے کی بے باکانہ کوشش بھی کی کہ عورت اپنی محدودیت کے باوجود لامحدود ہے اور مرد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرۂ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ اپنے افسانوں کے مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں شائع کروائے۔ دھانی بانکپن اور شیطان جیسے معروف ڈرامے قلمبند کیے اور تاویل، سودائی اور دوزخی جیسے بے مثال خاکے لکھے۔ ان کی یہ وہ تخلیقات ہیں جو ناول، افسانہ، ڈراما اور خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔
ناول نگاری کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عصمت کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔ انھوں نے زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کے مسائل اور ان کی نفسیات پر لکھا جس پر انھیں گہرا عبورحاصل تھا۔ ان کے زیادہ تر افسانے ایک ایسے المیے پر ختم ہوتے ہیں جو حقیقت سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو سچ بولنا سکھایا اور عورت کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانی کا موضوع بنایا۔ چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں ، سونے کا انڈا، چھوئی موئی، بھول بھلیاں ، ساس، لحاف، بے کار، کلو کی ماں ، اف یہ بچے، چارپائی، جھوٹی تھالی، میرا بچہ، ڈائن، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، تل، لال چیونٹے، پیشہ ور، ننھی کی نانی وغیرہ ان کے مشہور اور یادگار افسانے ہیں۔ ان افسانوںمیں انھوں نے ایک مخصوص قسم کی فضا تخلیق کی ہے جو فضا گھر اور گھریلو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان افسانوں میں عورت کا تصور اس کی بدنصیبی سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس کی پوری زندگی تلخیوں اور پریشانیوں میں گھری معلوم ہوتی ہے اور آخر میں وہ ان دکھوں کی تاب نہ لا کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ عصمت کے زیادہ تر افسانے ایک خاص طبقے اور خصوصی طور پر عورت کے گھریلو ا ور جنسی تعلقات کے اردگرد گھومتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں یکسانیت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے جو قاری کے لیے کبھی کبھی اکتاہٹ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
عصمت صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ ان کے افسانے:جڑیں ، کافر، دو ہاتھ اور ہندوستان چھوڑ دو وغیرہ گہرے تاریخی اور معاشرتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے دو ہاتھ میں محنت کس طبقے کی اہمیت اجاگر کیا ہے۔ دراصل عصمت کا دور ترقی پسندی کا دور تھا جس میں سماجی نا انصافیوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ دیا گیا۔ یوں انھوں نے سماج کے ہر مسئلے اور طبقے پر لکھا لیکن یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عورت کی نفسیات اور جنس کے موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کے حامل تھے۔
عصمت ناول نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈراما نگار بھی تھیں انھوں نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری پر زور دیا۔ ان کے ڈراموں میں ایک بات اور نیلی رگیں بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب بھی ان کے اچھے ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے کردار ہیں۔ ان کی زبان صاف، سادہ اور دل کش ہے۔
عصمت کے تحریر کیے ہوئے خاکے تاویل، سودائی اور دوزخی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خاکوں میں دوزخی کو ادبی دنیا میں کافی مقبولیت ملی۔ جب یہ ماہنامہ ساقی (دہلی) میں شائع ہوا تو منٹو کی بہن نے کہا کہ ’’سعادت یہ عصمت کیسی بے ہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت منٹو نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کروتو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔
بلاشبہ عصمت کی تحریریں موضوعات، اسلوب، کردار اور لب و لہجے کے اعتبار سے تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہار کا پہلا معتبر تجربہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تانیثیت کی پہلی اور مستند دستاویزات ہیں۔


لحاف

جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیواروں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔

معاف کیجئے گا، میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جا رہی ہوں۔ نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل آرام دہ سہی، مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جب لحاف کی پرچھائیں دیوار پر ڈگمگا رہی ہو۔ یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مار کٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ میں کم بخت اتنی لڑاکا کیوں ہوں۔ اس عمر میں جب کہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں میں اپنے پرائے ہر لڑکے اور لڑکی سے جو تم بیزار میں مشغول تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں، تو ہفتے بھر کے لئے مجھے اپنی منہ بولی بہن کے پاس چھوڑ گئیں۔ ان کے یہاں اماں خوب جانتی تھی کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں اور میں کسی سے لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی! ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح محفوظ ہے۔ یہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اسی لئے داماد بنالیا کہ وہ پکی عمر کے تھے۔ مگر تھے نہایت نیک۔ کوئی رنڈی بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہیں آئی۔ خود حاجی تھے اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔ مگر انہیں ایک عجیب و غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا شوق ہوتا ہے، بٹیرے لڑاتے ہیں، مرغ بازی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفر ت تھی۔ ان کے یہاں تو بس طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے جن کا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔

مگر بیگم جان سے شادی کر کے تو وہ انہیں کل ساز و سامان کے ساتھ ہی گھر میں رکھ کر بھول گئے اور وہ بے چاری دبلی پتلی نازک سی بیگم تنہائی کے غم میں گھلنے لگی۔

نہ جانے ان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کر چکی تھی، یا وہاں سے جب وہ ایک نواب بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔ یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا۔ ان کے لئے مرغن حلوے اور لذیذ کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کے درزوں میں سے ان لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور معطر باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔

یا جب سے، جب وہ منتوں مرادوں سے ہار گئیں، چلے بندھے اور ٹوٹکے اور راتوں کی وظیفہ خوانی بھی چت ہو گئی۔ کہیں پتھر میں جونک لگتی ہے۔ نواب صاحب اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ علم کی طرف متوجہ ہوئیں لیکن یہاں بھی انہیں کچھ نہ ملا۔ عشقیہ ناول اور جذباتی اشعار پڑھ کر اور بھی پستی چھاگئی۔ رات کی نیند بھی ہاتھ سے گئی اور بیگم جان جی جان چھوڑ کر بالکل ہی یاس و حسرت کی پوٹ بن گئیں۔ چولہے میں ڈالا ایسا کپڑا لتا۔ کپڑا پہنا جا تا ہے، کسی پر رعب گانٹھنے کے لئے۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کرتوتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر توجہ کریں اور نہ وہ انہیں آنے جانے دیتے۔ جب سے بیگم جان بیاہ کر آئی تھیں رشتہ دار آ کر مہینوں رہتے اور چلے جاتے۔ مگر وہ بے چاری قید کی قید رہتیں۔

پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوئے ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوئے، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجئے پھسل کر گئے کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

گرمی جاڑے بیگم جان حیدر آبادی جالی کارگے کے کرتے پہنتیں۔ گہرے رنگ کے پاجامے اور سفید جھاگ سے کرتے اور پنکھا بھی چلتا ہو۔ پھر وہ ہلکی دلائی ضرور جسم پر ڈھکے رہتی تھیں۔ انہیں جاڑا بہت پسند تھا۔ جاڑے میں مجھے ان کے یہاں اچھامعلوم ہوتا۔ وہ ہلتی جلتی بہت کم تھیں۔ قالین پر لیٹی ہیں۔ پیٹھ کھج رہی ہے۔ خشک میوے چبا رہی ہیں اور بس۔ ربو سے دوسری ساری نوکرانیاں خار کھاتی تھیں۔ چڑیل بیگم جان کے ساتھ کھاتی، ساتھ اٹھتی بیٹھتی اور ماشاءاللہ ساتھ ہی سوتی تھی۔ ربو اور بیگم جان عام جلوؤں اور مجموعوں کی دلچسپ گفتگو کا موضوع تھیں۔ جہاں ان دونوں کا ذکر آیا اور قہقہے اٹھے۔ یہ لوگ نہ جانے کیا کیا چٹکے غریب پر اڑاتے۔ مگر وہ دنیا میں کسی سے ملتی نہ تھیں۔ وہاں تو بس وہ تھیں اور ان کی کھجلی۔

میں نے کہا کہ اس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم جان پر فدا۔ وہ مجھے بہت ہی پیار کرتی تھیں۔ اتفاق سے اماں آگرے گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اکیلے گھر میں بھائیوں سے مار کٹائی ہو گی۔ ماری ماری پھروں گی۔ اس لئے وہ ہفتے بھر کے لئے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ میں بھی خوش اور بیگم جان بھی خوش۔ آخر کو اماں کی بھابھی بنی ہوئی تھیں۔

سوال یہ اٹھا کہ میں سوؤں کہاں؟ قدرتی طور پر بیگم جان کے کمرے میں۔ لہذا میرے لئے بھی ان کے چھپر کھٹ سے لگا کر چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی۔ گیارہ بجے تک تو باتیں کرتے رہے، میں اور بیگم جان تاش کھیلتے رہے اور پھر میں سونے کے لئے اپنے پلنگ پر چلی گئی اور جب میں سوئی تو ربو ویسی ہی بیٹھی ان کی پیٹھ کھجا رہی تھی۔ “بھنگن کہیں کی۔” میں نے سوچا۔ رات کو میری ایک دم سے آنکھ کھلی تو مجھے عجیب طرح کا ڈر لگنے لگا۔ کمرہ میں گھپ اندھیرا اور اس اندھیرے میں بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہاتھی بند ہو۔ بیگم جانمیں نے ڈری ہوئی آواز نکالی، ہاتھ ہلنا بند ہو گیا۔ لحاف نیچے دب گیا۔

“کیا ہے، سو رہو” بیگم جان نے کہیں سے آواز دی۔

“ڈر لگ رہا ہے۔” میں نے چوہے کی سی آواز سے کہا۔

“سو جاؤ۔ ڈر کی کیا بات ہے۔ آیت الکرسی پڑھ لو۔”

“اچھامیں نے جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھی مگر یَعْلَمُ مَا بَیْنَ پر دفعتاً آ کر اٹک گئی۔ حالانکہ مجھے اس وقت پوری یاد تھی۔

“تمہارے پاس آ جاؤں بیگم جان۔”

“نہیں بیٹیسو رہو” ذرا سختی سے کہا۔

اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پھسر کرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ہائے رے دوسرا کونمیں اور بھی ڈری۔

“بیگم جانچور تو نہیں۔”

“سو جاؤ بیٹاکیسا چور” ربو کی آواز آئی۔ میں جلدی سے لحاف میں منہ ڈال کر سو گئی۔

صبح میرے ذہن میں رات کے خوفناک نظارے کا خیال بھی نہ رہا۔ میں ہمیشہ کی وہمی ہوں۔ رات کو ڈرنا۔ اٹھ اٹھ کر بھاگنا اور بڑبڑانا تو بچپن میں روز ہی ہوتا تھا۔ سب تو کہتے تھے کہ مجھ پر بھوتوں کا سایہ ہو گیا ہے۔ لہٰذا مجھے خیال بھی نہ رہا۔ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آ رہا تھا مگر دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپڑ کھٹ پر ہی طے ہو رہا تھا اور مجھے خاک سمجھ نہ آیا۔ اور کیا فیصلہ ہوا، ربو ہچکیاں لے کر روئی پھر بلی کی طرح چڑ چڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔ اونہہ میں گھبرا کر سو گئی۔۔

ان رشتہ داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا کہ سب کے سب مزے سے مال اڑانے، عمدہ گھی نگلنے، جاڑوں کا ساز و سامان بنوانے آن مرتے اور باوجود نئی روئی کے لحاف کے بڑی سردی میں اکڑا کرتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بنا کر دیوار پر سایہ ڈالتا۔ مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہو۔ مگر کیوں جئے پھر کوئی، زندگی! جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں، وہ پھر جینے لگیں اور خوب جئیں!

ربو نے انہیں نیچے گرتے گرتے سنبھال لیا۔ چپ پٹ دیکھتے دیکھتے ان کا سوکھا جسم ہرا ہونا شروع ہوا۔ گال چمک اٹھے اور حسن پھوٹ نکلا۔ ایک عجیب و غریب تیل کی مالش سے بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی۔ معاف کیجئے، اس تیل کا نسخہ آپ کو بہترین سے بہترین رسالہ میں بھی نہ ملے گا۔

جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ اُفوہ کس شان سے وہ مسند پر نیم دراز تھیں اور ربو ان کی پیٹھ سے لگی کمر دبا رہی تھی۔ ایک اودے رنگ کا دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا اور وہ مہارانوں کی طرح شاندار معلوم ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی صورت دیکھا کروں۔ ان کی رنگت بالکل سفید تھی۔ نام کو سرخی کا ذکر نہیں اور بال سیاہ اور تیل میں ڈوبے رہتے تھے۔ میں نے آج تک ان کی مانگ ہی بگڑی نہ دیکھی۔ مجال ہے جو ایک بال ادھر ادھر ہو جائے۔ ان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابرو پر کے زائد بال علیحدہ کر دینے سے کمانیں سے کھچی رہتی تھیں۔ آنکھیں ذرا تنی ہوئی رہتی تھیں۔ بھاری بھاری پھولے پپوٹے موٹی موٹی آنکھیں۔ سب سے جو ان کے چہرے پر حیرت انگیز جاذبیت نظر چیز تھی، وہ ان کے ہونٹ تھے۔ عموماً وہ سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ اوپر کے ہونٹوں پر ہلکی ہلکی مونچھیں سی تھیں اور کنپٹیوں پر لمبے لمبے بال کبھی کبھی ان کا چہرہ دیکھتے دیکھتے عجیب سا لگنے لگتا تھا۔ کم عمر لڑکوں جیسا!

ان کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی۔ معلوم ہوتا تھا، کسی نے کس کر ٹانکے لگا دئے ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجانے کے لئے کھولتیں، تو میں چپکے چپکے ان کی چمک دیکھا کرتی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا اور پھر گوشت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں لیکن بہت متناسب اور ڈھیلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر، تو ربو ان کی پیٹھ کھجایا کرتی تھی۔ یعنی گھنٹوں ان کی پیٹھ کھجاتی۔ پیٹھ کھجوانا بھی زندگی کی ضروریات میں سے تھا بلکہ شاید ضرورت زندگی سے بھی زیادہ۔

ربو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا بس وہ سارے وقت ان کے چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سر اور کبھی جسم کے دوسرے حصے کو دبایا کرتی تھی۔ کبھی تو میرا دل ہول اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ نہ کچھ دبا رہی ہے، یا مالش کر رہی ہے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں اپنا کہتی ہوں، کوئی اتنا چھوئے بھی تو میرا جسم سڑ گل کے ختم ہو جائے۔

اور پھر یہ روز روز کی مالش کافی نہیں تھی۔ جس روز بیگم جان نہاتیں۔ یا اللہ بس دو گھنٹہ پہلے سے تیل اور خوشبودار ابٹنوں کی مالش شروع ہو جاتی اور اتنی ہوتی کہ میرا تو تخیل سے ہی دل ٹوٹ جاتا۔ کمرے کے دروازے بند کر کے انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا مالش کا دور اور عموماً صرف ربو ہی رہتی۔ باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی دروازہ پر سے ہی ضرورت کی چیزیں دیتی جاتیں۔

بات یہ بھی تھی کہ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ بے چاری کو ایسی کھجلی ہوتی تھی اور ہزاروں تیل اور ابٹن ملے جاتے تھے مگر کھجلی تھی کہ قائم۔ ڈاکٹر حکیم کہتے کچھ بھی نہیں۔ جسم صاف چٹ پڑا ہے۔ ہاں کوئی جلد اندر بیماری ہو تو خیر۔ نہیں بھئی یہ ڈاکٹر تو موئے ہیں پاگل۔ کوئی آپ کے دشمنوں کو مرض ہے۔ اللہ رکھے خون میں گرمی ہے۔ ربو مسکرا کر کہتی اور مہین مہین نظروں سے بیگم جان کو گھورتی۔ اوہ یہ ربوجتنی یہ بیگم جان گوری، اتنی ہی یہ کالی تھی۔ جتنی یہ بیگم جان سفید تھیں، اتنی ہی یہ سرخ۔ بس جیسے تپا ہوا لوہا۔ ہلکے ہلکے چیچک کے داغ۔ گٹھا ہوا ٹھوس جسم۔ پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوئے ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوئے، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجئے پھسل کر گئے کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

آج ربو اپنے بیٹے سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ وہ بڑا جھگڑالو تھا۔ بہت کچھ بیگم جان نے کیا۔ اسے دکان کرائی،گاؤں میں لگایا مگر وہ کسی طرح مانتا ہی نہ تھا۔ نواب صاحب کے یہاں کچھ دن رہا۔ خوب جوڑے بھاگے بھی بنے۔ نہ جانے کیوں ایسا بھاگا کہ ربو سے ملنے بھی نہ آتا تھا۔ لہٰذا ربو ہی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں اس سے ملنے گئی تھی۔ بیگم جان نہ جانے دیتی مگر ربو بھی مجبور ہو گئی۔ سارا دان بیگم جان پریشان رہیں۔ اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انہیں نہ بھاتا تھا۔ انہوں نے کھانا بھی نہ کھایا اور سارا دن اداس پڑی رہیں۔

“میں کھجا دوں سچ کہتی ہوں۔” میں نے بڑے شوق سے تاش کے پتے بانٹتے ہوئے کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔

میں تھوڑی دیر کھجاتی رہی اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربو کو آنا تھا مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔ چائے پی پی کر انہوں نے سر میں درد کر لیا۔

میں پھر کھجانے لگی، ان کی پیٹھچکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ۔ میں ہولے ہولے کھجاتی رہی۔ ان کا کام کر کے کیسی خوش ہوتی تھی۔

“ذرا زور سے کھجاؤبند کھول دو” بیگم جان بولیں۔

ادھراے ہے ذرا شانے سے۔ نیچےہاںوہاں بھئی واہہاہاوہ سرور میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان کا اظہار کرنے لگیں۔

“اور ادھرحالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خوب جا سکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیں اور مجھے الٹا فخر ہو رہا تھا” یہاں اوئیتم تو گدگدی کرتی ہوواہ” وہ ہنسیں۔ میں باتیں بھی کر رہی تھی اور کھجا بھی رہی تھی۔

تمہیں کل بازار بھیجوں گیکیا لوگیوہی سوتی جاگتی گڑیا۔

نہیں بیگم جانمیں تو گڑیا نہیں لیتیکیا بچہ ہوں اب میں”

بچہ نہیں تو کیا بوڑھی ہو گئیوہ ہنسیںگڑیا نہیں تو ببوا لیناکپڑے پہنانا خود۔ میں دوں گی تمہیں بہت سے کپڑے سنا” انہوں نے کروٹ لی۔

“اچھا” میں نے جواب دیا۔

“ادھر۔” انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر جہاں کجھلی ہو رہی تھی، رکھ دیا۔ جہاں انہیں کھجلی معلوم ہوتی وہاں رکھ دیتی اور میں بے خیالی میں ببوے کے دھیان میں ڈوبی مشین کی طرح کھجاتی رہی اور وہ متواتر باتیں کرتی رہیں۔

“سنو توتمہاری فراکیں کم ہو گئی ہیں۔ کل درزی کو دے دوں گی کہ نئی سی لائے۔ تمہاری اماں کپڑے دے گئی ہیں۔”

“وہ لال کپڑے کی نہیں بنواؤں گیچماروں جیسی ہے۔” میں بکواس کر رہی تھی اور میرا ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم بھی نہ ہوا۔ بیگم جان تو چت لیٹی تھیںارےمیں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔

“اوئی لڑکیدیکھ کر نہیں کھجاتیمیری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔” بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔

ادھر آ کر میرے پاس لیٹ جا” انہوں نے مجھے بازو پر سر رکھ کر لٹا لیا۔

اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے۔ پسلیاں نکل رہی ہیں۔ انہوں نے پسلیاں گننا شروع کر دیں۔

“اوں” میں منمنائی۔

“اوئیتو کیا میں کھا جاؤں گیکیسا تنگ سویٹر بُنا ہے!” گرم بنیان بھی نہیں پہنا تم نےمیں کلبلانے لگی۔ “کتنی پسلیاں ہوتی ہیں” انہوں نے بات بدلی۔

“ایک طرف نو اور ایک طرف دس” میں نے اسکول میں یاد کی ہوئی ہائی جین کی مدد لی۔ وہ بھی اوٹ پٹانگ۔

“ہٹا لو ہاتھہاں ایکدوتین”

میرا دل چاہا کس طرح بھاگوںاور انہوں نے زور سے بھینچا۔

“اوں” میں مچل گئیبیگم جان زور زور سے ہنسنے لگیں۔ اب بھی جب کبھی میں ان کا اس وقت کا چہرہ یاد کرتی ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے اور وزنی ہو گئے۔ اوپر کے ہونٹ پر سیاہی گھری ہوئی تھی۔ باوجود سردی کے پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ہونٹوں پر اور ناک پر چمک رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ یخ ٹھنڈے تھے۔ مگر نرم جیسے ان پر کھال اتر گئی ہو۔ انہوں نے شال اتار دی اور کارگے کے مہین کرتے میں ان کا جسم آٹے کی لونی کی طرح چمک رہا تھا۔ بھاری جڑاؤ سونے کے گرین بٹن گربیان کی ایک طرف جھول رہے تھے۔ شام ہو گئی تھی اور کمرے میں اندھیرا گھٹ رہا تھا۔ مجھے ایک نا معلوم ڈر سے وحشت سی ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی دل میں۔ وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل ہولانے لگا مگر ان پر تو جیسے بھتنا سوار تھا اور میرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جائے اور نہ رہ سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہو کر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہو گیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں یہ اور وہاں سے اٹھ کر سرپٹ بھاگی باہر۔

شکر ہے کہ ربو رات کو آ گئی اور میں ڈری ہوئی جلدی سے لحاف اوڑھ کر سو گئی مگر نیند کہاں۔ چپ گھنٹوں پڑی رہی۔

اماں کسی طرح آہی نہیں چکی تھیں۔ بیگم جان سے مجھے ایسا ڈر لگتا تھا کہ میں سار ا دن ماماؤں کے پاس بیٹھی رہی مگر ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہی دم نکلتا تھا اور کہتی کس سے اور کہتی ہی کیا کہ بیگم جان سے ڈر لگتا ہے۔ بیگم جان جو میرے اوپر جان چھڑکتی تھیں۔

آج ربو میں اور بیگم جان میں پھر ان بن ہو گئیمیری قسمت کی خرابی کہیے یا کچھ اور مجھے ان دونوں کی ان بن سے ڈر لگا۔ کیونکہ رات ہی بیگم جان کو خیال آیا کہ میں باہر سردی میں گھوم رہی ہوں اور مروں گی نمونیے میں۔

“لڑکی کیا میرا سر منڈوائے گی۔ جو کچھ ہوا ہو گیا، تو اور آفت آئے گی۔”

انہوں نے نے مجھے پاس بٹھا لیا۔ وہ خود منہ ہاتھ سلفچی میں دھو رہی تھیں، چائے تپائی پر رکھی تھی۔

“چائے تو بناؤایک پیالی مجھے بھی دیناوہ تولیے سے منہ خشک کر کے بولیں ذرا کپڑے بدل لوں۔”

وہ کپڑے بدلتی رہیں اور میں چائے پیتی رہی۔ بیگم جان نائن سے پیٹھ ملواتے وقت اگر مجھے کسی کام سے بلواتیں، تو میں گردن موڑے جاتی اور واپس بھاگ آتی۔ اب جو انہوں نے کپڑے بدلے، تو میرا دل الٹنے لگا۔ منہ موڑے میں چائے پیتی رہی۔

“ہائے اماںمیرے دل نے بے کسی سے پکاراآخر ایسا بھائیوں سے کیا لڑتی ہوں جو تم میری مصیبتاماں کو ہمیشہ سے میرا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا ناپسند ہے۔ کہو بھلا لڑکے کیا شیر چیتے ہیں جو نگل جائیں گے ان کی لاڈلی کو؛ اور لڑکے بھی کون؟ خود بھائی اور دو چار سڑے سڑائے۔ ان ذرا ذرا سے ان کے دوست مگر نہیں، وہ تو عورت ذات کو سات سالوں میں رکھنے کی قائل اور یہاں بیگم جان کی وہ دہشت کہ دنیا بھر کے غنڈوں سے نہیں۔ بس چلتا، سو اس وقت سڑک پر بھاگ جاتی، پھر وہاں نہ ٹکتی مگر لاچار تھی۔ مجبور کلیجہ پر پتھر رکھے بیٹھی رہی۔”

کپڑے بدل کر سولہ سنگھار ہوئے اور گرم گرم خوشبوؤں کے عطر نے اور بھی انہیں انگارا بنا دیا اور وہ چلیں مجھ پر لاڈ اتارنے۔

“گھر جاؤں گی” میں نے ان کی ہر رائے کے جواب میں کہا اور رونے لگی۔ “میرے پاس تو آؤمیں تمہیں بازار لے چلوں گیسنو تو۔”

مگر میں کلی کی طرح پھسل گئی۔ سارے کھلونے، مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جانے کی رٹ ایک طرف۔

“وہاں بھیا ماریں گے چڑیل” انہوں نے پیار سے مجھے تھپڑ لگایا۔

“پڑیں ماریں بھیامیں نے سوچا اور روٹھی اکڑتی رہی۔ “کچی امیاں کھٹی ہوتی ہیں بیگم جان” جلی کٹی ربو نے رائے دی اور پھر اس کے بعد بیگم جان کو دورہ پڑ گیا۔ سونے کا ہار جو وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے پہنا رہی تھیں، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ مہین جالی کا دوپٹہ تار تار اور وہ مانگ جو میں نے کبھی بگڑی نہ دیکھی تھی، جھاڑ جھنکاڑ ہو گئی۔

“اوہ اوہ اوہ اوہ” وہ جھٹکی لے لے کر چلانے لگیں۔ میں رپٹی باہر۔

بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔ جب میں سونے کے لئے کمرے میں دبے پیر جا کر جھانکی، تو ربو ان کی کمر سے لگی جسم دبا رہی تھی۔

“جوتی اتار دواس نے اس کی پسلیاں کھجاتے ہوئے کہا اور میں چوہیا کی طرح لحاف میں دبک گئی۔”

سر سر پھٹ کجبیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔

“اللہ آں” میں نے مری ہوئی آواز نکالی۔ لحاف میں ہاتھی چھلکا اور بیٹھ گیا۔ میں بھی چپ ہو گئی۔ ہاتھی نے پھر لوٹ مچائی۔ میرا رواں رواں کانپا۔ آج میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ضرور ہمت کر کے سرہانے لگا ہوا بلب جلا دوں۔ ہاتھ پھڑپھڑا رہا تھا اور جیسے اکڑوں بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آواز آ رہی تھیں۔ جیسے کوئی مزے دار چٹنی چکھ رہا ہو۔ اب میں سمجھی! یہ بیگم جان نے آج کچھ نہیں کھایا اور ربو مردی تو ہے سدا کی چٹو۔ ضرور یہ تر مال اڑا رہی ہے۔ میں نے نتھنے پھلا کر سوں سوں ہوا کو سونگھا۔ سوائے عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوا۔

لحاف پھر امنڈنا شروع ہو ا۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ چپکی پڑی رہوں۔ مگر اس لحاف نے تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانی شروع کیں کہ میں ڈر گئی۔ معلوم ہوتا تھا غوں غوں کر کے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے اور اب اچھل کر میرے اوپر آیا۔

آناماںمیں ہمت کر کے گنگنائی۔ مگر وہاں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور لحاف میرے دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلنگ کے دوسری طرف پیر اتارے اور ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا۔ ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلابازی لگائی اور پچک گیا۔ قلابازی لگانے میں لحاف کا کونہ فٹ بھر اٹھا۔

اللہ! میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں۔


 

افسانہ لحاف کا تجزیہ

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

لحاف کے متن میں عصمت چغتائی خود ہی سوال اٹھاتی ہیں:
’’ نہ جانے بیگم جان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کرچکی تھیں یا وہاں سے جب وہ نواب کی بیگم بن کر آئی تھیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا؟ ان کے لیے مرغن حلوے اور لذیذ کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کی دیواروں میں سے لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور عطر میں ڈوبے باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔‘‘
(لحاف۔ از: عصمت چغتائی۔ ص: ۲۱۔ ساقی بک ڈپو۔ نئی دہلی)
محولہ بالا سوالات کے جواب تلاش کرتے ہوئے عصمت چغتائی نے یہ افسانہ تخلیق کیا ہے۔ اس افسانے میں پہلی بارعورتوں کے نفسیاتی جذبات پر ایک عورت ہی نے تخلیقی نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری کے ابتدائی دور میں اس قسم کے باغیانہ تیور معاشرے کے مروجہ اخلاقیات سے بغاوت کرنے کے مترادف تھا۔عصمت نے اس افسانے میں عورت اور عورت کی نفسیات کو سمجھنے کی جرأت مندانہ کوشش کی ہے۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو افسانہ لحاف اردو میں بولڈ اور بے جھجھک انداز میں عورتوں کے مسائل پر گفتگو کے حوالے سے ایک رجحان ساز افسانہ سمجھا جاسکتا ہے۔
لحاف کے کئی شیڈس ہیں ان میں سب سے اچھوتا وہ شیڈ ہے جو افسانے کے ساتویں پیراگراف میں بنتا ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے:
’’ بیگم جان باوجود نئی روئی کے لحاف کے سردی میں اکڑا جاتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بناکر دیوار پر سایہ ڈالتا مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہو۔ مگر کیوں جیے پھر کوئی ؟ زندگی۔ بیگم جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں۔‘‘
(لحاف۔ از: عصمت چغتائی۔ ص: ۲۳۔ ساقی بک ڈپو۔ نئی دہلی)
زندہ رہنے کے لیے بیگم جان نے کون سی راہ اختیار کی ؟ اور وہ اس راہ پر کیوں گامزن ہوئیں؟ اس طرح کے سوالات پیدا کرتا ہوا افسانہ آگے بڑھتا ہے۔
اس افسانے میں کل چار کردار ہیں۔ بیگم جان ، نواب صاحب ، ربّو اور راوی۔ سب سے پہلے یہ غور کیا جائے کہ یہ افسانہ اتنا مشہور یا بدنام کیوں ہوا؟یہاں تک کہ عصمت چغتائی کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ ’لحاف‘ کے اندر کیا ہے؟ جنسی تلذذ یا اشتہا انگیزی ؟ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
٭ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آرہا تھا مگر دوسری رات آنکھ کھلی تو ربّو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپر کھٹ پر ہی طے ہورہا تھا۔ ربّو ہچکیاں لے کر روئی۔ پھر بلّی کی طرح سپر سپر رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔ اونھ ، میں تو گھبرا کر سوگئی۔
٭ یہ ننھے ننھے پھولے ہوئے ہاتھ کس قدر پھر تیلے تھے۔ ابھی کمر پر تو وہ لیجئے پھسل گئے کولہے پر ، وہاں سے رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی ریکھتی کہ اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں؟
٭سارا دن بیگم پریشان رہیں۔ ان کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انھیں نہ بھاتا تھا۔
٭ میں کھجا دوں بیگم جان ۔ میں نے بڑے شوق سے کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔
٭ ذرا زور سے کھجائو۔ بند کھول دو۔ اِدھر ۔ اے ہے ذرا شانے کے نیچے۔ ہاں واہ بھئی واہ ۔ ہا۔۔۔ ہا۔
٭ وہ سرور میں ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان ظاہر کرنے لگیں۔ حالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خود جاسکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیں اور مجھے الٹا فخر ہورہا تھا۔ یہاں اوئی ۔ تم تو گدگدی کرتی ہو۔ واہ۔
٭ اور ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم نہیں ہوا۔ بیگم جان تو چت لیٹی تھیں اور میں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
٭ ائی لڑکی دیکھ کر نہیں کھجاتی۔ میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔ بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔
٭اِدھر آکر میرے پاس لیٹ جا۔ تو کیا میں تمہیں کھا جائوں گی۔ کیسا تنگ سوئیٹر بنا ہے۔
٭ کتنی پسلیاں ہوتی ہیں۔ ہٹائو تو ہاتھ۔ ایک ،دو ، تین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ مجھے ایک نامعلوم ڈر سے دہشت ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی۔ دل میں، وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل بولانے لگا۔ مگر ان پر تو جیسے کوئی بھتنا سوار تھا۔ میرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جائے اور نہ رو سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہوکر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہوگیا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔
محولہ بالا جملوں میں پوشیدہ مناظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج سے تقریباً اسّی برس قبل افسانے میں اس طرح کی جنسی تلذذ سے بھرپور باتیں رقم کرنا واقعی جرأت رندانہ قسم کا واقعہ ہوسکتا ہے۔ شاید اسی لیے مقدمہ بھی کیا گیا تھا۔
افسانے کا زمانہ راوی کے لڑکپن کا ہے۔ ابھی جوانی کی دہلیز دور ہے۔ پھر بھی راوی کا بیگم جان کی جانب اس طرح کا جھکائو معنی خیز ہے۔ بیگم جان کی شکل پسند آنا، انھیں قریب سے گھنٹوں دیکھنے کی خواہش رکھنا اور اس قدر باریک بینی سے مشاہدہ کرنا کہ اوپر کے ہونٹوں پر ہلکے ہلکے مونچھوں جیسے بال نظر آجائیں۔ ان کے بدن کی رنگت ، ان کی پنڈلیاں نہارنا یہ سارے نکات حیرت و استعجاب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
اس افسانے کی راوی بذاتِ خود عصمت چغتائی ہیں۔ افسانہ زمانۂ ماضی میں بیتے ہوئے واقعات پر مبنی ہے جو کہ راوی کے تحت الشعور میں بیتی ہوئی یادوں کے اژدہام کا ایک حصہ ہے۔ یہ یادیں جاڑوں کی رُت میں لحاف اوڑھتے ہوئے ذہن کی رَو سے ہوتا ہوا صفحۂ قرطاس پر منعکس ہوا ہے۔
افسانے کا دورانیہ طول طویل نہیں ہے بلکہ راوی کی والدہ کا اسے بیگم جان کے یہاں چھوڑنے اور وہاں بتائے ہوئے چند دنوں پر مبنی ہے۔ راوی چونکہ اپنے بھائیوں اور بھائیوں کے دوستوں سے بلا خوف و تردد لڑنے جھگڑنے میں مصروف رہتی ہے یعنی ہم عمر اور خود سے بڑے لڑکوں کا اسے خوف نہیں ہے۔ مگر افسانے میں تین چار مناظر میں بیگم جان کے یہاں راوی کا خوف زدہ ہونا غیر فطری نظر آتا۔
عصمت چغتائی کا یہ افسانہ اردو ادب کے ایسے چنندہ افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں حقیقت اپنی پوری کڑواہٹ کے ساتھ عود آئی ہے۔ ایسے افسانے نہ صرف سماج کے بے حس رویے کی کھال اتار لیتے ہیں بلکہ اشراف کی حویلیوں کے دروازوں پر لٹکے دبیز پردوں کو چاک کرکے سماج کے صحیح خد و خال قارئین کے روبرو پیش کرتے ہیں ۔ عصمت چغتائی کا سماجی شعوربالیدہ تھااور وہ اصلی اور نقلی کرداروں میں تفریق کرسکتی تھیں۔ کون سا کردار نقاب اپنے چہرے پر ڈالے ہوئے ہے اور کون بدنصیب اسی سماج کا حصہ ہوکر اپنے زخموں کے اوپر پٹیاں لپیٹے ہوئے ہے۔ اس افسانے میں بھی بیگم جان اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ربّو کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ نواب صاحب کی توجہ کا مرکز نہ بنیں، ان کے ساتھ ظلم ہوا یا زیادتی ہوئی۔ وہ اپنی ہی آگ میں سلگتی رہیں مگر ربّو کے ساتھ جو جبر ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ربّو کا اپنا بیٹا باغی و نافرمان بن گیا ہے۔ اس کا باغی بن جانا سڑاند بھرے معاشرے کے خلاف بغاوت کی عکاسی کرتا ہے۔بدصورت ربّو کا ظلم کی چکّی میں پستے رہنا، بیگم جان کا ہر حکم ماننا، اس کی معاشی بدحالی اور غربت کو پیش کرتا ہے۔ ربّو کا لحاف کے اندر رونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس قدر مجبور ہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتی۔
بیگم جان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ ابتدا میں کیا گیایہی سوال اس افسانے کو تکمیلیت عطا کرتا ہے۔ نواب صاحب کا بیگم جان سے شادی کرکے انھیں کل ساز و سامان کے ساتھ گھر میں رکھ کر بھول جانا اور بیگم جان کے جذبات ، احساسات ، خیالات اور جسمانی خواہشات سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہی بیگم جان کو نفسیاتی مریضہ بننے کی وجہ ہے۔ نواب صاحب کا لچکیلی کمر والے لڑکوں کی جانب راغب ہونا بھی بیگم جان کو منتوں ، مرادوں کی راہ دکھاتا ہے:
’’ میں ڈالو ایسا کپڑا لتّا۔ کپڑا پہنا جاتا ہے کسی پر رعب گانٹھنے کے لیے۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کہ شبنمی کرتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر دھیان کریں اور نہ ہی انھیں کہیں آنے جانے دیں۔‘‘
(لحاف۔ از: عصمت چغتائی۔ ص: ۲۳۔ ساقی بک ڈپو۔ نئی دہلی)
عصمت چغتائی نے پہلے تو نواب صاحب کو نہایت نیک اور شریف بنا کر پیش کیا ۔ پھر ان کی بشری کمزوریوں کو اجاگر کرکے منفی کردار میں تبدیل کردیا۔ ابتدا میں تو قاری کی ہمدردی بیگم جان سے وابستہ ہوتی ہے مگر جوں جوں افسانہ آگے بڑھتا ہے بیگم جان ہمدردی کا استحقاق کھوتی جاتی ہیں۔
عصمت چغتائی نے ان عورتوں کے بارے میں خوب لکھا جن کی ساری زندگی آنگنوں اور دالانوں میں گزر جاتی ہے۔ چھوئی موئی، سونے کا انڈا، چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں، جڑیں وغیرہ وہ افسانے ہیں جن میں بطورِ خاص خواتین کرداروں کے دکھ سکھ ، الجھنیں اور پریشانیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ البتہ لحاف کے بارے میں عصمت بذاتِ خود رقم طراز ہیں:
’’ منٹو گھوم پھر کر ’لحاف‘ کے بخیے ادھیڑنے لگتا۔ جو ان دنوں میری دکھتی رگ بنا ہوا تھا۔ میں نے بہت ٹالنا چاہامگر وہ ڈھٹائی سے اڑا رہا اور اس کا ایک ایک تار گھسیٹ ڈالا۔ اسے بڑا دھکا لگا یہ سن کر کہ مجھے ’لحاف‘ لکھنے پر افسوس ہے۔ یہ سن کر منٹو نے مجھے خوب جلی کٹی سناڈالی اور مجھے نہایت بزدل اور کم نظر کہہ ڈالا۔ میں ’لحاف‘ کو اپنا شاہکار ماننے کو تیار نہیں تھی اور منٹو مصر تھا۔‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: اوپیندر ناتھ اشک۔ ص: ۲۴۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء)
جنسی ربط کے ممکنہ سارے کے سارے پہلو عصمت کے افسانوں میں موجود ہیں۔ ’لحاف‘ میں نواب صاحب کا کردار اور بیگم جان کا کردار اس کا بیّن ثبوت ہیں۔اس افسانے میں ایک مخصوص طبقے کے مردوں کی بداعمالیاں بڑی بھیانک صورت میں نظر آتی ہیں۔ اسی طرح اس طبقے کی عورت کو ہم بہکتے ہوئے اگر دیکھنا چاہیں تو ’لحاف‘ میں وہ نظر آئے گی۔ دولت و ثروت کی فراوانی سے جوخلافِ وضع عادتیں مرد وعورت میں سرایت کرجاتی ہیں اس کا بہترین عکس لحاف میں موجود ہے۔
افسانوں کے عنوان قائم کرنے کے معاملے میں عصمت چغتائی نے ہمیشہ اپنی ذہانت و فتانت کو بروے کار لایا ہے۔ اس افسانے کا عنوان اگر ’لحاف‘ نہ ہوتا تو شاید یہ اتنا موضوعِ بحث نہ بنتا۔ عصمت نے اپنے معاشرے کی ناہمواریوں اور اس معاشرے کے پروردہ لوگوں کی گہرائیوں پر نظر رکھ کر افسانے بنے ہیں اور انھیں میں رجحان ساز اور لا زوال افسانہ ’لحاف ‘بھی شامل ہے۔

 

Ismat Chughtai

Articles

عصمت چغتائی

عصمت چغتائی

 

عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انھوں نے اردو میں ایک بے باک تانیثی رویے اور رجحان کا آغاز کیا اور اسے فروغ بھی دیا۔ عصمت۲۱؍ اگست۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہربدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ لہٰذا ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اسی سبب سے ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایوں کی ایک گرلس کالج میں ملازمت اختیارکی۔ وہ ۱۹۴۲ء میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے بمبئی پہنچیں۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ فلم، صحافت اور ادب ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محورہیں۔ ان کا انتقال ممبئی میں ۲۴؍ اکتوبر۱۹۹۱ء کو ہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے چندن واڑی سری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔
عصمت چغتائی بڑی آزاد خیال اور عجیب و غریب خاتون تھیں۔اُن کی شخصیت اور انسانی رشتوں اور ان رشتوں کے ساتھ عصمت کے رویے اور تعلق کو درشانے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ مختصر واقعات نقل کیے جائیں جنھوں نے عصمت کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ مثال کے طور پر مشہور افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک اپنے ایک مضمون میں ساحر لدھیانوی کے گھر فراق کے اعزاز میں دئے گئے ایک ڈنر جس میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف بھی تھے کا ذکر کرتے ہوئے عصمت کے کردار کی یہ تصویر کھینچتے ہیں:
’’سبھی مرد عورتیں پی رہے تھے۔ عصمت نے ایک آدھ پیگ پینے کے بعد ہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے بہ آواز بلند کہا۔۔۔ ’’میر اجی چاہتا ہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں ، لیکن شاہد زہر کھا لے گا‘‘۔۔۔ مجھے اس ریمارک سے خاصہ دھکا لگا تھا۔ کوئی عورت پی کر بھی ایسا ریمارک نہیں کس سکتی۔ جب تک کہ اپنے شوہر کی بے راہ روی یا کمزوری سے اس کے دماغ میں یہ خیال نہ پیدا ہوا ہو یا پھر شوہر کے علاوہ وہ کسی اور مرد کونہ چاہتی ہو۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: اوپیندر ناتھ اشک۔ ص: ۲۲۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
عصمت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والوں میں قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ انھوں نے عصمت کی وفات سے متاثر ہو کر لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا تھا اس میں عصمت کی آزاد خیالی کو اس واقعے کی روشنی میں پیش کیا :
’’ان کی بڑی بیٹی نے بنگلور میں سول میریج کر لی اور اطلاع دی کہ اس کی ساس سسر مذہبی رسوم کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں آپ بھی آ جائیے۔ بنگلور سے واپس آکے عصمت آپا نے اپنے خاص انداز میں نہایت محظوظ ہوتے ہوئے سنایا کہ صبح صبح میں اٹھ گئی۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ ان کا پنڈت آگیا۔ اب وہ بے چارہ ایک کمرے میں پریشان بیٹھا تھا۔ کہنے لگا مہورت نکلی جا رہی ہے اور یہاں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں پوجا کیسے شروع کروں۔ میں نے کہا اے پنڈت جی آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ میں پوجا شروع کروائے دیتی ہوں۔ بس میں بیٹھ گئی اور میں نے پوجا شروع کروا دی۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا بھلا اپ نے پوجا کس طرح کروائی۔ کہنے لگیں۔ اے اس میں کیا تھا۔ پنڈت نے کہا۔ میں منتر پڑھتا ہوں آگ میں تھوڑے تھوڑے چاول پھینکتے جائیے۔ میں چاول پھینکتی گئی۔ اتنے میں گھر کے اور لوگ بھی آ گئے۔ بس۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: قرۃ العین حیدر۔ ص:۳۷۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
یہ ہے عصمت چغتائی کی سیرت وشخصیت ،کردار اور ان کی فکر کا محور۔ وہ بہت آزاد خیال تھیں۔ وہ تاش دلچسپی سے کھیلتیں اور لگاتار سگریٹ پیتی تھیں۔ انھیں مے نوشی کا بھی شوق تھا۔ ان کے سینے میں مردوں یا اپنے حریفوں سے انتقام کی آگ ہمیشہ جلتی رہی۔ جس سے نفرت ہوئی اس کو کبھی معاف نہیں کیا۔ دراصل انھوں نے اپنے بچپن ہی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ اچھی سے اچھی بیٹی نالائق سے نالائق بیٹے سے کم ترہی سمجھی جاتی ہے چنانچہ ان کی اپنے کسی بھائی سے کبھی نہیں نبھی۔ ہر بھائی سے لڑائی جھگڑے میں ہی ان کا بچپن گزرا۔ بچپن کا یہ نقش ان کے بڑھاپے تک پتھر کی لکیر بنا رہا اور مردوں سے بیر رکھنا ان کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ وہ انتقام کی اسی آگ میں ہمیشہ جلتی رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد خود جل کر راکھ ہو گئیں۔ عصمت چغتائی کی سوچ کا تانا بانا انھیں حادثات و واقعات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں قلم سنبھالا اور اپنے باغی لب و لہجے سے مردوں کی صفوں میں ہل چل مچا دی ۔ساتھ ہی یہ یقین دلانے کی بے باکانہ کوشش بھی کی کہ عورت اپنی محدودیت کے باوجود لامحدود ہے اور مرد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرۂ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ اپنے افسانوں کے مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں شائع کروائے۔ دھانی بانکپن اور شیطان جیسے معروف ڈرامے قلمبند کیے اور تاویل، سودائی اور دوزخی جیسے بے مثال خاکے لکھے۔ ان کی یہ وہ تخلیقات ہیں جو ناول، افسانہ، ڈراما اور خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔
ناول نگاری کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عصمت کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔ انھوں نے زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کے مسائل اور ان کی نفسیات پر لکھا جس پر انھیں گہرا عبورحاصل تھا۔ ان کے زیادہ تر افسانے ایک ایسے المیے پر ختم ہوتے ہیں جو حقیقت سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو سچ بولنا سکھایا اور عورت کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانی کا موضوع بنایا۔ چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں ، سونے کا انڈا، چھوئی موئی، بھول بھلیاں ، ساس، لحاف، بے کار، کلو کی ماں ، اف یہ بچے، چارپائی، جھوٹی تھالی، میرا بچہ، ڈائن، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، تل، لال چیونٹے، پیشہ ور، ننھی کی نانی وغیرہ ان کے مشہور اور یادگار افسانے ہیں۔ ان افسانوںمیں انھوں نے ایک مخصوص قسم کی فضا تخلیق کی ہے جو فضا گھر اور گھریلو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان افسانوں میں عورت کا تصور اس کی بدنصیبی سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس کی پوری زندگی تلخیوں اور پریشانیوں میں گھری معلوم ہوتی ہے اور آخر میں وہ ان دکھوں کی تاب نہ لا کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ عصمت کے زیادہ تر افسانے ایک خاص طبقے اور خصوصی طور پر عورت کے گھریلو ا ور جنسی تعلقات کے اردگرد گھومتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں یکسانیت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے جو قاری کے لیے کبھی کبھی اکتاہٹ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
عصمت صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ ان کے افسانے:جڑیں ، کافر، دو ہاتھ اور ہندوستان چھوڑ دو وغیرہ گہرے تاریخی اور معاشرتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے دو ہاتھ میں محنت کس طبقے کی اہمیت اجاگر کیا ہے۔ دراصل عصمت کا دور ترقی پسندی کا دور تھا جس میں سماجی نا انصافیوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ دیا گیا۔ یوں انھوں نے سماج کے ہر مسئلے اور طبقے پر لکھا لیکن یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عورت کی نفسیات اور جنس کے موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کے حامل تھے۔
عصمت ناول نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈراما نگار بھی تھیں انھوں نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری پر زور دیا۔ ان کے ڈراموں میں ایک بات اور نیلی رگیں بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب بھی ان کے اچھے ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے کردار ہیں۔ ان کی زبان صاف، سادہ اور دل کش ہے۔
عصمت کے تحریر کیے ہوئے خاکے تاویل، سودائی اور دوزخی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خاکوں میں دوزخی کو ادبی دنیا میں کافی مقبولیت ملی۔ جب یہ ماہنامہ ساقی (دہلی) میں شائع ہوا تو منٹو کی بہن نے کہا کہ ’’سعادت یہ عصمت کیسی بے ہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت منٹو نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کروتو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔
بلاشبہ عصمت کی تحریریں موضوعات، اسلوب، کردار اور لب و لہجے کے اعتبار سے تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہار کا پہلا معتبر تجربہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تانیثیت کی پہلی اور مستند دستاویزات ہیں۔

 

Anis Javed ki Drama Nigari

Articles

انیس جاوید کی ڈراما نگاری

ڈاکٹر ذاکر خان

 

اردو ڈراموں کا سفر بر سہا برس پر محیط ہے۔سنتے ہیں کہ ڈرامے پرانے زمانے میں سنسکرت اور یونانی روایتوں کے امین و علمبردار ہوا کرتے تھے ۔ڈراموں کا دائرہ مذہب اورسماجی رسم ورواج کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔مگر دھیرے دھیرے لوگوں کے شوق بدلتے گئے،مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی اور سماجی رسم و رواج پر گرد جمنے لگی ، نتیجہ یہ ہوا کہ ڈرامے بامِ عروج پر پہنچنے سے پہلے ہی رو بہ زوال ہوتے چلے گئے۔سماجی سطح پر بدلتا ہوا شوق مکمل طور پر شاعری کے سحر سے باہر نہ آ پایا اور شاعری عوامی تفریحِ طبع کا واحد ذریعہ ٹھری۔پھر کسے فرصت تھی کہ ڈراموں کی سنگلاخ وادیوں کا سفر کرے اور دشوار گذار گھاٹیوں کی گہرائی ناپے۔ڈرامے قارئین اور ناظرین کی تفریح کا سامان تو تھے ہی لیکن انھیں تخلیق کرنا اور اسٹیج پر کھیلنا کافی مشکل تھا۔ یہی سبب تھا کہ اِس جانب کم ہی توجہ دی گئی۔لیکن دھیرے دھیرے مایوسی کے بادل جھٹنے لگے اور ایک دور وہ بھی آیا جب ڈراموں کونواب واجد علی شاہ کے ذریعے شاہی سرپرستی حاصل ہوئی اور یہیں سے ڈراموں کی تاریخ کا سنہری دور شروع ہوا۔اور مختلف ادوار میں مختلف نامور ہستیاں ڈراموں کی بقا کے لیے کوششیں کرتی چلی گئیں۔ آغا حشر کاشمیری سے لیکر منٹو تک اور منٹو سے لیکر حبیب تنویر تک اور پھر حبیب تنویر سے انیس جاوید تک بیشمار ڈرامہ نگار تھیٹر کے منظر نامے پر ظاہر ہوئے لیکن اُن میں کم ہی ایسے ہونگے جنھوں نے خود اپنے تخلیق کردہ ڈراموں میں ایکٹر اور ڈائرکٹر کے فرائض انجام دیے ہوں۔ انیس جاوید کا شمار انھیں صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے جو اپنوں ڈراموں کے نہ صرف رائٹر ہیں بلکہ انھیں ایکٹر اور ڈائرکٹر ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ انیس کے معاصرین خود آپ کی عظمتوں کو سلام کرتے ہوئے نظر آتے ہیںاور صدق دل سے اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انیس نے اپنے فن کو وہ جلا بخشی کہ ہم بھی نمبر ایک پر آنے کے تمنائی ہوگئے۔” ابھی تو رات ہے “پر تبصرہ کرتے ہوئے اقبال نیازی یوں کہتے ہیں کہ
“۱۹۷۸؁ سے ۱۹۸۲؁ کے دوران انیس جاوید ہر سال اپنا ڈرامہ مقابلے میں لاتے اور اوّل انعام لے جاتے اور ہم دوست احباب دوّم انعام حاصل کر کے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے کہ ہم سیکنڈ کیوں ہو رہے ہیں ”
انیس جاوید سے میرے مراسم دیرینہ نہ سہی مگر کم بھی نہیں ۔ میں انھیں پچھلے دس سالوں سے جانتا ہوں ۔ آپ کی شخصیت خلوص، ایثار ، ہمدردی اور انسان دوستی سے عبارت ہے ۔عصرِ حاضر میں انیس جاوید ڈراموں کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ لیکن آپ کی دنیا صرف ڈراموں تک ہی محدود نہیں ۔آپ نے اپنے فن اور صلاحیتوں کا بخوبی استعمال فلموں اور ٹی وی سیریئلس میں بحسن خوبی کیا ہے۔ایک طرف آپ نے فلموں میں رائٹر ڈائرکٹڑ کے فرائض انجام دیے تو دوسری طرف سرئیلس میں مکالمہ نگاری اور گیت کے ذریعے اپنے فن کو کمالِ عروج تک پہنچا دیا۔مگر ڈرامہ ہمہ وقت انیس جاوید کا شوق ہی نہیں جنون بھی رہاہے جو اب بھی رواں دواں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر میں ادب جنونی لوگوں کی بدولت ہی زندہ رہتا ہے جو مال و منال کی پرواہ کئے بغیر منزلِ لا مکاں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیںاس لحاظ سے انیس جاوید بھی کم جنونی نہیں ۔ ڈراموں کے اسٹیج پر آپ کے قدم تقریباًچالیس برسوں سے کسی ستون کی مانند ایستادہ ہیں ۔عمارتیں پرانی ہوگئیں ، اسٹیج رو بہ زوال ہیں ، ناظرین بوڑھے ہوگئے ہیں لیکن انیس جاوید کا جذبہ آج بھی جوان ہے۔
انیس جاوید سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انیس جاوید Etvاردو کے لیے بیت بازی کا مقابلہ شوٹ کروارہے تھے اور ہم بھی شاملِ مقابلہ تھے۔اس ملاقات پر یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے بے شمار ڈرامے تخلیق کیے، سیرئیلس کی اسکرپٹ میں چار چاند لگائے،فلموں کے لیے اسٹوری لکھی مکالمے تحریر کیے، ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے اور بذاتِ خود اپنے ڈراموں میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔ میرے ذہن نے کچھ اس طرح اُن کا خاکہ بنانا شروع کیا کہ ایک عام سا نظر آنے والاشخص، ہونٹوں پر مخلص مسکراہٹ، دل میں ٹھاٹھیں مارتی ہوئی مشفق محبت ، چہرے پر متانت و سنجیدگی، گفتار میں شائستگی، کردار میں پختگی،کام میں سلیقہ مندی، سوچ کے آئینہ دار جذبات،انگلیوں سے چپکی ہوئی ایک مہین سی امپورٹیڈ سگریٹ جو کبھی انگلیوں کی پکڑ میں جل جاتی اور کبھی محبوبہ بن کر لبوں کو چوم لیتی ۔ محبوبہ بھی ایسی جو چوبیس گھنٹے اُن کا ساتھ نہ چھوڑے۔مَیں نے خود سے سوال کیا، کیا اتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص اپنے ڈراموں سے سماج کے سلگتے ہوئے مسائل پر چوٹ کر سکتا ہے؟ کیا یہ وہی شخص ہے جس نے نچوم کے افسانوی کردار کو حقیقت کا روپ دیدیا؟میری الجھن اُن سے چھپی نہ رہ سکی فوراً مجھ سے سوال کیا ،سر کیا سوچ رہے ہو؟مَیں اچانک تخیّلات کی ماورائی دنیا سے باہر آگیااور مجھ پر یہ راز بھی منکشف ہو گیا کہ انیس صرف فنکار ہی نہیں چہرہ شناس بھی ہے جو چہرے کے نقوش سے شخصیت کے پیچ و خم پڑھنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔لبوں کی تھرتھراہٹ سے مدّعی کا مدّعا جان لینا اُن ہی کا وصف ہو سکتا ہے۔پھر انیس مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا ، سر آپ شاعری کا تو اچھا ذوق و شوق رکھتے ہو کبھی ہمارے ساتھ ڈرامہ بھی کرلوویسے بھی زندگی ایک ڈرامہ ہی ہے اور ہم سب سانسوں کی ڈور پر چلنے والی کٹھ پتلیاں۔مَیں نے ہچکچاتے ہوئے ڈرامے کے لیے ہاں کردی۔اِس طرح سے انیس جاوید کی رہنمائی ایک ٹیچر کو ایکٹنگ کی طرف مائل کرنے لگی بعد میں پتہ چلا کہ انیس جاوید کی پوری ٹیم ہی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔اِن میں منصف قریشی بھی ہیں اور محمّد رفیق شیخ بھی،مشتاق زبیر بھی ہیں اور رمضان امین بھی۔ خاکسار کو سب سے پہلے “دو گز زمین” میں کام کرنے کا موقع ملااور پھر مواقع بڑھتے گئے۔ڈراموں سے ہٹ کر ہم نے ڈی ڈی اردو اور Etvاردو کے لیے بھی اُن کے ساتھ کام کیا۔ انیس جاوید کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر ایکٹر کو مرکزی کردار کا اہل بنا دیتے ہیں ۔ اُن کی ٹیم میں شامل ہر ایکٹر نے مختلف ڈراموں میں مرکزی کردار نبھائے ہیں۔مَیں نے اوپر ہی بیان کردیا کہ انیس جاوید چہرہ اور شخصیت پڑھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔دو ڈراموں کے بعد ہی مجھے “سمندر خاموش ہے”میں “دیش”کا مرکزی کردار مل گیا۔شروعات میں کچھ ڈر بھی لگا مگر دھیرے دھیرے ڈر کافور ہوتا گیا۔ریہرسل پر اُن کا رویہ انتہائی دوستانہ ہوتا مگر مسلسل غلطیوں پر رشتے ناطے ، دوستی و دلبری کی روایات طاق پر رکھ دی جاتی اور اُن کے منہ سے لکلتا “pack up”چند لمحوں تک اپنی ٹیم کی طرف دیکھتے ، سگریٹ غالبؔ کی کافر مئے کی طرح لبوں سے چپک جاتی دھواں فضائوں میں مرغولے بنانے لگتا اور وہ دھویں کو کچھ اِس طرح دیکھتے جیسے اسکرین پر پورا ڈرامہ نظر آ رہا ہو۔پھر مسکراتے ہوئے اپنی ٹیم سے کہتے ، چلو بھائی ایک کوشش اور کرلی جائے اور وہ کوشش ہماری آخری کوشش ہوتی اور ڈرامہ فائنل ہوجاتا۔شاید ہی کوئی ڈرامہ ایسا ہو جس میں آپ کو pack up نہ کہنا پڑا ہو۔
آپ نے اپنے ڈراموں کے ذریعے ایک مصلح کا کردار ادا کیا ،جو سماج کی ہر برائی پر چوٹ کرتا ہے سماج کی ہر غلطی پر اصلاح کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت اور مساوات پر یقین آپ کی عمر کے ہر اُس فنکار کا خاصّہ ہے جس نے غربت اور غرباء کو قریب سے دیکھاہو،اُن کے مسائل جانے ہو، سسکتی ہوئی آہیں سنی ہو ، بلبلاتے ہوئے بچے دیکھے ہوں، سیکولرزم کی دہائی دیتی ہوئی جمہوریت کو پرکھا ہو، دھوپ سے کھیتوں میں جلتے ہوئے جواں جسم اور بڑھاپے میں سردیوں سے ٹھٹرتی ہوئی ادھ مری لاشیں دیکھی ہوں،جمہوریت کا گلا ریت کر دیش کو کھوکھلا کرنے والے نیتائوں سے روبرو ہوا ہو، کچھ حد تک یہ بات انیس جاوید کے فن میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ جب شوکت کیفی کی موجودگی میں انھیں اپنے ڈرامے “ابھی تو رات ہے”پر اوّل انعام سے سرفراز کیا گیا تب بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا اردو اکادیمی کو لال سلام ،شوکت کیفی کو لال سلام۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک زمانہ جو اُن کا معترف تھا منحرف ہوگیا، صلاحیتیں عیب نظر آنے لگیں اور انیس کے تار سرخ پرچم سے منسوب کردیے گئے۔ طوفان اٹھے ،بلائیں لادی گئیں مگر عشقِ صادق نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انیس اپنی عمر کی سیڑھیاں چڑھتے رہے مگر جذبہ روز افزوں جواں ہوتا رہا۔ ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد بھی وہ اُسی طرح چاک و چوبند جیسے وہ تیس برس قبل تھے۔
انیس جاوید کے ڈراموں کا ایک خاص وصف جو اوروں سے انھیں منفرد کرتا ہے وہ قبولیتِ عام ہے۔عوام و خواص ، امیر و غریب ، اور ہر عمر کے افراد اُن کے ناظرین ہی نہیں شیدائی بھی ہیں۔آپ کے ڈراموں کے مجموعے” ابھی تو رات ہے “اور”معمار جہاں تو ہے ” منظرِ عام پر آ کر قارئین سے دادو تحسین حاصل کرچکے ہیں لیکن یہ اُن کی معراج نہیں ،انہیں تو ابھی اوجِ ثرّیا تک سفر کرنا ہے۔وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے سماج کو ایک نیا پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاید ہی ان کا کوئی ڈرامہ ایسا ہو جس میں انہوں نے ناظرین کا دل جیت کر انھیں سوچنے پر مجبو ر نہ کیا ہو۔ ڈراموں کے کردار مکالمے اور پلاٹ میں غضب کا تال میل پایا جاتا ہے۔بھرتی کے کرداروں اور بے جا مکالموں سے انہوں نے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ڈراموں میں کردار وںکی بہتات نہیں ،وہ کم کرداروں کے ساتھ بھی کامیاب ہیں۔ آپ ہر سین کے تانے بانے انتہائی کمالِ خوبصورتی سے بنتے ہیں ۔ابتدائی مراحل میں یوں نظر آتا ہے جیسے کینوس پر کسی مصّور نے آڑھی تیڑھی لکیریں کھینچ دی ہوں لیکن جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھتا ہے یہ آڑھی ٹیڑھی لکیریں خوبصورت پیکر میں ڈھلنے لگتی ہیں مگر مصّور کو اطمینان نہیں وہ اسٹیج پر پہنچنے تک اُسے finishing touch دیتا رہتا ہے۔ انیس بھی انہیں عظیم مصّوروں اور فنکاروں میں شامل ہیں جنھیںاپنے فن کی خوبصورتی دیکھ کر محض خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا گوارہ نہیں۔وہ ہمہ وقت اُسے اور زیادہ نکھارنا اور سنوارنا چاہتے ہیں ۔ہم سے بہتر انہیں کون جان سکتا ہے جنھوں نے اُن کے ساتھ کام کیا ہے۔ کسی ڈرامے کے پانچ پانچ شو ہوجانے کے بعد بھی اُن کی اصلاح بدستور جاری رہتی ہے۔اور وہ خوب سے خوب تر کے سفر کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
“ابھی تو رات ہے “کا بھیکو ہو یا “دو گز زمین “کا نچوم، “سمندر خاموش ہے “کا دیش ہو یا “معمارِ جہاں تو ہے “کا معلّم انیس جاوید نے ہر جگہ اپنے کرداروں کو بلندی عطا کی ہے۔حالات کا مارا بھیکو جاگیردارنہ نظام کے خلاف در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے ، انصاف کے لیے ہر اُس دروازے پر دستک دیتا ہے جہاں سے اُسے معمولی سی بھی امید ہو مگر اُس بے چارے کو کیا پتہ کہ انصاف تو امیروں کی لونڈی اور جاگیرداروں کی رکھیل بن چکا ہے۔ اپنا سب کچھ لُٹ جانے کے بعد وہ حواس باختہ ہوجاتا تب اُسے کہیں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک جگہ ایسی بھی جہاں گھنٹہ بجائو اور انصاف پائو،بے چارہ ہانپتے کانپتے وہاں پہنچ تو جاتا ہے مگر دروازے پر لگا ہوا بڑا سا تالا اُسے مبہوت کردیتا ہے اور پھر واچ مین کی کرخت آواز آتی ہے کہ کہ ابھی انصاف کہاں ابھی تو رات ہے۔انیس جاوید نے اپنے اِس ڈرامے کے ذریعے سماج کے سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ ساتھ چترورنیہ پرمپرائوں پر زبردست تنقید کی ہے۔جہاں نچلی ذات مسلسل استحصال کا شکار ہے۔کوئی پرسانِ حال نہیں گویا یوں لگتا ہے کہ دبتے رہنا اور کچلا جانا ہی اُن کا مقدرہو۔آخر یہ سماجی نابرابری کب ختم ہوگی؟ بھیکو کو انصاف کب ملے گا؟ کب سماج ظالم و جابر جاگیرداروں اور سود خور مہاجنوں کی گرفت سے آزاد ہوگا؟اسی طرح ” سمندر خاموش ہے”میں انیس جاوید کے ظالم و جابر کردار کرپٹ نیتائوں کے روپ میں نظر آتے ہیں جو دیش کی ایک ایک چیز نیلام کرکے اُسے بیرونی قرضوں کا تاج پہنا دیتے ہیں۔اور دیش کی حالت برٹش دورسے زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔ یوں لگتاہے انیس جاوید سماج و معاشرے کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں اُس کے ہر دکھ پر چینخ پڑتے ہیں ہر قرب پر بلک اُٹھتے ہیں۔اور تن من دھن کے ساتھ سماج میں خوشحالی کے متمنّی ہیں۔
انیس جاوید خود بھی درس و تدریس سے وابستہ تھے پھر آپ طلبا کے مسائل سے کیسے چشم پوشی کرتے۔فی زمانہ طلبا کے لیے صحیح کرئیر کا انتخاب انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔ آپ نے اپنی فنکارانہ مہارت سے طلبا اور سرپرستوں کے لئے “آو کہ چھولیں خوابوں کو”تحریر کیا اور اسٹیج کی زینت بناتے ہوئے والدین کو تلقین کی کہ وہ اپنی سرپرستانہ رائے بچوں کے ذہنوں پر مسلّط نہ کریں انہیں خود اپنے کرئیر کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد رکھیں۔ اسی طرح آل مہاراشٹر آئیڈیل ٹیچر کانفرنس میں الفلاح ہائی اسکول ملاڈ کے پرنسپل کی فرمائش پر “معمارِ جہاں تو ہے”نامی ڈرامہ پیش کیا اور بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ڈرامہ کے فوراًبعد مولانا آزاد ٹیچر ٹرینگ کالج دربھنگہ کے پروفیسر ڈاکٹر صدّیقی محمد محمود صاحب کو سامعین سے مخاطب ہونا تھا ۔مگر لوگ ڈرامے کے سحر سے باہر نہ آسکے محمود صاحب اورنگ آباد میں میرے بھی استاد رہے ہیں۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد آپ نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ
“ذاکر میں نہیں سمجھتا کہ اورنگ آباد میں مَیں نے آپ کے ساتھ کوئی ظلم کیا تھا جو آپ لوگوں نے مجھ سے اُس کا بدلہ لے لیا۔لوگ ڈرامے کے سحر ہی سے باہر نہ آسکے پھر وہ مجھے کیسے سنتے”
میں نہیں سمجھتا کہ اُس روز انیس جاوید کے لیے اِس سے بڑا complementکچھ اور ہو سکتا تھا۔معمارِ جہاں تو ہے میں انیس جاوید ٹیچر پر ہونے والے مظالم مختلف غیر ضروری ذمّہ داریوں کا بوجھ منیجمنٹ کا دبائو اور حکومتی پریشر کو اپنا موضوع بنایا۔جب اِس ڈرامے کی کاسٹنگ کی جارہی تھی تب میں نے انیس جاوید سے دریافت کیا ، سرآپ ٹیچر کا رول کسے دینے والے ہیں ۔ اُن رگِ ظرافت پھڑکی اور گویا ہوئے ذاکر ہمیں ایک بھولا بھالا ٹیچر چاہیے جو ظلم ستم کا شکار ہو، چہرے پر متانت ہو سنجیدگی ہو۔ اور شاید اِس رول کے لئے رمضان امین سے بہتر کوئی نہیں۔اِس طرح سے اِس مرتبہ مرکزی رول کے لیے قرعہ فال رمضان امین کے نام نکلا۔
انیس جاوید کبھی بھی اپنی قوم کی حالتِ زار سے غافل نہیں رہے۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج پورے ملک میں مسلمانوں کو جھوٹے مقدّمات کا سامنا ہے۔ناکردہ گناہوں کی سزائیں دی جارہی ہیں ۔ بم دھماکوں کے بے بنیاد الزامات لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جا رہا ہے۔آپ سے یہ حالات دیکھے نہ گئے اور “مَیں آتنک وادی ہوں” نامی ڈرامہ تخلیق کردیا ۔ جہاں بابو چیخنے ہوئے اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا ہے مگر اُس پر ظلم وستم کی انتہا کردی جاتی آخر میں وہ تنگ آکر چیخنے لگتا ہے کہ ہاں ہاں میں ہی آتنک وادی ہوں۔
انیس جاوید نے اب تک جتنے بھی ڈرامے پیش کیے ،شہرت و مقبولیت نے اُن قدم چومے ہیں۔انیس نہ صرف ممبئی بلکہ مہاراشٹر اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں بھی ڈراموں کی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔میوزک اُن کے ڈراموں میں روح کی حثیت رکھتی ہے ، وہ ہمیشہ اپنے ڈراموں کے لیے پروفیشنل موسیقار کا انتخاب کرتے ہیں اسی طرح سے منفرد لب و لہجے میں لمبی سانسوں کے ساتھ کیا جانے والا اُن کا انائونسمنٹ اور قتیل شفائی کا شعر انیس جاوید کی شناخت بن چکا ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے
قتیلؔوقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں

———————-

Gujrati Story by Greesh Bapat

Articles

وہ اب ہجوم کا حصہ نہیں ہے

گریش بھٹ

 

دوپہر کی نا قابل برداشت گرمی۔ چا چا کی دوکان تنگ اور لمبی تھی ۔ اس لیے وہاں گرمی کا احساس زیادہ ہو رہا تھا ۔ دوپہر ہونے کی بنا پر گاہک بھی کم تھے ۔ مگر مالتی کو یہ وقت بے حد پسند تھا ۔ اس وقت وہ بڑے اطمینان سے اپنی کتابیں تلاش کر سکتی تھی ۔ پڑھ سکتی تھی۔ کتب فروش سلمان چا چا سے مالتی بخوبی واقف تھی ۔ سلمان چا چا بھی اس کے مطالعے کے شوق اور کتابوں کی خریداری سے واقفیت رکھتے تھے ۔ وہ سلمان چاچا کی دوکان میںآکر اپنے آپ کو بھول جاتی تھی کیوں کہ وہاں نایاب اور کمیاب کتابوں کا ذخیرہ تھا ۔
شوق بے شمار ہوتے ہیں ۔ مگر مالتی کی دنیا تو یہی تھی ۔ اس کی ممی اس شوق سے فکر مند رہتی تھیں اور سوچتی تھیں کہ یہ لڑکی بے کار میںاتنا پڑھ کرکیا کرے گی ؟ بڑی عجیب لڑکی ہے ۔ مطالعے کے علاوہ دوسرا کوئی شوق ہی نہیں ۔
ممی کی سوچ درست بھی تھی ۔ بیس برس کی دوشیزہ کے کئی شوق ہوتے ہیں ۔ نئے نئے لبا س سلوانے کا شوق، سیر و تفریح، پرفیوم، سنیما، ہیروئن بننے یا پھر بوائے فرینڈ کا شوق، مگر مالتی کے پاس ان فضول باتوں کے لیے کوئی وقت نہیں تھا ۔ اس کے لیے تو صرف اور صرف کتابیں ہی سب کچھ ہیں ۔
سلمان چاچا دل ہی دل میں سوچتے رہتے کہ یہ لڑکی آخر ڈھیر ساری کتابوں کا کیا کرتی ہے ؟ وہ جب بھی چا چا کی دوکان پر آتی ان کی دو چار بوسیدہ اور ردی کی کتابوں کا وزن کم ہو جاتا ۔ وہ کتابوں کی قیمت ادا کرتے ہوئے کہتی ’’ چا چا وقت نکال کر پھر آؤں گی ۔‘‘ اور چا چا اسے حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ۔
مالتی اس روز چا چا کے خزانے میں کتابیں تلاش کر رہی تھی ۔ پسینے سے اس کا بدن شرابور ہوا جارہا تھا ، مگر کام ابھی پورا نہیں ہوا تھا ۔ صرف ایک کتاب کا پہلا حصہ ہی دستیاب ہوا تھا اور ایک حصہ دستیاب ہونے کے بعد دوسرا حصہ تلاش کرنا ضروری تھا ورنہ اس قدر محنت اکارت جاتی ۔ اپنی تلاش میں مگن مالتی کو دیکھ کر چا چانے پوچھا’’کیوں بھئی ، کیا تمہیں اپنی پسند کی کتاب مل گئی ؟‘‘
’’ چا چا ، آج تو کتابیں لے کر ہی گھر جاؤں گی ، بھلے ہی شام کیوں نہ ہو جائے ‘‘ پسینہ پونچھتے ہوئے مالتی نے کہا ۔
’’ بیٹی، کتابیں مل جائیں گی ۔‘‘ یہ کہہ کر چا چا اپنے دوسرے کام میں مصروف ہو گئے ۔
شام ہوئی ۔ گرمی کی شدت کم ہوئی تو گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ۔ مالتی اب مایوس ہونے لگی تھی کہ آخر اس کی پسندیدہ کتاب کا دوسرا حصہ کہاں کھو گیا !
ٹھیک اسی وقت ’’ مارو…… کاٹو… مارو … کا شور بلند ہوا ۔
مالتی نے بھی چیخیں سنی۔ چیخیں سن کر وہ چوک اٹھی ۔ مگر یہ سب کیا ہو رہا ہے ، اس کا خیال اسے کچھ دیر بعد آیا ۔ تبھی اسے کتاب کا دوسرا حصہ بھی مل گیا ۔ دوسرا حصہ ملنے پر وہ بہت خوش ہوئی ۔ اس نے پھر بھی کتاب کے چند اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے ۔ اس کی سماعت سے شور دوبارہ ٹکرایا ۔ اسے خیال آیا کہ یہ فرقہ وارانہ فساد تو نہیں ؟ اس نے اپنی کلائی میں بندھی گھڑی میں دیکھنا چاہا کہ سلمان چاچا اس کے قریب آئے اور گھبرائے ہوئے انداز میں بولے ۔’’ بیٹی فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا ہے … چلو میرے ساتھ پیچھے کے دروازے سے ……‘‘
چا چا کی آواز میں گھبراہٹ تھی ۔ انھوں نے فوراً دوکان کا دروازہ بند کیا اور پیچھے کی بند کھڑکی کھولی ۔ سوچنے کا وقت کہاں تھا ۔ وہ چا چا کے ساتھ پچھلی گلی میں آئی ۔ دونوں گلی کے آگے بڑھے ۔ دیکھا تو سامنے شر پسندوں کا ہجوم ہے ’مارو… کاٹو…مارو… ‘‘ کی آوازیں گونج رہی ہیں ۔ مالتی اور چا چا گلی پار کر کے جلدی سے گھر پہنچے ۔ مالتی کو اب تک یہ احساس ہو چکا تھا کہ یہ کس کا محلہ ہے ۔ اسے کئی نظریں ایک ساتھ گھو رہی تھیں ۔ کچھ نظروں میں تجسس تھا تو کچھ میں نفرت۔
مالتی کے آنے سے چا چا کا مکان آباد ہو گیا ۔ مکان میں دو خواتین تھیں ۔ ایک عمر دراز اور دوسری اس کی ہم عمر ۔ دونوں اسے حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگیں ۔ مالتی کو اطمینان تھا کہ چا چا تو ا س کے ساتھ ہیں ہی ۔
’’فساد بھڑک اٹھا ؟‘‘ عمر دراز عورت نے پوچھا۔
’’ ہاں … مگر اس بار بڑے پیمانے پہ فساد بھڑک اٹھا ہے ۔‘‘ چا چا نے جواب دیا ۔
انھیں گھر کے اندر ہی طرح طرح کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہوا میں بدبو تھی ۔
’’آمنہ ، اب مالتی بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی ۔ ابھی تم اسے اندر کے کمرے میں لے جاؤ ۔ تاکہ کسی کو بھی اس کی بھنک نہ لگے ۔ طوفان تھمتے ہی میں خود اسے لے جا کر اس کے والد کو بہ حفاظت سونپ آؤں گا ۔‘‘چا چا نے وضاحت کی ۔
گھر کے اندر تہہ خانے کی طرح چھوٹا سا ایک کمرہ تھا ۔ اس کمرے میں گھر کا کباڑ پڑا ہوا تھا ۔ آمنہ مالتی کو اس تہہ خانے تک لے آئی ۔’’ جب تک ابّا ہیں تب تک کوئی فکر کی بات نہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر آمنہ تہہ خانے سے فوراً باہر نکل گئی ۔
مالتی نے سوچا کہ وہ تہہ خانے سے باہر نکل جائے کیوں کہ وہاں بیٹھنے تک کے لیے جگہ نہیں تھی۔ وہاں ہلکا سا اجالا تو تھا مگر کباڑ کی بو نا قابلِ برداشت تھی ۔ پھر اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا متبادل ہی کیا ہے ؟ چا چا نے بھی اسے بلا سبب ہی اس جگہ نہیں چھپایا ہے ۔ آخر کار وہ وہیں خالی فرش پر بیٹھ گئی ۔ رکے ہوئے آنسو اچانک اس کے رخساروں کو بھگونے لگے ۔ اسے راہل، ممی، پاپا وغیرہ یاد آنے لگے ۔ وہ سبھی اس وقت کیا کر رہے ہوں گے ؟ وہ کسی کو بھی کچھ بتا کر نہیں آئی تھی ۔
اسی دوران چا چا تہہ خانے میں آئے اور بولے ’’ بیٹی گھر کا فون نمبر بتاؤ۔‘‘
اس نے فوراً اپنے گھر کا فون نمبر بتایا ۔ من کچھ ہلکا ہوا ۔ وقت آہستہ آہستہ گذرنے لگا اور باقی ماندہ اجالا بھی سمٹ گیا ۔ رات ڈھلنے لگی ۔
آمنہ آئی اور بولی ۔’’ کیا کوئی دوسرا نمبر بھی ہے ؟ تم نے جو نمبر دیا ہے وہ توڈیڈ ہے ۔‘‘
ہاں… اسے خیال آیا کہ گھر کا فون تو ڈیڈ ہی ہے ۔
مالتی اپنے ذہن پر زور دے رہی تھی کہ کسی کی دھمکی سنائی پڑی ۔’’ چا چا تم جو کررہے ہو ، یہ ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘ آمنہ فوراً وہاں سے دوڑ پڑی ۔ وہ یوسف کو اچھی طرح جانتی تھی ۔
’’ کیوں یوسف کیا بات ہے ؟‘‘ چا چا کی آواز گونجی ۔ وہ بھی یوسف کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ پہچانتے تھے ۔ یوسف ان کی گود میں ہی تو بڑا ہوا تھا اس سے ڈر کیسا ؟
’’ چا چا آپ مجھے وہ لڑکی سونپ دیجئے۔‘‘ یوسف کی آواز گونجی ۔ مالتی یہ سن کر کانپنے لگی ۔ یوسف کی بات سن کر چا چا کو دکھ ہوا ۔ آمنہ چونکی اور اس کی امّی بہت گھبرائی ۔
یوسف کیوں ، کیا ترا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے ؟ کیابکواس کر رہا ہے !‘‘ چا چا نے گرجدا ر آواز میں کہا ۔
’’ چا چا سیدھی سی بات ہے کہ آپ اس ہندو لڑکی کو ہمیں سونپ دیں ۔‘‘ یوسف کی آواز مالتی کی سماعت سے ٹکرائی ۔
’’ چلتا بن یہاں سے ۔ تو یہاں سے نکل جا ۔ لگتا ہے تجھے کسی نے ورغلایا ہے ۔‘‘ اتنا کہہ کر چاچانے یوسف کو دروازے کی جانب دھکیلا ۔ یوسف وہاں سے چلا گیا ۔ اب چا چا بندگی کے لہجے میں بد بدایا۔
’’ اے خدا ، کیسا وقت آگیا ہے ؟‘‘
آمنہ دوڑ کر مالتی کے پاس آئی اور اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گئی پھر بولی ’ مالتی مت گھبراؤ ۔ ابھی جو آیا تھا نا وہ یوسف ہے ۔ وہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتا ہے ۔ ویسے تو اچھا لڑکا ہے ۔ بڑے مزے کی ایسی میٹھی باتیں کرتا ہے کہ سن کر ہنسی آجائے ، دل باغ باغ ہو جائے ۔ یوسف ابا کی بات کو ٹال نہیں سکتا ۔ آمنہ نے مالتی کے شانے کو چھوا ۔ مالتی جوں ہی مسکرائی آمنہ بھی مسکرا اٹھی۔
مالتی کو ایسا محسوس ہوا کہ آمنہ یوسف سے متعلق ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے ۔ پھر بھی وہ دل ہی دل میں یوسف سے خوفزدہ تھی ۔ اس کا دل نفرت سے بھرا ٹھا ۔ وہ اسے ہی کیوں پسند کرتا ہے ؟ جب کہ آمنہ مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔
نہیں ، اس کا سبب دوسرا ہے …… سبب… سبب یہ ہے کہ وہ……
مالتی کانپ اٹھی ۔ اف ، کس قدر ذلالت ؟ اس کا دل چاہا کہ وہ خوب چیخے مگر وہ ایسا نہ کر سکی ۔ یوسف جا چکا تھا ۔ مالتی نے آمنہ سے پانی مانگا ۔ اسے لگا کہ اب رات ہو گئی ہے ۔
دوڑتے ہجوم کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ یہ لوگ کہاں جا رہے ہوں گے ؟ کس کو پکڑنے کے لیے ؟ کس کو جلانے کے لیے؟ یا … اگر چا چا نہیںہوتے تو نہ جانے وہ کہاں ہوتی ؟ کسی مشتعل بھیڑکا شکا ر یا …… اسے یوسف یاد آیا ۔ جب کہ مالتی نے یوسف کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ۔ اس نے اب تک صرف اس کی آواز ہی سنی تھی اور آواز میں کتنی نفر ت تھی ۔ کیا آدمی ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ ہجوم میں آدمی آدمی نہیں رہتا ۔ پھر بھی آمنہ اس کی تعریف کر رہی تھی ۔ ممکن ہے کہ یوسف میٹھی باتیں کر کے آمنہ کو خوش رکھنا چاہتا ہو ۔
ٹھیک اسی وقت دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ۔ مالتی دروازے سے لگ کر بیٹھ گئی ۔ اور سوچنے لگی کہ کہیں وہی تو نہیں ……؟
اس بار بھی یوسف ہی تھا ، مگر اس باروہ اکیلا نہیں تھا ۔ اس کے ساتھ اس کے ہم عمر تین نوجوان تھے ۔’’ چا چا ، کیا سوچا ہے ؟‘‘ یوسف کے ساتھ آنے والے ایک نوجوان نے بات دوہرائی ۔
’’ کس کے بارے میں ! یوسف تو پھر آگیا ؟‘‘ چا چا کی آواز میں خوف تھا کیوں کہ اس بار یوسف اکیلا نہیں تھا ۔
’’ چا چا ‘‘ آپ اس لڑکی کو ہمارے حوالے کردیں ، ہمیں کچھ بھی نہیں سننا ہے ۔‘‘ اس بار آواز زیادہ اونچی تھی ۔
’’ یہ ممکن نہیں ہے ۔‘‘ چا چا نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا ۔
’’ چا چا ، ہم لوگ نا سننے کے لیے نہیں آئے ؟‘‘ یوسف نے کڑک کر کہا ۔ نوجوانوں کی وجہ سے اس کی ہمت بڑھ گئی تھی ۔ مالتی یوسف کی آواز سنتے ہی ساکت ہو گئی ۔ اسے لگا کہ اب اسے کسی بھی وقت غنڈوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ آخر ضعیف چا چا کی بساط ہی کیا ہے؟ وہ بے حس و حرکت فرش پر پڑی رہی ۔ ممی ، پا پا اس کی نظروں میں تیرنے لگے ۔ وہ کتابیں خریدنے ہی کیوں آئی ؟
تم لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیاہو ؟ بڑے بزرگوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں ؟ چا چا چیخ پڑے ۔
اسی دوران یوسف کی امی نور بانو وہاں آئی ۔ وہ رو رہی تھی ۔ اس نے ایک ہاتھ اٹھا کر چا چا کو سلام کیا ۔ احتراماً جھکی اور بولی ’ چا چا ، میری شبنم اب تک گھر نہیں آئی ہے ۔ دوپہر سے ہی ڈریس خریدنے گئی ہے …… کیا ہوا ہوگا ؟‘‘ نور بانو کی آواز لرز رہی تھی۔
’’ شبنم ڈریس لینے کہاں گئی تھی ؟‘‘ چا چا نے پوچھا ۔
چا چا، ندی کے اس پار کے بازو کے بازار میں ۔ شبنم ہمیشہ وہاں جاتی رہتی ہے ۔ ویسے فکر کی کوئی بات نہیں تھی ، مگر آج تو طوفان برپا ہے ۔ سارا شہر جل رہا ہے ۔‘‘ ایک ماں نے اپنے دل کی عکاسی کی ۔
’’ یوسف!‘‘ اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا ۔
نور بانو ! میں خود یوسف کے ساتھ شبنم کو ڈھونڈنے جاؤں گا ۔ تم بالکل فکر مت کرو۔‘‘ اتنا کہہ کر چا چا نے اپنی بیوی کی جانب دیکھا ۔ یوسف کے ساتھ آئے ہوئے نوجوان موقع پا کر وہاں سے غائب ہو گئے۔ اب یوسف کی حالت قابلِ رحم تھی۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ چا چا نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا ، ’ ہیلو!، کیا بک اسٹال والے سلمان چا چا ہی بول رہے ہیں ؟ میں سی جی روڈ سے نریندر راول بول رہا ہوں ۔ آپ کے پڑوس میں نور بی بی رہتی ہیں ، ان کی بیٹی شبنم… ٹھیک ۔ ان سے کہنا کہ فکر نہ کریں ۔ ان کی شبنم ہمارے گھر میں محفوظ ہے ۔وہ مزے میں ہے … لیجئے … آپ خود شبنم سے بات کر لیجئے ۔‘‘
یہ سنتے ہی ماحول تبدیل ہو گیا ۔
شبنم بولی ’’ یوسف بھیا‘ میں دنگے میں پھنس گئی تھی ۔ مگر نریندر انکل نے مجھے بچا لیا ۔ میری بالکل فکر مت کرنا۔ امن و امان ہونے پر انکل مجھے گھر چھوڑ دیں گے ۔‘‘
ساری تفصیل جان لینے کے بعد نور بی بی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے اور یوسف سر جھکائے چا چا کے پاس کھڑا ہو گیا ۔
اب یوسف مشتعل ہجوم کا حصہ نہیں تھا ۔


ترجمہ: قاسم ندیم
گجراتی کہانی

Punjabi Story by Ajeet Kaur

Articles

اب میرا انتظار کر

اجیت کور

 

پسلیوں سے ذرا سا نیچے درد کا ایک طوفان اٹھتا اور رشید دُہرا ہوجاتا۔زمین گھوم جاتی اور آسمان سے راکھ برسنے لگتی۔آخر وہ اسپتال چلاگیا۔کئی ٹیسٹ ہوئے۔’’ایک چھوٹا سا آپریشن کرنا پڑے گا۔‘‘ ڈاکٹروں نے کہا۔
’’آپریشن ؟کس کا آپریشن کرنا پڑے گا؟‘‘
’’بائی آپسی۔‘‘
’’بائی آپسی؟یعنی؟کینسر کا شک ہے کیا؟‘‘
’’نہیں،ٹیسٹ شکوں کی تصدیق کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ہر قسم کا شک دور کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔‘‘
وہ راضی ہوگیا۔’’کب آجائوں؟‘‘
’’اگلے منگل کو۔ٹھیک؟کوئی ساتھ تو آئے گا ہی۔پہلے دن جنرل وارڈ میں وہ بھی آپ کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ،کوئی نہیںآئے گا۔میں ہی آئوں گا۔کافی نہیں؟‘‘وہ مسکرایا۔
’’آپ کی بیوی؟بچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہنس دیا۔’’بیوی تو پچھلے برس ہی سے اﷲ میاں کے گھر بیٹھی چرخہ کات رہی ہے اور بیٹا دور ہے، امریکہ۔‘‘
بائی آپسی ہوئی۔تقریباً چھ ہفتوں کے بعد جب وہ بائی آپسی کی رپورٹ لینے اسپتال گیاتو ڈاکٹر پھر سے اس کے بیٹے کے بارے میں پوچھنے لگے۔
’’آپ لوگ میرے بیٹے کو مجھ سے زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں؟مجھ سے زیادہ پختہ اور طاقتور؟ آپ رزلٹ بتائیں،مجھ میں حوصلہ ہے سننے کا۔‘‘وہ مسکرایا۔
’’ڈاکٹروں نے بے حد نرم اور ملائم آواز میں اسے بتایا کہ اس کے پیٹ میں کینسر ہے۔
کینسر؟اس کے جسم میں اس بنا سلائی کے،لپٹے لپٹائے تھیلے کے اندر اس کا پیٹ آہستہ آہستہ سڑرہاتھا۔باسی گوشت کے ٹکڑے کی طرح اور اس میں لاکھوں ننھے ننھے کیڑے رینگ رہے تھے اور اسے خبر تک نہ ہوئی۔بدبو بھی نہ آئی!وہ حیران ،سوچ رہا تھا۔
بڑے ڈاکٹر نے سوچا،رشید اس بھیانک خبر کی وجہ سے خاموش ہوگیاہے۔بڑی اپنائیت سے اس نے رشید کا ہاتھ دبایا۔’’آپ میرا کہا مانئے،بیٹے کو امریکہ سے بلالیجئے۔کینسر کا علاج کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔آپریشن ہوسکتا ہے۔دوائیں ہیں،بجلی کا علاج ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔آج کل تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
رشید مسکرایا،’’اگر علاج کیا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنی دیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
ڈاکٹر نے کہا،’’سال دو سال!کچھ زیادہ بھی شاید۔مگر دوائیں پابندی سے لینی ہوںگی۔ چیک اپ لگاتار کرواتے رہنا ہوگا۔اس کے بعد شاید درد بڑھ جائے اور آپ کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑے۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ہر درد کے لیے دوائیں موجود ہیں۔ویسے میری یہ صلاح ہے کہ آپ بیٹے کو بلوالیں۔دوچار ہفتوں میں ہی ہسپتال میں داخل ہوجائیں۔تاکہ ہم اپنی پوری کوشش کرسکیں۔‘‘
’’اور اگر دوائیں نہ لی جائیں؟یعنی کچھ بھی نہ کیا جائے،تو؟‘‘
’’یہ تو پھر خودکشی ہے۔‘‘
’’نہیں،میرا مطلب تھا کہ اگر مجھے پتہ ہی نہ چلتا،درد ہی نہ ہوتا،اگر ہوتا بھی تو میں اجوائن پھانکتا رہتااور آپ کے پاس نہ آتا،ٹیسٹ نہ ہوتے،تو کتنی دیر زندہ رہ پاتا؟‘‘
ڈاکٹر نے کندھے اچکائے۔گردن میں خم سا دیتے ہوئے کہا،’’چھ مہینے،پانچ مہینے،آٹھ مہینے۔کیا کہا جاسکتا ہے؟قسمت پر بھی تو ایسی باتیں ٹکی ہوئی ہیں۔‘‘
گھر پہنچ کر رشید نے اپنی زندگی کا حساب کتاب کرنا شروع کیا۔جوڑنے لگا تو سارے جواب منفی میں ہی آئے۔’’کمال ہے۔‘‘اس نے سوچا۔’’اتنے برس بیت گئے اور میںنے کبھی اس طرح سے اپنی زندگی کا بہی کھاتہ کھول کر دیکھا بھی نہیں کہ کیا کمایا اور کتنا نقصان ہواہے۔ ہے نا حیرانی کی بات؟‘‘
اچانک اسے لگا کہ وہ اور لوگوں سے زیادہ قسمت والا تھا۔نہیں؟ورنہ موت کے مقام کا کسے پہلے سے علم ہوتا ہے؟اچانک بیٹھے ہوں اور اچانک لڑھک جاتے ہوں۔بس ختم!اور ایک وہ تھا کہ اسے پتہ تھا کہ پانچ چھ مہینے اس کے پاس ہیں اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بعد میں سوچیں گے،بھئی!فی الحال وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچوں کے بہائو کو جتنا بھی روک لو ،وہ رکتا ہے کیا؟کچھ نہ سوچنے کا فیصلہ کرنے کے باوجود اس کی پوری زندگی اس کے سامنے گھومنے لگی۔مگر یار ہے نا کمال کی بات؟اتنے برس سوچا ہی نہیں کہ یہ گزررہی ہے،زندگی۔رشید خود سے باتیں کرتا رہا۔
فریدہ،میری جان،شاید تم ہی مجھے پکا ررہی ہو۔وہاں اکیلے میں دل نہیں لگتا نا تمہارا؟وہ پیار سے اپنی بیوی کے تصور سے پوچھتا۔
وہاں ،کہاں یار؟وہ تو قبر میںلیٹی ہے،آرام سے۔اما تم بھی کیا اپنے دوست رمیش کی طرح سوچتے چلے جارہے ہو۔آلتو فالتو باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اس کی بیٹی اوپر کہیں،بادلوں کی دوسری اور ،چاند تاروں کی دنیا میں رہ رہی ہے۔یہ تو ہندوئوں کی سوچ ہے۔کافر کہیں کا۔
اتنے برس تو وہ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر کا فاصلہ طے کرتا رہا تھا۔ اور دفتر میں اپنی میز سے صاحب کے کمرے کا فاصلہ۔بس!قبیلہ داری؟کہاں۔
فرماں بر داری بھی نبھائی اس نے۔اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کی تھی۔چھوٹے بھائی کو پڑھایا تھا۔بہنوں کی شادیاں کی تھیں۔خود اپنے تین بچے پیدا کئے تھے،پر دو اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ایک ہی باقی تھا،اسلم۔اسلم ڈاکٹری کی پڑھائی ختم کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلاگیا تھا۔
خود ہی بھیجا تھا میں نے۔بچوں کی خوشی میں ہی ماں باپ کی خوشی ہوتی ہے۔ہے یا نہیں؟
مگر یہ تو نہیں کہا تھا میں نے اسے کہ پھر لوٹ کے آئے ہی نہیں۔پڑھائی ختم کی اوروہیں سیٹل ہوگیا۔نالائق!چٹھی لکھی،جس میں اطلاع دی تھی کہ وہیں نوکری جوائن کررہا ہوں۔احمق! کم سے کم اجازت تو لے ہی سکتا تھا۔نہیں؟
رشید نے دفتر سے استعفیٰ دے دیا۔کسی کو کچھ نہیں بتایا،ساتھ میں کام کرنے والوں سے یہی کہا کہ وہ اب جاکر اپنے گاؤں میںرہنا چاہتا ہے۔گاؤں میں اپنا پرانا گھرہے۔پکی حویلی ہے۔ شہر کے شور میں کیا رکھا ہے صاحب!بہت ہوگیا۔اتنے برس دریا گنج کے ایک چھوٹے سے،اندھیرے سے گھر میں رہ کر بتادیئے۔اب ذرا کھلی ہوا میں سانس لوں گا۔
رمیش جو اس کے دفتر میں ساتھ والی میز پر بیٹھتا تھااور دوپہر کو کھانا بھی دونوں اکٹھا کھایاکرتے تھے،اس کا اکلوتا دوست،حیران تھا۔’’مگر رشید صاحب،وہاں اکیلے کیا کریں گے؟‘‘
’’اکیلا؟اور یہاں کیااکیلا نہیں ہوں میں؟‘‘اور وہ ہنس پڑا۔بات کو ہنسی میں اڑا دیا، ’’بھائی جان ،وہاں بھینسیں رکھوں گا،کتّے پالوں گا،بلّیاں پالوں گا۔گائوں میں کیسا اکیلاپن؟اکیلا پن تو شہر میں ہوتا ہے،ماچس کی ڈبیوں جیسے گھرو ں میں۔‘‘
’’اسلم سے پوچھ لیا؟‘‘
’’اسلم؟اس نالائق سے کیا پوچھنا؟میں اس کا باپ ہوں کہ وہ میرا باپ ہے؟‘‘رشید قہقہہ لگاکر ہنس پڑا۔اتنا کھل کر ہنستے ہوئے اسے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔
اسلم کو سچ مچ اس نے کچھ نہیں لکھا۔ویسے بھی تو چھ مہینے میں ایک آدھ چٹھی ہی تو آتی ہے اس کی۔چھ مہینوں کی ہی تو بات ہے ساری۔اسے تو پتہ بھی نہیں چلے گاکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رشید سوچتا رہا۔
ویسے بھی یار،اگر دو چاردنوں میں ہی مرنا ہوتو لکھ دوں اسے کہ آجا اور کام نبٹاکر لوٹ جا۔ اب میں چھ مہینے پہلے کیوںاسے دکھی کروں؟کھانے پینے کی عمر ہے اس کی،نہیں؟وہ اپنے من میں خود کو ہی بچوں کی طرح سمجھاتا۔
کہوں بھی تو کیا کہوں؟کہ آ،میرے پاس بیٹھ،اینڈ واچ می ڈائنگ اے سلو دیتھ!
بھئی جانا ہی ہے تو اپنی مرضی سے جائیں گے۔نہ اسلم کے رحم پر نہ ڈاکٹروںکے رحم و کرم پر!آکر کرے گا بھی کیاآخر؟ہسپتال میں بھرتی کروادے گا،دوائیں!بدبو!ٹیکے!اور چھ آٹھ مہینے کُڑھتا رہے گاکہ بوڑھا نہ آر ہوتا ہے نہ پار!
غلط،غلط رشید میاں!بوڑھے کب سے ہوگئے آپ؟ابھی تو اچھے خاصے ہیں بھلا۔ دفتر کی کوئی بھی لڑکی ابھی تک آپ کے پاس بے تکلفی سے نہیں بیٹھتی۔جب لڑکیاں آپ سے دکھ سکھ کی باتیں کرنے لگیں اور صلاح مانگنے لگیں،تب ہی بزرگی میں قدم رکھتے ہیں،سمجھے آپ حضرت؟وہ مسکراتا۔
گھر کا سب سامان اس نے بیچ دیا۔صرف ایک بستر رکھ لیااور پہننے کے کچھ کپڑے، کچھ تکیے کے غلاف،چادریںاور تولیے۔ایک صندوق کتابوں سے بھرلیا۔دوچار برتن دوسری پیٹی میں ڈالے۔ گیس کا چولہا فروخت کرکے بازار سے اسٹو خریدا اور قندیل۔ایک جوڑی چپل اور موٹے ربڑ سول کے کینوس کے جوتے سیر کرنے کے لیے۔بڑھیا سے کاغذوں کا ایک پیکٹ، داڑھی بنانے کا سامان اور ایک چھوٹی سی بوتل پرفیوم کی۔
رشید میاں ،لگتا ہے بارات میں جارہے ہو یار۔خدا کی بارات میں۔بس،اب آنکھوں میں سرمہ بھی نہ مٹکالیناکہیں!وہ اپنے آپ سے مذاق کرتااور مسکرادیتا جیسے سچ مچ کہیں چھٹیاں منانے جارہا ہو۔پھول سا ہلکا محسوس ہوتا اسے اپنا دل اور بدن!
بیٹی بیٹے،ماں باپ،بہن بھائی یہ سب انسان کو باندھے رکھتے ہیں۔پھر گھر گھر میںمکڑی کے جال کی طرح سو ضرورت کی اور باون سو غیر ضروری چیزوں کا جال!پھر مجھے دیکھ رمیش بھائی، دیکھ حسد سے جل۔سارے مایاجال کاٹ کر پھینک دیئے ہیں۔سارے جالے جھاڑ پونچھ کرباہر پھینک دیئے ہیں۔ہے یا نہیں؟وہ دل ہی دل میں رمیش کو چیلنج دیتااور ہنستا۔
سب کچھ بیچ باچ کر اور ضرورت کی چیزیں خریدکر اس نے پیسوں کا حساب لگایا تو اسے لگا کہ اتنی بادشاہت تو اس نے زندگی بھرنہیں دیکھی تھی۔اتنے سارے پیسے بچ گئے تھے اور سارے اسے چھ سات مہینے میں اڑادینے تھے۔
واہ یار!رئیس ہوگئے ہو تم تو یار!چاہے دو گھوڑوں والی بگھی خرید لو۔کوچوان گھوڑوں کو سوٹے مارمارکر چلائے۔بید کی چھڑی ہوا میں لہراتاہوا اور تو پچھلی سیٹ پر بیٹھادنیا کے نظارے دیکھ۔زندگی میں پہلی بار رشید نے فرسٹ کلاس میں سفر کیا۔اسٹیشن سے گائوں تک ٹیکسی لے لی اور پشتینی حویلی کے سامنے اترا۔اس کی چال میں ایک عجیب سی مستی اور دل میں امنگ تھی۔حویلی کے موٹے دروازے برسوں سے بند پڑے تھے۔دروازے پر لکڑی کی نقاشی تھی جس میں پیتل کی کیلیں جڑی ہوئی تھیں۔
کتنے سال کے بعدگائوں آیا ہو ں میں؟سوچتا ہوا وہ اپنی جیب سے لمبی چابی نکالنے لگا۔ چابی تالے کے سوراخ میں ڈالی،لیکن وہ گھومی ہی نہیں۔شاید تالے کو زنگ لگ گیا ہوگا۔’’کیوں یار،ترے پیٹ میںبھی کینسر ہے۔‘‘اس نے آہستگی سے تالے سے کہا اور پھر اداس ہوگیا۔
تم بھی رشید میاں!بڑے نا معقول آدمی ہو۔گھر کے اندر پائوں رکھتے وقت کوئی اچھی بات سوچنی چاہئے اور تم ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے بس تھوڑے سے تیل کی ضرورت ہے۔تیل؟میرے پاس تو ہے۔وہ کہاں ہے میرا وینٹی بیگ؟وینٹی بیگ؟رشید مسکرایا،’’وینیٹی!‘‘
سر میں لگانے والا خوشبودار تیل میںچابی کو ٹھیک سے بھگواکر اس نے جب تالے میں گھمائی تو تالا کھل گیا،’’تم بھی دوست دنیا کی نبض خوب پہچانتے ہو۔کسی نیتا ویتا کا سایہ پڑالگتا ہے تم پر بھی۔تیل دیے بنا بات ہی نہیں کرتے۔‘‘اس نے تالے سے مذاقاً کہا۔لکڑی کے موٹے پَلّے چرمراکر،چرچراکر کھل گئے۔ٹھہرجائو یار،ذرا دم لو۔پلاتا ہوں تیل تمہیں بھی۔شور کیوں مچائے جارہے ہو؟
شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ٹیکسی کی آواز سن کر محلے کے بچے گھروں سے بھاگتے ہوئے نکل آئے۔پہلے تو ذرا دور کھڑے ٹکر ٹکر دیکھتے رہے،پھر دھیرے دھیرے کھسکتے ہوئے ان کا گھیرا تنگ ہوتا گیا۔سب چپ چاپ اسے ہی دیکھتے رہے۔
اس نے کنکھیوں سے انہیں دیکھا،رشید یار،اب ان آفتوں سے دوستی نہ کرنے بیٹھ جانا۔ ورنہ رات دن تمہیں گھیرے رہیں گے۔تم یہاں مستی کرنے آئے ہو یا ان بچوں کو بہلانے پچکارنے؟اور اس نے بچوں سے نظر نہیں ملائی،تالا کھول کر وہ سامان اندر لے جانے لگا۔ٹیکسی والا کتابوں کا بھاری صندوق اٹھاکر اندر لے آیا۔اس نے اس کے پیسے ادا کئے اور بچوں کی نظروں سے بچتے اوپر پیڑوں کی شاخوں کو دیکھتے ہوئے اس نے دروازہ اندر سے بند کردیا۔
حویلی کے ایک ایک کمرے کو کھول کر وہ دیکھ رہاتھا۔ہر کمرے میں بہت سااندھیرا دُبک بیٹھا تھا۔اور اندھیرے میں باسی گرد اور باسی ہوا کی گھٹی ہوئی سانسیں گھلی ہوئی تھیں۔’’گھر بھی کیا چیز ہوتا ہے یار رشید!اس میں رہتے رہو۔اسے استعمال کرتے رہو۔دھوتے پونچھتے ،رگڑتے گھستے رہو تو اس میں سوندھی خوشبو آتی ہے۔عورت کی طرح!عورت کو پیار کرتے رہو،اس کے ساتھ سوتے ،جاگتے رہو،گھر میں روٹیاں سینکتی ہے وہ۔نئی نویلی،نرم ملائم سی پورے گھر میں چھم چھم کرتی گھومتی رہتی ہے۔اگر گھر چھوڑکر چلی جائے یا پاس رہتے ہوئے بھی نہ چھوئو تو اسی طرح بھوتوں کا ڈیرا بن جاتا ہے اس کا بدن بھی۔‘‘
رشید اداس ہوگیا۔رومال سے اس نے چوڑے پلنگ سے مٹی جھاڑی اور بیٹھ گیا۔دونوں کہنیاں گھٹنوں پر ٹیک دیں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنساکران پر ٹھڈی ٹکادی۔فریدہ اس کے سامنے جیسے چلنے پھرنے،ہنسنے بولنے لگی۔گوشت کی ہنڈیا میں کڑچھل گھمانے لگی۔اور تندور سے سوندھی سوندھی مہک والی روٹیاں پکانے لگی۔تندور سے نکلی تازہ گرم روٹیوں کی سوندھی خوشبوئو ں میں رشید کھو سا گیا۔
دوسرے دن صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاہٹ نے اور کبوتروں کی غٹرغوں نے اسے جگا دیا۔ ابھی اجالا پوری طرح پھیلا نہیں تھا۔دودھیا اندھیرا دھیرے دھیرے اجالے میں تبدیل ہوتا جارہاتھا۔وہ پہلے تو نیند کی خماری میں ہی سلیپر میں پیر ٹکاکر دروازے کی اور چلنے لگا۔دو قدم ہی چلاتھا کہ اچانک رک گیا،مسکرایا۔کیوں رشید میاں دروازے کے باہر بڑا اخبار لینے جارہے ہو؟تاکہ سگریٹ سلگاکر مزے مزے سے دنیا کے حال احوال کا معائنہ کیا جاسکے؟حضور یہ دریاگنج نہیں ہے۔یہ تو اپنا گائوں ہے۔
اور آپ چودھری صاحب ذرا ہوش سنبھالیے۔جاگ جائیے،لوٹا پکڑئیے اور چلئے باہر، کھیتوں میں ،کیا کہتے ہیں۔اسے؟باہر سے خالی لوٹاہاتھ میں جھلاتا ہوا،وہ لوٹا تو بچپن کی صبحیں یاد آگئیں۔
واپسی پر کیکر کی ٹہنیاں توڑی ہوتی تھیںاور ٹہنیوں سے کانٹے چھیلنے ہوتے تھے اور چھوٹی چھوٹی داتونیں کاٹ کر گھر لانی ہوتی تھیں۔ایک داتون راستے میں مزے مزے سے چبانی ہوتی تھی۔
گھر لوٹ کر سبھی کو داتونیں بانٹنا اس کا کام ہواکرتا تھا،یہ سوچتے ہوئے رشید کا من نرم گیلی مٹی سا ہوگیا۔چاروں طرف کھیت لہلہارہے تھے۔ہوا میں خنکی تھی۔اکتوبر آدھا بیت چکا تھا، اکتوبرنومبر دسمبرجنوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رشید دل ہی دل میں ایک بار پھر گنتی گن رہا تھا۔ویسے یہی گنتی وہ پچھلے کچھ دنوں میں سینکڑوں بار گن چکا تھا۔
مارچ؟مارچ کا بھی بہت خوبصورت مہینہ ہوتا ہے یار رشید۔نہ سردی ،نہ گرمی۔ بہت خوشگوار ہے مارچ کا مہینہ۔نرم اور نازک۔سفر پر جانے کے لیے،کوئی بھی کام کرنے کے لیے۔ موسم کا اور وقت کا درست ہونا بہت اہم ہے،نہیں؟مرنے کے لیے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی مرنا!کون سا عجیب و غریب کام ہے بولیے!سارے ہی کرتے ہیں چاروں اور دن رات یہی تو!سوچ کر پھر اداس ہونے لگاوہ،زیادہ خورشید اور مریم کے لیے ،اس کے اپنے بچے جو نہیں رہے تھے اور فریدہ کے لیے ،اس کی بیوی جو اسے تنہا چھوڑکرچلی گئی تھی۔
اوئے رشید میاں،ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں چل دیئے،اونٹ کی طرح منہ اٹھاکر؟اپنے گھر کا موڑ تو پیچھے چھوٹ گیا اور وہ واپس گھوم گیا۔اب وہ گائوں کی گلی میں تھا۔اپنے گھر کی گلی میں۔ آتے جاتے لوگ ذرارک کراسے پہچاننے کی کوشش کرتے۔پہچان لیتے تو سلا م کرتے۔
’’کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’بس ذرا گھر کاخیال آگیا۔‘‘
’’اچھاہے اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر خبر لینی چاہئے۔گھر تو گھروالوں سے ہی بنتے ہیں جی، کیوں جی؟‘‘
’’سوتو ہے۔‘‘وہ مسکرادیتا۔
’’اسلم کیا کررہا ہے آج کل؟‘‘
’’ڈاکٹری۔‘‘
’’اچھااچھا۔پروردگار کابہت شکر ہے جی۔ڈاکٹری!واہ واہ!نام روشن کردیا خاندان کا۔ گائوں کا بھی تو!کبھی کبھی یہاں بھی تو آتاجاتا رہے گا۔دیکھئے نا یہاں آنکھوں کی بیماری بہت ہے۔ چالیس پار کیے نہیں کہ آنکھوں میں موتیا اترنا شروع ہوجاتا ہے۔شہروں میں تو سنا ہے موتئے کا آپریشن منٹوں میں کردیتے ہیں۔‘‘
’’اسلم تو امریکہ میں ہے۔‘‘
’’امریکہ!بلّے بلّے!خیر سے!امریکہ!‘‘
’’جب بھی آئے گا ،اسے یہاں ضرور لائو ںگا۔خدمت کرے گا آپ سب کی۔‘‘اور رشید من ہی من مسکراتا،واہ کیسی صفائی سے جھوٹ بولتے ہو!
جھوٹ!کاہے کا جھوٹ بھائی؟دوسرے کا دل رکھ لیا،جھوٹ کی کیا بات ہے۔ گھر کی کھیتی ہے سچ جھوٹ تو۔دوسرے کی پل بھر کی خوشی پر سو سچ قربان،میری جان۔
رشید نے بہت لگن سے گھر کی صفائی شروع کی۔ کتنی ہی چیزیں فالتو پڑی تھیں۔ بے شمار چیزیں جو اس بات کی گواہ تھیں کہ کبھی یہ گھر بھی انسانوں سے بھرا رہتا تھا۔
گھر کے آس پاس اس نے گلاب کے پودے لگادیئے۔حساب کرنے لگا کہ پھول کب کھلیں گے۔مارچ سے پہلے یا مارچ کے بعد؟بہت سے کبوتر پال لیے رشید نے۔سفید اور سرمئی، بھورے اور چتکبرے کبوتر۔بہت پیار کرتا ان سے۔دل ہی دل میں ان سے باتیں کرتا۔’’ذرا سانس تولو۔ کیوں شور مچارہے ہو؟صبر نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
صبح اٹھتا تو کبوتروں کو ننھے بچوں کی طرح ڈانٹتا،’’شورتو اتنا مچاتے ہو کہ بس!جگادیا نا مجھے!‘‘
اسے لگتا چڑیاں اسے ہی نیند سے بیدار کرنے کے لیے گارہی تھیں،’’اکیلے آدمی،اٹھ۔ سو نے کے لیے تمام وقت پڑا ہے۔قیامت کے روز تک اور چار مہینے بعد سونا ہی تو ہے اور کرنا ہی کیا ہے۔ فی الحال تو جاگ جائو،آس پاس دیکھو۔دیکھو قدرت کے رنگ۔دیکھوآسمان کس طرح جگمگارہا ہے۔ پیڑوں کے پتے ننھے بچوں کی طرح چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں سے تالیاں بجابجاکرکھلکھلارہے ہیں۔ بھوری مٹی کی خوشبو آرہی ہے۔گلابوں کے پودوں میں نئی کونپلیںپھوٹ رہی ہیں۔دھوپ ہے، ہواہے،زندگی ہے۔‘‘
ایک وقت ہی ہے جو واپس نہیں آتا رشید میاںاور سب کچھ واپس آجاتا ہے۔ موسم، اندھیرے اجالے،دھوپ ،روشنی،ہوا ،پتے،پھول،فصلیں سبھی واپس آجاتے ہیںمگر وقت جو گزرگیا وہ محض ایک خواب بن جاتا ہے۔
انسان بھی تو کھاد بن جاتا ہے قبر میں لیٹے لیٹے۔مگر وہ قیامت کا دن ؟قبر میں سے اٹھنے کا دن؟یا جسے رمیش کہتاتھا دوسرا جنم؟
سب بیکار باتیں ہیںرشیدمیاں۔دل بہلانے کو گڑھی گئی ہیں۔جو لوگ آخرکو آخر ماننے کو تیار نہیں ہوتے انہیں بہلانے پھسلانے کے لیے۔
رشید جاگتاتو اسے لگتا وہ سویا توتھا ہی نہیں۔
وہ آس پاس دیکھ کر حیران ہوتا رہتا۔یہ قسم قسم کے پرندے،چڑیاں،کبوتر،مینا،بگلے اور بھی کئی۔جن کے نام اسے معلوم نہ تھے مگر جنھیں دیکھتے ہی وہ پہچان لیتاتھا۔رشید حیرانی سے انہیں دیکھ کر سوچتا۔’’یہ سب کے سب میری ہی دنیا میں رہ گئے تھے کیا؟سد اسے؟کہاں چھپے تھے سب اتنے سال؟‘‘
وہ کہاں پوشیدہ تھے یار رشید!پوشیدہ تو زندگی تونے گزاری ہے۔
اتنے سال،جب وہ گھر سے دفتراور دفتر سے گھر کا فاصلہ طے کررہا تھا۔جب وہ اپنی تنخواہ اور اخراجات کا حساب کتاب جوڑتوڑکر کھینچ تان کر بیٹھا رہا تھا۔جب وہ آفیسر کی ہر ڈانٹ سے غمزدہ اور ہر ترقی سے خوش ہوتا رہاتھا۔
جب وہ صبح اٹھ کر اخبار پڑھتا اور چائے پیتا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر خود رشید کو،مریم کو اور آخر میںفریدہ کو دیگر کئی دوستوں کو رخصت کرکے زمین کے نیچے سلاتا رہاتھا،ان تمام برسوں میں یہ تمام رنگین حسین زندگی کیسے اس کے پاس سے سرک کر گزرتی چلی گئی تھی۔خاموشی سے جشن مناتی ہوئی۔
رشید دیکھتا رہا،کبوتروں کے جوڑے کیسے گلے کی گہرائیوں میں سے پیار کے دھیمے بول بولتے ہوئے ایک دوسرے کی گردنوں کو اپنی چونچوں میں پکڑتے،پروں کو دلارتے اور کپکپی کی ننھی ننھی لہریں ان کے بدن کو تھرتھراتی رہتیں۔
تین چار آوارہ بلیّاں بھی رشید کے پاس آکررہنے لگی تھیں۔ویسے تو بلّی کبوتر کو چھوڑتی نہیں،مگر ان بلّیوں کو شاید معلوم تھا کہ اس گھر میں رہنا ہے تو کبوتروں کی جانب میلی نگاہوں سے دیکھنا بھی نہیں۔
پیٹ میں درد کے نشتر جب بھی چبھتے تو وہ درد سے بے حال ہوجاتا۔ایسے لگتا جیسے ساری کی ساری جان گڈمڈہوکر اس کے سڑتے ہوئے پیٹ کے اندر جاچھپی ہے۔مگر دواخانے جانے کے لیے اس کا دل انکار کردیتا۔
اس نے سناتھااور کتابوں میں پڑھاتھا کہ ان دوائوں سے پہلے تو انسان گنجا ہوجاتا ہے۔ چڑیا کے نوزائیدہ بچے کی طرح،جو ابھی ابھی انڈے سے باہر آیا ہو۔وہ سوچتا اور پیار سے اپنے گھنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا،پھر بالوں سے مخاطب ہوتا۔فکر مت کرو،تم رہوگے، میرے ساتھ ہی، آخری وقت تک، دوائیوں کی ایسی کی تیسی۔
جب بھی درد بڑھتا،وہ یا تو باہر پھولوں کی کیاریوں میں دو چار قلمیں اور لگانے لگتا،یا پھر پتوں کے مرجھانے اور نئی کونپلوں کے پھوٹ آنے کے جادو کو دیکھتا رہتا۔اڑوس پڑوس کے بچوں کو بلاکر کہانیاں سنایا کرتا۔اسکول کے بچوں کا ہوم ورک کروادیتا۔کئی بار حیران ہوکر خود سے پوچھتا، ’’مگر رشید میاں،تیری ایک بات پلّے نہیں پڑی یار!تیرے پیٹ کے درد کا بچوں سے یا کبوتروں، بلّیوں سے کیا تعلق ہے،ذرا سوچ کر سمجھا تو سہی۔‘‘
اس بار درد کا طوفان اٹھا تو وہ جاکر کہیں سے رنگ برنگ طوطے خرید لایا۔ پھر کئی دن وہ ان کے لیے پنجرے بناتا رہا۔لمبے چوڑے پنجرے تیار ہوگئے تو اس میں طوطے براجمان کردیئے۔ پھر نیچے پانی کے تسلے بھرکر رکھے،دانے کے برتن،مرچی اور سب چیزوں کی روزانہ صفائی!ان سب کاموں میں دن کدھر سے چڑھتا اور کدھر ڈھلتا ،احساس ہی نہ ہوتا۔
لے بھئی،ایک اور دن کو لوٹ لیا۔بدّھو بناکر بھگادیا۔واہ رشید میاں،جواب نہیں تمہارا بھی۔وہ مسکرایا۔رات کو چاہے نیند آئے یا نہ آئے،صبح سویرے اٹھتا تو اسے لگتا وہ تو ابھی ابھی پیدا ہوا تھا۔یہ زمین،یہ کائنات بھی ابھی ابھی تعمیر ہوئی تھی ،صرف اس کے لیے۔یہ سبزہ زار، پیڑ جن میں ہوا اور دھوپ پاس پاس بیٹھ کر کانپتی رہتی۔
جب وہ گائوں آیاتھاتو گرمی کا موسم گزرچکا تھا،ہوا میں صبح و شام ہلکی ہلکی خنکی رہتی تھی۔ وہ اس میٹھی رُت میں اپنی چارپائی باہر کھلے آنگن میں ڈال کر سوتا۔یااوپر کھلی چھت پرتو آسمان کے سبھی ستارے ذراسا نیچے جھک جاتے اور اس سے باتیں کرنے لگتے۔سارا گزرا ہوا بچپن اس کی چارپائی کے سرہانے آکر بیٹھ جاتا۔
دوپہر کی دھوپ آج کل بے حد نرم ہوگئی تھی۔خرگوش کے بدن کی طرح نرم۔وہ دھوپ میں بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتا۔واہ میرے پروردگار۔اتنی نعمتیںدیتا ہے تو انسان کو۔اور انسان ہے کہ بس اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے کولہو کے بیل کی طرح گول دائرے میں گھومتا چلاجاتا ہے۔اگر مجھے بھی ڈاکٹر نہ بتاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ چھ مہینے والی بات نہ کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو یہ ساری خوبصورتی ،کائنات کا یہ سارا حسن،کنوارا ہی مرجاتا۔
ایک دن اس نے بھنتی کے بیٹے کا سر سہلاتے ہوئے کہا،’’بیٹا،کل اسکول سے لوٹ کر ذرا میرا ہاتھ بٹانا۔پیچھے جو مویشیوں کا کوٹھا ہے اس کی صفائی کردیں گے۔اب تو نہ کوئی گائے نہ بھینس نہ گھوڑا نہ بیل۔وہ کوٹھا یوں ہی ویران پڑا ہے۔صفائی کردیں گے تو کل کو مویشیوں کے کام آئے گا۔‘‘
ویسے وہ سوچ رہا تھا،کس کے مویشی؟کون سے مویشی؟ارے رشید میاں کوئی تو آکر رہے گا اس چھت کے نیچے۔دروازہ کھلا چھوڑجائوں گا نہ میں۔اسلم تو آکر رہنے سے رہا۔گھر ویران پڑے رہیں۔بھوتوں کا ڈیرا بن جائیں اس سے تو اچھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن اس نے بھنتی کے بیٹے کے ساتھ مل کر صفائی کی۔صفائی کرتے ہوئے اسے اپنے بچپن کے دن یاد آتے رہے۔دودھ سے بھری بالٹیاں،مویشیوںکے گلے میں بجتی گھنٹیاں، سب کچھ یاد آتارہا۔اب یہ کوٹھا ویران پڑاتھا۔کوٹھے کی صفائی کرتے کرتے بہت تھکان ہوگئی رشید کو۔دل بھی بہت بجھا بجھا سا ہوگیاتھا۔
باہر آکر اس نے پمپ سے ہاتھ دھوئے اور دھوپ میں بچھی ہوئی چارپائی پر لیٹ گیا۔
بھنتی کا بیٹا بھی باہر آکر اس کی چارپائی کے پاس رک گیا۔
’’کیا نام ہے تیرا بیٹے؟‘‘
’’جی،شام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اچھا،اچھا شام!بتایا تھا تونے کل بھی۔میں ہی بھلکڑ ہوتا جارہا ہوں۔‘‘رشید مسکرایا۔ شام بھی مسکرایا۔کچھ دیر خاموشی رہی۔’’تو پتنگ اڑاتا ہے کبھی؟‘‘رشید نے شام سے پوچھا۔
’’پچھلے برس اڑائی تھی،بسنت کے میلے میں۔‘‘لڑکے نے نگاہیںنیچی کرکے،شرماکر جواب دیا۔
رشید نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔پانچ روپے نکالے اور کہا،’’لے،یہ لے لے۔جاکر پتنگ اور ڈور لے آ۔یہاں آکر پتنگ اڑا۔میں دیکھوں گا۔‘‘
پھر اس نے ذرا سوچ کر ایک اور نوٹ نکالا اور لڑکے کو پکڑادیا۔’’لے اور رکھ لے۔کیا پتہ آج کل ڈور اور پتنگ کتنی مہنگی ہے؟‘‘
لڑکادوڑتا ہواگیااور پتنگ جھلاتا ہوا لوٹ آیا۔دونوں نے مل کر ڈور سے پتنگ باندھی، جھول پرکھا،ہموار کیا،پتنگ اڑنے کے لیے تیار تھی۔
’’لے تو ذرا پیچھے ہٹ،دونوںہاتھوں میں کَس کر پکڑے رکھنا ڈور کو۔میں جب اسے یہاں سے اوپر اڑائوں گا تو جلدی سے ڈور کھینچنا۔پتنگ اڑنے لگے گی۔‘‘شام پیچھے کی طرف چلنے لگا قدم در قدم۔
اچانک رشید کو لگا یہ اس کا بیٹا اسلم تھا۔برسوں کے دوسرے سرے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ دریاگنج والے گھر میں ہی ایک دن ضد پکڑ کر بیٹھ گیا کہ ابّو ہم تو پتنگ اڑائیں گے۔بڑی منت سماجت سے کہاتھا اس کا شرٹ پکڑکر،’’ابّو،سکھادیجئے نا ہمیں بھی پتنگ اڑانا۔‘‘
اور اس نے کہاتھا،’’نادان ہے توتو،اتنی تنگ گلیوں،مکانوں پر اونچی اونچی پانی کی ٹنکیوں اور ٹیلیفون کے ایریل،پتنگ کہاں اڑائے گاتو؟‘‘
اسلم کو پیچھے ہٹاکر رشید شام کو دیکھ رہا تھا۔وہ مزیددوچارقدم پیچھے چلاگیا۔تاکہ فاصلہ زیادہ ہوجائے پتنگ کو وہ جب جھٹکا دے کر اونچا کرکے چھوڑے تو ایک ہی جھٹکے سے وہ ہوا سے باتیں کرنے لگے۔
فاصلہ کافی ہوگیاتھا۔رشید نے پتنگ کے دونوں سروں کو پکڑا اور اوپر اچھال دیا، ’’شام،جھٹکا مار۔‘‘ایڑیاں اٹھاکر اس نے پتنگ ہوا میں چھوڑ دی۔
اُس ایک ہی جھٹکے سے پیٹ میں درد کا ایک خنجر پیوست ہوگیا۔درد کا طوفان،خون کا ایک گھونٹ منہ سے باہر اور آسمان کی تمام نیلاہٹ اس کی آنکھوں میں سمٹ کر کالی ہوگئی۔
شام کا دھیان آسمان میں تیرتی،جھومتی اور رقص کرتی پتنگ کی جانب تھااور پتنگ کے آس پاس آسماں میں رشید کے گولے کبوتر تیررہے تھے اور نیچے آنگن میں طوطے گارہے تھے۔


ترجمہ: قاسم ندیم

پنجابی کہانی

Sannata a Kashmiri Story by Bansi Nirdosh

Articles

سنّاٹا

بنسی نِردوش

 

 

جب میں نے یہ سنا کہ محی الدین کی بیوی اب اس دنیا میں نہیں رہی تو نہ جانے کیوں ایک لمحے کے لیے میں نے راحت محسوس کی۔لیکن دوسرے ہی لمحے میرے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی۔ ہاجرہ کی بھولی بھالی صورت میری آنکھوں کے آگے ناچنے لگی۔اس کی صورت،اس کی گھنی پلکیں اور دو بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ !وہ چھریرے بدن کی ایک سلونی لڑکی تھی۔اگرچہ وہ خوبصورت نہیں تھی۔مگر اس میں غضب کی کشش تھی اور یہی وجہ تھی کہ شادی سے پہلے محی الدین ہاجرہ پر ہزار جان سے فدا تھا۔
شادی سے پہلے اور شادی کے بعد میں نے دونوں کی زندگی کا بڑی نزدیک سے مشاہدہ کیا تھا۔ہاجرہ میرے ہی محلے کی لڑکی تھی۔بچپن سے ہم سب ایک ساتھ کھیلتے تھے۔محی الدین سے بھی میرا بچپن سے دوستانہ تھا۔جب ہاجرہ اور محی الدین کی شادی کی بات چلی تو مجھے یقین تھا کہ یہ شادی کامیاب گرہستی کی مثال ثابت ہوگی۔لیکن میرا اندازہ غلط نکلا۔شادی کے بعد میاں بیوی میں گہرا اعتماد ،خودسپردگی اور قربانی کے جو جذبات ابھرکر آنے چاہیے تھے وہ اس جوڑے میں میں نے بالکل نہیں پائے۔ان میں آئے دن اَن بَن رہتی اور جھگڑے ہوتے۔ہاجرہ اکثر ساس اور نند کی جلی کٹی سننے کے بعد میکے چلی آتی اور محی الدین دوسرے دن ہی زبردستی اسے اپنے گھر واپس لے آتا۔
مجھے محی الدین کی یہ بے صبری پسندنہیں تھی۔میں نے کئی بار کہا بھی۔’’بھئی ،جب تم دونوں کے مزاج آپس میں ملتے نہیں ہیں تو تم اسے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘وہ میری بات سن کر ہنس دیتااور کہتا، ’’تو کیاتمہارے خیال سے مجھے ہاجرہ سے محبت نہیں ہے؟میں تو محبت میں اپنے آپ کو ختم کردینے کا قائل ہوں۔ مگر میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ جس کے لیے میں مِٹ جائوں وہ بھی میرے جذبات کی قدر کرے۔۔۔۔۔۔۔بھائی میرے،تمہیں کیسے یقین دلائوں،یہ بھی تمہیں اتنا نہ چاہتی ہوگی جتنا میں اسے چاہتا ہوں۔‘‘
اس بات پر میں زور سے ہنس پڑا۔میری بیوی شرماگئی۔کچھ دیر رک کر محی الدین نے پھر بات کا انداز بدلا،’’خدا کی قسم،میں تو اسے پوجنا چاہتا ہوں۔جس طرح تم لوگ مندر میں کسی مورت کو پوجتے ہو۔‘‘
میری بیوی کچھ پھیلے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔کپڑوں کی گٹھری بغل میں دباکر وہ دروازے کے پاس پہنچ کر بولی،’’اچھا تو تم بیوی نہیں پتھر کی مورت چاہتے ہو۔‘‘شوبھا کا یہ جواب سن کر میں خود دنگ رہ گیا۔محی الدین نے اس کا کیا مطلب لیا میں کہہ نہیں سکتا،کیونکہ اس بات چیت کے بعد وہ زیادہ دیر تک میرے یہاں نہیں رُکا ۔
اب چونکہ میں نے سنا،ہاجرہ مر گئی،مجھے راحت سی محسوس ہوئی کہ چلو اچھا ہوا،اس جھگڑے کا خاتمہ ہوگیا۔اب محی الدین کو نئے سرے سے اپنی زندگی گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ ہاجرہ کے انتقال کے دوسرے دن ہی میں اس کے گھر گیا۔وہ گھرپر نہیں تھا۔میں نے اس کی ماں سے پوچھا تو اس نے روکھا سا جواب دیا۔اس کی بہن سے پوچھا تواس نے بھی ٹھیک سے جواب نہ دیا۔بس اتنا کہا کہ جاکر مزار پر دیکھئے اسے۔
’’مزار پر!مگر،اب وہاںکیا لینے گیا ہے؟‘‘میں نے حیرانی ظاہر کی۔
’’یہ تو مجھے نہیں معلوم۔‘‘اس کی ماں نے کہااورسسکیاں لینے لگی۔
میں نے ہمدردی کے لہجے میں پوچھا،’’مگر آپ رو کیوںرہی ہیں؟‘‘
’’کیا کروں بیٹا،اس موئے کو اسی دن کے لیے جینا تھا۔‘‘محی الدین کی بہن ماں کی بات کاٹ کر بیچ میں بول پڑی۔’’کل ہاجرہ کو دفناکر جب لوگ واپس آئے تو محی الدین نے مارمارکر ماں کا بھرکس نکال دیا۔‘‘
’’ارے! کیا کہہ رہی ہو تم؟ایسا پاگل پن اس نے کیا۔مگر کیوں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’مجھے کیا معلوم،اب تم ہی سوچو بیٹا میں کیااس کی دشمن تھی۔خیر مرنے والی تو مرگئی، مگر اسے تو اپنی زندگی بسانی ہے۔‘‘
محی الدین نے جب بھی ہاجرہ کے بارے میںمجھ سے بات کی تو ہمیشہ گھٹن اور پریشانیوں کو ہی اجاگر کیا۔وہ زور دے کر کہتا،’’بھئی ساس اور نند کے ساتھ اس کی بنتی نہیں ہے تو اس کا بدلہ وہ مجھ سے کیوں لیتی ہے؟‘‘
میں روکھاسا جواب دیتا،’’بھائی ،کیوں اپنی جان مصیبت میں ڈالے ہوئے ہو۔ تمہاری برادری میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے،شادیاں ہوتی ہیں،ٹوٹتی ہیں،پھر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ہم لوگ چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرسکتے۔سماج اور برادری ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔شاید ہی ایسی کچھ مثالیں ہوں،ورنہ اپنی قسمت سے بری بھلی جیسی بھی بیوی ملتی ہے۔اسی سے نباہ کرنا پڑتاہے۔‘‘
مگر میرے اس خیال سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوا۔وہ پلٹ کر جواب دیتا،’’تمہاری سوچ میں خرابی ہے میرے بھائی۔ہاجرہ تو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے،لیکن ہے ضدی اور لاپرواہ۔ اس کی یہی لاپرواہی میری امنگوں کو کچل دیتی ہے،نہیں تو اس میں اور کوئی کمی نہیںہے۔‘‘
محی الدین کا یہ عجیب برتائو میری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا تھا۔وہ اپنی بیوی سے لڑتا تھا،کئی کئی دنوں تک اس سے بات نہیں کرتا۔مگر پھر بھی اسے طلاق دے کر الگ سے زندگی بسر کرنے کا خیال وہ برداشت نہیں کرتاتھا۔میرے دل میں یہ بات یقین کی طرح گھر کرچکی تھی کہ وہ یہ سب ناٹک کررہا ہے، اسے ہاجرہ سے کوئی لگائو یا محبت نہیں ہے۔وہ اس سے اکتا چکا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک روز میری بیوی نے بھی اسی طرح کی بات اس سے کہی تھی،’’تم لوگ عورت کو اپنے پیر کی جوتی بھی نہیں سمجھتے۔تم لوگوں کی زندگی میں پیار نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ؟‘‘
’’کیا کہتی ہو بھابھی؟‘‘اس نے غمگین ہوکر جواب دیاتھا،’’تم اور ہم میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ تم غلط سمجھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو ہاجرہ کی پوجا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیوں جھوٹ بولتے ہو؟جیسے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘میری بیوی نے جواب دیاتھا۔
یہ سوال میرے دماغ میں برابر سے گھومتارہا کہ اس کی ماں سے پوچھوں کہ ہاجرہ کیسے مری ہے؟مگر پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔دل ہی دل میں مجھے اس پر غصہ آرہاتھا۔بھلا اس بات کو بھی کوئی مانے گا کیاکہ وہ اپنی بیوی کو کتنا چاہتا تھا،اب اس کی جدائی میں پاگل ہوا جارہاہے۔محلے والے اگر اس کی پاگل حرکتیں دیکھ کر کچھ کہتے بھی ہوں گے تو غلط نہیں کہتے ہوں گے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں قبرستان گیا۔محی الدین وہاں پر ایک قبر کے پاس زمین پر لکیریں کھینچ رہاتھا۔قبر پر پھیلی ہوئی تازہ مٹی میں سوندھی سوندھی خوشبوآرہی تھی۔مجھے دیکھ کر وہ دیر تک میری آنکھوں میں جھانکتا رہااور بڑے درد بھرے لہجے میں بولا،’’یارہاجرہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔‘‘یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اسکی روتی صورت دیکھ کر میرا دل ذرا بھی نہیں پگھلا۔مجھے تو اس کے اس انداز میں بھی بناوٹ کا احساس ہونے لگا ۔کوئی اور موقع ہوتا تو شاید میرے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑتا۔لیکن میں نے ضبط سے کام لیا اور کہا،’’جو ہوناتھا،وہ ہوگیا،اب رونے دھونے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’یہ تم کہہ رہے ہو!میری تو ساری دنیا لٹ گئی۔مجھے اس کے بغیر ہر چیز کاٹنے کو دوڑتی ہے۔کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘اس نے کہا اور سونی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’شروع شروع میں ایسے ہی لگتاہے۔‘‘میں نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا اور ساتھ میں ایسی بات بھی کہہ دی جو شاید مجھے نہیں کہنی چاہیے تھی۔میں نے کہا،’’تمہاری بے چینی کی وجہ ہاجرہ کی موت نہیں بلکہ تنہائی ہے،تمہیں اب دوسری شادی کرلینی چاہیے۔‘‘
’’کیابکواس کرتے ہو؟‘‘وہ مجھے کاٹنے کو دوڑپڑا۔
’’ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘‘میں نے سنبھل کر جواب دیا۔’’خدا نے تمہاری سن لی۔ ہاجرہ ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سوگئی۔اب کس بات کا ڈر!تم تو روزروز کے جھگڑے سے تنگ آگئے تھے۔‘‘
’’نہیں،نہیں میں تنگ نہیں آیاتھا۔میں تو اس کی محبت کا بھوکا تھا۔اس کے بغیر اب میری زندگی میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘‘
’’جذبات میں بہنے کی کوشش مت کرو۔‘‘میں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ صرف جذبات نہیں ۔‘‘اس کی آواز بھراگئی،’’میں نے اسے سمجھنے میں غلطی کی اور اس نے مجھے۔اب میں جان گیاکہ گھر کے جھمیلے میں پڑکر ہاجرہ کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ کبھی اس کے بال سلیقے سے سنوارے ہوئے نہ رہتے،کبھی کپڑے میلے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی بات میرے جذبات کو کچل کر رکھ دیتی تھی۔‘‘یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک مزار کی اس تازہ مٹی پر جس میں ہاجرہ بڑے آرام کی نیند سورہی تھی، بڑی محبت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
میں اب کسی سوال جواب میں نہیں پڑنا چاہتاتھا۔پھر بھی دھیان بٹانے کے لیے میں نے کہا، ’’دراصل تم ہاجرہ سے محبت کی وہی ترنگ پاناچاہتے تھے جو شادی سے پہلے تم دونوں میں موجود تھی۔لیکن محبت صرف آزاد ماحول میں پھلتی پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں قدم قدم پربندشیں ہوں۔ سماجی حد بندیاں ہوں،وہاں محبت کی ترنگ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔کتنی ہی امنگ بھری کیوں نہ ہو،دب کر رہ جاتی ہے اور دو جوان دلوں کے ارمانوں کا خون ہونے میں دیر نہیں لگتی۔‘‘
اس نے میری باتیں غور سے سنیں اور کہا،’’اب میں زیادہ جی نہ سکوں گا۔میں نے اپنی جگہ چن لی ہے۔یہیں پر،اسی جگہ میں نے اپنے ہاتھوں سے ہاجرہ کو منوں مٹی کے ڈھیر تلے دفن کردیا اور اب اس جگہ یہاں پر میری قبر بن جائے تو اس پر تم اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال دینا۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔میں یہ جان گیاتھا کہ اس کی آواز اس حد تک رُندھی جارہی ہے کہ اگر اس سے اور تکرار کی جائے تو شاید وہ پھوٹ پڑے۔
’’ہاں،میں سچ کہتا ہوں۔بالکل سچ کہتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر وہ سچ مچ بچوں کی طرح رو پڑا۔
بڑی منتوں کے بعد اسے میں گھر لے گیا۔جب میں اس کے گھر سے نکل کر گلی میں پہنچا تو اس محلّے کے ایک بزرگ نے مجھے آواز دی اور کہا،’’کیوں بھئی،محی الدین کو لے آئے؟‘‘
میںنے ’ہاں ‘کے انداز میں سرہلایا۔اُن کی بھنوئیں تن گئیں اور وہ مجھے زبردستی روکتے ہوئے بولے، ’’تم اس کے دوست ہو؟‘‘میں نے پھر ’ہاں‘میں سر کو جُنبش دی۔تب انہوں نے کہا،’’کسی نئی لڑکی پر نظر ہوگی اس کی!‘‘یہ کہہ کر وہ ہنس پڑے۔
میں نے پلٹ کر جواب دیا۔’’آپ غلط سمجھتے ہیں۔وہ تو دوسری شادی کے نام سے بھی بیزار ہے۔‘‘
’’یہ تو اس کی مکاری ہے۔کم بخت نے ایک محنتی لڑکی کا خون کردیا۔اب اس بات کو دبانے کے لیے یہ ناٹک کررہا ہے۔‘‘
’’آپ اسے ناٹک کہتے ہیں؟‘‘میں نے حیرانی سے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا؟میں نے دنیا دیکھی ہے لڑکے۔اگر یہ ناٹک نہ کرے تو بھلا اسے دوسری بیوی کیسے ملے گی؟‘‘
’’کیوں نہیں مل سکتی؟جوان ہے اور کمائو بھی۔کوئی بھیک منگا تو نہیں ہے۔‘‘
’’کچھ بھی ہو۔‘‘اس بوڑھے نے اعتماد سے کہا،’’اب کوئی آنکھ موند کر اپنی بیٹی کو کنوئیں میں دھکیل دے یہ بات الگ ہے۔مگر پھر بھی لڑکی والے یہ تو معلوم کریں گے ہی کہ ہاجرہ مری کیسے؟کھانسی بڑھ جانے سے بھلا کوئی مرتا ہے؟‘‘
اس بوڑھے کی باتوں نے محی الدین کے بارے میں مری رائے اور پختہ کردی۔میں سوچنے لگا بھلا کھانسی بھی اتنی خطرناک بیماری ہوسکتی ہے کہ کسی کے لیے جان لیوا ثابت ہو۔وہ کہتا گیا ، میں سنتا گیا۔’’تم نہیں جانتے۔روز ہمارے نل پر پانی بھرنے آتی تھی۔روز میںنے اسے کھانستے ہوئے دیکھا۔ اس کی آنکھیں آنسوئوں میں ڈوبی دیکھیں اور اس جانور نے کبھی اس کی پرواہ تک نہیں کی اور تم اس کے دوست ہو!‘‘آخری جملہ حقارت بھراتھا۔میں وہاں سے بھاگناچاہتا تھا۔مگر بھاگ نہ سکا۔میرے قدم دھیرے دھیرے اٹھنے لگے جیسے سامنے گہرے گڑھے ہوں اور مجھے بچ بچ کر چلنا پڑرہا ہو۔
اس بوڑھے کی باتوں سے مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ محی الدین سے قبر پر کی گئی ساری باتیں میرے دماغ سے اتر گئیں اور میں اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ سچ مچ معمولی کھانسی کسی کی موت کا سبب نہیں بن سکتی۔ہاجرہ کن حالات میں مری ،یہ مجھے اس کے میکے والوں سے بھی معلوم نہ ہوسکا۔ ہاں، اس دن کے بعد میں محی الدین سے نہیں ملا۔ایک دن اس کی ماں میرے گھر آئی اور شکایت کی کہ میںنے اپنے دوست کو بھلادیا ۔میں نے کہا،’’نہیں،ایسی کوئی بات نہیں ہے۔دراصل،میں کام میں اتنا مصروف رہا کہ فرصت ہی نہ ملی اس سے ملنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
محی الدین کی ماں نے اپنے کالے برقعے کی جیب سے ایک تصویر نکالی اور میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے سوال کیا،’’کیسی ہے لڑکی؟‘‘
’’صورت سے تو بھلی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘میں نے جواب دیا اور خاموش ہوگیا۔
’’ہاں،بڑی خوبصورت ہے،محی الدین کے لیے میں نے اس لڑکی کے ماں باپ سے بات پکی کردی ہے۔‘‘
’’کیا محی الدین نے یہ تصویر دیکھی ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اس نے بھی دیکھی مگر کوئی جواب نہیں دیا۔کہنے لگا اب تو میری شادی قبر سے ہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تم ہی بتائو بیٹا ایسی باتیں کب تک چلیں گی؟‘‘
میری بیوی شوبھا ناحق اس کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی،مگر میں سب کچھ چپ چاپ سنتا رہا۔ میری اداسی دیکھ کر وہ شوبھا سے کہنے لگی،’’اب تم ہی بتائو،ہاجرہ کو مرے ہوئی کئی ہفتے بیت گئے۔ کئی گھرانے زور دے رہے ہیں۔سوچتی ہوں بہو جلدی سے گھر میں آئے۔محی الدین کا جی بھی بہل جائے گااور مجھے بھی اس بڑھاپے میں آرام مل جائے گا۔ہاجرہ گھر آئی تو نہ زندگی میں آرام پایا اور نہ دوسروں کو یہ لگا کہ اپنے گھر میں بھی بہو آگئی ہے۔دوسروں کو دیکھتی ہوں تودل رواٹھتا ہے۔ ان کے یہاں بہو آئی ہے تو جیسے سونے سے گھربھر جاتا ہے۔میرا تو بسابسایا گھر اجڑگیا۔دونوں میں نبھ نہ سکی۔خدا نے میری دعا سن لی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘یہ سن کر میں بہت تلملایا،مگر کچھ کہہ نہ سکا۔شوبھابھی جیسے انگاروں پر لوٹ رہی تھی۔اس بڑھیا کے لیے میرے دل میں بڑی عزت تھی۔مجھے اس میں پہلے ماں کا جو روپ نظر آرہا تھا،وہ اب کہیں نہ تھا۔اب مجھے یہ عام قسم کی دنیاوی عورت نظر آنے لگی۔
جب اس نے کہا،’’بیٹا ،اب تم ہی اسے سمجھائو۔وہ تمہاری ہی بات مانے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے،کل نہیں تو پرسوں تک میں ضرور آئوں گا۔‘‘میں نے جواب دیا۔
مگر میں کئی دنوں تک نہیں گیا۔میںنے دل میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اب محی الدین کی صورت بھی نہ دیکھوں گا۔مانا کہ ہاجرہ سگھڑبہو نہ تھی۔مانا کہ وہ محی الدین کے جذبات کی قدر نہ کرتی تھی۔ مانا کہ اس میں اور بھی نقص تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ انسان تو تھی۔کیا وہ بازار کی ایک معمولی چیز تھی؟ جو پسند آئے تو رکھ لی ورنہ پھینک دی۔مجھے اس کی ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ایک دن وہ میکے چلی آئی تھی۔میں نے اسے اپنی گلی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا اور پوچھا،’’ہاجرہ ،تم پھر میکے چلی آئی؟‘‘
’’پھر کیا کروں بھائی صاحب!وہاں رہوں تو وہاں بھی چین نہیں۔یہاں بھی چین سے رہنے نہیں دیتے ہیں۔میں تو تنگ آگئی ہوں اس زندگی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے اسے کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔میں نے اسے سہارا دیا اور گھر کے دروازے تک لے گیا۔پھر انجان بنتے ہوئے پوچھا،’’آخر جھگڑے کی کوئی وجہ بھی تو ہو؟‘‘
’’معلوم نہیں،وہ چاہتے کیا ہیں؟ایک کولہو کے بیل کی طرح سارا دن گھر کے کام میں لگی رہتی ہوں ،اوپر سے تمہارے مہربان دوست کی جھڑکیاں بھی سنوں۔ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ میں پہلے کی طرح ان سے پیار نہیں کرتی ہوں۔بھلا بتائو،پیار اور کیسے کیا جاتا ہے؟گھر کا سارا کام کرنا، ساس اور نند کی ڈانٹ پھٹکار سننا،اس پر بھی وہ محبت کا ثبوت مانگتے ہیں ،میں تو بھائی صاحب امتحان دے کر ہارگئی۔اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘
ہاجرہ نے شاید سچی بات کہی تھی۔اس سے برداشت نہیں ہوسکا اور وہ اس دنیا سے اُٹھ گئی۔اب اس کی جگہ دوسری بہو کی تلاش ہورہی ہے۔
ان دنوں شادیوں کی بڑی دھوم دھام تھی۔کسی کسی محلے میں سہاگ گیت سننے میں آرہے تھے۔ جب میں دفتر سے لوٹا تو اپنے گھر کے دروازے پر تالا لگاہوا پایا۔پڑوسیوں نے بتایا کہ شوبھا اور ماں دونوں محی الدین کے گھر گئے ہیں۔مجھے بہت غصہ آیا۔میں نے ماں اور بیوی دونوں سے کہا تھا کہ محی الدین خود بھی اگر شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تب بھی نہ جانا۔لیکن انہوں نے میرا کہنا نہیں مانا۔میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ ابھی اس کے گھر جاتا ہوں اور دونوں کو بھری مجلس سے زبردستی اٹھاکر لاتا ہوں۔محی الدین روکنا بھی چاہے گا تب بھی نہیں رکوں گا۔ایک دن اس کی ماں راستے میں ملی تھی اور میں نظریںبچاکر بازو میں ہٹ گیاتھا۔
محی الدین کے گھر کی طرف میں غصے میں چل پڑا۔میری سوچ کے برخلاف وہاں سنّاٹا تھا۔نہ جانے کہاں کہاں درجنوں کتّے آنگن میں جمع ہوگئے تھے۔آس پاس کے گھروں میں خاموشی تھی۔محی الدین کے مکان کے نچلے کمرے میں عورتوں کی بھیڑ تھی۔کھڑکیاں کھلی تھیں،مگر اندھیرے میں کوئی بھی صورت ٹھیک طرح سے پہچاننا مشکل تھا۔میں گھبرایا سا مکان کے اندر چلاگیا۔ شوبھا نے مجھے آتے ہوئے دیکھ لیاتھا۔وہ کمرے سے باہر نکل آئی ننگے پائوں۔اس کی آنکھیں گیلی تھیں۔ میرا دل دھک سے رہ گیا،’’کیا بات ہے؟‘‘میں نے افسردہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’تم نے سنا نہیں؟محی الدین کا انتقال ہوگیا۔‘‘وہ بولی۔
ایک لمحے کے لیے جیسے میری جان ہی نکل گئی ۔مجھ سے مزید کچھ سنا نہ گیا۔ میں دوڑتا ہوا قبرستان پہنچا۔وہاں پر بہت سارے لوگ سرجھکائے ہوئے کھڑے تھے۔محی الدین کی میت قبر میں اتاری جاچکی تھی۔قبر کی تازہ مٹی بے ترتیب پڑی تھی۔مولانا کچھ پڑھ رہے تھے۔میں نے مٹی کے ڈھیلے توڑتوڑ کر اس کی قبر پر پھیلا دیئے ،ان میں میرے آنسوبھی شامل تھے !!


ترجمہ: قاسم ندیم

کشمیری کہانی

Bharpai a Hindi Story by Rata Shuk’l

Articles

بھرپائی

رتا شکل

 

وقت کی دھند کو چیرتا ہوا وہ سیاہ آبنوسی چہرہ نہ جانے کیوں باربار سروجنی کے ذہن میں دہکتا ہوا سوال بن کر اٹک جارہاتھا،’’ببونی ہو،ہمار کو بھُلاگئی لو؟‘‘
ملکی محلہ کے جلال الدین میاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھویں جماعت میں سروجنی کو اسکول کا منہ دیکھنا نصیب ہوا تھا،تب پورے گھر کے لوگ جمع ہوئے تھے۔حقّے کی پیچوان سنبھالتے پہلوان دادا جی،چوبیس گھنٹے بابوجی کے ساتھ دالان میں بیٹھ کر دونوں ٹانگیں ہلاتے،سرگوشیاں کرتے شینچر ماما،سپاری کے باریک ٹکڑوں کو سروتے سے کاٹنے کا جھوٹ موٹ سوانگ کرتی کرخدار آواز والی بینگا بوا اور دور رسوئی گھر میں چکلے بیلن کی کھٹ پٹ ،پتیلی کی کھدبد کے ساتھ اپنے آپ میں کھوئی ہوئی سزا یافتہ قیدی کی شکل میں بیٹھی اماںکی وہ فریادی شبیہ۔’’بچی تیری قسمت میں اسکول کی پڑھائی ہوگی تو بڑے میاں کا دل پسیجے گا ضرور! ہم نے مہاویر جی کو چونّی کا پرساد بھاکھ دیاہے۔‘‘
شچی نواس ماما جب دیکھو تب شنی کی ساڑھے ساتی بن کر اس گھر میں براجمان رہتے۔’’لو بھلا،ہمارے پاہُن جی تو ٹھہرے میش راشی کے۔اب انہیں کیا پتہ،بڑھتی عمر کی چھوکریوں کو منہ زور گھوڑیوں کی طرح لگام کیسے دی جاتی ہے۔ہماری چارچار بیٹیاں ہیں،مجال ہے جو کوئی کسی بات کے لیے منہ کھولنے کی جرأت کرے۔‘‘
بینگا بوا کو نیہر روگ تھا۔اماں کے پرانوں میں انہیں دیکھتے ہی ڈرکی جھرجھری سماجاتی۔ ’’جب دیکھو تب ڈولچی لیے باپ کی چوکھٹ پر حاضر!رام جانے ان کا آدمی،مرد مانس ہے یا بالکل زنخہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینگا بواکا ہٹلری انداز کیا کمال کا ہوا کرتاتھا۔آتے ہی پورے گھر کا رائی رتی معائنہ۔ ’’بڑکی کی تین تین فراکیں ہیں۔اب سال بھرتو اس کے کپڑے لتے کا نام مت لینا۔منجھلی کے لیے نئی ہوائی چپل؟ باپ کی کمائی فالتو ہوئی ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوٹی کی سا نس چل رہی ہے تو اس میں بڑے اسپتال کے ڈاگڈر کی کیا ضرورت ہے؟پیاز کا رس شہد میں گھول کر چٹادو۔رگھو کے لیے اسکول کی دو قمیض کافی ہیں۔نئی کتابیں کیوں بھلا؟پڑوس کے لڑکے دھیرو سے مانگ کر پڑھ لے گا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اماں کی طرف سے ذرا بھی غلطی ہوجائے تو پہلوان دادا کے دالان میں فوراً سے پیشتر پیشی ہوتی،’’بینگا نے سب بتایا ہے،خوب فضول خرچی ہورہی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!شیو جتن چودھری نے ٹریکٹر میں بھرکراناج بھجوادیا ہے کیا؟خبردار،گن کر روٹیاں بنائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بھی فالتوروٹی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہی تو کمانے والا ہے ہمارا بچوا اور مت بھمبا کی طرح چھ چھ بیٹیاں۔‘‘
ایسی گھنگھور کھینچاتانی میں اماں کے بجرنگ بلی نے سچ مچ اپنا اثر دکھایا تھا،’’تو پڑھنا چاہتی ہے؟‘‘
’’اری او سروجنی نائیڈو کی اوتار،ہم تجھی سے پوچھ رہے ہیں۔‘‘بینگا بوا کی زبان پر سرسوتی براجی تھی۔چھوکری سچ مچ دماغ والی ہے اور رام کی دیاسے اپنے علاقے میں لڑکیوں کا اسکول کھل گیا ہے۔ مگر، یہ اتنی دور جائے گی کیسے؟‘‘
سروجنی نے فوراً جواب دینے کی گستاخی کرڈالی تھی،’’چتھرو چودھری،پھینکن سنگھ، امیبا چاچا سب کی لڑکیاں ٹولی بنا کر پیدل ہی تو جاتی ہیں۔ہم بھی انہیں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سامنے بیٹھے بزرگ غرّا اُٹھے تھے،’’چتھرو،بھینکن،امیبا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کل کو یہ کہوگی کہ وہ چھوکریاں نٹوا ناچ دیکھنے جاتی ہیں سو ہم بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینگا بوا کی کنجی آنکھوں کا قرضدار ہونا پڑاتھا سروجنی کو۔’’ارے نہیں بابوجی،اپنے ملکی محلے کا جلال الدین ہے نا،اس نے ٹم ٹم بیچ کر رکشہ خریدلیا ہے۔کل ہی تو اسٹیشن پر ملاتھا۔ہماری رائے ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘
جلال الدین کو طلب کیا گیا تھا۔کوئلے سے بھی زیادہ کالی رنگت والے جلال الدین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں میں انوکھی کسک تھی۔’’ببونی خاطر فکر مت کریں سرکار۔آنکھ کی پُتلی ایسن حفاظت سے مدرسہ لے جائب لے آئب۔‘‘
نویں جماعت سے لے کر میٹرک تک کے وہ دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
جلال الدین چاچا کا چارخانے والا مٹ میلا گمچھا پھاٹک کے اس پار لہراتا۔رکشہ کی ٹن ٹن گھنٹی سنائی پڑتی اور سروجنی دونوں چوٹیاں ہلاتی بھاگ کر رکشہ میں سوار ہوجاتی۔
’’جلالو چاچا،ہم آگئے۔‘‘
’’چلیں ببونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’چلیے۔‘‘
بینگا بوا نے آگاہ کر رکھا تھا،’’خبردار ،اس کلوٹے کے ہاتھ کی کوئی بھی چیز بالکل مت لینا۔‘‘
سروجنی نے پہلی بار اصرارکیاتھا،’’چاچا ،آپ کے گمچھے میں کیا بندھا ہوا ہے؟‘‘
’’ارے کچھ نہیں ببونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں،کچھ تو ہے،بتائیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘جلال الدین چاچا نے پوٹلی کھول دی تھی۔
’’باپ رے ،اتنے بڑے بڑے رس بھرے بیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ببونی،بینگا بہن دیکھ لے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں چاچا،آپ دیجئے نہ۔ہماری ساری سہیلیاں خوش ہوجائیں گی۔‘‘
بیلااور مادھوری نے سیانے پن سے تاکید کی تھی،ہم لوگ ساری پوٹلی چٹ کرگئے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ جلالو چاچا اپنے بال بچو ں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن اس سے بھی بڑی پوٹلی حاضر تھی۔سروجنی نے اپنے ہاتھ روک لیے تھے، ’’چاچا آپ کے بال بچوں کا حصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘گھنے کالے بادلوں کے بیچ چھپی بجلی نے قہقہہ لگایا تھا۔ ’’ارے نہیں ببونی،یہ سوغات تو تمہارے لیے ہے۔‘‘
’’لیکن اتنے سارے بیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
رکشہ کی چال دھیمی کرتے ہوئے جلال الدین میاں نے خلاصہ کیاتھا۔’’ملکی محلے کے دائیں بازو بڑاسا قبرستان ہے۔ہماری پردادی بڑی نیک خاتون تھیں ببونی۔ہمارے پردادا کے انتقال کے بعد سے قبرستان کے سامنے والی مسجد ہی ان کی پناہ گاہ ہوگئی تھی۔دن بھر باغیچے میں رہتیں۔ اپنے مرحوم شوہر کی قبر کو یک ٹک دیکھتی رہتیں۔یہ بیر انہیں کی اگائی ہوئی بیری کے ہیں ببونی۔ظہور بخش مولوی صاحب کی کھلی اجازت ہے،ہم جب چاہیں،جتنے چاہیں بیر وہاں سے لاسکتے ہیں۔بدلے میں تمہاری چاچی وہاں محنت مزدوری کردیتی ہیں۔لو اب یقین ہوگیانا!‘‘
دروازے پر بے وقت دستک ہوئی تھی۔شریمتی سروجنی شری منت نے دروازہ کھولا تھا۔ مڑے تڑے ادھ میلے کرتے کی ڈوریا آستین سے پیشانی پر ابھری ہوئی پسینے کی بوندوں کو باربار پونچھتا کون کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
’’آپ کس کو کھوج رہے ہیں؟‘‘
بے وقت باسی ہوچکے اس آبنوسی چہرے پر جانی پہچانی ہنسی کی بجلی کوند کر بکھر گئی تھی۔ ملکی محلے کے جلا ل الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تو کیاتم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر آداب کیا تھا۔’’آپا،میں احسان ہوں۔ان کا بڑابیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کھلے دروازے کے اندر پناہ لیتے ہی احسان میاں نے سکون کی سانس لی تھی۔’’شکر ہے اﷲ تعالیٰ کا۔ہم تو کھوجتے کھوجتے پریشان ہوگئے تھے۔رکشہ والے نے ناحق دس روپے کی چپت لگادی۔‘‘
روٹی کا پہلا نوالہ توڑتے ہی احسان چہک اٹھے تھے،’’ارے آپا،ہم تو بھول ہی گئے۔ابّا نے خاص طور پر آپ کے لیے یہ چھوٹی سی سوغات اور یہ خط بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
چٹھی کے حرف در حرف سے نَیہر کی بھولی بسری یادوں کی سب سے میٹھی تاثیر جِلا پارہی تھی۔
’’ببونی کو معلوم ہوکہ خدا کے کرم سے احسان میاں کو آپ ہی کے شہر میں نوکری مل گئی ہے۔ان کو ابھی اچھے برے کی تمیز نہیں ہے۔آپ عالم فاضل ٹھہریں،انہیں اونچ نیچ کا علم دیں گی۔‘‘
آپ کا ہی چاچا
ننھی شیلی اسکول سے لوٹی،تو احسان ماموں کے ہاتھوں سے میٹھے بیر کی پوٹلی پاکر پھولی نہیں سمارہی تھی۔’’ماں تم تو اپنے بچپن کے دنوں کی کہانی سنایا کرتی تھیں نا۔ پکے بیر کی کہانی،باغیچہ اگاتی جمیلہ دادی کی کہانی،ان بیروں کا ذائقہ بالکل ویسا ہی ہے۔‘‘
احسان میاں کے پاس بیٹھی شیلی توجہ سے سن رہی تھی،’’صرف بیر ہی کیوں،آم،مہووا، جامن، کٹہل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارے کے سارے درخت ہوبہو ویسے ہی موجود ہیں۔اچھا بول تو بچی ہمارے ساتھ تیواری پور چلو گی؟‘‘
احسان میاں مہینہ بھر ان کے گھر رہے تھے۔
’’مدرسے کے بڑے صاحب سے بات ہوگئی ہے آپا۔اکائونٹ سیکشن کے گنیش بابو کوارٹر خالی کرکے گائوں جارہے ہیں۔ان کا وہ کوارٹر ہمارے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شیلی کے پاپا شری دھر واجپئی نے مذاقاً کہاتھا،’’احسان بھائی،اس بار گائوں سے لوٹو تو دلہن کو لانا مت بھولنا۔یہ عید تو وہ ہمارے ساتھ ہی گزاریں۔کیوں سروجنی؟‘‘
احسان کے ساتھ سروجنی کے بچپن کے وہ دن جیسے پھر سے لوٹ آئے تھے۔بینگا بوا کی پرانی عادت تھی،اچانک کوئی خوفناک خواب دیکھنے کے انداز میں کبھی کبھار بے حد چوکنا ہو اٹھتیں، ’’نہیں ، میٹرک کی پڑھائی بہت ہے،اس کے بعد گھر سنبھالے،رسوئی کا انتظام دیکھے۔‘‘
وظیفے کی پہلی رقم دیکھ کرسروجنی کے ننھے سے بٹوے کا دل بلیوںاچھل رہا تھا۔ایک مشت پانچ سو روپے۔’’جلالو چاچا۔‘‘
’’کیا بات ہے ببونی؟‘‘
’’ہمیں ذرا چوک تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پہلی بار اکیلے اسنیہی پٹواری کی دکان تک جانے کی ہمت کی تھی سروجنی نے۔ بڑی والی ٹکولی کی دو پتیاں،اماں کی کلائیوں کے ناپ کی ڈھائی انچ والی لہٹی،سریش نریش کے لیے لیمن چوس کی ڈھیر ساری گولیاں اور جلالو چاچا کے لیے پالش چڑھی جستے کی صورتی دانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ببونی،جلدی کر۔بینگا بوا کو معلوم ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
احسان میاں نے بتایا تھا،’’آپا،وہ صورتی دانی ایک دن ہم سے کہیں گم ہوگئی تھی۔گھر بھر کی آفت آگئی تھی سمجھئے۔موم جامے کی تہہ میں پڑی تھی۔ابّا نے دھو پونچھ کر اپنی جیب میں رکھی تب کہیں سکون کی سانس لی۔ہمیشہ کہتے ہیں ببونی کی نشانی ہے،آخری دم تک ساتھ رہے گی۔‘‘
بینگا بوا بہت بیمار تھیں۔کھانے کی نالی میں کوئی اندرونی زخم تھا شاید۔دن بھر بے تحاشہ چلاتی رہتیں۔اناج کا ایک دانہ ہضم نہیں کرسکتی تھیں۔جلال الدین چاچا نے مشورہ دیا تھا،’’ناریل پانی پلایا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینگا بوا کو کسی نے نہیں بتایا تھا۔جلال الدین چاچا نے اپنی روزانہ ڈیوٹی باندھ رکھی تھی۔ قبرستان کے بغیچے سے پانچ کچے ناریل توڑ لاتے،تیز دھار والی چھری سے اوپر کا چھلکا نکالتے اورگمچھے سے پونچھ کر بڑی احتیاط سے تھماتے،’’لو ببونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بینگا بہن ٹھیک ہوجائیں اور کیا؟‘‘
بینگا بوا کی انتھک خدمت کی تھی سروجنی نے۔پہلوان دادا کی پنچایت بینگا بوا کے کمرے میں جمی تھی،’’کچھ بھی کہو،جلال الدین نے رکشہ والے کا نہیں بلکہ گھر کے فرد کا دھرم نبھایا ہے۔بینگا وہ تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔‘‘
کیسی عجیب التجا کی تھی جلال الدین چاچا نے،’’بینگا بہن،زمانہ بدل گیاہے۔ ببونی آگے پڑھنا چاہتی ہے۔اﷲ کے کرم سے وظیفہ تو طے ہے۔مناسب سمجھیں تو ببونی کا داخلہ کالج میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اماں کی آنکھیں پہلی بار کھل کر برسنے کے لیے بیتاب تھیں۔’’ممتا کی کوئی ذات پات نہیں ہوتی جلال الدین بھیّا،پچھلے جنم میں ضرور ہمارا تمہارا کوئی گہرا ناطہ رہا ہوگا۔ایک اپنا سری نواس ہے، کہنے کو کوکھ جایا بھائی اور کرنی سات دشمنوں کی۔ہمارے بال بچو ں کے لیے تو کنس کااوتار ہی سمجھواسے۔جب دیکھو تب کاٹنے کترنے کی لت لیے سر پر سواررہتا ہے۔نہ گھر سے دتکارتے بنتا ہے،نہ ڈھنگ کے چار بول بتیانے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
سروجنی نے یونیورسٹی کے گذشتہ ریکارڈ توڑتے ہوئے اول درجے سے بی اے پاس کیا تھا۔ سری نواس ماما اس کے لیے کیسا اوٹ پٹانگ رشتہ لے کر آئے تھے۔’’لڑکے کی سوتیلی ماں ہے تو کیا ہوا،کون سا اس کے ساتھ زندگی بھر رہنا ہے۔لڑکا مِل میں نوکری کرتا ہے،ہزاروں روپے کی پگار ہے۔ سروجنی کو بہت خوش رکھے گا۔‘‘
بینگا بوا نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔بابوجی خاموش تھے۔اماں نے اعتراض کیا تھا، ’’سوتیلی ماں،سوتیلے نند،دیور!نا،اس گھر کی بات دوبارہ یہاں نہیں چلے۔‘‘
جلال الدین چاچا کی سگی بہن بیٹہا میں بیاہی تھی۔وہ وہاں سے مصدقہ خبر لائے تھے۔ ’’لڑکا دیکھنے دکھانے میں معمولی سا ہے۔اپنی ببونی کے لائق تو ہر گز نہیں ہے۔سنا ہے کچھ بری عادتیں بھی ہیں۔ سری نواس ماما کے بہکاوے میں آکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سری نواس ماما برسوں روٹھے رہے ۔سروجنی کی پرنسپل یشودا واجپئی نے اپنے اکلوتے بیٹے شری دھر کے لیے سروجنی کو پسند کیا تھا۔’’آپ لوگوں کو کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔یہ شادی نہایت سادگی سے ہوگی۔‘‘
شری دھر کے ساتھ پٹنہ جانے والی ریل گاڑی میں بیٹھی تو جلال الدین چاچا کی اداس نگاہیں بڑی خاموشی سے دور تک پیچھا کرتی چلی آئی تھیں۔’’ببونی ہماری طرف سے یہ چھوٹا سا تحفہ۔‘‘
چارخانے کے نئے گمچھے میں بندھی سلمہ تاروں والی لال چُنری اور چھوٹی سی پوٹلی میں رس بھرے بیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شری دھر نے مذاقاًکہاتھا،’’اتنی بڑی ہوگئیں ،کیا اب بھی بیر چراکر کھانے کی عادت بنی ہوئی ہے؟‘‘
احسان میاں کو بڑے مدرسے کے کیمپس میں کوارٹر مل گیاتھا۔سری نواس ماما نے بینگا بوا کے دماغ میں شک کا بیج بودیاتھا۔’’جلال الدین کا بڑا بیٹا اکائونٹنٹ ہوگیاہے اورسروجنی کے شہر گیا ہے۔اس کا سروجنی کے گھر میں مہینوں رہنا،ساتھ کھانا پینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
اماں کے خط سے ساری باتیں معلوم ہوئی تھیں۔’’سروجنی کو معلوم ہو کہ بینگا بوا ایک دم سے سری نواس کی باتوں میں آگئی ہیں۔تمہارے خاندان کے ساتھ احسان کا میل جول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شری دھر کو بے حد غصہ آیاتھا۔’’انسانیت کا ناطہ ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہے اور پھر تمہارے میکے والوں کو ہمارے نجی معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تم آج ہی انہیں خط لکھ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
احسان اپنی ڈیوٹی میں دن رات مصروف ہوکر رہ گئے تھے۔نوشابہ دلہن اور پیارے پیارے گول مٹول سے تین بچے۔گلشن،ارمان اور آرزو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیچ بیچ میں شیلی یوں ہی مچل اٹھتی۔’’پاپا،ہمیں احسان ماموں کے یہاں چھوڑآئیے نا!آج اتوار ہے گلشن کے ساتھ کھیلیں گے، آرزو کو جھولے میں جھلائیںگے اور ارمان کی پتنگ لوٹیں گے۔خوب مزہ آئے گا نا!‘‘
شری دھر کی ماں جی نے بتایا تھا،’’ناحق ہی خون کے رشتوں کی دہائی دیتے پھرتے ہیں لوگ! تمہیں بتائوں بہو،راون کی اشوک واٹیکابن کر رہ گئی تھی ہماری زندگی۔مانگ کو سونا پن جھیلتے اپنی سسرال کے اس آنگن میں ساس،جٹھانی کا وہ راکشس پن کیسے برداشت کیاتھا، وہ کہانی مت پوچھو۔تمہارے سسرجی کے ساتھی وکیل سہیل بھائی نے اپنے بل بوتے پر مقدمہ لڑاتھا۔ سسرال کی بے شمار دولت میں شری دھر برابر کے حصہ دار ہوئے تھے۔جٹھانی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا تھا۔ ضرور اس رانڈ کا اس مُسلّے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سروجنی کو پتہ تھا۔گذشتہ نوراتری میں بوڑھے سہیل چاچا کمر پر ہاتھ رکھے ان کی ڈیوڑھی پر حاضر تھے۔’’تم نہیں پہچانوگی بہو،اپنی ساس کو خبر کردے،بلیہار گائوں کے سہیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شری دھر ننھے بچے کی طرح ان کی گود میں دُبک گئے تھے۔’’سہیل چاچا،یہ گٹھیا کا روگ کب سے لگابیٹھے؟اب مہینہ بھر تو یہاں سے جانے کا نام مت لیجئے۔پہلے نئی بہو کے ہاتھ کی بنی چائے پی جیئے۔اماں سے باتیں کیجئے،تب تک ہم آئوٹ ڈور کے مریضوں کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
پانچوں وقت نماز کی پابندی کرنے والے سہیل چاچا آنکھ موند کر پوری یکسوئی کے ساتھ کالی جی کا بھجن گاتے تو سروجنی کا من جانے کیوں اندر سے گنگا جمنی ہواُٹھتا۔
’’یہ سب شری دھر کے والد کی صحبت کا اثر ہے بیٹا۔جھوٹ نہیں کہوں گا بیٹا،ہمارے والدین سنسکرت پڑھنے کے سخت خلاف تھے۔فارسی تہذیب کا بول بالا تھا ہمارے یہاں۔ لیکن ہمارے یار پدم دھر واجپئی نے مشورہ دیا تھا۔تم سنسکرت پڑھو،تمہارا اس جانب رجحان ہے۔دیکھ لینا سہیل تم سے بڑھ کر اس مضمون میں کوئی عالم نہیں ہوگا اس پورے گائوں میں۔‘‘
شری دھر کی ماں بتایا کرتی تھیں،’’سہیل کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔دھرم ایمان قرآن کے ساتھ اور علم کا سارا احساس وید،پُران،شریمدبھگوت کے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘آگے کی پڑھائی کے لیے کلکتہ کے ڈگری کالج میں داخلہ لینے گئے تھے۔لوٹے تو ایک بھیانک صدمہ ساتھ تھا،’’وہاں کے تِری پُنڈھاریوں نے سیدھے سیدھے مجھے خارج کردیا تھا۔‘‘
پدم دھر کے ہاتھ سے سوٹالے کر ان کے پیچھے بے تحاشہ لپکے تھے سہیل۔’’تمہاری ہی سکھائی راہ پر چلے تھے ہم۔ہاتھ آگے کرو۔ہم کہتے ہیں ہاتھ آگے کرو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سوٹے کی مارسے پدم دھرپل بھرکے لیے تلملا کررہ گئے تھے۔سہیل بڑبڑاتے جارہے تھے، ’’دیکھا،اس سے کہیں زیادہ چوٹ اپنی نازک روح پر جھیل آئے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! پتہ ہے تِری کے’نیتی شتکم‘سے سوال پوچھے گئے تھے۔ہم نے درست جواب دیے۔والمیکی رامائن کا شلوک غلط بول گئے تھے پنڈت۔ہم نے درست کرنا چاہا تو ہمیں پر برس پڑے۔آخر کاربورڈ کے ایک رکن نے صاف انکار کردیا۔ اس طرح کا کیس ہمارے سامنے پہلی بار آرہاہے۔ہمیں گورننگ باڈی سے خصوصی اجازت لینی ہوگی۔ ہمارے انتظام کا سوال ہے۔سنسکرت کالج کے بورڈنگ میں آپ کی رہائش نا ممکن ہے۔‘‘پدم دھر ہتھیلی کی چوٹ بھول کر سہیل کی آنکھوں میں اُمڈ آئے درد کا رِسائو خاموشی سے جھیلتے رہے۔’’تمہارا مجرم میں ہوں سہیل بھائی،جیسا بھی ہو یہ پرائسچت مجھے ہی کرنا ہوگا۔‘‘
حیدرآباد کے لا کالج میں داخلہ لینے کے لیے دونوں دوست ایک ساتھ روانہ ہوئے تھے۔ بیلہار والوں نے پدم دھر کے پورے خاندان کو پانی پی پی کر کوسا تھا،’’ذات پات،کل خاندان، سب کا بیڑا غرق۔بتائو بھلا،پنڈتوں کی نسل میں یہ کیا ہورہا ہے؟اس مشٹنڈے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، اس کا چھوا پانی پینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پدم دھر کے والد شیوادھرواجپئی نے گائوں سے ہجرت کرلی تھی۔’’ملکینی انہیں بتادو، ان کے گھر میں ہمیں اپنی بیٹی نہیں بیاہنی۔آٹھوں انگ میں چندن لیپ اور رات میں ہریا کلال کے دارو کے ساتھ ساتھ اس کی کلٹا ہرارو کا سنگ۔یہی ہے ان کی پروہتائی؟تھوہے ان کے چھل کپٹ پر۔ سہیل انسان ہے۔دیکھنا ایک دن وہی ان کا محافظ بن کر ان بھوکے بھیڑیوں سے تمہارے خاندان کا بچائوکرے گا۔‘‘
کیسی آنسوئوں بھری بدائی لی تھی سہیل چاچا نے۔’’چھوٹو کی بہو شہر کی پڑھی لکھی ہے۔ جب دیکھو تب گھر میں مہابھارت شروع۔ایسے میں تمہاری چاچی جان تو قرآن کی آیتیں پڑھ کر دلی سکون حاصل کرلیتی ہیں اور ہم خود سدرشن چکر بنے اپنی کوٹھری سے چیمبر تک،احاطے سے گنگا کے کچھار تک بے مطلب بھٹکتے رہتے ہیں۔وہ بٹوارہ چاہتی ہیں اور اپنے انجینئر خاوند کے ساتھ دوبئی جاکر بس جانا چاہتی ہیں۔پیسہ کمانا ان دونوں کا شغل ہے۔یشودا بہن،اولاد کی عدالت میں والدین ہی سب سے بڑے گنہگار ٹھہرائے جاتے ہیں۔بدلتے وقت کی مار ہم سب کو جھیلنی ہے نا!پدم دھر کی بہو کو دیکھ لیا،من کی مراد پوری ہوئی۔کون جانے کب اوپر والے کا بلاوا آجائے!‘‘
شیلی کی پیدائش کے دو سال بعد سہیل چاچا نے آنکھیں موندیں تھیں۔شری دھر دیر تک گم سم بیٹھے رہے تھے۔اس روز گھر میں چولہا نہیں جلاتھا۔
سری نواس ماما پورے علاقے میں زہر پھیلاتے رہے۔’’کہنے کو میری سگی بھانجی ہے،لیکن سارا دھرم کرم بھلاکر پوری طرح سے سنسکار بھرشٹ ہوچکی ہے۔پہلے سے ہی اس کی بُری عادتیں جگ ظاہر تھیں۔اس جلال الدین کا چھوا بیر کھاتی تھی۔اس کے بچوں سے پیار کرتی تھی۔ہماری بہن ٹھہری نری گائے۔بالکل سورداس جیسی اور بہنوئی جھوٹ موٹ فقیر داس بنے سارا تماشہ دیکھتے رہے۔ہماری بیٹی ہوتی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سری نواس ماما کی کالی کلوٹی بڑی بیٹی سات پردوں میں رکھی جاتی تھی۔میٹرک کے بعد پڑھائی لکھائی بند۔چھت پر اکیلی نہ جائے۔باغ بغیچے میں گھومنے کی قطعی اجازت نہیں۔ اپنی کوٹھری میں تھوڑی دیر بھی اکیلی بیٹھی رہتی تو گھر بھر میں کہرام مچ جایا ۔’’پھول کماری،باہر نکلو۔سب کے ساتھ آنگن میں بیٹھو۔‘‘
جٹیلا مامی بات بات پر پھول کماری کا جھونٹا پکڑ کر دوڑتی۔’’بند کوٹھری میں ساج سنگھار کررہی تھی۔کس کے لیے؟شیتل پائی کے نیچے یہ کون سی پوتھی ہے؟دیکھوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارنگا سدا بیرج کی پریم کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجی او پھول کے باپو سن رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
اسی پھول کماری نے ایک دن سچ مچ قہر برسانے والا کام کرڈالاتھا۔
سری نواس ماما نیم پاگل کی صورت بنائے سروجنی کی چوکھٹ پر کھڑے تھے۔دھاڑیں مارکر روتے ہوئے کسی طرح انہوں نے اس کہانی کو دہرایا تھا۔’’سروجنی،ہماری توپگڑی ہی لٹ گئی۔ ہماری عزت سربازار نیلام ہوگئی۔‘‘
شری دھر نے دھیان سے ساری باتیں سنی تھیں۔’’پچیس برس کی لڑکی ،اپنی مرضی سے وہ کسی بھی لڑکے کا ہاتھ تھام سکتی ہے۔ماما جی،آپ لوگوں نے اسے پنجرے میں بند کرکے رکھاتھا۔ آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی تھا۔‘‘
پھول کماری اور اس کا عیسائی شوہر جوزف سروجنی کے شہرآگئے تھے۔فارمیسی کی پڑھائی کرکے جوزف نے دوا کی دکان شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔سری نواس ماما اس کے گھر کا پورا پتہ لے کر شری دھر سے مدد مانگنے آئے تھے۔
’’داماد بابو،یہاں کے ایس پی سے آپ کی دوستی ہے۔ان سے کہیے،ایک بار پھول کماری کو اس کرسچن کے گھر سے نکلواکر ہمارے حوالے کردے۔ بعد میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شری دھر نے صاف انکار کردیاتھا۔’’ان دونوں کی شادی قانونی طور پر جائز ہے۔ آپ یا ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے۔ہماری بات مانیئے ماما جی،پھول کو معافی دے دیجئے۔ دونوں کی زندگی اچھی گزرے گی۔‘‘
مگر ماما اگیا بیتال بن کر الٹے پائوں واپس لوٹے تھے۔ جاتے جاتے سروجنی کو چھلنی کرنا نہیں بھولے تھے۔
’’تیرے کلیجے میں خوب ٹھنڈک پڑی ہوگی۔خاندان کو بٹّہ لگانے والی۔آج سے ہمارا سارا سروکار ختم اور اس کلوٹی کا پاپ تو بھگوان بھی معاف نہیں کریں گے،شنکر جی کا ترشول اس پر ٹوٹے گا۔‘‘
شری دھر نے سروجنی کی ڈھارس بندھائی تھی،’’گرجنے والے بادل ہے تمہارے ماما۔ ایسا ڈھکوسلے باز آدمی آج تک ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔بھئی داددینی ہوگی پھول کماری کی ہمت کو۔اگلے اتوار اس جوڑی کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ہم خود چلیں گے انہیں دعوت دینے۔‘‘
احسان میاں کی ترقی ہوئی تھی۔چیف اکائونٹنٹ کا عہدہ!ارمان سائیکل کی تیز رفتار کے ساتھ آندھی کی شکل میں گیٹ میں داخل ہوا تھا۔’’پھو پھی،پھوپھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں ہیں آپ؟ بھئی، اتنی دور سے خوشخبری دینے کے لیے چلے آرہے ہیں ہم۔گائوں سے دادا جان آئے ہیں اورابّا نے فوراً اطلاع دینے کے لیے کہا ہے۔‘‘
دوسرے روز سانجھ کے جھُٹ پُٹے میں جلال الدین چاچا کا جھکا ہوا بدن دروازے پر حاضر تھا۔
’’کیسی ہو ببونی؟‘‘
’’ارے چاچا آپ!‘‘
سفید لٹھے کا جھک دھلاپاجامہ،ادھی کا کرتہ اور ہاتھ میں چھڑی تھامے جلال الدین کی ہنسی ویسے ہی پُر اثر تھی۔
’’آئیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر آئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹھیے نا چاچا!‘‘لاکھ منت سماجت کے باوجود انہوں نے صوفے پر بیٹھنا قبول نہیںکیا۔’’نہیں،نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چٹائی ہی ٹھیک ہے ببونی۔‘‘
ارمان اور شیلی بیچ بیچ میں چُہل کرتے جارہے تھے۔’’دادا جی،بجلی کی چمک والے آپ کے دانت تو ویسے ہی ہیں۔‘‘
’’ارے کہاں بچی۔وقت کی ریت چڑھ گئی۔نیچے کے سارے دانت جھڑ گئے۔‘‘
’’اور آپ کے بال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’قبرستان میں تیری دادی کے سرہانے دھر آیا ہوں۔کچھ دن باقی ہیں،وہیں جانا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے سوچا کہ ہماری کوئی نشانی کیوں نہ پہلے سے ہی وہاں پہنچادی جائے۔‘‘
شیلی کا بال ہٹ دیکھنے لائق تھا،’’داداجی،ہمیں قبرستان کے بھوتوں کی کہانی سنائیے نا!‘‘
’’ارے نہیں بچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں کہاں کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جھوٹ نہیں۔آپ ہماری اماں کو ڈھیر ساری کہانیاں سناچکے ہیں۔اب ہماری باری ہے۔‘‘
’’لو بھلا،کل کو یہ بچی کہے گی کہ اس کی بٹیا کو بھی کہانی سنائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘سروجنی کے ہاتھ سے کھیر کی رکابی تھامتے ہوئے جلال الدین میاں کی بوڑھی پلکوں پر نمی کی ڈھیر ساری پرتیں بچھ گئیں تھیں۔’’کس سوچ میں ڈوب گئے چاچا۔سچ مچ شیلی کے بیاہ میں آپ کو ہمارے ساتھ رہنا ہوگا، یہاں بہت کچھ سنبھالنا ہوگا۔‘‘
چارخانے کا گمچھا آنکھوں پر دھرتے ہوئے جلال الدین چاچا یکبارگی بکھرگئے۔ ’’احسان میاں کے بارے میں ایک بات بتانی تھی ببونی۔ترقی تو انہیں مل گئی ہے،لیکن وہ اندر ہی اندر کسی سازش کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔کسی سے کچھ کہتے نہیں،لیکن پہلے والا سکون ان کے چہرے سے ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیاہے۔ہمیں ڈر ہے کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سروجنی نے ان کی ڈھارس بندھائی،’’شری دھر دورے سے لوٹ آئیں گے تب ہم لوگ احسان بھائی سے ملیں گے،ان سے ساری باتیں صاف صاف پوچھیں گے۔آپ فکر مت کیجئے چاچا!‘‘
احسان میاں نے قبول کیا تھا،اکائونٹ سیکشن کا کالی سنگھ بہت دنوں سے پیچھے پڑاہواتھا۔ اس کے بچپن کے دوست شکونی لال نے اعلیٰ مد رسے کی بیس سالہ نوکری میں خاص عہدوں پر فائز رہتے ہوئے بڑی چالاکی سے مدرسے کی رقم کا گول مال کیا تھا۔کتابوں کی خریداری،امتحان کے پرچوں کی خرید و فروخت،تیسرے درجے کے طالبِ علم کو اول درجہ دلانے کی سازش بھری دوڑ بھاگ۔کالی سنگھ کا بہت زیادہ دبائو تھا۔’’آپ کو اپنے پرسنٹیج سے مطلب ہونا چاہیے احسان میاں! شکونی لال کے یہ تمام بل پاس ہوجائیں تو یک مشت رقم آپ کے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
احسان میاں نے منع کردیاتھا۔بدنیتی بھرا کوئی کام وہ نہیں کریں گے۔چاہے جو ہوجائے۔
کالی سنگھ نے دھمکی دی تھی،’’کالو پہلوان کا نام سنا ہے نا؟اس مدرسے کے اعلیٰ حاکم کا گریبان اس کی مٹھی میں رہتا ہے۔اپنی ترقی پر اس طرح مت اترائو احسان!تمہاری یہ سیٹ بدلواکر تمہیں اندھیرے میں گم نہیں کردیا تو میرا نام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس وقت احسان میاں نے ذرا بھی دھیان نہیں دیاتھا،کوئی احتیاط نہیں برتی تھی۔جلال الدین میاں کے گائوں لوٹ جانے کے بعد احسان میاں پر گھات لگاکر حملہ کیا گیاتھا۔سر پر چھُرے کا گہرا گھائو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوزف کی دکان سے تھوڑی دور میڈیکل چوراہے پر وہ واردات ہوئی تھی۔ جوزف نے پہچان لیاتھا۔’’ارے یہ تو اپنے احسان میاں ہیں۔‘‘
احسان کوئی بھی بیان دینے سے کترارہے تھے۔’’نہیں گہرا اندھیرا تھا،کسی کو پہچاننے کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے۔‘‘
’’کسی پر آپ کا شک و شبہ؟‘‘
’’ہم نے کہانا،ہمارا کوئی بھی دشمن نہیں ہے۔‘‘
احسان میاں نے خود بخود فیصلہ کیاتھا،’’سر میری ڈیسک بدل دی جائے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’میری صحت ٹھیک نہیں رہتی سر،لگاتار چکر آتے رہتے ہیں۔ڈاکٹروں نے دماغی مشقت سے پرہیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘احسان میاں کا تبادلہ دوسرے محکمہ میں کردیاگیاتھا۔سروجنی اور شری دھر نے راحت کی سانس لی تھی۔
نوشابہ پیر بابا کے مزار پر منت مانگ کر سیدھے ان کے یہاں آئی تھی،’’انہیں سمجھائیے ببونی،رات برات گھر سے باہر نہ رہا کریں۔‘‘
’’کیوں،کیا بات ہے بھابھی،ان لوگوں نے پھر کچھ ایسی ویسی حرکت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ببونی،اب تو بات الٹی ہوگئی ہے۔شکونی لال مٹھائی کا ڈبہ لیے آیا تھا۔آرزو باہر نکلی تو اس نے آرزو کی کلائی پکڑلی تھی۔ہم تو سکتہ میں آگئے تھے۔کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا نہ کریں؟‘‘
مٹھائی کا ڈبہ آنگن میں پڑی چوکی پر رکھ کر شکونی لال فوراً سے پیشتر واپس لوٹ گیاتھا۔ احسان میاں نے ایک جھٹکے میں سب کچھ طے کرلیا تھا۔شکونی لال کے آفس میں جان بوجھ کر کی گئی ان کی وہ ملاقات،دارو کے اڈے پر اپنے پیسوں سے دارو پلانا اور نشے میں دُھت شکونی لال کی دونوں کلائیوں کو توڑکر ادھ مری حالت میں چوراہے پر چھوڑتے ہوئے اطمینان سے ان کی وہ گھر واپسی۔نوشابہ کو کھٹکا لگاتھا،لیکن احسان میاں کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر وہ خاموش رہ گئی تھی۔زندگی بہ دستور جاری تھی۔آرزو نے کالج میں داخلہ لے لیاتھا۔گلشن اور ارمان نے باری باری اسے پہنچانے اور گھر لانے کا ذمہ اٹھایا لیاتھا۔احسان اس کی شادی کے لیے بے حد فکر مند ہوچلے تھے۔’’شری دھر بھائی،آپ کی جان پہچان میں کوئی لڑکا ہوتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
گلشن نے آکر وہ بری خبر دی تھی،’’ارمان کل رات سے غائب ہے پھوپھی!امّی اور آرزو کا روروکر بُرا حال ہوگیا ہے۔ابّا پورے شہر کا چپہ چپہ چھان آئے ہیں۔‘‘
آرزو نے چپکے سے نوشابہ کو بتایاتھا ،کالی سنگھ کے چچیرے بھائی بیرونے کالج کے احاطے میں اس کا راستہ روک لیاتھا۔’’اپنی مرضی سے ہمارے ساتھ چلو،ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
آرزو کے شور مچانے پر کئی لڑکیاں جمع ہوگئیں تھیں اور بیرو وہاں سے چپ چاپ کھسک گیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے گلشن اور ارمان کودیکھ لینے کی دھمکیاں دی تھیں۔تین دنوں بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیمپس کے پاس والے اجاڑکنوئیں سے ارمان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔پچاس ساٹھ خاندان والے اس احاطے میں ایسا زبردست مجمع اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیاتھا۔
احسان میاں کا دکھ آسمان چھورہا تھا۔کالی سنگھ،شکونی لال اور ان کے دوسرے ساتھی لاش کو جتنی جلدی ہوسکے ٹھکانے لگانے کے چکر میں تھے۔’’جانے والا تو چلاگیا۔اب بلاوجہ چیرپھاڑ کرواکے لاش کی بے حرمتی کس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’گلشن اپنے ابا کو سمجھائو۔جی کڑاکے لاش کو دفنانے کی تیاری کریں۔‘‘
پولیس انسپکٹر نے کیس بنایا تھا۔’’لڑکے کو نشہ کرنے کی عادت تھی،اسی حالت میں کنوئیں کی اور گیااور پھسل کر نیچے گرپڑا۔‘‘
احسان کے کندھے پر شکونی لال کا ہاتھ تھا،’’جو ہوگیا سو ہوگیا۔تمہارے جگر کے ٹکڑے کو لوٹایا نہیں جاسکتا نا! احسان بھائی لو،یہ تھوڑے سے روپے رکھو۔ہماری جانب سے مدد کے طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سینہ کوبی کرتے ہوئے نوشابہ کی آنکھوں میں خون کے قطرے تیرنے لگے۔’’ارمان کے ابّا،روپے نہیں،کالے ناگ ہیں یہ!تمہارے بیٹے کا خون ہواہے!رسولِ پاک کی قسم ،میت نہیں اٹھے گی۔پہلے سروجنی بی بی کو بلائو۔ان کے خاوند کہاں گئے۔کوئی تو انہیں بتائو،ان کے لاڈلے ارمان کو کس بے دردی سے مارا ہے ظالموں نے!‘‘
شری دھر کو دیکھتے ہی کالی سنگھ اور شکونی لال اپنے اپنے کوارٹر کی جانب کھسک لیے۔لاش کو پوسٹ مارٹم گھر لے جانے کے لیے گاڑی کی تلاش ہونے لگی۔کسی نے دبی آواز میں بتایا،کالی سنگھ نے نئی گاڑی خریدی ہے۔
جھگڑو چپراسی منہ لٹکائے لوٹ آیاتھا۔’’مردے کو لے جانے کے لیے کالی سنگھ اپنی گاڑی ہرگز نہیں دے گا۔احسان میاں سے کتنے فائدے اٹھائے ہیں اس نے۔‘‘
کالی سنگھ نے راتوں رات بیرو کو شہر سے باہر روانہ کردیاتھا۔ایس پی انل چترویدی نے آرزو کا بیان لیا تھا۔شراب کے اڈے پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیرو پکڑاگیا۔ پہلی مار کے ساتھ ہی اس نے سارا سچ قبول کرلیا۔کالی سنگھ اور شکونی لال نے بیرو کے ساتھ مل کر یہ بھیانک سازش رچی تھی۔
’’احسان ہماری ترقی کے راستے کاروڑہ ہے۔ایمانداری کا سارا ٹھیکہ اس کم بخت نے اپنے اوپر لے رکھا ہے۔اس کے رہتے اوپری آمدنی کا ذریعہ ہوہی نہیں سکتا۔تو کچھ ایسا کیا جائے کہ اس کی زندگی اجیرن بن جائے۔‘‘
بیرو کا منصوبہ دوسراتھا،رات کے اندھیرے میں آرزو کو اٹھواکر نیپال اڑالے جانا۔لیکن ارمان سائے کی طرح بہن کے ساتھ رہتاتھا۔آرزو نے اس دن کے بارے میں ارمان سے اشارتاً کہاتھا۔ارمان بہن کو گھر پہنچا کر الٹے پائوں باہر چلاگیاتھا اور نوشابہ کا انتظار ہمیشہ کے لیے گھر کے گوشے گوشے میں ٹھہر کررہ گیاتھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ آئینے کی طرح صاف تھی۔ارمان کے سر پر کسی ہتھیار سے وار کیاگیا تھا۔اندرونی چوٹ سے اس کی آنتیں پھٹ گئی تھیں،خون کاا ندرونی رسائو اس کی موت کا سبب بن گیا تھا۔نیم بے ہوشی کی حالت میں بیرو کے آدمی رات کے اندھیرے میں اسے اجاڑکنوئیں میںڈال آئے تھے۔
بیرو نے بتایا تھا،’’ان لوگوں کی منشا اسے جان سے مارنے کی نہیں تھی،لیکن کالی سنگھ اور شکونی لال نے للکارہ تھا،’’سنپولا ہے،بچ کر جانے نہ پائے!اس کے گھر والے زندہ نرک کی آگ میں جھلستے رہیں گے،تب پتہ چلے گا کہ کالی سنگھ سے الجھنے کا انجام کیاہوتا ہے!‘‘
سروجنی حیرت زدہ تھی۔وہی کالی سنگھ گھنٹہ بھر قبل کیسی ماتمی صورت بنائے احسان کا سب سے قریبی ہونے کا دم بھررہاتھااور شکونی لال کا رہ رہ کر اپنی آنکھوں پر رومال دھرنا۔مکّاری کی اس سے بڑھ کر دوسری کوئی مثال ہوسکتی ہے بھلا؟
شری دھر کے دوست انل چترویدی نے بڑی مستعدی سے کاروائی کی تھی۔کالی سنگھ اور شکونی کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کھوج شروع ہوئی تھی۔بیرو اور اس کے ساتھیوں نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
قبرستان تک جانے والے چند لوگوں میں شری دھر بھی تھے۔ارمان کو مٹی دے کر آدھی رات کو سب لوگ گھر لوٹے تھے۔احسان اور نوشابہ کی ڈھارس بندھانے کے لیے کسی کے پاس الفاظ نہیں تھے۔
گلشن چپکے سے سروجنی کے پاس آبیٹھاتھا،’’پھوپھی،ایک بات پوچھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ سب لوگوں نے ہمیں انسان بننا سکھایااور بیرو کے ماں باپ نے؟کیا اس کی پیدائش ایسی ہی بُری حرکتوں کے لیے ہوئی تھی؟کتنی بے رحمی سے ہمارے بھائی کا قتل کیا اس نے! قانون اسے بخش دے مگر ہم اسے معاف کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘
دیر تک خاموش بیٹھے احسان میاں کی آواز کسی گہری سرنگ سے آتی ہوئی سی لگ رہی تھی، ’’اپنے آپ پر قابو رکھو بیٹے۔‘‘
’’کیسا قابو ابّو،ان شیطانوں نے ہم سے ہمارا بھائی چھین لیا اور آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آپا ،اس سرپھرے کو سمجھائیے تو۔ہمارے بچے کی موت اسی روپ میں آنی تھی۔ قسمت کا قہر ہم پر ٹوٹناتھا۔جوہوگیا،سوہوگیا۔‘‘ایک لمحہ سروجنی کو ایسا لگا تھا جیسے جلال الدین میاں قبر سے اٹھ کر ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے ہوگئے ہوں۔’’ببونی،گلشن کو سمجھائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ ظالم کا کبھی مددگار نہیں ہوسکتا۔قیامت کے دن سب کا حساب ہوگا۔حوصلہ رکھو لوگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
احسان میاں اپنی رو میں بہتے جارہے تھے۔’’کالی سنگھ کا آدمی پچھواڑے کھڑا دھمکیاں دے چکا ہے۔بیان واپس لو،تھانے میں جاکر کہو کہ ارمان کو نشیلی دوائوں کی لت تھی،وہ خود بخود کنوئیں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سب کچھ سن لینے کے بعد شری دھرنے فیصلہ کرلیا تھا،’’احسان بھائی،آپ لوگ مہینے بھر کے لیے گائوں چلے جائیں۔اس درمیان ہم آپ کے تبادلے کی کوشش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پیٹیاں اور بستر سمیٹ کر احسان میاں جیپ پر سوارہوچکے تھے۔ڈرائیور کی سیٹ پر شری دھر بیٹھے تھے۔
اچانک احسان نے ذرا تیز آواز میں کہاتھا،’’شری دھر بھائی ایک منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ دھیرے سے نیچے اترے تھے۔’’آپا ایک بات کہنی تھی۔ابّا نے ہمیں آپ کی پناہ میں بھیجا تھا۔ پندرہ برس بیت گئے۔قدرت کا کھیل ،ہماری واپسی اسی روپ میں ہونی تھی شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا چلتے ہیں،کہے سنے کی معافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اسی رات ایک بار پھر جلا ل الدین کو ایک دم سامنے دیکھاتھا سروجنی نے۔’’سوگئی کیا ببونی؟ ایک پتے کی بات بتانے آئے ہیں ہم!اﷲ بڑا رحم و کرم والا ہے۔سارا حساب کتاب یہیں چُکتا ہوجائے گا، دیکھ لینا تم!ہمارے ارمان کی روح قبر میں تڑپ رہی ہے۔ان قاتلوں کو کبھی چین کی نیند نصیب نہیں ہوگی۔‘‘
وہ خوفناک خبر شری دھر نے سنائی تھی۔’’بیرو ،کالی سنگھ اور شکونی لال کو پولیس جیپ میں ہزاری باغ جیل لے جایا جارہا تھا۔کیسا بھیانک حادثہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سامنے سے آتے ہوئے ٹرک کے ساتھ جیپ کی سیدھی ٹکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیرو اورشکونی لال کی لاشیں پہچاننے کے قابل نہیں رہ گئی تھیں، کالی سنگھ اپنے لوتھڑا ہوچکے جسم کا درد بھُگتتا آخری سانسیں گن رہا تھا۔‘‘
گلشن کا پہلا خط مہینے بھر بعد ملاتھا۔
’’پھوپھی،ابا نہیں رہے۔ارمان بھائی کا صدمہ انہیں لے ڈوبا۔اپنے انتقال سے قبل ظالموں کے صفائے کی خبر سن لی تھی انہوں نے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امّی کہلوار ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے بچے کھچے دن اسی قبرستان سے لگے بغیچے کی دیکھ بھال میں گزارنا چاہتی ہیں۔آپ ہمارے لیے دعا کرتی رہیں گی۔آرزو کی شادی اور اپنی پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں کے لیے فکر مند ہیں ہم!
ایک بات تو لکھنا بھول ہی گئے پھوپھی! ابّا کی زبان پر آخری لفظ آپ کے لیے تھے۔‘‘
کیسا عجیب سا سکون اپنی آنکھوں میں لیے احسان میاں اپنی منہ بولی بہن سروجنی کی اور مخاطب تھے،’’اﷲ کا فیصلہ دیکھ لیانا آپا!اس نے بھرپائی کردی۔اب ہم چین کی نیند سو سکیں گے۔ ارمان ہمیں بلارہے ہیں آپا،انہیں ہماری ضرورت ہے۔اچھا ،رُخصت ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!


ہندی کہانی

ترجمہ: قاسم ندیم

 

Mumbai a Maliyalum Story by N.S. Madhuwan

Articles

ممبئی

این۔ایس۔ مادھون

 

بچپن کی یادوں نے دنیا کو سمجھنے میں عزیز کی مدد کی۔یقینا سبھی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آدم کے علاوہ۔زمین پر آئے پہلے آدمی کے طور پر ان کا کوئی بچپن نہیں تھا۔بچپن کی یاد دلانے والی کسی بھی چیز کو عزیز آسانی سے اپنا لیتا تھا۔اسی لیے ممبئی کو وہ پسند کرتا تھا۔اسے وہ بزرگ میاں بیوی اچھے لگتے تھے جووارڈن روڈکے اس مکان کے مالک تھے جس میں وہ رہتاتھا۔اگر باذوق،سفید ہوتی مونچھیں اور شرارتی آنکھوں والے شکورصاحب اسے ایئر انڈیا کے مہاراجہ کی یاد دلاتے تو گالوں پر بڑے بڑے گڑھے لیے امّی جان اسے اس کی من پسند اداکارہ کے پی اے سی للیتا کی یاد دلاتیں۔
ہمیشہ کی طرح اس روز بھی صبح کی تازہ دُھلی دھلائی ٹیکسیوںنے عزیز کو خوشیوں سے بھر دیا۔ دوسرے شہروں سے الگ، ممبئی کی ٹیکسیاں بھاری بھرکم ایمبسیڈر نہیں تھیں۔ یہ بڑی حد تک ان چتکبری بلیوں جیسی فیاٹ تھیںجو تھپ تھپائے اور دُلارے جانے کی منتظر ہوتی ہیں۔
جیسے ہی عزیز ٹیکسی میں داخل ہوا،اس نے اخبار کھول لیا۔صفحہ اوّل کی اہم سرخیوں پر سرسری نگاہ ڈال کر اس نے اسٹاک اور شیئر والا حصہ نکال لیا۔وہ کالموں اور شماریات میں ڈوبا ہوا تھا کہ اس کا دھیان سہانی ہوامیں پھڑپھڑاتے اوراق پر گیا تب اسے احساس ہوا کہ وہ سمندر کے کنارے سفر کررہا ہے۔ عزیز نے وِنڈ اسکرین پر لگی سبز سَن فلم کو دیکھا۔ہرا سمندر بالکل نیا دکھائی دیا۔ سن فلم پر لگے ہندی اسٹیکر کو سمجھنے میں عزیز کو تھوڑا وقت لگا۔چھلانگ لگاتے باگھ پر پیلے حروف میں لکھا تھا،’’گرو سے کہو ہم ہندو ہیں۔‘‘
جیسے جیسے ٹیکسی یکے بعد دیگرے سرخ بتی پر رکتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی،عزیز سوچ رہا تھا کہ انتخابات کے بعد ممبئی تھکا ماندہ آرام کررہا ہے۔ہاتھ کا پنجہ،کنول، تیر کمان، نائو،ریلوے انجن۔ دیواروں پر آویزاں ان نشانیوں نے پورے شہر کو پہلی جماعت والی حروف تہجی کی کتاب میں بدل دیا تھا۔سرکار میں آنے والی کسی بھی تبدیلی کا عکس سب سے پہلے سینسکس اور اسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس پر پڑتا تھا۔مگر اس کے لیے عزیز اور اس کے ساتھی،کمپنی میں کام کرنے والے دوسرے سیلز انجینئر ، شاید نئی سرکار کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے بھی نہیں آتے۔عزیز کے دل میں یہ خیال گذشتہ روز کوندا تھا جب پردیپ پلئی نے دوپہر کے کھانے کے وقت اعلان کیاتھا،’’سرکار بدل گئی ہے۔‘‘
’’تو؟‘‘یہ تھے جیوتی پرساد شری واستو،ایک دوسرے سیلز انجینئر۔
’’کئی دوسری چیزیں بدل جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘پردیپ پلئی نے کہا۔
گروپ میں سب سے بڑے جینت کرماکر نے پوچھا،’’تمہارا کیا مطلب ہے؟ کیا نئی سرکار ٹینڈرس کو خارج کردے گی جنہیں ہم نے اتنی مشکل سے حاصل کیا ہے؟‘‘
’’دوسری چیزوں میں۔۔۔۔‘‘پردیپ پلئی نے کہا۔عزیز کو محسوس ہواتھا کہ پلئی جان بوجھ کر اشتیاق پیدا کرنا چاہتا ہے۔جب ٹیکسی نریمن پوائنٹ پر ایک کثیر منزلہ عمارت کے سامنے رکی،جہاں عزیز کام کرتا تھا،تب تک کچھ غوروفکر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔مضافاتی ٹرینیں ممبئی کو چیرتے ہوئے اب بھی دوڑرہی تھیں۔سینسکس پھر جی اٹھا تھا۔چرچ گیٹ پر اترنے والے عام مسافروں کا جم غفیر دائیں بائیں دیکھے بنا آگے بڑھتا جارہا تھا جن میں سے تقریباً آدھے لوگ کھجلی سے پریشان تھے (ہمیشہ کی طرح ہاہاہا۔۔۔) ڈبّے والوں کی سائیکلوں پر ٹفن کیرئیر چلے جارہے تھے،جن کا مقام تھا تمام لنچ پیلیس اور یہی وہ وقت تھا جب نائٹ شفٹ کے بعد دیر رات گئے سونے والے جاگتے تھے اور ان کی بیویاں گھر پر نہ ہوتیں تو گھریلو کام کرنے والی کانتا بائی یا کسی اور کو بانہوں میں بھرنے کی کوشش کرتے۔
جیسے ہی وہ دفتر میں اپنے کمرے میں پہنچااس نے ٹیبل پر اپنی پاسپورٹ سایز کی تصویروں کی جانچ کی۔سبھی پاسپورٹ سائز کی تصویروں کی طرح وہ اجنبی سی دکھائی دیں۔اس عزیز کی طرح جسے وہ ہر صبح آئینے میںدیکھتاتھا۔اس نے پاسپورٹ کے لیے فارم بھرنا شروع کیا،اس کے نیلے صفحات پر بے حد اطمینان سے۔اسے کمپنی کے نمائندے کے طور پر فرینکفرٹ میں ہورہی تجارتی نمائش کے لیے روانہ کیا جارہا تھا۔جب اس نے بھرا ہوا فارم ٹراویل ایجنٹ کے پاس بھیجا،تب اس کے ساتھی جو دوپہر کا کھانا کھانے باہر گئے ہوئے تھے لوٹ رہے تھے۔جب اس نے انہیں غیرمعمولی انداز میں تیز آواز میں باتیں کرتے سنا تو اندازہ لگایا کہ ضرور ریلائنس یا اے سی سی کے شیئروں میں کافی اچھال یا گراوٹ آئی ہوگی۔
جوں ہی جیوتی پرساد کمرے میں داخل ہوئے انہوں نے عزیز سے پوچھا،’’تم ہی بتائو عزیز۔یہ کرماکر کہتا ہے کہ نئی سرکار کا فیصلہ کہ وہ غیر ملکیوں کو نکال باہر کرے گی،غلط ہے۔ ان کے نظریات کہاں غلط ہیں؟‘‘
عزیز نے جواب دیا،’’کچھ نہیں۔سبھی ممالک ان مسافروں کو ان کے وطن واپس بھیج دیتے ہیں جن کے پاس ویزا نہیں ہوتا۔تو ہم کیوں نہ کریں ایسا؟‘‘
کرماکرنے غصے میں جواب دیا،’’یہ سیاست ہے۔تم میں سے کوئی بھی اسے نہیں سمجھتا۔‘‘
’’ہم تو صرف ایک چیز سمجھتے ہیں اور وہ ہے اسٹاک مارکیٹ۔چلو سیاسی بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ،اس کے ذریعے کچھ مال بنائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘کمرے سے باہر جاتے ہوئے پردیپ پلئی نے کہا۔دوسرے بھی یکے بعد دیگرے اس کے پیچھے نکل گئے۔
عزیز نے آنکھوں کو آرام دینے کے لیے انہیں پل بھر کے لیے بندکردیا۔تبھی ٹراویل ایجنٹ کا فون آگیا،’’مسٹر عزیز،آپ فوراً اپنے راشن کارڈ کی زیراکس کاپی ہمارے پاس بھیج دیں۔‘‘
’’لیکن میرے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔‘‘
’’تو بنوالیں فوراً۔‘‘
’’ایک پاسپورٹ کے لیے کیاکیا جھیلنا پڑتا ہے!آپ کا مطلب ہے کہ مجھے راشن سے ملنے والا چاول کھانا پڑے گا۔‘‘
’’نہیں،اس کی ضرورت نہیں۔لیکن آپ کو پتے کے پروف میں راشن کارڈ کی ایک کاپی پاسپورٹ کے فارم کے ساتھ دینا پڑے گی۔‘‘
’’تب مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘
’’سپلائی آفس جائیں اور وہاں ایک درخواست فارم بھریں۔کچھ دنوں بعد آپ کے گھر ایک انسپکٹر آئے گا۔آج کل ان کا بھائو ایک گاندھی چل رہا ہے۔آپ کو دو دنوں میں کارڈ مل جائے گا۔بس۔‘‘
ہر اتوار کی طرح اس دن بھی عزیز وی سی آر کے سامنے بیٹھا پرانی راج کپور کی فلمیں دیکھ رہا تھا۔ اس طرح کی ہندی فلموں کے ذریعے ہی وہ ممبئی کے آثارِ قدیمہ کی کھوج کرلیتا تھا۔ان فلموں کے ذریعے وہ تین چار دہائی پرانی ممبئی میں داخل ہوجاتا۔جب وہ بلیک اینڈ وائٹ پردے پر قلعے، فوارے، کرکٹ پویلین یا باندرہ اسٹیشن،میٹروسنیما،تاج ہوٹل اور دیگر عمارتوں کو دیکھتا تو ٹیلی ویژن کے دوسرے جانب سے ہزاروں چہروں والی موجودہ ممبئی کے بے گانے پن سے اسے راحت محسوس ہوتی۔
چھٹی کے دن کھانے کے وقت دروازے پر ہونے والی امّی جان کی معمول کے مطابق دستک اس کے لیے گھڑی کا کام کرتی تھی۔لیکن اس دن امّی جان نے وقت سے قبل ہی گیارہ بجے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔
’’کوئی تم سے ملنے آیا ہے۔کہتا ہے کہ سپلائی ڈپارٹمنٹ سے ہے۔‘‘انھوں نے کہا۔
’’اتوار کو؟‘‘
’’ہاں،اور اس کے ساتھ ایک دادا بھی ہے جو حکمراںپارٹی کے لیے ووٹوں کا جگاڑ کرتا ہے۔‘‘
جیسے ہی عزیز نے دروازہ کھولاسپلائی انسپکٹرنے جو عزیز کے خیال سے کافی کم عمر تھا پوچھا، ’’آپ نے راشن کارڈ کے لیے درخواست دی ہے ،ہے نا؟‘‘
’’آپ کے ساتھ یہ کون ہے؟‘‘عزیز نے جواب سے پہلے سوال کردیا۔
’’رامو دادا۔میں انہیں اپنے ساتھ گھر دکھلانے کے واسطے لے آیا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’آپ کل سپلائی آفس میں میڈم گوکھلے سے ضرور ملیں۔پرمیلا گوکھلے۔ میں آپ کو وقت پر مطلع کرنا چاہتاتھا۔اسی لیے آپ کو یوں اتوار کو پریشان کیا۔‘‘
جب عزیز نے پرمیلا گوکھلے کے آفس کے آدھے دروازے کو کھولا تو اس نے اس کے ناٹے ہونے کی توقع نہیں کی تھی۔حالانکہ ایک نظر میں وہ جوان لگتی تھی،مگر اس کی آنکھیں اس کی عمر تیس یا اس سے زیادہ بتاتی تھیں۔اس نے اسکولی لڑکیوں کی طرح دو چوٹیاں بنائی تھیں اور سفید دوپٹے میں ایک اسکولی لباس کی معصومیت تھی۔ اپنے پتلے،تیکھے سرخ ہونٹ اور موٹے چشمے سے چھوٹی دکھنے والی بھوری آنکھوں سے وہ ایک سفید چوہیا کی طرح نظر آرہی تھی۔عزیز سوچنے لگا کہ جوش میں آکر ملاقات کے دوران کہیں وہ آگے بڑھ کر اس کی پیٹھ نہ تھپتھپادے۔اس کی کھلی دراز میں گیانیشوری رکھی تھی جس کا کچھ حصہ پڑھا جاچکا تھا۔
’’مسٹر عزیز؟‘‘اس نے نرمی،بے حد نرمی سے پوچھا۔ جیسے ایک معشوق اپنے عشق کا اظہار کررہا ہو۔
’’ہاں۔‘‘
’’والد کا نام؟‘‘
’’بیرن کنجو۔‘‘
’’ماں کا نام؟‘‘
’’فاطمہ۔‘‘
’’کیا وہ حیات ہیں؟‘‘
’’نہیں،دو سال قبل ایک ماہ کے دوران ہی دونوں کا انتقال ہوگیاتھا۔‘‘
’’آپ کے پاس کوئی زمین،جائیداد ہے؟‘‘
’’نہیں۔مجھے آئی آئی ٹی میں پڑھانے اور میرے بھائی کا ابوظہبی کا ویزا دلوانے کے لیے انہیںاپنی ساری زمین فروخت کرنی پڑی۔‘‘
’’تب تو آپ کے پاس زمین کی پرانی ٹیکس کی رسیدیں ضرور ہوںگی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تو آپ کے پاس بھارت میں کسی زمینی جائیداد کا کوئی ثبوت نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں۔میرا راشن کارڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ پوچھ تاچھ اسی کے لیے ہے۔پہلے آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ ہندوستانی ہیں۔ صرف اسی وقت ہم آپ کے راشن کارڈ کی درخواست پر غور کرسکتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو اچھا کھیل ہے۔سوچیے ایک رات آپ کو جگایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ثابت کیجئے آپ ایک ہندوستانی ہیں،تو آپ کیا کریں گی بہن جی؟‘‘عزیز کی آواز بلند ہوئی۔ اچانک اس نے دروازے کے اس پار بے شمار پیروں کی آہٹ سنی۔پرمیلا گوکھلے کے دفتر کی کھڑکی پر چہروں کی بھیڑ تھی۔عزیز نے پل بھر میں ہی ان چہروں کے رنگ کو اور غصے کی لہروں کو بڑھتے دیکھا ۔
’’میںانہیں اپنا نام بتادوں گی۔بس میرا نام،میرا اتہاس اور جغرافیہ دونوں ہیں۔پرمیلا گو کھلے ، مہاراشٹرین ہندو۔چت پاون برہمن۔سمجھے آپ؟‘‘جب اس نے یہ سب کہا تب بھی اس کی آواز ایک معشوق کی طرح ہی تھی۔اس کی آواز کی نرمی نے عزیز کو اندرتک خوفزدہ کردیا تھا۔
’’میں کیا کروں؟‘‘
’’اب آپ جاسکتے ہیں۔آپ کو پھر بلایا جائے گا۔تب آپ کو آنا ہوگا بھائی صاحب۔‘‘ وہ کھڑی ہوگئی۔
جب دو روز بعد عزیز پرمیلا گوکھلے سے ملا،تو اس کی پوشاک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کا کمرہ بھی ویسا ہی نظر آیا۔سوائے اس کے کہ اس نے اپنی دراز میں پڑی گیانیشوری کے مزید کچھ صفحات پڑھ لیے تھے۔
’’مسٹر عزیز ہم نے آپ کو کچھ اور چیزوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لیے بلایا ہے۔‘‘
’’ایک راشن کارڈ کے لیے اتنی بھاری پوچھ تاچھ؟اب کیا پوچھنا ہے؟جیسے کسی شادی کے مسئلے پر غوروفکر کرنا ہے؟‘‘
’’آپ کہاں پیدا ہوئے تھے؟‘‘اس نے اور بھی زیادہ اطمینان سے پوچھا۔
’’کیرالا میں۔‘‘
’’کیرالا میں کہاں؟‘‘
’’ملپّورم ضلع میں۔‘‘
’’اس ضلع کے کون سے گائوں میں؟‘‘
’’پانگ۔‘‘
’’پانگ؟پانگ کیا؟‘‘اس کی آواز پہلی بار ذرا اونچی اٹھی۔آدھے دروازے کے اس پار دکھائی دینے والے پیروں کے چلنے کی بدقسمتی دستک دینے لگی۔
’’پانگ۔جہاں میں پیدا ہواہوںاس کا نام یہی ہے۔‘‘
’’ایسا نام؟نہیں۔یہ ناممکن ہے۔ایسے نام کا بھارت میں کوئی گائوںنہیں ہوسکتا۔‘‘
’’میڈم،میں جھوٹ کیوں بولوں گا؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔خیر جو بھی ہو۔ملیالم میں پانگ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں کہ اس کا کوئی مطلب ہے بھی یا نہیں؟‘‘
’’بنا مطلب والا لفظ؟لفظوں کا احترام کیجئے۔اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کوئی پانگ وانگ نہیں ہے؟‘‘
’’پانگ ہے۔یقینی طور پر ہے۔آپ اگر چاہیں تو ملپّورم کے کلکٹر کو ٹیلی گرام بھیج کر جانچ کرسکتی ہیں۔‘‘
’’کیا آپ بھارت کے نقشے پر مجھے پانگ دکھلاسکتے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیرالا کے نقشے پر؟‘‘
’’میں اعتماد کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘
’’پھر بھارت میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے۔آپ جاسکتے ہیں۔میری پوچھ تاچھ میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘
جب عزیز باہر آیا تو بھیڑ اسے راستہ دینے کے لیے دو حصوں میں بٹ گئی۔اس سے اسے یاد آیا کہ سیسل دی مِل کی’داٹین کمانڈمینٹس‘میں موسیٰؑ کو راستہ دینے کے لیے دریائے نیل کس طرح دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔اس بار موسیٰ واپس لوٹ رہے ہیں۔بعد میں وہ آدم کے روپ میں لوٹ جائیں گے۔ معصوم،پہلی بار زمین پر آنے والے آدمؑ کی طرح،بنا کسی بچپن کے۔
عزیز اس کے بعد کچھ دنوں تک دفتر نہیں گیا۔وہ اپنے کمرے میںہی رہا۔ریڈیو آن کیے ہوئے،بے حد تیز آواز میں تاکہ وہ اپنے من کے خیالات کو نہ سن سکے۔کف پریڈ پر اس کے ایک دوست جو بحری فوج میں تھا،نے خواجہ احمدعباس کی فلم’شہراور سپنا‘کاایک ٹیپ دیا تھا۔اس پرانی فلم کو بیٹھ کرکئی بار دیکھنے کے بعد بھی،وہ اس میں سے ممبئی کی بھولی بسری یادوں کو کھودکر نکالنے میں ناکام رہا تھا۔
ایک شام سپلائی انسپکٹر اور رامو داد اآئے اور انہوں نے اپنی جیپ میں عزیزکو پرمیلا گوکھلے سے ملنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہا۔جب وہ اپنے فلیٹ کا دروازہ بند کررہا تھا تو اس کی نگاہ خطاطی طرزِ تحریر میں شیشے کے فریم میں’بسم اﷲ‘کے سامنے چپ چاپ کھڑی امّی جان اور شکور صاحب پر پڑی۔بسم اﷲ،جو پانچ روشن شمعوں کے مانند دکھائی دیتا تھا،عربی میں عزیز کا من پسند لفظ تھا۔
اس بار پرمیلا گوکھلے کے آفس میں پہلے سے بھی زیادہ بھیڑ تھی۔کھڑکیاں چہروںکی بے چینی سے بھری ہوئی تھیں۔ایسا لگتاتھا کہ پرمیلا گوکھلے گیانیشوری کا مطالعہ مکمل کرچکی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے سوال کرنا شروع کیا،’’کیا 1970ء میں آپ بھارت میں تھے۔‘‘
’’میڈم اس وقت میں پیدا نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’اچھا،1971ء میں؟‘‘
’’میں اسی سال پیدا ہوا تھا۔‘‘
’’تو آپ قبول کرتے ہیں کہ 70ء میں آپ بھارت میں نہیں تھے؟‘‘
’’یہ واقعی بے تکا سوال ہے۔میں تب پیدا نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’کیا میں یہ درج کرلوں کہ بنگلہ دیش سے گھس پیٹھ شروع ہونے سے پہلے آپ بھارت میں نہیں تھے؟‘‘
’’مجھے آپ کو کتنی بار بتانا پڑے گا کہ تب میں پیدا نہیں ہواتھا؟‘‘
’’سوال کا جواب ہاں یا نہ میں دیجئے۔‘‘پرمیلا گوکھلے کی آواز ذرا اونچی ہوئی اور عزیز کو بجلی کی کڑک جیسی سنائی دی۔کھڑکی سے نظر آرہے چہرے اور خطرناک دکھائی دینے لگے اور آدھے دروازے کے باہر قدموں کی آہٹیں مزید بڑھ گئیں۔
’’بتائیے مجھے بنگلہ دیش سے گھس پیٹھ سے پہلے یعنی 1970ء میں اور اس سے پہلے کیا آپ بھارت میں تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اچھا گھس پیٹھ کے دوران؟71ء کے بعد؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ہاں۔‘‘
کچھ دیر خاموشی رہی۔
مایوسی سے نبردآزما ہوتے ہوئے عزیزنے پوچھا،’’میرا راشن کارڈ؟‘‘
پرمیلا گوکھلے مسکرائی۔جواب میں باہر کے لوگ قہقہے لگانے لگے۔اس نے کہا،’’ میں نے اپنی رپورٹ مکمل کردی ہے۔میں اسے کل خود بھیجوں گی۔‘‘
’’کیا آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ میں ایک گھس پیٹھیا ہوں؟‘‘
’’آپ نے خود قبول نہیں کیا؟‘‘پرمیلا کھڑی ہوگئی۔کئی ملاقاتوں سے جو ربط ہواتھا، اس نے عزیز سے ہاتھ ملایا۔
جب عزیز گھر پہنچا تو اس نے دو پولیس والوں کو عمارت کے باہر پہرہ دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنے کمرے میں گیااور دروازہ بند کرلیا۔جیسے ہی وہ پردے ہٹاکر کھڑکی کھولنے والا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ دوسری جانب مورپنکھی پر موجود دھبوں جیسی آنکھوں والے بے شمار آدمیوں کے چہرے ہوںگے۔بے تحاشہ خوف کی گرفت میں آکر عزیز اپنا چہرہ زمین پر دبائے بستر میں گھس گیااور نومولود بچے کی طرح بنا ہلے ڈُلے پڑا رہا۔

ملیالم کہانی

ترجمہ: قاسم ندیم


Jung by Chinwa Achebe

Articles

جنگ

چنوا اچے بے

 

پہلی بار جب وہ ایک دوسرے کی راہوں سے گذرے تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔یہ جد و جہد بھرے دنوں کی بات ہے ۔ جب ہر روز نوجوانوں کی اور کبھی کبھی لڑکیوں کو بھی بھرتی دفتروں سے مایوس واپس لو ٹنا پڑتا تھا ، کیوں کہ نئے تشکیل شدہ ملک کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھانے والے بہت سے لوگ آ رہے تھے ۔
دوسری بار وہ آنکار کے ایک چیک پوائنٹ پر ملے ۔ جنگ شروع ہو چکی تھی اور دور دراز کے شمالی علاقوں سے دھیرے دھیرے جنوب کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وی اونتشا سے اینو گو جا رہا تھا اور عجلت میں تھا ۔ حالاں کہ وہ ذہنی طور پر سڑک پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں اور اچھی تلاش کے حق میں تھا ، لیکن جب اسے تلاشی دینی پڑتی تھی ۔ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی تھی ۔ حالاں کہ وہ بذات خود اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا ، لیکن لوگ مانتے تھے کہ اگر آپ کی تلاشی لی گئی تو آپ بڑے آدمی نہیں ہیں ۔ اگر وہ اپنی اور متاثر کن آواز میں یہ کہہ کر” ریگی نولڈ نوالکو“ ’ وزارت انصاف‘ اپنی تلاش سے بچ جاتا تھا۔اس کے جملے کا اثر فوراً ہوتا تھا ، لیکن کئی بار لا علمی کے سبب یا ضدی آفیسر کی بنا پر چیک پوائنٹ کے لوگ اس کے جملے سے متاثر نہیں ہوئے تھے ۔ جیسا کہ ابھی آفکا پر ہوا تھا ۔ مارک ۴ کی وزنی بندوقیں اٹھائے ہوئے دو کانسٹبل دور سڑک کے کنارے سے نظر رکھے ہوئے تھے اور تلاشی کا کام انھوں نے مقامیی نگراں کاروں کے حوالے کر دیا تھا ۔
”مجھے جلدی جانا ہے ۔“ اس نے لڑکی سے کہا ، جو اس کی کار تک آ گئی تھی ۔” میرا نام ریگی نولڈ نوانکو ہے ۔ وزارت انصاف سے وابستہ ہوں ۔“
” سلام سر “ میں آپ کی کار کا بوٹ دیکھنا چاہتی ہوں۔“
” اے خدا ! تمہارے خیال سے بوٹ میں کیا ہو سکتا ہے ؟“
” میں نہیں جانتی سر ۔“غصے پر قابو رکھتے ہوئے وہ کار سے باہر نکلا ، پیچھے گیا ، بوٹ کھولااور بائیں ہاتھ سے ڈھکن اٹھاتے ہوئے دائیں سے یوں اشارہ کیا ، جیسے کہہ رہا ہو ، اس کے بعد ۔” ہو گئی تسلی ؟‘اس نے سوال کیا ۔
”جی ، سر۔کیا میں آپ کی گاڑی کا پیچن ہول دیکھ سکتی ہوں!“
” او میرے خدا ۔“
” دیری کے لئے معافی چاہتی ہوں ، سر آپ ہی لوگوں نے ہمیں یہ کام سونپا ہے ۔“
” کوئی بات نہیں ، تم بالکل ٹھیک کہتی ہو یہ رہا گلف باکس ۔ دیکھ لو، کچھ بھی نہیں ہے ۔“
” ٹھیک ہے سر ، بند کر دیجئے ۔“ اس نے پیچھے کا در وازہ کھول کر سیٹ کے نیچے جھانکا ۔ تب اس نے پہلی بار لڑکی کو بغور دیکھا ۔ پیچھے سے۔ وہ خوبصورت لڑکی تھی ۔ جس نے نیلی جرسی ، خاکی جینس اور کینوس کے جوتے پہن رکھئے تھے اور بالوں کو نئے اسٹائل سے پلیٹو ں میں باندھ رکھا تھا ۔ جس سے لڑکیوں کے چہرے پر باغیانہ تیور ابھر آتا تھا ۔ جسے لوگوں نے نہ جانے کیوں ” ائیر فورس پیس“ کانام دے رکھا تھا ۔ وہ کچھ کچھ جانی پہچانی لگتی تھی ۔
”میں مطمئن ہوں سر“اس نے آخر میں کہا۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔
” آپ نے مجھے پہچانا نہیں سر !“
” نہیں،کیوں !“
”جب میں اسکول چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہونے جا رہی تھی تو آپ نے مجھے اینو گو تک لفٹ دی تھی ۔“
” اوں، ہاں۔تمہیں وہ لڑکی ہو ۔ میں نے تمہیں واپس اسکول جانے کے لئے کہا تھا نا،کیوں کہ فوج میں لڑکیوں کی ضرورت نہیں ہے ، پھر کیا ہوا !“
” انھوں نے مجھے اسکول جانے کے لئے کہا یا ریڈ کراس میں بھرتی ہونے کا مشور ہ دیا ۔“
” دیکھا تم نے ، میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا ۔تب پھر تم یہاں کیا کر رہی ہو!“
” صرف سول ڈیفنس کے ساتھ تھوڑا سا ہاتھ بتا رہی ہوں ۔“
” چلو ٹھیک ہے ، یقیناً تم بہت ہی اچھی لڑکی ہو ۔“ وہی دن تھا جس دن اس نے سوچا تھا کہ انقلاب میں آخر کچھ ہے ۔ اس نے پہلے ہی لڑکیوں اور عورتوں کو مارچنگ اور مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ لیکن وہ ان کے بارے میں ٹھیک سے سوچ نہیں بنا پا یا تھا ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عورتیں اور لڑکیاں اپنے بارے میں سنجیدگی سے سوچتی تھیں، جو گلیوں میں چھڑیاں اٹھائے اور سروں پر اسٹیل ہیلمٹ کی جگہ سوپ کے کٹورے رکھے آگے پیچھے ڈرل کیا کرتی تھیں ۔ ان دنوں کا سب سے مشہور مذاق تھاوہ بیز جس کے پیچھے پیچھے مقامی اسکول کی لڑکیاں چلتی تھیں اور جس پر لکھا رہتا تھا ” وی آر امپریگینل!“
لیکن آفکا چیک پوائنٹ پر اس لڑکی کے ملاقات کے بعد وہ دوبارہ نہ تو لڑکیوں کا مذاق ہی اڑا سکااور نہ ہی انقلاب کی بات کی ، کیوں کہ اس لڑکی کے کام کرنے کے طریقے نے اور سادگی وخود اعتمادی نے اسے ایک دم چھچھورے بدن کا مجرم بنا دیا تھا ۔ کیا کہا تھا اس نے۔” ہم وہی کام کر رہے ہیں جو آپ لوگوں نے ہمیں سونپا ہے۔“اس نے میرے عہدے کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا جس نے ایک بار اس پر احسان بھی کیا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے والد کی تلاشی بھی اسی سختی سے لیتی۔
جب وہ تیسری بار ایک دوسرے کی راہوں سے گذرے تو اٹھارہ مہینے بیت گئے تھے اور حالات کافی خراب تھے ۔ موت اور بھکمری نے بیتے دنوں کی خود داری کو رفو کر دیا تھا ، اس کی جگہ مایوسی اور بد امنی نے لے لی تھی ۔ جس کی بنا پر ہر ضمیر مردہ ہو گئے تھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے وقت میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اکلوتی آرزو یہ تھی کہ زندگی میں بہترین سے بہترین چیزوں پر قبضہ جما لینا اور موج مستی کرنا۔ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ایک عجیب و غریب سی یکسانیت لوٹ آئی تھی ۔ سبھی چیک پوائنٹ غائب ہو گئے ۔ لڑکیاں پھر لڑکیاں بن گئیں اور لڑکے لڑکے ۔ زندگی خوف و دہشت سے بھری اور یاسیت زدہ ہو کر رہ گئی تھی۔ جس میں کچھ اچھائیاں تھیں ۔ کچھ برائیں اور ڈھیر ساری بہادری جو اس کہانی کے کرداروں سے پرے رفیوجی کیمپوں ، چیتھڑوں میں لپٹے ، گولی کے نشانے کے سامنے سینہ سپر، بھوکے ننگے لیکن با ہمت لوگوں میں دکھائی دیتی تھی ۔
ریگی نولڈ ناکوف ان دنوں اویری میں بود و باش اختیار کے ہوئے تھا ، لیکن اس دن وہ راشن کی تلاش میں نکوری گیا ہوا تھا ۔ اویری میں اسے کیریناس میں کچھ مچھلیاں ، ڈبہ بند گوشتاور گھٹیا امریکی اناج ، جسے کھاد نمبر دو کہتے تھے اور جو جانوروں کا چارہ تھا ۔ مل گیا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ کیتھولک نہ ہونے کی وجہ سے اسے کیریناس میں نقصان ہوتا تھا ۔ اس لئے وہ نکوری میں چاول ، بیسن اور گیبن گاری نامی ایک بہترین سیریل کی تلاش میں اپنے دوست کے پاس آیا تھا !جو ڈبلیو سی سی کا ایک ڈپو چلاتا تھا ۔
وہ اویری سے صبح چھ بجے ہی چل پڑا تھا تاکہ اپنے دوست کو ڈپو میں ہی پکڑ سکے ۔ جو ہوائی حملے کے ڈر سے ساڑھے آٹھ کے بعد وہاں ٹھہر تا نہیں تھا ۔ نانکوف کے لئے وہ دن خوش بختی والا تھا ۔ کچھ دن پہلے کئی جہازوں کے ایک ساتھ اچانک ایک ساتھ آ جانے کے سبب ڈپو میں ایک دن پہلے ہی رسد کا بہت بڑا اسٹاک آیا تھا ۔ جب اس کا ڈرائیور ٹن تھیلے اور کارٹن اس کی گاڑی میں لاد رہا تھا تو بھوکی بھیڑنے جو ہمیشہ ریلیف سینٹروں کے ارد گرد جمع رہتی تھی ، کئی بھپتیاں کسیں ۔ مثلاً ” وارکین کینٹینو“ جس کا مطلب ڈبلیو سی سی سے تھا ۔ کوئی اور چلایا ” ایرے ولو“
اس ے دوست نے جواب دیا ’ شم‘ ۔’ ایرے ولو‘ ۔”شم“
” ایسو ہیلی،’شم‘ ۔ ایسو ہیلی، ’ شم۔ممبا۔
نانکوف بے حد شرم محسوس ہوئی ۔ چیتھڑوں اور ننگی پسلیوں والی بھیڑ سے نہیں بلکہ ان کے بیمار جسموں سے اور التجا بھری آنکھوں سے ۔ اسے زیادہ برا محسوس ہوتا اگر وہ کچھ بھی نہ کہہ کرچپ چاپ اس کی گاڑی کے باٹ میں سے ، انڈے ، دودھ کا پاو¿ڈر ، دلیہ، گوشت اور مچھلی کے ڈبوں کو خاموشی سے لدتا ہوا دیکھتے رہے ۔ عمومی طور پرچاروں طرف پھیلی ہوئی مصیبتوں کے درمیان اس طرح کی خوش قسمتی پر شرم آنا لازمی تھا ۔ لیکن کوئی کیا کر سکتا تھا ۔ دور اوگبو قصبے میں موجود اس کی بیوی اور چار بچے مکمل طور پر اس کے ذریعے ارسال کئے گئے راحتی سامان پر انحصار کرتے تھے ۔ وہ انھیں کواشی خور جیسی جان لیوا بیماری کے منھ میں تو نہیں دھکیل سکتا تھا ۔وہ صرف اتنا کر سکتا تھا اور کر رہا تھا کہ جیب ہی اسے آج کی طرح اچھی ارسد مل جاتی تھی تو وہ اس کا کچھ حصہ اپنے ڈرائیور جانسن کے دے دیتا تھا ۔ جس کی بیوی اور چھ بچے تھے یا سات۔اور جس کی تنخواہ دس پاو¿نڈ ماہانہ تھی ۔بازار میں ’گاری‘ کی قیمت ایک پاو¿نڈی سگریٹ امن تک پہنچ گئی تھی ۔ ایسی حالت میں وہ بھیڑ کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنے پڑوسی کے لئے کچھ کر سکتا تھا ۔بس یہی کچھ۔
اومیری سے لوٹتے وقت سڑک کے کنارے کھڑی ایک خوبصورت لڑکی نے لفٹ مانگی۔ اس نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا ۔ چاروں طرف بیسیوں پیدل چلنے والے ۔ دھول سے سنے اور تھکے ماندے۔جن میں کچھ فوجی تھے اور کچھ پیوپلس۔گاڑی کی طرف دوڑے۔
” نہیں، نہیں، نہیں، مانکوف نے سختی سے کہا ۔” میں تو اس دوشیزہ کے لئے رکا ہوں ۔ میری گاڑی کا ٹائر خراب ہے اور میں صرف ایک ہی مسافر کو لے جا سکتا ہوں ۔سوری۔
” بیٹے پلیز۔“ ہینڈل پکڑتے ہوئے ایک مایوس بڑھیا نے کہا۔
” بڑھیا تو مرنا چاہتی ہے ؟“ ڈرائیور نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی ۔ مانکوف نے اب تک کتاب کھول لی تھی اور نظریں ان میں گڑا دی تھیں ۔ تقریباً ایک میل تک اس نے لڑکی کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ آخر لڑکی کو خاموشی گراں گذری ، اس نے خاموشی توڑی ۔” آپ نے مجھے بچالیا ۔شکریہ۔“
” اس میں شکریے کی کیا بات ہے ! کہاں جا رہی ہو؟“
” او میری ۔آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟“
” اوہ! ہاں ضرور …. میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں ۔ تم ؟“
” گلیڈس۔“
” ہاں ، ہاں…. فوجی لڑکی ۔گلیڈس تم بالکل بدل گئی ہو ۔ خوبصورت تو تم پہلے سے ہی نہیں ۔ لیکن اب تو تم روپ کی رانی لگتی ہو۔ کیا کتی ہو آج کل؟“
” میں آج کل فویل ڈاریکٹریٹ میں ہوں ۔“
” بہت اچھی بات ہے۔“
” اچھی بات تو ہے ، اس نے سوچا ، لیکن تکلیف دہ بھی ہے ۔ وہ ایک گہرے رنگ کا وگ پہنے ہوئے تھی ۔ قیمتی اسکرٹ اور لوکٹ کا بلاو¿ز ۔ اس کے جوتے ضرور گیبن سے آئے ہوں گے اور کافی قیمتی ہوں گے۔ کل ملا کر نانکوف نے سوچا ۔ اسے کسی امیر آدمی کی داشتہ ہونا چاہیے۔ ایسا آدمی جو جنگ سے پیسوں کے پہاڑ جا رہا ہوگا ۔
” میں نے آج نہیں لفٹ دے کر اپنا ایک اصول توڑا ہے ۔ آج کل میں لفٹ بالکل نہیں دیتا ۔
” کیوں؟“
” آخر میں کتنے لوگوں کو لے جا سکتا ہوں ؟ بہتر ہے کہ کوشش ہی مت کرو ۔ اسی بڑھیا کو ہی لو ۔“
” میں سوچ رہی تھی کہ آپ اس بڑھیا کو بٹھا لیں گے ۔“
یہ سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ خاموشی کے طویل وقفے کے بعد گلیڈس کو محسوس ہوا کہ وہ برا مان گیا ہے ۔ اسی لیے اس نے پھر خاموشی توڑی ۔
” میرے لیے اپنا اصول توڑنے کا شکریہ ۔“ وہ اس کے مڑے ہوئے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرر ہی تھی۔یہ سن کر وہ مسکرایا ۔ اپنا چہرہ اس کی جانب کیا ، اس کی گود میں ہلکی سی چٹکی لی اور پوچھا۔
” اومیری میںتم کیا کرنے جا رہی ہو؟“
” میں اپنی سہیلی سے ملنے جا رہی ہوں۔“
” سہیلی ؟ یقیناً؟“
” کیوں نہیں …. اگر آپ مجھے ا کے گھر تک چھوڑ دیں تو ا س سے مل بھی سکتے ہیں ۔ ب ایک ہی ڈر ہے کہ وہ کہیں ویک اینڈ ہر نہ نکل گئی ہو ۔ تب تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔“
” کیوں ؟“
” کیوں کہ اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو سڑک پر سونا پڑے گا ۔“
” میں تو دعا کر رہا تھا کہ وہ گھر پر نہ ہو ۔“
” کیوں؟“
”کیوں کہ اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو میں تمہیں شب گزاری اور ناشتے کی دعوت دے سکوں ۔“
” کیا ہوا ؟ اس نے ڈرائیور سے پوچھا ، جس نے اچانک گاڑی روک دی تھی ۔ جواب کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ سامنے کھڑی بھیڑ اوپر دیکھ رہی تھی ۔ تینوں گاڑی سے نکلتے ہی جھاڑیوںکی طرف بھاگے ۔ گردنیں آسمان کی جانب تنی ہوئی تھیں ۔ لیکن الارم غلط تھا ۔ آسمان اف اور بے آواز تھا ، صرف دو گدھ اونچی اڑان بھر رہے تھے ۔ نھیڑ میں سے ایک مسخرے نے ان کوفائٹر اور بمبار کا نام دے دیا ۔ یہ دیکھ کر سب چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ تینوں پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور سفر جاری ہو گیا۔
” ابھی ریڈرس کے لیے جلدی ہے۔“ اس نے گلیڈ سے کہا جواب بھی اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے ہوئے تھی، جیسے دل کی دھک دھک سن رہی ہو ۔” وہ دس بجے سے قبل نہیں آتے ہیں ۔“ لیکن گلیڈس مارے خوف کے بول نہیں پا رہی تھی ۔ نانکوف کو ایک موقع دکھائی دیا اور اس نے اس موقع کا فائدہ اٹھا لیا ۔
” تمہاری سہیلی کہاں رہتی ہے ؟“
” ۰۵۲ ڈگلس روڈ پر ۔“
”اوہ! وہ تو شہر کے درمیان میں ہے ، بہت ہی واہیات جگہ ہے۔ نہ خندق نہ کچھ اور۔ مین تمہیں وہاں شام چھ بجے سے پہلے جانے کا مشورہ نہیں دوں گا ۔ وہ جگہ محفوظ نہیں ہے ۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو تمہیں میں اپنے یہاں لے چلتا ہوں ۔ جیسے ہی چھ بجیں گے ۔ میں تمہیں تمہارے سہیلی کے یہاں چھوڑ آو¿ں گا ۔” ٹھیک ہے؟“
” ٹھیک ہے ۔“ اس نے بے جان سی آواز میں کہا ۔” مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔ اس لیے میں نے اومیری میں کام کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا ۔ جانے کس نے مجھے آج یہاں آنے کا مشورہ دیا تھا۔“
” کوئی بات نہیں ۔ ہمیں تو عادت ہو گئی ہے ۔“
” لیکن آپ کے ساتھ آپ کے افرادِ خانہ تو نہیں ہیں نا؟“
” نہیں “ اس نے کہا۔ کسی بھی خاندان کے افراد اس کے ساتھ نہیں ہیں ۔ کہتے ہم ہیں کہ اس کا سبب ایکر ریڈ س ، ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور ہے ۔ اومیری موج مستی کا شہر ہے اور ہم لوگ گھوڑوں کی طرح رہتے ہیں ۔“
” میں نے بھی کچھ ایسا ہی سنا ہے۔“
” سنا ہی نہیں ، تم آج دیکھو گی بھی۔ میں تمہیں آج ایک بہت ہی موج مستی بھری پارٹی میں لے جاو¿ں گا ۔ میرے ایک دوست کی آج سالگرہ ہے ۔ وہ لیفٹنٹ کرنل ہے ۔ اسی نے پارٹی نے رکھی ہے ۔ انھوں نے ساو¿نڈ اسمیزرس بینڈ کرایے پر حاصل کیا ہے ۔ مجھے پورا یقین ےہے کہ تمہیں خوب مزہ آئے گا ۔لیکن اسے ا بات پر شرم آئی ۔ اسے پارٹیوں سے بہت چڑ تھی ۔ جب کہ اس کے دوست خوب رنگ رلیاں مناتے تھے ۔ اور نانکوف یہ سب بات اس لیے کر رہا تھاکہ وہ گلیڈس کو اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا ۔ اور لڑکی بھی یعنی گلیڈس بھی ، جس کا ایک وقت تھا جنگ میں دارا یقین تھا اور جسے کسی نے دھوکا دیا تھا ۔دکھ بھرے انداز میں گلیڈس نے سر ہلالیا۔
” کیا ہوا !گلیڈس نے پوچھا۔
” کچھ نہیں ۔ یوں ہی کچھ سوچنے لگا تھا ۔ باقی سفر خاموشی میں طے ہوتا رہا ۔
گلیڈس بھی اس کے گھر میں اس قدر تیزی سے گھل مل گئی جیسا کہ وہ اس کی گرل فرینڈ ہو ۔اس نے گھریلو لباس زیب تن کیا اور اپنا بھڑک دار وگ اتار دیا ۔
”تمہارے بالوں کی سجاوٹ بہت اچھی ہے ۔ تم انھیں وگ میںکیوں چھپائے رکھتی ہو؟“
” شکریہ۔“ اس نے کچھ دیر تک اس کے سوال کا جواب دیا ہی نہیں ۔پھر کہا ۔” آدمی لوگ بھی مسخرے ہوتے ہیں ۔
” کیوں ؟“
” تم روپ کی رانی لگتی ہو ۔“ گلیڈس نے نانکوف کی نقل اتاری ۔
” اوہ“ وہ بات۔ میں تو اسے صد فیصد سچ جانتا ہوں ۔“ نانکوف نے یہ کہتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا اور اس کابوسہ لے لیا ۔ گلیڈس نے نہ تو اعتراض کیا اور نہ ہی پوری طرح اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا ۔ شروعات کے لیے نانکوف کو یہ انداز اچھا لگا۔ان دنوں بہت سی لڑکیاں آسانی سے خود سپردگی کر دیتی ہیں ۔ کچھ لوگوں نے اسے ” بیماری¿ جنگ“ کا نام دے دیا تھا ۔
کچھ دیر وہ اپنے دفتر حاضری لگانے گیا اور وہ باورچی خانہ میں لنیچ کے لیے نوکر کی مدد کرنے گلی ۔ اس نے صرف حاضری ہی لگائی ہو گی ، کیوں کہ وہ آدھے گھنٹے میں ہی لوٹ آیا ۔ ہاتھ ملتے ہوئے بولا کہ وہ اپنے گلیڈس سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا ۔
جب و لنچ کر رہے تھے تو وہ بولی۔” تمہارے فریج میں تو کچھ بھی نہیں ہے !“
” مثلاً !“ اس نے برا مانتے ہوئے پوچھا ۔
” مثلاً گوشت“اس نے بلا جھجھک جواب دیا ۔
” تم اب بھی گوشت کھاتی ہو !“ اس نے سوال کیا۔
میں بھلا کون ہوتی ہوں۔لیکن آپ جیسے بڑے لوگ کھاتے ہیں ۔
” مجھے پتہ نہیں ت،م کتنے بڑے لوگوں کی بات کر رہی ہو ۔ لیکن وہ میرے جیسے نہیں ہیں ۔ میں نہ تو دشمن سے کار و بار کر کے پیسہ بناتا ہوں اور نہ یہی راحت کا سامان بیچ کر یا ….“
”آگسٹا کا بوائے فرینڈ یہ سب نہیں کرتا ، اسے صرف بیرونی کرنسی ملتی ہے ۔“
” کیسے ملتی ہے ؟ وہ سر کار وکو دھوکا دیتا ہے ۔ایسی ملتی ہے بیرونی کرنسی۔“
” چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔ویسے یہ آگسٹا کون ہے ؟“
” میری سہیلی۔“
” اوہ!“
” پچھلی بار اس نے مجھے تین ڈالر دیے تھے ۔ جن میں میںنے بیلاس پاو¿نڈ میں بدل لیا ۔ ا آدمی نے؟ آگسٹا کو پچاس ڈالر دیے تھے ۔
خیر میری پیاری ، میں بیرونی کرنسی کی بھی دلالی نہیں کرتا اور میرے فریج میں گوشت بھی نہیں ہے ۔ ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں ، اور مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ فرنٹ پر ہمارے کچھ نوجوان تین تیج دن میں ایک بار جَو کا پانی پی کر لڑ رہے ہیں ۔“
” یہ تو ٹھیک ہے ۔ اندھا پیے، کتا کھائے ۔“
” بات یہ بھی نہیں ہے ، اس سے بھی بری ہے ۔ “اس نے کہا۔ غصے سے اس کی زبان لڑ کھڑانے لگی تھی ۔
” لوگ ہر روز مارے جا رہے ہیں ۔ اس وقت جب ہم تم بات کر رہے ہیں، اس وقت بھی کوئی مارا جا رہا ہے ۔
” یہ تو ٹھیک ہے ۔“ اس نے کہا۔
” ہوائی جہاز !“‘ لڑکا باورچی خانے سے چلا یا۔
” اوہ ماں۔“ گلیڈس چلائی ۔ جیسے ہی وہ پام کے پتوں اور لال مٹی سے بنی خندق کی اور سر پر ہاتھ رکھ کر ’ بدن جھکائے ہوئے دوڑی‘ آسمان جیٹ طیاروں اور طیاروں کو نشانہ بناتی ہوئی ملکی توپوں کی گرج سے پھٹ پڑا۔
خندق میں ، طیاروں کے چلے جانے کے بعد اور دیر سے شروع ہوئی توپوں کی گھن گرج ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ اس سے چپکی رہی ۔ وہ جہاز تو صرف اوپر سے گزر رہا تھا ۔ نانکوف نے کہا ۔
آوازیں کانپ سی رہی تھی۔ اس نے کچھ بھی نہیں گرایا ۔ اس کی سمت سے لگ رہا تھا کہ لڑائی کے مورچے پر جا رہا ہے ۔ شاید ہمارے فوجی ان پر دباو¿ ڈال رہے ہیں ۔ اس لیے وہ ایسا کرتے ہیں ۔ جب بھی ہمارے فوجی دباو¿ ڈالتے ہیں وہ روسیوں اور ھَر کو ہوائی جہازوں کے لیے ایس او ایس بھیج دیتے ہیں ۔ اس نےلمبی سانس لی ۔
اس نے کچھ بھی نہیں کہا ۔صرف اس سے چپکی رہی ۔ وہ ہنستے رہے۔ ان کا نوکر ساتھ والے گھر کے نوکر کو بتلا رہا تھا کہ وہ دو تھے۔ ایک نے یوں ڈائی ماری اور دوسرے نے یوں۔
” ہم بھی اچھی طرح دیکھ رہے ہیں“ دوسرے نے اتنے ہی پر جوش انداز میں کہا ۔ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن ان مشینوں سے لوگوں کا مرنا دیکھنے میں اچھا لگے نا!’ خدا کی قسم‘
” سوچو! “ آخر کار گلیڈس نے زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا ۔ نانکوف نے سوچا وہ چند لفظوں میں ہی یا صرف ایک ہی لفظ سے معنی کی کئی پرتوں کو اتار سکتی تھی ۔ اس ایک لفظ میں ’ سوچو‘ حیرت ، تنقید، اور شاید ان لوگوں کے لیے ایک طرح کی حوصلہ افزائی بھی پوشیدہ تھی جو موت کے ہر کاروں کے بارے میں بھی مذاق کر سکتے تھے ۔
” ڈرو مت۔“ اس نے کہا ۔ وہ اس کے مزید قریب آگئی اور وہ اس کے بوسے لینے لگا ۔ وہ دھیرے دھیرے کھلنے لگیاور پھر پوری طرح کھل گئی ۔ خندق میں اندھیرا تھا ۔وہاں جھاڑو بھی نہیں لگی تھی اور اس میں کیڑے پتنگے ہو سکتے تھے ۔ اس نے گھر میں سے چٹائی لانے کے بارے میں سوچا ۔ پھر خیال چھوڑ دیا ۔ اور کوئی ہوائی جہاز آسکتا تھا ۔ پروسی یا کوئی اور راہ گیر ان کے اوپر گر سکتا تھا ۔ یہ تو تقریباً ویسی ہی حالت ہو گئی جس میں لوگوں نے ہوائی حملے کے وقت دن دھاڑے ایک آدمی کو ننگ دھڑنگاپنے بیڈروم سے نکل کر دوڑتے ہوئے دیکھا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے اس حالت میں ایک عورت بھی تھی۔
جیسا کہ گلیڈس کو ڈر تھا۔ اس کی سہیلی گھر پر نہیں تھی ۔ لگتا تھا کہ ا کے با اثر دوست نے لبرول میں خریداری کے لیے اس کے پیچھے ہوائی جہاز میں ایک سیٹ حاصل کرلی تھی ۔ کم از کم پڑوسیوں کا یہی اندازہ تھا ۔
” کمال ہے “ نانکوف نے واپسی پر کہا ۔” وہ لراکا طیارے جوتوں ، وگوں، پینٹوں، برا، کاسٹیمک،اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے لدی پھندی لوٹے گی۔جنھیں پھر وہ ہزاروں پاو¿نڈ کی قیمت پر فروخت کر دے گی ۔ تم لڑکیاں سچ مچ جنگ پر ہو ۔نہیں !“
وہ کچھ نہیں بولی اور اسے لگا کہ آخر کاروہ اسے جھنجھوڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن اچانک وہ بولی ۔” تم مرد تو چاہتے ہو کہ ہم سب یہی کچھ کریں ۔“
” خیر“ اس نے کہا ۔” میں ایک ایسا مرد ہوں جو نہیں چاہتاکہ تم یہ سب کرو ۔ تمہیں خاکی جنس میں وہ لڑکی یاد ہے جس نے بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیک پوائنٹ پر میری تلاشی لی تھی ؟“
یہ سن کر وہ ہنسنے لگی۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم پھر سے وہی لڑکی بن جاو¿ ۔ تمہیں یاد ہے!“ کوئی وگ نہیں اور جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی اسٹرنگ کانوں میں نہیں ….“
” دیکھو“جھوٹ نہیں …. میں نے اسٹرنگ پہن رکھے تھے۔“
” چلو ٹھیک ہے ۔ لیکن میری بات سمجھ میں آئی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔
” وہ وقت ہوا ہوا ۔اب تو سب بچنا چاہتے ہیں اسے کہتے ہیں نمبر چھ۔تم اپنا نمبر ہی نکالومیں اپنا نمبر چھ نکالتی ہوں ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک۔
لیفٹنٹ کرنل کی پارٹی میں ایک عجیب سی بات ہو گئی ۔ لیکن ا کے ہونے سے پہلے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ بکرے کا گوشت، مرغ اور چاول اور ڈھیر ساری دیشی شراب ، جس میں سے ایک کا نام انھوں نے ٹریسر رکھ چھوڑا تھا ، کیوں کہ وہ حلق کو جلاتی ہوئی نیچے اترتی تھی۔ مذاق کی بات تو یہ تھی کہ بوتل میں دیکھنے پروہ نارنگی کے رنگ جیسی سیدھی سادی لگتی تھی ۔ لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے ہنگامہ کھڑا کیا وہ ۔ تھی ڈبل روٹی۔اصلی۔بینڈ بھی اچھا اور لڑکیاں بھی بہت سی تھیں ۔ ماحول کو اور بھی بہتر بنانے کے لئے دو گورے آنکلے جو ریڈ کراس میں تھے۔ ساتھ میں لائے وہ ایک بوتل کو ریزرو کی اور ایک اسکاچ کی ۔ پارٹی میں موجود افراد نے پہلے تو ان کا کھڑے ہو کر خیر مقدم کیا اور پھر سبھی دوڑے ایک ایک گھونٹ پانے کے لئے ۔ کچھ دیر بعد ایک گورے کے برتاو¿ سے لگاکہ اس نے پہلے سے ہی کافی پی رکھی تھی۔جس کا سبب شاید یہ تھا کہ گزشتہ رات ایک پائلٹ جسے وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ خراب موسم میں راحت کا سامان لاتے وقت ائیر پورٹ پر ہوائی حادثہ کا شکار ہو گیا تھا ۔
پارٹی میں اس وقت تک کم لوگوں نے ہی اس حادثہ کے بارے میں سنا تھا۔ اس بے ماحول پر فوراً مردنی سی چھا گئی ۔ رقص کرتے ہوئے کچھ جوڑے واپس اپنی اپنی سیٹوں پر چلے گئے اور بینڈ بجنا بند ہو گیا ۔ تب اچانک ہی ریڈ کراس والا آدمی گرج اٹھا ۔ایک آدمی نے ’[ شریف آدمی نے“ کیوں اپنی جان دے دی ۔ بے کار میں۔چاری کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس بے کار جگہ کے لئے تو بالکل نہیں ۔یہاں ہر چیز سے تعفن اٹھتا ہے ۔یہ لڑکیاں بھی جو بن سنور کر ، مسکراتی ہوئی یہاں آئی ہیں ۔ کسی کام کی نہیں ہیں ۔ مچھلی کا ایک ٹکڑا ۔ یا ایک امریکی ڈالر…. بس اور یہ ہم بستری کے لئے راضی ہو جاتی ہیں ۔“
ابال کے بعد پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک نوجوان افسر اس کے پاس گیا اور اسے تین طمانچے جڑ دیے ۔
دائیں بائیں…. اسے سیٹ سے اٹھا لیا ( اس کیآنکھوں میں آنسوو¿ں جیسا کچھ تھا ) اور باہر دھکیل دیا ۔ اس کا دوست بھی جس نے اسے خاموش کرانے کی کوشش کی تھی ۔ پیچھے پیچھے باہر چلا گیا ۔ ساکت پارٹی میں ان کی کار کے جانے کی آواز صاف طور پر سنائی دی ۔ افسر جس نے طمانچے جڑے تھے ۔ ہاتھ جھاڑتا ہوا اپنی سیٹ پر واپس آگیا۔
” سالا بے وقوف!“ اس نے رتعب دار آواز میں کہا ۔ سبھی لڑکیوں نے اپنی نظروں سے اسے احساس کرا دیا کہ وہ اسے مرد اور ہیرو سمجھتی ہیں۔
” آپ اسے جانتی ہیں !“ گلیڈس نے نانکوف سے پوچھا ۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ بلکہ ساری پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا” وہ پئے ہوئے تھا ۔“
” مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ۔“افسر نے کہا ۔ جیسا آدمی نشے میں ہوتا ہے تبھی وہ کہتا ہے جو اس کے دل میں ہوتا ہے۔“
” تو تم نے اس بات کے لیے پیٹا جو اس کے من میں تھی ۔“ میزبان نے کہا ۔
” ایسے ہی احساسات ہونے چاہئیں۔جو….“
” شکریہ جناب ۔ جو نے سیلوٹ کرتے ہوئے کہا ۔
” تو اس کا نا م جو ہے۔“ گلیڈس اور اس کی بائیں طرف بیٹھی لڑکی نے ایک دوسرے کی جانب مڑتے ہوئے ایک ساتھ کہا ۔
اس وقت نانکوف اور دوسری جانب بیٹھا ایک دوست ایک دوسرے سے دبی زبان میں ، بہت ہی دبی زبان میں کہہ رہے تھے کہ حالاں کہ وہ آدمی بد دماغ اور بے ہودہ تھا ، لیکن لڑکیوں کے بارے میںاس نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ بد قسمتی سے کڑوا سچ تھا ۔ صرف کہنے والا آدمی غلط تھا ۔
جب ڈانس دوبارہ شروع ہوا تو کیپٹن جو گلیڈس کے پاس آیا اور ڈانس کے لیے کہا ۔ اس کے منھ سے الفاظ نکلنے سے قبل ہی وہ کود کر کھڑی ہو گئی ۔ تب اسے اچانک یاد آیا ، وہ مڑی اور اس نے نانکوف سے اجازت مانگی ۔ ساتھ ہی کیپٹن نے بھی مڑ کر کہا ۔” معاف کیجئے۔“
” جائیے ،جائیے“ نانکوف نے دونوں کے درمیان کہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔
ڈائس دیر تک چلا اور وہ بنا بتائے انھیں دیکھتا رہا ۔ کبھی کبھی اوپر سے رسد کا ہوائی جہاز گزرتا تو کوئی یہ کہہ کر بتی گل کردیتاکہ کہیں دشمن کا جہاز نہ ہو ۔ لیکن اصل میں تو یہ اندھیرے میں رقص کرنے کا اور لڑکیوں کو گدگدانے کا بہانہ تھا کیوں کہ دشمن کے ہوائی جہازوں کیآواز تو خوب جانی پہچانی تھی۔
گلیڈس جب واپس آئی تو بہت خوف زدہ تھی اور اس نے نانکوف کو اپنے ساتھ رقص کرنے کی درخواست کی ۔ لیکن اس نے منع کردیا ۔” میری پراہ مت کرو ۔“ میں تو یہاں بیٹھ کر تم لوگوں کو رقص کرتا دیکھ کرمزے لے رہا ہوں۔“
” تو پھر چلیے۔“ گلیڈس نے کہا ۔” اگر آپ رقص نہیں کریں گے ۔“
” لیکن میں تو کبھی رقص نہیںکرتا۔ یقین کرو۔ جاو¿ مزے کرو۔“
اس نے اگلا رقص لیفٹنٹ کرنل کے ساتھ کہا اور پھر کیپٹن جوکے ساتھ ۔ اس کے بعد نانکوف اسے گھر لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا ۔” مجھے افسوس ہے کہ رقص نہیں کرتا۔“ اس نے کار میں بیٹھتے وقت کہا ۔ لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک یہ جنگ جاری رہے گی میں رقص نہیںکروں گا۔“
گلیڈس نے کچھ نہیں کہا ۔
” میں اس پائلٹ جیسے آدمی کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو کل رات مارا گیا ۔ اس کا تو اس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ تو ہمارے لیے رسد….“
” مجھے امید ہے کہ اس کا دوست اس جیسا نہیں ہوگا ۔“ گلیڈس نے کہا۔
وہ تو اپنے دوست کے سبب اکھڑا ہوا تھا ۔ لیکن میں تو یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جب اس جیسے لوگ مارے جا رہے ہوں ۔ جب مورچے پر ہمارے نوجوان مارے جا رہے ہوں ۔تو ہم لوگوں کو چپ چاپ بیٹھے رہنا اورپارٹیاں کرنا یا رقص کرنا کتنا معقول ہے۔
” لیکن آپ ہی تو مجھے وہاں لے گئے تھے ۔“ آخر میں گلیڈس نے اس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا __” وہ تو آپ ہی کے دوست ہیں ۔ میں تو انھیں جانتی بھی نہیں تھی۔“
دیکھو،میری پیاری گلیڈس ۔ میں تمہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا ہوں ۔ میں تو تمہیں صرف یہ بتلا رہا ہوںکہ میں رقص کیوں نہیںکرتا۔ خیر چھوڑو! کچھ اور بات کریں …. تم اب بھی کل ہی واپس جانے پر آمادہ ہو ! میرا ڈرائیور تمہیں پیر کی صبح کام پر ، وقت پر پہنچا سکتا ہے ۔ نہیں ؟ چلو ، جیسی تمہاری مرضی ۔ تم خود کی مالک ہو۔“
جس آسانی سے وہ اس کے بستر پر چلی آئی اور جس زبان کا اس نے استعما ل کیا وہ سن کر حیرت زدہ تھا ۔
” بمباری کرنا چاہتے ہو!“ اس نے پوچھا ۔ اور جواب کا انتطار کیے بنا بولی ” شروع کرو“ لیکن اپنے سیلوی انداز میں چھوڑنا۔“
ایک بات تو ایک دم صاف تھی ۔ وہ کسی فوجی افسر کی داشتہ تھی ۔ دو برس میں کتنا فرق آگیا تھا ۔ یہی کیا کم کمال تھا کہ اسے ابھی تک اپنی پہلی زندگی یاد تھی ، اپنا نام یاد تھا؟ اگر مشنری ریڈ کراس والا قصہ دوبارہ ہوا۔ اس نے سوچا تو وہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔ ساری پارٹی کو بتلا دے گا کہ وہ آدمی کتنا سچا ہے ۔ ساری کی ساری پیڑھی کو ہو کیا گیا ہے ؟ کیا یہی ہے کل کی مائیں ؟
لیکن صبح ہوتے ہوئے وہ بہتر محسوس کر رہا تھااور اس کی رائے میں بھی تازگی آ گئی تھی ۔ اس نے سوچا کہ گلیڈس تو اس سماج کا ایک چھوٹا سا عکس ہے ، جو پوری طرح سڑ گل چکا ہے اور اس میں کیڑے رینگ رہے ہیں ۔ لیکن آئین سالم ہے صرف تھوڑی سی گرد جم گئی ہے ۔ ضرورت ہے تو ایک صاف شفاف کپڑے کی ۔ ”گلیڈس کے لیے بھی میرا کچھ فرض بنتا ہے۔“اس نے خود سے کہا ۔” وہ چھوٹی سی لڑکی ، جس نے ایک دن مجھے آنے والے خطرات کااحساس کرایا تھا ، اب بذات خود خطرے میں ہے ۔ کچھ خطرناک اثر پڑ رہا ہے اس پر۔
وہ اس خطرناک اثر کی جڑ تک جانا چاہتا تھا ۔ وہ اثر صرف اس کی اچھے دنوں کی دوست آگسٹا…. یا جو کچھ بھی اس کا نام رہاہو ، کا نہیں تھا اس کی تہہ میں ضرور کوئی آدمی ہوگا ۔ شاید ان بے رحم بیور پاریوں میں سے ایک جو بیرونی کرنسی کی چوری کرتے ہیں اور نوجوانوںکی زندگیوں کو خطروںمیں ڈال کر انھیں دشمنوں کی سرحد کے پار بھیجتے ہیں تاکہ اسمگلنگ کی چیزوں کو سگریٹوں میں بدل کر کروڑوں کمائیں۔ یا پھر ان ٹھیکیداروں میں سے ہوگاجو فوج کو بھیجی جانے والے رسد کی چوری کر کے پیسوں کا پہاڑ بنا رہے ہیں ۔ یا شاید کوئی بزدل فوجی افسر جو بیرکوں کے گندےفقرے اور بہادری کے جھوٹے قصوں سے بھرا ہوا ہوگا ۔ اس نے گلیڈس کو ڈرائیور کے ساتھ اکیلے ہی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن نہیں،وہ خود جائے گا اور دیکھے گا کہ وہ کہاں رہتی ہے َ کچھ نہ کچھ ضرور سامنے آئے گا ۔ اسی پر وہ گلیڈس کو بچانے کا منصوبہ بنائے گا ۔ جیسے جیسے وہ اس ہڑپ کی تیاری کرنے لگا ، ہر پل گلیڈس کے متعلقوہ بہتر انداز میں سوچنے لگا ۔ اس نے ایک دن پہلے ریلف سنیٹر سے ملے راشن کارڈ کا آدھا حصہ اس کے لیے الگ کر دیا۔ حالاں کہ حالات خراب تھے ، لیکن اس نے سوچا تھا کہ جس لڑکی کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہوگا وہ کم للچائے گی ۔ وہ ڈبلیو سی سی میں اپنے دوست سے ہر ہفتے اس کے لیے کچھ نہ کچھ دینے کی بات کرے گا۔
تحفے دیکھ کر گلیڈس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ نانکوف کے پاس پیسے زیادہ نہیں تھے ، لیکن اس نے جوڑ کر بیس پاو¿نڈ بھی اسے تھما دیے۔
” میرے پاس بیرونی کرنسی تو نہیںہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتے ، لیکن…. “
وہ دوڑکر آئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی ۔ اس نے اس کے لبوں پر بوسہ لیا اور آنکھوںکو چوم لیا اور مصیبت زدہ لوگوں کے بارے میں کچھ بد بدایا ، جسے وہ سمجھ نہ پائی ۔ نانکوف نے سوچا کہ میرے سبب ہی اس نے اپنا وگ اتار کر بیگ میں رکھ لیا ہے۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو ِ“ اس نے کہا ۔
” کیا؟“
” بمباری والے الفاظ اب تم کبھی استعمال نہیں کروگی۔“
بھگی آنکھوں سے وہ مسکرائی ۔” تمہیں پسند نہیں ہے نا۔“ لیکن سبھی لڑکیاں ایسے ہی کہتی ہیں ۔“
” خیر تم دوسری لڑکیوںسے الگ ہو ۔ وعدہ کروگی نا!“
” اچھا!“
انھیں نکلنے میں دیر ہو گئی تھی ۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا ۔ انجن میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے بعد ڈرائیور نے کہا کہ بیٹری ڈاو¿ن ہو گئی ہے ۔ نانکوف حیران ہو گیا ۔ اسی ہفتے اس نے دو سیل بدلنے کے لیے جو تیس پاو¿نڈ خرچ کیے تھے اور بیٹری بدلنے والے مکینک نے کہا تھا کہ یہ چھ ماہ تک چلے گی ۔ نئی بیٹری خریدنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا، کیوں کہ اس کی قیمت دو سو پچاس پاو¿نڈ تک جا پہنچی تھی ۔ ضرور ڈرائیور نے کوئی لا پرواہی دکھائی ہوگی ، اس نے سوچا ۔
” یہ کل رات ہوا ہو گا۔“ ڈرائیور نے کہا۔
” کل رات کیا ہوا تھا؟“ نانکوف نے غصے سے پوچھا ، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ بد تمیزی کی حد ہو گئی ہے ، لیکن ڈرائیور کا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا ۔
” کیوں کہ ہم ہیڈ لائیٹس استعمال رہے تھے ۔
”تو کیا ہم سے امید کی جاتی ہے کہ ہم لائٹس نہ جلائیں ؟ جاو¿ ، دھکا لگوانے کے لیے کچھ آدمی لے آو¿“
وہ گلیڈس کے ساتھ باہر نکل کر گھر میں واپس چلا آیا اور ڈرائیور پڑوس کے گھروںمیں دوسرے نوکروں کو مدد کے لیے ڈھونڈنے نکلا۔سڑک پر آدھا گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کے بعدیا دھکا لگانے والوں کے زور و شور سے چلانے کے بعد گاڑی میں جان واپس آئی اور ایکزاسٹ سے دھویں کے کالے بادل نکلنے لگے__
جب وہ چلے تو اس کی گھڑی میں ساڑھے آٹھ بجے تھے ۔ کچھ میل دور ایک اپاہج سپاہی نے لفٹ کے لیے ہاتھ کا اشارہ کیا ۔
” روکو! “ نانکوف چلایا ۔ ڈرائیور نے بریک پراپنا پورا زور لگا دیا اور پھر حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔
” تم نے اس سپاہی کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ واپس چلو اور اسے بٹھاو¿۔“
” معاف کیجئے سر ۔“ ڈرائیور نے کہا ۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ صاحب لفٹ دینے والے ہیں ۔“
”اگر معلوم نہیں تھا تو پوچھو۔ گاڑی واپس لو۔“
سپاہی، جو کہ نوجوان تھا ، پسینے سے شرابور، جیکٹ سی خاکی وردی پہنے تھا اور گھٹنے سے نیچے اس کی ٹانگ غائب تھی ۔ یہ جان کر کہ کار اس کے لیے رکی تھی وہ صرف احسامند ہی نہیں بلکہ حیرت زدہ بھی تھا ۔ اس نے پہلے لڑکی کو اپنی گھٹیا سی بیساکھیاں پکرائیں ، جنھیں ڈرائیور نے آگے دونوں سیٹوں کے بیچ ٹکا دیا، پھر وہ خود اندر بیٹھ گیا۔
” شکریہ سر!، اس نے گردن پیچھے گھماتے ہوئے کہا ۔ اس کی سانس بری طرح پھول رہی تھی ۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں میڈم!“
” خوشی تو ہمیں ہے ۔“ نانکوف نے کہا ۔” یہ گھاو¿ کہاں لگا۔؟“
” اجومنی پر، سر ! د جنوری کو ۔“
کوئی بات نہیں ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ہمیں بے حد فخر ہے تم نوجوانوں پر ۔ سب ختم ہو جانے پر تم لوگوں کو مناسب میڈل ملیں گے ۔یہ ہم یقین دلاتے ہیں۔“
” میں خدا سے آپ کے لیے دعا کروں گا سر!“
اگلے گھنٹے تک وہ خاموش رہے جیسے ہی گاڑی ایک پل کی طرف ڈھلوان سے اتری ، کوئی چلایا ، شاید ڈرائیور یا سپاہی ،” وہ آگے!۔“ بریک کی آواز چیخوں اور آسمان پھٹنے کی آواز میں گھل گئی ۔ گاڑی کے رکنے سے پہلے ہی دروازے کھل گئے اور وہ ادھا دھند جھاڑیوں کی جانب دوڑنے لگے ۔ گلیڈس ناناکوف سے آگے تھی ۔ تب اس شور شرابے میں انھوںنے سپاہی کے چیخنے کی آواز سنی ۔” یہاں آکر میرے لیے دروازہ کھولو !“ اسے گلیڈس کے رکنے کا احساس ہوا اور پھر وہ اس سے آگے نکل گیا ۔ اس نے گلیڈس کودوڑتے رہنے کا مشورہ دیا ۔ تبھی اس ماحول میں ایک اونچی سیٹی کی آواز برچھے کی طرح نیچے گری ، زور کی ہلچل کے ساتھ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور سب کچھ تتر بتر ہو گیا ۔ جس پیڑ سے وہ لگا کھڑا تھا ، وہ دور جھاڑیوں میں جا گرا ۔ پھر مزید ایک بھیانک سیٹی کی آواز اور آس پاس وہی توڑ پھوڑ ، ایک اور …. اور اس کے بعد نانکوف کو کچھ سنائی نہیں دیا۔
وہ اٹھا تو چاروں طرف رونے چلانے، چیخنے کی آوازیں تھیں ، دھواں تھا، بدبو اور چراند کا ماحول تھا۔ اس نے خود کو گھسیٹااور ان آوازوں کی طرف چل پرا۔
دور سے اس نے آنسوو¿ں اور خون سے لت پت ڈرائیور کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا ۔ پھر اس کی اپنی گاڑی کے پرخچوں اور لڑکی اور سپاہی کی گڈ مڈ لاشوںکی اور گئی …. اور وہ چلّا کرڈیہہ گیا۔

٭٭٭

انگریزی سے ترجمہ: قاسم ندیم