Firaq Gorakhpuri ki Tanqeed Nigari by Qamar Siddiqui

Articles

فراق کی تنقید نگاری

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

فراق گورکھپوری نے تنقید کے دو مجموعے ”اندازے“ اور ”حاشیے“ اور اردو کی عشقیہ شاعری پر ایک کتابچہ یادگار چھوڑے ہیں ۔ ان میں ’اندازے‘ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے میں کل دس مضامین ہیں جس میں پانچ غزل یا غزل گو شعرا سے متعلق ہے۔ در اصل فراق کی تنقید اکثر و بیشتر اردو غزل کے آس پاس ہی رہی ہے۔ انھوں نے دہلی اور لکھنو¿ اسکول، داخلیت اور خارجیت، زمینوں کے انتخاب اور مطلعوں کی موزونیت کے علاوہ ریاض، مصحفی ، ذوق اور حالی وغیرہ کی شاعری کا فنی و تشریحی جائزہ پیش کیا ہے۔
’اندازے‘ کے دیباچے میں فراق گورکھپوری نے جس طرح روایت سے وابستگی اور ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے ترقی پسند ادب کی تحسین کی ہے وہ ان کے تنقیدی مسلک کی غمازی کرتا ہے۔ دیباچے میں انھوں نے بالکل تاثراتی انداز اپناتے ہوئے ادب اور تنقید میں میانہ روی کو مقدم گردانا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:
” خوش نصیب ہیں نئی نسل والوں میں اور نئے ادب کے قدر شناسوں میں وہ لوگ جو پرانی غزلوں کے سمندر میں ڈوب کر ایسے ایسے موتی نکال لائے ہیں جن کی آب و تاب کو وقت دھندلا نہیں سکا۔ اقبال، اکبر، جوش، مجاز، زیدی اور جذبی اور ہماری نئی شاعری کے کئی اور نمائندے ہماری قدیم شاعری سے کم مستفید نہیں ہیں۔ لیکن نثر نگاروں، شاعروں اور پڑھنے والوں کی نئی نسل عجلت اور سہل پسندی کی غالباً شکار ہوئی ہے اور قدیم ادب سے منہ موڑ چکی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پرانی شاعری میں بھی بہت نئی چیزیں ہیں۔ تسلسل تاریخِ انسانی اور تاریخِ ادب کا اٹل قانون ہے۔ ماضی سے بے خبری ترقی پسندی نہیں ہے ، نہ ماضی کی قدر شناسی رجعت پسندی اور قدامت پسندی ہے۔“
فراق کی تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات بہت واضح ہیں۔ حالانکہ انھوں نے جس زمانے میں تنقید نگاری کا آغاز کیا اس وقت ناقدین کی اکثریت کا مغربی ادب کا مطالعہ زیادہ گہرا نہ تھا۔ فراق کے بیشتر معاصرین فکری طور پر آزاد، حالی اور شبلی کا تتبع کررہے تھے اور ان کی تحریروں میں اِنھیں قد آور شخصیات کا پرتو نظر آتا ہے۔ فراق نے اپنے معاصرین کے برخلاف مغربی افکار و نظریات سے استفادے پر زور دیا۔ اس ضمن میں خود فراق گورکھپوری نے تحریرکیا ہے کہ:
” میرے مذاقِ تنقید پر دو چیزوں کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔ ایک تو خود میرے وجدانِ شعری کا ، دوسرے یورپین ادب اور تنقید کے مطالعے کا۔ مجھے اردو شعرا کو اس طرح سمجھنے سمجھانے میں بڑا لطف آتا ہے، جس طرح یورپین نقاد یورپین شعرا کو سمجھاتے ہیں۔ “
مغربی تنقید سے استفادے کے اس اعتراف میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ فراق نے مغربی تنقید کے کس دبستان کا تتبع کیا ہے۔ فراق کی تنقیدی تحریروں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کا رجحان تاثراتی تنقید کی طرف ہے۔ محولہ بالا پیراگراف میں ”وجدانِ شعری“ کی ترکیب بھی اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے۔ ”وجدان“ ایک خوبصورت مگر پر اسرار لفظ ہے اور معنی سے گریز پائی اس لفظ کا خاصہ ہے۔ کیونکہ شاعر کا وجدان اور نقاد کا وجدان دو الگ الگ ذہنی وقوعے ہیں البتہ اس کے استعمال میں آسانی یہ ہوتی ہے کہ نقاد مختلف نوع موشگافیوں کی مشقت سے بچ جاتا ہے۔ چنانچہ اردو میں وجدان تاثراتی نقادوں کا مخصوص Toolہے اور مہدی افادی سے لے کر عبد الرحمن بجنوری اور فراق گورکھپوری تک لگ بھگ تمام تاثراتی نقاد وجدان کے میزان سے شعر کو تولتے نظر آتے ہیں۔ فراق کے مجموعے ’اندازے‘ سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
” مصحفی کی انفرادیت وجدانی سطح پر اپنا کام کرتی ہے۔“
” غم آمیز وجدان میں تنوع کے اتنے امکانات نہیں ہوتے جتنے نشاط آمیز وجدان میں ہوتے ہیں۔“
کتاب میں اس نوع کے تاثراتی جملے جگہ جگہ نظر آجاتے ہیں۔ تاثراتی تنقید اپنی اسی محدودیت کی وجہ سے بیشتر محاسنِ شعری کے بیان تک محدود رہتی ہے یا اپنی ارفع صورت میں بھی یہ تشریح و توضیح سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔
تاثراتی تنقید کے مغربی اصولوں کے مطابق مواد اور ہیئت پر توجہ دیئے بغیر صرف ادیب کی شخصیت کی بنیاد پر فن پارے کے حسن و قبح کا فیصلہ کرنا تاثراتی تنقید کہلاتا ہے۔ اس ضمن میں تاثراتی تنقید کے نظریہ ساز والٹر پیٹر کی رائے بھی ملاحظہ فرمالیں؛ ”تنقید نگار کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ فن پارے کو اس کے اصلی روپ میں دیکھے اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کردے۔“ علاوہ ازیں یورپ میں تاثراتی نقادوں کا خیال تھا کہ کسی ادبی تخلیق کے مطالعے سے نقاد کے دل و دماغ اور اس کے شعور پر جو تاثرات مرتب ہوتے ہیں ، انھیں لفظوں میں سمودیا جائے اور یہی حقیقی تنقید ہے۔ مغرب میں تاثراتی تنقید کی یہ تحریک جے ۔ای اسپنگر کے خیالات سے متاثر رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ داخلیت اور جذباتی و تاثراتی سطح ہی تنقید کا صحیح معیار ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ:
” کسی فن پارے کو دیکھ کر جو جذبات و احساسات دل پر طاری ہوتے ہوں ان کو ہو بہو بیان کردینا تاثراتی دبستان سے تعلق رکھنے والے نقاد کے نزدیک تنقید نگاری کا سب سے بڑا منصب ہے۔“
فراق کی تنقیدی تحریریں بھی مذکورہ بالا خصوصیات سے مبرا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے فراق کی تنقید اور تنقیدی فیصلے بیشتر صورتوں میں ایسے تاثرات پر مبنی ہوتے ہیں جن کی جڑیں بچپن کی یادوں میں پیوست ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی یہ تحریریں ملاحظہ ہوں:
” ایک زمانہ ہوا جب میں نے مولوی اسمعیل میرٹھی کی مرتب کردہ کتاب ” تزکِ اردو“ میں جو میرے نصاب میں تھی غالباً پہلے پہل مصحفی کا نام دیکھا اور سنا۔ اب میرے جذبات کا حال سنیے، سب سے قابلِ توجہ بات تو یہ تھی کہ مصحفی کا تخلص وہ لفظ تھا جس کی صورت و صوت نے فوراً مجھ پر اپنی دلکش انفرادیت کا اثر ڈالا۔“
” مجھے بچپن سے نہ جانے کیوں ذوق کا کلام نا پسند تھا۔ “
” میں نے بھی اور شاید آپ نے بھی سات آٹھ برس کی عمر میں پہلے پہل حالی کا نام سنا ہوگا۔“
کچی عمر کے ناپختہ تاثرات سے اس طرح Conditionedہوکر کوئی تنقیدی نکتہ پیدا کرنا ظاہر ہے تقریباً نا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراق گورکھپوری کی تنقیدی تحریریں ہمیں کوئی راہ نہیں سجھاتیں ، کسی منزل کا پتہ نہیں دیتیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اندھیری رات میں یہاں وہاں چمکتے ہوئے جگنوﺅں کی مانند ان کی تحریروں میں بصیرت سے پُر جملے ایک ایسا جمالیاتی تاثر قائم کرتے ہیں جس کا سحر ہمارے ذہنوں پر تادیر قائم رہتا ہے۔
٭٭٭

مضمون نگار سہ ماہی رسالہ ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی ویب پپورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ کے مدیر ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

urduchannel@gmail.com

09773402060

2 ZabaneN, 2 SHAIR, 1 Khayal

Articles

دو زبانیں، دو شاعر، ایک خیال

ڈاکٹر ذاکر خان

اردو اور انگریزی شعر و ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد دو باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں کہ اردو شعر وادب نے انگریزی شعر وادب کو اور انگریزی شعر و ادب نے اردو شعر و ادب کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ اس کی آبیاری کے لیے مناسب ماحول بھی فراہم کیا ہے۔دونوں ہی قسم کے شعر و ادب میں بے شمار مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی اس قسم کے شکوک و شبہات بھی ابھرنے لگتے ہیں کہ ایک زبان وادب کے فنکار نے دوسری زبان و ادب کے فنکار کی یاتو نقل کی ہے یا ادبی سرقہ کیا ہے۔کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف زبانوں کے فنکار ایک دوسرے کے فن اور شخصیت سے بالکل ہی ناآشنا ہوں مگر دونوں کے فن میں یکساں محرّکات کارفرما ہوں، یکساں خیالات و افکار کا سیلان ہو، یکساں حالات کی عکاسی کی گئی ہو۔حقیقت یہ بھی ہے کہ انیسویں صدی تک اردو شعراء، انگریزی شعر و ادب سے تقریباً نابلد تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ غیر منقسم ہندستانیوں اور انگریزوں کے درمیان نفرت کے جذبات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔ان حالات میں ہندوستانیوں کی انا اور عزتِ نفس کبھی انہیں انگریزوں کی نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔اسی طرح انگریزی ادب بھی احساسِ برتری کا شکار تھا پھر وہ کس طرح غلام ہندوستانیوں کے خیالات و افکار کی ہو بہو نقل کرتا؟لیکن اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کے توسط سے اردو شعر و ادب انگریزوں تک برابر پہنچ رہا تھا۔اسی طرح دوسری جانب سرسید، حالی اور آزاد کی کوششوں سے انگریزی خیالات و افکار کی درآمدگی سہل ہوچکی تھی۔ کرنل ہالرائڈ اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے اور اقبال آرنالڈ سے متاثر ہوچکے تھے۔ ان حالات میں اردو کے انگریزی پر اثرات اور انگریزی کے اردو پر اثرات مکمّل نہ سہی، کم کم، ہی پڑنے لگے تھے۔
الفاظ اور خیالات ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں ، ان ہی دونوں کے اختلاط سے فن پاروں کا جنم ہوتا ہے۔شاعری ایک ایسی صنف ہے جو شاعر کو خوابوں میں بھی کافکا کی طرں جھنجوڑتی ہے، ایلیٹ کی طرح سوچنے پر مجبور کرتی ،ورڈس ورتھ کی طرح خوبصورت نظاروں کی سیر کراتی ہے۔اور کولرج کی طرح چبھتے ہوئے جذبات کی عکاسی کرواتی ہے۔یہی چبھتے ہوئے جذبات، اسٹیفن گل اور فراق گورکھپوری کی شاعری پر مبنی میرے مقالے کی اساس ہیں۔
فراق کا جنم گورکھپور میں ہوا جبکہ اسٹیفن گل پاکستان میں پیدا ہوئے ہندوستان میں پرورش پائی اور کنیڈا میں سکونت اختیار کی۔ فراق کی طرح اسٹیفن گل بھی شاعر اور نقاد ہیں ۔آپ تقریباً ۰۲ کتابوں کے مصنف ہیں جس میں ناول ، تنقید اور شعری مجموعے شامل ہیں۔ گلِ نے اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں شاعری کی ہے۔ ان کی نثر اور نظم دونوں کو ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار پبلشر شائع کرچکے ہیں۔ہند و پاک کے مختلف گلوکاروں نے آپ کی شاعری کو اپنی آواز دی ہے۔
فراق اور گِل دونوںنے اپنی شاعری کی ابتدا بچپن ہی سے کردی تھی۔گل نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی شاعری کی اساس بنایا ہے۔کے کے سری واستو دونوں کے ساتھ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
“گل نے میرے پہلے مجوعہ کلامIneluctable Stilnessکی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہاری شاعری میں جینت مہاپاترا کو پاتا ہوں جبکہ فراق نے ملاقات کے وقت مجھ سے کہا تھا کہ کبھی یوں بھی ہوسکتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کے درمیان رہو جو تمہارے برابر نہ ہو تب بھی اس طرح کا برتاﺅ کرو کہ وہ تمہیں اپنے برابر نظر آنے لگے۔ فراق اپنی اس عظمت سے واقف تھے”
وہ کہتے ہیں کہ
اب اکثر چپ چپ سے رہے ہیں، یوں کبھی منہ کھولے ہیں
پہلے فراق کو دیکھا ہوتا، اب تو بہت کم بولے ہیں
اسٹیفن گِل کبھی فراق کی طرح کھل کر سامنے نہیں آئے، ان کی شاعری پوری انسانیت پر چھائی ہوئی اداسی، مایوسی اور حسرت کی ترجمان ہے۔وہ جذبات کی گہرائی تک پہنچ کر انہیں آشکار کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ
storms hid the glow with dust
when the albatross of violence
flies over the flower
(You are not There)
جنگ جدید تہذیب و تمدّن کے ماتھے پر موجود ایک بدنما داغ ہے، فراق اور گِل دونوں بھی ہمیںجنگ اور اس کی تباہ کاریوں پر فکر مند نظر آتے ہیں۔دونوں ہی جنگ کو ایسی لعنت ملامت تصور کرتے ہیںجس کے چلتے فرار کے سوا کوئی دوسری راہ نہ ہو
فراق کہتے ہیں
کاریگر، مزدور کسان
کھریال اور بگرل جوان
کاندھے سے کاندھا جوڑیں گے
دنیا پر دھاوا بولیں گے
(نئی دنیا)
دوسری جگہ فراق کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ
تیرے لیے دنیا ہے، دنیا کے لیے تو ہے
ہاں خود پر نظر کر کے دنیا پر نظر کر
(ہاں اے دل افسردہ)
جب جنگ چھڑی دیشوں میں
جو بھی پڑی ہم پر ہی پڑی
بھس میں چنگی دے کر ساتھی
دیکھ جمالو دور کھڑی
(مزدوروں کاریگروں شپکاروں کی للکار)
اسٹیفن گل اس سے آگے بڑھ کر وحشیوں اور درندوںکو امن قائم کرنے دعوت دیتے ہیں۔اس سے ان کی اندرونی تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک جنگ زدہ حالات بدلنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں
let us ask all beings
even the beast
give us their hands
let us not surrender
(Seekin the Dove of Peace)
کبھی وہ کہتے ہیں کہ
When
harmony was fused
into my mind, soul heart
and every other organ of the body
the human was created (When)
for which of those sins
offences and crime
have we lost the time to breathe
no hope, no spark
to own own your tranquil eyes (Hramony and Peace)
ہند پاک جنگ کے تناظر میں فراق نے کہا تھا کہ
ہم نے تم نے اپنی ہی بیٹیوں کا سہاگ مٹایا
اپنے بیٹوں کو خود ہی
کیا ہے یتیم
بھائی نے بھائی کے خون سے ہولی کھیلی
کیا ہمیں مل گیا گیا تمہیں مل گیا
ان ہی خیالات کو اسٹیفن گل کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
if the nuclear bombs drop
will the dawn be born again
will the players play again
will the children swim again
تشدّد ان دونوں شعراءکو اس قدر کچوکے لگاتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح کے اشعار کہنے سے روک نہ سکے
صدیوں کے بنے کام بگڑ جائیں گے
دھرتی پر عالم موت کے گر جائیں گے
اسٹیفن کہتے ہیں
the willful ghosts of sorrow
have not dissolved
nor have the fogs of ignorance
will float over the cold tombs
rather
they have grown in strength
in the gloom of violence
(New Year)
ان ہی خطوط پر T.S. Eliotکہتا ہے کہ
“گزشتہ سال کے الفاظ کا تعلق گزشتہ سال کی زبان سے ہوتا ہے، آئندہ سال کے الفاظ کسی دوسری نئی آواز کے منتظر ہوتے ہیں”
آفاقی شاعر ہونے کے ناطے اسٹیفن گل کو کسی ایسے نظام کی تلاش ہے جو سماج و معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کردے۔ وہ ایسی آواز کی حمایت کرتا ہے جسے پوری دنیا میں سنا اور سمجھا جا سکے۔وہ آواز امن اور محبت کی آواز ہو۔ وہ آواز بین الاقوامی اتحاد کی آواز ہو۔ گل کی نظمیں مختلف معنی و مفاہیم کا احاطہ کرتے ہوئے مختلف النّوع جذبات کی ترسیل کا کام انجام دیتی ہیں
فراق اور گل دونوں کا شمار شاعرِ امن آشتی اور شاعرِ محبت و انسانیت میں ہوتا ہے۔دونوں ہمیں عوام الناس کے آپسی اتحاد کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔دونوں کی شاعری میں جذبات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔دونوں ہی اپنی شاعری میں ماں کی یادوں میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فراق اپنی نظم “جگنو “میں کچھ یوں کہتے ہیں کہ
وہ ماں جو دودھ بھی اپنا مجھے پلا نہ سکی
وہ ماں جو ہاتھ سے اپنے مجھے کھلا نہ سکی
وہ ماں جو میرے لیے تتلیاں پکڑ نہ سکی
جو بھاگتے ہوئے میرے بازو پکڑ نہ سکی
ان ہی یادوں کو گل کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
images of sacrifice
message of hope
you are highly prized
the gift of this life
I owe to you
اکثر و بیشتر محبوبائیں تنہائی میں شعراءکے تخیّل پر وارد ہوتی ہیں۔ ان ہی کے جلوے کبھی تخلیقات میں اور کبھی تخلیقات سے پرے نظرآتے ہیں۔لیکن محبت کا حلقہ شاعری میں مکمل طور پر جلوہ گر ہوتا ہے۔فراق اور گل نے بھی اپنی تنہائی کے لمحات اپنی اپنی شاعری میں پیش کیے ہیں۔ دونوں کے جذبات کی مماثلت قارئین کو چونکا دینے والی ہے۔
فراق کہتے ہیں
وہ چپ چپ آنسو بہانے کی راتیں
وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں
شبِ ماہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم
ترے حسن کے کسمسانے کی راتیں
گل نے اسی خیال کو کچھ یوں باندھا ہے
In the ruin of lonesome hours
she knocks
at the doors of my dreams
and shyly sits
beside me (Haunting Melody)
نظم “ہنڈولا “میں شعور کی رو میں بہتے ہوئے فراق اپنے بچپن کو یاد کرتے ہیں ، یوں لگتا ہے جیسے فراق کے خواب بکھر گئے ہوں ، خواب خواب نہ بلکہ فریب نظر ہوں
مجھے گماں پرستانیت کا ہوتا تھا
ہر چیز کی وہ خواب ناک اصلیت
مرے شعور کی چلمن سے جھانکتا تھا کوئی
لیے ربوبیتِ کائنات کا احساس
ہرایک جلوے میں غیب و شہود کا وہ ملاپ
ہراک نظارہ اک آئینہ خانہ¿ حیرت
گل، فراق اور D.H. Lawrenceکی طرح پریوں کی دنیا میں سیر کرتے ہوئے شخص اور کائنات کے درمیان کا ربط تلاش کرتے ہوئے کہتا ہے
I wish to harvest
a ripened manna of wonders
of the youthful bloom
for the courtof enlightenment
to vakidatethe claim
those outgrowths
from diversityof landscape
stem from the cosmic order
of the same source
(To Be)
گل جمہوری طرز حکومت کے حامی تھے وہ کہتے ہیں کہ
I am aware of the dangers
from the east and the west
I know I am surrounded
by the demons of repression
اسی انداز میں فراق سوشلزم کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
وہ علم کیا جو ضامنِ فردہ نہ ہو سکے
جو آئینے میں آج کے کل کو نہ دیکھ لے
Mathew Arnold نے کہا تھا کہ شاعر کو سمجھنے کے لیے شاعرانہ دل چاہیے۔ Walt Whitman کہتا ہے کہ اچھے شاعر پیدا کرنے کے لیے اچھے قارئین کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ ممکن ہو تب ہی قارئین اسٹیفن گل اور فراق کی شاعری سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ دونوں کی شاعری انسانی جذبات، خواہشات اور یاداشت کی ترجمانی کرتے ہوئے، Benedict De Spinoza کی طرح اتحاد کی تبلیغ کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عظیم اذہان، ذات پات، سماج و معاشرہ، زبان و ادب، ملک ملّت، اور علاقوں سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بھلائی کے لیے یکساں خطوط پر سوچ سکتے ہیں


مضمون نگار نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Firaq ki Infradiat by Abdulbari Qasmi

Articles

فراق کی انفرادیت

عبد الباری قاسمی

بیسویں صدی کو ادب داں طبقہ تحریکات و رحجانات کی صدی سے تعبیر کرتا اور جانتاہے انیسویں صدی میں ادب کی فضا بالکل مختلف تھی ، مگر جوں ہی اس کا اختتام ہواا ور عقلیت پسندی کارحجان بڑھنے لگا خود بخود نئی نئی تحریکیں معرض وجود میں آنے لگیں، ان تحریکات کا اثرادب کے تمام ہی اصناف پر ہوا خواہ شاعری ہو یا نثر، اسی دور میں غزل کی کوکھ سے جدید غزل کی پیدائش ہوئی اور اہل علم کے طبقہ نے ہر چیز میں جدت و ندرت تلاش کرنے میں مصروف رکھنے کو ہی قابلیت اور مہارت کا معراج سمجھنا شروع کیا ، اسی انیسویں صدی کے اختتام سے چند سالوں قبل گھورکھ پرساد عبرت کے لکشمی منزل میں رگھوپتی سہائے فراق نے آنکھیں کھولیں ، فراق کی زندگی گلہائے رنگارنگ سے مزین رہی ہے، اگر ہم فراق کا جائزہ لیں تو ان کی زندگی ہر سطح اور ہر باب میں منفرد دکھائی دیتی ہے خواہ ان کی شاعری کا مطالعہ کریں یا ان کی نثر کاجا ئزہ لیں ، ان کی داخلی زندگی کو دیکھیں یا ان کے خارجی معاملات کو ان کی انفرادیت ہر جگہ مسلم نظر آتی ہے، فراق کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی شاعری میں کئی زبانوں ، کئی تہذیبوں اور کئی تحریکات کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے اور ان سب کے حسین امتزاج سے ان کی شاعری کی جودنیا آباد ہوتی ہے وہ انہیں بالکل مختلف اور منفرد مقام پر کھڑا کر دیتی ہے ، فراق کی شاعری کا بنیادی رنگ اور موضوع حسن و عشق ہے مگر جہا ں ان کی شاعری میں خاص طور پر غزل گوئی میں حسن پرستی اور انسان دوستی کے اعلیٰ نمونے اور قدریں ملتی ہیں تو وہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پر چھائیں بھی باہیں دراز کیے ہوئے استقبال کرتی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ جدید غزل گو شعرا میں فراق کا نام کافی اہمیت سے لیا جاتا ہے ویسے تو فراق غزلوں میں روایت کی پاسداری اور انحراف دونوںکا عکس دکھائی دیتا ہے انہوں نے اپنی شاعری میں عشق ، معاملات عشق، جسم و جنس کا تصور، اشتراکی رنگ، خوبصورت ہندوستانی دیومالائی عناصر سے مزین تشبیہات وا ستعارات ، ڈرامائیت، تجسیم کاری، معنیٰ آفرینی، رعایت لفظی اور کائنات کے حسین مناظر ان تمام چیزوں کو اس خوبصورتی سے غزل کا حصہ بنایا ہے کہ خود بخود ان کی شاعری ایک نئی جہت سے آشنا ہوگئی ہے ، فراق کے فکروفن دونوں اعتبار سے انفرادیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور فن کی تشکیل میں مشرق کی نرمی اور روحانیت اور مغرب کی جدت و آفاقیت دونوں ساتھ رہی ہیں اور انہیں دونوں کے امتزاج سے ان کی شاعری ایک نئی لے اور لہجہ سے آشنا ہوتی ہے فراق فارسی اردو ، انگلش اور ہندی جاننے کے ساتھ ساتھ سنسکرت پر بھی اچھی گرفت رکھتے تھے ، اس لیے ان کی شاعری میں ان تمام ہی زبانوں کے اثرات دکھائی دیتے ہیںا ور ان کی انفرادیت صرف غزل گوئی ہی میں نہیں بلکہ نظم نگاری ، رباعی نگاری، خطوط نگاری، تنقید نگاری، دوہے اور چھند وغیرہ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
فراق کی شاعری©: فراق گورکھپوری کو تو شاعری ورثہ ہی میں ملا تھا ؛اس لیے کہ ان کے والد گورکھ پرساد عبرت بھی شاعر تھے ۔”حسنِ فطرت“ نام سے ان کی مثنوی مشہور ہے۔ اس لیے بچپن سے ہی شاعری کا مزاج تھا ، مگر فراق نے باضابطہ شاعری 1918ءاور 1919ءکے درمیان شروع کی۔ اس وقت داغ اور امیر مینائی کا ہر طرف شہرہ تھا، اس لیے فراق نے بھی امیر مینائی کے شاگردوسیم خیر آبادی کو غزلیں دکھا نا شروع کیا ، اس کے بعد ریاض خیر آبادی اور پروفیسر مہدی حسن ناصری سے بھی اصلاحیں لیں، اصل ان کی شاعری میں انقلاب 1920ءمیں آیا جب پنڈت نہرو کے ساتھ گرفتار کر کے انہیں آگرہ جیل بھیج دیا گیا تھا چوں کہ جیل جانے والے لوگوں میں بڑے بڑے ادیب ، شعرا اور دانشور حضرات تھے ، اس لیے موقع پاکر جیل میں ہی مشاعرے ہونے لگے اورفراق کی شاعری ایک نئے انداز اور نئے لہجے سے متصف ہونے لگی ، اس سے ان کی شاعری اور نکھرتی ہی چلی گئی اور انہوں نے شاعری کو روایت سے لے کر انحراف تک کا سفر کر ایا یہی وجہ ہے فراق کی شاعری میں میر، حسرت اور دیگر شعراکا بھی رنگ نظر آتا ہے اوران کا رنگ ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی جیسے جدیدیت کے شعراپر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، فراق نے غزل گوئی کے علاوہ نظم نگاری، رباعی نگاری، دوہے اور چھند بھی کہے ہیں اور شاعری کی ہر صنف میں ان کی آواز کو پہچانا جا سکتا ہے۔
فراق کی غزل گوئی: فراق گورکھپوری نے ویسے تو شاعری کے مختلف اصناف کو برتا اور اِس میں طبع آزمائی کی ہے، مگر وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور غزل گو شعرا میں بھی ان کا شمار ان شعرامیں ہوتا ہے جہنوں نے اپنی خلاقانہ ذہنیت ،بے انتہا علوم اور حساس مزاجوں کو استعمال کر کے غزل میں نئے نئے گوشوں کا اضافہ کیا، ان کی غزلوں میں مشرقی لے بھی نظر آتی ہے اور مغربی بھی، انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں آزادی کے بعد کے ہندوستانی فضا کی عکاسی جس خوبصورتی سے کی ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ اسلوب احمد انصاری جیسے ناقد نے انہیںہندوستان کی نشا¿ة ثانیہ کا ایک ممتاز نمائندہ قرار دیا ، سید محمد عقیل رضوی نے عہد آفریں ، مظہر امام نے کلاسیکی غزل کا آخری بڑا شاعر، رشید احمد صدیقی نے اردو غزل کا رمز آشنا، فتح محمد ملک نے جنوبی ایشیا کی تہذیبی دنیا میں معقولیت کی سب سے توانا آواز اور حسن عسکری نے نئی آواز سے تعبیر کیا، اس کے علاوہ بھی کچھ حضرات نے ا مام المتغزلیں اور خاتم المتغزلیں کے بھی خطاب سے فراق کو سر فراز کیا۔ پروفیسر شمیم حنفی صاحب نے فراق کے غزل کی تعداداور مقام پر اس انداز سے تبصرہ کیا ہے کہ
”1965 میں فراق صاحب نے اپنی غزلوں کا ایک اشاریہ بنوایا تھا ، اس اشاریہ کے مطابق 1965ءتک فراق صاحب نے کل چھ سو چوبیس غزلیں کہیں تھیں، 1965ءکے بعد سے 1982ءیعنی فراق صاحب کے سال وفات تک اس تعداد میں کم سے کم سو غزلوں کا اور اضافہ کر لیجیے یعنی کہ تقریباََ سو ا سات سو غزلیں ان میں زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس غزلیں ایسی ہوں گی جنہیں فراق صاحب کے واسطے سے نئی حسیت کا ترجمان قرار دیا جا سکے“(۱)
فراق کی غزلوں میں میر کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے اور ان کے معاصرین شعرامیں حسرت، اصغر، جگر ، فانی اور یگانہ کا بھی، فراق کی نرمی، حلاوت، احساس کی گرمی اور جذبات کی آہستگی انہیں میر سے قریب کر دیتی ہے
بات بھی پوچھی نہ جائے گی جہاں جائیں گے ہم
تیری محفل سے اگر اُٹھے کہاں جائیں گے ہم
اس کے علاوہ ان کی غزلوں کی دوسری سب سے اہم خصوصیات ہیں کہ ان کی غزلوں میں مشرقی اور مغربی دونوں مزاجوں کا زبردست امتزاج ملتا ہے، اس لیے کہ جہاں وہ انگریزی شعرا شیلی، ورڈس ورتھ، اور کیٹس وغیرہ سے متاثر ہیں وہیں سنسکرت شاعری، سنسکرت تہذیب ، کلاسیکی اور جمالیاتی روایت پر بھی گہری نگاہ ہے، بلکہ فراق کی لفظیات ، استعارات، تشبیہات و کنایات کو سمجھنے کے لیے فارسی، اردو ، ہندی ، سنسکرت، انگریزی اور بھوجپوری کو بھی اچھی طرح جاننا ضروری ہے۔جذبات کی عکاسی کس خوبصورتی سے اس شعر میں کیا ہے
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق تو فیق ہے گناہ نہیں
فراق کی غزلوں کا رنگ ہی منفرد ہے، ان کا محبوب جہاں گوشت پوست والا انسان ہے، وہیں ان کی غزلوں میں تشبیہات وکنایات اور استعارات بھی روایتی اور تہذیبی ہیں، غرض انہوں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے غزلوں میں ڈھال دیا ہے، ان کے یہاں سادگی بھی ہے اور روایت سے خوبصورتی سے انحراف، تحریکات کے اثرات بھی ہیں اور محبوب سے جدائی کے جذبات بھی۔
فراق کی غزلوں میں کلاسیکی رنگ: ویسے تو اگر ہم فراق کی غزلوں کو بغور پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ابتداہی سے وہ روایت سے انحراف کی کو شش کر رہے ہیں، مگر ان کی شاعری میں کلاسیکی رنگ دیکھنے کو خوب ملتا ہے، پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے اس سلسلہ میں لکھا ہے کہ
”فراق کلاسیکی اردو شاعری کا گہراثر رکھتے تھے ان کی ذہنی اور فنی تربیت میں کلاسیکیت کا بہت بڑا ہاتھ تھا “(۲)
وحید اختر نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ
”فراق کی غزل کلاسیکی روایت کاعطر مجموعہ ہے،ان کی شمع سخن میں تمام اساتذہ کی آوازیں روشن ہیں “ (۳)
ابولکلا م قاسمی صاحب نے ہلکی سی الگ رائے قائم کی ہے۔
”فراق کے شعر میں بلا شبہ میر کے شعر کی بازگشت بھی موجود ہے مگر میر کے شعر میں محبوب کو ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنے پر اصرار ہے جبکہ فراق محبوب کے منفرد اور آزاد و جود کی اہمیت کو واضح کر نا چاہتے ہیں۔“ (۴)
دیکھ پھر حسن کے محاسن کو
حسن کی پہلے ہر برائی دیکھ
اس شعر میں میر کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی نے سودا کے نزدیک قرار دیا تو کچھ لوگوں نے مومن کے اسکول کانمائندہ قرار دیا،مگر یہ حقیقت ہے کہ فراق کی غزلوں میں کلاسیکی رنگ نمایاں ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ فراقنے احساسات ، تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر ایک الگ راہ نکالی۔
تشبیہات واستعارات: فراق کی غزلوں میں تشبیہات و استعارات بھی دکھائی دیتے ہیں اور کمال ہے کہ فراق کے تشبیہات و استعارات اور تلمیحات میں بھی ہندوستانی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے جیسے۔
دلوں میں تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اُٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
فراق عام طور پر رات، شب ، سناٹا، روشن وغیرہ الفاظ کو بطور تشبیہ خوب لاتے ہیں بلکہ رات“ کا تصور رتو اس قدر تنو ع سے ان کی شاعری میں ہے جس سے انداز ہوتا ہے کہ رات میں کبھی انہیں نیند ہی نہ آتی ہو
غزل کے ساز اُٹھاو¿ بڑی اداس ہے رات
نوائے میر سناو¿ بڑی اداس ہے رات
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
اسلوب احمد انصاری نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ
” فراق کی تشبیہیں روایت سے کم اور ذاتی مشاہدہ سے زیادہ قریب ہیں “
ان اقتباسات سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ فراق کس طرح کے تشبیہات و استعارات کا انتخاب کرتے ہیں۔
پیکر تراشی: لفظوںکی مدد سے شاعری میں تصویر سازی کے ہنر کوپیکر تراشی سے تعبیر کیا ہے ، اس باب میں بھی فراقنے خوبصورت نمونے پیش کیے ہیں
سفید پھول زمیں پر برس پڑیں جیسے
فضا میں کیف سحر ہے جدھر کو دیکھتے ہیں
آگئی باد بہاری کی لچک رفتار میں
موج دریا کا تبسم بس گیا رخسار میں
رومانیت: فراق انگریزی شعرا شیلی ، ورڈس ورتھ، کیٹس اور ٹینس وغیرہ کو خوب پڑھتے تھے، اس لیے انگریزی شاعری والی رومانیت فراق کی غزلوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، مگر اس باب میں بھی فراق کی ایک انفرادیت ہے کہ وہ انگریزی شاعری کے مناظر فطرت اور رومانیت کو ہندوستانی تہذیب میں ڈھال کر بڑی خوبصورتی سے پیش کر تے ہیں
زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوسست
سوچ لیں اور اداس ہوجائیں
مہر بانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جابھی نہیں
موضوعات: فراق کی غزلوں کے بنیادی موضوعات حسن و عشق،انسانی جذبات و کیفیات اور جسم و جمال کی لطافتیں ہیں وہ اپنے عمدہ اور لطیف تخیل کے ذریعہ غزلوں میں ایسا رنگ بھر دیتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا
ذرا وصال کے بعد آ ئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
عشق: عشق اور معاملات عشق کا تعلق شروع سے ہی شاعری سے رہا ہے، مگر فراق کا عشق وہ ہے جو ذاتی حادثات و تجربات کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور جلد ہی انسانیت کے عشق میں ڈھل جاتا ہے، پروفیسر ممتاز حسین نے لکھا ہے کہ
” وہ (فراق) بیسویں صدی کے اردو ادب کی تاریخ میں ان چند گنے چنے شعرامیں تھے جنہوں نے اردو شاعری کے رخ کو اس کے پیش پافتادہ وہ عشقیہ شاعری سے ایک نئی شاعری کی طرف موڑ دیا جو حیات آفریں کو منقلب کرنے والی ہے۔“(۶)
ہزار بار زمانہ ادھر سے گذرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تری رہ گزر پھر بھی

عشق کی آگ ہے وہ آتش خود سوز فراق
کہ جلا بھی نہ سکوں اور بجھا بھی نہ سکو ں
محبوب: دیگر کلاسیکی شعراکی طرح فراق کے محبوب میں حقیقی و مجازی کا کوئی اختلاف نہیںہے، بلکہ ان کا محبوب خالص مجازی اسی دنیا میں رہنے ولا گوشت پوشت کا انسان ہے، فراق کو ہر وقت وصل کا غم دامن گیر رہتا ہے اور اسی وجہ سے ایسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ وصل میں بھی انہیں محرومی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔
رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عالم سوتا تھا
نام تیرا لے لے کر کوئی درد کا مارا روتا تھا
جسم وجنس: فراق نے جسم و جنس کو احساس و ادراک اور فکر و فلسفہ میں ڈھال کرغزل میں پیش کیا ہے، یہ فراق کی ہی انفرادیت ہے، فراق نے جسم سے کائنات اور عشق سے عشقِ انسانیت کا سفر لاجواب انداز سے طے کیا ہے
ایک مدت سے تری یادبھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ہندوستانی تہذیب کی عکاسی : فراقایک سچے محب و طن اور اپنی تہذیب سے بے انتہا محبت کرنے والے انسان تھے ، اس لیے ان غزلوں میں ہندوستانی تہذیب اوررنگ کافی نما یاں ہے خود انہوں نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ ”ہندوستانی تہذیب میری غزلوں میں عشقیہ جذبات اور احساس کی نزاکتوں اور نرمیوں کا لہجہ اختیار کر لیتی ہیں۔“ اسی پہلو کو دوسری جگہ فراق نے اس انداز سے بیا ن کیا ہے کہ
” میرے و جدان پر عمر بھر ہندوستان کے قدیم ترین اور پاکیزہ ترین ادب اور دیگر فنون لطیفہ اور نظریہ¿ زندگی کا گہرے سے گہرااثر رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ بہترین فارسی شاعری، اردو شاعری ، انگریزی شاعری کے بہترین نثر و نظم کا ادب فلسفہ، اشتراکیت کی فکر یات قدیم و جدید ، یورپ کے ثقافتی خزانوں کے اثرات بھی میری غزل پر اثرا نداز ہوتے رہے ہیں میں نے اپنی غزلوں میں یہ چاہا ہے کہ اپنے ہر اہل وطن کو ہندوستا ن کے مزاج کا روح عصر اور صحت مند تصور دے دوں، میں نے یہ چاہا ہے کہ میری شاعری دھرتی کی شاعری ہے۔“(۷)
اشتراکی رنگ: فراق نے جب شاعری کی ابتدا کی تھی تو داغاور امیر کا زمانہ تھا، مگر جب عروج کا زمانہ آیا تو اشتراکی اور ترقی پسند تحریک کی شروعات بڑے زوو شور سے ہوئی، فراق بھی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے اور شاعری کو قومیت کے نئے زنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی
زندگی کو بھی منھ دکھانا ہے
رہ چکے تیرے بے قرار بہت
بعد کے شعراپر فراق کا رنگ: جس طرح فراق نے کلاسیکی شعر اکے اثرات قبول کیے فراق کے بعد آنے والے جدید شعرا نے بھی فراق کے اثرات قبول کیے جن میں ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور شاذ تمکنت وغیرہ کے نام اہمیت سے لیے جاتے ہیں۔
ناصر کاظمی
تو کون ہے ترا نام ہے کیا
کیا سچ ہے کہ تیرے ہوگئے ہم
خلیل الرحمن اعظمی
ایسی راتیں بھی ہم پہ گزریں ہیں
تیرے پہلو میں تیری یاد آئی
ساقی فاروقی
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
حرفِ آخر: فراق زندگی ، فکر اور فن دونوں اعتبارسے تمام ہی چیزوں میں انفرادیت رکھنے والے شاعر ہیں، ان کی شاعری میں مشرق و مغرب دونوں مزاج کا حسین امتزاج ملتا ہے، انہوں نے کلاسیکی شعراکے اثرات قبول کیے اور اس سے انحراف کر کے ایک نئی راہ بھی نکالی ، گرچہ خلیق انجم صاحب نے کہا ہے کہ ” ان کے سامنے کوئی واضح راہ نہیں تھی“چوں کہ فراق بیک وقت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور ہندوستانی تہذیب، مناظر قدرت، فطرت انسانی، زبان و ساز اور انگریزی، ہندی، فارسی ،اردو ، سنسکرت سے مل کر ایک نئی تہذیب ان کی شاعری میں رچ بس رہی تھی انہوں نے ان تمام چیزوں کو ملا کر اپنی ایک منفرد آواز بنائی ، فراق کا شمار ان جدید غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کو جدت و ندرت اور نئے آواز و آہنگ سے آشنا کیا ۔ فراق کا کمال ہے کہ انہوں نے حسن و عشق اور جسم و حسن کو بھی احساسات و ادراک میں ڈھال کر ایک نئے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا، ان کی شاعری میں ترقی پسند تحریک اور دیگر رحجانات اور ہندوستانی دیومالائی عناصر کا بھی رنگ دکھاتی دیتا ہے، انسان دوستی کاجذبہ بھی فراق کامنفرد ہے۔ انہوں نے غزل میں بہت سی خوبصورت تشبیہات و استعارات، علائم اور لفظیات پیش کیے جس کی نظیر یں ملتی۔ ان کی شاعری میں ڈرامائی عناصر بھی بہت خوبصورت نظر آتا ہے
تارے بھی ہیں بیدار زمیں جاگ رہی ہے
پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیںجاگ رہی ہے
……………………………………..
حوالہ جات
(۱) فراق دیار شب کامسافر شمیم حنفی جامعیہ میگزین شمارہ ۶۹۹۱ء دسمبر ص؛ ۱۵۱
(۲)فراق دیار شب کامسافر پروفیسر عتیق اللہ جامعیہ میگزین شمارہ ۶۹۹۱ء دسمبر ص؛۴۰۱
(۳) ص؛۵۰۱
(۴)شاعری کی تنقید ابوالکلام قاسمی ص؛۱۰۱
(۵)فراق گورکھپوری اسلوب احمد انصاری مجموعہ¿ مضامین انجمن ترقی اردو دہلی
(۶)فراق اور فراق کی شاعری پروفیسر ممتاز حسین
(۷)آج کل دہلی فراق گورکھپوری ص؛۴
(۸)پچھلی رات فراق گورکھپوری ص؛۷
(۹)فراقگورکھپوری ڈاکٹر خلیق انجم انجمن ترقی اردو دہلی ص؛۳۹۱


مضمون نگار شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

abariqasmi13@gmail.com
9871523432

Intekhab – e – Kalam Qabil Ajmeri

Articles

انتخابِ کلا م قابل اجمیری

قابل اجمیری

 

1
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے

کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیَامت ہے

میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گِر صداقت ہے

جی رہا ہوں اس اعتماد کے سَاتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے

حُسن ہی حُسن جلوے ہی جَلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے

اُس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و بام سے ندامت ہے

اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے

راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوقِ منزل اگر سَلامت ہے

2
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبہ خاموشِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاو¿ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہ سود و زیاں تک آ گئے

3
آسودگی شوق کا سَاماں نہ کر سکے
جلوے مِری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے

تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاجِ تنگئی داماں نہ کر سکے

آنکھوں سے ٹوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینتِ داماں نہ کر سکے

شائستہِ نشاطِ ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے

اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیازِ ساحل و طوفاں نہ کر سکے

ہم جانِ رنگ و بو ہیں گلستاں ہمیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے

کچھ اس طرح گزر گیا طوفانِ رنگ و بو
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے

ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے سَاتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے

قابل فراقِ دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے

4
بہاروں کا فسوں ٹوٹا گلستانوں کی نیند آئی
خزاں آئی کہ تیرے چاک دامانوں کو نیند آئی

سُنے کوئی تو سَاحل کا سکوت اب بھی سناتا ہے
ہمیں خاموش کر کے کتنے طوفانوں کو نیند آئی

تِرے ہی حسن کی تابانیوں میں آنکھ کھولی تھی
تِری ہی زلف کے سائے میں ارمانوں کو نیند آئی

یہ اہل بزم کیا خود شمع بھی محروم ہے اس سے
سکونِ دل کے جس عالم میں پروانوں کو نیند آئی

جنوں محوِ تجسس ہے خرد آواز دیتی ہے
نہ جانے کون سے عالم میں دیوانوں کو نیند آئی

ہمارے ساتھ ساری بزم بے آرام ہے سَاقی
صراحی کو سکوں آیا نہ پیمانوں کو نیند آئی

زمانہ دیکھ لے گا اور تھوڑی دیر باقی ہے
ہمیں نیند آ گئی قابل کے طوفانوں کو نیند آئی

5
نئے چراغ لئے شامِ بیکسی آئی
کہ دل بجھا تو ستاروں میں روشنی آئی

جنونِ شوق نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
نگاہِ دوست بھی اکثر تھکی تھکی آئی

ہمارے پاس کہاں آنسو¿وں کی سوغاتیں
کسی کو اپنا بنا کے بڑی ہنسی آئی

جہانِ دار و رسن ہو کہ بزمِ شعر و شراب±
ہمَارے سَامنے اپنی ہی زندگی آئی

تمہَاری یاد کو آرامِ جاں بنایا تھا
تمہَاری یاد بھی لیکن کبھی کبھی آئی

ہزار رنگ دیئے جس نے زندگانی کو
اُسی نظر سے محبت میں سَادگی آئی

مِرے خلوص کا عَالم نہ پوچھئے قابل
شکستِ جَام سے آوازِ زندگی آئی

6
اعتبار نگاہ کر بیٹھے
کتنے جلوے تباہ کر بیٹھے

آپ کا سنگِ در نہیں چمکا
ہم جبینیں سیاہ کر بیٹھے

موت پر مسکرانے آئے تھے
زندگانی تبَاہ کر بیٹھے

شمعِ امید کے اُجالے میں
کتنی راتیں سیاہ کر بیٹھے

صرف عذرِ گناہ ہو نہ سکا
ورنہ سارے گناہ کر بیٹھے

کِس توقع پہ اہل دل قابل
زندگی سے نباہ کر بیٹھے

7
ہم تِری رہگزر میں رہتے ہیں
دونوں عَالم نظر میں رہتے ہیں

تیرے در کا طواف کر کے بھی
فکرِ شام و سحر میں رہتے ہیں

زندگانی کے سب نشیب و فراز
حلقہ چشمِ تر میں رَہتے ہیں

کتنے شعلے سکونِ جَاں بن کر
نرگسِ بے خبَر میں رہتے ہیں

ڈھونڈنے پر کہَاں ملیں گے ہم
راہرو ہیں سفَر میں رہتے ہیں

لاکھ ہم خانماں خراب سہی
حادثوں کی نظرَ میں رہتے ہیں

ایک دن پوچھتی پھرے گی حَیات
اہلِ دل کِس نگر میں رہتے ہیں!

منزلِ زیست کی کشش مت پوچھ
راستے بھی سفر میں رہتے ہیں

صاحبِ درد ہو کے ہم قابل
کوچہ چارہ گر میں رہتے ہیں

8
آپ اپنے رقیب ہوتے ہیں
اہلِ دل بھی عجیب ہوتے ہیں

ہجر کی پُرخلوص راتوں میں
آپ کتنے قرَیب ہوتے ہیں

راحتوں سے گریز ، غم سے فَرار
بعض لمحے عجیب ہوتے ہیں

تم جنہیں عُمر بھر نہیں ملتے
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

اہلِ دانش کے قافلے گمُ راہ
منزلوں کے قریب ہوتے ہیں

گردشیں رک گئیں زمَانے کی
آج دو دل قریب ہوتے ہیں

اُس کے طرزِ کلام سے قابل
کتنے وحشی ادیب ہوتے ہیں

9
وہی اضطراب فراق ہے وہی اشتیاقِ وصال ہے
تری جستجو میں جو حال تھا تجھے پا کے بھی وہی حال ہے

نہ مآلِ زیست کی فکر ہے نہ تباہیوں کا خیَال ہے
مجھے صرف اس کا ملال ہے کہ تمہیں بھی میرا ملال ہے

تری آرزو ہی کا فیض ہے تیری یاد ہی کا کمال ہے
کبھی مجھ کو تیرا خیال تھا مگر آج اپنا خیال ہے

نہیں کوئی راہ نما تو کیا ہے خلاف ساری فضا تو کیا
مجھے فکرِ سو دو زیاں ہو کیوں تری یاد شاملِ حال ہے

ہے جنونِ شوق عجب جنوں نہ خلش خلش نہ سکوں سکوں
کبھی خار وجہِ نشاط ہے کبھی پھول وجہِ ملال ہے

مرا حال آج زبوں ہے کیوں مرا درد آج فزوں ہے کیوں
مرے مہرباں مرے چارہ گر تیری آبرو کا سوال ہے

10
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاو¿ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

تمہارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مُسلّم
مگر کسی نے نظر کے بدلے دل آزمایا تو کیا کرو گے

اتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نہ کردہ سکونِ ساحِل نہ راس آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو ، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے

11
ترے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں
نگاہِ ناز کے احساں اٹھائے پھرتے ہیں

کسی کی زلف پریشاں کسی کا دامن چاک
جنوں کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں

خیالِ منزل جاناں تری دہائی ہے
ابھی نگاہ میں اپنے پرائے پھرتے ہیں

قدم قدم پہ لیا انتقام دنیا نے!
تجھی کو جیسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں

تمہیں خبر بھی ہے یارو کہ دشتِ غربت میں
ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں

نئی سحر کے اجالے بھی اجنبی نکلے!
نگاہِ شوق سے دامن بچائے پھرتے ہیں

جہاں میں آج اندھیروں کا بول بالا ہے
ہم آستیں میں ستارے چھپائے پھرتے ہیں

فراقِ دوست سلامت کہ اہل دِل قابل
نفس نفس کو زمانہ بنائے پھرتے ہیں

12
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی آج ترا قرض چُکا دیتے ہیں

حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دعا دیتے ہیں

کوئے محبوب سے چپ چاپ گزرنے وَالے
عرصہ زیست میں اِک حشر اٹھا دیتے ہیں

تیرے اخلاص کے افسوں ترے وعدوں کے طلسم
ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزہ دیتے ہیں

ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جھکا دیتے ہیں

سینہ چاکانِ محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہرِ خوباں کے در و بام صدا دیتے ہیں

ہم نے اُس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھَا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں

13
ٹوٹا نہیں ہے بند قبائے سحر ابھی
نامحرمِ جمال ہے اہلِ نظر ابھی

شاید پھر اس قدر بھی تعلّق نہیں رہے
کچھ لوگ ڈھونڈتے ہیں ترا سنگ در ابھی

کتنی حقیقتیں ہیں توجہ کی منتظر
منزل سے بے نیاز ہے ذوقِ سفر ابھی

خُوشبو روش روش ہے اُجالا ہے شاخ شاخ
گذری ہے گلستاں سے نسیمِ سحر ابھی

احباب کے فریب مُسلسل کے باوجود
کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی

کچھ حُسن آ چلا تھا شبِ انتظار میں
کاش اور تھوڑی دیر نہ ہوتی سحر ابھی

انگڑائی لے رہی ہے بہاریں خیال میں
مہکی ہوئی ہے نگہتِ رخ سے نظر ابھی

دل میں مچل رہی ہے مسیحا کی آرزو
قابل نشاطِ درد نہیں معتبر ابھی

14
ازل سے مائلِ پرواز ہوں میں
تری انگڑائیوں ، کا راز ہوں میں

بڑا دلچسپ ہے انجام میرا
غرورِ دوست کا آغاز ہوں میں

ابھی مشکل سے سمجھے گا زمَانہ
نیا نغمَہ نئی آواز ہوں میں

مجھ ہی پر ختم ہیں سَارے ترانے
شکستِ ساز کی آواز ہوں میں

غمِ خود آگہی میں کھو گیَا ہوں
تمنائے نگاہِ ناز ہوں میں !

مجھے کیوں ہو غمِ انجام قابل
خراب عشرتِ آغاز ہوں میں
———————————-

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

Cultured Poet Qabil Ajmeri by Ibadat Barelvi

Articles

مہذب اور باشعور ذہن کا شاعر قابل اجمیری

ڈاکٹر عبادت بریلوی

 

جناب قابل اجمیری اردو کے جانے پہچانے شاعر ہیں۔ نوجوان غزل گو شاعروں میں وہ خاصے مشہور ہیں جدید اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے جو لف مشاعرے سنتے اور نمایاں رسائل پڑھتے ہیں ان کے لئے قابل صاحب کا نام اجنبی اور نامانوس نہیں ہے۔ انہوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں نمایاں شہرت حاصل کی ہے اور ان کی یہ شہرت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کی شاعری میں پڑھنے اور سننے والوں کیلئے دلچسپی کا خاصا سامان موجود ہے۔ اسی لئے وہ ایک حلقے میں بہت مقبول ہیں۔ مقبولیت حاصل ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لئے تو جوہر قابل ہونا ضروری ہے۔ قابل صاحب بھی صحیح معنوں میں ایک جوہر قابل ہیں۔ اُن کا کلام پکار پکار کر ان کے بارے میں یہی کہتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہی سبب ہے کہ شعر و شاعری سے دلچسپی لنے والے انہیں اتنا پسند کرتے ہیں۔
یوں تو قابل صاحب نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔ ان کے مزاج کو غزل کے ساتھ خاص مناسبت ہے اور اسمیں شک نہیں کہ اُن کے جوہر غزل ہی میں کھلتے ہیں۔ اس صنف میں انہوں نے اپنا ایک مخصوص انداز پیدا کیا ہے۔ وہ غزل کی روایت سے پوری واقفیت رکھتے ہیں اور اس روایت سے انہوں نے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ اس روایت کار چاو¿ جگہ جگہ ان کے کلام میں ملتا ہے۔ لیکن اس روایت کے علاوہ بھی ان کے یہاں بہت کچھ ملتا ہے۔ وہ لکیر کے فقیر نہیں ہیں ان کے یہاں تقلید کا شائبہ بھی نہیں ہوتا وہ نئی باتیں کہتے ہیں اور نئے انداز میں کہتے ہیں۔ وہ نئے رحجانات سے آشنا میں انھیں ان رجحانات کی اہمیت کا احساس ہے وہ غزل کی صنف کو وسیع کرنے کے قائل نظر آتے ہیں اسی لئے ان کے کلام میں وسعت اور پھیلاو¿ کا احساس ہوتا ہے۔ جدّت اور اُپچ نظر آتی ہے۔ بدلتی ہوئی زندگی کے بارے میں ان کا نقطئہ نظر رجائی ہے۔ اسی لئے ان کے یہاں خاصی جولانی کا پتہ چلتا ہے۔ وہ زندگی کو بسر کرنے اور برتنے کے قائل معلوم ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کے کلام میں عمل اور افادیت کے تصورات جگہ جگہ اُبھرتے ہیں لیکن اُن کی شاعری میں ہنگامہ پسندی نہیں ہے۔ بر خلاف اس کے خاصی مہذب اور سُتھری فضا کا احساس ہوتا ہے ان کا زاویہ نظر مفکرانہ نہیں ہے لیکن ایک عام انسان جسطرح زندگی اور اس کے معاملات و مسائل کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ قابل صاحب بھی اسی طرح دیکھتے اور سمجھتے ہیں اسی لئے ان کی شاعری میں تنّوع نظر آتا ہے جس سے خود انسانی عبادت ہے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان سب کا اظہار قابل صاحب شاعرانہ انداز میں کر سکتے ہیں یہ خوبی ان کے کلام کی شاید سب سے بڑی خوبی ہے۔ قابل صاحب کی غزلوں میں عشق کا بڑامہذب تصور ملتا ہے۔ یوں وہ حُسن و عشق کی باتیں ذرا کھلکر کم ہی کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کے یہاں وہ عام موضوعات نہ ہونے کے برابر ہیں جنکو عام طور پر دلی سے لیکر اسوقت تک غزل کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے۔ بلکہ بادی النظر میں دیکھنے سے تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ حسن و عشق کی عام فضا سے ان کی غزلیں خالی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کے یہاں حسن و عشق کے مختلف پہلو ملتے ہیں لیکن ان میں عمومیت کا پتہ نہیں چلتا۔ ان میں سطحیت نظر آتی جن کیفیات و واردات کو انہوں نے اس سلسلہ میں پیش کیا ہے وہ ذہنی طور پر ایک مہذب اور با شعور انسان کی واردات و کیفیات ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان موضوعات میں جدت کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے اور وہ انہیں افراد کو زیادہ متاثر کر سکتی ہیں جو نئی زندگی کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں جنکو اس بات کا یقین ہے کہ نئے حالات میں احساسات کے زاویوں کو بھی بدلنا پڑتا ہے۔ قابل صاحب کی غزلوں میں جہاں تک حسن و عشق کا تعلق ہے کچھ اس قسم کے اشعار زیادہ ہیں۔

ہم نے دیئے ہیں عشق کے تیور نئے نئے
اُن سے بھی ہوگئے ہیں گریزاں کبھی کبھی

راحتوں سے گریز ، غم سے فرار
بعض لمحے عجیب ہوتے ہیں

تم جنہیں عمر بھر نہیں ملتے
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

خوشبوئے انتظار سے مہکی ہوئی رات
قابل نہ جانے کِسکو بلاتی ہے چاندنی

کچھ حُسن آ چلا شب انتظار میں
کاش اور تھوڑی دیر نہوتی سحرا بھی

یہی ہے دل کی ہلاکت یہی ہے عشق کی موت
نگاہِ دوست پہ اظہار بیکسی ہو جائے

مقامِ عاشقی دنیا نے سمجھا ہی نہیں ورنہ
جہاں تک تیرا غم ہوتا وہیں تک زندگی ہوتی

دلکی دھڑکن کا اعتبار نہیں
ورنہ آواز تو تمہاری ہے

ان کے حسن ستم کا کیا کہنا
لوگ سمجھے خطا ہماری ہے

وہ خیالوں میں کہیں شعلہ کہیں شبنم بسے
ایک اندازِ کرم مختلف عالم رہے

ہمیں شہر نگاراں میں لے چلو یارو
کسی کے عشق کا آزار ہم بھی رکھتے ہیں

یہ چاک چاک گریباں یہ داغ داغ جگر
متاعِ حسرتِ دیدار ہم بھی رکھتے ہیں

رکا رکا سا تبسّم جُھکی جُھکی سی نظَر
تمہیں سلیقہ بیگانگی کہاں ہے ابھی

کوئی وعدہ نہیں امید نہیں
پھر مجھے انتظار سا کیوں ہے

بیکسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کو کوئی آسرا نہ دے جانا

یہ ظالم زمانہ دکھائیگا کیا کیا
تری آنکھ بھی آج نم دیکھتے ہیں

بے نیازی کو اپنی خو نہ بنا
یہ ادا بھی کسی کو پیاری ہے

اپنے لب ہی نہیں سئے ہم نے
آپ کی زلف بھی سنوای ہے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبہ خاموش عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

تم کو بھی شاید ہماری جستجو کرنی پڑے
ہم تمہاری جستجو میں اب یہاں تک آ گئے

دلِ دیوانہ عرضِ حال پر مائل تو کیا ہوگا
مگر وہ پوچھ بیٹھے خود ہی حالِ دل تو کیا ہوگا

یہ اشعار جیسا کہ ان کے موضوعات سے ظاہر ہے خاصے مہذب اور با شعور ذہن کی پیداوار ہیں ان میں سے کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں جو جذبات و احساسات کے نئے زاویوں کو پیش نہ کرتا ہو انمیں خارجی حسن کا بیان نہیں۔ ان میں معا ملہ بندی بھی نہیں۔ یہ لذت اوت تعیش سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھتے یہ۰ تو سب کے سب نیازِ عشق کی مختلف منزلوں کے ترجمان ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں انفعالی آہنگ نہیں۔ حزن حزن و یاس قنوطیت اور بیزاری کا ان میں پتہ نہیں چلتا۔ ان میں تو عشق کرنے والے کی اہمیت کا احساس چھایا ہوا ہے اسکی جو ذہنی اور جذباتی کیفیت مخصوص حالات میں ہوسکتی ہے۔ اسکی ترجمانی زیادہ نظر آتی ہے۔ اسی لئے توازن کے نئے ہونے کا احساس ہوتا ہے کبھی کبھی کسی خاص ذہنی کیفیت کے زیر اثر محبوب سے گریزاں ہو جانا نظاہر تو عجیب بات معلوم ہوتی ہے لیکن جذب صادق کے ہاتھوں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اور اسمیں شبہ نہیں کہ اس سے خود عشق کو نئے تیور ملتے ہیں۔ یہ عشق بھی عجیب ہوتا ہے اسمیں داخل ہو کر انسان کبھی بیک وقت راحتوں سے گریز اختیار کرتا ہے اور غم سے فرار بھی۔ بظاہر یہ بات بھی عجیب ہے لیکن جب عشق کی بنیاد جذب صادق ہو تو اس کیفیت کا پیدا ہونا عجیب نہیں ہوتا۔ اس عشق میں انتظار کا عالم بھی ایک لطف پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ یوں عام طور پر انتظار سے تکلیف اور پرشانی کی کیفیت وابستہ ہے لیکن اگر عشق متوازی انداز رکھتا ہو تو پھر انتظار کے لمحے بھی حسین ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات اسی طرح کی کیفیات جوان اشعار کا موضوع ہیں اپنے اندر ایک جدّت اور نیا پن ضرور رکھتی ہیں۔ لیکن اسمیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ نامانوس نہیں معلوم ہوتیں کیونکہ ان کی تخلیق کرنے والے نے ان میں زندگی اور اسکی عام نفسیات کو الگ نہیں کیا ہے بلکہ بڑے متوازن انداز میں ان کی ترجمانی کی ہے۔ قابل صاحب نے ایسے اشعار میں غزل کی روایت کا پورا پورا چاو¿ پیرا کیا ہے۔ اسی لئے وہ جدید ہونے کے باوجود صحیح معنول میں غزل کے شعر معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں لطافت اور نفاست کا احساس بھی ہوتا ہے وہ ہنگامہ پیرا نہیں کرتے۔ ان کے ہاتھوں ہیجان انگیزی کا وجود نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ خود مہذب ہیں اور اسی لئے تہذیب کو پیدا کرنے اور مہذب بنانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ قابل صاحب کے عشقیہ اشعار میں خاصا تنوع ہے۔ لیکن اس تنوع کے ہاتھوں انکی انفرادیت کو ٹھیس نہیں لگتی اس تنوع میں بھی ان کے مخصوص زاویہ نظر ایک یک رنگی کو پیدا کرتا ہے۔ بہر حال قابل کی عشقیہ شاعری میں بڑی ہی صاف اور ستھری فضا ہے اور اسمیں کسی جگہ بھی ابتدا کا پتہ نہیں چلتا وہ اس دور کے انسان کے لئے اجنبی اور نامانوس نہیں کیونکہ وہ حقیقت سے بھر پور ہے اور اس زمانہ کی جذباتی زندگی کی روح اسمیں موجود ہے ظاہر ہے ایسی شاعری تمام تر جذباتی نہیں ہو سکتی۔ قابل صاحب کی شاعری میں بھی نری جذباتیت نہیں ہے اسمیں حقیقتوں کا احساس بہت نمایاں ہے وہ عشق اور معاملات و کیفیاتِ عشق کو اس سماجی پسِ منظر میں دیکھتے ہیں جوان کے آس پاس اور گردو پیش موجود ہے اسی لئے ان کے یہاں غمِ عشق اور غمِ روزگار کا تذکرہ ساتھ ساتھ ملتا ہے لیکن اس موضوع کو انہوں نے محض رسمی اور روائتی انداز میں پیش نہیں کیا ہے۔ ان کے اس قسم کے اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود ان حالات میں ہو کر گزرے ہیں۔ اسی لئے اس موضوع کو پیش کرنے میں ان کے یہاں خاصی جدت نظر آتی ہئ۔ کیسے عجیب عجیب شعر انہوں نے اس موضوع پر نکالے ہیں۔

ان کا موضوع صرف گردش دوراں اور غمِ روزگار ہی نہیں ہے بلکہ اس موضوع کا سہارا لیکر ان میں زندگی کی بعض اہم حقیقتوں کے بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے غمِ جاناں کو سینے سے لگالینے کے بعد گردش دوراں کو اماں بخشنے کا خیال عشق کے مارے ہوئے بے کسوں کی بزم میں گردش دوراں کے آبیٹھنے، کسی بات پر میخانے سے اُٹھ آنے۔ لذتِ گردشِ ایام کو صحیح طور پر محسوس کرنے، اور جنون کوچہ دلدار رکھتے ہوئے بھی غمِ جہاں کے تقاضوں کی شدت کو دیکھتے رہے اور ظالم زمانے کے ہاتھوں کسی کی آنکھ کے نم نظر آنے کا خیال اس حقیقت کو واضع کرتا ہے کہ قابل صاحب زندگی اور اس کے حالات کا گہرا شعوررکھتے ہیں اور جذباتی زندگی کو ان حقائق سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھتے اسی لئے ان کی شاعری میں ایک نئے ذہن نئے شعور کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
قابل صاحب کی غزلوں کے موضوعات محدود نہیں ہیں۔ ان کے یہاں تو موضوعات کے تنوع کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ عشق ان کی شاعری کا اہم موضوع ضرور ہے لیکن چونکہ وہ زندگی کے دوسرے پہلوو¿ں سے الگ نہیں ہے اسلئے عشقیہ موضوعات بھی ان کے یہاں خاصے پہلو دار متنوع کیفیت کے حامل نظر آتے ہیں لیکن ان کی غزلوں میں اسکے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ زندگی کے عام سیاسی اور سماجی حالات کی ترجمانی وہ بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قابل صاحب پر اپنے زمانے کے حالات کا گہرا اثر ہے وہ خود ان حالات میں سے ہو کر گزرے ہیں جن سے اس زمانے کی زندگی دو چار ہے۔ خیر ان موضوعات کو غزلوں میں پیش کرنا ایسی کوئی اہم بات نہیں ہے۔ یہ کام تو ہر شاعر کرسکتا ہے لیکن ان حالات کو شدت کے ساتھ محسوس نہ کیا جائے اور جب تک انھیں مزاج کا جزوجہ بنا لیا جائے اسوقت تک ان میں جان پیدا نہیں ہوتی۔ قابل صاحب نے ان موضوعات کو اپنے مزاج میں داخل کر لیا ہے اسی لئے وہ ان کو غزل کی صنعت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے ان موضوعات کو غزل میں کچھ اس طرح سمویا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی اور نا مونوس معلوم ہوئے یہ چند اشعار دیکھئے۔

  1. ٹھنڈے پڑے ہیں انجمن رنگ کے چراغ
  2. اک نغمہ بہار بہ طرزِ فغان سہی
  3. ذوقِ سفر جوان ہے قابل بڑھے چلو
  4. منزل بھی آج گردِ رہ کارواں سہی
  5. ہمیں تو رونق زنداں بنا دیا تم نے
  6. چمن میں صبحِ بہاراں کی بات کون کرے
  7. کسی کو رنگ سے مطلب کسی کو خشبو سے
  8. گلوں کے چاک گریباں کی بات کون کرے
  9. نہ گھبرا شبِ ہجر کی تیرگی سے
    سحر بھی نمودار ہوگی اسی سے
  10. کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
  11. یوں بھی ہوا ہے جشن چراغا کبھی کبھی
    قابل صاحب کے کلام میں اس قسم کے اشعار کی تعداد خاصی ہے۔ ان میں دیکھنے کی صرف یہی بات نہیں ہے کہ یہ زندگی سے متعلق نئے موضوعات کے حامل ہیں دیکھنے کی بات تو ان میں یہ ہے کہ یہ شدید تاثر کا نتیجہ ہیں۔ شاعر نے ان کو پیش کرنے کی کاوش نہیں کی۔ بلکہ وہ تو اسکی شخصیت اور مزاج میں داخل ہیں۔ اسی لئے وہ غزل کے حدود سے باہر نہیں نکلتے۔ اس کی بندشوں کو توڑتے نہیں۔ اس کے احتسابات کا خون نہیں کرتے۔ قابل صاحب نے ان موضوعات کو غزل کا مزاج دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ جدید ہونے کے باوجود غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں اور یہی اُن کا کمال ہے۔
    ایک بات قابل صاحب کے کلام میں اور بھی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ زندگی کی محرومیوں کو محسوس کرنے کے باوجود وہ زندگی سے بیزار اور مایوس نہیں ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کی کسک کو محسوس کرنے کے باوجود خاصی جولانی کا احساس ہوتا ہے اور یہ جولانی انھیں عمل کی طرف راغب کرتی ہے۔ چنانچہ عمل کی راہ پر آگے بڑھنے کا احساس ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ زندگی کے غم کو محسوس نہیں کرتے اس غم کی توازن کی شاعری میں ایک لہر سی دوڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن اس غم کا احساس ان کے یہاں الفعالیت کو پیدا نہیں کرتا۔ وہ زندگی سے بیزار نہیں ہوتے۔ ان پر قنوطیت طاری نہیں ہوتی۔ اسی لئے وہ ایسے شعر کہہ سکتے ہیں۔
    ذوقِ سفر جوان ہے قابل بڑھے چلو
  12. منزل بھی آج گردِ رہِ کارواں سہی

ہر قدم پہ حادثہ ، ہر آرزو بھی حادثہ
حادثے پھر بھی ہمارے حوصلوں سے کم رہے

یہاں ایک اُمنگ اور ولولے کا احساس پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے آگے بڑھنے کی خواہش اور ایک والہانہ انداز میں آگے بڑھنے کی خواہش اس پر چھا جاتی ہے اور یہ خیال اس کے دل میں جا گزیں ہو جاتا ہے کہ زندگی میں اصل چیزحوصلہ اور ولولہ ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی موت بن جاتی ہے اور اس دنیا میں کسی کام کا نہیں رہتا۔ قابل صاحب کے یہاں انسانی زندگی میں محرومیوں اور ناکامیوں کی کسک کا احساس اس کیفیت کے ساتھ شامل ضرور ہے لیکن وہ اس کے باوجود آ گے اور کچھ کرتے رہنے کے قائل ہیں۔ کہ یہی ان کے نزدیک زندگی ہے۔
قابل صاحب پخة مشق شاعر ہیںوہ غزل کے مزاج کو سمجھتے ہیںاسکو برتنے کے ٓاداب سے خوب واقفیت رکھتے ہیںانہیں غزل کوغزل بنانے کاگُر خوب آتا ہے اسی لیے ان کے یہاں ہر موضوع غزل کا موضوع معلوم ہوتا ہے بات یہ ہے کے قابل صاحب غزل کے اصول سے واقفےت ہی نہیں رکھتے وہ اس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے ان کے یہاں کوئی بات بھی ہو وہ بڑی آسانی سے غزل کا روپ اختیار کرلیتی ہے ۔ حالانکے اس سلسلے میں انہیں کسی قسم کی کاوش نہیںکرنی پڑتی۔
دیدئہ بیداران کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ اسمیں جوغزلیں شامل ہیں وہ ان کے کلام کی انہیںخصوصیات کی حامل ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

٭٭٭

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

Hayat-e- Qabil Ajmeri by Mushtaq Khanzada

Articles

حیات قابل اجمیری

مشتاق احمد خان زادہ

 

قابل محفل شعر و سخن میں ایک تابندہ ستارہ بن کر اُبھرا مگر جلدہی عدم کی ظلمتوں میں ڈوب گیا۔ اگر چہ ملک کا یہ ممتاز شاعر دنیا کی محفل سے اٹھ گیا مگر اپنی شاعری کے جواہر پارے اور اپنی زندگی کے اُن دکھوں کی یاد ہمارے لئے چھوڑ گیا جنہوں نے عمر طبعی سے بہت پہلے ہمارے متعدد جواں سال شاعروں کی زندگی میں ختم کر دیا اور کرتے رہین گے۔
قابل کی زندگی امنگوں، حوصلوں سے بھرپور شروع ہوئی اور محرومیوں، مایوسیوں میں گھر کر ختم ہوگئی۔ وہ زندگی کو روشن سے روشن تر دیکھنے کی تمنائیں پالتا رہا اور اس کی اپنی زندگی آہستہ آہستہ تاریک سے تاریک تر ہوتی چلی گئی۔ اس نے اردو شاعری کو تخلیقی قوتوں کا قیمتی سرمایہ سونپا، اپنا خون جگر پلایا۔ ایسے نادر خیالات سے نوازے جن میں اکدم روزگار کے باوجود، مستقبل کو سنوارنے کی اُمنگیں ہیں، حسن ہے، نفاست و سادگی ہے مگر زندگی نے اُسے پریشانیاں، پشیمانیاں، الجھنیں اور بے چینیاں دیں۔ وہ زندگی سے محبت مانگتا رہا، مسرت، سکون اور آسودگی چاہتا رہا مگر زندگی اس سے رفتہ رفتہ دور کھنچتی چلی گئی، یہاں تک کہ سبزہ زار زندگی کو اپنے خون جگر سے سینچنے والا یہ شاعرت بے مایہ آخر کشمکش حیات سے تنگ آ کر موت کی آغوش میں جا سویا۔
قابل جن کا اصل نام عبدالرحیم تھا۔ ہندوستان کے ضلع اجمیر کے قصبہ چرّلی میں 27 اگست 1931 کو پیدا ہوئے۔ ابھی موصوف صرف سات سال کے تھے کہ والدین کے سایہ عاطف سے محروم ہوگئے۔ یہ انکی زندگی کا پہلا المناک سانحہ تھا۔ دوسرا سانحہ جس نے انکی زندگی میں زہر گھول دیا دق کا جان لیوا مرض تھا جو انہیں چھٹپن میں والدین کی طرف سے ملا۔ انکے والد عبدالکریم اور انکی والدہ دونوں دق کے مرض میں مبتلا تھے۔
ان کے والد تقسیم ہند سے قبل تعمیرات کی ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ موصوف بہت فرض شناس تھے۔ اس لئے خود تیز اور جھلتی ہوئی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہ کر تعمیری کام کی نگرانی کرتے تھے۔ چنانچہ اس مسلسل اور صبر آزما نگہداشت کی وجہ سے انکے کمزور جسم پر انتہائی مضر اثرات پڑے۔ یہاں تک کے وہ دق کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔ اُن پر دق کا پہلا حملہ ۲۳۹۱ئ میں ہوا جب قابل کی عمر صرف ایک سال تھی۔ یہ مرض اس تیزی سے بڑھا کہ ۸۳۹۱ئ میں ان کا اجمیر کے لونگیہ ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ اس صدمہ سے قابل کی والدہ اس قدر نڈھال ہوئیں کہ وہ بھی چند دنوں کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں ۷۳۹۱ئ میں قابل کے چھوٹے بھائی شریف بھی دق کے مرض میں چل بسے۔ والدین کے انتقال کے بعد انکے دادا امیر بخش صاحب نے پرورش کی۔
قابل اجمیر شریف کے پیزادہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد پٹھان سلطنت کے دور میں یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اس خاندان کے بیشتر افراد اعلیٰ فوجی عہدوں پر فائز تھے۔ انہیں اعلیٰ خدمات کے صلہ میں حکومت کی طرف سے اجمیر شہر کے قرب و جوار میں بڑی بڑی جاگیریں ملی تھیں مگر امتداد زمانہ اور گردشِ حالات کی وجہ سے یہ جاگریں ختم ہوگئیں اور جب قابل نے جنم لیا تو ان کے والدین کے حصہ میں صرفدو مکانات آئے، ایک پختہ مکان تر پولیا گیٹ کے اندر محلہ اندر کوٹ میں تھا۔ دوسرا اجمیر کے قصبہ چرلی میں واقعہ تھا۔ قسمت کی ستم ظرفی دیکھئے کہ پاکستان میں قابل کو ان میں سے کسی مکان کا معاوضہ نہیں ملا۔
علمی اور رُحانی ماحول
قابل اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت تھے کہ انہیں اپنے محلے کے گردوپیش سازگار تعلیمی ماحول ملا۔ ان کی رہائش گا کے صدر دروازہ کے کچھ فاصلے پر ڈھائی دن کے جھونپڑے کی وہ عظیم الشان مسجد جسے سلطان شہاب الدین غوری نے تعمیر کروائی تھی۔ اس مسجد میں سلطان نے دینی تعلیم کے لئے ایک مثالی اور معیاری درس گاہ کا بھی اہتمام کیا تھا۔ مکان کے عقبی دروازے کے سامنے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی وہ عظیم الشان درگاہ تھی۔ جس میں جامعہ شاہجہانی اور مدرسہ نظامیہ جسے بلند پایہ تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ مدرسہ نظامیہ کے اساتذہ ایسے بلند پایہ اور جید علماءپر مشتمل تھے جنہیں نظام دکن نے ملک کے طول و عوض سے منتخب کیا تھا´ قابل نے اپنا بچپن اسی درگاہ شریف کے علمی، ادبی اورروحانی ماحول میں گذارا، عرس شریف کے قیام میں عالم اسلام کم و بیش تمام مشاہیر اسلام، علماءاور صوفیائے کرام تشریف لاتے تھے۔ جن کی علمی اور روحانی صحبت سے بے شمار لوگ فیضیات ہوتے تھے، درگاہ کے مناظر انتہائی روح پردر تھے۔ کہیں قرا¿ت کی دل نشیں صدائیں تحلیل ہورہی ہیں، کہیں علمی خطابت کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو کہیں محفل سماع کی ترنم ریز نغمگی دلوں کو گرما رہی ہے، قابل کا بچپن اس موحول سے بے حد متاثر ہوا۔
درگاہ معلی کے اسی ماحول میں ان کے کان شہرئہ آفاق قوالوں، نغمہ نوازوں، کی صداو¿ں اور شاعروں کے کلام سے آشنا ہوئے۔ وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے داغ کی غزلیں، بے دم کی نعتیں، سعدی حافظ شیرازی اور حضرت غوث اعظم اور حضرت امیر خسرو کا روح پرور صوفیانہ کلام سنتے رہتے تھے، بڑے بڑے شعراءکا کلام ان کے سنتے سنتے حفظ ہوگیا تھا۔ اور وہ متاثر ہو کر قوالی کی لہن میں اکثر اوقات ان اشعار کو دہراتے رہتے تھے۔ اور اپنے دادا ، دادی کو سنایا کرتے تھے۔ یہ وہ ابتدائی اثرات تھے جو آگے چل کر ان کی شاعری کا جزو اعظم بن گئے۔ ان کی شاعری میں جو غنائیت اور ترنم کے خواص بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ ان کی اصل وجہ قوالیاں، نعتیں اور اشعار کی وہ ترنم ریز صدائیں تھیں جو ہمیشہ ان کے کانوں میں گونجتی رہتی تھیں۔
بچپن میں انکی زندگی پر ایک ایسی بلند پایہ شخصیت اثر انداز ہوئی جس کی بدولت انہیں تحصیل علم کا بے پناہ شوق پیدا ہوا۔ یہ شخصیت عبدالرحمن عرب کی تھی جو جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل اور عالم و خطیب تھے۔ انکی متعدد تصانیف عالم اسلام کی تمام دینی درسگاہوں میں رائج تھیں جب مدرسہ نظامیہ کی تشکیل علم میں آئی تو نظام دکن نے عبدالرحمن عرب صاحب کو عراق سے بلواکر اس مدرسہ میں بحیثیت مدرس متعین کیا۔ جب ان کا تقرر ہوا تو قابل کے دادا نے اپنے مکان کا بلائی حصہ عرب صاحب کو دیدیا۔ جہاں وہ اب تک مقیم ہیں جب عرب صاحب سوا سلف خریدنے جاتے تو قابل صاحب کو سیر کے لئے لے جاتے۔ قابل اکثر و بیشتر ان کے ساتھ درس گاہ بھی چلے جاتے تھے۔ اس طرح قابل نہ صرفستھرے تعلیمی ماحول سے آشنا ہوئے بلکہ عرب صاحب کی شخصیت سے بے پناہ متاثر ہوئے۔
درگاہ شریف اجمیر کے مدرسہ نظامیہ میں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۶ سال کی عمر میں انھوں نے بغدادی قاعدہ ختم کر لیا۔ اس درگاہ کے ابتدائی مدارج کے قابل استادوں یعنی مولانا محمد ادریس صاحب اور مولانا محمد یونس صاحب کی تربیت میں قابل نے دس سال کی عمر میں صرفِ دنحو پر عبور حاصل کرنے بعد شیخ سعدی کی گلستان بوستان ختم کر لی۔ ۳۱ سال کی عمر میں وہ مدرسہ نظامیہ کے ثانی درجوں کی تعلیمات مکمل کر چکے تھے۔ اس زمانے میں ایک خاص واقعہ رونما ہوا جس کی بدولت ان کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہوئی۔ یہ ۰۴۹۱ئ کا ذکر ہے کہ ایک بزرگ پر سجادہ نشین صاحب کی سالانہ محفل سماع میں امجذاب کی اس قدر کیفیت طاری ہوئی کہ محفل ختم ہونے کے بوس بھی ان پر دجد قائم رہا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو قابل اور انکے دوست معلوم کر کے موصوف کو انکے گھر چھوڑنے چلے گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ یہ بزرگ ارمان اجمیری تھے۔ جب انکو ہوش آیا تو انہوں نے قابل کو سینہ سے لگا لیا۔ ارمان صاحب اس بزرگانہ شفقت اور اس خلوص سے پیش آئے کہ قابل نے مستقلاً ان کے پاس آنا جانا شروع کر دیا۔ ارمان صاحب خود اچھے شاعر تھے۔ چنانچہ ان کی شاعری نے قابل کو اتنا متاثر کیا کہ وہ غزلیں کہنے لگے۔ جب ارمان صاحب کو معلوم ہوا کہ قابل غزلیں کہنے لگا ہے تو وہ کمال توجہ سے ان کی غزلوں کی اصلاح کرنے لگے۔ بزم ارمان کے تحت جو ہفتہ وار اور سالانہ مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے ان کا قابل کی شاعرانہ طبیعت پر خوشگوار اثرپڑا۔ ارمان صاحب سے فیض یاب ہونے کے بعد قابل نے ایک دوسری عظیم شخصیت مولانا عبدالباری معینی صاحب سے رجوع کیا۔ مولانا معینی عربی کے جید عالم اور تفسیر حدیث کے بلند پایہ محقق تھے۔ آپ حیدرآباد دکن میں عربی ادبیات اور تاریخ کے ایک ممتاز پروفیسر تھے۔ جب مولانا اجمیر شریف تشریف لائے تو انجمن ترقی اردو کا دفتر قائم ہوا۔ جس کے آپ صدر بنائے گئے۔ قابل کے ایک دوست جناب پیکر واسطی صاحب کے توسط سے مولانا نے قابل کو اپنے حلقہ تلامذہ میں شامل کر لیا۔ مولانا کے فیض صحبت سے قابل کی شاعری کو حیات نو ملی۔ مولانا باری کی اصلاح کی بدولت قابل کے کلام میں رفتہ رفتہ پختگی آتی گئی۔ مولانا کی معیت میں قابل نے پہلی دفعہ آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کی۔ اس مشاعرے میں ہندوستان کے مشہور شعراءموجود تھے۔ جن میں جگر مرادآبادی، ماہر القادری، حفیظ جالندھری، ساعر نظامی، سیماب اکبر آبادی قابلِ ذکر ہیں یہ مشاعرہ معینہ اسلامیہ ہائی اسکول کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ اور اس مشاعرے ہی سے قابل کی شخصیت پہلی بار منظر عام پر آئی۔ انکے کلما پر استاد شعراءنے اس قدر داد و تحسین کا فراخ دلی مظاہرہ کیا کہ معین نے قابل کو ایک شاعر کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔

٭٭٭

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

Tahzeeb ka Janaza by Shams Wodood

Articles

تہذیب کا جنازہ"(انشائیہ)

شمس ودود

 خلاف معمول آج “اخلاق” صاحب اپنے متعینہ وقت سے پہلے ہی خواب غفلت سے بیدار ہوگئے, کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی جب وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا تو بستر پہ لیٹے ہی لیٹے اپنا نیک نام زمانہ “لیپ ٹاپ” ہی آن کر دیا, متعدد جمائیاں لینے کے بعد وقت پر نظر جمی تو بڑی حیرت ہوئی, برجستہ زبان سے نکلا “ارے! یہ تو میں دو گھنٹہ پہلے ہی بیدار ہو گیا……ابھی تو دس بھی نہیں بجے ہیں”! پھر کیا تھا….. نیند نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور فرار ہو چلی, اب “اخلاق ” صاحب بڑے ہی شش و پند میں مبتلا ہوئے کہ آیا اب کیا کیا جائے؟ ……انگلیوں سے لاشعوری طور پر حرکت ہوئی اور فیس بک (Facebook )……”کتابی چہرہ” یا “چہروں کی کتاب” …..کھول بیٹھے, اب کیا تھا….. حرکت تو سرزد ہو ہی گئی لیکن پھر حیرت و استعجاب سے ان کی آنکھیں انگریزی کے حرف “O” کا طواف کرنے لگیں, (اضطراری طور پر یہ حرکت آپ سے بھی سرزد ہو سکتی ہے……کوئی بات نہیں, تجربہ انسان کو نکھار دیتا ہے). جب حیرانگی ذرا کم ہوئی تو فیسبک پہ آئے ہوئے ایک پوسٹ کو پڑھنے لگے, پھر بھی جب اس پوسٹ کو سمجھ نہ سکے تو بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا (اگر چہ تنہا ہی تھے)……”ایک عرصے سے علالت میں رہنے کے بعد آج “بروز اتوار “تہذیب” (صاحب یا جناب کے بغیر) کا انتقال ہوگیا “- “انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” تہذیب کی نعش “جامعہ ھذا” کے باہر شاہراہ سنسان پر لاوارث پڑی رہی, جس پر گھنٹوں کسی آدم زاد کی نگاہ نہیں پڑسکی”- گھبراہٹ اور تجسس کے امتزاج کے ساتھ جب “کمنٹ باکس” کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ متعدد لوگوں نے تعزیتی جملے کہے ہیں- کسی نے مرحوم کی تعریف کی تھی, تو کسی نے اپنے غم کا اظہار کیا تھا اور کچھ لوگوں نے تو غم و غصہ دونوں کا اظہار کیا تھا- ایک صاحب نے لکھا تھا کہ…… “تہذیب صاحب کو میں نے کبھی دیکھا تو نہیں لیکن ان کے بارے میں سنا خوب ہے, کافی نامور شخص تھے”- ایک اور صاحب نے لکھا تھا …….”تہذیب صاحب کی ’’جامعہ ھذا “سے خوب راہ و رسم تھی, جامعہ کے قیام سے لیکر ٢٠ویں صدی تک دونوں کا بڑا گہرا تعلق رہا, لیکن نہ جانے کیوں “مغرب” کی جانب سے چلنے والی “گرم ہواؤں” نے انہیں احساس کم تری کا شکار بنا دیا اور پھر دن بدن لاغر ہوتے گئے اور آج اس دار فانی سے بھی کوچ کر گئے”- ایک اور صاحب نے تہذیب کے اعزہ و اقرباء, لاحقین و احباء کو صبر و تحمل سے ملاقات کرنے کی تجویز پیش کی, ……اسی طرح سے متعدد افراد نے کچھ نہ کچھ بطور تعزیت ضرور کہا تھا, مگر “فہم و فراست” کے سوال نہایت مضحکہ خیز اور غور طلب تھے, ان دونوں کا مشترکہ سوال یہ تھا کہ……. “تہذیب تھے کون؟ کیا مرد تھے ؟ یا زن ؟ یا……وغیرہ, ان کا ملنا جلنا کس قسم کے لوگوں سے رہتا تھا”؟ بہرکیف “اخلاق صاحب” تھے بڑے خود سر, کسی کے پاس اپنی مرضی سے گئے تو گئے, ورنہ مجال کیا کسی کی جو انہیں کچھ وقت تک اپنے پاس رکھ سکے – صبر اور تحمل سے تو ناتا ہی توڑ رکھا تھا, کہیں آتے بھی تھے تو غرض کو ساتھ لئے بغیر کبھی تشریف نہ لاتے, لیکن تہذیب کی میت پر ان کی دہلیز تک گئے- اب جب کہ پورے جامعہ میں تہذیب کے انتقال کی خبر پھیل گئی, تمام لوگ “اخلاق صاحب کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشریف لائے, لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں, ہر شخص ایک دوسرے سے تہذیب ہی کے تعلق سے گفتگو میں محو تھا, پھر کسی جانب سے رسم و رواج دونوں آتے ہوئے دکھائی دئے, پھر کیا تھا….. سب نے ملکر (بشمول مرد و زن, بوڑھے, بچے اور جوان وغیرہ) تہذیب کا پرتو الٹا, پھر رسم و رواج دونوں نے سنت سے مشورہ کر کے قبل از تدفین کے تمام مراحل سے گزار کر تہذیب کو کفن پہنایا, عطر و کافور ملا گیا – لیکن تمام لوگ اس بات لو لیکر بڑی حیرت میں تھے کہ “روح قبض ہو جانے کے باوجود بھی تہذیب کے “ماتھے کا شکن” نہ گیا اور ان کی انگلی بھی (شہادت کی) عوام کی جانب اٹھی ہوئی یوں لگ رہی تھی گویا کوئی حکم صادر کر رہے ہوں, یا “کسی کو اس کے کسی فعل پر تنبیہ کر رہے ہوں”- دوسری طرف “اخلاق” صاحب بڑے بے چین پھر رہے تھے کہ آیا “لوگوں نے تہذیب کی میت پر آنسو ہی نہیں بہایا یا روتے روتے سب کے اشک خشک ہو گئےہیں”؟ ع: دل رو رہا ہے میرا مگر آنکھ نم نہیں لیکن ایسی بے چینیوں سے اب کیا ہو سکتا تھا, اب تو مرحلہ تھا کہ میت کو چار کاندھوں پر اٹھایا جائے اور درگور کر دیا جائے, عین اسی وقت “تہذیب” کا وکیل “مروت” ایک جانب سے بھاگا بھاگا آیا اور جنازے کو روک کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہنے لگا کہ تہذیب صاحب کا وصیت نامہ تو سن لیجئے, جو انہوں نے مجھ سے لکھواکر “شرمندگی” کے پاس بطور امانت رکھوا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ “میرا جنازہ اٹھنے سے پہلے یہ وصیت نامہ لوگوں کو ضرور سنا دینا”، میری تاخیر کا سبب بھی یہی ہے کہ میں “شرمندگی” کو تلاش کرنے نکل پڑا تاکہ اسے آپ لوگوں کے سامنے حاضر کر سکوں, ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر چند وقفے کے بعد جب پر تکلف انداز میں شرمندگی تشریف لائی (تھیں بھی محترمہ کھجور کے تنے کی طرح لمبی اور الف کی طرح سیدھی کہ خراما ہوتیں تو اطراف سے لوگ یہ کہنے پہ مجبور ہوجایا کرتے تھے کہ اماں! ذرا سنبھل کے ) اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے بے حد تکلف کے ساتھ وصیت نامہ پڑھنا شروع کیا جو کچھ یوں تھا کہ: – قسم تمہاری قسم ہے تم کو, نہ دینا کاندھا اٹھے گا جب بھی جنازہ میرا………!
————————————
انشائیہ نگار جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایم۔اے ۔ کے طالب علم ہیں۔
Email: shamswadoods9@gmail.com

 

Cultural activities of Educational Institutes

Articles

تعلیمی اداروں میں تہذیبی وثقافتی سرگرمیاں

ڈاکٹر ذاکر خان

قسط اول
انسانی زندگی اور اس کی تمام تر تہذیبی و ثقافتی قدریں دن بدن تبدیلی اور تغیر کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ اس تبدیلی اور تغیر کے اثرات سماج و معاشرے پر بھی نمایاں نظر آنے لگے ہیں۔ ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان دوستی ، اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو سازگار کیا جائے اس تعلق سے تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً منعقد کی جانے والی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
تہذیب و ثقافت انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اقوام کی عادت و اطوار، ان کا طرزِ فکر، ان کا دینی و دنیوی نظریہ، ان کے اہداف و مقاصد کسی بھی ملکی تہذیب کی اساس ہوتے ہیں۔اسی سے قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں نہ ہی اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکتی ہیں اور نہ ہی وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت کر سکتی ہے۔ دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ ہمیشہ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا ہے جس کی ثقافت غالب رہی ہے ۔ اگرکسی قوم کو اس کی تاریخ، اس کے ماضی، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے تشخص، اس کے علمی، مذہبی، قومی، سیاسی اور ثقافتی افتخارات سے جدا کر دیا جائے، ان افتخارات کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اس کی زبان کو زوال کی جانب ڈھکیل دیا جائے، اس کا رسم الخط ختم کر دیا جائے تب وہ قوم زندگی سے محروم ہوکر اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے اوراس کی نجات کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں
تہذیب اور ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے البتہ تہذیب ثقافت سے جنم نہیں لیتی بلکہ تہذیب ثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کی راہ متعین کرتی ہے۔ تہذیب کسی گروہ کے عقائد کے تابع ہوتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ افراد کو گروہ میں قائم رکھنے کیلئے کچھ مشترک باہمی عوامل لازم ہیں اور یہ عوامل ہی دراصل عقائد کا روپ دھارتے ہیں۔ فطری طور پر یہ عوامل ان کے مذہبی اصول ہی ہوتے ہیں۔ تہذیب کو مورخین نے مذہب کے زیرِ اثر ہی گرداناہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عیسائی اور یہودی بہترین اوصاف کا منبع زبور ،تورات اور انجیل کو قرار دیتے تھے اور یہ استدلال درست بھی تھا گو متذکرہ کتب نے تحریفات کے سبب الہامی حیثیت کھو دی ہیں۔ پھر جب غیرمسلم دنیا اپنے عقائد سے بالکل اچاٹ ہو گئی تو انہوں نے تہذیب کی تعریف سے لفظ مذہب کو حذف کر دیا۔ اس کے باوجود اب بھی کچھ ڈکشنریاں ایسی ہیں جن میں تہذیب کا تعلق مذہب سے بتایا گیا ہے یا مذہب کا نام لئے بغیر اس طرف اشارہ کیا ہے
تعلیمی ادارے تہذیبی و ثقافتی قدروں کو برقرار رکھنے اور ان کی خاطر خواہ نشو نماکرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان اداروں کا یہ بھی اوّلین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی قدروں کی آبیاری کرتے رہیں۔ تعلیم کی ترسیل کے علاوہ یہ ادارے socialization and the transmission of cultural norms and values. جیسے اہم فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ socialization اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے ایک طالبِ علم اپنی ذاتی شناخت بناتے ہوئے معلومات، زبان اور ایسی سماجی صلاحتیں سیکھتا ہے جو اسے دوسروں سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔socialization کے بعد تعلیمی اداروں کی سب بڑی ذمّہ داری transmission of cultural norms and values to new generationsہے۔یعنی نسل نو میں تہذیبی اصولوں اور قدروں کو منتقل کرنا۔ تعلیمی ادارے مختلف طبقات میں بٹی ہوئی آبادی کو ایک سماج کی حیثیت عطا کرتے ہیں اور انہیں قومی شناخت سے نوازتے ہوئے ملک کا مستقبل تیار کرتے ہیں۔یہاں منعقد کی جانے والی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں سے ہمیں بطور خاص تین قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
(۱)سماجی فوائد: عام طور پر اس قسم کی سرگرمیاں طلبا وطالبات کا ایک بڑا گروہ انجام دیتا ہے جس میں مختلف سماج و معاشرے سے آئے ہوئے طلبا وطالبات بھی شامل ہوتے ہیں اس طرح سے یہ سرگرمیاں طلباکوسماج و معاشرے سے ہم آہنگ بھی کرتی ہے اور دیگر قوموں اور سماجوں سے تعلقات استوار اور رشتے مضبوط کرواتی ہیں ۔ ان ہی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں interpersonal skills پروان چڑھتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کے جذبات، ایک دوسرے کے سماجی رسم و رواج اور مذہبی عقائد سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے انہیں کی طرح سماج و معاشرے میں اور کتنے گروہ کہاں کہاں پر سرگرمِ عمل ہیں۔
(۲)عملی فوائد: اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ کو ایک مقصد(common goal) کے لیے کام کرنے پر تیار کرتی ہیں۔ ان میں احساسِ ذمّہ داری(sense of responsibility)پیدا کرتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں طلبہ میں اعتماد بھر دیتی ہیں اور انہیں مشکل حالات کا سامنا کرنا سکھاتی ہیں۔ عملی فوائد میں ہم مختلف قسم کے کھیل کود کے مقابلوں کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جس کے ذریعے طلبہ خود اپنی صحت کی دیکھ بھال کرنا، ذہنی و جسمانی طور پر چاک و چوبند اور صحت مند رہنا سیکھ جاتے ہیں۔انہیں اپنے صحت مند جسم سے محبت ہونے لگتی ہے ۔ یہی خوشحال زندگی کااوّلین اصول ہے۔
(۳)تعلیمی فوائد: عام طور پر ہرفن مولا کہلانے والے لوگ نہ صرف جلد نوکری یا روزگار حاصل کرلیتے ہیں بلکہ ماضی میں انجام دی گئی اِن سرگرمیوں کی بنا ءپر انہیں اعلیٰ تعلیم کے بہترین مواقع دوسروں کی بہ نسبت جلد حاصل ہوجاتے ہیں۔اس طرح سے ان کے ذریعے انجام دی گئی سرگرمیاں ان کے بہتر مستقبل کی ضامن بھی بن جاتی ہیں۔
تعلیمی اداروں کی مختلف سرگرمیاں
تہذیب و ثقافت کو زندہ اور پائندہ رکھنے کے لیے تعلیمی ادارے مختلف قسم کی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں ان سرگرمیوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ابتدائی ،ثانوی اور ثلاثی سرگرمیاں کہہ سکتے ہیں۔
Recitation, Simple Story Telling, Dancing, Drawing, Painting, Fancy Dress, Folk Dance, Assembly, Reading جیسی سرگرمیوں کو ابتدائی سرگرمیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کا اطلاق پرائمری اسکولوں پر کیا جاسکتا ہے۔
Debate and discussion,School magazine, Dramatics, Study circle, Societies, Art groups, Seminar, Poetic Gathering, Scouting, Sculpture, Exhibition, Folk Songs, Students’ Council, Celebration of Religious National and Social Festivals, Organization of School Panchayat Mock Parliament, Social Study Circle, Fair, First Aid, Red Cross, Social Survey, وغیرہ کو ثانوی سرگرمیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے اور ان کا اطلاق سیکنڈری اسکولوں پر کیا جاسکتا ہے۔
National Cadet Corps (NCC), National Sports Organisation (NSO), National Service Scheme (NSS), Debate and discussion, Seminar, Conference, Social Survey وغیرہ کو ثلاثی سرگرمیاں کہہ سکتے ہیں اور ان کا اطلاق کالجوں پر کیا جاسکتا ہے۔
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ بھی تعلیمی اداروں میں کچھ مخصوص قسم کی سرگرمیاں بطور خاص انجام دی جاتی ہیں مثلاً
Children’s Day, Woman’s Day, Various Religious Festivals, New year, Republic Day, Independence Day, Teachers Day, Arts and Crafts Exhibition, Inter-School Science Fest وغیرہ۔
پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کی تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں اور ان سرگرمیوں کے اختتام پر ایک مخصوص قسم کے جشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس مختصرسے مضمون میں پورے ملک کا حوالہ دینا تقریباً ناممکن ہے لیکن عروس البلاد ممبئی اور اس کے اطراف میں واقع تعلیمی اداروں میں منائے جانے والے مخصوص دنوں یا جشن کے نام یہاں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً
Don Bosco Institute of Technology. میں منایا جانے والا جشن Crextal
Narsee Monjee College of Commerce & Economics میں منایا جانے والا جشن ، امنگ
K. J. Somaiya College of Engineering میں منایا جانے والا جشن Symphony
Mithibai College میں منایا جانے والا جشن Kshitij
Xavier Institute of Engineering میں منایا جانے والا جشن Spandan
Veermata Jijabai Technological Instituteمیں منایا جانے والا جشن Pratibim
Anjuman i Islam میں منایا جانے والا جشنJushn e Anjuman کہلاتا ہے
جہاں تک اردو تعلیمی اداروں کا تعلق ہے ممبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں واقع یہ ادارے تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے ہمیں اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان اداروں میں سب سے نمایاں نام ڈپارٹمنٹ آف اردو یونیورسٹی آف ممبئی کاہے۔یہاں ڈپارٹمنٹ کے صدر پروفیسر صاحب علی صاحب کی خصوصی دلچسپی اور رہنمائی کے سبب تہذیبی و ثقافتی پروگرام تواتر کے ساتھ منعقد ہوتے رہتے ہیں۔
چوں کے ممبئی میں انجمن اسلام اور انجمن خیرالاسلام کے تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہوا ہے اس لیے ہمیں زیادہ تر سرگرمیاں ان ہی کے یہاں نظر آتی ہیں۔ اس معاملے میں انجمن اسلام باندرہ میں منعقد ہونے والا فی البدیہہ تقریری مقابلہ، سیف طیب جی میں منعقد کیے جانے والے ثقافتی مقابلے، انجمن اسلام سی ایس ٹی پر منعقد ہونے والے مقابلے قابلِ ذکر ہیں۔
اکبر پیربھائی کالج میں گزشتہ دودہائیوں سے جاری بیت بازی کے مقابلے نے تہذیب و ثقافت کے تنِ مردہ میں روح پھونکی ہے۔ اسی طرح کموجعفر اور برہانی کالج میں منعقد کیے جانے والے مقابلوں سے انکار ممکن نہیں۔
ممبئی کے مضافات گوونڈی شیواجی نگر میں واقع نورالاسلام اردو ہائی اینڈ جونئیر کالج تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کے معاملے میں دیگر بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے۔ اس ادارے نے پرنسپل فضل الرّحمٰن خان کی رہنمائی میں کامیابی و کامرانی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اکثر و بیشتر یہاں شعری نششتیں، ادبی محفلیں اور دیگر ثقافتی مقابلے منعقد کیے جاتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ممبئی کے اطراف میں واقع بھیونڈی تہذیبی اور ثقافتی مقابلوں میں اردو کے تمام بڑے مراکز سے آگے نکلتا ہوا نظر آرہا ہے اور اس کا مکمل سہرا کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے سرہے۔ جتنے مقابلے یہاں منعقد کیے جاتے ہیں شاید ہی کہیں اور منعقد کیے جاتے ہونگے۔
کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کی معرفت چلنے والے رئیس ہائی اینڈ جونئیر کالج کے پرنسپل ضیا الرّحمٰن انصاری نے ہمیں بتایا کہ ان کے یہاں باقائدگی سے حمد ، نظم، اردو ، انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں خوش خطی اور ڈرائنگ کے مقابلے انٹر اسکول لیول پر منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح تقریر، قرات، جنرل نالج کوئیز، سوشل کوئیش، وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔رئیس ہائی اسکول میں منعقد ہونے والا آل مہاراشٹر تقریری مقابلہ تقریباً 80 سالوں سے جاری ہے، دلیپ کمار، قادر خان اور نوتن جیسے فلمی ستارے رئیس ہائی اسکول کے مقابلوں میں بطور مہمان شامل ہوچکے ہیں۔گزشتہ چھ برسوں سے یہاں منعقد ہونے والے تقریری مقابلے میں انتظامیہ اور پرنسپل مسلم IASآفیسر کو بطور مہمان مدعو کر رہے ہیں تاکہ طلبہ و طالبات ان سے ترغیب حاصل کرسکیں۔اسی سوسائٹی کے ذریعے وڈلی میں سیرت النّبی تقریری مقابلہ، مومن گرلس میں غزل سرائی، رفیع الدین فقیہ ہائی اسکول میں پرنسپل شبیر فاروقی کی رہمنائی میں تمثیلی مشاعرہ وغیرہ باقائدگی سے مننعقد کیے جا رہے ہیں۔
بھیونڈی کے دیگر ادارے بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں، صافیہ گرلس قرآن کوئیز کے لیے، نیو نیشنل ، الحمداور صلاح الدین ایوبی ہائی اسکول ادبی نششتوں کے لیے مشہور ہیں۔
سالہا سال سے ممبئی اور اطراف و اکناف ہی نہیں پورے مہاراشٹر میں منعقد ہونے والے مقابلوں میں شمیم طارق صاحب کی سرپرستی میں منعقد کیا جانے والا مقابلہ¿ دینیات اور حامد اقبال صدیقی صاحب کے کوئیز ٹائمز کے ذریعے منعقد کیا جانے والا جنرل نالج کوئیز کمپیٹیشن تمام مقابلوں میں سرِ فہرست ہے۔ حامد اقبال صدیقی صاحب کے مقابلے کو اردو میڈیم کا سب سے بڑا ریئلٹی شو اور طلبا و طالبات کی سب سے بڑی تفریح قرار دیا جاسکتا ہے۔ان ہی مقابلوں نے ہماری زبان، ہماری تہذیب و ثقافت اور خود ہمیں زندہ رکھا ہے۔
(ان شا اللہ آئندہ قسط میں مہاراشٹر کے دیگر اردو تعلیمی اداروں میں منعقد کی جانے والی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے گا)

مضمون نگار سے مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

khanzkr@gmail.com

Aurat by Rasheed JahaN

Articles

عورت

رشید جہاں

ڈاکٹر رشید جہاں (25 اگست، 1905ء – 29 جولائی، 1952ء)،  اردو کی ایک ترقی پسند مصنفہ، قصہ گو، افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں، جنہوں نے خواتین کی طرف سے تحریری اردو ادب کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ پیشے سے ایک ڈاکٹر تھیں۔

ڈاکٹر رشید جہاں کا تعلق علی گڑھ کے ایک روشن خیال خاندان سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ علی گڑھ کے مشہور تعلیم اور مصنف اور علی گڑھ خواتین کالج کے بانیوں میں سے ایک تھے، جنہیں ادب و تعلیم میں سن 1964ء میں حکومت ہند کی طرف سے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ میں تعلیم نسواں کا پہلا اسکول اور کالج قائم کیا تھا جو آج بھی عبد اللہ گرلس کالج کے نام سے معروف ہے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک ادارہ ہے۔ ان کی والدہ وحید شاہجہاں بیگم بھی بہت روشن خیال تھیں اور ایک رسالہ ’خاتون‘ نکالتی تھیں۔ جس کا مقصد مسلم خواتین میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ لکھنؤ کے مشہور ازا بیلا تھوبرون کالج میں کروا دیا گیا تھا۔ وہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی کے لارڈ ہارڈنگ میڈیکل کالج میں داخل ہوئیں اور وہاں سے سنہ 1934ء میں ڈاکٹر بن کر نکلیں۔ سنہ 1934ء میں ہی ان کی شادی محمود الظفر کے ساتھ ہوئی جو اردو کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ امرتسر کے اسلامیہ کالج میں پرنسپل بھی تھے۔ وہیں ڈاکٹر رشید جہاں کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوئی اور وہ با قاعدہ ترقی پسند تحریک کی سرگرم رکن بن گئیں۔

رشید جہاں پہلی بار 1932ء میں زیر بحث آئیں جب ان کے افسانوں اور ڈرامے کا مجموعہ ‘‘انگارے’’ شائع ہوا۔ افسانہ نگاری انہوں نے اپنی شادی سے پہلے سے شروع کر دی تھی، اور سنہ 1931ء میں سجاد ظہیر کی ادارت میں ” انگارے “ کی اشاعت ہوئی تو اس میں ان کا افسانہ ’ پردے کے پیچھے ‘ اور’ دلی کی سیر ‘ شامل تھا۔ کیونکہ ان کے افسانے اس وقت کے سماج میں رائج بنیاد پرستی اور جنسی اخلاقیات کے لیے چیلنج تھے۔ ’ انگارے‘ کی اشاعت کے بعد اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا تھا اور جگہ جگہ اس کی کاپیاں جلا دی گئی تھیں۔ بعد میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کی کاپیاں ضبط کر لی گئی تھیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں ایک رسالہ ” چنگاری “ کی بھی مدیرہ تھیں جس کا مقصد خواتین میں ذہنی بیداری پیدا کرنا تھا۔ لکھنﺅ کے دوران میں قیام انہوں نے کئی ڈرامے لکھے اور انہیں اسٹیج بھی کیا۔ ان کا افسانوی مجموعہ ” عورت“ اور دوسرا 1937ء میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ دوسرا افسانوی مجموعہ ان کے انتقال کے بعد ’ شعلہ جوالہ ‘ کے عنوان سے سنہ 1968ء میں اور تیسرا ’ وہ اور دوسرے افسانے ‘ سنہ 1977ء میں شائع ہوا۔

عورت

کردار

مولوی عتیق اللہ

فاطمہ: مولوی عتیق اللہ کی بیوی

عزیز:جوان مرد۔ فاطمہ کا ایک ماموں زاد بھائی۔

قدیر:جوان مرد۔ عزیز کا چھوٹا بھائی۔

ممانی:عزیز و قدیر کی ماں۔

کرایہ دارنی:ایک عورت مع بچہ

ایک ملازم عورت

بڑی بی:عتیق اللہ کی ملازم ماما۔

ایک  اور عورت

لڑکا سات آٹھ سال کا

 

وقت:ظہر اور عصر کے درمیان۔

جگہ:فاطمہ کا گھر۔

(ایک بڑا سا دالان ہے۔ اس کے دونوں طرف تخت بچھے ہوئے ہیں۔ ان پر سفید چاندنی بچھی ہے۔ گاؤ تکیے لگے ہوئے ہیں۔ بیچ میں ایک پلنگ ہے۔ اس پر ایک بچھونا لپٹا ہوا سرہانے کی طرف رکھا ہے جس کو عتیق اللہ گاؤ تکیہ کی طرح استعمال کرتا ہے۔ پلنگ کے ایک طرف حقہ ہے  اور دوسری طرف اگالدان۔ سامنے کے تخت پر فاطمہ بیٹھی سی رہی ہے۔ پاندان تھالی کسنہ  اور بغچی اس کے چاروں طرف ہیں۔ زمین پر فرش نہیں ہے۔ دو تین پیڑھیاں پڑی ہوئی ہیں۔ دالان کی دیواروں میں جگہ جگہ طاق بنے ہوئے ہیں  اور ان پر تانبے  اور چینی کے برتن سجے ہوئے ہیں۔ الٹے ہاتھ کی طرف باہر سے اندر آنے کا دروازہ ہے اس پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہے  اور سیدھے ہاتھ کو پیچھے کی طرف زینہ کا دروازہ ہے۔اسٹیج کے پیچھے دو دروازے ہیں جو کمرے میں کھلتے ہیں۔ ایک دروازہ بند  ہے  اور ایک کھلا۔)

 

عتیق اللہ:(حقہ گڑگڑاتے ہوئے) میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میری دوسری شادی کا تم پر کیا اثر پڑے گا۔ گھربار، روزمرہ کا خرچ سب کچھ تمہارے ہی ہاتھ میں رہے گا۔ میں کتنی بار کہہ بھی چکا ہوں کہ تم دونوں کا برابر خیال رکھوں گا۔۔۔ جب تمہارے بچے ہی نہ جئیں تو مجبوراً مجھ کو دوسرا نکاح کرنا پڑ رہا ہے۔

فاطمہ:(منہ اونچا کر کے) بچے نہیں جیتے تو کیا میں ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالتی ہوں  اور  جب اللہ میاں کی مرضی ہی نہیں ہے کہ ہمارے جیتے جاگتے بچے ہوں تو اس میں  میرا کیا بس ہے؟ اور خدا کی مرضی کے آگے چل کس کی سکتی ہے؟جو دوسری عورت کے بچے بھی مر گئے تو تم کیا کر لو گے؟

عتیق:انسان کم از کم اپنی طرف سے سب کوشش کر دیکھے۔ میری عمر اب چالیس برس کی ہو گئی  اور اب تک کوئی جیتا بچہ نہیں ہے۔ اولاد بڑھاپے کی لاٹھی ہے  اور اسی وجہ سے شریعت نے بھی یہ حکم دیا ہے کہ اگر عورت بانجھ ہویا اس کی اولاد نہ جیتی ہو تو مرد دوسری شادی کر سکتا ہے۔

فاطمہ:یہ بچے نہ جینے کی شریعت میں نے آج ہی سنی ہے !تم جو شریعت نہ بناؤ وہ کم ہے۔ میں خدانخواستہ کوئی بانجھ نہیں ہوں دس بارہ بچے پورے  اور  کچے ملا کر ہوئے اب کوئی نہیں رہا تو اس میں کون سا میرا قصور ہے کہ مجھ کو سزا دی جائے !دنیا بھرکو تم تعویذ دیتے ہو، آخر تمہارا علم کس دن کام آئے گا۔

عتیق:یہی تومیں تم کو برابر بتا رہا ہوں کہ پچھلی جمعرات کو خواب میں مجھ سے ایک بزرگ نے کہا کہ اس عورت سے تیرے جیتے بچے نہیں ہو سکتے۔ دوسری شادی کرتا کہ تیری دلی مراد بر آئے۔ جب خدا ہی کا حکم نہ ہو تو۔۔۔

فاطمہ:بنتے تو تم بڑے مولوی ہو۔ ساری دنیا تمہارا ادب کرتی ہے۔ فتویٰ لکھواتی ہے لیکن خدا کی قسم تمہارے یہ من گھڑت خواب میرا دل جلا کر خاک کر دیتے ہیں۔ اب تمہارے جھوٹ مجھ پر اثر نہیں کرتے۔ ابھی یہ کہہ رہے تھے کہ مہینوں سے ایک مرید میرے پیچھے پڑ رہا ہے کہ میری لڑکی سے شادی کر لو۔ اب جمعرات کو بزرگ بھی خواب میں کہہ گئے۔ سچ کیوں نہیں کہتے کہ وہ لڑکی بیمار تھی۔ آپ جن اتارنے گئے تھے جن تو اتر گیا۔ اب اس کی جگہ خود لینا چاہتے ہو۔(بگڑ کر) شادی کرنی ہے تو کر لو مجھ سے پوچھ کر اور کون  سا کام کرتے ہو۔ لیکن جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت؟

عتیق:(حقہ جھٹک کر) عجیب عورت ہے خاوند کو جھوٹا کہتی ہے جب ہی تو تمہارے بچے مر جاتے ہیں۔

فاطمہ:خیر اب دوسری جو۔۔۔

(ایک عورت تنگ پائجامہ میں داخل ہوتی ہے۔ میلا برقع اوڑھے ہے اس کی گود میں ایک چھوٹا بچہ ہے۔ وہ بھی ماں کی طرح میلا ہے  اور گلے میں تعویذوں کا ہار پہنے ہوئے ہے۔ عورت کو دیکھ کر فاطمہ  اور  عتیق اللہ چپ ہو جاتے ہیں۔ فاطمہ سینے لگتی ہے  اور عتیق اللہ حقہ گڑگڑاتے ہیں۔ عورت آگے بڑھ کر پہلے عتیق کو اور پھر فاطمہ کو سلام کرتی ہے  اور  پلنگ  اور  تخت کے درمیان پیڑھی پر بیٹھ جاتی ہے۔)

عتیق:کہو بچہ تو اچھا ہے۔

عورت:حضور کی مہربانی ہے۔ ابھی چھوٹے میاں کہاں اچھے ہیں۔ خوب بخار چڑھ رہا ہے چونک چونک پڑتے ہیں۔ کوئی دوسرا تعویذ تجویز کر دیجئے  اور  مولوی صاحب، بیوی نے کہا ہے کہ بڑی مہربانی ہو گی جو بچہ کو ایک دفعہ شام کو پھر دیکھ لیں۔

عتیق:(بھویں سکیڑ کر) بھئی!میں کسی کے یہاں گھڑی گھڑی  جانا تو پسند کرتا نہیں ہوں۔ خاص کر ضعیف  الاعتقاد لوگوں کے یہاں۔(حقہ کا کش لے کر)ان کے میاں بڑے انگریز بنتے ہیں۔ بھئی!اپنی بیگم صاحب سے کہہ دینا کہ اگر انھوں نے انگریزی دوا دی تو پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

عورت:اے حضور کر کیوں نہیں سکتے خدا کے حکم سے آپ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہزار بیوی چلائیں۔ لیکن میاں کسی موئے ڈاکٹر  کو لے ہی آئے۔ اس نے رینڈی  کا تیل بتایا، نسخہ لکھا  اور  بدہضمی بتا گیا۔

عتیق:(طنزیہ ہنسی سے) بدہضمی!بدہضمی کی خوب کہی۔ اس پر تو سایہ ہے۔ (تھوڑی خفگی سے) بھئی ہمارا علاج کرنا تھا تو انگریزی دوا کیوں دی گئی۔ میں اب ہرگز نہیں جانے کا۔ اگر ان کا دل چاہے تو بچے کو یہیں لے آئیں۔

عورت:(پیڑھی کو آگے کھسکا کر) مولوی صاحب، دواتو ابھی نہیں دی۔ لیکن تیل تو میاں نے اپنے سامنے ہی پلا دیا تھا۔ بیوی نے یہی کہا ہے کہ آپ خفا مت ہو جائیے کیا کرتی مجبور تھی۔ میاں کے آگے کچھ نہ چلی  اور  حضور بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ ’’بچہ اٹھنے کے قابل نہیں ہے ورنہ میں خود آپ کو تکلیف دینے کی جرأت نہ کرتی  اور اس کو یہیں آپ کے قدموں میں لا ڈالتی۔‘‘ تکلیف تو حضور کو بہت ہو گی جب کہیں سواری لے کر حاضر ہو جاؤں۔

عتیق:اونہوں !اس معصوم بچے کی جان کی مجھ کو خود فکر ہے ورنہ میں نہ کسی کے گھر جاؤں  اور نہ ان لوگوں کا علاج کروں؟ جو میرا حکم نہیں مانتے۔ اگر  ان کافروں کی دوا پلانا تھی تو مجھے ناحق دق کیا۔

عورت:حضور اب کیا کریں؟مردوں سے بس نہیں چلتا۔ ورنہ بیوی کو تو آپ پر وہ اعتقاد ہے  اور ہونا بھی چاہئے اب دیکھئے۔(بچہ کی طرف اشارہ کرتی ہے)میرے بچے کے دانت یوں ہی آپ کے تعویذوں کی بدولت نکل رہے ہیں نہ بخار ہوا نہ آنکھیں دکھیں۔ آپ کی کرامت کی تعریف تو ہر کسی سے سن لو۔

عتیق:میری اس میں کوئی تعریف نہیں ہے۔ اللہ کا کلام ہے۔ اسی کا سب ظہور ہے۔

عورت:لیکن مولوی صاحب!ہر ایک کوئی اللہ کے کلام کو سمجھتا کب ہے؟ (پیڑھی  اور آگے کھسکا کر) اب دیکھئے نیم کی گلی میں بھی ایک مولوی ہیں۔ بس منہ نہ کھلوائیے۔۔۔

(باہر سے کوئی زور سے کنڈی کھٹکھٹاتا ہے۔)

عتیق:کون ہے؟

(کنڈی کا شور جاری رہتا ہے۔)

عتیق:(عورت سے) ذرا جا کر دیکھنا کہ کون ہے؟

(عورت بچے کو چھوڑ کر باہر جاتی ہے۔)

فاطمہ:(جلے ہوئے لہجے میں)علاج ہو ڈاکٹر  کا بدہضمی ہے۔ جلاب دیا گیا ہے۔ بخار اسی سے اتر جائے گا نام مولوی صاحب کا ہو جائے گا۔ انھیں ڈھکوسلوں سے تو لوگ تمہارے معتقد ہوتے ہیں۔۔۔

(عورت ایک خط لے کر داخل ہوتی ہے۔ فاطمہ چپ ہو جاتی ہے۔ عتیق خط لے کر پڑھتا ہے۔)

عتیق:(فاطمہ سے)لو تمہارے نام تمہاری ممانی کا خط ہے وہ آج شام کو پھر آئیں گی(عورت سے) اچھا بیٹی! اب تم جاؤ۔ مغرب سے پہلے سواری لے آنا۔

(عورت سلام کر کے بچے کو اٹھا کر رخصت ہوتی ہے۔)

عتیق:یہ تمہاری ممانی ابھی چار روز ہوئے تو آئی تھیں۔ کیا ان کو اپنے گھر کچھ کام نہیں ہے؟اب یہ ہوا نئی چلی ہے کہ عورتیں دو دن جم کر گھر نہیں بیٹھتیں۔

فاطمہ:اگر گھڑی دو گھڑی کو وہ آ جاتی ہیں۔ تو تمہارا کیا  بگاڑ جاتی ہیں؟

عتیق:ان کے لڑکے بھی ضرور آئیں گے تم کو ان سے درحقیقت پردہ کرنا چاہئے۔

فاطمہ:کیوں؟وہ دونوں مجھ سے چھوٹے ہیں دوسرے برسوں کے بعد تو اب پھر دہلی آ کر  رہنا شروع کیا ہے۔ میں تو صورتیں دیکھنے کو ترس گئی تھی۔ اب میں ان سے پردہ کروں گی؟

عتیق:تمہارے ان ماموں کے گھر کا ڈھنگ مجھ کو بالکل  پسند نہیں ہے۔ انسان گھر سے باہر رہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے پرانے طریقے چھوڑ دے  اور کرسٹان بن جائے۔ لڑکوں کو جب  دیکھو کر سٹان بنے پھر تے ہیں لڑکے تو لڑکے بڑھاپے میں تمہاری ممانی نے بھی ساڑھی باندھنی سیکھی ہے؟

فاطمہ:بڑھاپے میں تو نہیں ، ممانی جان ہمیشہ سے ساڑھی باندھتی ہیں۔ شادی ہو کروہ ماموں جان کے ساتھ پردیس چلی گئی تھیں  اور وہیں رہیں خدا جنت نصیب کرے۔ جب تک چھوٹے ماموں زندہ رہے یہ ساتھ ہی رہیں۔ ان کی ملنے والیاں بہت سی ہندو ہی تھیں۔ (بگڑ کر) تو آخر ساڑھی میں کیا برائی ہے؟

عتیق:برائی کیوں نہیں ہے !ایک تو اپنا اسلامی لباس چھوڑنا  اور پھر کافروں سے دوستی کرنا یہ کہاں کی شرافت ہے؟خیر ماں کو چھوڑو لیکن یہ ان کے دونوں صاحبزادے جو انگریزی لباس میں اینٹھتے پھر تے ہیں اس کے آخر کیا معنی ہیں؟(ذرا دیر ٹھہر کر) اول تو وہ لوگ نامحرم ہیں۔ دوسرے میری مرضی نہیں ہے کہ تم قدیر  اور عزیز کے سامنے آؤ۔

فاطمہ:تمہیں تو بس ایک بات کی ضد ہو جاتی ہے میرے بڑے ماموں ہیں ان کے بڑے لڑکے کے میں سامنے آتی ہوں وہ تمہارے دوست  اور  معتقد ہیں تو وہ بڑے محرم ہو گئے۔ تم خود ان کو بلاتے ہو اور وہ یوں بھی آتے ہیں۔ وہ نامحرم نہ ہوئے؟قدیر اور عزیز جن سے وہی رشتہ ہے وہ نامحرم ہو گئے۔ آخر مجھے بھی بتاؤ۔

عتیق:مجھے ہر بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے شوہر کا حکم بیوی کو بغیر حیل و حجت کے ماننا فرض ہے۔ لیکن تم ہو کہ  ہر بات میں سوال و جواب کرتی ہو۔ اگر جواب چاہتی ہو توسنو۔

ان دونوں لڑکوں کے چال چلن بالکل ٹھیک نہیں ہیں ان کا ایمان نہیں رہا مذہب نہیں رہا خدا  اور  رسول کا کچھ بھی خوف ان کے دل میں نہیں ہے۔ شراب یہ پئیں ،  بد گوشت کھائیں (جوش میں اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں) ان سے زیادہ  اور کون بدمعاش ہو گا! دوسروں کی شریف عورتوں پر نگاہ ڈالتے ہیں کافر کہیں کے !

فاطمہ:(غصہ سے)خدا نہ کرے وہ کافر کیوں ہونے لگے۔ کسی کو کافر کہنا بڑے ثواب کا کام ہے؟تم بھی پرانے مردے اکھاڑنے لگے۔ نگاہ ڈالی؟ تمہاری بہن کہاں کی ایسی نیک ہیں !قدیر نگوڑے نے کیا نگاہ ڈالی اس کی عمری تھی یہی تو خیال کیا تھا کہ تمہاری بہن سے شادی کرے۔ شادی کرنے کی خواہش تو کوئی بری نگاہ نہیں ہے۔

عتیق:نہیں بہت اچھی نگاہ ہے گھر میں آ کر پرائی لڑکی سے جھانکا تاکی کریں یہ کہاں کی شرافت ہے؟

فاطمہ:جھانکا تاکی کس نے کی؟تمہاری بہن مانگ پٹی کر کے خود اپنا جلوہ دکھانے کھڑی ہو جاتی تھیں۔ کون سی ایسی ننھی تھیں قدیر تو سے عمر میں کچھ بڑی ہی ہیں۔ وہ تو پھر لڑکا تھا انھیں اپنی ناک کا کچھ خیال نہ ہوا۔ بچارے قدیر ہی پرکیا ہے۔ اپنے گریبان میں منہ ڈالو۔ اب خود جو کنیز فاطمہ پر لٹو ہو اور مجھ  پر بچوں کے نہ جینے کا الزام رکھتے ہو۔(بگڑ کر) اپنی برائی کسی کو نظر نہیں آتی۔

عتیق:استغفراللہ!کنیز کے والدین خود مجھ کو نجیب الطرفین سمجھ کر بہت خوشامد کے ساتھ شادی کر رہے ہیں۔

فاطمہ:ہاں تمہاری یہ نجیب الطرفینی نہ معلوم کس کس کی قسمت پھڑوائے گی۔ اسی پر تو اللہ بخشے ابا نے مجھے بھی قربان کر دیا۔۔۔ (گھرکی ماما داخل ہوتی ہے فاطمہ بغیر رکے ہوئے مڑ کراس سے بات کرنا شروع کرتی ہے۔) دیکھنا بڑی بی؟تم نے چلتے وقت نہ باورچی خانہ میں جھاڑو دی مکھیاں بھنک رہی ہیں  اور اب اتنی دیر کر کے تم آئی ہو۔

ماما:(قریب آ کر پیڑھی  پر بیٹھ جاتی ہے)ہاں بیوی!تھوڑی دیر ہو گئی۔ ذرا کی ذرا ہمسائی کے ہاں چلی گئی تھی اس کی لڑکی سسرال سے آئی ہوئی ہے۔ کم بخت باتوں میں ایسی بیٹھی کہ وقت کا دھیان نہ رہا! (تھوڑی دیر ٹھہر کر)بیوی ذرا ایک ٹکڑا پان کا دینا۔۔۔ پیسہ دو گی کچھ سودا منگانا ہے یا کھانا کہیں باہر سے آ جائے گا؟

فاطمہ:(پان دیتے ہوئے طنزاً) اسے کھانے کی تم پرواہ نہ کرو خدا تمہارے مولوی صاحب کو زندہ رکھے۔ مفت کا پلاؤ قورمہ روز حاضر ہے۔ آج ایک مرید کے ہاں شادی ہے وہاں سے آ جائے گا۔تم اس وقت سونف جو دھوپ میں سوکھ رہی ہے اس کو چن کر کوٹ دو کل چٹکی بناؤں گی۔

(ماما اٹھ کر جانے لگتی ہے۔)

فاطمہ: اور سنو بڑی بی!برتن اچھی طرح دھونا۔ باورچی خانہ میں جھاڑو بھی دینی ہے ذرا جلدی کرو۔ پھر ممانی آ جائیں گی۔

عتیق:(ڈکار لے کر)بڑی بی ذرا پانی پلاتی جانا۔۔۔

فاطمہ:(باٹ کاٹ کر) اے تم جاؤ اپنا کام کرو پانی مل جائے گا۔

(فاطمہ اٹھ کر جاتی ہے  اور کٹورے میں پانی لا کر عتیق اللہ پاس زور سے رکھ دیتی ہے  اور واپس جانے لگتی ہے۔)

عتیق:(پانی کا کٹورا ہاتھ میں لے کر) یہ قدیر دو برس سے وکالت کر رہے ہیں کچھ کما بھی لیتے ہیں؟

فاطمہ:(واپس تخت پر بیٹھ کر)کماتے نہیں تویوں ہی۔ ہر کسی کے سامنے تمہاری طرح ہاتھ تو نہیں پھیلاتے۔

عتیق:اگر کما رہے ہیں تو شادی کیوں نہیں کرتے؟

فاطمہ:شادی بھی ہو جائے گی کیا جلدی ہے۔ ابھی جوان ہے کوئی بڈھا تو نہیں ہے۔ کہتا ہے اپنی پسند کی کروں گا۔ میں تو خدا کا شکر کرتی ہوں کہ تمہاری بہن سے نہیں ہوئی۔ لڑکے کی قسمت پھوٹ جاتی۔ اب تو تمہیں بھی لالچ آتا ہو گا!

عتیق:(سیدھے بیٹھ کر) اس کافر کا کیا منہ تھا کہ میری بہن لے جاتا۔ میری زندگی میں تو ایسا  ہو نہیں سکتا تھا۔

فاطمہ:خیر وہ کافر سہی نیچ ذات سہی اس میں تو سب ہی برائیاں ہیں۔ وہ تمہاری بہن جو سیدوں میں گئی ہیں وہ کون سی سکھ میں ہیں؟

عتیق:کچھ نہیں تو ہڈی توہے پھر وہ لوگ۔۔۔

فاطمہ:اے ہے قدیر کی ہڈی اتنی بری تھی تو تم نے قدیر کے خاندان میں بیاہ کیوں رچایا تھا؟

عتیق:میں نے کیوں رچایا تھا تمہارے والد میرے اباکے اتنے معتقد تھے کہ انھوں نے خود خوشامد کر کے تمہاری شادی کی۔

فاطمہ:خیر میرے ابا جان نے تو تمہارے ، تمہارے ابا، سب کے ہاتھ پیر  جوڑ کر میری قسمت پھوڑ دی۔ اب یہ جو بیاہ رچا رہے ہو تو یہ کون سی سیدانی ہیں؟اب تو تم ماشاء اللہ چالیس برس کے ہو۔ کوئی بچہ نہیں۔ اب تو اپنی نسل کا خیال کرو۔

عتیق:آخر اس بک بک سے فائدہ؟

(فاطمہ بقچی میں سے کپڑا اٹھا کر سینے لگتی ہے۔)

عتیق:(تھوڑی، خاموشی کے بعد) یہ اوپر کے کرایہ دار کو میرا ارادہ ہے اٹھا دوں۔

فاطمہ:(تڑخ کر)کیوں؟میرا مکان ہے۔ اول تو کرایہ آتا ہے۔ دوسرے کرایہ دارنی بڑی نیک ہے۔ اچھے برے وقت کی ساتھی ہے۔ میں تو اس کرایہ دار کو کبھی نہ اٹھنے دوں گی۔

عتیق:آخر آج کل تمہیں کیا ہو گیا ہے ، ہر بات پر بحث  اور انکا رہے۔

(ایک سات آٹھ سال کا لڑکا ایک سینی خوان پوش سے ڈھکی ہوئی سرپر لے کر داخل ہوتا ہے  اور جب بولتا ہے تو جلدی جلدی)

لڑکا:سلام ملانی جی یہ بیوی نے حصہ بھیجا ہے طشتری خالی کر دو۔

فاطمہ:کہاں سے لایا ہے  اور کس بات کا ہے؟

لڑکا:پنڈت کے کوچہ سے آئی ہے۔ یہ طشتری خالی کر دو۔

فاطمہ:کرتے ہیں۔ ذرا دم لے لو آج کیا ہوا تھا جو مٹھائی آئی ہے۔

لڑکا:بہت سی بیویاں آئی تھیں۔

فاطمہ:ارے بچے !پنڈت کے کوچہ میں تو بہت سے لوگ رہتے ہیں۔ کچھ پتہ تو بتا۔

لڑکا:جی املی والے گھر سے آئی ہے۔

عتیق:آخر اس سے کیا بحث ہے !کہیں سے آئی ہو، مٹھائی سے غرض ہے کسی مرید کے ہاں سے آئی ہو گی۔۔۔ یہ طشتری تو بہت خوبصورت ہے۔ (لڑکے سے) جا اپنی بیوی سے کہنا کہ مٹھائی تو ملانی جی کے واسطے ہے  اور طشتری مولوی صاحب نے رکھ لی۔

فاطمہ:تو سینی بھی رکھ لو وہ کیوں چھوڑتے ہو وہ تو زیادہ قیمتی ہے !

لڑکا:(ڈر کر)طشتری تو بیوی نے منگائی ہے نہیں تو ماریں گی۔

عتیق:جا، جو ہم نے کہا ہے کہہ دیجو، پھر نہیں ماریں گی۔

(لڑکا چپ  کھڑا رہتا ہے ، جاتا نہیں۔)

عتیق:(زور سے) ارے جاتا کیوں نہیں؟

(لڑکا آہستہ آہستہ چلتا ہے  اور مڑ مڑ کر طشتری کو دیکھتا جاتا ہے۔)

عتیق:ذرا دکھانا کیا مٹھائی ہے۔

(فاطمہ جھک کر طشتری آگے بڑھا دیتی ہے۔ عتیق ایک ڈلی اٹھا کر کھانے لگتا ہے۔)

فاطمہ:دیکھو!ابھی تمہاری طبیعت خراب تھی، اب یہ ثقیل مٹھائی کھانے لگے۔ اب شام کو شادی کا کھانا کھاؤ گے۔ بیمار ہو گے یا نہیں؟خیر مجھے کیا !

فاطمہ:(طشتری اٹھا کر)  اور لو گے یابس۔

عتیق:(ایک  اور ڈلی لے کر)بس  اور نہیں چاہئے۔

(فاطمہ مٹھائی لے کر اندر چلی جاتی ہے۔ عتیق مٹھائی ختم کر کے اس کے ٹکڑے پلنگ پرسے چن چن  کر کھاتا جاتا ہے  اور ڈکاریں لیتا جاتا ہے۔ ایک عورت برقعہ میں لپٹی ہوئی ادھر ادھر دیکھتی داخل ہوتی ہے۔ سلام کر کے کھڑی رہتی ہے۔)

عورت:ملانی جی کہاں ہیں؟

عتیق:(چاروں طرف دیکھ کر) اندر ہیں کیوں؟

عورت:مولوی صاحب میں مرزا حیدر بیگ کے یہاں سے آئی ہوں۔ باہر بیٹھک میں چلئے تو کہوں۔

عتیق:(انگڑائی لے کر)نہیں یہیں کہو وہ تو اندر ہیں۔

(عورت پیڑھی پر بیٹھ جاتی ہے۔)

عورت:مولوی صاحب!لڑکی والے کہتے ہیں کہ آپ پیغام دے کر چپ ہو گئے آج کل ان کے ہاں ایک  اور نسبت آئی ہوئی ہے۔ لیکن پہلے آپ کے یہاں سے ہاں یانا ہو جائے تو پھر دوسرے کو جواب دیا جائے۔

عتیق:(جلدی سے بیٹھ جاتا ہے) نہیں نہیں ان سے کہنا کہ دوسری جگہ فوراً انکار کر دیں اب تک تومیں خود سوچ میں تھا کہ آیا میں دوسری شادی کروں یا نہیں۔ لیکن اب تو اس  کا کچھ سوال ہی نہیں رہا۔ مجھے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ دوسری شادی کر تو میں کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہوں۔ حیدر بیگ سے کہنا کہ انشاء اللہ بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔

(فاطمہ پیچھے سے آ جاتی ہے  اور خاموش کھڑے ہو کر سنتی ہے۔)

عورت:اللہ خوش رکھے ہمارے میاں تو خود کہتے ہیں کہ وہ عورتیں خوش قسمت ہیں جن کو آپ جیسا میاں ملے وہ یہ سن کر بہت خوش ہوں گے۔ وہ آپ کے بڑے پابند ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ جیسا نیک  اور خداپرست آدمی انھوں نے آج تک نہیں دیکھا۔ بیوی کہتی ہیں ہزار کچھ  ہو تو پھر سوکن ہی ہے۔

عتیق:ارے ان ے کہنا اس بات کا بالکل خیال نہ کریں میری بیوی خود میرے پیچھے پڑ رہی ہے۔ کہتی ہے کہ  اور شادی کر لو تا کہ بچے جیتے پیدا ہوں۔ ان کی بغیر مرضی کے میں خود ایسا کام نہ کرتا۔ دوسرے وہ لڑنے جھگڑنے والی بھی نہیں۔ جب اس کے بچے ہی نہ جئیں تو وہ  اور میں دونوں مجبور ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو چار شادیوں کا حکم دیا ہے اس میں کسی کے ساتھ بے انصافی بھی نہیں ہے۔

عورت:یہی تو میاں بھی کہتے ہیں کہ جب مرد دونوں کو برابر سمجھے تو دو شادیاں کرنا تو ثواب ہے۔ مولوی صاحب اللہ رکھے وہ رہیں گی کہاں؟

عتیق:اوپر کوٹھے  پر کرایہ دار کو ہٹا کر اس کو درست کروا دوں گا۔

فاطمہ:(غصہ میں آگے بڑھ کر)کرایہ دار ہٹ جائے گا۔ مجال ہے کرایہ دار کی کہ ہٹ جائے میرے باپ کا دیا ہوا مکان ہے اس میں سے تم تو تم تمہارے جنات بھی کرایہ دار کو نہیں ہٹا سکتے  اور تم۔۔۔

عتیق:(غصہ کو دباتے ہوئے آہستگی سے) اس بک بک کی کیا ضرورت ہے؟ جو کچھ کہنا ہے مجھ سے بعد میں کہنا۔

فاطمہ:کیوں؟کیا مجھے کسی کا ڈر ہے۔۔۔

(عتیق عورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ جلدی سے چلی جاتی ہے۔)

عتیق:(تن کر) کیوں جی؟یہ تمہاری کیا حرکت ہے؟(نہایت غضبناک آواز میں)اس طرح بات کے بیچ میں کود پڑنا اس کے کیا معنی؟ کیا تمہارے ہوش و حواس بالکل خبط ہو گئے؟

فاطمہ:(بلند آواز سے) میری کیا حرکت ہے؟تمہیں جھوٹ بولتے شرم نہ آئی۔لگے الٹے چیخنے !تم اپنے کو سمجھتے کیا ہو؟میرے گھر میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ میں چپ بیٹھی سنا کروں؟

عتیق:(غصہ  اور بڑھ گیا ہے) اور تم کیا چیز ہو؟بڑی بڑی نیک عورتوں پر سوکنیں آئی ہیں  اور انھوں نے اف تک نہ کی۔ اپنے خاوند کی خدمت میں عمر کاٹ دی۔(چیخ کر)تو نہایت گنہگار  اور بدترین عورت ہے۔ مجھ کو خفا کر کے اپنے لئے جہنم تیار کر رہی ہے۔

فاطمہ:(غصہ سے کانپتی ہوئی آواز میں) اور تم  خود کون سے نیک ہو تم کون سے جنت میں چلے جاؤ گے۔ ایک دوزخ نہیں مجھ کو ہزار دوزخیں منظور ہیں۔ لیکن کان کھول کر سن لو۔ اس گھر میں وہ تمہاری بیوی ہرگز نہیں گھس سکتی۔

عتیق:(طیش میں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے)تیری بکواس بند نہیں ہو گی؟ اگر تجھ کو خدا  اور  رسول  اور اپنے خاوند کا جو تیرا مجازی خدا ہے ڈر نہیں ہے۔ توتو نہایت ذلیل بدترین  اور نجس ہستی ہے۔ تیری اس بک بک سے میں شادی روک نہ دوں گا۔ دوسرا نکاح کروں گا پر کروں گا ا ور وہ اسی گھر میں رہے گی  اور تیرا درجہ کتے سے بدتر جس قابل کہ توہے ہو گا۔

(یہ حکم لگا کر عتیق باہر کی طرف چلتا ہے۔)

فاطمہ:(چیخ کر اور آگے بڑھ کر)تو یہ بھی سنتے جاؤ، تمہاری مولویت تمہاری عزت سب خاک میں ملا دوں گی  اور تمہاری اس معشوقہ کو یہاں نہ گھسنے دوں گی۔میں کسی بھیک منگے سید کی بیٹی نہیں ہوں کہ تم سے ڈر جاؤں۔

عتیق:(مڑ کر)اے ناہنجار دوزخی عورت اگر تو بات نہیں سمجھتی تو یہ  تو سمجھتی ہے۔

(فاطمہ کے منہ پر زور سے طمانچہ مارتا ہے  اور پھر باہر کی طرف چلا جاتا ہے۔)

فاطمہ:(غصہ سے دیوانی ہو جاتی ہے  اور دانت پیس کر مولوی کا کرتا پکڑ لیتی ہے۔)مارتے ہو تو ٹھیک سے مارو خدا  اور اس کے رسول کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تمہاری عزت تمہاری حقیقت خاک میں ملا کر نہ چھوڑی ہو تومیں حمید بیگ کی بیٹی نہیں کسی بھنگی کی ہوں گی۔

(عتیق کرتا چھڑا کر غصہ سے کانپتا ہوا باہر چلا جاتا ہے۔)

فاطمہ:(بے بس ہو کر)جاتے کہاں ہو۔ بڑے مولوی بنے ہیں۔ جھوٹے بے ایمان کہیں کے !

(فاطمہ ڈوپٹے میں منہ چھپا کر سسکیوں سے روتی ہے زینے پرسے کسی کے اترنے کی آواز آتی ہے !ایک عورت پہلے سر نکال کر جھانکتی ہے پھر سامنے آتی ہے۔)

کرایہ دارنی:اے ہے ملانی جی کیا ہوا؟یہ رونے کیوں لگیں؟خیر تو ہے؟

(کرایہ دارنی پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور بازو پکڑ کر فاطمہ کو تخت پر بٹھا دیتی ہے۔)

کرایہ دارنی:کچھ کہو تو آخر کیا بات ہے۔ آج مولوی صاحب بہت زور زور سے خفا ہو رہے تھے ! اوپر تک آواز آ رہی تھی بتاؤ تو کیا ہوا؟

فاطمہ:(سسکیاں  لے کر)دوسرا بیاہ، بیاہ کر رہے ہیں۔۔۔  اور مجھے مارا (جوش سے) اے خدا تو ایسے بے ایمانوں کو غارت کر۔۔۔

کرایہ دارنی:مارا مولوی صاحب نے !نہیں تمہیں میری قسم سچ بتانا؟

فاطمہ:(آنچل سے منہ پونچھ کر) خیر ان کو بھی پتہ چل جائے گا۔ یہ نہ سمجھ لیں کہ بن باپ بھائی کی ہے۔ جو دل چاہے گا۔۔۔

کرایہ دارنی:اے جبھی کوٹھا خالی کرنے کو کہہ رہے تھے۔ میں بھی تو کہوں آخر بات کیا ہے؟

فاطمہ:(سسکی لے کر اور آنسو پونچھ کر)کوٹھا خالی کرنے کو؟یہ کب کہا؟

کرایہ دارنی:کل رات کو ان سے کہا تھا۔

فاطمہ:ابھی تو وہ آئی بھی نہیں کہ ہاتھ اٹھنے لگا  اور جب آ جائے گی تو نہ معلوم کیا  حشر ہو گا۔ خیر انھیں بھی معلوم ہو جائے گا۔ کرایہ دار سے کہہ دینا کہ گھر خالی نہ کریں۔

کرایہ دارنی:ارے توبہ کرو ملانی جی وہ بھلا مولوی صاحب کا کہنا مانیں گے کہ تمہارا؟

(گھرکی ماما بھی آ کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور  رحم کی نگاہ سے فاطمہ کو دیکھتی ہے۔)

ماما:آج تو مولوی صاحب پر بڑا جلال تھا۔

کرایہ دارنی:دیکھو پانچوں انگلیاں منہ پر بن رہی ہیں۔

ماما:ہاہ  اتنے بڑے مولوی ہیں  اور عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

(فاطمہ آنسو پونچھتی ہے۔)

کرایہ دارنی:پہلے تو کبھی نہیں مارا۔ اب یہ نئی شادی جوکر رہے ہیں خدا کی قسم مولوی ہو یا کوئی۔ مرد کے تیور بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اب کسی کو اچھا لگے یا برا ان مولوی کی باتیں تو مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتیں !

فاطمہ:(ہاتھ پھیلا کر)اے خدا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ایک آنکھ میں تو لہر بہر  اور  دوسری میں میں  تیرا یہ قہر!تو نے ہم عورتوں کو اتنا بے بس کیوں بنایا ہے۔ (تھوڑی دیر ٹھہر کر) چاہے کچھ ہو جائے اس تھپڑ اور اس شادی کا بدلہ تومیں ضرور لوں گی، لو یہ بھی میرا قصور ہے کہ بچے مر گئے !

کرایہ دارنی:اے ہاں کوئی بھی عورت ایسی ہو گی جس کو اپنے بچوں کے مرنے کا غم نہ ہو۔ایک تو ان کا غم اٹھاؤ، دوسرے میاں کی مار کھاؤ، یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ تو آج صبح سے مکان ڈھونڈ رہے ہیں۔

ماما:تین بچے تو کھیلتے  مالتے چلے گئے۔ پھر تو سب ایسے ہی ہوئے۔

کرایہ دارنی:سب کو تو مولوی صاحب تعویذ دیتے ہیں۔ علاج کرتے ہیں۔ جن پکڑتے ہیں۔ بیوی کا علاج کیوں نہیں کرتے۔

فاطمہ:علاج کرتے ہیں خاک!سب ڈھکوسلے بازی ہے۔ روپیہ ٹھگنے کے ڈھنگ ہیں بدنیت مٹھائی تو مٹھائی طشتری تک کھا جاتے ہیں۔

کرایہ دارنی:تو آج میں بتاتی ہوں کہ جب میں ان سے یہی کہتی ہوں تو ہمیشہ لڑنے لگتے ہیں کہ اس میں مولوی صاحب کا کیا بس ہے۔ انھوں نے تو سب جتن کر لیے۔ جب اللہ میاں ہی کی مرضی نہیں ہے تو وہ کیا کریں۔

ماما:اے بیوی بس کرو کب تک روئے جاؤ گی۔(خود بھی آنسو پونچھتی ہے) تمہاری قسمت ہی ایسی پھوٹی ہوئی ہے۔ سوکن آئے تو آئے مار بھی کھانے لگیں۔ مولوی صاحب ایسے تو نہ تھے چیختے چلاتے تو ہمیشہ سے ہیں ہاتھ اٹھاتے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

(باہر سے کہار پکارتے ہیں۔)

کہار:سواری اترو الو۔۔۔ سواری اتر والو۔

(ماما آنسو پونچھ کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور آہستہ آہستہ باہر کی طرف جاتی ہے۔)

ماما:چیخے کا ہے کو جاتا ہے آ تو رہے ہیں۔

کرایہ دارنی:جنے کون آیا ہے؟

فاطمہ:ممانی ہوں گی۔

(ممانی کلف دار خوب پھولی ہوئی ساڑھی پہنے ہوئے داخل ہوتی ہے۔ کرایہ دارنی سلام کرتی ہے وہ سر سے جواب دے کر فاطمہ کی طرف بڑھتی ہے فاطمہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہتی ہے۔)

ممانی:کیوں بیٹی فاطمہ کیا طبیعت اچھی نہیں ہے (اور قریب آ کر) یہ رو کیوں رہی ہو کیا بات ہے؟

(فاطمہ کھڑے ہو کر ممانی سے لپٹ جاتی ہے  اور پھر سسکیوں سے رونے لگتی ہے۔)

ممانی:(کرایہ دارنی سے)خیر تو ہے کیا ہوا؟

کرایہ دارنی:مولوی صاحب نے مارا۔

ممانی:ہیں !کیا !مارا!آخر کس بات پر؟

ممانی:فاطمہ، اے بیٹی بس کرو۔ کچھ کہو تو۔

(سہارا دے کر بٹھا دیتی ہے  اور خود بھی تخت پر بیٹھ جاتی ہے۔)

(ایک مرد کی آواز باہر سے آتی ہے۔)

آواز:بڑی بی۔ بڑی بی۔ میں آ سکتا ہوں۔

ممانی:کون؟عزیز؟آ جاؤ۔

کرایہ دارنی:ذرا ٹھہرئیے۔ میں تو چلی جاؤں۔

(عزیز اندر آتا ہے لیکن غیر عورت کو دیکھ کر واپس جانے لگتا ہے۔)

ممانی:ذرا ٹھہرو ابھی پردہ ہوا جاتا ہے۔

(کرایہ دارنی جلدی سے چلی جاتی ہے۔)

ممانی:اب آ جاؤ۔

(ایک جوان لڑکا شیروانی  اور پائجامہ پہنے داخل ہوتا ہے ، آ کر کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے۔)

فاطمہ:(آنسو پونچھ کر)بیٹھ جاؤ میاں یہ سامنے پلنگ تو پڑا ہے۔

عزیز:آپا جان کیا ہوا؟

فاطمہ: بھائی کیا بتاؤں جس کے باپ بھائی نہ ہوں۔ اس کی یہی بے قدری  اور  یہی حشر ہو گا۔

عزیز:اب آپ شکایتیں تو رہنے دیجئے۔ پہلے اپنی تکلیف تو بتائیے۔

(ممانی گال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔)

عزیز:(جھک کر منہ دیکھتا ہے) ہیں یہ آپ کا منہ لال کیوں ہو رہا ہے؟

فاطمہ:لال کیسے ہو رہا ہے۔ خدا کی، قسمت کی، شوہر کی سب کی مار مجھ پر ہے  اور کیا ہے۔

عزیز:آپا جان کچھ تو بتائیے؟

فاطمہ:ہوا کیا دوسری شادی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں تیرے بچے نہیں جیتے دوسرا بیاہ کروں گا۔

ممانی:دوسرا بیاہ؟

فاطمہ:جی ہاں دوسرا بیاہ۔  اور میرے یہ کہنے پر کہ میں اپنے  گھر میں ان کی نئی بیوی کو گھسنے نہیں دوں گی۔ بہت چیخے چلائے  اور میرے منہ پر زور سے تھپڑ مارا۔

ممانی:لو اور سنو گھر تمہارا ہے تمہارے باپ کا دیا ہوا ہے ان کو اس میں لانے کا حق ہی کیا ہے۔ ایسا ہی شوق ہے تو اور گھر لے کراس میں رکھیں۔

عزیز:ان کو دوسری شادی اس حالت میں جبکہ بیوی موجود ہے کرنے کا حق کیا ہے؟

ممانی:حق کی بات تو یہ ہے ، میاں کہ وہ مرد ہیں ان کو کون روک سکتا ہے؟ خداوند کریم، رسول پاک، شریعت، قوم، سب کی طرف سے اجازت ہے۔ ایک چھوڑ وہ ابھی تین شادیاں  اور کر سکتے ہیں۔ مصیبت تو عورتوں کی ہے۔

فاطمہ: اور پھر کہتے ہیں کہ دونوں کے ساتھ ایک سا سلوک کروں گا۔ ایک سا خیال رکھوں گا۔ ابھی تو وہ آئی بھی نہیں ہے۔

عزیز:کیا یہ بھی کہتے تھے کہ ایک سی محبت بھی کروں گا۔ خیال  اور محبت میں تو بڑا فرق ہے۔

ممانی:محبت کون برابر کر سکتا ہے؟پہلی تو ہمیشہ دل سے اتری ہوئی ہوتی ہے۔ محبت برابر کرنے کا دعویٰ تو بڑے بڑے نہیں کر سکے۔ یہ بچارے تو صرف مولوی ہیں۔

فاطمہ:یہ تو دنیا میں اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں کہ بڑی بڑی نیک عورتوں پر سوکنیں آئی ہیں  اور انھوں نے اف تک نہ کی۔

عزیز:(ہنس کر) غلط تھوڑے ہی کہتے ہیں عورتوں پرہی سوکنیں آتی ہیں کوئی گائے بھینس پر تو نہیں۔

فاطمہ:میاں جب عورت ہوتے تب۔۔۔

ممانی:اے  اور کیا انھیں کیا  قدر ہے عورت کی جان کو بس اتنا سمجھتے ہیں کہ کھانا کپڑا دے دیا تو بہت کیا۔ میاں بہت اللہ والے ہوئے تو ایک رات ایک بیوی کے ہاں جا رہے دوسری رات دوسری بیوی کے پاس۔ بس عورتیں نہ ہوئیں میاں کے کھلونے ہو گئیں۔ جس سے جی چاہا کھیل لیا۔ قصور کس کا ہے جو دونوں عورتیں ایکا کر لیں تو مرد کیا کر سکتا ہے؟

عزیز:مردان دونوں کو چھوڑ کر تیسری شادی کر سکتا ہے۔

ممانی:دوسے میرا مطلب کوئی دوسے تھوڑا ہی ہے۔ میرا مطلب عورتوں سے ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہم ہیں ہی بدقسمت جب اللہ ہی نے مرد کو بڑا رتبہ دیا ہے تو۔۔۔

فاطمہ:رہنے بھی دو ممانی جان!اپنے مطلب کی یہ سب کتابیں مردوں نے لکھی ہیں ، مذہبوں کے بنانے والے شریعتیں  اور قانون بنانے والے سب مرد ہی تو تھے۔ مردوں کی آسانی کی سب باتیں لکھ گئے۔ عورتوں کے دلوں کی انھیں کیا خبر عورت ہوتے تو سمجھتے۔

ممانی: توبہ کرو بیٹی توبہ!اپنے غصہ میں کفر تو نہ بکو!وہ لوگ اللہ کے پیارے تھے ہماری کیا مجال ہے کہ ہم ان کے فعلوں یا حرکتوں کو جانچیں  اور  پرکھیں وہ بے گناہ  اور پاک ہستیاں تھیں اب انھوں نے جو کیا تو خیر۔ یہ دوسرے مردوں کی۔۔۔

عزیز:یہ تو نہایت بے انصافی کی بات ہے اماں جان کہ آپ مولوی صاحب کو حقوق کی ادائیگی کے لیے برا کہتی ہیں۔ میں تو ان کی بہت تعریف کرتا ہوں۔۔۔

ممانی:تمہارا کیا ہے تم جو نہ کہو۔۔۔

(باہر سے کنڈی کھٹکتی ہے  اور ساتھ ہی ایک مرد کی آواز آتی ہے۔)

آواز:کیا میں آ سکتا ہوں؟

عزیز:لیجئے آپا جان قدیر بھائی بھی آ گئے۔

(اٹھ کر پردہ کھولتا ہے۔)

عزیز:آ جاؤ قدیر بھائی میدان بالکل صاف ہے۔

(قدیر سوٹ میں داخل ہوتا ہے۔)

قدیر:آداب عرض آپا جان کیوں کیا بات ہے سب چپ کیوں ہو گئے۔ کیا میری برائی ہو رہی تھی۔ جبھی تو میرے کان بھی جل رہے ہیں۔

عزیز:نہیں تمہارا ذکر نہیں تھا۔ یہاں تو مولوی صاحب کی تعریف ہو رہی تھی کم از کم میں تو کر رہی رہا تھا۔

قدیر:یہ تو نہایت دلچسپ بات ہے۔ کیوں کیا آج کل مولوی صاحب پھر کوئی پیش گوئیاں فرما رہے ہیں۔

فاطمہ:پیش گوئیاں تو نہیں ہاں خواب ضرور دیکھا ہے۔

قدیر:شکر ہے کہ معراج کی ہمت نہ ہوئی۔

ممانی:تم دونوں بھائیوں کو ہر وقت ہنسی مذاق سوجھتا ہے کبھی تو کسی دوسرے کی مصیبت کا خیال کیا کرو۔

قدیر:مصیبت۔ مصیبت کس پر پڑی؟

ممانی:بہن پر سوکن آ رہی ہے  اور تمہیں ہنسی کی سوجھ رہی ہے۔

قدیر:واللہ مجھ کو بالکل خبر نہیں تھی بہت افسوس کی بات ہے۔ لیکن یہ خبر تو بالکل نئی ہے۔ ابھی تو پچھلے ہفتے جب میں آیا تھا تو اس کا کوئی ذکر نہ تھا۔

فاطمہ:مجھے خود تین دن ہوئے انھوں نے بتایا۔

قدیر:تو مولوی صاحب کی برات کب ہے؟کیا گھوڑے پر سوار ہو کر دلہن لینے جائیں گے۔ معاف کیجئے آپا جان میں بغیر ہنسے نہیں رہ سکتا۔ (خوب ہنستا ہے) اب کس خوش قسمت کو یہ عہدہ مل رہا ہے۔

فاطمہ:ان کے ایک مرید کی لڑکی ہے۔

قدیر:اچھا تو پھر سب کچھ بتائیے۔

ممانی:بتائیے کیا۔ پہلے تم ہنس تولو۔ شادی کریں گے بیوی کو اسی گھر میں رکھیں گے۔ اس نے منع کیا کہ میرا گھر ہے میں یہاں آنے نہ دوں گی تو اسے مارا۔

قدیر:مارا!سچ بتائیے آپا جان۔ اب ان کی یہ ہمت بھی ہو گئی کہ آپ پر ہاتھ اٹھانے لگے  اور تعجب ہے کہ آپ جیسی غیرت مند عورت نے ان کی مار کس طرح کھا لی۔

فاطمہ:کیا کرتی میاں !زبردست کا ٹھینگا سرپر۔ کیا میں بھی مارتی؟

عزیز:کیوں نہیں !اس میں شبہ نہیں کہ مولوی صاحب کشتی میں جیت جاتے لیکن پھر بھی دو ایک ہاتھ آپ کو بھی آزما لینے چاہئے تھے۔

ممانی:پھر تمہارا وہی مذاق۔

قدیر:اماں جان آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ یہ مذاق کی بات ہے؟میں تو نہایت سنجیدگی سے بات کر رہا ہوں  اور آپ اس کو مذاق میں لئے جاتی ہیں۔ آپا جان مولوی صاحب کی اس قسم کی مردانہ حرکات پر کون بغیر ہنسے رہ سکتا  ہے۔ لیکن یہ سوچ کر بہت غصہ آ رہا ہے کہ آپ کیوں ایسی بے بس صورت بنا کر رونے بیٹھ گئیں۔

فاطمہ: بھائی میں بے والی وارث عورت ان کا کیا کر سکتی ہوں۔

قدیر:بے والی وارث!آپ کوئی بچہ توہے نہیں کہ آپ کو سہارے کی ضرورت ہو جب تک انسان اپنے اوپر بھروسہ نہیں کرتا  اور اپنا وارث آپ نہیں بن جاتا دنیا میں کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔

ممانی:خیر میاں !یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ایک پردہ نشین، شریف عورت بغیر وارث مرد کے کیا کر سکتی ہے؟

فاطمہ:ہاں ممانی جان ذرا آپ ہی انصاف سے کہئے۔

قدیر:اس میں برا ماننے کی بات نہیں ہے۔ آپ سے جو ہمدردی مجھ کو ہے اس کو بیان کر کے اس ہمدردی کے جوش کو کھونا ہے ، لیکن آپ ہی بتائیے کہ آپ کیا کریں گی؟کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں بھی اماں جان  اور  عزیز کی طرح آپ کے ساتھ مل کر رونے لگوں؟

عزیز:تم میرا نام نہ لو۔ میں تو بچارے مولوی صاحب کے لئے لڑ رہا تھا کہ آخر وہ کیوں نہ دوسری شادی کریں میرا خود چار بیویاں رکھنے کا ارادہ ہے۔

ممانی:اے ہے تمہارے ایسے فقرے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ پہلے تمہیں ایک جڑ جائے تو جاننا!

قدیر:آپا جان، آپ سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ کرنا کیا چاہتی ہیں  اور  ہم کس طرح آپ کی مدد کر سکتے ہیں؟

فاطمہ:میں یہ نہیں چاہتی کہ وہ میرے گھر میں قدم رکھے۔ ان کا جہاں جی چاہے رکھیں۔(گود پھیلا کر) یا اللہ اس کے بھی بچے اس طرح ہو ہو کر مریں۔ جیسا کہ میرے اوپر بچوں کی موت کا الزام تھوپا ہے انھیں بھی تو کچھ خبر ہو۔

قدیر:یہ کوسنے کاٹنے سے تو کچھ ہوتا نہیں ہے کام کی بات کیجئے۔ بس آپ اتنا ہی چاہتی ہیں کہ وہ یہاں نہ آئے؟فرض کیجئے کہ انھوں نے آپ کو کہنا نہ مانا تو آپ کیا کریں گی۔

ممانی:بچاری کیا کرے گی،  یہی نہ کہ رو دھوکر بیٹھ رہے گی۔

فاطمہ:میں رو دھو کر نہ بیٹھوں گی۔ میں ساری دنیا سارے محلہ کو شور مچا کر بتا دوں گی کہ یہ مظلوم پر کیسا ظلم کر رہے ہیں۔

قدیر:اس سے کیا ہو گا۔ وہ گھر پر رہنے ہی لگے گی۔ آپ کا شور چالیس گز تک بھی نہ پہنچے گا۔

فاطمہ:(جوش سے) کیا عدالت، کچہری سب ختم ہو گئے۔ کیا کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ میں اسے اپنے مکان میں گھسنے نہ دوں !

قدیر:جی ہاں قانون توہے۔ کیونکہ یہ آپ کا ذاتی مکان ہے۔ آپ اس کو یہاں آنے سے روک سکتی ہیں۔ کیوں آپ کی ہمت بھی کچہری جانے کی ہو گی؟

فاطمہ:اگر یہ اس کو یہاں لے آئے ، تو خدا کی قسم سب کچھ کر کے دکھا دوں گی۔

ممانی:(ڈر کر)بیٹی خدا کا نام بے کار نہ لو ابھی غصہ ہے۔ جب ہوش میں آؤ گی تو رنج ہو گا۔ دوسرے شریفوں کے ہاں کچہری عدالت نہیں ہوتے۔

قدیر:نہیں ہوتے تواب ہونے چاہئیں۔ اماں جان آپ کیوں ان کی ہمت کو پست کئے دیتی ہیں؟

ممانی:ہمت پست کئے دیتی ہوں؟تم کہاں کے ایسے بزرگ نکلے ہو۔ ابھی تو فاطمہ کی ماں جیتی بیٹھی ہیں وہ اتنی ناراض ہوں گی کہ خدا کی پناہ  اور  سچی بات تو یہ ہے کہ کچہری عدالت کے تومیں بھی خلاف ہوں۔

عزیز:اماں جان۔ کون کچہری عدالت بلا ضرورت کے کرتا ہے؟ ابھی آپ کی دوکان کا کرایہ نہ ملے تو آپ نالش کریں گی یا نہیں؟

ممانی:اے لڑکو!کیا  تمہارا دماغ پھر گیا ہے؟ کیا سچ مچ بہن کو عدالت چڑھاؤ گے؟

قدیر:ہم نہیں چڑھائیں گے ، ہاں ، اگر آپا جان ہماری مدد مانگیں گی توہم ان کی ہر ہر طرح مدد کریں گے ! اور آپ کی طرح کہ بیٹی روکر صبر کر لو نہیں کہیں گے۔ اچھا یہ بحث تو رہی۔ اب یہ بتائیے کہ ان کے دل میں ایک دم شادی کرنے کی کیونکر سمائی؟

فاطمہ:کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی نہیں ہے کہ میرے بچے جئیں خواب میں کوئی بزرگ کہہ گئے ہیں کہ دوسری کر جب تیرے بچے جئیں گے۔

قدیر:یہ مولویت بھی کیا آسان پیشہ ہے بچے نہ جئیں اپنے قصور سے  اور  اللہ کا حکم ہو گیا!

فاطمہ:اب تین تو پل پلا کر ایک دم چیچک کی نذر ہو گئے۔دو دن میں گود جھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔

قدیر:وہ بھی انھیں کی مہربانی ٹیکے نہ لگوانے دیئے ہوں گے۔

فاطمہ:ٹیکے ان غریبوں کے کہاں لگے تھے انگریزی دوا تو اس گھر میں آ نہیں سکتی۔ لیکن یہ بعد کے یا تو مرے ہوئے پیدا ہوئے۔ یا تو پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔یہ تو میری قسمت کا قصور ہے  اور میرے ہی گناہ سامنے آتے ہیں۔

قدیر:قسمت بے چاری کو آپ اتنا نہ روئیے۔  اور نہ کوئی گناہ آپ نے کئے  اور  نہ گناہ کرنے کا موقع آپ کو ملا۔ آپ کو اتنے بچوں کی موت کا باعث بھی یہی مولوی صاحب ہیں۔ آج میں یہی بتانے کو حاضر ہوا تھا۔ اس دن جو آپ کا خون  ڈاکٹر  اقبال نے لیا تھا اس کا جواب آ گیا ہے۔ اس کے متعلق تنہائی میں کہوں گا۔

فاطمہ:تنہائی کی کیا ضرورت ہے؟ممانی جان سے یا عزیز سے کیا کوئی پردہ ہے۔

قدیر:خیر آپ کی مرضی، صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ میرے دوست ڈاکٹر  اقبال کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کا علاج ہو تو جیتا بچہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ مولوی صاحب کا علاج بھی ساتھ ہو۔

فاطمہ:وہ تو انگریزی علاج ہرگز نہیں کریں گے۔ ہاں چھپ چھپا کر میں کروا لیتی۔ لیکن اب وہ دوسرا بیاہ کر رہے ہیں میری وہ سنیں گے لیکن میاں کو آخر بیماری کیا ہے؟

قدیر:جی اس کو گرمی کی بیماری کہتے ہیں۔

فاطمہ:کیا کہا قدیر میاں !یہ نجس بیماری مجھ کو!نہیں میاں کچھ غلطی ہو گئی ہو گی۔ میرے تو پشتوں میں بھی یہ بیماری نہیں ہے۔

قدیر:آپ کونہ سہی مولوی صاحب کوہو گی۔

ممانی:توبہ کرو توبہ!مولوی ہیں ہزار ظلم کریں ، مولوی لوگ ایسا کام نہیں کرتے۔

عزیز:کیا آپ سب مولویوں کے پیچھے پیچھے پھر تی ہیں؟

فاطمہ:یقین تو مجھے بھی نہیں آتا۔

قدیر:اب یقین آپ نہ کریں تو دوسری بات ہے۔ مولوی صاحب کا مجھے علم نہیں ان کے خون کا معائنہ ہوا نہیں ہے۔ لیکن آپ کو یہ بیماری ضرور ہے۔

فاطمہ:میاں مجھے کہاں سے لگ گئی۔

قدیر:میرے خیال میں تو مولوی صاحب سے ہی لگی ہو گی۔

فاطمہ:(ایک دم جوش سے) قدیر میاں اگر تمہاری بات ٹھیک ہو گی  اور  میرے بچوں کے خون کے ذمہ دار ہوں گے۔ تومیں چاہے عمر بھر  سڑک پر بھیک ہی کیوں نہ مانگوں ان کو ان کی نئی نویلی دلہن کو مزہ چکھا دوں گی۔ ممانی جان آپ میرے زیوروں کا صندوقچہ لیتی جائیے۔ نہ معلوم مجھے کب ضرورت پڑ جائے  اور یہ مکانوں  اور دوکانوں کے کاغذات بھی۔

ممانی:اے بیٹی یہ بہت ذمہ داری کی بات ہے تم اپنی ماں کے پاس لے جا کر رکھو اور۔۔۔

فاطمہ:ممانی جان آپ اماں کو جانتی ہیں۔ وہ ان کے آگے میری کب سنتی ہیں جو یہ کہتے ہیں وہ کرتی ہیں۔ کوئی بیٹیوں سے کیا محبت کرے گا۔ جو وہ داماد سے کرتی ہیں اگر یہ کہیں گے کہ تو جائداد دوسری عورت کے نام لکھ دے تواماں کہیں گی لکھ دے۔ ان کاتو یہ کہنا ہے کہ مرو اور بھرو۔

قدیر:آپا جان، اگر آپ کو میرا بھروسہ  ہو تومیں رکھنے کو تیار ہوں اماں بھی پھوپھی جان سے کم تھوڑی ہیں یہ بھی یہی کہیں گی کہ مرو اور بھرو۔

فاطمہ:میاں خدا تمہیں خوش رکھے ابھی اندر سے جا کر لاتی ہوں۔

(چلی جاتی ہے۔)

ممانی:قدیر تمہیں کیا ہو گیا ہے پرائے معاملہ میں تم کیوں پڑتے ہو مولوی صاحب ویسے ہی تمہارے دشمن ہیں اب تم کوئی بچہ تو ہو نہیں۔۔۔

عزیز:اماں جان جب وہ مدد مانگ رہی ہیں تو یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ ان کی مدد نہ کی جائے۔

ممانی: اور باتیں بڑی انسانیت کی کرتے ہو۔ اس کی ماں زندہ ہیں بڑے ماموں زندہ ہیں۔ چچا  اور  ان کی اولاد موجود ہے تمہیں بیچ میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔

قدیر:ان کی اماں ، ماموں ، چچا، آپ سب آخر میں یہی کریں گے کہ اسی دوزخ میں دھکا دے دیں گے۔ جب وہ اپنے گھر میں مولوی صاحب کی نئی بیوی کا آنا نہیں چاہتیں  اور یقیناً مولوی صاحب اس کو یہاں لا کر رکھیں گے تو پھر کیوں نہ ان کی مدد کی جائے۔

ممانی: اور جو کل عتیق اللہ نے دعویٰ کر دیا کہ میری بیوی کو بھگا کر لے گئے؟

قدیر:بیوی کوئی ایسی بچہ نہیں ہے۔ چوری سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہم کیوں لے جائیں گے ہاں اگر وہ خود آئیں گی توہم اپنا دروازہ بند نہیں کریں گے۔

ممانی:تم دونوں بھائی جو کبھی میرا کہنا مان لو یہی نئی روشنی ہے۔ اچھا چپ رہو وہ آ رہی ہے۔

(فاطمہ صندوقچہ لے کر واپس آتی ہے۔)

فاطمہ:لو میاں زیور روپیہ جو کچھ بھی ہے یہ ہے  اور کچھ اماں کے پاس ہے۔

قدیر:(صندوقچہ اٹھا کر) یہ تو پتھر ہے کیا اس میں سونے کی اینٹیں بھری ہیں۔

فاطمہ:نہیں میاں ، سونے کی اینٹیں کہاں سے آئیں اب آپ لوگ لے ہی جائیے۔ آتے ہی ہوں گے۔ عزیز کل صبح پھر ہوتے جانا کچھ کاغذات  اور  دینے ہیں۔

ممانی۔:بیٹی میری ہمت تولے جانے کی ہے نہیں۔

قدیر:اماں جان میں آپ کی ڈولی میں رکھے دیتا ہوں آپ لے کرچلی ہی جائیے۔

(صندوقچہ لے کر چلا جاتا ہے۔)

ممانی:یہ بھی تم لوگوں کی کوئی بات ہے۔

عزیز:اماں جان اب دیکھئے وہ آ گئے تو یہ صندوقچہ بھی جائے گا  اور ان کا زیور دوسری کومل جائے گا۔ ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ مصیبت میں کام نہیں آتے۔

(قدیر واپس آ جاتا ہے ممانی کھڑی ہو جاتی ہیں۔)

ممانی:اچھا بیٹی اب آج کل بڑے بوڑھوں کی سنتا کون ہے۔ خدا کرے خوش رہو۔ اللہ عتیق کا دل پھیر دے  اور میں ساتھ خیر کے تمہاری امانت تمہیں سونپ جاؤں۔ یہ بڑے ذمہ داری کا کام ہے۔

(مولوی عتیق اللہ کھنکھارتا  ہوا داخل ہوتا ہے سب خاموش ہو جاتے ہیں۔)

عتیق:السلام علیکم۔

قدیر و عزیز:آداب عرض!

عتیق:تو کیا مجھ کو دیکھ کر آپ سب واپس جانے لگے۔

ممانی:نہیں اب جاہی رہے تھے۔ جب آپ آئے تومیں خدا حافظ ہی کہہ رہی تھی۔

(لڑکوں کی طرف دیکھ کر منہ بناتی ہے جس کا مطلب ہے کہ تمہیں خدا سمجھے۔)

قدیر:میں تو صرف  آپا جان کے معالج کی طرف سے آیا تھا۔ اب معافی چاہتا ہوں۔ آداب عرض ہے آپا جان، (عتیق سے)آداب عرض۔

عزیز:آداب عرض۔

ممانی:(فاطمہ کو گلے لگا کر چپکے سے) بیٹی جو کچھ بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا۔

(علاوہ عتیق کے سب لوگ باہر جاتے ہیں۔ فاطمہ دروازے تک جاتی ہے وہاں سب پھر ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں۔ فاطمہ واپسی پر بلا عتیق اللہ کی طرف دیکھے ہوئے دوسری طرف چلتی ہے۔)

عتیق:آج ہی میں نے تم سے کہا تھا کہ ان دونوں بھائیوں کے سامنے نہ ہونا تم نے میری حکم عدولی کیوں کی؟

(فاطمہ کھڑی ہو کر غصہ سے مولوی صاحب کو گھور کر دیکھتی ہے  اور  بلا جواب دیئے پھر سے چلنا شروع کر دیتی ہے۔)

عتیق:یہ قدیر کس معالج  کا ذکر کر رہا تھا؟مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہیں کوئی بیماری ہے  اور بلا میری اجازت لئے تمہاری کس طرح مجال ہوئی۔

فاطمہ:(کھڑی ہو کر) مجھے کون سی بیماری ہے وہی جوتم نے لگائی ہے  اور  تمہیں ہو جو میرے معصوم بچوں کے قاتل ہو۔ خونی کہیں کے !جس سے میرا دل چاہے گا علاج کرواؤں گی۔ اب مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہت تمہارے حکم مان لئے۔

عتیق:یہ کیا بدزبانی ہے !یہ ذرا اپنے دو ماموں زاد بھائیوں کے زور پر نہ رہنا  اور  آج سے یہ لوگ میرے گھر پر گھس تولیں۔

فاطمہ:تمہارا گھر!کبھی پشتوں میں بھی گھر دیکھے تھے۔ بھک منگے کہیں کے ! جب تک میں زندہ ہوں۔ یہ لوگ مجھ سے نہیں چھوٹ سکتے۔ تم چھٹ جاؤ یہ نہیں چھٹیں گے۔ بڑے آئے۔۔۔

عتیق:(طیش میں)قسم ہے مجھے اپنے پروردگار کی تجھے اس بدزبانی کا مزہ نہ چکھایا ہو تو بات کیا ہے۔ تم سخت سے سخت سزا کے قابل ہو، منحوس عورت، تجھے ابھی تک عبرت نہیں ہوئی، تجھے وہ سزا دی  ہو کہ تو بھی یاد کرے۔۔۔

(عتیق غصہ میں بھرا ہوا تخت سے اتر کر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ سیدھا ہاتھ مارنے کے لئے اونچا اٹھائے ہوئے فاطمہ کی طرف بڑھتا ہے۔)

فاطمہ:(غصہ ضبط کرتے ہوئے دانت پیس کر) ذرا سنبھل کے میں کہتی ہوں کہ بیٹھ جاؤ اگر اپنی عزت کی خیر چاہتے ہو!اگر  اس دفعہ تم نے ہاتھ اٹھایا۔۔۔  تومیں ذمہ دار نہیں ہوں۔

(فاطمہ بھی ایک دو قدم آگے بڑھتی ہے۔ عتیق ایک سیکنڈ تو کھڑا رہتا ہے۔ اس کا سیدھا ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے گرتا ہے پھر دو قدم پیچھے لے کر واپس تخت یا پلنگ  پر بیٹھ جاتا ہے۔)

فاطمہ:(عتیق کے تخت پر بیٹھنے کے بعد) بڑے مرد بنتے ہیں۔۔۔ چلے ہیں دوسرا بیاہ کرنے !

(دوسری طرف چلتی ہے۔)

(پردہ گرتا ہے)

Samarqand by Amin Maalouf

Articles

سمرقند

امین مالوف

 

بحرِ اوقیانوس کی تہ میں ایک کتاب ہے۔ میں آپ کو اس کی سرگزشت سنانے والا ہوں۔

آپ کو شاید کہانی کے انجام کا علم ہے۔ معاصر اخباروں نے اس کی بابت لکھا تھا، جس طرح دوسروں نے بعد میں۔ جب 14 اپریل 1921 کی شب ٹائٹینک نئی دنیا کے ساحل سے تھوڑے فاصلے پر غرق ہوا، تو اس کا سب سے بلند مرتبت شکار ایک کتاب تھی، عمر خیّام، دانائے ایرانی، شاعر اور عالمِ ہیئت کی رباعیات کا اکلوتا نسخہ۔
میں جہاز کی تباہی کے ذکر پر طولِ کلام نہیں کروں گا۔ دوسروں نے پہلے ہی ڈالروں میں اس کی قیمت کا تخمینہ لگا دیا ہے، مرنے والوں کی فہرست بنادی ہے اور لوگوں کے آخری الفاظ قلم بند کردیے ہیں۔ اس واقعے کے چھ سال گزرنے کے بعد بھی گوشت و سیاہی کی اس شے کا خیال جس کا میں نا اہل نگہبان تھا ہنوز مجھ پر مسلّط ہے۔ کیا یہ میں، بینجامن او۔ لیسیج، ہی نہیں تھا جس نے اس کو اس کی ایشیائی زاد بوم سے اُچک لیا تھا؟ کیا یہ میرے سامان میں نہیں تھی کہ اسے ٹائٹینک پر سفر کے لیے نکلنا پڑا؟ اور کیا اس کے زمانوں کے سفر میں میری صدی کی نخوت پسندی نے دخل اندازی نہیں کی تھی؟
اس وقت سے دنیا روزبہ روز لہو اور اداس اندھیروں میں اور زیادہ ڈوبتی جارہی ہے، اور زندگی نے مجھ پر مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔ مجھے خود کو لوگوں سے دور کرنا پڑا ہے تاکہ اپنی یاد کی آوازکو سن سکوں، ایک سادہ لوح امید اور ضدّی وہم کی پرورش کرسکوں کہ کل یہ قلمی نسخہ مل جائے گا۔ اپنے زرّیں بکسے میں مامون، یہ سمندر کی تاریک گہرائیوں سے صحیح سلامت برآمد ہوگا، اس حال میں کہ اس کی قسمت ایک نئے جوکھوں بھرے طویل سفر سے مالا مال ہوچکی ہوگی۔ لوگ اسے اپنی انگلیوں سے الٹ پلٹ سکیں گے، اسے کھول سکیں گے اور اس میں خود کو گم۔ مقیّد آنکھیں اس کی مہمات کے وقائع کا حاشیہ حاشیہ تعاقب کریں گی، وہ شاعر کو دریافت کریں گی، اس کے اولین کلام، اس کی اولین مدہوشیوں کے دورے اور اس کے اولین خوفوں کو؛ اور فرقۂ حشّاشین۔ پھر وہ ایک تصویر پر آکر رک جائیں گی، متأمل، جو ریت اور زمرّد کے رنگ کی ہے۔
اس پر نہ تاریخ پڑی ہے نہ کسی کے دستخط ہی ہیں، کچھ بھی تو نہیں، سواے ان لفظوں کے جو پُرجوش بھی ہوسکتے ہیں یا مایوسانہ: ’’سمرقند، حسین ترین چہرہ جو زمین نے کبھی سورج کو دکھایا ہو۔ ‘‘

 

 

 

پہلی کتاب
شعراء اور عشّاق

ناکردہ گناہ در جہان کیست بگو
وآنکس کہ گنہ نکرد چون زیست بگو
من بَد کنم و تو بَد مکافات بدہی
پس فرق میانِ من و تو چیست بگو
عمر خیّام

باب ١

کبھی کبھار سمرقند میں، ایک سست رو اور بے کیف دن کی شام، اہالین شہر وقت گزاری کے لیے دو میخانوں والی سڑک کے آخر پر آنکلتے جہاں مرچ بازار کے قریب آکرراستہ ختم ہوجاتا تھا۔ وہ یہاں سُغد کی شراب کا ذائقہ چکھنے کے لیے نہیں آتے تھے جس سے مشک کی مہک اٹھتی تھی، بلکہ آمد و رفت کا نظارہ کرنے یا کسی بدمست کی گھات میں، جسے زمین پر پٹخا جاتا، خوب ذلیل کیا جاتا، اور ایسے جہنّم بھیجنے کی بد دعا دی جاتی جس کی آتش، دنیا کے ختم تک، شراب کی ترغیبات کی گلگونی کی یاد دلاتی رہے۔
1027کی گرمیوں میں ایسے ہی کسی واقعے سے ’’رباعیات‘‘کا مخطوطہ معرضِ وجود میں آنے والا تھا۔ عمر خیام چوبیس سال کا تھا اور حال ہی میں سمرقند میں وارد ہوا تھا۔ کیا اُس شام وہ میخانے کا قصد کرے یا آرام آرام سے مٹر گشت؟ ڈھلتے دن کے ہزار تماشوں کی ہم راہی میں اس نے ایک نادیدہ شہر میں سڑکیں ناپنے کے شیریں لطف و نشاط کا انتخاب کیا۔ ریوندِ چینی کے کھیتوں والی سڑک پر ایک چھوٹا سا لڑکا بڑی تیزی سے اس کے پاس سے گزرگیا۔ وہ چوڑی سِلوں سے پٹے راستے پر ننگے، دبے پاؤںایک سیب مضبوطی کے ساتھ گردن سے چپکائے ہوئے تھا جو اس نے کسی خوانچے سے اُچک لیا تھا۔ پارچہ فروشوں کے بازار میں، ایک ذرا اونچے سے دکانچے پر، نرد بازوں کی ایک ٹولی روغنی مشعل کی روشنی میں بیٹھی اپنی بحثا بحثی میں لگی رہی۔ دو پانسے اچھلے، جس کے بعد لعنت ملامت، اور پھر دبی دبی سی ہنسی۔ ریسمان سازوں کے مسقّف راستے پر، ایک خچّر بان ایک فوارے کے پاس آکر رک گیا، ٹھنڈے پانی کو اپنی اوک میں گرنے دیا، پھر جھکا، ہونٹ یوں باہر کو نکلے ہوئے جیسے کسی محوِ خواب بچّے کی پیشانی کو چومنے کو ہوں۔ پیاس بجھا کر اس نے اپنی گیلی ہتھیلیاں چہرے پر پھرائیں اور بڑ بڑا کر خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر وہ ایک جوف دار تربوز لے کر آیا، اسے پانی سے بھرا اور اپنے جانور کے پاس لے گیا تاکہ پانی پینے کے لیے اس کی باری بھی آجائے۔
پکے پکائے کھانوں کے بازار کے چوک میں ایک پندرہ سالہ لڑکی نے جو امید سے تھی اور جس کی نقاب الٹی ہوئی تھی خیام کو مخاطب کیا۔ اپنے بھولے بھالے چہرے پر مسکراہٹ لائے یا ایک لفظ کہے بغیر اس نے اس کے ہاتھوں سے چند سِکی ہوئی بادامیں چپکے سے کھسکا دیں جو اس نے ابھی ابھی خریدی تھیں، لیکن سیر کرنے والے کو اس پر تعجب نہیں ہوا۔ سمرقند میں یہ قدیم عقیدہ ہے کہ جب کسی ہونے والی ماں کی کسی من بھاؤنے اجنبی سے سڑک پر مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے کھانے میں شریک ہو تاکہ بچّہ اتنا ہی خوش شکل نکلے، اس کا پہلو کا رخ بھی اتنا ہی نازک اندام ہو، اس کے خط و خال بھی اتنے ہے نجیب اور ہموار ہوں۔
عمر وہیں لٹکا رہا، فخر سے بقیہ بادامیں چباتے ہوئے اس ناشناسا عورت کو دور جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔اچانک کسی آواز نے اسے وہاں سے جلدی کرنے کی تحریک دلائی۔ جلد ہی وہ ایک بے قابو ہجوم کے بیچوں بیچ میں تھا۔ ایک پیرِ فرتوت، جس کے لمبے لمبے استخوانی اعضا تھے، پہلے سے زمین پر چت پڑا ہوا تھا۔ اس کا سر ننگا تھا اور بس اس کی دھوپ سے سنولائی ہوئی چندیا پر گنے چنے سفید بال منتشر تھے۔ طیش اور خوف کی جو چیخیں اس کے منھ سے نکل رہی تھیں ان کی حیثیت ایک لمبی سسکی سے زیادہ نہ تھی اور اس کی آنکھوں نے نووارد کو بڑی عاجزی سے دیکھا۔
اُس بد قسمت کے چاروں طرف بیسیوں باریش بڑے انتقامی انداز میں اپنی جریبیں لہرا رہے تھے، اور کچھ فاصلے پر ایک اور ٹولی بڑے جوش و خروش سے اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے خیام کے چہرے پر خوف و ہراس کا تأثر دیکھ کر اسے تسلّی دی، ’’پریشان مت ہو۔ یہ تو بس جابرِ لاغر ہے!‘‘ عمر ٹھٹھکا اور ندامت کی ایک لہر اس کے جسم میں سنسنا گئی۔ ’’جابر، ابو علی کا رفیق!‘‘ وہ بڑبڑایا۔
یوں تو ابو علی ناموں میں کا بے حد عام سا نام تھا، لیکن جب بخارا، قرطبہ، بلخ یا بغداد میں کوئی صاحبِ علم و فضل اسے اتنے مانوس لحاظ اور پاسِ ادب کے لہجے میں ادا کرتا، تو اس کے مشار الیہ کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ یہ ابو علی ابن سینا تھا، جو مغرب میں Avicenna کے نام سے مشہور تھا۔ عمر کی اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، کیونکہ وہ اس کی پیدائش سے گیارہ سال پہلے ہی راہی ملکِ عدم ہوچکا تھا، تاہم وہ اس کی اپنی نسل کے بلا حجت استادِ گرامی، صاحبِ علم، عَلم بردارِ عقل و منطق ہونے کی حیثیت سے تکریم کرتا تھا۔
خیام پھر بڑبڑایا، ’’جابر، ابو علی کا منظورِ نظر چیلا!‘‘ اگرچہ وہ اسے پہلی ہی بار دیکھ رہا تھا، اسے اس رقّت آمیز اور عبرت انگیز عقوبت کا علم تھا جو اس پر عائد کی گئی تھی۔ ابو سینا نے جلد ہی طب اور مابعد الطبیعیات کے دائروں میں اسے اپنا جانشین تصور کرلیا تھا؛ اس نے اس کی قدرتِ استدلال کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا تھا اور صرف اس بات پر اس کی سرزنش کی تھی کہ وہ اپنے نظریات کی تشریح کے انداز میں ذرا زیادہ ہی خود بیں اور بد لحاظ واقع ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں جابر کو کئی بار حوالات کی سیر کرنی پڑی تھی اور تین بار عوام الناس کی زدو و کوب کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا، جس میں کی آخری سمرقند کے بڑے چوک میں واقع ہوئی جہاں اسے اپنے اہلِ خانہ کے سامنے ڈیڑھ سو کوڑے لگائے گئے۔ اس شرمساری سے وہ کبھی جانبر نہ ہوسکا۔ وہ ٹھیک کس لمحے کنارے سے لڑھک کر پاگل پن کی حدمیں جا گرا تھا؟ بیشک اپنی بیوی کی وفات پر۔ اسے اِدھر اُدھر چیتھڑوں میں ڈگمگاتے دیکھا جاسکتا تھا، چیختے چلاتے ہوئے، بے ادبی سے اول فول بکتے ہوئے ۔ بچوں کے غول اس کا پیچھا کرتے چلے آتے، تالیاں بجاتے اور اس پر سنگ برساتے، حتیٰ کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں۔
اس منظر کو دیکھتے ہوئے عمر یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا، ’’اگر میں نے احتیاط سے کام نہیں لیا، تو میرا بھی یہی حشر ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ بات نہیں تھی کہ اسے مدہوشی کا خوف تھا، کیونکہ وہ اور شراب ایک دوسرے کا پاس رکھنا سیکھ چکے تھے، اور ایک، دوسرے کو کبھی بھی سبک سر کرنے والا نہیں تھا۔ اسے خوف تھا تو اس بات کا کہ کہیں مجمع اس کے ناموس کی دیوار کو نہ ڈھا دے۔ اس آبرو باختہ آدمی کی حالت نے اسے کچھ زیادہ ہی ہراساں کردیا اور اسے اس سے گریز کی خواہش محسوس ہوئی۔ اس کے باوجود اسے یہ احساس بھی تھا کہ وہ ابن سینا کے رفیق کو یوں مجمعے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتا۔ اس نے تین با وقار قدم اٹھائے، غیر جانبدارانہ انداز اختیار کیا اور شاہانہ اشارے کے ساتھ مستحکم آواز میں کہا۔
’’اس غریب کی جان چھوڑو۔‘‘
ٹولی کا سرغنہ جو جابر پر جھکا ہوا تھا، دخل اندازی کرنے والے کے پاس آیا اور سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی داڑھی کے سر تا سر، دائیں کان سے لے کر ٹھوڑی کی نوک تک، ایک گہرے زخم کا نشان پڑا تھا، اور یہ شکن آلود نیم رخ تھا جو اس نے عمر کے آگے بڑھاتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا، ’’یہ آدمی شرابی ہے، ایک کافر،‘‘ پھر آخری لفظ کسی کوسنے کی طرح سسیاتے ہوئے ادا کیا، ’’ایک فیلَسوف!‘‘
’’سمرقند میں ہمیںفیلَسوف نہیں چاہئیں!‘‘
بھیڑ سے تائید کی بڑبڑاہٹ ابھری۔ ان لوگوں کے نزدیک ’’فلسفی‘‘ کی اصطلاح ہر اس چیز پر دلالت کرتی تھی جو یونانی ملحدانہ علوم سے قریبی تعلق رکھتی ہو، اور اس سے بھی زیادہ ہر وہ چیز جو نہ دین ہو نہ ادب۔ اپنی کم عمری کے باوجود خیام پہلے ہی سے ایک نامی گرامی فیلَسوف تھا اور یوں دیکھا جائے تو بے چارے جابر کے مقابلے میں کہیں زیادہ شکار کے قابل۔
زخم رسیدہ آدمی نے یقیناً اسے نہیں پہچانا تھا، کیونکہ وہ دوبارہ جابر کی طرف متوجہ ہو گیا جس کی زبان ہنوز گنگ تھی۔ اس نے اسے بالوں سے پکڑ لیا، سر کو تین چار جھٹکے دیے یوں جیسے کسی قریبی دیوار سے مارکر پاش پاش کردینے کو ہو، لیکن پھر اچانک اسے چھوڑ دیا۔ اگرچہ سفّاک، یہ پھر بھی خود پر قابو رکھنے کی ایک وضع تھی، جیسے کہ یہ شخص اپنے عزم کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ارتکابِ قتل سے ہچکچارہا ہو۔ خیام نے دوبارہ مداخلت کے لیے اس لمحے کا انتخاب کیا۔
’’اس بڈھے کی جان چھوڑو۔ یہ رنڈوا ہے۔ بیمار ہے—ایک دیوانہ۔ نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے لبوں کو جنبش تک دینے سے عاجز ہے۔‘‘
ٹولی کا سرغنہ اچھل کر خیام کی طرف آیا، اور اس کی داڑھی میں انگلی گھسیڑ دی۔
’’لگتا ہے تم اسے خوب جانتے ہو! ہاں تو جناب کی ذاتِ شریف؟ تم سمرقند کے تو نہیں! اس شہر میں تمھیں کسی نے کبھی نہیں دیکھا!‘‘
عمر نے حقارت کے ساتھ اس کا ہاتھ اپنے سے جھٹک دیالیکن اب اتنی بے لختگی سے بھی نہیں کہ جس سے اسے لڑنے کا بہانہ مل جائے۔ آدمی ایک قدم پیچھے ہٹاپھر بھی اَڑا رہا، ’’تمھارا کیا نام ہے، اجنبی؟‘‘
خیام نے خود کو انھیں سپرد کرنے میں تأمل کیا۔ اس نے بچ نکلنے کی کوئی ترکیب سوچی۔ اس نے آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں جہاں ہلکے سے بادل نے ابھی ابھی ماہِ ہلال کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ خاموش رہا، پھر ایک گہری سانس لی۔ اس نے خود کو غور و فکر میں غرق کرنے کی تمنا کی، اختر شماری کرنے کی، کہیں دور ہونے کی، بھیڑ بھاڑ سے محفوظ و مامون رہنے کی!
ٹولی نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور کچھ ہاتھ اس کے جسم سے چُھلنے بھی لگے تھے۔ وہ واپس اپنی دنیا میں آگیا۔
’’میں عمر ہوں، نیشاپور کے ابراہیم کا بیٹا۔ اور تم کون ہو؟‘‘
سوال محض ایک رسم نبھانے کو کیا گیا تھا۔ اس آدمی کی خود کو متعارف کرانے کی کوئی نیّت نہیں تھی۔ وہ اپنے موطن میں تھا اور سوال وہی کر رہا تھا۔ بعد میں جاکر عمر کو اس کا نام معلوم ہونے والا تھا۔ یہ ایک طالب علم تھا اور ’’زخمی چہرہ‘‘ کے لقب سے مشہور تھا۔ ہاتھوں میں لاٹھی اور لبوں پر ایک قول لیے وہ جلد ہی پورے سمرقند میں خوف و ہراس کی تھراہٹ دوڑانے والا تھا لیکن فی الوقت اس کی دھاک کا دائرہ اپنے ارد گرد پھیلے نوجوانوں سے آگے نہیں بڑھا تھا جو اس کے ہر لفظ اور ہر اشارے پر آمنّا و صدقّنا کہتے تھے۔
یک بارگی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ اپنے چیلوں کی طرف لوٹا، اور پھر فتح مندی سے مجمعے کی طرف رخ کر کے چلایا، ’’یااﷲ، میں کیوں عمرابن ابراہیم خیام نیشاپوری کو پہچاننے سے عاجز رہا؟ عمر، ستارۂ خراسان، نابغۂ فارس وعراق،امیرِ فلاسِفہ!‘‘
جب وہ خوب جھک کر کورنش بجا لانے کی نقّالی کر رہا تھا، تو اس نے اپنی دستار کے دونوں جانب اپنی انگلیاں پھڑپھڑائیں اور ناظرین کو بے تحاشہ قہقہہ لگوانے میں کامیاب ہوگیا، ’’میں کیوں کر اس شخص کو پہچاننے میں ناکام رہا جس نے اتنی متقیانہ اور عبادت گزار رباعی کہی ہے:
ابریقِ مئے مرا شکستی ربّی
برمن درِ عیش را بہ بستی ربّی
برخاک فگندی مئے گلگونِ مرا
خاکم بدہن، مگر تو مستی ربّی
عمر نے یہ سخت برہمی سے سنا اور فکرمند ہوا۔ یہ اشتعال انگیزی اسی جگہ قتل کا بہانہ بن سکتی ہے۔ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے، اس نے بڑی بلند اور واضح آواز میں جواب دیا تاکہ کوئی اُس شخص کے جھانسے میں نہ آ جائے۔ ’’ میں اس رباعی کو نہیں پہچانتا۔ حقیقیت میں پہلی بار اسے سن رہا ہوں۔ لیکن یہ رہی ایک رباعی جو میں نے خود کہی ہے:
نہ کچھ جانیں، نہ جاننا چاہیں
تہی از علم یہ جو دنیا پہ حکمرانی کریں
ان میں سے نہیں، تو کافر کہلاؤ
نظر انداز کرو، خیام، اپنی راہ لگو
’’تہی از علم‘‘ کہتے وقت عمر کو واقعی اپنے حریفوں کی طرف استہزا سے اشارہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہاتھ اس کی طرف اٹھے، اس کی عبا کو کھسوٹا، جو پھٹنے لگی۔ وہ ڈگمگا گیا، اس کی کمر کسی کے گھٹنے سے ٹکرائی اور وہ سنگِ سڑک پر جا پڑا۔ جب وہ اس غولِ بیابانی کے نیچے کچلا پڑا تھا، اس نے نبرد آزما ہوکر گلو خلاصی مناسب خیال نہیں کی بلکہ چارو نا چار اپنے لباس کو جسم سے پھٹ جانے دیا، اعضا سے چندی چندی ہو جانے دیا، اور اب تو اس نے اپنے کو اس مفلوج کیفیت کے سپرد کردیا تھا جو کسی قربانی کے جانور کی ہوتی ہے۔ اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا، کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اپنے میں سمٹا سمٹایا پڑا تھا، اور برہنہ۔
یہاں تک کہ اس نے ان دس مسلّح آدمیوں کو جو اس قربانی کے مجمعے کو منتشر کرنے آئے تھے داخل اندازی کرنے والوں میںہی گردانا۔ یہ سمرقند کے بلدی فوجی رضاکار(ملیشیا)تھے جن کی نمدے کی ٹوپیوں پر ’’احداث‘‘کا شناختی نشان جَڑا ہوا تھا۔ اِنھیں دیکھتے ہی خیام پر حملہ کرنے والے پیچھے ہٹنے لگے، ساتھ ساتھ اپنے طرزِ عمل کو برحق دکھانے کی خاطر یہ بھی چلانے لگے ’’کیمیا گر! کیمیا گر!‘‘ ، اور ہجوم سے اس کی شہادت چاہی۔
اربابِ اقتدار کی نگاہ میں فلسفی ہونا کوئی جرم نہیں تھا، لیکن کیمیا گری کی عملیات کا مطلب موت نکل سکتا تھا۔
خیر، پہرے کا سربراہ بحثا بحثی میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
’’اگر یہ شخص واقعی کیمیا گر ہے،‘‘ اس نے فیصلہ صادر کیا، ’’تو ضروری ہے کہ اسے قاضی القضاۃ ابو طاہر کے پاس لے جایا جائے۔‘‘
جب جابرِ لاغر، جسے اس درمیان میں سب بھول بھال گئے تھے، قریب ترین میخانے کی طرف رینگنے لگا، اور بتدریج اندر داخل ہوا، اس عزم کے ساتھ کہ اب ہرگز کبھی باہر نہیں نکلے گا، عمر کسی کی مدد کے بغیر خود ہی لشٹم پشٹم کھڑا ہوگیا۔ وہ ناک کی سیدھ میں چلنے لگا، عالمِ سکوت میں۔ اس کے تار تار لباس اور اس کے خون آلود چہرے کو اس کے انداز کی برتری نے کسی حجاب کی طرح ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کے آگے آگے فوجی رضاکار مشعلیں اُٹھائے چل رہے تھے۔ دنبالے میں اس کے حملہ آور چلے آرہے تھے، اور ان کے عقب میں منھ پھاڑ کر دیکھنے والوں کا ایک گروہ۔
عمر کو نہ وہ نظر آئے نہ سنائی دیے۔ جہاں تک اس کا تعلق تھا، راستے ویران پڑے تھے، ملک خاموش تھا، آسمان بے ابر، اور سمرقند ہنوز خوابوں کی وہ سرزمین تھاجسے اس نے چند سال پہلے دریافت کیا تھا۔
وہ یہاں تین ہفتوں کا سفر کرکے پہنچا تھا اورتھوڑا سا بھی آرام کیے بغیر گزرے وقتوں کے سیّاحوں کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر ڈالا تھا۔ قہندرز کے مرتفع پر جاؤ، انھوں نے صلاح دی تھی۔ اطرف و اکناف پر خوب اچھی نظر ڈالو اور تمھیں پانی اور سبزہ دکھائی دے گا، پھولوں کے قطعے، سرو جنھیں فنّان مالیوں نے بیلوں، فیلوں، جفا کش شتروں، یا جنگ آمدہ پلنگوں کے قالب میں تراشا ہوگاجو بالکل چھلانگ مارتے ہوئے لگتے ہوں ۔ بیشک، اندرونِ فصیل، خانقاہ کے پھاٹک سے، مغرب اور بابِ صین تک، عمر نے کبھی اتنے گھنے باغات اور شفاف چشمے نہیں دیکھے تھے۔ پھر، جہاں تہاں، ایک مینارۂ خشت بلند ہورہا تھا، اپنے گنبد کے ساتھ جسے سایے نے تراشا تھا، کسی سیر بین مہتابی کی دیوار کی سفیدی اور، ایک جھیل کے کنارے، جو اپنے بیدِ مجنوں کے سایوں میں جانے کن سوچوں میں غلطاں تھی، ایک ننگی پیراک جھلستی ہوئی ہوا میں اپنے بال پھیلائے ہوئے تھی۔
کیا یہ بہشت کا وہی منظر تو نہیں تھا جس کی، بہت بعد میں، ’’رباعیات‘‘ کے قلمی نسخے کو مصوّر کرنے کی کوشش کے وقت وہ گم نام مصور یادآوری کرانا چاہتا تھا؟ کیا یہ سب وہی نہیں تھا جو اس وقت اس کے ذہن میں گھوم رہاتھا، اس وقت جب اسے اسفزار کے علاقے لے جایا جا رہا تھا جہاں سمرقند کے قاضی القضاۃ ابو طاہر کی اقامت گاہ تھی؟ وہ بار بار اپنے سے یہی دہرا رہا تھا، ’’میں اس شہر سے نفرت نہیں کروں گا۔ چاہے میری وہ پیراک دوشیزہ ایک سراب ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے حقیقت سرد مہر اور زشت ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے یہ سرد رات میری آخری رات ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

 

باب ٢

قاضی کے طویل و عریض دیوان میں دور کے شمع دان خیام پر ایک عاج رنگ کی چھوٹ ڈال رہے تھے۔ ابھی وہ داخل ہوہی رہا تھا کہ دو ادھیڑ عمر کے پہرے داروں نے اسے کندھوں سے یوں جکڑ لیا جیسے وہ کوئی خونخوار پاگل ہو—اور اس حالت میں اسے دروازے کے پاس انتظار کرنا پڑا۔
قاضی جو کمرے کے دوسرے سرے پر بیٹھا ہوا تھا اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ وہ کسی قضیے پر حکم سنا رہا تھا، مدعیان سے محوِ مناقشہ تھا، ایک سے استدلال اور دوسرے کی سرزنش۔ قرینے سے یہ دو ہمسایوں کے مابین کوئی پرانا جھگڑا لگ رہا تھا، فرسودہ و دیرینہ شکوے شکایات اور کٹ حجتی سے متعلق۔ ابو طاہر نے بڑے اعلانیہ طور پر اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی لپیٹ دی، دونوں خاندانوں کے سربراہوں کو گلے لگنے کا حکم دیا، وہیں ابھی ابھی اس کے سامنے، یوں جیسے وہ کبھی ایک دوسرے سے نہ جھگڑے ہوں۔ ان میں سے ایک نے قدم آگے بڑھایا لیکن دوسرے نے، جو ایک تنگ پیشانی والا لحیم شحیم آدمی تھا،مزاحمت کی۔ قاضی نے اس کے منھ پر زور کا تھپڑ مارا جس کے باعث حاضرین کانپنے لگے۔ لحیم شحیم نے اس گول مٹول، برہم، چلبلے آدمی پر ایک فوری نظر ڈالی جو اس تک پہنچنے کے لیے خود کو اوپر اٹھا رہا تھا، پھر اپنا چہرہ نیچے کیا، اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرا اور حکم بجا لایا۔
اس جماعت کو رخصت کر کے ابو طالب نے اپنے رضاکاروں کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ انھوں نے جلدی جلدی اپنی روداد پیش کی اور سوالوں کا جواب دیا، اور بتانا پڑا کہ انھوں نے اتنے بڑے مجمعے کو سڑک پر جمع ہونے ہی کیوں دیا۔ پھر زخمی چہرہ کی باری آئی کہ اپنا بیان دے۔ وہ قاضی کی طرف جھکا جو لگتا تھا جیسے ایک زمانے سے اس سے واقف ہو، اور بڑی جوشیلی خود کلامی شروع کردی۔ ابو طاہر اپنے احساسات ظاہر کیے بغیر بڑے غور سے سنتا رہا۔ پھر، کچھ دیر غور کرنے کے بعد، حکم دیا، ’’مجمعے سے منتشر ہوجانے کے لیے کہو۔ ہر آدمی سے کہو کہ کوتاہ ترین راہ سے گھر واپس جائے اور،‘‘ حملہ آوروں سے مخاطب ہو کر، ’’تم سب بھی گھر واپس جاؤ۔ کل سے پہلے کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ مدعا علیہ رات یہیں ٹھہرے گا اور صرف میرے آدمی، کوئی دوسرا نہیں، اس کی رکھوالی کریں گے۔‘‘
اس پر متعجب کہ اسے یوں چٹ پٹ رفو چکر ہوجانے کے لیے کہا جارہا تھا، زخمی چہرہ نے مِن منا کر احتجاج کرنا چاہا لیکن پھر اصرار نہ کرنے ہی میں بہتری سمجھی۔ دانائی کے ساتھ اس نے اپنے لبادے کا پلّو سمیٹا اور احتراماً کمر جھکا کر الٹے قدم پلٹ گیا۔
جب ابو طاہر عمر کے ساتھ تنہا رہ گیا، شاہدین میں اس کے محرم و معتمد ہی باقی بچ رہے، تو اس نے خوش آمدید کا ایک پراسرا فقرہ ادا کیا، ’’مشہور و معروف عمر خیامِ نیشاپوری کا خیر مقدم کرنا میرے لے باعثِ صد احترام ہے۔‘‘
اس کے فقرے سے کسی بھی جذبے کے شائبے کی غمازی بھی نہیں ہورہی تھی۔ اس میں نہ طنز کی چبھن تھی نہ کوئی گرم جوشی۔ اس کا لہجہ بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور آواز سپاٹ۔ وہ ایک لالہ شکل دستار پہنے ہوئے تھا، بھویں گنجان تھیں اور بے مونچھوں کی سفید داڑھی تھی، اور وہ خیام کو طویل، برماتی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
سب سے زیادہ الجھن میں ڈالنے والی بات تو خیر مقدم تھا کیونکہ عمر وہاں ان چیتھڑوں میں کوئی گھنٹہ بھر سے کھڑا تھا، کہ سب دیکھ سکیں اور اس پر خندہ زن ہوسکیں۔
خاموشی کے کئی بڑی مہارت سے حساب لگائے ہوئے لمحوں کے بعد ابو طاہر نے یہ اضافہ کیا، ’’عمر، تم سمرقند میںناآشنا نہیں ہو۔ کم عمری کے باوجود، تمھارے علم وفضل کے پہلے ہی یہاں چرچے ہیں، اور مدرسوں میں تمھارے گُن گائے جاتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کے تم نے اصفہان میں ابن سینا کا ایک ادق رسالہ سات بار پڑھا، اور نیشاپور لوٹنے پر حرف بہ حرف حافظے سے دہرادیا؟‘‘
خیام کو یہ بات بے حد باعثِ تسکینِ نفس معلوم ہوئی کہ وہ مستند کارنامہ لوگوں کوماوراء النہر (طبرستان) معلوم تھا، لیکن اس کی فکروں میں ہنوز کوئی کمی نہیں ہوئی۔ شافعی مذہب کے قاضی کے منھ سے ابن سینا کا حوالہ کوئی بہت قابلِ اطمینان بات نہیں تھی، پھر یہ بھی کہ ہنوز ا سے بیٹھنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ ابو طاہر نے کلام جاری رکھا ’’یہ صرف تمھارے کارنامے ہی نہیں جو زبان زدِ خاص و عام ہیںبلکہ چند عجیب و غریب رباعیاں بھی تم سے منسوب کی جارہی ہیں۔‘‘
فقرہ کسی جذبے سے عاری تھا۔ وہ اس پر تہمت نہیں دھر رہا تھا، لیکن وہ اسے بری الذمہ بھی قرار نہیں دے رہا تھا—وہ تو صرف و محض اس سے کنایتاً ایک سوال کر رہا تھا۔ عمر نے اپنی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔ ’’وہ رباعی جو زخمی چہرہ سنا رہا تھا میری رباعیوں میں سے نہیں۔‘‘
قاضی نے اس احتجاج کو بے صبری سے رد کردیا، اور پہلی بار اس کے لہجے میں سختی آگئی۔ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے تم نے یہ بیت کہا ہے یا وہ بیت۔ مجھے اتنے فحش شعروں کی خبر ملی ہے کہ میں انھیں سن کر خود کو اتنا ہی مجرم گردانوں گا جتنا وہ شخص جس نے انھیں شائع کیا ہے۔ میں تم پر کوئی سزا لاگو کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن یہ کیمیا گری کے اتہامات، تو انھیں ایک کان میں ڈال کر دوسرے کان سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ ہم اس وقت تنہا ہیں۔ ہم دو اصحابِ فضیلت ہیں اور میں صرف سچ کا طلب گار ہوں۔‘‘
عمر کو اس سے بالکل بھی تسلّی نہیں ہوئی۔ اسے ایک دام کا احساس ہوا اور اس نے جواب دینے میں تأمل کیا۔ وہ اپنے کو بہ خوبی دیکھ سکتا تھا کہ جلّاد کے سپرد کیا جا رہا ہے، تاکہ ہاتھ پاؤں بریدہ کردیے جائیں، آختہ کردیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے۔ ابو طاہر نے آواز بلند کی اور تقریباً چلا کر کہا، ’’عمر، ولد ابراہیم، خیمہ سازِ نیشاپور، کیا تم ایک دوست کو پہچاننے سے عاجز ہو؟‘‘
اس کے لہجے کے خلوص نے خیام کے اوسان خطا کردیے۔ ’’ایک دوست کو پہچاننے سے؟‘‘ اس نے موضوع پر خوب غور و خوض کیا، قاضی کے چہرے کا گہرا مشاہدہ کیا، اس انداز پر متوجہ ہوا جس میں وہ دانت باہر کیے ہنس رہا تھا اور اس کی داڑھی مرتعش تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے کو قائل ہوجانے دیا۔ اس کے چہرے کا تناؤ ڈھیلا پڑ گیا۔ اس نے خود کو پہرے داروں کی گرفت سے آزاد کیا جنھوں نے، قاضی کا اشارہ پاکر، اسے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر بغیر دعوت دیے وہ بیٹھ گیا۔ قاضی دوستانہ انداز میں مسکرایا لیکن کسی تاخیر کے بغیر پھر جرح شروع کردی۔ ’’کیا تم وہ کافر ہو جس کا بعض لوگ تمھارے باب میں دعویٰ کرتے ہیں؟‘‘
یہ سوال سے زیادہ ہی کچھ تھا۔ یہ ابتلا کی وہ پکار تھی جسے عمر نظر انداز نہیں کر سکا۔ ’’مجھے پارساؤں کے جوش و خروش سے نفرت ہے، لیکن میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’ایک،‘ دو ہے۔‘‘
’’کیا کبھی ایسا سوچا ہے؟‘‘
’’کبھی نہیں، اور خدا میرا شاہد ہے۔‘‘
’’جہاں تک میرا تعلق ہے، یہ میرے لیے کافی ہے، اور میرا خیال ہے کہ خالق کے لیے بھی۔ لیکن عوام الناس کے لیے بھلا کہاں۔ وہ تمھارے الفاظ پر نظر رکھتے ہیں، تمھاری ادنیٰ ترین حرکات پر—خود میرے افعال و حرکات پر بھی، امراکے الفاظ اور اشاروں تک پر۔ تم یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہو، ’میں کبھی کبھی ایسی مسجدوں میں جاتا ہوں جہاں جھپکی لینے کے لیے چھاؤں اچھی ہوتی ہے۔‘ ‘‘
’’عبادت گاہ میں صرف وہی آدمی سو سکتا ہے جو اپنے خالق سے راضی خوشی ہو۔‘‘
قاضی کی خشم گینی اور اس میں بھرے شک کے باوجود عمر جوش میں آگیا اور اپنا بیان جاری رکھا، ’’میں ان میں سے نہیں جن کے لیے دین محض یوم الحساب کا خوف ہے۔ میری عبادت کا کیا ڈھنگ ہے؟ میں ایک گلاب کا بہ نظرِ غائر مشاہدہ کرتا ہوں، میں اختر شماری کرتا ہوں، میں کائنات کے حسن پر تعجب کرتا ہوں اور اس پر کہ یہ کس قدر منظم ہے، انسان پر، جو خالق کی حسین ترین صنعت ہے، انسان کے دماغ پرجو علم کا پیاسا ہے، اس کے دل پر جو محبت کا بھوکا ہے، اس کے حواس پر، چاہے یہ بیدار ہوںیا آسودہ ۔‘‘
فکرمند آنکھوںکے ساتھ قاضی اٹھا اور آکر خیام کے برابر بیٹھ گیا، پھر پدرانہ شفقت سے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ محافظوں نے ایک دوسرے کی طرف گم سُم نگاہوں سے دیکھا۔
’’میرے نوجوان رفیق، سنو۔ قادرِ مطلق نے تمھیں ان نایاب چیزوں سے نوازا ہے جو کسی ابنِ آدم کو میسّر ہوں—ذہانت، قادر الکلامی، صحت، وجاہت، طلبِ علم اور حرصِ حیات، مردوں کی ستائش اور، میں سمجھتا ہوں، عورتوں کی آرزومند آہیں۔ مجھے امید ہے کہ اُس نے خاموشی کی دانائی سے بھی تمھیںمحروم نہیں رکھا ہوگا، جس کے بغیر، سابق الذکر میں سے کسی کی بھی قدر دانی ہوسکتی ہے نہ اسے قائم رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
’’تو کیا جو میں سوچتا ہوں اس کے اظہار کے لیے اپنے پیرِ فرتوت ہو جانے کا انتظار کروں؟‘‘
’’قبل اس کے کہ وہ سب جو تم سوچتے ہو اس کا اظہار کرسکو، تمھارے بچوں کے بچوں کے بچے بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔ ہم رازوں اور خوف کے عہد میں زندگی کر رہے ہیں۔ تمھارے لیے ضروری ہے کہ تمھارے دو چہرے ہوں۔ ایک کا رخ عوام الناس کی طرف کرو، دوسرے کو اپنے اور اپنے خالق کے لیے رکھو۔ اگر تم اپنی آنکھوں، کانوں اورزبان کی سلامتی چاہتے ہو تو بھول جاؤ کہ تم ان کے مالک ہو۔‘‘
قاضی اچانک خاموش ہوگیا، لیکن اس لیے نہیں کہ عمر کو بولنے دے، بلکہ اپنی تنبیہ کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے۔ عمر نے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور منتظر رہا کہ دیکھیں قاضی اور کیا کیا خیالات اپنے سر سے برآمد کرتا ہے۔
اس کے بر خلاف ابو طاہر نے ایک گہری سانس لی اور اپنے آدمیوں کو بڑی کراری آواز میں رخصت ہونے کا حکم دیا۔ جوں ہی انھوں نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا، وہ دیوان کے کونے کی طرف آیا، مشجّر کپڑے (ٹیپسٹری) کا ایک حصہ اوپر اٹھایا اور دمشقی نقاشی کا ایک ڈبا کھولا۔ اس نے ایک کتاب نکال کر عمر کو ایسے رسمی تپاک سے پیش کی جسے پدرانہ تبسم نے گداز کردیا تھا۔
تو یہ کتاب بالکل وہی تھی جسے میں، بنجامن او۔ لیسیج، ایک دن خود اپنے ہاتھوں میں لینے والا تھا۔ میرا خیال ہے اپنے ناہموارودبیز چرم سمیت— جس کے نقوش کسی طاؤس کی دم جیسے لگ رہے تھے —اور اپنے اوراق کے ساتھ —جن کے کنارے ناہموار اور خستہ تھے —اس کا لمس بالکل ویسا ہی رہا ہوگا۔ جب خیام نے گرما کی اُس ناقابلِ فراموش شب کو اسے کھولا ہوگاتو اسے صرف دو سو چھپن کورے صفحے ہی نظر آئے ہوں گے جو ابھی اشعار، تصاویر، حاشیاتی تفاسیر یا طلا کاری سے پُر نہیں ہوئے تھے۔
اپنے جذبات کو مخفی رکھنے کی خاطر ابوطاہر کسی فروش کار کے لہجے میں بولا۔
’’چینی کاغذ کی ہے، نفیس ترین کاغذ جو سمرقند کی کارگاہوں میں کبھی تیار ہوا ہو۔ ماترید علاقے کے ایک یہودی نے اس اسے ایک قدیم نسخے کے مطابق فرمائشی بنایا ہے۔ یہ کل کا کل توت سے بنا ہے۔ ذرا چھو کر تو دیکھو۔ اس میں وہی صفات ہیں جو ریشم میں ہوتی ہیں۔‘‘
کلام جاری رکھنے سے پہلے اس نے کھانس کر گلا صاف کیا۔
’’میرا ایک بھائی ہوا کرتا تھا، مجھے سے دس سال بڑا۔ جب وہ تمھاری سی عمر کا تھا، اس کی وفات ہوگئی۔ اسے ایک نظم کہنے پر ،جس سے حکمرانِ وقت ناراض ہوگیا تھا، بلخ جلاوطن کردیا گیا تھا۔ اس پر بد عقیدگی بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ بات درست تھی یا نہیں، یہ مجھے نہیں معلوم، لیکن میں ضرور آزردہ ہوں کہ اس نے محض ایک نظم کے پیچھے اپنی جان گنوادی، ایک بد بخت نظم جو بہ مشکل ایک دوبیتی جتنی دراز ہوگی۔‘‘
اس کی آواز لرزنے لگی، اور وہ بے دم بولے گیا۔
’’اس کتاب کو اپنے پاس رکھو۔ جب کبھی کوئی شعر تمھارے دماغ میں متشکل ہونے لگے، یا تمھاری نوکِ زبان تک آجائے، اسے روکے رکھو۔ ان اوراق پر اسے نقل کرلو، اور جب نقل کر رہے ہو، ابو طاہر کو یاد کرلینا۔‘‘
کیا قاضی کو معلوم تھا کہ اس اشارے اور ان الفاظ کے ساتھ وہ تاریخِ ادب میں ایک سب سے زیادہ مخفی راز کو جنم دے رہا ہے، کہ عمر خیام کی پرشکوہ شاعری کو دریافت کرنے کے لیے عالم کو پوری آٹھ صدیاں انتظار کرنا ہوگا، کہ ’’رباعیات‘‘ کی دنیا کے سب سے زیادہ طبعزاد کارناموں میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے تکریم ہوگی، اس سے بھی پہلے کہ سمرقندی مخطوطے کی عجیب قسمت کا حال دریافت ہو؟
باب ٣

اس رات عمر نے ایک منظرے میں، جو ابو طاہر کے بڑے کشادہ باغ کے وسط میں ٹیلے پر تعمیر کیا گیاایک چوبی مقصورہ تھا، کچھ سو لینے کی بے سود کوشش کی۔ اس کے قریب ہی ایک پستہ سی میز پر پَر کا قلم اور دوات پڑی تھی، ایک چراغ جسے ابھی روشن نہیں کیا گیا تھا، اور اس کی کتاب—پہلے صفحے پر کھلی ہوئی جو ابھی تک کورا تھا۔
صبحِ کاذب کے دھندلکے میں ایک سایہ سا تیر گیا۔ ایک خوب صورت کنیز رکابی میں خربوزے کی قاشیں اس کے لیے لائی، لباس کا ایک نیا جوڑا اور اس کی دستار کے لیے زَندان کے ریشم کا گھماؤ پارچہ۔ اس نے سرگوشی میں ایک پیغام دیا۔
’’آقا نمازِ فجر کے بعد آپ کا انتظار کریں گے۔‘‘
کمراپہلے ہی سے مدّعیوں،حاجت مندوں، درباریوں، رفقا اور بھانت بھانت کے ملاقاتیوں سے بھرا تھا۔ ان میں زخمی چہرہ بھی شامل تھاجو یقیناً سن گن لینے وہاں پہنچا تھا۔ عمرکے دروازے سے داخل ہوتے ہی قاضی کی آواز نے ہر کس کی نظر اور تبصرے کا رخ اس کی جانب موڑ دیا۔
’’امام عمر خیام کو خوش آمدید، جس کا حدیثِ نبوی کے علم میں کوئی ہم سر نہیں، ایک مرجع جس میں کسی کو کلام نہیں، ایک آواز جس کی کوئی تردید نہیں ہو سکتی۔‘‘
حاضرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہوگئے، تکریم سے جھکے اور پھر بیٹھنے سے پہلے دبی زبان سے کوئی فقرہ ادا کیا۔ عمر نے اپنی آنکھ کے گوشے سے زخمی چہرہ کا جائزہ لیا جو اپنے کونے میں بھیگی بلّی بنا بیٹھا تھا، اس کے باوجود اس کا چہرہ خفیف سا شکن آلود بھی تھا۔
ابو طاہر نے بے حد رسمی انداز میں عمر کو اپنی دائیں طرف آبیٹھنے کی دعوت دی، اور اپنے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انھیں بڑے ظاہری طور پر وہاں سے رخصت کیا۔ اس کے بعد اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھا، ’’ہمارے بلند مرتبت مہمان کو کل شام ایک حادثہ پیش آیا۔ یہ آدمی جس کی خراسان، فارس اور مازندران میں عزّت ہوتی ہے، جس کی پذیرائی کا خواہش مند ہر شہر ہے اور جسے ہر امیر اپنے دربار سے وابستہ کرنے کا حریص ، تو اس آدمی پر کل سمرقند کی سڑکوں پر دست اندازی کی گئی۔‘‘
لوگوں نے اس پر دم بہ خود رہ جانے کا اظہار کیا، اس کے بعد افرا تفری سی مچ گئی جسے قاضی نے کسی قدر فزوں ہونے دیا اور پھر کہیں جاکر اسے تھمنے کا اشارہ کیا، اور کلام جاری رکھا۔
’’اس سے بد تر یہ کہ بازار میں تقریباً بَلوا ہوگیا۔ بَلوا اور وہ بھی ہمارے باعثِ تکریم حکمراں، نصر خان، شمس الملک، کی آمد سے ایک دن پہلے، جو انشاء اﷲ! ٹھیک آج صبح ہی بخارا سے آنے والا ہے۔ اگر ہجوم بر قابو پاکر اسے منتشر نہ کردیا گیا ہوتا تو میں تصوّر بھی نہیں کر سکتا کہ آج ہم کس مصیبت سے دوچار ہوتے۔ میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ کوئی سر اپنے کندھوں پر مطمئن نہ ہوتا!‘‘
اس نے سانس لینے کے لیے توقّف کیا، اور اس لیے بھی کہ بات لوگوں کے دلوں میں اتر جائے، خوف حاضرین کے دلوں میں اپنا کام کر سکے۔
’’خوش قسمتی سے میرے ایک پرانے تلمیذ نے، جو اس وقت یہاں موجود ہے، عالی مرتبت مہمان کو پہچان لیا اور مجھے آ کر خبر کر دی۔‘‘
اس نے زخمی چہرہ کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور اسے کھڑے ہونے کی دعوت دی۔
’’تم نے امام عمر کو کیسے پہچان لیا؟‘‘
اس نے چند لفظ جواب میں بڑبڑا دیے۔
’’ذرا زور سے بولو! یہ ہمارے عمر رسیدہ عمّ تمھاری بات سن نہیں پا رہے ہیں!‘‘ قاضی نے اپنی بائیں طرف ایک سفید ریش کہن سالہ فرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلا کر کہا۔
’’میں بلند مرتبت مہمان کو ان کی قادر الکلامی کے باعث پہچان گیا،‘‘ زخمی چہرہ بہ مشکل ہی یہ الفاظ منھ سے نکال سکا۔ ’’اور میں نے انھیں قاضی کے پاس لانے سے پہلے ان کی شناخت کی بابت پوچھا۔‘‘
’’خوب کیا۔ اگر فساد جاری رہتا تو خوں ریزی ہو سکتی تھی۔ تم اس کے حق دار ہو کہ یہاں آکر ہمارے مہمان کے برابر بیٹھو۔‘‘
جب زخمی چہرہ جھوٹ موٹ کی اطاعت گزاری کی ادا سے قریب آنے لگاتو ابو طاہر نے عمر کے کان میں کہا، ’’چاہے تمھارا دوست نہ بھی بنے، لیکن اب یہ تمھیں عوام الناس کے سامنے لتاڑے گا بھی نہیں۔‘‘
وہ بلند آواز میں بولے گیا، ’’کیا میں امید کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ان پر گزری ہے اس کے باوجود، خواجہ عمر سمرقند سے بری یاد لے کر نہیں جائیں گے؟‘‘
’’کل شام کا واقعہ میں پہلے ہی بھول بھال چکا ہوں،‘‘ خیام نے جواب دیا۔ ’’مستقبل میں مَیں جب بھی اس شہر کو یاد کروں گا تو ایک بالکل ہی مختلف تصویر ذہن میں آئے گی، ایک بے حد نفیس انسان کی تصویر۔ میں ابو طاہر کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔ اعلیٰ ترین ستائش جو کسی قاضی کو پیش کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اوصاف کی مدح آرائی نہ کی جائے بلکہ ان لوگوں کی دیانت داری کی جو اُس کی ذمّے داری ہیں۔ اسے اتّفاق کہہ لیجیے، جس دن میں یہاں وارد ہوا تو میرا خچّر بابِ کش کو جانے والی آخری چڑھائی سے جد و جہد کر رہا تھا، اور خود میں نے ابھی بہ مشکل ہی اپنے قدم زمین پر رکھے تھے کہ ایک آدمی نے مجھے مخاطب کیا۔
’’ ’اس شہر میں آنا مبارک ہو،‘ وہ بولا۔ ’کیا یہاں آپ کے کوئی خاندان والے یا دوست احباب ہیں؟‘
’’ اس ڈر سے کہ یہ کہیں کوئی چلتا پرزہ یا کم از کم کوئی بھکاری یا ناگوار آدمی نہ ہو، میں نے بغیر رکے ہوئے جواب دیا کہ نہیں، لیکن وہ آدمی بولے گیا:
’’ ’میرے اصرار پر شک و شبہ نہ کریں، مہمانِ شریف۔ یہ تو میرے آقا کا حکم ہے کہ یہاں ہر آنے والے کا انتظار کروں اور تمام آ نکلنے والے مسافروں کو مہمان نوازی پیش کروں۔‘
’’یہ آدمی واجبی حیثیت کا نظر آتا تھا، لیکن صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور عزّت داروں کے آداب سے ناواقف نہیں تھا۔ میں اس کے پیچھے ہولیا۔ کچھ دور کے بعد وہ مجھے ایک بھاری دروازے سے اندر لایا اور ایک مسقّف راہداری عبور کر کے میں کسی کارواں سرائے کے صحن میں آگیا جس کے وسط میں ایک کنواں تھا اور مرد و زن اِدھر اُدھر چہل پہل کر رہے تھے۔ کناروں پر، اوپر اور نیچے کی منزلوں میں مسافروں کے لیے کمرے تھے۔ آدمی نے کہا، ’جب تک جی چاہے یہاں قیام فرمائیں، چاہے ایک رات یا پورا موسم۔ آپ کو فراش، طعام اور اپنے خچّر کے لیے چارہ مہیّا ملے گا۔‘
’’جب میں نے پوچھا کہ میرے ذمّے کتنی رقم واجب الادا ہے تو یہ بات اسے ناگو ار گزری۔
’’ ’آپ میرے آقا کے مہمان ہیں۔‘
’’ ’اچھا تو بتاؤ کہ میرے فیّاض میزبان کہاں ہیں تاکہ ان کا شکریہ ادا کر سکوں۔‘
’’ ’میرے آقا کا سات سال پہلے انتقال ہوگیا ہے۔ وہ میرے پاس ایک رقم چھوڑ گئے ہیں تاکہ سمرقند کی ہر زیارت کرنے والے کی تعظیم و تکریم پر خرچ کروں۔‘
’’ ’تمھارے آقا کا کیا نام ہے؟ بتاؤ تاکہ دوسروں سے ان کی مہربانیوں کا ذکرتو کرسکوں۔‘
’’ ’آپ کو صرف قادرِ مطلق کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اسے خوب علم ہے کہ اس کے توسّط سے کس کی مہربانیاں پوری ہورہی ہیں۔‘
’’تو یوں میں کئی دن اس آدمی کے پاس رہا۔ میں باہر گھومتا گھامتا، لیکن جب بھی واپس آتا مجھے ایک سے بڑھ کر ایک لذیز کھانوں کے انبار لگے ملتے اور میرے خچّر کی نگہداشت اس سے بہتر ہورہی تھی جو میں کر سکتا تھا۔‘‘
عمر نے کسی ردِ عمل کی امید میں اپنے حاضرین پر نظر ڈالی لیکن اس کی کہانی سے نہ کسی آنکھ میں تعجب ابھرا نہ ہی کسی اسرار نے راہ پائی۔ قاضی نے عمر کی الجھن دیکھ کر وضاحت کی۔
’’بہتیرے شہر یہی سوچنا پسند کرتے ہیں کہ تمام عالمِ اسلام میں وہی سب سے زیادہ مہمان نواز ہیں، لیکن صرف اہالینِ سمرقند ہی اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہاں کسی مسافر کو اپنے قیام یا طعام کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑی ہے۔ مجھے جانے کتنے ایسے خانوادوں کا علم ہے جو یہاں آنے والوں یا حاجت مندوں کی مہمان نوازی میں اپنا سب کچھ لٹا کر برباد ہوگئے ہیں، لیکن تم کبھی بھی انھیں اس کی شیخی مارتے ہوئے نہیں سنو گے۔کاشی، تانبے اور چینی مٹّی کے بنے ہوئے جو فوارے تم ہر سڑک کے نکّڑ پر دیکھتے ہو، شہر میں جن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے، جن کا شیریں پانی ہر راہ گیر کی پیاس بجھانے کے لیے ہے، تو یہ سب کے سب سمرقند کے باشندوں ہی نے مہیّا کیے ہیں۔ لیکن کیا تمھیں کسی ایک آ دمی کے نام کا کتبہ بھی ان پر نظر آتا ہے جو اپنی حمد و ثنا کرانے کا خواہاں ہو؟‘‘
’’مجھے اعتراف ہے کہ ایسی فیّاضی مجھے کہیں نظر نہیں آئی ہے۔ کیا آپ مجھے ایک سوال پوچھنے کی اجازت دیں گے جو مجھے پریشان کر رہا ہے؟‘‘
قاضی نے لفظ اس کے منھ سے اچک لیے، ’’مجھے معلوم ہے تم کیا پوچھنا چاہتے ہو: یہی نا کہ وہ لوگ جو مہمان نوازی کے وصف کا اتنا مان کرتے ہیں انھوں نے تم جیسے مسافر کے ساتھ اتنے تردّد کا مظاہرہ کیسے کیا؟‘‘
’’یا جابرِ لاغر جیسے بے چارے بڈھے کے ساتھ؟‘‘
’’جو جواب میں تمھیں دینے والا ہوں اس کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جا سکتا ہے—خوف۔ ہمارے دین پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں: بحرین میں قرامطہ، قم کے امامی، بہتّر فرقے، قسطنطنیہ میں رومی، بھانت بھانت کے کفّار، اور سب سے بڑھ کر مصر کے اسماعیلی جن کے متّبعین کی بڑی بھاری تعداد ٹھیک بغداد کے قلب میں موجود ہے اور خود یہاں سمرقند میں بھی۔ یہ مت بھولو کہ ہمارے اسلامی شہر—مکہ، مدینہ، اصفہان، بغداد، دمشق، بخارا، مَرو، قاہرہ، سمرقند—تو ان کی حقیقت نخلستانوں سے زیادہ نہیں اور اگر ایک لمحے بھی ان سے غفلت برتی جائے تو واپس ریگستان میں بدل جائیں گے۔ یہ ہمیشہ ہی ریتیلی آندھیوں کے رحم و کرم پر رہے ہیں!‘‘
اپنی بائیں طرف کے جھروکے سے قاضی نے بڑی مہارت کے ساتھ گزرانِ آفتاب کا قیاس کیا اور کھڑا ہوگیا۔
’’حکمراں سے جا کر ملنے کا وقت ہوگیا ہے،‘‘ وہ بولا۔
اس نے ہاتھ سے تالی بجائی۔
’’ہمارے لیے کچھ زادِ راہ مہیّا کرو۔‘‘
یہ اس کی عادت تھی کہ راستے میں چبانے کے لیے اپنے ساتھ کِشمش رکھ لیتا تھا، ایک عادت جس کی نقّالی اس کے مقرّبین اور اس کے ملاقاتی دونوں ہی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو تانبے کی بڑی سی سینی اس کے پاس لائی گئی جس پر اس زردی مائل نعمت کا بڑا اونچا سا ڈھیر لگا تھا تاکہ ہر متنفس اس سے اپنی جیبیں اچھی طرح بھر لے۔
جب زخمی چہرہ کی باری آئی، تو اس نے چھوٹی سی مٹھی بھر کِشمشیں اٹھا کر خیام کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھائیں، ’’میرا خیال ہے تم چاہو گے کہ میں یہ تمھیں شراب کے عوض پیش کروں۔‘‘
گو اس نے یہ بات بلند آواز سے نہیں کہی تھی، لیکن جیسے کسی سحر کے نتیجے میں ہر متنفس بالکل بت بن گیا۔ ہر شخص دم بہ خود کھڑا عمر کے لبوں کو دیکھتا رہا۔
عمر نے جواباً کہا، ’’جب کوئی شراب پینا چاہتا ہے تو بڑی احتیاط سے اپنے ساقی اور ندیموں کا انتخاب کرتا ہے۔‘‘
زخمی چہرہ کی آواز کچھ بلند ہو گئی۔
’’جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں ایک قطرہ بھی چھونے والا نہیں۔ میں تو جنت الفردوس میں جگہ پانے کا آرزو مند ہوں۔ لگتا ہے تم وہاں میری رفاقت کے متمنّی نہیں۔‘‘
’’ایک پوری ابدیّت، اور وہ بھی ثقہ علما کی رفاقت میں؟ نہیں صاحب، شکریہ۔ خدا نے تو ہم سے کسی اور چیز کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
یہ تبادلہ وہیں رک گیا۔ عمر سرعت سے قاضی کی طرف چل دیا جو اسے بلا رہا تھا۔
’’یہ ضروری ہے کہ شہر والے تمھیں میرے برابر برابر سوار دیکھیں۔ اس سے ان کا کل شام کا تاثر زائل ہو جائے گا۔‘‘
رہائش گاہ کے گرد مجتمع ہجوم میں عمر کو یوں لگا جیسے اسے ایک ناشپاتی کے درخت کے سایے میں کوئی بادام فروش نظر آرہی ہو۔ اس نے رفتار سست کردی اور اس کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، لیکن ابو طاہر نے اسے چھیڑا۔
’’اور تیز چلو۔ اگر خان ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ گیا توتمھاری شامت آجائے گی ۔‘‘
باب ٤

’’وقت کی تخلیق سے نجومی اعلان کرتے آئے ہیں کہ چار شہر ہیں جو بغاوت کی علامت کے زیر سایہ وجود میں آئے ہیں۔ سمرقند، مکہ، دمشق اور پالیرمو، اور ان کا قول عین صداقت ہے! اگر یہ شہر کبھی حکومت کے آگے سِپر انداز ہوئے ہیںتو صرف اس کی طاقت کے باعث۔ یہ صراطِ مستقیم کی پیروی اسی وقت کرتے ہیں جب اسے تلوار کے ذریعے بچھایا گیا ہو۔ آنحضرتؐ نے مکے کے گھمنڈ کو تلوار سے ہی کم کیا تھا، اور تلوار ہی سے میں بھی اہالیانِ سمرقند کے گھمنڈ کو کم کروں گا!‘‘
نصر خان، والئ ماوراء النہر، ایک کانسی رنگ دیو جو کارچوبی کا لہراتا جبہ پہنے ہوئے تھا، اپنے تخت کے سامنے کھڑا لقمہ چبا رہا تھا۔ اس کی آواز گھروالوں اور ملاقاتیوں میں لرزہ پیدا کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں حاضرین میں کسی شکار کو ڈھونڈ نکالتیں، ایک ہونٹ جو کپکپانے کی جرأت کرسکے، ایک نگاہ جس میں مناسب پشیمانی کی کمی ہو، کسی غدّاری کی یاد۔ جبلّی طور پر ہر کس و ناکس اپنے برابر والے کی آڑ میں سرک جاتا، اپنی پشت، گردن اور کندھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیتا، اور طوفان کے گزر جانے کا انتظار کرتا۔
اپنے چنگل کے لیے کوئی شکار نہ پاکر ناصر خان نے ہاتھ بھر بھر کے اپنی تقریباتی قبائیں اٹھائیں اور انھیں طیش کے عالم میں ایک کے بعد ایک اپنے پیروں کے پاس پھینک کران کا انبار لگا دیا، اور کاشغر کی بلند آہنگ ملی جلی ترک اور منگول بولی میں ایک کے بعد ایک ہتک آمیز فقرے داغنے لگا۔ رواج کے مطابق حکمراں سہ تہی، چہار تہی اور بعض اوقات ہفت تہی کارچوبی کی عبائیں پہنتے، جنھیں دن میں بدن سے جدا کرتے اور جن کی عزّت افزأی مقصود ہوتی ان کی پشت پر بڑی تمکنت سے ڈال دیتے۔ لیکن اپنے موجودہ طرزِ عمل سے ناصر خان نے یہ واضح کردیا تھا کہ اُس دن اپنے کسی ملاقاتی کی آرزو کو تکمیل سے شاد کرنے کی اس کی کوئی نیّت نہیں۔
جیسا کہ ہر حکمراں کی سمرقند آمد پر ہوتا تھا، اسے بھی جشن اور خوش خرمّی کا دن ہونا چاہیے تھا، لیکن اولین لمحوں ہی میں مسرت کا ہر شائبہ جیسے بجھ کر رہ گیا تھا۔ دریائے سیاب سے اوپر کو جانے والی پکّی سڑک چڑھتے ہی خان شہر کے شمال میں بابِ بخارا سے متانت کے ساتھ داخل ہوا۔ وہ کھل کر مسکرایا، جس سے اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور بھی اندر کو دھنسی نظر آنے لگیں، اور ہمیشہ سے زیادہ ترچھی،جس کی وجہ سے اس کے رخساروں کی ہڈیاں آفتاب کے عنبریں انعکاس میں چمکنے لگیں۔ لیکن بھر یک بارگی اس کے ساری شگفتگی رخصت ہوگئی۔ وہ کوئی دو سو کے لگ بھگ امراکی طرف بڑھا جو قاضی ابو طاہر کے گِرد جمع تھے، اور اس گروہ پر جس کے درمیان عمر خیام بھی تھا ایک مضطرب اور تقریباً شک بھری نظر گاڑ دی۔ بہ ظاہر جن کا طلب گار تھا انھیں نہ پاکر، اس نے یک لخت اپنے گھوڑے کو الف کیا، لگام کو زور سے کھٹکا اور ناقابلِ سماعت طور پر کچھ غرّاتے ہوئے وہاں سے دور ہوجانے کے لیے حرکت کی ۔ اپنی کالی گھوڑی پر اکڑے ہوئے براجمان وہ اب اور نہیں مسکرا رہا تھا، اور نہ ادنیٰ سے اشارے سے ان ہزارہا شہریوں کے مکررنعرۂ تحسین کا جواب دے رہا تھا جو اس کی پذیرائی کے لیے جمع ہورہے تھے، اوربعض تو منھ اندھیرے سے۔ ان میں سے کچھ نے عرض داشتیں اٹھائی ہوئی تھیں، جنھیں عوامی منشیوں نے رقم کیا تھا۔ بے سودہی کیونکہ کسی کی بھی اپنی عرض داشت حکمران کوپیش کرنے کی جرات نہیں ہوئی، بلکہ یہ انھوں نے حاجب کے حوالے کیں جسے ان اوراق کو قبول کرنے کے لیے بار بارآگے کو جھکنا پڑا، اس مبہم وعدے کے ساتھ کہ ان پر عمل درآمد ہوگا۔
آگے آگے چار گھڑ سوار، جو دودمان کا کتھئی عَلم بلند کیے ہوئے تھے، پیچھے پیچھے ایک کمر تک ننگا پا پیادہ غلام جو ایک دیو ہیکل دھوپ چھتری اٹھائے ہوئے تھا، خان نے بغیر کہیں توقف کیے کشادہ شاہراہیں طے کیں جن کے دورویہ توت کے بَل کھاتے ہوئے درختوں کی قطار لگی تھی۔ اس نے بازاروں سے اجتناب کیا اور آبپاشی کی بڑی نہروں کے سہارے سہارے چلا جنھیں اریق کہا جاتا ہے، تا آنکہ اسفیزار کے علاقے میں پہنچ گیا۔ یہاں اس نے ایک عارضی محل بنا رکھا تھا، جو ابو طاہر کی اقامت گاہ سے بالکل متّصل تھا، لیکن چونکہ حالیہ جنگوں نے اسے بہت زیادہ شکستہ کردیا تھا، اسے ترک کرنا پڑا تھا۔ اب یہاںصرف ترکی محافظ فوج وقتاً فوقتاً اپنے خیمے نصب کرتی تھی۔ [اصلی لفظ ’’یرٹ‘‘ (yurt) ہے، جو کھال یا نمدے سے بنا ہوتا ہے؛ اسے وسط ایشیا کے خانہ بدوش قبائل استعمال کرتے ہیں۔]
حکمراں کے مزاج کو بگڑا ہوا دیکھ کر عمر کو محل جاکر اپنی تہنیت پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی، لیکن قاضی نے اصرار کیا کہ ضرور جائے، یقیناً اس امید میں کہ اتنے بلند مرتبت رفیق کی موجودگی ایک خوش گوار مشغولیت فراہم کردے گی۔ راستے میں ابو طاہر نے جو ابھی ابھی پیش آیا تھا اس سے خیام کو تفصیلاً آگاہ کرنے کی ذمّے داری اپنے سر لی۔ شہر کے ممتاز دینی اشخاص نے استقبالیے کے مقاطعے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے کہ خان نے بخارا کی جامع مسجد کو جلا دیا تھا جہاں مسلّح مخالفین نے مورچہ قائم کر کے پناہ لی تھی۔ ’’حکمراں اور مذہبی محکمے کے درمیان،‘‘ قاضی نے وضاحتاً بتایا، ’’ہمیشہ کی طرح شدید جنگ جاری ہے۔ بعض اوقات یہ کھلم کھلا اور خونین ہوتی ہے، لیکن زیادہ تر خفیہ اور اندر اندر۔‘‘
یہ افواہ بھی سننے میں آئی تھی کہ علما نے متعدد افسروں سے رابطہ قائم کیا تھا جو امیرکے طرزِ عمل سے سخت تنگ آئے ہوئے تھے۔کہا جاتا تھاکہ اس کے اجداد سپاہ کے ساتھ طعام تناول فرماتے تھے اور کوئی موقع یہ اعتراف کیے بغیر جانے نہیں دیتے تھے کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ ان کی عوام کے جنگجو ہیں۔ لیکن ایک نسل سے دوسری تک ترکی خانوں نے ایرانی شہنشاہوں کی قابلِ مذمّت عادات اختیار کر لی تھیں۔ وہ خود کو نیم دیوتا گرداننے لگے تھے، اور اپنے گرد ایسی پیچیدہ پرتکلف تقریباتی رسومات کھڑی کر لی تھیں جو ان کے افسران کے لیے ناقابلِ فہم ہی نہیں بلکہ ہتک آمیز بھی تھیں۔ چنانچہ موخر الذکر میں سے بہت سوں نے مذہبی سربراہوں سے رجوع کیا تھا۔ یہ لوگ مذہبی سربراہ افسروں کی زبانی نصر کی ہجو سن کر اور یہ کہ اس نے اسلامی طور و طریق تج دیے ہیں حظ اٹھاتے۔ فوج کے دل میں خوف ڈالنے کے لیے حکمراں علاء کے خلاف سختی سے پیش آیا۔ کیا اس کے باپ نے، جو بنا بریں ایک متّقی تھا، اپنے دورِ سلطنت کا آغاز ایک دستار پوش کا سر قلم کر کے نہیں کیا تھا؟
۲۷۰۱ کے اس سال میں ابو طاہر ان معدودِ چند مذہبی اکابر میں سے تھا جس نے کسی نہ کسی طرح امیر سے قریبی روابط قائم کیے ہوئے تھے۔ وہ اکثر اس سے ملاقات کرنے بخارا کے قلعے میں جاتا، جو اس کی صدر رہائش گاہ تھی، اور جب بھی وہ سمرقندآتا تو اس کی بڑے پروقار انداز میں پذیرائی کرتا۔ بعض علما ابو طاہر کے مصالحانہ رویّے کو محتاط نظر سے دیکھتے لیکن بیشتر اس ثالث کی موجودگی کو مبارک بھی سمجھتے۔
قاضی کواپنی ثالثی کا کردار ادا کرنے کا موقع دوبارہ بڑی آسانی سے مل گیا۔ اس نے نصر کی تردید کرنے سے احتراز کیا، اس کے مزاج میں بہتری کی ادنیٰ جھلک کی تاک میں رہا تاکہ اس کی پژمردہ ہمّت کو حوصلہ دے۔ وہ منتظر رہا تاآنکہ وہ صبر آز ما لمحے بیت گئے، اور جب حکمراں اپنے تخت پر لوٹا اور ابو طاہر نے دیکھا کہ وہ ایک نرم گاؤ تکیے سے خوب ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ہے، تو اس نے ایک بے حد لطیف اور غیر محسوس بازیافت کے ساتھ قابو اپنے ہاتھ میں لے لیا جسے عمر نے اطمینان کے ساتھ دیکھا۔ قاضی کا اشارہ پاکر حاجب ایک نوخیز کنیز کو بلا لایا کہ وہ ان عباؤں کو اٹھالے جو کسی جنگ کے بعد لاشوں کی طرح زمین پر چھوڑ دی گئی تھیں۔ فوراً ہی فضا کی گھٹن قدرے کم ہو گئی، لوگوں نے سنبھل سنبھل کر اپنے بازو سیدھے کیے اور بعضوں نے تو اپنے سے قریبی کان میں کچھ کھسر پھسر بھی۔
پھر قاضی نے کمرے کے وسط میں جو جگہ تھی اس کی طرف قدم بڑھائے، شاہ کے سامنے نشست سنبھالی، سر جھکالیا، اور کچھ کہا نہیں۔ یہ داؤں اتنی مہارت سے لگایا گیا تھا کہ ایک طویل خاموشی کے بعد، جب نصر نے بالآخر اعلان کیا، ’’جاؤ جاکر شہر کے سارے علماسے کہو کہ کل فجر کے وقت آکر میرے قدموں میں سر جھکائیں۔ جو سر نہیں جھکے گا قلم کردیا جائے گا،سو کوئی بھی فرار ہونے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ کوئی زمین بھی اسے میرے قہر سے امان نہیں دے سکتی،‘‘ تو ہر فرد و بشر سمجھ گیا کہ طوفان فرو ہوچکا ہے اور تصفیے کی امید کی جاسکتی ہے۔ علمائے دین کو بس تلافی کرنے کی حاجت ہے اور شاہ شدید اقدامات کرنے سے باز رہے گا۔
اگلے دن جب عمر پھر قاضی کے ہم راہ دربار گیا تو فضا مشکل سے پہچاننے میں آتی تھی۔ نصر اپنے تخت پر براجمان تھا، جو ایک طرح کا اونچا سا چبوترہ تھا جس پر کسی گہرے رنگ کے قالین کا غلاف پڑا تھا۔ اس کے برابر ایک غلام گلاب کی قندیائی ہوئی پنکھڑیوں کی سینی اٹھائے کھڑا تھا۔ حکمراں ایک پنکھڑی اٹھاتا، اپنی زبان پر رکھتا، اور تالو کے نیچے اسے تحلیل ہونے دیتا، قبل اس کے کہ لاپروائی سے ہاتھ ایک دوسرے غلام کی طرف بڑھا دے جو اس کی انگلیوں پر معطّر پانی چھڑکتا اور توجہ سے انھیں پونچھاتا۔ یہ گردان کوئی بیس تیس بار دہرائی گئی، دریں اثنا وفود ایک کے بعد ایک گزرتے رہے۔ یہ شہر کے علاقوں کے نمائندے تھے، خاص طور پر اسفیزار، پنج خین، زگریماچ، ماترید، بازاروں کی انجمنوں، نحّاسوں، کاغذ سازوں، ریشم کے کیڑے کی افزائش کرنے والوں اور سقّوں کی تجارتی اصناف کے، اور ان کے علاوہ ذمّی جماعتوں کے بھی: یہودی، پارسی اور نسطوری عیسائی۔
یہ پہلے فرش کو بوسہ دیتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے اور ایک بار اور تعظیماً جھکتے اور جھکے رہتے تاآنکہ شاہ انھیں اٹھنے کا اشارہ کرتا۔ ان کا سربراہ چند فقرے ادا کرتا اور وہ الٹے قدم لوٹ جاتے، چونکہ کمرے سے رخصت ہوتے وقت حکمراں کی طرف پیٹھ کرنا ممنوع تھا۔ ایک عجیب و غریب رسم۔ کیا یہ کسی ایسے شاہ نے رائج کی تھی جو عزّت کروانے کا کچھ زیادہ ہی رسیا تھا، یا کسی خاص طور پر شکّی ملاقاتی نے ؟
اب دینی معزّزین آئے، جن کا تجسّس سے انتظار کیا جارہا تھا تاہم خوف و ہراس کے ساتھ بھی۔ یہ تعداد میں بیس سے زائد تھے۔ ابو طاہر کو انھیں آنے پر قائل کر لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے جذبات کا وافی و شافی اظہار پہلے ہی کر چکے تھے، اس راہ پر مزید گامزن رہنا اپنی شہادت کو دعوت دینے کے مترداف تھا، جس کی کسی کو خواہش نہیں تھی۔
اب انھوں نے بھی خود کو تخت کے سامنے پیش کیا، ہر ایک اتنا نیچا جھکتا جتنا اس کی عمر اور جوڑاجازت دیتے،منتظر کہ امیر اٹھنے کا اشارہ کرے۔ لیکن اشارہ ہوکر نہ دیا۔ دس منٹ گزر گئے اور ان میں سے سب سے کم عمر بھی اس غیر آرام دہ حالت میں غیر معیّنہ مدّت تک نہیں رہ سکتا تھا۔ پس چہ باید کرد؟ اگر بلا اجازت اٹھتے ہیں تو شاہ کی ملامت کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک وہ اپنے گھٹنوں کے بَل ٹِک گئے، ایک ایسی حالت جو اتنی ہی پر تعظیم تھی لیکن قدرے کم مضمحل کردینے والی۔ جب تک آخری چپنی بھی زمین سے نہ لگ گئی حکمراں نے اٹھنے اور فوری وہاں سے روانہ ہو جانے کا اشارہ نہ کیا۔ جو پیش آرہا تھا اس پر کسی کو بھی تعجّب نہیں ہوا۔ سو شاہی عملداری کے معاملات یہ تھے۔
اس کے بعد ترکی افسراور معزّزین کی جماعتیں آگے بڑھے، اور کچھ دہقان بھی جو قریبی دیہاتوں کے سربراہ تھے۔ ہر ایک نے اپنے مرتبے کے مطابق حکمراں کی قدمبوسی کی یا شانہ چوما۔ پھر ایک شاعر آگے آیا اور شاہ کی عظمت پر بڑا ٹھسّے دار قصیدہ پڑھا جسے سن کر وہ ظاہرا بہت جلد ہی بے زار نظر آنے لگا۔ اس نے اشارے سے شاعر کی مدح سرائی قطع کی اور حاجب کو اشارہ کیا کہ جھک کر جو حکم اسے تفویض کیا گیا تھا سنائے۔ ’’ہمارے آقا کی یہ خواہش ہے کو وہ ان شعراکو جو یہاں مجتمع ہیں بتائیں کہ وہ ایک ہی موضوعات کی تکرار سنتے سنتے تھک گئے وہ نہ خودکو شیر سے تشبیہہ دلانا چاہتے ہیںنہ عقاب سے، اور اس سے بھی کم آفتاب سے۔ وہ جو اس کے ماسوا کہنے سے عاجز ہیں، براہ کرم تشریف لے جائیں۔‘‘
باب ٥

حاجب کے کلام کے بعد کوئی بیس سے زائد شعرا کی دبی دبی سی آوازیں، کڑ کڑاہٹ اور پھر عام شور وغل اٹھا جو اپنی اپنی باری کاانتظار کررہے تھے۔ بعضے تو دو الٹے قدم اٹھا کر خاموشی سے کھسک گئے۔ قطار سے صرف ایک عورت ہی نکلی اور بڑی مستحکم چال سے آگے بڑھی۔ عمر کی آنکھوں میں تجسّس کو تیرتے دیکھ کر، قاضی نے سرگوشی کی، ’’بخارا کی ایک شاعرہ ہے۔ اپنے کو ’جہان‘ کہلواتی ہے، یعنی کہ عالمِ کل۔ یہ ایک متلوّن مزاج نو عمر بیوہ ہے۔‘‘
اس کے لہجے میں ملامت کا رنگ تھا، لیکن اس نے عمر کی دلچسپی کو اور بھی ہوا دی اور وہ اس سے اپنے نگاہیں نہ پھیر سکا۔ اس وقت تک جہان نے اپنی نقاب کا زیریں حصہ اوپر اٹھادیا تھا اور اس کے آرائش سے معریٰ ہونٹ نظر آنے لگے تھے۔ اس نے ایک پُر لطف نظم پڑھ کر سنائی جس میں، عجیب بات ہے، خان کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں آیا تھا۔ ستائش تو دریا سوگدہ کی کی گئی تھی جو اپنی فیّاضی سمرقند پر نثار کرتا ہے، پھر بخارا پر، قبل اس کے کہ خود کو ریگ زار میں گم کردے، کیونکہ کوئی سمندر بھی اس کے پانیوں کی پذیرائی کے قابل نہیں۔
’’بہت خوب کہا ! واجب ہے کہ تمھارا منھ سونے سے بھر دیا جائے،‘‘ نصر نے اپنا رواجی فقرہ دہراتے ہوئے کہا ۔
شاعرہ طلائی دیناروں سے بھرے ایک بڑے سے طشت پر جھک گئی اور ایک ایک کر کے سکّے اپنے منھ میںبھرنے لگی جب کہ حاضرین بہ آوازِ بلند گنتے گئے۔ جب جہان نے ہچکی لی اور تقریباً گلا گھٹنے کو ہوا، تو شاہ سمیت پورا دربار قہقہہ زن ہوگیا۔ حاجب نے شاعرہ کو اپنی جگہ پر لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ انھوں نے چھیالیس دینار گنے تھے۔
صرف خیام ہی نہیں ہنسا۔ نگاہیں جہان پر ثبت کیے وہ اس کے بارے میں اپنے جذبات کو بھانپنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کا شعر اس قدر خالص تھا، اس کی قادر الکلامی اس قدر باوقار، اس کی چال اس قدر دلیرانہ، لیکن وہ اپنے منھ میں دھات کے پیلے پیلے سکّے ٹھونسے جارہی تھی اور خود کو اس قدر ہتک آمیز انعام کا نشانہ بننے دے رہی تھی۔ نقاب دوبارہ واپس ڈالنے سے پہلے اس نے اسے ایک ذرا سا اوپر اٹھایا اور ایک نگاہ ڈالی جو عمر کی توجہ میں آئی۔اس نے اسے تنفس کے ساتھ اپنے میں اتر جانے دیا اور اسے وہیں روکے رکھنے کی کوشش کی۔ یہ ایک اتنا زود گزر لمحہ تھا کہ ہجوم کی نظر میںتو کیا آتالیکن کسی عاشق کے لیے ابدیّت سے کم نہیںتھا۔ وقت کے دو چہرے ہوتے ہیں، خیام نے اپنے سے کہا۔ اس کی دو ابعاد ہیں، اس کی طوالت کو حرکتِ آفتاب سے ناپا جاسکتا ہے لیکن اس کی گہرائی کو صرف جذبے کے ہیجانی آہنگ ہی سے۔
ان کے درمیان رفعت کا یہ لمحہ قاضی کی مداخلت سے ٹوٹ گیا جوخیام کا شانہ تَھپ تَھپا کر اسے واپس ہوش و حواس میں لا رہا تھا۔ لیکن اب کیا ہوتاہے، عورت جا چکی تھی۔ صرف حجاب ہی باقی رہ گئے تھے۔
ابو طاہر اپنے دوست کو خان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بندھے ٹکے الفاظ میں کہا، ’’آپ کی سقفِ عالی آج خراسان کی عظیم ترین خرد پر سایہ فگن ہے، عمر خیام، جس سے نباتات کا کوئی راز مخفی نہیں، نہ نجوم کا کوئی اسرار۔‘‘
یہ کوئی خوش گوار اتّفاق نہیں تھا کہ قاضی نے ان تمام علوم میں سے جن میں عمر کو فضل و تبحّر حاصل تھا صرف طب اور نجوم ہی کا ذکر کیا، کیونکہ بس یہی دو علم ایسے تھے جن کے امرا شیفتہ و گرویدہ تھے؛ اوّل الذکر تو اس لیے کہ یہ ان کی صحت و زندگی کی بقا کے لیے ضروری تھا، اور موخر الذکر ان کی دھن دولت کی بقا کے لیے۔
امیر کے مزاج میں شگفتگی آگئی اوربولا کہ یہ بات اس کے لیے باعثِ عزّت ہے۔ اس کے باوجود، سردست کسی ذہنی بحث و تمحیص میں پڑنے کے لیے طبیعت کو مائل نہ پاکر یا ملاقاتی کے مقاصد کی بابت غلط قیاس آرائی کے باعث اس نے وہی گھسا پٹا فقرہ دہرانا پسند کیا، ’’اس کا منھ زر سے بھر دیا جائے!‘‘
عمر ہکّا بکّا رہ گیا اور بہ مشکل ابکائی کو دبا پایا۔ یہ بات ابو طاہر کی توجہ میں آگئی اور پریشان ہوگیا۔
اس خوف سے کہ کہیں انکار حکمراں کو ناگوار خاطر نہ محسوس ہو، اس نے اپنے رفیق پر بڑی تاکیدی اور گمبھیر نظر ڈالی اور شانے سے آگے کی طرف بے سود دھکیلا۔ خیام پہلے ہی اپنا فیصلہ کرچکا تھا۔
’’براہِ مہربانی، کیا میرے آقا مجھے معاف رکھیں گے۔ میں روزے سے ہوں اور اپنے منھ میں کچھ ڈالنے سے عاجز۔‘‘
’’لیکن روزوں کا مہینہ، اگر مجھ سے غلطی نہیں ہورہی، تو تین ہفتے پہلے ہی ختم ہوچکا ہے!‘‘
’’رمضان کے دنوں میں میں نیشاپور سے سمرقند کا سفر کر رہا تھا۔ میں نے اس عہد کے ساتھ اس وقت روزے نہیں رکھے کہ بعد میں یہ فرض پورا کرلوں گا۔‘‘
قاضی دہشت زدہ رہ گیا اور سارے مجتمعین کسمسانے لگے، لیکن حکمراں کا چہرہ بالکل سپاٹ رہا۔ اس نے ابو طاہر سے سوال کرنا پسند کیا۔
’’کیا تم جسے مذہب کی تمام تفصیلات کا علم ہے بتا سکتے ہو کہ اگر طلائی سکّے اس کے منھ میں ڈال کر فوراً ہی نکال لیے جائیں تو کیا اس سے خواجہ عمر کا روزہ ٹوٹ جائے گا؟‘‘
قاضی نے غایت درجے کے غیر جانب دارانہ لہجے میں کہا، ’’صحیح معنی میں، ہر چیز جو منھ میں جائے روزہ توڑ سکتی ہے۔ ایسا ہوا ہے کہ سکّہ اتفاقاً حلق سے نیچے اتر گیا تھا۔‘‘
نصر نے دلیل قبول کر لی، لیکن اس سے اس کی تشفّی بہرحال نہیں ہوئی۔ اس نے عمر سے مزیداستفسار کیا:
’’کیا تم نے مجھے اپنے انکار کی اصل وجہ بتائی ہے؟‘‘
خیام لمحے بھر تذبذب کرتا رہا پھر بولا:
’’صرف یہی وجہ نہیں ہے۔‘‘
’’صاف صاف کہو،‘‘ خان نے کہا۔ ’’مجھ سے خوف زدہ ہونے کی حاجت نہیں۔‘‘
پھر عمر نے یہ شعر سنائے:
یہ غربت نہیں جو مجھے آپ کے در پہ لائی ہے
میں مفلس نہیں کہ میری خواہشیں سادہ سی ہیں
آپ سے صرف عزّت کا خواہاں ہوں
ایک آزاد اور مستقل مزاج انسان کی عزّت کا
’’خیام، خدا تیرے دن تاریک کرے!‘‘ ابو طاہر نے بڑبڑا کر کہا، جیسے خود اپنے سے۔
اسے معلوم نہیں تھا کہ سوچے تو کیاسوچے، لیکن اس کا خوف بالکل واضح تھا۔ ایک حالیہ طیش کی گونج ہنوز اس کے کانوں میں جھنجھنا رہی تھی، اور اسے یقین نہیں تھا کہ وہ وحشی کو دوبارہ قابو میں رکھ سکے گا۔ خان خاموش و بے حرکت رہا، جیسے کسی بے تھاہ سوچ میں منجمد ہوگیا ہو۔ خان کے مقربّین اس کے پہلے لفظ کے منتظر تھے جیسے یہ کوئی حتمی فیصلہ ہوگا، اور بعض نے تو طوفان کی آمد سے قبل ہی وہاں سے رخصت ہو جانے میں عافیت سمجھی۔
عمر نے اس عام افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہان کی آنکھوں کو تلاش کیا۔ وہ ایک ستون سے اپنی پشت ٹِکائے کھڑی تھی اس طرح کہ چہرہ ہاتھوں میں دفن تھا۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی خاطر لرزہ براند ام ہو؟
بالآخر خان بلند ہوا، ثابت قدمی سے عمر کی طرف آیا، اس سے بڑا جاندار معانقہ کیا، ہاتھ تھاما اور اس لے کر وہاں سے چل دیا۔
’’حاکم ماوراء النہر کے دل میں،‘‘ وقائع نگاروں نے اپنی روداد میں رقم کیا، ’’عمر خیام کی عزّت اتنی بڑھ گئی کہ اسے تخت پر اپنے پاس آکر بیٹھنے کی دعوت دی۔‘‘
’’تو اب تم خان کے دوست ہو،‘‘ جب وہ محل سے نکلے تو ابو طاہر نے خیام سے کہا۔
اس کی خوش مزاجی اتنی ہی شدید تھی جتنا وہ ذہنی عذاب جس نے اس کا حلق جکڑ دیا تھا، لیکن خیام نے سرد لہجے میں جواب دیا: ’’کیا ہو سکتا ہے کہ آپ وہ ضرب المثل بھول رہے ہوں جس کے مطابق، ’سمندر کسی پڑوسی کو نہیں پہچانتا، اور امیر کسی دوست کو‘؟‘‘
’’کھلے دروازے کی تحقیر نہ کرو۔ مجھے تمھیں دربار میں ملازمت ملنے کے آثار نظر آرہے ہیں!‘‘
’’درباری زندگی میرے لیے نہیں بنی؛ میری صرف اتنی ہی آرزو ہے کہ کبھی میری ایک رصد گاہ ہو اور ایک گلاب کا باغ اور میں خود کو آسمان کے مشاہدے میں غرق کرسکوں ، مینا ہاتھ میںہو اور پہلو میں ایک حسین عورت۔‘‘
’’اتنی ہی حسین جتنی وہ شاعرہ تھی؟‘‘ ابو طاہر نے زیر لب ہنستے ہوئے کہا۔
عمر سواے اس عورت کے کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے سے قاصر تھا، پھر بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسے ڈر تھا کہ لاپروائی میںمنھ سے نکلا ادنیٰ سا لفظ اس کی چغلی کھا دے گا۔خود کو کسی قدر بشّاش محسوس کر کے قاضی نے نہ صرف اپنا لہجہ بلکہ موضوع بھی بدل دیا:
’’تم سے ایک عنایت کی درخواست کرنا چاہتا ہوں!‘‘
’’یہ تو آپ ہیں جنھوں نے مجھے اپنی عنایات سے مالا مال کردیا ہے۔‘‘
’’ابو طاہر نے بلا حیل و حجت یہ مان لیا۔ ’’اچھا تو یوں سمجھو کہ میں اس کے بدلے میںکچھ چاہتا ہوں۔‘‘
اب وہ اس کی رہائش گاہ کے پھاٹک پر پہنچ گئے تھے۔ اس نے طرح طرح کے کھانوں سے بھری میز کے گِرد خیام کودونوں کی گفتگو جاری رکھنے کی دعوت دی۔
’’میں نے تمھارے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے۔ کیوں نہ فی الوقت تمھاری’ رباعیات‘ سے صرفِ نظر کریں۔ جہاں تک میرا تعلّق ہے، میں تو انھیں عبقریت کی ناگزیر للک سمجھتا ہوں۔ وہ میدان جن میں تمھیں واقعی فضیلت حاصل ہے طب، علمِ نجوم، ریاضی اور ہندسہ، طبیعیات اور مابعد الطبیعیات ہیں۔ میں یہ کہنے میں غلط تو نہیں کہ ابن سینا کی وفات کے بعد کوئی اور انھیں تم سے بہتر نہیں جانتا؟‘‘
خیام خاموش رہا۔ ابو طاہر نے اپنی بات جاری رکھی:
’’میں چاہتا ہوں کہ تم ان علوم پر ایک قاطع تصنیف رقم کرو اوراسے میرے نام معنون کرو۔‘‘
’’میرے خیال میں تو ان علوم پر کوئی قاطع کتاب نہیں لکھی جاسکتی، اور یہی وجہ ہے کہ میں صرف پڑھنے اور حصول علم پر ہی اکتفا کرتا ہوں، خود کچھ لکھے بغیر۔‘‘
’’یعنی!‘‘
’’چلیے قدما کا تصوّر کریں—یونانیوں کا، اہلِ ہند اور مسلمانوں کا جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ان علوم پر بہ کثرت لکھا ہے۔ اگر میں وہی دہرا دیتا ہوں جو وہ پہلے لکھ چکے ہیں، تو میرا کام فالتو ہوگا؛ اگر میں ان کی تردید کرتا ہوں، جس کی مجھے رہ رہ کر ترغیب محسوس ہوتی ہے، تو دوسرے میرے بعد آکر خود میری تردید کر دیں گے۔ دانشوروں کی نگارشات میں کا آئندہ کل کیا باقی رہ جائے گا؟ صرف وہ عیب جوئی جو انھوں نے اپنے سے پہلے والوں کے بارے میں کی تھی۔ لوگوں کو صرف یہی یاد رہے گا کہ انھوں نے دوسروں کے کون سے نظریات منہدم کیے ہیں، لیکن وہ نظریات جو خود انھوں نے وضع کیے ہیں، آنے والے انھیں منہدم تو خیر کریں گے ہی، ان کا تمسخر بھی اڑائیں گے۔ علم کا قانون یہی ہے۔ لیکن شاعری کا ایسا کوئی قانون نہیں۔ یہ جو پہلے کہا جا چکا ہے اسے ہرگز مسترد نہیں کرتی اور جو اس کے بعد آنے والا ہے اس سے کبھی جھوٹی نہیں پڑتی۔ صدیوں صدیوں شاعری مکمل سکون کی حالت میں رہتی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنی’ رباعیات ‘لکھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ علم کی بابت کونسی چیز مجھے من بھاؤنی لگتی ہے؟ یہی کہ مجھے اس میں عظیم ترین شاعری ملی ہے: اعدادِ ریاضی کی سرشار کردینے والی سرمستی، اور فلکیات میں کائنات کی پراسرا سرسراہٹ۔ لیکن، آپ کی اجازت ہو توکہوں کہ براہِ کرم مجھ سے’ سچ ‘کیا ہے کی بات نہ کریں۔‘‘
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہا:
’’یہ اتفاقاً سمرقند کے اِرد گِرد چہل قدمی کر رہا تھا تو مجھے پرانے کھنڈرات اور ان کے کتبے نظر آئے جنھیں آج کوئی پڑھ بھی نہیںسکتا۔ میں نے تعجب سے سوچا، ’وہ شہر جو کبھی یہاں آباد تھا، اس کا کیا باقی بچ رہا ہے؟‘ تو چلیے لوگوں کی باتیں نہ کریں، کیونکہ وہ تخلیق میں سب سے زیادہ آنی جانی شے ہیں، لیکن ان کی تہذیب کا کیا بچا ہے؟ یہاں کس سلطنت، علم، قانون اورسچائی کا وجود تھا؟ کچھ بھی تو نہیں، میں بے سود ہی ان قدیم آثار میں جہاں تہاں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرا اور ہاتھ آیا تو صرف کسی سفالی ظرف کا ٹوٹا ہوا پارہ ہی جس پر ایک چہرہ کندہ تھا یا کسی ستون کے آرائشی حاشیے کا ایک ٹکڑا۔ اور ہزار سال بعد میری نظموں کی بھی یہی حالت ہونے والی ہے—پارے، ریزے، ٹکڑے، اس دنیا کا ملبہ جو ابد تک مدفون ہوچکی ہے۔ شہر کا کچھ باقی رہتا ہے تو یہ وہ بے تعلّق نگاہ ہے جس سے کسی نیم مدہوش شاعر نے اسے دیکھا ہوتا ہے۔‘‘
’’میں تمھاری بات سمجھتا ہوں، ‘‘ ابو طاہر نے ہکلا کر کہا، بلکہ چکراکر۔ ’’ اس کے باوجود، تم ایک شافعی مذہب کے قاضی کے نام لگی بندھی نظمیں تو معنون کرنے سے رہے جن سے شراب کی بو آرہی ہو!‘‘
حقیقت یہ ہے کہ عمر کا رویّہ مصالحتی اور تشکرانہ ثابت ہونے والا تھا۔ بہ الفاظ دیگر، وہ اپنی شراب کی تندی کو کم کرنے والا تھا۔ آنے والے مہینوں میں اس نے کعبی مساوات (cubic equations) سے متعلق ایک بے حد گمبھیر رسالے کی تصنیف میں خود کو غرق کرلیا۔ الجبر کے اس رسالے میں لامعلوم کی نمائندگی کے لیے، خیام نے عربی لفظ ’’شے ‘‘مقرّر کیا، جس کا مطلب ’’چیز‘‘ ہے۔ یہ لفظ، جو ہسپانوی کی علمی تصانیف میں xay کے طور پر املا ہوا، رفتہ رفتہ صرف اپنے پہلے حرف، x، سے بدل دیا گیا جو ساری دنیا میں لامعلوم قدر کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
خیام کا یہ علمی پارہ سمرقند میں تکمیل کو پہنچا اور اپنے محافظ کے نام یوںمعنون ہوا: ’’ہم ایک ایسے عہد کے کشتہ ہیں جسے میں اربابِ علم بے اعتبار ہیں اور ان میں بس معدودِ چند ہی خالص تحقیق کے لیے اپنے کو وقف کرنے کے امکانات سے بہرہ ور ہیں۔ وہ تھوڑا سا علم جو دورِ حاضر کے دانش وروں کو حاصل ہے، وہ مادّی اغراض کی تگ و دو میں کھپ جاتا ہے۔ چنانچہ میں اس عالم میں کسی ایسے کے حصول سے مایوس ہوچکا تھا جس کی دلچسپی علمی چیزوں میں بھی اتنی ہی ہو جتنی دنیوی چیزوں میں، ایک فرد جو انسانی تقدیر کی فکر میں غرق ہو، تاآنکہ خدا نے مجھے قاضی، امام ابو طاہر، سے ملنے کا موقع عنایت فرمایا۔ یہ ان کی نوازشوں کے طفیل ہے کہ میں خود کو ان کاموں میں لگا سکا ہوں۔‘‘
اس رات جب خیام اپنے منظرے کی طرف واپس آرہا تھا جہاں ان دنوں اس کی رہائش تھی، تو اس نے یہ سوچ کر کہ اب کچھ پڑھنے لکھنے کا وقت کہاں رہا ہے چراغ ساتھ نہیں لیا تھا۔ اس کے باوجود اس کے راستے پر چاند کی روشنی کا مدّھم سا اجالا تھا، ماہِ شوال کے ختم کا لاغر سا ہلال۔ جوں جوں وہ قاضی کی مسکن سے کچھ آگے بڑھا، اسے باقاعدہ ٹٹول ٹٹول کر اپنا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ ایک سے زائد بار اسے ٹھوکر لگی، جھاڑیوں کو پکڑ کر اپنے کو گرنے سے روکا اور ٹھیک منھ پر بیدِ مجنوں کے سخت طمانچے کو سہا۔
اس نے ابھی بہ مشکل ہی اپنے کمرے میں قدم رکھا تھا کہ اسے میٹھی میٹھی سی سرزنش کی آواز سنائی دی۔ ’’میں ذرا اس سے پہلے تمھارے آنے کی متوقع تھی۔‘‘
تو کیا اس نے اس عورت کے بارے میں اتنی شدّت سے سوچا تھا کہ اب یہ گمان کر رہا ہے کہ اسے سن بھی رہا ہے؟ دروازے کے سامنے کھڑے کھڑے، جسے اس نے دھیرے سے بھیڑ دیا، اس نے کسی نیم رخ کو پہچاننے کی کوشش کی۔ بے سود ہی، کیونکہ دوبارہ صرف آواز ہی آئی، قابلِ سماعت پھر بھی مبہم۔
’’تم خاموش ہو۔ یہ یقین کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ کوئی عورت یوں بے باکانہ تمھارے کمرے میں در آنے کی جرات کر سکتی ہے۔ محل میں ہماری نظریںملی تھیں اور جگمگا اٹھی تھیں، لیکن خان وہاں موجود تھا، اور قاضی اور درباری بھی، اور تم نے اپنی نظر پھیر لی تھی۔ بہت سے مردوں کی طرح تم نے بھی رکنا پسند نہیں کیا۔ لیکن تقدیر کی مزاحمت سے کیا ملے گا۔ صرف ایک عورت کی خاطر امیر کے غیظ و غضب کو مول لینے سے کیا ہاتھ آئے گا، ایک بیوہ کی خاطر جو جہیز میں صرف ایک منھ پھٹ زبان اور ایک مشتبہ ناموس ہی لا سکتی ہو؟‘‘
کسی پراسرا طاقت نے عمر کو باز رکھا،۔ وہ نہ کوئی جنش کرسکا نہ ہونٹوں کو ڈھیلا ہی۔
’’تم تو کچھ بھی نہیں بول رہے،‘‘ جہان نے بڑے گداز طنزِ خفی کے ساتھ تبصرہ کیا۔ ’’اچھا، خیر، میں خود ہی بولتی رہوں گی، اور یوں بھی اب تک صرف میں نے ہی کوئی قدم اٹھایا ہے۔ جب تم دربار سے جا رہے تھے، میں نے تمھاری پوچھ گچھ کی اور تمھاری قیام گاہ کا پتا لگایا۔ میں نے یہ عذر پیش کیا کہ اپنی عم زادی کے پاس رہنے جا رہی ہوں جس کی شادی سمرقند کے ایک متموّل سوداگر سے ہوئی ہے۔ عام طور پر جب میری نقل و حرکت دربار کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے تو جاکر حرم میں سوتی ہوں۔ وہاں میری کچھ سہیلیاں ہیں جو میری رفاقت پسند کرتی ہیں۔ بڑے اشتیاق سے میری لائی ہوئی خبریں سنتی ہیں۔مجھے اپنا رقیب نہیں سمجھتیں کیونکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ خان کی بیوی بننے کی میری کوئی خواہش نہیں۔ اگر میں چاہتی تو اسے رجھا پرچا سکتی تھی، لیکن میں شاہ کی بیگمات کے ساتھ اتنا زیادہ وقت گزار چکی ہوں کہ اس قسم کی قسمت مجھے لبھا نہیں سکتی۔ میرے لیے زندگی مردوں سے اس قدر زیادہ اہم ہے! جب تک میں کسی اور کی بیوی ہوں، یا کسی کی بھی نہیں، حکمراں اپنے دیوان میں میری، میرے اشعارکی اور میری خندہ زنی کی نمائش کا مشتاق رہے گا۔ لیکن جس دن بھی مجھ سے شادی کرنے کا خواب دیکھا، وہ شروعات مجھے تالے چابی میں ڈال کر کرے گا۔‘‘
اپنی مجہول کیفیت سے بہ مشکل باہر آتے ہوئے عورت کا ایک لفظ بھی عمر کی سمجھ میں نہیں آیا، اور جب اس نے کچھ کہنے کا فیصلہ کیا تو وہ اُس سے کم، بلکہ اپنے سے یا کسی سائے سے زیادہ بول رہا تھا:
’’اپنی جوانی میں، یااس کے بعد بھی، بارہاکوئی نگاہ مجھ پر اٹھی ہے، یا کوئی مجھے دیکھ کر مسکرایا ہے۔ پھر رات کو میںنے خواب میں اسی نگاہ کو جمسم ہوتے ہوئے دیکھا ہے، گوشت پوست میں بدل تے ہوئے۔ ایک عورت، اندھیرے میں دمکتی ہوا ایک پیکر۔ اچانک، اس رات کے اندھیارے میں، اس غیر حقیقی منظرے میں، اس غیر حقیقی شہر میں، تم یہاں ہو—ایک حسین عورت، اس پر مستزاد ایک شاعرہ، او ر مہیّا۔‘‘
وہ ہنس پڑی۔
’’مہیّا! یہ تمھیں کیسے معلوم ہوا؟ تم نے تو مجھے ہاتھ بھی نہیں لگایا، مجھے دیکھا تک نہیں، اور یقیناً دیکھو گے بھی نہیں کیونکہ اس سے پہلے کہ سورج مجھے بھگا دے، میں خود ہی یہاں سے رخصت ہو جاؤں گی۔‘‘
اس دبیز تاریکی میں ریشم کی بے ترتیب سی سرسراہٹ ہوئی اور خوشبو سی لہرائی۔ عمر دم بہ خود رہ گیا، اس کا جسم جاگ گیا تھا۔ وہ کسی طفلِ مکتب کی سادہ لوحی سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا:
’’کیا تم اب بھی نقاب پہنے ہوئے ہو؟‘‘
’’تنہا نقاب جو پہنے ہوں وہ رات ہی ہے۔‘‘
باب ٦

ایک عورت اور ایک مرد۔ گمنام مصور نے انھیں نیم رخ میں تصوّر کیا تھا، پھیلے ہوئے اور ایک دوسرے میںپیوست۔ اس نے منظرے کی دیواریں ہٹا دی تھیں، انھیں بسترِ گیاہ مہیّا کر دیا تھا جس کا حاشیہ گلابوں کا تھا اور ایک سیمیں چشمہ جو ان کے پاؤں کے قریب اُبل رہا تھا۔ اس نے جہان کے پستان کسی ہندو دیوی جیسے خوش وضع بناے تھے۔ عمر اس کی زلفوں کو ایک ہاتھ سے ہلکے ہلکے چھو رہا ہے اور دوسرے میں ایک جام سنبھالے ہے۔
ہر روز محل میں ان کی مڈ بھیڑ ہوتی، لیکن وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرتے کہ مبادا اپنی چغلی نہ کھا دیں۔ ہر شام خیام بہ عجلت منظرے لوٹ آتا اور اپنی محبوب کا انتظار کرتا۔ قسمت نے انھیں کتنی راتیں ارزانی کی تھیں؟ ہر چیز کا انحصار حکمراں پر تھا۔ جب وہ خیمہ اٹھادے گا، جہان اس کے ساتھ ساتھ چلی جائے گی۔ وہ کبھی پیشگی کوئی اطلاع نہیں دیتا تھا۔ کسی صبح یہ ابنِ خانہ بدوش چھلانگ مار کر اپنے راہوار پر جا سوار ہوگا اور بخارا کی راہ لے گا، کِش یا پنج قند کی، اور دربار میں افراتفری مچ جائے گی کہ اسے جا لیں۔ عمر اور جہان کو اس لمحے سے خوف آتا تھا اور ان کے ہر بوسے میں الوداع کا ذائقہ ہوتا، ہر ہم آغوشی میں دم بہ خود فرار کا رنگ۔
گرمیوں کی ایک حد درجہ اُمس زدہ رات خیام منظرے کی مہتابی میں انتظار کی گھڑیاں گزارنے پہنچا کہ اسے کہیں نزدیک ہی قاضی کے پہرے داروں کے ہنسنے کی آواز سنائی دی اور وہ بے چین ہوگیا۔ لیکن یہ بے چینی بلا وجہ تھی، کیونکہ جہان آ پہنچی اور اسے اطمینان دلایا کہ کسی کی بھی نظرا س پرنہیں پڑی ہے۔ انھوں نے ایک دوسرے کا پہلے چوری چوری بوسہ لیا، بعد میں ایک اور شدید تر۔ اسی طرح وہ دن کو اس کے اختتام تک پہنچاتے تھے جس میں وہ دوسروں کی ملکیت ہوتے اور اُس رات کی ابتدا کرتے جو ان کی ملکیت تھی۔
’’ کیا خیال ہے، اس شہر میں کتنے ایسے عاشق ہوں گے جو ہماری طرح محوِ وصل ہوں؟‘‘ جہان نے شرارت سے سرگوشی کی۔ عمر نے ماہرانہ طور پر اپنا مشروبِ شب تیار کیا، گال پھلائے اور غورو فکر کے اندز میں کہا:
’’چلو اس پر توجہ سے غور کریں: اگر ہم بے زار بیویوں کو منہا کردیں، اطاعت گزار باندیوں، بازاری کسبیوں کو جو اپنے کو بیچتی ہیں یا کرائے پر اٹھاتی ہیں، اور آہیں بھرتی باکراؤں کو، تو کتنی عورتیں باقی بچ رہتی ہیں، کتنی عورتیں جو اس آدمی سے محوِ وصل ہیں جسے انھوں نے خود پسند کیا ہے؟ اسی طرح، ایسے کتنے مرد ہوں گے جو اس عورت کے برابر سوئیں گے جس سے انھیں عشق ہے، ایک ایسی عورت جو خود کو اپنی مرضی سے پیش کر رہی ہے، اس لیے نہیں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں؟ کون جانے، آج رات شاید پورے سمرقند میں صرف ایک ہی ایسا مرد اور ایک ہی ایسی عورت ہے۔ صرف تم ہی کیوں اور صرف میں ہی کیوں؟ اس لیے کہ خدا نے ہمیں محبت میں گرفتار کیا ہے، بالکل جس طرح اس نے بعض پھولوں کو زہر ناک بنایا ہے۔‘‘
وہ ہنسا اور وہ رو پڑی۔
’’چلو اند چلیں اور دروازہ بند کردیں۔ انھیں ہماری خوشیوں کی آواز کان پڑ جائے گی۔‘‘
بہت سی ہم آغوشیوں کے بعد، جہان کمر سیدھی کر کے بیٹھ گئی، اپنے کو کچھ ڈھانپ لیا، اور بڑی نرمی کے ساتھ اپنے کو اپنے عاشق کی آغوش سے علاحدہ کر لیا۔
’’مجھے ایک راز تمھیں بتا دینا چاہیے جو میں نے خان کی بڑی بیگم سے سنا ہے۔ معلوم ہے وہ سمرقند کیوں آیا ہوا ہے؟‘‘
عمر نے اسے روک دیا، اس خیال سے کہ حرم کی کوئی گپ شپ ہوگی۔
’’امرا کے رازوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ اپنے سننے والوں کے کان جلا دیتے ہیں۔‘‘
’’میری بات سنو تو سہی۔ اس راز کا اثر ہم پر بھی پڑتا ہے، کیونکہ یہ ہماری زندگی میں خلل اندازی کر سکتا ہے۔ نصر خان مورچوں کے معائنے کے لیے آیا ہے۔ گرماکے ختم پر، جب گرمی کا زور ٹوٹ چکا ہوگا، وہ سلجوق فوج کی حملہ آوری کا متوقع ہے۔‘‘
سلجوق، خیام ان سے خوب واقف تھا۔ یہ اس کے بچپن کی اولین یادوں میں جاگزین تھے۔ مسلمان ایشاکے مالک بن بیٹھنے سے بہت پہلے، وہ اس کے پیدائشی شہر پر حملہ آور ہوئے تھے اور اپنے پیچھے، نسلہا نسل تک، ایک خوفِ عظیم کی یاد چھوڑ گئے تھے۔
یہ واقعہ اس کی پیدائش سے دس سال پہلے رونما ہوا تھا۔ نیشاپور کے باشندے ایک صبح اٹھے تو دیکھا کہ ان کے شہر کے گرد ترکی جنگجوؤں نے پورا پورا محاصرہ کیا ہوا ہے، اور ان کی سربراہی دو بھائی کر رہے ہیں، طغرل بیگ باز اور چغری بیگ شِکرا، میخائیل ابن سلجوق کے فرزند، جو اس وقت غیر معروف سے خانہ بدوش سردار تھے اور ابھی حال ہی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ شہر کے سربرآوردگان کو پیغام ملا: ’’کہا جاتا ہے کہ تمھارے نوجوان اپنے فخر پر ناز کرتے ہیں اور میٹھا پانی تمھاری قناتوں میں بہتا ہے۔ اگر تم نے مزاحمت کی کوشش کی تو جلد ہی تمھاری قناتوں کے منھ سوئے فلک کھل جائیں گے اور تمھارے جوان زیرِ زمیں ہوں گے۔‘‘
اس قسم کی لاف زنی محاصرے کے وقت عام تھی۔ اس کے باوجود اکابرِ نیشاپور نے اس وعدے کے عوض ہتھیار ڈالنے میں عجلت دکھائی کہ اہالین شہر کی جان کو کوئی گزندنہ پہنچے اور ان کا مال، ان کے گھر اور ان کی قناتیں محفوظ رہیں ۔ لیکن ایک فاتح کے وعدوں کا کیا بھروسا؟ جب لشکر شہر میں داخل ہوا، چغری اپنے سپاہ کو سڑکوں اور بازاروں میںکھلے بندوں چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ طغرل کی صلاح مختلف تھی۔ وہ ماہِ رمضان کا احترام کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس ماہِ صوم میں ایک اسلامی شہر میں قتل و غارت گری حرام تھی۔ جیت بہرکیف اسی دلیل کی ہوئی، تاہم چغری قائل نہیں ہوا اور چارو ناچار اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب آبادی اس مذہبی کیفیت سے نکل آئے گی۔
جب اہالین شہر کو برادران کی نا اتّفاقی کی ہوا لگی اور احساس ہوا کہ ماہِ آئندہ کے آغاز میں ان کی غارتگری، زنا بالجبر اور قتلِ عام ہونے والا ہے، تو بس یہیں سے خوفِ عظیم کی ابتدا ہوئی۔ زنا بالجبر سے زیادہ ہتک آمیز اس کی ناگزیریت کا اعلان ہے، جس پر ہونی کا انفعالی اور باعثِ ذلّت انتظار مستزاد۔ دکانیں خالی ہوگئیں، مرد جا چھپے اور ان کی بیوی بیٹی نے انھیں اپنی بیچارگی کا ماتم کرتے دیکھا۔ کیا کریں؟ کیسے فرار ہوں؟ کس راہ سے؟ قابض ہر طرف دندناتا پھر رہا تھا۔ چوٹی دار سپاہ صدر چوک کے بازاروں میں، مختلف علاقوں، مضافات اور بابِ سوختہ کے اکناف میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ وہ مسلسل پیے ہوتے اور زرِ مخلصی اور لوٹ کھسوٹ کے متلاشی، اور ان کے بے قابو جتّھے دیہی علاقوں میں جراثیم کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
کیا آدمی روزوں کے ختم ہونے اور عید کی آمد کی خواہش نہیں کرتا؟ اس سال وہ چاہتے تھے کہ صیام کبھی ختم نہ ہو اور امید کرتے کہ عید کبھی نہ آئے۔ جب نئے ماہ کا ہلال نظر آیا، کسی کو خوشی منانے یا بھیڑ ذبح کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔ پورا شہر ہی کسی دیو ہیکل بھیڑ کی طرح نظر آرہا تھا جسے خوب کھلا پلا کر قربانی کے لیے فربہ کیا گیا ہو۔
عید سے پچھلی رات، جب ہر امید پوری ہوتی ہے، شبِ عذاب تھی، ہزاروں خاندانوں نے مسجدوں اور اولیاوں کی درگاہوں کی مشتبہ امان میں آنسو بہائے اور دعائیں مانگیں۔
اس وقت قلعیکے اندر دونوں سلجوق بھائیوں کے درمیان بڑی قیامت خیز بحث جاری تھی۔ چغری چلّا رہا تھا کہ اس کے سپاہ کو مہینوں سے مشاہرہ نہیں ملا ہے، کہ وہ صرف اس لیے لڑنے کے لیے آمادہ ہوئے تھے کہ ان سے اس ثروت مند شہر میں آزادانہ تصرّف کا وعدہ کیا گیا تھا، کہ وہ بغاوت کی کگر پر کھڑے ہوئے تھے اور کہ وہ، چغری، ان کو مزید روکے رکھنے سے قاصر تھا۔
لیکن طغرل کسی اور ہی زبان میں بات کر رہا تھا:
’’ ہماری فتوحات کی ابھی باسم اﷲہی ہوئی ہے۔ قبضۂ اختیار میں لانے کے لیے ابھی بہتیرے شہر باقی ہیں۔ اصفہان، شیراز، ری، تبریز اور ان سے آگے دوسرے۔ اگر ہم نیشاپور کے سپر انداز ہوجانے کے بعد اس میں لوٹ مار مچاتے ہیں، اپنے سارے وعدوں کے باوجود، تو کوئی اور دروازہ ہمارے لیے نہیں کھلے گا، کوئی اور قلعہ بند شہر اپنی محافظ فوج کے ساتھ ذرہ برابر بھی کم زوری نہیں دکھائے گا۔‘‘
’’ اگر ہم اپنی فوج ہی سے ہاتھ دھوے بیٹھے اور ہمارے سپاہ ہمیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ جو تم اتنے بہت سے شہروں کے خواب دیکھ رہے ہو تو یہ کیسے فتح ہوں گے؟ وفادار ترین سپاہی بھی اب شکایت کر رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔‘‘
دونوں بھائی اپنے سپہ سالاروں اور قبیلے کے بزرگوں میں گھرے ہوئے تھا، جن میں سے ایکو ایک نے چغری کی بات کی تصدیق کی۔ اس سے ہمت پاکر وہ کھڑا ہوا اور معاملہ کو یکسو کرنے کا فیصلہ کر ڈالا:
’’بہت باتیں ہو لیں۔ میں اپنے آدمیوں سے جاکر کہتا ہوں کہ شہر کے ساتھ جو کرنا ہے کریں۔ اگر تم اپنے آدمیوں کو باز رکھنا چاہتے ہو تو تمھاری مرضی۔ تم اور تمھارے سپاہ الگ، میں اور میرے سپاہ الگ۔‘‘
اس مخمصے میں پھنس کر، اس نے کوئی جنبش نہیں کی۔ وہ یک بارگی ان کے درمیان سے اچھل کر دور ہوا اور ایک خنجر اٹھالیا۔
خود چغری نے بھی اس درمیان میں اپنی تلوار نیام سے باہر کر لی تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مداخلت کریں یا، جیسا کہ رواج تھا، سلجوق بھائیوں کو اپنا حساب خون سے طے کر لینے دیں، کہ طغرل نے پکار کر کہا:
’’برادر، میں تمھیں اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ میں تمھارے سپاہ کو روک نہیں سکتا، لیکن اگر تم نے انھیں اس شہر پر چھوڑ دیا تو میں یہ خنجر اپنے سینے میں اتار لوں گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے خنجر کا قبضہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور انی کو کو نیچے اپنے سینے کی طرف کردیا۔ اس کا بھائی قدرے ہچکچایا، لیکن بازو پھیلا کر اس کی طرف قدم بڑھا کر آیا اور دیر تک اس سے بغل گیررہا۔ وعدہ کیا کہ اس کی مرضی کے خلاف نہیں کرے گا۔ نیشاپور کی جاں بخشی ہوگئی، لیکن وہ رمضان کے خوفِ عظیم کو کبھی نہیں بھولے گا۔٭


ترجمہ: محمد عمر میمن