Lajwanti by Rajendar Singh Bedi

Articles

لاجونتی

راجندر سنگھ بیدی

 

’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)
—— ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی ……
گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘ ، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی ——
اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملاّ شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہوگئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندرلال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کرسکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندرلال کی اپنی بیوی اغوا ہوچکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو —— لاجونتی۔
چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے —— ’’ہتھ لائیاں کمھلان نی لاجونتی دے بوٹے…‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہوجاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا —— جانے وہ کہاں ہوگی، کس حال میں ہوگی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟… اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔
اور اب تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا تھا۔ اس کا غم اب دُنیا کا غم ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کردیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا —— انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اُٹھنے بیٹھنے ، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اُس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دُبلاپن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مارپیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اُس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اُداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اُس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اُٹھتی — ’’پھرمارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی …‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مارپیٹ بھول چکی ہے۔ گان￿و کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں — ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی ……‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگالی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گان￿و۔‘‘ چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا —— ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہوگی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بُوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے!
اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتادوں —— ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہوجانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہوجانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا —— ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کردینا چاہیے …… وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا ،جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا —— انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں —— کیوں کہ ان کے دِل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح —— ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے …
گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملاّ شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی اُلجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے —— او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہگین پروپگنڈ ے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔
لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا۔ پر گُنگناتا چلا جاتاہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملاّ شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہوگئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندرلال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے … اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے ……
لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماںباپ، بہن اور بھائیوں نے اُنھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟وہ بُزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لُٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھیں سے موت کو گُھور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک اُنھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی —— سہاگ ونتی —— سہاگ والی … اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی …… تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے …… اور بہاری چلاّ دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔
لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندرلال نے امید وبیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کردیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جُلی ایک تقریر کردیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اُٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پُرانوں کا حوالہ دیتے، اُتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اُٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رُک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھاجاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے ———
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا —— میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا —— ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘——نارائن باوا نے کہا —— ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رُک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اُٹھا ——
’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا!‘‘
’’چُپ رہو جی‘‘ —— ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ —— ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا —— ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
پھر ملی جُلی آوازیں آئیں —— ’’خاموش!‘‘ —— ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی —— ’’مار دیں گے۔‘‘
نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا —— ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!‘‘
سندر لال نے کہا —— ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا — رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘
انہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اُٹھے۔ ’’سُنو ، سُنو، سُنو……‘‘
رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے— ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کرپائے؟‘‘
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا — ’’اِس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا —— ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اُسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا… آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے … اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے … اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے… سیتا … لاجونتی … اور سندر لال بابو نے رونا شروع کردیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سُرخ جھنڈے اُٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندرلال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا — ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی — ’’شری رام چندر ‘‘……
اور پھر بہت سی آوازیں آئیں— ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میںشامل ہوگئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جارہے تھے ، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے —— اور ان کے درمیان کہیں سندرلال جارہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے ۔
’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے…!‘‘
ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہوپائی تھی اور محلہ ملاّ شکور کے مکان 414 کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپوے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا—
’’بدھائی ہو سندر لال۔‘‘
سندر لال نے میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا — ’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
’’میں نے لاجو بھابی کو دیکھا ہے۔‘‘
سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا —— ’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘ اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑدیا۔
’’واگہ کی سرحد پر۔‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا ’’کوئی اور ہوگی۔‘‘
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو …‘‘
’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اُٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا ،اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حُقّے پر سے اُٹھالی اور بولا— ’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘
’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر—‘‘
’’ہاں ہاں ہاں‘‘ اور سندر لال نے خود ہی کہہ دیا ’’تیسرا ماتھے پر۔‘‘ وہ نہیںچاہتا تھا، اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندولے یاد آگئے، جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوا لیے تھے، جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرما جاتی تھی — اور گم ہوجاتی تھی، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہوگئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لُٹ جانے سے وہ مفلس ہوگئی ہو … سندرلال کا سارا جسم ایک اَن جانے خوف، ایک اَن جانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پُھنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا—
’’لاجو واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘
لال چند نے کہا — ’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا نا ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا — ؟‘‘ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا پھر؟‘‘
رسالو بھی اپنی چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا— ’’سچ مچ آگئی ہے لجونتی بھابی؟‘‘
لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں —لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ ہمارے والنٹیراعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں، ان میں ادھیڑ، بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہوگئے۔ اس وقت اُدھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابی کو دکھاتے ہوئے کہا — ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو … دیکھو … جتنی عورتیں تم نے دی ہیں، ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی ؟’’ اور وہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چُھپا رہی تھی۔‘‘
پھر جھگڑا بڑھ گیا ۔ دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘ واپس لے لینے کی ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا — ’’لاجو — لاجو بھابی …‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔
اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا، جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام چُپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لاجو آئی بھی پر نہ آئی… اور سندر لال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا، جیسے وہ بیکانیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھان￿و میں، زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ مُنھ سے اتنا بھی نہیں نکلتا — ’’پانی دے دو۔‘‘ اسے یوں محسوس ہوا، بٹوارے سے پہلے بٹوارے کے بعد کا تشدّد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو، سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہاکرتا تھا اور اس کی بھابی بنتو — تو وہ جھٹ سے کہتا ’’مر گئے‘‘ اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بے خبر بالکل عاری آگے چلاجاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر، انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑا ہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔
اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشدّد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘ کرلیتے۔ گویا رومال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہوجاتا تھا۔ اب ’’گپتی‘‘ کا رومال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا کاروبار پُرانے زمانے کی داستان معلوم ہو رہا تھا، جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فرخت کا قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک اَن گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا اُن کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو اُنگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑجاتا ہے اور اس کے اردگرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سُرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں … ازبیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابلِ قبول عورت ایک اعترافِ شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سِسکیاں لیتی ہے…
سندرلال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا، لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے، لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اُس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا ،کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔
اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندرلال کو جانتی تھی ،اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیرمرد کے ساتھ زندگی کے دن بِتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا؟ سندرلال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئے تھی … عادتاً محض عادتاً —— دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیّاد کے دام سے بھاگ جانے کی آسانی تھی اور وہ سندرلال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق — دائیں بُکل اور بائیں بُکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اب وہ سندرلال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی، ایک اُمید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ —
سندر لال کو دھچکا سا لگا۔ اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھااور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں ۔ وہ موٹی ہوگئی تھی — سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا، وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گُھل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہوچکی ہوگی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہوگی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا ،لیکن وہ چُپ رہا کیونکہ اس نے چُپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا —— لیکن ایک چیز وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولایا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیاتھا۔ وہ غم کی کثرت سے ’’موٹی‘‘ ہوگئی تھی اور ’’صحت مند‘‘ نظر آتی تھی، لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے…‘‘
مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوا۔ لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا —— ’’ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت ——‘‘
اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گُم ہوکر رہ گئی ۔ ان سب آوازوں سے الگ کالکاپرشاد کی پھٹتی اور چلاّتی آواز آرہی تھی۔ وہ کھانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی حقیقت، اس نئی شدھی کا شدّت سے قائل ہوچکا تھا۔ یُوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیا وید، کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنانا چاہتا ہے… ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھِرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جا رہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیّت دیے جانے پر تاسف بھی۔
لاجونتی کے چلے آنے پر بھی سندر لال بابو نے اسی شدّ و مد سے ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھادیا تھا اور وہ لوگ جنھیں سندرلال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی، قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔ مکان 414 کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملاّ شکور کی بہت سی عورتیں سندرلال بابو سوشل ورکر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔
لیکن سندرلال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آچکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندرلال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کرلیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لاجو جو پہلے خوف سے سہمی رہتی تھی، سندر لال کے غیرمتوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھُلنے لگی۔
سندرلال، لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک اَن جانی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی کہ سندرلال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دُھل جائیں۔ لیکن سندرلال، لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کُھل جانے میں بھی ایک طرح سے سِمٹی رہتی۔ البتہ جب سندرلال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندرلال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘ ’’یو نہیں‘‘ ’’اونھوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندرلال پھر اونگھ جاتا… البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندرلال نے لاجونتی کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا ——
’’کون تھا وہ؟‘‘
لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا —— ’’جُمّاں‘‘ —— پھر وہ اپنی نگاہیں سندرلال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندرلال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلارہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کرلیں اور سندر لال نے پُوچھا ——
’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مارتا تونہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں‘‘… اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی … اب تو نہ ماروگے؟‘‘
سندر لال کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا —— ’’نہیں دیوی! اب نہیں … نہیں ماروں گا…‘‘
’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، لیکن سندرلال نے کہا —— ’’جانے دو بیتی باتیں۔ اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا، اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کی من کی من ہی میں رہی۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’’دیوی‘‘ کا بدن ہوچکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ۔ لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔ وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی، جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکاایکی اس کی طرف متوجہ ہوجائے …
جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندر لال بابو نے پھر وہی پرانی بدسلوکی شروع کردی تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ لاجو سے بہت ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی … وہ سندر لال کی، وہ پرانی لاجو ہوجانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندرلال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ — لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے، جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی… اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہوسکتی ہے، پر لاجو نہیں ہوسکتی۔ وہ بس گئی، پر اُجڑ گئی … سندرلال کے پاس اُس کے آنسو دیکھنے کے لیے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لیے کان!… پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّ شکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اُسی آواز میں گاتا رہا ——

’’ہتھ لائیاں کملان نی، لاجونتی دے بُوٹے

Lajwanti by Rajindar Singh Bedi

Articles

لاجونتی

راجندر سنگھ بیدی

 

راجندر سنگھ بیدی ایک تعارف

قمر صدیقی

اردو کے معروف فکشن نگار راجندر سنگھ بیدی غیرمنقسم پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکامیں ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے ابتدائی ایام لاہور میں گزرے۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اردو میں حاصل کی۔۱۹۳۱ء میں میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد ڈی۔اے ۔وی کالج لاہور سے انٹر میڈیٹ کیا۔گھرکے معاشی حالات بہت اچھے نہ تھے اس وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ان کا گریجویشن کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔۱۹۳۲ء سے طالب علمی کے زمانے میں ہی انگریزی ، اردو اور پنجابی میں نظمیں اور کہانیاں لکھنے لگے تھے۔
راجندر سنگھ بیدی کے معاشی حالات چونکہ اچھے نہ تھے ۔لہٰذا محض۱۸سال کی عمر میں انھوں نے لاہور پوسٹ آفس میں ۱۹۳۳ء میں بطورکلرک ملازمت اختیار کرلی۔یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو راس نہیں آرہی تھی اوروہ بہتر ملازمت کی تلاش میں تھے۔ ۱۹۴۱ء میں انھیں آل انڈیا ریڈیو ، لاہور کے اردو سیکشن میں ملازمت مل گئی۔ آل انڈیا ریڈیو کے ادبی ماحول میں ان کی صلاحیتیں دھیرے دھیرے نکھرنے لگیں۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو کے لیے متعددڈرامے تحریر کیے۔ ان ڈراموں میں ’’خواجہ سرا‘‘ اور ’’ نقل مکانی‘‘ بہت مشہور ہوئے۔ بعد ازاں ان دونوں ڈراموں کو ملاکر انھوں نے ۱۹۷۰ء میں فلم ’’دستک‘‘ بنائی۔
۱۹۴۳ء میں راجندر سنگھ بیدی لاہور کے مہیشوری فلم سے وابستہ ہوگئے۔ اس ملازمت میں ڈیڑھ سال رہنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو واپس آگئے۔ ریڈیو واپسی پر انھیں جموں میں تعینات کیا گیا جہاں وہ ۱۹۴۷ء تک رہے۔۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم ہوئی اور بیدی کا خاندان ہندوستان کی ریاست پنجاب کے فاضلکہ میں آباد ہوگیا۔ البتہ بیدی پاکستان سے نقل مکانی کرکے ممبئی آگئے اور فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ڈی ڈی کیشپ کی نگرانی میں بننے والی فلم ’’بڑی بہن‘‘ بطور مکالمہ نگار ہندوستان میں بیدی کی پہلی فلم تھی۔ یہ فلم ۱۹۴۹ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ’’داغ‘‘ تھی جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور فلم انڈسٹری میں بیدی کی شناخت قائم ہوگئی۔ ’’داغ‘‘۱۹۵۲ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
۱۹۵۴ء میں بیدی نے امرکمار ، بلراج ساہنی اور گیتا بالی کے ساتھ مل کر ’’سِنے کو آپریٹیو ‘‘ نامی فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس کمپنی نے پہلی فلم ’’گرم کوٹ‘‘ بنائی جو بیدی کے ہی مشہور افسانہ ’’گرم کوٹ‘‘ پر مبنی تھی۔ اس فلم میں بلراج ساہنی اور نروپارائے نے مرکزی کردار ادا کیا تھاجبکہ امرکمار نے ہدایت کاری کی خدمات انجام دی تھیں۔اس فلم کے ذریعے راجندر سنگھ بیدی کو پہلی بار اسکرین پلے تحریر کرنے کا موقع ملا۔ سِنے کو آپریٹیو نے دوسری فلم ’’رنگولی‘‘ بنائی جس میں کشور کمار ، وجنتی مالا اور درگا کھوٹے نے مرکزی کردار ادا کیے اور امرکمار نے ڈائریکشن دیا۔ اس فلم میں بھی اسکرین پلے راجندر سنگھ بیدی نے ہی تحریر کیا تھا۔
اپنی ذاتی فلم کمپنی کے باوجود بیدی نے مکالمہ نگاری جاری رکھی اور متعدد مشہور فلموں کے ڈائیلاگ تحریر کیے۔ جن میں سہراب مودی کی فلم ’’ مرزا غالب‘‘ (۱۹۵۴ء) ، بمل رائے کی فلم ’’دیو داس‘‘(۱۹۵۵ء)اور ’’مدھومتی‘‘(۱۹۵۸ء) امرکمار اور ہریکیش مکرجی کی فلمیں ’’انورادھا‘‘ (۱۹۶۰ء)، ’’انوپما‘‘(۱۹۶۹ء) ، ’’ستیم‘‘ (۱۹۶۶ء) ، ’’ابھیمان‘‘ (۱۹۷۳ء) وغیرہ شامل ہیں۔
۱۹۷۰ء میں فلم ’’دستک‘‘ کے ساتھ انھوں نے ہدایت کاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ اس فلم میں سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان نے مرکزی کردار ادا کیے تھے جبکہ موسیقی کار مدن موہن تھے۔ ’’دستک‘‘ کے علاوہ انھوں نے مزید تین فلموں ’’پھاگن‘‘ (۱۹۷۳ء)، ’’نواب صاحب‘‘ (۱۹۷۸ء) اور ’’آنکھوں دیکھی‘‘(۱۹۷۸ء) میں ہدایت کاری کے جوہر دکھائے۔
راجندر سنگھ بیدی کے ناول ’’ایک چادر میلی سی‘‘ پر ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں فلم بن چکی ہے۔ پاکستان میں ۱۹۷۸ء میں ’’مٹھی بھر چاول‘‘ کے عنوان سے جبکہ ہندوستان میں ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کے ہی نام سے ۱۹۸۶ء میں۔ اس طرح وہ برصغیر ہند و پاک کے واحد فکشن نگار ہیں جن کی ایک ہی کہانی پر دونوں ممالک میں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں فلم بن چکی ہے۔بیدی کے افسانے ’’لاجونتی‘‘ پر نینا گپتا ۲۰۰۶ء میں ایک ٹیلی فلم بھی بنا چکی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی شادی خاندانی روایت کے مطابق کم عمری میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کی بیوی گھریلو خاتون تھیں اور بیدی نے تا عمر ان کے ساتھ محبت اور رواداری کا سلوک رکھا۔حالانکہ اداکارہ ریحانہ سلطان کے ساتھ معاشقے کی خبریں بھی گرم ہوئیں تاہم بیدی کی ازدواجی زندگی پر اس کے کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ بیدی کی شخصیت میں امن پسندی، صلح کل اور محبت و رواداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔یہی محبت واپنائیت ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کا سبب بنی۔ بیدی کی صرف ایک اولاد تھی جس کا نام نریندر بیدی تھا۔ جوان ہوکر نریندر بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے اور بطور فلم ڈائریکٹر اور فلم ساز انھوں نے خوب نام کمایا۔ان کی مشہور فلموں میں ’’جوانی دیوانی‘‘( ۱۹۷۲ء) ، ’’بے نام‘‘ (۱۹۷۴ء)، ’’رفو چکر‘‘ (۱۹۷۵ء) اور ’’صنم تیری قسم ‘‘ (۱۹۸۲ء) وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ نریندر بیدی۱۹۸۲ء میں انتقال کرگئے۔ بیٹے کی اس ناگہانی موت کے صدمے سے راجندر سنگھ بیدی ابھر نہ سکے اور نریندر کی موت کے دو سال بعد ۱۹۸۴ء میں وہ بھی دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
راجندر سنگھ بیدی کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کے کل چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ’’دانہ و دام‘‘(۱۹۳۶ء)اور ’’گرہن‘‘ (۱۹۴۲ء) آزادی سے پہلے شائع ہوچکے تھے۔’’کوکھ جلی‘‘(۱۹۴۹ء)، ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘(۱۹۶۵ء) ، ’’ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘(۱۹۷۴ء)اور ’’مکتی بودھ‘‘ (۱۹۸۲ء) آزادی کے بعد منظر عام پر آئے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ’’بے جان چیزیں‘‘(۱۹۴۳ء) اور ’’سات کھیل ‘‘ (۱۹۷۴ء) بھی شائع ہوئے۔ ان کا ناولٹ ’’ایک چادر میلی سی‘‘۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ انھیں۱۹۶۵ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا جبکہ ۱۹۷۲میں حکومتِ ہند نے پدم شری کا خطاب عطا کیا۔ ۱۹۷۸ء میں غالب ایوارڈ دیا گیا۔
راجندر سنگھ بیدی کو کردار نگاری اور انسانی نفسیات کی مرقع کشی میں کمال حاصل تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک حقیقت نگار تھے۔اگرچہ انھوں نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا، وہ قدرِ اول کی چیز ہے۔ بیدی کسی فیشن یا فارمولے کے پابند نہیں تھے۔ ان کے افسانوں میں مشاہدے اور تخیل کی آمیزش ملتی ہے۔ انسانی نفسیات پر گہری نظر کی وجہ سے ان کے کردار صرف سیاہ و سفید کے خانوں میں بند نہیں ، بلکہ انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ اس تعلق سے پروفیسر شمس الحق عثمانی رقم طراز ہیں:
’’راجندر سنگھ بیدی کے فن کے ان اجزا و عناصر ۔۔۔۔۔ ان کی پُر جہد زندگی۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کی پُر گداز شخصیت کے تارو پود کو ایک دوسرے کے قریب رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے وجود کے جن لطیف ترین اجزا کے تحفظ و ارتفاع کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماجی زندگی میں پیش کیا، ان اجزا نے انھیں گہرا ایقان اور عمیق بصیرت عطا کی۔۔۔۔۔۔۔اسی ایقان اور بصیرت نے اُن کے پورے فن میں وہ عرفانی کیفیت خلق کی ہے جس کے وسیلے سے راجندر سنگھ بیدی اپنے ارد گرد سانس لینے والے افراد کو شناخت کرتے اور کراتے رہے۔ افراد کی شناخت کا یہ عمل دراصل کائنات شناسی کا عمل ہے کیونکہ راجندر سنگھ بیدی کا فن ، آدمی کے وسیلے سے ہندوستانی معاشرے ۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی معاشرے کے وسیلے سے آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہندوستانی آدمی کے وسیلے سے پورے انسانی معاشرے کی شناخت کرتا ہے۔‘‘
(ممبئی کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتگان ۔ مرتب: پروفیسر صاحب علی۔ ص: ۱۰۶۔ ناشر : شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی)
راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں رمزیت ، استعاراتی معنویت اور اساطیری فضا ہوتی ہے۔ ان کے کردار اکثر و بیشتر محض زمان و مکاں کے نظام میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے جسم کی حدود سے نکل کر ہزاروں لاکھوں برسوں کے انسان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ یوں تو ان کے یہاں ہر طرح کے کردار ملتے ہیں لیکن عورت کے تصور کو ان کے یہاں مرکزیت حاصل ہے۔ عورت جو ماں بھی ہے، محبوبہ بھی ، بیوی بھی اور بہن بھی۔ ان کے یہاں نہ تو کرشن چندر جیسی رومانیت ہے اور نہ منٹو جیسی بے باکی۔ بلکہ ان کا فن زندگی کی چھوٹی بڑی سچائیوں کا فن ہے۔ فن پر توجہ بیدی کے مزاج کی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں جذبات کی تیزی کے بجائے خیالات اور واقعات کی ایک دھیمی لہر ملتی ہے جس کے پیچھے زندگی کی گہری معنویت ہوتی ہے۔


 

لاجونتی
(تحریر: راجندر سنگھ بیدی)

’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)
—— ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی ……
گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘ ، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی ——
اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملاّ شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہوگئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندرلال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کرسکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندرلال کی اپنی بیوی اغوا ہوچکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو —— لاجونتی۔
چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے —— ’’ہتھ لائیاں کمھلان نی لاجونتی دے بوٹے…‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہوجاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا —— جانے وہ کہاں ہوگی، کس حال میں ہوگی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟… اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔
اور اب تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا تھا۔ اس کا غم اب دُنیا کا غم ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کردیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا —— انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اُٹھنے بیٹھنے ، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اُس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دُبلاپن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مارپیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اُس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اُداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اُس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اُٹھتی — ’’پھرمارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی …‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مارپیٹ بھول چکی ہے۔ گان￿و کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں — ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی ……‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگالی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گان￿و۔‘‘ چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا —— ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہوگی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بُوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے!
اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتادوں —— ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہوجانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہوجانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا —— ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کردینا چاہیے …… وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا ،جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا —— انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں —— کیوں کہ ان کے دِل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح —— ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے …
گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملاّ شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی اُلجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے —— او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہگین پروپگنڈ ے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔
لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا۔ پر گُنگناتا چلا جاتاہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملاّ شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہوگئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندرلال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے … اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے ……
لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماںباپ، بہن اور بھائیوں نے اُنھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟وہ بُزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لُٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھیں سے موت کو گُھور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک اُنھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی —— سہاگ ونتی —— سہاگ والی … اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی …… تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے …… اور بہاری چلاّ دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔
لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندرلال نے امید وبیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کردیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جُلی ایک تقریر کردیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اُٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پُرانوں کا حوالہ دیتے، اُتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اُٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رُک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھاجاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے ———
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا —— میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا —— ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘——نارائن باوا نے کہا —— ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رُک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اُٹھا ——
’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا!‘‘
’’چُپ رہو جی‘‘ —— ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ —— ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا —— ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
پھر ملی جُلی آوازیں آئیں —— ’’خاموش!‘‘ —— ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی —— ’’مار دیں گے۔‘‘
نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا —— ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!‘‘
سندر لال نے کہا —— ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا — رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘
انہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اُٹھے۔ ’’سُنو ، سُنو، سُنو……‘‘
رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے— ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کرپائے؟‘‘
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا — ’’اِس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا —— ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اُسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا… آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے … اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے … اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے… سیتا … لاجونتی … اور سندر لال بابو نے رونا شروع کردیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سُرخ جھنڈے اُٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندرلال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا — ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی — ’’شری رام چندر ‘‘……
اور پھر بہت سی آوازیں آئیں— ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میںشامل ہوگئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جارہے تھے ، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے —— اور ان کے درمیان کہیں سندرلال جارہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے ۔
’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے…!‘‘
ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہوپائی تھی اور محلہ ملاّ شکور کے مکان 414 کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپوے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا—
’’بدھائی ہو سندر لال۔‘‘
سندر لال نے میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا — ’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
’’میں نے لاجو بھابی کو دیکھا ہے۔‘‘
سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا —— ’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘ اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑدیا۔
’’واگہ کی سرحد پر۔‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا ’’کوئی اور ہوگی۔‘‘
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو …‘‘
’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اُٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا ،اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حُقّے پر سے اُٹھالی اور بولا— ’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘
’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر—‘‘
’’ہاں ہاں ہاں‘‘ اور سندر لال نے خود ہی کہہ دیا ’’تیسرا ماتھے پر۔‘‘ وہ نہیںچاہتا تھا، اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندولے یاد آگئے، جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوا لیے تھے، جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرما جاتی تھی — اور گم ہوجاتی تھی، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہوگئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لُٹ جانے سے وہ مفلس ہوگئی ہو … سندرلال کا سارا جسم ایک اَن جانے خوف، ایک اَن جانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پُھنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا—
’’لاجو واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘
لال چند نے کہا — ’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا نا ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا — ؟‘‘ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا پھر؟‘‘
رسالو بھی اپنی چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا— ’’سچ مچ آگئی ہے لجونتی بھابی؟‘‘
لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں —لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ ہمارے والنٹیراعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں، ان میں ادھیڑ، بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہوگئے۔ اس وقت اُدھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابی کو دکھاتے ہوئے کہا — ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو … دیکھو … جتنی عورتیں تم نے دی ہیں، ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی ؟’’ اور وہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چُھپا رہی تھی۔‘‘
پھر جھگڑا بڑھ گیا ۔ دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘ واپس لے لینے کی ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا — ’’لاجو — لاجو بھابی …‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔
اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا، جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام چُپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لاجو آئی بھی پر نہ آئی… اور سندر لال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا، جیسے وہ بیکانیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھان￿و میں، زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ مُنھ سے اتنا بھی نہیں نکلتا — ’’پانی دے دو۔‘‘ اسے یوں محسوس ہوا، بٹوارے سے پہلے بٹوارے کے بعد کا تشدّد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو، سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہاکرتا تھا اور اس کی بھابی بنتو — تو وہ جھٹ سے کہتا ’’مر گئے‘‘ اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بے خبر بالکل عاری آگے چلاجاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر، انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑا ہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔
اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشدّد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘ کرلیتے۔ گویا رومال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہوجاتا تھا۔ اب ’’گپتی‘‘ کا رومال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا کاروبار پُرانے زمانے کی داستان معلوم ہو رہا تھا، جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فرخت کا قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک اَن گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا اُن کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو اُنگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑجاتا ہے اور اس کے اردگرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سُرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں … ازبیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابلِ قبول عورت ایک اعترافِ شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سِسکیاں لیتی ہے…
سندرلال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا، لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے، لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اُس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا ،کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔
اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندرلال کو جانتی تھی ،اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیرمرد کے ساتھ زندگی کے دن بِتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا؟ سندرلال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئے تھی … عادتاً محض عادتاً —— دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیّاد کے دام سے بھاگ جانے کی آسانی تھی اور وہ سندرلال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق — دائیں بُکل اور بائیں بُکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اب وہ سندرلال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی، ایک اُمید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ —
سندر لال کو دھچکا سا لگا۔ اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھااور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں ۔ وہ موٹی ہوگئی تھی — سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا، وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گُھل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہوچکی ہوگی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہوگی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا ،لیکن وہ چُپ رہا کیونکہ اس نے چُپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا —— لیکن ایک چیز وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولایا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیاتھا۔ وہ غم کی کثرت سے ’’موٹی‘‘ ہوگئی تھی اور ’’صحت مند‘‘ نظر آتی تھی، لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے…‘‘
مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوا۔ لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا —— ’’ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت ——‘‘
اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گُم ہوکر رہ گئی ۔ ان سب آوازوں سے الگ کالکاپرشاد کی پھٹتی اور چلاّتی آواز آرہی تھی۔ وہ کھانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی حقیقت، اس نئی شدھی کا شدّت سے قائل ہوچکا تھا۔ یُوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیا وید، کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنانا چاہتا ہے… ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھِرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جا رہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیّت دیے جانے پر تاسف بھی۔
لاجونتی کے چلے آنے پر بھی سندر لال بابو نے اسی شدّ و مد سے ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھادیا تھا اور وہ لوگ جنھیں سندرلال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی، قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔ مکان 414 کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملاّ شکور کی بہت سی عورتیں سندرلال بابو سوشل ورکر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔
لیکن سندرلال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آچکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندرلال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کرلیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لاجو جو پہلے خوف سے سہمی رہتی تھی، سندر لال کے غیرمتوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھُلنے لگی۔
سندرلال، لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک اَن جانی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی کہ سندرلال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دُھل جائیں۔ لیکن سندرلال، لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کُھل جانے میں بھی ایک طرح سے سِمٹی رہتی۔ البتہ جب سندرلال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندرلال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘ ’’یو نہیں‘‘ ’’اونھوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندرلال پھر اونگھ جاتا… البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندرلال نے لاجونتی کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا ——
’’کون تھا وہ؟‘‘
لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا —— ’’جُمّاں‘‘ —— پھر وہ اپنی نگاہیں سندرلال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندرلال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلارہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کرلیں اور سندر لال نے پُوچھا ——
’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مارتا تونہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں‘‘… اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی … اب تو نہ ماروگے؟‘‘
سندر لال کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا —— ’’نہیں دیوی! اب نہیں … نہیں ماروں گا…‘‘
’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، لیکن سندرلال نے کہا —— ’’جانے دو بیتی باتیں۔ اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا، اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کی من کی من ہی میں رہی۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’’دیوی‘‘ کا بدن ہوچکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ۔ لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔ وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی، جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکاایکی اس کی طرف متوجہ ہوجائے …
جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندر لال بابو نے پھر وہی پرانی بدسلوکی شروع کردی تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ لاجو سے بہت ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی … وہ سندر لال کی، وہ پرانی لاجو ہوجانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندرلال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ — لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے، جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی… اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہوسکتی ہے، پر لاجو نہیں ہوسکتی۔ وہ بس گئی، پر اُجڑ گئی … سندرلال کے پاس اُس کے آنسو دیکھنے کے لیے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لیے کان!… پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّ شکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اُسی آواز میں گاتا رہا ——

’’ہتھ لائیاں کملان نی، لاجونتی دے بُوٹے


 

افسانہ ’’ لاجونتی‘‘ کا تجزیہ
قمر صدیقی

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری کا سب سے روشن پہلو انسانی نفسیات کی تہہ میں کارفرما سماجی و تہذیبی عوامل کی رنگا رنگی ہے۔ اس رنگارنگی کا بنیادی حوالہ اجتماعیت سے نہیں فرد کی ذات سے عبارت ہے۔ فرد کی باہمی وابستگی، رفاقت ، علیحدگی اور رشتوں کی پیچیدگی ان کے افسانوں کا حاوی موضوع ہے۔ بیدی کے افسانوں میں انسانی نفسیات کو ترجیح حاصل ہے لہٰذا ان کے کردار منطقی بنیادوں کے برعکس حسیاتی و جذباتی سطح پر زیادہ فعال نظر آتے ہیں۔
انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ہی ساتھ بیدی کو ازدواجی زندگی کے مسائل پیش کرنے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ ’گرم کوٹ‘، ’ اپنے دکھ مجھے دے دو‘ اور ’لاجونتی‘اس موضوع پر ان کے شاہکار افسانے ہیں۔ تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ’’لاجونتی‘‘ اپنے موضوع کی انفرادیت اور اسلوب و بیان کی شفافیت کی وجہ سے اردو کے اہم ترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ افسانہ کچھ اس طرح ہے کہ لاجونتی کا شوہر سندر لال، اس کے تئیں زیادتیاں کرتا ہے ۔ حتیٰ کے مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ملک کی تقسیم اور اس کے بعد کے حالات میں جس طرح بہت ساری عورتوں کا اغوا ہوا اس میں لاجونتی بھی ایک تھی۔ لاجونتی کے اغوا کے بعد سندر لال میں کئی طرح کی تبدیلیاں پید ہوئیں۔ اسے یہ احساس ہوا کہ لاجونتی کے تئیں اس کا رویہ کس قدر غلط تھا۔ اسی پشیمنانی کے احساس کے چلتے وہ بازیافت کی گئیں مغویہ عورتوں کے گھر دوبارہ بسانے کی تحریک کا روحِ رواں بن گیا۔ اسی بیچ لاجونتی کو بھی مغویہ عورتوں کی ادلا بدلی میں دوبارہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ لیکن اب سندر لال کا رویہ لاجونتی کے تعلق سے ایک شوہر کا نہیں بلکہ سماجی کارکن کا ہوجاتا ہے۔ وہ اُسے دیوی کہہ کر پکارتا ہے۔ اس کا پورا پورا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم لاجونتی تو بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے۔ اُسے سندر لال کا یہ رویہ برداشت نہیں ہے لیکن سندر لال اُس کے اس جذبے سے ناآشنا ہے۔ افسانے کا آخری حصہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو بڑی فنکاری سے پیش کرتا ہے۔ سندر لال اور لاجونتی دونوں کے جذباتی رویوں میں کارفرما سماجی و تہذیبی عوامل کو بیدی نے کمال مہارت سے پیش کیا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی ان ذہین افسانہ نگاروں میں ہیں جومتن سے معنی برآمد کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ایک کہانی میں متعدد کہانیاں بھی پیش کرسکتے ہیں۔ افسانہ ’’لاجونتی‘‘ صرف لاجونتی اور سندر لال کی ہی کہانی ہے بلکہ ملک کی تقسیم کے بعد لاتعداد ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی بھی کہانی ہے۔ اس میں مذکورہ دونوں کردار بھلے ہی مرکزی اہمیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کہانی ایسی ان گنت مغویہ عورتوں کی جذبات و احساسات کی بھی عکاس ہے جو اس کربناک دور سے گزریں:
’’مغویہ عورتوں میں کچھ ایسی بھی تھیں جن کے شوہر ، جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مرکیوں نہ گئیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انھیں نہیں پہچانتے۔‘‘
( اپنے دکھ مجھے دے دو۔ از: راجندر سنگھ بیدی ۔ص: ۱۷۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔ ۱۹۶۵)
یا
’’تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہاری چلّا دینا چاہتا پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کر نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔‘‘
( اپنے دکھ مجھے دے دو۔ از: راجندر سنگھ بیدی ۔ص: ۱۸۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔ ۱۹۶۵)
یہاں یہ افسانہ صرف سندر لال اور لاجونتی کا قصہ نہیں بیان کررہا ہے بلکہ دکھ کی ماری اُن تمام ابلا عورتوں کی روداد پیش کررہا ہے جو وقت کی اس بھیانک ستم ظریفی کا شکار ہوئیں۔بلوائیوں کی گرفت سے رہا ہونے کے باوجودنام نہاد خاندانی ، قومی اور ملی غیرت کے نام پر ان عورتوں کو وقت کے رحم و کرم پر پل پل سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑدیا گیا۔
بیدی کے افسانوں کا اسلوب اپنے دیگر معاصرین سے بالکل جداگانہ ہے۔ ان کا اسلوب اپنے کسی معاصر افسانہ نگار سے متاصدم و متاثر نہیں ہوتا۔ ان کا انداز منٹو کی طرح دوٹوک اور عصمت کی طرح بولڈ نہیں ہے اور نہ ہی کرشن چندر کی طرح شاعرانہ نثر کا حامل ۔ وہ اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات نیز اس کے گرد و پیش کے حالات و واقعات کی عکاسی میں حقیقت نگاری اور جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔ بیدی کے افسانے خاص طورسے اُن کی انسانی نفسیات کے گہرے شعور کا احساس دلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اُن کے افسانوں کے بیشتر کرداروں کی تفہیم جذباتی و نفسیاتی رویوں کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ’’لاجونتی‘‘ میں لاجونتی شوہر کے مظالم کا شکار ہے۔ لیکن اسی شوہر کا ہلکا سا التفات پاکر وہ دوبارہ اس سے پہلے سی محبت کرنے لگتی ہے۔ وہ ایک روایتی بیوی کی طرح شوہر کے تمام مظالم کو عورت کا مقدر تسلیم کرتی ہے۔ دراصل اس کی تربیت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی ہے جہاں شوہر کی حاکمیت اور بالادستی سماجی اور کسی حد مذہبی نظریے کا درجہ رکھتی ہے:
’’ چونکہ وہ دیر تک اداس نہ بیٹھ سکتی تھی اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرا دینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اٹھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔’’ پھر مارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی۔۔۔۔۔‘‘ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ایک دم ساری مار پیٹ بھول چکی ہے۔ گائوں کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں بلکہ عورتوں میں کوئی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کر کہتیں ۔۔۔۔۔’’ لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا ؟ عورت جس کے قابو میں نہیں آتی۔‘‘
( اپنے دکھ مجھے دے دو۔ از: راجندر سنگھ بیدی ۔ص: ۱۲۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔ ۱۹۶۵)
بیدی کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں کی بنت میں تہذیبی رنگارنگی ہوتی ہے۔ یہ رنگارنگی اُس ہندوستانی تہذیب سے عبارت ہے جو کثرت میں وحدت کی جلوسامانیاں پیش کرتی ہے۔ اسی لیے ان کے افسانوں کی تہذبی فضا میں مصنوعی پن نہیں جھلکتا۔ ان کے افسانے ہمارے اِرد گرد کے افسانے لگتے ہیں۔ ان کے کردار ہماری اپنی دنیا اور ہماری آس پاس کی زندگی میں چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔وارث علوی نے بیدی کی اس خوبی ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ :
بیدی کے افسانوں میں ہندوستان کی روح جاگتی ہے۔ ان کے افسانوں میں اس دھرتی کی بوباس بسی ہوئی ہے اور اس زمین کے رسم و رواج، عقائد اور توہمات سے افسانوں کو رنگ و آہنگ ملتا ہے۔ بیدی کی کوئی کہانی مستعار نہیں معلوم ہوتی۔ کسی کہانی کی تہذیبی فضا مصنوعی نہیں لگتی۔‘‘
( راجندر سنگھ بیدی ۔ از: وارث علوی۔ ص: ۵۹ ۔ تخلیقار پبلیکشنز۔ نئی دہلی)
بیدی کے افسانوں میں ان کا تاریخی شعور اور فلسفیانہ نقطۂ نظر بھی شفافیت کے ساتھ پیش ہوا ہے۔ حالانکہ اس کا احساس متن کی ظاہری قرأت سے ذرا کم کم ہی ہوپاتا ہے لیکن جب ہم افسانے کی Close Readingکرتے ہیں تو یہ احساس بین السطور میں اپنے جلوے بکھیرتا نظر آجاتا ہے۔ ویسے بھی بیدی کے افسانوں میں اصل فن متن کی اوپری سطح پر نہیں بلکہ متن کے اندر کسی موجِ تہہ نشیں کی طرح ہلچل اور تلاطم کو پیش کرتا ہے۔
’’ آج بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا۔ اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے۔ اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی مائوں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کا شکار نہ تھی۔ اس میں سیتا کے ستیہ اور استیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے تھا۔‘‘
( اپنے دکھ مجھے دے دو۔ از: راجندر سنگھ بیدی ۔ص: ۱۴۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔ ۱۹۶۵)
زبان و بیان اور تکنیک کے اعتبار سے بیدی کا کوئی افسانہ ایسا نہیں ہے جس پر انگلی رکھی جاسکے۔ انھوں نے تقریباً ۷۰ افسانے لکھے ہیں لیکن لگ بھگ سارے ہی افسانے زبان و بیان پر بیدی کی قدرت کے غماز ہیں۔ افسانہ ’’لاجونتی‘‘بھی میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔
بیدی کے افسانوں میں مختلف تہذیبی و تمدنی مظاہر افسانے کے فنی نظام میں اس طرح مدغم ہوجاتے ہیں کہ ان کے پختہ سماجی شعور کے ساتھ ہی ساتھ افسانے کے فن پر ان کی گرفت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ وہ سماجی حقیقت نگاری کے لیے علامتی و اساطیری ، استعاراتی و تخیل آفریں اسلوب کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے بیدی ایک رجحان ساز افسانہ نگار قرار پائے۔ بشمول افسانہ ’’لاجونتی‘‘ ان کے کئی افسانے بعد کے افسانہ نگاروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ خاص طور سے ان کے علامتی اور اساطیری اسلوب کی تقلید جدیدیت کے زمانے میں بہت زیادہ دیکھنے کو ملی۔ جدید افسانے کے ممتاز لکھنے والے مثلاً انتظار حسین ، اسد محمد خاں وغیرہ نے اس اسلوب سے خوب خوب استفادہ کیا۔


قمر صدیقی سہ ماہی رسالہ ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی ویب پپورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ کے مدیر ہیں

قمر صدیقی سے رابطہ:

urduchannel@gmail.com

09773402060

 

 

Articles

نجیب محفوظ کی ادبی زندگی اورنوبل پرائز

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

نجیب محفوظ 11 /دسمبر1911 سے 30/ اگست2006
نجیب محفوظ ایک مصری مصنّف ہیں جنھیں 1988 میں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔توقیق الحکیم کے ساتھ ساتھ نجیب محفوظ ایک ایسے عربی مصنف ہیں جنھوں نے وجود کے نظریے پر بات کی ہے۔نجیب محفوظ نے اپنے 80 سالہ کرئیر میں 5ڈرامے،بےشمار فلمی اسکرپٹ، 350 سے زائد کہانیاں اور 34 ناول شائع کئے ہیں ۔ مصری اور بیرونی فلموں میں نجیب محفوظ کی تحریروں کا سہارا لیا گیا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمEarly life and education
نجیب محفوظ کی پیدائش قاہرہ کے ایک نچلے متوسط طبقے میں ہوئی۔وہ پانچ بھائیوں اور دو بہنوں کے خاندان میں ساتویں نمبر پر تھے۔یہ خاندان دو مشہور شہروں میں رہا۔ پہلے الغمالیہ، اسکے بعد 1942 میں یہ عباسیہ منتقل ہوگیا۔اور آخر کار قاہرہ کے نئے مضافات میں سکونت اختیار کرلی۔یہیں نجیب محفوظ نے اپنی بیشتر تخلیقات مکمل کیں۔اپنے والد کی طرح نجیب محفوظ نے بھی سرکاری ملازمت اختیار کی۔وہ حافظ نجیب، طحہ حسین اور سلامہ موسیٰ سے کافی متاثر تھے۔1919 کے انقلابِ مصر نے نجیب محفوظ پر گہرا اثر ڈالا۔سکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد نجیب محفوظ کو کنگ فہد یونیورسٹی میں داخل کردیا گیا۔جسے آج قاہرہ یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔یہاں انھوں نے 1934 میں فلسفے سے گریجویشن پھر 1936 میں پوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔اُس کے بعد انھوں نے ایک پیشہ ور مصنف بننے کا ارادہ کرلیا۔بطور جرنلسٹ نجیب نے الہلال اور الحرم نامی رسالے میں کام کیا۔ The Satanic Verses کے شائع ہوتے ہی نجیب کے ناول Children of Gebelawi کا تنازعہ دوبارہ زندہ ہوگیا۔ اور محفوظ کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔1994 میں اسلامی بنیاد پرست ایک 82 سالہ مصنف کو قاہرہ میں اُسی کے گھر کے سامنے گردن پر چھرا مارنے میں کامیاب ہوگئے۔نجیب اس حملے میں بچ تو گئے لیکن اُن کے سیدھے ہاتھ کی رگیں مستقل طور پر متاثر ہوگئیں۔اس حادثے کے بعد محفوظ چند منٹ سے زیادہ لکھنے کے قابل نہ رہے۔اس طرح سے اُن کی تحریریں کم سے کم تر ہوتی گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اہرامِ مصر کے سائے میں جس طرح ہزاروں سال کی آسیب زدہ تاریخ کروٹیں لیتی ہے۔جس کے باطن کی بھول بھلیّوں میں سربستہ اسرار روز کسی نئی کہانی کے تہہ خانے کی سیڑھیوں سے کوئی اینٹ سرکا دیتے ہیں اور کوئی خوفزدہ کرنے والا شگون جاگ اٹھتا ہے۔ مصر میں ایک اُس سے بھی عظیم تر بُرے شگون کا ایک دائرہ ہے جس نے نجیب محفوظ جیسا عظیم قلمکار تاریخ کے سپرد کردیا۔ قاہرہ کے حالا برج کا وہ سبز لان جہاں قاہرہ کے کچھ اہلِ قلم نوجوان سال ہا سال تک گھاس پر ایک دائرے کی صورت میں بیٹھتے تھے اُس بیٹھک کا نام انہوں نے بُرے شگون کا دائرہ رکھا تھا۔اہلِ مصر نجیب محفوظ کو اُسی برے شگون کے دائرے کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔
نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز سلامہ موسیٰ کے میگزین “المجلہ الجدید “سے کیا۔ اِ س میں اُن کی پہلی تحریر شائع ہوئی ، یہ اُن کے مزاج میں ترقی پسندی کے رجحان کاپہلا اعلان تھا۔اگرچہ کہ 1939میں اُن کی شائع ہونے والی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں ہیں۔مگر وہاں ترقی پسندی کے جراثیم کسی خوردبین کے بغیر بھی نظر آتے ہیں۔ 1945میں جب اُن کا پہلا ناول خان الخلیلی شائع ہوا تب پوری عرب دنیا میں ایک ناول نگار کے طور پر اُن کی حیثیت تسلیم کرلی گئی۔مگر خود اپنے ملک مصر میں انہیں اُس وقت تسلیم کیا گیاجب 1957جب اُن کی ایپک قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار المیہ کہانیوں کی اشاعت ہوئی۔تین ہزار صفحات پر مشتمل اِس جنگ نامے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی عکّاسی کی گئی ہے۔ اس ایپک کے شائع ہوتے ہی انھیں نوجوان نسل کا بہت بڑا ناول نگار قرار دیدیا گیا۔یہ دراصل تین باہم مربوط ناول ہیں پہلے ناول کا نام Palace Walkمحل کی سیردوسرے ناول کا نام Palace of Desireخواہشات کا محل اور تیسرے ناول کا نام Sugar Streetچینی گلی ہے۔اُن کی تخلیقات کے انگریزی، فرانسیسی، روسی، جرمن اور اردو زبان میں تراجم ہو چکے ہیں۔حقیقی طور پر دنیا اُن کی طرف اُس وقت متوجہ ہوئی جب 1988میں انھیں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔
نجیب محفوظ کی تخلیقات کو مشرق و مغرب کے درمیان رابطے کا پل بھی کہاجاسکتا ہے۔اُن کی تخلیق کی اِسی خصوصیت نے انھیں نوبل انعام کا حق دار بنا دیا۔ پرل ایس بک کو بھی نوبل انعام اسی وجہ سے ملا تھا۔اُس کا بھی تما م تخلیقی کام مشرق و مغرب کے اتصال سے نمو پذیر ہوتا ہے۔وہ بھی دو تاریخوں کی مورخ تھی ، دو تہذیبوں کی کہانی کار تھیں۔دو ثقافتوں کو ساتھ لیکر چلتی تھیں، دو فکری دھارے اُس کی شخصیت میں ایک ہوجاتے تھے۔ بالکل اُسی طرح جیسے نجیب محفوظ کے یہاں آکر مابعد الطبیعیات اور سائنسی سماجیات آپس میں گھل مل گئی ہیں۔
ایک اہم ترین بات نجیب محفوظ کے حوالے سے یہ ہے اور جس سے کوئی لکھنے والا صرف نظر نہیں کرسکتاکہ جس کام پر انھیں نوبل پرائز دیا گیا وہ اُن کا تیس سال پرانا کام تھا۔کیا اہلِ مغرب کو نجیب محفوظ کو سمجھنے میں تیس سال لگ گئے تھے یا نوبل پرائز دینے والوں نے جو معیار مقرر کر رکھا تھا اُس پر پہنچتے پہنچتے نجیب محفوظ کو تیس سال لگ گئے تھے۔اُن کا ناول The Children of Gebelawiجبلاوی کی اولاد، مذہبی نقطہءنظر سے بہت متنازعہ ناول ہے۔اُس کے قسط وار شائع ہونے پر مذہبی حلقوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔کسی انتہا پسند نے انھیں قتل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔جامعہ الازہر نے 1959میں اُن کے ناول پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی کہ اُن میں پیغمبر اور خدا، کرداروں کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔نجیب محفوظ نے اِس کے جواب میں جو کالم لکھا تھا اُس میں دوسرے حوالوں کے ساتھ علامہ اقبال کے فارسی مجموعہ کلام جاوید نامہ کا حوالہ دیا تھاجس میں اقبال نے اپنی شاعری میں جنّت و دوزخ کی ڈرامائی تشکیل کی ہے۔
نجیب محفوظ بےشک بیسویں صدی میں عربی ادب کے افق پر سب سے بڑی شخصیت تھے۔ اُن کے کام میں جس بات نے انھیں سب سے زیادہ ممتاز رکھا وہ اپنی زمین کے ساتھ اُن کی وابستگی تھی۔ قاہرہ اُن کے رگ و پے میں خون بن کر ڈوڑتا تھا۔ انھوں نے قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کی جس انداز میں عکّاسی کی ہے وہ کمال اُن ہی پر ختم ہوجاتا ہے۔انہوں نے قاہرہ کی گلیوں میں جاگتی ہوئی زندگی کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھال کر یوں زندہ و جاوید کردیا ہے کہ وقت چاہے اُن گلیوں کو کھنڈرات میں ہی کیوں نہ بدل دے وہ آنکھوں کو آباد دکھائی دیتی رہیں گی۔وہ صاحبِ اسلوب نثر نگار تھے۔ اُن کا اسلوبِ نگارش اُن کی تحریر کی تہہ داری سے جنم لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔محفوظ کا نثر اُس کے خیال کی صاف صاف پیروی کرتا ہوا نظر آتاہے۔
Washington Post کا ماننا ہےکہ
“Throughout Naguib Mahfouz’s fiction there is a pervasive sense of metaphor, of a literary artist who is using his fiction to speak directly and unequivocally to the condition of his country. His work is imbued with love for Egypt and its people, but it is also utterly honest and unsentimental.”
محفوظ کا پورا فکشن ہمیں ایک ایسے ادبی فنکار کا دلوں میں سرایت کرجانے والا استعارہ نظر آتا ہے جو غیر مشکوک طریقے سے اپنے فکشن میں بلاواسطہ اپنے ملک کے حالات کی عکاسی کرتا ہو۔اُس کی تحریریں مصر اور اُس کے لوگوں کی محبّت سے بھری ہوئی ہیں۔لیکن یہ مکمل طور پر ایماندارانہ اور غیر جذباتی ہے۔”
نجیب محفوظ کے یہاں بےشمار موضوعات ہیں۔جن میں socialism, homosexuality اور خدا بھی شامل ہے۔ اِن میں سے کچھ موضوعات مصر میں ممنوع قرار دئیے گئے ہیں۔اپنی تخلیقات میں محفوظ نے بیسویں صدی میں مصر کی ترقی اور مشرق و مغرب کے ذہنی اور تہذیبی ارتباط کا ذکر کیا ہے۔جوانی کے دور ہی سے محفوظ، مغربی جاسوسی کہانیوں، روسی داستانوںاور جدید مصنفین سے متاثر تھے۔ Kafka، James Joyceکا شمار انہی مصنفین میں ہوتا ہے۔محفوظ کی کہانیوں کا محلِ وقوع مصر کے شہری کوارٹر ہوتے ہیں جہاںعام انسان اُس کے کردار ہیں جو جدیت سے مقابلہ آرائی اور مغربی لالچ کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
Newsweekکا کہنا ہے کہ
“The alleys, the houses, the palaces and mosques and the people who live among them are evoked as vividly in Mahfouz’s work as the streets of London were conjured by Dickens.”
“گلیاں، گھر، محلّات، مساجداور اُن میں رہنے بسنے والے لوگ محفوظ کی تخلیقات میں اُسی طرح روشن نظر آتے ہیں جس طرح Dickensکی تحریروں میں لندن کی گلیوں میں لوگ نظر آتے ہیں۔”
۰۶ اور ۰۷ کی دہائی میں محفوظ نے آزادانہ طور پر ناول لکھنا شروع کیا۔ Miramar (1967)میں لکھے گئے ناول میں ایک سے زائد راویوں multiple first-person narration.کا تجربہ کیا۔ یہاں چار راوی الگ الگ طرز پر سیاسی خیالات بیان کرتے ہیں۔کہانی کے وسط میں ایک خوبصورت لڑکی کو بطور نوکرانی رکھا گیا ہے۔ محفوظ کی زیادہ تر تخلیقات کا تعلق سیاست سے ہے۔انھیں خود اِس بات کا اقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
“تمھیں میری تمام تحریروں میں سیاست ملےگی۔ تمھیں ایسی کہانی تو مل سکتی ہے جو محبّت یا کسی اور موضوع کو نظر انداز کردے مگر سیاست کو نہیں۔ یہ ہماری سوچ کا بنیادی محور ہے”
اپنی بےشمار تخلیقات میں محفوظ نے مصری قومیت کی زوردار حمایت کی ہے اور عالمی جنگوں کے بعد کے دور پر ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔ جوانی کے دور میں وہ سماجی اور جمہوری رجحانات سے بھی کافی متاثر تھے۔Khana Al-Khalili اور اُس کے بعد کی کچھ تخلیقات میں ہمیں اُن کے سماجی رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔جمہوریت اور شوشلزم کی تعریف اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ اخوان المسلمین کے ذریعے پھیلائی گئی مذہبی شدت پسندی سے نفرت کرتے تھے۔اپنی تحریروں میں انھوں نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔اور پہلے دو ناول میں شوشلزم کے فوائد اور مذہبی شدت پسندی کے نقصانات بتانے کی کوشش کی ہے ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں نے جو کام کیا اُسے کلیات کے طور پر پانچ جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔ مگر یہ اُن کا آدھا کام بھی نہیں ہے۔انھوں نے نے اپنے ۰۷ سالہ کرئیر میں ۵ ڈرامے،بےشمار فلمی اسکرپٹ، ۰۵۳ سے زائد کہانیاں اور ۴۳ ناول شائع کئے ہیں ۔
نوبل پرائز
نوبل پرائز سویڈن کے نامور سائنسداں الفریڈ نوبل سے منسوب ہے جن کے دم سے آج دنیا ڈائنامائٹ جیسی نعمت سے لطف اندوز ہو رہی ہے ۔ نوبل پرائز خواہ امن کے لئے ہو یا ادب کے لئے بارود سے اِس کا گہرا رشتہ ہے۔
محفوظ کو ۸۸۹۱ میں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔وہ اکیلے ایسے عرب مصنف ہیں جنھیں اِس اعزاز سے سرفراز کیا گیاانعام حاصل کرنے کے فوراً بعد محفوظ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ
“The Nobel Prize has given me, for the first time in my life, the feeling that my literature could be appreciated on an international level. The Arab world also won the Nobel with me. I believe that international doors have opened, and that from now on, literate people will consider Arab literature also. We deserve that recognition.”
“نوبل انعام مجھے دےدیا گیا میری زندگی میں پہلی مرتبہ ادب کے تعلق سے میرے جذبات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ۔میرے ساتھ ساتھ عرب دنیا نے بھی نوبل انعام حاصل کرلیا۔میرا یقین ہے کہ بین الاقوامی دروازے کھل چکے ہیں اور اب تعلیم یافتہ لوگ ادبِ عرب پر بھی غور کریں گے۔ہم اِس شناخت کی اہلیت رکھتے تھے”
نجیب محفوظ کو نوبل انعام سے سرفراز تو کردیا گیا لیکن یہ انعام اپنے پیچھے بےشمار سوالات چھوڑ گیا۔مثلاً نوبل پرائز کا اسلام فوبیا سے کیا تعلق ہے۔اور مسلم ممالک میں جن شخصیات کو ابتک اس باوقار انعام سے سرفراز کیا گیا اُن کی مشترکہ خصوصیات کیا تھیں۔ انور سادات، نجیب محفوظ، یاسرعرفات، ڈاکٹر احمد زویل،ڈاکٹر محمد البرادعی، وی۔ایس۔نائپول اور اورھان باموک کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا جن کی بودوباش مسلم ممالک میں تھی۔ لیکن یہ تمام صاحبِ اعزاز مسلم مخالف رویے کے لیے کافی مشہور ہیں۔انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رو سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیا۔یاسر عرفات اوسلو پیکٹ کے سبب بدنام ہوئے جسے عام فلسطینی فلسطین کی فروخت مانتے ہیں۔ڈاکٹر احمد زویل کی پیدائش مصر میں ضرور ہوئی لیکن اِن کی مکمل خدمات امریکہ کے لئے وقف تھیں آپ نے نہ کبھی مصر اور نہ ہی کسی دوسرے اسلامی ملک کے لئے کوئی خدمت انجام دی۔کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اسرائیل کی میزائل ٹکنالوجی میں بھی آپ نے مدد کی۔مصر ہی کے ڈاکٹر محمد البرادعی IAEA کے دو مرتبہ ڈائرکٹر رہے ، عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں اِس ادارے کی ابتدائی رپورٹس نے اہم ترین کردار ادا کیا۔وی ایس نائپول اسلام کو استعمار سے بھی بدتر کہتا ۔اس کے نزدیک اسلام فرد کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے۔نائپول کے ناولوں کا مستقل موضوع اسلام اور مسلم شخصیات پر کیچڑ اچھالنا ہے اُس کی نظر میں بابری مسجد کا سانحہ درست ہے۔اورہان باموک ترکی میں پیدا ہوئے لیکن وہیں کی حکومت پر بےشمار ناجائز الزامات عائد کئے۔
جہاں تک نجیب محفوظ کا تعلق ہے وہ اپنے استاد سلامہ موسیٰ کے افکار سے حد درجہ متاثر تھے اور سلامہ موسیٰ کی عربوں سے نفرت چھپی ہوئی نہیں ہے۔ سلامہ موسیٰ مغرب سے نسبت جوڑنے میں اور مصر میں مغربی تہذیب کا بیج بونے میں سب سے نمایاں نام ہے۔نجیب محفوظ اُس سے بھی ایک قدم آگے مصر کا رشتہ عربوں اور اسلام سے توڑتے ہوئے فرعونی تہذیب سے جوڑنے میں سب سے بڑا نام ہے۔جس وقت نجیب محفوظ کو ادب کے نوبل پرائز کے لئے منتخب کیا گیا تھا اُس وقت فرعونی تہذیب کے احیا میں سب سے اونچی آواز نجیب محفوظ کی ہوا کرتی تھی۔نوبل پرائز کے انتخاب تک نجیب محفوظ کا تخلیقی کام مصر اور عربی اخلاقیات کی قدروقیمت گھٹانے تک محدود تھا ۔ وہ اِس بات کے داعی تھے کہ انسان پر اخلاقی پابندیاں نہیں ہونی چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ
اِنّہُ لیس من مصلحة الانسان اَن یعیش فی قفص من الواجبات الاخلاقیة
یہ بات انسان کی بھلائی میں نہیںکہ وہ اخلاقی اقدار کی بہت سی پابندیوں کے قید خانے میں دب کر زندگی گذارے۔
مسئلہءفلسطین کے لئے نجیب کے پاس کوئی حل نہیں ہے بلکہ کہ اُن کی رائے سے فلسطین کے کاز کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے وہ خود کہتے ہیں کہ میں انور سادات سے پہلے ہی کیمپ ڈیوڈ طرز کے کسی معاہدے کا خواہش مند تھا۔مصر اسرائیل معاہدہ طئے پانے میں نجیب کے بیانات کافی اہمیت رکھتے ہیں۔نجیب محفوظ کا ناول اولاد ِحارتنا جس پر انہیں نوبل پرائز دیا گیا بذاتِ خود سیکڑوں تنازعات کا شکار ہے۔نجیب محفوظ کے پورے کام میں یہودیوں پر کہیں کوئی تنقید نہیں ملتی ، جہاں تک اُن کی تعریف کا تعلق ہے تو وہ واضح طور پر خان الخلیلی، زقاق المدق جیسے ناولوں میں موجود ہے۔
یقیناً نجیب محفوظ ایک بڑے فنکار، زبردست نثر نگار اور بے پناہ صلاحیتوں کے حامل موّرخ بھی ہیں لیکن اِن حالات میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قابلیت کے ساتھ ساتھ نوبل پرائز کا دوسرا معیار کیا ہے۔


تدوین و تہذیب: ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر, نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Naguib Mahfouz by Qamar Siddiqui

Articles

معنی کے طرزِ وجود کا فکشن نگار: نجیب محفوظ

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

نجیب محفوظ نے اپنی ادبی زندگی کا آغازمعروف عربی جریدے ’المجلہ الجدید‘، مصر سے شروع کیا تھا۔ اس میں شائع ہونے والی تحریریں ترقی پسند نظریات سے نجیب کی وابستگی کا اعلان نامہ تھیں۔اگرچہ ابتدائی دورمیں شائع ہونے والی ان کی تین سلسلہ وار کہانیاں فرعونوں کی تاریخ کے پس منظر میں تحریر کی گئی تھیں تاہم اُن کہانیوں میں بھی مارکسی اثرات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب نجیب محفوظ نے اعلان کیا تھا کہ وہ سائنس، سوشلزم اور برداشت میں یقین کرنا سیکھ رہے ہیں۔ بعد ازاں نجیب سر رئیلسٹ فکشن نگاری کی طرف ملتفت ہوگئے ۔بعض ناقدین نے سر ریئلزم سے نجیب کے اس التفات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ۔ حتیٰ کہ انھیں قنوطیت پسند فکشن نگار کے لقب سے بھی نوازا گیا:
’’نجیب محفوظ نے اپنی سوشلسٹ آیڈیالوجی سے ہٹ کر گہری قنوطیت کی راہ اختیار کر لی اور اپنے ارد گرد برے شکون کا دائرہ کھینچ لیا۔‘‘
( ایڈرورڈ بون ۔ ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ۔ ص: ۹دسمبر ۔ ۱۹۹۰ء)

لیکن نجیب اپنے اِس اسلوب پر کاربند رہے۔بطور ایک سر رئیلسٹ فکشن نگار انھوں نے اپنی کہانیوں میں تصوف اور مابعدالطبعیاتی تجربات کو کامیابی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی۔انہوں نے اپنی گویائی وہاں سے شروع کی جہاں سائنس خاموش ہوجاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے ایسی کہانیاں تحریر کہیں جن میں سائنسی سماجیات اور روحانیت کسی حدتک آپس میں ہم آغوش ہیں۔1945ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا ناول ’خان الخلیلی‘ اسی کشمکش کی عکاس ہے۔اِس ناول کی اشاعت کے بعد نجیب محفوظ کو عرب دنیا میں ایک ناول نگار کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ البتہ اُن کے ملک مصر میں انھیں ایک ممتاز فکشن نگار کی حیثیت اُس وقت حاصل ہوئی جب ۱۹۵۷ء میں تین ہزار صفحات پر مشتمل اُن کی مشہور رزمیہ تصنیف ’’قاہرہ سے متعلق تین سلسلہ وار ڈرامے‘‘کی اشاعت ہوئی۔ یہ رزمیہ دراصل تین سلسلے وار ناول ہیں۔ پہلے ناول کا نام ہے ’ محل کی سیر Walk Palace The ، دوسرے ناول کا نام ہے ’ خواہشات کا محل‘ Palace of Desir اور تیسرے ناول کا نام ہے ’چینی کی گلی ‘ Sugar Street ۔تین ہزار صفحات کا احاطہ کرنے والے اس رزمیے میں قاہرہ کی مڈل کلاس زندگی کے سماجی اور ثقافتی پہلوؤں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ رزمیے کی اشاعت کے بعد نجیب کو مصر میں نوجوان نسل کا ایک بڑا ناول نگار قرار دیا جانے لگا۔ البتہ عرب دنیا سے باہر نجیب کی شناخت ۱۹۶۰ء کے بعد قائم ہونی شروع ہوئی جب ان کی تصنیفات کے انگریزی، فرانسیسی ، جرمن ، اردو اور روسی زبانوں میں تراجم ہونے شروع ہوئے۔ نجیب کی اِس شہرت کو ۱۹۸۸ء میں ادب کا نوبل پرائز ملنے کے بعد گویا پَر لگ گئے اور وہ پوری دنیا میں عظیم ناول نگار تسلیم کیے جانے لگے۔
نجیب محفوظ روایتی فکشن نگار نہیں ہے اور روایتی ذہن کے ساتھ نجیب کی تحریروں کی قرأت عموماً ترسیل کی ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔ دراصل نجیب معنی کی ترسیل کا نہیں بلکہ معنی کے طرزِ وجود (یعنی Ontology) کا فکشن نگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحریریں مثلاً شوگر اسٹریٹ وغیرہ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں باب در باب معنی کی تعمیر نہیں بلکہ معنی کے انہدام کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔دراصل اس ناول میں معنی خیزی کا منبع اِس کے قصے سے ماورا ،اِس کے اجزا کے باہمی ارتباط کا مرہون منت ہے۔ نجیب نے جن جگہوں، عمارات اور اشخاص کا ذکر اِس ناول میں کیا ہے غور کریں تووہ اِس ناول کی بافت یا فریم سے باہر اپنی اُس معنویت سے محروم ہوجاتے ہیں ، جو انھیں مذکورہ ناول میں حاصل ہے۔ یعنی ناول سیاق سے باہر قاہرہ وہ قاہرہ نہیں رہتا جو کہ ناول میں ہے۔ یا پھر کردار اور معاشرہ کے تعلق سے گفتگو کریں تو اس ناول میں جو ایک بھرا پُرا خاندان ہے اُس کی معنویت کا تعین ناول کے فریم اور اُس کے متن سے باہر شایدہی ممکن ہوسکے۔ لہٰذا ناول شوگر اسٹریٹ کو اس کے متن سے باہر نکل کر سمجھ پانا قدرے مشکل ہے۔
اسی طرح نجیب کا ایک پیچیدہ افسانہ ’’وقت اور مقام‘‘ ہے۔ اس افسانے میں پیچیدگی شاید اس لیے در آئی ہے کیوں کہ افسانے میں ایک ہی سطح پر دو زمانوں کو پیش کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔ جس میں مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی ہیں۔افسانہ کا قصہ کچھ یوں ہے کہ راوی ،اس کا ایک بھائی اور ایک بہن مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنے آبائی مکان کو فروخت کرکے وہ ایک آرام دہ فلیٹ میں منتقل ہوجائیں۔ اس بیچ راوی اپنے آبائی مکان میں ایک میٹا فیزکل تجربے سے گزرتا ہے۔ اسے ایک ایسا شخص دکھائی دیتا ہے جو اس کا ہم شکل ہے ۔ ایک بوڑھا شخص راوی کے اُس ہم شکل کو ایک صندوقچی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ چونکہ اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے اس لیے وہ اِس صندوقچی کو کسی مناسب مقام پر دفن کردے اور وقت آنے پر اسے نکال کر اس میں لکھی ہدایات پر عمل کرے۔ راوی کو یہ سب خواب جیسا معلوم ہوتا ہے۔ تاہم تلاش کے بعد راوی وہ جگہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں واقعی صندوقچی دفن ہوتی ہے۔اُس کے تحیر کا ٹھکانہ نہیں رہتا اور وہ اپنے بھائی اور بہن کے مکان فروخت کرنے کے فیصلے سے خود کو الگ کرلیتا ہے۔ وہ صندوقچی کھول کر اُس میں پڑے کاغذ کے پرزے کی ہدایت پر عمل کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ ‘‘ خط میں پیر عارف البلقانی کے گھر کا پتہ بھی درج ہے۔ راوی خط پڑھ کر عارف البلقانی کے مکان کو تلاش کرتا ہوا پتے تک پہنچتا ہے۔ وہ مکان پولیس کی نگرانی میں ہے ۔ راوی کے وہاں پہنچنے پر اُسے گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔مکان میں پہلے سے ہی ایک شخص قید ہے ۔ پولیس راوی کواُس کا گرگا تسلیم کرکے جیل میں ٹھونس دیتی ہے۔
اس طرح کے افسانوں کے لیے جس نوع کی فن کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے تعلق سے پروفیسر قاضی افضال حسین نے تحریر کیا ہے کہ :
’’اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے کا فن ہے، اس لیے نہیں کہ اس میں بیان کردہ واقعات ’’سچے‘‘ نہیں ہوتے ؍ ہوسکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار ، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص زمانی یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے، جس کا تعلق ماضی بعید سے ہوتو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یہ یقین دلا دے کہ وہ ’’فرضی‘‘ کہانی نہیں سنا رہا ، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کررہا ہے۔ اس نوع کے تاریخی افسانے کی سب سے آسان ترکیب یہ ہوتی ہے کہ بیان میں ماضی کے ایک زمانے میں ایک مخصوص جگہ، موجود افراد ؍ تعمیرات کے اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ شامل کردیا جائے۔ اِن اسماء یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت ، یعنی اُس کی لسانی تشکیل ہونے پر دبیز پردے ڈال دیتا ہے۔ قاری پر افسانہ نگار کے اس فریب کا راز نہیں کھلتا اور ہم ایک صاف ’’جھوٹ‘‘ کو بے ملاوٹ ’’صداقت ‘‘ سمجھ کر پڑھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘

(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۲۵۳۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۲۰۰۹ء)

افسانے کی بُنت میں نجیب نے مذکورہ بالا فنی چالاکیوں سے کام لیتے ہوئے ایک ایسا بیانیہ خلق کیا ہے جس میں جگہ جگہ سر ریئلزم کے رنگوں کی چھاپ بھی نظر آجاتی ہے۔ ایک نامانوس اور تحیر خیز کیفیت سے شروع ہونے والے اس افسانے کا اختتام مانوس مگر ناپسندیدہ ماحول پر ہوتاہے۔ مثلاًافسانے کا ابتدائی حصہ ہے کہ :
’’ ہماری بیٹھک نجانے کہاں کھو گئی اور اس کی جگہ ایک لمبے چوڑے دالان نے لے لی۔ جس کا دوسرا سرا چوک کی موٹی سفید دیوار تک جا پہنچا تھا۔ دالان میں کہیں گول گول اور کہیں دوج کے شکل میں گھاس اُگی ہوئی تھی اور درمیان میں ایک کنواں تھا ۔ کنویں سے کچھ فاصلے پر کھجور کا ایک اونچا درخت تھا۔ میں دو احساسات کے بیچ جھولنے لگا۔ کبھی لگتا کہ کچھ ایسا دیکھ رہا ہوں جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ کبھی لگتا کہ ان میں کچھ بھی میرے لیے ان دیکھا نہیں ہے۔مدھم ہوتی ہوئی روشنی سورج کے غروب ہونے کا اشارہ کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی کنویں اور کھجور کے درخت کے بیچ ایک ادھیڑ آدمی بھی آن کھڑا ہوا جو قطعی میری پوشاک پہنے ہوئے تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اُس ادھیڑ شخص کو ایک چھوٹی سی صندوقچی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ :’’اس زمانے میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسے زمین میں گہرا گاڑ کر چھپا دے۔ صحیح وقت آنے پر نکالنا۔‘‘

(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۹۸۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء
)
خواب اور واہمے کے درمیان کی کیفیت کے اِس ابتدائی بیانیے کے بعد اس

افسانے کا اختتام بھی ملاحظہ فرمانے کی زحمت کریں :
’’خاموشی کی دبیز چادر ہم پر چھاگئی۔ میں نے نئے مکان میں بیٹھے ہوئے اپنے بھائی ، بہن کا تصور کیا اور پرانے مکان میں بنے ہوئے گڑھے ، کنویں اور کھجور کا بھی۔ ساری چیزیں میرے سامنے اس طرح پیش ہوئیں جیسے میں اس کے اندر ہوتے ہوئے بھی ان کو باہر سے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ مگر کوئی میری او‘ر نہیں گھوما ۔کسی نے خاموشی نہیں توڑی۔‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۲۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )

افسانے کے ابتدائی اور اختتامی حصوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کسی قدر واضح ہوتی ہے کہ افسانے کی تفہیم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اُسے پہلے سے رائج تصورات کی مدد سے ہی سمجھا جاسکے۔ ہر بڑا فن پارہ اکثر اپنے پیش رو طریقۂ تفہیم کی نفی بھی کرتا ہے اور اپنی ترسیل کی نئی روایت کی بافت بھی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ متن ہمیشہ ایک شفاف میڈیم کے طور پر سامنے آئے جیسا کہ حقیقت پسند افسانے میں پہلے سے موجود سچائی کو دوبارہ پیش کرتے ہوئے سامنے آتا ہے۔ اِس افسانے کا متن بھی سبب اور نتیجے والی افسانے کی روایتی منطق سے انکار کرتے ہوئے اپنی پیچیدگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ البتہ سبب اور نتیجے کے عمل اور فیصلے کے لیے قاری کو راوی کے جبر سے آزاد کردیتا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا دونوں پیراگراف کی مدد سے افسانے کی تعبیر اور تشریح کی تمام تر کوششوں کے لیے قاری آزاد ہے۔مثال کے طور پر افسانے کو ایک ایسی ناصحانہ تحریر کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے محض تخیل کی مدد سے کیے گئے عمل کا نتیجہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ یا اگر پورے متن کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس مطالعہ میں مصر کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھا جائے تو یہ افسانہ ایک ایسی انڈر گراؤنڈ تحریک کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اُس وقت کی مصری حکومت کے طرز عمل سے نالاں ہے۔ راوی کے لاشعور میں اُس تحریک کے تئیں ہمدردی کے جذبات موجود ہیں لہٰذا اسے اس طرح کا خواب دکھائی دیتا ہے۔ خود افسانے کے متن میں بھی اِس کے شواہد موجود ہیں۔ مثلاً خط میں تحریر کیے جملے کی نوعیت ملاحظہ ہو:

’’ اپنا مکان مت چھوڑ ، کیوں کہ یہ قاہرہ میں سب سے خوبصورت ہے اور پھر اہلِ ایمان کے لیے تو بس یہی ایک مکان ہے۔ یہی ایک محفوظ مقام ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تو حافظ حرم اور ہمارے پیر عارف البلقانی سے مل۔ تو اُن کے مکان میں جا۔ ‘‘
(وقت اور مقام ۔از: نجیب محفوظ۔ ص: ۱۰۰۔رسالہ ’’اردو چینل‘‘ دسمبر ۲۰۰۶ء )
مصر کے سماجی اور خاص طور سے سیاسی حالات کو نگاہ میں رکھیں تو حکومت سے اختلاف، ایسی ہی علامتی کہانی کے ذریعے ممکن تھا۔ لہٰذا اس افسانے کی ایک یہ بھی تفہیم ممکن ہے۔


مضمون نگار سہ ماہی رسالہ ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی ویب پپورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ کے مدیر ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

urduchannel@gmail.com

09773402060

Viktoria Was Home All Alone by Martin Auer

Articles

خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ

مارٹن آور

کہانی’ خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ‘مارٹن آور کی تحریر کردہ ایک مضبوط ارادوں والی آسٹریائی لڑکی کی کہانی ہے۔ مارٹن آور کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ اسٹیج اور صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔ انھیں ادبِ اطفال پر آسٹریلین نیشنل ایوارڈ سے بھی سر فراز کیا جا چکا ہے۔

————————————–

ہر کوئی جا چکا تھااور وکٹوریہ گھر پر اکیلی تھی۔
’’جب سب جاچکے ہوتے ہیں تب میرا گھر ایک جادوئی جگہ بن جاتا ہے۔‘‘
وہ اپنے والدین کی خواب گاہ میں گئی اور وہاں پھیلی ہوئی چادر کو کھینچا۔بیڈ کے بالکل درمیان میں ایک بڑا بھالو لیٹا ہوا تھا۔وہ سیدھا اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’مجھے کچھ دو‘‘
بھالو کمرے سے باہر گیا اور وکٹوریہ کے لیے اس کے والد کی ہیٹ لے آیا۔وکٹوریہ نے اسے پہن لیا اور اس بھالو کو ڈھانک دیا۔
اس نے اپنی ماں کا نائٹ اسٹینڈ(بستر کے بازو میں موجود ٹیبل یا کباٹ)کھولا۔
یہاں سنہری آنکھوں والا ایک بڑا مینڈک بیٹھا ہوا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’مجھے کچھ دو‘‘
مینڈک اچھلتے ہوئے کمرے سے باہر گیا اور وکٹوریہ کے لیے اس کی والدہ کے جوتے لے آیا۔
وکٹوریہ نے جوتے پہن لیے اور نائٹ اسٹینڈ کو بند کردیا۔
وکٹوریہ نے الماری کی طرف دیکھا۔ وہاں سے اسے کچھ دھڑکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔وہ کپڑوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔تب اسے اپنے والد کا سردیوں میں پہنا جانے والا موٹا اور وزنی کوٹ نظر آیا۔دھڑکنے کی آواز اسی میں سے آرہی تھی۔وہ یہ دیکھنے کے لیے سوٹ کیس کے اوپر چڑھ گئی کہ کیا چیز دھڑک رہی ہے۔کوٹ کے اوپری جیب میں ایک بڑا سرخ وسیاہ دل دھڑک رہا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
کوٹ کے ایک کنارے والی جیب میں سنہری چابی اور دوسرے کنارے والی جیب میں کچھ بیج رکھے ہوئے تھے۔
’’کیا تم یہ مجھے دو گے‘‘اس نے دل سے دریافت کیا اور دل دھڑکنے لگا۔
تب اس نے چابی اور بیج لے لیے۔
وکٹوریہ پورے گھر میں بھٹکتی رہی، گھر بہت بڑا تھا۔
ایک کمرے میں ایک ڈیسک موجود تھا اور ڈیسک کے اوپر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔وہ کرسی کے اوپر چڑھ گئی اور اس نے کتاب کھولی۔
کتاب میں تصویریں نہیں تھیں صرف کچھ الجھی ہوئی لکیریں نظر آرہی تھیں۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا
اس نے اپنی سنہری چابی سے کتاب کو چھوا۔
الجھی ہوئی کالی لکیروں میں حرکت ہونے لگی۔وہ چھوٹے چھوٹے مرد اور عورتیں تھیں ، انہوں نے اب رقص کرنا شروع کردیا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور صفحہ پلٹ دیا۔
اب وہ کالی الجھی ہوئی لکیریں ایسے تالاب میں تبدیل ہوگئیں جس پر بڑے بڑے پانی کے بلبلے تیر رہے تھے۔
وکٹوریہ نے ان بلبلوں کو اپنی چابی سے چھوا۔ان بلبلوں سے چھوٹے چھوٹے جرثومے پھسل کر اطراف میں تیرنے لگے۔ اب ان کی دُمیں غائب ہوچکی تھیں اور وہ مینڈک کی طرح نظر آرہے تھے۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور وہ صفحہ بھی پلٹ دیا۔
اگلے صفحے پر چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے۔وکٹوریہ نے انہیں اپنی چابی سے چھوا۔
اچانک چاروں طرف کھٹمل پھیل گئے اور انہوں نے ان کیڑوں کو کھانا شروع کردیا۔
پھر چاروں طرف پرندے پھیلنے لگے اور ان پرندوں نے کھٹملوں کو کھانا شروع کیا۔
اس کے بعد اچانک لومڑیاں نمودار ہوئیں اور انہوں نے پرندوں کو کھا لیا۔
لیکن ایک لومڑی کے گلے میں ہڈی پھنس گئی اور اس کی موت ہوگئی۔
اچانک دوبارہ چھوٹے چھوٹے کیڑے نظر آنے لگے اور انہوں نے اس لومڑی کو کھالیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور وہ صفحہ پلٹ دیا۔
اگلے صفحے پر ایک جنگل موجود تھا۔ اس نے جنگل کو اپنی چابی سے چھوا۔
اچانک وہاں کچھ لوگ نظر آنے لگے جو درختوں کو کاٹ رہے تھے۔
وہ درختوں کا استعمال گھر بنانے کے لیے اور شہر بنانے کے لیے کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے۔
اچانک آگ لگ گئی اور پورا شہر جل اٹھا۔
لوگوں نے اپنا سازوسامان باندھا اور باہر بھاگنے لگے۔
پھر ہوا اپنے ساتھ کچھ بیج اڑا کر لے آئی اور جنگل دوبارہ ہرا بھرا ہونے لگا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور کتاب کو بند کرکے اپنے پاس رکھ لیا۔
وہ کچن میں گئی، اس کی ماں سنک کے نیچے والے کباٹ میں گلدان رکھا کرتی تھی۔وکٹوریہ نے سب سے بڑا گلدان نکالا اور کمرے کے وسط میں بیٹھ گئی۔اس نے گلدان میں بیج ڈالے اور انہیں اوپر تک مٹی سے ڈھانک دیا۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا اور گلدان کو اپنی سنہری چابی سے چھوا۔ مٹی میں حرکت شروع ہوئی ۔ بیجوں سے کونپلیں پھوٹ پھوٹ کر اوپر آنے لگیں۔کونپلیں مسلسل اونچائی کی جانب بڑھتی گئیں۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’یہ جلد ہی کمرے سے باہر تک بڑھتی چلی جائیں گی‘‘
لیکن تب بھی کونپلیں شاخوں میں تبدیل ہو کر مسلسل بڑھتی رہیں۔
اب وکٹوریہ شاخوں پر چڑھنے لگی
وہ اوپر ہی اوپر چڑھتی رہی، کمرہ کسی مینار کی طرح اونچا نظر آرہا تھا۔
پتیوں کے درمیان سے ایک شیر جھانکتا ہوا نظر آرہا تھا۔وہ اپنا بڑا سا منہ کھولے دھاڑ رہا تھا۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا اور شیر کو اپنی سنہری چابی سے چھوا۔
اچانک شیر پالتو بلّی کے بچے کی طرح ہو گیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا او ر اوپر چڑھتی گئی۔
اچانک بھیڑیے اس کی طرف دوڑتے ہوئے آنے لگے۔وہ تیز آواز میں غرّا رہے تھے۔ وکٹوریہ نے انہیں اپنی چابی سے چھوا اور تمام بھیڑیے دیکھتے ہی دیکھتے پالتو کتّے کے پلّوں میں تبدیل ہوگئے۔
’’یہ اچھا ہوا‘‘وکٹوریہ نے کہا اور اوپر چڑھتی گئی۔
اچانک اسے کچھ اجنبی لوگ نظر آئے جو اس کی طرف دیکھ کر چیخ و پکار کر رہے تھے۔لیکن وکٹوریہ انہیں سمجھ نہیں سکی۔
اس نے اپنی سنہری چابی باہر نکالی،لوگوں نے اس چابی کو چھوا تب اس نے انہیں سمجھ لیا۔
’’وکٹوریہ ! آپ آخر کار یہاں تک پہنچ ہی گئیں، ہم بہت خوش ہیں کہ آپ یہاں ہو۔ـ‘‘اجنبیوں نے کہا۔ لیکن اب وہ اجنبی نہیں رہ گئے تھے۔
’’کیوں؟ شکریہ‘‘وکٹوریہ نے کہا۔
پھر لوگوں نے اسے اپنے گھر، اپنی بلڈنگیں اور اپنے اپارٹمنٹس بتاتے ہوئے کہا،’’اگر تمہیں گھر چاہیے تو ہمارے گھروں میں سے کوئی ایک لے لو۔‘‘
’’کیوں؟ شکریہ۔‘‘وکٹوریہ نے کہا۔’’شاید بعد میں‘‘اور وہ اوپر چڑھتی گئی۔
وکٹوریہ اوپر ہی اوپر چڑھتی رہی اور شاخ کے آخری سرے پر پہنچ کر اس نے چاند کو دیکھا۔
شاخ کے آخری سرے پر ایک ٹیبل پر اس کے والد اور والدہ بیٹھے ہوئے تھے۔وہ شمع روشن کر کے اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے۔
چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔وکٹوریہ!اس کی والدہ نے اسے مخاطب کیا۔ ’’کیا تم ہمارے ساتھ بیٹھنا پسند کروگی؟‘‘
’’ہاں ضرور‘‘وکٹوریہ نے کہا۔
————————————————–

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

It’s a Chick, Not a Dog by Jar al-Nabi al-Hilw

Articles

یہ چوزہ ہے ، پلّہ نہیں

جرالنّبی الحلو

کہانی ’یہ چوزہ نہیں پلّہ ہے‘ مصری نژاد کہانی کار جرالنّبی الحلوکی تحریر کردہ ہے۔ کہانی میں ایک مصری لڑکا انسانوں اور حیوانوں کے درمیان دوستی کے بارے میں سیکھتا ہے۔

—————————————-

ہم تمام مرد، عورت، لڑکے، لڑکیاں اور ہماری ماںایک بہت بڑے گھر میں رہتے تھے۔ماں میری توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوتی تھی میں اسے دیکھا کرتا تھا۔ماں اکثر میرے والد کی تصویر دیوار پر لٹکانے کے لیے ہتھوڑا اور کیل لے آیا کرتی تھی۔ پھر مجھے سیمنٹ خریدنے کے لیے باہر بھیجتی تھی تاکہ دیواروں پر موجود دراڑوں کی مرمّت کی جا سکے۔گھر جتنا صاف ستھرا ہونا چاہیے وہ اسے اتنا صاف رکھنے کی کوشش کرتی۔وہ کھانا تیار کرنے کے بعد مرغے، مرغیوں، بطخوں اور خرگوشوں کے درمیان بیٹھ جاتی۔
ہماری پوری زندگی ان ہی مرغے، مرغیوں، بطخوں اور خرگوشوں کے درمیان گزر رہی تھی۔ان سبھوں کے درمیان ایک چھوٹا سا پیلا چوزہ مجھے ہمیشہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔اس کا جسم ریشم کی طرح نرم و ملائم تھا۔اس کے دائیں اور بائیں دونوں بازئوں میں تین تین چھوٹے چھوٹے پر نکل آئے تھے۔یہ پر بہت کمزور تھے اس کہ باوجود بھی وہ چوزہ اپنے پروں کو حرکت دے کر خود کو زمین سے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتا۔یہ بالکل تنہا اور حیرت انگیز چوزہ تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ گھر میں میری ماں کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔اس کے چلنے کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے کوئی چھوٹا بچہ پیچھے چل رہا ہو۔وہ چلتے چلتے کبھی گرتا کبھی سنبھلتا ،لیکن میری ماں کی پیروی کرتا رہتا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیںکہ وہ کیوں بخوشی چوں چوں کرتا ہوا میری ماں کے پیچھے چلتا تھا۔
ماں جانتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔یقینا وہ ہمیشہ سے اس بات کو جانتی تھی۔شاید آپ چاہتے ہوں کہ میں یہ بتائوں ایسا کیوں ہوتا تھا۔اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ میری ماں کا پیر چلتے وقت کبھی پیچھے نہیں آیا اور نہ ہی اس چوزے پر پڑا تھا۔دوسری وجہ یہ کہ میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور میں یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ ماں چلتے وقت دیکھ لیا کرتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے چل رہا ہے یا نہیں۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ جب وہ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ جاتی اور چوزے کی طرف دیکھ کر مسکراتی تب وہ فوراً اپنے پروں کو جنبش دیتا اور دوڑنا شروع کردیتا۔وہ کئی مرتبہ لڑکھڑاتا پھر کھڑا ہوجاتا،آخر کار وہ کھڑا ہوتا ہے اور ماں کی گود میں جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
ماں اس طرح بیٹھی ہوئی ہے کہ سورج کی شعاعیں سیدھے اسی پر پڑرہی ہیں۔اب وہ اس طرح سے بیٹھتی ہے کہ سورج کی شعاعیں اس کی گود میں پڑنے لگتی ہیں۔وہ جدھر حرکت کرتی ہے چوزہ بھی اس سمت اپنا رخ کرتا ہے۔
ایک مرتبہ وہ ماں کی پشت پر بیٹھا تھا تب ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ ماں کی گود میں اس جگہ سوگیا جہاں سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں۔وہیں بیٹھے بیٹھے ماں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں۔اپنے سر کو دیوار پر ٹیک دیااور اونگھنے لگی۔میں اس کے چہرے کے خدوخال دیکھنے لگا، اس کی پلکیں تقریباً بند ہوچکی تھیں۔ اس کی چوڑی پیشانی بالکل روشن تھی۔مجھے اس کے چہرے پر نا سمجھ میں آنے والی مسکراہٹ نظر آرہی تھی۔اس کی سیدھی آنکھ پر پَرکا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آرہا تھا۔وہ بہت گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ میں بمشکل اس کی سانسوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔چوزہ سورج کی شعاعوں میں لپٹا اس کی آغوش میں سو رہا تھا۔
چوزہ ماں کے جسم پر چونچ مار رہا تھا۔اس کی چونچ ماچس کی تیلی کے کنارے سے بھی زیادہ چھوٹی تھی۔وہ ماں کی انگلیوں پر چونچ مار رہا تھا۔ ماں کی انگلیوں میں ایک انگوٹھی تھی جس پر نقش و نگار کنندہ تھے۔ میں ان نقش و نگار کو کبھی سمجھ نہیں پایا۔میں نے یہ فرض کرلیا کہ اس انگوٹھی پر ماں کا نام کنندہ تھا۔میں نے ایسا اس لیے فرض کیا تھا کیوں کہ ماں کے نام کے حروف بھی اس پر موجود تھے۔ میں نے اس چوزے سے دوستی کرنے کی کبھی خواہش نہیں کی اور نہ کبھی اسے اپنے پیچھے آنے دیااور سچائی یہی ہے کہ اس نے بھی کبھی میرے پیچھے چلنے کی کوشش نہیں کی۔خیر میرا دوست تو میرا اپنا پیارا سا کتّا تھا۔
میرا خوبصورت کتّا ہمارے گھر کے اطراف میں موجود چھوٹے سے باغ کے دروازے پر میراانتظار کرتا تھا۔لہٰذا میرے پاس ایک ایسا کتّا تھا جو میرے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کتّا کسی بھی طرح چوزے سے بڑا ہوتا ہے اور میرا کتّا میرا دوست تھا اس لیے وہ میرے برابر چلا کرتا تھا۔رات کی تاریکیوں میں تنگ گلیوں سے گزرتے وقت وہی میرے ڈر اور خوف کو دور کیا کرتا تھا۔ وہ بھونکتے ہوئے دوسرے کتّوں کی جانب دوڑتا تھا۔وہ ان بچوں کے پیچھے بھی دوڑتا تھا جو اسے ستانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کے بعد ہانپتے کانپتے ہوئے میری طرف واپس آجاتا تھا۔
ایک مرتبہ رات کی رنگینیوں میں جب میں ایک موسیقی کی آواز پر رقص کر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ بھی خوشی کے ساتھ اپنی دُم کو ہلا رہا تھا اور اس کی کالی آنکھیں مجھ پر مرکوز تھیں۔وہ نہ کبھی مجھے پریشان کرتا تھا اور نہ ہی ناراض کیا کرتا تھا۔لیکن اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ میں اپنے کسی اسکولی دوست سے بات رہاہوں، وہ اکثر ہماری گفتگو میں مداخلت کیا کرتا تھا۔اس وقت تک بھونکتا رہتا جب تک میں اسے ڈانٹ کر خاموش نہ کرادوں۔تب وہ اپنی دُم کو اپنے دونوں پیروں میں دبا لیتااور زمین پر اس طرح دیکھنے لگتا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔
چوزے نے کبھی ماں کے معاملات یا کسی بھی کام میں مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اچھی بات ہے یا نہیں۔لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے کتّے کی طرح ناراض یا خوش نہیں ہوا کرتا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ میرا کتّا بھی میری گود میں آکر سو سکے لیکن وہ اس بات سے بے چین ہوجاتا تھا۔وہ بیٹھتا بھی نہیں تھا۔میں نے ایک مدّت سے اچھلتے کودتے وقت بھی اس کے ناخن محسوس نہیں کیے۔وہ درخت سے گرتی ہوئی پتیوں کے پیچھے دوڑتا، جب اسے پتہ چل جاتا کہ یہ پتیاں ہی ہیں تب وہ واپس آجاتا اور اپنے پچھلے پیروں پر بیٹھ جاتا۔اکثر وہ میری گود سے فرار ہونے کے لیے اس طرح سے چالیں چلا کرتا تھا۔
باغ کے ایک کنارے پر میں نے لکڑیوں سے اس کے لیے ایک گھر بھی بنایا تھاتاکہ وہ اس میں آرام کر سکے۔میںنے اس طرح کے کئی گھرکہانیوں کی کتابوں میں تصویری شکل میں بنے ہوئے دیکھے تھے۔لیکن اسے اس گھر سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔کبھی کبھی وہ لکڑی کے بنے ہوئے چھوٹے گھر کے بازو میں سو جاتا۔لیکن آرام کرنے کے لیے گھر اور باغ کا دروازہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔ ان جگہوں سے وہ اندر اور باہر کی بہتر طور پر نگرانی کر سکتا تھا۔کبھی کبھی وہ کسی پر حملہ کرنے کے انداز میں بھونکتا تھا۔
میری دانست میں چوزے کی سب سے بڑی چھلانگ وہ تھی جب وہ اچھل کر ماں کے کاندھے پر بیٹھ گیا تھا۔پھر اس کے بعد اس نے اپنے پروں کو موڑ دیا اور فوراً سو گیا۔ ماں نے اسے بیدار کیا، اس کی چونچ پکڑ کر اسے پانی پلایااور چاول کے دانے کھلائے۔میرا وقت گھر اور اسکول میں پڑھائی کرتے ہوئے گزرتارہا۔ اسی دوران یہ چوزا ایک مرغے کے روپ میں بڑا ہوگیا۔
ماں اس مرغے سے بہت خوش تھی۔میرے والد نے کہا کہ وہ اسے بھون کر کھانا چاہتے ہیں۔میرے بھائی چاہتے تھے کہ اسے چاول کے ساتھ پکایا جائے۔ ماں نے کسی اور ہی نیّت سے اسے دوسرے پرندوں کے ساتھ چھت پر رکھ دیا۔اب یہ مرغا بھی ان پرندوں میں سے ایک تھا۔وہ دیوار پر کھڑا ہوتااور جیسے ہی ماں کھانا اوپر کرتی وہ چیختے ہوئے اس پر جھپٹ پڑتا۔
اس مرغے کو ماںکی شفقت اور حسنِ سلوک یاد نہیں رہا۔اکثر جب وہ اس پر چھلانگ لگاتا تب اپنے پروں کو تیزی سے حرکت دیتا اورناخنوں سے ماں کی جلد کھرچنے لگتا۔ درحقیقت اب ماں بھی اس سے خوف زدہ رہنے لگی تھی۔اسی وجہ سے اب وہ اسے زیادہ سے زیادہ خود سے دور رکھنے کی کوشش کرتی۔
میں نے اکثر خرگوشوں اور دیگر پرندوں کو ماں پر اسی طرح جھپٹتے دیکھاتھا، جس طرح وہ کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔اس کے برعکس میرے کتّے میں اب نرم مزاجی آچکی تھی۔جب چھوٹے بچے اس پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تب بھی وہ ناراض نہیں ہوتا۔صرف اپنی دُم کو ہلا دیتا۔اس کی عادت تھی کہ وہ اپنے سامنے والے پیروں کو پھیلا دیتا ، اپنی ٹھوڑی ان پیروں پر رکھتااور سوجایا کرتا تھا۔
ایک شام بہت زیادہ گرمی کے سبب میں ایک چٹائی پر لیٹا ہوا تھامیرا سر ماں کی گود میں تھااور اس کی انگلیاں آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ میرے بالوں میں گردش کررہی تھیں۔میں نے اس سے چوزے کے بارے میں پوچھاکہ وہ اتنے خونخوار مرغ میں کیسے بدل گیا۔
ماں مسکرائی’’اسی طرح زندگی چلتی ہے‘‘اس نے کہا۔’’وہ ان لوگوں سے خوفزدہ ہونا جانتا ہے جو اسے کھا جانا چاہتے ہیں۔‘‘
میں اپنے پنجوں پر چلتا ہوا گھر سے باہر آگیا۔ اکیلے ٹہلنے کے لیے باہر جانا چاہتا تھا۔لیکن میرا کتّا آگیا اور میرے پیچھے چلنے لگا۔اس کی د’م لہرارہی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسے وہ کسی خوش کن گیت پر سیٹیاں بجا رہا ہو۔
——————————————————

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Marked by the Moon by Nasser Yousefi

Articles

نشانِ قمر

ناصر یوسفی

کہانی ’’ نشانِ قمر‘‘ فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس کے مصنف ناصر یوسفی تعلق ایران سے ہے ۔ فارسی لوک کہانیوں پر ان کی نظر گہری ہے ۔ کہانی ’نشانِ قمر‘ میں بھی لوک کہانیوں کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

——————————————–

ایک مرتبہ کا ذکر ہے۔ بہت پہلے، بہت بہت پہلے۔دنیا کے بالکل کنارے کسی ایسی جگہ پر جو نہ بہت دور اور نہ ہی بہت قریب تھی ایک لڑکی رہا کرتی تھی جس کا نام چاند پری تھا۔چاند پری بہت مددگار اور رحم دل تھی۔لیکن اس پر مایوسیوں اور اداسیوں کا بوجھ بھی تھا۔پوری دنیا میں اس کا اپنا گھر اور اس کے اپنے دوست نہیں تھے۔وہ بالکل اکیلی تھی۔وہ بی بی خانم کے یہاں رہا کرتی تھی۔بی بی خانم کی ایک لڑکی تھی جس کا نام گلاب تن تھا۔وہ بھی خوبصورت تھی لیکن رحمدل نہیں تھی۔وہ ہر ایک کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔اگرچہ چاند پری کے پاس نہ خوبصورت لباس تھے، نہ اس کا اپنا گھر یا خاندان تھااور نہ ہی اس کے اپنے دوست تھے، اس کے باوجود بھی گلاب تن اس سے حسد کیا کرتی تھی۔
گھر کا تمام کام چاندپری کو ہی کرنا پڑتا تھا۔وہ صبح صادق سے لے کر آدھی رات تک گھر کا کام کیا کرتی تھی۔مختلف کمروں میں جھاڑو دینا، کپڑے دھونا، کھانا بنانا، کپڑے سینا اور اسی طرح کے تمام چھوٹے بڑے کام چاند پری کے ذمّہ تھے۔چاند پری ان تمام کاموں سے بہت زیادہ تھک جاتی تھی۔اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اتنے زیادہ برتن اور کپڑے دھونے کی طاقت نہ تھی اور نہ ہی وہ تمام کمروں میں جھاڑو لگا سکتی تھی۔کبھی کبھی تنہائی اور اکیلے پن کے احساس سے اس کا دل بھر آتا تھا۔تب وہ گھر کے پیچھے جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر رویا کرتی تھی۔اسے روتے دیکھ کر تتلیاں اس کے اطراف میں منڈلاتیں اور اس کے سر پر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔پھول اپنا سر جھکا کر اپنی خوشبو اس پر چھڑکا کرتے تھے۔اگر رات کا وقت ہوتا تب ستارے رات بھر اس کے لیے جھلملایا کرتے تھے۔
ایک دن، گزرے ہوئے تمام دنوں کی طرح، ماضی کے تمام دنوں کی طرح چاند پری، بی بی خانم اور گلاب تن کے میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے باہر گئی۔گھر کے پیچھے دو کنویں تھے۔ایک کنواں بہت پہلے ہی سوکھ چکا تھا۔لیکن دوسرا کنواں پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔چاندپری ایک ایک بالٹی پانی نکال کر کپڑے دھوتی رہی۔ان تمام کپڑوں کو دھونا اس کے لیے بہت مشکل کام تھا۔اس کی انگلیاں زخمی ہو چکی تھیں۔پیٹھ میں درد شروع ہو چکا تھا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسے ابھی بہت سارے کپڑے دھونے تھے۔
اس نے تمام کپڑے دھو لیے ، انہیں سکھانے کے لیے ایک رسی پر پھیلادیااور ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئی۔اس کی آنکھ لگ گئی اور چاندپری کو بالکل احساس نہیں ہوپایا کہ وہ کتنی دیر سے سوتی رہی ہے۔ اچانک تیز آوازسے وہ چونک کر بیدار ہوگئی۔شدید آندھی چل رہی تھی۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو۔درخت جھومنے لگے ،خوفناک آوازیں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ آندھی ان تمام کپڑوں کو اڑالے گئی جسے چاندپری نے ابھی ابھی دھویا تھا۔چاندپری کپڑوں کو پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑتی رہی۔انہیں یکجا کرنے کے لیے وہ ادھر سے اُدھر دوڑتی رہی۔ پھر اس نے اپنے اطراف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ کچھ کپڑے کنویں کے کنارے پر پڑے ہوئے ہیں۔ جب اس نے انہیں جمع کرنا شروع کیا تب ایک کپڑا کنویں میں گر گیا۔ چاندپری بہت گھبرا گئی۔وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی،’’اگر بی بی خانم کو اس بات کا پتہ چل گیا تو میں مصیبت میں آجائوں گی۔ یقینا وہ مجھے ڈانٹے گی۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے، گھر سے ہی نکال دے۔‘‘
چاندپری آہستہ آہستہ پورے احتیاط سے کنویں میں اترنے لگی۔ اس نے سوچ لیا کہ چاہے جو ہوجائے وہ کپڑا باہر نکال کر ہی رہے گی۔ ابھی وہ زیادہ نیچے نہیں اتری تھی کہ اس کا پیر پھسل گیااور وہ نیچے گر گئی۔جب اسے ہوش آیا،اس نے اپنے اطراف دیکھا، بادل، زمین، آسمان،یہاں تک کہ درختوں اور پھولوں کے رنگ بھی مختلف تھے۔وہ بہت زیادہ خوبصورت اور دیدہ زیب تھے۔اس نے اپنی آنکھوں کو ملنا شروع کیا۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔چاندپری نے بی بی خانم کا لباس تلاش کرنا شروع کیا۔ اسے تھوڑے فاصلے پر ایک جھونپڑی نظر آئی۔خاموشی سے وہ جھونپڑی کے قریب پہنچی اور اس نے دروازے پر دستک دی۔ اسے اندر سے آواز آئی کہ تم جو بھی ہو، جہاں سے بھی آئی ہو اندر آجائو۔دروازہ کھلا ہوا ہے۔چاندپری دروازہ کھول کرآہستہ سے اندر داخل ہوگئی۔اسے جھونپڑی مکمل طور پر درھم برہم نظر آرہی تھی۔ ہر چیز ادھر اُدھر بکھری ہوئی تھی۔اس پریشانی میں چاندپری کسی کو دیکھ نہیں سکی۔اسی آواز نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’میں یہاں ہوں، کھڑکی کی طرف دیکھو، میں یہاں بیٹھی ہوں۔‘‘
چاند پری نے اپنا سر گھمایا اور دیکھا، وہ ڈر کر کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ایک چڑیل کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے چاند پری کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا:’’لوگ مجھے آنٹی گھولی کہتے ہیں۔تمہارا نام کیا ہے؟‘‘چاندپری نے اچھی طرح اس کی جانب دیکھا۔آنٹی گھولی کی مسکراہٹ خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھوں سے رحمدلی جھانک رہی تھی۔ان چیزوں کو دیکھ کر اس کا ڈر کچھ حد تک کم ہوگیا۔وہ اور قریب ہوگئی اور اپنا نام بتایا۔اسی لمحے اسے بی بی خانم کا لباس آنٹی گھولی کے ہاتھ میں نظر آیا۔چاندپری نے مسکراتے ہوئے کہا:’’یہ بی بی خانم کا ڈریس ہے اور میں اسے ہی تلاش کرتے ہوئے یہاں تک آئی ہوں۔‘‘
آنٹی گھولی نے لباس کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑلیا اور کہا،’’اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دوگی تب میں یہ لباس تمہیں لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر جانے کا راستہ بھی بتا دوں گی۔‘‘چاندپری ہنسنے لگی، وہ آنٹی گھولی کی بغل میں بیٹھ گئی،اس کے پیروں پر ہاتھ رکھا اور کہا،’’اپنے سوال پوچھو لیکن یہ بھی خیال رکھو کہ سوال زیادہ مشکل نہیں ہونے چاہیے۔‘‘
آنٹی گھولی نے اپنے خیالات یکجا کرتے ہوئے پوچھا،’’کیا میرا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے؟‘‘چاندپری نے اپنے اطراف دیکھا،ہرچیز بکھری پڑی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے آنٹی گھولی نے کئی سالوں سے اپنے کمرے کی صاف صفائی نہ کی ہو۔چاندپری نے اپنا سر ہلایا اور کہا،’’یہ گھر خوبصورت ہے لیکن بی بی خانم کا گھر اس سے زیادہ صاف ستھرا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چین محسوس ہونے لگی۔ممکن تھا کہ وہ رودیتی لیکن چاندپری نے اس سے کہا، ’’آئو ہم دونوں ایک ساتھ کمرے کی صفائی کرتے ہیں۔‘‘فوراً اس نے خود سے کام کرنا شروع کردیا،سب سے پہلے اس نے کھڑکیاں کھولیں،اس کے بعد کمرے میں جھاڑو لگایا،ہر چیز کو اپنی صحیح جگہ پر رکھا،جتنی چیزوں کو دھونا ضروری تھا اسے دھویا،آنٹی گھولی بھی کام میں اس کی مدد کرتی رہی۔کچھ ہی وقت میں کمرہ صاف و شفاف نظر آنے لگا۔کام ختم کرنے کے بعد چاند پری نے کہا،’’اب تمہارا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ صاف اور خوبصورت ہو گیا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کمرے کی طرف دیکھا،وہ خود بھی یقین نہیں کرسکی کہ کمرہ اتنا زیادہ صاف ہوگیا۔ وہ اتنی زیادہ خوش ہوئی کہ اسے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرنا ہے۔چاندپری بھی مسکرانے لگی۔ اسے یاد تھا کہ اسے یہاں سے جانا ہے اس لیے اس نے آنٹی گھولی سے کہا کہ وہ اب اپنا دوسرا سوال کرے۔آنٹی گھولی نے اپنا اسکارف درست کیا،اپنے ڈریس پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا،’’کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
چاندپری نے آنٹی گھولی کو بغور دیکھا،اس کا چہرہ انتہائی گندہ اور گرد آلود تھا،اس نے اچھی طرح سے اپنے ہاتھ اور منہ بھی نہیں دھویا تھا۔کافی عرصے سے بالوں میں کنگھی بھی نہیں کی تھی۔چاند پری نے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’مجھے آپ پر ترس آتا ہے، بی بی خانم آپ سے زیادہ خوبصورت اور نفاست پسند ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے دوبارہ بے چینی محسوس کی لیکن چاندپری نے کہا،’’آئو، کھڑے رہو اور پہلے اپنا ہاتھ منہ دھو لو۔‘‘چاندپری نے منہ ہاتھ دھونے میں آنٹی گھولی کی مدد کی۔اس کے بعد وہ نیچے بیٹھ گئی اور آنٹی گھولی کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔اس نے اس کے سر پر صاف اسکارف بھی رکھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’اب آپ زیادہ نفاست پسند اور پرکشش نظر آرہی ہیں۔‘‘آنٹی گھولی نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا،وہ اپنا سر ادھر اُدھراور اوپر نیچے کرنے لگی۔پھر وہ چاندپری کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جبکہ چاندپری کا چہرہ آنٹی گھولی کے شانوں پر تھا، آنٹی گھولی چاند پری کا سر سہلانے لگی۔چاند پری کو اپنی ماں یاد آگئی۔اس نے آنٹی گھولی سے کہا،’’آپ بہت مہربان ہیں، آپ میری ماں کی طرح ہے۔‘‘اتنا سنتے ہی آنٹی گھولی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔اس نے چاند پری کا چہرہ اوپر اٹھایا اور کہا،’’میری پیاری بیٹی، اب تم چلی جائو، کافی دیر ہو رہی ہے۔‘‘
چاند پری نے کہا، ’’کیا آپ بھول گئیں، آپ نے ابھی تیسرا سوال نہیں پوچھا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کہا ،’’تم نے خود ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔میں یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ ’’کون زیادہ مہربان ہے؟ میں یا بی بی خانم؟اور تم نے کہہ دیا کہ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں۔‘‘ آنٹی گھولی نے چاندپری کو لباس لوٹا دیا اور کہا،’’کاش کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکتیں!کاش کہ تم میری دوست اور ساتھی ہوتیں!لیکن تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’جھونپڑی کے پاس میں ایک ندی ہے، یہ دھنک ندی ہے،جب اس کا پانی نیلا ہوجائے تب تم اپنا چہرہ دھو لینا۔‘‘آنٹی گھولی نے اسے ایک پھول بھی دیااور کہا کہ ’’اسے’ گلِ آرزو ‘کہتے ہیں۔یہ تمہاری ایک خواہش پوری کرسکتاہے۔‘‘چاند پری بہت خوش ہوئی۔اس نے’ گلِ آرزو ‘اپنی جیب میں رکھا،آنٹی گھولی کا بوسہ لیا اور وہاں سے نکل پڑی۔جھونپڑی کے بازومیں اسے دھنک ندی دکھائی دی،اس نے پانی کا رنگ نیلا ہونے تک انتظار کیا،جس لمحے وہ ندی کے پانی میں اپنا چہرہ دھو رہی تھی تب اس پر مدہوشی طاری ہونے لگی،اسے محسوس ہورہا تھا جیسے دنیا اس کے سامنے گردش کر رہی ہے۔اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ بھی نہیں یاد رہا۔
جب چاندپری کی آنکھ کھلی تب اسے محسوس ہوا کہ وہ سوکھے ہوئے کنویں کے پاس پڑی ہے۔چاند پری نے اطراف میں دیکھا اور اپنے تمام کپڑے بالٹی میں یکجا کیے۔گھر جانے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ دھونا چاہتی تھی۔اس نے کنویں میں بالٹی ڈالی،تب اچانک اسے محسوس ہوا کہ کنویں میں کوئی چیز چمک رہی ہے۔چاندپری اسے بغور دیکھنے لگی۔ایسا لگتا تھا جیسے کنویں میں کوئی ستارہ اتر آیا ہو۔اسے بہت تعجب ہوا۔اس نے عجلت میں پانی کی بالٹی اوپر کھینچی۔چاند پری بہت گھبرا گئی تھی۔وہ فوراً اپنے ہاتھ دھو لینا چاہتی تھی۔لیکن اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ستارہ اس کی بالٹی میں چمک رہا ہو۔چاندپری نے اسے اور قریب سے دیکھا۔وہ چمک اس کے چہرے پر تھی۔وہ ہلالِ عید کی طرح اک چھوٹا اور خوبصورت چاند تھا جو چاندپری کی پیشانی پر جگمگارہا تھا۔
چاندپری نے اپنی پیشانی کو چھو کردیکھا،اس نے چاند نکالنے کی کوشش کی،لیکن کسی بھی طرح سے چاند اس کی پیشانی سے الگ نہیں ہوسکا۔اچانک نرم نازک ہو ا ا س کے چہرے کو چھو تے ہوئے گزرنے لگی۔پھول اسے دیکھ کر سر جھکانے لگے۔ پنکھڑیاں ٹوٹ کر اس کے پیروں پر گرنے لگی اور اسے چندا، چندا کہہ کر مخاطب کرنے لگیں۔تتلیاں اس کے اطراف منڈلاتے ہوئے اس کے کانوں کے قریب جاکر اسے چندا، چندا پکارتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ تم کتنی خوبصورت ہوگئی ہو!تتلیاں درخت اور ہوائیں اسے چاند پری کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔دھیرے دھیرے اس نے گھر کا رخ کیا۔ اس نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ لیا تاکہ بی بی خانم اس کی پیشانی پر وہ چاند نہ دیکھ سکے۔ لیکن بی بی خانم نے اسے دیکھ ہی لیا۔ حیرت کی وجہ سے وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر رہی۔ چاند پری کا چہرہ کسی چاند کی طرح روشن تھا۔ بی بی خانم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے گئی۔ اسے اوپر سے نیچے تک دیکھنے کے بعد سوال کیاکہ کیا ہوا؟ یہ چاند کہاں سے آیا؟اورتم نے کیا کیا؟
چاند پری بہت ڈر گئی اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔اس نے کہا ’’میں نہیں جانتی ، شاید آنٹی گھولی نے ایسا کیا ہو۔‘‘
بی بی خانم نے حیرت سے دریافت کیا،’’آنٹی گھولی ! یہ آنٹی گھولی کون ہے؟‘‘پھر اس نے چاند پری کے بال کھینچتے ہوئے کہا،’’تم مجھے ضرور بتائو گی کہ تم نے کیا کیا،تم کہاں گئی تھیں؟ اور تم گلاب تن کو بھی سکھائو گی کہ تم نے ایسا کس طرح کیا۔‘‘
چاند پری خوفزدہ ہوگئی اس نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا،’’ٹھیک ہے میں گلاب تن سے کہہ دوں گی کہ میں نے کیا کیا اور میں کہاں گئی تھی۔‘‘
اگلی صبح گلاب تن بھی بالٹی میں کپڑے بھر کر سوکھے کنویں کے قریب پہنچی،اس نے ایک لباس کنویں میں پھینک دیااور خود سے کنویں میں اترنے لگی،ابھی وہ تہہ تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ اس کا پیر پھسل گیا۔
جب گلاب تن کو ہوش آیا تووہ جلدی جلدی اس سمت دوڑنے لگی جس کا ذکرچاند پری نے کیا تھا۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے آنٹی گھولی کی جھونپڑی نظر آگئی۔دروازے پر دستک دیے بغیر وہ اندر داخل ہوگئی۔ اس نے سلام تک نہیں کیا۔وہ سیدھے اندر داخل ہوئی اور ایک کنارے پر جا کر بیٹھ گئی۔ آنٹی گھولی نے اسے دیکھا اور دریافت کیا،’’تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئی ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
گلاب تن نے نہ ہی اپنا نام بتایا اور نہ ہی یہ کہا کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔اس نے صرف اتنا کہا کہ میں نے اپنا لباس گم کردیا ہے، مجھے میرا لباس دے دو اور میری پیشانی پر نشانِ قمر بنا دو۔
آنٹی گھولی نے اس سے کہا میں تم سے تین سوالات پوچھوں گی، اگر تم نے ان کے جوابات دے دیئے تو میں تمہیں تمہارا ڈریس لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر کا راستہ بھی بتا دوں گی۔ اس نے اس کمرے کی طرف اشارہ کیا جسے چاند پری کی مدد سے اس نے صاف کیا تھا اور دریافت کیا کہ’’مجھے بتائو کیا میرا گھر بی۔بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے۔‘‘
اطراف میں دیکھے بغیر گلاب تن نے جواب دیا۔’’ تمہارا یہ گھر کسی اصطبل کی طرح بدنما ہے۔ ہمارا گھر اس سے زیادہ صاف و شفاف اور خوبصورت ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چینی محسوس کرنے لگی، اس نے سوچا شاید گلاب تن گھر کی صاف صفائی میں اس کی مدد کرے گی۔لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔
آنٹی گھولی نے دوسرا سوال کیا،’’مجھے بتائو کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
اس کے الفاظ سنتے ہی گلاب تن کھڑی ہو گئی اور کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ میری ماں زیادہ خوبصورت ہے۔میری یاداشت کے مطابق تم بد صورت ترین عورت ہو۔‘‘
آنٹی گھولی دوبارہ بے چینی محسوس کرنے لگی اور بہت اداس ہوگئی، اس نے سوچا شاید گلاب تن اسے خوبصورت بنانے میں مدد کرے گی۔ لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔لہٰذا آنٹی گھولی نے اس سے تیسرا سوال نہیں کیا۔ اس نے سمجھ لیاکہ گلاب تن کا دل تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آنٹی گھولی نے اسے گھر کا راستہ بتاتے ہوئے کہا،’’ندی کے کنارے سے جائو اور جب ندی کا پانی سفید ہوجائے تو اپنا چہرہ دھو لینا۔ ‘‘
آنٹی گھولی ندی کے سفید پانی سے گلاب تن کی تمام برائیاں دھونا چاہتی تھیں۔گلاب تن تیزی سے باہر نکلی اور ندی کے کنارے انتظار کرنے لگی۔ ندی مختلف رنگوں میں تبدیل ہوتی رہی، اس کے بعد ندی سفید ہوگئی لیکن گلاب تن نے اپنا چہرہ نہیں دھویا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا ’’سفید پانی اتنا خوبصورت نہیں ہے،مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ندی کو اور رنگوں میں تبدیل ہونے کا انتظار کیا،جب پانی سرخ ہوگیا تب گلاب تن بہت خوش ہوئی اور اس نے اپنا چہرہ دھولیا۔
جب گلاب تن نے اپنی آنکھیں کھولی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے بستر پر پڑی ہوئی ہے اور بی بی خانم اس کے بازو میں بیٹھی ہوئی ہے۔ گلاب تن اٹھ بیٹھی اور دریافت کیا’’کیا میری پیشانی پر بھی نشانِ قمر موجود ہے؟‘‘
بی بی خانم رونے لگی، گلاب تن نے قریب ہی موجود پانی سے بھرے ہوئے پیالے میں اپنا عکس دیکھا، چیختے ہوئے اس نے وہ پیالہ دور پھینک دیا۔ اس کی پیشانی پر ایک لال رنگ کا بڑا سا بدنماداغ ابھر آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے خون سے بھرا ہوا پھوڑا ابھر آیا ہو۔
گلاب تن خوفزدہ ہو کر چیخنے لگی، چاند پری دوڑتے ہوئے اس کے کمرے میں پہنچی، اس کے چہرے پر موجود چاند کی وجہ سے پورا کمرہ روشن ہوگیا۔وہ خاموشی سے گلاب تن کے قریب گئی اور اس بدنما داغ کو دیکھا۔
گلاب تن نے چاند پری کو تمام واقعات کی تفصیل بتائی، اور اس کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی۔ چونکہ گلاب پری خود بھی اپنی زندگی میں بہت رو چکی تھی لہٰذا کسی کو روتے دیکھنا چاند پری کو بالکل پسند نہیں تھا۔وہ گلاب تن کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
اچانک اسے ’گلِ آرزو‘یاد آگیا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے اسکرٹ کی جیب میں ڈالا۔ ’گلِ آرزو‘ اب بھی وہاں موجود تھا۔ اگرچہ کہ اس کی اپنی بہت ساری آرزوئیں اور خواہشات تھیں لیکن اس نے انہیں پرے رکھتے ہوئے ’گلِ آرزو‘کو باہر نکالا۔ چاند پری نے اس کی پنکھڑیوں کو رگڑتے ہوئے کہا، ’’اے ’گلِ آرزو‘ اس دنیا میں میری بھی بہت ساری آرزوئیں اور تمنائیں ہیں لیکن میں کسی کو اداس اور غمگین نہیں دیکھ سکتی۔ اگر تم واقعی ’گلِ آرزو‘ہو تو ایسا کچھ کرو کہ گلاب تن پھر کبھی رو نہ سکے۔‘‘
ابھی چاند پری کے الفاظ ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ گلاب تن کی پیشانی پر موجود لال بدنما داغ زائل ہونا شروع ہوااور پھر دھیرے دھیرے اس طرح سے غائب ہوگیا جیسے پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔ بی بی خانم اتنا خوش ہوئی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ گلاب تن بھی بہت خوش تھی۔ چاند پری ’گلِ آرزو‘ لے کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ صحن میں بیٹھ کر سوچنے لگی، اس نے سوچا کہ اگلے دن اسے بی بی خانم اور گلاب تن کے لیے بہت سارا کام کرنا پڑے گا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ بی بی خانم اور گلاب تن اب بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دھنک ندی کے سفید پانی نے ان لوگوں کے کالے دلوں کو دھو دیا ہو۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ’گلِ آرزو‘ نے بی بی خانم اور گلاب تن کی ساری برائیوں کو زائل کردیا ہو۔
——————————————-

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Granny Long Tongue by Chiba Mikio

Articles

لمبی زبان والی بُڑھیا

شیبا میکیو

کہانی ’لمبی زبان والی بڑھیا کی مصنفہ ‘شیبا میکیو1944میں جاپان کے می یاگی پری فیکچر نامی شہر میں پیدا ہوئیں۔ادبِ اطفال کے لیے سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف آرٹ میں انہوں نے تقریباً نو سالوں تک تصویری کتابوں کانظریہ اور ادبِ اطفال کی تدریس کی۔انھوں نے جاپانی کہانیوں میں پائے جانے والے بھوت پریت اور عجیب الخلقت مخلوقات پر کافی کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں عجیب الخلقت مخلوق کا اسکالر بھی کہا جاتا ہے۔

———————————————–

اس کہانی کے تانے بانے اس وقت بُنے گئے جب بھوت پریت نہ صرف پہاڑوں پر بلکہ جنگلوں میں بھی رہا کرتے تھے۔اس وقت’ اُکوماٹا پاس‘ نامی جگہ پر واقع’ اُکویاما پہاڑ‘ پر لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین نامی دیو رہاکرتے تھے۔بڑھیا کی زبان سانپ کے پھن سے زیادہ لمبی اور چابک سے زیادہ مضبوط تھی۔ریڈ بین کا چہرہ جھونپڑی کی کھڑکی سے زیادہ بڑا تھا۔ جب وہ اپنے دانت باہر نکال کر اپنا چہرہ اوپر کرتا تب اتنا بھیانک نظر آتا کہ خوف سے پہاڑی ریچھ بھی اپنی آنکھیں بند کرلیتے۔
لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین اُکوماٹا پاس نامی علاقے کے گمشدہ لوگوں کو خوف زدہ کیا کرتے تھے اورانہیں اپنا یہ کام بہت پسند تھا۔بعد میں دھیرے دھیرے لوگوں نے پہاڑ کی جانب جانا بند کردیا۔
’’اے بڑھیا ! کیا تمھیں لگتا ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو خوف زدہ کردیا؟‘‘
’’ریڈ بین ! بے وقوف مت بنو۔یہاں اتنے انسان ہیں جتنا درختوں پر پتیاں ۔میرے دماغ میں ایک خیال آیا ہے ،کیوں نہ ہم یہاں سے باہر جائیں اور لوگوں کو ڈرائیں، خوف زدہ کریں؟‘‘
لمبی زبان والی بڑھیا ایک جست میں ریڈبین کے شانوں پر پہنچ گئی۔ بے ہنگم چال چلتے ہوئے وہ جنگلوں سے گزرے۔ انھوں نے دیکھا جنگل اب جنگل نہیں سپاٹ میدان میں تبدیل ہوچاک تھا۔ جنگل سے پہاڑ کے دامن تک موجود تمام درخت کاٹ دیے گئے تھے۔
’’اوہ! یہاں کی ہوا تازہ اور منظر بھی پر کشش ہے ۔‘‘ریڈ بین نے کہا۔
اس بات نے لمبی زبان والی بڑھیا سخت ناراض ہوئی اور پاگلوں کے انداز میں کہا۔
’’بے وقوف مت بنو!یہاں ایک بھی درخت موجود نہیں ہے۔انسانوں نے تمام درخت کاٹ دیے ہیں۔یقینا بارش کے موسم میں یہاں سیلاب آجائے گا۔ ریڈ بین جلدی گائوں میں چلو۔مجھے اس تعلق سے برے خیالات آرہے ہیں۔‘‘
دھمک ۔۔۔۔۔۔۔دھمک ۔۔۔۔۔۔د ھمک ۔۔۔۔۔۔۔۔دھمک ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک بڑی جھیل کے قریب پہنچے۔
’’دیکھو یہ راستہ سیدھے جھیل میں جاتا ہے۔اے بڑھیا !کیا تم سمجھتی ہوکے گائوں یہیں کہیں پانی کے نیچے ہے۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو!انسانوں نے تمام درخت کاٹ دیے اور جنگلات کو برباد کردیا۔مٹی کے تودے اور لکڑیوں نے ندی کا راستہ بند کردیا ہے۔جلدی آگے بڑھو اور گائوں کی طرف چلو! سورج نیچے آتا جا رہا ہے۔‘‘
دھمک۔۔۔۔۔۔۔۔دھمک۔۔۔۔۔۔۔دھمک  جب وہ گائوں کے کنارے پہنچ گئے، انہوں نے بغیر پانی کا ایک تالاب دیکھا۔
’’بڑھیا ! دیکھو زمین پر کتنا بڑا انڈا پڑا ہوا ہے۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو!یہ اژدھے کا موتی ہے!یہ تالاب یقینا اژدھا دیوتا کا ہے جو گائوں کے اوپر سے سب دیکھ رہا ہے۔مجھے لگتا ہے اژدھا پانی سوکھنے کے بعد کہیں اور چلا گیا ہے۔مجھے امید ہے ہر چیز ٹھیک ہی ہوگی۔ـ‘‘
گائوں میں بالکل سنّاٹا تھا۔معمولی سی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔حتیٰ کہ باورچی خانوں کی کھڑکھڑاہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازبھی نہیں آرہی تھیں۔
’’مجھے انسانوں کی بو آرہی ہے۔‘‘ریڈ بین نے ایک کھڑکی میں جھانکتے ہوئے چیخ کر کہا۔
کمرے کے اندر فرش پر اپنے والدین کے ساتھ دوبچے سکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔وہ سب بہت تھکے ہوئے نظرآرہے تھے۔ان کے گھٹنے سینوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
’’میری طرف دیکھو! میں لمبی زبان والی بڑھیا ہوں۔‘‘
اس نے اپنی لمبی زبان کسی چابک کی طرح باہر نکالی اور وہاں موجود ہر ایک شخص کے سر کے اطراف میں چاٹنا شروع کیا۔ لیکن ان لوگوں نے بس معمولی سی حرکت کی، صرف اپنے سر کو یہ دیکھنے کے لیے اوپر اٹھایا کہ کیا ہو رہا ہے۔(اور پھر پہلی حالت میںواپس ہوگئے)
’’لوگو! تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیا تم بھوت پریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے؟ ‘‘لمبی زبان والی بڑھیا نے حیرت سے پوچھا۔والد نے بالکل باریک اور دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’ہمارے پاس ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی بھی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس کل سے کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔جب سے ندی خشک ہوئی ہے ہم چاول اور آلو بھی اگا نہیں سکے۔‘‘
’’تب تو ٹھیک ہے! لیکن تم جھیل سے پانی کیوں نہیں لے آتے؟‘‘
’’ہم اس کے قریب جانے سے بہت ڈرتے ہیں۔جب کبھی ہم اس کے قریب جاتے ہیں تب زمین حرکت کرنے اور لرزنے لگتی ہے۔اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم تمہارے جیسی خوفناک اور ڈراونی مخلوق سے مدد مانگیں۔کیا تم کنارے پر راستہ بنانے میں ہماری مدد نہیں کروگے تاکہ پانی بہتا ہوا دوبارہ ندی میں آجائے؟‘‘
جب کوئی مصیبت میں ہوتا ہے تب عفریت بھی اس کی مدد کردیتے ہیں۔لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین عجلت میں جھیل کی طرف جانے لگے۔
’’ریڈ بین! ٹھیک ہے، ہم یہاں زمین میں ایک راستہ بنانے جارہے ہیںتاکہ پانی بہہ سکے۔‘‘
’’لیکن بڑھیا! ہمارا کام تو لوگوں کو ڈرانا اور خوف زدہ کرنا ہے۔ہم کیوں ان کی مدد کریں؟‘‘
’’جب انسان آسودہ حال ہوجائے گا ،تب وہ دوبارہ ہم سے ڈرنے لگے گا۔‘‘
اس طرح سے لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین جھیل کے راستے میں پھنسے ہوئے لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹی کے تودوں کو ہٹانے لگے۔
جیسے ہی پانی نے دوبارہ بہنا شروع کیا ، ان لوگوں نے اتنی تیز آواز سنی کہ پانی بھی دہل گیا۔
ـ’’اے! تم کیا سوچ رہے ہو :یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک دیو قامت اژدھا ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا جسم اتنابڑا تھا کہ اس سے پوری جھیل بھری جا سکتی تھی۔
’’خدا رحم کرے! دیکھو تم کتنے بڑے ہو۔یقینا تم وہ اژدھے ہو جو اژدھا دیوتا کے اس تالاب میں رہتے تھے۔تم اتنے بڑے کیسے ہوگئے؟‘‘
’’ہم اژدھے اسی طرح کے ہوتے ہیں۔اگر ہم تالاب میں رہیں تو ہم تالاب جتنے ہی بڑے ہو جاتے ہیں۔اگر ہم جھیل میں رہیں تب جھیل اتنے بڑے ہوجاتے ہیں۔اگر ہم آسمان میں اڑنا شروع کردیں تب ہم بادلوں کے برابر جسامت اختیار کرجائیں گے۔‘‘
اژدھا اپنے جسم کو لپیٹتا ہوا قریب سے قریب تک آتا گیا۔
“میں ان لوگوں کو سبق سکھانے جا رہا ہوں جنھوں نے اس تالاب کو خالی کردیا جہاں میں رہا کرتا تھا۔لیکن اس سے پہلے میںتم دونوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔”
“او! ریڈ بین ! بھاگو یہاں سے، جلدی بھاگو”
بڑھیا نے جنگل کی طرف بھاگتے ہوئے اپنی لمبی زبان ایک درخت کے اطراف میں لپیٹ دی۔لیکن ریڈ بین کی رفتار بہت سست تھی، اژدھے نے اسے اپنی گرفت میں لے کر ہوا میں اڑا دیا۔
’’ریڈ بین ! ہوا میں لٹکے رہو میں تمھیں بچا لوں گی۔‘‘
’’اوہ! تم اپنی زبان مجھ سے دور رکھو۔‘‘اژدھا اپنے جسم کو ادھر ادھر کرتے ہوئے چیخنے لگا۔
ریڈ بین اژدھے کے پھن سے آزاد ہو کر جھیل میں گر چکا تھا۔اس کے بعد بڑھیا نے حیرت انگیز طور پر اژدھے کی ناک باندھ دی۔
اوہ! اوہ! اوہ! اژدھا پھڑپھڑانے لگااور ایک زوردار چھینک ماری۔اتنی زوردار چھینک کہ پانی جھیل سے تیزی کے ساتھ کناروں کی طرف بہنے لگا۔اچانک کنارے پر ایک راستہ بن گیا۔پانی سیلاب کی طرح تیزی سے ندی میں بہنے لگا۔بڑھیا اور ریڈبین دونوں بھی گائوں کی جانب بہنے لگے۔
پانی نے انہیں اژدھا دیوتا کے تالاب تک پہنچا دیا۔
’’بڑھیا ! دیکھو اژدھا دیوتا کا تالاب اپنی پہلی حالت میں واپس آگیا۔‘‘
’’ریڈبین ! اس جانب دیکھو، تالاب میں اژدھا دیوتا کا موتی بھی نظر آ رہا ہے۔ دیکھو یہ کتنا چمک رہا ہے۔اژدھے کا موتی سات الگ الگ رنگوں میں چمک رہا تھا۔بڑھیا نے اسے آسمان کی طرف اٹھایا اور ناگ کو آواز دی۔
’’اے ناگ! تمہارا موتی دوبارہ پہلے کی طرح چمکنے لگا ہے۔ایک اچھا اژدھا بن جائو اور ہمیشہ کے لیے اندر چلے جائو۔یہی تمہارا گھر ہے۔‘‘
اتنا سنتے ہی اژدھا کہرے سے باہر نکلا اور اپنے موتی میں چلا گیا۔بڑھیا نے اس موتی کو آہستہ سے تالاب کے گہرے حصے میں رکھ دیا۔اب گائوں کی ہر چیز اپنی پرانی حالت پر لوٹ چکی تھی۔لیکن بڑھیا کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمودارتھے۔
اس نے گائوں والوں سے کہا،’’یہ سب بھیانک واقعات صرف اس لیے ہوئے کہ آپ لوگوں نے تمام درخت کاٹ دیے۔جائو اورابھی دوبارہ پہاڑوں کے دامنوں اور جنگلوں میں درخت لگائو،بالکل اسی طرح جس طرح پہلے تھے۔‘‘
لوگوں نے پہاڑوں کے دامن اور جنگلوں میں بالکل اسی طرح درخت لگا دیے جس طرح کا مشورہ بڑھیا نے دیا تھا۔ہر سال درخت بڑھتے ہی گئے۔جنگل بھی پہلے کی طرح ہوگیا۔ہر چیز اچھی ہوگئی۔ بارش بھی بھرپور ہونے لگی۔اب جب کبھی گائوں کے لوگ جنگلات کی طرف آتے تب وہ گمشدہ ہونے کا بہانہ کرتے اور لمبی زبان والی بڑھیا کی جھونپڑی کی طرف چلے جاتے۔وہ سورج ڈوبنے تک وہیں رہتے اور انتظار کرتے کہ بڑھیا اپنی زبان سے ان کے سروں کو چاٹے گی۔جبکہ ریڈ بین انہیں اب بھی ڈراتا تھا۔ لیکن اب وہ اچھے دوست بن چکے تھے اور خوشی خوشی رہنے لگے تھے۔
——————————————————

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

The Angel’s Feather by Angela Nanetti

Articles

فرشتے کا شہپر

انجیلا نانیتی

 

کہانی ’فرشتے کا شہپر‘ اطالوی زبان سے لی گئی ہے ۔ اس کی مصنفہ انجیلا نانیتی نے بچوں اور بالغوں کے لیے تقریباً بیس کتابیں لکھی ہیں۔ان کتابوں کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔انھیں ا کو”دی ہنس کریسچن اینڈرسن میڈل” (نوجوانوں کے لیے تحریر کردہ کتابوں پر دیا جانے والابین الاقوامی میڈل) سے بھی سرفراز کیا گیا۔انجیلا فی الحال پیس کارہ (اٹلی)میں سکونت پذیر ہیں۔
————————————–

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک فرشتے نے اپنا پر کھودیا۔حالانکہ ایسا بمشکل دو یا تین سو سالوں میں ایک مرتبہ ہوتا ہے لیکن اب یہ حادثہ رونما ہو چکا تھا۔وہ فرشتہ ایک ویران جھیل کے اوپر پرواز کر رہا تھا۔نیلے آسمان سے اسے حد نگاہ تک چراگاہیں ہی چراگاہیں نظر آ رہی تھیں۔اس پر اِس مسحور کن خوبصورتی کا خمار چھانے لگااور اس کے دل میں پانی کو چھونے کی خواہش بیدار ہوئی۔وہ پانی پر اترتا چلا گیا۔اسی لمحے اس کے پر ٹوٹ گئے۔اس کے وہاں سے گزرتے ہی پانی پر لرزہ طاری ہوگیا۔فرشتے نے اس حال میں آسمان کی طرف پرواز کی کہ اس کا ایک پر جھیل کے پانی پر ہی رہ گیا۔تب تک نہ کسی نے فرشتے کو دیکھا تھا اور نہ ہی اس کے ٹوٹے ہوئے پروں کو۔پانی پرصرف سفید چاندنی جیسی روشنی نظر آرہی تھی۔پانی نے دھیرے دھیرے اُس فرشتے کے پر کو ساحل تک پہنچا دیا۔
وقت گزرتا گیا جس جگہ فرشتے کا پر پڑا ہوا تھا اب وہاں پھول اگ آئے تھے۔صاف و شفاف خوبصورت پنکھڑیوں اور نازک تنوں کے ساتھ کھلنے والے پھول ساحلوں پر چھا گئے تھے۔اس سے پہلے ایسے پھول یہاں کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔اِس ویران جھیل پر سوائے اُس فرشتے کہ اور کوئی نہیں آتا تھا۔
ایک دن ایک عورت کے ساتھ ایک مرد کی وہاں آمد ہوئی۔ عورت انتہائی خوبرو اور جاذب نظر تھی اور مرد بھی اُس سے بہت محبت کرتا تھا۔شاید وہ کہیں دور کا سفرطے کرکے آئے تھے۔ تھکن کا احساس اُن کے چہروں سے نمایاں تھا۔ وہ جھیل کے ساحل پر رُکے اور وہاں کھلے ہوئے پھولوں کو دیکھنے لگے۔ یہ لوگ بہت غریب تھے لہٰذا مرد نے سوچا کہ یہ پھول اس عورت کے لیے بہترین تحفہ ہوں گے۔ ابھی وہ پھول توڑنے ہی والا تھا کہ عورت نے اسے منع کردیا۔اس نے کہا کہ ان پھولوں کو توڑا نہ جائے۔کیونکہ یہ پھول بہت خوبصورت ہیں اور ان کی طرف دیکھ لینا ہی کافی ہے۔
اس آدمی نے عورت سے کہا’’آئو اسی جگہ پر رک جاتے ہیں اور اپنا ایک مکان تعمیر کرتے ہیںتاکہ ہم ان پھولوں کو ہمیشہ دیکھتے رہیں۔‘‘ عورت نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کردی۔
وہ دونوں وہیں رک گئے اور جھیل کے پتھروں اور جنگلی لکڑیوں سے اپنا گھر تعمیر کیا۔درختوں کی ہری بھری شاخوں سے کھڑکیوں کو سجایا۔روٹی سینکنے کے لیے ایک چولھا بھی بنایا اور کپڑے سکھانے کے لیے رسیاں باندھ دیںاور کھیتی کے لیے زمین بھی ہموار کرلی۔پھر اس شخص نے کہا’’اب ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ عورت نے دوبارہ رضا مندی میں اپنا سر ہلا دیا۔
لیکن جنگلوں کی مٹی لالچی تھی یہاں بیری اور جنگلی پھل تو اگتے رہے لیکن گیہوں کی فصل نے انہیں مایوس کیا۔یہاں بُنے ہوئے کپڑے بھی نہیں تھے۔برف باری کی وجہ سے یہاں ایسے پودے بھی نہیں پائے جاتے تھے جن سے کپڑے بنائے جاسکیں۔اسی حال میں ان کے یہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی۔ اس موقع پرآدمی اپنی بیوی کو ایک خوبصورت قیمتی پتھر تحفے میں دینا چاہتا تھا۔وہ اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن اس کے جیب میں چند سکوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔مایوس ہو کر وہ جھیل کے ساحل پر چلنے لگا تاکہ کم از کم وہاں سے ایک پھول توڑ کر اپنی بیوی کو تحفے میں دے سکے۔لیکن رات بھر تیز ہوائیں چلتی رہیں اور ان ہوائوں نے پھولوں کو تہس نہس کرکے ان کی پنکھڑیوں کو جھیل پر بکھیر دیاتھا۔
اس آدمی نے خود سے کہا’’صبر‘‘کرو،میں انہیں جمع کروں گا اور اس سے ایک ہار بنائوں گا۔
وہ اپنے گھر واپس آیا، اپنا جال اٹھایا اور جھیل پر پہنچ کر بکھری ہوئی پنکھڑیوںکو جمع کرنے لگا۔ جب اس نے بہت ساری پنکھڑیاں جمع کرلیں تب اسے نظر آیا کہ کوئی چیز اس کے جال میں چمک رہی ہے۔ اس نے اسے اٹھا کر سوچا شاید کوئی چھوٹی مچھلی ہے؟لیکن اس نے دیکھا کہ وہ ویسی نہیں ہے جیسی مچھلیاں وہ عام طور پر پکڑا کرتا ہے۔اسے محسوس ہوا کہ یہ کوئی قیمتی دھات یا خالص چاندی سے بنی ہوئی کوئی شئے ہے۔کہیں کہیں سے یہ شئے سونے کی طرح بھی چمکتی نظر آ رہی تھی۔
حیرت اور خوشی کے جذبات سے سرشار وہ اُس چیز کو عورت کے پاس لے آیا اور کہا ’’میں شہر جاکر اسے بیچ دوں گا اور تمہارے لیے، تمہاری آنکھوں کے رنگ کا ایک خوبصورت پتھر خرید لائوں گا۔‘‘
لیکن عورت نے انکار کردیااور کہا کہ’’ اس طرح کی مچھلیاں فروخت کرنے کے لیے نہیں ہوتیں۔یہ اتنی خوبصورت ہے کہ اس کی طرف دیکھنا ہی کافی ہے۔‘‘
اِس مرتبہ آدمی نے عورت کی باتوں پر دھیان نہیں دیا۔وہ مچھلی بیچ کر خوبصورت پتھر خریدنے کے لیے شہر چلا گیا۔کچھ دیر بعد وہ مطمئن ہوکر اس عورت کے پاس واپس آگیا۔آتے ہی اس نے کہا ’’یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے۔‘‘لیکن اس عورت کے چہرے پر مسکراہٹ جیسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔
کچھ ہی عرصہ میں چاندی کی مچھلی کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔اس کے بعد لوگ بھیڑ کی شکل میں جھیل کی طرف نکل پڑے۔
ان لوگوں نے ہر قسم کا جال پھیلایااور مختلف قسم کی مچھلیاں پکڑیں لیکن ان میں کوئی مچھلی اس چاندی کی مچھلی کی طرح نہیں تھی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اپنی کوشش نہیں چھوڑی اور اس وقت تک مچھلیاں پکڑتے رہے جب تک پانی آلودہ اور جھیل کی تمام مچھلیاں ختم نہیں ہوگئیں، جب تک پھولوں کے تنے ٹوت کر بہہ نہ گئے،جب تک پھولوں کا نام و نشان مٹ نہ گیا۔
اس عورت نے سوچا کہ اب یہاں دوبارہ کبھی پھول نہیں کھلیں گے اور وہ بہت اداس ہوگئی۔ اس نے اس پتھر کو اٹھایا جس کے سبب اتنی تباہی پھیلی تھی اور اسے جھیل میں پھینک دیا۔آدمی نے اسے دیکھا لیکن کچھ بھی نہیں کہا۔ اس کے بعد وہ کبھی بھی خوش نہیں رہ سکے۔
گرمیوں کا موسم گزر گیا اور موسمِ سرما آگیا۔یہ برفیلا اور طوفانی سرد موسم تھا۔ایک رات ان کا بچہ روتے ہوئے بیدار ہوا، ماں نے اسے تسلّی دیتے ہوئے گیت گانا شروع کیا۔اس کا گیت ہوا کے دوش پر تیرتا ہوا کھڑکیوں سے باہر نکلا۔تب برفیلے طوفان اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک فرشتہ وہاں سے گزررہا تھا۔فرشتہ راستہ بھٹک چکا تھا۔اس نے مترنم آواز میں اس عورت کو گاتے ہوئے سنا۔گیت کی نغمگی اس کے حواس پر چھا گئی اوراسے محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے گھر واپس آچکا ہے۔وہ آندھیوں کی پیروی کرتا ہوا جھیل کی سطح سے کافی نیچے پرواز کرنے لگا۔جب وہ کھڑکی کے سامنے پہنچا تب اسے احساس ہوا کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔لیکن وہ گیت اتنا میٹھا اور مترنم تھا کہ فرشتہ وہاں رک کر اسے سننے لگا۔
بچے کے سونے تک وہ عورت گاتی ہی رہی اور فرشتہ کھڑکی کے پاس کھڑا رہ کر سنتا رہا۔کچھ دیر بعد اس نے اپنے پروں کو حرکت دی اور وہاں سے پرواز کرگیا۔شاید اسی وقت آندھی نے اس کے ایک پر کو توڑ دیا۔ صبح کے وقت اُس کاپَر منجمد جھیل پر کسی چمکتی ہوئی چاندی کی طرح پڑا ہوا تھا۔
کسی نے بھی اس پر غور نہیں کیا۔ سب یہی سمجھتے رہے کہ یہ چمکتی ہوئی شئے سورج کی شعاعوں کا عکس ہے۔لیکن بہار کے موسم میں جب برف پگھلنے لگی تب جھیل میں ایک صاف و شفاف نئے پودے کھلتے ہوئے نظر آئے۔
وہ عورت اور آدمی کبھی یہ جان نہیں پائے کہ کوئی فرشتہ بھی کبھی ادھر سے گزرا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے وہ دونوں دوبارہ خوش رہنے لگے۔
——————————-

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Intekhab – e- Kalam Firaq Gorakhpuri

Articles

انتخابِ کلام فراق گورکھپوری

فراق گورکھپوری

1

زیر و بم سے سازِ خلقت کے جہاں بنتا گیا

یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا

داستانِ جور بے حد خوں سے لکھتا ہی رہا

قطرہ قطرہ اشکِ غم کا بے کراں بنتا گیا

عشقِ تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں

اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا

میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو

زیبِ عنوانِ حدیثِ دیگراں بنتا گیا

بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں

نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا

ہم کو ہے معلوم سب رودادِ علمِ و فلسفہ

ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا

میں کتاب دل میں اپنا حالِ غم لکھتا رہا

ہر ورق اک بابِ تاریخِ جہاں بنتا گیا

بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں

جو سکوتِ راز رنگیں داستاں بنتا گیا

میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں

وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا

وارداتِ دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے

ہر حسابِ غم حسابِ دوستاں بنتا گیا

میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں

جو بھی میں کہتا گیا حسنِ بیاں بنتا گیا

وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے

ایک تیرا غم کہ گنجِ شائگاں بنتا گیا

سر زمینِ ہند پر اقوامِ عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے، ہندوستاں بنتا گیا

2

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا

حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلوئوں کی

چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے

فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا

دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ

تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا

نثار نرگس میگوں کہ آج پیمانے

لبوں تک آئے ہوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا

وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی

جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا

چراغ طور جلے آئینہ در آئینہ

حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا

بقدرِ ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر

نگاہِ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا

کہیں چراغ، کہیں گل، کہیں دل برباد

خرامِ ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا

فسونِ غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا

ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں

چمن میں غُنچہ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا

ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا

سلوک اُچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا

نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے

دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا

پیام حسن، پیام جنوں، پیام فنا

تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

تمام حسن کے جلوے تمام محرومی

بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا

فراقؔ راہ و فا میں سُبک روی تیری

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

3

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے کافروں کی جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی

اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں

نگاہِ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

حیاتِ عشق کااک اک نفس جامِ شہادت ہے

وہ جانِ ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بہ عنوانِ دگر، وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

اب اس کو کفر مانیں یا بلندیِ نظر جانیں

خدائے دوجہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر نقصان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگند کھاتی ہے

تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں

رفیقِ زندگی تھی اب انیسِ وقتِ آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

زمانہ وارداتِ قلب سننے کو ترستا ہے

اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

4

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اِس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہِ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

شکوۂ جَور کرے کیا کوئی اُس شوخ سے جو

صاف قائل بھی نہیں صاف مکرتا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجش بیجا بھی نہیں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

آج غفلت بھی اُن آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا

آج ہی خاطِرِ بیمار شکیبا بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکونِ دل وحشی کا مقام

کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں

’’ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں‘‘

تونے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموش

آج محفل میں فراقِؔ سخن آرا بھی نہیں

5

نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں

ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں

شام بھی تھی دھواں دھواں حُسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں

مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری

مجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں

حسنِ نظر فریب میں کس کو کلام تھا مگر

تیری ادائیں آج تو دل میں سما کے رہ گئیں

تب کہیں کچھ پتہ چلا صدق و خلوص حُسن کا

جب وہ نگاہیں عشق سے باتیں بنا کے رہ گئیں

تیرے خرامِ ناز سے آج وہاں چمن کھِلے

فصلیں بہار کی جہاں خاک اُڑا کے رہ گئیں

پوچھ نہ اُن نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاں

فتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں

تاروں کی آنکھ بھی بھر آئی میری صدائے درد پر

اُن کی نگاہیں بھی ترا نام بتا کے رہ گئیں

اُف یہ زمیں کی گردشیں، آہ یہ غم کی ٹھوکریں

یہ بھی تو بختِ خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں

اور تو اہلِ درد کو، کون سنبھالتا، بھلا

ہاں، تیری شادمانیاں اُن کو رُلا کے رہ گئیں

یاد کچھ آئیں اس طرح بھولی ہوئی کہانیاں

کھوئے ہوئے دلوں میں آج درد اُٹھا کے رہ گئیں

سازِ نشاطِ زندگی آج لرز لرز اُٹھا

کس کی نگاہیں عشق کا درد سُنا کے رہ گئیں

تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی

تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں

جھوم کے پھر چلیں ہوائیں وجد میں آئیں پھر فضائیں

پھر تری یاد کی گھٹائیں سینوں پہ چھا کے رہ گئیں

قلب و نگاہ کی یہ عید ، اُف یہ مآلِ قرب و دید

چرخ کی گردشیں تجھے مجھ سے چھپا کے رہ گئیں

پھر ہیں وہی اُداسیاں پھر وہی سونی کائنات

اہلِ طرب کی محفلیں رنگ جما کے رہ گئیں

کون سکون دے سکا، غم زدگانِ عشق کو

بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں

6

شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہت زلفِ پریشاں داستانِ شام غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل و جد میں آتی رہے دکھتی رہے

یونہی اس کے جا و بیجا ناز کی باتیں کرو

جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی

اُس سکوتِ راز اس آواز کی باتیں کرو

عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا

آج اس کی نرگس غماّز کی باتیں کرو

نام بھی لینا ہے جس کا اک جہانِ رنگ و بو

دوستو! اس نو بہارِ ناز کی باتیں کرو

کس لئے عذرِ تغافل کس لئے الزامِ عشق

آج چرخِ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نو رسا

کچھ فضا کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

جو حیاتِ جاوداں ہے جو ہے مرگِ ناگہاں

آج کچھ اُس ناز اس انداز کی باتیں کرو

عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا

شوخیِ حسنِ کرشمہ ساز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ

آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو

7

رُکی رُکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی

وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی، نہ ساتھ

مسافروں سے کہو اُس کی رہ گزر آئی

فضا تبسّمِ صبحِ بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی

کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں

مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی

کسی کی بزمِ طرب میں حیات بٹتی تھی

امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

دلوں میں آج تیری یاد مدّتوں کے بعد

بہ چہرۂ متبسّم، بہ چشمِ تر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگِ ناگہاں کا پیام

ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی

فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے

تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اُتر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

تیرا ہی عکس سرشکِ غمِ زمانہ تھا

نگاہ میں تری تصویر سی اُتر آئی

عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول

کلی کلی کی صبا جاکے گود بھر آئی

شبِ فراقؔ اُٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تیری یاد رات بھر آئی

8

بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی

سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی

سازِ نوائے درد حجاباتِ دہر ہیں

کتنی دُکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی

رکھ لی جنھوں نے کشمکشِ زندگی کی لاج

بیدر دیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی

یوں فرطِ بیخودی سے محبت میں جان دے

تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی

ہے عشق اِس تبسّمِ جاں بخش کا شہید

رنگیناں لئے ہے جو صبحِ حیات کی

چھیڑا ہے دردِ عشق نے تارِ رگِ عدم

صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی

شامِ ابد کو جلوۂ صبحِ بہار دے

روداد چھیڑ زندگیِ بے ثبات کی

اس بزمِ بیخودی میں وجود و عدم کہاں

چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی

سو درد اک تبسّمِ پنہاں میں بند ہیں

تصویر ہوں فراقؔ نشاطِ حیات کی

9

رسم و راہِ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو

ٹوٹ جاتی ہے ہر اک زنجیر وحشت بھی تو ہو

زندگی کیا، موت کیا، دو کروٹیں ہیں عشق کی

سونے والے چونک اٹھیں گے قیامت بھی تو ہو

’’ہر چہ باداباد‘‘کے نعروںسے دنیا کانپ اٹھی

عشق کے اتنا کوئی برگشتہ قسمت بھی تو ہو

کار زارِ دہر میں ہر کیف ہر مستی بجا

کچھ شریک بیخودی رندانہ جرأت بھی تو ہو

کم نہیں اہلِ ہوس کی بھی خیال آرائیاں

یہ فناکی حد سے بھی بڑھ جائیں ہمت بھی تو ہو

کچھ اشاراتِ نہاں ہوں تو نگاہ ناز کے

بھانپ لیں گے ہم یہ محفل رشکِ خلوت بھی تو ہو

اب توکچھ اہل رضا بھی ہو چلے مایوس سے

ہر جفائے ناروا کی کچھ نہایت بھی تو ہو

ہرنفس سے آئے بوئے آتشِ سیالِ عشق

آگ وہ دل میں لہومیں وہ حرارت بھی تو ہو

یہ ترے جلوے یہ چشمِ شوق کی حیرانیاں

برقِ حسنِ یار نظارے کی فرصت بھی تو ہو

گردشِ دوراں میں اک دن آرہے گا ہوش بھی !

ختم اے چشم سیہ یہ دور غفلت بھی تو ہو

ہر دلِ افسردہ سے چنگاریاں اڑ جائیں گی

کچھ تری معصوم آنکھوںمیں شرارت بھی تو ہو

اب وہ اتنا بھی نہیں بیگانہ وجہ ملال

پرسش غم اس کو آتی ہے ضرورت بھی تو ہو

ایک سی ہیں اب تو حسن وعشق کی مجبوریاں

ہم ہوں یا تم ہو وہ عہدِ بافراغت بھی تو ہو

دیکھ کر رنگِ مزاج یار کیا کہیے فراقؔ

اس میں کچھ گنجائشِ شکر و شکایت بھی تو ہو

10

آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں

اُف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں

بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام

بہلائے تجھ سے چھُٹ کے طبیعت کہاں کہاں

فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے

تیرا اثر ہے اے غمِ فرقت کہاں کہاں

ہر جنبشِ نگاہ میں صد کیفِ بیخودی

بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں

راہِ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی

پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں

دل کے اُفق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری

لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں

اے نرگسِ سیاہ بتا دے ترے نثار

کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں؟

نیرنگِ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ

یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں

بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز

در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں

فرق آ گیا تھا دورِ حیات و ممات میں

آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں

جیسے فنا بقا میںبھی کوئی کمی سی ہو

مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں

دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی

تیرے لئے اُٹھائی ندامت کہاں کہاں!

اب امتیازِ عشق و ہوس بھی نہیں رہا

ہوتی ہے تیری چشمِ عنایت کہاں کہاں

ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی

اس راہ میں کھلے درِ رحمت کہاں کہاں

ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ

ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں