Memarandaar Musanfeen

Articles

معماران دارالمصنفین

ڈاکٹر خورشید نعمانی

مولانا شبلی نعمانی دارالمصنفےن کے تخئےل کے خالق تھے اس تخےل کو حقےقت کا عملی جامہ پہنانے والوں مےں مولانا حمےدالدےن فراہی ،مولاناسےد سلےمان ندوی،مولانا عبدالسلام ندوی،اور مولانا مسعود علی ندوی،جےسی قدآور شخصےتےں کارفرما تھےں۔ےہ شخصےتےں دارالمصنفےن کے اصل معماروں مےں سے ہےں لےکن اس کے علمی و ادبی و عملی کارنامے اس کی تاسےس سے آج تک مختلف رفقا کی انتھک کوششوں کا نتےجہ ہےں۔رفقا مےں وہ شخصےتےں زےادہ اہم ہےں جنہوں نے اس ادارہ سے عمر بھر کا پےمان وفا باندھا۔ان کی خدمات امر ہےں۔بعض رفقا تربےت پاکر اور مختصر عرصہ تک ےہاں تک مقےم رہ کر رخصت ہوگئے۔ذےل مےں ان تمام رفقا کے حالات اور ان کی تصانےف کا اجمالاََ ذکر کےا جاتا ہے تاکہ ےہ اندازہ ہوسکے کہ دارالمصنفےن نے صرف کتابےں ہی شائع نہےں کےں بلکہ نوجوانوں کی ذہنی و علمی و ادبی تربےت بھی کی۔
مندرجہ ذےل چار شخصےتوں کو دارالمصنفےن کا معمار ہونے کا شرف حاصل ہے اس لیے ان ہی سے ابتدا کی جاری ہے۔

۱)مولانا حمےدالدےن فراہی (۲۶۸۱ء ۔ ۰۳۹۱ئ)

مولانا حمےدالدےن فراہی مولانا شبلی کے ماموں زادبھائی اور عزےز شاگرد تھے،اردو فارسی و عربی کی تعلےم کے بعد انگرےزی تعلےم بھی حاصل کی اور بی اے کی ڈگری لی۔وہ فطرتاََنہاےت ذہےن ،طباع اور دقےقہ رس تھے لےکن ساتھ ہی ساتھ انتہائی خاموش طبےعت کے مالک ،تنہائی پسند اور گوشہ نشےن تھے۔
۷۹۸۱ءمےں وہ مدرسہ اسلام کراچی مےں مدرس مقرر ہوئے اور کئی سال ےہاں ملازمت کی،مولانا عبےداللہ سندھی سے ان کی ملاقاتےں بھی ےہےں ہوئےں۔دونوں مےں قرآن پاک کے درس اور غور و فکر کا ذوق مشترک تھا۔ےہےں سے ۳۰۹۱ءمےں ان کا فارسی دےوان شائع ہوا،مولانا شبلی کی توجہ خاص سے ان کے ےہاں قرآن پاک کے نظم وبلاغت کے موضوع مےں انہماک پےدا ہوا آپ نے جمھرة البلاغہ نامی رسالہ لکھا جس کا خلاصہ مولانا شبلی نے اپنے قلم سے الندوہ کے دسمبر۵۰۹۱ءمےں شائع کےا۔کراچی کے بعد وہ علی گڑھ کالج مےں عربی کے پروفےسر مقرر ہوئے۔

مولانا حمےدالدےن فراہی کے ذاتی فضل وکمال اور مولانا شبلی سے تعلق خاص کے سبب علی گڑھ کے علمی حلقہ سے ان کے گوناگوں روابط ہوگئے۔مولانا حبےب الرحمٰن خاں شےروانی سے ان کے مراسم خاص ہوگئے وہ مولانا کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہوگئے قرآنی مشکلات کے حل مےں ان سے وہ مشورہ لےنے لگے ۔علی گڑھ کے قےام ہی کے زمانے مےں انہوں نے اقسام القرآن لکھی جو کہ اپنی نوعےت کی اےک منفرد تصنےف تھی۔۸۰۹۱ءمےں مولانا فراہی علی گڑھ سے الہ آباد منتقل ہوگئے اور ےہاں مےورکالج(الہ آباد ےونےورسٹی)مےں عربی کے پروفےسر ہوگئے۔کالج کے درس کے علاوہ باقی وقت تالےف و تصنےف مےں صرف کرتے۔ےہےں سے انہوں نے سورہ مرےم کی تفسےر شائع کی۔مولانا فراہی کے قےام الہ آباد کے دوران کے اہل برادری مےں اےک نئے عربی مدرسہ کی قےام کی تحرےک پےدا ہوئی مولانا شبلی اور مولانا حمےدالدےن فراہی نے اس تحرےک کی عنان اپنے ہاتھ مےں لی اور ۰۱۹۱ءمےں اعظم گڑھ مےں سرائے مےر نامی جگہ پر اےک مدرسہ کی بنےاد رکھی اور مولانا اسکے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔

اوآخر۳۱۹۱ءمےں جب مولانا شبلی نے ندوہ کی معتمدی سے استعفیٰ دےا تو اپنی دےرےنہ آرزو ےعنی اےک دارالمصنفےن کاخےال ان کے ذہن مےں پھر آےا ،پھر اگست ۴۱۹۱ءمےں اپنے عزےز بھائی مولوی محمد اسحٰق کی وفات پر وہ اعظم گڑھ آگئے اور ےہےں قےام طے کےا،دارالمصنفےن کے لیے زمےن وبنگلہ وقف کےا اور عزم وےاس کے عالم کشمکش مےں مولانا حمےدالدےن کو ۴۱ اکتوبر ۴۱۹۱ءکولکھا۔
”افسوس ہے کہ سےرت پوری نہ ہوسکی اور کوئی نظر نہےں آتا کہ اس کام کو پورا کرسکے۔ اور اگر دارالمصنفےن قائم ہوا تو تمہارے سواکون چلائے گا۔“۱

۸۲ اکتوبر۴۱۹۱ءکو اپنے آخری خط مےں لکھتے ہےں:

”برادرم وقت تو ےہ تھا کہ ہم چند لوگ ےکجا ہوتے اور کچھ کام کرتےسےد سلےمان ندوی بھی تعلق موجود ۳ پر راضی نہےں ،ذرا سا اشارہ ہو تو مرے پاس آئےں،مےں خود روک رہا ہوں“۲
اس خط کی تحرےر کے تےن ہی ہفتہ کے بعد مولانا شبلی نے ۸۱ نومبر ۴۱۹۱ءکو انتقال کےا۔مولانا حمےدالدےن وفات سے اےک دن ،اور سےد سلےمان ندوی دو دن قبل ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔سےد صاحب کو حکم دےا۔

”سب چھوڑ کر سےرت “مولانا حمےدالدےن پہنچے تو سکوت طاری ہوچکا تھا،آنکھےں کھول کر صرف بھائی کی طرف دےکھا اور چپ ہوگئے بقول سےد سلےمان ندوی:

”اس خاموش نگاہ حسرت مےں وصےتوں اور فرمائشوں کے ہزاروں معنی پوشےدہ تھے جس کو اہل حق ہی سمجھ سکتے ہےں۔“۴ مولانا شبلی نے انتقال سے قبل جو دو خط مولانا حمےدالدےن کو لکھے تھے وہی مرحوم کی زندگی کا آخری نصب العےن بن گےا۔مولانا شبلی کے انتقال کے تےسرے دن مولانا حمےدالدےن فراہی نے ان کے ارشد تلامذہ کی اےک مےٹنگ بلائی اور ان کی اےک مختصر سی مجلس نعمانےہ بنالی جس کا مقصد مولانا شبلی کے ادھورے کاموں کی تکمےل تھی۔وہ مجلس عاملہ کے صدر نشےن اپنی زندگی کے آخری اےام تک رہے۔مولانا سےد سلےمان ندوی۔ناظم علمی اور مولانا مسعود علی ندوی ناظم انتظامی ،مولانا مسعود علی نے ان کاموں کی تکمےل کے بعد دارالمصنفےن مےں قےام کرنا بھی منظور کےا۔

مولانا شبلی کے انتقال کے بعد مولانا فراہی حےدرآباد چلے گئے۔وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے عصری علوم و فنون کی اردو زبان مےں تعلےم کی تجوےز پےش کی،اس کا خاکہ تےار کےا۔ان کاخےال تھا کہ دےنےات کی تعلےم عربی مےں ہو اور باقی تمام علوم ےہاں تک کہ اصول فقہ بھی اردو مےں پڑھا جائےں۔جامعہ عثمانےہ مےں کتابوں کے ترجمہ اور اصطلاحات وضع کرنے کا جو کام شروع ہوااس مےں مولانا کے مفےد مشورے بھی شامل ہےں۔مولانا حبےب الرحمٰن خاں شےروانی جو جامعہ کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے تو اپنے والانامہ مےں فرماتے ہےں:

”جامعہ عثمانےہ کی بنےاد رکھنے والوں مےں مولانا کے ہاتھ بھی تھے“۱
حےدرآباد مےں قےام مےں خرد نامہ ےعنی مواعظ سلےمان کی تکمےل کی اور چھپوائی پھر”اسباق الخو“کے نام سے عربی صرف وہ نحو کی آسان صورت مےں اردو مےں دو رسالے مرتب کئے”الرائی الفصےح “تصنےف کی اور تفسےر کے بعض مقدمات لکھے اور درس قرآن کا اےک حلقہ قائم کےا۔مولانا کا قےام حےدرآباد مےں ۹۱۹۱ءتک رہا وہاں سے اعظم گڑھ آگئے اور ےہاں مدرستہ الصلاح سرائے مےر کی خدمت مےں لگ گئے ۔۰۳۹۱ءمےں انتقال کےا۔

مولانا شبلی مولانا حمےد الدےن فراہی کو بہت عزےز رکھتے تھے۔مکاتےب شبلی جلد دوم مےں ان کے نام ۷۷خطوط اس بات کے غماز ہےں،سےد سلےمان ندوی رقم طراز ہےں۔
”اپنے ماموں زاد بھائی اور شاگرد مولوی حمےدالدےن صاحب مرحوم سے نہاےت خلوص تھا اور ان کو ہر بات مےں اپنے اوپر ترجےح دےتے تھے ۔کابل سے ترجمہ ابن خلدون کی تحرےک ہوئی تو انہےں کا نام پےش کےا ،علی گڑھ کی عربی پروفےسر ی کے لیے نواب محسن الملک نے لکھا تو انہےں کے لیے کوشش کی اور وہ اسی کوشش سے وہاں کے پروفےسر مقرر ہوئے۔دارلعلوم ، حےدرآباد کی پرنسپلی کے لیے مولانا شبلی کا انتخاب ہوا تو انہوں نے ےہ جگہ مولوی حمےدالدےن صاحب کو دلادی،ان کی فارسی سخن سنجی ،نکتہ آفرےنی اور آخر مےں ان کی قرآن فہمی کے بے حد معترف تھے،مسائل کی تحقےق مےں ان سے مشورے کرتے تھے،ان کے فارسی کلام کی نسبت کہتے تھے کہ ےہ زبان ہے،ان کی مذہبی و علمی وعملی شےفتگی اور پابندی کی بنا پر ان کو دروےش کہتے تھے اور تھے بھی وہ اےسے ہی،عقےدةََ اور عملاََ نمونہ سلف رحمتہ اللہ تعالیٰ ،دےندار،عبادت گزار،تہجد گزار،متقی،متوکل،صابر و قانع،متواضع و خاکسار،غرض مجموعہ اوصاف۔۲

مولانا حمےدالدےن فراہی کے بارے مےں مولانا عبدالماجد درےا آبادی کا ےہ بےان قابل ملاخطہ ہے:
”بڑے سنجےدہ اور مفکر قسم کے آدمی تھے جو کچھ پڑھا وہ محنت اور شوق دونوں سے پڑھا اس لیے
ادےبات فارسی و عربی مےں اپنے معاصرےن سے بازی لے گئے اور ممکن ہے کہ مولانا شبلی سے بھی ،فارسی اور عربی دونوں پر بے تکلف قدرت اہل زبان کی طرح رکھتے تھے۔فارسی مےں شاعر ،صاحب دےوان اور عربی مےں کلام جاہلےت کے گوےا حافظ تھے۔کراچی اور الہ آباد مےں عربی و فارسی کے استاد تھے اور پھر آخر مےں برسوں حےدرآباد کے دارلعلوم نظامےہ کے صدر ےا پرنسپل ،لکھنﺅ مےں مولانا شبلی کے ےہاں ملاقات ہوئی ،آدمی کم سخن و کم آمےز تھے مےں اس وقت ملحد اور وہ سخت دےندار ،البتہ۷۱۹۱ءےا ۸۱۹۱ءمےں حےدر آباد مےں مہےنوں ان کا ساتھ رہا،ہر مسئلے مےں عجب عجب نکتہ آفرےنےاں کرتے ،عثمانےہ ےونےورسٹی کی بنےاد ےں پڑ رہی تھےں،مجلس وضع مصلحات مےں شرےک رہے اور بحث و مباحثے مےں اچھا خاصہ حصہ لےتے۔۱
مولانا سےد سلےمان ندوی نے مولانا حمےدالدےن فراہی کے انتقال پر جوفےات لکھے اور خون کے آنسو روئے ہےں اس کا اےک اقتباس نذر ناظرےن کےا جاتا ہے۔
”آہ۔مولانا حمےد الدےن فراھی“

اس عہد کا ابن تےمےہ ۱۱ نومبر ۰۳۹۱ء(۹۱ جمادی الثانی ۹۴۳۱ئ)اس دنےا سے رخصت ہوگےا جس کی مشرقی و مغربی جامعےت عہدِ حاضر کا معجزہ تھی،عربی کا فاضل ےگانہ ،انگرےزی کا گرےجوےٹ ،زہدوورع کی تصوےر،فضل وکمال کامجسمہ ،فارسی کا بلبل شےراز،عربی کا سوق عکاظ ، اےک شخصےت منفرد،اےک جہان دانش،اےک دنےائے معرفت،اےک کائنات علم،اےک گوشہ نشےن مجمع کمال اےک بے نواسلطان ہنر،علوم ادےبہ کا ےگانہ،علوم عربےہ کا خزانہ ،علوم عقےلد کا ناقد،علوم دےنےہ کاماہر،علوم القرآن کا واقف اسرار،قرآن پاک کا دانائے راز،دنےا کی دولت سے بے نےاز ،اہل دنےا سے مستعفی ،انسانوں کے ردوقبول اور عالم کی داد وتحسےن سے بے پرواہ، گوشہ علم کا متکلف اور اپنی دنےا کا آپ بادشاہ،افسوس کہ ان کا علم،ان کے سےنہ سے سفےنہ مےں بہت کم منتقل ہوسکا۔۲

۲)سےد سلےمان ندوی (۴۸۸۱۔۳۵۹۱)

مولانا سےد سلےمان ندوی کا شمار دارالمصنفےن کے اصل معماروں مےں سے ہوتا ہے اور قےام دارالمصنفےن کے بعد وہ اس کے رہنما،نفس ناطقہ اور روح رواں رہے،دارالمصنفےن اور سےد سلےمان ندوی لازم و ملزوم ہے۔مہدی حسن افادی نے انہےں بجا طور پر”امن سےد الطائفہ“کہا کرتے تھے۔

سےد سلےمان ندوی ۲۲نومبر ۴۸۸۱ءکو دسنہ ،ضلع پٹنہ مےں پےدا ہوئے ،سےد صاحب کے والد سےد ابوالحسن طبےب حاذق تھے،ابتدائی تعلےم اپنے وطن مےں پائی ،اسلام پور،پھلواری شرےف اور مدرسہ امدادےہ دربھنگہ مےں بھی تھوڑے تھوڑے عرصہ تک تعلےم حاصل کرنے کے بعد۱۰۹۱ءمےں دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ مےں داخل ہوئے۔ےہاں سات سال دور تعلےم کی تکمےل کی اور ےہےں سے ان کے علمی و ادبی ذوق کی نشونما اور ترقی ہوئی۔۵۰۹۱ءمےں جب مولانا شبلی ندوہ کے معتمد تعلےم ہوکر لکھنو ¿ آئے تو انہوں نے اس جوہر قابل کو اپنے دامن تربےت مےں لے لےا اور۷۰۹۱ءمےں تعلےم سے فراغت کے بعد وہ وہےں علم کلام اور جدےد عربی ادب کے استاد مقرر ہوئے۔اس زمانہ مےں”دروس الادب“کے نام سے دو عربی رےڈرےں لکھےں جو کہ کافی مقبول ہوئی۔۹۰۹۱ءمےں الندوہ مےں ان کے دو مضامےن ”خواتےن اسلام کی شجاعت“اور اسلامی رسدخانے“کو بڑی مقبولےت حاصل ہوئی۔۰۱۹۱ءمےں عربی کے جدےد الفاظ کی اےک ڈکشنری ”لغات جدےدہ“شائع ہوئی۔اس سال سےرةالنبی کی تالےف مےں وہ مولانا شبلی کے لٹرےری اسٹنٹ کی حےثےت سے بھی کام کرتے رہے۔۱۱۹۱ءسے ۲۱۹۱ءتک وہ الندہ کی ادارت کے فرائض انجام دےتے رہے۔۳۱۹۱ءمےں سےد صاحب مولانا آزاد کے مشہور اخبار ”الہلال“کلکتہ کے اسٹاف مےں شامل ہوگئے۔ اگست ۳۱۹۱ءمےں کانپور کی مسجد کے انہدام کا واقعہ پےس آےا اور انہوں نے اس سے متاثر ہوکر ۲۱ اگست ۳۱۹۱ءکو ”الہلال“مےں ”مشہداکبر“کے عنوان سے اےک دردانگےز مضمون لکھا،حکومت وقت نے ”الہلال“کے اس پرچہ کو ضبط کرلےا،اس سال کے آخر مےں مولانا شبلی کی اےما پر انہوں نے دکن کالج پونہ کی عربی و فارسی کی پروفےسری قبول کرلی۔ان مشاغل کے ساتھ قےام پونہ کے زمانہ مےں اےک اہم تصنےف”ارض القرآن“شروع کی پہلی جلد ترتےب دی اور دوسری جلد کا مواد فراہم کےا۔مولانا شبلی نے سےد صاحب کو خاص طور سے تالےف و تصنےف کے لئے تےار کےا تھا اس لئے جب ان کا وقت آخر ہوا تو سےد صاحب کو تار د ے کر اعظم گڑھ بلاےا اور سےرةالنبی ۔مکمل کرنے کی وصےت کی،استاد کی وصےت کے مطابق۵۱۹۱ءمےں انہوں نے مولانا مسعود علی انتظامی تعاون اور مولانا عبدالسلام کے علمی اشتراک سے دارالمصنفےن کی بنےاد ڈالی ۔ےہ گوےا بغداد کے دارلحکومت کا تخےل ہندوستان کے اےک شہر اعظم گڑھ کی سر زمےن پر نمودار ہوا۔سےد صاحب نے اپنی تصنےف”ارض القرآن “کی پہلی جلد کی اشاعت سے دارالمصنفےن کے کام کی ابتدا کی۔جب ےہ کتاب شائع ہوئی اہل علم کے حلقہ مےں پسندےدگی کی نظر سے دےکھی گئی اور اس سے دارالمصنفےن کے کام کی نوعےت اور سےد صاحب کی تحقےقات اور ان کے علم و نظر کی وسعت کا اندازہ ہوا۔

اس سال انجمن ترقی اردو کا سالانہ اجلاس پونہ مےں ہوا جس کی صدارت سےد صاحب نے کی اس مےں انہوں نے جو خطبہ صدارت پڑھا آگے چل کر اردو کی تارےخ پر تحقےق کرنے والوں کے دلےل راہ بنا۵۱۹۱ءسے ۶۱۹۱ءتک انہوں نے مولانا عبدالباری فرنگی محل کے ساتھ سےاسی تحرےکات مےں بھی حصہ لےا۔
جولائی ۶۱۹۱ء(رمضان المبارک)مےں رسالہ”معارف“کا پہلا شمارہ ان کی ادارت مےں نکلا۔ےہ دارالمصنفےن کا علمی و ادبی آرگن تھا۔معارف اردو کا واحد علمی و ادبی رسالہ ہے جو تارےخ اشاعت سے اب تک بلا ناغہ شائع ہورہا ہے اور اس کی اشاعت مےں کبھی تاخےر نہےں ہوئی۔معارف کی روشنی سے علم کی دنےا آج تک منور ہے۔معارف کی ادارت کے علاوہ وہ استاد مرحود کو مسودات اور سےرةالنبی کی ترتےب و تبوےب مےں بھی مشغول رہے۔دارالمصنفےن کے رفقا کے لیے لائحہ عمل اور اس کے مربےوں اور ہمدردوں کا حلقہ بھی پےدا کرتے رہے۔

۷۱۹۱ءمےں ان کی کتاب”حےات امام مالک“شائع ہوئی ان کو امام مالک سے خاص عقےدت اور ان کی موطاصحےحےن مےں زےادہ پسند تھی گوآخر عمر مےں جزوی مسائل مےں بھی امام ابو حنےفہ کے مسلک کے پابند ہوگئے تھے لےکن امام مالک سے عقےدت قائم رہی۔

۸۱۹۱ءمےں اپنے استاذمرحوم کی سےرةالنبی جلد اول مرتب کرکے ملک کے سامنے پےش کی اس سال ان کی محققانہ کتاب”ارض القرآن“کی دوسری جلد بھی شائع ہوئی۔۰۲۹۱ءمےں مولانا محمد علی کی سرکرگی مےں وفد خلافت مےں لندن کا سفر کےا،لندن جانے سے قبل علامہ شبلی کی سےرةالنبی کی دوسری جلد چھپنے کے لیے دے دی اس کا دےباچہ لندن سے لکھ کر بھےجا ،پہلی جلد نبوت کے پر آشوب غزاوت پر مشتمل تھی۔دوسری جلد نبوت کے سہ سالہ امن کی زندگی کی تارےخ ہے۔ابھی لندن ہی مےں تھے کہ ان کی کتاب ”سےرة عائشہؓ “ شائع ہوئی۔ڈاکٹر اقبال نے ےہ کتاب پڑھی اور سےد صاحب کو تحرےر کےا۔

”سےرة عائشہؓ کے لئے سراپاسپاس ہوں ،ےہ ہدےہ سلےمانی نہےں سرمہ سلےمانی ہے اس کتاب کو پڑھنے سے مےرے علم مےں بہت اضافہ ہوا،خدا تعالیٰ جزائے خےر دے۔“

۲۲۹۱ءتک دارالمصنفےن کی شہرت کو چار چاند لگ گئے تھے ۔۴۲۹۱ءمےں سےرةالنبی جلد سوم شائع ہوئی اس مےں معجزہ کی حقےقت اور اس کے امکان ،وقع پر فلسفہ قدےم،علم کلام اور فلسفہ جدےدہ اور قرآن مجےد کے نقطہ ¿ ہائے نظر سے مبسوط کےا اور اس کے بعد مکالمہ وحی،نزول ملائکہ ،عالم روےا،معراج اور شرح صدر کا بےان ہے اس کی ترتےب،واقعات کی تفتےش و تلاش اور مسائل و نظرےات کی بحث و تحقےق مےں جو محنت وکاوش اور دےدہ رےزی کی گئی ہے اس سے ان کا علمی پاےہ بلند ہوا ۔

۴۲۹۱ءمےں وفد حجاز کی قےادت کی اور مصر کا سفرکےا،اسی سال”خطبات مدراس“شائع ہوئی۔۹۲۹۱ءمےں ہندوستانی اکادمی ،الہ آباد کے زےر اہتمام عرب و ہند کے تعلقات پر لکچر دئےے۔۱۲۹۱ءمےں بمبئی مےں ”عربوں کی جہاز رانی“پر شعبہ تعلےم کی سرپرستی مےں چار خطبے دئےے۔ ۲۳۹۱ءمےں سےرةالنبی کی جلد چہارم شائع ہوئی جس مےں دکھاےا گےا ہے کہ ”نبوت محمدی“نے دنےا مےں عظےم الشان اسلام کا فرض انجام دےا ۔۴۳۹۱ءمےں ان کی مشہور تصنےف”خےام“شائع ہوئی۔اس سال وہ حکومت افغانستان کی دعوت پر تعلےمی مشوروں کے لیے افغانستان گئے۔ ۴۳۹۱ءہی مےں تارےخ ہند کی تدوےن کی اک بڑی اسکےم مرتب کی اور دسمبر ۴۳۹۱ءکے معارف مےں ےہ تجوےز پےش کی کہ ۵۱ جلدوں مےں تارےخ ہند قلمبند کی جائے گی۔

۵۳۹۱ءمےں ان کی مشہور تالےف سےرةالنبی جلد پنجم کی اشاعت ہوئی اس کا موضوع ”عبادات“ہے۔۶۳۹۱ءمےں سےرةالنبی جلد ششم شائع ہوئی اس مےں اسلام کی اخلاقی تعلےمات کی تفصےل ہے۔ےہ سےر ت کے سلسلہ کی بڑی اہم جلد ہے۔

۹۳۹۱ءمےں ان کی کتاب”نقوش سلےمانی “شائع ہوئی جو ان کی تحرےروں اور مقدموں کا مجموعہ ہے جو اردو زبان و ادب سے متعلق ان کے قلم سے نکلے ےہ گوےا پچھلی چوتھائی صدی کی ادبی تحرےکوں کا اےک مرقع ہے۔اسی سال بچوں کے لیے ”رحمت عالم“لکھی گئی جس مےں سلےس اور آسان زبان مےں آنحضرت کی سےرت پاک ہے۔

۰۴۹۱ءکے نومبر مےں علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی نے انہےں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا،اسی سال وہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے بےعت ہوئے اور ان مےں اےک روحانی انقلاب پےدا ہوا۔۲۴۹۱ءمےں انہوں نے اپنے استاذ مولانا شبلی کی سوانح ”حےات شبلی“ شائع کی جو ۶۴۸ صفحات کی کتاب ہے۔ےہ ضخےم کتاب اےک شخص کی سوانح عمری ہی نہےں بلکہ مسلمانان ہند کے پچاس برس کے علمی،ادبی ،سےاسی،تعلےمی،مذہبی اور قومی واقعات کی تارےخ بھی ہے۔سےد صاحب کی ےہ آخری تصنےف ہے۔سےرةالنبی کی ساتوےں جلد کے صرف دو باب ہی لکھ پائے تھے کہ انتقال ہوگےا۔

۶۴۹۱ءمےں رےاست بھوپال کے دارالقضا کے نگراں ہوکر بھوپال چلے گئے اور ۶۴۹۱ءسے اکتوبر۹۴۹۱ءتک وہاں ”قاضی القضاة“کے عہدہ پر سرفراز ہے،وہےں سے حج بےت اللہ کے لئے روانہ ہوگئے۔واپسی پرچند روزہ قےام کے بعد۰۵۹۱ءمےں وہ پاکستان ہجرت کرگئے جہاں ۲۲ نومبر۳۵۹۱ءکو انتقال کےا۔
سےد صاحب کی جامعےت:سےد سلےمان ندوی کی جامعےت سے متعلق علامہ اقبال کی ےہ رائے ملاخطہ ہو۔”آج سےد سلےمان ندوی ہماری علمی زندگی کے سب سے اونچے زےنے پر ہےں۔وہ عالم ہی نہےں امےر العلماہےں ،مصنف ہی نہےں رئےس المصنفےن ہےں،ان کا وجود علم و فضل کا اےک درےا ہے جس سے سےکڑوں نہرےں نکلی ہےں اور ہزاروں سوکھی کھےتےاں سےراب ہوئی ہےں۔“۱

علامہ اقبال سےد سلےمان ندوی کی عملی فضےلت کے کس قدر قائل ہے اس جملہ سے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔”علو م اسلام کے جوئے شےر کا فرہاد آج ہندوستان مےں سوا سےد سلےمان ندوی کے اور کون ہے“۱
مولانا سےد سلےمان ندوی کی شخصےت بڑی جامع تھی ان کے افکار وخےالات نہاےت بلند اور ان کے کاموں کا دائرہ بڑا وسےع تھا۔ان کی تصنےفات سے ان کے موضوعات کے تنوع کا اندازہ لگاےا جاسکتا ہے۔ان کی معلومات کی وسعت اور تلاش و تحقےق کے بارے مےں ان کے شاگرد رشےد اور سےرت نگار مولانا شاہ معےن الدےن احمد ندوی رقم طراز ہےں۔

”مطالعہ کی کثرت اور نادر کتابوں کی تلاش وجستجو نے ان کے دماغ کو مستقل کتب خانہ اور متنوع علمی معلومات کا خزانہ بنا دےا تھا۔ان کی کوئی گفتگو علمی معلومات سے خالی نہ ہوتی تھی،ان کی صحبت سے جو قےمتی معلومات حاصل ہوجاتی تھےں وہ بہت سی کتابوں کے مطالعہ سے حاصل نہےں ہوسکتی تھےں۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے ،معلومات کی وسعت اور تحقےق و تنقےد کا پورا حق اداکرتے اور ان کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑتے ،مذہبی مباحث سے قطع نظر ادب و تارےخ ان کا خاص دائرہ تھا خالص علمی و تارےخی موضوع پر انہوں نے جو کچھ لکھ دےا ہے اس پر مشکل ہی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔۲

اےک دوسری جگہ پر سےد صاحب کی جامعےت اور مقبولےت کے بارے مےں لکھتے ہےں:
”سےد صاحب کی اےک بڑی خصوصےت قدےم و جدےد کی جامعےت اور ہر طبقہ مےں ان کی مقبولےت تھی۔وہ اگر چہ قدےم تعلےم کے نمائندے تھے اور ان کی تعلےم و تربےت تمام تر پرانے ماحول مےں ہوئی تھی لےکن ان کے قلب مےں بڑی وسعت تھی،وہ جدےد خےالات اور رحجانات اور اس کے طرےقوں سے پوری طرح واقف تھے۔وہ ان سے بھڑکتے نہ تھے بلکہ ان کو صحےح راستہ پر لگانے کی کوشش کرتے تھے۔اس لحاظ سے وہ قدےم و جدےد کا سنگم تھے۔“۳

سےد صاحب کے حالات مےں”معارف“کا اےک خاص نمبر شائع ہوچکا ہے اور ان کی سوانح عمری ”حےات سلےمان مولانا شاہ معےن الدےن احمدندوی ،دارالمصنفےن اعظم گڑھ سے شائع ہوچکی ہے۔
مکاتےب شبلی جلد دوم مےں مولانا سےد سلےمان ندوی کے نام ۲۸ مکتوب ہےں۔
۳)مولانا عبدالسلام ندوی(۲۸۸۱ئ۔۵۹۱ئ)

دارالعلوم ندوة العلما نے اپنے دور کمال مےں جو نامور فرزند پےداکئے ان مےں اےک مولانا مولانا عبدالسلام ندوی بھی تھے ان مےں شعر و ادب اور لکھنے پڑھنے کا ذوق ابتدا ہی سے تھا۔چنانچہ مولانا شبلی کی جوہر شناس نگاہ نے اسی زمانہ مےں انکی صلاحےتوں کا اندازہ کرلےا تھا۔ان کو فطری لگاو ¿ شعر و ادب سے تھا لےکن مذہبےات سے لے کر شعر و ادب تک ہر موضوع پر لکھنے کی ےکساں قدرت تھی۔چنانچہ ان کے مضامےن جس قدر متنوع ہےں وہ مشکل سے کسی دوسرے اہل قلم کے مضامےن مےں نکل سکتے ہےں۔

مولانا عبدالسلام ندوی ۲۸۸۱ءمےں اعظم گڑھ کے اےک گاو ¿ں علاﺅ الدےن پٹی مےں پےدا ہوئے ابتدائی تعلےم حقانی مکتب مےں پانے کے بعد وہ کانپور ،آگرہ اور مدرسہ چشمہ ¿ رحمت غازی پور سے فےضےاب ہوئے۔متوسطات سے تعلےم حاصل کرنے کے بعد ۶۰۹۱ءمےں وہ دارالعلوم ندوةالعلمالکھنو ¿ مےں داخل ہوئے اور فراغت کے بعد ۰۱۹۱ءمےں وہےں عربی ادب کے استاذ مقرر ہوئے۔

مولانا شبلی نے ان کے متعلق پےشن گوئی کی تھی کہ وہ آگے چل کر اےک اچھے مصنف ہوں گے ان کا پہلا مضمون مئی ۶۰۹۱ءکے الندوہ مےں تناسخ پر مولانا شبلی کی اصلاح کے بغےر ان کے تعرےفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔اسی سال ان کو الندوہ کا اسٹنٹ اےڈےٹر بھی مقرر کر دےا،۲۱۹۱ءمےں وہ مولانا ابوالکلام آزاد کی دعوت پر”الہلال“کلکتہ کے اسٹاف مےں شامل ہوگئے۔مولانا شبلی کے انتقال کے بعد جب دارالمصنفےن قائم ہوا تو وہ اعظم گڑھ آئے اور اس ادارہ سے عمر بھر کا پےمان وفا باندھا۔وہ دارالمصنفےن کے رکن اعظم اور مولانا سےد سلےمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی کی طرح اس کے تےسرے معمار اعظم بھی ہےں۔
مولانا کا انتقال ۴ اکتوبر ۶۵۹۱ءکو دارالمصنفےن مےں ہوا اور اپنے استاذ مولانا شبلی مرحوم کے مزار سے متصل ہی سپرد خاک ہوئے۔

مولانا عبدالسلام ندوی کی مشہور تصانےف کے نام ےہ ہےں۔
۱)سوہ ¿ صحابہ(دو جلدےں)(۲) اسوہ ¿ صحابےات(۳)سےرت عمر بن عبدالعزےز ؒ(۴)تارےخ اخلاق اسلامی(۵)تارےخ فقہ اسلامی(۶) شعر الہند(دو جلدےں)(۷) امام رازی (۸) حکمائے اسلام (دو جلدےں)(۹)اقبال کامل(۰۱)ابن خلدون(۱۱)انقلاب الامم

Maulana Azad aur Allama Shibli Nomani

Articles

مولانا آزاد اور علامہ شبلی نعمانی

پروفیسر ظفراحمدصدیقی

مولاناابوالکلام آزاد بلاشبہ نابغہ ¿ روزگار تھے۔ ان کی غیرمعمولی ذہانت و ذکاوت، مسحورکن خطابت، بے مثال انشاپردازی، اس کے ساتھ ہی دانش وری اور سیاسی بصیرت کو اب مسلّمات کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی وسعت ِمطالعہ، قوتِ حافظہ اور جامعیت بھی عجیب و غریب تھی۔ اسلامیات، شعروادب، تاریخ و جغرافیہ اور طب جیسے متنوع اور مختلف الجہات علوم و فنون سے وہ نہ صرف واقف تھے، بلکہ ان کی جزئےات بھی اکثر و بیشتر انھیں مستحضر رہتی تھیں۔ اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں پر انھیں کامل عبور تھا۔ انگریزی کتابوں کے مطالعے میں بھی انھیں کوئی زحمت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

مولانا آزاد کے خاندان، آباو اجداد، مولد و منشا، سالِ ولادت اور تعلیمی مراحل جیسے احوال و کوائف پر بڑی حدتک ابہام و غموض کا پردہ پڑا ہوا ہے اور تھوڑی بہت معلومات جو اُن امور سے متعلق ہم تک پہنچ سکی ہیں وہ انتہائی محیرالعقول ہیں۔ بہرحال جناب مالک رام کی تحقیق کے مطابق ۸۸۸۱ءکو اگر ان کا سالِ ولادت تسلیم کرلیا جائے تو وہ علامہ شبلی نعمانی سے اکتیس سال چھوٹے تھے۔ انھوںنے علامہ کے نام پہلا خط ۱۰۹۱ءمیں لکھا۔ اس وقت ان کی عمر محض تیرہ سال تھی۔ دوسری جانب علامہ شبلی اس وقت اپنی عمر کی ۴۴ویں منزل میں تھے۔ ان کی تصانیف میں مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم، المامون، سیرةالنعمان، رسائل شبلی اور الفاروق منظرعام پر آچکی تھیں۔ اس لحاظ سے وہ ملک کے طول و عرض میں ہرطرف مشہور ہوچکے تھے اور قیامِ علی گڑھ کا دور ختم کرکے ناظم سررشتہ ¿ علوم و فنون کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد سے وابستہ اور شہر حیدرآباد میں مقیم تھے۔ اِدھر مولانا آزاد کا یہ حال تھاکہ باوجود کم سنی وہ نصابی و درسی تعلیم سے گزرکر اب علوم جدیدہ کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ اس سلسلے میں پہلے انھوںنے انگریزی، عربی اور فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد ان کی خواہش ہوئی کہ عربی میں ترجمہ شدہ علومِ جدیدہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔ غالباً وہ علامہ شبلی کی تصانیف سے واقف تھے۔ اس لےے انھیں خیال آیاکہ اس سلسلے میں علامہ ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ”آزاد کی کہانی“ میں فرماتے ہیں:

اب مصر و شام کی کتابوں کا شوق ہوا۔ مولانا شبلی کو ایک خط لکھا اور ان سے دریافت کیاکہ علومِ جدیدہ کے عربی تراجم کون کون ہیں اور کہاں کہاں ملیںگے؟ انھوںنے دو سطروں میں یہ جواب دیاکہ مصرو بیروت سے خط و کتابت کیجےے۔۱

جنوری ۳۰۹۱ءمیں علامہ شبلی انجمن ترقی اردو کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے۔ اسی سال کے آخر میں مولاناآزاد نے کلکتہ سے ”لسان الصدق“ جاری کیا۔ یہ علمی و ادبی رسالہ تھا۔ یہ علامہ شبلی سے مولانا آزاد کے غائبانہ تعارف اور قربت کا ذریعہ بنا۔ کیونکہ مولانا اس میں انجمن سے متعلق خبریں، رپورٹیں اور اس کی کارگزاریوں کی تفصیلات وغیرہ شائع کرتے رہتے تھے، جو علامہ شبلی انھیں وقتاًفوقتاً بھیجتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا کی دلچسپی اور مستعدی کو دیکھ کر علامہ نے کچھ دنوں بعد انھیں انجمن کے ارکان انتظامیہ میں شامل کرلیا اور لسان الصدق کو ایک طرح انجمن کا ترجمان بنالیا۔ یہ سلسلہ ۴۰۹۱ءمیں اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ علامہ انجمن کی ذمے داریوں سے سبک دوش نہ ہوگئے۔ اس پورے عرصے میں ان دونوں شخصیتوں کے درمیان مراسلت کا سلسلہ تو جاری رہا، لیکن ملاقات کی نوبت نہیں آئی۔

مولانا آزاد کی علامہ شبلی سے پہلی ملاقات غالباً ۴۰۹۱ءکے اواخر یا ۵۰۹۱ءکے اوائل میں بمبئی میں ہوئی۔ اب مولانا سولہ سال کے تھے اور علامہ کی عمر ۷۴ سال تھی۔ اس دوران ان کی تصانیف میں الغزالی، علم الکلام، الکلام اور سوانح مولانا روم بھی شائع ہوچکی تھیں۔ اس پہلی ملاقات میں جو لطیفہ پیش آیا، اس کا بیان مولانا آزاد کی زبانی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں:

مولانا شبلی سے میں ۴۰۹۱ءمیں سب سے پہلے بمبئی میں ملا۔ جب میں نے اپنا نام ظاہر کیا تو اس کے بعد آدھہ گھنٹے تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور چلتے وقت انھوںنے مجھ سے کہا تو ابوالکلام آپ کے والد ہیں؟ میںنے کہا نہیں میں خود ہوں۔۲

علامہ شبلی کے لےے دراصل باعث ِاستعجاب یہ تھاکہ یہ کم سن لڑکا ’لسان الصدق‘ جیسے علمی و ادبی رسالے کا مدیر کیوںکر ہوسکتاہے؟ علامہ ان دنوں دو تین ہفتے تک بمبئی میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران مولانا کی ان سے بار بار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں میں علامہ ان سے حددرجہ متاثر ہوئے۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
”جب چند دنوں میں گفتگو و صحبت سے انھیں میرے علمی شوق کا خوب اندازہ ہوگیا تو وہ بڑی محبت کرنے لگے۔ بار بار کہتے کہ مجھے ایک ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے۔ تم اگر کسی طرح حیدرآباد آسکو تو ”الندوہ“ اپنے متعلق کرلو اور وہاں مزید مطالعہ و ترقی کا بھی موقع ملے گا۔۳
اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں:

سب سے زیادہ مولانا شبلی پر میرے شوقِ مطالعہ اور وسعت ِمطالعہ کا اثر پڑا۔ اس وقت تک میرا مطالعہ اتناوسیع ہوچکا تھاکہ عربی کی تمام نئی مطبوعات اور نئی تصنیفات تقریباً میری نظر سے گزر چکی تھیں اور بہتیر کتابیں ایسی بھی تھیںکہ مولانا ان کے شائق تھے اور انھیں معلوم نہ تھاکہ چھپ گئی ہیں، مثلاً محصل امام رازی۔۴
انھیں ملاقاتوں کے دوران فن مناظرہ سے متعلق ایک صاحب کی کج بحثی کا جواب دیتے ہوئے مولاناآزاد نے جب ایک مدلل تقریر کی تو اسے سن کر علامہ نے فرمایا:
تمہارا ذہن عجائب روزگار میں سے ہے۔ تمھیں تو کسی علمی نمائش گاہ میں بہ طورایک عجوبے کے پیش کرنا چاہےے۔۵

فروری ۵۰۹۱ءمیں علامہ شبلی حیدرآباد کی ملازمت سے مستعفی ہوکر ندوةالعلماءکے معتمد ِتعلیمات کی حیثیت سے لکھنو ¿ آگئے۔ اس وقت علامہ کی پیش کش اور اصرار کی بناپر ’الندوہ‘ کے نائب مدیر بن کر مولاناآزاد نے بھی لکھنو ¿ کا قیام اختیار کیا۔ اس طرح انھیں علامہ کے ساتھ مسلسل قیام اور ان کی علمی و ادبی صحبتوں سے مستفید ہونے کا موقع ہاتھ آیا۔ لکھنو ¿ میں مولانا کے قیام اور ’الندوہ‘ کی ادارت کا زمانہ ستمبر ۵۰۹۱ءسے مارچ ۶۰۹۱ءتک متعین کیا گیاہے۔ ان صحبتوں میں وہ علامہ سے کس قدر متاثر ہوئے،اس کا بیان خود انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

”آپ کی غزل پر علامہ شبلی رحمةاﷲ علیہ کی تحسین بڑی سے بڑی سند ہے جو اس عہد میں مل سکتی تھی۔ علامہ مرحوم کی یاد میں آپ کو کتنا برمحل شعر یاد آیا:

و لیس من اﷲ بمستنکر

ا ¿ن یجمع العالم فی واحد

خواجہ حالی مرحوم نے کیا خوب کہاہے:

بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی

وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہیں

فی الحقیقت مولانا مرحوم کی ذات نبوغ و کمالات کے رنگارنگ مظاہر کا ایک عجیب مجموعہ تھی اور جیساکہ فارسی میں کہتے ہیں سرتاسر مغز بے پوست تھی۔ بہ مشکل کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہے کہ ان کی یاد ناخن بہ دل نہ ہوتی ہو۔ وہ کیا گئے کہ علم و فن کی صحبتوں کا سرتاسر خاتمہ ہوگیا۔ مولانا مرحوم سحرخیزی کے عادی تھے۔ والد مرحوم کی سحرخیزی نے مجھے بھی بچپن سے اس کا عادی بنا دیاہے۔ اس اشتراکِ عادت نے ایک خاص رشتہ ¿ انس پیدا کردیا تھا۔ جب کبھی یکجائی ہوتی تو صبح چاربجے کا وقت ہوتا۔ چائے کا دور چلتا اور علم و فن اور شعر وادب کے چرچے رہتے۔ ہروادی میں وہ اپنے ذوق و فکر کی ایک خاص اور بلندجگہ رکھتے تھے اور یہ کتنی بڑی خوبی تھی کہ باوجود ملّا یا نہ طلب علم کے ملّائیت کی پرچھائےں بھی ان پر نہیں پڑی تھی۔ خشکی ِطبع جو اس راہ کے مہالک و آفات میں سے ہے، انھیں چھوبھی نہیں گئی تھی۔ شاعری کے ذوق و فہم کا جو اعلیٰ مرتبہ ان کے حصے میں آیا تھا، اس کی تو نظیر ملنی دشوار ہے۔“ (مورخہ ۶۲اکتوبر ۰۴۹۱ئ)

مولانا آزاد کے قیامِ لکھنو ¿ کے حوالے سے جناب ضیاءالدین اصلاحی نے لکھاہے کہ علامہ شبلی نے اپنے سرسے ادارتِ الندوہ کا بوجھ کم کرنے کے علاوہ ”مولانا آزاد کی علمی تربیت کے خیال سے بہ اصرار انھیں لکھنو ¿ بلایا۔“ اس بیان پر استدراک کرتے ہوئے ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کہتے ہیں:

حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعلیم کا دور ختم ہوچکا تھا اور مطالعہ و نظر کے جس مقام پر تھے، تربیت حاصل کرنے کے خیال سے بے پروا ہوچکے تھے۔۶

راقم حروف کے خیال میں یہ استدراک بالکل درست ہے۔ خود علامہ شبلی نے اس سلسلے میں مہدی اِفادی کے نام خط میں یہ الفاظ تحریر کےے ہیں:

آزاد کو تو آپ نے مخزن وغیرہ میں ضرور دیکھا ہوگا۔ قلم وہی ہے، معلومات یہاں رہنے سے ترقی کرگئے ہیں۔ (مورخہ ۶مارچ ۶۰۹۱ئ)۷

مارچ ۶۰۹۱ءکے بعد ’الندوہ‘ کی ادارت سے مولانا کا تعلق باقی نہ رہا۔ اوائل مئی ۶۰۹۱ءتک وہ لکھنو ¿ میں قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد ”وکیل“ کے مدیر ہوکر امرتسر چلے گئے۔ لیکن علامہ شبلی سے ان کا ربط و تعلق علامہ کی آخرحیات تک باقی رہا۔

بعض اہلِ علم نے اپنی تحریروں میں یہ تاثر دیاہے کہ مولانا آزاد اگرچہ علامہ کے باضابطہ شاگرد نہ تھے، لیکن اخذو استفادے کے لحاظ سے وہ ان کے شاگرد معنوی ضرور تھے۔ ہمارے خیال میں یہ تاثر درست نہیں۔ بلکہ اس باب میں سب سے متوازن اور حقائق پر مبنی راے ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاںپوری کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

ایک طرف بے پایاں شفقت تھی اور دوسری جانب عقیدت و احترام اور سعادت کا اظہار تھا۔ یہ ابوالکلام کی انفرادیت تھی کہ ان کا رویہ روایتی شاگرد کے بجاے برابری کا نظر آتا ہے۔ یہ حضرت شبلی کی عظمت ہے کہ انھوںنے اپنے اس خرد کی عزتِ نفس کا ہمیشہ خیال رکھا اور ابوالکلام کی یہ سعادت مندی تھی کہ انھوںنے اپنے بزرگ کے علمی مقام کا ہمیشہ اعتراف و احترام کیا۔۸

یہاں ڈاکٹر شاہ جہاں پوری کی تائید میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ علامہ شبلی اپنے مکاتیب میں عام طورپر مولانا آزاد کو ”آپ“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف سیدسلیمان ندوی اور اپنے دیگر تلامذہ کو ہمیشہ ”تم“ کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں۔

ڈاکٹرشاہ جہاں پوری نے مولانا آزاد اور علامہ شبلی کے درمیان ربط و یگانگت کے اسباب اور اس کی مختلف جہات پر بھی بہت عمدہ گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں:

شبلی اور ابوالکلام کے تعلقات کی پائیداری کی وجہ اس کے سوا کچھ اور نہ تھی کہ دونوں بے غرض اور ذاتی مفاد و مصالح سے ناآشنا تھے اور دونوں ایک دوسرے کے فضائل و کمالات کے قدرداں اور ذوقِ علمی اور مطالعہ و نظر کی وسعت و گیرائی کے معترف تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دونوں ہم ذوق و ہم فکر تھے۔ ادب، مذہب، تاریخ، تعلیم، سیاست میں دونوں کا نقطہ ¿ نظر یکساں یا قریب قریب تھا۔ ندوةالعلما دونوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ سیرةنبوی کے منصوبے میں ابوالکلام شبلی کے مشیرومعاون تھے اور الہلال کی تعلیمی، سیاسی اور اصلاحی تحریک میں شبلی آزاد کے ممدومعاون تھے، بلکہ الہلال کی سیاسی تحریک کے فروغ اور اس کے رنگ کونمایاں کرنے میں آزاد کی تحریروں ہی کا نہیں، شبلی کی سیاسی و تاریخی منظومات کا حصہ بھی ہے۔۹

یہیں سے ان حضرات کے نقطہ ¿ نظر کی بھی تردید ہوجاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیںکہ مولاناآزاد کی سیاسی فکر علامہ شبلی سے ماخوذ تھی، کیونکہ یہاں بھی معاملہ اخذ و استفادے کا نہیں، بلکہ مسلک و مشرب کے اتحاد اور فکرونظر کی ہم آہنگی کا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خطوطِ شبلی موسوم بہ مولانا آزاد کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ عمر کے خاصے تفاوت کے باوجود علامہ شبلی اور مولانا آزاد کے درمیان دوستانہ بے تکلفی بھی تھی۔ مثال کے طورپر ان خطوط سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
(الف)

اب کی مولوی خلیل الرحمن وغیرہ نے جلسہ ¿ انتظامیہ میں میری علاحدگی کی تجویز پیش کی۔ اس لےے کہ جب سے میں ندوے میں آیا، لوگوں کی توجہ کم ہوگئی اور ندوہ کو نقصان پہنچ رہاہے۔ کیوں آپ بھی اس راے سے متفق ہیں یا نہیں؟ افسوس کہ ان کے ووٹ نہیں آئے، ورنہ بمبئی میں آکر ٹھکانہ ملتا اور خوب صحبت رہتی۔ ماہ و اختر سب وہیں ہیں، افق ذرا بدل گیاہے۔

ہاں اور سنی، افتخارعالم صاحب مولوی نذیراحمد کی لائف لکھ کر انھی آلودہ ہاتھوںسے حیاتِ شبلی کو چھونا چاہتے ہیں، اجازت اور حالات مانگے ہیں۔ میںنے لکھ دیاہے کہ ظاہری حالات تو ہرجگہ سے مل جائےںگے، لیکن عالم السرائر خدا کے سوا ایک اور بھی ہے، وہاں سے منگوائےے۔ بھئی بتا تو نہ دوگے۔ (مورخہ ۵۱جون ۹۰۹۱ئ)۰۱
(ب)

برادرم!

جس قدر آپ کی عنایت و محبت کا یقین زیادہ ہوتا جاتاہے، اسی قدر آپ کی نکتہ سنجی اور نقادی کی طرف سے بے اعتباری بڑھتی جاتی ہے کہ آپ میری صحبت کو لطف انگیز اور نسبتہً دوسرے کے مقابلے میں قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔

مٹیابرج کا شانِ نزول بالکل سمجھ میں نہ آیا، ذرا کھول کر لکھےے۔ دونوں مکانوں کا فاصلہ اس قدرکہ ایک ہی وقت میں گویا دو ملک میں رہتا۔ پھر وہاں کی ویرانی، دلچسپی کا کوئی سامان نہیں۔
بے شبہ میری خواہش ہے کہ چند روز دنیا سے الگ بسر کروں، ایسی حالت میں ایک تصنیف بھی انجام پائے۔ لیکن متصل دن رات تو وحشت کدے میں بسر نہیں ہوسکتی۔ شیعوں کے عملی فلسفے کی کوئی صورت پیدا ہو تو البتہ ممکن ہے۔ (مدرخہ ۵دسمبر ۹۰۹۱ئ)۱۱

(ج)
جنوری میں آپ کہیں اور چلے جائےںگے، دسمبر میں آو ¿ں اور دوچار روز رہ کر چلاجاو ¿ں۔ شباب ہوتا تو ایسی جست و خیز ممکن تھی۔ اب تو بہرجاکہ نشستم وطن شد، وہ زمانہ بتائےے کہ آکر ایک آدھ مہینہ رہ سکوں، گوبار خاطر بن جاو ¿ں۔
برج خاکی پر قبضہ ہوجائے تو لکھےے گا۔ ہاں ایک روایت تھی کہ ماہ تمام بنگال کے افق پر نکلا۔ تلاش سے شاید پتہ لگ جائے۔ (مورخہ ۰۱دسمبر ۹۰۹۱ئ)۲۱
(د)

برادرم!

میں بخیریت پہنچا۔ مغل سرا میں گاڑی نہ صرف بدلی، بلکہ مجھ کو پل صراط کی مصیبتیں جھیلنی پڑی کلکتہ کی پُرلطف گھڑیاں، اب دیکھےے کب نصیب ہوں۔ (مورخہ ۹جون ۰۱۹۱ئ)۳۱
”آپ کو اب زیادہ مولویت کی صورت میں رہنا چاہےے۔ اس سے بہت اچھے اچھے کام لے سکتے ہیں۔“ (مورخہ۲۱جون ۰۱۹۱ئ)۴۱

(ہ)
برادرم!

اچھا کہیں نہیں جاو ¿ںگا:

ع بندہ را فرماں نباشد، ہرچہ فرمائی بر آنم
لیکن کیا شبلی کو رابعہ کا درجہ مل سکتاہے۔ لیس الذکر کالا ¿نثیٰ۔ ماسٹردین محمد وطن گئے تھے اور سخت جانگزاخبر لائے۔ یعنی بدرِکامل حیدرآباد سے دلّی پہنچ کر غروب ہوگیا۔ مرتبہ ¿ ابراہیمی کہاں سے ہاتھ آئے کہ ”لا اُحب الآفلین“ کہہ سکوں۔ (مورخہ ۵۱اکتوبر ۰۱۹۱ئ)۵۱
ان خطوط میں شوخی، بے تکلفی اور دوستانہ چھیڑچھاڑ کا جو انداز ہے وہ شرح و بیان کا محتاج نہیں۔
مولانا آزاد نے علامہ شبلی سے تمام تر عقیدت و محبت کے باوجود ان پر بعض تنقیدیں بھی کی ہیں۔ مثلاً ”تذکرہ“ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
اﷲتعالیٰ مولانا مرحوم کو اعلیٰ علّیین میں جگہ دے، ان کی طبیعت میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کوئی معاملہ ہو، وہ اس کی ابتدا ہمیشہ شک اور تردد سے کیا کرتے تھے۔ اس چیز نے ان کی عملی زندگی کو بھی (یعنی کاروبار و انتظامات کی زندگی کو) بہت نقصان پہنچایا اور وہ کوئی عملی کام جم کر نہ کرسکے۔ ندوہ کے معاملے میں جو اُلجھاو ¿ لوگوں نے ڈالے، وہ ان کے اسی ضعف ِیقین و عدم جزم و صلابت ِارادہ کا نتیجہ تھا، ورنہ ان سے مخالفت کرنے والوں میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو ان کو ان کی جگہ سے ہٹاسکتا۔۶۱

مولانا آزاد کے ذاتی کتب خانے میں دس گیارہ ہزار کتابیں تھیں۔ یہ اب انڈین کونسل فارکلچرل ریلیشنز، آزاد بھون، نئی دہلی کے کتب خانے کا حصہ ہیں۔ مولانا کی عادت تھی کہ وہ زیرِمطالعہ کتاب پر جہاں ضرورت محسوس کرتے حواشی لکھ دیتے تھے۔ جناب سید مسیح الحسن نے، جو ایک عرصے تک اس کتب خانے کے مرتب و منتظم رہے تھے، ان حواشی کو ”حواشیِ ابوالکلام“ کے نام سے مرتب کرکے شائع کردیاہے۔ اس میں علامہ شبلی کی دس کتابوں پر بھی مولانا کے حواشی موجود ہیں۔ ان میں مولانا نے جگہ جگہ علامہ سے اختلاف کیاہے اور بعض مقامات پر ان کا لہجہ سخت بھی ہوگیاہے۔ ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ علامہ شبلی سے محبت و عقیدت اور ربط و تعلق کے باوجود بہت سے مذہبی، تاریخی، علمی اور ادبی مسائل میں وہ علامہ سے اختلاف رکھتے تھے اور اس کے اظہار میں بھی انھیں کچھ باک نہ تھا۔ علامہ کی جن کتابوں پر مولانانے حواشی لکھے ہیں، ان کے نام یہ ہیں:
سیرةالنعمان، جلد اوّل سیرةالنعمان، جلددوم
الغزالی رسائل شبلی، (نسخہ ¿ اوّل)
رسائل شبلی، (نسخہ ¿ دوم) شعرالعجم، جلد اوّل
مقالاتِ شبلی، جلد اوّل مقالاتِ شبلی، جلد دوم
مقالاتِ شبلی، جلدہفتم مضامینِ عالم گیر
ان میں سب سے زیادہ مبسوط حواشی سیرةالنعمان کی دونوں جلدوں پر ہیں، اس کے بعد ”مضامینِ عالم گیر“پر۔ اس کے علاوہ مولانا سیدسلیمان ندوی کی ”حیات ِشبلی“ پر تحریر کردہ بہت سے حواشی کا تعلق بھی علامہ شبلی کی سیرت و شخصیت سے ہے۔ مولاناآزاد اور علامہ شبلی کے فکری اختلافات کو جاننے کے لےے ان حواشی کا مطالعہ بھی ازبس ضروری ہے۔ آئندہ صفحات میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ علامہ شبلی نے ائمہ ¿ مجتہدین اور محدثین کے درمیان فرق کرتے ہوئے سیرةالنعمان میں یہ الفاظ تحریر کےے ہیں:

مجتہدین جس چیز پر فخر کرسکتے ہیں، وہ دقت ِنظر، قوتِ استنباط، استخراجِ مسائل اور تفریعِ احکام ہے۔ لیکن محدثین کے گروہ کے نزدیک یہی باتیں عیب و نقص میں داخل ہیں۔

اس پر مولانا آزاد کا حاشیہ حسب ِذیل ہے:

مصنف کی یہ پوری بحث یکسر مغالطہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کذب علی وجہ الارض کیا ہوسکتا ہے کہ ائمہ ¿ حدیث کی نسبت یہ کہا جائے کہ دقت ِنظر، قوتِ استنباط، استخراجِ مسائل، درایت و تفکر ان کے نزدیک نقص رہا۔ جس شخص نے صرف تراجم ابوابِ فقیہہ ¿ بخاری وغیرہ ہی پر نظر ڈالی ہے، وہ کیونکر اس خیال کا تصور بھی کرسکتاہے۔ اور پھر جس شخص نے تصنیفاتِ ابنِ حزم، ابنِ عقیل، ابنِ تیمیہ و ابنِ قیّم وغیرہ کو دیکھا ہے تو وہ اس خیال کی تکذیب پر حلف شرعی اُٹھا سکتاہے۔ اصل یہ ہے کہ اس تمام معاملے کے اسباب ہی اور ہیں اور ان کو صاحب ِحجةاﷲ نے واشگاف لکھ دیاہے۔ مو ¿لف کی اس پر نظر ہے، مگر افسوس کہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر مصنف نے اسی جملے پر غور کیا ہوتاکہ ”فروعِ احکام کی تفریع کرتے تھے۔“ تو اصل عُقدہ حل ہوجاتا، یعنی بنیاد اپنے قراردادہ یا ائمہ ¿ کوفہ کے کلیات پر رکھتے نہ کہ احادیث پر۔۷۱
حاصلِ کلام یہ ہے کہ مولانا آزاد اور علامہ شبلی دونوں ایک دوسرے سے متاثر ضرور ہوئے، لیکن دونوں نے اپنی اپنی انفرادیت بھی قائم رکھی۔

حواشی:

۱۔ آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، مولانا ابوالکلام آزاد ( بہ روایت عبدالرزاق ملیح آبادی) دہلی، ۸۵۹۱ئ، ص:۷۵۲

۲۔ آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، ص:۲۱۲

۳۔ آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، ص:۱۱۳

۴۔ آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، ص:۲۱۳

۵۔ شبلی معاصرین کی نظر میں، مرتبہ ظفراحمد صدیقی، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنو ¿، ۵۰۰۲ئ، ص:۴۸۱

۶۔ مضامینِ الندوہ۔ لکھنو ¿، مرتبہ ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاںپوری، اسلام آباد (پاکستان) ۷۰۰۲ئ، ص:۱۴

۷۔ مکاتیب ِشبلی، جلددوم، مرتبہ سیدسلیمان ندوی، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ، ۲۱۰۲ئ، ص:۵۷۱

۸۔ مضامین الندوہ۔ لکھنو ¿، ص:۴۶

۹۔ مضامین الندوہ۔ لکھنو ¿، ص:۴۶۔۵۶

۰۱۔ مکاتیب ِشبلی، حصہ اوّل، مرتبہ سید سلیمان ندوی، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ، ۰۱۰۲ئ، ص:۱۵۱۔۲۵۱

۱۱۔ مکاتیب ِشبلی، حصہ اوّل، ص:۳۵۲

۲۱۔ مکاتیب ِشبلی، حصہ اوّل، ص:۵۵۲

۳۱۔ مکاتیب ِشبلی، حصہ اوّل، ص:۷۵۲

۴۱۔ مکاتیب ِشبلی، حصہ اوّل، ص:۸۵۲

۵۱۔ مکاتیب ِشبلی، حصہ اوّل، ص:۱۶۲

۶۱۔ تذکرہ، مولانا ابوالکلام آزاد، مرتبہ مالک رام، ساہتیہ اکادمی، دہلی ۸۰۰۲ئ، ص:۴۰۲۔۵۰۲

۷۱۔ حواشی ابوالکلام آزاد، مرتبہ سیدمسیح الحسن، اردو اکادمی، دہلی ۸۸۹۱ئ، ص:۷۶۲

Irfan-e-Jamaal ka Shayar – Irfan Siddiqui

Articles

عرفانِ جمال کاشاعر: عرفان صدیقی

ڈاکٹر رشید اشرف خان

عرفان صدیقی اترپردیش کے تاریخی شہر بدایوںمیں۸جنوری۹۳۹۱ءکوپیداہوئے تھے۔معروف فکشن نگارسیدمحمداشرف کے مضمون ” عرفان صدیقی کی شاعری میں سوانحی اشارے“ کے درج ذیل اقتباس سے ضلع بداےوںکی ادبی وتاریخی اہمیت واضح ہوجاتی ہے:
”بداےوں،فردفریدپیانظام الدین اولیاکابدایوں،صوبے دارالتمش کابداےوں،مورخ عبدالقادر بداےونی کابداےوں،سلطان العارفین اورشاہ ولایت جیسے تاجدارانِ ولایت کابداےوں،شاہ فضل رسول اور حضرت تاج الفحول جیسے بادشاہانِ علم و معرفت کا بدایوں، فانی ، شکیل، آل احمد سرور، اداجعفری ، جیلانی بانواور اسعد بدایونی جیسے اصحاب قلم کا بدایوں اور عرفان صدیقی کا بدایوں۔ امیر خسرو اس محترم شہر کی خاک کو اپنے پیر مرشد کی نسبت سے سرمہ¿ چشم کے استعار ے بیان کرتے ہیں“
( نیا دور لکھنو¿ عرفان صدیقی نمبراکتوبر ۔ نومبر۰۱۰۲ءص ۳۶۱)
عرفان صدیقی کی ولادت ایک علمی خانوادہ میں ہوئی جس میں مذہب اور شعر گوئی کی روایت کئی پشتوں سے چلی آرہی تھی۔ ان کے پردادا مولانا محمد انصا ر حسین حمیدی زلالی بدایونی شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی کے شاگرد تھے اور دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی ،مولانا سید علی احسن مارہروی( عرف شاہ میاں تلمیذ داغ دہلوی )کے شاگرد تھے۔ عرفان کے والد مولوی سلمان احمد صدیقی ہلالی بدایونی ایک وکیل اور صاحب طرز ادیب وشاعر تھے۔ان کی والدہ ¿ مرحومہ رابعہ خاتون کوبھی شعر وادب سے خاص انسیت تھی اور خودشعربھی کہتی تھیں۔
عرفان صدیقی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن ضلع بدایوں کے محلہ ”سُوتھا“میں اپنے گھر میں حاصل کی ۔پھر کرسچین ہائر سکنڈری اسکول بدایوں سے میٹرک کا امتحان ۳۵۹۱ءمیں پاس کیا۔ حافظ صدیق میسٹن اسلامیہ انٹر کالج بدایوں سے انٹر میڈیٹ ، بریلی کالج بریلی سے ۷۵۹۱ءمیں بی۔اے اور ۹۵۹۱ءمیں ایم۔اے کیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے صحافت کا ڈپلوما کیا ۔ ۲۶۹۱ءمیں حکومت ہند کے محکمہ¿ اطلاعات و نشریات اور وزارت دفاع کے مختلف شعبوں میں اطلاعات، خبر نگاری اور رابطہ¿ عامّہ کی مختلف ذمہ داریوں کو انجام دیتے رہے ۔ ڈپٹی پرنسپل انفارمیشن افسر کے عہدے سے ۸۹۹۱ءمیں وظیفہ یاب ہوئے اور لکھنو¿ میں آخری دم تک قیام رہا۔
جنوری ۹۳۹۱ءمیں اس دنیاے رنگ و بو میں قدم رکھنے کے بعد عرفان صدیقی نے اس وقت شعر کہنا شروع کیا جب وہ مشکل سے ۴۱۔۵۱ برس کے تھے۔عرفان صدیقی کے کلیات ”دریا“ جو ۹۹۹۱ءمیں کراچی پاکستان سے شائع ہواکا بالاستعیاب مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کی شاعری کے کئی ادوار تھے۔۴۵۹۱ءتک ان کی مشق سخن کا ابتدائی دور کہا جاسکتا ہے۔اس دورکا بیشتر کلام ان کے پہلے مجموعے میں ملے گا جو ”کینوس“ کے عنوان سے ۸۷۹۱ءمیں شائع ہوا تھا۔
”کینوس“ میں عموماََ غزلوں کی تعداد زیادہ ہے کیوں کہ غزل گوئی عرفان کی پہلی پسند تھی لیکن اس مجموعے میں چند نظمیں بھی شامل ہیںجو بطور خاص غور وفکر کی متقاضی ہیں۔ وہ نظم جس میں”سفر کی زنجیر“ کی سرخی قائم کی گئی ہے، خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس پوری نظم میں عرفان صدیقی نے اپنا تہذیبی اور ادبی پس منظر پیش کیا ہے اور اپنے وطن بدایوں کی عظمت و رفعت کو بیان کیا ہے ۔اس نظم کو مجموعہ ¿ کلام کینوس کا ابتدائیہ قرار دیا گیا ہے۔نظم کا آغاز غالب کے ایک شعر سے ہوتا ہے:
”شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کوکہ جہاں
جادہ ، غیر از نگہہ دیدہ¿ تصویر نہیں“
جلتی دوپہر میں پیڑی کا پُر اسرار درخت
جس سے لپٹا ہوا ، گزری ہوئی صدیوں کا طلسم
پہلوئے خاک میں آسودہ کوئی مرد شہید
طاق میں رات کے افسردہ چراغوں کا دھواں
یہ گلی گنج شہیداں کی طرف جاتی ہے
مصحفی نے جو کہا ہے تمھیں معلوم نہیں
سرمہ¿ چشم ہے یہ خاک تو خسرو کے لیے
ہم اسی مٹی سے اگنے کے لیے آئے ہیں
اس نظم کو پڑھ کر جہاں ایک طرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی نے استعارہ بدوش نظم اور تلمیح آمیز مصرعوں کی صورت میں اپنے وطن اور اپنے اسلاف کا تذکرہ کیا ہے وہیں ان کے شعور جمالیات نے بھی اپنی کارفرمائی شروع کردی ہے۔ کیوں کہ ہیگل Hegelجمالیات کے لفظ کو فنون لطیفہ کے فلسفے کے مفہوم میں استعمال کرنے پر اصرار کرتا ہے چنانچہ نظم مذکور کے اشعار میں حسب ذیل مصرعے اسی احساس جمال کے آئینہ دار ہیں:
میں کہاں کے رکوں گا ؟مجھے معلوم نہیں
حسن کب تجزیہ¿ ذات میں ڈھل پائے گا
ظلمتیں ، روشنیاں ، سلسلہ¿ شام وسحر
سب تماشا ہے تو تقریب تماشا کیا ہے؟
حلقہ در حلقہ پُر اسرار سفر کی زنجیر
دیکھتے جاو¿ کہ تم نے ابھی دیکھا کیا ہے
ان اشعار میںشاعر نے علامتوں اور اشاریوں کے سہارے اپنے احساس جمال کی بڑی کامیاب ترجمانی کی ہے۔ آخر مصوری بھی تو ایک فن لطیف ہی ہے جو رنگوں کی شکل میں جنت نگاہ بن جایا کرتا ہے اور شاعرانہ مصور ی ایسے ہی رنگین خیالات کو محاکات یا شاعرانہ مصوری کا لباس پہنا دیتے ہیں۔یہی شعور جمال کی ایک پُرکشش فن کاری ہے۔
”کینوس“ بظاہر شاعر کے ابتدائی کلام کا مجموعہ ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شروع ہی سے عرفان کا شعور جمال کافی بالغ اور پُر جوش تھا۔ عموماََ ہمارے شعرا کے یہاں حسن پرستی تو ہوتا ہے مگر شعور جمال نہیں ،جب کہ حسن پرستی ، شعور جمال کا صرف ایک جزو یا Elementہے نہ کہ کل۔ کینوس میں شامل غزلوں کی چند مثالیں دیکھیے:
کہیں کسی کے بدن سے ، بدن نہ چھو جائے
اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے
چلو زمیں نہ سہی آسمان ہی ہوگا
محبتوں میں بہر حال تنگ سا کچھ ہے
ان دو اشعارمیں شاعر نے نفسیات انسانی کی ہلکی سی جھلک دکھلائی ہے۔پہلے شعر میں وہ کہنا چاہتا ہے کہ میرا جذبہ¿ شوق اور شعور جمال دونوں ہی بیک وقت مجھ پر حاوی ہیں یعنی میں صرف Beauty is to See, Not to touchوالے فارمولے پرعمل کرنا چاہتا ہوںاور سی جذبے کے ساتھ میں بوسہ بہ پیام کے بجائے لب بہ لب والی ملاقات کا خواہاں ہوں۔
کینوس میں بعض غزلیں ایسی بھی ملتی ہیںجو یقینا پردیس میں کہی گئی ہیں۔ وطن سے دوری ، شدید احساس غریب الوطنی ، تنہائی اور بیتے ہوئے دنوں کی چبھتی یادیں،ان باتوں نے شاعر کے دل ودماغ میں ایک ہلچل سی مچا رکھی ہے:
بڑھا کے ربط وفا اجنبی پرندوں نے
وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر
دنیا کا دستور ہے کہ وہ ظاہری واقعات و حوادث ، خوش آیند باتوں اور امید افزا ماحول کا فوری طور پر اثر لیتی ہے لیکن شاعر وہ بھی جمالیاتی ذوق رکھنے والا عرفان صدیقی جیسا شاعر واقعات و حوادث کی بنیاد ،خوش آیند باتوں اور امید افزا ماحول کی اصل حقیقت کو جانتا ہے تب کہیںاس موادکو موضوع ِ گفتگو بناتا ہے۔ سانحہ¿ کربلا کو گزرے چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا لیکن عرفان کی نگاہوں میں وہ آج بھی تازہ ہے۔صرف سانحہ نہیں بلکہ اس کی جزئیات بھی موجود ہے۔ شاید اسی لیے انھوں نے کہا تھا:
تم،جو کچھ چاہو،وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا؟
جمالیاتی نقطہ¿ نظر سے عرفان صدیقی کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت اس نکتے کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمالیات کا حقیقی ظہور اس وقت ہوا جب فنون لطیفہ یعنی فن تعمیر،فن موسیقی، فن شاعری، فن رقاصی، فن سنگ تراشی اور فن مصوری وغیرہ کا ارتقا ہوچکا تھا۔
مذکورہ بالا تمام فنون کے آغاز میں فن کار کا احساس جمال حسن پرستی بڑی حد تک زیریں لہر کی طرح شعور میں وجود تھا لیکن پختہ جمالیاتی شعور تکمیل فن کے بعد ہی جلوہ گر ہوا۔اجنتا ایلورا اور تاج محل کا مجرد مشاہدہ جمالیات نہیں بلکہ ان عمارتوں کو دیکھ کر جو مسرت حاصل ہو تی ہے دراصل وہی مطالعہ¿ جمالیات ہے۔
اس تمہید اور وضاحت کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں جمالیاتی رنگ کہاں کہاں اور کیسے کیسے رونما ہواہے۔ اس عنصر نے ان کے کلام میں کس کس طرح تازگی ، جدت ، انفرادیت اور اثر انگیزی کے جوہر پیدا کردیے ہیں؟ کبھی اپنی بے چین روح اور مضطرب جوان دل کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کرتے کرتے اپنے احساس جمال کو درد تنہائی کا مداوا بنایا ہے۔ مثلاََ:
بند کمرے میں پراگندہ خیالوں کی گھٹن
اور دروازے پہ اک آوازِ پا جیسے ، ہوا
پانیوں میں ڈوبتی جیسے رُتوں کی کشتیاں
ساحلوں پر چیختی کوئی صدا ، جیسے ہوا
کتنا خالی ہے یہ دامن ، جس طرح دامانِ دشت
کچھ نہ کچھ تو دے اسے میرے خدا ، جیسے ہوا
محولہ¿ بالااشعار میں بند کمرہ، پراگندہ خیالوں کی گھٹن، دروازہ، رتوں کشتیاں، چیختی صدا،دامن اور دشت وغیرہ ایسے الفاظ وتراکیب کا برجستہ و بر محل استعمال اور” ہوا“ جیسی غیر مرئی شے سے ردیف کا کام لینا اگر عرفان کی جمالیاتی تخلیق کا نادرو نایاب رنگ سخنوری نہیں تو پھر کیا ہے۔ غور کیجیے کہ شاعر کا اپنے رب کو یہ مشورہ دینا کہ دامانِ دشت کو کسی اور چیز سے بھرنا نہیں چاہتا تو کم ازکم ہوا جیسی ہلکی پھلکی چیز سے ہی بھردے۔بظاہر یہ مشورہ کتنا مضحکہ خیز لیکن بہ باطن کس درجہ اہم شاعرانہ مشورہ ہے جو بغیر ایک لطیف تصور ِجمال کے سوچا ہی نہیں جاسکتا۔
عرفان صدیقی کی شاعری کا دوسرا دور ان کے دوسرے مجموعہ کلام” شب درمیاں“ سے شروع ہوتا ہے جو ۴۸۹۱ءمیں مرتب ہوا تھا۔ اس مجموعے میں سب سے پہلی چیز جو ہمارے دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ایسے اشعار ہیں جو افتتاحیہ کی سرخی کے تحت کہے گئے ہیں۔ آغاز یوں ہوتاہے:
مجھ کو لکھنا اگر آجائے تو کیا کیا لکھوں
کبھی اپنا کبھی دنیا کا سراپا لکھوں
گویا شاعر کوکچھ انہونی یا اچھوتی بات کہنے کا خواہش مند ہے لیکن وہ بڑے پس وپیش اور تذبذب میں ہے کہ آخر لکھے تو کیا لکھے۔ قلم اٹھانے کے بعد بھی اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ آپ بیتی لکھے یا جگ بیتی؟اس کو اس تلخ حقیقت کا بخوبی اعتراف ہے کہ:
جو مرا دکھ ہے وہ، ہر شخص کا دکھ لگتا ہے
میں کسے غیر کہوں اور کسے اپنا لکھوں؟
بہ الفاظ دیگر شاعر غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کو بھی اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس خیال کے ذہن میں آتے ہی شاعر اپنی ذات کی طرف سے نظریں ہٹا کر کائنات کا جائزہ لینے لگتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات تو اپنی ذات سے بڑھ کر سیکڑوں اورہزاروں نئے موضوعات کا خزانہ ہے۔وہ کسی منشور یا(Prism) کی طرح اپنی فکرکی جمالیاتی خوردبین یا ذرہ بین(Microscope)کو گھماتا ہے تو رنگ برنگے جلوے اس کی نگاہ احساس کے سامنے آتے ہیںمثلاََ:
ریت پر دھوپ ، کوئی عکس تو دکھلائے کہ میں
ایک بوسہ سر پیشانیِ صحرا لکھوں
بوسہ کسی چیز یا انسان کے جسم پر لیا جاتا ہے یا ہوا میں اڑایا جاتا ہے لیکن اس شعر کو پڑھ کر ہمارے علم میں یہ اضافہ بھی ہوا کہ بوسہ سر پیشانیِ صحرا کا بھی لیا جاسکتا ہے۔ یقینا یہ ایک بالکل نیا اور عجوبائی بیان ہے جوشاعر کے ذہن کی خالص جمالیاتی سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔شاعر کو ہر اس چیز میں جمالیاتی حسن نظر آتا ہے جو اس کے خیالات کو شعر کہنے پر اکساتی ہے خواہ وہ مناظر فطرت ہوں ، پرندے ہوں یا ماضی کی حسین یادیں ہوں۔ ”شب درمیان“ کے اشعار دیکھیے:
چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
مرا منظر نامہ خوابوں کا
یہی بستی میرے پُرکھوں کی
یہی رستہ ہے سیلابوں کا
اگرعرفان صدیقی اپنی غزل کے مطلع میں محض چڑیوں، پھولوں اور مہتابوں کا ذکربھی کردیتے تو غزل میں کافی رعنائی پیدا ہوجاتی لیکن ان چیزوں کو خوابوں کا منظر نامہ کہہ دینے سے شعر کہیں سے کہیں پہنچ گیااسی طرح پُرکھوں کی بستی اور سیلابوں کا تذکرہ لاجواب ہے۔
شعور جمال کا ایک انعام چشم بصیرت کا کھل جانا یعنی قبل ازوقت آنے والے یا وقوع پذیر حالات کی آہٹ مل جانا بھی ہے۔جس طرح گھوڑا میلوں دور سے سانپ کے وجود کو محسوس کرکے اپنے پاو¿ں پٹخنے لگتا ہے یا آلہ¿ زلزلہ شناسی زلزلہ آنے سے پہلے اس کے وقت اور محل وقوع سے ہمیں آگاہ کردیتاہے وہی حالت اس شاعر کی ہے جسے اللہ نے غیر معمولی شعور جمال ودیعت فرمایا ہو۔ عرفان صدیقی کے حسب ذیل اشعار اس حقیقت کے ترجمان ہیں:
اگلے دن کیا ہونے والا تھا ، یہ اب تک یاد ہے
انتظار صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا
آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد
میرا سوجانا ، مرے دیوار و در کا جاگنا
مذکورہ بالا اشعار میں انتظار صبح اور مرے دیوارودرکا جاگنااسی دور اندیشی اور پیش بینی کی طرف اشارا کرتے ہیںجس کا ایک صحت مند اور مثالی احساس جمال شاعر سے مطالبہ کرتا ہے۔دیگر بہت سے اجزاے شعور جمال کی طرح آزادیِ فکر ونظر اور تلاش ہم سفر بھی اس کی تکمیل میں از بس ضروری بلکہ لازمی ہے۔ ”شب درمیان“ کی پانچ اشعار پر مشتمل ایک غزل جو عرفان صدیقی نے اپنے دیرینہ حبیب مرحوم شہر یار کے نام معنون کی ہے، ہمارے دعوے کی انتہائی خوبصورت دلیل کہی جاسکتی ہے:
دلوں سے درد کا احساس گھٹتا جاتا ہے
یہ کشتگاں کا قبیلہ ، سمٹتا جاتا ہے
کھلے پروں پہ فضا تنگ ہوتی جاتی ہے
اور آسمان زمینوں میں بٹتا جاتا ہے
ہزار قرب کے امکان بڑھتے جاتے ہیں
مگر وہ ہجر کا رستہ جو کٹتا جاتا ہے
ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ شاعر کے ساتھ ساتھ پہلے بہت سے ایسے ہم خیال اور ہم جذبہ شعرا تھے جنھوں نے مبتلائے درد عشق میں اپنی جانیں دے دیں اور جانباز صرف گنتی کے رہ گئے۔جغرافیائی تقسیم نے ہمیں اپنے ہم نواو¿ں سے دور کردیا۔سچ پوچھو تو مستقل ہجرت وجدائی نے ہمیں ان تکالیف کا عادی بنادیا ہے۔ درد فرقت میں ہمیں لذت ملنے لگی۔اب اگر کوئی ہم سے پرانے احباب کے ساتھ مل بیٹھنے پر اکساتا ہے تو ہمیں وحشت سی ہونے لگتی ہے یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو ہمیں شعور جمال نے عطا کی ہے ۔ گویا اب ہم غالب کے اس شعر کو سمجھے ہیںکہ:
عشرت قطرہ ہے ، دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
اطالوی مفکر کُروچے(Bendetto Croce) نے( جو اٹلی میں نیپلز کے پاس ایک قریہ میں ۶۶۸۱ءمیں پیدا ہوا )فلسفہ¿ جمالیات کے بارے میں بہت کچھ لکھا ۔ اظہاریت اس کے یہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس اظہاریت(Expressionalism)کو کُروچے کے جمالیات کی اساس سمجھنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھنا یہ چاہیے کہ شاعر یاا دیب کے اظہارفن کا انداز کیسا ہے۔
اس قول کی روشنی میں جب ہم عرفان صدیقی کے کلام پر عمومی نقطہ¿ نظر سے اور شب درمیان کی غزلوں پر خصوصی زاویہ¿ نگاہ سے غور کرتے ہیںتو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کے یہاں اظہار جذبات وخیالات پر مکمل گرفت موجود ہے ۔ اس گرفت کا بدیہی ثبوت یہ ہے کہ وہ اظہار کے بیشتر وسائل سے کام لیتے ہیںاور لفظ ومعنی کے انتہائی دلکش ادغام سے اپنی ایک ایسی غیر معمولی شعری کائنات کے خالق بن جاتے ہیںجوان کے وضع کردہ اصولوں کے منفرد معیار کوقائم رکھ سکے۔ہم بڑی حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھتے ہیںکہ ان کی شاعری خود اپنے ہی وضع کردہ اصولوںکے سانچوںمیں اتنی مہارت کے ساتھ ڈھلی ہے کہ وہ ہمارے سامنے فکری میلانات ورجحانات کے رنگ برنگے مرقعے پیش کردینے پر قادر ہے ۔نمونے کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
عقدہ¿ جاں بھی رمزِ جفرہے ، جتنا جتنا غور کیا
جو بھی جواب تھا میرا پنہاں، میرے حرف سوال میں تھا
تیغ ستم کے گرد ہمارے خالی ہاتھ حمائل تھے
اب کے برس بھی ایک کرشمہ ،اپنے دست کمال میں تھا
علم جفر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ چند نمایاں سوال کیے جاتے ہیں جن کا جواب پوشیدہ طور پر ملتا ہے۔ شاعر اپنے عقدہ¿ جاں یعنی زندگی کے بارے میں کچھ جاننے کا خواہش مند ہے۔ جواب غیب سے ملتا ہے لیکن چند علامتوں کے ذریعہ۔مختصریہ کہ شاعر جو جاننا چاہتا ہے اس کا جواب بھی اتنا ہی نا معلوم ہے جتنا مبہم کہ اس کا سوال تھا ۔ یہ ایک معمہ ہے۔شاعر کے نزدیک معمہ بنانا اور پہیلیاں بجھا کر سننے والے کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کردینابھی اس کے شعور جمال کی تشنگی کو مٹا دیتا ہے۔ مذکورہ¿ بالا دونوں اشعار اپنے اپنے رنگ میں اسی قبیل کے فن پارے ہیں۔
عرفان صدیقی کی شاعری کا تیسرا دور اپنی تمام تر خصوصیات وامتیازات کے ساتھ ان کے تیسرے مجموعہ¿ کلام ” سات سمٰوات“میں جلوہ فگن ہے جو ۲۹۹۱ءمیں شائع ہوا تھا ۔ سات سمٰوات کا مطالعہ کرتے وقت قاری کے دل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اپنے مقام پر عجیب وغریب ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے تمثال گری (Visualisation)کے جس ہنر کے ساتھ کینوس اور شب درمیان میں شامل سخنوری کے جوہر دکھائے تھے وہ ان کی مسلسل جمالیاتی ریاضت کے نتیجہ میں نقطہ¿ کمال تک پہنچ گئے ہیںاور اس تیسرے مجموعے سات سمٰوات سے ثابت ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنا وہ رنگ بالآخر پا ہی لیا ہے جس کا وہ متلاشی تھا۔یہ مجموعہ اپنے قاری پر یہ راز افشا کرتا ہے کہ اب شاعر نے ساتوں آسمانوں میںبکھری ہوئی ساری آفاقیت کو اپنے شعور جمال کی مدد سے شعری استعارہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ خاک، ہوا، چاند، سورج، ستارے، شفق ، قوسِ قُزح ، بادل ، برق وباراں،شبنم اور کہکشاںغرض کہ تمام اجرام فلکی کے حوالے بار بار ان کے اشعارمیں ملتے ہیںاور ہر بار نئے مفاہیم کی طرف اشارا کرتے ہیں:
یاد آتی ہوئی خوشبو کی طرح زندہ ہم
کسی گزرے ہوئے موسم کے نمایندہ ہم
اڑ گئے آنکھ سے سب لمحہ¿ موجود کے رنگ
ہوگئے نقش گر رفتہ و آیندہ ہم
اس اندھیرے میں کہ پل بھر کا چمکنا بھی محال
رات بھر زندہ و رخشندہ و تابندہ ہم
ان اشعار میں ’خوشبو کی طرح زندگی‘ تشبیہ کی ندرت کا اشاریہ ہے۔’ گزرے ہوئے موسم‘ خوشگوار ماضی ہے۔ دوسرا شعر اس حقیقت کا غماز ہے کہ فی الحال ہم دنیا میں مشہور و معروف نہ سہی لیکن ہمارا ماضی بے حد شاندار اور مستقبل ہمارے نرالے ذوق کا آئینہ ہے۔ہم مایوسی میں بھی رجائیت ، حوصلہ مندی اور امید پیدا کرلیتے ہیںیہی ہماری زندگی اورپر جوش و بامقصد فعالیت اور سرگرمیوں کا راز سر بستہ ہے جس سے ہماری موجودہ نسل قطعاََ ناواقف ہے۔
موجودہ زمانے کے بد مذاق ماحول اور تہذیبی وتمدنی زوال کا تقاضہ تو یہ تھا کہ عرفان صدیقی کی شاعری فانی کی غزل یا میر انیس کا مرثیہ بن جاتی لیکن ان کی جمال آشنا فکر نے یہاں بھی ایک نئے انداز کی شان دکھائی ہے ۔ نئی تشبیہات ، جدید ترین علامات واستعارات، خود ساختہ الفاط اور تازہ بہ تازہ شعری اصطلاحات کے نئے طرزاحساس نے ان کی شاعری کو جو اچھوتا آہنگ بخشا اس میں میر وغالب کی شعری روایت بھی موجود ہے اور وہ روایت بھی جو شاعری کے نئے اور پائیدار معیار بھی قائم کرتی ہے۔
اب عرفان جمال کا شاعر ، عرفان صدیقی کے آخری شعری شاہکار”عشق نامہ“ جو ۷۹۹۱ءمیں چھپا تھاعرفان کی شاعری کے تعلق سے ان کے ایک قریبی دوست سید عقیل حیدر لکھتے ہیںکہ:
”عرفان صدیقی ، دوسرے شاعروں کی طرح کسی غزل کو ایک نشست میں مکمل کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ایک ایک شعر پر کئی کئی گھنٹے اور کئی کئی دن تک غور کرتے۔ مثال کے طور پر ان کے مشہور مطلع کا ثانی مصرعہ” نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے“ انھوں نے یوں ہی روانی میںایک دن کہہ کر کسی کاغذ پر تحریر کرلیا تھا لیکن مطلع کے لیے انھوں نے مصرعہ¿ اولیٰ قریب چھ ماہ کی کوششوں کے بعد لگانے میں کامیابی حاصل کی“
(ماہ نامہ نیادور لکھنو¿ عرفان صدیقی نمبر اکتوبر ۔نومبر۰۱۰۲ءص ۳۶)
مطلع اس طرح سے ہے:
اٹھو ، یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے©©
مذکورہ غزل کاپہلا شعر جسے بیت الغزل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔حریف یا رقیب کا ذکر تو اکثر شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن عرفان کے اس شعر میں کہ ایک ایسا شخص جو اپنے حریف کی موت کو دیکھنے کے لیے خود اپنی جان گنوا بیٹھتاہے۔ ایسی نظیر شاید ہی کسی شعرا کے یہاں نظر آئے:
عجب حریف تھا ، میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
”عشق نامہ“ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عرفان نے سراپاے محبوب کی تجسیم(Personification)کے بجائے ،جمال محبوب کے نقش کو کافی گہرائی عطا کی ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر انھوں نے بجائے پیار کی تجسیم نہ کرتے ہوئے محبوب کے سراپا کو اس کے عمل سے مربوط کردیا یہ ان کی غیر معمولی ہنر مندی ہی کہی جائے گی مثلاََ ”ستارہ ادا“ کی ترکیب وضع کرکے اسے محبوب کے ساتھ تواتر کے ساتھ استعمال کرنا جس میں حسن ، فاصلہ اور فنا پذیری کی صفت بھی شامل ہے:
عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم سفری
وہ ساتھ ہو تو بیاباں میں رت جگا ہوجائے
عشق نامہ کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب کے لیے بانوئے شہر کی خوبصورت ترکیب وضع کی ہے:
ناقہ¿ حسن کی ہم رکابی کہاں؟ خیمہ¿ ناز میں باریابی کہاں؟
ہم تو آئے بانوئے کشوردلبری پاسداروںمیں ہیں، ساربانوں میں ہیں
مختصر یہ کہ ”عشق نامہ“ عرفان صدیقی کے دیگر تمام شعری مجموعوں سے بہ اعتبار کیفیت و کمیت مختلف ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مرحوم نے کلاسیکی شعری روایات کو جدید ترین آہنگ شاعری کے امتزاج سے ایک نئی شعری ”بوطیقا“ مرتب کردی ہے جو صدیوں تک اس عظیم اور طبع زاد شاعر کی یاد دلاتی رہے گی۔
عرفان صدیقی مرحوم کی شاعرانہ فتوحات ذکرکرتے ہوئے ہم ان کے مجموعہ کلام ”ہواے دشت ماریہ“کو یکسر فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ مجموعہ منقبتوں ، سلاموں اور نوحوںپر مشتمل ہے جسے ادارہ¿ تمدن اسلام(کراچی پاکستان) نے ۸۹۹۱ءمیں شائع کیاتھا ۔ یہ ایک وقیع ترمجموعہ ہے کیونکہ اس میں تاثر، عقیدت ، سبق آموزی اور شعریت سبھی کچھ بہ یک وقت اکٹھا ہوگئے ہیں۔ پاکیزگیِ جذبات ، حق گوئی اور ظلم وستم کے خلاف مہذب احتجاج کی حیثیت سے یہ مجموعہ ہمیں ایک بالکل نئے عرفان صدیقی سے متعارف کراتا ہے۔بے شک ہواے دشت ماریہ میں سرکار دوعالم صلعم ، ان کے اہل بیت علی الخصوص مسلمانوں کے خلیفہ¿ چہارم حضرت علی کے چھوٹے فرزند حضرت امام حسین اور ان خانوادے پر کربلاے معلی میں ہونے والے مظالم کا پُردرد تذکرہ ہے لیکن اس تذکرہ میں بھی عرفان صدیقی کی فکر نَو نے ہزاروںنئے گوشے پیدا کیے ہیںجو انھیں کا حصہ تھے:
دل ِ سوزاں پہ جیسے دست شبنم رکھ دیا دیکھو
علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو
۔۔۔۔
گلوئے خشک میںسوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
یہ لوگ دست جفا سے کسے پکارتے ہیں
یہ بازگشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
مذکورہ اشعارکی پوری نظم میں اگرچہ واضح طور پر سانحہ¿ کربلا کی جملہ جزئیات باالترتیب بیان نہیں کی گئی ہے پھر بھی چیدہ چیدہ اشعار میں بڑافنکارانہ ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بے ربطی میں ربط بھی تذکرہ¿ جمال کا ایک انداز ہے۔ہر شعر میں یا تو سوالیہ طرز ہے یا علامت استفہام کی کیفیت موجود ہے ۔استعاروں کے تسلسل میں سبھی اشعار کو معنی آفریں بنادیا ہے۔علم بیان کی اصطلاح میں اسے خوش فضائی کہا جاسکتا ہے۔
عرفان صدیقی کے تعلق سے ایک سب سے اہم یہ ہے کہ ان کے احباب اور شناساو¿ ں کی روایت کے مطابق نہ تو انھیں اخبار ورسائل میں اپنا کلام چھپوانے کا شوق تھا نہ مشاعروں میں کلام سنانے کا۔ ان کی بیشتر غزلوں میں مقطع کہنے کا التزام بھی نہ تھا ۔ وہ تو ایک قلندر صفت انسان تھے ۔ بلا شبہ ان میں احساس خودداری اور حفظ مراتب بہت تھا۔ ہوائے دشت ماریہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں شامل ایک نظم (جو عرفان کی مشہور ترین نظموں میں شمار ہوتی ہے)ان کے تخلص سے شروع ہوتی ہے:
دست تہی میں ، گوہر نصرت کہاں سے لائے؟
عرفان! تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے؟
پانی نہ پائیں ساقیِ کوثر کے اہلِ بیت
موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟
مذکورہ بالا سلام کے سلسلے میں ڈاکٹر نیّر مسعود رضوی نے ایک عجیب وغریب واقعہ بیان کیا ہے ۔ اس وقعہ کو یہاں بیان کرنانامناسب نہ ہوگا۔ نّیر مسعود لکھتے ہیں:
”مجھے اردو صاحب دل ، مذہبی شاعر مرحوم وفا ملک پوری یاد آرہے ہیں۔ وہ عرفان صدیقی سے اچھی طرح واقف نہیں تھے ۔ میں نے انھیں یہ سلام سنایا:
عرفان!تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے؟
پورا سلام مرصع ہے لیکن وفا خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ میں نے سلام ختم کرکے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا، چپکے چپکے رو رہے ہیں ۔ کہنے لگے :صاحب میںنے پورا سلام سنا ہی نہیں۔ میں تو اس کے ایک ہی شعر میں کھو کر رہ گیا :
پانی نہ پائیں ساقیِ کوثر کے اہلِ بیت
موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے؟
عرفان صدیقی بہت جلد مذہبی شاعروں کی صف اول میں آگئے“
( مضمون : عرفان صدیقی ، کینسر، آخری ملاقاتیں۔مشمولہ نیادور لکھنو¿ اکتوبر۔نومبر ۰۱۰۲ءص ۸۸)
اس مضمون میں ہماری بنیادی Themeیہ تھی کہ عرفان صدیقی کی شاعری کی بنیاد جمال عاشقی پر ہے یعنی وہ زندگی کے جس شعبہ کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیںاس میں فن جمالیاتAesthetics Artکی کارفرمائی کے جلووں ست ضرور کام لیتے ہیں۔ابن آدم کی سب سے بڑی دولت کا نام احساس جمال ہے اوریہ احساس جمال کسی بھی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے کیوں کہ اظہاریت ہی اس کا کامیاب ترین وسیلہ ہے۔ عرفان صدیقی نے اس وسیلے سے اپنی مٹھی بھر شاعری سے جمال عاشقی کا مرقع چغتائی تیار کردیا ہے۔
۵۱۶۱اپریل ۴۰۰۲ءکی درمیانی شب میں لکھنو¿ میں عرفان صدیقی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ شاید اسی لیے انھوں نے کہا تھاکہ:
بجھ رہی ہیں میری شمعیں ، سورہے ہیں میرے لوگ
ہورہی ہے صبح ، قصہ مختصر کرتا ہوں میں

Iqbaal Sanaash

Articles

آلِ احمد سرور بحیثیت اقبال شناس

قاضی عبیدالرحمن ہاشمی

آلِ احمد سرور ہمارے ان معدودے چند ادیبوں میں ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کے لمحہ ¿ آخر تک شعر و ادب سے گہرا سروکار رکّھا اور اپنی تحریرو ںکے ذریعہ اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔ آزاد، حالی، شبلی، امداد امام اثر اور عبدالرحمان بجنوری وغیرہ کی وساطت سے اردو تذکرہ اور تنقید کی جو روایت ان تک پہنچی تھی اس کی توسیع کا فریضہ انھوں نے اس انداز سے انجام دیا کہ مغربی تنقیدی معیاروں سے واقفیت کے باوجود اپنے معتدل مزاج اور متوازن طبیعت کے باعث مشرقی اندازِ نقد و نظر کو بالقصد ہمیشہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھا اور تنقید میں معروضی محاکمہ اور محاسبہ سے شاذ و نادر ہی سروکار رکھا، چنانچہ ایک خصوصیت جو عموماً انشاپردازی سے علاقہ رکھتی ہے اس کے خوگر ہوتے چلے گئے، اغلب ہے کہ اس طرز کا محرک کسی حد تک رشید احمد صدیقی کی تحریریں بھی رہی ہوں، بہرنوع یہی تنقیدی اسلوب سرور صاحب کا نشانِ امتیاز اور بنیادی شناخت کا وسیلہ بن گیا، جس کی دفاع وہ اس طرح کرتے رہے کہ تنقید اپنے پیرایہ ¿ بیان اور لسانی اظہار کے لحاظ نہ صرف یہ کہ تخلیق سے کم رتبہ نہیں ہے بلکہ اپنے اندر لطف و لذت اور ذہنی رغبتوں کا وہی سامان رکھتی ہے جو تمام بہترین نثری تحریروں کا طرہ ¿ امتیاز ہے۔ جو اوّلین صورت میں مسرت اور پھر بصیرت کی ضامن ہوتی ہیں۔
اب جب کہ پہلے کے مقابلے میں اردو میں بھی تنقید کا تصور زیادہ سنجیدہ اور عالمی تناظر میں متن پر مبنی انتہائی ذمہ دارانہ Academicکارگزاری بن گیا ہے اور عمومیت ایک جرمِ عظیم بنتی جارہی ہے، تو سرور صاحب کی قدرے انشائیہ نما تنقیدی تحریروں کا علمی جواز مشکل ہے، جن میں متجسس ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا حل ڈھونڈنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

موجودہ موضوع کے سیاق میں ان تمہیدی کلمات کا جواز یہ ہے کہ گرچہ سرور صاحب اقبال کے فکر و فن پر مسلسل لکھتے رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ انھوں نے گرچہ عقیدت کی عینک لگا کر اقبال کو شاعر ملت ثابت کرنے کے لےے مولویانہ طرز استدلال سے ہرگز کام نہیں لیا ہے، لیکن اقبال کی تخلیقی و فنّی بصیرت کے سرچشموں کا سراغ لگانے کے لےے اور شاعر کے نفس کی آنچ سے پگھلتی اور تحلیل ہوتی ہوئی لفظیات و علائم کی منطق کو بھی سمجھنے سمجھانے اور ان کے اندرون میں جھانکنے کی کچھ خاص کوشش نہیں کی ہے، جس کے بہت مستحسن عملی نمونے ہیں قاضی افضال حسین کے بعض مطالعات اقبال میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
چنانچہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ سرور صاحب نے مطالعہ اقبال میں متنی تجزےے اور استفسار سے قطعاً گریز کیا ہے اور بیشتر ان کی فکری و فنّی صلاحیتو ںکے بارے میں اپنے مجموعی تاثر پر ہی اکتفا کیا ہے، تاہم اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالنا چاہےے کہ وہ اقبال فہمی سے قاصر ہیں یا شاعرانہ زبان و بیان کی نزاکتوں، رموز و علایم اور غرض و غایت سے بے خبر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، شاعری میں ان فنّی لوازم کی ضرورت و ماہیت کا انھیں بھرپور شعور ہے، تاہم اپنے مزاج اور ایک خاص نوع کی ذہنی تربیت جو انھیں اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملی تھی، اس سے وہ انحراف نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بغاوت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، تاہم یہ حقیقت ہے کہ اقبال پر ہی لکھی گئی سرور صاحب کی رنگین نثر کے غائر مطالعہ سے کچھ جستہ جستہ فقروں کو ضرور علاحدہ کیا جاسکتا ہے جن سے اقبال کے فنّی سروکار، مرتعش فکر اور برگزیدگی کے نقوش ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر سرور صاحب اپنے ایک مضمون ’اقبال کی معنویت‘ میں اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوو ¿ں پر روشنی ڈالتے ہیں، جن میں اُن کا فن شعر بھی شامل ہے، فرماتے ہیں:
”اقبال کے فن کی معنویت کیا ہے، اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ کہنا ہے کہ فن لفظ کے ذریعہ سے ذات کو کائنات بنانے کا نام ہے اور حسن کی طرح فن بھی ہزار شیوہ ہوتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ فن کے حسن کو اس کے ہر رنگ میں پہچانیں۔“
آگے چل کر فرماتے ہیں:
”اقبال کی شاعری روایت سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے اور پھر بھی ان کی اپنی ایک آواز، اپنا ایک لہجہ اور اپنی ایک دنیا ہے۔ اقبال حالی کے راستے پر چلے مگر ان کے مرشد اوّل غالب ہیں۔ اردو غزل غالب کے اثر سے حدیث دل سے آگے بڑھ کر زندگی کا ورق بن چکی تھی، مگر اقبال نے اسے صحیفہ ¿ کائنات بنا دیا۔ اقبال شاعری میں رمز و ایما کی اہمیت کو جانتے ہیں اور برہنہ حرف نہ گفتن کو کمال گویائی جانتے ہیں مگر اُس پردہ ¿ مینا کو پسند کرتے ہیں جس میں مے مستور بھی ہو اور عریاں بھی۔“

ان اقتباسات کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شاعری کی زبان کے بارے میں سرور صاحب کا موقف واضح ہے اور یقینا رمزیت و ایمائیت ہی اعلا فن کار اور فن کاری کے بنیادی وسائل ہیں، جن سے اقبال نے بھی کام لےے ہیں۔ علاوہ ازیں سرور صاحب کا اقبال کے تعلق سے یہ دعویٰ کہ فن ذات کو کائنات بننے کا نام ہے یا اقبال کی شاعری روایت سے گہرا رشتہ رکھتی ہے، ایسے بلیغ اشارے ہیں جن سے ایلیٹ کے معروف تصورات Escape or Detachment from Personality اور Tradition & Poetry کے مباحث کی گونج بھی صاف سنائی دیتی ہے۔

ایک اور مضمون ’خطابت، شاعری اور اقبال‘ میں سرور صاحب فرماتے ہیں:
”ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے، غنائی، خطابیہ اور ڈرامائی۔ اقبال کے یہاں یہ تینوں آوازیں ملتی ہیں، لیکن دوسری آواز یعنی خطابیہ زیادہ ہے، اس میں اقبال نے شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کےے ہیں— مشرقی شاعری خطابت کی روایت سے آزاد نہیں ہوسکتی، اس لےے کہ اس کا تعلق ایک وسیع حلقہ سے رہے گا۔ اس کے ذریعہ یہ لفظ میں کائنات اور لمحے میں ابدیت دیکھتی دکھاتی رہے گی۔“
آگے چل کر فرماتے ہیں:

”اچھی شاعری خطابت کے آداب ضرور رکھتی ہے۔ اقبال وہ طائر ہیں جس کی آنکھ پرواز میں بھی نشیمن پر رہتی ہے۔ یہ صاف اور واضح طور پر مقصدی شاعری ہے، مگر شاعری ہے اور اعلا درجہ کی شاعری ہے، دانشوری نے اسے تب و تاب عطا کی ہے، اپنی فنّی روایت کے بطن سے ابھری ہے اور اُس نے تجربے بھی کےے ہیں۔“
ان عمومی بیانات میں بھی کچھ تنقیدی اشارے موجود ہیں۔ گرچہ تکرار خیال بھی ہے اور بسااوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ تخلیقی تجربے کی حقیقی معنویت کو کامل غور و فکر کے بعد تحلیل و تجزےے سے برآمد کرنے کے بجائے سرور صاحب شاید پہلے سے کوئی Frame Work بنا لیتے ہیں اور پھر اُس خاکے میں رنگ آمیزی کے لےے اشعار تلاش کرتے اور فیصلہ صادر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے نتائج اکثر ذہن کو پوری طرح کم ہی مطمئن کرپاتے ہیں، تاہم یہ ان کی مجبوری ہے اور اُن سے اس کے برعکس کوئی مطالبہ مناسب نہیں ہے۔ ان کے کئی مضامین مثلاً دانشور اقبال، ’اقبال اور نئی مشرقیت‘ یا ’جدید اور مشرقی اقبال‘ وغیرہ میں اسی Strategy اور کلّیہ سازی کی طرف اُن کا واضح میلان نظر آتا ہے۔

تاہم اس امر کا اعادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تفصیلات سے قطعِ نظر اجزا میں کہیں کہیں سرور صاحب کی تنقیدی ژرف نگاہی خاکستر میں پوشیدہ چنگاری کی مانند اپنی چمک دکھا دیتی ہے اور ان کی عبقریت کا قایل ہونا پڑتا ہے، یوں بھی سرور صاحب Cliches کے ذریعہ اپنی آگہی کو طشت ازبام کرنے سے زیادہ، خود کو مخفی رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ سرور صاحب کے مضمون ’اقبال اور اردو نظم‘ کو جب ہم اس توقع کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ مجموعی طور پر اس سے اقبال کی نظموں کی بُنت (Craftsmanship)، تعمیریت (Architectonics) اور شاعر کے تخلیقی شعور کے بارے میں کسی اہم نکتے کا انکشاف ہوگا تو بلاشبہ مایوسی ہوتی ہے، لیکن مضمون کی قرا ¿ت کے دوران سرور صاحب کی فطانت کے کچھ کوندے ضرور لپک جاتے ہیںجن سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں:

”اقبال کی مختصر اور طویل نظموں کی تعداد کیفیت اور کمیت دونوں کے لحاظ سے اتنی ہے کہ وہ اب تک نظم کے سب سے بڑے شاعر کہے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے اردو نظم کو وسعت، گہرائی، بُعد اور فکری رفعت عطا کی ہے، اِس سے انکار کفر ہوگا۔ انھوں نے گرچہ غزل کو بھی صحیفہ ¿ کائنات بنایا، مگر دراصل وہ نظم کے شاعر ہیں۔“
سرور صاحب اقبال کی نظموں کے حوالے سے آگے چل کر بہت پتے کی بات کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
”بال جبریل میں لینن خدا کے حضور میں، فرشتوں کا گیت، فرمانِ خدا فرشتوں کے نام۔ اگرچہ الگ الگ نظمیں ہیں، مگر ان میں ایک ربط مل جائے گا، طارق کی دعا اور مسجد قرطبہ، قیدخانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمان اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت اور ہسپانیہ میں بھی ایک رشتہ ہے۔ گویا نظموں میں ایک آزاد رشتے، ہیئتوں کے تنوع اور موضوعات کی رنگارنگی، تینوں اقبال کی امتیازی خصوصیات ہیں۔“

ان اقتباسات میں سرور صاحب کی نظر اقبال کی نظموں میں پوشیدہ جس معنوی اور ہیئتی ربط کی جانب گئی ہے، وہ یقینا توجہ کے قابل ہے۔ اسی مضمون میں سرور صاحب کا یہ کہنا کہ نظم ’لالہ ¿ صحرا‘ ایک مکمل علامتی نظم ہے اور اس کی علامت شاہین سے زیادہ فکرانگیز اور بصیرت افروز ہے۔ اس دعویٰ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن صرف بیان کافی نہیں، ثبوت بھی ضروری ہے۔اقبال کو نظم کا سب سے بڑا شاعر کہنے کے بعد سرور صاحب نے اقبال کی غزل کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ پہلے غزل کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
”غزل کی ہیئت میں بحر، قافیہ، ردیف کی مدد سے ایک تجربہ، ایک واردات، ایک حسین لمحہ، ایک دلنواز نکتہ، ایک پراثر لے، ایک حرفِ شیریں، ایک شرارِ معنوی، ایک نغمہ ¿ معرفت، ایک تابناکی ¿ خیال، ایک شعلہ ¿ جوالہ، ایک درد کی لہر، ایک من کی موج، ایک جلوے کی کائنات پیش کی جاتی ہے، لیکن جو کچھ کہا جاتا ہے، اس سے زیادہ خیال کے لےے چھوڑ دیا جاتا ہے۔“

یہ پورا اقتباس جو مرصّع نثر کا اعلا نمونہ ہے اس میں غزل کے آرٹ سے متعلق جس اہم نکتے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق بالکل آخری فقرہ سے ہے جس میں منطقی خلاو ¿ں (Elipses) کی طرف ا شارہ کیاگیا ہے۔ گرچہ مجموعی طور پر یہ ہر قابلِ ذکر شعری تجربے کی اہم خصوصیت ہے لیکن غزل کا آرٹ تو سراسر اخراجِ الفاظ سے ہی عبارت ہے اور اختصار (Brevity) اس کا بنیادی جوہر ہے۔
غزل پر عمومی تبصرے کے بعد سرور صاحب اقبال کی غزل کے اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

”اقبال کی غزل میں سوز بھی ہے اور مستی بھی جمال بھی ہے اور جلال بھی، فکر کا عنصر بھی ہے اور جذبے کا گودا بھی، دلو ںکی کشاد بھی اور نشریت بھی، سازِ، طرب بھی اور فریاد کی ٹیس بھی۔ ان کی مخصوص اصطلاحوں کی وجہ سے یا موڈ کی وحدت کی وجہ سے، بعض اوقات، نظم کی شان ضرور پیدا ہوگئی ہے، مگر جذبے کی آنچ عمومی طور پر انھیں غزل کی زبان کی زبان سے، دور نہیں جانے دیتی۔“
یہاں بھی دیگر باتوں کے ماسوا جس میں Paraphrasing بھی شامل ہے، موڈ کی وحدت کی طرف اشارہ جس کے سبب اقبال کی غزلوں میں، نظم کی شان ہوگئی ہے، وہ نکتہ ہے،جس کی طرف خود فاروقی صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے۔

آگے چل کر غزل میں اقبال کی انفرادیت نشان زد کرتے ہوئے سرور صاحب نے بے حد کارآمد باتیں کی ہیں، فرماتے ہیں:

”مجموعی طور پر (اقبال) کی غزل کا آہنگ شیریں بھی ہے اور رقصاں بھی۔ تلمیحات، تراکیب، استعارات، تشبیہات کی کثرت، باوجود ہیرے کی طرح ترشے ہوئے خیال اور فن پر قدرت کی وجہ سے، ان کی غزلوں کے الفاظ میں زبان پر وہ فتح اور اقلیم معنی پر وہ اقتدار ملتا ہے، جو بڑی شاعری کی پہچان ہے۔“
اقبال کی غزلوں بلکہ اُن کی مجموعی شاعری کی انفرادیت اور امتیاز کو شاید اس سے بہتر طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سرور صاحب کی اقبال شناسی کے ضمن میں مزید زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے صرف ان کے مضمون ’اقبال کا فن- ایک عمومی جائزہ‘ کے حوالے سے چند معروضات پیش کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔
اقبال کی غزلوں اور نظموں میں فنی تدابیر کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے، سرور صاحب فرماتے ہیں:
”اقبال چونکہ غزل کی روایت سے یکسر بلند نہیں ہوسکے، ان کے ہاں طویل نظمیں دراصل خوبصورت ٹکڑوں کا ایک گلدستہ ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بھی نہیں بھولنا چاہےے کہ ایڈگر ایلن پو تو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ طویل نظم کوئی چیز نہیں، یہ مختصر نظموں کاایک مجموعہ ہے۔ اقبال کی وجہ سے اردو نظم جوان ہوئی اور اس میں جوانی کی لغزشیں بھی ہیں، مگر اقبال نے غزل کی دنیا میں جو انقلاب برپا کردیا اور اسے عظمت، گہرائی اور برگزیدگی عطا کی، اس کا اعتراف ضروری ہے۔ اقبال کے ہاں شاعری کی پہلی اور دوسری آوازوں کا تو بھرپور نقش ہے مگر تیسری آواز بھی جبریل و ابلیس میں پورے طنطنے کے ساتھ ملتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے یہاں منظوم فلسفہ بھی ہے۔ مگر خطیبانہ شاعری، مفکرانہ شاعری Epigrammaticشاعری سب کے اعلا نمونے ملتے ہیں۔“
اس سے قطعِ نظر کہ ایلیٹ کی بتائی ہوئی شاعری کی تین آوازوں کا عفریت سرور صاحب کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا، اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اس اقتباس میں بھی سرور صاحب کی اعلا تنقیدی بصیرت اور تفکر کے ارتعاشات موجود ہیں، چنانچہ اقبال کی طویل نظموں کو خوبصورت ٹکڑوں کا گلدستہ کہہ کر، دبے لفظوں میں شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ طویل نظم جس فکری تسلسل، مرتکز تخیل، تحمل، تخلیقی تگ و تاز اور ریاضت کی متقاضی ہوتی ہے، اقبال کی نظمیں اُن Parametersپر پوری نہیں اترتیں۔ سرور صاحب جس پائے کے ادیب اور نقاد ہیں، انھیں یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے، ہر چند کہ اقبال کی طویل نظموں کے سلسلے میں اسلوب صاحب نے دلائل کے ساتھ اس کے برعکس بھی اپنا نقطہ ¿ نظر پیش کیا ہے، تاہم اس سے اقبال کی شاعرانہ عظمت کی ادنیٰ تحقیق نہیں ہوتی۔

آخر میں صرف یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ سرور صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور دانشور ہونے کی حیثیت سے تنقید میں تمام تر زبان و بیان کی تخصیص کے باوجود، اسے ادبی اور جمالیاتی نثر کا ہی ایک ناگزیر حصہ تصور کرتے ہیں، اس کی ضرورت، وقعت اور اہمیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں، لیکن شاید اس کی بقا اور عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ وہ ’ادب‘ کے حصار ہی میں رہے، حاشیہ پر نہ چلی جائے، اس لےے کہ Marginalised ہونے کی صورت میں سرور صاحب جیسے نقاد اور تنقید کا عظیم خسارہ ہے۔
جیسا کہ دیکھا گیا، سرور صاحب اقبال کی عہدساز شخصیت اور تخلیقی کمالات کے حددرجہ معترف اور قائل ہیں، لیکن اپنی شاعرانہ افتاد طبع اور تاثراتی تنقیدی روےے کے باعث اقبال کے اعلا مابعدالطبیعیاتی تفکر کے عرفان و ادراک کے باوجود ان کے تنقیدی محاکمہ میں تجزیہ، تقابل اور احتساب کے ذریعہ فنی وتخلیقی رمزیت کی گرہ کشائی کرنے سے قاصر بیشتر شاعرانہ خیالات کی بازآفرینی سے ہی سروکار رکھتے ہیں۔ تاہم اس سے انکار ناممکن ہے کہ ان کے بعض تنقیدی اشارے اکثر صورتوں میں عقل کو مہمیزکرتے ہیں۔ جن سے یقینا اقبال شناسی کے نئے دریچے کھلتے اور اقبال فہمی کے مزید امکانات روشن ہوتے ہیں۔

Iqbaal ka Tasawwar-e-Maut

Articles

اقبال کا تصورِ موت

قمر صدیقی

موت ایک ایسا عام فہم لفظ ہے جس کے تصور سے ہر انسان واقفیت رکھتا ہے۔ دن رات کے مشاہدات موت کے بے شمار مناظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے عزا و اقربا کے وداعِ دائمی کے وقت موجود نہ رہاہو۔ حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اس قدر ہمہ گیر اور دن رات کے

معمولات میں شامل ہے اس کے تصور سے انسان گھبراہٹ اور پریشانی محسوس کرتاہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے اور حیاتِ ابدی ممکن نہیں لیکن ہمارا دل و دماغ موت کے تصور سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو زوالِ زندگی یا اختتامِ زندگی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ذہن و تصور پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ موت کے بعد ہم لذائذِ دنیا و کوائفِ زندگی سے یک لخت محروم ہوجائیں گے اور موت ہمارے سارے ولولوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا خاتمہ کردے گی۔ ہم زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں دائمی جمود اور ابدی تعطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔

موت کے تعلق سے مذکورہ بالا خیالات ایک عالمگیر تصور کی صورت انسانی نفسیات میں رچ بس گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس تصور کے علی الرغم موت کے اسلامی تصور کو اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موت کے یہ معنی نہیں کہ یہ ہمیں ابدی نیند سلادیتی ہے بلکہ اقبال موت کو دوسری بہتر اور لازوال زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی ، صبحِ دوامِ زندگی

اقبال کے نزدیک موت سے وہی لوگ ہراساں و پریشان ہوتے ہیں جن کا ایمان آخرت کے یقین سے محروم و تہی دامن ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آئندہ زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔موت کے خوف کو علامہ اقبال دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ تسلیم کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ انسان ذاتی منفعت جیسی ادنیٰ ترین چیز کے لیے توہزار ذلت و رسوائی برداشت کرلیتا ہے جبکہ موت جو کہ محض ہوش و حواس کا کچھ عرصہ موقوف ہونے کا نام ہے اس سے ہمہ وقت خائف رہتا ہے۔
ہمچو کافر از اجل ترَسِندہ ئی
سینہ اش فارغ ز قلب زندہ ئی
(کافر کی طرح موت سے ڈرتا ہے۔ اس کے سینے میں زندہ رہنے کا والا دل نہیں ہے۔)

ایک بار سرورکائنات حضور ؐ نے فرمایا کہ:
’’ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ مسلمان نہایت ذلیل و خوار ہوں گے ۔ ان کی زندگی باعثِ ننگ و عار ہوجائے گی۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اُس وقت تو ان کی تعداد اب سے بہت زیادہ ہوگی۔ اصحاب نے پھر دریافت کیا یا رسول اللہؐ کیا اُس وقت مسلمانوں میں افلاس آجائے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا نہیں وہ اُس وقت کافی خوش حال و دولت مند ہوں گے۔ اصحاب نے استفسار کیا یا اللہ کے رسولؐ پھر ناتوانی و بے چارگی کی کیا وجہ ہوگی۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی لعنت جو ان پر مسلط ہوچکی ہوگی وہ موت کا غیر معمولی خوف اور دنیا سے انتہائی محبت ہوگی۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث کی کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوجائے گا کہ موت کا خوف ارفع و اعلیٰ مقاصد میں کس طرح سد راہ ہوتاہے۔ اقبال کی نظر میں موت سے خوف کھانا ایک سطحی جذبہ ہے کیوں کہ اُس چیز سے خوف کھانا جو اٹل اور ہمہ گیرہو بزدلی کی علامت اور سراسر حماقت ہے۔ انسان اپنی ہزاروں کوششیں، لاکھوں تدابیر، فنِ طب کے مسلسل و لا محدود تراکیب سے بھی موت کو زیر نہیں کرسکا ہے۔ موت کے اٹل ہونے کواقبال نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم ، چہچہایا ، اُڑ گیا

آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم ، کیا گئے

زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے مرجھا گئے

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے ، دم کے سوا کچھ بھی نہیں

موت کی اس ہمہ گیر اور عالم گیر حقیقت کو سمجھانے کے بعد اقبال یہ بتاتے ہیں کہ موت کیوں ضروری و لازمی ہے۔ فلسفہ کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ کسی چیز کا صحیح تعارف اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی ضد موجود نہ ہو۔ روشنی کے لیے تاریکی، بیداری کے لیے خواب ، خوشی کے لیے غم اور زندگی کے لیے موت۔ اقبال اس نکتہ کو نظم ’’فلسفۂ غم ‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی

اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی

موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی

ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں

جو خزاں نادیدہ ہو بلبل ، وہ بلبل ہی نہیں

اقبال کے تصورِ موت میں موت کتابِ زندگی میں ایک نئے باب کے اضافے سے عبارت ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ یہ نیا باب پہلے سے زیادہ حسین ، زیادہ رنگین و دلفریب ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ ہر موت یا فنا کے بعد انسان ارتقا کا ایک درجہ طے کرتا ہے اقبال نے نظم میں بے شمار خوشنما تشبہیوں و استعاروں سے کام لیا ہے۔غروب و طلوع آفتاب دن رات کا قصہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پھولوں کی شاخ میں پہلے کی پھوٹتی ہے جو بڑھ کر پھول کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جانتے تو سب ہیں دیکھتا بھی ہر شخص ہے مگر اقبال کی دور رس و حقیقت شناس نظر اسی چیز کو اور ہی زاویے سے دیکھتی ہے ۔ وہ نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اس سے وہ سبق حاصل کرتی ہے جس سے موت کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا اس نظم کے آخری بند میں

اقبال کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں:

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

اقبال کا تصورِ موت فکر اسلامی کے عین مطابق ہے۔ اُن کے نزدیک خواب و بیداری اور موت و حیات کا تعلق یکساں ہے۔ جس طرح سوتے وقت انسان دنیا و مافیہا سے کچھ دیر کے لیے بے خبر ہوجاتا ہے اسی طرح موت گو ظاہر بین نظروں کے لیے کتابِ زندگی کو تہ کردیتی ہے۔ لیکن باطن بیں نگاہیں حیاتِ مابعد کے مناظر سے آشنا ہوجاتی ہیں۔

Fan-e-Tiba’at ka Maulid wa Mansha

Articles

فنِ طباعَت کا مولد ومنشا

پروفیسر نادر علی خاں

انسانی فتوحات مےں رسمِ خط کی اےجاد وارتقا اےک عظےم الشان کارنامہ ہے جس کی مدد سے انسان نے اپنے قلبی احساسات اور ذہنی افکار کے بحرنا پےدا کنارکو کوزہ مےں بند کرلےا ہے اور فن طباعت کی اےجاد نے تو سونے پر سہاگے کا کام کےا، چنانچہ جملہ علوم وفنون صفحہ ¿ قرطاس مےں سمٹ کر آگئے اور ہزاروں سال قدےم علمی سرماےہ ہر کس و ناکس کے لیے مفےد اور مستحضر ہوگےا۔

فن طباعت کا مولد ومنشا غےر اختلافی ہے اس کی اےجاد کا سہرا چےنےوں کے سر ہے۔ کےونکہ وہاں بدھ مت کی تروےج کے لیے مذہبی ادب اور تصاوےر کی اشاعت کی ضرورت اس کا سبب بنی چنانچہ، مہاتما بدھ کی تصاوےر چھاپنے کے لیے ۰۵۶ءمےں بلاک کی چھپائی کاا ستعمال کےا گےا اور برٹش مےوزےم مےں قدےم ترےن چےنی طباعت (۰۷۷ئ)کا نمونہ محفوظ ہے۔سرارل آسٹےن نے ۷۰۹۱ءچےنی صوبہ کانسو مےں”مزار بدھ“نامی غار مےں اےک مطبوعہ کتاب درےافت کی ہے جس پر تحرےر ہے:
”اس کتاب کو وانگ چی اےبہ نے ۱۱مئی ۸۶۸ءکومفت تقسےم کرنے کے لئے چھاپا تاکہ اس کے والدےن

کی ےاد کو دوام حاصل ہو۔“۲
ےہ بارہ صفحات پر مشتمل ہے جس کا ہر صفحہ ۰۳x۲۱ انچ ہے لےکن ےہ سارے اوراق اےک دوسرے سے چسپاں کرکے ۶۱ فٹ لمبا اےک مسلسل تھان بناتے ہےں ۔پی شنگ نے ۱۴۰۱ءلغاتےہ۹۴۰۱ءمےں چےنی مٹی کے ٹائپ تےار کئے جو اےک آہنی شکنجے مےں نصب کیے گئے تھے اس کے بعد وانگ چانگ نے ۴۱۳۱ءمےں چوبی ٹائپ تےار کےا اس کے بعد جنرل لی(شاہ کورےا)نے ۲۹۳۱ءمےں دھات کے ٹائپ کا ڈھالا خانہ قائم کےا ور اےک کتاب تانبے سے بنے ہوئے کورےائی حروف سے چھاپی۔۱
جےسا کہ مذکورہ بالا بےان سے مترشح ہوتا ہے کہ بلاک کے ذرےعے طباعت کا فن چےنےوں کو ساتوےں صدی عےسوی سے معلوم تھا مگر ےورپ مےں ےہ فن بارہوےں صدی عےسوی مےں پہنچا اور ابتداََ اس کا استعمال بھی آرائشی رہا ۔چودہوےں صدی مےں تاش کے پتّوں کی طباعت ہوئی پندرہوےں صدی کے اوائل مےں(۳۲۴۱ئ)سےنٹ کرسٹوفر کی ٹھپّے سے طبع شدہ تصوےر جان رائی لےنڈزلائبرےری مانچسٹر مےں محفوظ ہے لےکن ےورپ مےں فن طباعت نے اس وقت تک ترقی نہےں کی جب تک کہ پندرہوےں صدی کے وسط مےں الگ الگ حروف کے ٹائپ اےجاد نہےں ہوئے۔

ےورپ مےں فن طباعت کی اےجاد کا مسئلہ اختلافی ہے بعض محققےن کا دعویٰ ہے کہ اس کی اےجاد کا سہرا لارنس جان زورکوسٹر (Lawrence Janzoor Coster) باشندہ ہارلم (ہالےنڈ) کے سر ہے مگر بعض محققےن مُصِر ہےں کہ جان گٹن برگ(John Guten Berg) باشندہ منےز(جرمنی) نے جان فسٹ اور پےٹر شوفر کی مدد سے اےجاد کےا بعض کا قول ہے کہ جو ہالس برےٹو باشندہ بروگسن (بےلجےم) نے ےہ کارنامہ سر انجام دیا لےکن بعض نے بامفےلو کاسٹےلڈے باشندہ فےلٹر(اٹلی) سے منسوب کےا ہے۔

جان گٹن برگ نے ۴۵۵۱ءمےں منےز (جرمنی) مےںمطبع قائم کےا جس مےں سانچے مےںٹائپ کے حروف ڈھالے گئے اور کچھ دستاوےز طبع کےں دوسال بعد انجےل طبع کی اس کے اےک سال بعد رنگےن طباعت کا بھی تجربہ کےا گےا۔منےز سے ےہ فن سارے ےورپ مےں پھےل گےا دو جرمن اٹلی پہنچے اور انھوں نے روم کے قرےب ۴۶۴۱ءمےں اےک مطبع قائم کےا لےکن طباعت کا اصل مرکز وےنس قرار پاےا جہاں مختلف ماہرےن فن نے ٹائپ کی نوک پلک درست کی اور اس مےں نفاست پےدا کی ۴۶۴۱ءمےں اندلس فن طباعت سے آشنا ہوا ۸۶۴۱ءمےں ےہ فن سوئٹزرلےنڈ پہنچا ۰۷۴۱ءمےں دو جرمنوں نے فرانس کو اس فن شرےف سے متعارف کراےا اور ساربون کے مقام پر مطبع قائم کےا ۱۷۴۱ءمےں ہالےنڈ روشناس ہوا اور انگرےزی مےں اوّلےن مطبوعہ کتاب تارےخ ٹرائے (History of Troy) ۴۷۴۱ءمےں طبع ہوئی اس کا دوسرا اےڈےشن ولےم کاکسٹن پرےس لندن سے شائع ہوا ۔ڈنمارک اور سوےڈن مےں علی الترتےب ۲۸۴۱ءاور ۳۸۴۱ءمےں مطابع وجود مےں آئے ۵۹۴۱ءمےں پرتگال اور ۳۰۵۱ءمےں ےہ فن روس پہنچا۔

امرےکہ مےں فن طباعت ہندوستان کے بعد پہنچا چنانچہ لاطےنی امرےکہ کی پہلی مطبوعہ کتاب(Cathecism on Lengna Jamuguana Castellance)مصنفہ فرانسسکو پارنےجہ ۷۲۶۱ءمےں مےکسےکو مےں طبع ہوئی اور امرےکہ کی پہلی مطبوعہ کتاب(Bay Psalm Book)۰۴۶۱ءمےں طبع ہوکر شائع ہوئی۔
انگلستان مےں ولےم کاکسٹن نے فن طباعت کی بنےاد رکھی ےہ شخص کےنٹ کا باشندہ اور نہاےت عالم فاضل انسان تھا تےن سال ہالےنڈ اور بےلجےم مےں فن طباعت کے علم کے حصول مےں بسر کیے کولون(جرمنی) کے زمانہ ¿ قےام مےں رسوخ پےدا کےا اور بالآخر انگلستان واپس آکر اپنا پرےس جاری کےا اس نے ۳۱ دسمبر۶۷۴۱ءکو اےک مذہبی دستاوےز طبع کی اور آئندہ پندرہ سال کے دوران تقرےباََ اےک سو کتابےں طبع کرکے شائع کےں۔اکثر مطبوعات کا مصنف اور مترجم تھا ۱۹۴۱ءمےں وفات پائی۔
ےورپ کے اکثر ممالک مےں فن طباعت جرمنوں کی وساطت سے پہنچا لےکن ےہ انگلستان ہی کی انفرادےت اور امتےاز ہے کہ جہاں اس کے نو نہال ولےم کاکسٹن نے اپنے ملک مےں اس عظےم الشان فن کی بنےاد ڈالی اس کے علاوہ ےورپ کے ہر اےک ملک مےں لاطےنی زبان سے طباعت کاآغاز ہوا لےکن انگلستان واحد ملک تھا جہاں قومی زبان مےں کتابےں طبع ہوکر شائع ہوئےں مزےدبراں کاکسٹن کے تےار کردہ ٹائپ کے حروف منفرد حےثےت کے مالک تھے ےعنی ان کا انداز گاتھک تھا،نہ کہ رومن۔
انےسوےں صدی کے اوائل مےں سلنڈر مشےن اور بھاپ کی اےجاد نے فن طباعت کی ترقی کی دوسری منزل طے کی ،ہاتھ سے چھاپنے کی مشےن دوسو کاپےاں فی گھنٹہ چھاپتی تھی۔مگر اس کے بعد اےک گھنٹے مےں دوہزار کاپےاں نکلنے لگےں۔

ہندوستان مےں فن طباعت کا آغاز و ارتقا:
۸۹۴۱ءمےں پرتگال کا اےک اولوالعزم واسکوڈی گاما بحر اوقےانوس اور بحر ہند کی لرزہ خےز زہرہ گداز اور جاں گسل فضاو ¿ں اور ہوشرباموجوں سے کھےلتا ہوا ساحل مالابار پہنچا اور اپنی گوناگوں صفات اور کمالات کے وسےلے سے مالا بار کے راجہ کے دربار تک رسائی حاصل کی اور مقرب بار گاہ سلطانی بن کر اعزاز واکرام سے سرفرازہوا ۔ہندوستان مےں اس کی آمد تارےخ مےں اےک نئے باب کا اضافہ تھی چنانچہ مالابار کے راجہ نے الوداع کہتے ہوئے نہ صرف داد ودہش کا بھر پور اظہار کےا بلکہ شاہ پرتگال کو لکھا:
”آپ کے ملک کے اےک شرےف فرد واسکوڈی گاما مےری مملکت مےں واردہوئے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی مےری قلمرو مےں دارچےنی، بونگ سےاہ مرچ اور جواہرات کی بہتات ہے آپ کے ملک سے مجھے سونا، چاندی اور سرخ رنگ درکار ہے۔“۱

واسکوڈی کی مراجعت وطن کے بعد شاہ پرتگال کے اےما اور سر پرستی مےں سفر کے نامساعدحالات کے باوجود اےک طرف پرتگالی تجار کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف مسےحےت کے داعی عےسائےت کی تروےج و اشاعت کے لیے مضطراب گواپہنچ کر مصروف کار ہوگئے چنانچہ ۱۴۵۱ءمےں ان کے دو کالج سےنٹ پال اور رےشول قائم ہوگئے لےکن انھوں نے اسی پر اکتفا نہےں کےا بلکہ شاہ پرتگال جان سوم کے امروتحرےک سے پرتگالی وائسراے جان ڈی کےٹرو مقےم گوانے مضافات مےں ابتدائی مدارس بھی قائم کیے تاکہ ہندوستانی عےسائےوں کی تعلےم و تربےت صحےح نہج پر ہوسکے۔۱

تےن چار سال کی فکر وتدبر سے تعلےم و تربےت کے نظام مےں جو فروغ حاصل ہوا،اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پادری جانس دی بےرانے ۰۲نومبر ۵۴۵۱ءکو پاپائے روم کے نام اےک خط مےں لکھا:
”اس کالج مےں جوپاک عقےدہ کا گھر“کے نام سے موسوم ہے، مختلف اقوام کے ساٹھ نوجوان جو اےک دوسرے سے بالکل جدا نو مختلف زبانوں کے بولنے والے ہےں رہتے ہےں ان مےں سے بےشتر ہماری ہی زبان پڑھتے اور لکھتے ہےں اور ساتھ ہی اپنی زبان بھی پڑھنا اور لکھنا جانتے ہےں ان مےں کچھ لاطےنی اچھی طرح جانتے ہےں اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہےں لےکن استاد اور کتابوں کی کمی کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہےں اٹھا سکتے عےسائی مجموعہ عقائد کو ان تمام زبانوں مےں شائع کےا جاسکتا ہے اگر اعلیٰ اقدس اس کی اجازت دےں“۔
ہندوستان کے علاوہ حبشہ مےں پرتگال مشزےوں کے اےثار وقربانی اور فکر وجہد سے نومسےحوں کا اےک معتدبہ طبقہ وجود مےں آچکا تھا حتیٰ کہ شاہ حبشہ عےسائےت کی دعوت و فروغ مےں پےش پےش تھا،چنانچہ ۶۲۵۱ءمےں شاہ حبشہ نے پرتگال کے سلطان ڈی مونےل سے فرمائش کی کہ”آپ چند اےسے افراد جو کتابےں تےار کرنے مےں مہارت رکھتے ہوں حبشہ روانہ فرمادےں۔لےکن سو ئے اتفاق اس خط کے پہنچنے سے قبل ہی ڈی مونےل کا انتقال ہوگےا اس لےے ےہی درخواست اس کے جانشےن ڈی جاو ¿ سے کی گئی اور شرف ِقبولےت کو پہنچی۔ بالآخر ۹۲ مارچ ۶۵۵۱ءکو مسےحی راہبوں کی اےک جماعت جو چودہ افراد پر مشتمل تھی اور جس کا غالب حصہ حبشہ مےں دعوت وتبلےغ اور تعلےم وتربےت کے لیے مختص تھا جاو ¿ننس براٹواسقف حبشہ کی سرپرستی اور نگرانی مےں اےک چھاپہ خانہ اور چند ماہرےن طباعت (راہب جان دی بسنا مانتے،جاو ¿ گونسا بو مےں اور اےک ہندوستانی ماہر اور رمزشناس فن طباعت)کی معےت مےں حبشہ کے لیے روانہ ہوکر ۶ دسمبر ۶۵۵۱ءکو گوآپہنچی طوےل بحری سفر کے بعد چند ماہ گو ا مےں قےام کا مقصد تھا مگر بعض وجوہ کے باعث مزےد قےام ناگزےر تھا۔

راہبوں کی تازہ دم جماعت اور پرےس کی آمد سے گوا کے کارکنوں کی چمن مےں بہار آگئی اور برسوں کا خواب شرمندہ تعبےر ہوتا نظر آےا چنانچہ گوا پہنچتے ہی طباعت کا کام شروع ہوگےا اور اکتوبر ۷۵۵۱ءمےں فلسفہ اور منطق کے بعض مقالات بھی طبع ہوکر شائع ہوگئے ۔۷۵۵۱ءمےں جاو ¿ دی مانتے نے ہندوستانی ماہر طباعت کی معاونت سے سےنٹ زےوےر(St. Tramics xavier)کی دو ترےناکر سٹا(نصاب الاطفال)طبع کرکے کتب خانے مےں محفوظ کیاہے۔

بچوں کی صحےح تعلےم کی غرض سے زےوےر نے اےک کاٹی کزم (کاٹی کزم آف دی کرسچن ڈاکٹرن ےعنی مسےحی تعلےمات بطول سوال جواب)تےارکی جو گوا مےں ۷۵۵۱ءمےں طبع ہوئی۔۳
بستا مانتے کے رفےق کار اور فن طباعت کے ماہر جان گونسالوس (John Gonsalves)نے تامل زبان کے چوٹی ٹائپ تےار کیے راہب جان ڈی فےرےا John de Feriaنے موصوف سے ےہ فن حاصل کےااور اس کی نوک پلک درست کی بالآخر اول الذکرنے ۸۷۵۱ءکوئلن مےں ہندوستانی زبان کا سب سے پہلا پرےس قائم کےا اور سن مذکور مےں سےنٹ فرانسس زےوےر کی کاٹی کزم آف دی کرےسچن ڈاکٹرن(مسےحی تعلےمات بطور سوال و جواب)کا تامل ترجمہ (کھرےشٹےہ و ناکم)طبع کرکے شائع کےا اس کتاب مےں جان گونسالوس اور جان ڈی فےرےا دونوں کے تےار کردہ ٹائپ استعمال ہوئے چنانچہ پہلی آٹھ سطروں مےں جوٹائپ استعمال کیے گئے وہ ۷۷۵۱ءمےں گوا مےں تےار ہوئے تھے اور جو باقی سطور مےں استعمال ہوئے وہ ۸۷۵۱ءمےں کوئلن مےں تےار کیے گئے تھے لےکن کاٹی کزم کے تامل ترجمے کی طباعت کے بعد ےہ پرےس قلعہ کوچےن مےں منتقل کےا گےا اور ۹۷۵۱ءمےں وہےں سے مارکوس جارج کی ۰۲۱ صفحات پر مشتمل کتاب (۶۶۵۱ءکی مطبوعہ پرتگالی کتاب کا ترجمہ)طبع ہوکر شائع ہوئی مگر اس کے بعد اےسے مواقعات پےش آئے کہ تامل طباعت کا سلسلہ زےادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکا چنانچہ پادری ہوسٹن کا بےان ہے کہ:
”بالآخر تامل چھپائی ۲۱۶۱ءکے بعد بند ہوگئی کےونکہ نوےلی اور مےنول مارٹن کی متعدد تصانےف ۹۴۶۱ءاور ۰۶۸۱ءمےں غےر پڑی رہےں۔۱

۶جنوری ۳۶۶۱ءکو قلعہ کو چےن چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد ڈچوں کے قبضے مےں آےا تو انھوں نے قلعے کی اےنٹ سے اےنٹ بجا دی راہبوں کا زبردست نقصان ہوا اور انھےں خارج البلد کےا گےا بشپ کی قےام گاہ،شاندار کالج، تےرہ گرجے ،دوشفاخانے اور متعدد راہب خانے پےوند خاک ہوگئے۔ ۵۹۷۱ءمےں کوچےن پر انگرےزوں کا تسلّط ہوا تو انھوں نے ۶۰۸۱ءمےں پرتگال دور کے تمام آثار کو بارود سے اڑادےا،بہت سی پبلک عمارتےں اور اےک عظےم الشان کےتھڈرل جو ڈچوں کی دست برد سے بچ گئے تھے اس بارود سے وہ بھی نےست ونابود ہوگئے۔

پُنی کےل:
راہب جان ڈی فےرےا نے ۸۷۵۱ءمےں اےک مطبع اپنی کےل(ضلع ٹناولی) مےں قائم کےا موصوف نے تامل زبان کے حروف خود کاٹے اور پھر ان کو ڈھال کر مذہبی تعلےم کے لئے چھوٹی چھوٹی کتابےں طبع کرکے شائع کےں مزےد برآں تامل زبان کا قاعدہ اور دےگر نصابی کتابےں طبع کےں تاکہ اس علاقے مےں کام کرنے والے مشنری تامل زبان مےں مہارت پےدا کرسکےں۔ےہ بات خصوصےت سے قابل ذکر ہے کہ پنی کےل کے مطبع مےں جو ٹائپ استعمال ہوتا تھا اس کا اےک اےک حروف جماےا جاتا تھا کوچےن کے مطبع کی طرح سالم صفحے کا ٹھپّہ تےار نہےں کےا جاتا تھا۔۱

وپی کوٹہ:
سےنٹ ٹامس کلےسا سے معاہدہ کے کچھ عرصے بعد ۹۷۵۱ءمےں مسےحی راہبوں نے وپی کوٹہ(چنا منگلم)کو اپنا مستقر بناےا ۱۸۵۱ءمےں عبادت خانہ تےار کےا اور ۴۸۵۱ءمےں مدرسہ الہٰےات قائم کےا حتٰی کہ ۷۸۵۱ءمےں اےک کالج وجود مےں آگےا تو انھوں نے پاپائے روم سے استد عا کی باشندگان مالا بار کی مذہبی تعلےم کے لئے مخصوص دےنی کتابےں ارسال کی جائےں موصوف نے کتابوں کے بجائے اےک پرےس اور کلدانی زبان کا ٹائپ بھےج دےا جو ۲۰۶۱ءمےں ہندوستان پہنچا چنانچہ پادری البرٹ لارشی نے اسے وپی کوٹہ مےں قائم کےا جس سے قلےل عرصے مےں کئی مذہبی کتابےں کلدانی زبان مےں طبع ہوکر شائع ہوئےں۔۲

امبلا کاڑ:

امبلا کاڑ عےسائی مشنرےوں کی مصروفےت کا مرکزی مقام تھا جو ترےچورسے بےس مےل کے فاصلے پر واقع تھا انھوں نے ۰۷۶۱ءمےں وہاں اےک مدرسہ الہٰےات قائم کےا جو سےنٹ پال سےمزی کے نام سے مشہور تھا اس کے بعد اےک پرےس بھی جاری کےا جس سے سب سے پہلی کتاب تامل پرتگےزی ڈکشنری ۹۷۶۱ءمےں طبع ہوکر منظر عام پر آئی اس کے لئے اےک مالا باری مسےحی نے تامل زبان کے ٹھپّے تےار کیے تھے ۔ڈکشنری کی طباعت کے بعد اور بہت سی کتابےں طبع ہوکر شائع ہوئےں ابتدا مےں تامل حروف کے لیے جو ٹھپّے تےار کیے جاتے تھے اور ےورپی زبانوں کے لئے سےسے کے حروف ڈھالے جاتے تھے لےکن کچھ عرصے کے بعد تامل حروف بھی ڈھال لیے گئے چنانچہ ۰۰۷۱ءکے بعد متعدد تامل کتابےں سےسے کے حروف سے طبع ہوئےں۔
ابتداََ جو مشنری ہندوستان وارد ہوئے مذہبی جوش سے سرشار اور فروغ مسےحےت کے زبردست داعی تھے چنانچہ اپنے مذہب کی تروےج و اشاعت کے پےش نظر مقامی السنہ کے حصول مےں پےش پےش تھے اور انھوں نے اسی پر اکتفا نہےں کےا بلکہ نصابی کتابےں اور لغات بھی تےار کیے بعد مےں ہندوستانی اموال کی فراوانی نے غےر مخلصےن کو بھی دعوت وتبلےغ سے وابستہ کردےا اور جوق درجوق ہندوستان پہنچنے لگے چنانچہ ۶۰۶۱ءمےں صوبہ جاتی کونسل نے حکم جاری کےا کہ:
”کسی پادری کوحلقہ ¿ کلےسا کا منتظم مقرر نہ کےا جائے تا و قتےکہ وہ مقامی زبان نہ سےکھ لے اور حلقہ کلےسا کے جو پادری مقامی زبان سے ناواقف ہےں اگر چھ ماہ کے اندر مقامی زبان کا امتحان پاس نہےں کرےں گے تواپنے موجودہ منصب سے دست بردار ہوجائےں گے۔۲

مذکورہ بالا قوانےن بھی ہوس زر کے شتربے مہار کو گرفتار نہ کر سکے اور دےن مسےحی کے داعی اپنے فرائض منصبی سے بے نےاز افزائش اموال کی فکر سے سرشار داد عےش دےنے لگے چنانچہ فرانسےسی سےاّح اےبے کارلے ۲۷۶۱ءمےں گوآپہنچا تو وہاں کے مذہبی ،معاشرتی اور معاشی احوال کا مشاہدہ کرکے بےحد مترد د ہوا اور لکھا:
”اگر تم مال و دولت کے متمنی ہوتو پرتگالی خانقاہوں مےں جانا چاہےے۔وہاں تم دلّال ،تجار اور دوسرے مقامی لوگوں کو دےکھو گے جو صرف پرتگالی پادرےوں سے تجارت کرتے ہےں غرض کہ اس قوم کی کل تجارت ان کے ہاتھ مےں ہے“۔۱
رفتہ رفتہ عےش وعشرت اور حصول زر کی ہوس نے دعوت کے اس آتش کدے کو سرد کردےا جس کی حرارت سے طلب دنےا اور حب جاہ کے عناصر جل کر خاکستر ہوجاتے تھے اور ان کی فکر و نظر کاسارا سرماےہ اس تدبےر پر صرف ہوا کہ مقامی السنہ کے جوئے کو کس طرح گردن سے اتار پھےنکا جائے اوربالآخر اس مشن مےں کامےاب ہوگئے چنانچہ ۴۸۶۱ءمےں اےک حکم نامہ جاری ہوا جس کی رو سے ”۳سال کے اندر باشندگانِ گو آکو دےسی زبان ترک کرکے پرتگالی کا اختےار کرنا لازم تھا“۔انجام کار عےسائےت کی تروےج و اشاعت کے ذےل مےں السنہ ¿ ہند کے رسائل اور کتب کی اشاعت کے فقدان کے ساتھ ساتھ فن طباعت بھی معرض خطر مےں آگےا چنانچہ اس کے بعد۱۲۸۱ءتک گوا مےں پرےس کا سراغ نہےں ملتا۔اس پر مستزادےہ تحرےک صرف گوا تک محدود نہےں تھی بلکہ سارے ہی تبلےغی مراکز اس کا شکار تھے۔
اس کے شانہ بہ شانہ سےاسی اقتدار کے رسےا کلےسا کو اپنا حرےف سمجھ کر سرپےکار تھے وہ عےسائےت کی دعوت تبلےغ کو سےاسی مصَالح کے پےش نظر مضر سمجھتے تھے چنانچہ ۴۵۷۱ءمےں حکومت پرتگال کی طرف سے وائسرائے مقےم گو اکو متنبہ کےا گےا کہ وہ ہندوستان مےں طبع کے قےام کی درخواست کو مسترد کردے بلا امتےاز اس کے کہ وہ درخواست کسی عےسائی خانقاہ ےا کالج سے ہوےا کسی بارسوخ فرقے کی جانب سے۔۳

۶۱ستمبر ۱۲۸۱ءکو وائسرائے گوا معزول کردےا گےا چنانچہ جابرا نہ حکومت کے علی الرغم حرےت پسند عناصر بر سراقتدار آگئے اس وقت حکومت بمبئی سے اےک پرےس گوا لانے مےں پےش قدمی کی اور اےک ہفتہ وار اخبار بنام”گرےٹ دی گوا“جاری کےا لےکن پانچ سال کے بعد پھر انقلاب آےا اور ۹۱ اگست ۶۲۸۱ءکو ےہ اخبار بند ہوگےا اس کے بعد ۳۱ جون۵۳۸۱ءکو”کرونستا کانستی ٹےوشنال دی گوا“کے نام سے دوسرا اخبار جاری ہوا لےکن ۰۳ نومبر ۷۳۸۱ءکو ےہ بھی بند ہوگےا تےسرا اخبار ۷ دسمبر ۷۳۸۱ءکو جاری ہوا۔
دےونا گری مےں طباعت کا آغاز ۳۵۸۱ءمےں ہوا جب کہ حکومت نے دےوناگری ٹائپ بمبئی سے خرےدے تاکہ ان کو اشتہارات اور دسرے اعلانات کی طباعت کے لیے استعمال کرے چنانچہ سب سے پہلا اعلان ۳۲ مئی ۳۵۸۱ءکو طبع ہوکر شائع ہوا۔۱

ٹراونکور (مدراس):
ہندوستان مےں کےتھولک مشنری تو برسرکار اور منہمک تھے مگر پروٹسٹنٹ مشنرےوں نے ۶۰۷۱ءمےں ہندوستان پہنچ کر دعوت و تبلےغ کا آغاز کےا فرےڈرک چہارم (شاہ ڈنمارک)، مقرب اور مخصوص پادری لٹکنس نے اسی غرض سے شاہ تبخور سے اےک قطعہ زمےن خرےدا اور زےگنبالگ اور ہنری پلتشو کا اس مہم کے لئے انتخاب کےا چنانچہ دونوں ۶۰۷۱ ءمےں ہندوستان وارد ہوئے ،اس وقت پرتگال نسل کے بہت سے افراد نے جنوبی ہند مےں سکونت اختےار کرلی تھی اور اس علاقے مےں پرتگالی زبان عام طور سے بولی جاتی تھی اس لیے انھوں نے دورانِ سفر پرتگالی مےں استعدادپےدا کی اور اےک ہندوستانی پنڈت کی خدمات حاصل کےں جو پرتگالی جانتا تھا۔
آغاز کار مےں عےسائی مشنرےوں کو دوکام درپےش تھے۔اےک تو اپنے مذہب کے اصولوں کی اشاعت وتروےج دوسرے مقامی باشندوں کو اپنے آبائی ادےان سے متنفر اور برگشتہ کرنا، چنانچہ زےگنبالگ نے اپنی کامل توجہ ہندوستانی مخلوطات جمع کرنے مےں صرف کی تاکہ ان کے عمےق مطالعے سے روآسان تر ہوجائے لےکن پرےس کے بغےر ےہ کام آسان نہ تھا اس لیے موصوف نے صد ردفتر سے اےک پرتگالی اور مالاباری ٹائپ کے مطبع کی درخواست کی:
ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمےں اےک مالاباری اور پرتگالی مطبع فراہم کےا جائے تاکہ ہم اےسی کتب جو ہمارے کام کے لئے ناگزےر ہےں ان نقل کے خرچ مےں بچت کرسکےں(چونکہ اس علاقے مےں فن طباعت ےکسر غائب تھا اس لیے طباعت کی جگہ نقل نوےسی نے لے لی تھی)۔مےں نے اب تک مالا باری کاتب اپنے مستقر پر لگا رکھے ہےں لےکن موجودہ حالات کے پےش نظر کچھ عرصے کے بعد وہ اےک بڑی مدخرچ ہوں گے۔ بے شک وہ کتابےں جو ہمےں مالاباری کا فروں سے دستےاب ہوئی ہےں ان کو تمام تر نقل کرانا ضروری ہے اس کے علاوہ جو کتابےں ہمارے مذہب کی اساس ہےں اور جنھےں کافروں مےں تقسےم کرنا ضروری ہے حتماََاحتےاط کے ساتھ طبع کرانا ناگزےر ہے۔۱
ڈنمارک کی مشنرےوں کی آمد سے بےس سال قبل انگلستان مےں انجمن برائے ترقی علوم مسےح(سوسائٹی فارپروموٹنگ کرسچےن کالج)قائم ہوچکی تھی ڈنمارک کے شہزادے جارج کے جرمن پادری اے۔ڈبلو۔بوھمی نے مذکورہ درخواست کا ترجمہ انجمن مذکورکو ارسال کےا بالآخر ۱۱۷۱ءمےں انجمن کے ارباب حل وعقدنے پرتگالی زبان مےں انجےل کے کچھ نسخے،اےک مطبع جو پائےکاٹائپ (درس پوائنٹ)تھا مطبع اور دےگر لوازمات کے ہندوستان بھےجنے کا انتظام کےا لےکن اس جہاز کو برازےل کے قرےب فرانسےسےوں نے روک لےا اور طابع جونس فنک کو گرفتار کر لےا چنانچہ دوسرے سال پرےس بغےر طابع ہندوستان پہنچا۔
پرےس اور متعلقہ سامان رےگنبالگ اور اس کے رفقائے کار کے لئے نعمت غےر مترقبہ سے کم نہ تھا چنانچہ انھوں نے پرےس کے آتے ہی تمام انتظامات درست کرکے طباعت کا کام شروع کردےا حسن اتفاق انھےں اےک جرمن ماہر فن ہاتھ آگےا جو پرےس مےن اور کمپوزےٹر کی حےثےت سے امتےاز رکھتا تھا۔
ابتدا مےں طباعت کا کام پرتگالی تک محدود تھا چنانچہ ۳۱۷۱ءکے اواخر مےںپرتگالی طباعت کے نمونے منظر عام پر آگئے اور پہلی کتاب(اےکس پلے نےشن آف کرسچےن ڈاکٹر ائن آف دی مےتھڈ آف کےچسزم)طبع ہوئی۔اس کے بعد مالاباری ڈھالا خانہ بھی قائم ہوگےا اور ۴۱۷۱ءمےں اےک کاغذسازی کا کارخانہ بھی وجود مےںآگےا۔

اگرچہ ڈنمارکی مشنرےوں نے مراٹھی زبان کی طباعت مےں براہ راست کوئی حصہ نہےں لےا لےکن اےک ڈنمارکی مشنری فرےڈرک شوراٹز،سرفوجی بھونسلے شاہ تبخور۔۹۹۷۱ئ۔ ۳۸۸۱ءکا سرپرست ،اتالےق اور رہنما بن گےا اس نے اس روشن خےال سردار کو تبخور مےں طبع قائم کرنے پر آمادہ کےا جس مےں کچھ سنسکرت اور مراٹھی کی کتابےں طبع ہوئےں سرسوتی محل مےں حسب ذےل دو کتابےں اب تک محفوظ ہےں:
ےدھ کانڈ ۹۰۸۱ئ
سسوپلوادھا ۲۱۸۱ئ
اس مطبع مےں جو دےوناگری ٹائپ مستعمل تھے وہ چارلس ولکنس نے ڈھالے تھے۔
بمبئی:
بمبئی مےں فن طباعت کے پےش رو بھےم جی پارےکھ ہےں جنھوں نے اولاََ۶جنوری ۰۷۶۱ءکو اےسٹ انڈےا کمپنی سے اےک پرےس اور اےک طابع کی فرمائش کی کمپنی نے پذےرائی کی اور وہ ۵۷۶۱ءمےں اےک ماہر طابع ہنری ہلس کے ہمراہ اےک پرےس،ٹائپ،کاغذ اور دوسرے لوازمات ہندوستان روانہ کیے مگر ہلس بنےان رسم الخط(Vanra shalir lipi)کے ٹائپ تےار کرنے سے قاصر رہا مجبوراََبھےم جی نے اےک قالب گر (Founder)کی درخواست کی جو شرف قبولےت کو پہنچی اور ۸۷۶۱ءمےں اےک قالب گر ہندوستان پہنچ گےا لےکن بھےم نے قالب گر کے انتظار مےں اوقات ضائع نہےں کیے بلکہ اپنی ذاتی ملازمےن کی مدد سے بنےان رسم خط مےں حروف تےار کیے اور طباعت مےں پےش قدمی کی چنانچہ ۳۲ جنوری ۶۷۶۱ءکے سرکاری خط مےں مذکورہے کہ ”ہم نے بنےان حروف مےں کچھ مطبوعہ کاغذات دےکھے جن کو بھےم جی کے ملازموں نے تےار کےا ہے جو صاف اور خوبصورت ہےں اور ےہ بتاتے ہےں کہ ےہ کام قابل عمل ہے۔

بھےم جی کے نادر اقدام کے بعد اےک صدی تک کامل سکوت رہا اور ملکی ےا غےر ملکی کسی نے اس عجےب و غرےب فن کی طرف التفات نہےں کےا البتہ ۷۷۷۱ءمےں رستم جی کےشاپتی نے اپنا ذاتی مطبع جاری کےا جس مےں انگرےزی کے علاوہ اردو،گجراتی، مراٹھی،کنڑی اور پرتگےزی زبان مےں طباعت ہوتی تھی اخبار بمبئی کورےر کا اجرا ہوا تو ابتدا”اسی مطبع سے حلےہ ¿ طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوتا تھا اس کے بعد ۰۸۷۱ءمےں رستم جی کارے ساجی کے مطبع کا سراغ ملتا ہے جس کے بارے مےں مدےر بمبئی ٹائمز کا بےان ہے کہ:
”اےک دےسی دوست نے ہم کو کچھ اخبارات کے اصل نسخے بھےجے ہےں جوبمبئی کی ابتدائی تارےخ کی عکاسی کرتے ہےں حالانکہ ےہ زےادہ اہم تو نہےںلےکن اس قابل ضرور معلوم ہوتے ہےں کہ ان کو محفوظ رکھا جائے۔ان مےں پہلا کلنڈر برائے سال خداوند (عےسیٰ مسےح)۰۸۷۱ءمطبوعہ بازاررستم کارے ساجی ،قےمت دو روپئے ہے۔ےہ ۴۳ صفحات پر پھےلی چھپائی پر مشتمل ہے۔ےہ مضبوط سرکاری وزےری (فل اسکےپ)کاغذ پر چھپاہے جو اپنے واٹر مارک اور انھےں تارےخوں کے منسلکہ سرکاری خطوط سے پہچانا جاتا ہے۔۱
ڈبلو۔اےس۔کوپر نے ۵۲جون ۰۹۷۱ءکو بمبئی گزٹ جاری کےا ۔۲ ےہ ہفتہ وار اخبار تھا اور چالےس روپئے سالانہ قےمت مقرر تھی۔اس مےں بمبئی کی تجارتی اور تفرےحی خبروں کے علاوہ ڈچ اور پرتگالی نوآبادےات کی خبرےں بھی درج ہوتی تھےں ۔اس کے علاوہ خلےج فارس،جزےرہ آرتوز اور مالابار کے ساحلی علاقوں سے لے کر کےپ کےمرون تک دےسی شہروں کی خبرےں بھی شائع کی جاتی تھےں اگرچہ اخبار کمپنی کا مطےع ومنقاداور وفادار تھا مگر اےک مرتبہ پولےس پر نکتہ چےنی کے باعث معرضِ خطرمےں آےا اور سنسر کا شکار ہوگےا۔
بمبئی گزٹ کے بعد دوسرا اخبار بمبئی ہےرلڈ کے نام سے ۳۱جولائی ۰۹۷۱ءکو جاری ہوا ۳ اور تےسرا بمبئی کورےر(Bombay Courier)کے نام سے منصہ شہود پرآےا اس کے مالک ڈگلس نکلسن(Dougles Nichalson)اور مدےر لک آش برنر (Luke Ash Burner)تھے اس کے بعد ۱۹۷۱ءمےں بمبئی آبزرور کے نام سے اےک اور ہفتہ وار اخبار جاری ہوا:

”بمبئی کی اولےن مطبوعہ کتاب جو ہےرس انسٹی ٹےوٹ آف ہسٹری اےنڈ کلچر بمبئی مےں محفوظ ہے ۳۹۷۱ءمےں حسب ذےل عنوان سے طبع ہوکر شائع ہوئی:
Remarks and occurance of Henry Baker during his imprisonment of two years and a help in the domains of Tipu Sultan fromwhere he made his escape.
”مسٹر ہنری بےکر کے واقعات کا بےان جو انھےں ٹےپوسلطان کی حکومت مےں ڈھائی سال کی قےد اور فرار کے دوران پےش آئے“
اس کتاب کے مقدمہ مےں خصوصےت سے اس امرکی وضاحت کی گئی ہے کہ ےہ بمبئی سے طبع ہونے والی سب سے پہلی کتاب ہے۔

آغاز کار مےں بمبئی کورےر رستم جی کےشاپتی کے مطبع مےں طبع ہوکر شائع ہوتا تھا لےکن جب حالات نے مساعدت کی تو جی جی بھائی بہرام جی نگرانی مےں ذاتی مطبع جاری کےا کورےر پرےس اپنے حسن انتظام اور صحت طباعت کے باعث ہم عصر مطابع پر فوقےت رکھتا تھا اس لئے کئی سال تک سرکاری کاغذات اور اشتہارات کی طباعت پر اس کا تصرف اور اجارہ رہا۔انجام کار جلد ہی مراٹھی اور گجراتی حروف کے ٹائپ کی ضرورت محسوس ہوئی تو جی جی بھائی بہرام جی نے گجراتی ٹائپ تےار کرلےا اور گجراتی حروف مےں پہلا اشتہار بمبئی کورےر مورخہ ۹۲ جنوری ۷۹۷۱ءکے شمارے مےں طبع ہوکر شائع ہوا اور پہلی گجراتی کتاب (ترجمہ:ژند اوستا)اسی مطبع سے چھپ کر منظر عام پرآئی۔

کلکتہ:
بنگال مےں اےسٹ انڈےا کمپنی کے سےاسی اقتدار نے فرنگےوں کو مقامی زبان کی تحصےل کی طرف متوجہ کےا ،انہوں نے نہ صرف مقامی زبانوں کے حصول پر کامل توجہ صرف کی بلکہ اس کے قواعد اور لغات بھی مرتب کیے اور طباعت و اشاعت کا بھی مناسب انتظام کےا چنانچہ بنگالی زبان اور بنگالی رسم الخط کی سب سے پہلی کتاب”بنگالی زبان کے قواعد“سولفہ نےتھےنل براسے ہال ہےڈ ۸۷۷۱ءمےں ہگلی سے طبع ہوکر شائع ہوئی۔
مذکورہ قواعد کے بعد جےمس اگسٹس ہکّی نے جنوری ۰۸۷۱ءمےں اپنا ذاتی مطبع قائم کےا اور اسی مطبع سے ہکےنز بنگال گزٹ ےا کلکتہ جنرل اےڈورٹاےزر کے نام سے ۹۲جنوری ۰۸۷۱ءکو ہفتہ وار اخبار جاری کےا۔ہکّی کے پے درپے حملوں سے مجبور ہوکر حزب مخالف نے اےک پرےس کی بنےاد ڈالی اور نومبر ۰۸۷۱ءمےں انڈےا گزٹ کے نام سے اےک ہفتہ وار اخبار جاری کےا ۴ مارچ ۴۸۷۱ءکو بنگال گزٹ منصہ شہود پرآےا ےہ بھی صاحب مطبع تھا اور اس کے مالک ومدےرفرانسس گلےڈون فارسی کے مستند عالم تھے اس کے بعد تو دےکھتے ہی دےکھتے بنگال طباعت کا بڑا مرکز بن گےا اور اٹھاروےں صدی کے اواخر تک ےکے بعد دےگرے متعدد مطابع جاری ہوئے اور ان سے متعدد اخبارات اور رسائل کا اجرا بھی ہوا۔
۱۔اےشےا ٹک مسےلےنی اےنڈ بنگال رجسٹر ۵۸۷۱ء(سہ ماہی رسالہ)۔۲۔بنگال جرنل فروری ۵۸۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔۳۔اورےنٹل مےگزےن اپرےل۵۸۷۱ء(ماہانہ رسالہ)۔ ۴۔اےشےاٹک رےسرچ ۸۸۷۱ء(رسالہ)۔۵۔بنگال ہرکارو ۵۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔ ۶۔اےشےاٹک مرر ۹۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔۷۔مارننگ پوسٹ ۹۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔ ۸۔ٹےلی گراف ۰۹۷۱ئ(ہفتہ وار اخبار)۔۹۔اورےنٹل اسٹار ۹۹۷۱ئ(ہفتہ وار اخبار)۔
مدراس:
مدراس مےں فن طباعت کاآغاز اےک سےاسی حادثے سے منسلک ہے،کےوں کہ جب ۱۶۷۱ءمےں سرابرکورٹ نے فرانسےسےوں سے پانڈےچےری فتح کےا تو مال غنےمت مےں اےک پرےس اور ٹائپ بھی ہاتھ آئے لےکن فورٹ سےنٹ جارج کے متوسلےن مےں سے اےک فرد بھی اس فن سے واقف نہےں تھا اس لیے سارا سازو سامان مشہور تامل عالم فےبرےسس مقےم وپےری کواس شرط پر حوالے کےا گےا کہ اگر مسقبل مےں کسی وقت کمپنی کو کچھ طبع کرانا ہوگا تو موصوف ےہ کام انجام دےں گے فےبرےسس نے اسی مطبع سے اولاََاےک دعا کی کتاب شائع کی اس کے بعد ۲۸۷۱ءمےں تامل انگرےزی اور انگرےزی تامل لغات شائع کیے۔

Asli Jan

Articles

اصلی جن

سعادت حسن منٹو

لکھنؤ کے پہلے دنوں کی یاد نواب نوازش علی اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کی اکلوتی لڑکی کی عمر زیادہ سے زیادہ آٹھ برس تھی۔ اکہرے جسم کی ، بڑی دُبلی پتلی ، نازک ، پتلے پتلے نقشوں والی۔ گڑیا سی۔ نام اس کا فرخندہ تھا۔

اُس کو اپنے والد کی موت کا دُکھ ہوا۔ مگر عمر ایسی تھی کہ بہت جلد بھول گئی۔ لیکن اُس کو اپنے دُکھ کا شدید احساس اُس وقت ہوا جب اُس کو میٹھا برس لگا اور اُس کی ماں نے اُس کا باہر آنا جانا قطعی طور پر بند کر دیا اور اس پر کڑے پردے کی پابندی عائد کر دی۔ اس کو اب ہر وقت گھر کی چار دیواری میں رہنا پڑتا۔ اُس کا کوئی بھائی تھا نہ بہن۔ اکثر تنہائی میں روتی اور خدا سے یہ گلہ کرتی کہ اُس نے بھائی سے اسے کیوں محروم رکھا اور پھر اس کا ابا میاں اُس سے کیوں چھین لیا۔

ماں سے اُس کو محبت تھی ٗ مگر ہر وقت اُس کے پاس بیٹھی وہ کوئی تسکین محسوس نہیں کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کوئی اور ہو جس کے وجود سے اُس کی زندگی کی یک آہنگی دُور ہو سکے۔

وہ ہر وقت اُکتائی اُکتائی سی رہتی۔ اب اُس کو اٹھارواں برس لگ رہا تھا۔ سالگرہ میں دس بارہ روز باقی تھے کہ پڑوس کا مکان جو کچھ دیر سے خالی پڑا تھا پنجابیوں کے ایک خاندان نے کرائے پر اُٹھا لیا۔ اُن کے آٹھ لڑکے تھے اور ایک لڑکی۔ آٹھ لڑکوں میں سے دو بیا ہے جا چکے تھے۔ باقی اسکول اور کالج میں پڑھتے تھے۔ لڑکی ان چھیوں سے ایک برس بڑی تھی۔ بڑی تنومند ٗ ہٹی کٹی ٗ اپنی عمر سے دو اڑھائی برس زیادہ ہی دکھائی دیتی تھی۔ انٹرنس پاس کر چکی تھی اُس کے بعد اس کے والدین نے یہ مناسب نہ سمجھا تھا کہ اسے مزید تعلیم دی جائے۔ معلوم نہیں کیوں؟

اُس لڑکی کا نام نسیمہ تھا۔ لیکن اپنے نام کی رعایت سے وہ نرم و نازک اور سست رفتار نہیں تھی۔ اُس میں بلا کی پھرتی اور گرمی تھی فرخندہ کو اُس مہین مہین مونچھوں والی لڑکی نے کوٹھے پر سے دیکھا، جب کہ وہ بے حد اُکتا کر کوئی ناول پڑھنے کی کوشش کرنا چاہتی تھی۔

دونوں کوٹھے ساتھ ساتھ تھے چنانچہ چند جملوں ہی میں دونوں متعارف ہوگئیں۔

فرخندہ کو اُس کی شکل و صورت پہلی نظر میں قطعاً پر کشش معلوم نہ ہوئی لیکن جب اُس سے تھوڑی دیر گفتگو ہوئی تو اُسے اس کا ہر خدو خال پسند آیا۔ موٹے موٹے نقشوں والی تھی، جیسے کوئی جوان لڑکا ہے۔ جس کی مسیں بھیگ رہی ہیں۔ بڑی صحت مند بھرے بھرے ہاتھ پاؤں۔ کشادہ سینہ مگر اُبھاروں سے بہت حد تک خالی۔ فرخندہ کو اُس کے بالائی لب پر مہین مہین بالوں کا غبار خاص طور پر بہت پسند آیا۔ چنانچہ ان میں فوراً دوستی ہوگئی۔

نسیمہ نے اس کے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو پوچھا ’’ یہ ناول کیسا ہے ؟‘‘

فرخندہ نے کہا ’’ بڑا ذلیل قسم کا ہے ایسے ہی مل گیا تھا۔ میں تنہائی سے گھبرا گئی تھی۔ سوچا کہ چند صفحے پڑھ لُوں۔‘‘

نسیمہ نے یہ ناول فرخندہ سے لیا واقعی بڑا گھٹیا سا تھا۔ مگر اس نے رات کو بہت دیر جاگ کر پڑھا۔ صبح نوکر کے ہاتھ فرخندہ کو واپس بھیج دیا۔ وہ ابھی تک تنہائی محسوس کر رہی تھی اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے اس نے سوچا کہ چلو چند اوراق دیکھ لوں۔ کتاب کھولی تو اس میں سے ایک رقعہ نکلا جو اس کے نام تھا۔ یہ نسیمہ کا لکھا ہوا تھا۔

اسے پڑھتے ہوئے فرخندہ کے تن بدن میں کپکپیاں دوڑتی رہیں۔ فوراً کوٹھے پر گئی۔ نسیمہ نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ اسے بُلانا چاہے تو اینٹ جو منڈیر سے اکھڑی ہوئی تھی زور زور سے کسی اور اینٹ کے ساتھ بجا دیا کرے۔ وہ فوراً آ جائے گی۔

فرخندہ نے اینٹ بجائی تو نسیمہ سچ مچ ایک منٹ میں کوٹھے پر آگئی۔ شاید وہ اپنے رقعے کے جواب کا انتظار کررہی تھی آتے ہی وہ چار ساڑھے چار فٹ کی کی منڈیر پر مردانہ انداز میں چڑھی اور دوسری طرف کود کر فرخندہ سے لپٹ گئی اور چٹ سے اس کے ہونٹوں کا طول بوسہ لے لیا۔

فرخندہ بہت خوش ہوئی۔ دیر تک دونوں گل مل کے باتیں کرتی رہیں۔ نسیمہ اب اُسے اور زیادہ خوبصورت دکھائی دی۔ اس کی ہر ادا جو مردانہ طرز کی تھی اسے بے حد پسند آئی اور وہیں فیصلہ ہوگیا کہ وہ تادم آخر سہیلیاں بنی رہیں گی۔

سالگرہ کا دن آیا تو فرخندہ نے اپنی ماں سے اجازت طلب کی کہ وہ اپنی ہمسائی کو جو اس کی سہیلی بن چکی ہے بُلا سکتی ہے اس نے اپنے ٹھیٹ لکھنوی انداز میں کہا ’’ کوئی مضائقہ نہیں ‘‘ بلا لو لیکن وہ مجھے پسند نہیں۔ میں نے دیکھا ہے لونڈوں کی طرح کد کڑے لگاتی رہتی ہے۔ ‘‘

فرخندہ نے وکالت کی ’’ نہیں امی جان وہ تو بہت اچھی ہے۔ جب ملتی ہے بڑے اخلاق سے پیش آتی ہے‘‘

نواب صاحب کی بیگم نے کہا ’’ ہوگا ، مگر بھئی مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لڑکیوں کی کوئی نزاکت نہیں۔ لیکن تم اصرار کرتی ہو تو بلا لو۔ لیکن اس سے زیادہ ربط نہیں ہونا چاہیے۔

فرخندہ اپنی ماں کے پاس تخت پر بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھ سے سروتالے کر چھالیا کاٹنے لگی۔ ’’ لیکن امی جان ہم دونوں تو قسم کھا چکی ہیں کہ ساری عمر سہیلیاں رہیں گی انسان کو اپنے وعدے سے کبھی پھرنا نہیں چاہیے‘‘

بیگم صاحبہ اصول کی پکی تھیں اس لیے انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں ’’ تم جانو مجھے کچھ معلوم نہیں ‘‘

سالگرہ کے دن نسیمہ آئی۔ اس کی قمیص دھاری دار پوپلین کی تھی۔ چست پائجامہ جس میں سے اس کی مضبوط پنڈلیاں اپنی تمام مضبوطی دکھا رہی تھیں۔ فرخندہ کو وہ اس لباس میں بہت پیاری لگی۔ چنانچہ اس نے اپنی تمام نسوانی نزاکتوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور اس سے چند ناز نخرے بھی کیے۔ مثال کے طور پر جب میز پر چائے آئی تو اُس نے خود بنا کر نسیمہ کو پیش کی۔ اُس نے کہا ’’ میں نہیں پیتی ، تو فرخندہ رونے لگی۔ بسکٹ اپنے دانتوں سے توڑا تو اُس کو مجبور کیا کہ وہ اس کا بقایا حصہ کھائے۔ سموسہ منہ میں رکھا تو اس سے کہا کہ وہ آدھا اس کے منہ کے ساتھ منہ لگا کر کھائے۔

ایک آدھ مرتبہ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی ، مگر فرخندہ خوش تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ نسیمہ ہر روز آئے۔ وہ اس سے چہل کرے اور ایسی نرم و نازک لڑائیاں ہوتی رہیں جن سے اس کی ٹھہرے پانی ایسی زندگی میں چند لہریں پیدا ہوتی رہیں۔ لہریں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔

اور ان میں فرخندہ اور نسیمہ دونوں لہرانے لگیں۔ اب فرخندہ نے بھی اپنی امی سے اجازت لے کر نسیمہ کے گھر جانا شروع کر دیا۔ دونوں اُس کمرے میں جو نسیمہ کا تھا دروازے بند کر کے گھنٹوں بیٹھی رہتیں۔ جانے کیا باتیں کرتی تھیں؟

اُن کی محبت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ فرخندہ جب کوئی چیز خریدتی تو نسیمہ کا ضرور خیال رکھتی۔ اس کی اُمی اس کے خلاف تھی۔ چونکہ اکلوتی تھی اس لیے وہ اسے رنجیدہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دولت کافی تھی اس لیے کیا فرق پڑتا تھا کہ ایک کے بجائے دو قمیصوں کے لیے کپڑا خرید لیا جائے۔ فرخندہ کی دس شلواروں کے لیے سفید ساٹن لی تو نسیمہ کے لیے پانچ شلواروں کے لیے لٹھا لے لیا جائے۔

نسیمہ کو ریشمی ملبوس پسند نہیں تھے۔ اُس کو سوتی کپڑے پہننے کی عادت تھی۔ وہ فرخندہ سے یہ تمام چیزیں لیتی مگر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتی۔ صرف مسکرا دیتی اور یہ تحفے تحائف وصول کر کے فرخندہ کو اپنی بانھوں کی مضبوط گرفت میں بھینچ لیتی اور اس سے کہتی ’’ میرے ماں باپ غریب ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو میں تمہارے خوبصورت بالوں میں ہر روز اپنے ہاتھوں سے سونے کی کنگھی کرتی۔ تمہاری سینڈلیں چاندی کی ہوتیں۔ تمہارے غسل کے لیے معطر پانی ہوتا۔ تمہاری بانھوں میں میری بانھیں ہوتیں اور ہم جنت کی تمام منزلیں طے کر کے دوزخ کے دہانے تک پہنچ جاتے۔ ‘‘

معلوم نہیں وہ جنت سے جہنم تک کیوں پہنچنا چاہتی تھی۔ وہ جب بھی فردوس کا ذکر کرتی تو دوزخ کا ذکر ضرور آتا۔ فرخندہ کو شروع شروع میں تھوڑی سی حیرت اس کے متعلق ضرور ہوئی مگر بعد میں جب وہ نسیمہ سے گھل مل گئی تو اس نے محسوس کیا کہ ان دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ سردی سے نکل اگر آدمی گرمی میں جائے تو اُسے ہر لحاظ سے راحت ملتی ہے اور فرخندہ کو یہ حاصل ہوتی تھی۔ ان کی دوستی دن بدن زیادہ استوار ہوتی گئی بلکہ یوں کہیے کہ بڑی شدت اختیار کر گئی جو نواب نوازش علی مرحوم کی بیگم کو بہت کھلتی تھی۔ بعض اوقات وہ یہ محسوس کرتی کہ نسیمہ اس کی موت ہے۔ لیکن یہ احساس اس کو باوقار معلوم نہ ہوتا۔

فرخندہ اب زیادہ تر نسیمہ ہی کے پاس رہتی۔ صبح اٹھ کر کوٹھے پر جاتی۔ نسیمہ اُسے اُٹھا کر منڈیر کے اُس طرف لے جاتی اور دونوں کمرے میں بند گھنٹوں جانے کن باتوں میں مشغول رہتیں۔

فرخندہ کی دو سہیلیاں اور بھی تھیں ٗ بڑی مردار قسم کی۔ یو پی کی رہنے والی تھیں۔ جسم چھیچھڑا سا۔ دو پلی ٹوپیاں سی معلوم ہوتی تھیں۔ پھونک مارو تو اُڑ جائیں۔

نسیمہ سے تعارف ہونے سے پہلے یہ دونوں اُس کی جان و جگر تھیں مگر اب فرخندہ کو ان سے کوئی لگاؤ نہیں رہا تھا۔ بلکہ چاہتی تھی کہ وہ نہ آیا کریں اس لیے کہ ان میں کوئی جان نہیں تھی۔ نسیمہ کے مقابلے میں وہ ننھی ننھی چوہیاں تھیں جو کُترنا بھی نہیں جانتیں۔

ایک بار اُسے مجبوراً اپنی ماں کے ساتھ کراچی جانا پڑا وہ بھی فوری طور پر نسیمہ گھر میں موجود نہیں تھی اُس کا فرخندہ کو بہت افسوس ہوا۔ چنانچہ کراچی پہنچتے ہی اس نے اُس کو ایک طویل معذرت نامہ لکھا۔ اُس سے پہلے وہ تار بھیج چکی تھی۔ اس نے خط میں سارے حالات درج کر دئیے اور لکھا کہ تمہارے بغیر میری زندگی یہاں بے کیف ہے۔ کاش تم بھی میرے ساتھ آتیں۔

اس کی والدہ کو کراچی میں بہت کام تھے۔ مگر اُس نے اُسے کچھ بھی نہ کرنے دیا۔ دن میں کم از کم سو مرتبہ کہتی ’’ میں اُداس ہوگئی ہوں۔ یہ بھی کوئی شہروں میں شہر ہے۔ یہاں کا پانی پی کر میرا ہاضمہ خراب ہوگیا ہے اپنا کام جلدی ختم کیجیے اور چلیے لاہور‘‘

نواب نوازش علی کی بیگم نے سارے کام ادھورے چھوڑے اور واپس چلنے پر رضا مند ہوگئی۔ مگر اب فرخندہ نے کہا ’’ جانا ہے تو ذرا شاپنگ کر لیں یہاں کپڑا اور دوسری چیزیں سستی اور اچھی ملتی ہیں‘‘

شاپنگ ہوئی۔ فرخندہ نے اپنی سہیلی نسیمہ کے دس سلیکس کے لیے بہترین ڈیزائن کا کپڑا خریدا۔ واکنگ شُو لیے۔ ایک گھڑی خریدی جو نسیمہ کی چوڑی کلائی کے لیے مناسب و موزوں تھی ماں خاموش رہی کہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔

کراچی سے لاہور پہنچی تو سفر کی تھکان کے باوجود فوراً نسیمہ سے ملی مگر اُس کا منہ سوجھا ہوا تھا۔ سخت ناراض تھی کہ وہ اس سے ملے بغیر چلی گئی۔ فرخندہ نے بڑی معافیاں مانگیں۔ ہر سطح سے اُس کی دلجوئی کی مگر وہ راضی نہ ہوئی اس پر فرخندہ نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور نسیمہ سے کہا کہ اگر وہ اسی طرح ناراض رہی تو وہ کچھ کھا کر مر جائے گی۔ اس کا فوری اثر ہوا اور نسیمہ نے اس کو اپنے مضبوط بازوؤں میں سمیت لیا اور اُس کو چومنے پچکارنے لگی۔

دیر تک دونوں سہیلیاں کمرہ بند کر کے بیٹھی پیار محبت کی باتیں کرتی رہیں۔ اس دن کے بعد ان کی دوستی اور زیادہ مضبوط ہوگئی۔ مگر فرخندہ کی ماں نے محسوس کیا کہ اس کی اکلوتی بیٹی کی صحت دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ چنانچہ اُس نے اُس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرخندہ پر ہسٹیریا ایسے دورے پڑنے لگے۔

بیگم صاحبہ نے اپنی جان پہچان والی عورتوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ لڑکی کو آسیب ہوگیا ہے۔ دوسرے لفظو ں میں کوئی جن اس پر عاشق ہے جو اُس کو نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ فوراً ٹونے ٹوٹکے کیے گئے۔ جھاڑ پھونک کرنے والے بُلائے گئے۔ تعویز گنڈے ہوئے مگر بے سود۔

فرخندہ کی حالت دن بدن غیر ہوتی گئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ عارضہ کیا ہے۔ دن بدن دبلی ہو رہی تھی۔ کبھی گھنٹوں خاموش رہتی۔ کبھی زور زور سے چلانا شروع کر دیتی اور اپنی سہیلی نسیمہ کو یاد کر کے پہروں آنسو بہاتی۔

اس کی ماں جو زیادہ ضعیف الاعتقاد نہیں تھی۔ اپنی جان پہچان کی عورتوں کی اس بات پر یقین ہوا کہ لڑکی پر کوئی جن عاشق ہے۔ اس لیے کہ فرخندہ عشق و محبت کی بہت زیادہ باتیں کرتی تھی اور بڑے ٹھنڈے ٹھنڈے سانس بھرتی تھی۔

ایک مرتبہ پھر کوشش کی گئی۔ بڑی دُور دُور سے جھاڑنے والے بُلائے گئے دوا دارو بھی کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ فرخندہ بار بار التجا کرتی کہ اُس کی سہیلی نسیمہ کو بُلایا جائے مگر اس کی ماں ٹالتی رہی۔

آخر ایک روز فرخندہ کی حالت بہت بگڑ گئی۔ گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کی والدہ جو کبھی باہر نہیں نکلی تھی برقعہ اوڑھ کر ایک ہمسائی کے ہاں گئی اور اس سے کہا کہ کچھ کرے۔ دونوں بھاگم بھاگ فرخندہ کے کمرے میں پہنچیں مگر وہ موجود نہیں تھی۔

نواب نوازش علی مرحوم کی بیگم نے چیخنا چلانا اور دیوانہ وار ’’ فرخندہ بیٹی ، فرخندہ بیٹی ‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ سارا گھر چھان مارا مگر وہ نہ ملی اس پر وہ اپنے بال نوچنے لگی۔ ہمسائی نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے مگر وہ برابر واویلا کرتی رہی۔

فرخندہ نیم دیوانگی کے عالم میں اوپر کوٹھے پر کھڑی تھی۔ اس نے منڈیر کی اکھڑی ہوئی اینٹ اُٹھائی اور زور زور سے اُسے دوسری اینٹ کے ساتھ بجایا۔

کوئی نہ آیا۔

اُس نے پھر اینٹ کو دوسری اینٹ کے ساتھ ٹکرایا۔ چند لمحات کے بعد ایک خوبصورت نوجوان جو نسیمہ کے چھ کنوارے بھائیوں میں سے سب سے بڑا تھا اور برساتی میں بیٹھا بی اے کے امتحان کی تیار کررہا تھا باہر نکلا اس نے دیکھا منڈیر کے اس طرف ایک دبلی پتی نازک اندام لڑکی کھڑی ہے۔ بڑی پریشان حال بال کھلے ہیں۔ ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں۔

آنکھوں میں سینکڑوں زخمی اُمنگیں سمٹی ہیں۔

قریب آ کر اس نے فرخندہ سے پوچھا ’’ کسے بُلا رہی ہیں آپ ‘‘

فرخندہ نے اُس نوجوان کو بڑے گہرے اور دلچسپ غور سے دیکھا ’’ میں نسیمہ کو بلا رہی تھی ‘‘

نوجوان نے صرف اتنا کہا ’’ اوہ چلو آؤ !‘‘ اور یہ کہہ کر منڈیر کے اُس طرف سے ہلکی پھلکی فرخندہ کو اُٹھایا اور برساتی میں لے گیا جہاں وہ امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔

دُوسرے دن جن غائب ہوگیا۔ فرخندہ بالکل ٹھیک تھی۔ اگلے مہینے اُس کی شادی نسیمہ کے اُس بھائی سے ہوگئی جس میں نسیمہ شریک نہ ہوئی۔

سعادت حسن منٹو

۲۶ مئی ۱۹۵۴ء

Shaheryaar

Articles

شہریار

شہریار

One of the most prominent modern Urdu poets and lyricist. Wrote songs for the movie “Umrao Jaan”. Recipient of the Bhartiya Gyan Peeth award.

Naseer and Khadeeja

Articles

نصیر اور خدیجہ

علامہ راشد الخیری

شاباش بھائی نصیر شاباش ! چھوٹی بہن مرکے چھوٹی۔بڑی بہن کو جیتے جی چھوڑا۔ غضب خدا کا تین تین چار چار مہینے گزر جائیں اور تم کو دو حروف لکھنے کی توفیق نہ ہو ۔ حفیظ کے نکاح میں ۔ وہ بھی چچی جان کی زبانی معلوم ہوا کہ ملتان کی بدلی ہوگئی ۔ و ہ دن اور آ ج کا دن خیر صلّاح کیسی یہ بھی خبر نہیں کہ لاہور میں ہو یا ملتان میں نصیر میاں ! بہن بھائیوں کا رشتہ تو بڑی محبت کا ہوتاہے ۔ ایسی کون سی پانچ سات بہنیں بیٹھیں ہیں جو دل بھر گیا ۔ دور کیوں جاﺅ بھائی سلیم ہی کو دیکھ لو ایک چھوڑدو بہنیں ساتھ ہیں اور کس طرح؟گھربار کی مختار ۔ اندر باہر کی مالک سیاہ کریں ، چاہے سفید ۔ نہ بھائی کی اتنی مجال کہ دم مارسکے ، نہ بھاﺅج کی اتنی طاقت کہ ہوں کر سکے ۔ کسی کو دیکھ کر تو سیکھاکرو ۔ ایک وہ بھائی بہنوں کوآنکھوں پر بٹھایا ، بھانجا بھانجی کی شادیاں کیں ۔ بھانجوں کو پڑھا لکھاکر نوکرکرایا ۔ ایک تم بھائی ہو کس کا بھانجہ اور کیسی بہن ۔ چاہے کوئی مرے یا جیئے تمہاری بلا سے ۔ خدا کا شکرہے ، میں تو تمہاری روپیہ پیسہ کی بھوکی نہیں خالی محبت اور میٹھی زبان کی خواستگار ہوں ۔ جو کہیں خدانخواستہ تمہارے در پر آکر پڑتی تو کُتّے کے ٹھیکرے میں پانی پلوادیتے آخر میں بھی سنوں خطاقصور وجہ سبب۔ کچھ تو بتاﺅ ایسی لاپروائی بھی کس کام کی ، اچھے سے غرض نہ بُرے سے مطلب ۔ بہن کے تم نہیں بھائی کے تم نہیں ۔ صادقہ مرتے مرگئی اور تمہاری صورت دیکھنی نصیب نہ ہوئی ۔ امّا رہیں نہیں ، ابّا اُدھر چلے گئے ، میں اس قابل نہیں ، بڑے بھائی اس لائق نہیں ۔ اب تمہارا دلّی میں کون بیٹھا ہے جس کو خط لکھو۔ تم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو ایک سرے سے سب کو عاق کردوں۔ ابّا کا حج کو جانا اور اونگتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوگیا ۔ بہن اور بھائی ماموں اور ممانی سب کو بالائے طاق رکھا۔ چچا لاپرواہ چچی خطا وار ۔ بھائی خود غرض ، بہن گنہگار ، غرض کنبے کا کنبہ اور خاندان کا خاندان چھوٹے اور بڑے ، بڈھے اور جوان ، مرد اور عورت ،بوڑھا اور بچہ ایک بھی اچھا نہیں ۔ محبت نہیں مروّت ہی سہی ۔ بال بچوں کا ساتھ رکھنا گناہ نہیں ہے‘ دنیا جہان میں ہوتی آئی ہے مگر یہ اندھیرا کہیں نہیں دیکھا کہ الگ گھر کرتے ہی سب کو دھتا بتائی ۔ امّا کا مرنا ہماری تو مٹی پلید ہوئی مگر تم کو عید ہوگئی ۔ شفقت محبت پہلے ہی رخصت ہوچکی تھی ۔ جو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا۔ اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے۔ الٰہی تمہارے بچوں کی ہزاری عمر ہو ۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھواب سے دوراگلے برس ذرا ظہیر کو بخار ہوگیا تھا ۔ کیسے گھبرائے گھبرائے پھرتے تھے ۔ تم کو آٹھ برس کے بچے کی یہ کچھ مامتا تھی ۔امّا کو تمہاری کتنی ہوگی ؟ نصیر میاں دنیا کے جھگڑے تو ہمیشہ ہی رہیں گے ۔ بال بچے شادی بیاہ سب ہی کچھ ہوگا ۔ اب امّاں تمہاری صورت دیکھنے نہیں آئیں گی ۔

صادقہ کے بچوں کو اماں اپنی زندگی تک کلیجہ سے لگائے رہیں ‘ ان کا مرنا تماکہ تینوں کی مٹی ویران ہوگئی ۔ پرسوں دونوں لڑکے بسم اللہ کا حصہ لے کرآئے تھے ۔ میں باہر کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی رضائی ٹانک رہی تھی ۔ چھوٹا آکرگلے سے لپٹ گیا۔ کچھ خون کا جوش تھا کہ اس کی صورت دیکھتے ہی میری طبیعت بھر آئی ۔ غلاموں کی بھی حالت اچھی ہوگی جیسی ان بچوں کی تھی ۔ پھٹا ہوا کرتہ ٹوٹی ہوئی جوتی ،پاجامہ چکٹ ، ٹوپی چوہا ،بدن پہ سیروں میل، آنکھوں میں الغاروں چپڑان بچوں کو دیکھ کر مجھ کو وہ دن یادآگیا کہ جب تک دونوں کی الخالقین نہ آگئیں ۔صادقہ رابعہ کی چوتھی میں نہ گئی ۔ دیکھ لو تین چار ہی برس کے اندر اندر ۔ کیا کیا ہوگیا ۔ بُرا نہ ماننا تم قیامت تک بھی اپنے بچوں کو اس طرح نہ پالوگے جس طرح صادقہ اپنے بچوں کو پال گئی ۔ خدا کی قسم بھری ہوئی عطر کی شییاں کھڑے کھڑے حمید نے غارت کی ہیں تقدیر کی خبر نہ تھی کہ صادقہ کی اولاد یوں برباد ہوگی ۔ میں نے دیکھا نہیں مگر دادا جان ذکر کیا کرتے تھے کہ غدرسے پہلے اس مکان پر ہاتھی جھولتا تھا ۔ آج جاکردیکھوبے کُنڈی کا ایک کواڑچڑھا ہواہے او رچکنی مٹی کی ایک دیوار چنی ہوئی ہے ۔بڑے نواب کی آنکھ کا بند ہونا تھاکہ گھر بھر میں جھاڑوپھر گئی ۔ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے مسعود کے بیاہ میں صادقہ کی ساس کو گنگا جمنی پنکھے جھلے جارہے تھے ۔ لونڈیا اور مامائیں گوندنی کی طرح زیور میں لدی ہوئی تھیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا زمانہ پلٹا کہ آج پانی پینے کا کٹورہ بھی نہ رہا۔مٹکے میں آٹا برکت ،بقچی میں کپڑے اللہ کا نام ۔ بدن میں طاقت نہیں ، ہاتھ پاﺅں میں سکت نہیں ۔چلنے پھرنے سے مجبور ، دیکھنے سے معذور آنکھیں تھیں تو ایک آدھ کرتہ دو ایک ٹوپیاں کرکرالیتی تھیں۔اب تو اتنی بھی نہیں پڑوس کا حق سمجھو خدا کا خوف جانو،ہاتھ پاﺅں کی خیرات کہو چچی جان تین روپیہ مہینہ دیتی ہیں ۔ بس یہ کل کائنات ہے ۔ اس میں کیا آپ کھائیں کیا بچوں کو کھلائیں ۔ تین روپیہ چاردم ، ایک لڑکی کا ساتھ ، کیا کریں کیا نہ کریں ۔تین روپیہ مہینہ کا توسوکھا اناج چاہئے ۔ جو جو کچھ لکھا تھا سب ہی کچھ کرچکیں ۔ چکّیاں پیسیں، سلائیاں کیں ، ہاں اتنی بات رہ گئی کہ دَر دَرہاتھ نہیں پھیلایا ۔

صادقہ کے بچے کسی غیر کے بچے نہیں ہیں ۔ مری ہوئی بہن کی نشانی ہیں۔شاباش تمہاری ہمت پردیس میں بیٹھے راج کرو اور صادقہ کے بچے دو دو دانے کو محتاج ہوں۔دلّی میں آکردیکھو شہر میں کیا نام بدنام ہورہاہے آخربرس میں دو برس میں اپنے ہاں کی نہیں سسرال کی شادیوں میں تو آﺅ گے سب کو یاد ہے کہ اللہ رکھو لڑکی کا بیاہ سرپر آرہاہے یا یہ بھی وہیں کرلو گے ؟ اپنے پرائے ، کنبہ ،محلہ ،میل ملاپ، جان پہچان تمام دنیا جنم میں تھوک رہی ہے ۔ کس کا منہ کیلوگے؟
بڑے بھائی اس لائق ہوتے تو تم سے کہنے کی ضرورت نہ تھی ۔ بے چارے آپ ہی اپنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ نوکری چھوٹی ، چوری ہوئی ، مقدمہ ہارے ۔ چار روپیہ مکان کے آجاتے تھے ۔ وہ بھی نہ رہے ۔ اندر کا دالان ہوا ہوہی رہا تھا ایک ہی چھینٹے میں اُڑ اُڑ کرآن پڑا ۔ اس کے ساتھ ہی لمبی کوٹھری بھی بیٹھی گئی ۔ اتنا بھی پاس نہیں کہ اینٹیں اورملبہ تو ہٹوادیں ۔ چارسوروپیہ کے قرضدار بیٹھے ہیں ۔
ایک لے دے کر منجھلی خالہ رہ گئی ہیں ۔ وہ اکیلی کیا کیا کریں ۔ صادقہ کے بچوںکو پالیں ‘ بڑی بہو کی ٹہل کریں ، اپنے گھر کو دیکھیں ، جس کا نہ کریں اسی سے بُری ، روپیہ پیسہ کے قابل نہیں ،ہاتھ پاﺅں سے باہرنہیں ، جس کے ہاں ضرورت دیکھتی ہیں آموجود ہوتی ہیں ۔ کہنے کو جس کا جو جی چاہے کہہ لو ۔ خلق کا
حلق تھوڑی بند ہوسکتاہے ۔

ماموں اور باپ میں فرق نہیں ہوتا۔ مگر سمجھو تو ۔ نہ سمجھو تو بھانجا بھانجی تو خیر اپنی اولاد بھی غیر ہے ۔ خدا گواہ ہے میری تواگر جان تک کام آجائے تو دریغ نہیں۔اپنے بچے کم اور صادقہ کے بچے زیادہ ۔ مگر ذرا عقل سے کام لو ، ساری دنیا میں بدنام ہوں ، مَری ہوئی ہڈیاں اکھڑواﺅں ، امّا باوا کی ناک کٹواﺅں ،دادی داد ا تک کو پُنواﺅں ، جب ان کے ساتھ رکھنے کا نام لوں ۔ میں خود پرائے بس میں ہوں ۔ شہر کا معاملہ سسرال کی بات ، ساس نندوں کا ساتھ ہروقت کی جھِک جھِک، رات دن کی پِٹ پِٹ ، کنبے بھر میں ذلیل ہو۔ عمر بھر کے لئے مٹی پلید کرنی ،گھروں میں لڑائیاں ڈالنی ، دلوں میں فرق ڈالنے کس خدا نے بتائے ہیں ۔ امّاجان تو پہلے ہی فرماتی ہیں کہ میکے کا بھرنا بھرتی ہے ۔ بچوں کو رکھ لوں تو زندگی ہی دوبر ہوجائے ۔ تم کوماشاءاللہ اسّی روپیہ ملتے ہیں ۔دومیاں بیوی دو بچے کل چار دم ۔ اسّی روپیہ کیا کم ہیں ۔ بُرا مانو یا بھلا ، جس طرح ہوسکے صادقہ کے بچوں کو پانچ روپیہ مہینہ دو ۔ یہ روپیہ رائیگاں نہیں جائے گا، یہاں نیک نام وہاں سُرخرو ۔ نصیر میاں حق داروں کا حق سمجھو اللہ برکت دے گا ۔پھلوگے پھولوگے ، دنیا کی بہاردیکھو گے ، روزگار میں ترقی ہوگی ۔ ان بچوں کو غیر نہ سمجھو ظہیر اور حمید میں فرق نہیں ہے ۔بھائی بہن کی اولاد ایک ہوتی ہے۔ یہ بیچارے بھی کیا یاد کریں گے کہ کوئی ماموں تھا۔
دلہن بیگم کو بہت بہت دعائ۔ بچوں کو پیار ۔ اب تو ماشاءاللہ بچی پاﺅں پاﺅں چلتی ہوگی ۔ اچھا خداحافظ

<

UrduChannel 29

Articles

UrduChannel 29