Ghazals by Irtiza Nishaat

Articles

ارتضیٰ نشاط کی غزلیں

ارتضیٰ نشاط

ارتضیٰ نشاط کی غزلیں

1

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں

مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں

بڑا شور گونجا ، بڑا شر اُٹھا
رگیں دکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں

سہولت سے مہمان کھیلیں شکار
درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں

سفر واپسی کا بھی ہے ناگزیر
تو پابندیاں کیوں لگا دی گئیں

کڑی دھوپ میں دوپہر کی نشاط
درختوں کی شاخیں جلا دی گیں
———

2

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح

یہ زندگی کہ جس کا کوئی اُور ہے نہ چھور
ہم سب میں بٹ گئی ہے کرامات کی طرح

یہ دور ، شکر ہے کہ بڑی مدتوں کے بعد
الجھا ہوا ہے میرے خیالات کی طرح

ارمان یوں تو دل کے نکلتے ہیں دوستو
لیکن کسی غریب کی بارات کی طرح

میرے ہی شعر مجھ کو لگے ہیں بصد خلوص
کچھ بے تکے عجیب سوالات کی طرح

مرنے کے بعد خواب میں آتے ہیں کس لیے
ماں باپ بد نصیب علامات کی طرح

حیرت ہے اپنے گھر کے بھی حالات ارتضیٰ
نازک بہت ہیں ، ملک کے حالات کی طرح
———

3

اردو ادب کے ساتھ رہیں پستیاں بہت
ساحر کی اک کتاب بکی تلخیاں بہت

اے دوست بتاﺅ کہ مقصد ہے اس سے کیا
تم ہال میں بچھا تو چکے کرسیاں بہت

میں سو گیا تو خواب میں پیچھا کیا مرا
کل رات مجھ پہ چھائی رہیں مستیاں بہت

رسّی خدا کی ہم بھی پکڑ لیں کہ ان دنوں
بٹنے لگے ہیں لوگ نئی رسّیاں بہت

اس احتمال سے کہ مبادا غلط چلوں
چلتی ہیں میرے ساتھ پریشانیاں بہت

روداد کیا ہے میرے سفر کی ابھی نہ پوچھ
دیکھی نہیں ہیں میں نے ابھی بستیاں بہت

تنگ آکے کینسر نے کہا بند کر نشاط
جب لے چکا شراب کی میں چُسکیاں بہت
———-

4

زندگی ڈوبتی نبضوں کی صدا لگتی ہے
کوئی رد کی ہوئی مخصوص دعا لگتی ہے

پیٹ کی آگ بھی لگتی ہے تو کیا لگتی ہے
نیند بھی سو کے جو اٹھتا ہوں غذا لگتی ہے

جیسے ہر شخص کوئی جرم کیے بیٹھا ہو
گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے

سب سے دلچسپ یہی غم ہے مری بستی کا
موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے

آئیے آج اسی سوچ کو پختہ کرلیں
بے حسی حد سے گزرتی ہے تو کیا لگتی ہے
———-

5

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے

نہ جانے کیوں تمھارے در پہ آجاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں ، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے

بڑی تیزی سے کشتی ، جس طرف بہتی چلی جائے
ہمیشہ یاد رکھنا اس طرف گرداب ملتا ہے

ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کھدّر پہنتے ہیں
اسی قیمت پہ لینے جائیں تو کمخواب ملتا ہے

ہمیشہ کے لیے اے کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں
کہ میری نیند سے اِس وقت اس کا خواب ملتا ہے

محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں
صدف سے ابرِ گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے

حقیقت ارتضیٰ کی آم کے پھل کی طرح سمجھو
بہت بکتا ہے لیکن پھر بہت نایاب ملتا ہے
————

6

ایک سے ایک ہے رستم کے گھرانے والا
ہے کوئی قبلہ¿ اول کو چھڑانے والا

قہر آلود نگاہیں ، نہ بڑے دانت مگر
چہرہ چہرہ نظر آتا ہے ڈرانے والا

دھوپ سے آبلے پتھر میں پڑے جاتے ہیں
کون ہے ، کون ہے دنیا کو چلانے والا

میرے چہرے پہ ندامت کی کہانی لکھ کر
آئینہ دیکھنے لگتا ہے دکھانے والا

اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ زباں پھیر چکا
پیاس اک عمر زمانے کی بجھانے والا

خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں مری
اور ایک سانپ مرے سر میں خزانے والا

آپ بھی ساتھ اگر ہوں تو مزا آجائے
رات کے ساتھ اندھیرا بھی ہے آنے والا
————-

7

مری زندگی کا عجب بھاﺅ ہے
خدا کی طرح سب کا برتاﺅ ہے

کٹی ہیں پتنگیں تو لوٹی ہے ڈور
نہ جوجھو بہت اس میں الجھاﺅ ہے

بڑی تلخ ہوتی ہے سرکار کی
گلے سے کلیجے تلک گھاﺅ ہے

نہ سوچو کسی میں محبت نہیں
دلوں میں اترتے چلے جاﺅ ، ہے

سمندر میں منجھدار کی راز دار
کنارے پہ ٹوٹی ہوئی ناﺅ ہے

اجل کے ہوئے دستخط اور پھر
نمک ہے نہ زخموں پہ چھڑکاﺅ ہے

سنادی غزل ، خوب تھی ارتضیٰ
مگر اب یہ مونچھوں پہ کیوں تاﺅ ہے
———-

8

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے
حد ہوگئی ہم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے

وہ قبر نئی کس کی بنی ہے یہ بتا دو ! !
کیا بات ہے دانستہ اُدھر کیوں نہیں جاتے

اُکساتے ہو کیوں غوطہ لگانے پہ ہمیں تم
موتی ہو تو ساحل پہ بکھر کیوں نہیں جاتے

صحرا میں روانی سے گزرنا نہیں ممکن
اے اہل جنوں خاک بسر کیوں نہیں جاتے

محرومی کا اپنی یہ سبب ہے کہ ابھی تک
سوچا ہی نہیں ہم نے کہ مر کیوں نہیں جاتے

ساغر کو مرے موت کے زہراب سے بھر دو
میخانے میں کہتے ہو کہ گھر کیوں نہیں جاتے

اللہ کا ڈر ارتضیٰ جب دل سے نکالا
ہم اپنے ہی پھر سائے سے ڈر کیوں نہیں جاتے
———

9

دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے

ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے ڈراتا کیا ہے

کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
لوٹ کے آنے کی امید میں جاتا کیا ہے

بیل بوٹے سے کوئی راہ میں کاڑھے جیسے
ہر قدم پھول کھلاتا ہے وہ آتا کیا ہے

یاد میری نہ مٹا ، نام مٹا دے میرا
نقش مٹتا ہے تو دیوار گراتا کیا ہے

شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے

میں تو آدھا نہ رہا ارتضیٰ دے دے کے ادھار
دیکھ لے میری طرف ہاتھ بڑھاتا کیا ہے
———-

10

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے

اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مری صبح اتنی سہانی نہیں ہے

بڑا معجزانہ تھا انداز اُن کا
کسی دور میں کوئی ثانی نہیں ہے

خدا کی ہے ، گھر کی ہے ، کچھ دوستو کی
ہماری تو یہ زندگانی نہیں ہے

ضروری سمجھتا ہے تردید ، کردے
حقیقت ہے کوئی کہانی نہیں ہے

ہواﺅں کا رُخ موڑ سکتے ہیں یوں بھی
ہمارا ہنر بادبانی نہیں ہے

قیامت زبردست ہتھیار ہوگا
خدا نے مری بات مانی نہیں ہے

تخلص نشاط اس لیے رکھ لیا ہے
کہ تقدیر میں شادمانی نہیں ہے
——-

Ghazals by Dagh Dehlavi

Articles

داغ دہلوی

داغ دہلوی

داغ دہلوی کی کچھ غزلیں 

​(۱)

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں

الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا

ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں 

سنسان گھر یہ کیوں نہ ہومہمان تو گیا

کیا آئے راحت آئی جو کنج مزار میں

وہ ولولہ وہ شوق وہ ارمان تو گیا 

دیکھا ہے بتکدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ 

ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں

لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہواپر ہزار شکر

مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزم عدو میں صورت پروانہ دل مرا

گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا 

ہوش وحواس و تاب تواں داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

(۲)

عجب اپنا حال ہوتا تو وصال یار ہوتا 

کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا 

کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھرآشکار ہوتا 

ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا 
جو تمھاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا 

تمھیں منصفی سے کہہ دو تمھیں اعتبار ہوتا 

غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے

یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا 

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی

نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا 

نہ مزہ ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں

کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا 

ترے وعدے پرستم گر ابھی اور صبر کرتے 

اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا 

یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی 

اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا 

مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے 

در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا 

تمھیں ناز ہو نہ کیوں کر کہ لیا ہے داغ دل کا 

یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا 

(۳)

محبت میں آرام سب چاہتے ہیں 

مگر حضرت داغ کب چاہتے ہیں

خطا کیا ہے ان کی جو اس بت کو چاہا 

خدا چاہتا ہے تو سب چاہتے ہیں

وہی ان کا مطلوب و محبوب ٹھہرا

بجا ہے جو اس کی طلب چاہتے ہیں 

مگر عالم یاس میں تنگ آکر

یہ سامان آفت عجب چاہتے ہیں

اجل کی دعا ہر گھڑی مانگتے ہیں

غم ودرد رنج وتعب چاہتے ہیں

قیامت بپا ہو نزول بلا ہو

یہی آج کل روزوشب چاہتے ہیں

نہ معشوق فرخار سے ان کو مطلب

نہ یہ جام بنت العنب چاہتے ہیں

نہ جنت کی حسرت نہ حوروں کی پروا

نہ کوئی خوشی کا سبب چاہتے ہیں

نرالی تمنا ہے اہل کرم سے 

ستم چاہتے ہیں غضب چاہتے ہیں

نہ ہو کوئی آگاہ راز نہاں سے 

خموشی کو یہ مہر لب چاہتے ہیں

خدا ان کی چاہت سے محفوظ رکھے

یہ آزار بھی منتخب چاہتے ہیں

غم عشق میں داغ مجبور ہوکر

کبھی جو نہ چاہا وہ اب چاہتے ہیں

(۴)

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ناز والے نیاز کیا جانیں

شمع رو آپ گو ہو ئے لیکن

لطف سوزوگداز کیا جانیں

کب کسی در جبہہ سائی کی

شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہ عشق میں قدم رکھیں 

وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھیئے مے کشوں سے لطف شراب

یہ مزا پاک باز کیا جانیں

بلے چتون تری غضب ری نگاہ 

کیا کریں گے یہ ناز کیا جانیں

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک 

وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

حضرت خضر جب شہید نہ ہوں 

لطف عمر دراز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے 

آپ بندہ نواز کیا جانیں

(۵)

ناروا کہیے ناسزا کہیے

کہیے؎کہیے مجھے برا کہیے

تجھ کو بد عہد وبے وفا کہیے

ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے

مجھ کہیے برا نہ غیر کے 

جو ہو کہنا جدا جدا کہیے

انتہا عشق کی خدا جانے 

دم آخر کو ابتدا کہیے

میرے مطلب سے کیا غرض مطلب

آپ اپنا تو مدعا کہیے

ایسی کشتی کا ڈوبنا اچھا

کہ جو دشمن کو ناخدا کہیے

صبر فرقت میں آہی جاتا ہے

پر اسے دیر آشنا کہیے

آگئی آپ کو مسیحائی

مرنے والے کو مرحبا کہیے

آپ کا خیر خواہ میرے سوا

ہے کوئی اور دوسرا کہیے

ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر 

مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کو 

داغ کو اور باوفا کہیے

(۶)

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے 

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کے مرا فسانہ انھیں لطف آگیا

سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا

میری زبان کی ہے نہ تمھاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے

ہردم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جاں بر بھی ہوگئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں

کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہو

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر

کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقت خرام ناز دکھا دو جداجدا

یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے

دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا

ہوجائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا

خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہرہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار

کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے 

کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر

موزوں وہیں وہ خوب ہے سنتے جہاں کی ہے 

تقدیر سے یہ پوچھ رہاہوں کہ عشق میں

تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ 

ہندوستاں دھوم ہماری زباں کی ہے

 

Ghazals by Moomin Khan Moomin

Articles

مومن خان مون کی غزلیں

مومن خان مون

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا​
میری طرف بھی غمزہءغماز دیکھنا​
اڑتے ہی رنگ رخ مرا نظروں سے تھا نہاں​
اس مرغِ پر شکستہ کی پرواز دیکھنا​
دشنامِ یار طبعِ حزیں پر گراں نہیں​
اے ہم نفس ، نزاکتِ آواز دیکھنا​
دیکھ اپنا حال زار منجم ہوا رقیب​
تھا سازگار طالعِ ناساز دیکھنا​
بد کام کا مآل برا ہے جزا کے دن​
حالِ سپہر تفرقہ انداز دیکھنا​
مت رکھیو گرد تارک عشاق پر قدم​
پامال ہو نہ جائے سر افراز دیکھنا​
کشتہ ہوں اس کی چشمِ فسوں گر کا اے مسیح​
کرنا سمجھ کے دعویء اعجاز دیکھنا​
میری نگاہِ خیرہ دکھاتے ہیں غیر کو​
بے طاقتی پہ سرزنشِ ناز دیکھنا​
ترکِ صنم بھی کم نہیں سوزِ جحیم سے​
مومن غمِ مآل کا آغاز دیکھنا​

———-

محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا
ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا
ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا
دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوہء بے داد آگیا
وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آگیا
تھے بے گناہ جراءتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آگیا
جب ہوچکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آگیا
ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومن میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا

————

دیدہ حیراں نے تماشا کیا​
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا​
​ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا​
حوصلہ کیا کیا نہ کیا، کیا کیا​
​انک نہ لگنے سے سب احباب نے​
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا​
​مر گئے اس کے لب جاں بخش پر​
ہم نے علاج آپ ہی اپنا کیا​
​غیر عیادت سے برا مانتے​
قتل کیا آن کے اچھا کیا​
​جاے تھی تیری میرے دل میں سو ہے​
غیر سے کیوں شکوۂ بے جا کیا​
​رحم فلک اور مرے حال پر​
تو نے کرم اے ستم آرا کیا​
​مومن دشمن ہی رہے بت سدا ​
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرفَ ناصح برا نہیں ہوتا

کس کو ہے ذوقَ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

امتحاں کیجیے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا

ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

Ghazals by Meer Taqi Meer

Articles

غزلیں

میر تقی میر

منھ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تھے برے مغبچوں کے تیور لیک
شیخ میخانے سے بھلا کھسکا
داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا
بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا
فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا
تاب کس کو جو حال میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

————-

جنوں نے تماشا بنایا ہمیں
رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں
سدا ہم تو کھوئے گئے سے رہے
کبھو آپ میں تم نے پایا ہمیں
یہی تا دم مرگ بیتاب تھے
نہ اس بن تنک صبر آیا ہمیں
شب آنکھوں سے دریا سا بہتا رہا
انھیں نے کنارے لگایا ہمیں
ہمارا نہیں تم کو کچھ پاس رنج
یہ کیا تم نے سمجھا ہے آیا ہمیں
لگی سر سے جوں شمع پا تک گئی
سب اس داغ نے آہ کھایا ہمیں
جلیں پیش و پس جیسے شمع و پتنگ
جلا وہ بھی جن نے جلایا ہمیں
ازل میں ملا کیا نہ عالم کے تئیں
قضا نے یہی دل دلایا ہمیں
رہا تو تو اکثر الم ناک میر
ؔترا طور کچھ خوش نہ آیا ہمیں

———–

الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے
ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے
جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی
ہمیں جی سے مارا تری آرزو نے
نہ بھائیں تجھے میری باتیں وگرنہ
رکھی دھوم شہروں میں اس گفتگو نے
رقیبوں سے سر جوڑ بیٹھو ہو کیونکر
ہمیں تو نہیں دیتے ٹک پاؤں چھونے
پھر اس سال سے پھول سونگھا نہ میں نے
دوانہ کیا تھا مجھے تیری بو نے
مداوا نہ کرنا تھا مشفق ہمارا
جراحت جگر کے لگے دکھنے دونے
کڑھایا کسو کو کھپایا کسو کو
برائی ہی کی سب سے اس خوبرو نے
وہ کسریٰ کہ ہے شور جس کا جہاں میں
پڑے ہیں گے اس کے محل آج سونے
تری چال ٹیڑھی تری بات روکھی
تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

————-

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

Writing in today’s time by Intezar Husain

Articles

لکھنا آج کے زمانے میں

انتظار حسین

لکھنا آج کے زمانے میں

انتظار حسین
میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعہ¿ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لیے ذریعہ¿ عزت ہے مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔ عہدوں اور مراتب اور ہاتھی اور بگھی کی سواری کی فکریں اوروں کو بھی تھیں اور خود غالب کو بھی ستاتی تھیں۔ اسی قسم کی فکریں سر سیّد اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کبھی عقائد کے اثر و رسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرہ میں ایسی پنچائتی فکریں پیدا کردیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہوپائیں ۔ پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آتی تھی کہ ہم نے صدیوں کے فکر و عمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جو، اب ہماری زندگی ہیں ،ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔اس قسم کے فکر کے یہ معنی ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہاجاتا ہے اور ٹی ایسایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کرسکتی مگر اس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔ ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کرسکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثر نگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک موثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی منفعت ہوتو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لیے دوڑ دھوپ روحانی جد و جہد کا سارنگ اختیار کرجاتی ہے۔ عام لوگ موٹر کار کی چابی کی آرزو میں صابون کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہلِ قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب ، زبان اور کلچر کی ترقی کے لیے یا ادبیوں کی بہبود کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب ، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ادب ، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیرِ آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کیے جاتے ہیں۔

ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے ۔ اس کے لیے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔
ٍ
جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اور شہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔

لفظ خود ایک شہادت ہے ۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق کی تھی پھر یہ تخلیق فعل و عمل میں شیر و شکر ہوگئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل ، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں۔ ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے اس کا اس تخلیقی عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے۔ یعنی ادب بنفسہ اس کے لیے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے میر و غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے ۔ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔ بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ صُمً بُکمً عُمیً فہم لایرجِعونَ۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، موٹر کار اور غیر ملکی وظیفوں کی باتیں کرتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔

آج کا لکھنے والا غالب اور میر نہیں بن سکتا۔ وہ شاعرانہ عظمت اور مقبولیت اس کا مقدر نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک بہرے، گونگے، اندھے معاشرے میں پیدا ہوا ہے۔ مگر وہ غالب اور میر سے زیادہ اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس لیے کہ وقت نے اسے ایسی قدر کا امین بنا دیا ہے جو اس کی تاریخ کی سب سے اہم قدر ہے۔ آج لکھنا شہادت کا مرتبہ رکھتا ہے۔لکھنا آج اُس ایمان کا اعادہ ہے کہ موٹر کار حاصل کرنے کی چٹیک سے بھی زیادہ اہم کوئی چٹیک ہے۔ شعر اور افسانہ بے شک معاشرتی سطح پر معنی کھو بیٹھیں اس کے باوجود ایک سنجیدہ بلکہ مقدس مشغلہ ہیں۔ لکھنا آج غالب کے زمانے سے بھی بڑی سچائی ہے۔ اس لیے کہ آج کا جھوٹ غالب کے زمانے کے جھوٹ سے زیادہ سنگین ہے۔ اُس جھوٹ کو غیر قوم کی حاکمیت نے پیدا کیا تھا۔ یہ جھوٹ ہم نے آپس میں جھوٹ بول کر اپنی کوکھ سے جنا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آج کچھ نہیں لکھا جارہا ہے، اچھا ادب تقسیم سے پہلے تخلیق ہوگیا اور اچھے شاعر 1857ءسے پہلے گزر گئے وہ شخص جھوٹا ہے۔ وہ اس لیے جھوٹا ہے کہ یہ کہہ کر وہ آج کے ادب یعنی آج کے جھوٹ اور سچ سے آنکھ چرانا چاہتا ہے۔ نقاد اور پروفیسر اور تہذیبی اداروں کے سربراہ جھوٹ بولتے رہیں لیکن اگر کوئی ایسی سبھا ہے جہاں جیتے جاگتے ادیب بیٹھتے ہیں تو اس کا درد سر اولاً آج کا ادب ہونا چاہیے۔ اگر آج کی تحریر کے کوئی معنی ہیں تو میر اور غالب کی شاعری کے بھی کوئی معنی ہیں۔ آج کچھ نہیں لکھا جارہا ہے یا بے معنی لکھا جارہا ہے تو پھر میراور غالب کے معنی بھی کتنے دن باقی رہیں گے مگر آج لکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔ آج کا ادب اگر وہ صحیح اور سچے معنوں میں آج کا ادب ہے تو وہ آج کے چالو معاشرتی معیارات کا ترجمان نہیں ہوسکتا۔ وہ تو اس قدر کو واپس لانے کی کوشش ہوگی جسے ہمارا معاشرہ گم کر بیٹھا ہے۔ آج کا ادب معاشرہ کا نہیں تاریخ کا ترجمان ہے۔ گویا اس کے وسیلہ سے نہ آپ خازن بن سکتے ہیں ، نہ آپ کو موٹر کار نصیب ہوسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کی تو اتنی بہتات ہے کہ پانچ سو تک گنتی پہنچ گئی ہے مگر لکھنے والا اکیلا رہ گیا ہے۔ زمانے کی قسم آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بے شک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ ہماری ادبی روایت کی مقدس امانت ہے۔
٭٭٭

Riyaz Khirabadi Ki Khumriya Shaeri By Prof. Saheb Ali

Articles

ریاض خیرآبادی کی خمریہ شاعری

پروفیسر صاحب علی

ریاض خیرآبادی کی خمریہ شاعری
پروفیسر صاحب علی

یہ بات پورے وثوق اور بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اگر ریاض خیرآبادی کی منفرد رنگ سخن میں شرابور ممتاز شاعری نہ ہوتی تو اردو شاعری کا ایک مکمل و دل نشین باب غائب ہوجاتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاض تکلفاََ شاعر ہرگز نہ بنے تھے بلکہ وہ پیدائشی شاعر تھے۔ باوجودیہ کہ انھوں نے تلمیذ غلام ہمدانی مصحفی امروہوی یعنی تدبیر الدولہ ، مدبر الملک، بہادر جنگ منشی سید مظفر علی اسیر امیٹھوی (۱۸۰۱تا ۱۸۸۲) اور منشی امیر احمد مینائی (۱۸۲۹ تا ۱۹۰۰) سے استفادہ کیا لیکن اپنی ندرت فکر ، مطالعۂ کائنات اور قوت اختراع کی مدد سے رفتہ رفتہ وہ خود درجۂ استادی پر فائز ہوگئے۔

اردو شاعری میں خمریہ شاعری کی روایت بہت قدیم ہے ۔ اس کے اولین نمونے ہمیں قلی قطب شاہ کے یہاںملتے ہیں ۔اردو شاعری میں کم وبیش سبھی کلاسیکی شعرا کے یہاں خمریہ شاعری کا رنگ کسی نہ کسی روپ میں نظر آجاتا ہے۔اس تعلق سے غالب اور جگر کے نام خصوصی طور سے لیے جاسکتے ہیںلیکن ریاض خیرآبادی اردوزبان وادب کے واحد شاعرہیںجنھیں اردو شاعری میںخمریات کے فن کو روشناس کرانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ضمن میں رئیس احمد جعفری کا یہ قول نہایت سبق آموز ہے:

’’ ریاض نے شراب کے مضمون کو اردو زبان میں اپنا لیا ہے۔ جو لوگ شراب پی پی کر شعر کہتے ہیں اور شعر کہہ کہہ کر شراب پیتے ہیں ، ان کے یہاں بھی شراب کے مضامین میں وہ بے ساختگی، وہ ادائے بیان وہ جذباتی و ندرت نہیں ملے گی جو ریاض کے یہاں نظر آتی ہے‘‘
(رند پارسا، ص۱۵۱)

ریاض خیرآبادی کی خمریہ شاعری کے ذیل میں سب سے پہے ہم شراب مجازی کا ذکر کریں گے ۔ شراب مجازی دراصل وہ شراب ہے جو دنیا کے کونے کونے میں نظر آتی ہے۔ یہ وہ شراب ہے جسے علمائے دین اپنی اصطلاح فقہ میں ام الخبائث کہتے ہیںلیکن اردو کے مشہور شاعر علی سکند رجگر مرادآبادی نے اس کے بارے میں کہا ہے ؎

اے محتسب نہ پھینک ، مرے محتسب نہ پھینک

ظالم شراب ہے ، ارے ظالم شراب ہے

ریاض نے شراب مجازی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر اسے شباب سے وابستہ کردیا ہے ۔ اس طرح شعر کو پڑھنے میں دو آتشے کا مزہ ملتا ہے ۔اس امتزاج شراب وشباب کو ریاض خیرآبادی نے اپنے بڑھاپے میں بھی قائم رکھا۔اس کا سب سے اہم سبب ریاض کاماضی یعنی گورکھپورکی رنگین محفلیں اوران کی حرماں نصیبی تھا۔خمریہ شاعری کے ضمن میں ریاض کے یہاں شراب پہلے معمولی ضرورت رہتی ہے پھر رفتہ رفتہ احتیاج کی شکل اختیار کرلیتی ہے جہاں اس کے بغیر گزر ہی نہ ہوسکے۔ ریاض کے یہ اشعار اسی کیفیت کے غماز ہیں ؎

چھیڑ ساقی کی ہے، دیتا جو نہیں جام ریاض
توبہ کی ہے نہ کبھی ہم نے قسم کھائی ہے
آیا جو محتسب تو بنی رزم ، بزم مے
مجروح خم ، شہید ہمارا سبو ہوا

درحقیقت یہ دعویٰ اپنے مقام پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ ذکر شراب وعشق کلام ریاض کی روح رواں ہیں۔ ریاض نے رندانہ روش بطور فیشن اختیار نہیں کی بلکہ اس کے جراثیم ان کی فطرت میں شامل تھے اور ان کے خمیر کا ایک جزولاینفک تھے۔ رندانہ طرز کی تشکیل میں شوخی کا وجود بے حد اہم ہے۔ کلام ریاض میں جرات رندانہ کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے ؎

شراب پیتے ہی مسجد میں ہم کو گرنا تھا
یہ شغل بیٹھ کے اچھا تھا قبلہ رو کرتے
فرشتے عرصہ گاہ حشر میں ہم کو سنبھالے ہیں
ہمیں بھی آج لطف لغزش مستانہ آتا ہے

ریاض کی خمریہ شاعری کے ضمن میں سب سے پہلے شراب مجازی کا ذکر کرسکتے ہیں جس کے دلدادہ مرزا غالب، اختر شیرانی، مجاز، جگر، ساحر، کیفی، جوش اور بہت سے دوسرے شعرا وادبا تھے ۔ ریاض خیرآبادی شراب مجازی کے اس علت سے کوسوں دور تھے لیکن کمال تو یہ ہے کہ انھوں نے شراب مجازی کا ذکر بھی اپنے اشعار میں کچھ اس طرح کیا ہے گویاوہ بہت ہی بڑے استاد شرابی ہوں ۔ شراب مجازی کا ذکر کرتے وقت وہ اسے محبوب کے شباب سے ملادیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح وہ شراب کی تلخی و زود اثری کو شباب کی لذت و کیفیت سے ترتیب دے کر ایک کیف مرکب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ریاض فرماتے ہیں ؎

اس کے آغاز جوانی کا کہوں کیا عالم؟
کچھ سے نشّہ سا تھا نشّے میں وہ چور نہ تھا
حقیقت بھی یہی ہے کہ نام نہاد شراب مجازی کو نہ کبھی انھوں نے منہ لگایا اور نہ یہ شراب ان کے مافی الضمیر کی مکمل عکاسی کرتی تھی ورنہ وہ ایسا کیوں کہتے کہ ؎
وہ چیز اور تھی وہ نشّہ اور تھا ساقی
مرے شباب کا بنتی ہے کیوں جواب شراب
ریاض کو ناز تھاکہ ان کا دل اور ان کے حوصلے جوان ہیں ۔ نہ ان کے خیالات میں عادی شرابیوں کا زوال ہے نہ جذبات پر بڑھاپا طاری ہوسکا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک وہ اسی طرح شوخ اور چونچال رہے جیسے کوئی جوان رعنا۔ ایسے صحت مند خیالات کی دین ہے یہ شعر ؎
پیری میں ریاض ، اب بھی جوانی کے مزے ہیں
یہ ریش سفید اور میٔ ہوش ربا سرخ!
ریاض خیرآبادی کی شراب مجازی کی شاعری کے حوالے سے ایک نہایت درجہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ شراب مجازی سے نفرت کرنے کے باوجود محض اپنی تخیل اور منفرد قوت اختراع سے یا برسوں کے مشاہدے سے کام لیتے ہوئے ریاض نے اتنی کامیابی اور صفائی سے تمام لوازم شراب خواری پر روشنی ڈالی ہے کہ بڑے سے بڑا استاد شرابی انھیں اپنا پیر مغاں بنانے پر تیار ہوجائے گا۔درحقیقت یہ دعویٰ اپنے مقام پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ ذکر شراب وعشق کلام ریاض کی روح رواں ہیں۔ ریاض نے رندانہ روش بطور فیشن اختیار نہیں کی بلکہ اس کے جراثیم ان کی فطرت میں شامل تھے اور ان کے خمیر کا ایک جزولاینفک تھے۔ رندانہ طرز کی تشکیل میں شوخی کا وجود بے حد اہم ہے۔ کلام ریاض میں جرات رندانہ کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے ؎
شراب پیتے ہی مسجد میں ہم کو گرنا تھا
یہ شغل بیٹھ کے اچھا تھا قبلہ رو کرتے
فرشتے عرصہ گاہ حشر میں ہم کو سنبھالے ہیں
ہمیں بھی آج لطف لغزش مستانہ آتا ہے

ریاض کو ناز تھاکہ ان کا دل اور ان کے حوصلے جوان ہیں ۔ نہ ان کے خیالات میں عادی شرابیوں کا زوال ہے نہ جذبات پر بڑھاپا طاری ہوسکا ہے۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک وہ اسی طرح شوخ اور چونچال رہے جیسے کوئی جوان رعنا۔ ایسے صحت مند خیالات کی دین ہے یہ شعر ؎
پیری میں ریاض ، اب بھی جوانی کے مزے ہیں
یہ ریش سفید اور میٔ ہوش ربا سرخ!
ریاض خیرآبادی کی خمریاتی شاعری کا دوسرا روپ شراب حقیقی کا ذکر ہے ۔ اسے ہم شراب عرفان بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ریاض کی غزلوں کا ایک معتد بہ حصہ شراب حقیقی یا شراب معرفت الٰہی سے لبریز ہے۔ریاض نے درج ذیل شعر میں شراب کا استعمال بطور کنایہ مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ اس عارفانہ شعر کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ؎
تجھے مے فروش خبر بھی ہے کہ مقام کون ہے کیا ہے شے
یہ رہ حرم میں دوکان مے تو یہاں سے اپنی دوکاں اٹھا
ریاض نے شراب حقیقی کے ذریعے عارفانہ شاعری کے جو اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں اس کی عظمت اور تقدس سے انکار ممکن نہیں۔ ریاض رضواں میں شامل بعض غزلیں ایسی ہیںجس میںاسلامی تاریخ مثلاََ حضور صلی علیہ وسلم کی ہجرت کے واقعات، فتح مکہ اور حوض کوثرکا ذکر بڑے ہی موثر انداز میں کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے :
اہلِ حرم بھی آکے ہوئے تھے شریک دور
کچھ اور رنگ آج مری مے کشی کا تھ
نسخہ بیاض ساقیِ کوثر سے مل گیا
گھر بیٹھے اب تو بادۂ کوثر بنائیں گے
ریاض فطرتاََ بہت شوخ اور زندہ دل واقع ہوئے تھے ۔ بات میں بات پیدا کرنا اور سنجیدہ معاملات کو اپنی خمریہ شاعری کا موضوع بنانا بھی انھیں بہت اچھا لگتا تھا۔شراب فطرت سے اپنی پیاس بجھانا یہ ایک بالکل اچھوتا لیکن دلچسپ انداز فکر ہے۔ ریاض کی شراب خوری کچھ ایسی انوکھی اور عالمگیر ہے کہ بہت سے ایسے اشعار ہیں جو زبان زد خاص و عام ہوچکے ہیں ۔ اکثر اشعار ایسے ہیں جنھیں بر محل سمجھ کر ہر جگہ لوگ اس طرح پڑھتے ہیں کہ انھیںیہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شعر کس شاعر کا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیں ؎

جہاں ہم خشت خم رکھ دیں ، بنائے کعبہ پڑتی ہے
جہاں ساغر پٹک دیں ، چشمۂ زم زم نکلتا ہے
ارے واعظ ، کہاں کا لا مکاں ، عرش بریں کیسا
چڑھی ہوتی جو کچھ ، تو ہم خدا جانے کہاں ہوتے

ریاض خیرآبادی کی شاعری کا ایک اور وصف ان کی زبان کا تھا ۔ خمریات تو بلا شبہ ان کی عالمگیر شناخت تھی لیکن زبان کا خوب صورت استعمال اور مضمون کے لحاظ سے ان کے فنی محاسن ، یہ ایسی خوبی تھی جس کا جواب نہ تو ریاض کی زندگی میں ممکن تھا اور نہ آج تک ممکن ہوسکا، افسوس کہ یہ لطیف اور وجد آور فنی محاسن تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ نہ تو مکمل طریقے پر ان کا شمار کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کی خاطر خواہ وضاحت ممکن ہے ۔جس طرح غالب کا کلام ان کی شوخی ِکلام کے لیے معروف ہے ۔اس سے کہیں زیادہ نادر شوخیاں ریاض خیرآبادی کے یہاں مل جاتی ہیں۔ شوخی کا مفہوم کیا ہے اس کا حسن استعمال ہم بڑی آسانی سے کلام ریاض میں تلاش کرلیتے ہیں ؎
کوئی منھ چوم لے گا اس نہیں پر
شکن رہ جائے گی یوں ہی جبیں پر
بلائیں بن کے ، وہ آئیں ہمیں پر
دعائیں ، جو گئیں عرش بریں پر

اس میں کوئی شک نہیں کہ شراب وشباب کے بعد ریاض خیرآبادی کے کلام میں شوخی و سرمستی کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں رجائی اور صحت مند جذبات کی فراوانی محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹر اعجاز حسین (سابق صدر شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی)ریاض کے شوخیِ کلام کے تعلق سے لکھتے ہیںکہ:
’’ ریاض صاحب کی عشقیہ شاعری میں شوخی کے ساتھ پر لطف طنز مزید شرارت اور حقیقت آمیز معاملات کی دنیا نظر آتی ہے‘‘
( مختصر تاریخ ادب اردو، ادارۂ فروغ اردو لکھنؤ ۱۹۶۵،ص۲۴۵ )
اس قول کی صداقت ریاض خیرآبادی کے حسب ذیل اشعارمیں ملتی ہے:

بوسے گن کر کبھی لیتے نہیں معشوقوں کے
ہمیں گنتی نہیں آتی نہ حساب آتا ہے
کتنے بوسے لیے اس بت کے بتا دیں کاتب
میں تو سنتا ہوں فرشتوں کو حساب آتا ہے
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ریاض خیرآبادی اپنے خاندانی ماحول اور خود اپنی فطری ذہنیت کے حساب سے ایک رند
پارسا تھے ۔ خمریہ شاعری تو بس ان کا ایک اسلوب ادا اور پیرایۂ اظہار تھا جس نے ان کے کلام پر انفرادیت کی مہر ثبت کردی ہے۔ رئیس احمد جعفری نے ایک انتہائی دلچسپ اور بلیغ ترکیب’’ رند پارسا‘‘ وضع کرکے ریاض خیرآبادی کی فطرت اور ان کی شاعری کا عطر مجموعہ پیش کردیا ہے۔

جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر ہوچکا ہے کہ تذکرۂ شراب وکباب غزلیات ریاض کا طرۂ امتیاز ہیں ۔ بلا مبالغہ ان کی کم ازکم 75 فیصد غزلیں مے خواری کی تفصیلات سے پُرہیں۔ شراب اور اس کے متعلقات پرکم وبیش ہرشاعر نے کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہے لیکن ریاض نے اسے اپنا مستقل موضوع بنایاہے حد تو یہ ہے کہ جب وہ کبھی میکدہ کا ذکر کرتے ہیں تو اس انداز سے کہ لفظ لفظ سے شراب ناب چھلکی پڑتی ہے ؎
جمع ہوجائیں گے مے نوش قیامت میں جہاں
حشر کا شور وہاں قلقل مینا ہوگا

ریاض کی شاعری میں شراب حقیقی سے مراد نہ توFrench Liquor نہ مرزا غالب کیEnglish Tomبلکہ یہ بادۂ عرفان الٰہی یا صوفی صافیوں کی شراب ہے۔ دراصل یہی وہ شراب ہے جو خوش نصیب ایمانداروں کو حاصل ہوا کرتی ہے۔ فارسی اور اردو کے اکثر شعرا تذکرۂ بادہ و میکدہ کو اپنے ساقی ناموں کا موضوع بناتے ہیں۔

کلام ریاض پر عمیق نظریں ڈالیں تو ان کی مختلف غزلوں میں شراب حقیقی کے ایمان افروز مناظر ہماری آنکھوں کو خیرہ کردینے کے لیے موجود ہیں۔ان کے مجموعۂ کلام ریاض رضواں کی تمہید ان ایمان پرور شراب حقیقی کے حوالواں سے ہوتی ہے ؎

کیا تجھ سے مرے مست نے مانگا مرے اللہ
ہر موج شراب اٹھ کے بنی ہاتھ دعا کا

ریاض کی شاعری میں شراب حقیقی یعنی شراب معرفت کا مقام نہایت بلند وبالا ہے ۔ انھوں نے رسول اکرم سے اپنی عقیدت اور تخلیقی قوت سے شراب حقیقی کے ذریعے اپنی پوری حمدیہ و نعتیہ شاعری کے جو نادرو نایاب نمونے پیش کیے ہیں اس کی نظیراردو کی خمریہ شاعری میں بہت کم لوگوں کے یہاںملے گی۔ ان کے نعتیہ کلام میں ایسے بے شمار اشعار موجود ہیںجن میںخود ریاض کی اپنی ذات پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ مثال کے طورپر ریاض رضواں میں شراب حقیقی کے زائیدہ یہ اشعار بھی بڑے کیف آور ہیں ؎
گئے ساتھ شیخ حرم کے ہم ، نہ کوئی ملا نہ لیے قدم
نہ تو خم بڑھا ، نہ سبو جھکا ، جو اٹھا تو پیر مغاں اٹھا
ملتی ہے درِ ساقیِ کوثر سے یہ خدمت
اس طرح کوئی پیر مغاں ہو نہیں سکتا

ریاض کا فیصلہ ہے کہ بغیر توفیق الٰہی کے کسی بڑے سے بڑے عابد وزاہد کی پیشانی سے نور توحید ضوفشاں نہیں ہوا کرتا۔مئے توحید کی سچی جھلک دیکھنی ہو توریاض کے یہ اشعارجو معرفت الٰہی کے جذبے سے سرشار ہیںدیکھئے ذیل کے دونوں اشعار میں ریاض نے ایسی بات کہی ہے جو شراب معرفت کا اصل مفہوم سمجھنے والا ہی کہہ سکتا ہے ؎
پی کر بھی جھلک نور کی منھ پر نہیں آتی
ہم رندوں میں جو صاحب ایماں نہیں ہوتا
بنائے کعبہ پڑتی ہے جہاں ہم خشت خم رکھ دیں
جہاں ساغر پٹک دیں چشمۂ زم زم نکلتا ہے

شراب فطرت بھی ریاض کے فلسفۂ خمریات کا ایک اچھوتا اور دلچسپ پہلو ہے ۔ اس شراب کے مختلف روپ ان کے غزلیہ اشعار میں نظر آتے ہیں جہاں شاعر نے مناظر قدرت کی براہ راست یا بالواسطہ عکاسی کی ہے ۔ غور کیجیے تو یہاں وہ انگریزی زبان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ولیم ورڈز ورتھ ،ہمارے شعرا اسمٰعیل میرٹھی، نظیر اکبرآبادی، حامداللہ افسر، درگا سہائے سرور اور شفیع الدین نیر کے ہم پایہ قرار پاتے ہیںکیونکہ انھوں نے مناظر قدرت ، باغ وبہار، جھیلوں پہاڑوں،چاند تاروں، موسموں کی آمد ورفت ، انسانوں کے مختلف النوع جذبات ، چرند پرند اور نفسیات انسانی کی شاعرانہ ترجمانی کی ہے۔ان چیزوں کے بیان میںبھی ریاض کی آنکھوں سے شراب کی عینک نہیں چھٹی۔اسے ان کے خمریاتی شعور کی معراج سمجھنا چاہیے۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئے ؎

در کھلا صبح کو پَو پھٹتے ہی میخانے کا
عکس سورج ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

اس شعر میںقدرتی منظر تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ کئی صنائع و بدائع لفظی و معنوی کا بے ساختہ اور بڑا فن کارانہ استعمال بھی ملتا ہے ۔ پہلے مصرعے میں صنعت محاکات کی بڑی خوب صورت کیفیت ہے۔ ’’ پَو پھٹنا‘‘ اس حقیقت کا غماز ہے کہ بہت تڑکے شاعر کا کاروبار مشاہدہ شروع ہوا۔ فارسی کا بہت عمدہ ہم معنی شعر بے ساختہ یاد آتا ہے کہ ؎
چُو صبح دم ہمہ مردم بہ کاروبار ، رَوَند
بلا کشان محبت ، بہ کوئے یار روند
مصرعۂ ثانی میں صبح کا گول اور سرخ سورج شاعر کو چھلکتے ہوئے پیمانے کی یا د دلاتاہے ۔ یہ پسند یقینا شاعر کے شدید شعور جمال کی نشاندہی کرتی ہے۔
ریاض کی شراب خوری کچھ ایسی انو کھی اور عالمگیر ہے کہ موسم بہار میں ابر سیاہ کے ٹکڑے خوشامدانہ انداز میں ریاض خیرآبادی کو دعوت مے نوشی دیتے ہیں ۔ یہ موسم بہار کا معجزہ ہے کہ شاعر کو پانی پی کر بھی نشہ سا محسوس ہوتا ہے۔سچ پوچھیے تو ریاض کا کلام شروع سے آخر تک شراب و شباب،رنگینی اور حسن و عشق کاایک جزو لاینفک ہے جو ان کی عملی زندگی کوتمام تر جزئیات کے ساتھ منعکس کرتا ہے ۔ اول تو ان کے سبھی مادی عشق کامیاب نظر آتے ہیں اور اگر کبھی ہجر وفراق یا رقیب رو سیاہ کا سامنا بھی ہوا تو انھوں نے اس کا اظہار معنی خیز تبسم سے کیا۔ ان کا معشوق مثالی یا خیالی ہزگز نہیں بلکہ انہی کی طرح گوشت پوست والا انسان ہے جس کی صرف جنس بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ ریاض کی عشقیہ شاعری میں کسی حد تک دبستان لکھنؤ کا خاص رنگ شامل ہے ۔
٭٭٭

Sanat-e-Ghair Manqootah Mein Manzoom Seeratunnabi

Articles

صنعتِ غیر منقوطہ میں منظوم سیرت النبی

ڈاکٹر رشید اشرف خان

اسلام ایک ایسا نو ر تھا جس کی کرنیں عرب کی سر زمینِ حجازسے پھوٹیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم کو منورکرگئیں اور آج تقریباََ ڈیڑھ ہزار سال کی مدت کے درمیان دنیا کے ہرمکتبۂ فکر کے علما اور شعرا نے سیرتِ نبوی کو اپنا موضوع بنایا اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی یا د گار تحریریں نظم ونثر کے پیرائے میں چھوڑی ہیں۔

اس تاریخی حقیقت سے کوئی صاحب علم انکار نہیں کر سکتاکہ جس طرح مختلف دنیوی علوم کو سمجھنے کے لیے مشکل کتابوں کی لغتِ اصطلاحات ،تراجم ، تفسیر یا زندہ استاذ کی مدد درکار ہوتی ہے اسی طرح کلام اللہ کوبخوبی سمجھانے والااور اس کی عملی تشریح کرنے والا بھی کوئی چاہئے۔ اس مقصد کے حصول کا واحد قابل قبول اور سا ئنٹفک وسیلہ سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ ہم حضور کی سیرتِ طیبہ سے بھر پور استفادہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت کی زندگی میں براہ راست اور آپ کے وصال کے بعد ، آپ کے اہلِ بیت ،آئمہ صحابۂ کرام اور محدثین ومؤرخین نے بالواسطہ آپ کی سیرت پاک اور اعمال و اقوال کو کتابوں کی شکل میں محفوظ کرلیا۔ ہر خطۂ زمین میں سیکڑوں زبانوں میں یہ اسلامی ادب لکھ لیا گیا اس کی تبلیغ وتشہیر کی گئی نیز اس پر مباحثے ،مناظرے ، محاکمے اور مصاحبے ہونے لگے۔ معلوم ہوا کہ قران حکیم کی صحیح قرأت اس کے مطالب کی صحت مند تفہیم اور تبلیغ کے لیے آپ کی سیرت مبارک بے حد مفید ، نا گزیر اور سبق آموز قرار پائی ۔ دیگر زبانوں سے قطع نظر صرف اردو زبان میں لکھی گئی سیرت کی کتابوں پر نظر ڈالئے تو آپ کو کئی مشہور کتابیں ملیں گی ۔ سر ولیم میور لفٹننٹ گورنر کی گستاخانہ کتابLife of Mohammad کے جواب میں لکھی ہوئی سر سید احمد خاں کی کتاب ’’ خطبات احمدیہ‘‘ کو بھلا کون بھلا سکتا ہے ؟ اسی طرح ہم شمس العلما مولانا شبلی نعمانی کو بھی فراموش نہیں کر سکتے جنھوں نے ۱۹۱۳ء میں بڑے روحانی جوش وسر مستی کے ساتھ ’’ سیرت النبی‘‘ لکھنے کا کام شروع کیا۔ اسی ضمن میں مولانا شبلی نے لکھاتھا کہ:

عجم کی مدح کی ، عباسیوں کی داستاں لکّھی

مجھے چندے، مقیمِ آستانِ غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبرِ خاتم

خدا کا شکر ہے ، یوں خاتمہ با لخیر ہونا تھا

اور واقعی خاتمہ بالخیر ہوا۔ وہ سیرت النبی کی پہلی جلد ختم کرکے دوسری جلد لکھ رہے تھے کہ ۱۸ نومبر ۱۹۱۴ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ وصیت کے مطابق ان کے لائق اور فرماں بردار شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی نے چھ جلدوں میں سیرت نگاری کی۔

اسلام کے تعلق سے اردو شاعری میں ’’ مدوجزر اسلام‘‘ (مسدس حالی )کا مرتبہ ہی کچھ اور ہے ۔ یہ مسدس مولانا حالی ؔ نے سر سید کی دوستانہ فر مائش پر ۱۸۷۹ء میں تصنیف کیا تھا۔قدرے تفصیلی مسدس حالی پر گفتگو نہ کرتے ہوئے صرف ایک بند پیش کرتا ہوں جس کا تعلق حضور کی سیرت پاک سے ہے:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروںکا ملجا ، ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی ، غلاموں کا مولا

نبیِ رحمت کی منظوم سیرت پاک کا ایک اور نادر نمونہ ’’ شاہنامہ اسلام ‘‘ بھی ہے جسے ابو الاثر حفیظ جالندھری نے نظم کرکے دنیاے ادب پر اپنا سکہ جمایا تھا ۔ حفیظ جالندھری کی تاریخ ولادت ۱۴ جنوری ۱۹۰۰ء بمقام جالندھر اور تاریخ وفات ۲۱ دسمبر ۱۹۸۲ء بمقام لاہور ہے۔

’’شاہنامہ اسلام‘‘ کا آغاز ایک خوبصورت اور وجد آور سلام سے ہوتا ہے جس کے اشعار آج تک خوش عقیدہ اربابِ ادب اور فرزندان توحید جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں:

سلام اے آمنہ کے لعل ، اے محبوب سبحانی

سلام اے فخر موجودات ، فحرِ نوع انسانی

سلام اے ظلّ رحمانی ، سلام اے نور یزدانی

ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوح پیشانی

ترا در ہو مرا سر ہو ، مرا دل ہو ترا گھر ہو

تمنا مختصر سی ہے ، مگر تمہید طولانی

چار جلدوں پر مشتمل ’’شاہنامہ اسلام ‘‘ کی پہلی جلد جو مثنوی کی شکل میں تھی ۱۹۲۹ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی تھی ۔ حفیظ جالندھری نے اپنی نظم کے لیے بحر ہزج مثمن سالم ( مفاعی لن ، مفاعی لن ، مفاعی لن ، مفاعی لن )کا انتخاب کیاہے جو عموماََ رزمیہ شاہناموں میں استعمال نہیں کی جاتی۔اردو میں حفیظ جالندھری کی یہ تصنیف پیرایۂ نظم میں اپنے موضوع پر پہلی کتاب تھی جس نے علم وادب کی دنیا میں شاہکار تصنیف و تخلیق کا مرتبہ ومقام حاصل کیا۔ ’’شاہنامہ اسلام ‘‘ کے بعد ایک مدت تک اس موضوع پر کوئی کام نہیں ہو ا لیکن انیسویں صدی میں اسی(۸۰) کی دہائی میںسیرت النبی کے موضوع پر ایک علمی کارنامہ پاکستان کی سر زمین سے وجود میں آیا ۔ پاکستان کے عالم مولانا ولی رازیؔکی فضیلت آفریں نورانی تالیف ’’ ہادیِ عالم‘‘ کے نام نامی کو فراموش نہیں کرسکتے۔یہ نثری تصنیف جو بے نقط اور سلسلۂ سیر مقدس میں اپنے انداز کی وجہ سے منفرد مرتبہ کی مالک ہے ۔مثال کے طور پر یہ اقتباس دیکھیے:

’’اس دور کی عام رسم رہی کہ مکہ کے سرداروں کے سارے لڑکے کسی دائی کے حوالے ہوں اور گاؤں کی کھلی ہوا کے عادی ہوں۔ رسول اکرم کی والدۂ مکرمہ کا ارادہ ہوا کہ رسم ِ مکہ کی رُو سے ولد مسعود کسی دودھ والی کے حوالے ہواور وہاں کا ماحول رسول اللہ کو سادگی کا عادی کرے‘‘
(ہادیِ عالم صفحہ نمبر ۴۵)

ہندوستان کی مشہور درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے اجتماع میںیہ سعادت، مقام دریاباد ، پوسٹ دودھارا ، ضلع بستی(یوپی) متوطن مولانا صادق علی قاسمی کے نصیب میں تھی کہ اجتماع کے دوران مولانا صادق صاحب کے کرم فرما مولانا عبدالرحیم صاحب کی ایما پر مولانا صادق نے یہ طے کیا کہ وہ مولانا رازی ؔ کی کتاب ’’ ہادیِ عالم ‘‘ کے نثری اور بے نقط متن کو لبا س نظم پہنائیں گے اور وہ بھی صنعت غیر منقوطہ کی مدد سے۔بظاہر یہ ایک بڑا چیلنج تھا لیکن جوش ایمانی اور فضل ربانی نے یہ مشکل بہر حال آسان کردی اور مولانا نے ۱۲۱ صفحات پر مشتمل پہلی جلد تخلیق کی۔جس کا تعلق مکی دور اور اسلامی معرکے سے ہے۔ ارباب علم اس بات کو بہ خوبی جانتے ہیں کہ اردو حروف تہجی میں غیر منقوط حرف کی تعداد بہت ہی کم ہے اور اس تنگ دامنی کے ساتھ شعری حدود وقیود کی پابندی، اسلوب اور زبان وبیان کی چاشنی کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سیرت النبی کے تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا صادق نے ’’ داعیِ اسلام ‘‘ لکھ کر جو نادرو نایاب تحفہ اہل اسلام اور اردو ادب کو دیا ہے اس کی نظیرپوری تاریخ اسلام اوردنیاے اردوادب میں نہیں ملتی۔اس کا اعتراف مذہبی علوم میں دسترس رکھنے والی بر گزیدہ شخصیات کے علاوہ زبان وادب کے ماہرین نے بھی کیا ہے ۔ مولانا صادق علی کی مذکورہ تصنیف کی تقریظ ممتاز عالمِ دین اور زبان وبیان کے نبا ض قاضی اطہر مبارک پوری نے لکھی تھی ۔تقریظ کے درج ذیل اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا صادق کی اس علمی وادبی کاوش کی تعلیم یافتہ طبقہ میں بھر پور پذیرائی ہوئی تھی ۔فضیلت الاستاذ قاضی اطہر مبارک پوری کی حسبِ ذیل تقریظ کا اقتباس ملاحظہ فرمایئے:

’’ صنعت بے نقط میں دس پانچ سطر یا صفحہ دو صفحہ لکھنا زیادہ مشکل نہیں اور نظم ونثر میں اس کی مثالیں پائی جاتی ہیںمگر اس تنگ دائرے میں رہ کر منظوم کتاب لکھنا دشوار سے دشوار تر کام ہے ۔اس کی پہلی مثال ’’ داعیِ اسلام ‘‘نامی کتاب ہے جس کو دارالعلوم دیوبند کے بوریہ نشین فاضل نے نظم میں لکھا ہے جس کے سامنے اردو زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو اعتراف و عقیدت کے ساتھ سر نگوں ہونا چاہیے‘‘
داعیِ اسلام صفحہ نمبر ۱۴؎

ٍ دور مغلیہ میں تاریخ ہندوستان گواہ ہے کہ جلال الدین محمد اکبر کے نورتنوں میں فیضی ؔ نے قران مجید کی غیر منقوطہ تفسیر ’’ سواطع اللہام ‘‘ فارسی نثر میں لکھی جسے ایک کمال سمجھاگیا تھا اسی طرح دور موجودہ میں مولانا محمد ولی رازی نے اپنی کتاب ’’ ہادیِ عالم ‘‘ غیر منقوطہ نثر میں پیش کی لیکن مولانا صادق بستوی نے غیر منقوطہ اور منظوم سیرت النبی تخلیق فرما کر ادب میں ایک نیا سنگ میل قائم کیا ہے ۔ مثال کے طور پر داعی اسلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمایئے جس کا تعلق وحی اول کی آمد سے ہے:

رہی عمرِ مکرّم ساٹھ کم سوسال داعی کی

حرا کی گود سے آمد ہوئی وحیِ الٰہی کی

کہا ! کرکے سلام اس کو کہو ، امرِ الٰہی ہے

کہا ! اُمّی ہوں ، ڈر کر ، حاکمِ کُل کی گواہی ہے

اب ہم اختصار کے ساتھ اس عہد ساز سیرتِ پاک ’’ داعی اسلام ‘‘ کی چند علمی وفنی خوبیوں کا ذکر کریں گے ۔یہ کتاب داعی اسلام کے صرف دور اول ( ماحول مکہ اور اسلامی معرکوں تک) کا احاطہ کرتی ہے ۔اس کتاب کے مطالعے سے مولانا کی فطرت ذہانت ،غیر معمولی قوت آخذہ اور الفاظ ولغات پر عبورکاپتہ چلتا ہے۔اکثر مقامات پر حقیقت اور شاعری کا اتنا دلکش امتزاج ہوجاتا ہے کہ اس پر منجانب اللہ الہام کا گمان گزرتاہے مثلاََیہ اشعار:

سلام اس کو کہ اک اُمّی ، مگر اک ہادیِ کامل

مطہّر اور طاہر ، اک رسول اک حاکمِ عادل

اسی دم لا الٰہ کہہ کے الّااللہ کہہ ڈالا

اسی لمحہ محمد کو رسول اللہ کہہ ڈالا

مولانا صادق نے اس کتاب میں عربی ، فارسی اور اردو الفاظ کے علاوہ ہندی اور کھڑی بولی کا بھی بے تکلفانہ استعمال کیا ہے ۔بس اس امر کا خیال رکھا ہے کہ کہیں نقطہ نہ آنے پائے ۔اس بارے میں ضرورتِ شعری یاPoetic Liscence سے بھی کام لیا ہے یعنی حرکات و سکونات کو بھی حسب مرضی کم اور زیادہ کردیاہے۔دوسری زبانوں کے الفاظ کے استعمال کے ضمن میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:

’’ شاعر نے عربی وفارسی کے علاوہ ہندی اور مقامی بولیوں کے الفاظ بھی ایسی چابک دستی سے استعمال کیے ہیں جو اس نظم کے مزاج سے اس طرح ہم آہنگ ہوگئے ہیں کہ کہیں جھول محسوس نہیں ہوتااگرچہ دو ایک جگہ ان کا استعمال کھٹکتا ہے پھر بھی کلام کی سادگی اور سلاست وروانی میں کہیں فرق نہیں آتا‘‘
داعیِ اسلام صفحہ نمبر ۲۴؎

’داعیِ اسلام‘‘ کی زبان و بیان کے متعلق گوپی چند نارنگ کے درج بالا خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس منظوم و غیر منقوط سیرت النبی میں سلاست و روانی نمایاں خصوصیت ہے ۔چند اشعار جو بطور مثال اوپرپیش کیے گئے ہیںان سے ہی بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نظم کے تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے شاعر نے مفہوم کی ادائیگی کے لیے کسی طرح کے تخلیقی جبر کو خود پر مسلط نہیں کیا ۔ہر چند کہ جس طرز کی یہ نظم ہے اس میں ایک ایک شعر کے لیے تفحص الفاظ کی انتہائی دشوار کن منزکوں سے گزرنا پڑتا ہے جس کا عکس تصنیف پر واضح طور پر نظر آتا ہے ۔لیکن ’’داعیِ اسلام ‘‘ از ابتدا تا انتہاسلاست وروانی کی بہترین مثال ہے۔اس کے علاوہ مقامی بولیوں کے غیر منقوط الفاظ کا فن کارانہ استعمال لسانیاتی سطح پر مولانا صادق علی صاحب کی بالغ النظری کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

مولانا صادق صاحب نے ’’ داعیِ اسلام‘‘ کی شکل میں جو تاریخی اور مثالی تخلیق پیش کی ہے اس کے لیے بیک وقت کم از کم دو علوم پر مکمل پر مکمل دسترس درکار تھی۔موضوع کے اعتبار سے مذہبی تاریخ سے واقفیت اور اسلوب کے اعتبار اردو زبان پر مکمل دسترس کے علاوہ شعری تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری تھا۔ اس حوالے سے کہا جاسکتاہے کہ مولانا ان دو نوں مراحل سے بہ حسن وخوبی گزرے ہیں ۔ ان کی یہ شعری کاوش اردو کے ادبی سرمائے کا بیش قیمت شاہکار ہے جس پر اردو شعر وادب کو ہمیشہ ناز رہے گا۔

Majrooh Sultanpuri Ki Shaeri Ke Chand Pahloo

Articles

مجروح سلطانپوری کی شاعری کے چند پہلو

پروفیسر صاحب علی

میں اپنی گفتگو کا آغاز مجروح سلطان پوری کے اس خیال سے کرنا چاہتا ہوں جس کا ظہار انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعۂ کلام ’’ غزل‘‘ میں کیا تھا۔ مجروح نے لکھا ہے :

’’ میرے نزدیک شاعری کی پہلی اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سامع اور قاری کے خیالات اور جذبات کی رفیق ہو،ا س کے بغیر نہ تو اسے قبول عام کی سند مل سکتی ہے اور نہ اسے معتبر کہا جاسکتا ہے ۔ ایک بات اور کہ وہ اعلیٰ سے اوسط درجے کے اذہان کے لیے سہل الحصول ہوــ‘‘

مجروح سلطان پوری کی اس کسوٹی پرجب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری قبول عام کی سند بھی رکھتی ہے ، ذہنوں کے مختلف دائروں کے لیے سہل الحصول بھی ہے اور اپنی طرف بڑھنے والے خیالات وجذبات کی رفیق بھی ہے۔ یہاں پروفیسر وارث کرمانی کے اس خیال پر بھی ایمان لانے کا جی چاہتا ہے جو انھوں نے مجروح کے معیاری کلام کی مقبولیت کے تعلق سے لکھا ہے:

’’ غالب کے بعد اگر اردو کی پوری غنائی شاعری کے صرف ایک ہزار شعروں کا انتخاب کیا جائے جس میں حالی ، داغ ، اقبال اور نہ جانے کتنے بلند اقبال شاعر نظر آجائیںگے اور اگر بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام شاعروں کے کلام سے سو بہترین غزلیں منتخب کی جائیں تو اس میں مجروح کی کئی غزلیں آجائیں گی، اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ اگر ایسے اشعار کو یکجا کردیا جائے جواِس وقت باذوق لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں تو اُن میں مجروح کے شعروں کی تعداد اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ ہوگی‘‘

مجروح سلطان پوری نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت ملک کی آزادی کے لیے مسلسل جد وجہد جاری تھی۔ ہمارے ادبا وشعرا ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہورہے تھے۔ اس تحریک کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ قلم کار اپنے ذہن ودل کی کھڑکیوں کو کھول دے ، عوامی زندگی سے براہِ راست تعلق پیداکرے تاکہ اسے اپنے عہد ، حالات اور ماحول کا گہر اشعور ہو۔ مختصر یہ کہ شعرا کا وہ نوجوان گروپ جن کی آنکھوں میں رومان کے نہ جانے کتنے خواب رچے بسے تھے ۔حسن وعشق کی تصوراتی وادیوں سے گزر کر حقیقت کی سنگلاخ وادیوں تک پہنچ گئے۔ نوجوان قلم کاروں کا یہ وہ کارواں تھا جو آنکھوں میں آزادی کا خواب اور دل میں نئی سحر کی تمنا لیے نکلا تھا۔ مجروح بھی اس کارواں میں شامل تھے۔ انھوں نے زیادہ تر غزلیں کہیں جو ابتدا میں رومان پرور تھیں ۔ اس نوع کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں ، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

ترا ہاتھ ، ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
اب سوچتے ہیں لائیں گے تجھ سا کہاں سے ہم

اُٹھنے کو تو اٹھ آئے ترے آستاں سے ہم

اُس نظر کے اُٹھنے میں اُس نظر کے جھکنے میں

نغمۂ سحر بھی ہے آہِ صبح گاہی بھی

وہ لجائے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر

اُڑی چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے

سوال ان کا ، جواب ان کا ، سکوت ان کا خطاب ان کا

ہم ان کی انجمن میں سر نہ کرتے خم تو کیا کرتے

یہاں چند اشعار درج کردیے گئے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مجروح کے کلام میں ایسے اشعار بھرے پڑے ہیں جن میں رعنائی ، حسنِ ادا اور ایسا بانکپن ہے جو ہر کسی کو اپنی طرف متو جہ کرلیتا ہے اس کے باوجود مجروح نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثررومان کی وادی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور انقلاب اور بغاوت کی جانب رخ کیا ۔ اِس سے ان کے دل میں انقلاب کے لیے نہ صرف ادب و احترام کا جذبہ بیدار ہوا بلکہ اس جذبے نے انھیں نیا عزم و حوصلہ عطا کیا اور مجروح ہر چیلنج کو مسکرا کر قبول کرلینے کے لیے تیار ہوگئے ۔ یہ چیلنج سماجی ذمہ داریوں کاتھا جس پر ترقی پسند تحریک کا پورا منشور ٹکا ہواہے۔ مختصر یہ کہ فاشسٹ قوتوں کے خلاف انھوں نے تمام مظلوموں کو متحد ہوکر نبرد آزما ہونے کا پیغام دیا۔ اس پیغام میں مجروح نے اپنی بات کو کچھ اس سلیقے سے کہی کہ ان کی بات وقتی نعرہ بازی نہ ہوکر ہر عہد کا پیغام بن گئی۔ اس ضمن میں چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

ستونِ دار پر رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے اُسی بانکپن کے ساتھ

روک سکتا ہمیں زندانِ بلا کیا مجروح

ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں

یہ محفل اہل دل ہے یہاں ہم سب میکش ، ہم سب ساقی

تفریق کریں انسانوں میں اِس بزم کا یہ دستور نہیں

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوش بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

ہم قفس ! صیاد کی رسمِ زباں بندی کی خیر

بے زبانوں کو بھی اندازِ کلام آہی گیا

وہی آستاں ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستیں

دلِ زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے

فکر کی وسعت اور جذبے کی گہرائی رکھنے والے اس طر ح کے اشعار مجروح کی غزلوں میں زیادہ ملیں گی،اور اسی سبب سے وہ ترقی پسند تحریک کے Selectedشاعروں میں تصور کیے جاتے ہیں ۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ مجروح نے غزل کی کلاسیکی روایت میں سیاسی رمزیت کو نغمہ بنایا ہے اور اس معاملے میں فیض احمد فیض ہم دوش اور ہم قدم نظر آتے ہیں۔ اس کا احساس مجروح کو بھی تھا چنانچہ وہ کہتے ہیں :

ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروح

سب کی اور سب سے جدا پنی ڈگر ہے
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مجروح نے محض ترقی پسندانہ جذبات و خیالات ہی کی شاعری نہیں کی بلکہ تغزل کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا ۔ ان کے کلام میں وہ حصہ جس کی وجہ سے وہ اردو غزل کی دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی غزل ان کی ایسی ہو جس میں کلاسیکی تغزل کا دلکش نمونہ نہ ملتا ہو۔ اس ضمن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

ادائے طولِ سخن کیا وہ اختیار کرے

جو عرض حال بہ طرز نگاہِ یار کرے

بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے

ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

شب ِ انتظا ر کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی

کبھی اِک چراغ جلادیا ، کبھی اکِ چراغ بجھا دیا

مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام

ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح

ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ

سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے

کہا جاتا ہے کہ مجروح سلطان پوری کے ابتدائی دور کی شاعری جگر مرادآبادی اور اصغر گونڈوی سے متاثر ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ مجروح نے اپنی شاعری کا آغاز اُسی رنگ میں کیا اور اصغر وجگر والے عاشقانہ انداز سے اپنے کلام میں جمالیاتی کیفیت جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئی اور اس کی آب وتاب میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا ۔ ایک بات یہاں اور عرض کرتا چلوں کہ مجروح کی شاعری اساتذۂ فن کی نقل نہیں بلکہ فکری اعتبار سے کئی جہتوں میں اُن سے ایسے آگے نکل گئی ہے جیسے ارسطو اپنے استاد افلاطون سے مختلف ہوگیا تھا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مجروح سلطان پوری مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ اسی لیے اردو کے علاوہ انھیں عربی و فارسی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کے کلام میں چست بندشوں اور خوش آہنگ ترکیبوں اور اضافتوں کا فن کاری سے استعمال ہوا ہے۔علاوہ ازیں مجروح نے اپنی شاعری میں ٹھیٹھ روایتی علامتیں بھی استعمال کی ہیںجیسے آبلہ پائی، نقش پا ، خار، چمن اور جنوںوغیرہ کے ساتھ ترقی پسندانہ علامتیں بھی ہیں مثال کے طور پر دار، رسن ، زنداں ،سحر ،زنجیر، کلاہ اور مقتل وغیرہ۔ ان کی بندش مجروح نے ہر بار نئے پیرائے اور نئے اسلوب سے کی ہے ۔ ان کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ مجروح کا اپنا ایک وضع کردہ ڈکشن ہے جس پرانھیں فخر ہے:

دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں

میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

در حقیقت مجروح سلطان پوری ایک ایسے معتبر شاعر ہیں کہ انھوں نے اپنے معاصرین کے مقابلے میں بہت کم لکھا،لیکن بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کے کچھ اشعار اس قدر زبان ِ زد خاص وعام ہوئے کہ ان کی حیات کا سامان بن گئے۔ جب بھی کسی کو مجروح کی تلاش ہوگی تو اِ نھیں مقبول عام اشعار کے توسط سے مجروح کا سراغ ملے گا۔

Shahr Yaar (Jamaliyaat Ke Tanazur Meim)

Articles

شہریار (جمالیات کے تناظر میں)

ڈاکٹررشیداشرف خان

آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے

ہم نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے
محتاط اور مستند ذرائع کے مطابق یہ کنور اخلاق محمد خاںشہر یا رؔ کا آخری شعر ہے جو انھوں نے اپنی موت سے چند روز پہلے کہا تھا۔ شہر یار کی ولادت ۱۷؍جون ۱۹۳۶کو ان کے آبائی وطن آنولہ ضلع بریلی اترپردیش میں ہوئی تھی۔ان کے آبا واجداد راجپوت تھے ، پرتھوی راج چوہان کے زمانے میں ان کے بزرگ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ شہریار کے والد کا نام کنور ابو محمد خاں تھا اور والدہ بسم اللہ بیگم تھیں۔کنور ابو محمد خاں محکمۂ پولیس میں انسپکٹر تھے ۔ شہر یار کے والد جب بہیڑی ضلع بریلی میں تعینات تھے تو وہیں شہریار کی رسم بسم اللہ ہوئی ۔ مذہبی رسوم کے علاوہ طوائفوں کا ناچ بھی ہوا اور انھیں کے ہاتھوں ان طوائفوں کو انعام و اکرام بھی دلایا گیا۔گھرانا خوش حال تھا ،محلے میں طوائفیں رہتی تھیں اسی لیے شہر یا ر بچپن ہی سے آزاد اور نقشے باز بن گئے تھے۔اپنے ایک انٹر ویو میں شہر یار نے کہا تھا:

’’ امراؤ جان سے میری دلچسپی اور اس کے گانوں میں جو اثرات دکھائی دیتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بچپن میں طوائفوں کے ساتھ میرا بہت رہنا ہوا۔ ہوسکتا ہے اس کا اثر میری شاعری پر بھی پڑا ہو‘‘
( بحوالہ شہر یا ر حیات و خدمات از ڈاکٹر ساجد حسین ص نمبر ۵۰)

ملازمت سے سبک دوشی کے بعد شہر یار کے والدمع اہل وعیال علی گڑھ منتقل ہوگئے اور جمال پور میں مستقل سکونت اختیار کی۔شہر یارنے ۱۹۵۶میں ہائی اسکول پاس کیا اور پی ایچ ڈی تک کی اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ یہیں پر ان کی ملاقات خلیل الرحمن اعظمی سے ہوئی ۔شہر یار کے سوانحی کوائف کا بالاستیعاب مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خلیل الرحمن اعظمی اور شہر یار ایک دوسرے سے بے پناہ محبت رکھتے تھے چنانچہ بڑے مبالغہ آمیز انداز میں شہر یار کے بے تکلف دوست بیدار بخت نے عجیب و غریب جملہ لکھا ہے:

’’شہریار کو خلیل الرحمن اعظمی سے اتنی شدید عقیدت اور محبت ہے ،جیسی شاید امیر خسرو ؔ کو اپنے پیر ومرشد نظام الدین اولیا سے رہی ہوگی‘‘

(مضمون : شہر یار مشمولہ سورج کو نکلتا دیکھوں ص ۲۲)

شہر یار کی زندگی کا تانا بانا ان کی زندگی میں ظہور پذیر ہونے والے اہم اور غیر اہم واقعات کی یکجائی یا باہمی موانست کا زائیدہ تھا۔ ممکن ہے کہ بہتوں کو اعتراض ہو کہ یہ کوئی بات نہ ہوئی ، دنیا میں سبھی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے ۔ بہرحال یہ کہنا مبنی بر مبالغہ نہ ہوگا کہ شہر یا ر محض ایک شاعر اورمعمولی عقل وہوش رکھنے والے انسان نہ تھے بلکہ غیر معمولی قوت احساس ، انفرادی فکر اور مشاہدۂ کائنات کاتجزیاتی شعور رکھنے والے عبقری بھی تھے ۔

تقریباََ ۶۸۶ صفحات پر مشتمل کلیات شہر یارمیں غزلوں کے علاوہ مختصر و طویل نظمیں بھی شامل ہیں۔ان کے موضوعات الگ الگ ہیں اور ان کا فنی اسلوب بھی ایک دوسرے سے جداگانہ ہے لیکن موج تہہ نشیں کی طرح بیشتر غزلوں اور نظموں میں جمالیاتی کیفیت قریب قریب سبھی میں نمایاں ہیں۔
اگر ہم فلسفہ ٔ جمالیات کا عمیق مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ’’جمال ‘‘دراصل’’حسن‘‘ کا مترادف نہیں ہے بلکہ یہ ایک قلبی کیفیت ہے جو کسی بھی واقعہ ، کردار یا تجربے کی وجہ سے ہم پر طاری ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیے:

اے مرے زخم دل نواز ، غم کو خوشی بنائے جا

میں یونہی تڑپے جاؤں گا ، تو یونہی مسکرائے جا

شہر یار کی ذہنی بلوغت اور احساسات و جذبات کی پختگی خالصتاََ ان کی مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دین ہیں ۔’’سورج کو نکلتا دیکھوں ‘‘ شہریار کے جملہ کلام کا پختہ اور بلند انتخاب ہے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بلند شاعری وہی شاعری کہی جاسکتی ہے جس میں فی الحقیقت جمالیاتی عظمت کی تلاش محسوس کی جاسکتی ہو۔مثلاََشہریار کے پہلے مجموعۂ کلام ’’اسم اعظم‘‘ میں شامل ایک مختصر سی نظم جس کا عنوان ’’موت‘‘ ہے ۔ یہ نظم انھوں نے ۱۹۶۵میں کہی تھی:

ابھی نہیں ، ابھی زنجیر خواب برہم ہے

ابھی نہیں ، ابھی دامن کے چاک کا غم ہے

ابھی نہیں، ابھی درباز ہے امیدوں کا

ابھی نہیں ، ابھی سینے کا داغ جلتا ہے

ابھی نہیں، ابھی پلکوں پہ خوں مچلتا ہے
ابھی نہیں ، ابھی کم بخت دل دھڑکتا ہے

موت کو آنے سے روکنا انسانی فطرت ہے ۔ شہر یا ر کی مذکورہ نظم میں کوئی انہونی بات تو نہیں معلوم ہوتی لیکن جمالیاتی شاعری کے لیے موت کو مختلف بہانوں سے ٹالنا ایک نیا نیا سا پہلو ضرور لگتا ہے ۔ یہ سیدھی سادی روایتی شاعری کی شان نہیں ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ اگر اس نظم کا کوئی بھی مصرع نکال دیں تو نظم کا سارا تاثر ہی ختم ہوجائے گا۔

جرمن مفکر بام گارٹن جس کا زمانۂ حیات ۱۷۱۴ء تا ۱۷۶۲ء تک ہے نے اپنے تحقیقی مقالے Aestheticaمطبوعہ ۱۷۵۰ء میں اپنی علمی تحقیق کا لب لباب یہ پیش کیا تھا کہ حسن کے تمام مظاہراور احساس حسن کی تمام کیفیات جو ہم اپنے حواس خمسہ کی مدد سے محسوس کرسکیں وہ سبھی فلسفۂ جمالیات کے دائرے میں آسکتی ہیں ۔اس زاویہ نظر سے اگر ہم شہر یار کلام کا فنی تجزیہ کریں تو بام گارٹن کی تعریف کا عملی پہلوسامنے آجاتا ہے۔

’’قرب قیامت‘‘ شہر یار کی ایک ایسی نمائندہ نظم ہے جس میں شاعراندھیرے اور اجالے کو اپنے احساس جمال کی عینک سے دیکھتا ہے تو یہ دونوں غیر مرئی اور بظاہر حسیات سے ماورا اشیا بالکل اسی طرح شاعر کی بنیادی توانائی بن جاتی ہیں ۔ ’’قرب قیامت‘‘ کہنے کو تو ایک مختصر سی نظم ہے لیکن اس کے اندر بے پناہ گونج اور شعلگی پوشیدہ ہے:

اندھیرے کا سَر جو، اجالے کی تلوار سے کاٹتی تھی

سیہ بختوں کو روشنی بانٹتی تھی

جو تنہائی کی کھائی کو پاٹتی تھی

اس آواز کو بھی ہوا کھا گئی ہے

قیامت بہت ہی قریب آگئی ہے

نظم کا جمال ’’آواز‘‘ کے غیر واضح ابہام میں پوشیدہ ہے ۔ قاری کے ذہن میں یہ سوال بجلی کی طرح کوند جاتا ہے کہ آخر وہ آواز کیا تھی اور کس کی تھی جس میں اتنی سکت تھی جو اجالے کی تلوار سے اندھیرے کا سر کاٹ دے ، سیہ بختوں کو روشنی بانٹے اور تنہائی کو مٹا دے ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ شاعر کے ضمیر کی آواز ہو لیکن اتنا تو یقین ہے کہ اس پر اسرار آواز کی حقیقت ہم معمولی آلۂ سماعت آلۂ مکبّرالصوت آلۂ ناقل الصوت یا اور کسی جدید ترین سائنسی مشین کی مدد سے نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے لیے تو مطالعۂ باطنی سے کام لینا پڑے گا جو فلسفۂ جمال کی بنیاد ہے۔ شاید اسی کو ہمارے صوفیاے کرام نے ’’وجد‘‘ اور’’جذب‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت ابدی کی طرف اشارہ کیاہے ؎

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی

شہر یار کو اپنی ۷۵سالہ زندگی میں کئی زبردست صدموں سے دوچار ہونا پڑا ۔پانچ بھائی بہن انھیں کے سامنے اللہ کو پیارے ہوگئے ۔والد سے ناراض ہوکر خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ رہنے لگے یہ بات بیگم نجمہ شہریا ر کو ناپسند تھی ،آخر وہ شوہر سے الگ ہوگئیں ۔ پھر شہر یار کے دوستوں میں خلیل الرحمن، مغنی تبسم، وحید اختر، منیر نیازی ، اقبال صدیقی ، اسعد بدایونی اور ہمایوں ظفر زیدی بھی وفات پاگئے۔ان پیہم صدموں کا ردعمل یہ ہوا کہ شراب خوری بڑھ گئی ،رات رات بھر جاگتے اور ہر وقت اداس رہتے ۔ظاہر ہے کہ ایسے میں شاعر کا حساس دل قنوطیت اور مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ شہریار چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معروف انسان تھے اس لیے اپنے جذبات کی تصعید۔ تسہیل کے لیے انھوں اپنی شاعری میں جمالیات کا سہارا لیا۔ دراصل جمال کسی چیز ، شعر ،تعمیر وغیرہ کے ظاہری حسن کا نام نہیں بلکہ اس حسین شے کو دیکھ کر دیکھنے والے یا سننے والے کے دل ودماغ پر جو کیف و سرور ، نشاط وانبساط طاری ہوتا ہے وہی جمال ہے ۔تاج محل میں جو خوبصورتی ہے ،جمال اس کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کی پسندیدگی کو دیکھتا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر حسن موضوعی یا باطنی ہوتا ہے جب کہ جمال خارجی یا مفعولی ہے۔ حسن وجمال کے اس امتیاز کو قسیم ہلوری نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے:

عشق کا حسن کہاں دیکھ سکے اہل جہاں

ورنہ یوسف سے زیادہ تھا زلیخا کا جمال

اپنے مذکورہ بالا نظریہ کی وضاحت کے لیے شہر یار کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

تمھاری ہجرنوازی پہ حرف آئے گا

ہماری مونس و ہمدم اگر شراب ہوئی

وہ میں نہیں عدو سہی ، خوشی یہ ہے کہ دہر میں

کوئی تو سرخرو ہوا ، کوئی تو سر بلند ہے

ایک عالم ہے کہ اس سمت کھنچا جاتا ہے

جانے وہ کون سی خوبی رسن و دار میں ہے

پہلے شعرمیں’’ہجر نوازی‘‘ نہ صرف ایک تازہ ترین ترکیب ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ شاعر کے شدید ’’احساس جمال‘‘ کی غماز بھی ہے یعنی طنز کے ساتھ ساتھ شاعر اپنی بے وفا محبوبہ کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے کہ تم نے میری طرف سے بے اعتنائی کرکے مجھے شراب کی لذت آشنا کیا ۔ اب اس عادت کو چھوڑ نہیں سکتا ۔ لوگ سمجھیں گے کہ تم نے ’’اذیت کوشی ‘‘ سیکھ لی یا پھر میں نے تمھارا کوئی بدل ڈھونڈ لیا یہ بات آداب محبت کے خلاف ہے لہٰذا مجھے تنہائی میں شراب پینے دو تاکہ ہم دونوں کی محبت پر حرف نہ آئے۔

دوسرے شعر میں شہر یار جمالیاتی حس کی ارفع منزل پر نظر آتے ہیں ۔ عمومی شاعر جو دنیوی محبت کا شکار ہوتا ہے وہ بڑا خود غرض اور کم ظرف ہوتا ہے ۔ کیا مجال ہے کہ اس کے محبوب کو کوئی اپنائیت کی نظر سے دیکھ لے۔ عاشقی میں رقابت کی سرے سے گنجائش نہیں ۔اسے ہمیشہ رقیب روسیاہ کے برے نام سے یا کیا گیا ہے۔ مومن خان مومن نے کیا خوب کہا ہے:

اس نقش پا کے سجدے نے، کیا کیا کیا ، ذلیل

میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

دوسرے شعرا کے برعکس شہریار کا جمالیاتی انداز فکر دیکھیے کہ وہ نہایت صحت مندانہ اور مثبت وضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میرے بجائے وہ میرے دشمن پر مہربان ہیں تو یہ بات میرے لیے عین مسرت کی ہے۔

تیسرے شعر میں شہر یار نے رسن ودار کی تکلیف پر مایوسی یا غم کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے ’’خوبی ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اپنی رجائیت اور دلی مسرت کا ثبوت دیا ہے یہ ان کے عشق جمالیات کا معجزہ ہے کہ انھوں نے رسن ودار کو زندگی کا پیغامبر ثابت کیاہے ۔

کلیات شہریار کا غائر مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انھیں خوابوں سے والہانہ عشق ہے ۔ وہ سوتے جاگتے ، لوگوں سے ملتے جلتے اور لکھنے پڑھنے کے دوران خواب دیکھنے کے عادی ہیں ، نیند کو ان سے چڑ ہے اور انھیں نیند سے نفرت ہے۔ایسا نہیں کہ وہ نفسیاتی بیماری یا بے خوابی کے مریض ہیں بلکہ وہ جان بوجھ کر بے دار رہنا چاہتے ہیں ۔ان کی فطرت ایسے ادھ کچرے اور فیشنبل روڈ سائڈ رومیوز (Road Side Romeos)کی سی نہیں ہے ۔

جو راتوں کو اٹھ اٹھ روتے ہیں ،جب سارا عالم سوتا ہے

ان کی بے داری حادثاتی یا نیوراتی اعصابی عارضہ نہیں ہے بلکہ اس کاسبب جمالیاتی شدت ہے جس کی حقیقت ان کے حسب ذیل شعر کو پڑھ کر اور سمجھ کر معلوم کی جاسکتی ہے:

راتوں کو جاگنے کے سوا اور کیاکیا؟

آنکھیں اگر ملی تھیں ، کوئی خواب دیکھتے

مذکورہ شعر میںبات چھوٹی سی ہے کہ ہمیشہ کہ طرح شاعر کو نیندنہیں آئی بلکہ کمال تو یہ ہے کہ شاعرنے بیانیہ اور ڈرامائی رنگ دے کر خالص جمالیاتی اسلوب میں اپنی مستقل بے خوابی کاافسانہ سنایا ہے جو دلکش بھی ہے اور سامع نواز بھی ۔شاعر نے استعاراتی لب ولہجہ میں اپنی داستان پیش کی ہے جس نے بیان میں قوت اور شعری لطافت پیدا کردی ہے۔جمالیات کے ضمن میں دور حاضر کے ممتاز نقاد شمس الرحمن فاروقی کے یہ جملے اپنے اندر بڑاوزن اور وقار رکھتے ہیں :

’’ پرانی اور نئی شاعری کا فرق دراصل رویہ کا فرق ہے یعنی شاعری کے بیشتر موضوعات تو وہی ہیں ، لیکن ان کے بارے میں شاعر کا رویہ بدل گیا ہے۔ مثلاََ جہاں احترام تھا وہاں استہزا ہے ، جہاں اعتقاد تھا اب وہاں تشکیک ہے۔جہاں اعتقاد تھا وہاں اب خود اپنے اوپر اعتبار نہیں ۔ شاعری اعتقاد کی بنا پر قائم ہوسکتی ہے اور تشکیک کی بنا پر بھی۔‘‘

(اثبات و نفی: مضمون سکوت سنگ اور صداے درد ص ۱۷۵)

<br/
شہر یار نے اپنی شاعری میں ان دونوں رویوں سے کام لیا ہے ۔اس کی سب اہم وجہ یہ ہے کہ وہ بطور خاص جمالیات کے عاشق ہیں۔اس جمالیات کا خمیر اعتقاد اور تشکیک دونوں ہی کے امتزاج سے تیار کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیے جس میں اعتقاد کی کار فرمائی ہے :

جمع کرتے رہے جو اپنے کو ذرہ ذرہ

وہ یہ کیا جانیں ، بکھرنے میں سکوں ملتا ہے
اور یہ شعر شہریارکے جذبۂ تشکیک کی بہترین جمالیاتی تخلیق ہے:

بلندیوں کی ہوس ہی زمین پر لائی

کہو فلک سے کہ اب راستے سے ہٹ جائے

مذکورہ بالا تمام گفتگو اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ باوجودیکہ شہریار نے نہ تو فلسفۂ جمالیات کا باقاعدہ مطالعہ کیا تھا اور نہ ان کے زمانے تک جمالیات کی حقیقت اور اس کے فنی ارتقا کے اصول مرتب ہوئے تھے اور شاید بام گارٹن، ہیگل اور اطالوی عالم کُروچے کی کتابیں بھی نہ پڑھی ہوں گی لیکن ان کا علم سخن وری کتابی کم اور وہبی زیادہ تھا ،اسی لیے قدرت نے انھیں احساس جمال کی ویسی صلاحیت عطا فرمادی تھی جیسی کہ وہ مچھلی کو تیرنے اور پرندوں کو اڑنے کی صلاحیت بخشا کرتی ہے

UrduChannel 31

Articles

UrduChannel 31