Prem Chand: life and critical study

Articles

پریم چند کا افسانہ کفن

پریم چند

پریم چند : ایک نظر میں

قمر صدیقی

پریم چند کا خاندانی نام دھنپت رائے تھا۔۳۱؍ جولائی۱۸۸۰ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہر بنارس سے چار پانچ میل دورایک چھوٹے سے گائوں لمہی میں پیدا ہوئے۔ احباب خانہ انھیں پیار سے نواب رائے کے نام سے پکارتے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اسی نام سے کچھ تحریریں بھی قلمبند کیں۔ منشی پریم چند کے والد منشی عجائب لال ڈاکخانے میں ملازم تھے۔ پریم چند کی ابتدائی تعلیم گائوں میں ہوئی ۔ اردو اور فارسی پڑھنے کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کرکے پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوگئے۔ چونکہ پریم چند کو تعلیم کا شوق تھا لہٰذا تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دیا اور ترقی کرتے کرتے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
پریم چند کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ ۱۹۰۲ء میں ٹریننگ کے لیے الہ آباد کے ایک کالج میں داخل ہوئے تو ان کی طبیعت ناول نگاری کی طرف ملتفت ہوئی۔ یہیں انھوں نے اپنا پہلا ناول ’’اسرارِ معبد‘‘ کے نام سے لکھنا شروع کیا جس کی کچھ قسطیں بنارس کے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔ اسی زمانے میں پریم چند نے رسالہ ’’زمانہ‘‘کانپور کے لیے پابندی سے افسانے اور مضامین بھی لکھنے شروع کیے۔ ۱۹۰۸ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔چونکہ اس مجموعہ میں شامل مشمولات حب وطن اور آزادی کے جذبات سے مملو تھے۔ لہٰذا انگریز حکومت سے اسے ضبط کرکے نذرِ آتش کردیا۔’’سوزِ وطن‘‘ تک کی بیشتر تحریریں پریم چند نے نواب رائے قلمی نام سے تحریر کی تھیں۔ انگریزوں کے معاندانہ رویہ کے پیش نظر منشی دیا نرائن نگم کے مشورے پرانھوں نے پریم چند کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا اور اسی نام سے مقبول ہوئے۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اردو افسانے کو ابتدائی دور میں ہی کچھ ایسے افسانہ نگار مل گئے جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف مزاج رکھتے تھے۔ پریم چند ایک رجحان کی ترویج کر رہے تھے ، راشد الخیری دوسرے اورسجاد حید ر تیسرے نظریے و رجحان کے علمبردار تھے۔ لیکن پریم چند کی مقصدیت راشد الخیری کی اصلاح پسندی اور یلدرم کی رومانیت پر بازی لے گئی۔مقصدیت اور اصلاح کے پہلو نے پریم چند کے فن کو اتنا غیر معمولی بنادیا کہ وہ اردو افسانے کے سچے بنیاد گزار تسلیم کیے گئے۔ راشد الخیری اور سجاد حیدریلدرم کے رجحانات کی نیاز فتح پوری ، مجنوں گوکھپوری ، مہدی الافادی اور قاضی عبدالغفار کے بعد کوئی خاص تقلید نہ ہوئی۔ جبکہ پریم چند کی مقصدیت کا سدرشن ، علی عباس حسینی ، اعظم کریوی وغیرہ نے تتبع کیا اور ان بعد کے افسانہ نگاروں نے اس روایت کو مزید آگے بڑھانے میں معاونت کی۔اسی لیے سمجھا جانے لگا کہ پریم چند اردو افسانے کے موجد ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ مختصر افسانے کی ابتداکا سہرا توراشد الخیری اور سجاد حیدر یلدرم کے سر ہی بندھے گا۔ البتہ فنی اعتبار سے پریم چند راشد الخیری پر سبقت لے گئے ہیں۔
پریم چند کی افسانہ نگاری پر غور کیا جائے تو بتدریج ارتقانظر آتا ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ’’سوز وطن ‘‘ سے لے کر آخری دور کے مجموعوں ’’واردات ‘‘ اور ’’زادراہ‘‘ کے افسانوں میں واضح فرق ہے۔ لہٰذا ان کی فسانہ نگاری کے مختلف رویوں اور رجحان کے مطالعہ کے لیے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور۱۹۰۹ء سے لے کر۱۹۲۰ء کے عرصہ پر محیط ہے۔ دوسرا دور۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۲ء تک اور تیسرا دور جو نسبتاً مختصر دور ہے یعنی۱۹۳۲ء سے۱۹۳۶ء تک ان کی زندگی کے آخری چار سال کا احاطہ کرتا ہے۔
پہلے دور کے ابتدائی برسوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سوز وطن‘‘ زمانہ پریس کانپور سے شائع ہوا تھا۔ جسے انگریز سرکارکے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔اس کے بعد وہ تاریخ نگاری اور اصلاح ِمعاشرہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس وقت تک پریم چند کے افسانوں میں فنی اور تکنیکی پختگی نہیں آئی تھی اور ان کی تحریروں میںداستانوی اسلوب غالب نظر آتا ہے۔ ۱۹۰۹ء سے۱۹۲۰ ء تک پریم چند ’’مہوبا‘‘ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈرات نے شایدانہیں ہندوؤں کی عظمت ِ رفتہ کی یاد دلائی۔ غالباً اسی لیے انھوں نے سوچا ہوگا کہ حالیؔ کی طرح انہیں اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوقوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگرکرنا چاہیے۔ چنانچہ ’’رانی سارندھا‘‘۱۹۱۱ء میں اور۱۹۱۲ء میں’’راجہ ہردول‘‘ اور ’’آلھا‘‘ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔
ان تاریخی اور نیم تاریخی افسانوں کے بعد اپنے دوسرے دور میں پریم چند نے قومی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے ہندو معاشرے کی قبیح رسوم پر قلم اٹھایا اور بیوہ عورت کے مسائل ، بے جوڑ شادی ، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات جیسے موضوعات پر افسانے لکھے۔افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند سیاست سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ دور برصغیر میں تحریکوں کا دور تھا۔ تحریک ِ خلافت، تحریک عدم تعاون، ستیہ گرہ، سول نافرمانی وغیرہ۔ برصغیر کے تمام باشندے ملک کی آزادی کے لیے پرجوش تھے۔ پریم چند نے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے قلم کے ذریعہ اس مہم میں شرکت کا ارادہ کیا اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ اگرچہ کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن شاید وہ سماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سرکاری ملازمت کا جو اگلے سے اتار پھینکا۔ اس دور کے افسانوں میں سیاست کا رنگ قدرے واضح طور پر جھلکتا ہے۔
افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند نے دیہی زندگی کی طرف بھی توجہ دی اور انھوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل کواپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ ’’پوس کی رات ‘‘ ،’’سواسیر گہیوں‘‘ اور دیگر افسانے کسانوں کی غربت و افلاس کی عکاسی کرتے ہیں۔پریم چند کے افسانوں کا آخری دور مختصر عرصے پرمحیط ہے لیکن یہی دور ان کے نظریات کی پختگی اور ترویج کا دور بھی ہے۔ اس دور کے افسانوں کے موضوعات بھی سیاسی زندگی سے متعلق ہیں ۔ لیکن فن اور معیار کے اعتبار سے پچھلے دونوں ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہیں۔’’سوز وطن‘‘ کے افسانوں کے بعد پریم چند کے قلم سے حج اکبر ،بوڑھی کاکی، دو بیل ، نئی بیوی اور زادِ راہ جیسے افسانے تخلیق ہوئے اور پھر ان کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ’’کفن ‘‘جیسا افسانہ لکھ کر انہوں نے دنیائے ادب میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔
آخری دور کے افسانوں میں پریم چند ایک عظیم افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں۔ اس دور کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود آفاقی کہلانے کے مستحق قرار دئیے جا سکتے ہیں ۔کیونکہ اب ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں جو اچھے اور معیاری افسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔

کفن​

 پریم چند

جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔ اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے _ جاڑوں کی رات تھی ، فضا سنّاٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا ۔
گھیسو نے کہا ، ” معلوم ہوتا ہے بچیگی نہیں ۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا ۔ جا ، دیکھ تو آ۔”
مادھو دردناک لہجے میں بولا ، ” مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔ دیکھ کر کیا کروں ”
” تو بڑا بیدرد ہے بے ۔ سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بیوپھائی ۔”
” تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا ۔”
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔ گھیسو اک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا ۔ اسلئے انہیں کوئی رکھتا ہی نہ تھا ۔ گھر میں مٹّھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا ۔ اور جب تک وہ پیسے رہتے دونوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے ، یا کوئی مزدوری تلاش کرتے ۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی _ کاشتکاروں کا گاؤں تھا ۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے _ مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا ۔
کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکّل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی ۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی ۔ عجیب زندگی تھی ان کی ۔ گھر میں مٹّی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں ۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی ڈھانکے ہوئے ، دنیا کی فکروں سے آزاد ۔ قرض سے لدے ہوئے ۔ گالیاں بھی کھاتے ، مار بھی کھاتے ، مگر کوئی غم نہیں ۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امّید نہ ہونے پر بھی لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے ۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھا لیتے ۔ یا دس پانچ اوکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے ۔ گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز سے ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی ۔ اور مادھو بھی سعادتمند بیٹے کی طرح باپ کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا ۔ بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے ۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدّت ہوئی انتقال ہو گیا تھا ۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی ۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدّن کی بنیاد ڈالی تھی ۔ پسائی کر کے ، گھاس چھیل کر ، وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی ۔ اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی ۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے ۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان سے دوگنی مزدوری مانگتے ۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ سے مر رہی تھی ۔ اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں ۔
گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا ، ” جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے اس کی ۔ چڑیل کا پھساد ہوگا اور کیا ۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے ۔کس کے گھر سے آئے ۔”

مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھیسو آلوؤں کا بڑا حصّہ صاف کر دیگا ۔ بولا ، ” مجھے وہاں ڈر لگتا ہے ۔،،

” ڈر کس بات کا ہے ۔ میں تو یہاں ہوں ہی ۔،،

” تو تمہیں جا کر دیکھو نہ ۔”

” میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں _ اور پھر مجھ سے لجائیگی کہ نہیں ۔ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا ، آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں ! اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہوگی _ مجھے دیکھ لیگی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکےگی _”

” میں سوچتا ہوں کوئی بال بچّہ ہو گیا تو کیا ہوگا _ سونٹھ ، گڑ ، تیل ، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں ۔،،

” سب کچھ آ جائیگا ۔ بھگوان بچّہ دیں تو ۔ جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں وہی تب بلا کر دینگے ۔ میرے نو لڑکے ہوئے ۔ گھر میں کبھی کچھ نہ تھا۔ مگر اسی طرح ہر بار کام چل گیا۔”
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچّھی نہ تھی ، اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے ، کہیں زیادہ فارغ البال تھے ، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجّب کی بات نہ تھی _ ہم تو کہینگے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا _ اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا _ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا _ اسلئے جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے ، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کرتا تھا _ پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی _ اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتے _
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے ۔ کل سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں ۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں ۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصّہ تو بہت زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا ۔ لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصّہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا ۔ اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے _ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے ۔ اسلئے دونوں جلد جلد نگل جاتے ۔ حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا ۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی ۔ اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی ۔ بولا ، ” وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا ۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو ۔ چھوٹے بڑے ، سب نے پوڑیاں کھائیں ، اور اصلی گھی کی ۔ چٹنی ، رائتہ ، تین طرح کے سوکھے ساگ ۔ ایک رسیدار ترکاری ، دہی ، چٹنی ، مٹھائی ۔ اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا ۔ کوئی روک نہیں تھی ۔ جو چیز چاہو مانگو ۔ اور جتنا چاہو کھاؤ ۔ لوگوں نے ایسا کھایا ، ایسا کھایا ، کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا ۔ مگر پروسنے ولے ہیں کہ سامنے گرم گرم ، گول گول ، مہکتی ہوئی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں ۔ منع کرتے ہیں کہ نہیں چاہئے _ پتّل کو ہاتھ سے روکے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ ہیں کہ دئے جاتے ہیں ۔ اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بیڑا پان بھی ملا۔ مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی ۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ چٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا ۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر ۔”

مادھو نے ان تکلّفات کا مزہ لیتے ہوئے کہا ، “اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا ۔”
” اب کوئی کیا کھلائیگا ، وہ جمانا دوسرا تھا _ اب تو سب کو کپھایت سوجھتی ہے ۔ سادی میں مت کھرچ کرو _ کریا کرم میں مت کھرچ کرو ۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھوگے ! بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے ۔ ہاں کھرچ میں کپھایت سوجھتی ہے ۔”
” تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہونگی ! ”
” بیس سے جیادہ کھائی تھیں ۔،،
” میں پچاس کھا جاتا۔”
” پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہونگی _ اچّا پٹّھا تھا _ تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے ۔”
آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر ، پاؤں پیٹ میں ڈالے سو رہے ، جیسے دو بڑے بڑے اژدر گینڈلیاں مارے پڑے ہوں ۔
اور بدھیا ابھی تک کراہ رہی تھی
صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہو گئی تھی ۔ اس کے منہ پر مکّھیاں بھنک رہی تھیں ۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت تھا۔ اس کے پیٹ میں بچّہ مر گیا تھا۔
مادھو بھاگا ہوا گھیسو کے پاس آیا _ پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے _ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑے ہوئے آئے اور رسمِ قدیم کے مطابق غم زدوں کی تشفّی کرنے لگے ۔
مگر زیادہ رونے دھونے کا موقعہ نہ تھا _ کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی ۔ گھر میں تو پیسہ اسی طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں ماس۔
باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمیندار کے پاس گئے _ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت کرتے تھے ۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے ، چوری کی علّت میں ، وعدہ پر کام پر نہ آنے کی علّت میں _ پوچھا ، ” کیا ہے بے گھسوا ۔ روتا کیوں ہے ۔ اب تو تیری صورت ہی نہیں نظر آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں رہنا نہیں چاہتے ۔”
گھسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے کہا ، ” سرکار بڑی بپت میں ہوں _ مادھو کی گھر والی رت گجر گئی ۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار ۔ آدھی رات تک ہم دونوں اس کے سرہانے بیٹھے رہے ۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا ۔ مگر وہ ہمیں دگا دے گئی ۔ اب کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا ۔ مالک ، تباہ ہو گئے ۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں ۔ اب آپ کے سوا اس کی مٹّی کون پار لگائیگا۔ ہمارے ہاتھ میں تو جو کچھ تھا وہ سب دوا دارو میں اٹھ گیا ۔ سرکار ہی کی دیا ہوگی تو اس کی مٹّی اٹھیگی۔ آپ کے سوا اور کس کے دوار پر جائیں ۔ ”
زمیندار صاحب رحم دل آدمی تھے ۔ مگر گھیسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی میں تو آیا کہہ دیں ، ” چل ، دور ہو یہاں سے۔ لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے بھی نہیں آتا ۔ آج جب غرض پڑی تو آ کر خوشامد کر رہا ہے ۔ حرام خور کہیں کا ۔ بدمعاش۔ ” مگر یہ غصّہ یا انتقام کا موقعہ نہ تھا۔ طوعاً و کرہاً دو روپئے نکال کر پھینک دئے ۔ مگر تشفّی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا ۔ اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ اتارا ہو۔
جب زمیندار صاحب نے دو روپیہ دیے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرائت کیونکر ہوتی۔ گھیسو زمیندار کے نام کا ڈھنڈھورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئے ، کسی نے چار آنے ۔ ایک گھنٹہ میں گھیسو کے پاس پانچ روپئے کی معقول رقم جمع ہو گئی ۔ کسی نے غلّہ دے دیا ، کسی نے لکڑی ۔ اور دوپہر کو گھیسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے۔ ادھر لوگ بانس وانس کاٹنے لگے ۔
گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آ آ کر لاش کو دیکھتی تھیں ، اور اس کی بے بسی پر دو بوند آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔
بازار میں پہنچ کر گھیسو بولا ، ” لکڑی تو اسے جلانے بھر کو مل گئی ہے ، کیوں مادھو۔ ”
مادھو بولا ، ” ہاں لکڑی تو بہت ہے ۔ اب کپھن چاہئے۔”
” تو کوئی ہلکا سا کپھن لے لیں۔”
” ہاں اور کیا ۔ لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائیگی ۔ رات کو کپھن کون دیکھتا ہے۔”
” کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔ ”
” کپھن لاس کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔”
” اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپیہ ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔”
دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر گھومتے رہے۔ کبھی اس بجاج کی دوکان پر گئے کبھی اس کی دوکان پر _ طرح طرح کے کپڑے ، ریشمی اور سوتی ، دیکھے ، مگر کچھ جچتا نہیں ۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی ۔ دونوں اتّفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے آ پہنچے ۔ اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے ۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب کی حالت میں کھڑے رہے ۔ پھر گھیسو نے گَدّی کے سامنے جا کر کہا ، ” ساہو جی ایک بوتل ہمیں بھی دینا۔ ” پھر گھیسو نے ایک بوتل شراب لی ، کچھ گزک۔ اس کے بعد کچھ چکھونہ آیا، تلی ہوئی مچھلی آئی۔ اور دونوں برآمدے میں بیٹھ کر شراب پینے لگے ۔
کئی کجّیاں پیہم پینے کے بعد دونوں سرور میں آ گئے ۔
گھیسو بولا ، ” کپھن لگانے سے کیا ملتا۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔”
مادھو آسمان ک طرف دیکھ کر بولا ، گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو ، ” دنیا کا دستور ہے ۔ یہی لوگ بامہنوں کو ہجاروں رپئے کیوں دے دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں ۔”
” بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے، پھونکیں۔ ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے ۔ ”
” لیکن لوگوں کو جواب کیا دوگے ! لوگ پوچھینگے نہیں ، کپھن کہاں ہے ! ”
گھیسو ہنسا ۔ ” کہہ دینگے روپئے کمر سے کھسک گئے ۔ بہت ڈھونڈا ، ملے نہیں ۔ لوگوں کو وشواس نہ آئیگا ، لیکن پھر وہی روپیہ دینگے۔”
مادھو بھی ہنسا ، اس غیر متوقّع خوش نصیبی پر ، قدرت کو اس طرح شکست دینے پر ۔ بولا ، ” بڑی اچّھی تھی ، بچاری ۔ مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔”
آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی _ گھیسو نے دو سیر پوڑیاں منگوائیں ، گوشت اور سالن ۔ اور چٹپٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں ۔ شراب خانے کے سامنے ہی دوکان تھی ۔ مادھو لپک کر دو پتّلوں میں ساری چیزیں لے آیا ۔ پورے ڈیڑھ روپئے خرچ ہو گئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ رہے۔
دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوڑیاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو ۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا ، نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو انہوننے بہت پہلے طے کر لیا تھا ۔ گھیسو فلسفیانہ انداز سے بولا ، ” ہماری آتما پرسنّ ہو رہی ہے تو کیا اسے پنّ نہ ہوگا ؟ ”
مادھو نے فرقِ عقیدت جھکا کر تصدیق کی _ ” جرور اسے جرور ہوگا ۔ بھگوان ، تم انترجامی ( علیم ) ہو ۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔”
ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی ۔ بولا ، ” کیوں دادا ، ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائینگے ہی۔”
گھیسو نے اس طفلانہ سوال کا جواب نہ دیا ۔مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔ وہ پرلوک کی باتیں سوچ کر اس آنند میں بادھا نہ ڈالنا چاہتا تھا۔
” جو وہاں ہم لوگوں سے وہ پوچے کہ تم نے ہمیں کپھن کیوں نہیں دیا تو کیا کہوگے ؟ ”
” کہینگے تمہارا سر۔”
” پوچھیگی تو جرور۔”
” تو کیسے جانتا ہے اسے کپھن نہ ملیگا ؟ تو مجھے ایسا گدھا سمجھتا ہے ! میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں ۔ اس کو کپھن ملیگا اور بہت اچّھا ملیگا ۔اس سے بہت اچّھا ملیگا جو ہم دیتے”
مادھو کو یقین نہ آیا ۔ بولا ، ” کون دیگا ؟ روپئے تو تم نے چٹ کر دئے۔”
گھیسو تیز ہو گیا۔ ” میں کہتا ہوں اسے کپھن ملیگا۔ تو مانتا کیوں نہیں ؟”
” کون دیگا ، بتاتے کیوں نہیں ؟ وہ تو مجھ سے پوچھیگی۔ اس کی مانگ میں تو سندور میں نے ڈالا تھا۔”
” وہی لوگ دینگے جنہوں نے اب کی دیا۔ ہاں وہ روپئے ہمارے ہاتھ نہ آئینگے ۔اور اگر کسی طرح آ جائیں تو پھر ہم اسی طرح یہاں بیٹھے پیّنگے ۔ اور کپھن تیسری بار ملیگا ۔ ”
جیوں جیوں اندھیرا بڑھتا تھا اور ستاروں کی چمک تیز ہوتی تھی ، مے خانہ کی رونق بھی بڑھتی جاتی تھی _ کوئی گاتا تھا ، کوئی بہکتا تھا _ کوئی اپنے رفیق کے گلے لپٹا جاتا تھا ، کوئی اپنے دوست کے منہ میں ساغر لگائے دیتا تھا۔ وہاں کی فضا میں سرور تھا۔ ہوا میں نشہ ۔ کتنے تو چلّو میں الّو ہو جاتے ہیں ۔ یہاں آتے تھے صرف خود فراموشی کا مزہ لینے کے لئے ۔ شراب سے زیادہ یہاں کی ہوا سے مسرور ہوتے تھے ۔ زیست کی بلا یہاں کھینچ لاتی تھی ۔ اور کچھ دیر کے لئے وہ بھول جاتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ، یا مردہ ہیں ، یا زندہ در گور ہیں۔
اور یہ دونوں باپ بیٹے اب بھی مزے لے لے کر چسکیاں لے رہے تھے ۔ سب کی نگاہیں ان کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں دونوں۔ پوری بوتل بیچ میں ہے ۔
کھانے سے فارغ ہو کر مادھو نے بچی ہوئی پوڑیوں کا پتّل اٹھا کر ایک بھکاری کو دے دیا جو کھڑا ان کی طرف گرسنہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور دینے کے غرور اور مسرّت اور ولولہ کا اپنی زندگی میں پہلی بار احساس کیا۔
گھیسو نے کہا ، ” لے جا ۔ کھوب کھا اور اسیرباد دے ۔ جس کی کمائی ہے وہ تو مر گئی ، مگر تیرا اسیرباد اسے جرور پہنچ جائیگا ۔ روئیں روئیں سے اسیرباد دے ۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔”
مادھو نے پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ، ” بیکنٹھ میں جائیگی دادا ۔ بیکنٹھ کی رانی بنیگی”
گھیسو کھڑا ہو گیا اور جیسے مسرّت کی لہروں میں تیرتا ہوا بولا ، ” ہاں بیٹا ، بیکنٹھ میں جائیگی ۔ کسی کو ستایا نہیں۔ کسی کو دبایا نہیں۔ مرتے مرتے ہماری جندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کر گئی۔ وہ نہ بیکنٹھ میں جائیگی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائینگے جو گریبوں کو دونوں ہاتھ سے لوٹتے ہیں ، اور اپنے پاپ کو دھونے کے لئے گنگا میں نہاتے ہیں اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں۔”
یہ خوش اعتقادی کا رنگ بھی بدلا۔ تلوّن نشے کی خاصیت ہے ۔ یاس اور غم کا دورہ ہوا۔
مادھو بولا ، ” مگر دادا بچاری نے جندگی میں بڑا دکھ بھوگا۔ مری بھی کتنا دکھ جھیل کر۔ ” وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگا ۔چیخیں مار مار کر۔
گھیسو نے سمجھایا ، ” کیوں روتا ہے بیٹا۔ کھس ہو کہ وہ مایا جال سے مکت ہو گئی۔ جنجال سے چھوٹ گئی ۔ بڑی بھاگوان تھی جو اتنی جلد مایا موہ کے بندھن توڑ دئے ۔”
اور دونوں وہیں کھڑے ہو کر گانے لگی۔
ٹھگنی کیوں نیناں جھمکاوے ۔ ٹھگنی۔
سارا مے خانہ محوِ تماشا تھا اور یہ دونوں مے کش محویت کے عالم میں گائے جاتے تھے ۔ پھر دونوں ناچنے لگے۔ اچھلے بھی ، کودے بھی ، گرے بھی ، مٹکے بھی ۔ بھاؤ بھی بتائے ،ابھینے بھی کئیے ، اور آخر نشے سے بدمست ہو کر وہیں گر پڑے ۔

افسانہ ’’کفن ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

آٹھ دہائی قبل لکھی گئی منشی پریم چند کی مشہورکہانی ’’ کفن‘‘ اس دور میں سماج کے دبے کچلے طبقے کی حقیقی عکاسی پیش کرتی ہے۔ اس کہانی میں کل چار کردار ہیں۔ گھیسو ، مادھو اور بُدھیا۔ چوتھا کردار زمیندار کا ہے جو ایک طرح سے اس سماج کا عکاس ہے جو اس دور میں استحصال کرنے والی قوت کے روپ میں موجود تھا ۔ استحصال کرنے والی یہ قوت آج بھی سماج میں اپنا وجود قائم کیے ہوئے ہے صرف پوزیشن تبدیل ہوگئی ہے۔
کہانی ’’کفن‘‘ کی ابتدا بُدھیا کے دردِ زہ میں پچھاڑیں کھانے سے ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے ایسی دلخراش چیخیں نکل رہی تھیں کہ گھیسو اور مادھو کلیجہ تھام لیتے ہیں۔ اگر قاری کی قوت سماعت متاثر نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ بُدھیا کا کرب،درد،چیخیں،کراہیں مسلسل’کفن‘ کی آخری سطر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہیں۔قاری اس درد اور کرب کو بخوبی محسوس کرسکتا ہے۔
دردِزہ کے دوران بدھیا کی دل فراش صدا نکلنے پر مادھو اور گھیسو کا کلیجہ تھام لینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں کا احساس زندہ ہے۔افسانے کا اقتباس کچھ اس طرح ہیـ:
’’گیسو نے کہا ’معلوم ہوتا ہے کہ بچے گا نہیں۔سارا دن تر دیتے گزر گیا۔جا دیکھ تو آ۔۔۔۔۔۔
مادھو چڑھ کر بولا ،مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔دیکھ کر کیا کروں۔
تو بڑا بے درد ہے بے !سال بھر جس کے ساتھ سکھ چین سے رہا اسی کے ساتھ اتنی بے ویاہی۔
’تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا دیکھا نہیں جاتا۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۵ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
اس منظر سے ہی احساس اور بے حسی کی کشمکش عیاں ہوتی ہے۔جب سے بدھیا آئی تھی تب سے دوہ ان دونوں بے غیرتوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔آج وہ زندگی اور موت سے نبرد آزما ہے تب بھی دونوں صرف اپنے اپنے دوزخ کو بھرنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اس بات کی فکر نہیں کہ اس کے لیے کچھ انتظام کریں۔گھیسوآلو چھیلتے ہوئے جب مادھو سے اس کی بیوی کا حال معلوم کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ کوٹھری کے اندر جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ اسے بدھیا کو اس حالت میں دیکھنے سے ڈر لگتا ہے۔دراصل یہاں مفاد میاں بیوی کے رشتے پر غالب آجاتا ہے۔مادھو اس لیے انکار کردیتا ہے کہ گھیسو آلوؤں کا بڑا حصہ کھا نہ جائے۔یہی وہ مفاد ہے جو کئی اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔بدھیا اندر اکیلی تڑپتی رہتی ہے، اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔تیمارداری تو بہت دور کی بات رہی۔بدھیا کا حوصلہ بڑھانے والا کوئی نہیں۔حاشیے پر زندگی گزارنے والے انسانوں کے محلے یا گھر ویسے بھی گاؤں سے دور ہی ہوتے تھے یہاں افسانے میں جو فضا قائم کی گئی ہے وہ جاڑوں کی رات ہے، سارا گاؤں سناٹے میں اور تاریکی میں جذب ہوگیا ہے۔ایسی فضا میں بدھیا کے کراہنے کی آواز واقعی دل کو چیر کر رکھ دینے والی ہوگی۔مگر یہاں منشی پریم چند نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود گھیسو اور مادھو الاؤ کے گرد بیٹھے جلتے ہوئے آلو کھانے میں مگن ہیں۔یعنی دونوں کرداروں کی سوچ اپنی بھوک اور پیاس تک محدود ہوگئی ہے کہ وہ اپنی بھوک کے علاوہ کسی اور بات پر توجہ ہی نہیں دیتے۔انھوں نے گھیسو اور مادھو کی بے حسی ،بے غیرتی اور نکمّے پن کو کہانی میں اس طرح اجاگر کیا گیاہے:
’’چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔گیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پیتا۔اس لیے انھیں کہیں مزدوری نہیں ملتی تھی۔گھر میں مٹھی بھر اناج ہوتو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔جب ایک دودانے ہوجاتے تو گیسو درختوں پر چڑھ کرلکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار میں بیچ آتا اور جب تک پیسے رہتے دونوں ادھر اُدھر مارے مارے پھرتے۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۶ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
یہاں یہ سوال اٹھا یا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حٓلات کس نے پیدا کیے؟یکا سو کی گوٹیر نکا کی یاد آجاتی ہے ۔ایک گیٹاپو نے یکا سو سے پوچھا ’’ایسا کس نے کیا؟یکاسو کا مختصر سا جواب تھا‘‘تم نے کیا۔
’کفن‘کو پڑھنے سے قبل اگر قاری’مہاجنی تہذیب‘کو ذہن میں رکھے تو اس کہانی کیکی تفہیم قدرے آسان ہوجاتی ہے۔مہاجنی تہذیب کے اصول و ضوابط میں اس بات کو فوقیت دی جاتی ہے کہ دبے کچلے انسانوں کو مزید دبا کر رکھا جائے۔اگر وہ گردن اٹھانے کی کوشش کریں تو اس پر قرض کا بوجھ بڑھا دیا جائے۔اسی نظریے کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو اس کی جھلک یا اس کا نیا روپ گلوبلائزیشن کے صارفیت ازم میں دکھائی دے گا۔
کہانی میں فلیش بیک کی تکنیک کی مدد سے کچھ یادوں کو بھی فوکس کیا گیا ہے مثلاًآلو کھاتے کھاتے گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی بارات کا یاد آنا جس میں وہ بیس سال پہلے گیا تھا۔اس دعوت میں اسے جوکچھ میسرہواتھا،وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ بن گیااور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی۔گیسوبولا:
’’وہ بھوج نہیںبھولتا‘تب سے اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا۔اصلی گھی کی پوریاں، چٹنی، رائتا،تین طرح کے سوکھے ساگ،ایک رس دار ترکاری،دہی چٹنی مٹھائی۔اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔لوگوں نے تو ایسا کھایا، ایسا کھایا کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا۔مگر پروسنے والے ہیں گرم گرم اور گول گول مہکتی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں۔ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۲۹ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
محولہ بالا پیراگراف میں ٹھاکر کو دریا دل بتایا گیا ہے۔لیکن یہ واقعہ بیس سال قبل کا ہے۔ان بیس برسوں میںدنیا ایسی تبدیل ہوتی ہے کہ اب کوئی ٹھاکر اس طرح بھوج نہیں کھلاتا۔کہانی کا منظر تبدیل ہوتا ہے۔اس منظر میں گھیسو اور مادھو آلو کھاکر پانی پیتے ہیں اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑھ کر پیٹ میں پاؤں ڈالے سوجاتے ہیں۔اسی سے میل کھاتا ہوا ایک منظر ہمیں’پوس کی رات‘میں بھی نظر آتا ہے۔ہلکو کھیت چرنے کی پرواہ کے بنا ہی راکھ کے پاس چادر اوڑھ کر سوگیا تھا۔ہلکو کے پاس چادر تھی۔گھیسواورمادھو کے پاس صرف دھوتیاں ہیں۔پاؤں پیٹ میں ڈالے پڑے رہنے کو دوبڑے اجگر کا کنڈلیاں مارے پڑے رہنے سے تشبیہہ دینا مصنف کی فن کاری پر دلالت کرتا ہے
صبح مادھو کوٹھری میں جاکر دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر کو تن گئی ہیں۔سارا جسم خاک میں لت پت ہورہا ہے۔اس کے پیٹ میں بچہ مرگیا تھا۔یہاں زبان کی روانی اپنے شباب پر ہے ۔فطری اورغیر فطری یا اذیت ناک موت کی اس سے بہتر تصویر کہیں نہیںہوسکتی۔یہی ہوتا ہے فن کا کمال۔
پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتی پیٹنے لگے۔یہاںجو الاپ کیا جارہا ہے وہ صرف دکھاوا ہے زور زور سے رونے میں بھی مطلب پوشیدہ ہے ۔چھاتی پیٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ واقعی وہ دونوں بدھیا کی موت کا ماتم کررہے ہیں بلکہ یہ بھی سماجی رسم کی ادائیگی ہے۔کیونکہ اب کفن اور لکڑی کی فکر ہورہی تھی۔دونوں روتے روتے زمیندار کے پاس جاتے ہیں ۔گاؤں کے زمیندار ایسے موقعوں پر کام چور رعایا پر احسان کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔حالانکہ زمیندار کو ان کی صورت سے نفرت تھی۔حرام خور بدمعاش کہہ کر دوروپے پھینک دیے۔ایسے وقت گاؤں والے بھی مددکرتے تھے۔جیسے تیسے پانچ روپے جمع ہوگئے۔کسی نے اناج دے دیا ،کسی نے لکڑی۔گاؤں میں انسانیت اب بھی باقی ہے۔یہاں بغور مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند کسانوں کی بدحالی کے ساتھ ان کے اوصاف حمیدہ کو بھی پیش کرتے ہیں۔
گھیسو اور مادھو دونوں کفن خریدنے بازار جاتے ہیں۔گیسو کہتا ہے،کیسا برا رواج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے،اسے مرنے پر نیا کفن چاہیے۔مادھو یہاں خاموش نہیں رہتا وہ بھی کہتا ہے’’کفن لاش کے ساتھ جل ہی تو جاتا ہے۔‘‘یہاں پریم چند صرف اتنا اشارہ کرتے ہیں ۔ ’’دونوں ایک دوسرے کے دل کی بات تاڑ رہے تھے۔‘‘قاری بھی اس بات سے واقف ہوجاتا ہے ۔ دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد بھی وہ کفن خرید نہیں پاتے۔دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شراب خانے کے سامنے جاپہنچے۔تھوڑی دیر کے لیے تھوڑا سا تذبذب رہا۔پھر تذ بذب کو جھٹک کرگھیسو شراب فروش کے پاس پہنچ کر کہتا ہے۔’’ساہوجی ایک بوتل ہمیں بھی دینا۔‘‘دونوں برآمدے میں بیٹھے تلی ہوئی مچھلی کا ذائقہ لیتے ہوئے پی رہے تھے۔دو تین پیک کے بعد سرور آگیا۔اس حالت میں چھٹی حس جاگ جاتی ہے۔اب فلسفیانہ باتیں ہونے لگتی ہیں۔’’کفن جل ہی تو جاتا بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔دستور ہے،نہیں تو لوگ بانسوں کو ہماروں روپے کیوں دے دیتے ہیں!کون دیکھتا ہے پرلوک میں ملتا ہے یا نہیں۔
بھر پیٹ کھانے کے بعد مادھو بچی ہوئی پوریوں کا تیل اٹھاکر ایک بھکاری کو دیا۔جوکھڑا ان کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔پینے کا غرور اور دینے کی برتری اور مسرت کا اپنی زندگی میں انہیں پہلی بار احساس ہوا۔گیسو کہہ رہا ہے کہ :
’’ہاں بیٹا،وہ بے کنٹھ میں ضرور جائے گی۔کسی کو ستایا نہیں ،کسی کو دبایا نہیں۔مرتے مرتے ہماری زندگی کی سب سے بڑی لالسا پوری کرگئی۔وہ بے کنٹھ نہ جائے گی تو کیا یہ موٹے موٹے لوگ جائیں گے جو غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور اپنے پاپوں کو دھونے کے لیے گنگا میں نہاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور مندر میں جل چڑھاتے ہیں۔‘‘
(پریم چند کے نمائندہ افسانے۔ از: پروفیسر قمر رئیس۔ ص: ۲۳۲ ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، نئی دہلی)
دراصل ’کفن‘کا نقطئہ عروج بھی یہی حصہ ہے۔پریم چند ان فرسودہ رسوم اور رواجوں پر کاری ضرب لگانا چاہتے تھے۔زمیندار کا ہمدردی جتانے کے ناطے گھیسو اور مادھو کی مدد کرنااور دوسرے دولت مندوں کا امداد کے لیے ہاتھ بڑھانا ہی بے کنٹھ پانے کی لالسا کے سبب ہے۔جب کہ زمیندار ، سودخور،مہاجن وغیرہ دونوں ہاتھوں سے غریبوں کو لوٹتے کسوٹتے رہنے کے باوجود چند نیکیاں کماکر اور گنگا میں ڈبکی لگاکر جنت کے خواب دیکھتے۔یہاں پریم چند باریک بینی سے مشاہدہ کرکے ہندؤوں کی اندھی شردھا کو قاری کے روبرو پیش کرتے ہیں۔اسی اندھی شردھا کے سبب ہندوستانی تہذیب کا ڈھانچہ چرمراکر رہ گیا ہے۔اسی اندھی شردھا کی مخالفت تہذیب کو سالمیت عطا کرسکتی ہے۔فرسودہ رسم و رواج کے خلاف صوفی سنتوں نے نبردآزما ئی کی ہے۔جب ہم ادب کو تہذیبی نقطئہ نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں تو پریم چند کی تہذیبی وراثت کو پرکھنا ضروری ہوجاتاہے۔
پریم چند نے کفن میں اس بات کو بطور خاص اجاگر کیا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کی اگر تکمیل نہیں ہوتی ہے تو اس میں بے حسی کا عنصر غالب آجاتا ہے۔بے غیرتی بڑھ جاتی ہے۔اندر کا انسان مرنے لگتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ انسانی قدروں کے احساس سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ اسے انسانی رشتوں کا پاس نہیں رہتا۔اسے دم توڑتے ہوئے انسان کو دیکھ کر دکھ اور تکلیف نہیں ہوتی ۔کفن کو بھوک اور ناداری سے زیادہ انسانی سفاکی اورجبلتوں کی غلامی کا افسانہ کہا جاسکتا ہے جو انتہائی مفلسی کی حالت میں پیدا ہوتا ہے۔اس افسانے میں رشتوں کی شکست دریخت کے ساتھ اذیت ناک خود غرضی کو پیش کیا گیا ہے۔
حقیقت نگاری کا یہ اسلوب اردو افسانے میں خاص طور سے ترقی پسند تحریک کے زیر، اثر بہر مقبول ہوا۔ نچلے طبقے کی محرومیوں ، مجبوریوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سفاکیوں کو آگے چل کر سدرشن ، کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس وغیرہ نے اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح پریم چند کا یہ افسانہ رجحان ساز افسانوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔

_______________________________

Interview with Shamsur Rahman Farooqi

Articles

شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو

شمس الرحمن فاروقی

شمس الرحمن فاروقی سے ایک گفتگو

قاسم ندیم : فاروقی صاحب ‘ کیا کسی فن پارے کے عرفان کے لیے اس کے تخلیق کار کی شخصیت سے آگہی ضروری ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :دنیا کے اکثر بڑے فن کار وں کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں، یا کچھ نہیں جانتے ۔ شخصیت تو دور کی چیز ہے، ان کے زمانے کا بھی تعین ٹھیک سے نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بعض کے بارے میں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا وجود تھا کہ نہیں۔ مثال کے طور پر سورداس اور ہومر دونوں کے بارے میں شک ہے کہ یہ ایک ہی شخص تھے یا کئی لوگ یکے بعد دیگرے اس روایت میں شامل ہوتے گئے جسے ہم سورداس کی روایت یا ہومر کی روایت کہتے ہیں۔ عرب کے بعض جاہلی شعراءکے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ اصلاً ان کا وجود نہ تھا۔ بہر حال اتنا تو ظاہر ہے کہ دنیا کے اکثر فن کاروں کی شخصیت کے بارے میں ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم ۔ ایسی صورت میں کیوںکر کہا جاسکتا ہے کہ کسی فن پارے کے عرفان کے لیے اس کے بنانے والے کی شخصیت سے آگہی ضروری ہے؟
قاسم ندیم : جوں جوں مرزا غالب کی شخصیت کے پہلو اجاگر ہوتے گئے اسی تیز روی کے ساتھ ان کے کلام کو پرکھنے میں ، سمجھنے میں آسانیاں ہوتی گئیں۔ کیا اس نکتے میںغالب کی شخصیت سے آگہی کا پہلو مضمر ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : میں نہیں سمجھتا کہ غالب کی شخصیت کے بارے میں ہمیں جو معلومات ”یادگارِ غالب“ ، ”اردوے معلیٰ“ اور ”عود ہندی“ سے حاصل ہوئی ہیں ان پر کوئی قابلِ ذکر اضافہ ان کتابوں کی اشاعت کے بعد ہوا ہے۔ ویسے یہ خیال ہی بالکل مہمل ہے کہ ہمیں غالب کی شخصیت کے بارے میں جتنا معلوم ہے مولانا حالی کو اس سے کم معلوم تھا۔ لہٰذا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ گذشتہ سو سوا سو برس میں غالب کی شخصیت کے پہلو آہستہ آہستہ ہم پر روشن ہوتے گئے ہیں۔
قاسم ندیم : آپ نے ”تفہیم غالب“ لکھی ۔ اسے قلم بند کرنے میں آپ کو کیا دشواریاں پیش آئیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : پہلی دشواری تو یہ تھی کہ غالب کے کلام کو ان کے عہد اور ان کے پیش روﺅں کے حوالے سے سمجھا جائے ۔یعنی یہ دیکھا جائے کہ غالب جس شعری روایت کے پروردہ اور نمائندہ تھے اس میں شاعری کی کیا تعریف تھی اور غالب کے زمانے کا ادبی معاشرہ شاعر سے کیا توقع رکھتا تھا؟ ان باتوں کو معلوم کرنا اور سمجھنا مجھے بہت مشکل معلوم ہوا۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ غالب نے دو طرح کے الفاظ استعمال کےے ہےں۔اےک تو وہ جو عام لوگوں کے لےے نامانوس ہےں،اور اےک وہ جو بظاہر مانوس اورسادہ ہےں لےکن ان مےں بعض اےسے معنی بھی ہےں جن کی خبر عام لوگوں کو نہےں،لےکن وہ معنی غالب کے شعر کے لےے کار آمد ہےں۔پہلی طرح کے الفاظ کو تو پہچاننا کچھ مشکل نہےں لےکن دوسری طرح کے لفاظ کو پہچاننے کے لےے زبان اور شعر دونوں کا زندہ اور سچا ذوق ہونا چاہےے۔بڑی شاعری کے ہر شارح کی طرح ۔مجھے بھی قدم قدم پر چوکس رہنا پڑتا تھا کہ کس لفظ کا کوئی کار آمد پہلو مجھ سے چھوٹ نہ جائے ۔تےسری مشکل ےہ تھی کہ غالب نے کچھ اےسے الفاظ بھی استعمال کئے ہےں۔جو عام طور پر لغات مےں نہےں ملتے ۔لہٰذ غالب کے شارح کی حےثےت سے مجھے ضروری تھا کہ فارسی کے بڑے لغات کو زےر مطالعہ رکھوں اور ےہ بڑے لغات عام طور پر دستےاب نہےں ۔واضح رہے کہ بڑے لغت سے مےری مراد صرف حجم نہےں بلکہ لغت کا مستند ہونا بھی ہے۔مثال کے طور پر کسی صاحب نے علامہ کالی داس گپتا رضا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”جگر تشنہ“کا فقرہ کسی فارسی لغت مےں نہےں ملتا اور غالب نے جو مصرع ”دل جگر تشنہ¿ فرےاد آےا“ لکھا ہے وہ بےدل کی نقل مےں لکھا ہے ‘ورنہ فارسی لغات مےں ےہ ترکےب نہےں ملتی۔علامہ کالی داس گپتا رضا با علم آدمی تھے۔لےکن اگر انھوں نے اےسا لکھا ہے(جس مےں مجھے شک ہے)تو انھوں نے غلطی کی ہے ۔جہانگےر کے عہد مےں اےک بہت عمدہ لغت مولوی محمدلاد نے ”موےد الفضلا“نام کا مرتب کےا تھا۔اس مےں”جگر تشنہ¿“کا اندراج موجود ہے اور معنی وہی ہےں جو عام طور پر بےان کےے گئے ہےں ےعنی ”مشتاق“۔اس طرح طبا طبائی نے لکھا ہے کہ شعر
چھوڑانہ مجھ مےں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کےوں نہ ہو
مےں لفظ ”رنگ“فقط لفظ ”نقش“کی مناسبت سے استعمال کےا گےا ہے ورنہ ےہاں رنگ کا معنوی اعتبار سے کوئی خاص کام نہےں۔لےکن ”برہان قاطع“مےں لفظ ”رنگ“کے اےک دو نہےں تےنتےس(۳۳)معنی درج ہےں۔ان مےں کئی معنی اےسے ہےں جو غالب کے شعر کے لےے کار آمد ہےں۔مثلاً طاقت،خون،زور اور قوت اور توانائی ‘طرز ورزش ۔اگر طبا طبائی نے لغت ملاخطہ فرماےا ہوتا تو وہ ےہ گمان نہ کرتے کی غالب نے محض لفظی مناسبت کو ملحوظ رکھا ہے۔
قاسم ندیم : کےا آپ کی نگاہ مےں ےہ تکمےلےت کی سطح کا کام ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :اپنی حد تک تو وہ کام مکمل ہے۔لےکن ظاہر ہے کہ ابھی غالب کے بہت سے اشعار تلاش کےے جاسکتے ہےں جن مےں معنی کے اےسے پہلو ہےں جو گذشتہ شارحےن کی نظر سے پوشےدہ رہے ہےں۔مےں اس کتاب کا دوسرا اےڈےشن تےار کر رہا ہوں ۔اس مےں چار پانچ اشعار کی تفہےم کا اضافہ کروں گا۔
قاسم ندیم : آپ نے اس کام کو صرف سو اشعار تک ہی محدود رکھا ؟اگر آپ چاہتے تو شعر شعور انگےز کی طرح” دےوانِ غالب “کا احاطہ کرسکتے تھے۔اےسا کےوں ممکن نہ ہوسکا؟
شمس الرحمٰن فاروقی :دونوں کتابوں کی نوعےت الگ الگ ہے۔”تفہےم غالب“کا مقصد ےہ تھا کہ غالب کے ان اشعار پر اظہارِ خےال کےا جائے جن مےں کوئی اےسا پہلو ہو جو دوسرے شارحےن کی نظر سے اوجھل رہ گےا ہو”شعر شعور انگےز“مےں نے دراصل پہلے محض مےر کے انتخاب کے طور پر شروع کی تھی ۔پھر ےہ خےال آےا کہ مےر کے ےہاں اےسے اشعار کی کمی نہےں جن مےں معنی کی کئی تہےں پوشےدہ ہےں اور وہ اتنے سادہ نہےں ہےں جتنے کہ وہ بظاہر نظر آتے ہےں ۔لہٰذا اےسے اشعار پر کچھ نہ کچھ لکھنا کار آمد ہوگا۔لےکن جب مےں نے اس نےت سے اشعار کو دےکھنا شروع کےا تو محسوس ہوا کہ ہر شعر مےں کوئی نا کوئی بات ہے جس کی طرف اگر نشاندہی نہ کی جائے تو ممکن ہے کہ عام پڑھنے والے کی نظر اس بات تک نہ پہنچے۔لہٰذا مےںنے فےصلہ کےا کہ ہر شعر پر اطہارِ خےال کروں گا ۔اس طرح مےر کے انتخاب کی جگہ مےرا کام مےر کے منتخب کلام کے تجزےاتی اور تقابلی مطالعے کی شکل اختےار کر گےا ۔جب کئی سو صفحے لکھ لےے تو مجھے خےال آےا کہ مےر کے کلام کا مطالعہ اور تجزےہ مےں جس انداز سے اور جن اصول نقد کی روشنی مےں قلمبند کر رہا ہوں ان کی وضاحت اور مےر کے بارے مےں مےرے تنقےدی موقف کا بےان بھی ضروری ہے ۔لہٰذا مےں نے اےک دےباچہ لکھا جو بذاتِ خود مستقل کتاب بن گےا۔کام مزےد آگے بڑھا تو شعر کی تعبےر اور تفہےم پر کچھ نظرےاتی بحث بھی لکھنا ضروری معلوم ہوا۔ےہ مضمون بھی اےک چھوٹی سی کتاب کے برابر ہوگےا اور اسے مےں نے جلد دوم کے دےباچے کے طور پر کتاب مےں شامل کر لےا۔جب کام تقرےباً مکمل ہوگےا تو مےں نے محسوس کےا کہ کلاسےکی اردو غزل کی شعرےات جس کی بنا پر اور جس کی روشنی مےں مےں نے مےر اور دوسرے کلاسےکی شعرا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔اس پر کوئی نظری بحث اردو مےں نہےں ملتی اور اگر اےسی کچھ تحرےر کتاب مےں شامل کر لی جائے تو اس کی افادےت مےں اضافہ ہوسکتا ہے ۔اس طرح اےک اور کتاب وجود مےں آگئی جسے مےں نے دو حصوں مےں تقسےم کرکے جلد سوم اور چہارم کے دےباچے کی شکل دے دی ۔اب آپ دےکھ ہی سکتے ہےں کہ اس کام کا نقشہ ”تفہےم غالب“سے بالکل مختلف ہے۔
قاسم ندیم : فی لحال آپ اقبال پر بھی کام کر رہے ہےں۔اقبال پر اتنا کام ہو چکا ہے کہ شمار کرنا دشوار ہے ۔پھر کےا سبب ہے کہ آپ اس موضوع پر مزےد لکھنا چاہتے ہےں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :مےرا خےال ہے کہ بڑی شاعری کی تنقےد اور تعبےر کے امکانات کبھی ختم نہےں ہوتے ۔اور جہاں تک اقبال کا معاملہ ہے ‘مےں سمجھتا ہوں کہ ابھی اقبال کے بہت سے پہلواےسے ہےں جن پر بہت کم لکھا گےا ہے ہمارا زیادہ زور اقبال کو فلسفی اور اسلامی مفکر ثابت کرنے میں صرف ہواہے۔اقبال بڑے شاعر ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔لیکن وہ بڑے شاعر کیوں ہیں یہ شاید کم لوگوں کو معلوم ہے۔
قاسم ندیم : اقبال کی ذہنی اور تہذیبی رو کا مشاہدہ کریں تو لگتا ہے کہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ ذہن سے سائنس اور مذہب کے درمیان ایک نیا توازن ڈھونڈنکالنے کی کوشش کی ہے۔کیا آپ کے خیال میں اقبال اس عمل میں کامیاب ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :ذہنی اور تہذیبی رو سے آپ کی کیا مراد ہے،میں سمجھ نہیں سکا۔اور اگر ایسی کوئی چیز ہے بھی تومجھے نہیں معلوم کہ اس کا مشاہدہ کیوںکر ممکن ہے؟ویسے میرا خیال ہے کہ اقبال نے سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی توازن وغیرہ قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جہاں تک میں سمجھا ہوں اقبال کی نظر میں سائنس ایک نسبتاً غیر اہم شئے تھی۔یعنی سائنس محض ٹکنالوجی کے طور پر انسان کے کام آسکتی تھی۔رہا سوال ان چیزوں کا جنھیں سائنسی افکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ،تو میرے خیال میں اقبال اس نظریے کے حامل تھے کہ مابعد الطبیعیانی اور مذہبی فکر کی مدد سے سائنسی افکار بھی سمجھے جاسکتے ہیں۔
قاسم ندیم : اقبال ضابطہ اور عمل کو تصور اور سپردگی پر فوقیت دیتے ہیں۔لیکن وہ تصور پر ست اور عینیت پسند بھی رہے ہیں۔انھوں نے لینن کو خدا کے حضور میں کھڑا کردیا ۔اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :اقبال یقیناًضابطہ اور عمل کے آدمی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عشق کی سپردگی کے قائل نہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اقبال کا عشق دراصل رسول ہے۔اور رسول کے سامنے وہ اپنے پوری طرح بے دست و پا کردیتے ہیں۔یہ ان کی بڑائی کا ایک پہلو ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عینیت پرست ہیں۔اگر عینیت سے آپ کی مراد افلاطونی عینیت ہے یا وہ نو افلاطون عینیت ہے جس کا آغاز فلاطینوس سے ہوتا ہے اور جس نے مسلمان صوفیا کو متاثر کیا تو اقبال کے یہاں افلاطونی عینیت یا نو افلاطونی عینیت جیسی کوئی چیز نہیں۔ان کے کچھ آدرش ضرور ہیں لیکن آدرش ہمیشہ عمل کی تلقین دیتے ہیں۔آدرش پرستی کا مطلب تصویر پرستی ہر گز نہیں۔رہا سوال نظم”لینن خدا کے حضور میں“کا تو اس کا تعلق نہ آدرش سے ہے اور نہ عمل سے۔یہ ایک دلچسپ مگر پیچیدہ نظم ہے۔کائنات کا سارا نظام اللہ کے ہاتھ میںہے۔اور اللہ رحیم و کریم ہے۔اس کے باوجود دنیا میں دکھ،درد،غم ،ظلم اور بے انصافی بھی ہے۔تو پھر نظام کائنات کی بنا انصاف پر کیوںکر قرار دی جائے؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال ہیں جنھیں سلجھانے کی کوشش میں انسانی عقل ہزاروں برس سے گرفتار ہے۔اقبال نے اس نظم میں اپنے شکوک اور شبہات کولینن کے زبان سے پیش کیا ہے۔اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ خدا موجود ہے ورنہ لینن کا اس کے حضور میں ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟
قاسم ندیم : کیا آپ بھی سلیم احمد کی طرح اقبال کو ”حکیم الامت“کے بجائے مرد یا آدمی کے زمرے میں رکھنا پسند کریں گے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :میں اقبال کو صرف شاعر سمجھنا بہتر سمجھتا ہوں ۔ان کا حکیم الامت ہونایا مرد یا آدمی ہونا ان کی شاعری کا ایک پہلو ہوسکتا ہے نہ کہ اس کے بر عکس ان کی شاعری کا ان کے حکیم الامت ہونے یا مرد یا آدمی ہونے کا ایک پہلو قرار دیا جائے۔
قاسم ندیم : فرقہ پرست حضرات اقبال کو پاکستان کا نظریہ پیش کرنے والا سمجھتے ہیں ،یعنی تقسیم ملک کا ذمہ دار حق بات تو یہ ہے کہ ان کے کام میں قومی یک جہتی کے تصور کی جتنی مثالیں موجود ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کے یہاں ہوں۔اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ کے اس جلسے میں جو ۰۳۹۱ میں الہ آباد میں منعقد ہوا تھا،اقبال نے جو صدارتی خطبہ دیا تھا اس میں یہ تجویز ملتی ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کو آزاد اور فیڈریشن کی طرح قائم کرنا چاہئے ۔اس فیڈریشن میں مسلمان اکثریت کے جو صوبے ہوں گے انھیں بعض مرکزی معاملات کو چھوڑ کر باقی سب انتظامی امور میں خودمختار ی حاصل ہوگی۔لیکن اسے باقاعدہ تجویز نہیں کہا جاسکتا ۔اور بہر حال کسی تجویز کا پیش کرنا اور ملک کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہرانا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔تقسیم کی ذمہ داری مہاتما گاندھی،جواہر لال نہرو دوسرے اکابرین کانگریس اورمحمد علی جناح پر ہے۔اور ان سب سے زیادہ بڑے مجرم اس معاملے میں انگریزہیں۔رہا سوال اقبال کے کلام میں قومی یک جہتی کے تصور کا اظہار ہے کہ نہیں ،تو یقیناًہے اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اظہار اور احساس اقبال کے یہاں دوسری زبانوں میں ان کے معاصر بہت سے بڑے ادیبوں سے زیادہ ہے۔
قاسم ندیم : فیض کو آپ نے اپنے پسندیدہ پانچ جدید شعراءمیں رکھا ہے۔کس بنا پر آپ نے انھیں جدید شاعر مانا ہے؟کیا اس لیے کہ ترقی پسندوں نے انھیں کنارے لگا دیا تھا؟
شمس الرحمٰن فاروقی :سب ترقی پسندوں نے نہیں،صرف کچھ نے،اور ہمیشہ کے لیے نہیں صرف کچھ مدت کے لیے فیض صاحب کے خلاف منفی خیالات کا اظہار ضرور کیا تھا۔لیکن ترقی پسندحلقوں میں کسی کا ردو قبول میرے لئے کوئی معیار نہیں۔ترقی پسند حضرات کسی کو بڑا شاعر مانیں یا نہ مانیں یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔یہ قطعی ناممکن ہے کہ میں کسی شاعر کو برا شاعر صرف اس لیے مانوں کہ ترقی پسند حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ میں کسی کو بڑا شاعر صرف اس لیے مانوں کہ ترقی پسند حضرات اسے بڑا شاعر مانتے ہیں۔
جہاں تک سوال میرے پانچ پسندیدہ جدید شعرا کا ہے تو میں نے یہ نہیں کہا کہ فیض میرے پانچ پسندیدہ جدید شعرا میں ہیں۔میں نے یہ کہا ہے کہ اقبال کے بعد پانچ بڑے شعرا کی فہرست جو میرے حساب سے بنتی ہے وہ حسب ذیل ہے :میراجی،راشد،اخترالایمان ،مجید امجد اور فیض۔
قاسم ندیم : کیا آپ فیض پر بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :جی نہیں ایک وقت میں مجھے امید تھی کہ میں ترقی پسند ادب پر ایک مفصل کتاب لکھوں گا لیکن افسوس کہ اب یہ ممکن نہ ہوگا ،کیوں کہ میں نے کچھ اور کام کئی سال ہوئے شروع کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں اور اب میری عمر ختم ہونے کو آرہی ہے۔
قاسم ندیم : کیا اس قول میں صداقت ہے کہ ادب کے لیے تنقید سانس کی طرح ناگزیر ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :کچھ اس طرح کی بات ٹی ایس الیٹ (T. S. Eliot) نے کبھی کہی تھی۔ لیکن اس سے اس کی مراد لازمی طور پر وہ تنقید نہیں تھی جو ہم آپ لکھتے یا پڑھتے ہیں۔ اس کی مراد یہ تھی کہ تنقیدی شعور کے بغیر تخلیقی کاروائی ممکن نہیں۔
قاسم ندیم : یہ بتائے کہ کیا کسی تخلیق کار کی عصری آگہی اس کی فکری اور جذباتی وحدت کا روپ اختیار کر سکتی ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی :”عصری آگہی “ کی اصطلاح سے تو میں واقف ہوں لیکن ” فکری اور جذباتی وحدت کا روپ اختیار کرنے“ سے کیا مطلب ہے ، میں نہیں سمجھا۔ اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا فن کار کی عصری آگہی اس کے جذبات اور افکار پر اثر انداز ہوتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً اثرانداز ہوتی ہے، لیکن یہ اثراندازی ہر فن کار بلکہ ہر فن پارے میں مختلف کیفیت رکھتی ہے۔
قاسم ندیم : جس وقت آپ کی تخلیقات پر تنقید کی جاتی ہے اس وقت آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : ذاکر صاحب کہتے تھے کہ اپنی تعریف سن کر خوش ہونا تو فطری بات ہے لیکن اس پر یقین کرلینا احمقوں کا شیوہ ہے۔ اسی کو پلٹ کر میں یوں کہتا ہوں کہ اپنی برائی پڑھ یا سن کر ناخوش ہونا تو بجا ہے لیکن اس پر یقین کرلینا بے وقوفی ہے۔ میں اپنے بارے میں بے تکلف یہ کہہ سکتا ہوں کہ چالیس برس سے زیادہ مدت کی تصنیفی اور تخلیقی زندگی میں مجھے دوہی چار تحریریں ایسی ملیں جن میں مجھ پر مدلل یا عالمانہ اعتراضات کیے گئے ہوں۔
قاسم ندیم : ادبی حلقوں میں دبے دبے انداز میں یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ آپ کی نثر آپ کی شاعری پر حاوی ہوگئی ہے ۔ کیا آپ بھی یہی محسوس کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : اگر حاوی ہوجانے کے معنی یہ ہیں کہ میں نے نثر زیادہ لکھی ہے اور شعر کم ، تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اگر تنقید لکھنے کے لیے مجھ پر اتنا دباﺅ نہ ہوتا تو میں نے اپنی شاعری پر زیادہ توجہ صرف کی ہوتی ۔ تنقید لکھنے کے لیے دباﺅ میرے اوپر شروع سے رہا ہے، اور کچھ میں نے بھی تنقید پر زیادہ توجہ صرف کی۔ شاید اس لیے کہ مجھے یہ خیال تھا کہ تنقید کے میدان میں جو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں وہ کوئی اور نہیں کہہ رہا ہے، اور شاعری کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ میری طرح کا شعر کہہ ہی دے گا۔ لیکن سچ پوچھیے تو ادھر دس پندرہ سال میں میرا یہ احساس شدید ہوگیا ہے کہ میری شاعری کچھ اس طرح کی ہے کہ اس جیسی شاعری کوئی اور نہیں لکھ رہا ہے۔
قاسم ندیم : آپ نے ”سبز اندر سبز“ میں بچوں کے لیے بھی کچھ نظمیں شامل کی ہیں۔ کیا آپ نے بچوں کے لیے اور بھی کچھ لکھا ہے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : ”چار سمت کا دریا“ جو صرف رباعیوں کا مجموعہ ہے ، اس کو چھوڑ کر میرے دو مجموعوں میں بچوں کے لیے نظمیں شامل ہیں۔ میں نے بچوں کے لیے کچھ رباعیاں بھی کہی ہیں۔ لیکن وہ ”چار سمت کا دریا“ کے بہت بعد کی ہیں ‘ بلکہ ”آسماں محراب “ کے بھی بعد کی ہیں۔
قاسم ندیم : اردو رسم الخط کو دیوناگری میں تبدیل کرنے کے سلسلے میں اکثر کہا گیا ہے کہ اردو کا رسم الخط بدل کر ناگری کردیاجائے ۔ یہاں تک کہ احتشام صاحب نے بھی کچھ ایسی رائے ظاہر کی تھی۔ آخر پروفیسر احتشام حسین جیسے معزز اور معتبر بزرگ کے اردو رسم الخط کو دیوناگری میں بدلنے کی رائے دینے کے پسِ پشت کیا وجوہات رہی ہوں گی؟
شمس الرحمٰن فاروقی : اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد اردو پر جو کڑا وقت پڑا اس سے گھبرا کر بعض ترقی پسند بزرگوں نے رائے ظاہر کی کہ اردو کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس کا رسم الخط دیوناگری کردیا جائے ۔ ان بزرگوں میں احتشام صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ لیکن جلد ہی انھوں نے اپنی رائے بدل لی تھی۔ چنانچہ ایک بار جب بعض ترقی پسند ادیبوں مثالاً عصمت چغتائی مرحومہ وغیرہ نے پھر یہ تجویز رکھی تو میری درخواست پر احتشام صاحب نے ایک مضمون لکھا جسے میں نے ”شب خون“ میں شائع کیا تھا۔ اس مضمون میں احتشام صاحب نے بہت زور دے کر رسم الخط کی تبدیلی کی مخالفت کی ، اور یہاں تک کہا کہ جو لوگ اردو رسم الخط بدل کر دیوناگری کرنا چاہتے ہیں وہ فاشی ہیں۔
قاسم ندیم : آپ کو سرسوتی سمّان سے نوازا گیا اور اردو کے تمام حلقوں کی طرف سے اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ بے شک صرف اور صرف آپ اس اعزاز کے حق دار تھے ۔ کیا اردو کے خدمت گاروں میں کچھ ایسی ہستیاں اور بھی ہیں جنھیں اس طرح کے اعزاز سے نوازا جانا چاہیے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : یقینا ہیں ۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ یہ ایوارڈ ابھی اردو کے کئی ادیبوں کو ملے گا۔
قاسم ندیم : اگر نیّر مسعود صاحب کو ساہتیہ اکیڈمی انعام نہ دیا جاتا تو آپ کے تاثرات کیاہوتے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : مجھے یقیناً افسوس ہوتا۔
قاسم ندیم :انعامات اور اعزازات کی بات چل رہی ہے تو ےہ بتائےے کہ (Booker)انعام اور نوبل انعام اردو کے نصےب مےں ہےں کہ نہےں؟اور ان اعزازات کے حق دار کون ہوسکتے ہےں؟
شمس الرحمٰن فاروقی :Bookerانعام تو انگرےزی کی کتابوں پر ملتا ہے ،لہٰذا اس کا کوئی امکان نہےں ۔نوبل انعام کا معاملہ ےہ ہے کہ ابھی کسی اردو ادےب کے حق مےں مغربی ممالک مےں عام تذکرہ اور چرچا نہےں ہوا ہے،اور ےہ بہت ضروری ہے۔
قاسم ندیم : گلوبلائزیشن کے اس دور میں مختلف تہذیبوں کا ٹکراﺅ جاری ہے۔ ایسے وقت میں شعرا اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : تہذیبوں کے ٹکراﺅ کا تصور امریکی سامراج کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ میں اس کو قبول نہیں کرتا ۔ دوسری بات یہ کہ تہذیبوں کا ٹکراﺅ ہو یا گلوبلائزیشن یا اور کوئی صورت حال ، شاعر (اور اس اصطلاح میں تمام تخلیقی فن کار شامل ہیں) کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرتے ہوئے اچھے سے اچھا لکھے۔
قاسم ندیم : آپ نے ۶۶۹۱ءمیں ”شب خون“ جاری کیا ،ا س کے اسباب کیاتھے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : اس کا پہلا سبب تو یہ تھا کہ نئے لکھنے والوں اور نئے سوچنے والوں (جن میں میں خود کو بھی شامل کرتا تھا) ‘ ان کے لیے لکھنے اور تبادلہ¿ خیال کا معتبر اور مستقل میدان مہیا کیا جائے۔دوسری بات یہ کہ ترقی پسند ادب اس وقت تک بڑی حد تک بے جان ہوچکا تھا اور ضرورت تھی کہ اس کی جگہ لینے کے لیے ایسا ادب سامنے لایا جائے جو نئے حالات کی نمائندگی کرتا ہو اور جو ترقی پسند ادب کی طرح نظریے کی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو۔ تیسری بات یہ کہ اس زمانے میں الہٰ آباد میں کئی نئے لکھنے والے موجود تھے جنھیں قومی سطح پر متعارف ہونا چاہیے تھا۔ لیکن کوئی اچھا رسالہ ان کی دسترس میں نہ تھا۔ ایسے لکھنے والوں کے لیے بھی ایک جگہ درکا رتھی جسے میں نے ”شب خون“ کے ذریعے مہیا کرنے کی کوشش کی ۔ چوتھی بات یہ کہ اس وقت ہندوستان کے اکثر اچھے لکھنے والے پاکستانی پرچوں میں چھپنا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ پاکستانی پرچوں کو دلکش اور معیاری سمجھتے تھے۔ اس کے برخلاف ، اس زمانے میں شاید ہی کوئی قابلِ ذکر پاکستانی ادیب رہا ہو جو ہندوستان میں چھپتا ہو۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ ایک ایسا پرچہ نکالا جائے جس میں ہندوستان کے اچھے ادیبوں کو چھپنے کی خواہش ہو۔ اور اس طرح پاکستان کا رعب لوگوں کے دل سے زائل ہو۔ اسی فیصلے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ میں نے شروع کے دوسال میں کسی پاکستانی ادیب کو ”شب خون“ میں شائع نہیں کیا۔ اور جب تیسرے برس سے انھیں شائع کرنا شروع کیا تو متعدد سربر آوردہ پاکستانی ادیب ہندوستان میں پہلی بار شائع ہوئے ۔ مثلاً انتظار حسین ، انور سجاد ، ظفر اقبال ‘وغیرہ۔
قاسم ندیم : صرف بتیس(۲۳) سال کی عمر میں آپ نے محسوس کرلیا تھا کہ آپ جدیدیت کی علم برداری کرسکتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : جدیدیت کی علم برداری وغیرہ کا کوئی تصور میرے ذہن میں نہ تھا۔ ممکن ہے ”جدیدیت“ کا لفظ بطور اصطلاح سب سے پہلے میں نے استعمال کیا ہو، میں اس بات میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔ عسکری صاحب نے ”جدیدیت“ کا لفظ یورپی افکار کے حوالے سے ضرور استعمال کیا ہے ، لیکن اس سے ان کی مراد یورپی روشن فکری تھی نہ کہ وہ ادبی رجحان جسے ہم آپ جدیدیت کا نام دیتے ہیں۔ مغربی ادب میں بھی Modernismکی اصطلاح تقریباً انھیں معنی میں رائج ہے جن معنی میں ہمارے یہاں ”جدیدیت“ کی اصطلاح رائج ہے۔
قاسم ندیم : کیا اس زمانے میں جدیدیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی تھی؟اردو میں جو مختلف تحریکیں وجود میں آئیں ان سے زبان و ادب کو نقصان ہوا یا فائدہ؟
شمس الرحمٰن فاروقی : دوسرے سوال کا جواب پہلے عرض کرتا ہوں۔ میرا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ادبی تحریک سرا سر نقصان دہ نہیں ہوتی۔ دیکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ کسی تحریک کے اثرات کس حدتک منفی تھے اور کس حد تک مثبت۔ پہلے سوال کے جواب میں یہ عرض کروں گا کہ جدیدیت سے اختلاف بہت کیا گیا ۔ لیکن اس میں کم سے کم تین طرح کے اختلاف کی نشاندہی ہوسکتی ہے ۔(۱) پرانے وقتوں کے زیادہ تر سیدھے سادے لوگ جن کااختلاف ادبی بنیادوں پر تھا لیکن ادبی نظریات پر ان کی گرفت کچھ مضبوط نہ تھی ،اس لیے ان کا اختلاف زیادہ تر واویلا کی شکل میں ظاہر ہو۔ (۲) ترقی پسند ادیب ، جنھیں اپنی کرسی خطرے میں نظر آرہی تھی۔ (۳) عام طور پر بزرگ ادیب جو ہر طرح کی تبدیلی کے خلاف تھے۔
قاسم ندیم : جدیدیت کے متعلق ہمیشہ یہ بات کہی گئی ہے کہ اس میں جو تجربے ہوئے ہیں وہ ہماری زندگی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ آپ سے بھی کئی لوگوں نے اس قسم کے سوالات کیے ہوں گے ۔ آپ نے انھیں کس طرح مطمئن کیا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : مجھ سے اس معاملہ پر باقاعدہ سوال و جواب تو شاید کبھی نہیں ہوا ، اوراگر ہوا بھی ہوتا تو میں یہ دعویٰ نہ کرسکتا کہ میں نے سب کو مطمئن کردیا۔ یہ بات ضرور ہے کہ جدیدیت پر مختلف مضامین میں یہ اعتراض ضرور کیا گیا کہ جدیدیت سماجی شعور کی قائل نہیں اور نہ ادب میں سماجی معنویت دیکھنا چاہتی ہے۔ اسی طرح کے اعتراض کے ضمن میں یہ بھی کہا گیا کہ جدیدیت زندگی سے منقطع ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں غلط تھیں۔ کم سے کم میں نے تو ہمیشہ کہا کہ ادیب اپنے معاشرے کا اثر قبول کرتا ہے اور معاشرے میں رہ کر ہی ادب تخلیق کرتا ہے۔ ہاں میں نے اس بات سے انکار کیا اور اب بھی انکار کرتا ہوں کہ ادیب کا سماجی شعور یا سماجی زندگی کا ادب میں اظہار کسی خارجی دباﺅ کا پابند ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ غور کیجئے تو ادیب کی آزادی اظہار پر اصرار کرنے کے معنی ہی یہی ہیں کہ ادیب کا سماجی شعور اور زندگی کے بارے میں اس کا ادراک کسی خارجی دباﺅ کا پابند نہ قرار دیا جائے۔
قاسم ندیم : کیا آپ مانتے ہیں کہ واقعی اس دور میں قاری ناپید ہوگیا تھا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : یہ عجیب بات آپ نے کہی ۔ قاری کوئی پھول یا پھل تو ہے نہیں کہ کسی موسم میں نظر آئے اور کسی موسم میں ناپید ہوجائے ۔ ہمارا کہنا صرف یہ تھا کہ قاری کا احترام فرض ہے ، لیکن ادیب کا احترام بھی ہمارا فرض ہے اور یہی ہمارا پہلا فرض ہے۔ ادیب کو قاری کا محکوم نہ قرار دینا چاہیے۔ اگر ہم ادیب سے توقع کرتے ہیں کہ تخلیق کے کام میں وہ کوئی کوتاہی نہ کرے گا اور اپنی حیثیت اور استعداد کے مطابق بہترین ادب لکھے گا ، تو ہم قاری سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر تخلیق کی فہم پیدا کرے اور اپنی ذہنی تربیت اس طرح کرے کہ وہ مختلف رنگوں کی تخلیقات کو سمجھنے کی اہلیت حاصل کرلے۔
قاسم ندیم : اگر مابعد جدیدیت کو ایک تحریک مان لیا جائے تو کیا یہ تمیز کرنا ممکن ہے کہ فلاں تخلیق جدیدیت یا ترقی پسند تصورات سے مبراہے ؟
شمس الرحمٰن فاروقی : مابعد جدیدیت کو آپ تحریک مانیں یا نہ مانیں اس کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ جب مابعد جدیدیت کا نام بھی نہ تھا ، تب بھی یہ پہچاننا کچھ مشکل نہ تھا کہ کوئی فن پارہ ترقی پسند تصورات سے عاری ہے یا نہیں۔ مثلاً میراجی کی تمام شاعری ایسی ہے کہ اسے ترقی پسند نہیں کہا جاسکتا۔ یہی حال راشد اور اخترالایمان کی شاعری اور بیدی اور منٹو کے بیشتر فکشن کا ہے۔ اسی طرح جدید دور میں بھی ایسے بہت سے فن کار تھے جنھیں جدید نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر کوئی فن پارہ ترقی پسندی یا جدیدیت سے خالی ہے تو وہ مابعد جدید ہی ہوگا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جن کی موجودگی کسی تخلیق کو مابعد جدید بنادیتی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر گو پی چند نارنگ نے آج تک کوئی ایسی فہرست نہیں مہیا کی ۔ اور ہمارے دوسرے دوست پروفیسر وہاب اشرفی نے جو کتاب اس موضوع پر لکھی ہے اس میں انھوں نے جس قسم کے فن پاروں کو مابعد جدید کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے ان میں تو مجھے جدیدیت بھی ٹھیک سے نظر نہیں آئی۔ مابعد جدیدیت کا کیا پوچھنا ہے۔ بلکہ وہاب صاحب نے اور خود نارنگ صاحب نے مابعد جدید ادیبوں کے طور پر جن لوگوں کے نام گنائے ہیں ان میں سے اکثر کوتو درجہ سوم کا بھی شاعر یا افسانہ نگار یا نقاد تسلیم کرنا مشکل ہے۔
قاسم ندیم : جب گوپی چند نارنگ صاحب ساہتیہ اکیڈمی کے صدر منتخب ہوئے تو آپ نے انھیں مبارکباد دی ۔ کیا نارنگ صاحب نے بھی آپ کا شکریہ ادا کیا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : لوگ معلوم نہیں کیوں سمجھتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ سے میری بات چیت نہیں ہے یا میرا ان سے کوئی جھگڑا ہے۔ادبی معاملات میں اختلاف رائے نہ کوئی نئی بات ہے نہ میری بات۔ بلکہ یہ رسم تو جدیدیت ہی کی قائم کردہ ہے کہ ہر شخص کواپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔
قاسم ندیم : آپ کا وارث علوی سے بھی چھیڑ چلی جائے ہے والا معاملہ بھی رہا؟
شمس الرحمٰن فاروقی : وارث علوی سے کوئی ایسا معاملہ میرا کبھی نہیں رہا۔ہاں وارث علوی کبھی کبھی مجھے برا بھلا کہنے اور کبھی کبھی مجھے گوپی چند نارنگ کے مقابل کھڑا کرنے میں لطف لیتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ان کا اپنا معاملہ ہے ، اور ممکن ہے کہ اس میں ان کے احساس غیر محفوظیت کو بھی کچھ دخل ہو۔ وارث علوی نے جب ترقی پسندی ترک کی اور جدیدیت اختیار کی تو اس وقت وہ ترقی پسندوں سے اس قدر خائف تھے کہ انھوں نے اپنے اولین مضامین ”ابن حسین“ کے نام سے لکھے۔ یہ سب مضامین ”شب خون“ میں چھپے۔ جب ان مضامین کا شہرہ ہوا اور انھیں مقبولیت ملی تو وارث علوی کو اپنا نام ظاہر کرنے کی ہمت ہوئی ۔ انھوں نے قبول کیا کہ وہ مضامین انھیں کے ہیں اور پھر آئندہ مضامین انھوں نے اپنے اصل نام یعنی وارث علوی کے نام سے لکھے۔ اور اب ظاہر ہے کہ وہ جدید ادب کی ایک بہت نمایاں ہستی ہیں تو شاید انھیں کبھی کبھی اپنے پرانے دن یاد آجاتے ہوں تو مجھ سے کچھ چھیڑ چھاڑ کرلیتے ہوں۔
قاسم ندیم :آپ اردو کے نقادوں میں سب سے زیادہ کسے پسند کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : محمد حسن عسکری پھر آل احمد سرور
قاسم ندیم : بیسویں میں اردو کے پانچ بڑے ناول نگاروں ، افسانہ نگاروں ، شاعروں اور ناقدوں اور محققین کی فہرست آپ بنادیں تو آنے والی نسلوں کے لیے سند بن جائے۔
شمس الرحمٰن فاروقی : مجھے فہرست بنانے میں لطف نہیں آتا۔ کچھ عرصہ ہوا زبیر رضوی کے رسالے ”ذہن جدید“ میں ناول نگاروں ، افسانہ نگاروں اور فکشن کے نقادوں کی فہرست بنانے کی فرمائش آئی تھی ۔ میں نے زبیر صاحب کا دل رکھنے کے لیے ایک فہرست بنادی تھی ، وہ آپ دیکھ لیں ۔مزید زحمت سے مجھے معاف رکھیں۔
قاسم ندیم : برصغیر کے اردو رسائل میں سے آپ کن کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
شمس الرحمٰن فاروقی : میرے پاس جو رسالے آتے ہیں ان سب کو ایک نظر دیکھ لیتا ہوں ۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں فہرست کی حد تک دیکھتا ہوں۔
قاسم ندیم : نئی نسل کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
شمس الرحمٰن فاروقی : میں اپنے کو کسی خاص علم یا صلاحیت کا حامل نہیں سمجھتا اور اس لیے خود کو اس بات کا حق داربھی نہیں سمجھتا کہ نئی نسل کوکوئی پیغام دوں۔ لیکن اردو زبان اور ادب سے محبت کرنے والے ایک عام شخص کی حیثیت سے میں سب سے پہلی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نوجوان نسل اردو زبان ، اس کے رسم الخط ،اور اس کے املا کے بارے میں کسی قسم کا مدافعانہ یا شرمندگی کا رویہ نہ رکھے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے کہ ہمیں اس زبان پر فخر ہے اور اس سے محبت ہے۔ ہمیں اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور اگر کوئی برائی ہو بھی تو ہم اسے اچھائی ہی سمجھتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والے کو محبوب میں اچھائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ نئے لوگ اردو زبان کے بارے میں یہ نہ گمان کریں کہ یہ لشکری زبان ہے یا مسلمانوں کی زبان ہے ، بلکہ یہ جانیں کہ اردو برصغیر میں پیدا ہوئی اور برصغیر کے تمام باسیوں کا اس پر حق ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ اپنی زبان کو سادہ ،شستہ ،بامحاورہ بنائیں۔ غیر زبانوں کے الفاظ سے گریز کریں خاص کر جب اردو زبان میں ان کے متبادل الفاظ موجود ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ ادب سے محبت اور ادب کا مطالعہ کسی فائدے یا منفعت کی غرض سے نہ کریں بلکہ اردو زبان اور ادب سے بے غرض اور بے لوث محبت کو اپنی رگ رگ میں پیوست کرلیں۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
٭٭٭
مشمومہ ، سہ ماہی ”اردو چینل“ (شمس الرحمن فاروقی نمبر) جلد ۵ ، شمارہ ۴ (ستمبر 2003تا دسمبر 2004) صفحہ نمبر 94تا 102)

 

History of Urdu Language

Articles

History of Urdu Language

Prof. Qazi Afzal Husain Interview

Articles

اردو میں تنقید نہیں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں

پروفیسر قاضی افضال حسین

انٹرویو

اردو میں تنقید نہیں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں

پروفیسر قاضی افضال حسین

اردو میں تنقید نہیں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں

قمر صدیقی: ادب و تہذیب پرگلوبلائزیشن کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
قاضی افضال حسین: آپ گلوبلائزیشن سے انکار تو نہیںکر سکتے وہ تو ہو رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے Mass Media ،اس کے جو ذرائع ہیں صرف ٹی وی نہیں انٹر نیٹ، ای میل جتنے بھی الیکٹرانک ذرائع ہیں انھوں نے واقعی من کلی جسے کہتے ہیں ایک طرح کی گلوبلائزیشن کے علاوہ ایک طرح کی حکمرانی کا گویا تصور پیدا کر دیا ہے ۔ایک خاص تہذیب کا ایک Imperialismہے یہ۔ تو بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور پھیلا۔ یعنی اب ہر وہ چیز اچھی ہے جسے میڈیا منیجر اچھی کہتے ہیں ۔ جس چیز کو وہ اچھی نہیں کہتے وہ اچھی نہیں ہے ۔ جن لوگوں کو ادب میں اس کا ذراسا بھی احساس ہوگیا ہے یہ گلوبلائزیشن اب ایک طرح کیImperialism کی طرف بڑھ رہا ہے انھیں اس کی فکربھی ہوگئی ہے۔ چنانچہ ادب میں، خود آپ کے ادب میں، اردو میں بھی شعریات پر تنقید کے مقابلے میں توجہ بڑھ رہی ہے اور یہ بڑھ اسی لیے رہی ہے کہ شعریات لازماََ ایک زبان کی اپنی ایک لوکل چیز ہوتی ہے۔تنقید آفاقی ہو سکتی ہے شعریات آفاقی نہیں ہو سکتے ۔ آپ کے یہاں شعریات پر یعنی شعر بنانے کے فن پر گفتگو بڑھ رہی ہے اب تو میںبہت دیکھتا ہوں کہ ہر رسالے میں کوئی نہ کوئی ایک مضمون شعریات کے متعلق ہوتا ہے ۔ بغیر یہ سمجھے ہوئے کہ شعریات کیا ہے لیکن بہر حال لوگوں کویہ سمجھ میں آرہا ہے کہ شعر بنانے کے جو اصول ہیں ایک لسانی معاشرہ کے وہ گلوبل نہیں ہےں۔ ہاں ان کی تنقید کا معیار آفاقی یا Globalistہوسکتا ہے تو اب آپ کے یہاں شعریات پر زور دیا جا رہا ہے یا اس کی طرف توجہ ہوئی ہے تو اسے تقریباََایک طرح کا ردعمل کہا جانا چاہئے۔
دیکھیے یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیںاس معاشرے کی صورت حال کا آپ کی فکر پر اثر ہی نہ پڑے ،یہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ اب تک صرف یہ ہوا تھا اور ذرا پہلے سے حالی© کے زمانے سے چل رہا ہے کہ ایسے کہو یا یہ کہو ۔ شاعر کے لیے Dictationکے کوئی معنی نہیں ہیں لیکن ہو اایسا عملی طور پر اور اس کی طویل ترین صورت بعض صورتوں میں ترقی پسند تحریک میں نظر آئی ۔ اس طرح سے انھوں نے ان لوگوں Rejectکرنا شروع کر دیا جنھوں نے ان کی طرح نہیں کہا۔ قرةالعین حیدر، منٹو، میراجی راشد بہت نام ہیں اس میں۔لیکن وہ کیا کر رہے ہیںیہ بحث نہیں ہے بحث یہ ہے کہ آپ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے جو آپ کے معاشرے سے مختلف ہو۔ معاشرے کا اثر آپ پر تو پڑے گا ہی پڑے گا ۔ تو ایک طرح کی الجھن گلوبلائزیشن کی آپ کے Containمیں بھی دکھائی دے رہی ہے۔آپ کے افسانوں میں ، بعض ناولوں میں ،اس طرح کی الجھن نظر آتی ہے ۔تو ہمارے خیال میں Containکی سطح پر بھی اور تصور شعر کی سطح پر بھی اس طرح کی توجہ یہ درشاتی ہے کہ ہمارے لیے گلوبلائزیشن نمبر ۱ : ایک مسئلہ بن گیا ہے ۔ اس کے فوائدہیں لیکن اس سے جو نمو کررہا ہے ایک طرح سے کہنا چاہئے کہImperialism اس نے ہمارے اندر یہ Verityتو پیدا کی ہے کہ ہمیں ادب پر Workکرنا چاہئے یہ تو ہوا ہے اور ہمارے یہاں ہی نہیں ہم سے زیادہ تو دوسری زبانوں میں ہوا ہے ۔ آپ بمبئی میں رہتے ہیں ابھی کاٹجو یہاں آئے تھے انھوں نے تقریر میں کہا کہ Son of this SoilکاConceptہی Antinational ہے۔ابھی دو روز پہلے کی بات ہے مسٹر کاٹجو نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی ایک خطہ عرض پر ایک طرح کے لوگ رہیں گے۔ تو ایک ہی خطہ پر ایک ہی طرح کے لوگ کا افراق بڑھا ہے ،یہ بھی غالباََ گلوبلائزیشن کا ردعمل ہے ۔بہت ساری چیزیںبہت ساری تبدیلیاں ہو رہی ہیں ۔دھیرے دھیرے چاروں طرف ،آج سے نہیں بہت پہلے سے یہ باتیں ، وہاں پورب میں، آسام میںاور اس علاقے میںچل رہی ہیں۔ آسام میں صرف آسامی رہے گا اور ناگا لینڈ میں ناگا لینڈ کا ،یہ سب چیزیں گلوبلائزیشن کے خلاف ہی تو جاتی ہےں۔ایک خطہ عرض پر خاص طرح کے لوگوں کا رہنا اور ان کو رہنے کا حق دینا اور دوسرے لوگوں کو نہ دینا یہ تو آفاقیت کے خلاف ہے نہ بھئی۔عالم کاری کے خلاف تو یہ سب چیزیں سیاست میں بھی ، تہذیب میں بھی اور لٹریچر میں بھی اس کی زبان میں بھی ، تصور شعر میں بھی ، اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں ۔ویسے بڑی خطرناک چیز ہے یہ آپ کا الیکٹرانک میڈیا ہے ۔ افوّہ!بھیانک
قمر صدیقی: لیکن خطرناک ہونے کے احساس کے باوجود الیکٹرانک میڈیا اتنا ہی اثر انداز بھی ہورہاہے۔
قاضی افضال حسین: بہت زیادہ اور اسی اثر کی وجہ سے خطرناک بھی لگ رہا ہے۔بھئی بھلا جس Product کو ٹی وی اچھا کہہ دے وہ اچھا ہوگا اور جس Productکو ٹی وی اچھا نہ کہے وہ اچھا نہیں ہے۔ جس آدمی کے Conceptکو ٹیوی دکھا رہا ہے وہ ہی اچھے آدمی کا conceptہے ۔جس لباس کو وہ کہہ دے کہ اچھا ہے تو وہ ہی اچھا ہے ۔ آدھی بمبئی تمھاری نیکر پہن کر گھوم رہی ہے تو یہ اسی کی وجہ سے ، اس کے اس گہرے اثر ہی کی وجہ سے۔ اس خطرے کا احساس ہے لوگوں کوکہ یہ جو چاہیں کرلیں۔بلکہ مجھے یاد آتا ہے صاحب علی کبھی تم نے یہ بات کہی تھی کہ میڈیا جو چاہے گا وہ آپ کھائیں گے جو چاہے گا وہی آپ پہنےں گے۔ اب یہ صورت حال ہے ،مگر جو اس کا خطرہ ہے وہ زیادہ سمجھدار لوگوں کی سمجھ میں آبھی رہا ہے ۔ کبھی میں اگر یہ باتیں کرتا ہوں تو مجھے خود بھی ہنسی آتی ہے کہ یار میں کیا کر رہاہوں، ان کا میں کیا بگاڑ لوں گا۔ لیکن کم از کم اپنے طور پہ تو جانتا ہوں کہ غلط ہو رہا ہے۔یہ جو کہنا چاہئے نہ کہ فلاں کا نمک مثلاََ۔اب کشمیر سے لے کر مدراس تک صرف فلاں کا نمک کھایا جاتا ہے۔پہلے فلانے جگہ کے گلاب جامن اچھے ہوتے تھے ، فلانے جگہ کا خورمہ اچھا ہوتا تھا ، فلانے جگہ کی برفی اچھی ہوتی تھی۔اب سب جگہ ایک ہی چیز ملتی ہے۔ کچھ برفی نہیں کچھ خورمہ نہیں ۔
قمر صدیقی: گلوبلائزیشن کی ثقافتی یک رنگی کے برخلاف ادبی متون کی بافت و تفہیم میں ثقافتی رنگارنگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
قاضی افضال حسین: یہ تو ہم کہہ ہی رہے ہیں بھئی ثقافتی یکسانیت کا تصور نہ صرف یہ کے فروغ پا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں جڑ پکڑ چکا ہے لیکن یہ ثقافتی یکسانیت کے معنی یورپ اور سفید آدمی کی ثقافت کے ہیں ،آپ کی ثقافت کے نہیں ہیں اور یہی اس کا خطرہ ہے جو میں آپ سے شروع سے کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک طرح کا Imperialism ہے۔ یہ اسی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک خاص ماڈل ہے اور غالباََ وہی ایک عالمی ثقافت کا ماڈل ہوگا۔ساری باتیں جو ہم ابھی آزادی ،تعلیم نسواں کے بارے میں کر رہے ہیں جو لوکل تہذیبوں کے بارے میں کر رہے ہیں وہ سب اسی کی پیداوار ہیں۔
قمر صدیقی: اگر یہی صورتِ حال رہی تو کیا ہم آنے والے دنوں میں ایک Literature Less معاشرے میں رہیں گے؟
قاضی افضال حسین: نہیں ایسا نہیں ہوگا ایک ایسے Literature کے زمانے میںرہیں گے جس کی حیثیت عالمی ہوگی ۔ ہم اس طرح اس میں رہیں گے مطلب دیکھو یہ کہ ظفر اقبال ہمارے بہت سنجیدہ آدمی ہےں۔ ظفر اقبال صاحب فرماتے ہیں کہ غزل کو ایسی زبان میں کہنا چاہئے جس کا ترجمہ ہوسکے، اچھا کیوں ہوسکے بھائی تاکہ انگریز پڑھ سکیں۔یہی نا ۔میرا یہ کہنا ہے کہ غزل وہ صنف سخن ہے جو ہماری شناخت ہے اور وہ ترجمہ نہیں ہوسکتی۔اصل بات ہی یہی ہے کہ ہماری اپنی شناخت ترجمہ نہیں ہوسکتی اور یہ جو عالم کاری ہے اس کی اصل میںجو بھی عزم ہے وہ ہماری شناخت پر ہے ۔ یہ سب کہنے کے بعد بھی کہ ہم اس کو روک نہیںسکتے ۔
قمر صدیقی: گویا جس Forceسے یہ آرہاہے اسے روکنے میںہم آگے کسی نہ کسی سطح پہ جا کے فیل ہو جائیں گے ۔
قاضی افضال حسین: فیل ہو جائیں نہیں فیل ہو چکے ہیں ۔یہ ایسا نہیں کہ ہو جائیں گے، یہ ہوچکا۔اس کی طاقت کا اس طرح اندازہ کیجئے آپ کہ ایک صاحب ہیں جنہوں نے Communication میں بہت کام کیا ہے Jean Baudrillard انھوں نے عراق جنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ عراق میں جنگ ہوئی ہی نہیں ۔ وہ تو ٹی وی کے لیے تیار کیے گئے Episodesتھے جو اسٹوڈیو کے بجائے عراق کے میدان میں تیار کئے گئے ہیں ۔اب آپ دیکھیے کہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ عراق میں آپ کو یاد ہوگا جنگ شروع ہوئی تھی پانچ بجے شام کو یہ وہ وقت ہے جب امریکن آفس سے لوٹ کے آجا تا ہے اور اپنی ٹی وی کھولتا ہے تو اس کو ایک Episodeدکھائی دے رہا ہے کہ عراق پہ امریکہ نے حملہ کر دیا ہے اور وہ روزانہ کا ایک Episodeہے جو اسٹوڈیو میں نہیں بنایا گیا ہے عراق کے میدانوں میں بنایا گیا ہے یہاںتک پہنچ گیا ہے ہمارا گلوبلائزیشن ۔
قمر صدیقی : تو گویا یہ کہ عراق جنگ بھی گلوبلائزیشن کے ثقافتی Imperialismکی ایک مثال ہے؟
قاضی افضال حسین: دیکھیے آپ صرف ثقافتی Imperialismکیوں کہہ رہے ہیں یہ Economic Imperialismبھی ہے جو چیزیں بازار میں امریکی ٹھپے سے آئیں گی وہی سب سے اچھی ہوںگی ۔ سو اصل میں ثقافت تو آپ کا مسئلہ ہے ،دنیا کے تاجروں کا مسئلہ ثقافت نہیں ہے ۔ان کا مسئلہ تو دولت ہے۔ کتنے لوگ یہ بات کہتے ہیں اور ہزاروں لوگ جانتے ہیں کہ عراق پہ حملہ پٹرول کے لیے ہوا تھا ۔ بھئی امریکہ نے جو حملہ کیا ان کے Defense Ministerصاحب Petrolکے تاجر ہیں ۔ کمپنیاں ہےں ان کی با قاعدہ۔سو یہ اصل مسئلہ تو Economic Levelپر ہی ہے۔صرف Economic Level پر۔ کیوں کہ دنیا میں سب سے بڑی قوت ہے دولت ۔ دنیا میں سب سے بڑی Political Strain ہے Democracy ، دنیا میں سب سے بڑا کلچر تہذیبی ثقافتی یکسانیت، ارے بھائی کیا مطلب کوئی Variationممکن نہیں ہے۔اب یہ جو آپ کے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں کہ آپ کو اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا ہے ۔سو عالم کاری نے تو وہ کر دیا ہے کہ آپ پلٹ کے اپنی طرف جا بھی نہیں سکتے جو چھوٹی چھوٹی گلیاں بچی ہیں اسی میںرہیے ۔ نہ تہذیب کی سطح پہ آپ سب سے اول ہیں ۔ تہذیب کی سطح پہ وہ تہذیب اول ہے جو ٹی وی پہ دکھائی جاتی ہے ۔White American یا White European Culture انہی کے تصورات ،انہی کے افکار ،انسان کے متعلق ان کا تصور، مرد عورت کے رشتے کے متعلق ان کا تصور، بس وہی افضل وہی قابل قبول ہے۔ نہیں ہے کیا؟ میں غلط کہہ رہا ہوں ؟ تو اب آپ اس میں You can’t do that آپ یہ کر ہی نہیں سکتے ،ٹی وی بند ہی نہیںکرسکتے آپ۔آپ Computer, Internetنہیں بند کر سکتے ۔Man-Women relationshipکے بارے میں آپ جو کچھ بھی جانتے ہیں وہ سب آپ کے Internetسے آیا ہے ۔ ہم آپ سے کیا کہیں یہ تو اتنا بھیانک معاملہ ہے کہ کیا Politics ، کیا Economy، کیا Culture ، کیا زندگی کا کوئی شعبہ، ان سب کا معاملہ یہی ہے ۔ دیکھیے پارلیمنٹ میں ہماری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کے جو مثال دی جاتی ہے کسی چیز کے قانون کی کہ یہ امریکہ میں بنا ہوا ہے کیونکہ امریکہ میں بنا ہوا ہے اس لیے غلط نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پارلیمنٹ میں Ministersکھڑے ہو کر تقریر یں کر رہے ہیں ۔ تو آپ اس کو روک نہیں سکتے ۔
قمر صدیقی : رو ک نہیں سکتے ہیں تو ہماری جیسی تہذیبیں Surviveکس طرح کریں گی؟
قاضی افضال حسین: یہ آپ کا مسئلہ ہو سکتا ہے یہ تاجروں کا مسئلہ نہیں ہے ۔یہ تو آپ کا مسئلہ ہے نہ اور اس کے لیے آپ کوMediaنہیں ملے گا۔اتنا دنیا بھر کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں فلاں کی جاسوسی ہو رہی ہے۔ فلاں پکڑا جا رہا ہے ۔فلاں Ministerپکڑا جا رہا ہے۔کوئی Capitalistہندوستان کا آج تک پکڑا گیا، جیسے وہ Corruptہوتا ہی نہیں۔یہ سب چلے گا نہیں آپ کو ظاہر ہے سب سے آسان طریقہ اپنے تحفظ کا یہ ہے کہ آپ اپنی زبان کا تحفظ کریں اگر آپ اپنی Languageبچانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ اپنی فکر بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اگرچہ وسائل صرف اردو نہیں ہندوستان کی کسی زبان کے پاس نہیں ہیں۔Unlessکہ آپ اس کو ایک Political Platformمیں بدل دیں جیسا کہ مہاراشٹر میں ہو رہا ہے ، جیسا کہ بہت دنوں تک بنگال میں ہوتا رہا تھا اب تو ذرا کم ہوا۔ جیسا کہ آسام اور Northeastمیں ہورہا تھا ۔Unlessیہ آپ کرسکیں جو آپ نہیں کر سکتے ۔
قمر صدیقی: میرے خیال میں اردو کے پاس اس طرح کے پلیٹ فارم کے لیے علاقہ نہیں ہے۔
قاضی افضال حسین:اردو کبھی علاقہ کی زبان تھی ہی نہیں ۔ اردو کی ثقافت میں اس طرح کی تفریق کبھی تھی ہی نہیں۔راجستھانی بھی اردو بول رہا ہے ، بنگالی بھی اردو بول رہا ہے، مراٹھی بھی اردو بول رہا ہے۔ جب اردو تھی تب سب اردو بول رہے تھے ۔مسلمان کیا ، غیر مسلمان کیا ، کسی علاقہ کیا یہ اس کا مسئلہ کبھی تھا ہی نہیں ہم نے اسی کو بڑی چیز سمجھا۔ اب یہ زمانہ ہے جسے ہم علاقائیت کو بڑی چیز سمجھ رہے ہیں ۔ تو اب ظاہر ہے کہ وہ میدان تو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا نہ۔ نکل کیا گیا ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اچھی چیز تھی ہی نہیں اور جو اب ہو رہا ہے وہ بھی اچھی چیز نہیں ہے علاقائیت وغیرہ ۔ زبان تو ایسے ہی ہونا چاہئے کہ ہند وستا ن میں ہر جگہ ہر قسم کے لوگ بولتے ہوں۔خیر اگر آپ اپنی Language بچا سکے۔دیکھئےLanguage صرف آوازوں کا مجموعہ نہیں ہے نہ اس میں آپ کی فکر ، آپ کی سوچ ، آپ کی ثقافت ، آپ کی تہذیب وہ سب بچ جائے گی۔
قمر صدیقی: خیر تبدیلی کے اس پورے Processمیں ادب کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟
قاضی افضال حسین: ایک فطری تبدیلی ہوتی ہے جو ہوتی جاتی ہے ۔ ایک تبدیلی کی جارہی ہے جو ہم زبر دستی کر رہے ہیں ۔ میں اپنے ایک ایسے Journalistدوست کو جانتا ہوں جنھوں نے ۲۰۰۲ءمیں Resign کیا ایک بڑے اخبار سے ۔ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نےResignکیوں کیاتو ان کا کہنا تھا کہ وہ اخبارزبر دستی ایکسویں صدی میں گھسا جا رہا ہے ہم اتنی تیز نہیں چل سکتے ۔ تو ایک تبدیلی وہ ہوتی ہے جو فطری ہے جو ہوتی رہتی ہے ،وہ آپ میں بھی ہوتی ہے۔ آپ بچے ہوتے ہیں ،مختلف ہوتے ہیں، آپ جوان ہوتے ہیں تو مختلف ہوتے ہیں۔ وہ ایک فطری تبدیلی ہے جو ہوتی رہی ہے۔ایک تبدیلی کی جارہی ہے ان دونوں میں فرق ہے ۔Imperialismکی جانے والی تبدیلی کے بارے میں ہے فطری ہونے والی تبدیلی کے بارے میں نہیں ۔ اس لیے میں آپ سے کہتا ہوں کہ اس میں یہ جو زبردستی ہو رہی ہے اس پہ آپ تھوڑا سا Resistanceدکھائیں۔آپ Resistanceدکھا سکتے ہیں اپنی زبان میں ، اپنے ادب میں ،اپنے تہذیب کے تحفظ کے بارے میں،فکر کر کے تو یہ ممکن ہے کہ آپ پر Mediaتو بہر حال ایسی چیز ہے جو آپ کے قبضے میں نہیں ہے ۔ یعنی آپ کےLanguage میں جو نکلتا ہے وہ بھی آپ کے قبضے میں نہیں ہے ۔
قمر صدیقی: ادب کے قرا¿ت کے جونئے نظریے آرہے ہیں وہ معاصر ادب کے ساتھ ساتھ ہماری کلاسیکی ادبی سرمایے کی تفہیم میں کس قدر معاونت کر سکتے ہیں ؟
قاضی افضال حسین: اصل میں سوچنے کے طریقے پہ انحصار ہے کہ آپ متن کوکیسے پڑھتے ہیں۔ایک سامنے کی مثال لیجیے حالانکہ بہت بوسیدہ مثال ہے کہ ایک ادب کو فحش کہتے ہیں بس فحش سمجھتے ہیں خوش ہوتے ہیں۔ دوسرے آدمی کو وہی ادب فحش نہیں لگتا ۔تو پڑھنے کے طریقے کا تعلق ادب کے تصور سے ہے۔آپ ادب کو کیا سمجھتے ہیں ،اچھا اگر ادب کی کوئی ایک تاریخ آپ کے ذہن میںہے تو اس کا ایک مقصود بھی آپ کے ذہن میں ہوگا ۔تو یہ تاریخ اور مقصود کا جو رشتہ ہے نہ آپ اس کی روشنی میں متن کو پڑھتے ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ادب وہ ہے جو عوام کی ہمدردی کرتا ہے ہو یا فلاں طبقے کے ساتھ رعایت یا اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو تو مقصود اصلاح ہوگی تو متن کا تجزیہ اس طرح ہوگا کہ اس میں اصلاح کے عناصر کتنے نکلتے ہیں یا کتنے نہیں نکلتے، اگر آپ ادب کو صرف بصیرت کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو پتہ نہیں کس نے یہ بات کہی تھی کہ صاحب ادب میں بلکہ جو سرور صاحب نے کہا تھا کہ مسرت ہوتا ہے پھر بصیرت ہوتی ہے ،اب آپ تجزیہ اس طرح کریں گے کہ اس میں بصیرتیں کیا کیا موجود ہیں ۔ اگر آپ فارملسٹ ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ ادب تو اظہار کے اسلوب کا نام ہے تو آپ کا تجزیہ ظاہر ہے کہ اسی نہج تک ہوگا۔یہ سارے نظریے ایک ساتھ ایک وقت میں چل رہے ہوتے ہیں ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے اس کا تنوع پیدا ہوتا ہے۔ہم یکسانیت چاہتے ہی نہیں ہےں۔ ہم اس طرح کر رہے ہیںآپ اس طرح کیجیے۔ہم نہیں چاہتے یکسانیت۔ہم اس کا پوسٹ مارڈن مطالعہ کرتے ہیں،آپ اس کا ترقی پسند مطالعہ کرتے ہیں ۔آپ اس کا مطالعہ کیجیے،بشر دوست مطالعہ کیجیے اور ہمارے یہاں یہ بیک وقت ہورہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں اسے ہوتے ہوئے اور ہم کو اچھا بھی لگ رہا ہے۔ تو ہم اپنے ادب کا ایک تصور رکھتے ہیںاور اس کے مقصود کے بارے میں سوچھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیںکہ اس کے وسائل چونکہ متن میں ہیں تجزیے کے ذریعے دیکھنے کے تو ہم دیکھ رہے ہیں لیکن اگر کوئی ادب کا مختلف تصور رکھتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہوتا ۔ متن کو ہم جیسے پڑھ سکتے ہیں پڑھتے ہیں ۔آپ اگر کسی سے مختلف طریقے سے پڑھتے ہیں ۔ اگر آپ متن کی تفہیم اچھی طرح کر سکتے ہیں ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں ہے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
قمر صدیقی:اردو تنقید کی موجودہ صورت حال بظاہر تو اچھی نظر آرہی ہے اور بہت لکھا جا رہا ہے مگر اس میں ٹھوس اور Authenticکام کتنا ہورہا ہے۔
قاضی افضال حسین: دیکھیے پہلی بات تو یہ کہ میں آپ کے سوال سے متفق نہیں ہوں ۔ اردو تنقید کی صورت حال اچھی نہیں ہے۔ نمبر ایک ؛جو لکھا جا رہا ہے وہ Ph.dکے مکالے ہیں اور چھپنے کی آسانی ہوگئی ہے ۔ پیسے ملنے لگے ہیں Pressکو یعنی اردو میں شاید 500سے زیادہ کتابیں روز چھپ رہی ہیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کے آپ کو وسائل کی آسانی ہوگئی ہے مگر کوئی متن یا کوئی بحث بہت اچھی ہورہی ہو یا کہیں مسائل کھل رہے ہیں یا سمجھے جارہے ہیں اس میں مجھے بہت شبہ ہے۔ رولاںبارت کا یہ تصور کے ادب میں Subjectخارج ہوگیا ہے اور ہم اس کو صرف اس کی زبان کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں ۔یہ ہے بنیادی ایک بات جس کو مصنف کی موت وغیرہ بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے اردو کے دو بڑے بڑے نقادوں نے Subjectکا ترجمہ موضوع کیا ہے Subjectکے لیے سادہ سی بات یہ ہے کہ وہ فاعل کا ذکر کرتا ہے وہ موضوع کا ذکر کر ہی نہیں رہا ہے اور آپ ترجمہ کر رہے ہیں کہ ادب سے موضوع خارج ہوگیا ہے۔ تو کتنا سمجھ رہے ہیں آپ ،اندازہ یہ ہے کہ بیشتر لکھنے والوں نے اگر کچھ پڑھ بھی لیا ہے توانھوں نے اس کو بغیر اپنے ذہن کو Applyکیے ،بغیر اپنی ضرورتوں کو سمجھے ،بغیر اپنی تہذیبی و ذہنی صورت حال سے معاملہ کیے ہوئے دہرا رہے ہیں۔
قمر صدیقی: چونکہ آپ کا تعلق تدریس سے بھی رہا ہے لہٰذا لہٰذا جامعات میں اردو تدریس کی صورتِ حال پر بھی کچھ روشنی ڈالیے؟
قاضی افضال حسین: ایک نفسیاتی و ذہنی Conditionمیں ہم سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی تعلیم کا مقصد نوکری ہے اور اب یہ نعرہ لگتا بھی ہے اور ٹھیک لگتا ہے کہ زبان کو بازار کی ضرورت سے جوڑنا چاہئے ۔ایک Confusion یہ ہے کہ ہم ادب کو بازار کی ضرورت سے جوڑنے کا ذکر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، زبان کو بازار کی ضرورت سے جوڑنا چاہئے ،مطلب آپ کو انگریزی اچھی آنا چاہئے تو انگریزی آنے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ آپ کو شیکسپیئر کے ڈرامے یاد رہنے چاہئے۔بس انگریزی اچھی آنا چاہئے۔ اسی طرح اردوبھی ایسی زبان ہونا چاہئے جومارکیٹ کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ لیکن اردوکا ادب مارکیٹ کی ضرورتوں کو پورا کرے اس کا کوئی مطلب ہی نہیں اور ہمارے یہاں یہ ایسا Confusionہے کہ اب میں لڑکوں سے کلاس میں کہتا ہوں ہوں جب کبھی سوال اٹھتا ہے کہ M.Aاردو کے بعد کیا Jobہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ M.Aجغرافیہ کے بعدکیاJobہے،M.A Sociologyکے بعدکیاJobہے،Jobکا تعلق زبان سے تو ہے البتہ اس کا تعلق ادب سے ہو یہ ضروری نہیں۔ مراٹھی ادب پڑھنے سے بازار کاکیا تعلق ہے ۔سوتعلیم کے اس بنیادی مقصد نے کہ وہ Market Orientedہو لٹریچر کو نقصان پہنچایا ہے۔ لٹریچر،Orientedہوگا تولٹریچر نہیں ہوگا ۔ سادہ سی بات ہے اب یہ بات بچوں کو اپنی کلاس میں سمجھانا ذرا مشکل ہوتا ہے ۔ اب ہماری جوBasicکوشش ہوتی ہے اچھے لڑکے بھی کم مل رہے ہیں ۔ اچھے لڑکے تو میڈیکل، انجینئرنگ وغیرہ میںجاتے ہیں لیکن جو اس کا بچا ہوا حصہ آتا بھی ہے ہمارے پاس تو کوئی کوئی اس میں سے نکلتا ہے۔ جس میں ہمیں کوئی رمق کوئی روشنی نظر آتی ہے۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ بھیّا ان کو کسی طرح پڑھا لیں ۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ادب سکھائیں ،ادب سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایک بہتر آدمی ہونے میں مدد کریں۔جواپنے طور پر سوچ سکتا ہو ،اپنی ثقافت سے واقف ہو ، دوسرے آدمی کو دوسرے آدمی کی حیثیت سے قبول کرسکتا ہو، جو ہماری طرح نمازی ہیں تو سب نمازی ۔ ارے بھائی جو نمازی نہیں ہیں وہ بھی اللہ میاں کی مخلوق ہیں۔ اس کو اس کی شرطوں پہ قبول کرنے کی صلاحیت ادب سکھاتا ہے ۔ اگر ہم یہ نہیں کرسکتے تو اب ظاہر ہے ہم ادب کی تعلیم نہیں دے رہے ہیں ۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ اردو زبان کو مارکیٹ سے ضرور جوڑیں۔ مثلاََ یہ جو ٹی وی کے چینلز ہیں 200چینلز آرہے ہیںلیکن ہندی اور اردومیںبا مشکل اچھی اور صاف ستھری زبان بولنے والے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم اس میں اردو کے studentsکو مثلاََProfessional trainingدے کے اتاردیں تب یہ سب ان کو Replaceکر دیںگے ۔ کون ہے جو بازار میں اچھی چیز کی جگہ خراب چیز خریدے گا وہ ایک بالکل دوسرا پہلو ہے ادب کی تعلیم دیں بالکل دوسرا پہلو ہے۔
٭٭٭

 

ADAB AUR INSAN BY IQBAL MAJEED

Articles

ادب اور انسان

اقبال مجید

اقبال مجید

کہتے ہیں کہ ہر عہد کے اپنے مخصوص ادبی رجحانات ہوا کرتے ہیں اور بقول احتشام حسین انہی رجحانات کے تحت اس عہد کی ادبی اور استعاراتی کائنات بھی مرتب ہوا کرتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک اس وقت وجود میں آئی جب نظریہ سازی کا دنیا میں چلن اور بول بالا تھا۔ مارکس کے نظریے نے لینن اور اسٹالن کو پید اکیا۔ سرمایہ داری کے نظریے نے فورڈ جیسے صنعت کار کو۔ مغائرت کے نظریے نے ہپّی نوجوانوں کی نسل کو اور گاندھی کے نظریے نے عدم تشدد پر اکتفا کرنے والے محکوم بیداروں کو پیدا کیا۔ یہی نہیں دنیا کے کالونائزر اپنی اپنی نوآبادیوں کے تحفظ ، بقا اور استحکام کے لیے قدم قدم پر نظریہ سازی میں لگے تھے۔ جب نظریہ پیدا ہوتا ہے تو اپنے تحفظ اور بقا کے لیے اس کی نفی کرنے والی ہر شے کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہے چاہے وہ آرٹ ہو یا ادب ، سائنس ہو یا فلسفہ۔ ایک اندازے کے مطابق سجاد ظہیر ساٹھ فیصد پارٹی کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے اور چالیس فیصدترقی پسند ادبی تحریک کے کاموں میں۔ میرے خیال میں کسی کو یہ خوش فہمی نہ ہوگی کہ پنڈت نہرو نے سجاد ظہیر کو کانگریس کی آئیڈیالوجی کو پچھاڑنے اور اس کے برسوں کے کیے دھرے پر پانی پھیرنے اور ملک میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے لیے پاکستان سے ہندوستان بلایا تھا بلکہ جد و جہد آزادی میں کھدّر پہن کر آنند بھون میں اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے اور فراق وغیرہ کی طرح جیل جانے کے لیے بلایا تھا۔ سجاد ظہیر کے لیے پہلے نظام حکومت کو بدلنا اور اس انقلاب کے ذریعے سماجی مسائل کو ٹھیک کرنا کتنا دشوار تھا اس کا جواب ہمیں ملک میں کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ اور سجاد ظہیر کی سوانح حیات سے مل جائے گا۔ لیکن آج ہم سجاد ظہیر کے عہد میں نہیں ہیں۔ ہمارے دیکھے ہوئے بیشتر خواب بکھر چکے ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ کے کُوبَڑ جو کبھی ہمیں پہاڑ جیسے لگتے تھے ، عہدِ حاضر کے کوبڑوں کے مقابلے میں بچکانے ہوچکے ہیں۔ نوعِ انسان کی بربریت کے تازہ منظر نامے نے چارلس لائل (Charles Lyell) کی کتاب Principles of Geologyکے ان خیالات کی تصدیق شروع کردی ہے۔
The most significant and dimunitive of species have each slaughtered their thousands why not we lords of creation do the same.
اس منظر نامے کو دیکھ کر دنیا کے مہذب انسانوں کے ختم ہوجانے کی چارلس ڈارون کی پیشن گوئی یاد آجاتی ہے۔ جس نے کہا تھا:
At some future period not very distant as measured in centuries, the civilized races of man will almost certainly eterminate and replace through out the world the savage races.
اس منطر نامے میں بھولے بھالے مولانا حسرت موہانی کی ترقی پسندی داستانِ پارینہ بن چکی ہے۔ روس کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد طاقتوروں نے اپنے اقتدار کی توسیع کے لیے جس طرح Proxy Wrasلڑی ہیں اور حفظِ ماتقدم کے نام پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کے صدقے میں طاقت کا جس پیمانے پر ننگا ناچ ناچا ہے اور جس انداز میں انسانیت اور انسانوں کا قتلِ عام کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہ ملے گی۔
اب Genetic Scienceنے یہ بات پایہ¿ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ سی آئی اے کے خون میں قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرگرم رہنے والے خود پسند اور خود غرض جینس نے اپنی بقا کے لیے کہاں کہاں اور کون کون سے ظالمانہ کارنامے انجام دیئے ہیں۔ پریم چند کی معصوم ترقی پسندی کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سی آئی اے نے مختلف ممالک میں اپنی نگرانی میں غیر قانونی افیون کی کاشت کروا کر پھر اسے ہیروئن بنانے والی فیکٹریوں میں آخری شکل دے کر اربوں ڈالر کی جو ناجائز دولت پیدا کروائی تھی وہ دولت اس نے مختلف ممالک میں اپنے ہی پیدا کیے ہوئے اور پالے پوسے ہوئے دہشت گردوں کو چوری چھپے اسلحہ فراہم کرنے پر خرچ کی۔ کیونکہ امریکن کانگریس سے درپردہ لڑی جانے والی Proxy Wars کے لیے قانونی فنڈ حاصل کرنا حکومت کے لےے مشکل ہوتا جارہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سی آئی اے نے امنِ عالم کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ اس نے تشدد کو پیدا کرنے، اس کے ذریعے دہشت پھیلانے، پرائیویٹ ملیشیاﺅں کو منظم اور مسلح کرنے اور پھر ممولے کو شہباز سے لڑانے کے خصوصی فن اور مہارت پر اپنی سب سے بڑی عالمی اجارہ داری قائم کی اور لاکھوں مظلوموں اور بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور آج بھی اتار رہی ہے۔
اب ذرا عہدِ حاضرکے ایک اور المناک پہلو پر نظر ڈالیے۔ علم و آگہی کی نئی صورتِ حال نوعِ بشر کو جس طرح خوف زدہ کیے ہے وہ ہمارے لیے کافی تشویشناک ہے۔ جیسے جیسے علم بڑھ رہا ہے انسان فطرت، تاریخ اور روح کی قوت کی جانب سے مشکوک اور بیزار ہوتا جارہا ہے۔ کرسچن سالمن نے ناول کے فن پر اپنے خیالات درج کرتے ہوئے وجود کی اس ناگوار اور ناقابلِ برداشت صداقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
”سائنس اور ٹیکنالوجی میں معجزاتی انکشافات اور ایجادات کرنے کے بعد فطرت کے مالک اور مختار انسان کو اچانک یہ احساس ہوا کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے، نہ فطرت پر (جو کرہ¿ ارض سے بتدریج معدوم ہورہی ہے) اس کا اختیار ہے ، نہ تاریخ پر (جو اس کے قابو سے نکل چکی ہے) اور نہ ہی خود پر (کہ وہ روح کے غیر منطقی تازیانے پر عمل کررہا ہے) لیکن اگر خدا کائنات سے رخصت ہوچکا ہے اور آدمی خود اپنا مالک اور مختار نہیں رہا تو پھر مالک و مختار کون ہے؟ کرہ¿ ارض بغیر کسی مالک اور مختار کے خلا میں گردش کررہا ہے؟ یہ ہے وجود کی ناقابلِ برداشت صداقت“
دوسری جانب ہمارے ٹی وی چینلوں کے چھوٹے پردے کو کرسچن سالمن کی اس بکواس سے کچھ لینا نہیں ہے۔ وہاں مقابلوں اور انعامات کے ذریعے عام لوگوں کو کروڑ پتی بنانے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اگر ٹوائین بی جیسے عالموں کے یہ خیالات درست ہیں کہ تمدن کی ترقی کی سیڑھی پر انسان ایک قدم اوپر چڑھتا ہے تو اکثر دو قدم نیچے پھسل بھی جایا کرتا ہے اور یہ کمبخت انسان شہد کی مکھی کی طرح Conditioned Social Insectنہیں ہے کہ پھولوں سے شہد کشید کرکے اسے چھتے میں جمع کرنے کے عمل میں ہی ساری زندگی کاٹ دے کیونکہ انسان ہر دن اپنی منتخب کی ہوئی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں ملیامیٹ کرکے نئی زندگی منتخب کرتا ہے۔ تو کیا وہ ہردم بدلتے ہوئے Choicesیعنی انتخابات کا اسیر ہے اور ان کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا اور یہی نہیں اس کے انتخاب میں گلوکار غلام علی اور بارود دونوں شامل ہیں۔ وہ ان میں کس کو کب قبول کرکے ، دوسرے کو مسترد کردے یہ قیاس لگانا مشکل ہے۔ کیونکہ کبھی کبھی وہ غلام علی سے بارود کا اور بارود سے غلام علی کا کام لینے کی بھی تمنا کرتا ہے۔
اب ذرا ایک اور حقیقت پر نظر ڈالیے جس کو ادراک کی افزائش نے خاصا پیچیدہ کردیا ہے، وہ یہ کہ فرد اور جماعت سے ہر نظام اقدار کے کچھ مطالبات ہوتے ہیں۔ فرد یا جماعت بے چاری ان مطالبات کی تکمیل کے لیے اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کو مسلسل خرچ کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ فرد دوسرے کاموں کے لیے کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر اسے یہ خیال آتا ہے کہ آخر ہم نے ایک فرد کی حیثیت سے کسی مخصوص نظامِ اقدار سے اپنا رشتہ کیوں قائم کیا تھا اور اس نے ہمیں کیا دیا اور کیا ہمارے اس رشتے کی کوئی معنویت اور مقصد تھا؟ بس یہیں پر یہ احساس بھی جاگتا ہے کہ کیا معنویت اور مقصدیت وہ چیز ہے جس کا ہماری ذات سے کچھ لینا دینا نہیں اور ہمیں صرف اسی حقیقت کو حقیقت مانتے رہنا چاہیے جو سماج اور ریاست کے ذریعے ہم پر لاد دی جائے تو کیا اس سے الگ ہٹ کر بھی کسی ترقی پسند فکر کا امکان ہے اور کیا وہ ترقی پسند فکر صرف کھلے اور آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیا ایسا کوئی آٹومیٹک تھرما میٹر ایجاد ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں آزادی کا پارہ چڑھنے لگے یا کھلا پن زیادہ ہونے لگے تو وہ اسے سطح اعتدال پر لے آئے۔
جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس سے ہمارا بامعنی اور با مقصد رشتہ کیا ہے؟ اپنے پڑوسیوں سے، اپنے رشتوں کو با معنی اور بشر نواز بنانے کے لیے ہم آخر کن نئے اور موثر تخلیقی اوزاروں سے کام لیں۔ دنیا جیسا چاہتی ہے اگر ہم اسی طرح چلتے رہیں تو وہ کسی حد تک خوش رہتی ہے اور ہماری طرف بے فکر ہوجاتی ہے اور اگر ہم اپنے مفادات کی حفاظت میں کسی طور بھی مقابلہ آرائی پر اتر آئیں تو وہ ہمیں مٹا دینے کے درپے ہوجاتی ہے کیونکہ جیسا جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اس میں ہم رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً سوشلسٹ انقلاب نے جو کچھ جیسا چل رہا تھا اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی۔ اس طرح بعض دانشوروں کے خیال میں ہماری تہذیب کی کہانی Status quoمیں رخنہ اندازیوں کی کہانی ہے تو پھر ہمارے موجودہ علم کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ہم نے کتنا کھو کر کتنا پایا؟ کیونکہ علم جس پر آج کی دنیا کو بہت ناز ہے اور جسے سب سے بڑی طاقت مانا جاتا ہے، اس کے معاملات بھی خاصے غور طلب ہیں۔ اگر علم میں بالا دستی کا مقصد طاقت میں بالا دستی حاصل کرنا ہے کہ علم ہی اصل طاقت ہے اور اس کے حاصل ہوجانے کے بعد اس طاقت کا مقصد اسے مظلوموں ، بے گناہوں ، ناداروں ، کمزوروں اور کم علموں کے خلاف استعمال کرکے خود کو مزید طاقتور بنانا ہے تو پھر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایسی طاقتور نسل اپنی حاصل کی ہوئی طاقت سے کسی کم طاقتور کے لیے دست بردار ہونا کیوں چاہے گی تو پھروہ صورت آخر کیا ہوگئی؟ کب ہوگی اور کیسے ہوگی کہ علم طاقت کا مترادف نہ بن کر بشر نوازی کا مترادف بن جائے۔ ہماری نمود کی کہانی میر تقی میر یہ کہہ کر پہلے ہی سنا چکے ہیں:
مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک
میں نقش پا کی طرح پائمال اپنا ہوں
تو گویا نقشِ پا بنیں گے بھی اور پامال بھی ہوں گے۔ یہ انسان جو کچھ بھی ہے اور جیسا بھی ہے اور یہ ہزار شیوہ زندگی جو کچھ بھی ہے اور جیسی بھی ہے، انسان کو انھیں تِلوں سے تیل نکالنا ہے۔ اگر انسانی ذہن کی تکمیل میں نقص ہے تو ہمیں بہرحال اسے اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔ اس ذہن سے ہم خواب دیکھتے ہیںاور یہ طے ہے کہ جانوروں اور انسانوں کے دیکھے ہوئے خوابوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ انسان اپنے خوابوں کو کسی حد اور کچھ دیر کے لیے آدھی ادھوری حقیقت میں ہی سہی Translate کرلینے کی قوت رکھتا ہے جبکہ یہ قیمتی وصف جانوروں میں نہیں ہے اور بغیر خوابوں کے نہ پچھلی ترقی پسندی ایک قدم آگے بڑھ سکی تھی اور نہ جدید ترقی پسندی بڑھ سکتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ ’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘ ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو نہیں بیٹھا رہا جاسکتا۔
٭٭٭

INTEKHAB E KALAM IRFAN JAFRI

Articles

انتخابِ کلام عرفان جعفری

عرفان جعفری

انتخابِ کلام عرفان جعفری

غزلیں
ہوئی جو ہم پہ عنایت سنبھال رکھی ہے
بڑے جتن سے یہ تہمت سنبھال رکھی ہے
ہمیں غریب نہ سمجھو بہت امیر ہیں ہم
تمہارے درد کی دولت سنبھال رکھی ہے
کوئی ملال نہ شکوہ دعائیں سب کے لیے
یہ خاندانی روایت سنبھال رکھی ہے
مرا یہ جسم تو ہے سرکشی پہ آمادہ
فصیلِ جاں نے بغاوت سنبھال رکھی ہے
تری کشش ترے گیسو ترے لب و رخسار
ہمیں نے ایسی قیامت سنبھال رکھی ہے
کبھی جو سرد سا موسم بہت ستائے تو
ترے بدن کی حرارت سنبھال رکھی ہے
٭٭٭
ہری فصل کیسے جھلس گئی کہاں کاشتکار چلے گئے
یہ ندی بھی خود میں سمٹ گئی سبھی آبشار چلے گئے
یہ تو جگنوﺅں کا نصیب تھا کوئی فیض ان کو نہ مل سکا
جو سجانے آئے تھے رہگزر وہ پسِ غبار چلے گئے
وہ تھی شاہزدے کی منتظر یہی خواب اس کی سزا ہوا
اسے پھینک کر کسی دشت میں سبھی شہہ سوار چلے گئے
مجھے خاص کوئی شغف نہیں کہیں میکدہ جو قریب ہو
بھلا یہ بھی کوئی خطا ہوئی جو کبھی کبھار چلے گئے
مرا عیب تھا کہ نصیب تھا کہ یہ دوستوں کا فریب تھا
مری التجا بھی نہیں سنی مرے غم گسار چلے گئے
نہ میں قید ہوں نہ رہا ہوا مری سلطنت مری جیل ہے
میں ظفر کے ایسا ہوں تاج ور سبھی اختیار چلے گئے
وہ جو مختصر سی کتاب تھی جنھیں یاد تھی وہ ورق ورق
اسے پانیوں میں ہی پھینک کر وہ ندی کے پار چلے گئے
٭٭٭
ہونے تھے جتنے کھیل مقدر کے ہوگئے
ہم ٹوٹی ناﺅ لے کے سمندر کے ہوگئے
آوارگی سمٹ کے در و بام بن گئی
لو ہم بھی شہر چھوڑ کے اب گھر کے ہوگئے
اب کون آکے مجھ سے کھلونوں کی ضد کرے
بچے جواں ہوئے تو برابر کے ہوگئے
خوشبو ہمارے ہاتھ کو چھو کر گزر گئی
ہم سب کو پھول بانٹ کے پتھر کے ہوگئے
٭٭٭
جب سے ترے مزاج میں چاہت نہیں رہی
ہم کو بھی تیرے در کی ضرورت نہیں رہی
پتھراﺅ جسم و جان پہ حد سے گزر گیا
پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی
تم نے بھی اپنے آپ کو محدود کرلیا
ہم کو بھی انتظار کی عادت نہیں رہی
دل کی شکستگی کو زمانہ گزر گیا
اس حادثے پہ اب کوئی حیرت نہیں رہی
اچھا ہوا جو تم سے تعلق نہیں رہا
دن رات سوچنے کی اذیت نہیں رہی
دن کی تھکان رات کو بستر پہ لے گئی
تم کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی
٭٭٭
یہ رہگزارِ شوق بھی کتنی طویل ہے
گھر سے چلے تھے سوچ کے دوچار میل ہے
اب اور غم ملے نہ ملے کوئی غم نہیں
اس میکدے میں تشنہ لبی خود کفیل ہے
ظلم و ستم نے مصر پہ قبضہ جمالیا
موسیٰ کے انتظار میں دریائے نیل ہے
اتنا نہ خرچ کیجئے رکھئے سنبھال کر
آنکھوں میں آنسوﺅں کا ذخیرہ قلیل ہے
مرغابیوں کی ڈار نے یہ تو بتا دیا
جنگل میں آس پاس ہی گہری سی جھیل ہے
مجھ کو لگا کہ درد کی بارش کرے گا وہ
اک زخم دے کے رہ گیا کیسا بخیل ہے
٭٭٭
ترا خیال ہے یا روشنی کی بوچھاریں
تمام رات چمکتی ہیں گھر کی دیواریں
بس ایک پل کے لیے تجھ کو میں نے سوچا تھا
مرے وجود سے آنے لگی ہیں مہکاریں
ہرایک سانس کا جزیہ چکا دیا ہم نے
کوئی بتائے کہ اب زندگی پہ کیا واریں
کچھ اس طرح سرِ مقتل کیا ہے رقصِ جنوں
ہمارے بعد بھی گونجا کریں گی جھنکاریں
یہ رات ٹوٹ کے جب تک بکھر نہیں جاتی
نئی سحر پر لٹکتی رہیں گی تلواریں
یہ زندگی ہے کہ عرفان جنگلوں کا سفر
دعا کرو کہ مسافر نہ حوصلہ ہاریں
٭٭٭
نظمیں

اورنگ زیب کے مزار پر ایک لمحہ

تم جو اک سطوتِ شاہانہ کے مالک تھے کبھی
ابھی دلی تو ابھی ارضِ دکن
رات دن گھوڑے پہ سرگرمِ سفر رہتے تھے
تپتے صحراﺅں میں خیموں میں بسر کرتے تھے
ایک فرمان سے قسمت پہ لگاتے تھے مہر
پھر بھی شاہی میں فقیرانہ ادا رکھتے تھے
تم کو اپنے لیے ہوسِ جاہ نہ تھی
مسندِ شاہی کو
دولت کی کوئی چاہ نہ تھی
تم تو وہ تھے جو گزارے کے لیے
نانِ جویں کی خاطر
ٹوپیاں سی کے ، صحیفے کی کتابت کرکے
پس انداز کیا کرتے تھے
شکر ادا کرتے تھے
تم تو وہ تھے کہ جہاں اپنے قدم رکھتے تھے
بس وہیں فتح کے نقارے بجا کرتے تھے
آج یہ حال ہے
تمہاری قبر ہے
جس پر نہیں ہے چھت یا سائبان کوئی
قریب اس کے وہیں
مرشد کی خانقاہ بھی ہے
اور تمہاری قبر کے ماتھے پہ
رکھا ہے
لکڑی کا مقفل ڈبہ
جس میں ڈالے گئے سکوں کی کھنک
دور تلک جاتی ہے
جس کو سنتے ہیں جب
ہم جیسی سماعت والے
دکھ کی اک لہر سی رگ رگ میں ابھر آتی ہے
روح کا کرب چھلک اٹھتا ہے
اور اسی کرب کی گہرائی سے
ایک پرچھائیں ابھر آتی ہے
اور کہتی ہے کہ :”یہ لکڑی کا مقفل ڈبہ
وقفہ¿ شب کی طرح حائل ہے
یہ میری قوم کا ماضی ہے،
نہ مستقبل ہے
یہ جو ہٹ جائے اگر
نورِ سحر
نورِ سحر
نورِ سحر ہے آگے“
٭٭٭

خمیازہ

دن کے لمحے چکھو
اور تھوک دو
رات میں ذائقوں کے سپنے بنو
پھیکے پھیکے پلوں
میں جیتے رہو
شکایت مت کرو
لذتیں ڈھونڈتے رہو
کہاں سے آئیں گی؟
جو تھوڑی سی چینی تھی
کہیں گر گئی
جو تھوڑا سا نمک تھا بچ گیا تھا
بارش میں بہہ گیا
٭٭٭

یومِ پیدائش

میں
جسم لیے پھرتا تھا
لیکن اس میں جان نہ تھی
میری پیاری پیاری بیٹی
جس دن تم نے جنم لیا تھا
مجھ میں روح سمائی تھی
اس کے بعد کسی سے اپنی
اتنی عمر بتاتا ہوں
جتنے برس کی تم ہوتی ہو
سننے والے ہنستے ہیں
چہرہ میرا دیکھ دیکھ کے
حیرت سے سب تکتے ہیں
سب کو میں ان دیکھا کرکے
چپکے سے مسکاتا ہوں
٭٭٭

INTEKHAB E KALAM KHWAJA MEER DAR’D

Articles

انتخابِ کلام خواجہ میر درد

خواجہ میر درد

انتخابِ کلام خواجہ میر درد

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقّا کہ خدا وند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیرو حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا
مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
٭٭٭
اگر یوں ہی دل یہ ستاتا رہے گا
تو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا
جفا سے غرض امتحانِ وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا
قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سناتا رہے گا
اگر تجھ کو چلنا ہے چل ساتھ میرے
یہ کب تک تو باتیں بناتا رہے گا
خفا ہوکے اے درد مر تو چلا ہے
کہاں تک غم اپنا چھپاتا رہے گا
٭٭٭
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
مرا غنچہ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا
یگانہ ہے تو آہ بے گانگی میں
کوئی دوسرا آہ ایسا نہ دیکھا
اذیّت، مصیبت، ملامت، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
کیا مجھ کو داغوں نے سروِ چراغاں
کبھی تونے آکر تماشا نہ دیکھا
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ایدھر تونے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا
حجابِ رخِ یار تھے آپ ہم ہی
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
شب و روز اے درد در پر ہوں اس کے
کسو نے جسے یاں نہ سمجھا نہ دیکھا
٭٭٭
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
تھے آپ ہی ایک سو گئے ہم
جوں آئینہ جس پہ یاں نظر کی
ساتھ اپنے دوچار ہوگئے ہم
ماتم کدہ دہر میں جوں ابر
اپنے تئیں آپ رو گئے ہم
ہستی نے تو ٹک جگا دیا تھا
پھر کھلتے ہی آنکھ سو گئے ہم
یاروں ہی سے درد ہے یہ چرچا
پھر کوئی نہیں ہے جو گئے ہم
٭٭٭
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مٹ جائیں ایک دم میں یہ کثرت نمائیاں
گر آئینے کے سامنے ہم آکے ہو کریں
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال کہ جو کچھ گفتگو کریں
ہر چند آئنہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لیں وہ جس کے مجھے رو برو کریں
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمنِ ہوسِ رنگِ و بو کریں
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدانِ شہر
اے درد آکے بیعتِ دستِ سبو کریں
٭٭٭
اہلِ فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
لوحِ مزار بھی مری چھاتی پہ سنگ ہے
فارغ ہو بیٹھ فکر سے دونوں جہان کی
خطرہ جو ہے سو آئینہ¿ دل پہ زنگ ہے
حیرت زندہ نہیں ہے فقط تو ہی آئینہ
یاںٹُک بھی جس کی آنکھ کھلی ہے سو دنگ ہے
اِس ہستیِ خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشّہِ ظہور یہ تیری ترنگ ہے
گل گیر منہ پسار نہ تو شمع کی طرح
اُس کی زبان ہی اسے کامِ نہنگ ہے
کب ہے دماغِ عشق بتانِ فرنگ کا
مجھ کو تو اپنی ہستی ہی قیدِ فرنگ ہے
عالم سے اختیار کی ہرچند صلحِ کل
پر اپنے ساتھ مجھ کو شب و روز جنگ ہے
میں کیا کہوں تجھے نظر آیا نہیں ہے کیا
اِس گردشِ جہان کا جو کچھ کہ ڈھنگ ہے
غنچہ شگفتہ ہووے ہی ہووے کہ اس میں درد
دیکھا چمن میں جاکے تو کچھ اور ہی رنگ ہے
٭٭٭
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
میں رہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اُس کے پیام دل کے سوا کون لا سکے
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زنہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
یارب یہ کیسا ظلم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جاسکے
گو بحث کرکے بات بٹھائی تو کیا حصول
دل سے اٹھا خلاف اگر تو اٹھا سکے
اطفائے نارِ عشق نہ ہو آب اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
مستِ شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے
٭٭٭

ANWAR KHAN KI FANKARI BY DR. JAMAL RIZVI

Articles

انور خاں کی فنکاری

ڈاکٹرجمال رضوی

انور خاں کی فنکاری
ڈاکٹرجمال رضوی
ادب کی تخلیق کے اسباب و محرکات میں جس ایک نکتے کو متفقہ طور پر قبول کیا گیا ہے وہ یہ کہ موجودات و مظاہرات عالم کو جاننے اور سمجھنے کا عمل جب تک کیوںاور کیسے سے نہ شروع ہو تب تک ادب کی تخلیق کے امکان روشن نہیں ہو سکتے۔یوں اگر عمومی طور پر دیکھا جائے تو تہذیب و تمدن کے ارتقا میں بھی اس کیوںاور کیسے نے کلیدی کردار اد ا کیا ہے۔ہزاروں برس کو محیط انسانی تاریخ جن مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے عصر حاضر تک پہنچی ہے،اور آگے بھی جہاں تک اس کاسفر جاری رہے گا ،اسے کامیابی کی منزلوں سے ہمکنار کرنے میں انسان کے اس استفسار اور جستجو کی اہمیت کو بہر طور قبول کیا جائے گا۔اس مقام پر یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ دنیا کا ہر انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی پس منظر سے ہو ،وہ اس استفسار اور جستجوسے بالکل اس قدر بے نیاز بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ذہن حیات و کائنات کی نیرنگیوں میں پوشیدہ حقیقت کو دریافت کرنے کی کبھی کوئی کوشش ہی نہ کرتا ہو۔لیکن اس کوشش میں کسی ایک منزل یا نتیجہ خیز مقام تک پہنچنے میںکئی کڑے کوس طے کرنے پڑتے ہیں لہٰذا اکثریت فرار کی وہ راہ اختیار کر لیتی ہے جو اس کوشش سے وابستہ کرب کے بجائے آسودگی و اطمینان کی اس پناہ گاہ تک جاتی ہے جہاں مختلف قسم کی پابندیاں اور مجبوریاں اس کیوںاور کیسے پر حاوی ہو جاتی ہیں اور پھر اس کوشش کے جاری رہنے کا مظاہرہ تو کیا جاتا ہے لیکن اس مظاہرے سے صداقت کا عنصر مفقود ہو جاتا ہے۔عام انسان اور تخلیقی ذہن رکھنے والوںمیںبنیادی فرق اسی صداقت کی بنیاد پر قایم ہوتا ہے۔تخلیقی ذہن اپنے حال سے آسودہ و مطمئن ہونے کے بجائے زندگی کے ہر معاملے میں اپنے افکار و خیالات کو ان سوالوں کے ذریعہ توانا ومتحرک بنائے رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ادب کی تخلیق سے وابستہ افراد کی فکر کو وسعت اور تخیل کو بلندی تحقیق و جستجو کے لیے آمادہ کرنے والی اس قوت سے حاصل ہوتی ہے جہاں سے دانشوری کے چشمے پھوٹتے ہیں۔چونکہ ہر عہد کاانسانی معاشرہ اپنی تہذیبی روایات ، معاشی معاملات اور سیاسی صورتحال کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا اس اختلاف سے ادب کا تخلیقی رویہ بھی ایک حد تک متاثر ہو تا ہے۔ اگر اس حوالے سے اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس کے ابتدائی دور سے اب تک رواں اس کے تخلیقی دھارے میں فکر و خیال اور اسلوب و ہیئت کی جو رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ ہر عہد کے اپنے مخصوص مزاج کی ترجمانی کرتی ہے۔اگر بات خصوصی طور سے اردو افسانہ نگاری کی، کی جائے تو ایک صدی سے کچھ برس زیادہ پرانی اس صنف میں زبان و بیان اور موضوع کے جو تجربات ہوئے ان کے پیچھے بھی بیشتر یہی اسباب کارفرما رہے۔اس مضمون میںجس افسانہ نگار کے فن پر گفتگو مقصود ہے اس کا دور اردو کے افسانوی ادب میںموضوع اور طرز اظہار میںتجربات کا دور رہا ہے۔ان تجربات نے اردو کے افسانوی کینوس کو وسعت تو عطا کی لیکن اس وسعت کی بعض جہتیں اعتبار و وقار سے محروم رہیں۔اس محرومی کا خاص سبب بعض فیشن زدہ افسانہ نگاروں کا دوسروں سے منفرد اور نمایاںنظر آنے کا وہ رویہ تھا جس میںفنی ریاضت اور اس کے تئیں اخلاص کی مقدار بہت کم تھی۔ ایسی صورت میں افسانوں کے نام پر تخلیقات کا ذخیرہ تو جمع ہو گیا لیکن اس ذخیرے میںسب کچھ ایسا نہیں ہے جو ادب کی اس صنف کی قدر وقیمت میںاضافہ کرتا ہو۔چونکہ انور خاں بھی اسی زمانے میں بطور افسانہ نگار اردو کے ادبی حلقہ میں متعارف ہوئے اس لیے ان کے یہاں بھی بعض ایسی تخلیقات نظر آتی ہیں جو افسانہ نگار کی تخلیقیت پر چھائی یکسانیت اور اکتاہٹ کو نمایاں کرتی ہیں۔لیکن اس انداز اور مزاج کے حامل افسانے ان کے کل تخلیقی سرمایہ میںبرائے نام ہیں۔ان کے بیشتر افسانوں کو ادبی اعتبار حاصل ہوا یہی سبب ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانہ نگاروں کا تذکرہ انور خاں کے بغیر ادھورا سا محسوس ہوتا ہے ۔انور خاں کے افسانے کئی اعتبار سے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان میں زبان و بیان کا اچھوتا انداز، موضوعات کو برتنے کا منفرد تخلیقی رویہ اور اختصار میںجامعیت کی وہ کیفیت ہے کہ ہر سطر معنی خیزی سے معمورنظر آتی ہے ۔فن کی سطح پر یہ وہ عناصرہیںجو انور خاں کو اپنے معاصرین سے منفرد اور اردو کے افسانوی ادب میں نمایاں مقام عطا کرتے ہیں۔
انور خاں کے فنکارانہ امتیازات پر مزیدکچھ کہنے سے پیشتر ادب کی تخلیق کے اسباب و محرکات کے سلسلے میں جو گفتگو سطور بالا میںپیش کی گئی اس کے حوالے سے ان کے ایک خط کا اقتباس یہاں درج کر نا مناسب معلوم ہوتا ہے۔انور خاںنے یہ خط ۱۹۶۴ء میں انور قمر کے نام لکھاتھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ انور خاں کا افسانے کی تخلیقی دنیا سے رابطہ بھی قایم نہیںہوا تھا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ راستے اور کھڑکیاں ۱۹۷۶ء میںپہلی بار شائع ہوا تھا۔اس افسانوی مجموعے کی اشاعت سے ۸؍برس قبل لکھا گیا یہ خط ان کے اس ذہنی رویہ کو ظاہر کرتا ہے جو ادب کی تخلیق کے اسباب مہیاکرتا ہے۔وہ اپنے اور اپنے گرد و اطراف کے حالات کے سیاق میںکچھ ایسے سوالات قایم کرتے ہیں جن کے جواب حاصل کرنے کی کوشش ہی فکر و خیال کو حیات و کائنات کی گہرائی و گیرائی کا جائزہ لینے پر آمادہ کرتی ہے۔ان کے الفاظ ہیںـ’’ میںجاننا چاہتا تھا، دنیا میںیہ اونچ نیچ کیوںہے؟ نیکی کیا ہے؟ بدی کیا ہے؟ نیکی کیوںکی جائے؟ بدی کیوں نہ کی جائے؟ اس دنیا میںمیری حقیقت کیا ہے؟ خود اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ میںکیا کرسکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میںکیا کروں؟ ‘‘۔اس دنیا اور دنیا کی حرکت و رفتار کی بقا کے ضامن حضرت انسان اور اس کی حیات سے وابستہ اقدار کے متعلق یہ استفسارات نہ صرف انور خاں کی ذہنی سطح کا پتہ دیتے ہیں بلکہ یہ ایک اشاریہ ہیں ان افسانو ں کے تخلیقی نہج کا جن کی بنا پر انھیں اردو افسانہ نگاری میںنمایاں مقام حاصل ہوا۔ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے عمل میںوہ افسانے وجود میںآئے جو انسانی سماج کے دلچسپ، حیرت انگیز، امید افزا اور کبھی مایوس کن و درد ناک حقائق سے روبرو کراتے ہیں۔یہا ںاک ذرا اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خط کے منقولہ اقتباس میںصرف استفسار ہی نہیں ہے بلکہ اس استفسار میںروایت پرستی کے بجائے ایک نئی راہ بنانے کی خواہش صاف نظر آتی ہے۔بدی کیوںنہ کی جائے، یہ بظاہر ایک چھوٹا سا اور معمولی سوال ہے لیکن اس سے دو باتیںواضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ معاصر سماج میںنیکی اور بدی کے تصور سے انور خاں کا عدم اتفاق اور دوسرے یہ کہ اگر نیکی اپنے تمام تران مصدقہ حوالوںکے ساتھ جن کا تعلق سماجی اخلاقیات ، مذہبی عقائد اور تہذیبی روایات سے ہوتا ہے ،رائج ہو تو بھی کیا یہ ضروری ہے کہ اسی راہ پر چلا جائے اور کسی دوسرے راستے کی تلاش نہ کی جائے؟اسے معاشرتی اقدار سے بغاوت کے بجائے انسانی سماج سے ان کے اس بے پایاں خلوص کے طور پر دیکھنا چاہیے جو مسائل و مصایب میںگھرے انسانوں کی کس مپرسی اور محرومی پر جھنجھلا کر ایک نئی سمت دریافت کرنے کاعندیہ ظاہر کرتا ہے۔
انور خاں کے بیشتر افسانوں میںانسانی رویہ کا یہی انوکھاپن نظر آتا ہے ۔اس رویہ کو انسان کی خود پسندی، خود نمائی،تصنع اور ظاہر پرستی سے تعبیر کیا گیا ، اور اس لیے کیاگیاکہ یہ رویہ تہذیب و معاشرت کے مصدقہ ضابطوں اور طور طریقوں سے بالکل مختلف ہے۔یہ اختلاف اس حد تک بڑھتا ہے کہ جذبات کی نوعیت میںحیرت انگیز اور عبرت ناک قسم کی تبدیلی پیداہوجاتی ہے۔انور خاں کاافسانہ’ شاندار موت کے لیے‘ اس کی واضح مثال ہے۔افسانے کامرکزی کردار اس انسانی نفسیات سے بالکل میل نہیںکھاتا جو خوشی اور غم کے روایتی تصور کے ساتھ زندگی گزارتا ہے بلکہ اس افسانے میںموت جیسی کرب آمیز حقیقت کو بھی ایک جشن کے اہتمام میںتبدیل کر دیا گیاہے۔ڈائنا اس افسانے کا مرکزی کردار ہے ۔بستر مرگ پر لیٹی ڈائنا جس طرح اپنی موت کے جشن کا خاکہ تیار کرتی ہے وہ بظاہر اس کے شہرت پسند اور تصنع آمیز مزاج کو نمایاں کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دنیوی شان و شوکت سے اس کی بے انتہا لگاوٹ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔یہ افسانہ پہلی قرات میںمکمل طور پر خیالی اور مثالی نظر آتا ہے کہ جس صورتحال کی عکاسی اس میں کی گئی ہے اس کا وقوع ہونا بہت حد تک بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔لیکن افسانے کی تخلیق کا زمانہ، اس زمانے کا طرز معاشرت، انسانی سماج کی ترجیحات اور زندگی کرنے کے طور طریقوں کو پیش نظر رکھ کر اگر اس افسانے کو پڑھا جائے تو اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ انور خاں نے عیاری اور مکاری کی دبیز تہہ میں پوشیدہ اس انسانی حقیقت کو دریافت کر لیا ہے جو سنگدلی اور سفاکیت کا آمیزہ ہے۔یہ سنگدلی اور سفاکیت جب تہذیب و تمدن کے خلعت سے آراستہ ہو کر پرشکوہ انداز میں معاشرہ میں ظہور کرتی ہے تو ڈائنا جیسے کردار وجود میں آتے ہیں۔انور خاں کے بیشتر افسانوں کے کردار وں کی فطرت اور نفسیات میں یہ حیرت انگیز قسم کے مظاہر نظر آتے ہیں۔
انور خاں کی فنکاری کا قابل ذکر وصف یہ ہے کہ وہ کرداروں کی تخلیق میں ان کے معاشرتی اور تہذیبی پس منظر سے وابستہ ان عناصر کو منتخب کرتے ہیں جو بہ ظاہر غیر معمولی اورایک بے رنگ سی حقیقت نظر آتے ہیں لیکن یہ معاشرتی اور تہذیبی عناصر انسانی شعور و عمل کو اس انداز سے متاثر کرتے ہیں کہ اس کی شخصیت بہ یک وقت کئی متضاد رنگوں کا ایسا مرقع بن جاتی ہے جس میں کسی ایک رنگ کی واضح دریافت اور اس دریافت کی بنا پر شخصیت کی کوئی شناخت قایم آسان نہیں ہوتا۔ڈائنا کے کردار کا انوکھا پن انہی عناصر کا پروردہ ہے جو انسان کے افکار و رویہ کو ایسا انداز عطا کرتے ہیں جس سے یقین و اعتبارکا مرحلہ حیرت و تاسف کا نہج اختیار کر لیتا ہے۔ افسانوی کرداروں کے باطن کو کھنگالنا اور ان جذبوں کو دریافت کرنا جو ان کے عمل و رد عمل کا محرک بنتے ہیں، اور پھر اس حوالے سے ایک عہد اور نظام معاشرت سے وابستہ ان حقائق کی جانب اشارہ کرنا جو اقدار کی نوعیت طے کرنے میںموثر کردار ادا کرتے ہیں،ایک فطری تخلیقی روش کے طور پر انور خاں کے افسانوں میں عموماً نظر آتی ہے جوان کی فنکاری کو صداقت اور دیانت کا درجہ عطا کرتی ہے۔ان کے یہاں زبان کے استعمال پرفنکارانہ عبور، افسانے میں دلچسپی اور حیرت زدگی کے عنصر کو شروع سے آخر تک برقرار رکھنا اور اس کے ساتھ ہی اختصار میں جامعیت کا وہ اندازجو افسانوی کرافٹ کو فنکاری کا معیاری نمونہ بنا دیتا ہے،ان کی تخلیقات کو انفرادی و امتیازی شناخت عطا کرتا ہے ۔ ان کا کوئی بھی افسانہ اتنا طویل نہیں ہے کہ جس کو پڑھنے کے لیے باقاعدہ قصد کیا جائے بلکہ اس معاملے میں ان کے افسانے مختصر ہونے کے ساتھ ہی ایک ایسی کشش اپنے اندر رکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک قاری کو باندھے رکھتے ہیں۔ افسانے کومختصر رکھتے ہوئے اس طرح مکمل کرنا کہ موضوع کی ترسیل کا پہلو تشنہ نہ رہے ،کمال فنکاری کا واضح ثبوت ہوتا ہے۔اگر فنکار شعوری طور پر مختصر افسانہ لکھنے کا ارادہ کرے اور موضوع کے ساتھ اس کا ٹریٹمنٹ ایسا ہمہ گیر اور معروضی نہ ہو جو کہ ترسیل کے عمل کو بہ خوبی انجام تک پہنچا سکے تو اس کی تخلیق فنی اعتبار سے کمزور مانی جاتی ہے۔اگر چہ انور خاں کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع اور وسعت ہے تاہم انھوں نے ان کی پیشکش کا وہ انداز اختیار کیا ہے کہ صرف چند صفحات میں ہی وہ اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں۔اس مرحلے سے سرخرو گزرنے میں ان کی لسانی تونگری ان کی معاونت کرتی ہے ۔وہ زبان کے استعمال کا ایسا سلیقہ اختیار کرتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ الفاظ کے لسانی مزاج اور تہذیبی سیاق سے پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ان کی زبان میں دو باتیں خاص طور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔پہلی یہ کہ یہ زبان اثر و تاثر سے تہی دامن نہیں ہے اور دوسری یہ کہ اس کے مزاج میں حسب موقع متاثر کن تبدیلی کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے نہ صرف موضوع کی ترسیل کو فکشن کے تقاضوں اور معیار سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی بلکہ زبان کے معاملے میں بھی ان کی جز رسی کے مظاہر جابجا نظر آتے ہیں۔اس ضمن میں ان کے کچھ افسانوںسے مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو اس دعوے کی توثیق کرتی ہیں کہ وہ ایسی زبان لکھنے پر قادر تھے جو افسانے کی فضا بندی اور کہانی کے ارتقائی عمل کی فطری تکمیل کے ساتھ ہی موضوع کے پس منظر اور پیش منظر کو بھر پور تاثر کے ساتھ منعکس کرتی ہے۔الفاظ کے انتخاب کا یہ سلیقہ چند منتخب افسانہ نگاروں کے یہاں ہی ملتا ہے اور انور خاں ان میں سے ایک تھے۔ان کے افسانوں میں بعض مقامات پر ایسے مختصر جملے بھی نظر آتے ہیں جو محض ایک یا دو سطروں پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان سے پورے افسانے کا موڈ اور موضوع کی نوعیت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
۱۔ ’’ہائے ہائے، ہائے ہائے۔‘‘ منحنی پسلیوں کے پنجروں سے دل خراش آہیں پھڑ پھڑاتی ہوئی نکلیں اور فضا میں تیر گئیں۔ (فن کاری)
۲۔ہر چیز تھم گئی ہے۔چوراہے پر سے گزرتی بسیں،گاڑیاں،راہ گیر،سب وقت کے فرسودہ فریم میں تصویر کی مانند ساکت ہو گیے ہیں۔صرف شام اتررہی ہے دھیرے دھیرے گلی کوچوں میں،عمارتوں پر،ٹیلی گراف کے تاروں پر، اپنے گھروں کو رواںہوتے انسانوں کے جم غفیر پر۔ (شام رنگ)
۳۔گلی کوچے،عمارتیں، سڑکیں، لگتا ہے شور سے پھٹ پڑیں گے اور میں اپنے دوستوں کے نرغے سے باہر نکل آؤں گا۔ مگر کچھ بھی تو نہیں ہوتا۔بس جہاں تک نظر جاتی ہے شام اترتی دکھائی دیتی ہے۔ ملگجی،ملول،مایوس،تاسف اور محجوب۔ (ایضاً)
۴۔ہر چیز کے متعلق وہ رائے رکھتا ہے، صحیح رویہ اختیار کرتا ہے ، اور صحیح لوگوں سے ملتا ہے۔حال ہی میں اس نے شہر کے مناسب ترین علاقے میں مناسب ترین فلیٹ خریدا ہے ۔صحیح سے اس کی مراد ہوتی ، سماج کے اعلا ترین طبقے کے بہترین لوگوں کا طرز عمل۔ اس لیے وہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ویسے بھی وہ شماریات کا ماہر ہے۔ (اپنائیت)
انور خاں کے افسانوںسے درج کی گئی ان مثالوں میں زبان کا استعمال عبارت کے اختصار میں معنی کی وسعت کو آشکار کرتا ہے۔ان کے افسانوی بیانیہ کا یہ انداز موضوع کی افسانوی تشکیل میں مضمر ان پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتا ہے جو افسانوی کرداروں کے عمل و رد عمل نیز کسی واقعہ کے رونما ہونے والے اسباب و محرکات کی جانب ذہن کو مبذول کرتے ہی۔اس عمل سے گزرتے ہوئے وہ بعض اوقات صرف ایک جملے سے اس کیفیت یا صورتحال کو منعکس کر دیتے ہیں جو افسانے کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔اس ضمن میں پہلی مثال ان کے افسانے ’فن کاری ‘ سے لی گئی ہے۔ یہ افسانہ موضوع اور اس کے اظہار ہر دو اعتبار سے قابل ذکر ہے۔یہ افسانہ ٹریٹمنٹ کے اعتبا ر سے ’شاندار موت کے لیے ‘ سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔جس طرح موت کی حیرت انگیز خواہش ڈائنا کے خیال و احساس کو عام انسانی رویہ کے بالکل برعکس رنگ میں ڈھال دیتی ہے اسی طرح ’فنکاری ‘ میں بے روزگار نوجوانوں کا اضطراب اور احتجاج انھیں فنکاری کی اس راہ پر ڈال دیتا ہے جو مسئلے کا کوئی موثر حل تلاش کرنے کے بجائے اس سے عارضی مفاد حاصل کرنے کا انھیںعادی بنا دیتی ہے۔ موت کا جشن منانے کی ڈائنا کی عجیب و غریب خواہش گرچہ صرف اس کی ذات تک محدود ہے لیکن اس قسم کی خواہش کے پیدا ہونے میں اس سماجی رویہ کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا جس کے سبب اس کی نفسیات میں ایسی پیچیدگی در آئی کہ وہ اپنی موت کو جشن طرب میں تبدیل کرنے کا خاکہ تیار کرنے پر آمادہ ہوئی ۔ڈائنا کی حیرت انگیز خواہش مرگ اس کے دل میں دبے ہوئے ان جذبات کو نمایاں کرتی ہے جو خود نمائی اور شہرت کو عزت و تکریم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔فنکاری میں بھی اسی رویہ کا اظہار ہے لیکن یہاں خود نمائی کے اسباب مہیا کرنے والا سماج کا مقتدر طبقہ مسائل زدہ انسانوں کی ناداری اور محرومی کو اپنے ذوق تماشہ کی تسکین کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔بے روزگار نوجوان اس تماشے میں اپنا عارضی پارٹ ادا کرنے کے بعد پھر اسی مقام پر آجاتے ہیں جہاں محرومی اور مایوسی ان کا دائمی مقدر ہوتی ہے۔ سماج اور انسان کا باہمی ربط جب پیچیدگی کی اس منزل پر پہنچ جائے تو انسان کا وجود داخلی سطح پر اس قدر منتشر ہو جاتا ہے کہ پھر وہ اذیت میں لذت کے امکان تلاش کرنے لگتا ہے۔فنکاری میں بے روزگار نوجوانوں کا فنکارانہ احتجاج اسی امکان کی ایک صورت ہے ۔سماج کو بدلنے کا عزم لے کر اٹھنے والا نوجوانوں کا یہ گروہ مسئلے کا موثر تدارک تلاش کرنے کے بجائے وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو بالآخر پورے سماج کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس افسانے کے ابتدائی حصہ سے پیش کی گئی درج بالا مثال افسانے کی فضا بندی کرنے کے ساتھ ہی ان ممکنہ صورتوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جن سے افسانے کا تانا بانا بنا گیا ہے۔
انور خاں کی فنکاری کاانفرادی پہلو یوں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افسانوی کینوس پر جن رنگوں کا استعمال کرتے ہیں وہ موضوع کی افسانوی تقلیب میںمتاثرکن کردار ادا کرتے ہیں۔افسانہ ’شام رنگ‘ سے جو دو مثالیں پیش کی گئیں ان سے افسانوی کینوس پر رنگوں کے استعمال کا یہی ہنر نمایاں ہوتا ہے۔بعض اوقات یہ رنگ نقش گری میںمتضاد کیفیت کے حامل ہونے کے باوجود تصویر کو اس طور سے ترتیب دیتے ہیں کہ تصویر کا ہر زاویہ ان رنگوں کے فنکارانہ استعمال کا معیاری نمونہ نظر آتا ہے۔اس افسانے کا عنوان جمود اور محجوبیت کااستعارہ ہے ۔ افسانے میں جمود اور محجوبیت کا خارجی ماحول کردار کے داخلی انتشار و اضطراب سے ہم آہنگ ہو کر وہ منظرنامہ ترتیب دیتا ہے جس پر کردار کی جذباتی کشمکش کے مختلف رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔یہ رنگ اس کی ذات کے کرب، وجود کی حقیقت کو دریافت کرنے کے عمل،احساس محرومی ،انسانی رویہ کی بوالعجبی اور آسودگی و سکون کی خواہش سے عبارت ہیںجو انسان کو ایک نئی دنیا کے آباد ہونے کی تمنا میں محو رکھتے ہیں۔ یہ افسانہ شہری معاشرہ میں ایک مستقل رجحان کی حیثیت حاصل کر چکے اس انسانی رویہ کو ظاہر کرتا ہے جس کے سبب انسانوں کے درمیان باہمی روابط پر مصنوعیت اس قدر غالب آجاتی ہے کہ برسوں کے شناسا چہرے بھی بعض اوقات اجنبی لگنے لگتے ہیں۔افسانے کا مرکزی کردار خود افسانہ نگار ہے جوبڑے شہروں میں انسانوں کے درمیان مصنوعی دوستی سے پیدا ہونے والے کرب کا اظہارواحد متکلم اور کہیں کہیںخود کلامی کے انداز میں کرتا ہے۔اس مرکزی کردار کے علاوہ افسانے میں ایک اور کردار نظر آتا ہے جسے انور خاں نے زید کا نام دیا ہے۔ اس کردار کا ظہور افسانے میں بہت کم مدت کے لیے ہوتا ہے اور چونکہ افسانے میں بیانیہ کا ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے جس سے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعی ایک دوسرا کردار ہے جس سے افسانہ نگار محو گفتگو ہے۔ اس لیے زید کے اس کردار کو مرکزی کردار کا ہم زاد یا ضمیر کہہ سکتے ہیں جو افسانوی ماجرے میں مرکزی کردار کے ایک دوست کی امیج کے طور پر سامنے آتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس کردارکے رویہ کو دوستانہ روابط کے درمیان پیدا ہونے والی اس سنگدالانہ بیگانگی کی صورت میں پیش کیا ہے جو عصر حاضر کے انسانی معاشرہ کا معمول بن گئی ہے ۔انور خاں نے شام کے ملگجی رنگ کے حوالے سے انسانی رویہ میں جذبہ و احساس کے مبہم اور غیر واضح پن کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ شام کی آمد افسانے کے مرکزی کردار کو بہ یک وقت دو متضاد صورتوں سے متاثر کرتی ہے۔ایک جانب سکوت اور جمود اور دوسری طرف شور و اضطراب۔انور خاں نے ان دو صورتوں کی تعبیر بڑے فنکارانہ انداز سے کی ہے جس میں سکوت اور جمود خارجی مظاہر سے وابستہ ہیں اور شور و اضطراب کی کیفیت کردار کے باطن میں کچوکے لگا رہی ہے۔اس افسانے کے محولہ بالا دونوں اقتباس اس متصادم کیفیت کا برملا اظہار ہیںجو کردار کو یقین اور غیر یقینی کے بھنور میں الجھائے ہوئے ہے۔دوسرے اقتبا س میں افسانے کا مرکزی کردارشام کے وقت اپنے اطراف میںبرپا شور اور ہنگامے سے جھنجھلا کر دوستوں کے نرغے سے نکل بھاگنے کی خواہش کا اظہار کر کے انسانی رشتوںمیں محبت اور اخلاص کے اس فقدان کی طرف اشارہ کرتا ہے جو دیرینہ تعلقات کو بھی غیر مستحکم اور رسمی بنا دیتا ہے۔یہ افسانہ انسانوں کے درمیان اجنبیت کے احساس سے پیدا ہونے والے اس کرب کو نمایاں کرتا ہے جو داخلی طور پر انسانی وجود کو رفتہ رفتہ مسمار کر دیتا ہے ۔افسانے کا اختتام انور خاں کی رجائیت کو واضح کرتا ہے جو ایسے کرب ناک حالات میں بھی خوشگوار تبدیلی کی امید کو پوری طرح زائل نہیں ہونے دیتی اور رشتوں کے اس کھیل میں بہت کچھ کھو دینے کے باوجود کچھ نیا حاصل کرنے کی امید افسانہ نگار کے انسانی اخلاص اور درد مندی کو نمایاں کرتی ہے۔
انور خاں کے افسانوں میں انسانی روپ بہروپ کے ایسے مظاہر نظر آتے ہیں جو دوسروں کو فریب دینے کے ساتھ ہی خود اس کی ذات کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتے ہیں۔اس مسئلے سے الجھتے رہنا اور اس الجھن کے سبب پیدا ہونے والی اذیت کو برداشت کرنا اس کا مقدر ہو جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوی کرداروں کے ذریعہ انسانی رویہ کے اس عارضی پن اور غیر یقینی کیفیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جو اقدار حیات کا کوئی واضح تصور پیش کرنے کے بجائے تہذیبی اور اخلاقی انحطاط کی روداد بیان کرتی ہے۔انور خاں نے ان افسانوں میں اپنے عصر کی ان حقیقتوں کو آئینہ کیا ہے جن کا تعلق سماجی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی قدروں میں تبدیلی کے اس انداز سے ہے جس نے انسان کے وجود کو جذبات سے عاری کر دیا ہے۔انسان کا یہ تبدیل شدہ روپ مصنوعات کی منڈی میں ایک شے محض کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ انسان سماجی وقار اور اعتبار حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کو دنیوی چمک دمک والے اس خول میں مقید کر دیتا ہے جو معاشرے میں تعظیم اور احترام حاصل کرنے کی اس کوتر غیب دیتا ہے۔ حالانکہ اس خول میں پوشیدہ اس کا حقیقی وجود اضطراب و افسردگی کی ایک مسلسل کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ اپنی ذات کے تئیں ا نسان کا یہ عمل جدید معاشرے کا وہ المیہ ہے جس نے انسانی رشتوں کے تقدس کو بڑی حد تک مجروح کر دیا ہے۔ایسے داخلی جبر سے مسلسل گزرتے ہوئے اس کا وجود ان خدشات و تحفظا ت کے تصوراتی آسیب کا شکار ہوجاتا ہے جو زندگی کو فطری انداز میں جینے سے اسے محروم رکھتے ہیں۔یہ آسیب انسان کے مزاج میں وہ سفلہ پن پیدا کر دیتا ہے کہ اگر وہ کسی دوسرے کو اس جبر سے آزاد دیکھتا ہے تو اس کے وجود کا ہی منکر ہو جاتا ہے ۔افسانہ ’شام رنگ‘ کے علاوہ ’اپنائیت‘ میں بھی انسان کی ذات سے وابستہ اسی کرب کو پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں بھی شہری معاشرہ اور اس میں پرورش پانے والے چند دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس کہانی میں صارفی کلچر کے سبب انسانی مزاج میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق کی بنیاد انسانی اقدار کے بجائے اقتصادی معیار کو قرار دیتی ہے۔یہ افسانہ ،افسانہ نگار کی اپنے عہد اور معاشرے سے اس وابستگی کو ظاہر کرتا ہے جو سماج کی رفتار کا بغور مشاہدہ کرنے سے قایم ہوتی ہے ۔ اس مشاہدے میں تبدیلی اور تغیر کا ہر مرحلہ افسانہ نگار کو ان انسانی و تہذیبی رویوں کا پتہ دیتا ہے جو اس عہد اور سماج کی شناخت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔تبدیلی اور تغیر کا یہ عمل خارجی سطح سے گزر کر جب انسان کے داخل میں سرایت کر جاتا ہے تو پھر اس کا ہر عمل نمائشی اور خلوص و صداقت سے خالی ہو جاتا ہے ۔افسانہ اپنائیت کا وہ کردار جو اپنے دوستوں کے درمیان اپنی معاشی فضیلت کا اظہار کرتا ہے دراصل اسی نمائشی انسانی رویہ کا مظہر ہے ۔تشہیریت کے اس دور میں جبکہ ہر شے نمائش کی زد پر ہے خواہ اس کا تعلق سماج و تہذیب سے ہو، مذہب سے ہو ،سیاست سے ہو یا کہ انسانی اخلاقیات سے ہوایسے ماحول میں انسانوں کے مابین رشتوں میں صداقت اور سادگی کی تلاش کار لاحاصل ہے۔چونکہ یہ نمائش عالمی سطح پر ایک عام رجحان میں تبدیل ہو چکی ہے لہٰذا اگر کوئی چیز اس کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے تو وہ تضحیک و تفریح کا ہدف بنتی ہے۔اگر چہ اس کا الگ ہونا صداقت اور سچائی پر ہی کیوں نہ مبنی ہو لیکن چونکہ وہ عام انسانی مزاج کے برعکس ہے اس لیے دنیا آسانی سے اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ۔ انور خاں کا ایک مختصر ترین افسانہ ’شاٹ‘ انسان کے اس نمائشی پن کا ایسا اظہار ہے جو تصنع اور صداقت کی کشاکش میں الجھے ہوئے وجود کو حیرت اور مایوسی کے اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں اسے سب کچھ بے حقیقت نظر آنے لگتا ہے۔
انور خاں کے افسانوں میں شہری زندگی کے پر تصنع ماحول کے ساتھ ہی گاؤں کی سادہ زندگی کا عکس بھی ملتا ہے ۔افسانہ’ شاٹ‘میں مامی کا غائبانہ تعارف اوراس تعارف کے حوالے سے گاؤں کی انسانی زندگی میں اخلاص و سادگی کا اظہار یہ ظاہرکرتا ہے کہ انور خاں انسانی قدروںکی پامالی سے بچنے کا واحد راستہ انسان کی اس سادہ اور فطری زندگی میں دیکھتے ہیں جو رشتوں کے تقدس اور احترام کو بہر صورت برقرار رکھنے سے عبارت ہے۔انور خاں کے افسانوں کو اگر موضوعی تناسب کے لحاظ سے دیکھیں تو بیشتر وہ شہری معاشرہ کو ہی افسانے کا موضوع بناتے ہیں کہ اس معاشرہ کا انسان اپنی ذات میں ایسا عجائب گھر لیے پھرتا ہے جس کے مظاہر بعض اوقات حواس باختگی کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔شہر ی زندگی کی چکاچوندمیں گم انسانی وجود اپنے باطن کی تاریکی سے الجھتے رہنے کے سبب خلفشار کی ایسی دائمی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اپنے اطراف کی ہر شے اسے ایک فریب نظر آنے لگتی ہے۔چونکہ وہ خود ایک مجسم فریب ہوتا ہے لہٰذا دوسروں کو یقین کی نظر سے دیکھنا اسے گوارہ نہیں ہوتا۔ انور خاں نے انسانی وجود پر طاری اس فریب زدگی کو مختلف صورتوں میں پیش کیا ہے جو کبھی مذہب، کبھی سیاست اور کبھی معاشی جبر کے حوالوں کے ساتھ منعکس ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں ان کے دو افسانے ’ہوا‘ اور ’برف باری‘ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔یہ افسانے نہ صرف موضوع کے لحاظ سے منفرد ہیں بلکہ افسانوی دنیا میں برتے جانے والے معاصر لسانی تجربات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ افسانہ ’ ہوا ‘ تمثیلی پیرائے میں لکھا گیا ہے جس میں انور خاں نے بیل اورمینڈک کی تمثیل سے اس انسانی رویہ کو پیش کیا ہے جو اپنے وجود پر فریب کا خول چڑھانے پر اس لیے آمادہ ہو جاتا ہے کہ یہ بناوٹی پن اس کے نزدیک ترقی اور کامیابی کے حصول کا وسیلہ ہے۔ یہ کوشش عارضی طمانیت کے اسباب مہیا کرتی ہے لیکن جب بناوٹی پن کے اس فشار سے جب اس کے وجود کی حقیقت پوری طرح معدوم ہونے لگتی ہے تو وہ پھر اپنے اسی اصلی رنگ میں آنے کی تمنا کرتا ہے جو اس کی حقیقی شناخت ہے۔افسانے میں ’ہوا ‘ کو معاصر سماج میںرائج اس تہذیبی رویہ کا استعارہ کہہ سکتے ہیں جو انسان کو اپنی حقیقت سے فراموش کر نقالی پر آمادہ کرتی ہے ۔ہر چندکہ اس کا یہ عمل بجائے خود اس کی ذات کے لیے ایسا مسئلہ بن جاتا ہے کہ وہ دوبارہ پھر وہی روپ حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے جس سے اس کے وجود کا فطری پن برقرار رہے۔اس افسانے میں انور خاں نے سیاست اور مذہب کے علاوہ اس دانشوری پر بھی گہرے طنز کیے ہیں جو اپنی فہم و فراست کو سماجی رتبہ حاصل کرنے کا وسیلہ سمجھتی ہے ۔یہ دانشوری حیات و کائنات کے حقیقی ادراک سے عاری صرف اپنے ذہن کے پروردہ خام تصورات کو دنیا کی حقیقت سمجھنے پر اکتفا کرتی ہے ۔یہ تصورات اس ’ہوا ‘ کے اثر کا نتیجہ ہوتے ہیں جو وجود کی حقیقت پر نقلی پن کا ملمع چڑھا دیتی ہے۔اس’ ہوا‘کے اثر سے مینڈکوں کا بیل میں تبدیل ہو جانا اور پھر کچھ مدت کے بعد اپنی تبدیل شدہ حالات پر افسوس کا اظہار اور پھر سے اپنے اصلی روپ کو حاصل کرنے کی خواہش کو تمثیل کے پیرائے میں بیان کرکے انورخاں نے انسانی رویہ میں شامل اس مکر وفریب کو نمایاں کیا ہے جو عارضی مفاد اور دنیوی شان و شوکت کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا راستہ اختیار کر لیتی ہے۔ اس افسانے کے مختلف مقامات سے درج کی گئیں مندرجہ ذیل چند سطور اس صورتحال کی موثر ترجمانی کرتی ہیں۔
’’میرے پاس کئی ڈگریاں ہیں‘‘۔
’’ میں اونچی ذات کا مینڈک ہوں۔‘‘
’’معاشیات ، اقتصادیات، نفسیات، فلسفہ، تاریخ اور ادب پر میں نے بہت ساری کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔‘‘
’’میں سماج کے اونچے طبقے کے لوگوں سے خلط ملط رکھتا ہوں۔‘‘
’’میں انٹلکچول ہوں۔‘‘
’’خوب خوب۔۔۔۔اسلام مکمل نظام حیات ہے ۔ خوب سانس لو ، جس قدر قوت سے سانس کھینچ سکتے ہو ، کھینچو۔‘‘
’’ اگر پیٹ پھٹ جائے تو۔‘‘
’’شہید کہلاؤ گے شہید۔ اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی۔ حکیم فروغ اسلام گنگناتے اور قہقہے لگاتے زمین برابر کرتے گزر گیے۔‘‘
سائرن کی آواز کے عقب میں دو موٹر سائیکلیں زن سے گزریں اور ان کے پیچھے کار میں ایک عظیم الجثہ مینڈک سفید کرتا اور ٹوپی پہنے ہوئے گزرا۔
ان سطور میں مذہب، سیاست اور جھوٹی دانشوری کو ہدف بناتے ہوئے انور خاں نے مینڈک کی روایتی تمثیل سے استفادہ کیا ہے تاہم اس تمثیل کو انفرادیت عطا کرنے کے لیے ’ہوا‘ کے ذریعہ اپنے وجود کو تبدیل کرنے کا پہلو برآمد کر کے اس میں مزید دلچسپی اور طنز پیدا کر دیا ہے۔افسانہ ’برف باری‘ میں انور خاں نے قدرت تجریدی انداز اختیار کر کے مرکزی کردار کے حوالے سے فریب اور حقیقت کے تصادم میں اسیر انسان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ کردار کی یہ نفسیاتی کشمکش اسے تنہائی پسند بنا دیتی ہے اور اس تنہائی میں وہ حتی المقدرو اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی یہ کوشش اسے خیال و افکار کی اس بھول بھلیاں میں لے جاتی ہے جہاں وہ اپنی ذات کے حوالے سے تہذیب و تمدن، معاشرتی اقدار اور انسانی رویہ اور رشتوں میں الجھ کر اس حقیقت کو دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے جو آفاقیت کی حامل ہو۔ دراصل عرفان ذات کا موضوع انور خاں کے بیشتر افسانوں میں اپنے عصری سماج و تہذیب کے سیاق میں نظر آتا ہے ۔ان کا یہ تخلیقی رویہ ان کے اس تجسس کو نمایاں کرتا ہے جو کسی مظہر اور آثار کے خارجی روپ میں پوشیدہ اس حقیقت کو دریافت کرنے کا خوگر ہے جو انسانی معاشرہ کی صورت اور ہیئت کو مختلف انداز میں متاثر کرتی ہے۔
انور خاں نے انسانی معاشرہ کو متاثر کرنے والے تقریباً ہر اس رویہ کا فنکارانہ تجزیہ کرنے کی کوشش کی جو سماجی و تہذیبی دھارے کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے لیے انھوں نے جو طرز بیان اختیار کیا وہ بظاہر سادہ لیکن در حقیقت معنی خیزی کی کئی جہتوں سے معمور ہے ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں خصوصی طور سے حقیقت اور مصنوعیت کے اس تضاد کو پیش کیا ہے جو معاشرتی اور تہذیبی قدروں میں پیچیدگی اور انتشار کی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔وہ زندگی کی ان صداقتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر انسانیت کا تصور قایم ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ روایت پرستی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے ان نئی راہوں پر سفر کرنے کا عزم کرتے ہیں جو ہر لحظہ تبدیل ہوتی دنیا میں نئی منزل کی بشارت دیتی ہیں۔یہ منزل وہ ہے جو دنیا کی تہذیب و تمدن کے ارتقائی سفر میں انسانی قدروں کی بقا کو یقینی بناتی ہے ۔ انور خاں کی فنکاری کا نمایاں وصف دراصل اسی منزل کی جانب ان کا وہ فکری سفر ہے جو مختلف افسانوں کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ۔


NAIYYAR MASOOD KE AFSANY BY QAMAR SIDDIQUI

Articles

’نیّر مسعود کے افسانے طاﺅس چمن کی مینا‘ کی تکنیک

قمر صدیقی

قمر صدیقی

’نیّر مسعود کے افسانے طاﺅس چمن کی مینا‘ کی تکنیک

 

نیّر مسعود اردو افسانے میں کئی حیثیت سے ممتاز مرتبے کے حامل ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے میں علامتی بیانے کا ایک نیا در کھولا۔بیان کے ہنر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انھوں نے زبان کے تفاعل اور جملوں یافقروں کی نثری ساخت کوبھی اہمیت دی۔ بیانیہ میں شعری برتاﺅ سے شعوری انحراف کرتے ہوئے نیر مسعود نے افسانوی بیانیہ کو نثری خصوصیات سے متصف کیا۔ ان کے افسانوں میں خواب ، سرّیت، خواہش اور احساس کو واضح ترجیح حاصل ہے۔ جبکہ کئی افسانوں میں میجک رئیلزم کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ نیّر مسعود کے فن کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی میجک رئیلزم کی بنیاد سرّیت پر استوار ہے جس کی وجہ سے افسانوں میں قاری کو پیچیدگی نظر آتی ہے۔ ”شیشہ گھاٹ“، ” عطرِ کافور“ ، ”نصرت“ اور ”مراسلہ“ جیسے افسانے اس کی مثال ہیں۔ اِن افسانوں میں بلا کی Readability ہے اور ان کی فنی کی وقعت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم یہ افسانے تفہیم کی سطح پر ذرا مشکل ہی سے کھلتے ہیں۔ اس کے برعکس ”طاﺅس چمن کی مینا“ کی ترسیل عام قاری تک ہوجاتی ہے۔
افسانے کے فن کی توضیح کرتے ہوئے پروفیسر قاضی افضال حسین نے لکھا ہے کہ:
” اگر بالکل سادہ غیر تنقیدی زبان میں کہیں تو افسانہ جھوٹ کو سچ کردکھانے کا فن ہے۔ اس لیے نہیں اس میں بیان کردہ واقعات ”سچے“ نہیں ہوتے /ہوسکتے بلکہ اس اعتبار سے کہ افسانہ نگار ، ہر وہ فنی تدبیر استعمال کرتا ہے جس سے وہ اپنے قاری کو یقین دلا سکے کہ وہ افسانہ نہیں لکھ رہا ہے بلکہ سچا واقعہ سنا رہا ہے اور اگر اس نے افسانے کی تشکیل کے لیے کوئی خاص یا مکانی عرصہ منتخب کیا ہے ، جس کا تعلق ماض؟ی بعید سے ہوتو اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ افسانے کے خیالی بیانیہ کو تاریخی واقعہ کی شکل دے کر قاری کو یقین دلا دے کہ وہ ”فرضی“ کہانی نہیں سنا رہا ، ایک خاص انداز سے تاریخ بیان کررہا ہے۔
(تحریر اساس تنقید۔ از: پروفیسر قاضی افضال حسین۔ ص: ۳۵۲۔ ایجوکیشنل بک ہاﺅس، علی گڑھ۔ ۹۰۰۲ئ)
اس طرح کے تاریخی افسانے کے لیے ایک ترکیب یہ ہے کہ ماضی کے کسی زمانے کا تعین کرکے جگہ ، اس عہد کے مخصوص افراد ، تعمیرات، اسمائے خاص اور لوگوں کو پیش آنے والے واقعات کو بطور حوالہ شامل کردیا جائے۔مذکورہ اسما یا واقعات کا شدید حوالہ جاتی کردار بیان کی افسانویت کی پردہ پوشی کرتا ہے اور قاری افسانے کو ایک مکمل سچا واقعہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔ اس نوع کی سب سے روشن مثال ڈراما انار کلی ہے۔ جس کی افسانویت کواکثر کم پڑھے لکھے لوگ آج بھی سچ سمجھتے ہیں۔ عہد حاضر میں نیر مسعود اور شمس الرحمن فاروقی نے اس طرز کے افسانے لکھے ہیں۔ نیّر مسعود کا افسانہ ”طاﺅس چمن کی مینا “ اس نوع کا ایک منفرد اورمتنوع افسانہ ہے۔ یہ افسانہ اپنی فنی خوبیوں کے سبب پچھلی ایک دہائی سے اردو میں بہت زیادہ موضوع بحث رہنے والے افسانوں میں سے ایک ہے۔
افسانہ ”طاﺅس چمن کی مینا“ تاریخ اور تہذیب کے پس منظر میں اپنے قصے کو پیش کرتا ہے۔ افسانے کا راوی کالے خان جو کہانی کا مرکزی کردار بھی ہے ، صیغہ¿ واحد حاضر میں پوری کہانی بیان کرتا ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کالے خان کی بیوی انتقال کے وقت ایک چھوٹی سی بچی چھوڑ جاتی ہے جس کا نام فلک آرا ہے۔ بیوی کی ناگہانی موت سے کالے خان ذہنی طور پر پریشان ہوجاتا ہے ۔ اسی پریشانی کے عالم میں اسے گھومتا دیکھ کرشاہی جانوروں کے داروغہ نبی بخش نے اس پر رحم کھا کر اسے قیصر باغ کے طاﺅس چمن میں ملازمت دلا دی۔ ملازمت ملنے کے بعد وہ اپنی بچی کی طرف ملتفت ہوتا ہے۔ بچی کالے خان سے ایک پہاڑی مینا لانے کی ضد کرتی ہے۔ لیکن کالے خان کے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ بچی کی اس خواہش کو پوری کرسکے۔ کیونکہ بیوی کی وفات کے بعد سے وہ بے روزگار تھا لہٰذا تنخواہ کا پیش تر حصہ قرض کی ادائیگی کی نذر ہوجاتا تھا۔ اس درمیان اسے اطلاع ملتی ہے کہ سلطان عالم طاﺅس چمن کے لیے ایک ایجادی قفس بنوا رہے ہیں جس میں پرندے رکھے جائیں گے۔ ایجادی قفس تیار ہوجاتا ہے۔ اس میں چالیس پہاڑی مینائیں رکھی جاتی ہیں۔ اُدھر کالے خان کی بچی کی ضد روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔وہ سوچتا ہے کہ قفس میں کل چالیس مینائیں ہیں لیکن ان کا شمار کرنا مشکل ہے کہ پوری چالیس ہیں یا ان میں سے ایک کم ہے۔ لہٰذا بچی کی معصومانہ خواہش کی خاطر کالے خان ایجادی قفس کی ایک مینا جس کا نام سلطان عالم نے فلک آرا رکھا ہے چُرا لاتا ہے۔چونکہ یہ مینا کالے خان کی بچی کی ہم نام تھی اس لیے اِس مینا سے اسے پہلے ہی سے کچھ کچھ انسیت تھی۔ایک روز سلطان عالم ایجادی قفس کی طرف چلے آتے ہیں اور میناﺅں کو دیکھ کر محسوس کرلیتے ہیں ان میں فلک آرا نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ داروغہ نبی بخش سے سوال کرتے ہیں ۔ داروغہ انھیں بتاتے ہیں کہ وہ انھیں میناﺅں میں کہیں چھپی ہوگی اور سلطان عالم مطمئن ہوکر چلے جاتے ہیں۔ لیکن کالے خان کا اطمینان رخصت ہوجاتا ہے ۔ وہ مینا فلک آرا کو اپنے گھر سے واپس لاکر ایجادی قفس میں ڈال دیتا ہے۔ ایک روز سلطان عالم پورے اہتمام سے کچھ انگریزوں کو اپنا ایجادی قفس اور اس کی میناﺅں کے کرشمے دکھانے لاتے ہیں۔ ان کے ساتھ پرندوں کو پڑھانے والے میر داﺅد بھی ہیں جنھوں نے ان میناﺅں کو گانا سکھایا ہے۔مینائیں میر داﺅد کے پڑھائے اشعار گاتی ہیں لیکن دیگر میناﺅں کے برخلاف فلک آرا مینا کالے خان کی بیٹی کے پڑھائے جملے بولتی ہے۔ سلطان عالم ناراض ہوجاتے ہیں اور یہ راز کھل جاتا ہے کہ یہ مینا ایجادی قفس سے باہر لے جائی گئی تھی۔ کالے خان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے۔ اُس کی نوکری چھن جاتی ہے اور مقدمہ چلانے کی تیاری ہوتی ہے۔ داروغہ نبی بخش کی رہنمائی کے سبب کالے خان سلطان عالم تک اپنا مکمل احوال پہنچاتا ہے۔ سلطان عالم اس کا قصہ سن کر اسے معافی دے دیتے ہیں اور وہ پہاڑی مینا بھی اس کی بیٹی فلک آرا کو نواز دیتے ہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ یہاں سے ایک پیچیدگی اور شروع ہوتی ہے کہ مذکورہ مینا کے بول ایک انگریز عہدیدار کو بھا جاتے ہیں اور وزیر اعظم اُس انگریز سے اس مینا کے لیے وعدہ کرلیتے ہیں۔ ہرچند کہ وزیر اعظم سلطان عالم سے آگے جانے کی سکت نہیں رکھتے تاہم کسی حیلے بہانے سے وہ مینا کالے خان سے حاصل کرکے انگریز کو نذر کرنے کا ذہن بنا لیتے ہیں۔ داروغہ نبی بخش اور کالے خان نہیں چاہتے کہ اس طرح کا کوئی معاملہ ہو اور سلطان عالم کو اس سے رنج پہنچے۔ لہٰذا نبی بخش کی حکمت عملی کے مطابق مینا اور فلک آرا کو نبی بخش کہیں اور لے کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دیکھ کر وزیر اعظم کالے خان کو جیل بھیج دیتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد لکھنو¿ پر انگریزوں کا تسلط ہوجاتا ہے اور بہت سے قیدی رہا کردیئے جاتے ہیں۔ ان رہا کیے گئے قیدیوں میں کالے خان بھی ہے۔ وہ جیل سے باہر آتا ہے تو لکھنو¿ کا نقشہ بدلا ہوا ہے۔ سلطان عالم قید کرکے جلا وطن کردیئے گئے ہیں۔ وہ اپنی بیٹی فلک آرا کے پاس جاتا ہے ۔ جو اُس کی گود میں بیٹھ کر اُس پہاڑی مینا کے قصے بیان کرنے لگتی ہے۔یہاں پر افسانہ اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
نیّر مسعود نے اس افسانے کا آخری پیراگراف اس چابکدستی سے لکھا ہے کہ گویا یہ افسانہ ختم ہوکر بھی قاری کے ذہن میں جاری رہتا ہے۔ ملا حظہ ہو:
” لکھنو¿ میں میرا دل نہ لگنا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آرہنا، شاون کی لڑائی، سلطان عالم کا کلکتے میں قید ہونا، چھوٹے میاں کا انگریز سے ٹکرانا، لکھنو¿ کا تباہ ہونا، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کرکے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آکر داروغہ نبی بخش کو گولی مارنا، یہ سب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں۔ لیکن طاﺅس چمن کی مینا کا قصہ وہیں پر ختم ہوجاتا ہے جہاں ننھی فلک آرا میری گود میں بیٹھ کر اس کے نئے نئے قصے سنانا شروع کرتی ہے۔“
(طاﺅس چمن کی مینا۔ از: نیّر مسعود۔ ص: ۵۰۲۔ عرشیہ پبلی کیشن۔ نئی دہلی۔ ۳۱۰۲ئ)
اس افسانے میں قصے کے ساتھ تاریخی و تہذیبی عناصر بالکل چپک کر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افسانے کا راوی یعنی کالے خان تاریخ کی کتابوں میں کہیں موجود نہیں ہے لیکن سلطان عالم یعنی واجد علی شاہ ایک تاریخی فرد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی افسانے میں تہذیبی طور پر بہت سے عناصر سلطان عالم کی تاریخیت کو مستحکم کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً حسین آباد کا امام باڑہ، لکھنو¿ کی معاشرت میں اس کی اہمیت، نواب نصیر الدین حیدر کا انگریزی دوا خانہ ، لکھّی دروازہ ، قیصر باغ ، درشن سنگھ باﺅلی وغیرہ تو بالکل سامنے کے وسائل ہیں۔
یہ افسانہ نیّر مسعود نے اپنے عام ڈکشن سے ہٹ کر لکھا ہے۔ البتہ زبان و بیان کی وہی خوبی اس افسانے میں بھی ہے جو نیّر مسعود کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔ جزیات نگاری کا کمال اس افسانے میں بھی صاف جھلکتا ہے۔ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتیں ، اہم اور غیر اہم واقعات ، آدھے ادھورے خواب ، یاداشتیں الغرض کہ اس افسانے میں اتنی ہما ہمی اور اتنا رنگ ہے کہ پورا افسانہ مختلف رنگوں کا ایک کولاژ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اِس کولاژ میں اصل کہانی کا رنگ دیگر رنگوں کی بہ نسبت زیادہ روشن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی قاری کے ذہن میں اترتی چلی جاتی ہے۔ عصری افسانے میں اس افسانے کا اختصاص یہ ہے کہ اس کی تقلیدیا تتبع تو نہیں لیکن اس طرز میں چار افسانے شمس الرحمن فاروقی نے لکھے ہیں۔ اور یہی اس افسانے کے رجحان ساز ہونے کی دلیل بھی ہے۔
٭٭٭

DAGH KI SHERI HIKMAT E AMLI BY AHMED MAHFOOZ

Articles

داغ کی شعری حکمت عملی کے چند پہلو

پروفیسر احمد محفوظ

پروفیسر احمد محفوظ

داغ کی شعری حکمت عملی کے چند پہلو

نواب مرزا داغ اردو کی کلاسیکی شعری رواےت کے آخری اہم ترین شعرا میں ہیں۔ خیال رہے کہ یہاں ”اہم ترین“ کا لفظ میں نے دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، اور جان بوجھ کر داغ کو بڑا یا عظیم شاعر کہنے سے گریز کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ معمولی اور کمتر درجے کے شاعر ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ جدید زمانے میں داغ کو عام طور پر جس حیثےت سے دیکھا گےا،اور ان کے بارے میںجو خیالات مشہور کےے گئے، اس کی روشنی میں داغ ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں، جس کی تقریباً تمام شاعری محض تفریحی قسم کی اور سطحی جذبات و احساسات کی حامل ٹھہرائی گئی ہے۔اس سے ہٹ کر اگر داغ کو کسی حد تک قابل ذکر سمجھا بھی گےا، تو اس کا سہرا ان کی زبان دانی اور محاوروں کے برجستہ استعمال وغیرہ کے سر رکھا گےا۔اس کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ داغ کے جو اشعار عام طور سے زبان زد رہے ہیں، وہ وہی ہیں جن میں داغ نے اردو زبان کی غیرمعمولی حیثےت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اپنی زبان دانی کا برملا اظہار کیا ہے۔مثلاً اس شعر سے بھلا کون واقف نہ ہوگا
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اوریہ شعر بھی

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید عہد میں داغ کی شہرت کی عمارت زےادہ تر ایسے اشعار پر قائم کی گئی، جن سے ان کی مہارت زبان وغیرہ کا اظہار ہوتا تھا۔اسی کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ داغ کی استادی کا چرچا بڑی شدومد کے ساتھ کیا جاتا رہاہے، اور یہ کچھ بے جا بھی نہیں۔لیکن مشکل یہ آپڑی کہ کلاسیکی دور میں استادی کا جو تصور تھا، وہ جدید زمانے میں بوجوہ تبدیل ہو گےا۔کلاسیکی عہد میں استاد ہونے کے صرف یہ معنی نہیں تھے کہ جس شاعر سے لوگ شعر کا فن سیکھیں اور شعرگوئی کی تربےت حاصل کریں، وہی استاد کہلانے کا مستحق ہے، بلکہ استاد ہونے کے لازمی طور پر یہ معنی سمجھے جاتے تھے کہ استاد وہ شاعر ہے جو فن شعر کے تمام اصول و قواعد سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہے ، بلکہ ان اصولوں کو پوری مہارت کے ساتھ برتنے پر بھی قادر ہے۔اس طرح ہماری کلاسیکی تہذیب اچھے اور بڑے شاعر میں اور استاد شاعر میں فرق نہیں کرتی تھی۔کسی شاعر کے استاد ہونے کے معنی ہی یہ تھے کہ وہ چاہے بڑاشاعر نہ ہو،لیکن اچھا اور قابل ذکر شاعر ضرور ہے۔ اسی کے ساتھ اس تہذیب میں یہ بھی تھا کہ اچھے یا استاد شاعر ہونے کی بنےاد شاعری کے فنی معےاروں پر قائم تھی۔”مقدمہ¿ شعروشاعری“ میں جہاں حالی نے اعلیٰ درجے کے شعرا کے کلام کی عمومی کیفےت کا ذکرکیاہے، وہاں انھوں نے ان شعرا کے لےے بڑے یا عظیم کا لفظ نہیں استعمال کیا،بلکہ انھیں استاد ہی کہا ہے۔حالی کہتے ہیں:
یہ بات یاد رکھنی چاہےے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں،یا جن کو استاد ماننا چاہےے، ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن ولطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو۔کیونکہ یہ خاصےت صرف خدا ہی کے کلام میں ہو سکتی ہے۔
اس اقتباس سے بات بالکل صاف ہو جاتی ہے۔لیکن جب ہم کلاسیکی عہد کے بعد یعنی جدید زمانے میں استاد کے معروف تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی صورت بہت بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔اب استاد ہونے کے یہ معنی سمجھے اور سمجھائے گئے کہ جو شاعر فن شعر کے اصولوں سے واقف ہو اور زبان وغیرہ پوری صحت و درستی کے ساتھ استعمال کرے، وہ استاد کہلائے گا،اور یہ بھی کہ اس کے شاگردوں کا ایک حلقہ بھی ہو۔ یہاں تک تو بات پھر بھی ٹھیک تھی۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ تصور بھی وابستہ ہو گےا کہ چونکہ استاد شعرا زےادہ تر صحت زبان وبےان ہی پر قناعت کرتے ہیں،اس لےے ان کے یہاں اچھی شاعری یا اعلیٰ درجے کی شاعری کی تلاش بے سود ہے۔اس تصور کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اچھااورقابل ذکریا بڑا شاعر ہونے کے لےے استاد ہوناضروری نہیں۔ذرا آپ غور کریں کہ اگر کوئی شاعر اپنے کلام میں زبان وبےان کی صحت کا خیال نہیں رکھتا، اور فنی اصولوں کو درستی کے ساتھ برتنے پر قادر نہیں ہے تو اس کا اچھا اور بڑا شاعر ہونا تو دور رہا، اس کا شاعر ہونا ہی معرض سوال میں آ جائے گا۔ ظاہر ہے،استادی کے اس جدید تصور کے زیر اثر ہمارے بہت سے قابل ذکر اور بلند پایہ شعرا وہ حیثےت حاصل نہ کر سکے، جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق تھے۔افسوس کہ ان میں داغ جیسا بے مثال اور بلند مرتبہ شاعر بھی شامل ہے۔چنانچہ داغ کی شاعرانہ حیثےت کے بارے میں جن باتوں کو بے انتہا شہرت حاصل ہے،ان کا ماحصل صرف یہی نکلتا ہے کہ داغ کی استادی میں تو کوئی شبہ نہیں، لیکن وہ شاعر معمولی درجے کے تھے۔
یہاں میرا مقصد داغ کے شاعرانہ مرتبے کو زیر بحث لانا نہیں،بلکہ ان کی شعری حکمت عملی کے کچھ پہلوو¿ں کی نشان دہی کرنا ہے،جس کا ذکر آگے آتا ہے۔لیکن چونکہ داغ کے شاعرانہ مرتبے کی تخفیف کا کام کچھ زےادہ ہی زور شور کے ساتھ کیا گےا ہے،اس لےے اس ضمن میں اتنا کہے بغیرمیںنہیں رہ سکتاکہ شاعرانہ مرتبے کے لحاظ سے داغ کی حیثےت اگر کمتر ہے تو یہ کمتری بڑے کلاسیکی شعرا کے مقابلے میں ہے۔بالکل اسی طرح جیسے ناسخ، مصحفی،ذوق اور مومن وغیرہ کی حیثےت میر اور غالب کے سامنے ہے۔لہٰذا جب داغ کو کمتر کہا جائے گا تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوں گے کہ وہ ہما شما کے مقابلے میں کمتر ہیں۔
چونکہ شعری حکمت عملی کے بنےادی عناصر کا تعلق فن شعر کے اصولوں سے ہے، اس لےے داغ کی شعری حکمت عملی کو بھی اسی روشنی میں دیکھنا مناسب اور بامعنی ہوگا۔داغ نے اپنے شاگردوں کی ہداےت کے لےے جو ”پندنامہ“ لکھا ہے، اس میں فن شعر کے تقریباً تمام اصول بےان کر دےے ہیں۔ان میں زےادہ تر باتیں تو مطلق اصول کی حیثےت رکھتی ہیں،یعنی ان کی پابندی ہر شاعر کے لےے اور ہمیشہ ناگزیر ہے، لیکن کچھ باتیں ایسی بھی بےان ہوئی ہیںجنھیں مختلف فیہ کہا جاسکتا ہے۔یعنی داغ ان کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن دیگر شعرا کا عمل اس سے مختلف ہے یا ہو سکتا ہے۔یہاں ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، البتہ چند کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اس پند نامے میں داغ نے سب سے پہلے جس چیز کا ذکر کیا ہے، وہ بندش کی چستی ہے۔ہماری شعری تہذیب میں بندش کی چستی سے یہ مراد لیا گےا ہے کہ شعر میں جتنے الفاظ لائے جائیں، ان کی نشست ایسی ہو کہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹاےا نہ جا سکے۔اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ شعر میں مستعمل ہر لفظ معنی و مضمون کے لحاظ سے کارگر ہو۔اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لفظ بھرتی کا ہے۔ ظاہر ہے، اس سے بھی شعر کی بندش متاثر ہوتی ہے۔اس پہلو کو خواجہ حیدر علی آتش نے بڑی خوبی سے ایک شعر میں بےان کیا ہے
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
شعر میں ایک لفظ بھی اگر پوری طرح کام نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس لفظ کی جگہ شعر میں خالی رہ گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ شعر جو مثل نگینے کے ہے،اس میں ایک نگ نہیں ہے۔آپ خود غور کریں کہ ایسی صورت میں شعر کو فنی اعتبار سے مکمل کیونکر کہا جا سکتا ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ شعر میں بندش الفاظ کی اہمےت بنےادی اور غیرمعمولی ہے۔مضمون خواہ کیسا بھی ہو، بندش کا چست ہونا کامےاب شعر کی اولین شرائط میںہے۔اب بطور مثال داغ کے چند اشعار بھی دیکھتے چلیں،تاکہ اس صفت کا اندازہ ہو سکے:
آج گھبرا کر وہ بولے جب سنے نالے مرے
جان کے پیچھے پڑے ہیں چاہنے والے مرے
۔۔۔
بیٹھیں گے نہ خاموش ہم اے چرخ ستمگار
تھک جائیں گے نالوں سے تو فرےاد کریں گے
۔۔۔
کچھ نہ ہو تیری محبت میں پر اتنا ہو جائے
کہ تری بدمزگی مجھ کو گوارا ہو جائے
۔۔۔
ان اشعار پر الگ الگ گفتگو طوالت کا سبب ہوگی،اس لےے صرف آخری شعر میں ایک لفظ کی طرف توجہ دلانے پر اکتفا کرتا ہوں۔لفظ ”گوارا“ کو عام طور پر قابل برداشت کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے معنی میٹھے اور لذیذ کے ہیں۔اسی لےے ”آب گوارا“ کی ترکیب میٹھے اور لذیذ پانی کے لےے استعمال ہوتی ہے۔اب دوسرے مصرعے میں بدمزگی کے ساتھ ”گوارا“ کے استعمال کو دیکھےے اور داد دیجےے۔علاوہ ازیں لفظ ”گوارا“ میں داغ نے ایہام کا پہلو بھی رکھ دیا ہے۔
کلاسیکی شعری تہذیب میں ایہام کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھا گےاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معنی آفرینی کے وسائل میں اسے ایک نہاےت کارگر وسیلے کی حیثےت بھی حاصل رہی۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جدید زمانے میں اسے نہاےت مکروہ اور مضرت رساں کہہ کر مطعون کیا گےا۔ایہام کے بارے میں داغ کیا رائے رکھتے ہیں،اسے انھیں کی زبان سے سن لیتے ہیں۔”پندنامہ“ کا یہ شعر ملاحظہ ہو
شعر میں آئے جو ایہام کسی موقع پر
کیفےت اس میں بھی ہے وہ بھی نہاےت اچھا
اس شعر کی روشنی میں ایہام کے تئیں داغ کا موقف اس کے سوا اور کیا ظاہر کرتا ہے کہ ایہام ان کی نظر میں مستحسن ہے ۔بہرحال یہ تو ان کی رائے تھی۔اب ان کا عمل بھی دیکھ لیا جائے۔ان کا مشہور مطلع ہے
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قےامت کا انتطار کیا
یہاں لفظ ”قےامت“ کا ایہام داد سے مستغنی ہے۔پھر مزید لطف یہ کہ ”قےامت کا انتظار“ کا پورا فقرہ ایہام کی کیفےت رکھتا ہے۔اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ یہ انتظار نہاےت تکلیف دہ ہے، دوسرے یہ معنی کہ معشوق خود قےامت ہے۔ لہٰذا اس کا انتظار گویا قےامت کے انتظار کی طرح تھا۔ایہام کی کارفرمائی کی ایک مثال اور دیکھےے
لگی ہے پنجہ¿ مژگاں میں خون دل سے حنا
ہماری آنکھ ملی سب سے سرخ رو ہو کر
یہ شعر مضمون آفرینی کی نہاےت عمدہ مثال تو ہے ہی، ساتھ ہی اس میں ایہام رکھ کر داغ نے معنی آفرینی کے بھی مزید ابعاد روشن کر دےے ہیں۔یہاں بیک وقت دو لفظوں کو ایہام کا حامل بناےا گےا ہے۔یہ الفاظ ”سرخ رو“ اور ”ملی“ ہیں۔”سرخ رو“ کے معنی کامےاب و کامران کے ہیں، لیکن لغوی معنی کے لحاظ سے سرخ رو وہ ہے، جس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو۔اسی طرح ”آنکھ ملی“ کے ایک معنی ہیں ،”آنکھیں چار ہوئیں“ اور دوسرے معنی ہیں”آنکھ نے ملاقات کی“ جیسے ہم کہتے ہیں، ہم ان سے مودب ہو کر ملے۔آپ یہ بھی غور کریں کہ مژگاں کو آنکھ کا چہرہ کہنا کس قدر مناسب ، با معنی اور بدیع ہے۔پورا شعر نہاےت اعلیٰ درجے کی فنکاری کا نمونہ ہے۔
کلاسیکی شعرا کو پڑھنے کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں۔اگر انھیں پیش نظر نہ رکھا جائے تو ان شعرا کو پڑھنا ہمیں درست نتائج تک نہیں پہنچا سکتا۔داغ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس پہلو کی طرف شمس الرحمن فاروقی نے خاص طور سے توجہ دلائی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
ہمارے یہاں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ہم کلاسیکی شاعروں کو پڑھتے وقت یہ بات نظر انداز کر دےتے ہیں کہ کلاسیکی شاعر کے پہلے کسی نے کیا کہا،اور اس کلاسیکی شاعر کے بعد کسی نے کیا کہا؟اس کو دھےان میں رکھے بغیر آپ اس شاعر کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے،کیونکہ یہ سب لوگ Intertextual ہیں۔ایک کا سرا ایک سے جڑا ہوا ہے۔ہو سکتا ہے مثلاً منیر نےازی کے بارے میں میں کہوں کہ ان کو پڑھنے کے لےے ضروری ہے کہ آپ داغ کو پڑھیںیا امیر کو پڑھیں۔ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ نہیں،ضروری نہیں ہے۔لیکن داغ کو ،جلال کویا امیر کو پڑھنے کے لےے یہ قطعی ضروری ہے کہ آپ فارسی اردو کے شعرا ،جو ان کے پہلے ہو چکے ہیںاور جن سے یہ متاثر ہوئے، جن کے ساتھ ساتھ اور جن کی روشنی میں انھوں نے اپنے کو شاعر سمجھا، ان کو دیکھیں کہ انھوں نے کیسے شعر کہے۔اور یہ دیکھیں کہ ان پیش روو¿ں اور معاصروں کی بنائی ہوئی دنیا میں داغ یا امیر یا جلال کہاں کھڑے ہیں۔
اس اقتباس میں جس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے،اس میں بیک وقت کئی باتیں شامل ہیں۔لیکن اس میں سب سے بنےادی بات فارسی اور اردو غزل کی پوری شاعری میں مضامین کی وحدت کا معاملہ ہے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ کلاسیکی غزل کا کوئی شعر مضمون کے لحاظ سے اپنا بالکل جداگانہ وجود نہیں رکھتا، تو اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ سارے مضامین کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اس پہلو سے جب ہم داغ کے اشعار پر غور کرتے ہیں تو نہاےت دلچسپ صورتیں نظرآتی ہیں، اور اس سے داغ کی غیر معمولی تخلیقی کارکردگی کااندازہ ہوتا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجےے۔
والہ داغستانی کا شعر ہے
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جانست
اب دیکھےے اس مضمون کو میر کہاں لے جاتے ہیں
جانیں ہیں فرش رہ تری مت حال حال چل
اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل
آپ دیکھیں کہ اس مضمون پر مبنی ایسے زبردست دو شعروں کے سامنے داغ اپنا چراغ جلاتے ہیں، اور حق یہ ہے کہ داغ کا شعر بھی اپنی جگہ پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے
بہت آنکھیں ہیں فرش راہ چلنا دیکھ کر ظالم
کف نازک میں کانٹا چبھ نہ جائے کوئی مژگاں کا
داغ کی قابل ذکر شاعرانہ حیثےت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ غالب جیسا عظیم شاعر ان کے کلام کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے، اور یہی نہیں بلکہ فرمائش کرکے اپنی غزلوں پر غزلیں کہلاتا ہے۔چنانچہ داغ کی بہت سی غزلیں غالب کی زمین میں ہیں۔غالب کی مشہور غزل کا مطلع ہے

شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عرےاں نکلا
داغ نے اس زمین میں غزل کہی اور مطلعے میں مضمون بھی تقریباً یہی باندھا۔ملاحظہ ہو
نہ کبھی جیب خجالت سے یہاں سر نکلا
قیس دیوانہ تھا جامے سے جو باہر نکلا
غالب کے زبردست مصرع ثانی کے سامنے ”قیس دیوانہ تھا جامے سے جو باہر نکلا“ جیسا مصرع کہہ کر مطلع بنانا معمولی بات نہیں۔پھر یہ بھی دیکھےے کہ غالب نے تصویر کے پردے میں قیس کے عرےاں نکلنے کی بات کہی،جس میں قول محال کی صورت ہے۔داغ نے شاےد محسوس کر لیا تھا کہ اس سے آگے خیال کو لے جانا نہاےت مشکل ہے، اس لےے انھوں نے جامے سے باہر نکلنے کا محاورہ اس طرح استعمال کیا کہ اس میں ایہام کی کیفےت بھی پیدا ہوگئی۔مزید یہ کہ انھوں نے ”قیس دیوانہ تھا“ کا ایسا بامعنی اور برجستہ فقرہ رکھ دیا جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔
ذوق کا مشہور زمانہ مطلع کس کو یاد نہ ہوگاجس کے بارے میں کہا گےا ہے کہ غالب بھی اس پر سر دھنتے تھے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
حق تو یہ ہے کہ ایسے مضمون کو ہاتھ لگانا ہی بڑے دل گردے کی بات ہے۔لیکن داغ کی قدرت بےان دیکھےے کہ اسی مضمون کو کہا اور خوب کہا۔یہ الگ بات ہے کہ ذوق کے شعر کی سی کیفےت اور برجستگی تو داغ کے یہاں پیدا نہیں ہوئی، لیکن ان کا شعر پھر بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ملاحظہ ہو

آرام کے لےے ہے تمھیں آرزوے مرگ
اے داغ اور جو چین نہ آیا فنا کے بعد
داغ کی شعری حکمت عملی کا ایک نہاےت اہم پہلو زور بےان ہے۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بےان کا زور وہیں زےادہ کارفرما ہوتا ہے، جہاں کلام میں برجستگی کی صفت زےادہ ہوتی ہے۔اور برجستگی کے لےے عام طور سے کلام کی صفائی ضروری خیال کی جاتی ہے۔اس صفت کو کلاسیکی ادبی تہذیب میں صفائی بےان،صفائی کلام اور صفاے گفتگو وغیرہ الفاظ سے ظاہر کیا گےا ہے۔واضح رہے کہ اس سے زبان کی صفائی مراد نہیں ہے،بلکہ اس سے مضمون کو ایسے پیرائے میں ادا کرنا مراد ہے، جس میں کوئی الجھاو¿ کی کیفےت نہ پائی جائے۔اس طرح دیکھا جائے تو صفائی بےان، برجستگی اور زور بےان سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اس صفت کی عملی صورت کے لےے داغ کے یہاں سے متعدد مثالیں لائی جا سکتی ہیں، لیکن یہاں ذوق اور داغ کے صرف ایک ایک شعر کی مثال پر اکتفا کرتا ہوں۔پہلے ذوق کو سنےے
حالت پہ مری کون تاسف نہیں کرتا
پر میرا جگر دیکھو کہ میں اف نہیں کرتا
اور داغ کا یہ مطلع دیکھےے
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو داغ نام نہیں
صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دونوں شعر زور بےان کے لحاظ سے غیرمعمولی حیثےت کے حامل ہیں، اور جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، بےان کی صفائی اور برجستگی کی کیفےت بھی دونوں شعر میں برابر کی ہے۔البتہ ان صفات کے علاوہ داغ کے یہاں شعر کی خوبی کے جو مزید پہلو ہیں،اس سے ذوق کا شعر خالی ہے۔مثلاً داغ کے یہاں دل جلوں اور آگ لگانے میں تو مناسبت تھی ہی، لفظ ”داغ“ نے اس مناسبت کو آسمان پر پہنچا دےا۔یہاں داغ کا لفظ محض اس لےے کارآمد نہیں ہے کہ یہ شاعر کا تخلص ہے، کیونکہ اگر تخلص سے وہ بات پیدا ہوتی تو داغ کی جگہ ذوق رکھ دینے سے بھی وہی کیفےت شعر میں قائم رہنی چاہےے۔یعنی اس مصرع یوں کرکے دیکھیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو ذوق نام نہیں
معلوم ہوا کہ وہ کیفےت اب بڑی حد تک معدوم ہوگئی۔اس سے ظاہر ہوا کہ اس میں محض تخلص کا عمل دخل نہیں ہے، بلکہ کچھ اور معاملہ بھی ہے۔دراصل ”داغ“ کے کئی معنی ہیں، اور ان میں ایک مجازی معنی چراغ کے ہیں۔داغ ہی کا ایک مشہور مطلع ہے
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
خانہ¿ عشق بے چراغ ہوا
اس طرح ثابت ہوا کہ ذوق کے مقابلے میں داغ کے شعر میں زور بےان کے علاوہ جو مزید کیفےت پیدا ہوئی ہے، اس کا بنےادی سبب یہ ہے کہ لفظ داغ تخلص ہونے کے ساتھ معنی کے لحاظ سے ”دل جلوں“ اور” آگ لگا دوں“ کے فقروں سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کے آخر میں داغ کے چند ایسے اشعار نقل کیے جائیںجو معروف نہیں ہیں،لیکن جن کو سن کر داغ کی شعری حکمت عملی کے مزید پہلوو¿ں کا احساس و ایقان ضرور ہوگا۔
کی ترک مے تو مائل پندار ہو گےا
میں توبہ کرکے اور گنہگار ہو گےا
۔۔۔
انکار وصل منھ سے نہ نکلا کسی طرح
اپنے دہن سے تنگ وہ غنچہ دہن ہوا

کیا کیا ملائے خاک میں انسان چاند سے
سچ پوچھےے اگر تو زمیں آسماں ہے اب
۔۔۔
وہی تو ہے شعلہ¿ تجلی کہ دشت ایمن سے تنگ ہوکر
جب اس نے اپنی نمود چاہی کھلا حسینوں پہ رنگ ہوکر
۔۔۔
ملے تھے لب ہی اس لب سے کہ مارا تیغ ابرو نے
یہ ناکامی کہ مجھ کو موت آئی آب حیواں پر
۔۔۔
مرتبہ دیکھنے والے کا ترے ایسا ہے
کہ بٹھاتے ہیں جسے اہل نظر آنکھوں پر
۔۔۔
بےکس رہیں گے حشر میں کب مجرمان عشق
رحمت کہے گی ہم ہیں گنہگار کی طرف
چاہی تھی داد ہم نے دل صاف کی مگر
آئینہ ہو گےا ترے رخسار کی طرف
۔۔۔
دیکھیں تو پہلے کون مٹے اس کی راہ میں
بیٹھے ہیں شرط باندھ کے ہر نقش پا سے ہم
ایسے شعروں کے ہوتے ہوئے داغ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے سنجیدگی سے غور کرنا نہاےت ضروری ہے۔
۔۔۔۔

مشمولہ سہ ماہی ”اردو چینل“ جلد :19۔شمارہ :2 مدیر :ڈاکٹر قمر صدیق