Majrooh Sultanpuri ke Muntakhab Ashaar

Articles

مجروح سلطان پوری


مجروح سلطان پوری کے منتخب اشعار

مجروح سلطانپوری(مرحوم) نے پروفیسر مغنی تبسم صاحب (مدیر شعروحکمت) کے اصرار پر اپنے پچاس اشعار منتخب کئے تھے ۔جو کسی وجہ سے شعرو حکمت میں شائع نہیں ہو پائے۔ہم قارئین ِ اردوچینل کی خدمت وہ انتخاب پیش کررہے ہیں۔ ادارہ

1

جنونِ دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد وگیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے

2

ختم شورِ طوفاں تھا دور تھی سیاہی بھی
دم کے دم میں افسانہ تھی مری تباہی بھی

3

شمع بھی اجالا بھی میں ہی اپنی محفل کا
میں ہی اپنی منزل کا راہبر بھی راہی بھی

4

کہاں وہ شب کہ ترے گیسوﺅں کے سائے میں
خیا لِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے

5

بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے

6

کہیں ظلمتوں میں گھر کر ،ہے تلاشِ دستِ رہبر
کہیں جگمگا اٹھی ہیں مرے نقش ِ پا سے راہیں

7

کبھی جادئہ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں باہیں

8

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاﺅں کی زنجیر نہ دیکھ

9

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

10

یہ آگ اور نہیں ، دل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو، جل بجھیں گے پروانے

11

دستِ منعم مری محنت کا خریدار سہی
کوئی دن اور میں رسوا سرِ بازار سہی

12

اہل ِ تقدیر ! یہ ہے معجز ئہ دستِ عمل
جو خزف میں نے اٹھایا وہ گہر ہے کہ نہیں

13

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ، ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

14

سر پر ہوائے ظلم چلے ، سو جتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

15

سر خیِ مے کم تھی میں نے چھو لئے ساقی کے ہونٹ
سر جھکا ہے ، جو بھی اب اربابِ میخانہ کہیں

16

اے فصلِ جنوں ہم کو پئے شغلِ گریباں
پیوند ہی کافی ہے اگر جامہ گراں ہے

17

میں ہزار شکل بدل چکا، چمن ِ جہاں میں سن اے صبا
کہ جو پھول ہے ترے ہاتھ میں، یہ مرا ہی لختِ جگر نہ ہو

18

شبِ ظلم نرغہ  راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فرازِ دار سے دیکھ لوں کہیں کاروانِ سحر نہ ہو

19

سرشک ، رنگ نہ بخشے تو کیوں ہو بارِ مژہ
لہو حنا نہیں بنتا تو کیوں بدن میں رہے

20

بے تیشہ  نظر نہ چلو راہِ رفتگاں
ہر نقشِ پا بلند ہے دیوار کی طرح

21

سوئے مقتل کہ پئے سیرِ چمن جاتے ہیں
اہلِ دل جام بکف سر بہ کفن جاتے ہیں

22

جو ٹھہرتی تو ذرا چلتے صبا کے ہمراہ
یوں بھی ہم روز کہاں سوئے چمن جاتے ہیں

23

روک سکتا ہمیں زندانِ بلا کیا مجروح
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں

24

سیلِ رنگ آہی رہے گا ، مگر اے کشتِ چمن
ضربِ موسم توپڑی بندِ بہاراں تو کھلا

25

ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دیکھا دور سے لیکن
یہ نہ سمجھنا ہم کو ہوا ہے ،جان کا نقصاں تم سے زیادہ

26

اسیرِ بندِ زمانہ ہوں صاحبانِ چمن
مری طرف سے گلوں کو بہت دعا کہئے

27

یہی ہے جی میں کہ وہ رفتہ تغافل وناز
کہیں ملے تو وہی قصہ  وفا کہئے

28

رہے نہ آنکھ تو کیوں دیکھئے ستم کی طرف
کٹے زبان تو کیوں حرفِ نا سزا کہئے

29

ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیا ہ رات چلے

30

پھر آئی فصل کہ مانندِ برگِ آوارہ
ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے

31

بلا ہی بیٹھے جب اہلِ حرم تو اے مجروح
بغل میں ہم بھی لئے اک صنم کاہات چلے

32

مانا شبِ غم ، صبح کی محرم تو نہیں ہے
سورج سے ترا رنگِ حنا کم تونہیں ہے

33

چاہے وہ کسی کا ہو لہو دامنِ گل پر
صیاد یہ کل رات کی شبنم تو نہیں ہے

34

اب کا رگہِ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے

35

کرو مجروح تب دار و ر سن کے تذ کرے ہم سے
جب اس قامت کے سائے میں تمہیں جینے کا ڈھنگ آئے

36

اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہانہ جائے
جب تک کسی ثمر کو مر ا دل کہا نہ جائے

37

میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیرِ بام ودر
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے

38

برقِ تپیدہ بادِ صبا ، شعلہ اور ہم
ہیں کیسے کیسے اس کے گرفتار دیکھئے

39

ساز میں یہ شورشِ غم لائے مطرب کس طرح
اُس کی دھن پابندِ نے نغمہ ہمارا نے شکن

40

دیکھئے کب تک بلائے جاں رہے اک حرفِ شوق
دل حریصِ گفتگو اور چشمِ خوباں کم سخن

41

مصلوب ہوا کوئی سرِ راہ تمنا
آوازِ جرس پچھلے پہر تیز بہت ہے

42

میں ہم آغوشِ صنم تھا مگر اے پیرِ حرم
یہ شکن کیسے پڑی آپ کے پیراہن میں

43

مجھ سے کہا جبریلِ جنوں نے یہ بھی وحیِ الٰہی ہے
مذہب تو بس مذہبِ دل ہے باقی سب گمراہی ہے

44

سنگ تو کوئی بڑھ کے اٹھاﺅ شاخِ ثمر کچھ دور نہیں
جسکو بلندی سمجھے ہو ان ہاتھوں کی کوتاہی ہے

45

ہم ہیں کعبہ، ہم ہیں بتخانہ، ہمی ہیں کائنات
ہوسکے تو خود کو بھی اک بار سجد ا کیجئے

46

پاکبازی میں ہیں نورِ عارض لالہ رخاں
ہیں سیہ کاری میں کحلِ نرگسِ مستانہ ہم

47

شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا

48

ہٹ کے روئے یار سے تزیینِ عالم کر گئیں
وہ نگاہیں جن کو اب تک رائگاں سمجھا تھا میں

49

نظارہ ہائے دہر بہت خوب ہےں مگر
اپنا لہو بھی سرخیِ شام وسحر میں ہے

50

وہ بعدِ عرضِ مطلب ،ہائے رے شوقِ جواب اپنا
کہ خاموش تھے اور کتنی آوازیں سنیں میں نے
٭٭٭

بحوالہ : ”اردو چینل“ (مجروح سلطان پوری نمبر) جلد 4، شمارہ ستمبر 2001