Intekhab – e- Kalam Firaq Gorakhpuri

Articles

فراق گورکھپوری


انتخابِ کلام فراق گورکھپوری

1

زیر و بم سے سازِ خلقت کے جہاں بنتا گیا

یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا

داستانِ جور بے حد خوں سے لکھتا ہی رہا

قطرہ قطرہ اشکِ غم کا بے کراں بنتا گیا

عشقِ تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں

اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا

میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو

زیبِ عنوانِ حدیثِ دیگراں بنتا گیا

بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں

نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا

ہم کو ہے معلوم سب رودادِ علمِ و فلسفہ

ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا

میں کتاب دل میں اپنا حالِ غم لکھتا رہا

ہر ورق اک بابِ تاریخِ جہاں بنتا گیا

بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں

جو سکوتِ راز رنگیں داستاں بنتا گیا

میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں

وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا

وارداتِ دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے

ہر حسابِ غم حسابِ دوستاں بنتا گیا

میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں

جو بھی میں کہتا گیا حسنِ بیاں بنتا گیا

وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے

ایک تیرا غم کہ گنجِ شائگاں بنتا گیا

سر زمینِ ہند پر اقوامِ عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے، ہندوستاں بنتا گیا

2

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا

حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلوئوں کی

چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے

فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا

دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ

تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا

نثار نرگس میگوں کہ آج پیمانے

لبوں تک آئے ہوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا

وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی

جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا

چراغ طور جلے آئینہ در آئینہ

حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا

بقدرِ ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر

نگاہِ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا

کہیں چراغ، کہیں گل، کہیں دل برباد

خرامِ ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا

فسونِ غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا

ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں

چمن میں غُنچہ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا

ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا

سلوک اُچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا

نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے

دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا

پیام حسن، پیام جنوں، پیام فنا

تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

تمام حسن کے جلوے تمام محرومی

بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا

فراقؔ راہ و فا میں سُبک روی تیری

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

3

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے کافروں کی جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی

اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں

نگاہِ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

حیاتِ عشق کااک اک نفس جامِ شہادت ہے

وہ جانِ ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بہ عنوانِ دگر، وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

اب اس کو کفر مانیں یا بلندیِ نظر جانیں

خدائے دوجہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر نقصان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگند کھاتی ہے

تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں

رفیقِ زندگی تھی اب انیسِ وقتِ آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

زمانہ وارداتِ قلب سننے کو ترستا ہے

اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

4

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اِس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہِ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

شکوۂ جَور کرے کیا کوئی اُس شوخ سے جو

صاف قائل بھی نہیں صاف مکرتا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجش بیجا بھی نہیں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

آج غفلت بھی اُن آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا

آج ہی خاطِرِ بیمار شکیبا بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکونِ دل وحشی کا مقام

کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں

’’ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں‘‘

تونے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموش

آج محفل میں فراقِؔ سخن آرا بھی نہیں

5

نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں

ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں

شام بھی تھی دھواں دھواں حُسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں

مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری

مجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں

حسنِ نظر فریب میں کس کو کلام تھا مگر

تیری ادائیں آج تو دل میں سما کے رہ گئیں

تب کہیں کچھ پتہ چلا صدق و خلوص حُسن کا

جب وہ نگاہیں عشق سے باتیں بنا کے رہ گئیں

تیرے خرامِ ناز سے آج وہاں چمن کھِلے

فصلیں بہار کی جہاں خاک اُڑا کے رہ گئیں

پوچھ نہ اُن نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاں

فتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں

تاروں کی آنکھ بھی بھر آئی میری صدائے درد پر

اُن کی نگاہیں بھی ترا نام بتا کے رہ گئیں

اُف یہ زمیں کی گردشیں، آہ یہ غم کی ٹھوکریں

یہ بھی تو بختِ خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں

اور تو اہلِ درد کو، کون سنبھالتا، بھلا

ہاں، تیری شادمانیاں اُن کو رُلا کے رہ گئیں

یاد کچھ آئیں اس طرح بھولی ہوئی کہانیاں

کھوئے ہوئے دلوں میں آج درد اُٹھا کے رہ گئیں

سازِ نشاطِ زندگی آج لرز لرز اُٹھا

کس کی نگاہیں عشق کا درد سُنا کے رہ گئیں

تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی

تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں

جھوم کے پھر چلیں ہوائیں وجد میں آئیں پھر فضائیں

پھر تری یاد کی گھٹائیں سینوں پہ چھا کے رہ گئیں

قلب و نگاہ کی یہ عید ، اُف یہ مآلِ قرب و دید

چرخ کی گردشیں تجھے مجھ سے چھپا کے رہ گئیں

پھر ہیں وہی اُداسیاں پھر وہی سونی کائنات

اہلِ طرب کی محفلیں رنگ جما کے رہ گئیں

کون سکون دے سکا، غم زدگانِ عشق کو

بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں

6

شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہت زلفِ پریشاں داستانِ شام غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل و جد میں آتی رہے دکھتی رہے

یونہی اس کے جا و بیجا ناز کی باتیں کرو

جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی

اُس سکوتِ راز اس آواز کی باتیں کرو

عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا

آج اس کی نرگس غماّز کی باتیں کرو

نام بھی لینا ہے جس کا اک جہانِ رنگ و بو

دوستو! اس نو بہارِ ناز کی باتیں کرو

کس لئے عذرِ تغافل کس لئے الزامِ عشق

آج چرخِ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نو رسا

کچھ فضا کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

جو حیاتِ جاوداں ہے جو ہے مرگِ ناگہاں

آج کچھ اُس ناز اس انداز کی باتیں کرو

عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا

شوخیِ حسنِ کرشمہ ساز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ

آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو

7

رُکی رُکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی

وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی، نہ ساتھ

مسافروں سے کہو اُس کی رہ گزر آئی

فضا تبسّمِ صبحِ بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی

کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں

مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی

کسی کی بزمِ طرب میں حیات بٹتی تھی

امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

دلوں میں آج تیری یاد مدّتوں کے بعد

بہ چہرۂ متبسّم، بہ چشمِ تر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگِ ناگہاں کا پیام

ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی

فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے

تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اُتر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

تیرا ہی عکس سرشکِ غمِ زمانہ تھا

نگاہ میں تری تصویر سی اُتر آئی

عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول

کلی کلی کی صبا جاکے گود بھر آئی

شبِ فراقؔ اُٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تیری یاد رات بھر آئی

8

بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی

سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی

سازِ نوائے درد حجاباتِ دہر ہیں

کتنی دُکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی

رکھ لی جنھوں نے کشمکشِ زندگی کی لاج

بیدر دیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی

یوں فرطِ بیخودی سے محبت میں جان دے

تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی

ہے عشق اِس تبسّمِ جاں بخش کا شہید

رنگیناں لئے ہے جو صبحِ حیات کی

چھیڑا ہے دردِ عشق نے تارِ رگِ عدم

صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی

شامِ ابد کو جلوۂ صبحِ بہار دے

روداد چھیڑ زندگیِ بے ثبات کی

اس بزمِ بیخودی میں وجود و عدم کہاں

چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی

سو درد اک تبسّمِ پنہاں میں بند ہیں

تصویر ہوں فراقؔ نشاطِ حیات کی

9

رسم و راہِ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو

ٹوٹ جاتی ہے ہر اک زنجیر وحشت بھی تو ہو

زندگی کیا، موت کیا، دو کروٹیں ہیں عشق کی

سونے والے چونک اٹھیں گے قیامت بھی تو ہو

’’ہر چہ باداباد‘‘کے نعروںسے دنیا کانپ اٹھی

عشق کے اتنا کوئی برگشتہ قسمت بھی تو ہو

کار زارِ دہر میں ہر کیف ہر مستی بجا

کچھ شریک بیخودی رندانہ جرأت بھی تو ہو

کم نہیں اہلِ ہوس کی بھی خیال آرائیاں

یہ فناکی حد سے بھی بڑھ جائیں ہمت بھی تو ہو

کچھ اشاراتِ نہاں ہوں تو نگاہ ناز کے

بھانپ لیں گے ہم یہ محفل رشکِ خلوت بھی تو ہو

اب توکچھ اہل رضا بھی ہو چلے مایوس سے

ہر جفائے ناروا کی کچھ نہایت بھی تو ہو

ہرنفس سے آئے بوئے آتشِ سیالِ عشق

آگ وہ دل میں لہومیں وہ حرارت بھی تو ہو

یہ ترے جلوے یہ چشمِ شوق کی حیرانیاں

برقِ حسنِ یار نظارے کی فرصت بھی تو ہو

گردشِ دوراں میں اک دن آرہے گا ہوش بھی !

ختم اے چشم سیہ یہ دور غفلت بھی تو ہو

ہر دلِ افسردہ سے چنگاریاں اڑ جائیں گی

کچھ تری معصوم آنکھوںمیں شرارت بھی تو ہو

اب وہ اتنا بھی نہیں بیگانہ وجہ ملال

پرسش غم اس کو آتی ہے ضرورت بھی تو ہو

ایک سی ہیں اب تو حسن وعشق کی مجبوریاں

ہم ہوں یا تم ہو وہ عہدِ بافراغت بھی تو ہو

دیکھ کر رنگِ مزاج یار کیا کہیے فراقؔ

اس میں کچھ گنجائشِ شکر و شکایت بھی تو ہو

10

آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں

اُف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں

بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام

بہلائے تجھ سے چھُٹ کے طبیعت کہاں کہاں

فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے

تیرا اثر ہے اے غمِ فرقت کہاں کہاں

ہر جنبشِ نگاہ میں صد کیفِ بیخودی

بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں

راہِ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی

پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں

دل کے اُفق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری

لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں

اے نرگسِ سیاہ بتا دے ترے نثار

کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں؟

نیرنگِ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ

یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں

بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز

در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں

فرق آ گیا تھا دورِ حیات و ممات میں

آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں

جیسے فنا بقا میںبھی کوئی کمی سی ہو

مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں

دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی

تیرے لئے اُٹھائی ندامت کہاں کہاں!

اب امتیازِ عشق و ہوس بھی نہیں رہا

ہوتی ہے تیری چشمِ عنایت کہاں کہاں

ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی

اس راہ میں کھلے درِ رحمت کہاں کہاں

ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ

ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں