Intekhab E Kalam Fani Badauni

Articles

فانی بدایونی


انتخابِ کلام فانی بدایونی

 

1

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا

ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری

ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں

آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں

راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے

ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ

آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی

یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں

سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا

ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں

لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق

دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا

چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ

دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں

کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا

ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں

کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں

دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ

آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا


2

اے اجل اے جان فانیؔ تو نے یہ کیا کر دیا

مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا

جب ترا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے

وہ چھپایا راز دل ہم نے کہ افشا کر دیا

کس قدر بے زار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر

جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا

یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے

بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا

دردمندان ازل پر عشق کا احساں نہیں

درد یاں دل سے گیا کب تھا کہ پیدا کر دیا

دل کو پہلو سے نکل جانے کی پھر رٹ لگ گئی

پھر کسی نے آنکھوں آنکھوں میں تقاضا کر دیا

رنج پایا دل دیا سچ ہے مگر یہ تو کہو

کیا کسی نے دے کے پایا کس نے کیا پا کر دیا

بچ رہا تھا ایک آنسودار و گیر ضبط سے

جوشش غم نے پھر اس قطرے کو دریا کر دیا

فانیؔ مہجور تھا آج آرزو مند اجل

آپ نے آ کر پشیمان تمنا کر دیا


3

لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا

اب یہ بھی زندگی کا سہارا نہیں رہا

تم مجھ سے کیا پھرے کہ قیامت سی آ گئی

یہ کیا ہوا کہ کوئی کسی کا نہیں رہا

کیا کیا گلے نہ تھے کہ ادھر دیکھتے نہیں

دیکھا تو کوئی دیکھنے والا نہیں رہا

آہیں ہجوم یاس میں کچھ ایسی کھو گئیں

دل آشنائے درد ہی گویا نہیں رہا

اللہ رے چشم ہوش کی کثرت پرستیاں

ذرے ہی رہ گئے کوئی صحرا نہیں رہا

دے ان پہ جان جس کو غرض ہو کہ دل کے بعد

ان کی نگاہ کا وہ تقاضا نہیں رہا

تم دو گھڑی کو آئے نہ بیمار کے قریب

بیمار دو گھڑی کو بھی اچھا نہیں رہا

فانیؔ بس اب خدا کے لیے ذکر دل نہ چھیڑ

جانے بھی دے بلا سے رہا یا نہیں رہا


4

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے

خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام

نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے

اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں

ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے

اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ

ابھی ابھی مری میت اٹھائی جاتی ہے

مرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر

مرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے


5

ہر گھڑی انقلاب میں گزری

زندگی کس عذاب میں گزری

شوق تھا مانع تجلی دوست

ان کی شوخی حجاب میں گزری

کرم بے حساب چاہا تھا

ستم بے حساب میں گزری

ورنہ دشوار تھا سکون حیات

خیر سے اضطراب میں گزری

راز ہستی کی جستجو میں رہے

رات تعبیر خواب میں گزری

کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر

کچھ امید جواب میں گزری

کس خرابی سے زندگی فانیؔ

اس جہان خراب میں گزری