انور قمر ، بیسویں صدی کے سترویں اور اپنی عمر کے انتیسویں برس میں بطور افسانہ نگار ادبی دنیا سے متعارف ہوئے۔ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’نروان‘۱۹۷۰ء میں رسالہ ’تحریک‘ میں شائع ہواتھا۔ اس کے آٹھ برس بعدان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’چاندنی کے سپرد‘ ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۲۰۰۸ء تک مزید تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے، ’چوپال میں سنا ہوا قصہ‘ ۱۹۸۴ء میں ، ’کلر بلائنڈ‘ ۱۹۹۰ء میں اور ’جہاز پر کیا ہوا‘ ۲۰۰۸ء میں۔ان چار مجموعوں میں تقریباً ۶۰؍ افسانے شامل ہیں جن کا موضوعاتی تنوع افسانہ نگار کی قوت مشاہدہ کی پختگی اور ذہنی اپج کا ثبوت فراہم کرتاہے۔انور قمر کے افسانوں میں انسانی زندگی کے متنوع اور متعدد روپ عمر، جنس اور سماجی پس منظر کے اختلاف اور اس اختلاف سے وابستہ تقاضوں کو منعکس کرتے ہیں ۔ ان تقاضوں کے سبب ظاہر ہونے والے انسانی عمل اور رد عمل کی بوقلمونی ان کی افسانوی کائنات کی تزئین و آرائش کچھ اس طور سے کرتی ہے جس سے ان کی فنکارانہ مہارت و انفرادیت نمایاں ہوتی ہے۔ان کے فنی اختصاص کی دریافت کے لیے فکشن کی ان نزاکتوں اور باریکیوں سے کما حقہ واقفیت ضروری ہے جو کسی موضوع کی افسانوی تجسیم میں ناگزیر یت کی حامل ہوتی ہیں۔اس ضمن میں پہلا اور بنیادی مرحلہ موضوع کے انتخاب کا ہوتا ہے اور جیسا کہ افسانے کی تعریف میں بارہا یہ کہا گیا کہ افسانہ انسان کی حقیقی زندگی کا مظہر ہوتا ہے تو اس سیاق میں موضوع خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا تعلق بہرحال زندگی کے حقائق سے ہوگا۔ ان حقائق میں بعض کا تعلق سماجی، سیاسی، معاشی و تہذیبی عوامل سے ہوگا اور بعض انسان کے نہاں خانہ ٔ ذات کے ان اسرار و رموز سے وابستہ ہوں گے جو اکثر موقعوں پر بڑی غیر متوقع صورت میں ظاہر ہوتے ہیںاور اظہار کی اس کیفیت سے انسانی رویہ کا وہ انوکھا پن ظاہر ہوتا ہے جس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش افسانہ نگار اپنی استطاعت فہم و دانش کی بنا پر کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ اپنے عصر اور اپنے سماج کے رویہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور چونکہ بحیثیت انسان وہ خود بھی اسی عصر اور سماج سے وابستہ ہوتا ہے لہٰذا زندگی کے متعدد ان امور سے وہ تجرباتی سطح پر دو چار ہوتا ہے جو افسانے کی تخلیق کے لیے اسے موضوع فراہم کرتے ہیں ۔انور قمر کے افسانوں کے موضوعات بھی ان کے عہد و سماج اور خود ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک مضمون میں اپنے تخلیقی محرکات کو بیان کرتے ہوئے جن نکات کی نشاندہی کی ہے ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے عہد اور سماج کا بغور مشاہدہ کیا ہے اور اس مشاہداتی عمل نے انسانی جبلت، نفسیات اور جذبات کے جن متنوع رنگوں کو آشکارکیا ،ان کو اپنے افسانوی کینوس پر اتارنے کی کوشش سے ہی ان کی تخلیقی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔اپنے عہد اور سماج سے وابستگی کا یہ معاملہ تہذیب و معاشرت کے ان جملہ عناصر کا فنکارانہ جائزہ لینے سے عبارت ہے جو انسانی فکر وجذبہ کو ایک مخصوص زاویہ عطا کرتے ہیں۔انور قمر کے افسانوں میں انسانی فکر و جذبہ کا انعکاس تاریخ و تہذیب کے ان حوالوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے جو تہذیبی ارتقا کے سفر میں اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
انور قمر کے افسانوں میں نظر آنے والاانسان ان حالات کا پروردہ ہے جو نظام حیات میں ہونے والے تغیر کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے اور اس امتزاجی عمل کو ایک مخصوص فکری سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکامی اس کے ہاتھ لگتی ہے۔کامیابی اور ناکامی کا یہ مسلسل عمل زندگی کے تئیں اس کے اعتقاد اور رویہ کا نہج طے کرتا ہے اور پھر جو تصویر سامنے آتی ہے اس میں حقائق حیات کے مظاہر دلچسپ،حیرت انگیز،ہیبت ناک ،راحت بخش اور اضطراب آمیز صورتوں میں رونما ہوتے ہیں۔ان صورتوں کے اظہار سے انسانی رویہ حقیقت کے اس تصور کے دائرے میں محصور نہیں رہ سکتا جو ہمیشہ یکساں طرز کا حامل ہو۔انور قمر کا فنکارانہ شعور حقیقت کے اس روپ کو دریافت کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دریا کی روانی کا سا مزاج رکھتا ہے ۔ حقیقت کا یہ روپ جب افسانہ نگار کی تخلیقی گرفت میں آتا ہے تو اس کی تخلیق میں آباد دنیا کبھی بالکل جانی پہنچانی لگتی ہے اور کبھی اس قدر انجانی کہ جیسے اس کرہ ٔ ارض پر اس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔فن کی سطح پر افسانے کی کامیابی کا دارو مدار بھی ان دوصورتوں کے امتزاج پر ہوتا ہے اور دراصل یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں افسانہ نگار کی فنکارانہ صلاحیت اجاگر ہوتی ہے کچھ اس طور سے کہ اگر اس کی تخلیق میں یہ امتزاج فنی سلیقہ مندی کا حامل نہ ہوتو تخلیق کی پیشانی پر ’افسانہ‘ کا لیبل تو چسپاں کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا بقیہ وجود اس لیبل کے ساتھ انصاف نہ کر سکے گا۔انور قمر کے افسانوں میں اس فنی سلیقہ مندی کو بیشتر دیکھا جا سکتا ہے ۔ان کے افسانے کسی ایک واقعہ یا کیفیت کی ترجمانی کے لیے جو افسانوی منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں اس میں اس مخصوص واقعے یا کیفیت کے دوش بہ دوش کئی دیگر ایسے عناصر بھی نظر آتے ہیں جو بہ ظاہر اس واقعے یا کیفیت سے کوئی خاص ربط نہیں رکھتے لیکن مذکورہ واقعے یا کیفیت کی تاثر پذیری کا عمل ان عناصر کے بغیر اس حد تک ناقص رہ سکتا ہے جو کہ افسانے اور قاری کے ربط کو عارضی و تفریحی نوعیت کا بنا دے۔انور قمر نے اس فنی نکتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے افسانے لکھے ہیں لہٰذا ان افسانوں میں مرکزی موضوع کے ارد گر د کئی ایسے ضمنی کوائف بھی نظر آتے ہیں جو مرکزی موضوع کی معنویت کو نمایاں کرتے ہیں۔اس حوالے سے ان کے افسانوں قیدی، شہر خطا کا زہر اور اس کی خانم ، کلر بلائنڈ،ذبیحہ،خزاں زدہ اورروٹی رساں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ان افسانوں میں زندگی کی کسی ایک حقیقت کو پیش کرنے کے لیے ان دیگر حقیقتوں کو بھی اس کے متوازی بیان کیا گیا ہے جو افسانہ نگار کے مدعا کو انسانی جذبات و نفسیات اور معاشرتی حقائق کے تناظر میں واضح کرتے ہیں۔
انور قمر کا فنی اختصاص جن حوالوں سے ترتیب پاتا ہے ان میںایک نمایاں حوالہ سماج اور زندگی سے وابستہ حقائق کی ترجمانی کا وہ انداز ہے جو سماج اور زندگی کے ظاہری رنگ روپ میں پوشیدہ ان اسرار کو آشکار کرتا ہے جن سے عدم واقفیت سماج و زندگی دونوں کے لیے انتشار و اضطراب کا سبب ہوتی ہے۔اس موقع پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ اسرار سماج اور زندگی کے تشکیلی عمل میں کسی اضافی عنصر کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ سماج اور زندگی کی تشکیل کو ایک خاص انداز و مزاج عطا کرنے والے اسباب و محرکات سے ان کی وابستگی ناگزیر نوعیت کی ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر ہوتا یہ ہے کہ ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے قلب و نظر کو جن مراحل سے گزرنا لازمی ہوتا ہے عام انسان ان مراحل سے گزرنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتا ۔ اس مرحلے کو عبور کرنے کی اولین شرط یہ ہوتی ہے کہ اپنے عہد سے وابستہ ان عوامل کا معروضی جائزہ لیا جائے جو تہذیب و تمدن کے تاریخی تسلسل کو برقرار رکھنے کا کام انجام دیتے ہیں۔فنکار (افسانہ نگار) ا ن عوامل کو جب تخلیقی آنچ کی حرارت عطا کرتا ہے تو ہی ان کا وہ روپ منجلی ہوتا ہے جو سماج اور زندگی سے وابستہ حقائق کی پراسراریت سے عبارت ہے۔انور قمر کے افسانوں میں سماج اور زندگی کا یہی روپ دیکھنے کو ملتا ہے ۔انسانی ذہن زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کی سعی صدیوں سے کرتا رہا ہے اور اس کوشش میں جو مختلف تصورات و نظریات رائج ہوئے ان میں سے بعض تو کسی مخصوص مذہبی عقیدے کے بطن سے پیدا ہوئے اور بعض کومادی ترقی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔زندگی کی حقیقت سے وابستہ ان تصورات میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ انسان کی ارضی زندگی ایک سفر کی مانند ہے اور اس سفر کی راحتیں اور صعوبتیں اس کے نفس اور ظرف کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالتی ہیں۔ زندگی کے سفر میں شامل انسانی کارواں بسا اوقات اس سفر کے مقصد ہی کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اور ایسی صورت میں یہ سفر جاری تو رہتا ہے لیکن مسافر کو یہ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ اسے جانا کہاں ہے۔ انور قمر نے ’چوراہے پر ٹنگا آدمی ‘ میں زندگی کے اس سفر کو ایک بڑے صنعتی و تجارتی شہر کے سیاق میں پیش کیا ہے۔ اس افسانے کا مندرجہ ذیل اقتباس اس کیفیت کو پوری شدت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے:
’’ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟۔ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘ ان سبوں نے اس چوراہے پر لٹکے آدمی سے پوچھا۔
’’ تم ہی بتاؤ۔ تم سب کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے وہی سوال ان سے کردیا
’’ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔ہم کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘
وہ سب ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے
چوراہے پر ٹنگے آدمی نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔۔۔ــ’’ ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔ہا
جب تمہیں خود ہی نہیںمعلوم۔۔۔۔۔اور تم سبوں کو نہیں معلوم کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو، تو یہ سوال تم نے مجھ سے کیوں کیا؟ اپنے آپ ہی سے پہلے پوچھ لیتے۔!
اس افسانے میں چوراہے پر ٹنگا آدمی زندگی کا وہ استعارہ ہے جس کے ذریعہ افسانہ نگار زندگی کے سفر کی لاحاصلی کو ظاہر کرتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو انسان زندگی کے اس لاحاصل سفر میں شامل ہیں بہ ظاہر انھوں نے زندگی کے ان لوازمات کو حاصل کر لیا ہے جو سماجی سطح پر ان کے شخصی رتبہ کو فضیلت و امتیازکا حامل بناتے ہیں لیکن اس سفر کے کسی مرحلے پر جب خود زندگی ان سے اس سفر کا مقصد دریافت کرتی ہے تو ان کے پاس اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہوتا اور وہ خود ایک مجسم سوال بن جاتے ہیں۔انسان ، خواہ وہ کسی بھی عہد یا سماج سے وابستہ ہو ،زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سوال سے روبرو ضرور ہوتا ہے اور اس مرحلے پر اس کے افکار و خیال میں جو بیچینی پیدا ہوتی ہے وہ اسے ایک ڈھرے سے بندھی زندگی کے حصار کو توڑنے پر اکساتی ہے اور جب وہ اس کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کی ذاتی ، خانگی اور معاشرتی مجبوریاں اور مصلحتیں اس کے ارادوں کو پھر اسی حصار کا پابند بنا دیتی ہیںاور افکار و خیال کا یہ لاوا اس کی ذات کے آتش فشاں میں ہی سرد پڑ جاتا ہے ۔اس کے بعد زندگی پھر اسی ڈھرے پر چلنے لگتی جس میں کسی نئی راہ کے پیدا ہونے اور زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے کے کسی تسلی بخش امکان کے نمو پانے کی امید معدوم ہو جاتی ہے۔انور قمر کے جس افسانے کا اقتباس ابھی پیش کیا گیا ، اسی افسانے کے درج ذیل دو اقتباسا ت اس کیفیت کو پورے تاثر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ان اقتباسات میں جس کردار کے توسط سے اس کیفیت کو ظاہر کیا گیا ہے وہ چوراہے پر ٹنگا ہوا وہی آدمی ہے جسے زندگی کا استعارہ سمجھنا چاہیے:
(۱)’’ہا۔ ہا۔ ہا، اب میں کبھی صبح اخبار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی چائے نہیں پیوں گا۔ کبھی بوٹ پالش نہیں کروں گا۔ کبھی داڑھی نہیں بناؤں گا۔ کبھی ریڈیو نہیں سنو ںگا۔ کبھی کام پر نہیں جاؤںگا۔کبھی راہ چلتے اشتہار نہیں پڑھوں گا۔ کبھی کسی کو تھینک یو نہیں کہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ میں اپنی زندگی کے پہیے کو گھماتے گھماتے بور ہو گیا ہوں۔ بے زار ہو گیا ہوں۔ تھک گیا ہوں۔ وہ پہیّا جس محور پر گھوم رہا ہے وہ اپنی جگہ ہی پر قایم ہے۔ جب محور اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا تو پہیّا کیوں کر حرکت کرے گا۔ میں وہیں ہوں جہاں تھا۔ اور اگر محور اب بھی نہ بدلوں تو سالہاسال تک وہیں رہوں گا۔ اس لیے اب محور ہی کوئی اور ہوگا۔ نیا۔ انوکھا۔ اچھوتا۔!
(۲) دوسرے روز حسب معمول اس نے اپنے چائے کے پہلے پیالے کے ساتھ اخبار دیکھا اور یہ خبر پڑھ کر ششدر رہ گیا کہ کل فلورا فاؤنٹن کے چوراہے پر ایک شخص نے اپنے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر خود کشی کر لی ۔ جس کی لاش دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہو گیے تھے ۔ اور وہ لوگ اس وقت تک جمع تھے جب تک چوراہے پر ٹنگے اس شخص کی لاش نیچے نہیں اتار ی گئی۔
درج بالا دوسرا اقتباس افسانے کا اختتامی اقتباس ہے جو بہ ظاہر ایک توضیحی بیان ہے جس سے افسانے کے مرکزی کردار کی خودکشی کے بارے میں پتہ چلتا ہے لیکن اس توضیح میں استفسار کے متعدد ایسے پہلو روپوش ہیں جو زندگی کی حقیقت سے وابستہ ہیں۔ افسانے کے مرکزی کردار کی یہ خود کشی زندگی کے اس سفر کا اختتام ہے جس کی بیزارگی سے اکتایا ہوا انسان نئے انوکھے اور اچھوتے محور کو تلاش کرنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن دنیوی مسائل کے سبب اس کا یہ ارادہ تشنہ ٔ تکمیل رہ جاتا ہے اور انجام کار وہ پھر اسی ڈھرے پر لوٹ آتا ہے ۔ اس مراجعت کے بعد اگر چہ وہ ظاہری طور پر زندہ رہتا ہے لیکن زندگی کی حقیقت کو دریافت کرنے والے نئے محور کی تلاس کے ارادے کی عدم تکمیل اس کے باطنی وجود کو فنا کر دیتی ہے۔اس حادثہ کا نظارہ کرنے والا ہجوم بھی زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں ایسے ہی حادثے سے دوچار ہوگا اور بالآخر زندگی کی حقیقت کو جاننے کی یہ سعی ایک مستقل سوال کے طور پر باقی رہے گی ۔انور قمر کے افسانوں میں یہ سوال ان تمام امکانی صورتوں کے ساتھ رونما ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت کا سراغ پانے کی کد و کاوش سے عبارت ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں جن موضوعات کو برتا ہے وہ انسان کی زندگی کے تہذیبی و سماجی اور بعض دفعہ سیاسی حوالوں کے کسی نہ کسی زاویے سے اس سوال پر غور کرنے کی تحریک عطا کرتے ہیں۔موضوع کی افسانوی تجسیم کے دوران ان کا تخلیقی شعور مسلسل اس سوال سے الجھتا نظر آتا ہے اور اس کیفیت سے دو چار ہوتے رہنے کے دوران جب وہ اپنے گرد و اطراف پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں حیات و کائنات کی جو تصویر نظر آتی ہے اسے فنی مہارت کے ساتھ وہ الفاظ کا پیرہن عطا کر افسانے کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں۔اس عمل کی تکمیل میں تخلیقیت کا وہ عنصر لازمی طور پر شامل ہوتا ہے جو افسانے کو حسیاتی و جذباتی سطح پر متنفس بنائے رکھتا ہے۔
انور قمر اپنے افسانوں میں مرکزی موضوع کی ترسیل کے لیے جو فضا بندی کرتے ہیں اس میں استفہامی رنگ گرچہ بہت کم پایا جاتا ہے لیکن اگر افسانے میں بیان کردہ مختلف واقعات اور ان واقعات سے پیدا ہونے والے تاثرات کو مرکزی موضوع کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر تاثر ایک سوال کی صورت ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب و محرکات کی جانب ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔ موضوع کی ترسیل کا یہ ہنر انسانی نفسیات و جذبات کی نیرنگیوں پر فنکارانہ مہارت کے بعد آتا ہے اور اس معاملے میں ان کے اکثر افسانوں کو معیاری تخلیق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ان کا ایک بہت مشہور افسانہ ہے ’ جہاز پر کیا ہوا‘ جو فساد زدہ انسانوں کا وہ مرثیہ ہے جس میں ’رن پڑنے‘ کا بیان اگرچہ نہ ہوا ہو لیکن انسانی زندگی پر فساد کے ہیبت ناک اور خونیں اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے جس صورتحال کو پیش منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے وہ افسردگی، اضطراب،اضمحلال،رنج اور غم ناکی سے مملو ہے۔یہ افسانہ سیاست اور مذہب کے اس سفاکانہ ارتباط پر ایک بھرپور طنز ہے جو اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کو بھی ان بے حیثیت کیڑے مکوڑوں کی مانند سمجھتا ہے جنھیں بڑی آسانی سے پیروں تلے کچلا جا سکتا ہے۔سیاست اور مذہب کا یہ ارتباط اس عصر کی ایسی کریہہ حقیقت بن چکا ہے جس کے سبب اقدار حیات کا تصور بڑی حد تک دھندلا پڑ چکا ہے۔افسانہ صرف ان انسانوں کی غم ناک روداد بیان نہیں کرتا جو تجرباتی سطح پر فساد کی زد میں آئے بلکہ ان انسانوں کی خلش آمیز کیفیت بھی ظاہر کرتا ہے جو بہ ظاہر فساد سے تو محفوظ رہے لیکن سسٹم کے تقاضوں کی تکمیل ان کے اور فساد زدہ انسانوں کے درمیان مذہبی یکسانیت کی بنا پر ایسا ربط پیدا کر دیتی ہے جو ان کی فرض شناسی اور ایمانداری کو مشکوک بنا دیتی ہے۔اس افسانے کا کردار سینئر کپتان عرش الرحمن انہی انسانوں کا نمائند ہ ہے جو اپنی ڈیوٹی جہاز رانی شعبہ کے قوانین و احکامات کے مطابق کرتا ہے لیکن جہاز پر موجود فساد زدگان سے اس کی مذہبی یکسانیت اس کے عمل کی شفافیت کو متاثر کرتی نظر آتی ہے ۔ حالانکہ افسانوی کرافٹ کے اس مرحلے پر افسانہ نگار نے جہاز کے مالک کے فیکس کو عر ش الرحمن کے حق بہ جانب ہونے کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے تاہم اس کا اپنے ساتھی بمل دت سے یہ کہنا ’’ یہ دنیا والے کبھی کسی کو اپنے غیر جانب دار ہونے کا موقع نہیں دیتے ۔ گوکہ اس کنٹینر میں آئے ہوئے تمام لوگ میرے بہن بھائی ہیں ، مگر میں ان کے ساتھ کیوں کر امتیازی سلوک کر سکتا تھا؟ اچھا ہوا جو یہ حکم آگیا۔‘‘اس کیفیت کا اظہار ہے جو سسٹم کی پیچیدگیوں میں جکڑی ہوئی زندگی کے کرب سے عبارت ہے۔جس حکم کو وہ اپنی عافیت کا سامان سمجھتا ہے دراصل وہی اس کی شخصیت پر ایسا مستقل سوال ہے جو زندگی کے مختلف مراحل پر اس کے لیے مشکلات و مسائل پیدا کر سکتا ہے۔عرش الرحمن کا مندرجہ بالا بیان افسانے کی وہ کلید ہے جو موضوع کے وسیع تر آفاقی تناظر میں مذہب و سیاست کے سفاکانہ کھیل کو نمایاں کرتی ہے۔اقتدار پرست عناصر کا یہ کھیل عام انسانوں کے لیے کس درجہ اذیت ناک ہوتا ہے ، اسے ’کابلی والا کی واپسی‘میں درد مندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس افسانے میں انور قمر نے ’کابلی والا‘ کے توسط سے برصغیر کے اس سیاسی بحران کو پیش کیا جسے نام نہاد امن پسند بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادکے لیے استعمال کرتی ہیں۔یہ سیاسی بحران ایک عام انسان کی آرزووں اور خواہشوں کو کچھ اس طور سے پامال کرتا ہے کہ اسے اپنا گھر، اپنے لوگ، اپنی زمین اور اپنا وطن سب کچھ پرایا لگنے لگتا ہے اور پھر ایک مسلسل دربدری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔انور قمر نے انسانی جذبات پر حالات کے جبر کی اثر پذیری کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس میں دردمندی، ہمدردی اور دائمی احساس محرومی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
انور قمر نے اپنے افسانوں میں بیان کردہ واقعات کے سیاق میں انسانی جذبات کے زیر و بم کو بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔یہ واقعا ت جن انسانوں پر یا جن کے توسط سے رونما ہوتے ہیں ان کے جذبات کی عکاسی کے لیے واقعہ کی ترتیب میں ان عناصر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو افسانوی کرداروں کے جذبات پر واقعے کی اثر پذیری کی نوعیت کو ظاہر کر سکیں۔افسانے میں بیان کی گئی صورتحال کے خارجی مظاہر سے ان عناصر کو اس طور سے منتخب کرنا جو کردار کی نفسیاتی و جذباتی کیفیت کو متشرح کرے ،افسانہ نگار کی تخلیقی صلاحیت کو واضح کرتا ہے۔اس حوالے سے ان کے افسانوں کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی واقعہ میں کارفرما خارجی مظاہر کو کردار کی داخلی کیفیت کے ساتھ ایسا معنوی ربط عطا کرتے ہیں جو واقعے کی تاثر پذیری کو پوری قوت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ان کے بعض افسانوں میں یہ خارجی مظاہر اگر چہ عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن کردار کی تشکیل کے نفسیاتی و جذباتی مراحل پر ان کے دیر پا اثرات کو بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔افسانہ ’خزاں زدہ‘ میں ان خارجی مظاہر کے ذریعہ مسز ایمانویل کے ماضی اور حال کی جو روداد بیان کی گئی ہے اس میں آسودگی و خوشحالی اور تنہائی و بے چارگی کا تاثر شدت کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔یہ افسانہ فرقہ وارانہ فساد کے پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن افسانہ نگار نے فساد کی منظر کشی کے بجائے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال کو پیش کیا ہے جو انسانی زندگی کو خو ف اور محرومی کے دائمی احساس میں مبتلا کر دیتی ہے اور پھر اس کا وجود خارجی اور باطنی سطح پر غیر مندمل ہونے والے زخم کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ انور قمر کا یہ افسانہ پہلی بار ۲۰۰۷ء میں کراچی سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالے روشنائی کے افسانہ صدی نمبر حصہ سوم میں شائع ہوا تھا۔ اس میں بیان کنندہ غائب متکلم کے طور پر مسز ایمانویل کا جو احوال بیان کرتا ہے وہ فساد کی زد میں آنے پر مسز ایمانویل کو ملنے والی جسمانی اذیت کی درد ناک روداد ہے ۔اس کے بعد انور قمر نے جب اس افسانے کو اپنے چوتھے افسانوی مجموعے ’جہاز پر کیا ہوا‘ میں شامل کیا تواس روداد میں اس حصہ کا اضافہ کیا جو مسز ایمانویل کی جسمانی اذیت کے سبب ان کی ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے اس خلا سے عبارت ہے جو ان کی شخصیت کو روحانی طور پر دائمی کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔انور قمر کا یہ تخلیقی طریقہ ٔ کار ظاہر کرتا ہے کہ وہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کے ہمہ گیر اثرات کی ان تما م امکانی صورتوں تک رسائی حاصل کرنے کی فنکارانہ سعی کرتے ہیں جو کردار کی سماجی و ذاتی زندگی کو وسیع پیمانے پر متاثر کرتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہ تخلیقی طریقہ کار ان کی فنی ریاضت کا مظہر بھی ہے۔
انور قمر کا افسانوی اسلوب ان کی منفرد فنی صلاحیت کو نمایاں کرتا ہے۔ انھوں نے جس زمانے میں افسانہ لکھنا شروع کیا اس دور میں افسانوی اسلوب کے متعلق نظری مباحث اردوافسانہ نگاری میں ایک فیشن کے طور پر رائج تھے۔ان مباحث میں ان اسلوبیاتی تجربات کی افادیت و معنویت پر گفت و شنید کا سلسلہ سا چل نکلا تھا جو طرز اظہار کو پیچیدہ یا مبہم اور سادہ یا عام فہم بناتے ہیں۔اس ضمن میں افسانے میں علامت و تمثیل نگار ی اور تجریدیت کے فنی سروکار مختلف حوالوں سے زیر بحث رہے۔اسی زمانے میں جدید اور جدید تر افسانے کی وہ بحث بھی چل نکلی تھی جسے سکہ بند قسم کی ترقی پسندی سے بیزاری کے طور پر دیکھا گیا اور ایک مخصوص نظریہ ٔحیات کی تائید و تشہیر کی غرض سے افسانہ لکھنے کو غیر ادبی تخلیقی عمل کے مترادف قرار دیا گیا۔ افسانے میں اسلوب کی سطح پر ہونے والے مختلف قسم کے تجربات کے باوصف یہ دعویٰ مشکل ہی س کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی دور کی افسانہ نگاری کا دامن انسانی زندگی اور اس کے لوازمات سے تہی رہا ہو۔یہ ضرور ہے کہ زندگی اور اس کے لوازم کی پیشکش کا انداز ہر دور میں یکساں نہیں رہا اورافسانہ نگاری کے فنی ارتقا میں ان مختلف النوع قسم کے تجربات کو یکسر غیر اہم بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔انور قمر کے افسانوی اسلوب پر معاصر تخلیقی رجحانات کے اثرات جابجا نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے بعض افسانوں میں رمزیت اور اشاریت کو افسانوی فضا بندی کے لیے استعمال کیا ہے اور بعض موقعوں پر علامتی اسلوب سے بھی استفادہ کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں لسانی قلابازیاں دکھانے سے اجتناب کیا ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بہ ظاہر سیدھا و سپاٹ نظر آنے والا ان کا افسانوی اسلوب متن کی اس تہہ داری سے عاری ہے جس کی بنا پر افسانوی تخلیق کو فنی امتیاز حاصل ہوتا ہے۔اس ضمن میںان کے موقف کو ان ہی کے ایک افسانے ’کیلاش پربت‘ کے مرکزی کردار کیلاش چند کے اس بیان سے سمجھا جا سکتا ہے۔
’’میں اپنے کوٹ کی آستین میں سے خرگوش نکال کر دکھانے کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی مافوق الفطرت باتیں کرنے کا مجھے خبط ہے۔‘‘
انھوں نے اپنے افسانوی اسلوب میں سحر خیزی کی وہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جو متن کی ظاہری ساخت کے طلسم سے قاری کو مبہوت کر دینے کو ہی افسانے کا مقصود سمجھے اور نہ ہی انھوں نے لسانی سطح پر ایسے بے ہنگم تجربات کیے جو افسانوی موضوع کے ترسیلی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے افسانوی اسلوب کی تزئین کاری میںبعض اوقات تاریخ و اسطور سے استفادہ بھی کیا ہے لیکن استفادے کے اس عمل میں بھی سماج اور زندگی کے عصری حقائق کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی اور انسان کی حقیقت کودریافت کرنے کا تخلیقی عمل شعوری فنی کاوش کے طور پر نظر آتا ہے اور یہ ان کے فنی اختصاص کاایک اہم حوالہ ہے جس کی بنا پر انھیں اردو کے افسانہ نگاروں میںنمایاں مقام حاصل ہوا۔
Anwar Qamar ka Fanni Ikhtesaas by Dr. Jamal Rizvi
Articles
انور قمر کا فنی اختصاص
ڈاکٹر جمال رضوی
Salam Bin Razzaq ke Afsano mein Wajoodi Asraat
Articles
سلام بن رزاق کے افسانوں میں وجودی اثرات
میر عابد

اردو ادب میں جدیدیت کا میلان دوسرے میلانات کی طرح مغرب کے زیرِ اثر وجودمیں آیا اور وسیع معنویت کے ساتھ اردو افسانے میں پھیلنے لگا۔ جدیدیت ایک ایسا تخلیقی رویہ ہے جو روایتی انداز کو ردّ کرتا ہے اور ماضی کے مقابلے میں حال کے تقاضوں کو پورا کرنے اور عصری مسائل کو پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ وحید اختر کے حسبِ ذیل اقتباس سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے:
’’اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنے اور اسے تمام امکانات و خطرات کے ساتھ برتنے کا نام جدیدیت ہے۔ ہر عہد میں جدیدیت ہم عصرزندگی کو سمجھنے اور برتنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت ایک مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ‘‘( ’جدیدیت اور ادب ‘۔ وحید اختر ص: ۳۹)
جدیدیت کی ایک فلسفیانہ اساس وجودیت کا فلسفہ ہے جس میں فرد کی ذات کو مرکزیت Centralityحاصل ہے۔ اس فلسفہ کی رو سے فرد کو اپنے وجود معاشرے اور کائنات میں سب سے پہلے اپنے وجود سے متصادم ہونا پڑتا ہے اور وجود کی آگہی کا کرب جھیلنا پڑتا ہے۔ نیز ساری کائنات میں فرد تنہا و بے یار و مددگار ہے اور اس کا کوئی سہارا نہیں۔ وجودی فکر نے بیسویں صدی میں گہری تقویت اور مقبولیت حاصل کی۔ دو عالم گیر جنگوں کی تباہیوں کے نتیجے میں انسان خوف و ہراز کا شکارہوگیا۔ اس کے علاوہ سائنسی ایجادات اور مادی ترقی نے انسانی وجود کی معنویت اور عظمت مشکوک کردی۔ غرض فرد اجتماعی تصورات سے لاتعلق ہوکر اپنی ذات کے خول میں سمٹ گیا۔
جدیدیت اور فلسفہ وجودیت کے تناظر میں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ فلسفہ وجودیت کی ہمہ گیری اور وسعت کے باوجود یہ باور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جدیدیت سے وابسطہ تمام ادبا اور شعرا وجودیت کو فکری طور پر یا اسے نصب العین بناکر ادب کی تخلیق میں سرگرم ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ فلسفہ وجودیت کے عناصر بتدریج شعوری یا غیر شعوری طور پر پھیلے ہیں اور ہمارا افسانوی سرمایہ اس کے حصار میں محصور ہوتا گیا ہے۔ جدید ناقدین ادب نے بارہا اس امر کا اظہار کیا کہ نئے افسانے میں وجودی اثرات بیش از بیش ملتے ہیں۔ ان ناقدین ادب نے اس بات کا بھی احساس دلایا کہ اکثر افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جنھیں اس طرزِ فکر کی باقاعدہ خبر نہیں یا انھوں نے اس فلسفے کا براہ راست مطالعہ نہیںکیا یا اس فلسفے کے فکری محور سے ان کا تعارف نہیں لیکن پھر بھی بہر نوع ان کی تخلیقات میں وجودی اثرات کی بازگشت واضح اور عیاں ہے۔ ڈاکٹر وحید اختر نے اپنی کتاب ’’فلسفہ اور ادبی تنقید‘‘ میں ان امور کی صراحت حسبِ ذیل میں کی ہے:
’’ ہمارے ادب پر وجودیت کے فلسفہ کا براہ راست اثر کم ہے لیکن ہماری فکر میں وہ عناصر جو وجودیت کی تشکیل کرتے ہیں بالواسطہ اور غیر شعوری طور پرخود بخود شامل ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ وجودیت حقیقی معنوں میں آج کا فلسفہ ہے۔ ہائن مان Heinmannکا خیال ہے کہ وجودیت اب مستقبل نظامِ فلسفہ کی حیثیت سے قابلِ قبول نہیں رہی لیکن اس میں آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے جو بنیادی صداقتیں ملتی ہیں وہ اس فلسفے کی مقبولیت کی آج بھی ضامن ہیں۔ ‘‘ (ص:۱۷۳، ۱۷۴)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہمارے اردو ادب میں خصوصاً افسانوی ادب میںایسے عناصر بیش از بیش ملتے ہیں جو فلسفہ وجودیت کی تعمیر اور تشکیل میں معاون ہوتے ہیں۔یہ عناصر جدید حالات کی تفہیم میں معاون ہیں۔ اس کے اندر بنیادی صداقتیں پوشیدہ ہیں۔ یہ ہمارے تجربے کی کسوٹی پر کھرے اتر چکے ہیں اور موجودہ صورتِ حال کے عین مطابق ہیں۔ اس امر کی صراحت آج کے افسانہ نگاروں کی نگارشات سے واضح ہوتی ہے۔ یہاں سلام بن رزاق کے نمائندہ افسانوں کا جائزہ لیاجاتا ہے تاکہ اس امر کی وضاحت ہوسکے کہ کس حد تک وجودی اثرات کی بازگشت ان کے افسانوں میں موجود ہے۔
نئے افسانہ نگاروں کی نسل میں سلام بن رزاق سب سے زیدہ خلاق افسانہ نگار ہیں۔ جدیدیت کے زیرِ اثر ان کی تربیت ہوئی لیکن انھوں نے سریندر پرکاش، بلراج مین را، خالدہ حسین اور انور سجاد کی روایت سے خود کو الگ کرتے ہوئے تجرید، استعارات اور علامات کے ساتھ روایتی بیانیہ کی شمولیت کی ضرورت محسوس کی اور تکنیکی سطح پر میانہ روی کا ثبوت دیتے ہوئے افسانے لکھے۔انھوں نے زیادہ نہیں لکھا لیکن احتیاط کے ساتھ موضوع اور فن کا لحاظ رکھتے ہوئے لکھا۔ ۱۹۶۴ء سے افسانہ نگاری کا جو سفر شروع ہوا وہ اب چار جلدوں میں موجود ہے۔ ننگی دوپہر کا سپاہی، معبر، شکستہ بتوں کے درمیان اور زندگی افسانہ نہیں جیسے افسانوی مجموعوں کے حوالے سے سلام بن رزاق کی افسانہ نگاری کے ارتقائی سفر کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سلام بن رزاق کے یہاں بیانیہ انداز پایا جاتا ہے اور وہ بے جا آرائش و زیبائش سے گریز کرتے ہیں۔ معاشرہ اور اخلاقی اقدار کی زوال پذیری، مذہبی ایقانات کی بے اثری اور فرد کے استحصال کے پس پردہ جو سماجی اور سیاسی محرکات کارفرما ہوتے ہیں انھیں وہ علامتوں کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام کیفیات کو اپنا ذاتی تجربہ بناکر وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کو خود اپنی وارداتِ قلبی معلوم ہوتی ہے۔ وجودی فن کاروں کی طرح ان کی تقریباً تمام کہانیوں میں ایک خاص قسم کا ڈر، خوف، یاسیت اور محرومی مختلف پیرائے میں نظر آتی ہے۔ باطن میں غوطہ زنی کرکے اس کی گہرائیوں تک پہنچ کر ذات کی تلاش کا عمل ان کے یہاں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں وجودی افسانہ نگاروں کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے ان کے افسانے ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ کو موضوع بنایا جاتا ہے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کس حد تک سلام بن رزاق کے مذکورہ بالا افسانے میں وجودی اثرات کی بازگشت ملتی ہے۔ ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ میں افسانہ نگار نے جدید انسان کے مسائل اور زندگی کی پیچیدگیوں کو موضوع بنایا ہے۔ ماحول کا انتشار، وجودکی آگہی کا کرب، سفر بے سمت، بے مقصدیت ، رشتوں کی مہملیت، قدروں کی شکست و ریخت، خوف و اندیشہ، تنہائی اور اجنبیت اور نہ جانے کتنے ہی ایسے احساسات اس کہانی میں فنی چابکدستی سے برتے گئے ہیں۔ ایک دو اقتباس ملاحظہ ہوں تاکہ یہ احساس ہوسکے کہ سلام بن رزاق انسانی احوال کو پیش کرتے ہوئے وجودی فکر سے کتنے قریب آگئے ہیں:
’’ نہ تم جانتے ہو کہ تم کہاں جارہے ہو ، نہ میں جانتا ہوں کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہم سب کہاں چلے تھے، کہاں جارہے ہیں ، جب سفر ہی زندگی کی شرط ٹھہری تو پھر سفر اکیلے بھی جاری رکھا جاسکتا ہے۔ بھیڑ کا احسان کیوں لوں۔‘‘ (ننگی دوپہر کا سپاہی، مطبوعہ شب خون، مارچ ؍ اپریل ۱۹۷۷ء جلد ۵ ، شمارہ ۱۰۳، ص: ۴)
زندگی ایک طویل سفر کا نام ہے۔ اس سفر کی ابتدا کی نہ خبر ہے اور نہ ہی انتہا معلوم۔ صرف چلے جانا ہے کہاں، کس طرف ، کدھر، کیوں۔ یہ سب سوالات بے معنی ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سفر کا رُخ کیا ہے۔ اس سفر کی منزل کہاں ہے گویا زندگی انسان کا مسئلہ ہے اور وہ اس مسئلے میں کسی کا شریک نہیں۔ وہ اکیلا ہے ، اکیلا ہی اس سفر کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو:
’’سب دھوکا ، سب فریب ، عزیز، رشتہ دار ، جائداد ، خاندان ، عزت یہاں تک کہ کتابیں بھی اور زندگی بھی؟ نہیں۔ زندگی ایک سوال کی شکل میں اس کے آگے چل رہی تھی اور وہ دیوانہ اس کے پیچھے لپکا جارہا تھا۔(ایضاً)
ظاہر ہے یہ وجودی احساس ہی تو ہے۔ کیوں کہ دوست، احباب ، عزیز و اقارب ، خاندان ، جائداد سب دھوکا اور فریب قرار دینا اقدار کی شکست و ریخت کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ رشتے کی مہملیت اور بے اعتباری کی کیفیت بھی اس سے آشکارہ ہے۔ بکھرائو و شکستگی کی اس فضا میں ایک ہی شئے ایسی ہے جس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے زندگی ۔ زندگی کے خطرات و مسائل کے درمیان گھر کرنا بھی معنی خیز ہے یہی ایک مستند چیز ہے جس کے پیچھے دیوانہ وار لپکا جاسکتا ہے۔
وجود کی تلاش کا عمل ، تنہائی اور زندگی کی لایعنیت Absurdityکے احساسات جدید دور کی دین ہیں۔ اور ہمارا جدید افسانوی سرمایہ ان ہی موضوعات کے ارد گرد گردش کرتا نظر آتا ہے۔ سلام بن رزاق کے کرداروں کی غالب اکثریت اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ نیز ان کے کردار وجود کی تہوں سے گزر کر وجود ہی کے توسط سے زندگی کے اسرار و رموز کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایسی ہی کہانیوں میں ’البم ‘ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ کہانی بیانیہ نثر کی عمدہ شاہ کار ہے لیکن اس کے پسِ پردہ راوی کے وجود کی کئی پرتیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ کہانی کا ڈھانچہ اس طرح ہے کہ راوی ’البم‘ میں اپنی تصویر چسپاں کرنے کی کوشش کرتا ہے اچانک تصویر میں کئی دوسرے چہرے اسے ماضی کی گم گشتہ یادوں میں گم کرتے ہیں۔ یہ چہرے اس کے عزیزوں ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہیں۔ ان چہروں میں بوڑھی ماں کا چہرہ خستہ ہے اور بڑھاپا ان کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔ ماں کے چہرے کے ساتھ ایک اور چہرہ جڑا ہوا ہے جو بہت ہی اداس اور مضمحل ہے۔ یہ ان کے والد مرحوم کا چہرہ ہے۔ اس کے بعد تصویر میں اس کی بیوی کا چہرہ ہے جب وہ اس کے گھر میں دلہن بن کر آئی تھی۔ غرض ماں ، باپ ، بیوی ، بھائی، عزیز و رشتہ دار کئی پرچھائیاں اس کے ارد گرد منڈلا رہی ہیں۔ وہ ایک آئینہ کی مانند ہے جس میں دوسروں کے عکس گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ یہاں راوی ایک شدید وجودی بحران سے دوچار ہوتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں جو کچھ ہوں دوسروں کے طفیل ہوں، میں خود کہیں نہیں ہوں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پرچھائیوں کے اس ہجوم میں اپنی ذات کی تلاش کی انتھک کوشش نے مجھے چور چور کردیا۔ میں ایک سعادت مند بیٹا ہوں۔ ایک باوفا شوہر ہوں، شفیق باپ ہوں۔ دوست ہوں یعنی جو کچھ بھی ہوں دوسروں کے طفیل ہوں۔ میں خود کہیں کچھ نہیں ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میری ہستی ایک کتاب ہے جس کا میں صرف عنوان ہوں۔ ورق ورق کھنگال ڈالتا ہوں اندر عنوان سے متعلق ایک حرف نہیں ملتا۔ ‘‘ (افسانہ ’البم‘ مشمولہ ’ شکستہ بتوں کے درمیان)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت مترشح ہوجاتی ہے کہ کہانی میں راوی اپنے وجود کی موجود گی کو درج کرانے کے لیے بے چین ہے۔ غرض افسانہ نگار نے افسانے میں یہ تاثر دلانا چاہا کہ عصرِ حاضر کا فرد بے چہرہ ہے اور یہی بے چہرگی موجودہ دور کے فرد کا مقدر بن گئی ہے۔
سلام بن رزاق کی افسانہ نگاری کی جڑیں تمام تر زمین میں پیوست ہیں۔ بے چہرگی ، احساس تنہائی، اپنے وجود کی بازیافت، بے سمتی جو جدید افسانے کے کلیشے بن گئے۔ سلام بن رزاق کے مشاہدے اور نظر کی تیزی جہانِ دیگر کے پردوں کے پار وہ سب دیکھ لیتی ہے جن کے اسرار ذات دوسرے شناور افسانہ نگاروں پر نہیں کھلتے۔ اس حوالے سے سلام بن رزاق کا افسانہ ’شکستہ بتوں کے درمیان‘ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ افسانہ انسانی وجود اور درد مندی کے جذبے سے تیار کیا گیا ہے۔ مائیکل کی یتیم خانے کے چرچ میں ولادت ہوتی ہے اور پرورش بھی وہیں ہوتی ہے۔ لیکن یتیم خانے کی باہر کی دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات ان مٹ نقش کی طرح گھر کر جاتی ہے۔ میرا کوئی نہیں میں کسی کا نہیں ۔۔۔۔میں خدا کی مانند تنہا ہوں۔ اس کے ہاتھوں سے ریت سے بچے کا مجسمہ بن جانا اور پھر ماں کے سینے سے دودھ پیتے ہوئے مجسمہ بنانا اس کی انتہائی محبت کی محرومی کا وجودی اشارہ ہے۔ اسے کسی کی سرپرستی اور شفقت نہیں ملتی جس کا وہ متلاشی۔ اسے اس بھری دنیا سے سروکار نہیں۔ اسی لیے وہ شکستہ بتوں کے درمیان رہ کر زندگی کو آخری دہانے پر پہنچا کر خود اپنی ذات کے ساتھ ان بتوں کی مانند شکستہ ہوجاتا ہے۔
سلام بن رزاق جیساکہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ان کے ہاں انسانی وجود اور شخصیت کی صلابت پر زور ہے۔ جب آدمی اس سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھٹکنا پڑتا ہے۔ ایک دوست اور مصلح کی طرح سلام بن رزاق اس کے وجود کی آواز بن کر ابھرتے ہیں۔ اس کی مثال کے لیے ان کا افسانہ ’’دوسرا قتل‘‘ اہم ہیں۔ دوسرا قتل میں عصرِ حاضر میں روحانیت، مذہبی عقائد اور اخلاقی رویوں کا قتل یا زوال دکھایا گیا ہے۔ غرض یہاں مادہ پرستی کا عروج ہے اور مادہ پرستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہولناک نتائج کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے یہاں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کسی جرم کو آپ جتنا چھپانا چاہتے ہیں لیکن انسان کے اندر کی آواز یعنی ضمیر اس کی گواہی اتنی ہی شدت سے دیتا ہے۔ اس افسانے میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر ایک باضمیر شخص اپنے ضمیر کا خون کردیتا ہے تو بے ایمانی ، موقع پرستی اس کا نصب العین بن جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ضمیر ہر ممکن موقع پر انسان کو تاکید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خلاصہ کلام یوں ہے کہ اس افسانے میں سلام بن رزاق کا انسانی وجود سماج، اخلاق اور سچائی کے تئیں اعتماد و وابستگی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
سلام بن رزاق نے اپنی تخلیقی انفرادیت کو کثرت سے جدا کرنے کے لیے دلچسپ کہانی بیان کرنے کی واضح صورت پر دھیان مرکوز کیا ہے جس کی بہترین نمائندگی ان کی کہانی ’’آوازِ گریہ‘‘ سے ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے یہاں انسان کے اندر زندہ درگور کیفیات کو منظر نامہ بنادیا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔۔۔۔میرا وجود اندھیرے میں تحلیل ہوچکا ہے۔ اس دردناک بے بسی پر مجھے پہلی بار رونا آتا ہے اور میں بے اختیار رونے لگتا ہوں۔ میں رو رہا ہوں، میرے رونے کی آواز منوں مٹی تلے اس طرح گھٹی گھٹی ، پھنسی پھنسی نکل رہی ہے جیسے کسی شکستہ بانسری کے سوراخ میں کوئی سُر اٹک گیا ہو۔ ‘‘( افسانہ ’آوازِ گریہ‘ مشمولہ ’شکستہ بتوں کے درمیان۔ص:۱۵۷)
غرض مذکورہ بالا افسانے میں واحد متکلم اپنے وجود کے اندر پنپتے حادثات کو خواب کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ گویا سلام بن رزاق کے افسانوں میں فکر کا وہی دائرہ ہے جو فلسفۂ وجودیت کا خاصہ ہے اور اس صراحت پچھلے صفحات میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ مادی ترقی اور روحانی بحران کے اس کی دور میں آج کے فرد کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے وجود کی معنویت کی تلاش ہے۔ آج کاانسان بے چہرہ ہے۔ نفسیاتی الجھنوں اور نیوراتیت کا شکار۔ وہ جذباتی اور ذہنی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ وہ اپنے آپ سے لڑ رہا ہے۔ یہ وہ تمام عناصر ہیں جو سلام بن رزاق کے تقریباً سبھی افسانوں میں کم و بیش پائے جاتے ہیں۔ گمان اغلب ہے کہ سلام بن رزاق کا وجودی مفکروں کے افکار سے براہ راست کوئی تعارف نہیں یا اس فلسفے کے بنیادی افکار سے ان کا سابقہ نہیں اور کسی تخلیق کار کے لیے ضروری بھی نہیں کہ وہ اپنی تخلیقی نگارشات میں کسی مخصوص فکر ہی کو موضوع بحث بنائے۔ لیکن حالات اور زمانے کے مسائل اور کوائف سے متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی افسانہ نگاری کی ساخت الگ الگ ہے لیکن فکری اعتبار سے وجودیت کے دائرے میں ہی گردش کرتا نظر آتا ہے۔
Bayania ka Jadogar Anwar Khan by Qamar Siddiqui
Articles
بیانیہ کا جادوگر انور خان
ڈاکٹرقمر صدیقی
ممبئی کے افسانہ نگاروں کا مجموعی رویہ جدیدیت سے ہم آہنگی کے ساتھ حقیقت پسندانہ اسلوب سے رغبت کا رہا ہے۔ انور خان ان میں سب سے نمایاں ہیں۔ان کا افسانہ ’’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ ، ’فنکاری‘، ’ کتاب دار کا خواب‘ ، ’یاد بسیرے‘ اور ’فرار‘ جیسے افسانے ان کے شاندار تخلیقی سفر کا اشاریہ ہیں۔ انور خان کے افسانوں کا بنیادی رویہ علامتی ہے اور ابہام کا خلاقانہ استعمال افسانوں کی معنوی تہوں کو مجلا کرتا ہے۔ وارث علوی نے انور خان کی اس فنّی خاصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
’’انور خان کے تمثیلی افسانوں میں ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ اور ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘ نہایت کامیاب افسانے ہیں۔ بوڑھا خدا کی علامت بھی ہوسکتا ہے، اخلاقی روایت کی بھی، ضمیر کی بھی، بہرحال اس کے ابہام میں اس کی آرکی ٹائپل حسن اور معنویت ہے۔ ‘‘ (’تین مضمون نگار‘ مشمولہ ’’جواز‘‘ مالیگائوں، شمارہ ۱۷ ص:۸۹)
بلاشبہ ’جب بوڑھا فریم سے نکل گیا‘ ایک شاہکار افسانہ ہے۔ اس افسانے میں ابتدا سے لے کر اختتام تک انور خان معاشرتی برائیوں کی پرتیں کھولتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے کہانی کے اختتام میں انورخان نے گویا کہانی میں جان ڈال دی ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’وائرلیس گاڑیاں شب و روز دوڑ رہی ہیں۔ طیارے فضا میں منڈلا رہے ہیں۔ ساحل پر بحری افواج چوکس ہیں۔ صنعت کار ہراساں ہیں۔ انڈر ورلڈ کے سلاطین پریشان اور بوڑھے کے نقش پا شہر کے چپے چپے پر بکھرے ہوئے۔ وہ شہر میں بے خطر گھوم رہا ہے۔ کبھی ایسا سننے میں آتا ہے کہ بوڑھا گرفتار ہوگیا ہے۔ کوئی کہتا ہے وہ پھر سیٹھ دیوان چند کے ڈرائنگ روم میں لگے فریم میں لوٹ گیا ہے لیکن لوگ یقین نہیں کرتے جب تک آسمان نیلا ہے، گھاس ہری اور چائے ذائقہ دار۔‘‘ (مشمولہ مجموعہ’ راستے اور کھڑکیاں‘ ص: ۱۰۲)
انور خان کے تین افسانوی مجموعے ’راستے اور کھڑکیاں‘ ، ’فنکاری‘ اور ’یاد بسیرے‘ شائع ہوئے ۔ا ن مجموعوں کی بیشتر سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو پر مشتمل ہے۔ یہ افسانے ہماری سماجی اور ثقافتی زندگی کے فریم سے باہر کردیے گئے انسان اور انسانی قدروں کا بیانیہ ہیں۔ ان افسانوں میں ممبئی کا ماحول، یہاں کی زندگی، یہاں کے لوگوں کے طور طریقے اور مزاج و عادات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ فلم ، ٹی وی اور دیگر تفریحی و تشہیری ذرائع کی مدد سے ممبئی کا جونقشہ مرتب ہوتا ہے وہ خاصا محدود ہے۔ چاندنی بکھیرتے چاند چہروں سے منور جگ مگ کرتا یہ شہر دراصل شہر نہیں شہر کے وہ امیجیز ہیںجنھیں فلم اور ٹی وی اسکرین کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اصل شہر تو انور خان کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ افسانہ ’شام رنگ‘ میں انسانوں کی بھیڑ چیونٹیوں کی قطار کی طرح گلیوں اور سڑکوں پر وقت اور ضرورت کے مردہ جھینگر کو سوت سوت سرکاتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’صدائوں سے بنا آدمی‘ میں انور خان زندگی کی تمام تر سفاکیوں کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کرکے بتاتے ہیں کہ جو آدمی ایک دن میں کروڑپتی بنتا ہے وہ ایک ہی دن میں فقیر بھی بن سکتا ہے۔ افسانے کی یہ سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’کھلونے کی مانند خوبصورت بنگلہ اسے شرارت آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
____بنگلہ کمروں میں منقسم ہے۔ کمروں میں ٹیلی فون براجمان ہیں۔ گھنٹیاں اعداد و شمار اگلتی ہیں۔ اعداد و شمار نے بینک کی پاس بُک بنائی۔ بینک کی پاس بُک نے بنایا سیمنٹ کا نکریٹ کی اونچی عمارتوں کا جنگل جو ہونٹوں پر پتھریلی چپ لیے بنگلے کے عقب سے تک رہا ہے۔
____ اس کے قدم غلط پڑگئے۔
____وہ بے دھیانی میں یہ حرکت کر بیٹھا۔
____وہ ہمیشہ سے سڑک پر ہے۔
جینتی لال نہیں۔ وہ صرف ٹیلی فون کی گھنٹیوں کی زبان سمجھتا ہے۔ ‘‘
(مشمولہ مجموعہ’ راستے اور کھڑکیاں‘ ص: ۴۲)
انور خان کا افسانہ ’’فنکاری ‘‘جسے باقر مہدی نے Circularکہانی قراردیا ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ یہیCircularity اس کہانی کا حسن ہے۔۔۔۔۔ہر بار ہوٹل والا شیٹی ،چائے کے داموں میں اضافہ کردیتا ہے۔ہربار ہوٹل کے گاہکوں میں برہمی پیدا ہوتی ہے اور ہر بار تھوڑی جدوجہد اور احتجاج کے بعد سب شانت ہوجاتا ہے۔یہ کسی ایک شہر ،ایک قصبہ یا ایک ملک کی بات نہیں ہے بلکہ پوری تیسری دنیا کا منظر نامہ ہے ۔باقر صاحب نے اس کہانی پر گفتگو کرتے ہوئے آگے لکھا ہے کہ یہ ہندی فلموں کا خاص موضوع رہا ہے لہٰذا فلمی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ کیا زندگی کی بھی اپنی Locationنہیں ہوتی؟جس کی مناسبت سے ہمارے واسطے اور وسیلے ،رہائش کے طور طریقے ،رہن سہن کے آداب،وقت گزاری کے مشاغل ،دیگر دلچسپیاں اور مواقعے ،ساتھ بیٹھنے والے حلقۂ احباب اور نہ جانے کون کون سی چیزوں کے دائرہ کار کا انتخاب اور تعین ہوتا ہے۔افسانہ ’فنکاری‘ احتجاج کا افسانہ ہے اور اس کا کردار استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کی لذت بغاوت کی آب کو ماند کردیتی ہے۔ افسانہ نگار یہ بتانے میں کامیاب ہے کہ احتجاج کس طرح نمائش کی چیز بن جاتا ہے۔ صارفیت اور اشتہاریت کس درجہ سماج پر اثر انداز ہورہے ہیں اور ہمارے آج کے میڈیا اساس سماج میں احتجاج اور بغاوت کو کس طرح نمائشی بلکہ سازشی بنادیا گیا ہے یہ کہانی اس کی ترجمان ہے۔
انور خان نے اپنے افسانوں میں بیانیہ کے مختلف طریقوں کو کامیابی سے برتا ہے۔ شروعات کے افسانوں میں بیانیہ کا Diegtic انداز حاوی ہے اور یہی انداز انور خان کی شناخت بھی بنا مثلاً’ کوئوں سے ڈھکا آسمان‘میں واقعہ نگاری کا اسلوب ہی افسانے کی روح ہے۔ پورے افسانے میں آواز ہی آوازہے،اپنے پورے وجود کے ساتھ ۔یخ بستہ رات،پہلاآدمی ،دوسرا آدمی، تیسرا اور چوتھاآدمی ،گلابی صبح ،ہنستا بچہ،شرماتی لڑکی، پھونس کا مکان،مٹھی بھر چاول،مچھلی کا شوربہ، روئی کی دلائی،کوّوں سے ڈھکا آسمان اور کہانی کے آخر میں کارپوریشن کی گاڑی ،سڑک کا موڑ، شدید سردی کے باعث برہنہ اکڑے ہوئے چند جسم، ان کا گاڑی میں لادے جانا اور گاڑی کا چل دینا۔۔۔۔۔۔یعنی کہانی اندر کہانی ۔انور خان ایسے ہی قصہ گو تھے۔لوگ زمان ومکان سے بے پرواہ منہ کھولے بس سنتے جائیں،گویا کسی نئی دنیا کا سیاح کوئی اجنبی واقعات بیان کررہا ہو!!حالانکہ ان کی کہانیوں کا ہر لفظ اپنے اطراف اوراپنے ماحول کا عکاس ہے۔انور خان کے یہاں بیانیہ کا Mimeticاسلوب جس میں کہانی پر ڈرامائیت غالب ہوتی ہے بھی ملتا ہے ۔اس نوع کے افسانوں میں ’شام رنگ‘، صدائوں سے بنا آدمی‘، ’ لمحوں کی موت‘ ، ’بول بچن‘ اور کسی حد تک ’فنکاری ‘ کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ افسانہ ’’ برف باری‘‘ بیانیہ کے Interal Monologueاسلوب کا عکاس ہے۔ تقریباً آدھا افسانہ راست بیانیہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے باقی آدھا افسانہ داخلی خود کلامی یعنی Interal Monologueکے اسلوب میں۔ ایک ہی افسانے میں دو تکنیکوں کا ادغام افسانے کی ترتیب و ترسیل دونوں کے لیے چیلنچ ہوتا ہے۔ یہاں فن پر اپنی دسترس کی وجہ سے انور خان اس رہِ حاجر و حاجز پر سبک روی سے گزر گئے ہیں۔
ادب کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق تحریروں کا مطالعہ انور خان کا پسندیدہ مشغلہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا تخلیقی کینوس بھی خاصا وسیع ہے۔ روز مرہ کی زندگی ، جبر و استحصال ، ہماری ظاہری وباطنی دنیا ، انور خان کے افسانوں کی یہی رنگا رنگی انھیں معاصر افسانہ میں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔ ان تمام رنگوں میں ایک رنگ صوفیانہ افکار و خیالات کا بھی ہے۔ تلاشِ حق کی یہ جستجو ، یہ تڑپ انور خان کے مزاج کا حصہ تھی۔اپنے پہلے مجموعے کی اشاعت سے تقریباً سات آٹھ سال قبل انھوں نے انورقمر کے نام ایک خط میں تحریر کیا تھا کہ :
’’ میںجاننا چاہتا تھا، دنیا میںیہ اونچ نیچ کیوںہے؟ نیکی کیا ہے؟ بدی کیا ہے؟ نیکی کیوںکی جائے؟ بدی کیوں نہ کی جائے؟ اس دنیا میںمیری حقیقت کیا ہے؟ خود اس دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ میںکیا کرسکتا ہوں؟ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میںکیا کروں؟ ‘‘(مشمولہ ششماہی ’’اردو نامہ‘‘مدیر: پروفیسر صاحب علی ،مضمون’ انور خان کی فنکاری‘ از: ڈاکٹر جمال رضوی، شمارہ:۷ بابت نومبر ۲۰۱۶ ص: ۲۷۸)
تلاش و جستجو کے اس جذبے نے انورخان سے تصوف کے موضوع پر بھی افسانے لکھوائے۔ اس ضمن میں افسانہ ’’چھاپ تلک‘‘ بہت اہم ہے۔ اس میں افسانہ نگار نے تصوف کی ظاہری علامات مثلاً درگاہ، پیر و مرشد، محفلِ سماع وغیرہ کے مناظر پیش کرتے ہوئے تصوف کی تعلیمات کا مثبت پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح افسانہ ’بلاوہ‘ میں انھوں نے فنا و بقا کے مسئلے کے علاوہ مابعد الطبیعاتی حقیقتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کا ایک مشاہدہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اس کی آنکھوں کے سامنے اچانک اندھیرا چھا گیا جیسے سورج بدلی میں گھر گیا ہو۔ اْس نے دیکھا وہ ایک بہت بڑے سوراخ کے دہانے پر کھڑا ہے اور تمام چیزیں اْس سوراخ میںکھینچتی چلی جارہی ہیں۔ہرے بھرے درخت ، فضا میں اْڑتے پرندے ، مکانات ، بجلی کے قمقمے ، موٹریں ، گاڑیاں ، ڈاک کا ڈبہ ، خوش پوش راہگیر ، سڑک پر کھیلتے بچے ، سبک اندام حسینائیں، بازار ، رکشائیں ، سب ہی اپنی ملی جلی آوازوں سمیت جذب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ وہ ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا۔ سوراخ سے مسلسل ایک ڈرائونی سی کھوں کھوں کی آواز آرہی تھی۔ ‘‘
تصوف کی بنیاد بشمول زندگی ، کائنات کے دیگر مظاہر کو التباس (Simulacra) تسلیم کرلیے جانے پر قائم ہے۔ انور خان نے یہاں کمالِ فن سے مختلف تہذیبوں میں رائج فنا کے بیانیوں کی تشکیلِ نو کی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو یہ افسانہ بین المطونیت کی بھی ایک عمدل مثال بن جاتا ہے۔ اس نہج کے دیگر افسانوں میں ’بھیڑیں‘ اور ’عرفان‘ وغیرہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ افسانہ ’کمپیوٹر‘ میں انور خان نے گوکہ وجود ، عدم ، خالقِ کائنات جیسے صوفیانہ/بھکتی افکار کو ہی موضوع بنایا ہے ۔لیکن اس افسانے کی خاصیت یہ ہے کہ ہماری روایتی بصیرتوں کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدیہ خصوصاً سائنسی بصیرتوں کی آمیزش اور انسان اور مشین کے ربط سے پیدا ہونے والی کارکردگی کو اجاگر کرکے ایک نئی منطق کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ سائنس فکشن نہیں بلکہ یہ جدید دنیا کی نئی بوطیقا ہے جس میں مشین کے ذریعے قادرِ مطلق تک رسائی کو درشانے کی سعی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر افسانے کا یہ حصہ پیش کیا جارہا ہے:
’’وہ دھیان کے آسن میں بیٹھ گیا اور اْسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کب وہ دھیان میں چلا گیا۔ اُس نے دیکھا اُس کے گرو دروازے پر کھڑے اْسے بلا رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے اْٹھا اور ایک بے جان معمول کی طرح گرو کے ساتھ چل پڑا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر تک چلتے رہے کم از کم رمیش کو یہی محسوس ہوا جیسے وہ صدیوں سے چل رہا ہو ، یہاں تک کہ اُس نے دیکھا کہ وہ بالکل دھرتی کے سرے پر آگئے ہیں۔ اُسے خوف محسوس ہوا مگر وینکٹ چلم ( گرو ) نے اُسے تسلّی آمیز نگاہوں سے دیکھا کہ گھبرائو مت ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ دوسرے ہی لمحے وہ خلا میں تھے۔ حسب معمول وہ سفید روشنیوں میں سے گزرے ، پھر زرد، گہری، نیلی، سبز اور ہلکی آسمانی روشنیوں سے گزرتے ، سرخ روشنیوں میں آگئے۔ آسمانی اور سرخ روشنیوں سے گزرنے کا رمیش کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ ان روشنیوں سے گزرتے ہوئے رمیش کو ایک ہیجان سا محسوس ہوا جو جلد ختم ہوگیا کیونکہ اب وہ ایک بے رنگ وادی سے گزررہے تھے۔ اس وادی میں قدم رکھتے ہی اُنھیں محسوس ہوا کہ اُن پر پھول برس رہے ہیں۔ سکون اور خوشبو کی لپٹو ں نے اُنھیں اپنے ہالے میں لے لیا ہے اور وہ وہیں ٹھہر گئے۔ اُس نے اپنے گرو کی طرف دیکھا۔گرو نے مسکراتے ہوئے اُسے اُفق پر دیکھنے کا اشارہ کیا۔ گرو کے حکم کی تعمیل میں رمیش نے اُفق کی طرف دیکھا۔ گہری سیاہی مائل روشنی نے اچانک ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رمیش نے اس روشنی کو اپنے اندر اُترتامحسوس کیا اور اُس نے دیکھا کہ وہ اور اُس کا گرو اب مجسم روشن ہوچکے ہیں۔ اب وہ سرتاپا آنند تھے۔ بڑی دیر تک وہ یونہی کھڑے رہے یہاں تک کے گرو وینکٹ چلم نے اشارے سے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے اور اگلے ہی لمحے اْس نے خود کو روشنیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پایا۔ رمیش نے آنکھیں کھولیں۔ ہر چیز ویسی ہی تھی اور ابھی رات ہی تو تھی۔ جیسے اْس نے ایک جھپکی لی ہو۔‘‘
یہ اور اس قبیل کے دوسرے افسانوں کی ایک خصوصیت ان کا بیانیہ بھی ہے۔علاوہ ازیں افسانہ ’’کمپیوٹر‘‘ میں زبان کا خلاقانہ استعمال بیانیہ کو مزید جاذبیت عطا کرتا ہے۔ خاص طور سے مابعد الطبیعاتی بیان کے لیے اس کی مناسبت سے زبان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔انور خان نے حقیقت اور علامت کی باہمی آمیزش سے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے جو متنوع اور خیال انگیز ہے۔ انور خان نے بیانیہ میں منظری (Scenic)اور غیر منظری (Non Scenic) دونوں طریقوں کا استعمال کیا ملتاہے۔ کرداروں کے بجائے واقعات کو اہمیت دیتے ہوئے انھوں نے اپنے کئی کامیاب افسانے منظری (Scenic) اسلوب میں تحریر کیے۔مثلاً ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘، ’ صدائوں سے بنا آدمی، ’ شکستگی‘ اور’ سیاہ و سفید‘ وغیرہ ۔ زبان کا معروضی استعمال اور ڈسکورس کے دوران سوال قائم کرنے کا انداز انورخان کے بیانیہ کو پرکشش بناتا ہے۔ سوالات قائم کرنے کا یہ حوصلہ انور خان کی اصل طاقت ہے اور ان کے فنی رویے کی مخصوص پہچان بھی۔ان کے افسانوں میں استفہامی انداز کے علاوہ متن میں موجود صورتِ حال کے نتیجے میں بھی سوالات قائم ہوتے ہیں۔ یہ سوال اساس بیانیہ افسانوں میں معنی کی تکثیریت کو انگیز کرتا ہے۔ انور خان کے یہاں حقیقت نگاری، سادہ اور تاثراتی بیانیہ کے افسانوں کے علاوہ بیانیہ کے حوالے سے قدرے مشکل تمثیلی اور ایک سے زیادہ راویوں کی مدد سے بیانیہ تشکیل دینے کی تکنیکوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’ہوا‘‘ اس کی اچھی مثال ہے۔ تمثیلی بیانیہ میں زندگی کے داخلی و معنوی حقائق بیان کرتے ہوئے اس کے ابدی حقائق پر بھی توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔ تمثیلی قصے میں اخلاقی مضامین کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے مضامین شامل کیے جاسکتے ہیں۔ تمثیل ایک طرح سے استعارہ در استعارہ یا استعارہ بالتصریح سے قریب ترہے لہٰذا اسے فن کے لیے ایک کارگر وسیلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ افسانہ ’’ہوا‘‘ میں انور خان نے اسی وسیلے کے ذریعے بھیڑ یا اجتماع کی نفسیات کے منفی اثرات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
انور خان کے افسانوں میں تکنیک کے تجربات بھی ملتے ہیں۔ اس تعلق سے ان کے کئی افسانوں پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ’کوئوں سے ڈھکا آسمان‘ ان کا مقبول افسانہ ہے۔ اس میں انھوں نے کٹ اپ کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ کٹ اپ تکنیک میں پہلے جملے کے اختتام سے دوسرے جملے کو شروع کیا جاتا ہے۔ اس سے بیان میں شدت اور تاثر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر یہ چند سطریں ملاحظہ فرمائیں:
’’شہر کی بجلی فیل ہوگئی ہے۔‘‘ کہانی جمع کرنے والا ۔
’’بجلی فیل ہوگئی ہے۔‘‘ پہلا آدمی آگ میں گرتے گرتے بچا۔
’’بجلی فیل ہوگئی ہے۔دوسرا ہڑبڑایا۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ اب صبح نہیں ہوگی۔‘‘(مشمولہ ’راستے اور کھڑکیاں ‘ ،ص: ۱۱)
اس طرح کے کٹ اپ تکنیک کا استعمال افسانے میں کئی بار نظر آتا ہے۔ دراصل اس افسانے میں انورخان نے اس تکنیک کی مدد سے ماحول کے بوجھل پن کے تاثر کو مزید گہرا کردیا ہے۔افسانہ ’ کتاب دار کا خواب‘‘ میں منظر کو ساکن (Freeze Frame)کردینے والی تکنیک کا استعمال کیا گیاہے۔ افسانے میں کسی فلم کی طرح انور خان بہتیرے مناظر کو ہماری آنکھوں کے سامنے بالکل ساکن کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’کتاب دارکا خواب‘ میں دیکھیے:
’’______یکایک سارا شہر تھم گیا ہے۔
_______ آسمان گیند کی شکل میں سر پر ہے۔
_______ غنچہ پھول بنتے بنتے ادھ کھلا رہ گیا ہے۔
_______پرندے ہوا میں اڑتے اڑتے ساکت ہوگئے ہیں۔
_______نوزائیدہ بچہ جس نے ابھی ابھی آنکھ کھولی ہے ، ہاتھ پیر پٹخ کر روتے ہوئے ویسے ہی ٹھہر گیا ہے۔‘‘ (مشمولہ ’’فنکاری ‘‘ ، ص:۲۴)
افسانہ نگار نے اس افسانے میں آثارِ قدیمہ کے توسط سے ایک ایسا تجربہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس میں پورا منظر ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے اور قاری اپنے آپ کو کتاب دار کے ساتھ ہی ساکت محسوس کرنے لگتا ہے۔ تکنیک کے تجربے کے اعتبار سے دیگر افسانوں میں ہوا، برف باری، نرسری، اپنائیت ، گونج، بول بچن اور میونسپل پارک کا ذکر بھی ضروری ہے۔ خاص طور سے ’’میونسپل پارک‘‘اس میں تو ایک جہان دگر آباد ہے۔افسانہ ’بول بچن‘ کو موضوعی سطح پر ایک عام سا افسانہ گردانا گیا ہے تاہم اس افسانے میں ممبئی کی علاقائی زبان کے الفاظ (slang) کااستعمال ہمیں منٹو کا افسانہ ’’ممد بھائی‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ ظاہرہے اس طرح کے تجربات اردو افسانے میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں لہٰذا یہ افسانہ اس حوالے سے بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ اِس افسانے میں انور خان نے منظری (Scenic) اسلوب استعمال کرتے ہوئے ڈرامائیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’’شاٹ‘‘ میں انورخان نے واقعات کو خاص زمانی ترتیب سے نہ بیان کرتے ہوئے ماضی سے حال کے انسلاک کے لیے فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ فلیش بیک تکنیک کا تعلق بنیادی طور فلم سے ہے ، یہاں ایک ندرت یہ بھی ہے کہ یہ افسانہ فلم کے ایک سین کا بیانیہ ہے جس میں فلیش بیک کے لیے ٹیلی گرام کے حروف ’’ کل مامی کا انتقال ہوگیا ہے‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ایک جملے سے پوری کہانی کی تعمیر و تشکیل کی گئی ہے۔ قاری جب اس کہانی کو Disconstruct کرتا ہے تو اسے زندگی کے بعض ایسے حقائق سے آنکھیں چار کرنی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے تئیں اپنی ترجیحات پر از سرِ نو غور کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔
انور خان انسانی نفسیات کے پارکھ تھے اور انھوں نے اپنے افسانوں میں اس کا بخوبی اظہار بھی کیا ہے ۔انھوں نے ہمارے اطراف و اکناف میں بکھرے چھوٹے چھوٹے واقعات سے کہانیاں بُنیں اور زندگی کے انھیںچھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑی بڑی حقیقتوں کے انکشاف کا وسیلہ بنایا ۔
Surandar Parkash ke Afsane by Dr. Nisar Ahmad
Articles
سریندر پرکاش کے افسانے
ڈاکٹر نثار احمد

۱۹۶۰ کے آس پاس اردو میں علامتی و تجریدی افسانے کا چلن عام ہوا۔ یہ اتنا حاوی رجحان تھا کہ کم و بیش اردو کا ہر قابلِ ذکر افسانہ نگار ادب میں اپنے وجود کی بقا کے لیے علامت و تجرید کا سہارا لینے پر مجبور ہوا۔ افسانوں میں تجرید پیدا کرنے کے لیے کہانی کے بنیادی صنفی عناصر یعنی پلاٹ ، کردار، واقعہ اور فضا کی ناگزیریت سے انکار کیا گیا اور منجھی ہوئی مانوس اور مربوط زبان کے بجائے نسبتاً ناہموار اور کھردری زبان کے ذریعے پر اسرار فضا کی تخلیق کی سعی کی گئی۔ اس کے جواز کے لیے کہا گیا کہ چونکہ افسانے میں فرد کے باطنی انتشار کی ترجمانی کی جارہی ہے اس لیے اس میں منطقی ربط کے بجائے بے ربط اظہار ضروری ہے۔ کہانی میں علامتی اظہار کے لیے داستان ، حکایت، دیومالا، بودھ جاتک ، یونانی دیومالا اور آسمانی صحائف سے جردار اور واقعات مستعار لیے گئے اور انھیں جدید زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے علامت کی تخلیق میں مدد لی گئی۔ بعض افسانہ نگاروں نے ذاتی علامتیں بھی وضع کیں۔ ان افسانوں میں جدید معاشرے کے ذہنی مسائل مثلاً تنہائی کا احساس ، عدم تحفظ کا کرب، بے سمتی و بے معنویت ، بے چہرگی کا احساس، اخلاقی و روحانی زوال، رشتوں کی بے معنویت، تشکیک اور فطرت سے ہجرت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا گیا۔ اگر سیاسی جبر اور معاشی ناہمواری کو دکھایا گیا تو افسانہ نگار کی پوری توجہ اس کے انسانی باطن پر پڑنے والے اثرات پر رہی۔ اس طرح کے جدید افسانے لکھنے والوں میں ایک منفرد نام سریندر پرکاش کا ہے۔
سریندر پرکاش کے تین افسانوی مجموعے ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ (۱۹۶۸)، ’برف پر مکالمہ‘ (۱۹۸۱ء) اور ’بازگوئی‘ (۱۹۸۸) منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ان کے علاوہ درجن بھر افسانے مختلف رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ سریندر پرکاش جدید افسانہ نگاروں میں اس اعتبار سے منفرد و ممتاز ہیں کہ انھیں اپنے میڈیم پر فنکارانہ دسترس حاصل ہے۔ وہ الفاظ کو روایتی تلازمات سے آزاد کرکے استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جدید انسان کی ذہنی و جذباتی کیفیات کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے جو دوسروں سے نمایاں طور پر منفرد ہوتی ہے ۔ وہ تجرید اور اسطور دونوں کو فنکارانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ قدیم ہندو دیومالائی اساطیر اور اسلامی اساطیر سے کام لیتے ہیں اور خود اساطیر خلق بھی کرتے ہیں اور ان کے پرسے میں صنعتی دور کے تھکے ہوئے اور ستائے ہوئے انسان کے روحانی کھوکھلے پن ، ذہنی پراگندگی، رشتوں کی شکست و ریخت، اقدار کی پامالی، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نفاق اور تشدد نیز سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسانی ذہن پر پڑنے والے اثرات کی عکاسی فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوع سے زیادہ اس کی پیشکش پر زور ملتا ہے اور وہ موضوع کی پیشکش کے لیے مختلف فنی تدابیر اختیار کرتے ہیں جس کے سبب ان کی کہانیاں ایک دوسرے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی نہیں معلوم ہوتیں جیسا کہ بعض جدید افسانہ نگاروں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں ایک پراسرار ، خوابناک، مبہم اور انجانی دنیا خلق کرتے ہیں جن میں کردار پرچھائیں نما معلوم ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کی شناخت ان کے ظاہری اعمال اور ان کے ناموں سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی باطنی صورتِ حال سے ہوتی ہے۔ یہ کردار اپنے ظاہر میں نہیں بلکہ اپنے باطن میں پھیلتے اور سمٹتے ہیں۔ نیم بیداری کی کیفیتوں سے بنے گئے ان افسانوں میں تحیر و استعجاب کے عناصر پائے جاتے ہیں اور ان کے واقعات میں منطقی ربط نہیں ہوتا بلکہ خواب کی دنیا کے واقعات کی طرح ہم ان میں غیر متوقع اور بعید از فہم واقعات سے دوچار ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے سریندر پرکاش کی علامتوں کو خواب کی علامتوں اور افسانوںکی بافت کو انوکھی بے بدنی سے تعبیر کیا ہے۔ فاروقی صاحب سریندر پرکاش کے پہلے افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’یہ افسانے محض بے پلاٹ کے نہیں ہیں۔ اگر پلاٹ نہ ہو لیکن کردار زمان میں حرکت کرتا رہے تو بھی افسانے کو ایک داخلی ربط میسر ہوجاتا ہے۔ ان کہانیوں کے کردار بھی کسی نقطۂ وقت پر ٹھہرے ہوئے اور اس میں گرفتار ہیں۔ اگر وہ حرکت بھی کرتے ہیں تو اپنے ذہنوں کی خلائوں میں۔ اس طرح ان کہانیوں میں ایک انوکھی بے بدنی (Bodylessness) پائی جاتی ہے جو بیک وقت مضطربھی کرتی ہے اور متحیر بھی۔‘‘
سریندر پرکاش کے پہلے مجموعے ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ میں چودہ کہانیاں ہیں۔ ’’رونے کی آواز‘‘ اندورنی اظہار کی کہانی ہے جس میں جگہ جگہ خود کلامی کے ذریعے حزنیہ کیفیت پیدا کی گئی ہے اور اسی کے ساتھ شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے متضاد خیالات کی لہروں کو افسانہ نگار کی بے جا مداخلت کے بغیر بہنے دیا گیا ہے۔ کہانی کا واحد متکلم ایک وجودی کردار ہے جو جدید معاشرے کے مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ اس کا وجود مختلف حصوں میں بٹ گیا ہے۔ وہ بے چہرگی ، تنہائی اور مایوسی کا شکار ہوکر باطنی کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ رشتوں کی ناپائیداری فرد کی بے بسی اور خود غرضی دیکھ کر اسے رونا آتا ہے۔ اس طرح رونے کی آواز مرکزی کردار کے ضمیر کی آواز کی علامت ہے۔ کہانی میں وشنو بابا کو پہلے سرسوتی سے پھر لکشمی سے شادی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وشنو بابا دوسری شادی کے بعد سرسوتی کو روتا بلکتا چھوڑ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سرسوتی علم کی دیوی ہے اور لکشمی دولت کی۔ ان دیومالائی علامتوں کے ذریعے سریندر پرکاش نے جدید معاشرے میں علم سے بے رغبتی اور دولت سے بے پناہ محبت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہانی کی فضا خوابناک اور پر استعجاب ہے اور زبان میں روانی ہے۔ کہانی کے بنیادی ڈھانچے میں اتنی توڑ پھوڑ نہیں کی گئی ہے کہ کہانی پن مجروح ہوجائے۔
’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کو عام طور پر سریندر پرکاش کے پہچان کے وسیلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی نہایت پیچیدہ علامتوں کی حامل ہے۔ کہانی میں زرعی معاشرے سے جدید معاشرے کی طرف ہجرت کی داستان بیان کی گئی ہے۔ کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے تو بات زیادہ روشن ہوجائے گی:
’’ وادی میں بے ترتیب درخت جابجا پھیلے ہوئے تھے جن کے جسموں کی خوشبو فضا میں گھل مل گئی تھی ۔ نئے راستوں پر چلنے سے دل میں رہ رہ کر امنگ سی پیدا ہوتی۔ سورج مسکراتا ہوا پہاڑ پر سیڑھی در سیڑھی چڑھ رہا تھا۔ میں گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر صاف شفاف چکنی سڑکوں پر آگیا۔ پختہ سڑکوں پر صرف میرے پائوں سے جھڑتی ہوئی گرد تھی جو میں پگڈنڈیوں سے لے کر آیا تھا یا پھر میرے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔‘‘
وادی کے بے ترتیب درخت زرعی معاشرے کی علامت ہے جس میں وسعت اور پھیلائو کے علاوہ فطرت سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔ گرد آلود پگڈنڈیوں کو چھوڑ کر صاف ستھری چکنی سڑک پر آنا زرعی معاشرے سے جدید معاشرے کی طرف ہجرت ہے۔ پختہ سڑک پر آکر گرد کو جھاڑنا ماضی کے آثار و نقوش سے دستبردار ہونے کا اشاریہ ہے۔ بہر حال پوری کہانی نہایت پیچیدہ ہے اور قاری کے فہم و ادراک کو چیلنج کرنے والی ہے۔ کہانی میں صنعتی معاشرے کی تنہائی ، بے رخے پن اور رشتوں کی ناپائیداری کی طرف بھی بلیغ اشارے کیے گئے ہیں۔
’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘ میں ’بدوشک کی موت‘ نسبتاً کم پیچیدہ ہے۔ اس کہانی میں جنگ کے دہشت نال ماحول میں عام لوگوں کی مسرتوں اور مسکراہٹوں کے چھن جانے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’بدوشک‘ دراصل ہندی لفظ ’ودوشک‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی مسخرہ کے ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدوشک راوی کا دوست ہے جو مسخرے پن کی حرکتیں کرتا رہتا ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ بدوشک کوئی کردار نہیں بلکہ راوی کی بٹی ہوئی شخصیت ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بدوشک کی موت واقع ہوجاتی ہے تو راوی اور اس کے گھر والے کہتے ہیں وہ ان کی شخصیت کا اٹوٹ انگ تھا اور ان کے ساتھ ۳۵ برسوں سے رہ رہا تھا۔ راوی کی عمر بھی ۳۵ برس کے آس پاس ہے۔ یہ دراصل جنگ کے دہشت ناک ماحول میں مسکراہٹوں اور خوشیوں کے چھن جانے کی علامت ہے۔ کہانی میں جگہ جگہ بارود، ٹینک اور بلیک آئوٹ کا ذکر ہے۔ بدوشک کو اگر کہانی کا ایک کردار بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی کہانی کی علامتی معنویت میں فرق نہیں پڑے گا۔
سریندر پرکاش نے اپنی کہانیوں ’نئے قدموں کی چاپ، پوسٹر، پیاسا سمندر، خشت و گل، رہائی کے بعد، رات روتی ہے، جنگل مہاراج روڈ‘ وغیرہ میں زرعی معاشرے سے ہجرت کرکے صنعتی معاشرے میں آمد اور پھر صنعتی معاشرے کی لعنتوں سے تنگ آکر قدیم تہذیب اور مذہب کی طرف مراجعت کو بڑی فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ’نئے قدموں کی چاپ‘ میں دونوں تہذیبوں کی کشمکش کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ ماضی میں اکتارے پر برہا کے گان کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کیا جاتا تھا لیکن جدید معاشرے میں میاں بیوی دونوں روزگار کے سبب مختلف شہروں کی خاک چھانتے ہیں لیکن انھیں کہیں بھی اطمینان اور سکون میسر نہیں آتا۔ اس طرح مادیت کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب ہر شخص پریشان ہے۔ رشتے ناطے اور بھائی چارہ سب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہاں پر ہابیل اور قابیل کے قرآنی اسطور کے وسیلے سے بھائی چارگی کے خاتمے کو پیش کیا گیا ہے۔ بالآخر اس سارے شکست و ریخت کا حل ماضی میں نظر آتا ہے جہاں مذہبی نظریات اور عقائد اسے ذہنی سکون عطا کرتے ہیں۔ ’پوسٹر‘ میں بھی جدید معاشرتی نظام اور پاپ کلچر کی لعنتوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ مادی آسائش کے حصول کے لیے جائز و ناجائز طریقوں میں امتیاز نہیں رہا۔ شوہر اپنی بیوی کو غیر کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھتا ہے لیکن سوری کہہ کر بغیر کسی ردِّعمل کے وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ پریم ودا جنسی آزادی کے وسیلے سے زندگی کی مسرتوں کو کشید کرنا چاہتی ہے لیکن بالآخر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اسے وجودی خلا کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی بے قراری ، تنہائی اور خودشکستگی کا مداوا سریندر پرکاش مذہب میں دکھاتے ہیں۔ ’خشت و گل‘ میں بھی قدیم و جدید تہذیبوں کی کشمکش کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں قرآن پاک کے حضرتِ نوح کے قصے اور ہندو دیومالا میں منو، برہما، وشنو، مہیش اور گوتم بدھ کے واقعات اور ان سے متعلق تصورات گھلا ملا کر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس طرح کا کامیاب تکنیکی تجربی انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں کیا ہے۔
مذکورہ کہانیوں میں سریندر پرکاش نے کہانی کے بنیادی صنفی عناصر کو یکسر مسترد نہیں کیا ہے بلکہ کہانی پن اور فضا سازی کے سبب یہ کہانیاں دوسری جدید کہانیوں سے منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ ان کے برخلاف ’نقب زن‘ اور ’تلقارمس‘ خالص تجریدی کہانیاں ہیں۔ اول الذکر افسانے میں مختلف دائروں کے ذریعے تجریدیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور موخر الذکر کہانی اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ سریندر پرکاش کی پیچیدہ تر کہانیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس کہانی کا انگریزی ترجمہ Linda Wentinkنے Indian Literatureکے لیے کیا تھا اور اسے اردو کی نمائندہ تجریدی کہانی قرار دیا تھا۔ بہر حال تلقارمس لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی عبرانی یا لاطینی لفظ ہے۔ خاطر نشان رہے کہ سریندر پرکاش کے بعد کی دو کہانیوں ’بازگوئی‘ اور ’ جمغورۃ الفریم‘ میں تلقارمس ایک کردار کے طور پر بھی سامنے آیا ہے۔ پوری کہانی میں کہیں کوئی وقفہ ،سکتہ یا کوئی دوسری علامت نہیں ہے۔ اس کے ذریعے سریندر پرکاش غالباً یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جس دور کو یہ کہانی پیش کر رہی ہے اس میں زندگی بھی بغیر رکاوٹ کے ایک ہی رفتار پر چل رہی ہے۔ کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے:
’’ستمبر کے مہینے میں آنسو گیس کا استعمال ٹھیک نہیں۔ ان دنوں کسان شہر سے راشن کارڈ کا بیج لینے آیا ہوتا ہے۔ وہ بڑے مہمان نواز قسم کے لوگ تھے۔ انھوں نے انڈوں کی جگہ اپنے بچوں کے سر ابال کر اور روٹیوں کی جگہ عورتوں کے پستان کاٹ کر پیش کردئے۔ مگر آخری وقت جب میں نزع کے عالم میں تھا وہ میرا راشن کارڈ چرانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خوانچے اونچی اونچی دیواروں پر لگا رکھے تھے اور نیچے وادی میں جھونپڑیاں جل رہی تھیں۔ جھونپڑیاں جلنے تک گاڑی پلیٹ فارم پر آجاتی ہے اور سب لوگ آگے بڑھ کر اپنی لاش پہچان لیتے ہیں پھر وہ گرم کباب کی ہانک لگاتے کوئی نہ پوچھتا کس عزیز کے گوشت کے کباب ہیں۔‘‘
اس اقتباس میں جملے جوڑ کر معنی بر آمد کیے جاسکتے ہیں لیکن اس میں کہانی پن کی تلاش سعی لاحاصل ہوگی البتہ اس میں کچھ واقعات اور کچھ باتیں شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے یکجا کردیئے گئے ہیں۔ اس کہانی کی نہ کوئی تھیم ہے نہ کوئی پلاٹ اور نہ ہی کوئی کردار۔ اس میں جدید دور کے بے شمار مسائل کو شعور کی رو کی تکنیک کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح یہ اینٹی اسٹوری کی نمایاں مثال ہے۔
مجموعہ ’’ برف پر مکالمہ‘‘ میں گیارہ افسانے ہیں۔ اس مجموعے کے افسانوں میں دیومالائی عناصر کار فرما نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھیں انتظار حسین سے مدد ملی۔ ’بن باس ۸۱‘ میں رامائن کے اسطور سے اور ’گاڑی بھر رسد‘ میں داستانوں سے مدد لی گئی ہے۔ ان کے برخلاف ’جمغورۃ الفریم، جبی ژان‘ اور ’برف پر مکالمہ‘ میں اسطور سازی کا رجحان ملتا ہے۔ اس مجموعے کی ایک اہم کہانی ’گاڑی بھر رسد‘ ہے جس کو عام طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کہانی کا موضوع حکمراں طبقے کے ذریعے عوام کا استحصال ہے۔ آزادی سے قبل ہندوستان کے عوام انگریزوں کے ظلم و جبر اور استحصال کا شکار تھے۔ آزادی کے بعد انگریزوں کے ظلم و جبر سے نجات پانے پر انھوں نے خوشیاں منائیں لیکن جب آزادی کے بعد اپنے ہی ملک کے حکمرانوں نے ان کا استحصال شروع کردیا تو ان کے توقعات کی شکست ہوگئی۔اس تھیم کی پیشکش کے لیے سریندر پرکاش نے داستانوں سے مدد لی ہے۔ کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ پہاڑوں کے پیچھے سے ایک پر اسرار سواری آتی ہے اور کچھ کھانے پینے کے سامان کے علاوہ ایک خوبرو نوجوان کو لے کر روانہ ہوجاتی ہے۔ یہ عمل برسوں سے جاری ہے۔ یہ ایک اجتماعی آشوب ہے جس سے بستی والوں کو نجات دلانے والا کوئی نہیں۔ اس کہانی میں سریندر پرکاش نے سواری کا تصور داستان سے لیا ہے لیکن اس میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے نیا مفہوم پیدا کیا ہے۔ داستانوں میں ہوتا یوں ہے کہ قریہ والوں کو اس اجتماعی آشوب سے نجات دلانے کے لیے بالاآخر ایک خطر پسند شہزادہ یا سبز پوش بزرگ آتے ہیں اور بستی والوں کو نجات دلاتے ہیں لیکن اس کہانی میں کوئی نجات دہندہ نہیں آتا ہے۔ اس سے سریندر پرکاش یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آج آدم زاد جس اجتماعی آشوب میں گرفتار ہے اس سے نجات ممکن نہیں، موجودہ نظام حکومت سے بے اطمینانی کے اظہار کے لیے سواری کے اس تصور سے خالدہ حسین نے اپنی نہایت کامیاب اور پر قوت علامتی کہانی ’سواری‘ میں فائدہ اٹھایا ہے۔ خاطر نشان رہے کہ جدید کہانیوں میں نجات دہندہ کے غائب ہوجانے کے نکتے کی طرف پہلی بار ’سواری‘ پر بحث کرتے ہوئے انتظار حسین نے اشارہ کیا ہے۔ بہر کیف کہانی میں سریندر پرکاش نے جہاں گاڑی کی آمد کو بیان کیا ہے وہاں گاڑی اور گاڑی بان کی جزئیات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے نہ صرف پر اسراریت پیدا ہوتی ہے بلکہ خوف و دہشت کی ایک انوکھی اور پر ہول فضا تیار ہوتی ہے۔ کہانی کی نثر نہایت خوبصورت ہے۔
اس کے بر خلاف ’ بن باس ۸۱‘ میں سریندر پرکاش نے اسطور کے ماخذ کے مطابق کتھا کی زبان سے کام لیا ہے جو نہایت دلکش معلوم ہوتی ہے۔ کہانی میں رام کے بن باس کے اسطور سے کام لیا گیا ہے۔ رامائن کے برخلاف اس کہانی میں بھی رام چندر جی چودہ برس کے بن باس کے بعد واپس نہیں آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رام چندر جی ہندو قوم کے نجات دہندہ تھے۔داستانوں کی طرح اس کہانی کا آغاز بھی پر اسرار انداز سے ہوا ہے۔ کہانی میں جگہ جگہ طنز سے کام لیا گیا ہے۔ اجودھیا میں رام چندر جی کے نہ آنے کے سبب جو تجارتی صورتِ حال ہے وہ ہمارے دور کا آئینہ ہے۔ وٹھل سیٹھ بھیکو کسان کے اناج لوہے کے باٹ سے تول کر خریدتا ہے اور نمک سونے کے باٹ سے تول کر دیتا ہے۔ کہانی کے آخر میں رامائن کے اسطور کو اسلامی اسطور سے ملا دیا گیا ہے۔ غالباً اس کے ذریعے حقیقت کے ایک ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہانی کی ایک بڑی خوبی اس کی روانی ہے اور اسطور کے ماخذ کے مطابق زبان ہے۔ اس سلسلے میں کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’مجھے شما کردیجئے پتا جی۔ رام کو ایودھیا واپس لانے میں اسپھل رہا ہوں۔ ان کی ہٹ کے آگے میری ایک نہ چلی۔ وہ آپ کی آگیا اور ماں کی اکچھا کا پالن کرنے پر ووش ہیں اور مجھے ان کی آگیا کا پالن کرنے پر ووش ہونا پڑ رہا ہے۔ راج سنگھاسن پر ششوبھت ہونے کے لیے اپنی کھڑاویں دی ہیں۔ وہ تو بن باس ہی رہیں گے پرنتو مجھے آدیش دیا ہے کہ میں ان کھڑائوں کی سہایتا سے راج کاج چلائوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ اس کٹھن پریکشا میں سپھل ہوسکوں۔‘‘
اس کے برخلاف ’جپی ژان ، برف پر مکالمہ‘ اور ’ جمغورۃ الفریم‘ میں اسطور سازی کا رجحان ملتا ہے۔ ’جپی ژان‘ سریندر پرکاش کا نمائندہ افسانہ ہے جس پر اس کی اشاعت سے اب تک بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ کہانی کا موضوع جدید معاشرے میں مادیت کے غلبے کے سبب پیدا ہونے والی انجانی ذہنی بے اطمینانی سے نجات حاصل کرنے کے لیے روحانیت کی طرف مراجعت ہے۔ سریندر پرکاش نے ’جپی ژان‘ کو ایک نجات دہندہ روحانی پیشوا کے علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سریندر پرکاش نے اس کے ایک ہاتھ میں کھتری اور دوسرے میں سنکھ دکھایا ہے۔ کھتری کہیں مہرِ نبوت تو نہیں ؟ اور سنکھ کہیں صورِ اسرافیل تو نہیں؟ جس کو قیامت برپا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ نبی کی حیثیت بشیر اور نذیر دونوں کی ہوتی ہے۔ جپی ژان ایک روحانی پیشوا کی علامت ہے اس خیال کو تقویت اس واقعے سے ملتی ہے جس میں عورتیں جپی ژان کے انتظار میں ایک میدان میں اکٹھا ہیں۔ ظاہر ہے کہ عورتیں زیادہ مذہبی ہوتی ہیں اور معجزات و کرامات پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ بہر حال کہانی میں جپی ژان کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے لیکن جب اس کو بوسیدہ حالت میں دریافت کرلیا جاتا ہے تو ان کے توقعات کی شکست ہوجاتی ہے۔ کہانی میں جدید دور کے دوسرے مسائل کی طرف بھی اشارے کیے گئے ہیں۔ خوبصورت نثر اور پراسراریت کے سبب کہانی کامیاب ہے۔
’جمغورۃ الفریم‘ میں ہندوستان کے تقسیم در تقسیم کے المیے کو موضوع بنایاگیا ہے۔ جمغورہ غالباً جمہوریت کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ سریندر پرکاش عام طور پر پراسراریت پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر جپی ژان اور تلقارمس جیسے ناموں کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ سریندر پرکاش نے تقسیم کے المیے کو بالکل انوکھے انداز سے برتا ہے۔ ایک کمرہ ہے جس میں ایک کٹی پھٹی لاش پڑی ہے۔ کہیں دور فوارہ چل رہا ہے۔ ایک آدمی سائیکل پر چلا جارہا ہے اور کتا بھونک رہا ہے۔ کتے کو چپ کرانے کے لیے لاش کے کچھ حصے کاٹ کر کتے کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے گویا آزادی کے وقت ہندوستان کی حیثیت ایک لاش کی طرح تھی اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ شروع کردیا لہٰذا اس لاش کا ایک حصہ کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا گیا۔ اس طرح تقسیم کے واقعے کو علامتی انداز میں سریندر پرکاش نے پیش کیا ہے۔ کہانی میں داخلی خود کلامی کی تکنیک استعمال کی گئی ہے اور کہانی میں خوف و دہشت کی فضا ہے۔ ’برف پر مکالمہ‘ میں جدید معاشرے کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ برف در اصل جمود کی علامت ہے اور یہ اخلاقی و روحانی جمود کا اشاریہ ہے۔ کہانی میں اسطور سازی کا عمل ہے۔ اس کے علاوہ ’مردہ آدمی کی تصویر‘ اور ’ ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے‘ میں بھی معاشرے کے زوال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں کہانیاں نہایت پیچیدہ علامتی نظام کی حامل ہیں اس لیے کہانی کی ترسیل میں دشواری ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس مجموعہ کی کہانیوں میں خوبصورت نثر، تحیر کا عنصر ، سیاسی و سماجی حوالے اور معمولی چیزوں کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے اندازنے ان کو انفرادی رنگ عطا کردیا ہے۔
’بازگوئی‘ سریندر پرکاش کی افسانہ نگاری کے نئے موڑ کا اشاریہ ہے۔ اس مجموعے کی کہانیوں میں فکر کا غلبہ ضرور ہے لیکن اسی کے ساتھ سیاسی و سماجی حوالوں کی کثرت بھی ہے۔ ان افسانوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سریندر رکاش ’تلقارمس‘ جیسے چونکانے والے تجربوں کے جادو سے باہر نکل آئے ہیں۔ اس مجموعے کی کہانیاں نسبتاً آسان ہیں۔ ان کی علامتیں اور تمثیلیں قدرے آسان ، مانوس ، واضح اور غیر مبہم ہیں۔ اس لیے قاری کو بہت جلد اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں حالانکہ ان میں بھی سریندر پرکاش نے انہی فنی چابکدستیوں سے کام لیا جو ان کا امتیاز ہے۔
’بازگوئی‘، بجوکا، خواب صورت، جمغورۃ الفریم دو، جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں‘ اور ’ساحل پر لیٹی ہوئی عورت‘ میں اسطور سازی کا رجحان ہے۔ ’بازگوئی‘ سریندر پرکاش کی نمائندہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کہانی کی پوری فضا داستانی ہے۔ کرداروں ، جگہوں اور شہروں کے نام کے ذریعے بھی داستانی فضا تیار کرنے میں مدد لی گئی ہے۔ بظاہر کہانی مصر کے کسی قدیم شہر کی معلوم ہوتی ہے لیکن اسے اپنے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سریندر پرکاش نے کہانی کے درمیان مداخلت کرکے ایمرجنسی کے زمانے کی سیاسی صورتِ حال کا ذکر کیا ہے۔ سریندر پرکاش نے یہ تکنیکی تجربہ کم ہمت اور کم کوش قاری کے لیے کیاہے۔ اگر کہانی کو جگہ جگہ مداخلت کرکے سریندر پرکاش نہ کھولتے تو کہانی غیر معمولی طور طاقتور ہوجاتی۔ بہر کیف کہانی کے وسیلے سے سریندر پرکاش یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اقتدار ایک اندھی قوت ہے جو اس کو کنیز بنانا چاہتا ہے خود اس کا اسیر بن جاتا ہے اور اقتدار پر ہمیشہ قابض رہنے کے لیے حاکم ہر طرح کی گھناونی حرکتیں کرتا ہے۔ مختلف زمانوں اور جگہوں پر یہی عمل دہرایا جاتا رہا ہے۔ لطف کی بات تو ہے کہ حاکم اور مخالف دونوں دستور کی دہائی دیتے ہیں۔ ملکۂ شبروزی اسی اقتدار کی علامت ہے۔ تلقارمس ان باغی کرداروں کا نمائندہ ہے جو اقتدار کی ہوا لگنے کے بعد اپنی ساری بغاوت بھول جاتے ہیں۔ کہانی اپنی بے مثال خوبصورت نثر اور پر اسرار داستانی فضا کے سبب قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس طرح کی خوبصورت ، گداز اور نغماتی نثر اور داستانی رنگ و آہنگ ’جمغورۃ الفریم دو‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہانی وحدتِ آدم کے محور پر گردش کرتی ہے۔ انسان کو وقت اور سیاسی و سماجی صورتِ حال نے مذہب ، رنگ ، نسل اور قبیلہ وغیرہ کے خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے۔ کہانی لمحے بھر خارج میں چلتی ہے پھر داخل میں سفر کرنے لگتی ہے۔ اس کے لیے سریندر پرکاش کرداروں کو خوابناک کیفیت سے دوچار کرکے ایک انہونی اور انجانی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جہاں ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کا حقیقت کی دنیا میں گزر ممکن نہیں۔ بہر حال کہانی میں ہزاروں سال کی تاریخ بولتی ہے۔ ’ساحل پر لیٹی ہوئی عورت‘ بھی بے مثال داستانی رنگ کی کہانی ہے ۔ کہانی کے سیاسی و سماجی حوالوں کو آسانی سے شناخت کرنا ممکن نہیں ہے۔
سریندر پرکاش اپنی افسانوی روایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے استفادہ کرکے اپنی کہانیوں کو روشن کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بیدی کی کہانی ’بھولا‘ کو بنیادی بناکر ’بھولا کی واپسی‘ کے عنوان سے کہانی لکھی ہے۔ بیدی کی کہانی میں بھولا اپنے ماموں کی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن سریندر پرکاش کی کہانی میں دونوں ایک دوسرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بھولا کا ماموں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ اس طرح انھوں نے اپنی بے حد خوبصورت اور طاقتور کہانی ’بجوکا‘ میں پریم چند کے ہوری کو کردار بنایا ہے۔ پریم چند کا ہوری آزادی سے پہلے کا ہندوستانی کسان تھا لیکن سریندر پرکاش کا ہوری آزادی کے بعد کے ہندوستانی عوام کا نمائندہ ہے اور بجوکا موجودہ جمہوری نظام کی علامت ہے۔ سریندر پرکاش نے اس کہانی کے ذریعے موجودہ طرزِ حکومت سے اپنی بے زاری اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس کہانی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ سریندر پرکاش نے کہانی میں بہت کم مداخلت کی ہے۔
’بازگوئی‘ کے بعد کی کہانیوں میں ’جیلخانی، ترپوسیاں، چیچو کی ملیاں، بالکنی‘ اور ’ایک اور پناہ گزیں‘ میں پاکستان جانے والے مہاجرین کے دکھوں کی داستان سنائی گئی ہے۔ پچاس برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی پاکستانی معاشرہ نے انھیں قبول نہیں کیا ہے اور ان کے ساتھ سیاسی و سماجی اور معاشی اعتبار سے امتیاز برتا جاتا ہے۔ ان کہانیوں میں حزنیہ کیفیت حاوی ہے۔ ان کہانیوں کے کردار ماضی کی یادوں کے اپنے سینے سے لگائے نظر آتے ہیں۔ ان کہانیوں میں سریندر پرکاش خود راوی کی حیثیت سے موجود معلوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود مہاجر ہیں۔ ذاتی تجربے نے کہانیوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ سریندر پرکاش کی ان کہانیوں میں مشترکہ تہذیب کے فنا ہونے کا بھی شدید احساس ہے۔
مختصر یہ کہ سریندر پرکاش کا شمار اردو کے ممتاز علامتی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے یہاں موضوعات ، اسالیب اور تکنیک میں تنوع پایا جاتا ہے۔ زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت داستانی فضا کی تعمیر میں چابکدستی ، بظاہر غیر متعلق اور غیر اہم واقعات کو نزاکت و لطافت سے جوڑنے اور تجریدی علامتی رنگ و آہنگ تیار کرنے کی بے پناہ صلاحیت نے ان کے افسانوں کو انفرادیت کا حامل بنا دیا ہے۔
MYSTICISM AND SCIENCE by Dr. Rasheed Ashraf Khan
Articles
تصوف اور سائنس
ڈاکٹر رشید اشرف خان
زیر مطالعہ عنوان گفتگو یعنی ’’ تصوف اور سائنس‘‘ بظاہر مفکر یگانہ مہد ی افادی کے الفاظ میں ’’ گول چیز میں چوکھنٹی ‘‘ کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔یعنی دو متضاد چیزوں کا یکجا ہونا یا بقول امام الہند مولانا ابولکلام آزادعلمی اصطلاح میں ’’اجتماع النقیضین‘‘ ۔ تصوف کا موضوع خالص روحانیت ہے جب کہ سائنس کا نقطۂ پرکار مادیت ہے۔ اگر ہم اپنے زاویۂ نظر کو عالی ظرفی ، وسیع النظری اور باریک بینی سے اپنی نگاہوں کے سامنے لائیں اور قدرے عمیق نظر سے دیکھیں تو ہم بھی شاید اس عالم طلائی کی خیالی دنیا کا جلوہ دیکھ سکیں گے جس کا نظارہ ایک انگریز شاعر نے اپنی شہرۂ آفاق نظمTHE ELDORADOمیں دکھایا ہے۔ یعنی اس کے تخیل نے ایک ایسا تصوراتی خاکہ پیش کیا ہے جہاں پورا شہر سونے میں نہایا ہوا تھا۔جہاںہر چیز سونے کی تھی۔ اس مثال کی مدد سے ہم نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف میں روحانیت کے ساتھ ساتھ کسی قدر مادیت بھی ہے اور سائنس خالص مادیت ہی نہیں بلکہ اس میں روحانیت کی آمیزش بھی ہے۔
تصوف کو انگریزی زبان میں Mysticism اور ہندی بھاشا میں رہسواد کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ عربی اور فارسی زبان کا لفظ ہے ۔تصوف کی تاریخ ۱۴۳۶ سال پرانی ہے ۔اس زمانے میں صوفی پیدائشی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا فطری رجحان قرآن کریم کو سننے سمجھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریروں اور سنتوں پر عمل کرنے کے باعث تعلیمات قرآنی میں ڈھل جانے کی وجہ سے ہوجاتا تھا ۔ سیدھی سادی زندگی ، دنیوی معاملات میں میانہ روی ، اقوال و افعال میں شفافیت ، عبادت الٰہی کا شغف ، اوامرونواہی کا احتساب، خوف الٰہی، اور حقوق العباد کا خیال اور جہنم سے نجات کا تصور یہ تمام باتیں ایک سچے صوفی کی پہچان تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک بس اتنے ہی اصول تصوف کے تھے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابۂ کرام ، تابعین اور تبع تابعین تک ایک سچے صوفی کی مندرجہ ٔ بالا شناختیں کم وبیش قائم رہیں مگر افسوس کہ دائم نہ رہ سکیں۔ عشق الٰہی جو ایوان تصوف کا بنیادی پتھر تھا رفتہ رفتہ دنیاداری اور ریاکاری کی نذر ہوگیا۔ علامہ اقبال نے اس ملمع کاری کو اس طرح سے پیش کیا ہے:
رہنے دے جستجو میں ، خیالِ بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تو ہو ، یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے ، یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کُشتۂ نظارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی میں چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
’’تصوف ‘‘ شروع شروع میں صرف ایک طریقۂ کار یا لائحۂ عمل تھا جس میں صرف عبادت وریاضت پر زیادہ زور دیا جاتا تھا اور اس کے احکام ومسائل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان احکام و مسائل کو مختلف درجات یا مراحل میں تقسیم کیا گیا ۔ ان مراحل کی شرائط کی روشنی میں جو صوفی عمل پیرا ہوتا تھا تواس صوفی کو اصطلاح صوفیہ میں سالک ( بمعنی چلنے والا) طریقے کو (مسلک) راستہ اور مقامات کو منزل مانا جاتا تھا۔ اس ضمن میں خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
بہ مَے سجادہ رنگیں کن ، گَرَت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بُوَد ز راہ رسمِ منزلہا
(یعنی اگر پیر مغاں تجھ سے یہ کہے کہ اپنے مصلے کو شراب میں ڈبو کر بھگا دو تو مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے کیوں کہ تو راہ تصوف میں چلنے والا صوفی (سالک ) ہے جومنزلوں کے طور طریقوں سے بے خبر نہیں ہوتا )
جب تصوف عرب سے ہندوستان آیا تو یہاں صوفی مبلغین اسلام کی اچھی خاصی تعداد پیدا ہوگئی ۔جب علوم کی تدوین و کتابت شروع ہوئی اور اہل تصوف نے زہد ورع اور افعال واعمال پر محاسبے کے طور طریقوں پر کتابیں لکھیں جیسا کہ علامہ قشیری نے اپنے رسالہ میں اور شیخ سہر وردی نے اپنی مشہور کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں لکھا ہے کہ بعض دوسرے اکابر صوفیہ آئے تو علم تصوف ملت اسلامیہ میں ایک مرتب اور مدّون علم کی حیثیت سے سامنے آیا۔
ہندوستان آنے کے بعد تصوف دو خاص حصوں میں بٹ گیا ۔ اسلامی تصوف و غیر اسلامی تصوف ۔ اسلامی تصوف کی بنیاد قرآن کریم ، سنت نبی ، احادیث صحیحہ اور صحابۂ کرام کے اقوال پر تھی جب کہ غیر اسلامی تصوف میں ویدانت اوربھکتی تحریک کے اصول شامل کردیے گئے۔ کرم، یوگ اور مایا کے ہندو نظریات تصوف میں دخیل ہونے کے بعد فلسفہ کی اس شاخ کو وسعت تو بے شک بڑھی اور ہزاروں ہندوؤں نے اسے اپنالیالیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تصوف کے اس روپ کو ناپسند بھی کرتے تھے ۔
صوفیاے کرام اور ان کی سائنسی بصیرت کے ضمن میں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ آج سے صدیوں پہلے سائنسی ایجادات یا علوم سائنس کے طور طریقے نہ تو معلوم تھے اور نہ ان کی طرف کچھ زیادہ توجہ کی گئی تھی لیکن ہم لاشعوری طور پر ان سے واقف بھی تھے اور روزمرہ زندگی میں ان کا استعمال بھی ہوتا تھا ۔ مثال کے طور پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علم العلمان علم الادیان و علم الابدان ، تو اس وقت آپ نے دو سائنسی علوم یعنی علم الٰہیات (Theology)اور علم الابدان (Physical Science)کی خصوصی اہمیت کا اعلان فرمایا تھا ۔ علم الٰہیات کے ذیل میں قرآن کریم مع جملہ علوم القرآن ، علوم الحدیث اور سنن رسول سبھی آجاتے ہیں ۔ اسی طرح علم الابدان، علوم معرفت الانسان (Physiology)علوم حفظان الصحت(Hygiene)بشریات (Anthropology)علم النفس(Psychology)نیز جملہ سماجی علوم(Social Science)اور ماحول کے تعلق سے جانداروں کے توضیحی مطالعہ (Ecology)کا مجموعہ ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود شہر علم تھے لہٰذا مذکورہ ٔ بالا علوم سے کما حقہ واقف ہونا آپ کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اور پھر اپنی سنت کے ذریعے مسلمانوں کو مخاطب کرکے وقتاََ فوقتاََ سائنسی علوم سے آشنا کیا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ احادیث کی شکل میں منضبط کر لیے گئے۔
آج دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے ۔دنیا کے بڑے بڑے ماہرین فلکیات اور ماہرین طبیعات نے جو جدید انکشافات کیے ہیں ،وہ انکشافات آج سے تقریباََ چودہ سو سال قبل احادیث نبویہ میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔جس کی دو مثالیں یہاں پیش کرنا غیر ضروری نہ ہوگا۔
حدیث نمبر۱: { عن ابی موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
لاتقوم الساعتہ حتیٰ یکون القرآن عارا ویتقاالزمان}
’’ جب تک قرآن کریم کو باعث عار نہ سمجھا جانے لگے لگا اور زمانہ جلدی جلدی گزرنے اور اس کے گوشے سمٹنے نہ لگیں گے اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی‘‘
(مجمع الزوائد: حدیث نمبر ۱۲۴۳۷، جلد نمبر ۷ ص ۳۲۴)
مذکورہ حدیث کے عربی متن میںلفظ ’’ تقارب‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں کا قریب ہونا۔اس میں جہاں ایک طرف زمانے کی اضافی حیثیت یعنی(Relative)کی طرف اشارہ ملتا ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی ہے کہ زمانۂ قدیم میں جن کاموں میں لمبے عرصے گزرجاتے تھے وہی کام مستقبل میں نہایت کم عرصے میں انجام دیے جانے لگیں گے،جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ آج سائنس اور ٹکنالوجی ہر شعبۂ حیات میں غیر معمولی ترقی کر چکی ہے۔یہ حدیث دور حاضر کے ذرائع حمل و نقل اور سرعت رفتا رکی غماز ہے۔اس حدیث میں’’ تقارب الزمان ‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانے کے تغیرات کا انکشاف کیا ہے۔
حدیث نمبر۲: {عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی علیہ وسلم قال تغسل
الاناء اذا ولغ فیہ الکلب سبع مرات اولھن او اخراھن بالتراب}
’’ اگر تمھارے برتن کو کتا چاٹ جائے تو وہ سات مرتبہ دھونے سے پاک ہوگا ،جن میں پہلی دفعہ مٹی سے دھویا جائے‘‘
( ترمذی شریف ،ابواب الطہارۃ ص ۶۸)
عہد رسالت میں ایسی ادویات کا نام ونشان تک نہ تھا جوجراثیم پر اثر انداز ہوسکیں لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کے جراثیم کو ختم کرنے کے لیے مٹی سے برتن دھونے کا حکم فرمایا۔حضور صلی علیہ وسلم کی سائنسی بصیرت کا اعتراف اس وقت ہوا جب سائنسی تحقیق نے مٹی میں Tetraliteاور Tetracyclineجیسے اجزا کی نشان دہی کی۔یہ اجزا جراثیم کش دواؤں کے لیے بطور خاص استعمال ہوتے ہیں۔کتوں کے چاٹے ہوئے برتن کے ذریعے ان کے جراثیم انسانوں پر اثر انداز ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے،اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی سے برتن دھونے کی تاکید کی ہے۔یوروپ کے بعض انگریزمحققین نے اس موضوع پر کئی تحقیقی مضامین قلم بند کیے جس میں اس حدیث کا اعتراف بڑی شدت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
بہ خوف طوالت صرف ایک مثال پر اکتفا کی جاتی ہے جو اس ثبوت کے لیے کافی ہے کہ خانقاہوں اور عبادت گاہوں میں قیام کرنے والے صوفیاے کرام ، فخر روحانیت وخدا شناس ، شاہان بے تاج وتخت تھے۔مذکورہ مثال پر مشتمل میر تقی میرؔ کاشعر درج ہے:
فقیرانہ آئے ، صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے
جسے اللہ کی معرفت حاصل ہوگی پھر اسے دنیا نہیں ڈھونڈ سکتی۔وہ اپنے خالق حقیقی کی زندگی میں بھر پور جذب ہوجاتاہے۔تصوف اور سائنس کے حوالے سے عہد رسالت کے دو صوفی سائنس دانوں لبیب بن سعد اور حبیب بن سعد کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگا جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ معظمہ میں تھے اور بعد میں آپ کے ساتھ مہاجر بن کرمدینہ پہنچے۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے ۔ صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ علم نجوم(Astronomy)سے خاطر خواہ دلچسپی رکھتے تھے۔علم ریاضی میں کافی درک حاصل تھا۔ان نجومیوں کا وطیرہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بہ غرض تجارت دور دراز کا سفر کرتے یا برائے غزوات تشریف لے جاتے تو یہ حضور اکرم کی خاص اجازت سے قافلے یا لشکر اسلامی کے ساتھ بطور بدرِقہ(Escort)ضرور جاتے تھے اور اندھیری رات میں اپنی خانہ ساز دوربینوں (Binoculors) کی مدد سے پتہ لگا لیتے تھے کہ رات میں ستاروں کی مدد سے راستہ کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے ؟ قمر در عقرب کب ہوگا، اچھی بری ساعتیں کون سی ہیں ۔چاند گہن اور سورج گہن(کسوف وخسوف) Eclipseکب ہوگا۔ان کے اثرات مخلوق الٰہی پر کیا کیا اور کس طرح پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ قدرت ، دنیاوی علوم اور اپنے خاص احکام میں ہمیشہ سے ایک خط امتیاز (Line of Demarcation)کھینچتی چلی آئی ہے تاکہ دنیا کی نگاہ میں خدا اور بندگان خدا کے افعال میں تعینِ حدود نظر آسکے ۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ دشمنان اسلام نے ایک دفاعی جنگ کا اعلان کیا ۔پہلے تو سرکار دوعالم نے رفعِ شر کی کوشش کی ،جسے دشمنان اسلام نے بزدلی سمجھااور اپنے موقف پر اڑے رہے تب حضور نے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اللہ کا پیغام لائے ہیںکہ علی کی قیادت میں جنگ کی جائے۔حضور کا یہ فیصلہ سن کر دونوں نجومی بھائیوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ ساعت جنگ کے لیے بہت منحوس ہے ۔اگر اس وقت کوچ کیا گیا تو خدا ناخواستہ لشکر اسلام کی شکست یقینی ہے ۔ایک نحس ستارہ ہمارے لشکر پر مخالف نظر رکھتا ہے ۔ حضور نے ان کی بات ان سنی کردی اور حضرت علی سے فرمایا: بسم اللہ مجریھا باذن اللہ مرسٰھا۔دونوں نجومی شکست کے خوف سے لشکر کے ساتھ نہیں گئے اور اپنے حجرے میں بیٹھ کر زائچے بناتے رہے۔ایک وقت ایسا آیا جب دونوں نجومی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کرکے سجدۂ الٰہی میں گر گئے اور کہا یا رسول اللہ مبارک ہو حضرت علی بہ حیثیت فاتح مع لشکر تشریف لارہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا جبرئیل امین نے پہلے ہی یہ خوش خبری سنادی ہے مگر تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا؟ انھوں نے عرض کیا کہ وہ منحوس ستارہ جو دوسال کی مدت میں اپنی جگہ سے ہٹنے والا تھا لیکن جوں ہی ہمارا لشکر روانہ ہوا وہ ستارہ دو دنوں میں اپنے مقام سے ہٹ گیا۔بس ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب ہماری فتح یقینی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ میںنے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ علم نجوم فی نفسہ برا نہیں ہے اسے ضرور سیکھو لیکن اسے عقیدے سے نہ ٹکراؤ ورنہ الحاد اور بے دینی کی طرف لے جائے گا۔
عرب ممالک کے علاوہ ایران اور ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھی تصوف کا اسلامی فلسفہ تیزی سے مقبول ہوا ۔ ایک ہندو مصنفDr. N.K. Singh نے لکھا ہے کہ ایک ہندوستانی صوفی حضرت شیخ ابوسعد ابوالخیر نے ایک حقیقی صوفی کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
“That is the true Man of God, who sits in the midst of his fellowmen, and rises up and eats and sleeps and buys and sells and gives and takes in the bazaars amongst other folk, and yet is never for one moment forgetful of God” .
(Dr. N. K. SINGH: SUFIS of India, Pakistan and Bangladesh. Vol. One
First Edition – 2002. (Preface) PP. X – XI.)
شیخ ابو سعد ابوالخیر کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ طوطیِ ہند حضرت ابوالحسن یمین الدین امیر خسروؔ کے نمایاں افادات کا ذکر ضروری ہے۔ جنھوں نے حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے نامور مرید کی حیثیت سے شہرت دوام حاصل کی۔حضرت امیر خسروؔ کے تعلق سے حسن الدین احمد لکھتے ہیں:
’’ اگر سطحی طور پر دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر خسروؔ کی صوفیانہ منش شاعرانہ طبیعت اور دربارداری کے درمیان تضاد ہے، لیکن اس زمانے کے حالات اور امیر خسروؔ کے خاندانی ماحول پر نظر رکھی جائے ، ان کی زندگی کے تنوع کا تجزیہ کیا جائے اور جس انداز سے انھوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نبھایا اسے پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ان کی زندگی میں مکمل ہم آہنگی تھی‘‘
( مضمون: امیر خسرو کے درباری تعلقات ، مطبوعہ ماہنامہ آجکل نئی دہلی ، نومبر ۱۹۷۴ء ص ۴۴)
فارسی ، اردو اور سبک ہندی کے ادیب وشاعر ہونے کی وجہ سے امیر خسروؔ کاجو بلند مرتبہ ہے وہ تو ہے ہی لیکن موسیقی اور ساز وآواز کی دنیا میں انھوں نے جو کمالات دکھائے اور اختراعات کیں ان سے بھی صرف نظر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں نقی محمد خاں خورجوی لکھتے ہیںـ:
’’امیر خسروؔ نے سب سے پہلے عجمی موسیقی کے انداز پر ترانہ ، قول نقش ونگارِ گل وغیرہ گانے ایجاد کیے۔ باوجودیکہ اسلام میں علما نے موسیقی کو ناجائز قرار دیا تھا لیکن ایک گروہ صوفیوں کا ہر زمانے میں ایسا ہی رہا ہے جو تصوِ فانہ غزلیں گا کر روحانی سرور حاصل کیا کرتے تھے‘‘
( مضمون: امیر خسرو ؔ کی موسیقی، مطبوعہ ماہنامہ آجکل نئی دہلی نومبر ۱۹۷۴ء ص ۱۶)
ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امیر خسروؔ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور وہ شاعر سے زیادہ ایک صوفی بھی تھے ۔ سماع کی وجہ سے موسیقی کے بھی دلدادہ تھے شاعری اور موسیقی کا شمار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے لیکن انھیں سائنس داں اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے آلات موسیقی کی اختراعات کیں ۔ اگر آلات موسیقی ایجاد و اختراع کو آپ فنون لطیفہ کا سر ٹیفکٹ دیں گے تو پھر گراموفون ، ریڈیو ، ٹیلی فون، موبائیل اور کمپیوٹر وغیرہ سبھی فن لطیف کے خاندانی رشتہ دار بن جائیں گے ۔لہٰذا سماع وغیرہ میں کام آنے والے سبھی آلے فن لطیف کے مددگار ومعاون تو بنیں گے لیکن وہ اپنے مقام پر آلات سائنس(Scientific Devices) ہی کہلائیں گے۔
آلات موسیقی دراصل سائنسی اصولوں پر بنائے گئے ہیں اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے جنھیں دو خاص گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (۱) باد سازی(Wind Instrument) (۲) زہی ساز(Bow Instrument) پہلی قسم میں ساز بین ، بانسری ، فلوٹ وغیرہ ہیں جب کہ دوسری قسم میں خنجری وغیرہ ہیں ۔ انھیں میں ضربی ساز (Pluck Percussion) بھی ہیں۔ ضربی سازوں میں سِتار بہت مشہور ہے اور اس کے مؤجد حضرت امیر خسروؔ تھے۔ اس ساز میں راگ پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ امیر خسرو نے اپنی کتاب ’’ قِران السعدین‘‘ اور ’’نہہ سپہر‘‘ میں آلات موسیقی اور ان کے استعمال کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں جو ایک ماہر فن ہی لکھ سکتا تھا۔ امیر خسرو نے ایرانی عود اور وینا کے استفادے کے بعد سہ تار کی تشکیل کی ۔ امیر خسرو کی علم موسیقی میں مہارت کا ایک واضح ثبوت اس قطعے میں ملتا ہے جو ’’ اربعہ عناصر دواوین خسرو ‘‘ میں موجود ہے ۔ ’’خسروی سِتار ‘‘ کی ابتدائی شکل وہ کشمیری سِتار ہے جو صوفیانہ موسیقی (کلاسیکی موسیقی کشمیر) میں استعمال ہوتی ہے۔ اس حوالے سے عظمت حسین خاں میکش کا یہ اقتباس کافی اہمیت کا حامل ہے:
’’ صدیوں پہلے جب ہماری موسیقی نے الفاظ کا جامہ پہنا تو دُھرپد کی ابتدا ہوئی (جو موسیقی کی ایک صنف ہے ) جس میں دیوتاؤں کی استُتھی(تعریف)ہوتی تھی یا مذہبی واقعات کا ذکر ہوتا تھا لیکن دُھرپد شروع کرنے سے پہلے راگ کے وستار (پھیلاؤ) کے لیے چند الفاظ وضع کیے گئے جن میں عبادت یا پرارتھنا کا مفہوم یا تاثر تھا اس اندازکو ’’ الاپ جاری‘‘ کہا گیا ۔ حضرت امیر خسرو نے قوت ایجاد سے کام لے کر ’’الاپ جاری ‘‘ میں بھی ایک نئی چیز پیدا کردی جس کا نام ’’ترانہ‘‘ تھا ۔ ’’ خیال‘‘ گانے والے کے لیے ترانہ گانا بھی ضروری ہے ، کیوں کہ خیال اور ترانہ ، دونوں امیر خسرو کی مو سیقی سے منسوب ہیں‘‘
( مضمون : ترانہ اور خسرو۔ مطبوعہ قومی راج بمبئی ، خسرو نمبر نومبر ۱۹۷۵ء ص ۵۶)
قول اور قوالی بھی امیر خسرو کی ایجاد ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر خسرو اپنی سائنسی اختراعات کی بنا پر ساز وآواز دونوں میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔
اب ہم مولانا محمد جلال الدین رومیؔ کی عالمی شہرت یافتہ مثنویِ معنوی کی بنیاد پر ان کے صوفیانہ خیالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنس سے متعلق ان کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں مولانا روم کے سائنسی نظریات کو سمجھنے کے لیے ان کے فارسی کلام کا عام فہم اردو ترجمہ بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تجارب اجسام(The Gravity of Bodies) کا نظریہ انگریز سائنس داں اسحاق نیوٹن نے۱۶۶۶ء میں پیش کیاتھا کہ درخت سے نیچے گرنے والا سیب آخر زمین ہی کی طرف کیوں آتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں قوت کشش(Gravity) پائی جاتی ہے یہی واقعہ تمام اجسام کے ساتھ پیش آسکتا ہے ۔ اس ضمن میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ:
’’ اس مسئلہ کی نسبت تمام یورپ کا بلکہ تمام دنیا کا خیال ہے کہ نیوٹن کی ایجاد ہے ، لیکن لوگوں کو سن کر یہ حیرت ہوگی کہ سیکڑوں برس پہلے یہ خیال مولانا روم نے ظاہر کیا تھا‘‘
( سوانح مولانا روم : دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۱۰ء ص ۱۵۳)
مولانا جلال الدین رومی نے نیوٹن سے سیکڑوں سال قبل جس قانون قدرت کو اپنی مثنوی میں پیش کیا ہے اس کے فارسی اشعاراور اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
فارسی اشعار
جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش
جُفت جُفت و عاشقانِ جفت خویش
ہَست ہر جُفتے ز عالم جُفت خواہ
راست ہم چوں کہر با و برگ کاہ
آسماں گوید زمیں را مرحبا
با تو اَم چوں آہن و آہن ربا
اردو ترجمہ
تیرے حکمِ خاص سے جتنے ہیں اجزائے جہاں
ہم نوا کی جستجو میں غرق مثلِ عاشقاں
ہم نوا سب کو سکھائیں ہم نوائی کا سبق
جیسے بجلی اور پتی گھاس کی مانگے ہیں حق
آسماں دیتا ہے شاباشی زمینِ پست کو
جیسے آہن دیکھ لے آہن ربائے مست کو
اگر کوئی شخص حکیم کامل مولانا جلال الدین رومی کی روح پُر فتوح سے ان کے شاگرد علامہ اقبال کی طرح سوال کرے کہ یہ بتایئے کہ فضائے بسیط میں زمین کس طرح نظر آتی ہے تو پیر رومی ، مرید ہندی کو مخاطب کرکے فرمائیں گے کہ:
فارسی اشعار
گُفت سائل ، چوں بماندِ این خاک داں
درمیانِ این محیطِ آسماں
ہم چو قندیلے معلّق در ہَوا؟
نے بَر اسفل می رَوَد نَے بر عُلا
آں حکیمش گفت کز جذبِ سما
از جہاتِ شش (چھ) ، بماند اندر ہَوا
چوں ز مقناطیس قبّہ ریختہ
درمیاں ماند آہنے اویختہ
اردو ترجمہ
پوچھا سائل نے کہ قبلہ راز کیوں پوشیدہ ہے
یہ زمیں کیوں وسعتِ افلاک میں پاشیدہ ہے
کس لیے ہے وہ معلّق مثل قندیلِ ہَوا؟
نیچے جانے کو ہے راضی اور نہ اوپر راستہ
بولے اس سے یہ حکیمِ دیدہ ور سن تو ذرا
ہے چہوں جانب سے بے چاری کشش میں مبتلا
سوچ لے گنبد بنایا تو نے مقناطیس کا
اور بیچوں بیچ اک لوہے کا تختہ ہو پڑا
مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دور حاضر میں بہتوں کا مشاہدہ اور قیاس ہے کہ بالعموم ہماری نئی نسلوں کے پاس نہ وہ جنون عشق الٰہی ہے نہ شعور نعت نبی۔ دین وایمان کی وہ روح ، سائنسی بصیرت اور عبادتوں کا خضوع و خشوع دیکھنے کو نہیں ملتا جو ہمارے سیدھے سادے فرشتہ صفت بزرگوں میں پایا جاتا تھا۔ بالخصوص جب یہ ماحول ان تمام ممالک میں ہو، جو ’’اسلامی ‘‘ کہلاتے ہیں یا ان علاقوں اور خطہ ہائے زمین میں ہو جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاََ زیادہ ہے۔ مادیت ، گندی سیاست ، غلط روایات ، تخریب اخلاق ، خوف خدا کی کمی اور جذباتی بے راہ روی نے ہم سے اُس اطمینان قلب اور ذہنی یک سوئی کو چھین لیا ہے جو صحت مند فلسفۂ تصوف کی جان تھی۔ اب تو صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ موبائل ، انٹر نیٹ ، کمپیوٹر ،ٹی وی اور اسی طرح دوسرے سائنسی آلات کی مدد سے صوفیانہ خیالات اور تجربات کی عملی تبلیغ دانش مندانہ طورپرکی جائے ۔ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار کسی قدر کامیاب ثابت ہو۔
٭٭٭٭
مضمون نگار اردو کے جواں سال نثر نگار ، شاعر اور شعبۂ اردو ، ممبئی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
Sanah E Karbala ki Asri Ma’nwiat by Qamar Siddiqui
Articles
سانحۂ کربلا کی عصری معنویت
قمر صدیقی

۱۰ محرم ۶۱ ھجری میں کربلا کی سرزمین پر پیغمرِ اسلام حضرت محمد ؐ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے بنی نوع انسان کو انسانیت کی سربلندی کے لیے برائی کی خلاف جد جہد کا درس دیا۔ان کی اس قربانی کو تاقیامت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔امام حسینؓ نے اُس وقت جبراً تبدیل کی جارہی سیاسی، معاشی اور تہذیبی صورتِ حال کے خلاف عَلم بلند کیا تھا جب اسلامی طرزِ حکومت یعنی ’’خلافت‘‘ کو مٹانے کے اقدامات ہورہے تھے، جب خلافت ’ملوکیت‘ میں تبدیل ہورہی تھی، جب اسلامی تمدن کو غیر اسلامی اور خاندانی عصبیت کے رُخ پر موڑنے کے مذموم سازشیں کی جارہی تھیں، جب مذہبی مجالیس میں سب شتم نے اپنی جگہ بنا لی تھی، جب عہد اور بد عہدی میں تفریق کرنے والوںکو گوشہ نشینی پر مجبور کیا جانے لگا تھا ۔ ایک ایسے وقت میں جب برائی نے مختلف جہتوں سے اپنے پائوں پسارنے شروع کردیئے تھے، امام حسینؓ نے ان برائیوں کے سد باب کے لیے عملی قدم اٹھایا۔ کربلا کی تاریخ سے کیا اہل علم و دانش اور کیا ہم جیسے معمولی علم رکھنے والے سبھی واقف ہیں۔لہٰذا آج کے اس پر فتن دور میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہم غور کریں کہ کربلا کی تاریخ سے ہم نے کیا سیکھا ہے۔
دونوں عالمی جنگوں کی ہولناک تباہی اور ایٹمی دھماکوں کے سبب موت کی ہیبت کا آنکھوں میں بس جانا، خانہ جنگی، دہشت گردی اور ان سب وجوہات کی باعث موجودہ صدی میں انسانی زندگی کی بے وقعتی کی وجہ سے دانشوروں کی فکر، جذ بے اور اعصاب پر خاتمے کا احساس کچھ اس درجہ حاوی ہوگیا ہے کہ ہمارے دور کو ’’عہدِ مرگ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جانے لگا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارا ذہن فنا کےتصور سے بالکل عاری ہے بلکہ ہمارے حافظے میں آتشِ نمرود سے ریگزارِ کربلا تک کی داستانِ شجاعت اب بھی محفوظ ہے ۔ طوفانِ نوح کا علم سب کو ہے اور قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا اس سے بھی ہم آگاہ ہیں۔ لیکن آج جس طرح سماج دشمن اور انسان دشمن لوگوں نے ٹکنالوجی کے مخصوص استعمال کے ذریعے انسانوں کی موت کو اتنا سستا اور آسان بنا دیا ہے کے اس باعث خاتمے کے احساس نے انسان کو اندرسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صرف اکیسویں صدی کے اِن 18برسوں میںتشدد کے سبب اتنی اموات ہوئی ہیں ،کہ اتنی اموات پچھلے دو سو سال میں نہیں ہوئیں۔ شاید ولیم فاکنر نے صحیح کہا تھا: ’’آج ہر آدمی کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ میں کب کہاں بھَک سے اُڑ جائوں ‘‘۔
ایک ایسے دور میں جب احساسِ مرگ نہ صرف انسان کے ذہن بلکہ اعصاب پر بھی سوار ہوچکا ہے، ’کربلا‘ سے حاصل کیے گئے سبق کا اعادہ کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ کربلا تاریخ کا ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ مسلسل جد و جہد کا استعارہ بھی ہے۔
سال بیلو نے تحریر کیا تھا کہ ’’ انسان ہونے کے کیا معنی ہیں؟ایک شہر میں، ایک صدی میں، ایک ہجوم میں ، ایک تغیر میں جسے سائنس نے ایک منٹ میں بدل دیا ہے۔ ایک منظم قوت جس نے کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جو میکانکی عمل سے وجود میں آئی ہے۔ ایک ایسا سماج ہے جس میں برادری نہیں ہے اور فرد کی حیثیت ختم ہورہی ہے۔‘‘ یہاں بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ بشمول سماج و فرد تاریخ ، ادب ، آرٹ اور انسان کی ایک منفی تعبیر و تشریح سامنے آرہی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے نظریات کو فروغ دینے کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہے؟ آخر کیوں رائج قدروں کی نفی کرتے ہوئے انسان کو محض طبقاتی کشمکش، جنسی جبلت اور لاشعوری جبریت کا پُتلا گردانا جا رہا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ ساری صورتِ حال سائنسی دریافتوں اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ ٹیکنالوجی شروع سے ہی صاحبِ زر کے ہاتھوں گروی رہی ہے۔ یورپ کے نشاۃالثانیہ کے بعد جب وہاں کےعوام م چرچ اور سرمایہ داروں کی جکڑ بندی سے آزاد ہوئے تو ٹکنالوجی کے اسپانسرس بہت گھبرائے۔ انھوں نے اس صورتِ حال سے بچائو کی یہ تدبیر کی کہ ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ نظریات بھی اسپانسر کرنے لگے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب یورپ کے دیہات اُجڑ رہے تھے اور شہر کانکریٹ کے جنگل بن رہے تھے اس وقت ایک طرف مساوات ، بھائی چارے اور انسانی حقوق کی باتیں ہورہی تھیں اور دوسری طرف مزدوروں کے حقوق پامال ہورہے تھے۔ جب یہی مزدور بھوک سے بلبلا کر احتجاج کرتے تو نظریات کی افیون انھیں سلادینے کے لیے کارگر ثابت ہوتی۔ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ ہمارے زمانے میں بودریلا جیسے دانشور نے عراق امریکہ جنگ سے متعلق یہ تحریر کیا:
Gulf war did not happen, and was only as televized simulation of a war
(خلیجی جنگ واقع نہیں ہوئی ، یہ صرف ٹیلی ویژن کے ذریعے پیش کی گئی جنگ کی شبییہ محض تھی۔)
ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے زمانے میں اظہار و دانش کے تقریباً تمام ذرائع فروخت ہوچکے ہیں۔ دانشور، تخلیق کار، صحافی ایک لمبی فہرست ہے بازار میں اپنے دام لگانے والوں کی۔ دراصل کارپوریٹ ایک ایسا سماج تیار کررہا ہے جو مارکیٹ یا بازاری سماج ہو۔ جہاں ٹوتھ پیسٹ سے لے کر انسانی رشتے سبھی بازار کے بکائو مال بن جائیں۔اس کام کی ابتدا دنیا کو ایک عالمی گائوں بنانے کی کوشش سے شروع ہوچکی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس نئے سماج کی تشکیل کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس خزانے تک پہنچنے کا پاس ورڈ موجود ہے۔ وہ اپنی اتھاہ دولت کے بوتے پر پیپسی کلچر رائج کررہے ہیں، ناچنے گانے والوں کو عوامی ہیرو بنا رہے ہیں، ٹی وی چینلس، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے اپنے من چاہے رواج کو عوام میں رائج کررہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ تازہ ہوا ہر ذی نفس کی بنیادی ضرورت ہے مگر تازہ ہوا کے نام پر طرح طرح کی کثافت کو برداشت کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہمیں اس ثقافتی ، سیاسی اور معاشی یلغار کا مقابلہ کبھی نہ کبھی کرنا ہی ہوگا۔ ایک ایسی یلغار جو صرف لامحدود ہی نہیں متنوع جہات کی حامل بھی ہے اور جس کے پاس وقتی فوائد اور سرور و نشاط کی الف لیلیٰ بھی ہے۔
اس برائی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ہمیں ایندھن تاریخ سے ہی حاصل کرنا ہوگا۔ امام حسینؓ سے ہم آج بھی برائی کے خلاف عَلم بلند کرنے کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ کربلا کی سرزمین کو اپنے لہو کی خوشبو سے معطر کرتے وقت امامَ حسینؓ اور ان کے قافلے کا مقصد نہ حصولِ خلافت تھا نہ حصولِ زر بلکہ ان کے نزدیک تو ایک عظیم مقصد تھا، تبدیلی کے اس عمل کے خلاف سینہ سپر ہوجانا جس کا غالب پہلو برائی تھی۔
آج ہمارے سامنے بھی تبدیلی کا ویسا ہی عمل جاری ہے جس میں غالب پہلو برائی کا ہی ہے۔ مگر ہمارے درمیان امامِ حسینؓ نہیں ہیں ، ہوبھی نہیں سکتے:
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گر چہ ہے تابدار ابھی گیسوے دجلہ و فُرات
لیکن اس پر فتن دور میں ہم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ برا کو برا کہیں۔ ہر چند کہ آہ بھی بھرنے میں بدنام ہونے کا خطرہ ہے تاہم یہ بھی تو سچ ہے :
مشکیزے سے پیاس کا رشتہ بہت پرانا ہے
_______________________________________
مضمون نگارمعروف ادبہ سہ ماہی ’’اردو چینل‘‘ اور ادبی پورٹل ’’اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘کے مدیر ہیں۔
Ganga Jamuni Tahzeeb ki Tashkeel mein Sufia
Articles
گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل میں صوفیائے کرام کاحصہ ازپروفیسر صاحب علی

ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ سے مذہبی اورروحانی عظمت کی حامل رہی ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے رشی منی اورصوفی سنتوں نے تصوف اوربھکتی کی تعلیمات کو عام کرنے میں اہم کرداراداکیاہے ۔ہندودھرم کے رشی منی اورسنت نے عبادت وریاضت کے علاوہ نفس کشی میں سرگرم عمل رہے۔بدھ دھرم اورسکھ مذہب کی اشاعت اور تعلیمات بھی ہندوستان ہی سے شروع ہوئیں ۔ مسلمان صوفی اوربزرگان دین نے بھی اسی دیارِ ہند کو اپنی رشدوہدایت ، اخلاص ومحبت کی تعلیم وترویج کے لیے پسندکیا۔
مذہب ِ اسلام جنوبی ہندوستان میں پہلے پہل ملابار کے ساحلی علاقوں میں پھیلا۔ اِنھیں ابتدائی ایام میں خانہ بدوش زندگی گزارنے والے صوفیائے کرام نے رشدوہدایت کے ساتھ ساتھ صلح وآشتی ،محبت وبھائی چارگی کی تعلیم کی تبلیغ واشاعت شروع کی ۔ ہندوستان میں باہرسے تشریف لانے والے سب سے پہلے صوفی غالباً حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین چشتی اجمیری ہیں جوراجا پرتھو ی راج کے عہد حکومت میں 592ہجری میں اجمیرتشریف لائے اورمحبت واخلاق کا سبق دینا شروع کیا ۔ آپ کی خانقاہ میں امیروغریب اورحکومت کے اراکین سبھی لوگ حاضری دیتے اورفیضیاب ہوتے ۔ آج بھی لاکھوں بندگانِ خدا بلاتفریق مذہب وملت آپ کے آستانے اجمیرشریف پرحاضر ہوتے ہیں اورخیروبرکت حاصل کرتے ہیں۔خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی تعلیمات کے حوالے سے وفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے کہ :
’’ وہ دہلی جس پر اہل دہلی کا تصرف تھا اور کفر والحاد کی ہوا میں پوری فضا بکھری ہوئی تھی ۔حضرت خواجہ کے چند روزہ قیام میںسات سو سے زیادہ ہندو ان کے فیض سے مشرف بہ اسلام ہوئے اور اجمیر میں جو پہلی جماعت ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئی ان میں راجہ کا پجاری اور گُرو بھی تھا‘‘
( پریچنگ آف اسلام اردو ترجمہ ص ۲۸۱)
حضرت خواجہ غریب نوازنے متعدد مریدوںکواجازت وخلافت سے نوازااوراپنا جانشیں حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ کو بنایااوردہلی میں رہنے کی تاکید فرمائی۔
ایک طرف دہلی میں حضرت قطب الدین بختیارکاکیؒ جو بے نیازی اور ضبط نفس کی ایک زندہ مثال تھے، اپنے صوفیانہ خیالات کو عوام میں پھیلارہے تھے تودوسری طرف آپ کے مرید وجانشیں حضرت بابافریدالدین گنج شکرؒ پنجاب میں رشدوہدایت اورتبلیغ اسلام کی اشاعت کررہے تھے ۔ کچھ ہی عرصے میں ہندوستان کے مختلف حصوں اورخطوںمیں حضرت کے مریدین وخلفا لوگوں میں خلوص ومحبت، باہمی اتحاد اوراطاعت خداوندی کی تبلیغ کرنے لگے ۔ حضرت بابا فریدؒ نے اپنا جانشیں اپنے چہیتے مرید وخلیفہ حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاکو نامزد کیا اوردہلی کی ولایت آپ کو تفویض کی ۔ آپ کی خدمت میں اراکینِ سلطنت اوربادشاہ وقت خیروبرکت کے لیے حاضرہوتے تو آپ انھیں عدل وانصاف ، رعایاپروری اورغربانوازی کی تاکید فرماتے۔ آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے مریدین اورخلفا کوتبرکات سے نوازا اوران کو خاص خاص مقامات پر رشدوہدایت کرنے کا حکم صادرفرمایا۔حضرت برہان الدین غریبؒکو دکن کاعلاقہ عطافرمایا ۔ حضرت اخی سراج کو بنگال ، جن کے مرید وخلیفہ علاء الحق پنڈوی ؒ سے یوپی اوربہارکا خطہ فیضیاب ہوا۔ حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلی کو اپنا جانشیں بنایا۔ ان تمام صوفیائے کرام نے تصوف کی تعلیمات عام کرنے میں اہم رول اداکیا ۔ ان کی خانقاہیں آج بھی رشدوہدایت کا سرچشمہ بنی ہوئی ہیں۔صوفیا کی خانقاہوں کے تعلق سے پروفیسر نثاراحمد فاروقی نے لکھا ہے کہ :
’’چشتی صوفیانے اپنے خلفا کو دوردراز علاقوں میں بھیج کررشدوہدایت کافیضان عام کردیاتھا۔ آٹھویں صدی ہجری کے طلوع ہونے تک بنگال کے مشرقی علاقے میں جنوب میں دیوگری اورگلبرگہ ، شمال میں کشمیر اورجنوب مغرب میں گجرات کاٹھیاواڑ تک چشتی خانقاہیں قائم ہوچکی تھیں۔ … چشتی خانقاہوں میں جوگیوںکی آمدورفت تھی اوران سے روحانی تجربوں کے اصول ورسوم پر تبادلۂ خیال بھی ہوتاتھا۔‘‘
(اردواورمشترکہ ہندوستانی تہذیب : مرتبہ ڈاکٹرکامل قریشی،ص:216-17)
تاریخ شاہد ہے کہ محمد تغلق نے جب دیوگری کو اپنی سلطنت کادارالخلافہ بنایاتو جنوبی ہند میں صوفی سلسلے کو کافی تقویت ملی ۔ حضرت برہان الدین غریب ؒ نے دکن اورمہاراشٹرمیں تصوف کی تعلیمات اورپیغام حق کاکام انجام دیا۔ آپ دیوگری اورخلدآباد کے علاقے میں تقریباً 28برس تک رشد وہدایت کا کام انجام دیتے رہے ۔ اکابر صوفیا اور مشائخ میں مولانا زرداری ،امیرحسن سنجری ، سید یوسف والدخواجہ بندہ نواز گیسودراز ، خواجہ حسین اورخواجہ عمرشمال کی جانب سے دارالخلافہ دیوگری میں تشریف لائے ۔ ان صوفیائے کرام نے یہاں کی سماجی ، تہذیبی ادبی ، مذہبی اوراخلاقی زندگی کو متاثرکیا۔ تصوف کی تعلیمات کے ذریعے ربط ضبط بڑھاجس سے شمالی اورجنوبی ہند کی تہذیبی اورلسانی مشکلیں کسی حد تک دورہوگئیںلہٰذا مختلف تہذیبوں اورمذہبوں میں میل ملاپ ہوا۔ ایک دوسرے کو جاننے اورسمجھنے کی راستے ہموارہوئے چنانچہ لوگوں کے دلوںمیں بغض وتعصب اورنفرت کی جگہ رفتہ رفتہ بھائی چارگی نے لے لی۔اصل میں صوفیاے کرام نے اپنی روحانی طاقت ،اپنے کرداراور اپنی گفتار،اپنے ایثار اور اپنے خلوص و رواداری سے ایسی فضا خلق کی جو امن و آشتی، تزکیہ نفس اور اصلاح معاشرہ کی ضامن تھی۔
صوفیائے کرام کی خانقاہیں مختلف مذاہب اورمختلف زبان بولنے والوں کی آماجگاہ ہوتی تھیںاوراب بھی ہیں ۔ یہیں پر مختلف تہذیبوں اورزبانوں کا آپسی لین دین ہوا۔ ان کی خانقاہیں بنی نوع انسان کی ہم آہنگی کاذریعہ بنیں ۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئے ۔ ذات پات اوررنگ ونسل سے ہٹ کر تمام انسانوں کے لیے صوفیانے عزت ووقار چاہا۔چنانچہ ان کی عوامی ہمدردی ، خدمت خلق، روادارانہ اخلاق اورحُسنِ سلوک نے اُنھیں سماج میں ایک معتبر مقام دیا۔ صوفیائے کرام کی عملی زندگی غیرمسلموں کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ تھی ۔ اس لیے غیروں کا متاثرہونا لازمی تھا ۔ عملی زندگی میں صوفیوں اورسادھوسنتوں میں کافی مشابہت رہی ہے۔ ایک طرف پیرومرشد کارشتہ ہے تودوسری طرف گرو اورچیلے کا۔یہی وہ طور تھے جن کے تحت کبھی شنکراچاریہ اوررامانج نے بھکتی تحریک کے ذریعے منزل حقیقت تک پہنچنے کا راستہ بتایااورکبھی پریم مارگی سنتوں نے ذات پات کی تفریق کے خلاف بغاوت کانعرہ بلند کیا اورتمام انسانوںمیں محبت اوراخوت کی تبلیغ کوبنیادی مقصد قراردیا۔ہم یہاں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے صوفی سنت گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار ہیں۔
صوفیائے کرام نے تصوف کی تعلیمات کی نشرواشاعت پر زوردیا ۔ ان کے نزدیک فقروقناعت ، تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب، نفسیاتی خواہشات سے پرہیز اورمعبودحقیقی کی عبادت وریاضت کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔صوفیا تصوف کی تعلیمات کے تحت ملک کے عوام وخواص میں اتحادواتفاق اورجذباتی ہم آہنگی قائم کرنا چاہتے تھے اورسارے ملک کو انسانیت کے رشتے میں جوڑنا چاہتے تھے ۔ غالباً اسی لیے خانقاہوں پر قوالی کی محفلیں منعقد کی جانے لگیں ۔ مزاروں پر پھولوںکی چادریںچڑھائی جانے لگیں ۔ گاگراورصندل وغیرہ کی رسمیں اداکی جانے لگیں۔اس طرح وطن سے محبت کاجذبہ بھی ابھرا اوروطنیت کا شعوربھی جاگا۔
گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تصوف کی تعلیمات کے بعض پہلو بھکتی تحریک سے گہری مماثلت رکھتے تھے ۔ یعنی دونوں طرزفکر میں انسانی عظمت ومساوات ، احترامِ آدم ورواداری، ایک دوسرے سے محبت اورایسے عشق کاتصور پایاجاتاہے جس میں ہرطرح کے امتیازات مٹ جاتے ہیں ، خاص طورسے تصوف میں تو منافرت کے بجائے محبت ،وسیع المشربی ، عوام دوستی اورآزاد خیالی کو اس حد تک اہمیت دی جانے لگی کہ ہرمذہب کو محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کاذریعہ سمجھاگیا اوریہاں تک کہہ دیا گیا اگر خلوصِ دل سے خدا کی عبادت کی جائے تو وہ بت خانے میں بھی ہے اورکلیسا میں بھی ۔ اس طرح یہ با ت واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام ہرمذہب کی انفرادیت کے قائل بھی تھے اورایک دوسرے میں اتحاد واتفاق اورجذباتی ہم آہنگی بھی قائم ودائم دیکھنا چاہتے تھے ۔یہی اصل میں گنگا جمنی تہذیب ہے ۔اس تہذیب کی رواداری کے تمام عناصر ہمارے صوفی سنتوں کی عملی زندگی میںدیکھنے کو ملتے ہیں۔
حضرت بندہ نواز گیسودراز جید عالمِ دین تھے ۔ آپ نے اسلامیات کے علاوہ ہندودھرم کامطالعہ بھی کیاتھا اورسنسکرت زبان سے بھی واقف تھے ۔ آپ نے دکن میں لوگوں کی سماجی ، مذہبی اورروحانی زندگی پر زبردست اثر چھوڑاہے ۔ آپ کی خانقاہ سے تمام لوگ آج بھی فیض حاصل کرتے ہیں ۔آپ کی رواداری اوروسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ آپ ایسے لوگوں کی سخت تنقید کرتے تھے جو ضدی اورکٹر مزاج ہوتے تھے اورجو مختلف مذاہب اورزبان کے میل جول میں مانع ہوتے ۔ رواداری کی ایک مثال سید محمد غوث گوالیاری کی بھی ہے ۔آپ ہندومسلم دونوں مذاہب کے ماہرتھے ۔ حضرت گوالیاری نے ہندوئوں کے تصوف کی ایک کتاب ’’امرت کنڈ‘‘ کافارسی میں ترجمہ کرکے مسلم صوفیوں کے سامنے پیش کیااس ترجمے کے ذریعے ہندو یوگی روایات بھی تصوف میں شامل ہوگئیں جو تصوف کے فروغ میں نہایت موثر ثابت ہوئیں۔ان کی خانقاہ میں ہندواورمسلمان دونوںکو ایک نظرسے دیکھاجاتاتھا ،کہاجاتاہے کہ مشہور موسیقارتان سین ،حضرت گوالیاری کے بڑے معتقد تھے ۔ اسی طرح اجمیرکے حمیدالدین شیخ نے اپنے ایک مریدکو صرف اس لیے اپنے حلقے سے خارج کردیا تھا کہ وہ مذہب کی ثانوی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتاتھا اورغیر مسلم کی اصل روح کے اندر جھانکنے سے قاصرتھا۔ مذکورہ گفتگوسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم صوفیوں کے دیگر تمام مذاہب کے سادھوسنتوں ،رشی منیوں اورگروئوں سے تعلقات استوارتھے ۔ وہ آپس میں عبادت وریاضت اورروحانی معاملات میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے ۔ اصل میں ان میں باہم محبت بھی ہوتی تھی۔
عرض کیاجاچکاہے کہ مسلمانوں کی طرح ہندوئوں میں بھی اصلاحی اورروحانی تحریکیں شروع ہوئی تھیں۔شمالی ہند میں جے دیو، میرابائی ، رامانند ،کبیر مہاراشٹرااورگجرات میں گیانیشور، بنگال میں جیتنیہ اورکرناٹک میںلنکایت کی تعلیمات عوام الناس کے لیے تھیں۔بلاتفریق مذہب وملت ہرطبقے کے لوگوںکو ان تحریکوںمیں شریک ہونے کی دعوت عام تھی ۔ان تحریکوںمیںہندوئوںکے علاوہ مسلمانوںنے بھی شرکت کی۔ یہ خیال عام ہے کہ انھیں تحریکوں سے مسلمانوںمیں ہندی شاعری مقبول ہوئی۔چنانچہ مُلّا قطبن، ملک محمد جائسی ،عبدالرحیم خانخاناں،علاء الدین ،شیخ عثمان، شیخ نبی ،نورمحمد اورفاصل شاہ وغیرہ نے اپنی ہندی شاعری میں ہندوئوں اورمسلمانوںکو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کیں۔ مختصریہ کہ ہندوئوں کی اصلاحی اورروحانی تحریکوںکافیضان ہرایک کے لیے عام تھاخواہ وہ کسی بھی مذہب اورپنتھ کاپیروکارہو۔
اس بات کواورواضح کرتاچلوں کہ صوفیائے کرام سماج اور گنگا جمنی تہذیب کی تشکیل میں کس طرح اپنارول اداکرتے رہے ؟ انھیں قوت کہاں سے ملتی رہی کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہوتے گئے ۔ قرآن اور حدیث سے اس کے اشارے ملتے ہیں کہ صوفیا کا مطمحِ نظر اللہ رب العزت سے محبت کرناتھا اوربس۔ خداسے محبت کرنے کاطریقہ خود خدانے بتایاہے کہ اس کے نبی کی اتباع کی جائے اوراتباع اُسی صورت میں ممکن ہے کہ نبی سے محبت کی جائے ۔ معلوم ہواکہ اللہ سے محبت کرنے کے لیے نبی سے محبت کرنا لازمی ہے ۔ یعنی بغیرعشقِ محمد خداپر ستی چہ معنی دارد ،اورجب آدمی اللہ اوراس کے رسول دونوں سے والہانہ محبت کرنے لگتاہے تو اس کے اورخدا کے درمیان فاصلے ختم ہوجاتے ہیں ۔ نگارخانۂ رحمت کے دَراُس کے لیے واہوجاتے ہیں ، اوربقول علامہ اقبال اُس کاہاتھ خداکاہاتھ ہوجاتاہے ۔اس منزل پر پہنچنے کے بعد صوفیائے کرام تہذیب اورمعاشرے کی تشکیل واصلاح کاکام اللہ کی اُسی دی ہوئی قوت سے لیتے تھے ۔ چنانچہ وہ جس طرف بھی نظرِکرم کرتے تھے قوم کی قوم معاشرے کامعاشرہ سنورجاتاتھا اورقوموںکے ذہن وشعورمیں انقلاب ِ عظیم برپا ہوجاتا تھا۔ اس حقیقت کااعتراف ہمارے علمائے دین نے کیاہے کہ صوفیائے کرام اوراولیائے عظام کی طاقت وتوانائی کاندازہ لگانا محال ہے۔تاہم مولوی عبدالحق اشارہ کرتے ہیںکہ:
’’…علماوامرابلکہ حکومتوں اوربادشاہوںسے بھی وہ کام نہیں ہوسکتاجوفقیراوردرویش کرگزرتے ہیں۔ بادشاہ کادربار خاص ہوتاہے اورفقیرکادربارعام ہے، جہاںبڑے چھوٹے، امیرغریب، عالم جاہل کاکوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ بادشاہ جان ومال کامالک ہے ۔ لیکن فقیر کاقبضہ دلوںپرہوتاہے اس لیے ان کااثرمحدودہوتاہے اوراِن کابے پایاں۔ اوریہی سبب ہے کہ درویش کو وہ قوت واقتدارحاصل ہوجاتاہے کہ بڑے بڑے جبّاراورباثروت بادشاہوں کو بھی اس کے سامنے سر جھکاناپڑتا ہے‘‘
(ابتدائی نشوونمامیں صوفیائے کرام کاحصہ،ص:7)
صوفیائے کرام نے اپنے حسن سلوک سے سماج میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں مثلاً بھید بھائو، اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کو دورکیا۔ ان کاسلوک سب کے ساتھ یکساں تھا خواہ وہ ہندوہویامسلمان ، آزادہویاغلام ، چھوٹاہویابڑا، شاہ ہویاگدا، غریب ہویامحروم سب کے لیے ان کا سلوک ہمدردانہ تھا۔ انھوں نے اپنی روحانی طاقت سے تمام لوگوںکے لیے خوش گوار سماجی ماحول پیداکیا۔ ایساماحول جہاں اتحادواتفاق اورجذباتی ہم آہنگی ہو۔ نظیراکبرآبادی کے الفاظ میں صوفیانے اس بات کی تبلیغ کی:
جھگڑانہ کرے مذہب وملت کاکوئی یاں
جس راہ میں جوآن پڑے خوش رہے ہرآں
زنّار گلے میں کہ بغل بیچ ہو قرآں
عاشق تو قلندرہے نہ ہندونہ مسلماں
کافرنہ کوئی صاحب اسلام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
مذکورہ بالا معروضات سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات جو ہر دور میں انسانی قدروں کی تشکیل اور تزکیۂ قلب و تطہیر کی ضامن رہی ہے جو ذات پات ،مذہب اور عقیدے کی قیود سے آزاد بھی تھیں ۔قرون وسطیٰ میں ہندوستان کی روحانی فضا میںہماری گنگا جمنی تہذیب نشوونما پائی۔ اس کے برعکس جب ہم موجودہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تہذیب سیاسی، سماجی ،معاشی اور اخلاقی ہر طور سے ذات پات، فرقہ وارانہ گروہ بندیوں میں جکڑی ہوئی ہے ۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان گونا گوں مسائل کو حل کرنے کے لیے ہندوستانی معاشرے کو صوفیا اور بھکتی سنتوں کی روحانی تعلیمات کی جتنی ضرورت آج درپیش ہے اتنی ضرورت شاید ماضی میں بھی نہیں رہی ہوگی۔
مختصر یہ کہ صوفیوں اورسنتوں کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کرہمیں اس پر عمل پیراہونا چاہیے تاکہ ایک پُر امن اور ہم آہنگ سماج کی تشکیل میںجو ناقابل مصالحت اختلافات در آرہے ہیں ان کا خاتمہ ہو۔ انسان دوستی ،اعتدال پسندی ،صلح وآشتی اورخلوص ومحبت کا استحکام اُسی وقت ممکن ہے جب ہم تصوف کے سیاق میں صوفیاے کرام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔مزید براں اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرارہتے ہوئے دوسروںکے مذاہب کااحترام بھی کریں کیونکہ تہذیبی ہم آہنگی کے فروغ میں مذہبی رواداری کا جذبہ ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے ،یہ جذبہ اخوت، بھائی چارگی ، مساوات کے مقصد کی نشوونما کرسکتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک اچھے سماج کی تشکیل اور دور حاضر کے اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی طور سے پسماندہ معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ہمیں صوفیوں اور سنتوں کی تعلیمات کوعملی جامہ پہنانے کا عہد علامہ اقبال کے ان اشعارسے کرنا چاہیے:
آ ، غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں نقشِ دُوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ ، اِک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
٭٭٭
Qurratul Haider : The memories
Articles
قرۃالعین حیدر:یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
جمیل اختر

21 اگست 2018، عینی آپا کو اس دارفانی سے کوچ کیے گیارہ سال ہو جائیں گے۔ وقت کس سرعت کے ساتھ گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ جیسے لگا ابھی کل کی بات ہے۔ ان کی یاد دل میں ایسے بسی ہوئی ہے جیسے لگتا ہے کہ میں عینی آپا کے آس پاس ہی جی رہا ہوں۔ ان کی آواز، ان کے قہقہے، ان کی گفتگو، ان کی شفقت و محبت، ان کا روٹھنا، غصہ کرنا اور مان جانا، ان کے بات کرنے کا انداز، جیسے لگ رہا ہو کہ میں ہر لمحہ ان سے مکالمہ کر رہا ہوں۔ وہ کبھی ہنس کے، کبھی خوش دلی سے، کبھی کچھ خفگی سے، کبھی بے حد ناراض ہو کر مجھ سے ہر موضوع پر گفتگو کرتی جا رہی ہیں۔ ان کا ہنستا بولتا چہرہ اور جیتا جاگتا وجود مجھے اپنے حصار میں ایسے لیے ہوا ہے کہ میں کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اس سے باہر نہیں نکال پاتا۔ اور سچائی یہی ہے کہ میرے شب و روز عینی آپا کے ساتھ ہی بسر ہو رہے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو وہ جاتے جاتے مجھے ایک بڑی ذمہ داری جو سونپ گئیں۔ کلیات کی تحقیق و تدوین و ترتیب کی ذمہ داری۔ جس کی ابتدا ان کی حیات میں ان کی رضامندی سے ہو چکی تھی اور چار جلدیں ان کے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے شائع بھی ہو چکی تھیں۔ اور چند ماہ بعد ہی آپا اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔
چلتے چلتے ایک بات اور گوش گزار کرتا چلوں کہ کلیات کی تدوین کے سلسلے میں بھی اس کام کو کرنے کے لیے کئی لوگوں نے ان سے اجازت چاہی تھی مگر انھوں نے منع کر دیا تھا۔ حتیٰ یہ کہ کونسل بھی یہ کام کرنا چاہتی تھی اور اس نے مخمور سعیدی صاحب کو ان کے پاس ان کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا مگر اس وقت انھوں نے ان کو منع کر دیا تھا۔ اس لیے کونسل کو جب میں نے یہ پروجیکٹ دیا تھا تو کونسل نے پہلی شرط ان سے تحریری اجازت نامہ ہی لینے کو کیا تھا اور جب اس خواہش کا اظہار میں نے آپا سے کیا تو انھوں نے بخوشی تحریری اجازت نامہ لکھ کر دے دیا جس کی پرخاش کئی لوگوں کو ہوئی تھی۔
ایک دن مجھ سے ہم کلام ہوئیں اور کہنے لگیں کلیات کی بقیہ جلدیں کب تک منظر عام پر آئیں گی۔ میں نے کہا آپا! چار جلدوں کی خوشی تو آپ برداشت نہیں کر سکیں کیا بقیہ کا بار آپ اٹھا پائیں گی۔ بولیں بات یہ نہیں ہے کہ میں خوشی برداشت نہیں کر سکی بلکہ سچائی یہ ہے کہ آپ جیسے ذمہ دار اور ایماندار نوجوان محقق کے ہاتھوں میں یہ ذمہ داری سونپ کر میں مطمئن ہو گئی اور یہ یقین ہو گیا کہ اب تک جس محنت، لگن، ایمانداری اور جذبۂ خلوص سے آپ نے یہ کام کیا ہے آئندہ بھی اس میں کوئی کمی باقی نہیں رہنے دیں گے (آپا کبھی اپنے کسی عزیز کے لیے بھی تم کا لفظ استعمال نہیں کرتی تھیں۔ یہ ان کی تہذیبی اقدار و روایت کے خلاف تھا اور مجھ جیسے نئے لکھنے والوں کی بے حد قدر اور حوصلہ افزائی کرتی تھیں)۔ جب میری حیات میں آپ نے اتنے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھایا کہ میں خود آپ کی تحقیقی کاوشوں کو دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ چھپی ہوئی وہ تمام چیزیں جو اب تک رسالوں کے گرد آلود انبار میں چھپی ہوئی تھیں اسے تھپکیاں دے دے کر باہر نکال لائے۔ بغیر کسی مالی مدد کے آپ نے پہاڑ کاٹے تھے اور کئی دریا عبور کیے تھے، تبھی تو گوہر نایاب ادب کے قاری کے لیے نکال کر لائے تھے۔ آج کلیات کی ان چار جلدوں کی ادبی دنیا میں اتنی دھوم مچی ہوئی ہے کہ میری روح اپنے تخلیقی کارنامے پر کم اور آپ کی محققانہ کاوشوں پر زیادہ خوش ہو رہی ہے۔ اور میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ آپ کی سعی و محنت میرے وسیلے سے آپ کی شہرت دوام کا ذریعہ بنے۔ ’آئینۂ جہاں‘ کی یہ چاروں جلدیں ادب کے قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ ہیں۔
پھر گویا ہوئیں بقیہ جلدیں کب تک منظر عام پر آئیں گی۔ میں نے کہا آپ کی اجازت کا انتظار تھا۔ اب مل گئی ہے تو پھر سمجھیے جلد ہی منزل سر ہوگی۔ ویسے ایک بات بتا دوں آپا! میں اس درمیان اس طرف سے غافل ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ خموشی سے اپنا کام کر رہا تھا بالکل آپ کی طرح گوشہ نشیں ہو کر۔ لیکن آپ کا دم بھرنے والے لوگوں یا اداروں کی طرف سے ایسی کوئی آفر نہیں آئی کہ تم کام جاری رکھو ہم تعاون کریں گے۔ آپ کے تعزیتی جلسے میں اردو کے چھوٹے بڑے اداروں نے اپنی بساط سے بڑھ چڑھ کر بڑے بڑے دعوے کیے تھے جیسے وہ آپ کو خوش کرنا چاہتے ہوں کہ دیکھو تم مرنے کے بعد بھی مجھے کس قدر عزیز ہو۔ سبھی دعوے جھوٹے اور کھوکھلے نکلے۔ کسی ادارے نے بھی سوائے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آپ کے شایان شان کوئی کام نہیں کیا۔ جامعہ قابل تعریف ہے اور اس کے وائس چانسلر (اس وقت پروفیسر مشیرالحسن) جنھوں نے آپ کی قدر و قیمت کو پہچانا۔ باب قرۃالعین حیدر، میوزیم، قرۃالعین حیدر چیئر تاکہ آپ پر کام کرنے والا کوئی شخص اس پر فائز ہو کر آپ کی شان کو مزید روشن کر سکے۔ لیکن یہاں بھی مصلحت دنیاداری نے نہ میوزیم کا نگراں اور نہ ہی آپ کے نام قائم چیئر پر کسی ایسے شخص کو فائز کیا جو علم و فضل میں کوئی مرتبہ ہی رکھتا ہو اور جسے آپ کے نام اور کارنامے کا ہی کوئی علم ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ کے گم شدہ ادبی اثاثے کی بازیافت شاید اتنی مشکل نہیں ہوتی اور جوکھم بھری مہم جوئی کو ایک بڑے ادارے کی سرپرستی حاصل ہونے سے دشوار مراحل ذرا آسان ہو جاتے۔ آپ ہی کے لفظوں میں:
رموز مملکت خیش خسرواں دانند
آپ کی قدردانی کی یہ تمام چیزیں مستحکم یادگار کے طور پر کی گئی ہیں۔ بقیوں نے تو صرف ڈھول پیٹا ہے اور کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ کسی رسالے نے ایک خاص نمبر بھی آپ پر ڈھنگ کا نہیں نکالا ہے اور نہ کسی ناقد نے کوئی تازہ بہ تازہ اچھوتا ناقدانہ مضمون ہی آپ پر لکھا جس سے آپ کی عظمت کا اعتراف ہی ہو سکے۔ ہاں، البتہ چند تعزیتی قسم کے مضامین لے کر لوگ دوڑے ضرور جس سے ان کے اور آپ کے روابط پر روشنی پڑتی ہو۔ ورنہ زیادہ تر رسالوں نے پرانے مضامین ہی کو نئے خول میں ڈال کر آپ پر گوشے اور نمبر نکالنے کی ہوڑ میں شامل ہوئے۔ اس لیے کہ یہ منفعت کا سودا تھا۔ آپ پر آپ کی حیات میں جو کچھ لکھا گیا اس شکایت کے باوجود کہ ناقدوں نے آپ کے ساتھ انصاف نہیں کیا اب لکھے جا رہے مضامین سے بدرجہا بہتر ہے۔ اب تو آپ کے بارے میں ناقدوں کی سوچ رک سی گئی ہے۔ کچھ لوگ فہرست میں نام ڈلوانے کے خواہش مند ہیں سو وہ کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی بات دل پر مت لیجیے گا۔
اب رہی کلیات کی بات۔ اگر آپ نے یہ بار گراں اس ناتواں پر ڈال ہی دیا ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ میں دیانت داری کے ساتھ انصاف کروں گا تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دوں گا۔
میں نے کلیات کا پورا منصوبہ بھی بنا لیا ہے۔ اور یہ کام آپ ہی کی غائبانہ رہنمائی میں پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔ غائبانہ اس لیے کہ جو طریقہ اور سلیقہ آپ کی کلیات کے سلسلے میں میں نے اپنایا ہے اس کی تائید آپ نے کر دی ہے لہٰذا رہنما اصول وہی رہیں گے اور طریق کار بھی وہی جسے آپ نے منظوری دی ہے۔ میرے خزانے میں در نایاب بہت ہیں جس کی چمک قاری کی نظروں کو خیرہ ضرور کریں گی۔ ’پدما ندی کنارے‘ والا رپورتاژ بھی آپ کی نشان دہی پر میں نے حاصل کر لیاہے۔ سنہ ماہ و سال پر آپ کی یہ گرفت۔ آپ کی یاد داشت قابل داد ہے۔ کلیات کی تدوین کے ہر مشکل مرحلے میں، میں آپ سے رجوع کرتا رہوں گا۔ امید ہے آپ کی رہنمائی جاری رہے گی۔
آپا سے ان کی حیات میں اتنے مکالمے کیے کہ اب جب بھی ان کا خیال کرتا ہوں لگتا ہے وہ سامنے بیٹھی مجھ سے گفتگو کر رہی ہیں اور میرے کسی نہ کسی سوال کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ عینی آپا سے میری پہلی ملاقات 1984 میں اس وقت ہوئی تھی جب میں نے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تھا اور فکشن پر میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے مجھے عینی آپا پر کام کرنے کی صلاح دی تھی اور کافی غور و خوض کے بعد ’قرۃالعین حیدر کے فکشن کا تنقیدی مطالعہ‘ میری تحقیق کا موضوع طے پایا تھا۔ پھر مجھے یہ بھی کہا گیا تھا کہ عینی آپا یہیں پر ذاکر باغ میں رہتی ہیں، کبھی وقت لے کر ان سے مل بھی لیجیے گا۔ سن کر بے حد خوش ہوں گی اور شاید کچھ مدد بھی کریں۔ میں نے سوچا ضرور ملوں گا۔ اتنی بڑی ادیبہ سے ملنے کا موقع جو ہاتھ آیا ہے۔ اسی اثنا میں ایک دن میں شعبے کے سامنے کھڑا ہوا اپنے کچھ دوستوں سے محو گفتگو تھا۔ اتنے میں ایک کار شعبے کے سامنے آ کر رکی۔ تین خواتین باہر نکلیں اور شعبہ اردو کی طرف جانے لگیں۔ میں اس وقت تک قرۃالعین حیدر کو نہیں پہچانتا تھا۔ میرے دوستوں میں سے ایک نے کہا دیکھو! یہی ہیں قرۃالعین حیدر۔ دوسری دو خاتون کون تھیں مجھے یاد نہیں۔ اور آپا بھی اس وقت کس لباس میں ملبوس تھیں یہ بھی مجھے یاد نہیں۔ ساڑی یا شلوار قمیض۔ بس کیا تھا میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جن سے ملنے کا پروگرام بنا رہا تھا وہ سامنے کھڑی تھیں۔ میں نے فوراً موقع کا فائدہ اٹھایا اور آگے بڑھا۔ آپا کے قریب پہنچ کر سلام عرض کیا۔ انھوں نے بے حد خوش خلقی سے جواب دیا۔ پھر میں نے عرض کیا آپا میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگیں کس سلسلے میں۔ میں نے کہا میں آپ پر تحقیقی کام کر رہا ہوں اور آپ سے مل کر کچھ باتیں کرنی چاہتا ہوں۔ اتناسننا تھا کہ آپا کا انداز بالکل بدل گیا۔ چہرے پر کچھ ناگواری کے آثار پیدا کرتے ہوئے بولیں نہیں، نہیں آپ مجھ پر پی ایچ ڈی ہرگز نہ کریں۔ کس احمق نے آپ کو یہ موضوع دے دیا ہے۔ میں اپنے بارے میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہرگز نہیں کرتی۔ آپ اپنا موضوع تبدیل کروا لیں اور یہ کہتی ہوئی وہ شعبہ کے اندر چلی گئیں اور میں باہر بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔ ساری بساط ہی الٹ گئی۔مجھے ان سے اس طرح کے سپاٹ جواب کی قطعی توقع نہیں تھی۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ وہ یہ جان کر بے حد خوش ہوں گی اور مجھے گھر پہ ملنے کا وقت بھی دیں گی۔لیکن یہاں تو معاملہ بالکل بے نیازی کا تھا۔ خوشی کی بات تو الگ رہی۔ پہلے بھی بہت سی باتیں ان کے مزاج کے بارے میں لوگ مجھ سے کہہ چکے تھے کہ ذرا نک چڑھی ہیں، جلدی کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں لیکن میں تو ان پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا، پھر ایسا کیوں؟ میں نے شعبے میں اساتذہ سے ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کوئی بات نہیں ہے۔ ہر بڑا ادیب سنکی ہو جاتا ہے وہ بھی ہیں، آپ اپنا کام جاری رکھیے۔ ان سے ملنا اتنا اہم نہیں۔ بات آئی گئی اور پھر ان سے ملنے کا کبھی خیال نہیں آیا۔ قرۃالعین حیدر کی شخصیت کا وہ نقش میرے ذہن پر کچھ اس طرح ثبت ہوا کہ میں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران ان سے ملنے کی پھر دوبارہ کوشش نہیں کی بلکہ ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کے روپ رنگ نکھارے اور ان کے فکشن کے مطالعہ سے ان کی انفرادیت اور انوکھے انداز تحریر، نئے تجربے، فکر و فن کے نیاپن اور فکشن کو ان کی دین اور اس میدان میں ان کے مقام و مرتبے کا تعین کیا اور تحقیقی مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے لے لی۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ داخلہ تو جامعہ میں لیا اور ڈگری جے این یو سے لی۔ آخر ماجرا کیا ہے۔ یہاں جامعہ سے جے این یو کی جست کا واقعہ گرچہ خوش گوار نہیں ہے لیکن بہتر ہوگا کہ بتاتا چلوں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
میں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں 1981 میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا تھا۔ 1983 میں میرا ایم اے مکمل ہو گیا۔ اس سال طلبا کے ایجیٹیشن کی وجہ سے یونیورسٹی ایک بحران میں مبتلا ہو گئی۔ وائس چانسلر کے گھر کی ناکہ بندی کی وجہ سے صورت حال اتنی سنگین ہو گئی کہ پولس ایکشن ہوا اور جے این یو کیمپس میں پہلی بار پولس نہ صرف داخل ہوئی بلکہ پورا کیمپس پولس کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک ہزار سے زائد طلبہ نے گرفتاری دی۔ یونیورسٹی سائن ڈائی (غیر معینہ مدت) ہو گئی۔ طلبہ سے چوبیس گھنٹے کے اندر کیمپس خالی کرنے کا آرڈر نکال دیا گیا اور پولس کی مدد سے تمام ساز و سامان کے ساتھ طلبہ سے جبراً ہاسٹل خالی کرا لیے گئے۔ جس کی وجہ سے فائنل امتحانات میں تاخیر ہوئی اور ریزلٹ دیر سے نکلے۔ پھر زیرو سیمسٹر ڈکلیئر کر کے 83-84 کے سیشن میں داخلے نہیں ہوئے اور اسی اثنا میں بہت سے قاعدے قوانین اور داخلہ پالیسی میں ترمیم کی گئی۔ اس درمیان مغنی صاحب انجمن ترقی اردو ہند کی کسی میٹنگ میں شرکت کے لیے دلی تشریف لائے۔ میں نے ان سے ذکر کیا۔ سال ضائع ہوتا دیکھ کر پروفیسر عبدالمغنی صاحب (مرحوم) کے مشورے پر میں نے جامعہ کی طرف رخ کیا۔ مغنی صاحب نے ہی پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب سے میرا پہلا تعارف کرایا۔ نارنگ صاحب نے ہی موضوع طے کیا۔ یہ سب ہو ہی رہا تھا کہ اسی بیچ نارنگ صاحب کو دہلی یونیورسٹی سے پروفیسر شپ کی آفر ملی۔ جامعہ کے حالات نارنگ صاحب کے لیے اس وقت خوش گوار نہیں تھے۔ پروفیسر عنوان چشتی صدر شعبہ بننے والے تھے اور نارنگ صاحب اور عنوان صاحب میں چھتیس کا آنکڑا تھا۔ نارنگ صاحب نے اب تک حکمرانی کی تھی اب اپنے کسی جونیئر کے ماتحت کام کرنا کیسے گوارا کر سکتے تھے۔ ہیڈ شپ کی روٹیشن کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ جامعہ میں اپنا کوئی روشن مستقبل انھیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ لہٰذا عزت اسی میں تھی کہ جامعہ چھوڑ کر دہلی یونیورسٹی کی آفر منظور کر لی جائے اور نارنگ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ جاتے وقت مجھے نئے صدر شعبہ پروفیسر عنوان چشتی صاحب کے حوالے (زیر نگرانی) کر گئے۔ میں نیا نیا تھا، شعبے کے کسی بھی اساتذہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ یہاں آنے پر معلوم ہوا کہ ریسرچ اسکالر سے نگراں نوکروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں۔ جس نے سپر ڈال دی اور نفس امارہ کو سمجھا لیا، اپنی انا اپنا ضمیر سب کچھ دفن کر دیا وہ کامیاب ڈاکٹر بن کر نکلتا ہے۔ اور جس نے ذرا اکڑفوں دکھلائی اس کی عاقبت خراب۔ ان سب باتوں نے مجھے بالکل دہلا دیا تھا۔ میں تو امت مسلمہ کے اس ادارے میں اپنی عاقبت سنوارنے آیا تھا مگر یہاں تو حالات برعکس تھے۔ جو میرے مزاج سے بالکل میل نہیں کھاتے تھے۔ کہاں جے این یو کی آزادانہ فضائیں و اساتذہ اور طلبا کا دوستانہ ماحول اور کہاں جامعہ کا مولویانہ دقیانوسی ماحول۔ ہر چیز میں ایک گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔ بہر حال 1984 کے مارچ میں میرا داخلہ پی ایچ ڈی میں ہو گیا اور ایم اے فرسٹ ڈویژن ہونے کی وجہ سے فیلوشپ بھی مل گئی۔ میرے ساتھ ارتضیٰ کریم کا بھی داخلہ ہوا۔ ہم دونوں کے نگراں عنوان چشتی صاحب مقرر ہوئے۔ مقرر کیا ہوئے صدر شعبہ کی حیثیت سے ان کے حصے میں آئے۔ ارتضیٰ کریم کو بھی فیلوشپ ملی۔ نارنگ صاحب اپنے پرانے گھر دہلی یونیورسٹی کو لوٹ چکے تھے۔
داخلہ کے کچھ دنوں بعد ارتضیٰ کریم کو جامعہ کے نامساعد حالات کا شاید بہت کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنے روشن مستقبل کے امکانات کی تلاش میں جامعہ سے دہلی یونیورسٹی منتقل ہو گئے اور پروفیسر قمر رئیس صاحب کی زیر نگرانی اپنا داخلہ کرا لیا اور جامعہ کو خیر باد کہہ کر دلی یونیورسٹی کو اپنا نیا اور مستقل مسکن بنایا۔ ہم دونوں ایکد وسرے سے بالکل واقف نہیں تھے۔ وہ بودھ گیا سے ایم اے کر کے آئے تھے اور میں جے این یو سے ایم کر کے گیا تھا۔ ہم دونوں کی شناخت صرف ایک طالب کی تھی۔
پروفیسر عنوان چشتی صاحب کی زیر نگرانی میں واحد ریسرچ اسکالر تھا۔ کچھ دنوں تک تو حالات ٹھیک ٹھاک چلتے رہے۔ مگر جامعہ میں نگراں کو یہ بات ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی ریسرچ اسکالر ان سے روزانہ نہ ملے۔ بلکہ روزانہ گھنٹوں زانوئے ادب تہہ کر کے ان کی خدمت اقدس میں حاضری نہ دے اور گھر سے لے کر باہر تک کے ان کے سارے کام جسے ایک ذاتی نوکر کو کرنا چاہیے نہ بجا لائے تو وہ کامیاب ڈاکٹر بن ہی نہیں سکتا۔ میں نے حکم عدولی کی نگراں کی خدمت میں روزانہ گھنٹوں بیٹھ کر وقت برباد کرنے کے بجائے لائبریری میں وقت گزارنے کو بہتر جانا اور دو تین دنوں پر ایک بار ضرور اپنی صورت نگراں کو دکھلا دیتا تھا۔ مگر وہ اس بات سے خوش نہیں رہتے تھے۔ یہ سلسلہ کھینچ تان کر کسی طرح ایک سال تو چلا پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ میرے نگراں نے مجھے اپنے قابو میں کرنے کے لیے ایک آفیشیل شو کاز نوٹس کا سہارا لیا جس میں میرے ایک سال کے تحقیقی کام پر اپنی عدم اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے جواب طلب کیا۔ نوٹس اور نوٹس کے جواب پر پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ فی الوقت تو اتنا جان لیں کہ یہ حربہ بھی ان کے کام نہ آیا اور میں نے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس نوٹس کا قانونی جواب دینا بہتر سمجھا۔ پھر کیا تھا، جامعہ میں ایک بھونچال آ گیا۔ خط کی کاپی اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر علی اشرف مرحوم اور ڈین آرٹس فیکلٹی پروفیسر انور صدیقی مرحوم کی خدمت میں بھی دے دی تھی۔ جامعہ کی تاریخ میں کسی پروفیسر کے خط کا جواب کسی ریسرچ اسکالر نے پہلی بار دینے کی ہمت کی تھی جس کے چرچے خوب ہوئے۔ تمام پروفیسران اس حمام میں برہنہ ہوتے نظر آئے۔ لہٰذا میرا معاملہ حق بہ جانے ہوتے ہوئے بھی جامعہ کی فضا میرے حق میں عدل و انصاف سے عاری نظر آئی۔ مجھے یہاں کے ماحول میں مزید گھٹن اس واقعے کے بعد محسوس ہونے لگی۔ ہر کوئی پس پردہ میرا ہمدرد تو تھا لیکن سامنے آنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ لہٰذا ماحول کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میں نے جامعہ کو خیر باد کہا اور پھر جے این یو واپس آ گیا۔
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیر بار ساغر و بادہ نہیں کیا
(پروین شاکر)
اور پروفیسر محمد حسن کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔
پھر مدتوں قرۃالعین حیدر سے نہ میری ملاقات ہوئی اور نہ میں نے ملاقات کی کوشش کی اور نہ ہی کسی جلسے میں آمنا سامنا ہوا۔ 1991 میں تحقیقی مواد کی فراہمی کے سلسلے میں میں پاکستان گیا تھا اور قرۃالعین حیدر پر اردو اور انگریزی میں بہت سے مضامین، ان کے بہت سے نئے افسانے جو ان کے افسانوی مجموعوں میں نہیں تھے، ان کے مضامین اور ان کی بہت سی ایسی تحریریں جو مختلف رسائل میں بکھری پڑی تھیں ڈھونڈھ کر لایا اور ان افراد سے بھی ملاقات کی جن کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ قرۃالعین حیدر کے قریبی حلقے میں رہے ہیں اور ان سے قرۃالعین حیدر کے بارے میں بہت کچھ معلومات حاصل ہو سکتی ہے۔ اور ایسا ہوا بھی غرض کہ بہت کچھ نیا نیا میں لے کر واپس آیا۔ لیکن تب بھی قرۃالعین حیدر سے ملنے کا خیال میرے ذہن میں پیدا نہیں ہوا۔ وہ تو کہیے کہ کچھ صورت ایسی بن گئی کہ ان سے ملنے کا موقع نکل آیا۔
پاکستان سے لوٹنے کے چند ماہ یا چند سال بعد افتخار عارف دلّی آئے۔ اشوکا ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پاکستان میں میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اور آنے کے بعد کچھ دنوں تک خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اس وقت افتخار عارف ادارہ ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر تھے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ذریعہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ وہ آئے ہوئے ہیں اور اشوکا میں ان کا قیام ہے تو میں نے ان کو فون کر کے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے دوسرے دن صبح ملنے کا وقت دیا۔ میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا۔ انھوں نے پہنچتے ہی کہا کہ عینی آپا سے ملنے جانا ہے اگر تمھارے پاس وقت ہو تو تم بھی چلو۔ اندھا چاہے دو آنکھ۔ میں نے کہا جی ضرور چلوں گا۔ افتخار عارف نے فون کرکے آپا کو اپنے ہندوستان آنے کی اطلاع دی اور ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انھوں نے کہا فوراً آ جائو۔ افتخار صاحب تیار بیٹھے تھے۔ ہم لوگ فوراً روانہ ہو گئے اور کچھ دیر بعد ذاکر باغ پہنچ گئے۔ ان کے گھر جانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ آپا ذاکر باغ کے ٹاور میں فرسٹ فلور پر رہتی تھیں۔ جب میں ان کے فلیٹ کے سامنے پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جوتے اور چپلوں کا انبار باہر پڑا ہوا ہے اور بہت سے لوگ نیچے سے لے کر اوپر تک مختلف کیفیتوں میں بیٹھے اورلیٹے ہوئے ہیں۔ ماجرا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں ان لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا اور دروازے کی گھنٹی بجائی۔ ان کی خادمہ نے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلا تو اندر ڈرائنگ روم کا منظر بھی ایسا ہی تھا۔ تل رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔ عجیب و غریب قسم کے لوگ، متوحش چہرے، بڑھے ہوئے بال، گلے میں مالائیں، دیوانوں سا انداز۔ میں حیران تھا کہ ان بھانت بھانت کے لوگوں سے عینی آپا کا کیا تعلق۔ ایسے لوگ تو میں نے درگاہوں میں دیکھے تھے۔ ابھی ہم لوگ ڈرائنگ روم میں کھڑے ہی تھے کہ افتخار عارف کی آواز سن کر عینی آپا اپنے کمرے سے نکل کر تیزی سے ڈرائنگ روم کی طرف آتی ہوئی دکھائی دیں۔ افتخار عارف کو گلے لگایا اور دعائیں دیں۔ میں نے بھی سلام عرض کیا۔ اور پھر آپا کے بیٹھنے کے بعد ہم لوگ بھی صوفے پر بیٹھ گئے۔ اس وقت مجھے آپا کی شخصیت کا دوسرا ہی روپ نظر آیا۔ خوش مزاج، باتونی اور قہقہہ لگانے والی۔ پھر آپا نے کہا کہ بھیا جی آئے ہوئے ہیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ عینی آپا کسی پیر کی عقیدت مند بن گئی ہیں اور وہ برابر ان کے یہاں آتے رہتے ہیں اور آپا بھی وہاں جاتی رہتی ہیں۔ ان کے فکشن میں تصوف کی طرف ان کا جھکائو بھیا جی کی وجہ سے ہوا اور آپا نے اس کے حوالے بھی دیے ہیں۔ ان کا اصل نام حضرت سلطان محمد عارف عرف عام میں ’بھیا جی‘ کہلاتے ہیں۔ اس وقت پاک و ہند کے سلسلہ چشتیہ مینائیہ کے سب سے بڑے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ حضرت مخدوم شیخ سارنگ کے صاحب سجادہ حضرت مخدوم مکرم دانش علی کے صاحب زادے ہیں۔ یہ بھیا جی بارہ بنکی والے وہی پیر صاحب ہیں جن کا تذکرہ ’چاندنی بیگم‘ میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ عینی آپا صوفیا کرام کے سلسلے کو نہ صرف مانتی تھیں بلکہ بزرگوں کے مزاروں پر ان کا آنا جانا بھی تھا۔ خود ان کے خاندان میں کئی بزرگ اور صوفیاء گزرے جہاں وہ ہر سال عرس کے موقع پر پابندی سے جاتی تھیں۔ بھیا جی بھی ان کے خاندانی سلسلے کے بزرگ ہیں۔ بھیا جی نے شب بے داری کی تھی لہٰذا وہ دن کے کوئی گیارہ بجے سوئے ہوئے تھے۔ افتخار عارف بھی ان کے عقیدت مندوں میں تھے اس لیے وہ ان کے کمرے میں ان کا دیدار کرنے کے لیے گئے۔ آپا نے انھیں جگانے سے منع کر دیا تھا۔ صوفیائی صفت کے مالک بزرگ تھے افتخار عارف جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے ان کو احساس ہو گیا کہ کوئی آیا ہے، فوراً وہ نیند سے بے دار ہو گئے اور افتخار صاحب کے ساتھ ڈرائنگ روم میں تشریف لے آئے۔ نورانی چہرہ، صاف رنگت، دراز قد، متوسط بدن، داڑھی سے مبرا چہرہ، عمر بھی زیادہ نہیں۔ دیکھنے سے جواں سال لگتے تھے۔ ان کے آتے ہی سارے مریدین اٹھ کھڑے ہوئے اور قدم بوسی کے لیے جھک گئے۔ وہ ہم لوگوں کے درمیان کچھ وقت آ کر بیٹھے۔ افتخار عارف سے جب انھوں نے گفتگو کی تو اس سے اندازہ ہوا کہ علم و ادب کا بھی خاصا ذوق رکھتے ہیں۔ میں نے بھی انھیں سلام کیا، مصافحہ کیا۔ افتخار عارف نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ انھیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ میں عینی آپا پر تحقیقی کام کر رہا ہوں۔ پھر انھوں نے بہت دعائیں دیں۔ چند منٹ سبھوں کے درمیان بیٹھ کر وہ پھر اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے۔ میں نے پہلے سے ان کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ان کے جانے کے بعد افتخار صاحب نے آپا سے میرا تعارف کرایا۔ اور یہ بھی بتلایا کہ یہ آپ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ یہ جان کر اس وقت آپا بے حد خوش ہوئیں۔ اور کہا کہ پھر کبھی آپ آ کر ملیے گا۔ میں نے بھی کہا جی ضرور۔ لیکن اس کے بعد عرصے تک ان سے ملنا نہیں ہوا۔ ہاں البتہ کبھی کبھی ادبی محفلوں میں وہ نظر آ جاتی تھیں۔
ستمبر 2001 میںجب ان کے انٹرویوز کا ایک مجموعہ ترتیب دے رہا تھا تو ان سے ایک انٹرویو کرنے کی غرض سے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ان کے یہاں گیارہ بجے دن میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپا جل وِہار نوئیڈا سیکٹر 20 کی پہلی منزل پر رہتی تھیں۔ سوالنامہ میں نے پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ دس منٹ بعد عینی آپا سامنے آ کر بیٹھیں۔ پہلے میرا تفصیلی تعارف جاننا چاہا۔ میں نے بتلایا۔ تفصیلی تعارف جاننے کے بعد جب انھیں اطمینان ہوا تو پھر انھوں نے سوالات پوچھنے کی اجازت دی۔ اس سے پہلے میں نے انھیں بتلایا کہ میں نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے اس پر ڈگری بھی ایوارڈ ہو چکی ہے۔ بے حد خوش ہوئیں۔ پھر میں نے کہا میرے پاس آپ کے بہت سے ایسے افسانے ہیں جو کسی افسانوی مجموعے میں شامل نہیں ہیں۔ مضامین، انٹرویوز، خاکے وغیرہ ساتھ ہی ان پر لکھے گئے وہ سینکڑوں مضامین ہیں جو میں نے جمع کیے ہیں۔
آپا یہ سب سن کر بے حد خوش ہوئیں اور کہا کہ آپ نے بہت سی چیزیں جمع کر رکھی ہیں۔ ان چیزوں کو شائع ہونا چاہیے۔ انٹرویو سے پہلے میں نے ماحول کافی خوشگوار بنا دیا۔ پھر انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپا کے مزاج کے بارے میں لوگوں سے میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لہٰذا میری کوشش یہ تھی کہ کوئی بات خلاف مزاج نہ ہو اور کہیں وہ اوروں کی طرح مجھے بھی گھر سے باہر نہ کر دیں۔ میں کہ ٹھہرا ایک طالب علم، فلسفیانہ اور عالمانہ گفتگو تو میں کر نہیں سکتا تھا۔ میں نے تو ان کی تحریروں سے ہی کچھ سوالات تیار کیے تھے اور لے کر گیا تھا جس کی تفہیم تفصیل کی متقاضی تھی۔ لیکن کیا پتہ کون سی بات طبع نازک پر گراں گزرے۔ بہت سے سوالوں میں ایک سوال ان کی تاریخ پیدائش کی گتھیوں کو بھی سلجھانے کے بارے میں تھا۔ جسے میں نے جان بوجھ کر درمیان میں رکھا تھا تاکہ خوشگوار ماحول میں اس سوال کا آسانی سے جواب حاصل کیا جا سکے۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ دوران گفتگو میں نے آپا سے ان کی تاریخ پیدائش جاننی چاہی، بس کیا تھا آپا کا پیمانۂ صبر و شکیب ٹوٹ گیا۔ بے حد خفا ہوئیں اور از حد ناراضگی سے بولیں یہ میری تاریخ پیدائش کا کون سا مقدمہ لے کر بیٹھ گئے۔ میں 1925، 26 یا 27 میں پیدا ہوئی کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ لوگ ایک خاتون سے اس طرح کا سوال کیسے کر سکتے ہیں۔ آپ اس سے کیا اخذ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا جاننا چاہتے ہیں۔ جسے دیکھیے یہ سوال ضرور کرے گا۔ میں خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔ اب یہاں قرۃ العین حیدر کا کچھ اور ہی رنگ تھا۔ وہی رنگ جس کے تزکرے محفلوں میں ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی خاتون ہیں جو نہایت خوش خلقی سے میرے سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔ میں ڈر اکہ کہیں انٹرویو کا سلسلہ یہیں نہ رک جائے اور وہ مجھے جانے کے لیے کہہ دیں۔ لہٰذا بیچ بیچ میں کچھ عاجزی اور کچھ انکساری سے میں عرض کرتا رہا کہ آپا یہ بات نہیں ہے۔ مقصد آپ کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے بلکہ تحقیق کی ضرورت کے پیش نظر میں نے آپ سے یہ جاننا چاہتے تھے۔ اگر آپ مناسب نہیں سمجھتی ہیں تو اس سوال کا جواب ہرگز نہ دیں۔ میری کوشش تھی کہ انٹرویو درمیان میں نہ رک جائے اور ماحول خراب ہونے سے بچا رہے۔ پورے انٹرویو کے دوران جو تقریباً پانچ گھنٹے سے زیادہ چلا، آپا کئی بار آپے سے باہر ہوئیں۔ لیکن میں ہر بار ان کی تعریف کر کے ان کے مزاج کو بگڑنے سے بچاتا رہا میں نے ہر معاملے میں آپا کو بے حد حساس پایا۔ وہ اپنی تعریف سے خوش تو بے حد ہوتی تھیں لیکن نقادوں سے بے حد ناراض تھیں۔ ان کا ماننا تھا کہ اکثر نقادوں میں فکشن کی سمجھ نہیں ہے۔ وہ لکیر کے فقیر ہیں،انھوں نے خاتون لکھنے والیوں کو اگنور کیا ہے۔ اور اردو میں متوازن تنقید بہت کم لکھی گئی ہے۔ اپنے افسانوں کے متعلق انھوں نے عرض کیا کہ میرے افسانوں میں بہت ویرائٹی ہے، تہہ داری ہے اور ناقدین ان کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکے ہیں سوائے چند ایک کے۔ اردو میں طرز جدید کے افسانے سب سے پہلے میں نے لکھے اور جدیدیوں نے اس کا سہرا انور سجاد کے سر منڈھ دیا۔ یہ اور اس قسم کی ہزارہا باتیں۔
یہ میری قرۃالعین حیدر سے پہلی تفصیلی ملاقات تھی جس میں ان کے مزاج کے کئی رنگ نظر آئے۔ علم و ادب کی کسی بڑی شخصیت سے انٹرویو کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ اور وہ بھی ایک ایسی خاتون سے جس کے علم و فضل کا رعب و دبدبہ تھا۔ جس سے باتیں کرنے میں اچھے اچھوں کی زبان لڑکھڑاتی تھی۔ایسی صورت میں ان سے طویل ترین مکالمے کے لیے ہمت جٹانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جو لوگ آپا کی تنک مزاجی، ان کی حساس طبیعت سے واقف ہیں وہ طویل گفتگو میں پیش آنے والی مشکلات کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
اخلاقی طور پر آپا میں کوئی کمی نہیں۔ ہر کسی سے ملتی تھیں، ان میں وقت کی پابندی بے حد تھی۔جب کسی کو وقت دیتیں تو پہلے سے تیار ہو کر اس کا انتظار کرتی تھیں۔ چائے ناشتے کے ساتھ کھانے کا بھی اہتمام کرتی تھیں۔ میں جب بھی گیا دن کا کھانا ساتھ ہی کھایا۔ کھانا کھائے بغیر واپس نہیں آنے دیا۔ انھیں آم بے حد پسند تھا۔ گوشت خور بھی تھیں اور کہتی تھیں کہ گوشت خوری کے معاملے میں میں خاصی مسلمان ہوں۔ گوبھی گوشت انھیں دل سے پسند تھا۔ ان کے دسترخوان پر زیادہ تر گوشت ہوتا تھا۔ عمر کی اس منزل میں سب کچھ کھاتی تھیں، ہاضمے کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ہاں بینائی بہت کمزور تھی۔سماعت پر بھی اثر پڑا تھا۔ اونچا سنتی تھیں۔ چند سال پہلے آلۂ سماعت بھی خریدا تھا۔ 2001 سے 2007 تک میں وقفے وقفے سے اور کبھی لگاتار بھی ہفتوں گیا ہوں۔ پہلی بارجب میں ’نوائے سروش‘ کے لیے انٹرویو کرنے گیا تھا تو اس وقت وہ J40 سیکٹر 20 نوئیڈا میں تھیں اس وقت بھی کئی دنوں تک میں لگاتار گیا تھا۔ کتاب کا پیش لفظ بھی میری گزارش پر انھوں نے لکھوایا تھا۔ اور کتاب کا نام بھی تجویز کرنے میں میری رہنمائی کی تھی۔ اور جب کتاب چھپ کر نومبر میں آ گئی تو وقت طے کر کے دوسرے دن صبح کتاب لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کتاب دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ کشور ناہید آ گئیں۔ ان کے آنے کا پروگرام غالباً پہلے سے طے نہیں تھا۔ آپا کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ کتاب سامنے رکھی تھی۔ آپا نے کتاب کشور ناہید کی طرف بڑھائی اور میرا تعارف کرایا۔ انھوںنے انٹرویو کے عنوانات جو میں نے آپا کے چبھتے ہوئے جملوں کے دیے تھے، کو دیکھ کر بے حد پسند کیا اور میری کافی ستائش کی اور اس پر آپا کا پیش لفظ دیکھ کر اور بھی خوش ہوئیں۔ عینی آپا کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ بچوں کی طرح کلکاریاں بھر رہی تھیں۔ فوراً اپنی خادمہ سے کہا کہ ان کے (خاکسار) ساتھ میری تصویر بنائو۔ خادمہ نے کہا کہ کیمرے میں ریل نہیں ہے۔ کہا ڈرائیور سے بھیج کر منگوائو۔ ریل آئی اور کئی تصویریں بنائی گئیں۔ یہاں ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ تصویر کف گل فروش میں جو اس وقت زیر ترتیب تھی اس میں شامل بھی کی گئی لیکن کچھ اس طرح کہ اس تصویر سے مجھے الگ کر دیا گیا اور یہ کام ان کے پی اے نے ان کی مرضی جانے بغیر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا۔ کتاب جب شائع ہو کر آئی تو مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوئی اور میں نے آپا سے ذکر کیا تو انھوں نے اپنے پی اے کو اس کی اس حرکت کے لیے سرزنش کی اور بے حد ناراضگی کا اظہار کیا اور پھر بعد میں اسے ہٹا بھی دیا۔ اسے اس بات کی رنجش تھی کہ میں برسوں سے ان کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور کئی بار تصویر کے لیے گزارش کی لیکن ہر بار منع کر دیا۔ اور آج خود ہی جمیل اختر کے ساتھ تصویر بنوائی۔ حاسدانہ مزاج نے اسے یہ کام کرنے پر مجبور کیا۔ میں حیران تھا کہ ابھی چند دن پہلے میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا تو صاف منع کر دیا تھا کہ میں تصویر وغیرہ کھنچوانی پسند نہیں کرتی۔ لیکن آج لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی عینی آپا ہیں۔ کسی سے خوش ہوتیں تو سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار اور ناراض ہوتیں تو دیا ہوا واپس لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ یاد داشت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ پل بھر کی بات یاد نہیں رہتی تھی۔ ماضی کی ہر بات، ایک ایک واقعہ، واقعے کی ایک ایک جزئیات، منظر کشی، کیا مجال جو ایک واقعہ بھی بھول جائیں لیکن بات یاد نہیں رہتی تو سامنے کی۔ میری تین کتابوں کے پیش لفظ انھوںنے لکھوائے تھے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ ان کا ذہن آخر آخر تک کتنا چاق و چوبند تھا۔
عینی آپا سے میری دوسری تفصیلی ملاقات 18 جون 2003 کو ان کے نئے مکان E55، سیکٹر 21 نوئیڈا میں ہوئی۔ یہاں بھی معاملہ ان سے انٹرویو ہی کرنے کا تھا۔ لیکن ایک ایسا انٹرویو جو غیر معمولی ہو اور جس کی مثال بہ شمول اردو دنیا کی کسی زبان میں موجود نہ ہو یعنی طویل سے طویل تر۔ آپا اب کسی حد تک میرے نام سے واقف ہو چکی تھیں لہٰذا انھوں نے آسانی سے وقت دے دیا۔ اس انٹرویو کے لیے سوالنامہ میں نے ادب سے الگ ہٹ ان کی زندگی کے دوسرے پہلوئوں سے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے، سے بنائے تھے۔ صحافت، صحافتی زندگی، موسیقی سے دلچسپی، مصوری کا شوق، سب پر الگ الگ سوالنامہ اور بالتفصیل گفتگو۔ اس گفتگو میں آنے والی دشواریوں کا ذکر میں اپنی کتاب’اندازِ بیاں اور‘ میں کر چکا ہوں، یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ کتاب 2005 میں فرید بک ڈپو دہلی سے شائع ہوئی۔ یہ پوری کتاب میری آپا سے ہوئی گفتگو پر مبنی ہے۔ اور بہت سے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھا ہے۔ اس انٹرویو کے لیے میرا ان کے یہاں کئی ماہ تک مسلسل اور کبھی وقفے وقفے سے آنا جانا جاری رہا۔ پھر یہ سلسلہ ’کلیاتِ قرۃالعین حیدر‘ کی تدوین سے جڑ کر بے حد طویل ہو گیا۔ پھر نیا افسانوی مجموعہ جس کا نام ’قندیل چین‘ آپا نے تجویز کیا تھا جو کلیات کی چوتھی جلد کے طور پر شائع ہوا ہے کے سلسلے میں انتقال سے محض چند ماہ قبل تک ملنا جاری تھا۔ ان چند برسوں میں میں نے آپا کے مزاج کے بہت سے رنگ دیکھے۔ کئی بار ایسا لگا کہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا۔ ان کے رخ کو دیکھ کر کبھی کبھی بہت بد دلی بھی ہوتی تھی کہ کہیں محنت رائیگاں نہ چلی جائے اس خیال کے آتے ہی ان کے ہر رخ کو برداشت کرتا رہا۔ ان کی ناز برداری کرتا رہا۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ قدرت مجھے سخت ترین آزمائش میں ڈالنے والی ہے اور میں جس چیز سے ڈر رہا تھا وہی ہوا۔ اگست 2005 میں میرا ایک طویل مضمون ’قرۃالعین حیدر ادبی و شخصی خاکہ‘ کے عنوان سے ’آج کل‘ میں شائع ہوا جس میں میں نے ان کی تنک مزاجی اور ان کے والدین کے درمیان خوشگوار رشتوں کی کمی اور نذر سجاد حیدر کے تسلط کا ذکر کیا تھا۔ یہ مضمون آپا کو ان کے ادبی معاون (مجیب احمد خاں) نے نہ جانے کس قرأت میں پڑھ کر سنایا کہ آپا انتہائی کرب و پریشانی میں مبتلا ہو گئیں۔ ان کے دونوں ادبی معاون کو نہ جانے کیوں میرا آپا کے یہاں بار بار آنا جانا پسند نہیں تھا۔ میں ان دنوں نیا افسانوی مجموعہ ’قندیل چین‘ کے پیش لفظ کی ڈکٹیشن لے رہا تھا۔ مضمون سن کر ان کی بے چینی اور بے اطمینانی کافی بڑھ گئی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان کے ادبی معاون نے مضمون کی قرأت کے دوران بہت سے بھڑکیلے جملے جو مضمون میں درج نہیں تھے اپنی طرف سے اضافہ کر کے ان کو سنائے۔ ایسا انھوں نے ہم دونوں کے درمیان 2001 سے چلے آ رہے خوشگوار رشتوں کی بنیاد ہلا دینے کے لیے کیا۔ مضمون کی اشاعت کے کچھ قبل ہی سے میں اپنی عدم مصروفیت کی وجہ سے پندرہ بیس دنوں کا وقفہ گزرا ہوگا جو میں ان کی خدمت سے غیر حاضر رہا۔ بس شیطانوں کو ریشہ دوانیوں کا موقع مل گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ آپا کی کلیات وہ مرتب کریں لیکن آپا ان کو اس کام کے لیے منع کر چکی تھیں اور جب انھوں نے مجھے باضابطہ تحریری اجازت کلیات کی تدوین کے سلسلے میں دی تو ادبی معاون کو یہ بات بے حد ناگوار گزری۔ وہ وقتاً فوقتاً میرے غائبانہ میں آپا کو میرے بارے میں اُکساتے رہتے تھے جس کی اطلاع آپا کی گھریلو معاون مجھے دیتی رہتی تھی۔ لیکن میں نے اس بات کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ لوگ میرے خلاف گہری سازش کر رہے ہیں۔ آخر ان لوگوں کو اس مضمون کے حوالے سے میرے خلاف سازش کرنے کا موقع مل گیا۔ آپا کو اس مضمون کے حوالے سے اس قدر بدظن کیا گیا کہ انھوں نے فون کر کے مجھ سے نہ صفائی مانگی نہ جواب طلب کیا۔ اپنی بھانجی (ہما حیدر) اور ان کے شوہر (رفیع الحسن) کو بلا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی جیسا بڑا قدم اٹھا لیا۔ اور لوگوں کے کہنے کے باوجود کہ آپ جمیل اختر سے پہلے بات کریں اس لیے کہ آپ ان کو اپنی کتاب کا مقدمہ لکھوا رہی ہیں جو ابھی ادھورا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں آپا نے مجھ سے بات نہیں کی یا ان کے معاونین نے مجھ سے رابطہ نہ کرانے کا کوئی حربہ اپنایا واللہ عالم بالصواب۔ ہاں ’آجکل‘ کے ایڈیٹر عابد کرہانی کے پاس آپا کا ناراضگی، غصہ اور انتہائی خفگی بھرا فون ضرور آیا جس میں سخت و سست کہنے کے بعد قانونی چارہ جوئی کا ذکر بھی کیا۔ اس ناگہانی آفت سے عابد کرہانی بے حد پریشان ہوئے اور انھوں نے فوراً مجھے فون کیا۔ میں اس وقت علی گڑھ میں تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپا کا فون آیا تھا۔ آپ کے مضمون سے بے حد برہم ہیں اور رسالہ ’آج کل‘ کو قانونی نوٹس بھیجنے کی بات کہہ رہی ہیں۔ اس وقت تک مجھے ان حالات کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ پہلی اطلاع عابد کرہانی صاحب کے فون سے ملی۔ میں نے پھر بھی اس کو اس قدر سنگین معاملہ نہیں سمجھا اور عابد صاحب سے کہہ دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں، اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر قانونی چارہ جوئی کی جا سکے۔ میں نے سوچا کہ جب میں علی گڑھ سے واپس دلّی جائوں گا تو آپا سے مل کر بات کر لوں گا۔ لہٰذا میں نے اس اطلاع کے باوجود آپا کو بھی فون نہیں کیا اور اطمینان سے رہا۔ تقریباً ہفتہ دس دنوں بعد جب علی گڑھ سے دلی واپس آیا تو پیش لفظ جو ادھورا تھا اس کو مکمل کرانے کے لیے آپا سے وقت طے کرنے کے لیے فون کیا۔ حسب معمول ریحانہ نے فون اٹھایا۔ میں نے کہا کہ آپا سے بات کرائو، میں کل صبح آنا چاہتا ہوں۔ تو اس نے بتایا کہ آپا آپ سے بہت ناراض ہیں اور وہ شاید آپ سے بات بھی نہ کریں۔ تب مجھے حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔ ریحانہ نے آپا سے بتایا کہ جمیل اختر ہیں، آپ سے بات کرنی چاہتے ہیں۔ آپا نے فون لیا، بات کی اور وقت بھی دیا۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ آپا مجھ سے اس قدر خفا بھی ہیں۔ ریحانہ کو بھی بے حد حیرانی ہوئی۔ میں مطمئن ہوا کہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ بات کوئی ایسی تھی بھی نہیں کہ معاملہ اس قدر طول پکڑے۔
میں دوسرے دن متعینہ وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے آپا کے دولت کدے پر پہنچا۔ عموماً میں اسی وقت ان کے یہاں جاتا تھا۔ ریحانہ نے دروازہ کھولا اور کہا بیٹھیے۔ پھر اس نے کہا کہ کچھ اور لوگ آنے والے ہیں۔ آپا نے آپ پر اس مضمون کے حوالے سے پنچایت بٹھائی ہے۔ میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ یا اللہ یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے اس قدر تفصیلی اور تحقیقی مضمون اس لیے تو نہیں لکھا تھا کہ آپا کی دل آزاری ہو۔ لیکن دل بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ مضمون میں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ طبع نازک پہ گراں گزرے۔ بہر حال اسی ادھیڑ بن میں بیٹھا ہوا تھا کہ ریحانہ نے مجھے بتایا کہ آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا چکی ہے اور 25 لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔ ’آج کل‘ کو نوٹس بھیج دی گئی ہے۔ قومی کونسل میں بھی کلیات کی تدوین کے سلسلے میں پروجیکٹ آپ سے واپس لینے کا بھی خط بھیجا جا چکا ہے۔ یہ سننا تھا کہ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ ریحانہ نے آپا کے ادبی معاون کی طرف اشارہ کیا کہ انھوں نے آپا کو آپ کے خلاف بہت بھڑکایا ہے۔ ورنہ آپا شاید اس قدر ناراں نہیں ہوتیں۔ میرے بدخواہوں کو میرے خلاف سازش کا سنہری موقع جو ہاتھ آیا تھا۔ بہر حال، اب اس وقت کیا کیا جا سکتا تھا۔ عدالت لگنے کے انتظار میں بیٹھا رہا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ صغریٰ مہدی اور شمیم حنفی صاحب داخل ہوئے اور میرے پاس ہی آ کر بیٹھ گئے۔ چند منٹ بعد ان کی بھانجی ہما حیدر اور ان کے شوہر رفیع الحسن صاحب تشریف لائے (یہ دونوں اب مرحومین میں شامل ہو چکے ہیں)۔ اور پھر کچھ دیر بعد ایک کرنل صاحب جو آپا کے پڑوس میں رہتے تھے تشریف لائے۔ پھر ریحانہ نے آپا کو جا کر خبر دی کہ تمام لوگ آ چکے ہیں تو پھر آپا تشریف لائیں۔ کچھ دیر تک خاموشی طاری رہی۔ ہر کوئی آپا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور آپا نظریں جھکائے بیٹھی تھیں اور میں باری باری ہر ایک کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ تبھی رفیع الحسن مرحوم نے آپا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہم لوگوں کو کس لیے بلایا ہے، کیا بات ہے۔ تب آپا نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے میرے بارے میں جو اس قدر بے ہودہ مضمون لکھا ہے اس کا کیا کیا جائے۔ مجمع میں خاموشی تھی۔ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ تب میں گویا ہوا اور آپا سے پوچھا کہ میرے مضمون کا کون سا جملہ یا میری کون سی بات آپ کی تکلیف کا باعث ہوئی۔ تو آپا نے کہا کہ یہ جو آپ نے میرے والدین کے بارے میں لکھا ہے یہ کیا ہے۔ یہ میں بالکل برداشت نہیں کروں گی۔ میں خاموشی سے آپا کی باتیں سنتا رہا۔ پنچایت میں موجود تمام لوگ بھی آپا کی باتیں سنتے رہے۔ میں نے اس مضمون میں یہ لکھا تھا کہ:
’’قرۃالعین حیدر کی والدہ اگرچہ بہت ہی روشن خیال خاتون تھیں لیکن روایت پرستی بھی ان میں موجود تھی۔ ساتھ ساتھ وہمی، ضدی اور غیر مستقل مزاج بھی تھیں۔ سجاد حیدر ان کی ضد کی آگے ہمیشہ سپر ڈال دیتے تھے۔ زندگی بھر پورا گھر معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے لیے پھریں۔‘‘ (تنقید کے نئے افق، جمیل اختر، صفحہ 51-52)
ایک اور جگہ میں نے پورے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے عینی آپا کی شخصیت پر یوں روشنی ڈالی تھی:
’’جس متضاد قسم کے ماحول میں عینی نے پرورش پائی اس ماحول کا پورا تضاد اور کنفیوژن ان کی شخصیت میں در آیا۔ گھریلو ماحول تمام آسودگی اور خوش حالی کے باوجود اس ناطے ناخوش گوار تھا کہ والدہ کی بے جا ضد سے گھر میں ہر وقت ٹکرائو اور تنائو کی کیفیت رہتی تھی۔ گھر کے اس ماحول کا اثر بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہوا۔ گھر کا یہی تضاد، تنائو اور ماحول کی ناخوشگواری عینی کی شخصیت میں داخل ہو گئی۔ غیر مستقل مزاجی، چڑچڑاپن اور زندگی کی بہت سی بے ضابطگی عینی کی فطرت کا حصہ بن گئیں اور آج بھی ان کی شخصیت میں یہ عناصر نہ صرف موجود ہیں بلکہ سرگرم ہیں اور اکثر اوقات ان کی پوری شخصیت پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ان کے ملنے والوں کو بے حد مایوس کرتے ہیں۔‘‘ (تنقید کے نئے افق، صفحہ 51)
جب آپا خاموش ہوئیں تو سب لوگ میری طرف دیکھنے لگے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مجرم کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ سب جواب طلب نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ پورا ماحول میرے لیے بے حد عجیب سا تھا۔ آج کا دن میرے لیے بڑا تاریخی دن تھا۔ ایک عہد ساز ادیبہ کے رو برو میں ایک ایسی کیفیت میں مبتلا تھا کہ قصور نہ ہونے کے باوجود احساس ندامت اور پشیمانی محسوس کر رہا تھا۔ ندامت اس بات کی کہ اتنی بڑی ادیبہ کو میرے لفظوں سے چوٹ پہنچی ہے اور وہ بھی اتنی کہ اس کی تاب تنہا نہ لا کر اپنے درد میںد و مزید بڑے ادیبوں اور رشتہ داروں اور احباب تک کو شریک کرنا پڑا (اس واقعے کے واحد چشم دید گواہ شمیم حنفی صاحب بقید حیات ہیں۔ صاحب معاملات سمیت تمام لوگ اس دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں)۔ مجھے ان کی بھانجی ہما حیدر مرحومہ جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، انھوں نے اس درد کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ عینی خالہ نے جب سے یہ مضمون سنا ہے بے حد بے چین ہیں۔ ان کے راتوں کی نیند ختم ہو گئی ہے۔ اکثر دیر رات میں فون کر کے درد کی کیفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ میں نے زندگی میں انھیں اس قدر پریشانی اور بے چینی میں کبھی نہیں دیکھا۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی بتلایا کہ میں نے آپ کا مضمون خاص طور پر پڑھا ہے تاکہ خالہ کے درد کو سمجھ سکوں۔ مگر وہ جملے جس کا اظہار ابھی خالہ نے کیا ہے وہ بھی مجھے ایسے نہیں لگے کہ اس پر اس قدر پریشان ہوا جائے۔ لیکن آپا بعض معاملات میں بے حد حساس واقع ہوئی ہیں۔ میں نے کہا کہ بعض میں نہیں بلکہ وہ حد درجہ حساس ہیں یہ میں بھی جانتا ہوں مگر مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ میں نے تو اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے بلکہ آپا کے لکھے ہوئے جملوں کا تجزیہ کیا ہے۔ پنچوں کا تجسّس بے قراری میں متبدل ہونے ہی والا تھا کہ میں نے اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر کے سب سے پہلے تو آپا کی طرف دیکھا پھر اوروں پر ایک نظر ڈالی اور آپا کو مخاطب کرتے ہوئے گویا ہوا۔ آپا جن باتوں سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے وہ تمام باتیں میری نہیں بلکہ آپ کی تحریروں میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ پھر میں نے ’کارِ جہاں دراز ہے‘ سے اور ان کے چند مضامین سے اس کا حوالہ کوٹ کرتے ہوئے چند جملے بھی دہرائے اور خود آپا سے سوال کیا کہ کوئی تجزیہ نگار ان جملوں سے کیا نتیجہ اخذ کرے گا۔ جب آپ نے خود ہی اپنی تحریروں میں ان معصومانہ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ کوٹیشن سن کر آپا دم بہ خود رہ گئیں اور ٹکٹکی لگا کر مجھے دیکھتی رہیں۔ میرے اس ترکی بہ ترکی جواب سے ماحول میں سکوت طاری ہو گیا اور سبھوں کو سانپ سونگھ گیا۔ میرے جواب کے بعد کسی سے کوئی سوال نہیں بن پڑا۔ سب خاموش بیٹھے رہے۔ میں پھر سکوت کو توڑتا ہوا گویا ہوا۔ آپا آپ مجھ سے بڑی ہیں۔ ہم سب کے لیے قابل قدر، اردو ادب کو آپ پر ناز ہے اور فکشن کی سرتاج ہیں اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں آپ کی صحبت سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ میری اس سے بڑی خوش بختی اور کیا ہوگی کہ آپ کے رو برو بیٹھا ہوا ہوں۔ میرے مضمون سے آپ کی دل آزاری ہوئی آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ میں عمر میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں اور ادب میں میری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں نے کسی بدخواہی کے طور پر یہ جملے نہیں لکھے تھے بلکہ آپ کے جملوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ پھر بھی میرے جملوں اور الفاظ سے جو تکلیف آپ کو پہنچی ہے اس کے لیے میں بے حد معذرت خواہ ہوں۔ غبارے سے ہوا نکل گئی۔ جو لوگ مجھ پر حملہ کرنے کی تاک میں تھے وہ سب نہتے ہو گئے۔ ادبی معاون سے مضمون کی دوبارہ قرأت کے لیے کہا گیا اور ہما مرحومہ نے ان جملوں کو خاص طور پر پڑھنے کے لیے کہا جس نے آگ میں گھی کا کام کیا تھا۔ باوجود تلاش کے وہ جملے جس نے بے قراری اور غصے میں اضافہ کیا تھا اور معاون نے گڑھ کر پڑھے تھے دوبارہ پڑھنے سے قاصر تھا۔ اس لیے کہ صاحب مضمون بھی نظر کے سامنے تھا۔ اس کی بھی گھگھی بندھ گئی۔ تمام لوگوں پر سازش بے نقاب ہو گئی اور میرے جواب نے سب کو لاجواب کر دیا۔
اب پھر رفیع بھائی گویا ہوئے کہ خالہ یہ آپ پر کام کر رہے ہیں اور آپ نے اس کی اجازت انھیں دے رکھی ہے۔ یہ برسوں سے آپ کے پاس آ رہے ہیں۔ ابھی آپ انھیں کلیات کا مقدمہ بھی املا کرا رہی ہیں۔ آپ کی خواہش بھی ہے کہ آپ کی کلیات جلد از جلد آئے۔ آپ سے میں نے کہا تھا کہ جمیل اختر کو بلا کر تمام کارروائی سے پہلے ایک بار بات کر لیں لیکن آپ نہیں مانیں اور عجلت میں تمام کارروائی کر ڈالی۔ بتائیے اب کیا ہوگا۔ آپا نے کہا کہ آپ ہی لوگ بتائیے کہ اب کیا کیا جائے۔ رفیع صاحب نے کہا کہ تمام کارروائیاں روکنی ہوں گی اور کونسل کو جو لیٹر گیا ہے اسے واپس لینا ہوگا اور انھیں اس پروجیکٹ پر حسب سابق کام کرتے رہنے کا خط کونسل کو بھیجنا ہوگا۔ اور کورٹ کی کارروائی کو بھی روکنا ہوگا۔ یہ کام میں ابھی جا کر کروں گا۔ ابر چھٹ گیا، مطلع صاف ہو گیا، گھنگھور گھٹائیں بنا برسے حق و سچائی کی گرج چمک کے سامنے اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئیں۔ ماحول سازگار ہوا۔ سبھوں نے ساتھ میں ظہرانہ پر اس کڑواہٹ کو لذیز کھانوں کے ساتھ نگل لیا۔ کھانے کے بعد آپا آرام کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ شمیم حنفی اور صغریٰ مہدی صاحب کو الوداع کہنے میں باہر تک گیا۔ شمیم حنفی صاحب میرے جواب سے بے حد خوش تھے جس کا اظہار انھوں نے کئی ادبی محفلوں میں کئی لوگوں سے کیا۔ اپنی نوعیت کے اس انوکھے مقدمے کی گونج ہندوستان بھر میں سنائی دی۔ جس کسی نے سنا اسے میری قدآوری پر بے حد فخر ہوا۔ مقدمہ کسی اور نے نہیں ایک عہد ساز ادیبہ نے اس خاکسار پر، جس کی کوئی بساط نہیں تھی، کیا تھا۔ میں بھی بہت دنوں تک اپنے آپ پر ناز کرتا رہا۔
مجھے آگے کی کارروائی کے لیے بیٹھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ دفتری وقت کے مطابق عینی آپا کچھ دیر آرام فرما کر اپنی نشست پر آ بیٹھیں اور گویا ہوئیں اب کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا اردو کونسل کے لیے خط لکھوانا ہے۔ آپا نے خط ڈکٹیٹ کرایا اور بھیجے گئے خط کو واپس لینے اور پروجیکٹ کا سلسلہ بدستور سابق جاری رکھنے کے لیے اردو کونسل کے ڈائریکٹر کو خط لکھوایا۔ رفیع بھائی وکیل کے پاس گئے کہ آگے کی کارروائی نہ ہو۔ اسی اثنا میں ’آج کل‘ کو اس مضمون کو شائع کرنے کا نوٹس وکیل کے ذریعہ بھیجا جا چکا تھا۔’آجکل‘ نے وضاحت نامہ شائع کر کے اپنی جان بچائی۔ اور کچھ دنوں تک میرا مضمون نہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہ سب باتیں زیادہ دیرپا اثر قائم نہ رکھ سکیں اور تمام حالات معمول پر لوٹ آئے۔
آپا نے دوسری نشست میں پھر کلیات کا مقدمہ جو ادھورا تھا اسے مکمل کرانے کی شروعات کر دی اور اس دن تقریباً سات بجے شام تک انھوں نے خلاف معمول کام کرایا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور میں روزانہ جانے لگا۔ تقریباً ہفتہ دس دنوں میں یہ کام مکمل ہوا۔ پھر میری جان میں جان آئی۔ اس طرح یہ دشوارگزار مہم دشمنوں کی سازش کے باوجود بہ حسن و خوبی اختتام پذیر ہوئی اور میں نے اطمینان کی سانس لی۔ آپا کے تصدیق نامہ کے ساتھ چار جلدوں کا مسودہ اشاعت کے لیے کونسل میں داخل کر دیا گیا اور چند ماہ بعد شائع بھی ہو گیا۔ لیکن آپا اسے دیکھ پاتیں اس کی مہلت قدرت نے انھیں نہیں دی اور آپا بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہو گئیں اور پھر اس دارفانی سے کوچ کر گئیں۔
ان کی صحبتوں سے مجھے بے حد فیض پہنچا۔ میرے علم میں اضافہ ہوا۔ بہت سی چیزیں میں نے ان سے سیکھیں۔ ان کا انداز تخاطب اور طرز تحریر نے بھی مجھ پر کافی اثر ڈالا۔ میں اپنے کو خوش قسمت سمجھتا ہوں اتنی بڑی ادیبہ اور عہد ساز شخصیت کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ پورے پورے دن ان کی صحبتوں میں بیٹھا۔ ان سے ہر طرح کے موضوعات پر گفتگو کی۔ فراق نے اپنے متعلق کہا تھا:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی اے لوگو
جب بھی تم یہ بتلائو گے میں نے فراق کو دیکھا ہے
عینی آپا کے حوالے سے میں ان لوگوں میں شامل ہو گیا جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آپا ہم کلام ہوئیں کہ کلیات کی بقیہ جلدوں کا کیا رہا۔ میں نے کہا اب رہی کلیات کی بات، تو 2007 کے بعد سے میں مسلسل اس کام میں لگا ہوا ہوں تو کیا میری چاہت کا دم بھرنے والے اداروں نے تمھاری مدد نہیں کی۔ عینی آپا گویا ہوئیں۔ نہیں آپا نہیں بار بار کی یاد دہانی کے باوجود کسی نے بھی مدد کا بھروسہ نہیں دلایا۔ آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے شیریں زبان و دہن سے گفتگو کرنے والے باثروت و بااختیار لوگوں نے اپنی بے بسی کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ یہ ظاہر کر دیا کہ آنکھ بند کرنے کے بعد اس خود غرض دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ میں نے جس کسی سے بھی اس سلسلے میں تھوڑی سی امید نظر آئی تذکرہ ضرور کیا لیکن صرف اور صرف ناامیدی اور ناکامی ہی ہاتھ آئی۔ لیکن اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بساط بھر کوشش کرتا رہا۔ آخر سات آٹھ سالوں کی محنت شاقہ کے بعد اپنی ذاتی کوششوں سے میں نے اتنا کچھ جمع کرنے میں کامیابی حاصل کر لی کہ ایک دو نہیں بلکہ کل سات جلدوں کا مواد جمع ہو گیا۔ پھر میرے حوصلے کو ایسی توانائی ملی جیسے ہمالیہ سر کر کے فتح و نصرت سے ہمکنار ہونے والے لوگوں کو ملتی ہے۔ آپا مستقل مجھے حیرت و استعجاب بھری نظروں سے نہ صرف دیکھے جا رہی تھی بلکہ میری سرشاری کی کیفیت سے وہ بھی محظوظ ہو رہی تھیں۔ پھر زیر لب تبسم پیدا کرتے ہوئے ایک آہ سرد بھری اور بولیں مجھے اس صورت حال کا قطعی اندازہ نہیں تھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ میرے عشاق میری ناز برداری کریں گے اور میرے سرمایہ ادب کی حفاظت دامے، درمے، قدمے کریں گے۔ علامہ اقبال ٹھیک ہی فرما گئے ہیں:
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
لیکن میں ہی بے وقوف تھی دنیاداری کو سمجھ نہیں پائی۔ آپا اس کا تو آپ نے خود ہی اقرار کیا ہے ’’جہاں تک انسان کا تعلق ہے میں انھیں بہت زیادہ نہیں سمجھ پائی ہوں۔ انسان آسانی سے سمجھ میں آنے والی چیز بھی نہیں۔ اس کا ذہنی تجزیہ میرے لیے ناقابل حصول ثابت ہوا۔ آپا اس میں تو کوئی شک نہیں اس لیے تو لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کرداروں کی پیش کش میں بہت کامیاب نہیں ہیں اور اس کی وجہ شاید انسان شناسی ہی ہے۔ تم ٹھیک کہتے ہو میں جلد اعتبار کر لیتی ہوں۔ ہر انسان کی شخصیت کے اندر تہہ در تہہ شخصیتیں ہیں۔ کتنے پہلو دیکھے اَن دیکھے اور اجنبی راز ہیں۔ میرے لیے عورت اور مرد بعض اوقات ایسی پرچھائیاں ہیں جو میرے سامنے سے گزرتی ہیں۔ میں نہایت خوش ہو کر اپنے آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں بھی انھیں پہچان سکتی ہوں۔ لیکن ان کے کسی ایک رویہ، محبت یا نفرت کا تجزیہ کر کے میں ان کے سارے چرتر پر کوئی فیصلہ تھوپ نہیں سکتی۔‘‘ میری یہی کمی کردار کی پیش کش میں حائل ہوتی ہے اور آج تمھاری زبانی زمانے کا احوال سن کر یہ یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ:
مونس ہے بعد مرگ کسی کا جہاں میں کون
دو پھول بھی لحد پہ کوئی دھر نہ جائے گا
اور پچھلے دس سالوں میں میں نے یہ بات محسوس بھی کی ہے۔ اور واقعی حقیقت بھی یہی ہے۔ آپا برصغیر کی نامور ادیبہ آج کسم پرسی کے حالات سے دو چار ہیں جس نے اردو فکشن کو نئے ہیئت و اسالیب سے روشناس کرایا اور بیسویں صدی کے ادبی افق پر جس نے اپنی فکر و فن کی ضیا پاشی سے منور رکھا وہی شخصیت اتنی جلد لوگوں کے دل و دماغ سے محو ہو جائے گی اور نام لیوا بھی باقی نہیں بچیں گے یہ سوچ کر حیرانی ہوتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کی یوم پیدائش اور یوم وفات منانے والے افراد و ادارے کا رویہ بھی آپ کے تئیں سوتیلا ہی ہے۔ حتیٰ کہ جس ادارے کی آغوش میں آپ مدفون ہیں وہاں کے لوگوں کی بے حسی بھی افسوسناک ہے۔ آپا یہ تو غیروں کی باتیں ہوئیں۔ آپ کے اپنوں نے بھی آپ کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا۔ عمر بھر اپنی اور ہندوستانی وراثت کے بکھرے اور مٹتے نقوش کی محافظت کرتے کرتے آپ نے پوری زندگی کھپا دی اور یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ آپ کی خود اپنی وراثت کو آپ کے رشتہ دار سنبھال کر چند ماہ بھی نہ رکھ سکے۔ ادبی وراثت کو تو چھوڑیے اسے تو ہم جیسا کوئی عشاق ادب سنبھال ہی دے گا۔ میں تو اس وراثت کی بات کر رہا ہوں جس کا شکوہ آپ ہمیشہ کرتی رہتی تھیں۔ یاد ہے عزیز بانو داراب وفا کے انتقال پر ایک تعزیتی مضمون لکھتے ہوئے آپ نے یہ لکھا تھا کہ:
’’عزیز بانو کا مکان بھی لکھنؤ کے چند اور مکانوں کی طرح نیشنل ہیریٹج میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ میں تو ان کو ضرور یہ رائے دیتی مگر وہ خود ہی غائب ہو گئیں۔
انگلستان، فرانس، جرمنی اور روس کے اہل نظر نے اپنے عہد رفتہ کے مشاہیر کے مکانات کو اس طرح سجا بنا کے رکھا ہے۔ اور میں یہ رونا ہمیشہ روتی ہوں کہ مرزا غالب کے مکان میں کوئلے کی دکان کھل گئی۔‘‘
آپا لگتا ہے کہ آپ کے اپنے رشتہ داروں کو آپ کی اہمیت اور آپ کے قد کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ یا پھر آپ ان کو تہذیبی وراثت کی اہمیت کا کوئی خاص احساس نہیں پیدا کر اسکیں تبھی تو آپ کے مرنے کے محض چند ماہ بعد ہی لوگوں نے اسے فروخت کر دیا۔ آپا انتہائی افسردگی کے ساتھ رقت آمیز لہجے میں بولیں، جب مجھے یہ خبر ملی تھی تو بے حد صدمہ ہوا تھا۔ خود میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ انگلستان میں ادیبوں کے محفوظ مکان کا معائنہ کرنے والی خاتون کی اپنی ذاتی وراثت جسے نیشنل ہیریٹج میں شامل ہونا چاہیے تھا اتنی جلد بے نام و نمود ہو جائے گی۔ آپ کی روح اس حادثے پر کتنی اذیت محسوس کر رہی ہوگی اس کا مجھے اندازہ ہے۔ آپا نہایت سنجیدگی کے ساتھ کرب کو جذب کرتے ہوئے میری بات سن رہی تھیں۔ میں نے کہا، آپ یہی سوچ رہی ہوں گی نا کہ جس بات کے لیے میں زندگی بھر لڑتی رہی، احتجاج کرتی رہی، آج وہی بات، وہی حادثہ، تاریخ کی وہی المناکی میرے ساتھ بھی پیش آئی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ تاریخ کی یہ دردناکی شاید انسان کا مقدر ہے۔ وقت کی جبریت کا قہر جب نازل ہوتا ہے تو سب کچھ تاخت و تاراج کر دیتا ہے۔ تہذیبی اقدار کی پامالی کا احساس موجودہ نسل کو کہاں۔ خود تزئینی کے شغل میں ڈوبے مادیت کے پرستاروں کو اپنی تہذیبی اساس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ محدود فکر اور اوسط سوچ والے یہ لوگ مکر و فریب، مصلحت پسندی، خوشامد پسندی کے حصار میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ تمدن کے قدر شناس نہیں ہو سکتے۔ مفاد پرستی کی اس دنیا میں جہاں ضمیروں اور روحوں کے سودے ہو رہے ہیں، زیاں کا کاروبار کون کرتا ہے۔ تمھاری فکر مندی اپنی جگہ جائز ہے۔ جتنا سوچو گے اس کے پیچھے درد ہی درد ملے گا۔ مجھے تو اپنی زندگی میں نامساعد حالات کا بہت کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ تہذیبی تشخص سے بے اعتنائی اور ان کی بربادی کا نظارہ پوری دنیا میں گھوم گھوم کر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان حالات پر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ اطلاعی ٹیکنالوجی کی برقیاتی لہروں نے انسانی زندگی میں جو انقلاب برپا کیا اس کی تیز تر لہروں نے سماجی رابطے کو افرادی سطح پر ختم کر دیا۔ تہذیبی انقلاب کی آندھی نے مفاد پرستی، خود غرضی، ذاتی اغراض و مقاصد نے رشتوں کی اہمیت کو اپنی اپنی سہولتوں سے طے کرنے کے رویے کی وجہ سے سماج میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اقدار کی جگہ ضرورت نے لے لی ہے۔ زندگی لطف و انبساط سے بظاہر بھرپور ہونے کے باوجود کلبیت کا شکار ہے۔ تہذیب و ثقافت کا وہ تناور ماڈل جو صدیوں کی مشترکہ کوششوں سے وجود میں آیا تھا بدلتے افرادی اور سماجی رویوں سے پارہ پارہ ہو گیا۔ وہ عزت نفس ، وہ غیرت و حمیت، وہ عرفان ذات اگر نہ ہو اور فرد اپنے آپ کو دوسروں کے عکس میں دیکھنے کا عادی ہو جائے تو پھر اسے اپنی اصل حیثیت کا احساس نہیں رہتا۔ آپا کا اشارہ مغربی تہذیب کی نقالی کی طرف تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی تہذیب زوال و انہدام کی طرف گامزن تھی۔ میں سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگا تو پھر کہنے لگیں، جب کسی قوم یا ملک کی تہذیب خود اس کے افراد کے ہاتھوں منہدم ہوتی ہے تو ایک عمومی بے توقیری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج پوری دنیا خاص کر ہندوستان میں مسلمانوں کی بے توقیری اس شکست خوردہ احساس کا نتیجہ کہی جا سکتی ہے۔ صدیوں اس ملک پر حکومت کرنے والی قوم ایک نظری اور فکری تاریکی میں مبتلا ہے۔ فطرت بھی کیا عجیب شے ہے۔ یہ کہہ کر آپا عالم استغراق میں چلی گئیں۔ اور میں سوچنے لگا تاریخ و تہذیب کے متعلق آپا کا یہ کمٹمنٹ ہی تو ہے جس نے آپا کو پوری ادبی دنیا میں ایک انفراد بخشا ہے۔ لوگ اس کے پیچھے ان کے اصل عزائم کا ادراک نہیں کر سکے اور احیائے تہذیب کی ان کی کوششوں کو ماضی کا مرثیہ قرار دے کر ان کے قد کو کم کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس سے ان کی شبیہ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا بلکہ ماضی کی تاریخ پر ان کی گہری نظر اور ان کی مدبرانہ اور مفکرانہ بصیرت نے ذہنی خلل کے شکار لوگوں کو اپنا ذہنی توازن درست کرنے پر ضرور آمادہ کیا۔ ابھی میں انہی خیالات میں مستغرق تھا کہ آپا نے پھر پوچھ ہی دیا کہ بھئی ان دس سالوں میں آپ نے آخر کیا کیا۔
آپا کے سوال پر میرے تخیل کا تانا بانا بکھر گیا اور میں پھر ان کی جانب بغور دیکھتے ہوئے بولا۔ آپا کام تو بہت سارے ہوئے اور آپ پر اس دل ناتواں نے خوب خوب کام کیا۔ کاموں کی تفصیل آپ کو بتاتا ہوں۔ آپا بہت اچھا کہہ کر میری جانب دیکھنے لگیں۔ اور آپا کے اشتیاق کو دیکھ کر میں یہ سوچنے لگا کہ گفتگو کی شروعات کہاں سے کروں۔ لیکن آپا کلیات کے بارے میں جاننے کے لیے زیادہ بے قرار تھیں لہٰذا میں نے مناسب یہی سمجھا کہ پہلے کلیات کی تفصیلات سے ہی آپا کو باخبر کر دیا جائے تاکہ ان کی بے قراری کو تھوڑا قرار آئے۔ پھر ان پر جاری اپنے دوسرے کاموں کے بارے میں بتلائوں گا۔ میں گویا ہوا آپا کئی سالوں تک تو آپ کے بچھڑنے کا غم اور مطلبی دنیا کی عیاریوں میں مبتلا رہا۔ پھر آپ کے چھوڑے ہوئے نامکمل ادبی سرمایے جو آپ کی رشتہ داروں کی دسترس میں تھا اس کے حصول کے لیے مستقل کوششیں کرتا رہا لیکن آپ کی بھانجی نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی لیکن وہ دونوں صندوق جس میں آپ کی یہ تمام چیزیں بند تھیں اور جسے ایک بار آپ نے مجھے دکھلایا بھی تھا، میرے سپرد کرنے میں ٹال مٹول سے ہی کام لیا۔ ان کے دنیا سے گزرنے کے بعد ان کے شوہر سے بھی مستقل رابطے میں رہا اور وہ بھی مخلص ثابت نہیں ہوئے۔ آخر ٹالتے ٹالتے وہ بھی ٹل گئے۔ اب تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ نواسے سانپ بن کر ان صندوقوں پر بیٹھے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ میں نے بارہا فون کیا لیکن کبھی کوئی مثبت جواب نہیں دیا بلکہ اپنے والدین کی طرح ان کا رویہ بھی نہایت افسوس ناک ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ ان لوگوں کو آپ کی ادبی وراثت سے کوئی دلچسپی ہے۔ ہاں مالی منفعت کی خاطر نیشنل ہیریٹج کی حامل آپ کی دانش گاہ حیات (مکان) جس کا کونہ کونہ میراث ادب کی یادگار کے طور پر ہزاروں برس روشن رہتا اسے بے نام و نمود کر کے ان لوگوں نے آپ کی روح کو جو اذیت پہنچائی اس کا اندازہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ان لوگوں نے تو اپنی خود غرضی میں آپ کی یادگار ہی مٹا دی۔ اب ادبی وراثت کو مٹانے کے درپے ہیں۔ آپا انتہائی پریشانی اور کرب کے ساتھ میری باتوں کو غور سے سنتی رہیں بلکہ تاسف کا اظہار کرتے ہوئے نہایت دکھے دل کے ساتھ بولیں آپ ہی سے امیدیں ہیں آپ کچھ کیجیے۔ آپ کے علاوہ کوئی اور ان بکھرے اوراق کو ترتیب و تنظیم سے سنوار بھی نہیں پائے گا۔ میں ان کی بے قرار روح کو دیکھ کر گویا ہوا، آپا آپ پریشان نہ ہوں۔ میں کوشش پیہم کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ دیر سے ہی سہی کامیابی کی امید پوری ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ آپا مطمئن ہوتے ہوئے گویا ہوئیں، ویسے تمھاری لگن کی تو میں قائل ہوں۔ تم جس کام کا ارادہ کر لیتے ہو اسے پورا کر کے ہی چھوڑتے ہو۔ تمھارا کمٹمنٹ آف ورک کیا کہنا۔ آپا اس انتظار میں کلیات کے کام میں خاصی تاخیر ہوئی۔ جب کئی سالوں کی محنت و جانفشانی کے بعد ان کے رویے سے مایوسی ہوئی تو پھر میں نے کلیات کی بقیہ جلدوں پر کام کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ بے حد بکھرا ہوا معاملہ تھا لہٰذا اس میں کافی محنت بھی لگی اور وقت بھی اچھا خاصا صرف ہوا۔ لیکن میں صبر و تحمل سے لگا رہا اور ایک ایک چیز کی چھان بین کرتا رہا۔ تقویمی ترتیب کا جو طریقہ میں نے پہلی چار جلدوں میں برتا تھا وہی طریق کار میں نے ان جلدوں میں برقرار رکھا۔ اس طرح ان دس سالوں کی محنت شاقہ کے بعد کل سات جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر آپ کے معتقدین کے ساتھ ساتھ ادب کے عام قاری جنھیں آپ کی تحریریں دل و جان سے پسند ہیں۔ ان کے ادبی ذوق کی تسکین کر رہی ہیں۔ واہ بہت خوب۔ آپا بے ساختہ بول پڑیں۔ متجسس نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں، آخر ان سات جلدوں میں ایسی کون سی سوغات میرے چاہنے والوں کو آپ نے دی ہے۔ آپا پہلی دو جلدوں یعنی پانچ اور چھ میں تو آپ کے رپورتاژ ہیں۔ سات، آٹھ میں مضامین ہیں۔ نو میں خاکے ہیں۔ دس اور گیارہ میں آپ کی ادبی گفتگو یعنی انٹرویوز ہیں۔ سبحان اللہ۔۔۔ بھئی آپ نے تو کمال کر دیا۔ میں تو سن کر حیران ہو رہی ہوں۔ آپ کی ہمت کی داد دیتی ہوں۔ نہ جانے آپ نے کہاں کہاں سے کھود کھاد کر یہ سب چیزیں جمع کی ہوں گی اور پھر اس سلیقے سے کہ ہر موضوع پر الگ جلد۔ میں تو سوچ سوچ کر حیران ہو رہی ہوں۔ آپا یہ تو وہ چیزیں ہیں جو تھوڑی سی جستجو کے بعد مجھے حاصل ہو گئیں۔ ابھی تو آپ کی آدھی سے زیادہ تحریریں منتشر ہیں جن کو جمع کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ جس کے لیے ایک خطیر رقم کے ساتھ ساتھ تحقیقی جانفشانی کی بھی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ وقت طلب اور دقت طلب بھی ہے۔ پاکستان، امریکہ، انگلینڈ کے ساتھ ہندوستان کی اہم لائبریریوں میں مواد کی چھان بین باضابطہ مہم کے طور پر کرنی پڑے گی تب جا کر آپ کے تمام ادبی اور صحافتی سرمایے اردو اور انگریزی دونوں میں جمع ہو سکیں گے۔ آپا میری بات غور سے سن رہی تھیں۔ پھر گویا ہوئیں، آخر اس کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا، کون دے گا۔ یہی سوال تو مجھے بھی پریشان کیے ہوا ہے۔ میں نے کہا۔ میں نے اپنی بساط بھر اداروں اور افراد تک سے گزارش کر کے دیکھ لیا لیکن کوئی مثبت نتیجہ ان دس سالوں میں اب تک میرے سامنے نہیں آ سکا۔ تب ہی کسی قدر ناامید ہو کر میں نے اپنی ذات واحد کی بدولت جو کچھ جمع کر سکا اس کو منظر عام پر لانا مناسب سمجھا تاکہ اور لوگوں کو بھی حوصلہ مل سکے۔ اور کوئی ہم سا ہی عاشق عینی پیدا ہو سکے اور بقیہ بکھری ہوئی وراثت کو یکجا کر کے اس پول میں ڈال سکے۔ اس طرح میرے مقصد کومنزل مل جائے گی۔ یہی سوچ کر میں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہو، آپا بول پڑیں۔ آپ کی قوت خود اعتمادی کی میں داد دیتی ہوں۔ ہمیشہ پرخطر راہوں میں قدم ڈال کر آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جذبے صادق ہوں، لگن میں پختگی ہو، عزم و حوصلے کی بدولت منزل مل ہی جاتی ہے۔ خدا آپ کے اس جذبے کو برقرار رکھے۔ آپا یہ صرف کلیات کی بات ہے۔ میری ادبی فتوحات صرف آپ کے تعلق سے بڑی کامیابیوں سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ وہ کیسے؟ دو بین الاقوامی اداروں سے بھی اس خاکسار کو پذیرائی ملی ہے۔ پہلا ادارہ جہاں سے کتابوں کی اشاعت باعث افتخار و اعزاز سمجھی جاتی ہے اس حقیر فقیر کی کتابیں بھی وہاں سے شائع ہوئی ہیں۔ آپا متوحش نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں اور میرے بے قابو جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کرتے ہوئے بولیں، بھئی مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ تمھیں تمھاری محنتوں کا صلہ خدا نے اس بلندی سے عطا کیا جو ہر ایک کا مقدر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ آخر یہ بین الاقوامی ادارے کون کون سے ہیں۔ آپا آپ بھی یہ جان کر بے حد خوش ہوں گی۔ پہلا ادارہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی ہے۔ آکسفورڈ کا نام سنتے ہی آپا اچھل پڑیں۔ اور بولیں واقعی یہ تو بڑا اعزاز ہے۔ اور اس پر آپ کی خوشی بجا ہے۔ آپا اس ادارے نے ’اندازِ بیاں اور‘ جو میری اور آپ کی گفتگو پر مبنی ہے، اس کتاب کو 2014 میں شائع کیا۔ اور اس پر طرہ یہ کہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ‘A Singular Voice’ کے نام سے شائع کیا۔ یہ کتاب 2017 میں منظر عام پر آئی اور محض چند ماہ میں 2017 میں پہلا ایڈیشن ختم بھی ہو گیا۔ یہ سنتے ہی آپا کلکاریاں بھرنے لگیں، بلکہ مجھ سے زیادہ خوشی انھیں ہو رہی تھی۔ ہوتی بھی کیوں نہیں، عالمی سطح پر ان کو پذیرائی جو مل رہی تھی۔ بھئی واہ یہ تو کمال ہی ہو گیا۔ واقعی اسے فتوحات ہی کہیں گے۔ آپ کی محنت و لگن اور علمی ارتکاز کی بدولت یہ سب ممکن ہو سکا ہے۔ وہ بھی کسی وسیلے کے بغیر اپنی ذاتی کوششوں سے آپ نے وہ کر دکھایا جو اس دور کے بڑے بڑے مہارتی بھی نہ کر سکے۔ مجھے زیادہ خوشی اسی بات کی ہو رہی کہ ایک انسان بغیر کسی سہارے کے صرف علمی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب ہوا۔ دراصل علم ہی اصل چیز ہے، توقیر اسی سے ملتی ہے۔ خدا نے آپ کی صلاحیتوں کی بدولت آپ کو وہ مرتبہ بخشا۔
آپا دوسرا ادارہ ’سنگ میل‘ ہے جس نے آپ کی کلیات کا پاکستانی ایڈیشن بڑے تزک و اہتمام سے شائع کیا ہے۔ بہت خوب، یہ سب سن کر میری روح سرشار ہو رہی ہے۔ اور میرے اس اعتماد کو مزید قوت مل رہی ہے جو میں نے اپنے کام کے سلسلے میں آپ پر قائم کر رکھا ہے۔ خدا آپ کو صحت دے اور صحت کے ساتھ سلامت بھی رکھے تاکہ آپ علمی و ادبی افق کی تابانی کو اپنے کارنامۂ صد ہزار رنگ سے جگمگائے رکھیں۔ آمین۔ لیکن آپا یہ تو راہ پرخطر ہے۔ اس میں تو انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا۔ ادبی مزدوری کی میزان میں محقق کے حصے میں مالی منفعت تو دور کی بات صرف صفر ہی ملتے ہیں اس کے باوجود یہ ہم لوگوں کا جگر ہے کہ اپنے خون دل سے اس چراغ کی لو کو جلائے رکھتے ہیں بجھنے نہیں دیتے۔ افسردگی کے ساتھ آپا بولیں ہاں یہ بات تو ہے۔ ادارے نام و نمود اور شہرت کمانے میں اتنے مصروف ہیں کہ تحقیق جیسے جاں گسل کام کے لیے ان کے پاس فنڈ ہی نہیں۔ بھلا تحقیق کیسے زندہ رہے گی۔ یہ فکر مندی بھی بجا ہے میں نے عرض کیا۔ اور آپا سوچ میں گم ہو گئیں۔۔۔ اور میں بھی۔۔۔ پھر معاً مجھے خیال آیا کہ آپا کی افسردگی کو ایک نئی خوشی میں تبدیل کر دیا جائے۔ میں نے آپا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، معلوم ہے آپا میں نے کلیات کی تدوین کے ساتھ ساتھ آپ پر ایک کتابچہ (مونوگراف)بھی لکھا ہے۔ یہ کتاب ہندوستانی ادب کے معماروں کی سیریز کے تحت لکھنے کے لیے ہندوستان کے باوقار ادبی و ثقافتی ادارہ ساہتیہ اکادمی نے تفویض کیا تھا۔ آپ پر ایک مختصر کتابچہ لکھنا کوئی سہل کام نہیں تھا۔ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر تھا۔ بہر حال اس خاکسار نے یہ کام پوری جانفشانی سے کیا اور الحمدللہ آپ کے شایان شان کتاب تیار ہوئی۔ اردو حلقوں میں اس کی کافی پذیرائی ہو رہی ہے۔ آکسفورڈ نے بھی اس کتاب کو مزید کچھ اضافے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ہے نا خوشی کی بات۔ ہندوستان میں ساہتیہ اکادمی اور اُدھر آکسفورڈ، دونوں ادارے قابل صد افتخار ہیں اور مجھے یہ اعزاز آپ کی بدولت ہی حاصل ہو سکا ہے۔ یہ تو آپ کی خاکساری اور ذرہ نوازی ہے۔ ورنہ ان اداروں سے کتاب کی اشاعت بین الاقوامی سطح پر ادیب کی شناخت کو استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ اس کی معتبریت کو قائم کرتا ہے۔ آپ کی جملہ علمی صلاحیت نے آپ کو یہ مقام اور اعزاز بخشا ہے۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ جس طرح یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ آپ کے ادبی کارنامے افق ادب پر نمودار ہو رہے ہیں وہ آپ کی ادبی کاوشوں کی گواہ خود ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آپا آپ کی حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ جاتے جاتے ایک خوشخبری اور دیتا جائوں کہ سلسلہ یہیں پر تھما نہیں ہے۔ آپ پر کئی کتابیں زیر منصوبہ ہیں۔ دس جلدوں میں ایک انسائیکلوپیڈیا بھی ’قرۃالعین حیدر کی کائنات فن‘ کے نام سے تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔ آپا بھونچکاں بنی میری طرف دیکھے جا رہی تھیں۔ پھر بول پڑیں، میاں تم انسان ہو یا جنّ، بھلا کوئی انسان بھی اس برق رفتاری کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ تم نے تو نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔ اب ذرا یہ بھی بتا دیں کہ اس انسائیکلوپیڈیا کی تہہ سے کیا اچھلنے والا ہے:
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے
آپا آپ کہتی تھیں نا کہ نقادوں نے خاتون لکھنے والیوں کو اِگنور کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل اس بات کی تردید کرے گی اور اس کا جواب پیش کرے گی۔ پھر آپ کو اندازہ ہوگا میل شونزم کی آپ کی شکایت درست تھی یا نامناسب، پھر آپ کی اس بات کا بھی جواب ملے گا کہ نقادوں نے فکشن کو سراسر نظرانداز کیا ہے۔ یا بیش تر نقادوں میں فکشن کی سمجھ نہیں، آپا میں حیران ہوں دل کو پیٹوں یا جگر کو میں۔۔۔ آپ پر اب تک صرف اردو میں چھے سو سے زائد مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ انگریزی اور ہندی میں الگ۔ جو کسی بھی فکشن رائٹر پر اب تک لکھے گئے مضامین سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ لوگوں کی صدیاں منائی گئیں مگر اس تعداد سے وہ لوگ محروم رہے۔ پھر آپ کا شکوہ۔۔۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ ناقدین آپ پر لکھنا اپنے لیے اعزاز مانتے ہیں۔ یہ سلسلہ آپ کے ابتدائی دنوں سے ہی جاری ہے۔ آپ کے لیے یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ اولین افسانوی مجموعہ اور اولین ناول کی اشاعت کے ساتھ ساتھ تنقید بھی مساوی طور پر اپنا فریضہ انجام دیتی رہی اور اردو کے تقریباً تمام اہم ناقدوں نے آپ کی تحریروں کا جائزہ لیا ہے۔ اور اس وقت جائزہ لیا جب آپ کی تحریریں لوگوں کی سمجھ سے بالا تھیں۔ اس لیے کہ آپ کی آواز میں نہ تو اپنے کسی پیش رو کی گونج شامل تھی، نہ اپنے دور کے رائج الوقت رویوں کی۔ یہ آپ کا اپنی روایت سے بغاوت نہ تھی بلکہ ایک تخلیقی اجتہاد تھا۔ اس اجتہاد کو اساس فراہم کرنے والے عناصر اردو فکشن کی عام روایت سے قطع نظر، آپ کے مغرب آگاہ معاصرین کے لیے بھی اجنبی تھے۔ بقول لارش، چونکہ اجنبی خیالات کو قبولیت ذرا مشکل سے ملتی ہے، اس لیے آپ کو بھی یہ کہہ کر سرے سے رد کرنے کی کوششیں ہوئیں کہ آپ کے خیالات و تجزیات مغرب زدہ ہیں۔ خاص طور پر آپ کی انگریزی آمیز زبان پر بہت سوال اٹھے تھے بلکہ لوگوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ افسانے کی شرح بھی چھپوا دو۔ یہ بات مذاق میں نہیں کہی تھی لوگوں نے بلکہ اس وقت کی سچائی تھی۔ بلکہ آپ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ آپ کا طرز احساس اور طرز اظہار ہی نہیں بلکہ آپ کے ذہن اور جذباتی سروکار بھی ہماری زندگی اور ہمارے زمانے کی سچائی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ آپ کی اولین کتابوں ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘ اور ’میرے بھی صنم خانے‘ کی پذیرائی ان کتابوں کی اشاعت کے دور میں یوں کی گئی گویا یہ اظہارات کسی غیر متوقع اور بن بلائے مہمان کی آمد کے اعلانیے ہیں۔ ادب کی نامور ادیبہ نے تو آپ کی اس ادا پر آپ پر مضمون لکھتے ہوئے آپ کو پوم پوم ڈارلنگ کے خطاب سے نوازا تھا اور یکسانیت مضمون کی وجہ سے کہا تھا کہ ایک ہی لکیر کو کب تک پیٹتی رہو گی۔ آپ نے اسی لکیر کو پیٹ پیٹ کر اتنا نکھارا کہ موضوع میں تنوع پیدا ہو گیا۔ پھر لوگ آفریں آفریں کرنے لگے۔ ترقی پسند اور جدیدیوں کے بارے میں آپ کا شکوہ بجا ہے کہ ان کے تمام اہم رائٹر نے آپ کو اگنور کیا لیکن پس از مرگ ترقی پسندوں اور جدیدیوں کے اماموں نے اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کی اور قمر رئیس سمیت کئی ترقی پسندوں نے نوحہ و ماتم کے بعد آپ کی ادبی حیثیت کو مکمل طور پر تسلیم کیا ہے۔ اور بورژوائیت کا لیبل اب آپ سے ہٹا دیا گیا۔ میری نشاندہی پر اب ان افسانوں اور ناولٹوں پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سماج کے متوسط اور انتہائی پسماندہ طبقے کے مسائل اور ان کی حالت زار پر آپ کی فکرمندی کی لوگ قدر کرنے لگے ہیں۔ آپا یہ انسائیکلو پیڈیا مختلف نظریات، طبقے اور تحریکوں اور نظریات سے وابستہ ناقدین کی مختلف آرا کو ایک گلدستہ کی شکل میں قارئین کو فراہم کرایا گیا ہے تاکہ اس زینت چمن سے آپ کی شخصیت، اور آپ کے فکر و خیال کی قوس قزح سے نئی نسل واقف ہو سکے اور آپ کو جس ادبی ناانصافی اور ناقدری کا شکوہ رہا ہے اس کا ازالہ نئی نسل کے ہونہار ناقدین جن کے ہاتھوں میں ادب کی باگ ڈور ہے وہ تمام تعصب سے بالاتر ہو کر آپ کی تخلیقات کا تجزیہ اپنی دانشمندانہ فکر اور مدبرانہ فہم کی بدولت نئے سرے سے کر کے آپ کے ادبی وقار میں اضافہ کر سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو میری یہ کوشش کامیابی سے ہم کنار ہوگی اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ بھئی آپ کے حوصلے کی بھی داد دینی پڑے گی۔ یہاں تو پل بھر کی خبر نہیں اور آپ ہیں کہ طویل مدتی منصوبہ بنا کر اس قدر وقیع و وسیع کام کر رہے ہیں جس کے بارے میں سوچ کر ہی کتنوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ مجھے کسی شاعر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو اس وقت آپ پر بالکل صادق آتا ہے:
تیرا اخلاق دیتا ہے پتہ تیری بلندی کا
تیرا یہ جھک کے ملنا کہہ رہا ہے آسماں تو ہے
میں تو بس اتنی دعا دے سکتی ہوں کہ خدا آپ کے حوصلے کو برقرار رکھے اور آپ کے یقین کی پراعتمادی کو قائم و دائم رکھے۔ آپ کی مجھ سے اس قدر محبت کہ اس کے لیے شکریے کے الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ میری ادبی وراثت کے امین بن کر جس طرح آپ یہ سب کام کر رہے ہیں میں اب پورے طور پر مطمئن ہوں کہ میری ادبی وراثت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپا میری کوشش تو یہی ہے۔ باقی اللہ کی فتح و نصرت پر یقین کامل ہے۔ انشاء اللہ وہ اس بیڑے کو ضرور پار لگائے۔ یقینا۔ اگر نہ ہو یہ امید پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا۔ خدا آپ کی مدد کرے، آپا نے دعا سے نوازا۔ اور گفتگو کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم ہو گیا۔ آپا میری نظروں سے یک بیک غائب ہو گئیں۔ یا میں لاشعور سے شعور کی حالت میں واپس آ گیا۔
عینی آپا سے وابستہ اتنے قصے اور اتنی یادیں ہیں کہ انھیں ایک مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ان پر آئندہ بھی لکھنا جاری رہے گا۔ ان پر کئی کتابیں بھی زیر ترتیب ہیں اور کلیات کو بھی مکمل کرنا ہے۔
ان کی تمام تحریروں کو محفوظ کرنا ہی ان کو صحیح خراج عقیدت پیش کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ تہذیب اور تاریخ کا جتنا مبسوط اور ہمہ گیر ادراک ہمیں قرۃ العین حیدر کے یہاں ملتا ہے اس کی کوئی مثال اردو فکشن میں نظر نہیں آتی۔
Qabil Ajmeri ki Aik Naz’m “Yad E Watan”
Articles
قابلؔ اجمیری کی ایک نظم---------یاد وطن
عمران عاکف خان

دیار غریب میں وطن کی یاد اور وطن سے اپنی وابستگی کا اظہار، ہمارے شعرا و ادبا کاقدیم وطیرہ رہا ہے ۔وہ اپنے وطن مالوف سے نکل کرجہاں بھی گئے ،اپنے سرمایوں کے ساتھ’’یادوطن‘‘بھی لے گئے۔اس یادنے ہمیشہ انھیں ’’وطن‘‘سے جوڑے رکھا ۔بلکہ بسااوقات تو ’’وطن‘‘کی نسبت ،ان کے تشخص،ان کے امتیاز اور ان کی شناخت کا ذریعہ بھی بنی ،اسی طرح اس نسبت نے ہم عصروں میںانھیں ایک خاص مقام و مرتبہ بھی عطا کیا۔وہ بھی اپنی مجلسوں میں اس کا ذکر برملا اور فخر سے کر تے ۔پھر اس سے پہلے کہ بات مباہات تک پہنچتی تو دوسروں کے وطن کی تعریف سننے کے لیے خود کو تیار کر لیتے۔اس طرح وہ دوسروں کے وطنوں کی بات سن کر بھی اپنے وطن کی بات کہہ جاتے ۔
اردو شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار مختلف اندازاورمتعدد طریقوں سے ہوا ہے۔ یہاں تک کے اس نے ایک باضابطہ صنف کی شکل اختیار کرلی ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر شعرا کے یہاں وطن سے دوستی ،وطن کی یاد،وطن سے وابستگی جیسے عناصر موجود ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو ان کے مجموعہ ہائے کلام کا سب سے دل ریز حصہ وہی ہوتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں ،وہیں کچھ ایسے گوشے بھی ہوتے ہیں جن پراکثر نظر نہیں ٹھیرتی،ان کوشاعر اپنی فکروں کا موضوع بناتا ہے پھر اس کا اظہار اس طرح کر تا ہے کہ وہ وطن اسی انداز سے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنا لیتا ہے۔ وطن پرستی ایک مستحسن اور ایمانی جذبہ ہے،جس کا کوئی بدل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔یہی جذبہ، شاعر کو بسااوقات جینے کے حوصلے بھی دیتا ہے ،اسی طرح نئے ردیف و قافیے بھی دیتا ہے اور اس کے کلام کی عظمت دوبالا کردیتا ہے۔نیز اس کلام کوزندگی بھی حاصل ہوجاتی ہے۔جب تک وطن باقی رہے گا،وہ شاعر اوراس کی وطن نواز نظمیں اورفکریں بھی باقی رہیں گی۔
خدائے سخن میرتقی میرؔ جب دہلی کی بربادی کے بعد لکھنؤ گئے، اس وقت وہاں کے شعری و ادبی حلقوں میں چڑھی ہوئی سوالیہ تیوریوں کے جواب میں انھوں نے اپنے وطن مالوف کا تعارف اس طرح کرایا:
کیا بو دو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے!!
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب!
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے !!
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا !
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے !!
٭٭٭
دلّی کے نہ تھے کوچے،اوراق مصور تھے!
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی!!
یہ وہ احساسات ہیں جو ایک غریب الدیار کو اس کے وطن کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اورجنھیں وہ سوال پوچھنے والوں یا اس کے وطن کے متعلق چہ می گوئیاں کرنے والوں کو بطور جواب دکھلاتا ہے ۔ اس طرح نہ صرف اس شخص کی عظمت دلوں میں بیٹھتی ہے ،اس کے وطن کی عظمت کا اعتراف بھی جاگزیں ہوتا ہے۔دلّی جو ایک شہر تھا،اسے عالم میں متعدد وجوہات سے امتیاز حاصل تھا ۔وہاں روزگار کے منتخب افراد اور ہستیاں رہتی تھیں ۔میر ؔکا یہ جواب سن کر اس کے بعد پورب کے ساکنان نظریں جھکا کر رہ گئے۔
وطن سے دور ،اس دیار غیر میں ان غریبوں کے پاس جو کچھ بھی اپنا ہوتا ہے،وہ وطن کی یادیں ہی ہوتی ہیں ۔جنھیں وہ محسنؔ نقوی کے الفاظ میں کسی مفلس کی پونجی کی طرح سنبھال کر رکھتے جاتے ہیں ،روزگنتے ہیں اور ان میں اضافہ کر نے کے لیے مختلف حیلے اور طریقے ایجاد کر تے ہیں۔اس بات کو اگر فکشن کے نقطۂ نظر سے دیکھاجائے تو پتا چلتا ہے کہ وطن کی یاد اور وطن کا اس طرح ذکر ایک نفسیاتی مسئلہ ہے ،تاہم اچھی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف صاحب مسئلہ کے لیے ہی مضر و مفید ہے،اس کے علاوہ کسی کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔نفسیاتی طور پر وطن سے محروم ایک شاعر ان ہی خیالات میں جتیا ہے اور ان کی روشنی میں اپنی آگے کی منزلیں طے کر تا ہے ۔یاد وطن کی یہ اثر پذیریاں جہاں اس ک ذوق وشوق کو دوبالا کر تی ہیں وہیں ان کے کلام اور ان کی حسن فکر کی بھی عکاسی کر تی ہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شاعر ان ہی وارثتوں اور یادگاروں کو اپنا سب سے قیمتی سرمایہ تصور کر تا ہے اور ان کی حفاظت و صیانت میں اپنی جان کی بھی پروانہیں کر تا۔ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب لاشعور میں موجود حسیات سے انسان کو تقویت اور حوصلہ ملتا ہے۔
کلاسیکی دور سے ہوتے ہوئے یہ روایت، جدید دورکے شعرا و ادبا میں بھی چلی آئی چنانچہ برج نرائن چکبستؔ اپنے وطن کی یاد اور محبت میں اس طرح تڑپے:
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے!
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں!!
لال چند فلک ؔکا انداز اس طرح چھلکا :
دل سے نکلے گی نہ مرکربھی وطن کی الفت!
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی!!
رگھو پتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کا یہ مصرع تو وطن سے جذباتی لگاؤ کابے مثال عنوان ہے:
دیار غیر میں سوز وطن کی آنچ نہ پوچھ!
اخترؔ شیرانی نے تو گویا قلم ہی توڑدیا:
وسعت خلد سے بڑھ کر ہے کہیں حب وطن!
تنگی گور سے بدتر ہے، فضائے غربت!!
کیف ؔبھوپالی کو جب وطن کی یاد آئی تو انھوں نے یوںکہا:
کیفؔ پردیس میں نہ کر یاد اپنا مکاں!
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا!!
اسی سلسلۃ الذہب ،نایاب اور بے نظیر صف میں ایک اہم نام قابلؔ اجمیری (آمد:27اگست1931۔رخصت:30اکتوبر 1962)کا بھی شامل ہے ۔جو اس صف کی اولین قطار میں ہیں ۔ان سے جب وقت ، حالات اور میرؔ کے الفاظ میں ’’فلک‘‘نے وطن چھین لیااور وہ وطن کو نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے خداکی بستی یعنی پاکستان کے شہری بن گئے تو انھیں بھی اپنے وطن کی یادیں آئیں ۔اس وقت انھوں نے اپنے ان جذبات کی تشنگی و تسکین کے لیے ایک نظم ’’یاد وطن‘‘کے عنوان سے لکھی ۔جس کا انداز خود دعوت مطالعہ دیتا ہے ۔ذیل کی سطور میں نظم کا متن مع تجزیہ و تعارف نذرقارئین ہے۔
یـــــاد وطـــــن
فکر چمن نہ پو چھو
یاد وطن نہ پوچھو
دیوانہ پن نہ پوچھو
اکثر فریب کھایا
اجمیر یاد آیا
خواجہ کا آستانہ
دربار خسروانہ
وہ کیف وہ ترانہ
کچھ بھی نہ ساتھ لایا
اجمیر یاد آیا
وہ جھالرے کا پانی
آب بقا کا ثانی
بچپن کا یار جانی
اب ہو گیا پرایا
اجمیر یاد آیا
معنیؔ سا آہ رہبر
ہائے نیاز اطہرؔ
اب کیا کہیں کہ دل پر
کس کس کا داغ کھایا
اجمیر یاد آیا
راتوں کی خامشی میں
تاروں کی روشنی میں
شفاف چاندنی میں
دل نے سکون پایا
اجمیر یاد آیا
جب ابر مست چھایا
پیغام یار لایا
جب پھول مسکرایا
کوئل نے گیت گایا
اجمیر یاد آیا
بلبل نے جب پکارا
اک تیر دل پہ مارا
جذبات کو ابھارا
غم کا غبار چھایا
اجمیر یاد آیا
قابل کی یہ نظم ان کی نارسائیوں کی ایک داستان ہے ،اس کا مصرع مصرع وطن سے محبت کی سرشاری سے عبارت ہے۔آغاز سے ہی دل فگار یادوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔قابل ؔ اجمیری نے جن حالات میں ’’اجمیر‘‘کو خیرآباد کہا ،اس کے بعد جس طرح کے حالات اور امتحان کے پرچے سرزمین پاکستان کی وادیٔ مہران میں ان کے لیے پیش کیے گئے،ان کے تناظر میںاس نظم کے معانی اور مفاہیم اور سوا ہوجاتے ہیں ۔
اس نظم کو اگر تجزیاتی زاویوں سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے دو بڑے پہلو نظر آتے ہیں۔اول یہ کہ یہ نظم قابل ؔ اجمیری کی یاد وطن کا اظہار اور اجمیرسے جدائیگی کا نالۂ فراق ہے۔یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب نئے دیار پاکستان میں انھیں اپنے ہی دوستوں کی بے رُخی اور وقت و حالات کی ستم ظریفیوں کا سامنا کرنا پڑا تو شدت غم سے یہ آنسوں چھلک پڑے۔دوسرا پہلو یہ کہ قابل ؔ نے اس دور اور شعرا کے قدیم طریقے کے طرز پر وطن کی محبت میں شعر کہے اور اپنے وطن کی خصوصیات اس طرح بیان کیں کہ اکبر آباد،دکن،بھوپال،دہلی،رام پور،بنارس ،لکھنؤ کے طرز پر اجمیر کا ذکر بھی تذکروں میں آئے اور اجمیر کے خوب صورت چہرے سے اردو شعرو ادب میں آب و تاب بڑھے۔اس کے شبستان میں ذکر اجمیر سے اجالے دمکیںاور اجمیر کا عنوان جڑے۔یہ پہلو ہو کہ وہ پہلو ہو،خاص بات یہ ہے کہ قابلؔ کا انداز بیان البیلا اور استاذ شعرا کا ہے ۔انھوں نے اپنے اجمیر کا حال اور اس سے جڑے اپنے جذبات کا اظہارصرف ایک شعر یا ایک ہی مصرع میں بیان نہیں کیا بلکہ ایک ایک شعر اور ایک ایک بند میں اجمیرکے سراپے،اجمیر کی رعنائیوں،اجمیر کے احباب،اجمیر کے اساتذہ،اجمیر کے موسم و ماحول ،اجمیر کے جھرنوں اور تالابوں کا ذکر،خواجہ اجمیری کے دربار خسروانہ کا حال سب اس طرح بیان کیا ہے کہ اجمیر کا نقشہ قاری کے سامنے کھنچ جاتا ہے۔جنھوں نے اب تک اجمیر نہیں دیکھا ،ان کے اندر اس نظم کو پڑھ کر اجمیر دیکھنے کی طلب بڑھ جاتی ہے اور جب وہ اجمیر دیکھتے ہیں تو قابلؔ کا فرمایا ہوا مستند ہوجاتا ہے۔
یہ بند قابل ؔ کی گہری نفسیات اور کا بیان ہے اور ان کی محرومی کا وہ تذکرہ جسے وہی محسوس کرسکتے ہیں ۔قاری یا مداح تو صرف سر دھن کر ہی رہتا ہے ،وہ اس شدت اور کر ب کو کسی طور محسوس نہیں کر سکتا ۔
وہ جھالرے کا پانی
آب بقا کا ثانی
بچپن کا یار جانی
اب ہو گیا پرایا
اجمیر یاد آیا
دیار غیر میں اپنے وطن کی مماثلتیں دیکھ کر ایک شاعر ،ایک فکر مند انسان،ایک حساس وجود جس طرح کے خیالات کا اظہار کر تا ہے وہ الفاظ میں اس طرح ڈھلتے ہیں:
راتوں کی خامشی میں
تاروں کی روشنی میں
شفاف چاندنی میں
دل نے سکون پایا
اجمیر یاد آیا
جب ابر مست چھایا
پیغام یار لایا
جب پھول مسکرایا
کوئل نے گیت گایا
اجمیر یاد آیا
حالاں کہ ان کیفیات کا احساس قابلؔ کو حیدرآباد(سندھ)میں ہوتا تھا مگر اپنے وطن کا موسم اپنا ہی ہوتا ہے۔وہاں تو سب کچھ کرائے کا تھا ، اپنے وطن میں سب کچھ اپنا ہونے کا احساس ہی بیش قیمت ہوتا ہے۔راتوں میں خامشی کا منظر ہر جگہ ہوتا ہے،اسی طرح تارے ہرمقام پر روشنی بکھیرتے ہیں،شفاف چاندنی دیار خود میں ہو کہ دیار غیر میں ،یکساں ہی ہوتی ہے۔ابر مست ہر جگہ چھاتا ہے۔پھول ہرمقام پر مسکراتے ہیں اور کوئل کے گیت ہر دیار میں گونجتے ہیں، مگر وہ سب کچھ اپنا نہیں،پرایا لگتا ہے ۔ان کیفیات میں وطن کی یادیں،وطن کا یاد آنا اور وطن سے اپنی وابستگی کا اظہار اس احساس کا ترجمہ ہے جو فطری ہوتا ہے۔
قابل ؔ کی یہ نظم ان کی منجملہ نظموں،غزلوں اور مجموعی کلام کی تمام تر خوبیوں سے سچی ہے۔چھوٹی بحر میں لفظوں کا مناسب انتخاب،وردو کلام، مصرعوں کی سجاوٹ، فضا کی کشید اور ایک شہر کی بیشتر خصوصیات کو جمع کر نا، ان کی وسعت نظر اور وطن سے سچی محبت کی زندہ باد علامتیں ہیں ۔وطن سے دوستی اور محبت کا دعوا اکثر کا ہوتا ہے مگر قابل کا یہ بے پایاں اظہار ابن انشا کے اس حکم نامے کی تصدیق کردیتا ہے:
دل عشق میں بے پایاں،سودا ہوتو ایسا ہو!
قابل ؔاجمیری نے اپنے وطن سے ایسا ہی سودا کیا اور اپنا دل اس کے عشق میں اسی طرح بے پایاں کردیا۔برے حالات کا شکوہ ،نامساعد حالات اور وقت کی برہم زلفوں کی سزا وطن کو کبھی نہیں دی جاتی ،قابلؔ اس حقیقت سے بہ خوبی واقف تھے ،اسی لیے باوجود اس کے کہ اجمیر شہر اُن کے لیے تنگ ہوگیا تھا ۔وطن کی اپنی مٹی ہی پرائی ہو گئی ،وہ وطن اس وقت دشمنوں کا ہی حامی بن گیا تھا مگر اس کے باوجود بھی قابل ؔ کو وہی شہر عزیز تھا ،ایک باضمیر اور باظرف انسان کا یہ وطیرہ نہیں ہوتا کہ وہ برسوں کی وفاداریوں کو چند بے رخیوں کے باعث بھلا دے۔شہر نے تو بے وفائی کی مگر قابل ؔنے کبھی بے وفائی نہیں کی ۔اپنی وفاداری اور اپنایت کا اظہار انھوں نے اس نظم کے ذریعے کیا اور اسے ’’یاد وطن‘‘کا بے مثال عنوان دیا۔
٭٭٭
مآخذو مراجع:
پیام فلک۔ویاس پستکالیہ،لاہور۔1914
چاند نگر۔ابن انشا۔نیشنل پبلشرز،کراچی۔1990
کلیات اختر شیرانی۔(مرتب)گوپال متل۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس۔نئی دہلی۔1997
کلیات قابل اجمیری،فریدپبلشرز،نیو اردو بازار،کراچی۔2000
مضمون نگار سے رابطہ:
imranakifkhan@gmail.com
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067
Qabil Ajmeri ki Naz’m “Iqbal”
Articles
قابلؔ اجمیری کی نظم’’اقبال‘‘
عمران عاکف خان

عـــلامہ سر محمد اقبال ؔ کی عظمت و رفعت ان کے نام کی مانند ہی عظیم و رفیع ہے۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی عظیم و رفیع شخصیت کے آثار اس کے نام سے بھی ظاہر ہونے لگیں اورکانوں میں وہ نام پڑتے ہی وہ پیکر ہمارے سامنے آکھڑا ہو اورہم عقیدت و احترام کے جذبے سے سرشار عالم تصور میں ہی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ عالم مشرق کو اس پر ناز ہے کہ اس نے 19ویں صدی میں اقبالؔ کو اپنی آغوش محبت میں پالا اور ان کے فن کو رشک عالم بنا دیا ۔قوموں نے ان سے حیات نو پائی اوراخلاق و ایمان سے بیمار سینوں میں ان کی حکمت نے کارتریاقی کیا ۔یہی وجہ ہے کہ حیات اقبالؔ سے لے کر آج تک کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب کہیں نہ کہیں ان کی آفاقی فکروں،کلام کے سوزو ساز ،ان کی دیدہ وری ،ان کی جہاندیدگی اور ان کے سمجھائے ہو ئے جہانگیری و جہاں بانی کے اصولوں پر باتیں نہ ہو تی ہوں ۔بلکہ بعض مقامات پر تو باقاعدہ ’’اقبالیات ‘‘پر لیکچر کی مجلسیں سجتی ہیں ۔ان مجلسوں میں ان کے فارسی کلام،اردو کلام ،تقاریر ،خطبات،سیاسی افکارو نظریات،سماجی ہدایات،تمدنی رہ نمائیوں اور ان کی ملت اسلامیہ کے تئیں فکر مندیوں کے متعلق غور و خوض کیا جاتا ہے ،نکات سمجھا ئے جاتے ہیں ،اپنے من میں ڈوب کر زندگانی کے مقاصد کا سراغ لگایا جاتا ہے اور بے راہ رو زندگیوں کو سنوارنے اور اقبال کی فرمودہ تلقینات پر عمل پیرا ہونے کے عہد لیے جاتے ہیں ۔
اقبال کی عظمت کیا ہے اور اقبال کون ہیں ،ان سوالوں کے جواب ہمیں کیا ملیں گے جب خود اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں،باالخصوص ان کا فلسفۂ خودی تو معرکۃ الآرا اور آفاقی قدروں کا حامل ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ ضمیر ، فطرت صالح ،صحت منداندرون اور خودی ،یہ چند عناصر مل کر جس طرح کے انسان کی تعمیر کرتے ہیں ،شاید وہی خودی کا رازداں اور خدا کا ترجماں بنتا ہے۔اگر وہ بھی نہیں تو پھر خدا جانے یہ خود ی کیا بلا ہے ۔خودی کا پرتو جب انسان میں نظر آئے تو وہ کیا بنتا ہے اور جب اس سے عاری ہوتو کیا ؟یہ واقعی فلسفیانہ بحثیں ہیں ۔یہ بحثیں اقبالؔ نے اس وقت چھیڑیں جب ایشیا مئے بے خودی میں مست تھا،اس کی قدریں اس سے چھینی جارہی تھیں، انگریزی سامراج نے اس کی گردن دبوچ رکھی تھی ۔حالات آتش فشاں بن گئے تھے۔ ایسے حالات میں خودی کی بیداری اور اسے فعال کر نااقبالؔ کا اولین فریضہ بن گیا۔یہ فریضہ انھوں نے کبھی میونخ،لندن،ہندوستان،ہسپانیہ ،ایران،کے ریگزاروں اور زمستانی ہواؤں میں ادا کیا تو کبھی پنجاب و بنگال کے کوہستانوں میں،کبھی مسجد قرطبہ کی ٹوٹی دیواروں کے سائے میں ادا کیا۔ہر عہد ،ہر موسم میں کیا۔ان کا یہ فریضہ فصل گل و لالہ کا پابندکبھی نہیں رہا ۔وہ حکم اذاں کے بہار وخزاں ہر موسم میں کاربند رہے۔اقبالؔ کی ان ہی بے لوث قربانیوں اور جانفشاں فکروں نے انھیں عالمی شہرت دلانے کے ساتھ ساتھ اقوام مشرق کا حکیم بھی بنادیا۔جس کا احسان وہ آج تک فراموش نہیں کرسکی ہیں۔
اقبالؔ تفہیم اور اقبالؔ شناسی کے سلسلے، ہماری ادبیات کا خراج ہیں ۔چنانچہ ہمارے شعرا اور ادبا نے پیام اقبالؔ کو دل کھول کر جلا بخشنے اور اسے نئی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ایک فرض اورامانت سمجھ کر اپنے فن اور کلام میں برتاو ادا کیا ہے ۔چنانچہ ہر بڑے شاعرنے اقبالؔ کو اپنے طور پر خراج پیش کیا ہے اور ان کی ملک و ملت سوزی کا اعتراف کیا ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہیں ،بہت حد تک کوشاں بھی۔بعض نے ان کے کلام کی شرحیں لکھیں تو بعض نے ان کی زمینوں میں طبع آزمائی کی ۔جس سے فکر اقبال تک عام قارئین اور نئی نسلوں کی رسائی ممکن ہو سکی۔
عبد الرحیم قابلؔ اجمیری (27 اگست 1931تا30،اکتوبر 1962)کا شمار بھی ان شعرا میں ہوتا ہے۔انھوں نے علامہ اقبال ؔ پر ایک شاندار نظم’’اقبال‘‘ لکھی۔یہ نظم جہاں قابلؔ اجمیری کا اقبالؔ کو ایک بے مثال نذرانۂ عقیدت ہے ،وہیں اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکر اقبال اور اقبالیات میں خصوصی درک رکھتے تھے ۔اقبالیت اور ان کی فکر ،ان کے وجود کا حصہ بن گئی تھی ۔جس کا احساس ان کی غزلوں اور فکر انگیز نظموں میں بھی ہوتا ہے۔چنانچہ جب قابل ؔ’’اندیشۂ سودو زباں‘‘کی ترکیب اپنے اشعار اور غزلوںمیں استعمال کر تے ہیں تو ان میں اقبالؔ اور اقبالیات کا عکس جھلکتا ہے ۔اس لیے کہ ’’سودو زیاں‘‘اقبال ؔکی خاص ترکیب ہے جس کا استعمال انھوں نے اپنی متعدد پیامی نظموں میں مختلف انداز میں کیا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کرتے چلیں :
کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا!
فریب سودوزیاں لاالہ الا اللہ!!
٭٭٭
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی!
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی!!
٭٭٭
کیوں زیاکار بنوں سود فراموش رہوں!
ہم نوامیں گل ہو ںکہ خاموش رہوں!!
زیر مطالعہ نظم اختصار اور جامعیت کا نادر نمونہ ہے نیز اس کا اختصار اور جامع ہونا ہی اس کا وہ کمال ہے جو قابلؔ اجمیری کی شاعری کا خاص جوہر اور امتیازہے ۔قابل ؔ اجمیری جنھیں جدید اردوغزل کے پیش روؤں میں اہم مقام حاصل ہے،ان کا شعری وجدان اور ان کی فکری اپج، اقبالؔ کی ترجمانی اور تشریح میں نئے نکات و جہات کے دروا کر تی ہے ۔یہ نظم قابل ؔ کی کلیات اور ان کے اولین مجموعۂ کلام’’عشق انسان کی ضرورت ہے——‘‘ میں شامل ہے اس کا عنوان ’’اقبال‘‘ہے ۔انھوں نے اقبالؔ کے علاوہ ’’قائد اعظم‘‘——- ’’14اگست‘‘——–’’دریائے نیل‘‘—— ’’ایک عیدایک عہد‘‘——-’’شاعر‘‘ وغیرہ متعدد موضوعاتی نظمیںتحریرکی ہیں جو اُن کی علمیت، فردشناسی اور قومی رہ نماؤںو امور کے تئیں عقیدت تجربے ،احوال سے واقف کاری نیز ان کی فکر مندی کی دلیل ہیں ۔ سردست قابلؔ اجمیری کی نظم’’اقبال‘‘ کا متن اور اس کاتجزیہ‘‘ نذر قارئین ہے:———
اقبــــــال
وہ دیدہ ور کہ جس نے تجلّی نکھار دی!
ذروں کو آفتابِ درخشاں بنا گیا!!
وہ چارہ ساز جس نے کیے تجرباتِ نو!
ہر درد کو ضمانتِ درماں بنا گیا!!
وہ باغباں جو اپنی نسیمِ خیال سے!
شامِ چمن کو صبحِ بہاراں بنا گیا!!
وہ دلربا کہ جس نے بدل دی سرشتِ دل!
تکلیف کو نشاط کا ساماں بنا گیا!!
وہ فلسفی جو اپنی خودی کی تلاش میں!
اربابِ دل کو محرمِ یزداں بنا گیا!!
وہ مردِ حق پرست مٹا کر جو تفرقے!
اسلامیوں کو صرف مسلماں بنا گیا!!
اب کارواں کی بانگِ درا پر نظر نہیں!
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!!
یہ پوری نظم اقبالؔ کی فکر اقبال کے نظریات اور اقبالؔ کی مہمات کی ترجمان ہے۔وہ نوجواں مسلم سے کیا کیا توقعات رکھتے تھے اور اسے کس کس طرح سے بہلا تے تھے ۔اس کی بہبودی کے لیے انھوں نے کیا کیا طریقے اختیار کیے ۔کس کس طرح کی تلمیحات وہ قلزم قرآن و حدیث سے لائے ۔کبھی تو وہ اس کو لوح و قلم اور کتاب کہہ دیتے اور کبھی طائر لاہوتی گر دانتے ۔کبھی وہ اسے شاہین کہتے تو کبھی اس کی نسبت میر عرب اور ان کے جانباز سپاہیوں سے کرتے ۔کبھی وہ اسلامیان کے شاندار ماضی اور ان کے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی تحریکات دیتے اور کبھی طارق بن زیاد کی شجاعت کی کہانیاں سناتے ،یہ نظم ان سب کا نچوڑ ہے۔اس نظم کو جب ہم جز جز کر کے دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ایک شعر اپنے اندر فکر اقبال کے ہزاروں نکات چھپائے ہوئے ہے۔ پہلے شعر میں جس طرح اقبالؔ کی اس کرامت کا ذکر ہے اس سے ہمارے دل یقین سے کہہ اٹھتے ہیںاس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقبالؔ ایسے ہی دیدہ ورتھے جنھوں نے سورج کی نورانیت میں تجلّیات کی رونقیں بھردیں اور بے نام و گمنام ذروں کو اپنی فکر رسا سے درخشاں بنا دیا۔ان کی تلقین جس مسلم نو جوان نے بھی قبول کی وہ شاہین اور ھما بن گیا۔پھراس کی پرواز ستاروں سے آگے کے جہانوں تک بھی پہنچ گئی ۔وہ مہ کامل بھی بنا جس کے عروج سے انجم سہمے اور انھیں اپنا غرور ٹوٹتانظر آیا۔ اس نظم کا ہر شعر اپنی جداگانہ حیثیت بھی رکھتا ہے اور مجموعی طور پر بھی یہ نظم اقبالؔ کو بہترین خراج عقیدت ثابت ہوتی ہے۔بالخصوص اس کا نظم کا پانچواں شعر تو اقبال ؔ کے بنیادی فلسفے کا ترجمہ ہے:
وہ فلسفی جو اپنی خودی کی تلاش میں!
اربابِ دل کو محرمِ یزداں بنا گیا!!
اس شعر میں نیاپن یہ ہے کہ اقبالؔ جہاں ’’خودی‘‘ کی تلاش کی تلقین دوسروں کو کرتے تھے وہیں وہ خود بھی اس کی تلاش میں ہیں ۔ یعنی انھیں بھی اس کی ضرورت ہے۔گویا’’خودی ‘‘ ایسا عنصر ہے جو ہر ایک کی ضرورت ہے اور اس سے متصف ہونا ہر کسی کے لیے ضروری ہے چاہے وہ اقبالؔ ہی کیوں نہ ہوں۔اس شعر کا دوسرا مصرع تو ارباب دل کو’’محرم یزداں ‘‘بنانے کی خبر دیتا ہے۔’’ارباب دل ‘‘ کی ترکیب ’’یزداں‘‘ کے’’ محرم‘‘ ہونے کے قبیل میں نادر ترکیب ہے اسی طرح تفویض امر بھی ہے۔چوں کہ’’ارباب دل‘‘پر ہی اکثر ذمے داریاں ، فرائض اورہوش و خرد کے امور واجب ہوتے ہیں ۔قابل ؔاجمیر ی اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں اور اقبالؔ بھی۔یہاں آکر دونوں کی آرا ایک ہوجاتی ہیں اسی طرح اقبال ؔکی طرح قابل ؔبھی قومی مفکر بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔’’ارباب دل‘‘سے ’’غیر ارباب دل‘‘یعنی مردہ ضمیروں کی صاف نفی ہوتی ہے۔اس سے ان کی ہی محرومی اور بدقماشی ثابت ہوتی ہے اور ان کے لیے ایک یہ خبر یعنی ’’غیر ارباب دل‘‘ہونا ایک تازیانۂ عبرت بھی ہے جو انھیں یہ احساس دلاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم ہو، یہ تمھاری بدقسمتی ہی ہے۔ اس کی تلافی اس طرح ممکن ہے کہ ’’ارباب دل‘‘کی صف میں شامل ہو کر ’’محرم یزداں‘‘ بن جاؤ۔
جیسا کہ ماقبل میں کہا گیااس شعر سے جو نئی بات معلوم ہوتی ہے ،وہ یہ کہ اقبالؔکا فلسفی اور مفکر ہوناخود ان کے لیے بھی بہت ضروری تھا۔ نیزوہ امروز یا ماضی قریب کے مفکرین و فلسفیو ںکی مانند اس سے خود کو ہرگز مبرا نہیں سمجھتے تھے۔بلکہ وہ اس حکم خداوندی یعنی ’’عرفان خودی‘‘کے خود کو اولین مستحق سمجھتے۔اسی طرح اس شعر میں ’’محرم یزداں‘‘کی ترکیب اس عہد الست کی تلقین اور اس پر ایمان کی تجدید کا استعارہ ہے جس کی مرقوم لوح، ہر انسان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہے۔اس کی یاد دہانی کے لیے اس معاہد یعنی خدائے لم یزل نے پچھلے زمانوں میں رسول اور نبی بھیجے پھر یہ ذمے داری امت کے حکما اور مفکرین پر عائد ہوئی۔اقبال ؔکا پیغام خودی بہت واضح اور صاف لفظوں کا بیا ن ہے بس اس احساس کی ضرورت ہے جو قابل ؔ اجمیری نے اپنے انداز میں بتایا ہے۔اس شعر میں قابلؔ نے اقبال ؔکے ان ہی اشعار کی ترجمانی کی ہے جن میں وہ فرماتے ہیں:
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی!
خودی کی خلوتوں میں کبریائی!!
زمین و آسمان و کرسی و عرش!
خودی کی رو میں ہے ساری خدائی!!
اسی طرح قابل ؔ کی اس نظم کا چھٹا شعر ملاحظہ کیجیے:
وہ مردِ حق پرست مٹا کر جو تفرقے!
اسلامیوں کو صرف مسلماں بنا گیا!!
یہ شعر اقبال کے اِن اشعار کا ترجمہ ہے:
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا!
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی!!
اسی طرح:—–
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر!
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!!
اسی طرح وہ آپس میں دست وگریباں قوموں،علاقوں اور خطوں کے افراد سے مخاطب ہیں:
یوں تو سید بھی ہو ،مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو!
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤں تو مسلماں بھی ہو!!
یہ انداز تو لرزا خیز ہی ہے:—–
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں!
کیا زمانے میں پنپے کی یہی باتیں ہیں!!
یہ اور اسی طرح کے متعدد اشعار ہیںجن میں اقبال ؔ،قوم رسول ہاشمی اور ملت کے افراد کو رنگ و نسل اورذات پات سے باز رکھ کر ایک دھارے یعنی ’’مسلمانیت‘‘میں شامل کر نا چاہتے تھے ۔قابلؔ اجمیری نے اس شعر میں اسی کی جانب اشارہ کیا ہے اور اقبالؔ کی اس جرأت رندانہ تذکرہ اسی انداز میں کیا ہے۔یہ شاعر کی بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی مفکر کی فکر کو اسی کے لہجے ،اسی کے اندازاور اسی کے آھنگ میں بیان کردے ۔ اس سے وہ ترجمہ شدہ کلام بھی مضبوط ہوتا ہے اور وہ ترجمانی کا حق بھی اداہوتا ہے ۔
اس نظم کا یہ آخری شعر تو دیکھیے جو چشم بینا کی روشنی کو حسرت و افسوس سے بڑھا دیتا ہے ۔وہ اقبالؔ کی اس فکر کا ترجمان ہے جس نے انھیں آخر میں مایوس کردیا تھا :
اب کارواں کی بانگِ درا پر نظر نہیں!
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!!
یہ یقینی بات ہے کہ اقبالؔ ساری عمر اسلامیان ہند کو اتحاد و اتفاق اور ’’بانگ درا‘‘پر نظر ڈالنے کی تلقین کر تے رہے مگر اس قوم کا جذبۂ قلندرانہ کوئی لے گیا۔ان میں گفتار کے غازی تو بہت تھے مگر کردارکسی کا غازیانہ نہیں تھا۔چنانچہ اس کا نتیجہ جو نکلا ،اس کا ذکر قابل ؔ نے ان ہی کی زبانی کیا:
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!!
اس نظم میں قابلؔ اجمیری نے علامہ اقبالؔ کی زندگی اور ان کی کلیات کے تمام پیغامات کو سمو دیا۔وہ جو’’ بانگ درا‘‘ کی صدا لے کر اٹھے اور ’’بال جبریل‘‘میں اس کوترقی دی نیز’’ضرب کلیم‘‘میں نقطۂ عروج پر لے گئے ،وہی پیغام ’’ارمغان حجاز‘‘تک آتے آتے اپنا اثر کھوبیٹھا حالاں کہ یہاں آکر تو اس کی تپش کو اور تیز ہونا تھا اسی طرح خوابیدہ دل اس سے اور گرماتے ۔مگر ایسا نہیں ہوا اوراقبالؔ دعا کرنے لگے:
یار ب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے!
جو روح کو تڑپا دے جو قلب گر مادے!!
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل!
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے!!
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر!
اس محملِ خالی کو پھر شاہدِ لیلا دے!!
یہ وہ لہجہ ہے جس میں اداسی اور مایوسی صاف جھلک رہی ہے ۔اس میں بجھے دل سے دعا ہے اور اسی خداسے ہے جو تبدیلیوں اور انقلابات کا حقیقی مالک ہے ۔ وہی رب العالمین ہے اور اسی کے دست قدر ت میں سب کچھ ہے ۔
قابلؔ اجمیری کی اس نظم کا آخری شعر تو پوری نظم کا حاصل ہے ۔ایسا حاصل جس کے بغیر نہ اعداد پورے ہوتے ہیں اور نہ ہندسوں کی تکمیل ممکن ہے۔یہ سبق آموز ’’حاصل ‘‘ اور اختتام قابل ؔ اجمیری کی شعری فکر اور ادبی مطالعے کی عمدہ مثال ہے اور ان کے وجدان شعرو شاعری کی دلیل بھی ہے۔
٭٭٭
مآخذو مراجع
عشق انسان کی ضرورت ہے——-قابل اجمیری۔مجلس یاد گار قابل،حیدرآباد(سندھ)1970
کلیات اقبال——— (ناشر)پرو فیسر شہرت بخاری۔اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور۔1990
کلیات قابل اجمیری———(ناشر)ظفر قابل اجمیری۔مجلس یادگار قابل،کراچی شاخ۔دسمبر۔1990
مضمون نگار سے رابطہ:
imranakifkhan@gmail.com
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067
