اردو کے ادبی رسائل میں "اردو چینل" کو ایک خاص مقام حاصل ہے. "اردو چینل" اپنی اشاعت کے ابتدائی دنوں میں ہی ادبی حلقے میں مقبولیت اور وقار حاصل کرلیا تھا. اس مقبولیت اور وقار کی بنیادی وجہ اس میں شامل مشمولات کا سخت انتخاب اور تنوع ہے. اس رسالے نے ابتدا ہی سے خصوصی اشاعتوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا. اس ضمن میں بابری مسجد نمبر، مجروح سلطان پوری نمبر، گجرات فسادات نمبر، نیر مسعود نمبر، یوسف ناظم نمبر، ایڈورڈ سعید نمبر، شمس الرحمن فاروقی نمبر اور انٹرویو نمبر وغیرہ بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں. علاوہ ازیں عالمی ادب پر مشتمل خصوصی گوشے بھی "اردو چینل" کی مقبولیت کی وجہ رہے ہیں.
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
علامہ راشد الخیری
شاباش بھائی نصیر شاباش ! چھوٹی بہن مرکے چھوٹی۔بڑی بہن کو جیتے جی چھوڑا۔ غضب خدا کا تین تین چار چار مہینے گزر جائیں اور تم کو دو حروف لکھنے کی توفیق نہ ہو ۔ حفیظ کے نکاح میں ۔ وہ بھی چچی جان کی زبانی معلوم ہوا کہ ملتان کی بدلی ہوگئی ۔ و ہ دن اور آ ج کا دن خیر صلّاح کیسی یہ بھی خبر نہیں کہ لاہور میں ہو یا ملتان میں نصیر میاں ! بہن بھائیوں کا رشتہ تو بڑی محبت کا ہوتاہے ۔ ایسی کون سی پانچ سات بہنیں بیٹھیں ہیں جو دل بھر گیا ۔ دور کیوں جاﺅ بھائی سلیم ہی کو دیکھ لو ایک چھوڑدو بہنیں ساتھ ہیں اور کس طرح؟گھربار کی مختار ۔ اندر باہر کی مالک سیاہ کریں ، چاہے سفید ۔ نہ بھائی کی اتنی مجال کہ دم مارسکے ، نہ بھاﺅج کی اتنی طاقت کہ ہوں کر سکے ۔ کسی کو دیکھ کر تو سیکھاکرو ۔ ایک وہ بھائی بہنوں کوآنکھوں پر بٹھایا ، بھانجا بھانجی کی شادیاں کیں ۔ بھانجوں کو پڑھا لکھاکر نوکرکرایا ۔ ایک تم بھائی ہو کس کا بھانجہ اور کیسی بہن ۔ چاہے کوئی مرے یا جیئے تمہاری بلا سے ۔ خدا کا شکرہے ، میں تو تمہاری روپیہ پیسہ کی بھوکی نہیں خالی محبت اور میٹھی زبان کی خواستگار ہوں ۔ جو کہیں خدانخواستہ تمہارے در پر آکر پڑتی تو کُتّے کے ٹھیکرے میں پانی پلوادیتے آخر میں بھی سنوں خطاقصور وجہ سبب۔ کچھ تو بتاﺅ ایسی لاپروائی بھی کس کام کی ، اچھے سے غرض نہ بُرے سے مطلب ۔ بہن کے تم نہیں بھائی کے تم نہیں ۔ صادقہ مرتے مرگئی اور تمہاری صورت دیکھنی نصیب نہ ہوئی ۔ امّا رہیں نہیں ، ابّا اُدھر چلے گئے ، میں اس قابل نہیں ، بڑے بھائی اس لائق نہیں ۔ اب تمہارا دلّی میں کون بیٹھا ہے جس کو خط لکھو۔ تم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو ایک سرے سے سب کو عاق کردوں۔ ابّا کا حج کو جانا اور اونگتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوگیا ۔ بہن اور بھائی ماموں اور ممانی سب کو بالائے طاق رکھا۔ چچا لاپرواہ چچی خطا وار ۔ بھائی خود غرض ، بہن گنہگار ، غرض کنبے کا کنبہ اور خاندان کا خاندان چھوٹے اور بڑے ، بڈھے اور جوان ، مرد اور عورت ،بوڑھا اور بچہ ایک بھی اچھا نہیں ۔ محبت نہیں مروّت ہی سہی ۔ بال بچوں کا ساتھ رکھنا گناہ نہیں ہے‘ دنیا جہان میں ہوتی آئی ہے مگر یہ اندھیرا کہیں نہیں دیکھا کہ الگ گھر کرتے ہی سب کو دھتا بتائی ۔ امّا کا مرنا ہماری تو مٹی پلید ہوئی مگر تم کو عید ہوگئی ۔ شفقت محبت پہلے ہی رخصت ہوچکی تھی ۔ جو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا۔ اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے۔ الٰہی تمہارے بچوں کی ہزاری عمر ہو ۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھواب سے دوراگلے برس ذرا ظہیر کو بخار ہوگیا تھا ۔ کیسے گھبرائے گھبرائے پھرتے تھے ۔ تم کو آٹھ برس کے بچے کی یہ کچھ مامتا تھی ۔امّا کو تمہاری کتنی ہوگی ؟ نصیر میاں دنیا کے جھگڑے تو ہمیشہ ہی رہیں گے ۔ بال بچے شادی بیاہ سب ہی کچھ ہوگا ۔ اب امّاں تمہاری صورت دیکھنے نہیں آئیں گی ۔
پورا پڑھیںعصمت چغتائی
21 August 2017 - 24 Oct 1991
عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انھوں نے اردو میں ایک بے باک تانیثی رویے اور رجحان کا آغاز کیا اور اسے فروغ بھی دیا۔ عصمت۲۱؍ اگست۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہربدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ لہٰذا ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اسی سبب سے ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویشن...