Wooden horse a Short Story by Ratan Singh

Articles

کاٹھ کا گھوڑا

رتن سنگھ

اس وقت بندو کا ٹھیلہ تو ٹھیلہ، خود بندو ایسا بے جان کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہ گیا ہے جو اپنے آپ نہ ہل سکتا ہے نہ ڈول سکتا ہے، نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے، بندو کی ہی وجہ سے اندھیر دیو کے تنگ بازار میں راستہ قریب قریب بند ہوکر رہ گیا ہے۔ ضرورت سےزیادہ بوجھ سےلدا ہوا بندو کا ٹھیلہ سڑک پر چڑھائی ہونے کی وجہ سے رک سا گیا ہے۔رہ رہ کر اگر چلتا بھی ہے تو جوں کی رفتار سے رینگتا ہے، اور پھر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے پیچھے کاریں، ٹرک، بسیں، موٹرسائیکل، اسکوٹر غرض یہ کہ سبھی تیز رفتار گاڑیوں کی لمبی قطار ٹھہر سی گئی ہے اور انہی کے بیچ میں تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری سیٹھ، دفتروں کے افسر، دوکاندار، وردیوں والے فوجی اور پولس والے، سفید کالروں والے بابو، عام آدمی، سودا سلف خریدنے کےلیے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولو ں اور کالجوں کے بچے،ڈ اکٹر، نرس، انجینئر سبھی کے سبھی ٹھہر گئے ہیں۔ لگتا ہے جیسے بندو کی سست رفتاری کی وجہ سے سارے بازار، سارے شہر، بلکہ ایک طرح سے کہا جائے تو سارے ملک، ساری دنیا کی رفتار دھیمی پڑگئی ہے۔

یوں تو وزیر اپنی کار میں بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو کر رہا ہے لیکن بے چینی سے بار بار گھڑی دیکھ رہا ہے کیونکہ کسی غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آگے سے راستہ اس طرح بند کیوں ہوگیا ہے۔ اس کا ڈرائیور گھبرایا ہوا بار بار کار سے اترتا ہے، کچھ دور جاکر دیکھ کر آتا ہے اور پھر مایوس ہوکر گاڑی میں بیٹھا انتظار کرنے لگتا ہے۔ وہ لوگ جو کار میں بیٹھے وزیر سے باتیں کر رہے ہیں، دل ہی دل میں خوش ہیں کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے کار کھڑی ہے اور انہیں وزیر کے سامنے اپنی بات رکھنے کا پورا پورا موقعہ مل رہاہے۔ کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ البتہ اپنی کاروں کی گدیوں پر بیٹھے بے چین ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے ہر بیتتے ہوئے پل کے معنی ہیں لاکھوں کاگھاٹا۔

ریلوے کا ایک ڈرائیور بار بار اپنی سائیکل کااگلا پہیہ اٹھا اٹھاکر پٹک رہا ہے۔ پریشانی کی وجہ سے اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا ہے، کیونکہ جس گاڑی کو لے کر اسے جانا ہے، اس کے چھوٹنے کا وقت ہوچکا ہے اور وہ یہاں راستے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچے خوش ہیں۔ جتنے پیریڈ نکل جائیں اتنا ہی اچھا ہے لیکن کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائ پیچھے رہ جائے گی۔اسی طرح سر پر لوہے کی ٹوپی پہنے ہوئے فوجی بار بار موٹر سائیکل کاہارن بجارہا ہے۔ لیکن آگے نہیں بڑھ پا رہاہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دفتر پہنچنے میں دیر ہوگئی تو اس کاکمانڈنٹ آفیسر چالیس کلو کا وزن پیٹھ پر لدواکر دس کلومیٹر کا روڈ مارچ کروادے گا۔

لیکن بندو ان سب سے بےخبر ہے۔ بے نیاز ہے۔

آج اس سے ٹھیلہ کھنچ بھی نہیں پارہا۔ ایک تو سیٹھ کے بچے نے زیادہ بوجھ لاد دیا ہے۔ دوسرے اس کے ٹھیلے کادھرا جام ہو رہا ہے۔ تیسرے خاموش سی چڑھائی کاراستہ ہے اور چوتھے یہ کہ اس کا من ہی نہیں ہو رہا ہے ٹھیلہ کھینچنے کا۔ وہی کاٹھ کے گھوڑے والی بات ہو رہی ہے، جو اپنے آپ سرک نہیں سکتا۔ جب کبھی اس کا من اداس ہوتا ہےتو اس کی کیفیت اس کاٹھ کے گھوڑے جیسی ہوجاتی ہے جسے وہ بچپن میں ایک میلے سے خرید کر بڑا دکھی ہوا تھا۔

کاٹھ کا رنگین گھوڑا لے کر جب وہ بڑے فخر سے گلی کے بچوں کے بیچ گیا تو اس نے دیکھا کہ کسی کے پاس چابی والی موٹر تھی جو گھوں گھوں کرتی ہوئی تیز بھاگتی تھی اور کسی کے پاس ریل گاڑی تھی، انجن سمیت اپنے آپ چلنے والی گاڑی۔ جن کے پاس ایسے دوڑنے والے کھلونے نہیں تھے ان کے پاس لتی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹو تھے۔ تیزی سے گھومتے ہوئے وہ ایسے لگتے تھے جیسے وہ سارے میدان کو اپنے گھیرے میں لے رہے ہوں۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا ساکت بے جان تھا۔

ویسے بچوں کے سامنے کھیلتے ہوئے اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے بیچ پھنسا کر دوڑنے کا سوانگ کیا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اس کا کھلونا دوسروں کے کھلونے کے سامنے بے کار اور بے معنی ہے۔ اسی لیے گھر آکر اس نے کاٹھ کے گھوڑے کو چولہے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ لیکن جلنے کےباوجود جیسے وہ بےجان کاٹھ کا گھوڑا اس کی شخصیت کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا۔ کیونکہ ہوا یہ تھا کہ گلی کے وہی بچے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر منیم بن گیا تھا تو کوئی وکیل، کوئی اسکول کا ماسٹر ہوگیا تھا تو کوئی بڑا افسر۔ اور اس کے برعکس بندو وہی کاٹھ کا گھوڑا ہی رہ گیا۔ باپ ٹھیلہ چلاتا تھا تو وہ بھی ٹھیلہ ہی کھینچ رہا ہے۔

وہ اکثر سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا کہ ایک ہی گلی میں رہتے ہوئے باقی لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گیا۔ ایسا کیوں کر ہوگیا؟ لیکن وہ سوچے بھی تو کیا؟ کاٹھ کا گھوڑا بھلا سوچ ہی کیا سکتا ہے؟

لیکن آج وہی کاٹھ کا گھوڑا یہی سوچ کر اداس ہو رہا ہے کہ اس کے آٹھ نو سال کے لڑکے چندو نے محض اس لیے اسکول جانا بند کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے ضرورت کی چیزیں جٹا نہیں پاتا۔ جب میں اپنی زندگی کی گاڑی ٹھیک سے نہیں کھینچ پاتا تو پھر اس ٹھیلے کے بوجھ کو کیوں کھینچوں؟ بندو سوچ رہا ہے۔اس کا دل کیا کہ ٹھیلہ جو پہلے ہی سرک نہیں پا رہا ہے اسے چھوڑ چھاڑ کر الگ کھڑا ہوجاؤں۔ اس کی ہمت پہلے ہی جواب دے رہی ہے۔ رہ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے ہیں کہ ایک دن اس کے چندو کو بھی اسی طرح ٹھیلے کے بوجھ کو کھینچنا پڑے گا۔ اور اس خیال کے ساتھ اسے اپنی جان ٹوٹتی ہوئی سی محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہو رہا ہے۔

لیکن اس کے پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں وہ اتاولے ہو رہے ہیں۔ کھیج رہے ہیں۔ بار بار ہارن بجارکر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک اس کے پاس آیا اور بولا،’’بھیا جلدی کرو۔ تہارے پیچھے پوری دنیا رکی پڑی ہے۔ اٹکی پڑی ہے۔‘‘

’’اٹکی ہے تو اٹکی رہے‘‘۔ بندو جھنجھلاکر بولا۔’’ جو لوگ تیز جانا چاہتے ہیں ان سے کہو کہ میرے پیروں میں بھی پہیے لگوادیں۔‘‘

’’بات تو ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اتنے تیز ہو جائیں کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگیں اور کچھ کو اتنا مجبور کردیا جائے کہ ان کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہوجائے۔‘‘

یہ سب باتیں گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں اور لوگوں کے شور میں دبی جارہی ہیں۔ کاٹھ کے گھوڑے میں قدم اٹھانے کی ہمت نہیں۔ وہ آگے نہیں بڑھ پارہا۔ اور اس کے پیچھے بھیڑ میں وہ وزیر رکا ہوا ہے جسے کسی غیرملکی وفد سے وقت مقررہ پر بات کرنا ہے، وہ ڈرائیور اٹکا ہوا ہے، جسے ملک کے کسی دوسرے شہر کی طرف ریل گاڑی لے کر جانا ہے، اسکول کے وہ بچے رکے ہوئے ہیں جو کل کے مالک ہوں گے۔ ڈاکٹر ،نرس ،انجینئر سب کے قدم بندھ کر رہ گئے ہیں۔

اور بندو کاٹھ کاگھوڑا بنا اندھیر دیو کے بازار میں اپنے ٹھیلے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
————————————-
kaath ka ghorha, Wooden horse, best story