Virus a Short Story by Shahnaz Rahman

Articles

جراثیم

شہناز رحمن

یونیورسٹی میں داخلہ کے ہفتہ دس روز بعدوہ ایک عجیب طرح کی حیرانی کا شکار ہو گئی۔سلیقہ سے بال سنوارے ہوئے، دیدہ زیب کپڑوں میں ملبوس لڑکے اور لڑکیوں کے چہرے وحشت ناک لگ رہے تھے۔وہ پریشان تھی کہ یہ بات صرف وہ محسوس کر رہی ہے یا دو سرے کلاس میٹ کو بھی اندازہ ہو رہا ہے۔
اچانک ایک روز اس نے شیبا کو کہتے ہوئے سنا۔۔۔
وہ کلاس میں بیٹھی ان چہروں کے بدلتے رنگوں پر غور کرتی۔رفتہ رفتہ اسے ادراک ہوا کہ یہ کسی بڑی مصیبت کا اعلامیہ ہو سکتا ہے۔اسی کشاکش میں ایم۔اے مکمل ہو گیا اور وحشت ناک تاثرات والے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو تا رہا۔ اس پورے دوسال کے عرصے میں اس کی تعلیمی لیاقت میں کافی اضافہ ہوا۔ ذہین تو وہ تھی ہی صرف طبیعت میں ذرا لا ابالی پن تھا لیکن یونیورسٹی کی فضا نے یکایک اسے سنجیدہ بنا دیا تھا۔اس کی ذہانت کی وجہ سے کئی اساتذہ اسے اہمیت دیتے تھے۔حسب عادت دوستوں میں رشک و حسد کی کیفیت چلتی رہتی تھی۔ایم۔اے کے بعد وہ ریسرچ کی تیاری میں مصرو ف ہوگئی۔جب چار مہینے بعد وہ گھر سے واپس آئی تو اس نے اندازہ لگایا کہ یہاں پر کئی لڑکے اور لڑکیا ں اس بیماری کا شکار ہیں جس کا ذکر اس کے والد کیا کرتے تھے۔۔۔
ایک دن اسے ایک قریبی دوست میں اس بیماری کے آثار نظر آئے۔گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رات بھر سونہ سکی۔ لیکن خاموشی کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارا بھی نہیں تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے پوری طرح بیماری نے اسے گھیر لیا۔ ایک دو دفعہ اس نے علاج تجویز کرنی چاہی مگراس دوست کو برا لگا اوروہ اس سے بے رخی برتنے لگی۔
وحشت ناک چہرے والے طلباء میں اضافہ ہو تا رہا اور اس بیماری کے جراثیم ان کی رگ و پے میں سرایت کر گئے۔حیا پہلے سے زیادہ محنت اور لگن سے اپنی تعلیم پر توجہ دینے لگی لائبریری ہی اس کی مکمل دنیا تھی۔اس دنیا سے چونک کر اس وقت باہر آئی جب پی،ایچ۔ڈی داخلہ کے نتائج کا اعلان ہوا۔پوری فہرست مدقوق اور وحشت ناک چہرے والے ناموں سے بھری ہوئی تھی اور حیا کا نام دور دور تک نہیں تھا۔ لیکن حیا مایوس نہ ہوئی اس نے دوبارہ تیاری شروع کی دوسری دفعہ وہ بھی خوش نصیبوں کی فہرست میں تھی۔بہت ہی کم عرصے میں حیا اپنی محنت اور کچھ اساتذہ کی رہنمائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔
ایک دن شیبا نے دبے دبے لہجے میں کسی سے کہا ”حیا میں اس بیماری کے جراثیم پید ا ہو رہے ہیں“۔اتفاق سے حیا تک یہ بات پہنچ گئی۔سننا تھاکہ حیا کے ہوش اڑ گئے اس نے نہ کھایا نہ پیا اور مستقل بالکنی میں مضطرب ٹہلتی رہی۔ کئی روز تک وہ اپنامحاسبہ کرتی رہی کہ واقعی شیبا کی بات صحیح ہے؟
اس نے اپنا محاسبہ اس لیے کیا کہ اس کے والد ایک سیا سی کارکن تھے۔ وہ اکثر سنا کرتی تھی کہ فلاں سیات دان اس بیماری کا شکار ہو گیاہے۔وہ سوچتی یہ کیسی بلا ہے؟؟ جو آئے دن سیاست دانوں کو اپنے زد میں لے لیتی ہے۔پھر اس کے والد نے بتایا کہ یہ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں کسی بھی پیشے اور کسی بھی فرد کو اپنے گرفت میں لے سکتی ہے۔ بیمار شخص کو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے یہ بیماری کب لگ گئی۔ یہ بیماری عام انسانی بیماریوں سے قدرے مختلف ہے۔جیسے جیسے اس بیماری کے جراثیم پھیلتے ہیں انسان خود کو توانا اور طاقتور گمان کرنے لگتا ہے۔
ایک بار حیا نے اپنے والد کو ٹوک دیا ”ابا آپ تو بالکل الٹی بات کہہ رہے ہیں۔کوئی بیمار شخص ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔میں نے تو اپنے ارد گرد اس قسم کے بیمار لوگوں کے چہرے پر مردنی دیکھی ہے۔
انھوں نے کہا ”بیٹا یہ صرف تمہاری نظر کا دھوکہ ہے۔تم ان سے کچھ دیر گفتگو کر کے دیکھو۔ان کے لہجے اوران کی باتوں میں طاقت کا غرور نظر آئے گا“۔
حیا نے کہا ”تو یہ ان کا وہم ہو گا۔جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس بیماری سے زیادہ ہولناک انجام دنیا کی کسی بیماری کا نہیں ہوتا۔
شیبا کو محسوس ہوا کہ اس کی بات حیا کے دل کو لگی ہے۔ اس لیے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے لگی ہے۔جبکہ وہ ایک لاپروا لڑکی تھی زمانہ جو کہتا ہے کہتا رہے وہ کبھی کان نہیں دھرتی تھی۔
یونیورسٹی کے ہر شعبہ میں وحشت زدہ چہرے اور مہلک مر ض کے شکار افراد موجود تھے۔اس کے دوست عامرکو اس مرض نے اس بری طرح آگھیرا تھا کہ اسے ارد گرد کی کوئی خبر نہ تھی۔محنت کرنے والے طلباء مایوسی کی ردا اوڑھے در در بھٹکتے نظر آتے لیکن عامر ان الجھنوں سے آزاد گھو متا پھر تا۔کئی بار حیا نے اسے ٹو کا بھی۔مگر اس نے کہا ”اپنی فکر کرو،میری تو یوں ہی گزر جائے گی“۔
عامر کی بات سن کر حیا کو اپنے والد کی بات بڑی حد تک صحیح معلوم ہونے لگی۔
عامر کی حر کتیں دیکھ کر حیا نے ایک دن کہہ دیا کہ ”عامرتمہاری صحت خراب ہورہی ہے“۔
تمہارا مطلب کیا ہے؟
میرا مطلب یہ ہے کہ تم یہ جو خوشامد کرتے پھرتے ہو، تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔
ہونہہ!!! یہ تم دیکھتی جاؤ۔بدلتا ہے رنگ آسماں آسماں کیسے کیسے۔اور ہاں!ہم اگر خوشامد کرتے ہیں توتم لڑکیا ں بھی اپنے مخصوص حربے استعمال کرنے سے باز کہاں آتی ہو۔
حیا نے محسوس کیا کہ اس کی ترقی ان جراثیم زدہ لوگوں سے دیکھی نہیں جا رہی ہے اس لیے انھوں نے یو نیورسٹی میں پھیلی ہو ئی دوسری بیماریاں اس سے منسوب کر دیں۔شعبہ کے ہر کمرے میں یہ جراثیم پائے جانے لگے جو حیا کے لیے مضر تھے۔ہر شخص حیا کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا تھا طلباء ہی نہیں اساتذہ بھی اسے۔۔۔۔حیا کو اپنی دادی جان یاد آئیں جو کہا کرتی تھیں ”بٹیا!عورت کے لیے سب سے کمزوراور مضبوط پہلو اس کی عزت و عصمت ہے۔جب ظالم سماج کو اس کے خلاف کچھ ہاتھ نہیں آتا وہ بڑی آسانی سے اس کی عزت اچھال دیتا ہے۔“
محنت کرنے کے با وجود حیا کو وہ ساری کامیابیاں نہیں مل رہی تھیں جو وحشت زدہ چہرے والوں کو حاصل تھیں۔ایک دفعہ تو صبر کا دامن حیا کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔اسے اپنے والد کی بات یاد آگئی۔وہ کہا کرتے تھے کہ ”اس بیماری کے شکار لوگ”وفا دار کتے“کی مانند ہوتے ہیں۔اگر موقع پڑے تو اپنے آقاکی پیروی میں معصوم پرندوں کے پر تک نوچ کر کھا جائیں۔اپنی انا اوراپنا ضمیر تک داؤ پر لگا سکتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جنگلی کتوں کے جون میں آجاتے ہیں۔“
حیا سب کے ناقدانہ تیور برداشت کرتی رہی اور اپنا کام کرتی رہی۔یہاں تک کہ اسے کئی دفعہ سازشی ذہنوں کی وجہ سے مایوس ہونا پڑا پھر بھی اس نے ہار نہیں مانی۔
ایک مرحلہ و ہ بھی آیا جب شیبا روتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ”حیا!میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ میں ”سر کی بات“مان لوں۔حیا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
شیبا زار و قطار روتے ہوئے بتانے لگی کہ ”تمہاری ترقی دیکھ کر شعبہ کے لوگ بشمول میرے یہ کہنے لگے کہ تم بھی۔۔۔۔۔“لیکن میں کیا کروں۔سر نے مجھے راضی کرنے کے لیے تمہاری مثال دیتے ہوئے کہا تھاکہ ”دن بدن حیا کی ترقی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،تم نے کبھی غور کیا ترقی کا زینہ کون ہے؟۔میرے پوچھنے پر انھوں نے عزیز سر کا نام لیا تھا۔عامر کے ساتھ لڑکوں کا پورا گروپ تمہیں اسی نظر سے دیکھتا ہے۔
شیبا کی بات سن کر حیا حیران و ششدر رہ گئی۔
لیکن پھر بھی اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ”عورت کی کردار کشی کے قصے تو بچپن سے سنتی آئی ہوں۔سیتا اور مائی عائشہ تک کو لوگوں نے جب نہیں بخشا۔ہم اورتم تو خیر عام لڑکیا ں ہیں۔
لیکن حیا اس زمانے کے لوگ غیر تعلیم یافتہ تھے۔
ہاں!یہی تو میں حیران ہوں کہ معتبر اداروں کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنیت اتنی پست کیسے ہو سکتی ہے۔اور ایس۔این کمار جیسی بارعب شخصیت کے حاشیہ خیال میں ایسی بات کیسے آسکتی ہے۔
لاحول پڑھو!
اس گھٹیا انسان کو بارعب تو کہو ہی مت۔مجھے تو وہ نالی کا کیڑا لگتا ہے۔اورحیا تم کچھ زیادہ ہی بھولی ہو۔یہاں کئی ایس۔این کمار موجود ہیں۔مجھے تو یہاں داخلہ لینے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ بلندی کی خواہش کرنا آسان نہیں ہے۔اس کے مر احل طے کرتے کرتے عزت نفس تو ختم کرنی ہی پڑتی ہے۔
رفتہ رفتہ وحشت ناک چہرے والوں کے چہرے مسخ ہونے لگے۔ناموں کے بجائے ان کی مجہول شخصیت ان کی شناخت بننے لگی۔محفلوں میں ان کا ذکر ہوتا تو لوگ پہچاننے سے اس وقت تک قاصر رہتے جب تک کسی مخصوص عضو کا ذکر نہ کیا جائے۔صورت حال دیکھ کر حیرت ہونے لگی تھی کہ ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کا ذکر شاہی پالتو جانوروں کی طرح کیوں ہوتا ہے۔تعلیم تو انفرادیت عطا کرتی ہے لیکن اعلی دانش گاہوں کے تعلیم یافتہ فرد کے لیے ایسے تیسرے درجہ کی شناختی نشانات کیوں متعین ہیں۔
فائنل ہونے کے بعد حیا نے دوبارہ یو نیورسٹی کا رخ نہیں کیا۔ڈاکٹر عزیز کی نگرانی میں کام کرکے اگرچہ حیا کو کوئی علمی مدد نہ مل سکی تھی مگر ان کی تربیت نے اسے قناعت پسند ضرور بنا دیا تھا۔اسی لیے اس نے یو نیورسٹی کے بجائے کالج کی نوکری کو ترجیح دی۔ اکثر کالج سے واپس ہوتے ہوئے مسخ چہروں کو پہچا ننے کی کوشش کرتی۔کبھی سبزی فروش کی دکان پر،کبھی بینک،کبھی پرچون کی دکان پر ان لوگوں کو قطار میں دیکھ کرطمانیت کی سانس لیتی توکبھی تاسف سے آہ بھر تی۔۔۔
٭٭٭