Ummid Fazli : Selected Ghazals

Articles

امید فاضلی


انتخابِ کلام امید فاضلی

1

ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے

یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے

نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے

ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر گئے ہوتے

ہمی نے زخمِ دل و جاں چُھپا لیے، ورنہ
نہ جانے کتنوں کے چہرے اُتر گئے ہوتے

سکون ِ دِل کو نہ اِس طرح بھی ترستے ہم
تِرے کَرَم سے سے جو بچ کر، گُزر گئے ہوتے

جو تِیر، اندھی ہَوا نے چلائے تھے کل رات!
نہ ہوتے ہم ، تو نجانے کِدھر گئے ہوتے

ہَمَیں بھی دُکھ تو بہت ہے، مگر یہ جھوٹ نہیں
بُھلا نہ دیتے اُسے ہم، تو مر گئے ہوتے

جو ہم بھی اُس سے زمانے کی طرح ملتےاُمیدؔ
ہمارے شام و سحر بھی سنور گئے ہوتے

 

2

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں

جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب

سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا

ہائے وہ لفظ جو لب تک مرے آیا بھی نہیں

اے محبت یہ ستم کیا کہ جدا ہوں خود سے

کوئی ایسا مرے نزدیک تو آیا بھی نہیں

یا ہمیں زلف کے سائے ہی میں نیند آتی تھی

یا میسر کسی دیوار کا سایا بھی نہیں

بارہا دل تری قربت سے دھڑک اٹھا ہے

گو ابھی وقت محبت میں وہ آیا بھی نہیں

آپ اس شخص کو کیا کہیے کہ جس نے امیدؔ

غم دیا غم کو دل آزار بنایا بھی نہیں

3

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

4

سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے
تیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے

سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے

ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال آتا ہے

سن رہا ہوں خرام عمر کی چاپ
عکس آواز بتا جاتا ہے

وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آکر
فاصلہ دور تک بچھاتا ہے

گھر تو ایسا کہاں تھا لیکن
در بدر ہیں تو یاد آتا ہے

5

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا

پرچھائیں زندہ رہ گئی انسان مر گیا

بربادیاں تو میرا مقدر ہی تھیں مگر

چہروں سے دوستوں کے ملمع اتر گیا

اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں

دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا

اس شہر میں فراش طلب ہے ہر ایک راہ

وہ خوش نصیب تھا جو سلیقے سے مر گیا

کیا کیا نہ اس کو زعم مسیحائی تھا امیدؔ

ہم نے دکھائے زخم تو چہرہ اتر گیا

6

نظر نہ آئے تو کیا وہ مرے قیاس میں ہے

وہ ایک جھوٹ جو سچائی کے لباس میں ہے

عمل سے میرے خیالوں کا منہ چڑھاتا ہے

وہ ایک شخص کہ پنہاں مرے لباس میں ہے

ابھی جراحت سر ہی علاج ٹھہرا ہے

کہ نبض سنگ کسی دست بے قیاس میں ہے

شجر سے سایہ جدا ہے تو دھوپ سورج سے

سفر حیات کا کس دشت بے قیاس میں ہے

ذرا جو تلخ ہو لہجہ تو کوئی بات بنے

غریب شہر مگر قید التماس میں ہے

تجھے خبر بھی ہے خود تیری کم نگاہی کا

اک اعتراف ترے حرف نا سپاس میں ہے

7

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی

کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی

مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی

وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی

جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے

کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی

نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں

چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی

نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے

کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی

دیار‌ حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو

کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی

سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ

لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی

Ummid Fazli, Urdu Ghazal, Modern Urdu Ghazal