Torn Shoes A Short Story by Grazia Deledda

Articles

پھٹے ہوئے جوتے

گریزیا ڈیلیڈا

ایلیا کچہری میں بے کار سا رہتا تھا۔ان دنوں لوگ کچہری سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ بڑے سے بڑے وکیل بھی چھوٹے چھوٹے مقدمے لینے پر مجبور تھے۔ایلیا کے پاس تو کوئی بھی مقدمہ نہ آتا،پھر بھی وہ کچہری میں جاتا اور وہاں تنہائی میں بیٹھ کر اپنی بیوی کے لیے شعر کہتا۔ایک دن راستے میں ایک شناساگاڑی بان نے ایلیا کو روکتے ہوئے کہا،’’میں ابھی ابھی تیرسنوا سے آرہا ہوں،وہاں میں تمہارے چاچا سے ملا تھا۔وہ سخت بیمار ہیں۔‘‘
ایلیا گھر لوٹاتو اس کی بیوی گھر کے سامنے دھوپ میں کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔ ایلیا نے چاچا کی بیماری کی خبر اسے سنائی تو اس کے فکر مند چہرے پر بے چینی کی بجائے معنی خیزمسکراہٹ ابھر آئی۔اسے دیکھ کر ایلیا بھی مسکرادیا۔
’’تو پھر میں جاتا ہوں۔‘‘ایلیانے کہا۔آگے وہ کچھ نہ بولا۔بیوی اس کے دل کا حال جان گئی تھی۔چاچا انتقال کے بعد ساری دولت اسے ہی دینے والے تھے۔تبھی اس نے اپنے شوہر کے پھٹے ہوئے جوتے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،’’سفر کے اخراجات کے بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘‘
’’اس کی فکر مت کرو۔میرے پاس کچھ پیسے ہیں۔‘‘ایلیا اپنے چاچا سے ملنے کے لیے روانہ ہوگیا۔راستے میں وہ تیزتیز قدم چلتا ہوا،اپنے پھٹے ہوئے جوتے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ اسے کسی نہ کسی چاچا کے گھر تک پہنچا دے تو بہت اچھاہو۔
رات ہوئی ہوا میں خنکی بڑھنے لگی۔ایلیا کو لگا اس کے پائوں برف پرپڑرہے ہوں۔اس نے اپنے خستہ جوتے کی طرف دیکھا،جواب مرمت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گیا تھا۔اسے پہن کرچلنے میں بڑی تکلیف ہورہی تھی۔پھر یہ خیال بھی تکلیف دے رہا تھا کہ ایسا جوتا پہن کر چاچاکے گھر جانا بے عزتی والی بات ہوگی،لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔تب وہ جوتے کی طرف سے دھیان ہٹاکر چاچا کی دولت حاصل کرنے اور مستقبل میں بہترین زندگی گزارنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ایک گائوں آنے پر وہ را ت بتانے کے لیے ایک مسافر خانہ میں ٹھہرا۔کم کرایے کی وجہ سے اسے ایک گندہ چھوٹا سا کمرہ ملا۔وہاں دو لوگ پہلے سے موجود تھے۔وہ دونوں ہی سوئے ہوئے تھے۔
ایلیااپنے انھیں کپڑوں میں لیٹ گیا،لیکن نیند نہ آئی۔اس نے اپنے خیالوں میں دنیا کی سبھی سڑکوں پر اور سبھی گھروں میں بے شمار جوتے دیکھے،پھرتو جیسے اسے ہر جگہ جوتے ہی جوتے دکھائی دینے لگے۔آخر اسے لگا کہ جیسے اس کمرے میں بھی جوتے بکھرے پڑے ہوں۔ تبھی وہ اچانک اٹھ بیٹھا۔اور سردی سے کانپتا ننگے پائوں چلتا ہوا،آہستگی سے اپنے قریب ہی سوئے ہوئے مسافر کی کھاٹ کے پاس گیا۔اس کا ایک جوتا اس نے پہنا ہی تھا کہ اس کے تپتے ہوئے پائوں میں کوئی چیز چبھی۔اس نے جوتا اتاردیا،تبھی کمرے کے باہر اسے کچھ آہٹ سی سنائی دی تو ڈرکے مارے اس کے پائوں جہاں تھے وہیں جم گئے۔اور اسی وقت اس نے اپنے ضمیر کی پھٹکار سنی کہ وہ گناہ کے راستے پر جارہا ہے۔باہر کی آہٹ جب بند ہوگئی تو وہ کمرے سے نکلا۔وہاں کوئی نہیں تھا۔ایک طرف لٹکی ہوئی لالٹین مدھم سی روشنی بکھیر رہی تھی۔ایلیانے اِدھر اُدھر دیکھاتو پاس ہی ایک جوتے کا جوڑ دکھائی دیا۔ اسی وقت اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے جوتوں کو اٹھاکر اپنے کوٹ میں چھپالیا۔پھر ایک نظر وہاں سوئے ہوئے چوکیدار کی طرف دیکھا اور چپکے سے پھاٹک کھول کر وہ باہر نکل گیا۔
تقریباً آدھا گھنٹہ ننگے پائوں چلنے کے بعد اسے جوتے پہننے کا خیال آیا۔ایک پتھر پر بیٹھ کر وہ چند لمحات تک جوتوں دیکھتا رہا۔آخر جب وہ جوتے پہن کر کھڑاہوا تو اس کے اندر سے آواز آئی، ’’گناہ،عظیم گناہ‘‘لیکن آواز کی ذرا بھی پرواہ کیے بنا وہ چل پڑا،اب وہ پہلے کی طرح تیزتیزقدم نہیں اٹھا رہا تھا۔اب اس کے قدم لڑکھڑارہے تھے۔اور وہ باربار پیچھے مڑکر دیکھتا تھا کہ کوئی اس کا پیچھا تو نہیں کررہاہے۔صبح کا اجالا پھیلنے لگاتھا تب ایلیا کاڈر اور بڑھ گیا۔اس کے دماغ میں مختلف خیالات نے ہلچل مچادی تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ راہ چلتے لوگ اس کی چوری کو بھانپ لیں گے اور پھر اس کے چور ہونے کی خبر چاروں جانب پھیل جائے گی۔آخر پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے پھر اپنا جوتا پہن لیااورچرایا ہوا جوتا سڑک کی ایک جانب اچھال دیا۔تب بھی اس کا دل مطمئن نہیں ہوا۔رات کا وہ واقعہ رہ رہ کر اس کے سامنے آنے لگا۔اسے باربار محسوس ہورہا تھا کہ اس کمرے کے دونوں مسافر اس کے پیچھے آرہے ہوںگے۔پھر اس خیال سے اس کا دل کانپ اٹھاکہ اس کے چور ہونے کی خبر اس کی بیوی تک پہنچ گئی تو غضب ہوجائے گا۔دولت حاصل کرنے سے قبل ہی وہ کس گناہوں کے دلدل میں دھنس گیا ہے۔
چلتے چلتے وہ رک گیا اور پھر لوٹ پڑا۔اس کا پھینکا ہوا جوتا وہیں پڑاتھا۔اُسے دیکھتے ہوئے اس کے دل میں عجیب سی ہلچل ہونے لگی۔اگر وہ اسے چھپادے یا زمین میں گاڑدے تب بھی وہ چوری اس کے ضمیر پر بوجھ بنی رہے گی ور وہ چوری اس کی پوری زندگی پر کلنک بن کر چھائی رہے گی۔
اچانک اس نے جوتے اٹھائے اور مسافر خانے کی طرف چل پڑا۔وہ دھیرے دھیرے چل رہا تھاتاکہ اندھیرا ہونے پر مسافر خانہ پہنچے۔دن بھر اس نے کچھ نہیں کھایاتھااور بے حد تھکان محسوس کررہا تھا۔اس کے قدم ڈگمگارہے تھے۔
مسافر خانے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اس نے رات گزارنے کے لیے جگہ لی۔ پھر موقع پاکر اس نے وہ جوتے اسی جگہ رکھ دیئے،جہاں سے اٹھائے تھے۔اور اپنی کھاٹ پر جاکر لیٹ گیا۔بستر پر لیٹتے ہی وہ نیند کی آغوش میں سماگیا۔صبح جاگنے کے بعد اس نے بچے کھچے پیسوں سے ایک ڈبل روٹی خریدی اور وہاں سے چل دیا۔
بڑا سہانا موسم تھا۔ایلیا اپنے پھٹے ہوئے جوتے پہن کر بڑے اطمینان سے چلاجارہا تھا۔ آخر جب وہ اپنے چاچا کے گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ کچھ ہی گھنٹے قبل ان کا انتقال ہوگیاہے۔ نوکرانی نے اسے بتایا کہ،’’مالک نے آپ کا راستہ دیکھا۔کافی دیر تک انتظارکیا۔تین دن قبل انھوں نے آپ کو تاربھی بھیجا تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ آپ اکیلے ہی ان کے وارث ہیں،لیکن آپ نے انھیں بھلادیا ہے۔ وہ آپ سے بہت ناراض تھے۔جب آج صبح بھی آپ نہیں آئے تو انھوں نے اپنی ساری دولت مچھیروں کے یتیم بچوں کے نام کردی۔‘‘
ایلیا لوٹ کر اپنے گھر آیا۔اس کی بیوی نے سارا ماجرہ سن کر کہا،’’اچھا ہی ہوا، دولت ہمیں نہیں ملی۔جس دولت کے ملنے سے پہلے ہی آدمی اپنی ایمانداری کھوبیٹھے،اس کا نہ ملنا ہی اچھا ہے۔‘‘
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

————————–

گریز یاڈیلیڈا ۱۸۷۵ء میں اٹلی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئیں اور ۱۹۳۶ ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’ایڈز اِن دَ وِنڈ‘‘پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں دکھ اور پریشانیوں کا سامنا کیا تھا اس لیے ان کی تخلیقات میں اس کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔انہوں نے جو کچھ تحریر کیااپنے دل کی طمانیت کے لیے تحریر کیا۔انہیں ۱۹۲۶ء میں نوبل انعام تقویض کیا گیا۔ان کی اہم کتابیں آفر دَ ڈائیورس اور دَ مدرہیں۔