Shishe ka Ghar by Surendar Parkash

Articles

شیشے کا گھر

سریندر پرکاش

شیشے کے گھر میں سیڑھیاں، بنانا اور پھر ان سیڑھیوں پر اس کی آخری چھت تک پہنچنا کیا ایک مسئلہ نہیں ہے؟ یہ فرض کرلیا گیاہے کہ فنکار کو اس کی فن کاری کی دادملنی ہی چاہیے۔ لیکن کیافن کی تخلیق کے پیچھے داد خواہی کا جذبہ کلبلارہا ہوتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس مفروضے سے فن کی قدروقیمت کم ہوتی ہے۔ بڑے فن کی یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ قاری،سامع یا ناظر کو فنکار کے تجربے میں شامل ہونے کی تحریک دے۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر دادا ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اور اگر تخلیق نے خاطر خواہ اثر نہیں کیا اور اس کی طرف نقاد یا قاری متوجہ نہیں ہوا تو فن کو اپنی تخلیقی صلاحیت پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
تخلیق کو بسا اوقات معاوضے کے ترازو میں بھی تولاجاتا ہے لیکن یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ فن اپنا معاوضہ صرف سکّوں ہی کی صورت میں وصول نہیں کرتا۔ زیادہ تر فن کو پرکھنے والے ہی نہیں ملتے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کا فن بھی انھیں لوگوں کو پرکھنے کے لیے پیش کردیا جاتا ہے جو عام درجہ کا فن پرکھنے کی عادت بنا کر بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاں تخیل (Imagination) کی کمی ہوتی ہے اور وہ ایک محدود نظریہ فن کی بنیاد پر اپنا کام چلاتے ہیں۔ اکثر ایسی صورت میں ادب کو اس کا پارکھ قارئین میں مل جاتا ہے جو اپنی زندگی میں کم وبیش اسی ذہنی سفر کا تجربہ رکھتا ہے جیسا کہ اعلیٰ درجہ کا فنکار۔
جب مجھ پر پہلا خیال اترا جسے میں نے قلم بند کرنے کی کوشش کی تو میں صحیح معنوں میں تخلیقی عمل سے اچھی طرح روشناس نہ تھا۔ کوئی سامنے کا دیکھا ہوا واقعہ۔ کوئی دلچسپ کردار اچھا لگتا تو میں اس کی قلمی تصویر بنانے کے لیے قلم اٹھالیتا۔ لیکن وہ تصویریں بے جان ہوتیں۔ نہ ان کی شریانوں میں خون گردش کررہا ہوتا نہ ان کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہوتا۔ نہ ہی ان کے وجود میں روح جنبش کررہی ہوتی۔ نہ ہی میں ان تصویروں کا دکھ سکھ جان پاتا اور نہ ہی ان کے وسیلے سے اپنی ذات کا سکھ کہہ پاتا۔
میں الگ سے ایک آدمی ہوتا اور اپنی قلمی تصویروں سے میرا رشتہ اسی وقت ٹوٹ جاتا۔ جب میں ان کو اپنی طرف سے مکمل کر کے الگ ہوتا ، لیکن ایک خلش سی باقی رہتی۔ اپنے اندر ایک کمی سی محسوس ہوتی اور اس کیفیت کو ٹھیک طور پر سمجھنے کا شعور مجھ میں بالکل نہ تھا۔ ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ میرا پہلا افسانہ تھا۔ جسے لکھنے کے بعد میں بے حد اداس ہوگیا۔ مجھے بے گھر ہونے کا احساس بری طرح ستانے لگا۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کے سارے غم میں، میں نے اپنے آپ کو شریک پایا۔ اس گھر کے مکینوںسے اجنبیت کا کرب میرے اندر تک سرایت کر گیا۔
لیکن نہیں، یہ میں نہ تھا، یہ تو کوئی اور ہی شخصیت تھی۔ جس کا وجود اچانک عمل میں آگیا تھا جو میرے وجود کاانگ تھی۔ لیکن پھر بھی مجھ سے، میرے ماحول سے اور میرے رشتے ناطے والوں سے اجنبی تھی۔ کون ہے یہ؟ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ تب میری نظروں کے سامنے ایک مجسمہ ابھرا جس کا آدھا دھڑ عورت کا تھا اور آدھا مرد کا۔ وہ وشنو کا اور نریشور کاروپ تھا۔ بات میری سمجھ میں آگئی۔ وہ راز میں سمجھ گیا کہ وشنو کا یہ روپ جس نے تخلیق کیا تھا وہ کہنا کیا چاہتا تھا۔
فنکار کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنے ہی نطفہ سے اور اپنے ہی بطن سے ایک نئی شخصیت کو جنم دیتا ہے یعنی اس کی شخصیت کا مرد اس کی شخصیت کی عورت سے بیاہ رچا لیتا ہے اور ان کے قرب سے پیدا ہونے والا بچہ آنکھیں مل مل کر اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہنچاننے کی کوشش کرتا ہے اور اسے سب اجنبی، اجنبی سا لگتا ہے اور پھر وہ بچہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔
’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کی تخلیق کے بعد مجھ میں اور میرے بطن سے میرے ہی نطفے سے پیدا ہونے والے بچے میں ایک عجیب کشمکش سی شروع ہوگئی اور پھر ایک دن آیا کہ اس نے قلمدان میرے ہاتھ سے چھین لیا اور میں بے حسی اور بے کسی کے عالم میں گم سم کھڑا رہا۔ وہ بچہ جیسے جیسے توانا ہوا جاتا تھا، میں ویسے ویسے ہی کمزور و ناتواں ہوا جاتا تھا اور پھر ایک وقت آیا جب وہ جدو جہد ختم ہوگی اور میں نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد سریندر پرکاش نام کا خاوند،باپ، بھائی اور دوست محض ایک نام رہ گیا اور زندگی کی پوری باگ ڈور سریندر پرکاش افسانہ نگار نے سنبھال لی۔
گو کہ سریندر پرکاش ابھی زندہ تھا، لیکن مردوں کے برابر کہ دونوں شخصیتیں الگ الگ اپنی زندگی گزاررہی تھیں۔ ایک جو تخلیق میں مصروف تھی اور دوسری جو رشتوں ناطوں کے محدود دائرے میں سانس لے رہی تھی۔
وہ کون ہے جو ،رونے کی آواز، بجو کا، بازگوئی اور ساحل پر لیٹی ہوئی عورت تخلیق کرتا ہے اور پوجا کا تلک میری پیشانی پر لگادیتا ہے، جس نے مجھے سکھایا کہ مذہب کو ذاتی عقیدے کے حصار سے نکال کر فلسفہ کے ساحل پر لا کر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں اسلام، عیسائیت اور ہندومت اپنے آفاقی روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں فرد کا کرب، انسانیت کا کرب بن جاتا ہے اور آدمی زندگی کا مہامنتر پاجاتا ہے اور آزادی۔ آزادی!
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ایک ہی گھر میں قیام کرتی ہیں۔
میری جگہ اگر آپ ہوں تو آپ پر کیا گزرے گی۔
یہ کس نے بجائی بانسری؟ اور کون سے پیڑ پہ کوئل نغمہ سرا ہوئی اور کوئل کے کنٹھ میں کانٹا چبھا ہے۔ مت رو کوئل مت رو۔ کالی کلوٹی کوئل تو حسن کا مجسمہ ہے۔
اُف! اس نظام میں کس نے خون نہیں تھوکا؟
تو صاحبو۔ مطلب یہ ہوا کہ فنکار دوہری زندگی جیتا ہے۔ ایک چہرہ، چہرے پر لگا رہتا ہے اور ایک چہرہ چہرے کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے عتاب مجھ پر نازل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی نفرتیں، شکایتیں اور دشنام میرے لیے ہیں۔ نیکیاں، تعریفیں اور اعزاز اس کے لیے جو میری شخصیت کے پردے میں چھپا بیٹھا ہے یہاں تک کہ اب لفظ بھی اسی پر نازل ہوتا ہے اور میں محض تماشائی کی طرح سب کچھ دیکھتا ہوں اور کڑھتا ہوں۔
اگر آپ نے میرا افسانہ ’سرنگ ‘پڑھا ہے تو آپ کو ضرور معلوم ہوگا کہ مجھے اس نے ایک ٹنل میں لا پٹکا ہے، جس میں سے نکلنے کا راستہ بڑا دشوار گزار ہے اور آدم خور چوہے میری بوٹی بوٹی کے بھوکے ہیں۔ مجھے دو جنگیں ایک ساتھ لڑنا پڑ رہی ہیں۔ ایک اس کے ساتھ اور دوسری آپ کے ساتھ۔ جی ہاں! میں آپ کے ساتھ بھی برسرِپیکار ہوں۔
’بجوکا‘ میں جب زمانے کا سردو گرم برداشت کرنا ہوتا ہے تو وہ مجھے ’بجوکا‘ بنا کے کھیت میں کھڑا کر دیتا ہے اور فصل کاٹتے وقت وہ ہوری بن کے آموجود ہوتا ہے اور جب ہوری کا مقدر موت بن جاتی ہے تو وہ خود،بجوکا‘ بن جاتا ہے اور میری فصل کا ایک چوتھائی لینے کا حق دار بن جاتا ہے۔ ’بازگوئی‘ میں نیک موسیقار اور شاعر تلقار مس وہ ہے اور جب تلقار مس کا پتن ہوتا ہے تو وہ مجھے تلقارمس بناڈالتا ہے اور میرے ہاتھ پائوں کاٹ کر ملکہ شہروزی کے محل کے کھنڈر میں پھنکوا دیتا ہے۔
نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میرا مزاج بالکل بدلتا جارہا ہے۔ میرے اوپر کی کھال اتر رہی ہے اور میرا سارا وجود اس کی شخصیت میں سماتا جارہا ہے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں ایک دن اپنی شخصیت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا اور اس کا تابع ہو کر رہ جائوں گا۔ کیا یہ ایک عظیم کرب نہیں ہے کہ میں زندہ ہوں اور اپنی زندگی کا ثبوت مجھے اس کے وسیلے سے دینا پڑ رہا ہے۔
سیرابی و تشنگی کا احساس میرا کہاں رہا ہے کہ میںاپنے سننے اور پڑھنے والوں کو جس میں شامل کروں!شاعری کرنا یا افسانہ لکھنا ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے لیے اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس گلی میں داخل ہونا پڑتا ہے، ورنہ آپ کا لفظ، لفظ نہیں بنتا جو پڑھ کر پھونکا جاسکے۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا شیشے کا یہ گھر عجیب ہے۔ جس میں کوئی سیڑھی نہیں اور جس کی کوئی چھت نہیں اور آپ اس کی چار دیواری کے اندر رہ کر بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتے۔ باہر سے آپ کی نظریں فنکار کو کھائے جاتی ہیں اور اندر سے فنکار اپنا خون گھونٹ گھونٹ پیتا رہتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ مرنے کے باوجود فنکار اپنی موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اکثر دیکھا ہے، وہ شیشے کے گھر میں گردن جھکائے آہستہ آہستہ ٹہلتا رہتا ہے، لیکن اس کے اندر بلا کی بے چینی ہوتی ہے وہ جانتا ہے کہ اس گھر میں کوئی دروازہ نہیں، باہر نکلتا ہے تو کسی ایک دیوار کا شیشہ ضرور ٹوٹے گا اور پھر ٹوٹے ہوئے گھر میں بھی اسے ہی جھک کر ایک ایک کرچی چننا ہے۔
