Safi Lakhnawi : Collection of Ghazals

Articles

صفی لکھنوی


انتخابِ کلام صفی لکھنوی

1

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا

نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو
جب آواز دوں ، تم بھی آواز دینا

کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا

دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سے
صفی ٹوٹ کر دل کا آواز دینا

 

2

جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر
خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر

یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں
رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر

دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل
ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر

دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری
خبر دیتا ہے مجھ کو طرفِ خالی پُر صدا ہو کر

نہ سُلجھی ایک بھی گُتّھی ہزاروں ٹھوکریں کھائیں
رہے بیکار زندہ ناخنِ انگشتِ پا ہو کر

نظر حوروں پہ ہے اے زاہدِ مسجد نشیں تیری
ارے کمبخت یہ شاہد پرستی پارسا ہو کر

چلے جاؤ اسی جانب صفیؔ گر خلد جانا ہے
گیا ہے راستہ جنّت کو سیدھا کربلا ہو کر ​

 

3

جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر
خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر

یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں
رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر

دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل
ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر

دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری
خبر دیتا ہے مجھ کو طرفِ خالی پُر صدا ہو کر

نہ سُلجھی ایک بھی گُتّھی ہزاروں ٹھوکریں کھائیں
رہے بیکار زندہ ناخنِ انگشتِ پا ہو کر

نظر حوروں پہ ہے اے زاہدِ مسجد نشیں تیری
ارے کمبخت یہ شاہد پرستی پارسا ہو کر

چلے جاؤ اسی جانب صفیؔ گر خلد جانا ہے
گیا ہے راستہ جنّت کو سیدھا کربلا ہو کر ​

 

4

سنتا ہوں ذکر تنگیِ کنجِ مزار کا
کیونکر نبھے کا ساتھ دلِ بے قرار کا

ہے موسمِ خزاں میں بھی عالم بہار کا
گلدستہ ہے لحد میں دلِ داغدار کا

کہہ دو ذرا فلک سے کہ دامن سمیٹ لے
کرتا ہوں امتحاں نفسِ شعلہ بار کا

ہم بیکسوں کی قبر کہاں برگِ گل کہاں
صدقہ ہے سب یہ فیضِ نسیمِ بہار کا

آنکھیں کئے ہوں بند پسِ مرگ اس لئے
سرمہ کھٹک رہا ہے شبِ انتظار کا

تا فرش بزمِ دوست رسائی جو ہے صفیؔ
ہے عرش پر دماغ ہمارے غبار کا​

 

5

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے

شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے

الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے

نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے

قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ

تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے

شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ہے

ذرا دیکھو تو کیوں کر غم زدوں کا دم نکلتا ہے

نگاہ التفات مہر اور انداز دل جوئی

مگر اک پہلوئے بے تابئ شبنم نکلتا ہے

صفیؔ کشتہ ہوں نا‌ پرسانیوں کا اہل عالم کی

یہ دیکھوں کون میرا صاحب ماتم نکلتا ہے