Saem A short Story by Waseem Aqeel Shah

Articles

صائم

وسیم عقیل شاہ

     رحمت علی اپنی بوسیدہ سی چپلیں ہاتھ میں لیے بڑے دروازے سے مسجد کے صحن میں داخل ہوئے۔ پسینے میں شرابور، بے حال سے وضو خانے کے قریب پہنچے اور اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کرنے لگے۔سامنے حوض کے وسط میں خوب صورت فوارہ چھوٹ رہا تھا اور حوض کے پانی میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ حوض کے قریب پہنچتے ہی انھیں ٹھنڈی ہوا کے لطیف جھونکو ں نے بحال کردیا۔ سلیقہ مند قطرے چھن چھناتے ہوئے پانی کے اس محدود ذخیرے میں پڑرہے تھے۔ رحمت علی کا جی چاہا کہ سورج کی گرمی سے جھلسا ہوا روزہ دار بدن پانی کے ان فرحت بخش قطروں کے سپرد کردے۔
         ’’ظہر کا وقت ہے نا چاچا؟‘‘
         رحمت علی نے حوض کے کنارے دائیں طرف کی نششت پر بیٹھے بزرگ سے پوچھا جو مسواک کر رہے تھے۔
           ’’ہاں! ابھی ساڑھے تین ہی تو بجے ہیں،کافی وقت ہے۔‘‘
           باریش بزرگ نے بغیر نظریں اٹھائے جواب دیا۔
           رحمت علی کو وقت کے تاخیر سے گزرنے کا احساس ہوا۔ سچ مچھ دن طویل معلوم ہو رہا تھا اور آج واقعی وہ اپنی جان سے آدھے ہوگئے تھے۔شدت کی بھوک پیاس نے انھیں بے حال کر رکھا تھا اس پر مسجد کامپلیکس کی دکانوں سے تازہ مٹھائیوں اور لذت دار پکوانوں کی اڑتی مہک انھیں بے چین کرنے لگی۔
            وضو کرتے وقت ٹھنڈے پانی کے لمس نے ان کے روم روم میں رچی تشنگی کوجیسے سیراب کردیا۔ایمانی حلاوت سے سر شار رحمت علی نے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی۔ دعا میں برسات کے خیال سے ان کے ہونٹ پھڑ پھڑا اٹھے تھے۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ صحن کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے جانے کتنی دیر نیم دراز حالت میں پڑے رہے مگر تھالوں اور رکابیوں کی کھڑکھڑاہٹ سے چونک کر سیدھے ہوگئے ۔اب کے مسجد کی پر سکون فضا میں سر سراہت سی دوڑ گئی۔ سوئے ہوئے روزے دار کروٹیں بدلنے لگے، کچھ اٹھ بیٹھے اور اپنی سفید داڑھیوں کو سنوارنے لگے۔ عصر کی اذان کا وقت قریب آگیا تھا اور مسجد میں افطار کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، دستر خوان جھاڑے جا رہے تھے، برتن دھوئے جا رہے تھے تو ایک طرف بچے پھلوں کی قاشیں کاٹ کر ترتیب سے رکھ رہے تھے ۔ مسجد میں آنے والوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بیشتر آنے والوں کے ہاتھوں میں پلاسٹک کی تھیلیاں تھیں اور کچھ لوگ طشتریوں اور خوانوں کو خوش رنگ کپڑوں سے ڈھانکے افطار کی سوغاتیں پیش کر رہے تھے ۔
          انہیں میں ایک شخص غالباً آٹھ سال کی بچی کو گود میں لئے مسجد میں داخل ہوا۔ بچی نے سرخ رنگ کا اسکارف اوڑھ رکھا تھااور گلے میں تازہ پھولوں کا ہار جو اس کے پیٹ تک لٹکا ہوا تھا اور جس کی مہک روزے کے احساس کو شدت پہنچا رہی تھی۔ اس کے کمھلائے ہوئے چہرے پر نور کا ایک ٹکڑا سا ٹھہرا معلوم ہو رہا تھا اور ہونٹ سوکھی انجیر کی مانند، جن پر مچلتی پیاس کو دیکھ کر صاف معلوم پڑتا تھا کہ وہ بھی روزے دار ہے۔بچی کو دیکھ کر رحمت علی کی آنکھوں میں اپنے بیٹے کا چہرہ اتر آیا۔ رضوان کے کمسنی میں رکھے گئے روزوں کی یادداشتیں ان کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ خاص کر اس کا پہلا روزہ انھیں خوب اچھے سے یاد ہے۔جب وہ آٹھ برس کا تھا اور انھوں نے اسے اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں بھر میں اس وقت تک گھمایا تھا جب تک ہر خاص و عام نے اس کی بلائیں نہ لے لی تھیں۔
           اچانک مسجد کے صدر دروازے پر ایک شور سا اٹھا۔ رحمت علی نے گردن گھمائی تو دیکھا کہ چار پانچ خوش پوش اور مضبوط قدو قامت کے نوجوان قہقہے لگاتے ہوئے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ مسجد کے احاطے میں آتے آتے ان کی آوازیں مدھم ہوکر سرگوشیوں میں کھو گئیں۔ لڑکوں نے واٹر فلٹر مشین سے بھر بھرگلاس پانی پیا اور طہارت خانے میں جا گھسے ۔ پھر کچھ دیر بعد وہ فلسفیانہ نگاہوں سے مسجد کے بے ترتیب مکینوں کو دیکھتے ہوئے بڑے دروازے کی طرف چل دیے۔
           رحمت علی نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید دفتر کے ملازم تھے یا پھر مال اور دکانوں میں کام کرتے ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سڑکوں پر دکانیں لگاتے ہوں۔ لیکن رمضان المبارک کے اس مقدس ماہ میں انھیں پانی پیتے دیکھ کر رحمت علی کو قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ نہ اس وقت انھیں حیرت ہوئی تھی جب وہ ’وینکٹیش انّ بھنڈار‘ سے واپسی کرہے تھے اور پاس ہی کھانے کے معیاری ریستوران کے باہر رحمانیہ کالج کے چند طلبہ برگر، پیزا اور چاٹ جیسی کھانے کی مختلف چیزیں ہاتھوں میں لیے ادھم مستی مچا رہے تھے۔ بھلے ہی رحمت علی کو ان پر بھی حیرت نہ ہوئی ہو لیکن ان کی آنکھوں میں شرمندگی کا ایسا احساس تھا جو کسی لفظی تصویر میں نہ ڈھل سکے ۔
         عصر کے لئے موذّن نے صدا دی تو رحمت علی نے سر کا رومال ڈھیلا کیا اور وضو کے لیے حوض کی طرف بڑھے۔ نماز کے بعد انھوں نے ہمت جٹائی اور نہ چاہتے ہوئے مسجد کا صحن پار کیا۔
         باہر سورج مغربی ہو رہا تھا مگر آسمان پر ہلکی نیلی چادر ایسی صاف و شفاف تنی ہوئی تھی کہ جس پر بادل کا ایک دھبہ تک نہیں تھا۔سڑک کے دونوں کناروں پر سجی دکانوں پر آمد عید کی بہاریں، گویا کہ سیدھی اور ساکت کھڑی سڑک کو گدا گدا رہی تھیں۔
         رحمت علی نے اطراف کا سرسری جائزہ لیا اور جھک کر اپنے ٹھیلے کی دونوں مٹھیوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پھر بسمہ اللہ پڑھی اور پورے بل سے اسے اوپر اٹھاکر کسی ستون کی طرح جم گئے۔ ان کے ہاتھوں کی نسیں تن کر پھڑ پھڑانے لگیں اور پورے جسم میں جیسے ایک ولولہ سا چھوٹ گیا۔ اگلے ہی لمحے چار کونٹل اناج سے لدا محمد علی روڈ کے ایک پچپن سالہ محنت کش حمال کا ٹھیلہ تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بازار کی بے ہنگم بھیڑ میں گم ہو گیا۔
                             ختم شد۔۔۔۔۔۔۔