Prof. Qazi Abdus Sattar ke Sath Urdu Duniya mein aik Style ka Khaatma

Articles

قاضی عبدالستار کے ساتھ اردو ادب اور اردو دنیا میں ایک اسٹائل کا خاتمہ ہوا ہے

پریس ریلیز

قاضی عبدالستار کے سانحہ ارتحال پر شعبہ اردو ممبئی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا ۔ اس نشست کی صدارت پروفیسرصاحب علی نے کی جبکہ معروف صحافی محمد وجیہ الدین (ٹائمزآف انڈیا) مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔صدارتی کلمات میں ڈاکٹر صاحب علی نے قاضی عبدالستارکے سوانحی حالات، ان کی تخلیقات اور ان کے اسلوب پر اظہار خیال کیا ۔چونکہ قاضی صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںڈاکٹر صاحب علی کے استاد رہ چکے ہیں۔انھوں نے اپنے استاد کے کئی یادگار واقعات بیان کیے۔ قاضی صاحب کی تحریر ، تقریر ، تدریس،ان کا رہن سہن ، ان کی پوشاک غرض کئی جزیات کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ’’ قاضی عبدالستار کے انتقال سے نہ صرف یہ کہ اردو کا ایک ادیب نہ رہا بلکہ وہ جس قسم کی زبان لکھتے تھے ویسی زبان لکھنے ولا یا بولنے والا بھی ہم میں نہ رہا۔ وہ ایک اسٹائلش انسان تھے۔ یہ اسٹائل ان کی نہ صرف تحریر ، تقریر اور تدریس میں نمایاں اور منفرد تھی بلکہ زندگی گزارنے کے عمل میں بھی وہ اسی انفرادیت کے قائل تھے ۔ان کے ساتھ اردو ادب اور اردو دنیا کے ایک اسٹائل کا خاتمہ ہوگیا ۔ ہم ان کے پسماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ شعبہ اردو ان کے انتقال پر رنجیدہ و غمگین ہے۔اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘
 محمد وجیہ الدین نے اپنے کلمات میں قاضی صاحب سے اپنی وابستگی کا ذکر نصابی کتاب کے حوالے سے کیا۔ انھوں نے خاص طور پر ناول ’’ دارا شکوہ‘‘ کا ذکر کیا جو ان کے میٹروکولم نصاب کا حصہ تھا۔ اور اسی موضوع پر دلی میں ہوئے سیمنار کی یاد تازہ کرتے ہوئے وجیہ الدین نے بتایا کہ ’’ جس سیشن میں ’’ داراشکوہ‘‘ ناول پر مضمون پڑھنا تھا ، اتفاقاً اس کی صدارت خود ناول نگار قاضی عبدالستار کر رہے تھے۔ میرے لیے یہ کافی چیلنج بھرا لمحہ تھا۔ ‘‘ انھوں نے قاضی صاحب کے اسلوب کی انفرادیت پر بھی بات کی۔
شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر عبداللہ امتیاز نے قاضی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کیا۔ انھوں نے خاص طور پر قاضی صاحب کے شاہانہ رہن سہن کا ذکر کیا اور کہا کہ’’ امیری اور رئیسی کیا ہوتی ہے وہ قاضی صاحب کو دیکھ کر پتہ چل جاتا تھا۔‘‘ شعبہ اردو سے وابستہ استاد ڈاکٹر مزمل سرکھوت نے قاضی صاحب کے اسلوب اور موضوع کے حوالے سے بات کی ۔ انھوں نے کہا کہ’’ قاضی صاحب کا تاریخی شعور بیدار تھا۔ ان کے ناولوں کے موضوعات ان کے تاریخی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔ ‘‘
 نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر قمر صدیقی نے قاضی عبدالستا رکی علمی فتوحات کا ذکر کیا۔ ان کے انفرادی اسلوب اور اس کی بے پناہ مقبولیت کا ذکر کیا۔ نشست کے آخر میں شعبہ اردو کی جانب سے ایک تعزیتی قرارداد ڈاکٹر قمر صدیقی نے پیش کی۔ جس میں قاضی عبدالستار کے سوانحی کوائف ، ان کے فکشن میں کارہائے نمایاں نیز ان کے اسلوب اور شخصیت کی انفرادیت پر روشنی ڈالی گئی ۔
اس نشست میںشعبہ اردو کی اساتذہ ڈاکٹر معزہ قاضی، محترمہ روشنی خان کے علاوہ ڈاکٹر رشید اشرف خان، ایم اے اول ودوم کے طلبانیز شہر کی چند شخصیتیں موجود تھیں۔ یہ تعزیتی نشست ممبئی یونیورسٹی کالینہ کیمپس کے لیکچر کامپلیکس میں منعقد کی گئی تھی۔
(تصویر کا کیپشن: دائیں سے : ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر عبد اللہ امتیاز، پروفیسر صاحب علی، وجیہہ الدین اور ڈاکٹر معزہ قاضی)