Pandit Jawaharlal Nehru

Articles

پنڈت جواہر لال نہرو

ڈاکٹر محمد نسیم الدین ندوی

تاریخ کی اواراق گرداری کرنے پر ہندوستان کے تناظر میں بہت سی شخصیات ابھرتی ہیں جنھوں نے وطن مالوف کے لیے گراں قدر خدمات اور قربانیاں پیش کی ہیں جن کو نظرانداز و فراموش کردینا وطن عزیز کا بڑا خسارہ ہے۔ ان شخصیات میں بابائے قوم مہاتما گاندھی، اسیر مالٹا مولانا محمود حسن، اسیر کالا پانی علامہ فضل حق خیرآبادی، عظیم داعی مفکر و مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی، عظیم مجاہد آزادی بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی، مولانا حفظ الرحمن، مولانا محمد علی جوہر، سردار پٹیل، نیتاجی سبھاش چندر بوس ہیں۔ اور بھی شخصیات ہیں صفحات کی تنگ دامانی اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

ان میں بہت سے شخصیات ایسی ہیں جن کو ہندوستان میں بالکل نظرانداز اور فراموش کردیا گیا ہے۔ سرِدست آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کی ہمہ جہت شخصیت پر خامہ فرسائی مقصود ہے۔ پنڈت نہرو مورخ، مصنف اور سیاست داں تھے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو 14 نومبر 1889ء کو الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے یوم پیدائش پر ہر سال یوم اطفال بڑی دھوم دھوم سے منایا جاتا ہے۔ ان کے والد موتی لعل نہرو معروف قانون داں تھے۔ ماں شریمتی سروپ رانی تعلیم یافتہ خوبصورت خاتون تھیں۔ یہ برہمن خاندان جنت نشاں وادی کشمیر سے آکر الہ آباد میں آباد ہوگیا تھا۔ الہ آباد ایک شہرت یافتہ تاریخی شہر ہے۔ یہاں عقیدت کی آئینہ دار تین دریاؤں کا سنگم ہے گنگا، جمنا اور سرسوتی کا خوبصورت ملن یہیں ہوتا ہے۔ سرسوتی یہاں سطح زمین کے اندر رہتی ہے۔ یہاں پورے ملک سے زائرین آتے ہیں۔ الہ آباد کئی سالوں تک متحدہ آگرہ و اودھ کا دارالسلطنت بھی رہا ہے۔ پنڈت نہرو کی تعلیم و تربیت کے لیے اول مرحلے میں گھر پر ہی انتظام کیا گیا۔ سنسکرت، ہندی پڑھانے کے لئے جہاں پنڈت رکھے گئے اردو فارسی پڑھانے کے لیے مولوی رکھے گئے۔ انگریزی پڑھانے کے لیے انگریز استاد رکھا گیا۔ جب پنڈت نہرو چودھ سال کے ہوئے تو ان کو انگلستان کے ہیرو کالج میں داخل کیا گیا۔ ابتدائی دنوں میں ان کی طبیعت گھبرائی لیکن پھر آہستہ آہستہ اسکول کی زندگی میں رچ بس گئے اور ہمہ وقت مطالعے میں مصروف رہنے لگے۔ وہ اپنے ہم جماعت طلبا سے زیادہ اخبارات و جرائد کا مطالعہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1905 کے اواخر میں انگلستان میں عام انتخابات ہوئے، لیبر پارٹی برسراقتدار آگئی، 1906 کے شروع میں پنڈت نہرو کے کلاس ٹیچر نے انتخابات اور برسراقتدار آئی پارٹی اور حکومت کے بارے میں سوالات کئے تو کلاس میں استاد حیران رہ گئے جب پورے کلاس میں جواہر لعل ہی ایسے طالب علم تھے جو سب سے زیادہ معلومات رکھتے تھے۔ حکومت کے وزرا کے نام کی فہرست منہ زبانی یاد تھی۔ 1906 میں ہیرو کالج کے سالانہ امتحان میں جواہر لعل اول آئے۔ ہیرو کالج کے ہیڈماسٹر جواہر لعل کی کارکردگی سے پورے طور پر مطمئن تھے۔ انھوں نے موتی لعل نہرو کو جواہر لعل نہرو کی جو رپورٹ ارسال کی اس میں پورے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ جواہر آگے چل کر تاریخ رقم کرے گا۔ اکتوبر 1907 میں 18 سال کی عمر میں جواہر لعل نہرو کو کیمرج یونیورسٹی میں داخل کیا گیا۔ یہ دنیا کی مایہ ناز اور معروف یونیورسٹی ہے۔  پنڈت نہرو یونیورسٹی آکر بہت خوش تھے۔ انھوں نے کیمرج کی کھلی فضا میں خوب مطالبہ کیا اور وسیع تر معلومات حاصل کیں۔ علم کیمیا، علم ارضیات، علم اقتصادیات، علم نباتات، علم قدرتی سائنس، علم سیاسیات پر مختلف نظریات کا مطالعہ کیا۔ اسی دوران وہ سوشلسٹ خیالات سے واقف ہوئے۔ برناڈشا اور ٹرینڈرسل سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ اسی دوران ان کے دل میں جذبہ پیدا ہوا کہ بھارت کی آزادی کے لئے جد و جہد کرنا چاہئے۔ کیمرج یونیورسٹی میں مقیم ہندوستانیوں نے ایک سوسائٹی بنائی تھی جس کو مجلس کہا جاتا تھا۔ اس میں مختلف موضوعات پر بحث و تمحیص ہوتی تھی۔ ہندوستانی طلباء اپنی تہذیب و ثقافت کو انگریزوں کی تہذیب و ثقافت سے اعلیٰ و برتر سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ ہندوستانی تہذیب میں زیادہ کشادگی اور رواداری ہے۔ اس مجلس میں حقوق انسانی اور آزادی پر بھی بحث ہوتی تھی۔ پنڈت نہرو اس میں برابر شریک ہوتے تھے اور اپنی بات بڑے محتاط انداز میں رکھتے تھے۔ ان کو اس مجلس سے بڑی معلومات حاصل ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ آزادئ ہند کا جذبہ موجزن ہونے لگا۔ جواہر لعل نہرو کی عمر صرف 20 سال کی تھی جب 1910میں ڈگری حاصل کرلی۔ ان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں لیکن ان کے والد نے کہا کہ نہیں تم بیرسٹر بنو۔ اس کے مدنظر ان کو لندن کے مہشور قانون کے کالج انرٹیمپل میں داخل کیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1912ء میں امتیازی نمبرات سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
1912میں پنڈت بھارت واپس آگئے۔ ملک میں جنگ آزادی کی جد و جہد جاری تھی۔ پہلی عالمی جنگ کی آمد آمد تھی۔ اس وقت کانگریس دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک حصہ کی رائے تھی کہ ملک کی آزادی کا حصول گفت وشنید سے ہو جبکہ دوسرے حصہ کی رائے تھی کہ آزادی بزور شمشیر حاصل کی جائے۔ پنڈت نہرو کے والد موتی لعل اعتدال پسندی کے حامی تھے۔ ان کا مشورہ تھا کہ ملک کی آزادی انتہا پسندی سے نہیں بلکہ اعتدال پسندی سے ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اعتدال پسند تھے اور بات چیت اور امن و امان کی راہ پر چل کر بھارت کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔
1916ء میں لکھنؤ کے کانگریس اجلاس میں مہاتما گاندھی سے جواہر لعل نہرو کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت گاندھی کی شخصیت ایک عظیم داستان بن چکی تھی۔ گاندھی جی عدم تشدد کی راہ پر چل کر ملک کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔ جواہر لعل، گاندھی سے بہت متاثر ہوئے اور پھر کیا تھا بہت جلد وہ گاندھی کے شریک کار بن گئے۔ 1916میں ہی جواہر لعل نہرو کی شادی دہلی میں کملا کول سے ہوئی۔ 19نومبر1917 میں ان کے یہاں ایک بچی کا جنم ہوا جس کا نام اندرا پریہ درشنی رکھا گیا۔
پہلی عالمی جنگ نومبر 1918 میں ختم ہوئی۔ بھارت کے عوام برطانیہ کی زنجیر غلامی کو ہر حال میں توڑ پھینکنا چاہتے تھے اور بغاوت پر آمادہ تھے۔ انگریزوں سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وعدے کے مطابق بھارت کو آزاد کردیں لیکن انگریزوں نے اس کے برعکس قانون بنادیا کہ کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے جیل بھیجا جاسکتا تھا۔ گاندھی جی نے ستیہ گرہ شروع کردی۔ پرامن احتجاج اور گرفتاریاں دینا شروع کردی گئیں۔ دسمبر 1927 کے مدراس کے کانگریس اجلاس میں بھارت کی مکمل آزادی کی تجویز پیش کی گئی۔
جواہر لعل نہرو کی زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں کٹا۔ بریلی، دہرہ دون، الموڑہ، علی پور، کلکتہ اور احمد نگر کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ چونکہ پنڈت سیاسی قیدی تھے اور جیلوں کے افسران مہذب ہوتے تھے اس لیے ان کو اخبارات، کتابیں، رسائل پڑھنے کی اجازت تھی۔ وہ جیلوں میں خوش اخلاقی کے ساتھ رہتے تھے۔ جیلوں کے قوانین پر بہت سختی سے عمل کرتے تھے۔ جسمانی ورزش کے لیے باغبانی کیا کرتے تھے اور دماغی ورزش کے لیے پڑھتے لکھتے رہتے تھے۔ ’’تلاش ہند‘‘ جیل میں رہ کر ہی لکھی تھی۔ اپنی بیٹی اندرا پریہ درشنی کو خطوط لکھا کرتے تھے جو ’باپ کے خط بیٹی کے نام‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکے ہیں۔
8اگست 1942 میں ممبئی میں کانگریس کا اجلاس ہوا۔ بھارت چھوڑو تجویز منظور ہوئی اور آثار نمایاں ہونے لگے کہ اب بھارت آزاد ہوجائے گا۔ 1945 میں عالمی جنگ ختم ہوئی۔ انگلستان میں لیبر پارٹی برسراقتدار آئی۔ نئی پارٹی ایک بار پھر بھارت کی آزادی کے مطالبہ کو طے کرنا چاہتی تھی۔ آزادی کے لیے انگریزوں نے دو تجویزیں رکھیں۔ ایک قلیل مدتی اور ایک طویل مدتی۔ کانگریس نے قلیل مدتی تجویز کو مان لیا لیکن مسلم لیگ نے اس کو نامنظور کردیا اور الگ ملک کا مطالبہ تیز کردیا۔ گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم کے سخت مخالف تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل ان قومی لیڈروں کے ساتھ تھے لیکن مسلم لیگ کے جھگڑوں سے پریشان یہ فیصلہ کیا کہ تقسیم تسلیم کرلینے میں بھلائی ہے۔ دونوں لیڈران بابائے قوم مہاتما گاندھی کو منانے میں لگ گئے۔ آخرکار گاندھی جی نے ہتھیار ڈال دیئے اور ملک تقسیم ہوکر آزاد ہوگیا۔ گاندھی جی، سردار پٹیل، پنڈت جواہر لعل نہرو و دیگر کانگریسی لیڈران مولانا ابوالکلام آزاد کو منانے میں ناکام رہے۔ مولانا نے کہا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، ہم نے بھارت کی جنگ آزادی کی لڑائی تقسیم کے لیے نہیں لڑی تھی، تقسیم اس ملک کا بڑا خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے، اس کا خمیازہ سب سے زیادہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑے گا۔ مولانا کی مخالفت کو کانگریس نے درکنار کرتے ہوئے تقسیم ہند کو تسلیم کرلیا اور بھارت آزاد ہوگیا۔
15اگست 1947 کو آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے پنڈت جواہر لعل نہرو نے حلف لیا۔ وہ اس وقت اٹھاون سال کے تھے۔ وہ جوان، خوش اور صحت منطر نظر آتے تھے۔ انھوں نے مجلس آئین کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اب وقت آگیا ہے ہم اپنے ملک کی تقدیر سنوائیں اور ملک کا مستقبل روشن و تابناک بنانے کا عہد و پیمان کریں۔ چلاپتی راؤ رقم طراز ہیں:
’’جواہر لعل نہرو محض وزیراعظم ہی نہ تھے وہ قوم کے رہنما بھی تھے۔ وہ کانگریس کے جسم اور روح تھے، ساری دنیا کے سامنے وہی ہندوستان کی نمائندگی کرتے تھے، ہندوستان کا مطلب تھا جواہر لعل اور جواہر لعل کے معنی ہندوستان تھا‘‘
وہ بہت لگن اور دلچسپی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اپنی کاپی پر امریکی شاعر رابرٹ فروسٹ کی نظم کی مندرجہ ذیل سطریں درج کر رکھی تھیں:
اگرچہ جنگلات خوبصورت گھنے اور تاریک ہیں
مگر مجھے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے
سونے سے پہلے مجھے بہت دور جانا ہے
سونے سے پہلے مجھے بہت دور جانا ہے
پنڈت جواہر نہرو آخری دم ان سطور کا ورد کرتے رہے۔
جدید بھارت کا عظیم معمار 27مئی 1964 کو اپنے داربقا کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ پنڈت جی کو آج بھی دنیا ان کے عالمی امن و امان کے لیے کئے گئے کاموں کے لیے یاد کرتی ہے اور بھارت میں ان کے یوم ولادت کو یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے اور بچے آج بھی ان کو چچا نہرو کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
جواہر لعل کو کسی بھی یادگار کی ضرورت نہیں۔ پورا جدید ہندوستان ان کی یادگار ہے۔ یہ بہادر محنتی اور زندہ دل انسان کا قصہ ہے جو اپنے عوام کو اپنے دل و دماغ کی پوری قوت سے پیار کرتا رہا اور جس نے ان کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کام کیا اور ان کو ان کے مستقبل کے بارے میں پرامید بنایا۔ عوام جواہر لعل کو کبھی فراموش نہ کرسکیں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں جواہر لعل کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھانا ہے۔


بشکریہ فکر و خبر ڈاٹ کام