Nazm Tabaatabaii ki Sharh E Diwan E Ghalib

Articles

نظم طباطبائی کی شرح دیوان غالب

پروفیسر ظفر احمد صدیقی

نظم طباطبائی کی شرحِ دیوانِ اردوے غالب ۱۳۱۸ھ مطابق ۱۹۰۰ء میں پہلی بار شایع ہوئی۔ اس سے پہلے دیوانِ غالب کی جس قدر شرحیں لکھی گئی تھیں وہ جزوی شروح تھیں۔ طباطبائی پہلے شخص ہیں جنھوں نے غالبؔ کے متداول دیوان کی مکمل شرح لکھی ہے۔ اس اولیت کے علاوہ کئی اور پہلوئوں کے لحاظ سے بھی یہ شرح اہمیت کی حامل ہے۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے مصنف عربی و فارسی کے متبحر عالم اور ان دونوں زبانوں کی شعری روایت اور اصولِ نقد سے پوری طرح واقف تھے۔ اس کے ساتھ ہی نکتہ سنجی و سخن فہمی سے بھی انھیں بہرۂ وافر ملا تھا۔ اس لیے انھوں نے مشرقی شعریات کو ذہن میں رکھ کر یہ شرح تصنیف کی ہے۔ نیز مختلف اشعار کی شرح کے دوران سخن فہمی کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بے محل نہ ہوگی کہ مشرقی شعریات سے واقفیت اور اس کے اطلاق و انطباق میں وہ بسا اوقات حالی و شبلی سے آگے نکل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ و معنی کی معرکہ آرا بحث کو لیجیے۔ حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری (۱۸۹۴ء) میں ابن خلدون کے حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: نظم طباطبائی کی شرحِ دیوانِ اردوے غالب ۱۳۱۸ھ مطابق ۱۹۰۰ء میں پہلی بار شایع ہوئی۔ اس سے پہلے دیوانِ غالب کی جس قدر شرحیں لکھی گئی تھیں وہ جزوی شروح تھیں۔ طباطبائی پہلے شخص ہیں جنھوں نے غالبؔ کے متداول دیوان کی مکمل شرح لکھی ہے۔ اس اولیت کے علاوہ کئی اور پہلوئوں کے لحاظ سے بھی یہ شرح اہمیت کی حامل ہے۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے مصنف عربی و فارسی کے متبحر عالم اور ان دونوں زبانوں کی شعری روایت اور اصولِ نقد سے پوری طرح واقف تھے۔ اس کے ساتھ ہی نکتہ سنجی و سخن فہمی سے بھی انھیں بہرۂ وافر ملا تھا۔ اس لیے انھوں نے مشرقی شعریات کو ذہن میں رکھ کر یہ شرح تصنیف کی ہے۔ نیز مختلف اشعار کی شرح کے دوران سخن فہمی کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بے محل نہ ہوگی کہ مشرقی شعریات سے واقفیت اور اس کے اطلاق و انطباق میں وہ بسا اوقات حالی و شبلی سے آگے نکل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ و معنی کی معرکہ آرا بحث کو لیجیے۔ حالی نے مقدمۂ شعر و شاعری (۱۸۹۴ء) میں ابن خلدون کے حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میںمحض الفاظ میں ہے، معانی میں ہرگز نہیں۔ معافی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔۔۔ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسا پیالہ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسا پانی۔ پانی کو چاہے سونے کے پیالے میں بھر لو اور چاہو چاندی کے پیالے میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالے میں، پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔
پھر اس سے اختلاف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلا یا بوجھل یا ادہن ہوگا، یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے یا چاندی کے پیالے میں پلائیے، خواہ بلور اور پھٹک کے پیالے میں وہ ہرگز خوش گوار نہیں ہوسکتا اور ہرگز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔
یہی بحث شبلی نے بھی شعر العجم میں اٹھائی ہے۔ البتہ ان کا نقطۂ نظر حالی سے مختلف ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ شاعری یا انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ ہی پر ہے۔ گلستاں میں جو مضامین اور خیالات ہیں، ایسے اچھوتے اور نادر نہیں۔ لیکن الفاظ کی فصاحت اور ترتیب اور تناسب نے ان میں سحر پیدا کردیا ہے۔ ان ہی مضامین اور خیالات کو معمولی الفاظ میں ادا کیا جائے تو سارا اثر جاتا رہے گا۔
اب یہی بحث طباطبائی کے یہاں ملاحظہ ہو۔ انھوں نے اپنے دعوے کو نہایت مدلّل ، مستحکم اور دل نشیں پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی حالی کا نام لیے بغیر ان کے خیالات کا رد بھی کیا ہے۔ یہ بہت عمدہ بحث ہے، اس لیے طوالت کے باوجود مکمل طور پر نقل کی جاتی ہے:
ابن رشیق کہتے ہیںاکثر لوگوں کی راے یہی ہے کہ خوبیِ لفظ میں معنی سے زیادہ اہتمام چاہیے۔ لفظ قدر و قیمت میں معنی سے بڑھ کر ہے۔ اس سبب سے کہ معنی خلقی طور سے سب کے ذہن میں موجود ہیں۔ اس میں جاہل و ماہر دونوں برابر ہیں۔ لیکن لفظ کی تازگی اور زبان کا اسلوب اور بندش کی خوبی ادیب کا کمال ہے۔ دیکھو مدح کے مقام میں جو کوئی تشبیہ کا قصد کرے گا، وہ ضرور کرم میں ابر، جرأت میں ہِزَبر، حسن میں آفتاب کے ساتھ ممدوح کو تشبیہ دے گا۔ لیکن اس معنی کو اگر لفظ و بندش کے اچھے پیرائے میں نہ ادا کر سکا تو یہ معنی کوئی چیز نہیں۔ غرض کہ یہ مسلّم ہے کہ معانی میں سب کا حصہ برابر ہے اور سب کے ذہن میں معانی بہ حسبِ فطرت موجود ہیں اور ایک دوسرے سے معنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ کسی کاتب یا شاعر کو معنی آفریں یا خلّاقِ مضامین جو کہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو معانی کسی کے قلم سے نہ نکلے تھے وہ اس نے بیان کیے۔ اور یہ شبہہ کرنا کہ ہر مضمون کے چند محدود پہلو ہوتے ہیں، جب وہ تمام ہو چکتے ہیں تو اس مضمون میں تنوع کی گنجائش نہیں رہتی، اب بھی اگر اس کی چتھاڑ کیے جائیں گے تو بجائے تنوع تکرار و اعادہ ہونے لگے گا، صحیح نہیں۔ تفنن و تنوع کی کوئی حد نہیں۔ مثلاً دو لفظوں کا ایک مضمون ہم یہاں لیتے ہیں: ’’وہ حسین ہے‘‘ اس میں ادنا درجے کا تنوع یہ ہے کہ لفظ حسین کے بدلے اس کے مرادف جو الفاظ مل سکیں انھیں استعمال کریں۔ مثلاً وہ خوبصورت ہے۔ وہ خوش جمال ہے۔ وہ خوش گِل ہے۔ وہ سندر ہے۔ اس کے اعضا میں تناسب ہے۔ حسن اس میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد بہ دلالتِ قرینۂ مقام ذرا معنی میں تعمیم کر دیتے ہیں۔ مثلاً وہ آشوب شہر ہے۔ کوئی اس کا مقابل نہیں۔ اس کا جواب نہیں ۔ اس کا نظیر نہیں۔ وہ لاثانی ہے۔ وہ بے مثل ہے۔ وغیرہ۔ پھر اسی مضمون میں ذرا تخصیص کر دیتے ہیں، لیکن ویسی ہی تخصیص جو محاورے میں قریب قریب مرادف کے ہوتی ہے۔ کہتے ہیں: وہ خوش چشم ہے۔ وہ خوب رو ہے۔ وہ موزوں قد ہے۔ وہ خوش ادا ہے۔ وہ نازک اندام ہے۔ وہ شیریں کار ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر اسی مضمون کو تشبیہ میں ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ اس کا رخسار گلاب کی پنکھڑی ہے۔ وہ سیمیں تن ہے۔ اس کا رنگ کندن سا چمکتا ہے۔ اس کا قد بوٹا سا ہے۔ شمع اس کے سامنے شرماتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر اسی مضمون کو استعارے میں ادا کرتے ہیں۔ مثلاً آفتاب سے اس طرح استعارہ کرتے ہیں: اس کے دیکھے سے آنکھوں میں چکا چوند آجاتی ہے۔
چاند سے استعارہ : وہ نقاب الٹے تو چاندنی چھٹک جائے۔
چراغ سے استعارہ     : اندھیرے میں اس کے چہرے سے روشنی ہو جاتی ہے۔
شمع سے استعارہ :  اس کے گھونگھٹ پر پردۂ فانوس کا گماں ہے۔
برق طور سے استعارہ:  موسیٰ اسے دیکھیں تو غش کر جائیں۔
آئینے سے استعارہ :  جدھر وہ مڑتا ہے، ادھر عکس سے بجلی چمک جاتی ہے۔
پھر اسی مضمون کو کنائے میں بیان کرتے ہیں۔ مثلاً:
رنگ کی صفائی سے کنایہ :  وہ ہاتھ لگائے میلا ہوتا ہے۔
تناسب اعضا سے کنایہ :  وہ حسن کے سانچے میں ڈھلا ہے۔
خدا نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔
رنگ کی چمک سے کنایہ :  اس کے چہرے کی چھوٹ پڑتی ہے۔
چہرے کی روشنی سے کنایہ :  اس کے عکس سے آئینہ دریائے نور ہوجاتا ہے۔
دل فریبی حسن سے کنایہ :  بشر اسے دیکھ کر تلملا جاتا ہے۔
اس کے بعد تازگیِ کلام کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خبر کو انشا کردیں:
اللہ رے تیرا حسن۔ تو اتنا خوب صورت کیوں ہوا؟ سچ بتا تو انسان ہے یا پری؟ کہیں تو حور تو نہیں؟ حور نے یہ شوخی کہاں پائی؟ تو خدائی کا دعوا کیوں نہیں کرتا؟ وغیرہ وغیرہ
پھر دیکھیے مرادفات میں کس قدر تنوع ہے اور کس قدر تازگیِ لفظ و محاورہ کو اس میں دخل ہے۔ تعمیم کے کتنے مراتب ہیں؟ تخصیص کے کس قدر درجے ہیں؟ تشبیہ کی کتنی صورتیں ہیں؟ استعارے کے کتنے انداز ہیں؟ کنایہ کی کتنی قسمیں ہیں؟ انشا کے کس قدر اقسام ہیں؟ پھر ان سب کے اختلاف ترتیب و اجتماع کو کسی مہندس سے پوچھیے تو معلوم ہو کہ ایک حسن کے مضمون میں تقریباً ’’لَا تُعَدُّ وَلَا تُخصٰی‘‘ پہلو نکلتے ہیں۔
اس گفتگو سے ایک طرف تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مضمون واحد کو اسالیب متعددہ کے ذریعے پیش کرنے کا مشرقی تصور کیا ہے۔ دوسری جانب طباطبائی کے اندازِ فکر، قوت استدلال اور مشرقی شعریات میں رسوخ کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
مشرقی انداز نقد کا مفہوم عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی شعر میں لفظی و معنوی صنعتوں کی نشان دہی کر دی جائے۔ لیکن در حقیقت مشرقی تنقید کا امتیاز کسی متن میں موجود وجوہِ بلاغت کی دریافت اور پھر اس کی دل نشیں تعبیر ہے۔ فنی محاسن کی نشان دہی اس کا ایک ذیلی حصہ ہے۔ طباطبائی نے شرح غالب میں اس کے بہت سے عملی نمونے پیش کیے ہیں۔ ذیل میں بعض مثالیں ملاحظہ ہوں۔ غالبؔ کہتے ہیں:
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدمگری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟ طباطبائی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
(۱) (ایک طائر چمن اور نشیمن سے جدا ہو کر اسیر ہوگیا ہے۔) اس مضمون پر فقط ایک لفظ ’’قفس‘‘ اشارہ کر رہا ہے۔
(۲)(اس نے اپنی آنکھوں سے باغ میں بجلی گرتے ہوئے دیکھی ہے اور قفس میں متردد ہے کہ نہ جانے میرا آشیانہ بچا یا جل گیا۔) اس تمام معانی پر فقط ’’کل‘‘ کا لفظ دلالت کررہا ہے۔
(۳) ( ایک اور طائر جو اس کا ہم صفیر و ہمدم ہے، وہ سامنے کسی درخت پر آکر بیٹھا ہے اور اسیر قفس نے اس سے رودادِ چمن کو دریافت کرنا چاہا ہے۔ مگر اس سبب سے کہ اسی کا نشیمن جل گیا ہے طائر ہم صفیر مفصل حال کہتے ہوئے پس و پیش کرتا ہے کہ اس آفتِ اسیری میں نشیمن کے جلنے کی خبر کیا سنائوں؟) اس تمام مضمون پر فقط یہ جملہ دلالت کرتا ہے کہ ’مجھ سے کہتے نہ ڈر ہمدم۔‘
(۴) علاوہ اس کثرت معانی کے اُس مضمون نے جو دوسرے مصرعے میں ہے تمام واقعے کو کیسا دردناک کردیا ہے۔ یعنی جس گرفتارِ قفس پر ایک ایسی تازہ آفت و بلاے آسمانی نازل ہوئی ہے، اس نے کیسا اپنے دل کو سمجھا کر مطمئن کر لیا ہے کہ باغ میں ہزاروں آشیانے ہیں، کیا میرے ہی نشیمن پر بجلی گری ہوگی؟
یہ حالت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کا اور سننے والوں کا دل کڑھتا ہے اور ترس آتا ہے اور یہ ترس آجانا وہی اثر ہے جو شعر نے پیدا کیا ہے۔ غرض کہ یہ شعر ایک مثال ہے دو بڑے جلیل الشان مسئلوں کی جو کہ آداب کا تب و شاعر میں اہم اصول ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ کہ ’’خَیْرُ الْکَلَامِ مَاقَلَّ وَ دَلَّ‘‘اور دوسرا مسئلہ یہ کہ ’’اَلشِّعْرُ کَلَامٌ یَنْقَبِضُ بِہِ النَّفْسُ وَیَنْبَسِطْ‘‘
اس سلسلے کی دوسری مثال ملاحظہ ہو۔ غالبؔ کہتے ہیں:
غالب ترا احوال سنادیں گے ہم ان کووہ سن کے بلالیں یہ اجارہ نہیں کرتے
اس کی شرح میں طباطبائی لکھتے ہیں:
شعر تو بہت صاف ہے، لیکن اس کے وجوہِ بلاغت بہت دقیق ہیں۔ بیچ والوں کا یہ کہنا (سنا دیں گے ہم ان کو) اس کے معنی محاورے کی رُو سے یہ ہیں کہ کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی موقع پر ان کے مزاج کو دیکھ کر باتوں باتوں میں یا ہنسی ہنسی میں تیرا حال ان کے گوش گذار کردیں گے، اتنا ذمہ ہم کرتے ہیں۔ یعنی صاف صاف کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ غرض کہ یہ سب معانی اس لفظ سے مترشح ہیں، اس وجہ سے کہ اس کا موقع استعمال یہی ہے اور بہ التزام اس سے معشوق کا غرور اور تمکنت اور رعب و نازک مزاجی اور خود بینی و خودرائی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ فرض کرو اگر مصنف نے یوں کہا ہوتا کہ (کہہ دیں گے ہم اُن سے) تو اکثر ان معانی میں سے فوت ہوگئے ہوتے اور یہ کہنا کہ (اجارہ نہیںکرتے) اس کے کہنے کا موقع جب ہی ہوتا ہے جب کوئی نہایت ہی مصر ہو اور کہے کہ جس طرح بنے میرے ان کے ملاپ کرادو، نہیں تو تم سے شکایت رہے گی۔ غرض کہ اس فقرے نے عاشق کے اصرارِ بے تابانہ کی تصویر کھینچی ہے۔ ایک تو کلام کا کثیرالمعنی ہی ہونا وجوہِ بلاغت میں سے بڑی وجہ ہے، پھر اس پر یہ ترقی کہ اُدھر معشوق کی تمکنت و ناز اِدھر عاشق کی بے تابی و اصرار کی دونوں تصویریں بھی اس شعر میں جھلکی دکھا رہی ہیں۔
مشرقی شعریات میں مناسب الفاظ کی بھی خاص اہمیت ہے۔ طباطبائی نے درج ذیل شعر کی شرح میں اس پر اچھی روشنی ڈالی ہے:
وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہراتو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو؟ یہ شعررنگ و سنگ میں گوہر شاہوار ہے۔ ایک نکتہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہاں مخاطب کے لیے دو لفظوں کی گنجائش وزن میں ہے۔ ایک تو (بے وفا) دوسرے (سنگ دل) اور بے وفا کا لفظ بھی مناسبت رکھتا ہے معناً و لفظاً۔ اس سبب سے کہ اولِ شعر میں وفا کا لفظ گذر چکا ہے اور سنگ دل کا لفظ بھی معناً وہی مناسبت رکھتا ہے اور لفظاً بھی ویسی ہی مناسبت ہے، اس سبب سے کہ آخرِ شعر میں سنگِ آستاں کا لفظ  موجود ہے۔ لیکن مصنف نے لفظ  بے وفا کو ترک کیا اور سنگ دل کو اختیار کیا۔ باعثِ رجحان کیا ہوا؟ باعثِ ترجیح یہاں نزدیکی ہے۔ اور لفظ بے وفا کو وفا سے بہت دوری تھی۔
اہل بلاغت کے نزدیک انشا کو خبر پر ترجیح حاصل ہے۔اسی طرح کنایہ تصریح پر فوقیت رکھتا ہے۔ ان دونوں اصولوں کی توضیح شعرِ ذیل کی شرح میں ملاحظہ ہو:
کیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبت کونہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو؟
محبت سے غم خوار کی شفقت مراد ہے۔ اس شعر میں مصنف کی انشا پردازی داد طلب ہے۔ کیا جلد خبر سے انشا کی طرف تجاوز کیا ہے۔ (کیا غم خوار نے رسوا) بس اتنا ہی جملہ خبر یہ ہے اور باقی شعر انشا ہے، یعنی (لگے آگ اس محبت کو) کو سنا ہے اور دوسرا مصرع سارا ملامت و سرزنش ہے۔ دوسرا امر وجوہِ بلاغت میں سے مضمون سے تعلق رکھتا ہے، یعنی اپنے غم دل کی حالت بہ کنایہ ظاہر کی ہے، جس کے سننے سے غم خوار ایسا بے تاب و مضطر ہوا کہ اس کے اضطراب سے راز عشق فاش ہوگیا۔
انشا و خبر کے حوالے سے شعر ذیل کی شرح بھی لائقِ توجہ ہے:
مر گیا پھوڑ کے سر غالبِ وحشی ہے ہےبیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس اوپر یہ بیان گذر چکا ہے کہ خبر سے زیادہ تر انشا میں لطف ہے، یعنی ’’اِنْشَاء اَوْقَعْ فِی الْقَلْبِ‘‘ہے۔ اسی سبب سے جو شاعر مشّاق ہے، وہ خبر کو ہی انشا بنا لیتا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے خبر کے پہلو کو ترک کر کے شعر کو نہایت بلیغ کردیا، یعنی دوسرا مصرع اگر یوں ہوتا (بیٹھا کرتا تھا جو آکر تری دیوار کے پاس) یا اس طرح سے ہوتا (ابھی بیٹھا تھا جو آکر تری دیوار کے پاس) تو یہ دونوں صورتیں خبر کی تھیں۔ اور (ہے ہے بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس) جملہ انشائیہ ہے۔ اور (وہ) کا اشارہ اس مصرعے میں اور بھی ایک خوبی ہے جو اُن دونوں میں نہیں ہے۔
طبا طبائی کی یہ شرح اس قسم کے نادر نکات و مباحث سے بھری ہوئی ہے۔ شعر ذیل کی شرح میں انھوں نے ایجاز ، اطناب اور مساوات کے حوالے سے بھی بہت عمدہ گفتگو کی ہے:
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوامیں غریب اور تو غریب نواز
اس شعر میں(کچھ غضب نہ ہوا) کثیرالمعنی ہے۔ اگر اس جملے کے بدلے یوں کہتے کہ (مہربانی کی) تو لفظ و معنی میں مساوات ہوتی ایجاز نہ ہوتا اور اگر اس کے بدلے یوں کہتے کہ (مرا خیال کیا) تو مصرعے میں اطناب ہوتا، لطفِ ایجاز نہ ہوتا۔ یعنی اس مصرعے میں (مجھ کو پوچھا، مرا خیال کیا) اطناب ہے۔ اور اس مصرعے میں (مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی) مساوات ہے۔ اور اس مصرعے میں (مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا) ایجاز ہے۔ اس سبب سے کہ یہ جملہ کہ ( کچھ غضب نہ ہوا) معنیِ زائد پر دلالت کرتا ہے۔ اس جملے کے توفقط یہی معنی ہیں کہ (کوئی بے جا بات نہیں ہوئی) لیکن معنی زائد اس سے یہ بھی سمجھ میں آتے ہیں کہ معشوق اس سے بات کرنا، امر بے جا سمجھے ہوئے تھا یا اپنے خلافِ شان جانتا تھا اور اس کے علاوہ یہ معنی بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اس کے دل میں معشوق کی بے اعتنائی و تغافل کے شکوے بھرے ہوئے ہیں۔ مگر اس کے ذرا بات کر لینے سے اس کو اب امید التفات پیدا ہوگئی ہے۔ اور اُن شکوئوں کو اس خیال سے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں خفا نہ ہوجائے۔ اس آخری معنی پر فقط لفظ غضب نے دلالت کی کہ اس لفظ سے بوے شکایت آتی ہے اور اس کے دل کے پر شکوہ ہونے کا حال کھلتا ہے۔ بہ خلاف اس کے اگر یوں کہتے کہ (مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی) تو یہ جتنے معنی زائد بیان ہوئے، ان میں سے کچھ بھی نہیں ظاہر ہوتے۔ فقط (مہربانی کی) میں جو معنی ہیں وہ البتہ نئے ہیں، جیسے کہ وہ لفظ نئے ہیں۔ اور اگر یوں کہا ہوتا کہ (مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا) تو نہ تو کچھ معنی زائد ظاہر تھے نہ کوئی اور نئے معنی بڑھ گئے تھے۔ یعنی (مرا خیال کیا) کے وہی معنی ہیں جو (مجھ کو پوچھا) کے معنی ہیں یا دونوں جملے قریب المعنی ہیں۔ غرض کہ (مرا خیال کیا) میں لفظ نئے ہیں اور معنی نئے نہیں۔ اس کے علاوہ ان دونوں مصرعوں میں شرط و جزا مل کر ایک ہی جملہ ہوتا ہے اور اس مصرعے میں دو جملے ہیں، اس سے ظاہر ہوا کہ اس مصرعے میں کثیراللفظ و قلیل المعنی ہونے کے سبب اطناب ہے اور مصنف کے مصرعے میں قلیل اللفظ اور کثیرالمعنی ہونے کے سبب ایجاز ہے اور جو مصرع باقی رہا اس میں لفظ و معنی میں مساوات ہے۔
اس سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تشبیہ کی خوبی و عمدگی سے متعلق بھی طباطبائی کی ایک عبارت نقل کردی جائے۔ غالبؔ کا شعر ہے:
اچھا ہے سرانگشت حنائی کا تصوردل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
سرانگشت کا منہدی سے لال ہوکر لہو کی ایک بوند ہو جانا کیا اچھی تشبیہ ہے۔ دیکھو تشبیہ سے مشبہ کی تزئین و تحسین اکثر مقصود ہوتی ہے۔یہ غرض یہاں کیسی حاصل ہوئی کہ سرانگشت کی خوب صورتی آنکھ سے دکھا دی۔ دوسری خوبی اس تشبیہ میں یہ ہے کہ جس انگلی کی پور لہو کی بوند برابر ہو، وہ انگلی کس قدر نازک ہوگی اور کنایہ ہمیشہ تصریح سے بلیغ ہوتا ہے۔ پھر یہ حسن کہ وجہِ شبہ یہاں مرکب بھی ہے۔ یعنی بوند کی سرخی اور بوند کی شکل ان دونوں سے مل کر وجہِ شبہ کو ترکیب حاصل ہوئی ہے اور ترکیب سے تشبیہ زیادہ بدیع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اداتِ تشبیہ کے حذف و ترک سے تشبیہ کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ مصنف نے بھی حذف ہی کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی تشبیہ ہے، کسی نے نظم نہیں کی۔ پھر یہ شانِ مشاقی دیکھیے کہ نئی چیز پا کر اس پر اکتفا نہ کی۔ اسی تشبیہ میں سے ایک بات یہ نکالی کہ دل میں ایک بوند تو لہو کی دکھائی دی۔ پھر کجا تصور کجا لہو کی بوند؟ دونوں میں کیسا بونِ بعید ہے اور تباین طرفین سے تشبیہ میں حسن اور غرابت زیادہ ہوجاتی ہے۔ (تو) کی لفظ نے مقامِ کلام کو کیساظاہر کیا ہے۔ یعنی یہ شعر اس شخص کی زبانی ہے جس کا لہو سب خشک ہوچکا ہے اور وہ اپنے دل کو ایک خیالی چیز سے تشبیہ دے رہا ہے۔ ترکیب وجہِ شبہ کے متعلق یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ جس طرح بوند کے معنی میں ٹپک پڑنا داخل ہے، یہی حال تصور کا خیال سے اتر جانے میں ہے، گوطرفین تشبیہ متحرک نہیں ہیں۔ غرض کہ یہ نہایت غریب و بدیع و تازہ تشبیہ ہے۔
طباطبائی کی یہ شرح اس قسم کے نادر نکات و مباحث سے بھری پڑی ہے، جب کہ دوسری شارحین غالب نے ان امور سے تعرض نہیں کیا ہے۔
اس شرح کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ مشرقی شعریات کے وہ اصول و نکات جو ہند ایرانی شعری روایات سے ماخوذ ہیں یا جو انیسویں صدی کے اواخر میں لکھنوی اساتذۂ سخن کے درمیان مروّج تھے یا جو خود طباطبائی کی ایجاد ہیں ان پر بھی اس طرح سے روشنی پڑتی ہے۔ آئندہ صفحات میں اس کا ایک خاکہ پیش کیا جاتا ہے:
٭معنی شاہدِ کلام کی جان ہے اور محاورہ اس کا جسم نازنین ہے اور گہنا اس کا بیان و بدیع ہے۔ (غزل ۱۶۸؍شعر ۶)٭مضمونِ عالی وجہِ خوبیِ شعر ہے۔ (غزل ۲۲۰؍ش ۱)٭معانی میں نازک تفصیل ہمیشہ لطف دیتی ہے۔ (غ ۱۸۴؍ش۲)٭ندرتِ مضمون اور محاکات لطفِ شعر کے اسباب میں ہے۔ (غ۱۸۰؍ش۲)٭حسنِ بندش اور بے تکلفیِ اداتکلفِ معانی کو بڑھا دیتی ہے۔ (غ۔۱۷۹؍ش۵)٭محاورے کا حسن اور بندش کی ادا مضمونِ مبتذل کو تازہ کر دیتی ہے۔ (غ۱۷۵؍ش۲)٭بندش کے حسن اور زبان کے مزے کے آگے اساتذہ ضعفِ معنی کو بھی گوارا کر لیتے ہیں۔ (غ۱۶۱؍ش۱)٭دونوں مصرعوں کی بندش میں ترکیب کا تشابہ حسن پیدا کرتا ہے۔ (غ۲۰۳؍ش۷۔۸)٭ترکیب کے تشابہ اور الفاظ کے تقابل سے حسن پیدا ہوتا ہے۔ (غ۲۰۶؍ش۴)٭کلام میں کئی پہلو ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ سست و ناروا ہے۔ ہاں معانی کا بہت ہونا بڑی خوبی ہے اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔ (غ۲۱۶؍ش۸)٭خوبی کثرتِ معنی سے پیدا ہوتی ہے نہ احتمالاتِ کثیر سے۔ (غ۹۶؍ش۵)٭شعر میں بیتی ہوئی زیادہ مزہ دیتی ہے۔ (غ۱۷۹؍ش۴)٭گل و بلبل اور شمع وپروانہ کا ذکر شعر میں جبھی تک حسن دیتا ہے، جب کوئی تمثیل کا پہلو اس میں صاف نکلے ۔(غ۲۰۰؍ش۳)٭بتوں کا ذکر اسی شعر میں اچھا معلوم ہوتا ہے، جہاں حسینوں سے استعارہ ہو، نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ (غ۲۳۲؍ش۶)٭تشبیہ مبتذل میں زیادتی معنی سے بلاغت بڑھ جاتی ہے۔ (غ۱۱۱؍ش۳)٭جس تشبیہ میں معنیِ میرورت ہوں، جو وجہ شبہ کے گھٹانے یا بڑھانے سے پید ا ہوگئے ہوں، وہ تشبیہ نہایت لذیذ ہوتی ہے اور سننے والے کے ذہن میں استعجاب کا اثر پیدا کرتی ہے۔ (غ۱۵۹؍ش۷)٭مبالغے میں افراط کہ مضمونِ غیر عادی و محال پیدا ہو جائے بہ اتفاقِ ائمۂ فن عیب قبیح ہے۔ (غ۱۹۶؍ش۲)٭مبالغہ جبھی تک حسن رکھتا ہے، جب تک واقعیت و امکان اس میں پایا جائے۔ (غ۱۹۳؍ش۲)٭جہاں مبالغہ کرنے کے بعد کوئی نقشہ کھنچ جاتا ہے، وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے۔ خصوصاً جہاں وہ نقشہ بھی معمولی نہ ہو، بلکہ نادر و بدیع شکل پیدا ہو۔ (غ۱۹۶؍ش۲)٭جہاں محض ضلع بولنے کے لیے محاورے میں تصرف کرتے ہیں، وہاں ضلع برا معلوم ہوتا ہے اور جب محاورہ پورا اترے تو یہی ضلع بولنا حسن دیتا ہے۔ (غ۱۳۲؍ش۱)٭شعر میں یہ کہنا کہ ایسا ہو ویسا ہو، شعر کو سست کردیتا ہے۔ (غ۱۵۰؍ش۲)٭ایک ہی مطلب کو جب بار بار کہو تو اس میں افراط و تفریط پیدا ہو جاتی ہے۔ (غ۶۱؍ش۴)٭جس شعر سے کوئی شوخی معشوق کی نکلے، وہی شعر غزل کا اچھا شعر ہوتا ہے۔ (غ۹۸؍ش۳)٭غزل میں اخلاقی مضامین قافیے کی مجبوی سے کہے جاتے ہیں۔ (غ۲۱۰؍ش۴) معانی و بیان و بدیع کے اصولوں کی طرح مذکورہ بالا اصولوں کو بھی طباطبائی نے اپنے شرح میں برت کر دکھایا ہے اور ان کی روشنی میں غالبؔ کی تحسین کی ہے یا ان پر گرفت کی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر جگہ طباطبائی سے اتفاق کریں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس اندازِ نظر اور طریقِ کار کی بنا پر یہ شرح دوسری شرحوں سے ممتاز ہوگئی ہے۔ یہ ہم پر بحث و نظر کا دروازہ کھولتی ہے اور ہمارے اندر سخن فہمی کا ذوق پیدا کرتی ہے۔
طباطبائی کے کچھ لسانی مختارات بھی ہیں۔ ان میں بیشتر اواخر انیسویں صدی کے لکھنوی شعرا کے درمیان مقبول و مروّج تھے اور بعض وہ ہیں جن کا سر چشمہ طباطبائی کا اپنا مذاقِ سخن اورافتاد طبع ہے۔ ذیل میں اس کا بھی ایک خاکہ ملاحظہ ہو:
٭عربی فارسی لفظوں میں محاورۂ عام کا تتبع خطا ہے۔ (غ۲۰۴؍ش۵)٭ہندی لفظوں کی ترکیب فارسی الفاظ کے ساتھ درست نہیں۔ (غ۱۰۹؍ش۶)٭(اگر) درست ہے اور (گر) اہل لکھنؤ کے درمیان متروک ہے۔ (غ۱۴۹؍ش۱۰)٭(غلطی) کا لفظ ہندی ہے۔ فارسی ترکیب میں اس کو لانا اور فارسی کی جمع بنانا اور فارسی اضافت اس کو دینا صحیح نہیں۔ (غ۱۰۹؍ش۶)٭ترکیب اردو میں فارسی مصدر کا استعمال سب نے مکروہ سمجھا ہے۔ (غ۱۹۳؍ش۳)٭اردو میں اضافت ثقل رکھتی ہے۔ (غ۱۹۵؍ش۴)٭تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیب میں داخل ہے۔ (غ۱۹۵؍ش۴)٭عربی مصدر کو بہ معنی مفعول استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ مثلاً مطلب حصول ہوا۔ راز افشا ہوا۔ وغیرہ۔٭محاورے میں قیاسِ نحوی کو کوئی دخل نہیں۔ (غ۱۱۷؍ش۴)٭(کیونکر) کے مقام پر (کیونکے) اب ترک ہوگیا ہے۔ (غ۱۱۷؍ش۱۰)٭فارسی عربی کے جتنے لفظ ذو وجہین ہیں، ان میںمحاورۂ اردو کا اتباع کرنا ضرور ہے۔ مثلاً پیہم اور پئے ہم۔ (غ۱۲۴؍ش۱)٭ترکیب فارسی میں نحو فارسی کا اتباع ضرور ہے۔ (غ۱۳۹؍ش۶)٭(کشور ہندوستان) میں جس طرح کا اعلان نون ہے یہ لکھنؤ کے غزل گویوں میں ناسخؔ کے وقت سے متروک ہے۔ (غ۱۳۹؍ش۶)٭عربی لفظ میں عجم کا تصرف نا مقبول ہے۔ (غ۲۰۴؍ش۵)٭فارسی کا واوِ عطف اردو میں جبھی لاتے ہیں، جب مفرد کا مفرد پر عطف ہو اور دونوں لفظ فارسی ہوں۔ جیسے دل و دیدہ۔ ورنہ فارسی کا واوِ عطف لانا درست نہیں۔ جیسے دل و آنکھ۔ (غ۲۲۹؍ش۴)٭دو ہندی جملوں کے درمیان فارسی حرف عطف کے لانے سے لکھنؤ کے شعرا احتراز کرتے ہیں۔ مثلاً دل مدعی و دیدہ بنا مدعا علیہ۔ (غ۲۲۹؍ش۴)٭لکھنؤ کے شعرا فارسی لفظ کے آخر سے حرفِ علت کا گر جانا جائز نہیں سمجھتے۔ مثلاً خاموشی کی (ی)۔ ناسخ کے زمانے سے یہ امرمتروک ہے۔ (غ۱۳۲؍ش۹)٭(کسی سے طرف ہونا) اب متروک ہے۔ (غ۱۳۴؍ش۳)
ان لسانی مختارات میں بھی رد و قبول کی ہر جگہ گنجائش موجود ہے۔ لیکن یہ بہر حال اس شرح کا امتیاز ہے کہ اس میں کلامِ غالب کے لیے انھیں محک و معیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اواخر انیسویں صدی کے لکھنوی لسانی مذاق کی ان سے نمائندگی ہوتی ہے۔
اس شرح کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ طباطبائی نے اس میں مختلف مناسبتوں سے اردوصرف ونحوکے قواعد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس سے ان کے نکتہ رس ذہن اور جدت پسند طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
(الف)
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعدبارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد
چھٹنا اور چھوٹناایک ہی معنی پر ہے۔ الف تعدیہ بڑھانے کے بعد ٹ کا ڑ کر دینا فصیح ہے۔ یعنی چھڑانا فصیح ہے اور چھٹانا غیر فصیح ہے۔ اور چھوڑنا اور چھڑانا دونوں متعدی ہیں چھوٹنا سے۔ چھوڑنا متعدی بہ یک مفعول ہے جیسے پھوٹنا سے پھوڑنا اور ٹوٹنا سے توڑنا اور چھڑانا متعدی بہ دو مفعول ہے۔ بعض متتبعینِ زبانِ دہلی کے کلام میں چھٹوانا دیکھنے میں آیا ہے۔ اہل لکھنؤ اس طرح نہیں کہتے۔
(ب) اسی غزل سے ایک دوسری مثال دیکھیں:
منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہاہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد
(کے)اس شعر میں اضافت کے لیے نہیں ہے، ورنہ (کا) ہوتا، جیسے کہتے ہیں کوئی اس منصب کا مستحق نہ رہا۔ بلکہ یہ (کے) ویسا ہی ہے جیسا میرا انیسؔ مرحوم کے اس مصرعے میں:
ع سرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نور نظر کے
اس مصرعے پر لوگوں کو شبہہ ہوا تھا کہ میر صاحب نے غلطی کی ،یعنی (کی) کہنا چاہیے تھا۔ اسی طرح کہتے ہیں: ان کے منہدی لگا دی۔ جو لوگ نحوی مذاق رکھتے ہیں وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ ایسے مقام پر (کے) حرف تعدیہ ہے۔ اور اسی بنا پر میں برقؔ کے اس مصرعے کو غلط نہیں سمجھتا جو مرثیے میں انھوں نے کہا تھا اور اعتراض ہوا تھا:
ع داڑھی میں لال بال تھے اس بدنہاد کے
اور اسی دلیل سے انیسؔ کا مصرع بھی صحیح ہے اور میرؔ کا یہ مصرع بھی:
ع آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
غلط نہیں ہے۔ اور آتشؔ کا یہ شعر بھی صحیح ہے:
معرفت میں اس خداے پاک کےاڑتے ہیں ہوش و حواس ادراک کے
(ج) اسی طرح کی یہ مثال بھی قابل توجہ ہے:
غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیںحج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
ایک عجیب نحوی طلسم زبانِ اردو میں یہ ہے کہ مصنف نے جہاں پر (کی) کو صرف کیا ہے، یہاں محاورے میں (کے) بھی کہتے ہیں۔ مگر قیاس یہی چاہتا ہے کہ (کی)کہیں۔ اسی طرح سے لفظ (طرف) جب اپنے مضاف الیہ پر مقدم ہو تو (کی) کہنا صحیح نہ ہوگا۔ مثلاً:
ع پھینکی کمندِ آہ طرف آسمان کے
اس مصرعے میں (کی) کہنا خلافِ محاورہ ہے۔ اور پھر لفظ (طرف) مؤنث ہے۔ اگر اس لفظ کو مؤخر کر دو تو کہیں گے آسمان کی طرف اور اگر مقدم کر دو تو کہیں گے طرف آسمان کے۔ غرض کہ ایک لفظ جب مقدم ہو تو مذکر ہو جائے، مؤخر ہو تو مؤنث ہو جائے۔ اسی کی نظیر نذر کرنا بھی ہے۔
(د) ایک جگہ اردو میں جمع بنانے کے قاعدے پر مفصل اظہارِ خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
سادہ پُر کار ہیں خوباں غالبؔہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
اردوے معتبر میںجمع بنانے کا یہ ضابطہ ہے کہ اگر لفظ حروف معنویہ میں سے کسی حرف کے ساتھ متصل ہے تو واو اور نون کے ساتھ جمع کریں گے۔ اور حروف معنویہ سات ہیں: نے ۔ کو۔ میں۔ پر۔ تک ۔ سے ۔ کا۔ جیسے مردوں نے ۔ عورتوں کو الخ۔
اور اگر منادیٰ ہے تو فقط واو سے جمع بنائیں گے جیسے یارو۔ لوگو۔ اور اگر لفظ ندا سے اور حروف معنویہ سے مجرد ہے تو یا مذکر ہے یا مؤنث۔ اگر مذکر ہے اور اس کے آخر میں ہاے مختفی یا الفِ تذکیر ہے تو فقط امالہ کر کے جمع بناتے ہیں۔ جیسے حوصلہ اور حوصلے۔ لڑکا اور لڑکے۔ اور اگر یہ دونوں حرف آخر میں نہیں ہیںتو مفرد و جمع میں مذکر کے کچھ امتیاز نہیں کرتے۔ جیسے ایک مرد آیا۔ کئی مرد آئے۔ اور اگر لفظ مؤنث ہے اور آخر میں اس کے کوئی حرفِ علت یا ہاے مختفی نہیں ہے تو ی۔ ن سے جمع بناتے ہیں۔ جیسے راہیں۔ آنکھیں۔ اور اگر آخر میں الف تصغیر ہے تو فقط نون سے جمع بنتی ہے۔ جیسے لٹیاں، بڑھیاں۔ اور اگر آخر میں ہاے مختفی یا الف اصلی یا واو ہے تو ہمزہ۔ ی۔ ن بڑھا کر جمع بنائیں گے۔ جیسے خالائیں۔ بیوائیں۔ گھٹائیں۔ آرزوئیں۔ آبروئیں۔ اور اگر آخر میں ی ہے تو اس صورت میں البتہ الف۔ ن کے ساتھ جمع کرتے ہیں۔ جیسے لڑکیاں۔ بجلیاں۔
(ہ) اسی طرح ایک جگہ فارسی و عربی الفاظ کی تذکیر و تانیث کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ضابطہ یہ ہے کہ فارسی یا عربی کا جو لفظ اردو میں بولا نہ جاتا ہو، اوّل اس کے معنی پر نظر کرتے ہیں۔ اگر معنی میں تانیث ہے تو بہ تانیث ، اگر تذکیر ہے تو بہ تذکیر اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے اس کے ہم وزن اسما جو اردو میں بولے جاتے ہیں، اگر وہ سب مؤنث ہیں تو اس لفظ کو بھی مؤنث سمجھتے ہیں۔ اگر اس وزن کے سب اسما مذکر ہیں تو اس لفظ کو بھی بہ تذکیر بولتے ہیں۔ اسی بنا پر لفظ ابرو کہ محاورۂ اردو میں داخل نہیں ہے، شعرا اکثر مذکر باندھا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ آنسو اور بازو اور چاقوجس میں ایسا واوِ معروف ہے سب مذکر ہیں۔ لیکن ابرو کے معنی کا جب خیال کیجیے تو بھوں مؤنث لفظ ہے۔ اس خیال سے مؤنث بھی باندھ جاتے ہیں۔
طباطبائی نے نحو اردو کے یہ قواعد کسی کتاب سے نقل نہیں کیے ہیں۔ بلکہ الفاظ و کلمات اور ان کے استعمالات و تصریفات میں غور کر کے بر آمد کیے ہیں، اس لیے انھیں نوادراتِ طباطبائی میں شمار کرنا چاہیے، جو اس شرح کے ذریعے محفوظ ہو گئے ہیں۔
طباطبائی معانی و بیان و بدیع کے علاوہ عروض ،قافیہ، تصوف، منطق، فلسفہ اور لغت میں بھی دستگاہ رکھتے تھے۔ شرحِ کلامِ غالب کے دوران انھوں نے ان تمام علوم و فنون سے استفادہ کیا ہے اور موقع بہ موقع ان سب کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ آئندہ صفحات میں اس کی بھی بعض مثالیں ملاحظہ ہوں:
(الف) شعر ذیل سے متعلق علم عروض کی رُو سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہےپر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
…(سی) کی ی جس جگہ واقع ہوئی ہے، یہ مقام حرف متحرک کا ہے، یعنی مفعولُ، مفاعلن، فعولن میں مفاعلن کے میم کی جگہ ی واقع ہوئی ہے اور ی ساکن ہے، تو گویا مفاعلن کے میم کو مصنف نے ساکن کرلیا ہے، یعنی مفعول، مفاعلن کے بدلے مفعولم، فاعلن اب ہوگیا ہے، جسے مفعولن، فاعلن سمجھنا چاہیے۔ یہ ز حاف گو اردو و فارسی میں نامانوس معلوم ہوتا ہے، مگر سب لایا کرتے ہیں۔ نسیم لکھنوی کی مثنوی اسی وزن میں ہے اور جابہ جا اس زحاف کو لائے ہیں:
تھا اک کحّالِ پیرِ دیریںعیسیٰ کی تھیں جس نے آنکھیں دیکھیں
(ب) اب قافیے کی ایک بحث ملاحظہ ہو۔ درج ذیل شعر کے بارے میں رقم طراز ہیں:
آمدِ سیلابِ طوفانِ صداے آب ہےنقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
…دوسری بحث اس شعر میں قافیے کے اعتبار سے ہے، یعنی اس مصرعے میں:
ع نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سےضرورہے کہ دال کو زیر دیں اور جادے سے کہیں۔ اس لیے کہ سے۔ میں۔ پر۔ تک ۔کو۔ نے ۔کا یہ سات حروف معنویہ زبانِ اردو میں ایسے ہیں کہ جس لفظ میں ہائے مختفی ہو، اسے زیر دیتے ہیں۔ غرض اس مصرعے میں تو جادہ کی دال کو زیر ہے اور اس کے بعد کا جو شعر ہے، اس میں کہتے ہیں:
ع شیشے میں نبضِ پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے یہاں بادہ اضافتِ فارسی کی ترکیب میں واقع ہے اور موج کا مضاف الیہ ہے۔ اب اس پر ترکیبِ اردو کا اعراب یعنی سے کے سبب سے زیر نہیں آسکتا۔
(ج) بعض اشعار کی شرح صوفیانہ انداز سے کی ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں:
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوزپیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں نقاب استعارہ ہے حجابِ قدس سے، اور آئینہ اس میں علم ما یکون و ما کان ہے۔ اور آرائشِ جمال سے فارغ نہ ہونا تفسیر کل یوم ہو فی شان ہے۔
تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدربے تکلف ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں اس شعر میں مذاقِ تصوف ہے، یعنی جس طرح ہر شے آگ میں گر کر آگ ہو جاتی ہے اسی طرح عارف کو شاہدِ حقیقی کے ساتھ اتحاد حاصل ہو جاتا ہے اور نہیں تو ایک مشتِ خس ہے جس کا وطن عدم اور غربت امکان ہے۔ اور امکان پر جس طرح عدم سابق ہے، اسی طرح اسے عدم لاحق بھی ہے کہ امکان وجود بین العدمین کا نام ہے۔ جو ممکن عدم سے آیا ہے وہ عدم میں چلا بھی جائے گا۔ بس حیاتِ ابدی اس میں ہے کہ واجب الوجود سے ملحق ہو جائے اور فنا فی الذات ہو کر ترانۂ انا ولا غیری بلند کرے۔
(د) درج ذیل شعر کی شرح اہل منطق کے طرز پر کی ہے:
ہم موحّد ہیں ، ہمارا کیش ہے ترکِ رسومملتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہو گئیں
ہم موحد ہیں یعنی وحدتِ مبدأ کے قائل ہیں اور اس کی ذات کو واحد سمجھتے ہیں۔ اور واحد وہ جس میں نہ تو اجزاے مقداری ہوں جیسے طول و عرض وغیرہ، اور نہ اجزاے ترکیبی ہوں جیسے ہیولیٰ اور صورت، اور نہ اجزاے ذہنی ہوں جیسے جنس و فصل۔ غرض کہ اس کا علم محض سلبیات کے ذریعے حاصل ہے جیسے کہیں کہ اس کا شریک نہیں ہے، وہ جسم نہیں ہے، وہ مرئی نہیں ہے، وہ عاجز نہیں ہے، وہ جاہل نہیں ہے، وہ حادث نہیں ہے۔ وہ علتِ موجبہ نہیں ہے۔ یہی سلبیات کہ ان کے اعتقاد سے اور سب ملتیں باطل و محو ہو جاتی ہیں، عین اجزاے توحید ہیں۔
(ہ) اب کچھ لغوی تحقیقات ملاحظہ ہوں:
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاںشب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں بنات کے لفظ سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ عرب ان کو لڑکیاں سمجھتے ہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ جنازہ اٹھانے والے کو عرب ابن النعش کہتے ہیں اور ابن النعش کی جمع بنات النعش ان کے محاورے میں ہے۔ جس طرح   ابن آویٰ  اور   ابن العرس جب جمع کریں گے   بنات آویٰ اور        بنات العرس کہیں گے اسی طرح بیربہٹی کو مثلاً   ابن المطر کہیں گے اور اس کی جمع   بنات المطر بنائیں گے۔
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھونہ ہوئی غالبؔ اگر عمر طبیعی نہ سہی
گوعشرت و صحبت کے ایک ہی معنی ہیں لیکن فارسی والوں نے عشرت کو خوشی و نشاط کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس سبب سے یہ اضافت صحیح ہو جائے گی۔ طبیعی کو طبیعت سے اسم منسوب بنا لیا ہے۔ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ ’’فَعِیْلَۃٌ ‘‘ کے وزن پر جو لفظ ہو اس کا اسم منسوب ’’فَعَلِیْ‘‘ہوتا ہے جیسے حنیفہ سے حنفی۔ مگر فارسی گو توالیِ حرکات کو ثقیل سمجھ کر (ب) کو ساکن کر دیتے ہیں۔ غرض کہ طبیعی کو بعض شعراے لکھنؤ صحیح نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے کہ نہ تو یہ مضاعف ہے جیسے حقیقی، نہ اجوف جیسے طویلی، پھر کیوں (ی) کو نہ گرائیں۔
یا لگا کر خضر نے شاخِ نباتمدتوں تک دیا ہے آبِ حیات
خضرکا نام دو طرح سے نظم میں ہے۔ بہ سکونِ ضاد اور ب کسرِ ضاد خجِل و خشِن کے وزن پر۔ مصنف نے یہاں خَضِر باندھا ہے اور اسے دیکھ کر ان کے متبعین نے دھوکا کھایا۔ وہ سمجھے استاد نے خِضَر باندھ دیا اور اس شعر کو سند قرار دے کر نظر و اثر کے قافیے میں خِضَر باندھنے لگے۔ یہ غلط ہے اور متبعین کی خطا ہے۔
رہروِ راہِ خلد کا توشہطوبیٰ و سدرہ کا جگر گوشہ
موسیٰ و عیسیٰ و طوبیٰ و دنییٰ و عقبیٰ و ہیولیٰ و لیلیٰ کو امالہ کر کے قدمانے الف کو (ی) کر دیا ہے اور دونوں طرح نظم کیا ہے۔ یہ دیکھ کر متاخرین اہلِ فارس نے جو عربی سے بیگانہ تھے، غضب کا دھوکا کھایا ہے۔ جن الفاظِ عربی میں اصیل (ی) ہے اس کو بھی الف مقصورہ سمجھے اور دونوں طرح نظم کرنے لگے۔ مثلاً تجلّی و تسلّی و تماشی و تحاشی کو تسلّا و تجلّا و تماشا و بے تحاشا کہنے لگے۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جامعیت اور تبحر و کمال کی جو شان طباطبائی میں نظر آتی ہے، وہ غالبؔ کے کسی دوسرے شارح میں موجود نہیں۔ اس لیے ان کی شرح بھی دیگر شرحوں کے درمیان ممتاز ہے۔
طباطبائی کی جامعیت اور فضل و کمال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب وہ شرح کے لیے غالبؔ کا کوئی شعر اٹھاتے ہیں تو ایک استاد فن کی طرح مختلف زاویوں سے اس پر غور و خوض کرتے ہیں۔ اب اگر صرف ونحویا روز مرہ و محاورہ یا معانی و بیان یا عروض و قافیہ یا مختاراتِ اہلِ لکھنؤ وغیرہ کسی لحاظ سے اس میں انھیں کوئی سقم نظر آتا ہے تو وہ بے محابا اپنی راے کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ان کے طرزِ کلام کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طباطبائی ایک کہنہ مشق استاد ہیں اور غالبؔ ایک تازہ واردِ بساطِ سخن۔ بہ طورِ مثال چند بیانات ملاحظہ ہوں:
٭ ردیف محاورے سے گری ہوئی ہے ۔ (کیوں ہے گردِرہِ جولانِ صبا ہو جانا)٭ دوسرے مصرعے کی بندش میں گنجلک بہت ہوگئی ہے۔ (کہ پشتِ چشم سے جس کے نہ ہووے مہر عنواں پر)٭ جگر تسلّی نہ ہوا، خلافِ محاورہ ہے۔ (جگرِ تشنۂ آزار تسلّی نہ ہوا)٭ شعلے کی طرف خطاب کرنا بے لطفی سے خالی نہیں۔ (ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانیِ شمع)٭ اس مضمون میں کچھ غزلیت نہیں ہے۔ قصیدے کا مطلع تو ہوسکتا ہے۔ (جادۂ رہ خور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع)٭ اردو میں خالی تماشا کہہ دینا محاورہ نہیں ہے۔ (تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری)٭ سخت فارسی کا محاورہ ہے نہ کہ اردو کا۔ (زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جانِ اسد)٭ ہم ہی اور تم ہی کی جگہ ہمیں اور تمھیں محاورہ ہے۔  (ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن)٭ اس شعر میں نہایت تعقید ہے۔ (یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو تو کیونکر ہو)٭ آرزو خرامی کی ترکیب باعثِ عبرت ہے۔  (حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی)٭ ہو جیو خود ہی واہیات ہے۔ مصنف مرحوم نے اس پر اور طرّہ کیا کہ تخفیف کر کے ہو جو بنالیا۔ (بے خودی بستر تمہید فراغت ہو جو)٭ اس شعر میں دیکھا قافیۂ شائگاں ہے۔ اسے مفت کا قافیہ کہتے ہیں اور سست سمجھتے ہیں۔ (اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے)٭ بازار اس شعر میں بہت ٹھنڈا لفظ ہے۔ (گرم بازارِ فوج داری ہے)٭ سب تشبیہیں لطیف ہیں، لیکن حاصل شعر کا دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔ (جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی)٭ دونونِ متعاقب عیب تنافر رکھتے ہیں اور دو دالیں بھی جمع ہوگئی ہیں۔ (جو نہ نقدِ داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی)
٭ لفظ ’سراسر‘ براے بیت ہے۔ (خطِ پیالہ سراسر نگاہِ گل چیں ہے)٭ پہلے مصرعے میں گنجلک ہے اور دوسرے میں تنافر اور دونوں مصرعوں میں ربط بھی خوب نہیں اورمضمون بھی کچھ نہیں۔ (جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے)٭ لفظ نیلی فام اس شعر میں محض براے بیت ہے۔ (ہتھکنڈے ہیں چرخِ نیلی فام کے)٭ مطلب بہ مشکل ان الفاظ سے نکلتا ہے۔ (یہ بھی حلقے ہیں تمھارے دام کے)٭ ناخن سے جگر کھودنا محاورے سے گرا ہوا ہے۔ (پھر جگر کھودنے لگا ناخن)٭ یہ محض ادعاے شاعرانہ ہے جس کے لیے تعلیل کی ضرورت ہے۔  (خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے)٭ گفتار میں آنا بات چیت کرنے کے معنی پر اردو کا محاورہ نہیں ہے، ترجمہ ہے۔ (جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے)٭ ’اے وہ‘ کا لفظ اس میں بہت رکیک ہے۔ اہل زبان ہی اس کو سمجھیں گے۔ (اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی)٭ ’کرنا‘ اِس سرے پر اور ’گلہ‘ اُس سرے پر ثقل سے خالی نہیں۔ (کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ)٭ تو الیِ اضافات و رکیک تکلفات اس شعر میں بھرے ہوئے ہیں۔ شوخیِ دنداں نہایت مکروہ لفظ ہے۔ (عرض نازِ شوخیِ دنداں براے خندہ ہے)٭ یہ مضمون سراسر غیر واقعی ہے اور امورِ عادیہ میں سے نہیں ہے۔ اس سبب سے بے مزہ ہے۔(چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن)٭ اس قدر تصنع اور مضمون کچھ نہیں۔ (موے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے)٭ لفظ پرسش ہاے پنہانی سے مصنف کا مطلب جو ہے، وہ نہیں نکلتا۔  (جانتا ہے محوِ پرسش ہاے پنہانی مجھے)٭ اس شعر میں مجھے کا لفظ مجھ کو کے معنی پر ہے۔۔ اور مصنف نے مطلوب کی جگہ پر مطلب باندھا ہے۔غرض کہ ردیف ربط نہیں کھاتی۔ یوں ہونا چاہیے تھا: آرزو سے ہے شکستِ آرزو مطلب مرا (آرزو سے ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے)٭ لفظ ’طرب انشا‘ میں دونوں لفظ عربی ہیں اور ترکیب فارسی ہے۔ عجب نہیں کہ انھوں نے طرب افزاے التفات کہا ہو۔ (افسردگی نہیں طرب انشاے التفات)
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ان اعتراضات کا باعث و منشا طباطبائی کا وفورِ علم اور دقّتِ نظر ہے، نہ کہ غالبؔ کی تنقیص و مخالفت۔ کیوں کہ اسی شرح میں انھوں نے ایک جگہ میرؔ و سوداؔ پر بھی اعتراضات کی بوچھار کر دی ہے۔ البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے بہت سے اعتراضات خود پسندی اور احساسِ ہمہ دانی کے زعم میں بھی کر دیے ہیں۔ اس باب میں ان کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ انھوں نے عہدِ غالبؔ اور محاورۂ دہلی کو محک و معیار بنانے کے بجاے اواخر انیسویں صدی کے مختاراتِ اہل لکھنؤ اور خود اپنے ذوقِ سخن کو قولِ فیصل کا درجہ دے دیا ہے۔ تا ہم معائبِ سخن کے سلسلے میں طباطبائی کو بالکلیہ نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی آرا بہر حال قابل غور اور لائقِ استفادہ ہیں۔