Nayyar Masood Aur Zafar Gorakhpuri

Articles

نیّر مسعود اور ظفر گورکھپوری کے لئے تعزیتی نشست

ممبرا(پریس ریلیز) پندرہ اگست کی شب نو بجے ممبرا میں یونیک ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام اور اردو لٹریری فورم کی جانب سے اسد اللہ خان انگلش ہائی اسکول و جونئیر کالج کے نعمان امام آڈیو ٹوریم میں معروف افسانہ نگار نیّر مسعود اور مشہور شاعر ظفر گورکھپوری کے لئے تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت سینئر صحافی عالِم نقوی نے کی۔ نشست کا افتتاح شعیب ندوی کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ صدر تقریب اور تجربہ کار صحافی عالِم نقوی نے اپنے مضمون سچی کہانی سنانے والا نیّر مسعود میں کہا کہ نیر مسعود کہانی سننے اور سنانے کی اس روایت کے امین تھے جو  بقول گوپی چند نارنگ’’  ہماری  تہذیبی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے فیاض رفعت کے مضمون کے کچھ حصے کو اپنے مضمون میں شامل  کرتے ہوئے لکھا کہ نیر مسعود کے افسانے اپنے جمالیاتی انبساط اور تہذیبی ہمہ گیری کے لیے تا دیر یاد رکھے جائیں گے کہ اُن کا رشتہ ہمارے تہذیبی وجدان کی اعلیٰ سطحوں سے ہم آہنگ اور اُستُوار ہے ۔انکے افسانوں کا مرکزی استعارہ ’’فنا‘‘ ہے کہ فنا ہی اصل حیات کی جستجو اور تلاش کے جذبے سے معمور ہے ۔اسی طرح ’نوری اور ناری‘ کی کشمکش بھی زیریں لہر کی طرح ان کے افسانوں میں ہنگامے کی صورت پیدا کرتی رہتی ہے۔ان کے افسانے پڑھ کر تزکیہ نفس کا احساس ہوتا ہے اور ہمارے بطون میں حزن و ملال کی چادر سی پھیل جاتی ہے ۔قول محال کے بر وقت استعمال سے وہ اپنے افسانوں کو معنی کی ایک سے زائد جہت عطا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔الف لیلیٰ کے وقتوں کی طرح ایک کہانی میں کئی ذیلی قصوں کی موجودگی انہیں دیگر ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممیز ثابت کرتی،  اور ممتاز بناتی ہے۔ نیو کلائی سائنس داں اور بیشتر کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سلیم خان نے نیّر مسعود اور ظفرگورکھپوری پر لکھے اپنے مضمون آسماں دیکھ قضا کن کو لئے جاتی ہے میں کہا کہ دونوں صاحبان کی شخصیات اور فن میں بہت کچھ مشترک تھا اس کی ایک وجہ ان کا مشترک زمانہ ہے۔وہ دونوں یکساں تبدیلیوں کے شاہد تھے جو ان کے ادب اور شخصیت پر اثرانداز ہورہی تھیں. انہوں نے کہا کہ عام فنکار  ہوا کے رخ پر بہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے مگر کچھ خاص لوگ پیش آمدہ انقلاب کو بھانپ کر اپنے آپ کو اس سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں ۔  ہوا کے ساتھ چلنے والوں کو انقلابِ زمانہ جیتے جی بھلا دیتا ہے مگر مستقبل کو اپنے فن میں سمو لینے والے بعد ازممات بھی یاد کئے جاتے ہیں ۔ ظفر صاحب اور نیر صاحب انہیں لوگوں میں سے تھے اس لیے جہانِ فانی سےکوچ کر جانے کے بعد بھی  ان کا تخلیق کردہ ادب زندہ و تابندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظفر گورکھپوری اور نیّر مسعود کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی داخلی تڑپ کو خواہش ذات سے نکال کر کائنات میں پھیلا دیتے ہیں اور ایک نیا ادبی رجحان عالم وجود میں آ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ  گورکھپوری اور نیر مسعود دونوں ہمہ جہت فنکار تھے ۔ ایک نے شاعری کی اور بچوں کا ادب تخلیق کیا دوسرے نے افسانے لکھے اور تحقیق کے شمع جلائی. صحافی اور مصنف ندیم صدیقی نے اپنی تقریر میں کہا کہ نیّر مسعود اپنے دور میں ہمارے افسانے کا ایک ایسا کردار تھے کہ جس کے جسد میں لکھنئوی فسوں سانس کا کام کر رہا تھا۔ ان کے افسانے نہیں بلکہ ان کی تحریروں میں لکھنؤ جیتا جاگتا محسوس ہوتا ہے۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیّر مسعود مسعود حسن رضوی ادیب کے صرف فرزند نہیں تھے بلکہ مسعود حسن ادیب کے تمام علم و ادب اور کمالات کے سچے وارث تھے اور اس پر کمال یہ بھی ہوا کہ انہوں نے اس وراثت کو جامد نہیں رکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر نیّر مسعود اب نہیں رہے مگر وہ تو اپنی تحریر میں روح کی طرح سمائے ہوئے ہیں. اردو چینل کے مدیر قمر صدیقی نے اپنے تفصیلی مضمون جادوئی حقیقتوں کا قصہ گو میں کہا کہ نیّر مسعود نے افسانہ نگاری کے علاوہ تحقیق و تشریح کے میدان میں بھی اپنی فتوحات درج کی ہیں مگر ان کی اصل شہرت افسانہ نگاری کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کہانیوں میں سرّیت اور تجریدیت کی فضا کے بین بین علامتوں کے سہارے حقیقت اور معنویت کی فضا بھی برقرار رہتی ہے جو افسانے کے آہنگ کو ذاتی یا مابعد الطبیعاتی ہونے سے بچاکر اس کو ایک کائناتی یا آفاقی احساس میں بدل دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیّر مسعود شاید ہمارے پہلے افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوں میں رئیلزم اور میجک ریئلزم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیّر مسعود کے افسانے علائم اور ابہام سے مزین ہیں۔ ان کے یہاں علائم کا استعمال برجستہ ہوتا ہے۔ شاعر عرفان جعفری نے کہا کہ یہ کہنا تو بہت آسان لگتا ہے کہ موت برحق ہے اور سب کو آنی ہے مگر جن کے اپنے چلے جاتے ہیں وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ انہوں نے کہا کہ قلمکار کا رشتہ ان کے عزیز و اقارب سے تو ہوتا ہی ہے مگر ساتھ ساتھ جو اس کی تخلیق کو پسند کرتے ہیں ایک رشتہ ان سے بھی ہوتا ہے اور جب وہ قلمکار دنیا سے کوچ کرتا ہے کسی حد تک وہ بھی مغموم ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظفر صاحب کی خصوصیت تھی کہ ساٹھ سال کی عمر میں آٹھ سال کے بچے کی نفسیات پر پہونچ کر نظم کہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ظفر صاحب میں ایک مجذوب موجود تھا اور اسی وجہ سے وہ بہترین دوہے کہہ پاتے تھے۔ انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ ہمیں اپنے بڑوں چھوٹوں سے ملتے رہنا چاہئیے۔ ظفر گورکھپوری کے صاحبزادے ایاز گورکھپوری نے کہا کہ ان کے والد ہمیشہ پر اعتماد اور با حوصلہ رہے اور آخری ایام میں بھی انہوں نے زندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی ہمت نو جوان نسل کے لئے ہی نہیں عمر رسیدہ افراد کے لئے بھی تمثیلی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے مگر انہوں نے ہمیشہ ہمت کا مظاہرہ کیا اور کبھی مایوس نہیں ہوئے. تقریب میں دیگر معززین کے علاوہ بزرگ شاعر جمیل مرصع پوری بھی موجود تھے۔ تقریب کی نظامت سید زاہد علی نے کی جبکہ احمد اظہار نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا.
عالم نقوی صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے